بلاشبہہ قومی ریاستیں اپنی خود مختار حیثیت سے، اپنے شہریوں کی معاشی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہنے کا حق رکھتی ہیں۔ لیکن کیا، قوموں کی زندگی اور ان کے وجود کے لیے محض ’معاشی نفع‘ ہی آخری معیار ہوتا ہے؟ دنیا میں قوموں کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو دکھائی دیتا ہے کہ کئی حوالوں سے محض معاشی فلاح کو اوّلین حیثیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ تاریخی، تہذیبی، نظریاتی یا فکری پس منظر اور اس سے وابستہ امور بین الاقوامی تعلقات میں فوقیت رکھتے ہیں، بلکہ اکثر یہ پہلو حد درجہ غالب رہتا ہے، جب کہ معاشی پہلو ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
گذشتہ دنوں (۱۶،۱۷؍اگست) بھارتی وزیر اعظم نریندرامودی کے دورۂ متحدہ عرب امارات کو دیکھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر کی متقاضی بنیادیں موجود ہیں۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ بھارت کے ساتھ عرب ممالک کے پروان چڑھتے بلکہ پرجوش بڑھتے ہوئے تعلقات میں بھارتی قومی مقاصد اور عرب یا مسلم دنیا کے مفادات و مقاصد، کون سی نزاکت رکھتے ہیں؟
یوں تو شروع ہی سے اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات کی ایک خفیہ تاریخ ۱۹۵۰ء سے موجود تھی، جب اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور عملاً تجارتی اور عسکری میدانوں میں تعاون بھی ایک حقیقت تھا۔ نام نہاد ’ناوابستہ ممالک تنظیم‘ (NAM) کا رکن ہونے کی بنا پر بھارت نے ان تعلقات کو چھپائے رکھا۔ مگر ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑنے کی مہم میںبھارت نے کھل کراسرائیل سے مدد مانگی اور اپنے یہودی جرنیل جنرل جیکب کو اس مقصد کے لیے صہیونیوں سے تعاون لینے کی ذمہ داری سونپی۔ تاہم، گذشتہ ۱۰برسوںکے دوران میں ’بھارت اسرائیل تعلقات میں گرم جوشی کی ایک لہر، منظر پہ چھائی نظر آتی ہے، جس میں اسلحے کی خرید، جنگی تربیت، تحقیقاتی تعاون اور جوہری مہارتوں کے تبادلے میں حد درجہ ابھار آیا ہے۔ اس ضمن میں صرف ایک مختصر رپورٹ India Israel Defense Co-operation کے مطالعے سے کئی پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ ڈاکٹر الویت سنگھ نے لکھی ہے، اور بارالانا یونی ورسٹی، اسرائیل کے ’دی بیگن سادات سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز، کے تحقیقی مجلے Perspectives (۲۷؍جنوری۲۰۱۴ئ) نے شائع کی ہے۔ ۲۰۰۴ء سے بھارت نے اسرائیل سے ’ری کونا سینس اینڈ آبزرویشن سسٹم‘ (LORROS) خرید کر مقبوضہ کشمیر میں جابجا نصب کیے ہیں، تاکہ کشمیری جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے ۸لاکھ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں ایک ایک کشمیری کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔
اسی طرح عالمی امور کے ماہر بھارتی نژاد کنشک تھاروا نے ۳؍اگست۲۰۱۴ء کو الجزیرہ امریکا کے لیے اپنے تجزیے میں بھارت اسرائیل تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا: ’’ان دونوں ممالک کے درمیان خصوصی تعلقات ہیں اور ان کا ہدف بھی ایک ہے۔ اسرائیل، روس کے بعد دوسرے نمبر پر بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے۔مزید برآں اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہی ہے۔ بھارت نے بڑی چابکدستی سے عربوں میں دوستی کے تعلقات کی جڑوں کو گہرا کیا ہے، مگر اب تک وہ عرب ممالک پر زور ڈال کر، پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکا‘‘۔ یہاں پر یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اگلے چند ماہ میں نریندرا مودی کے دورئہ اسرائیل کو بھی نگاہ میں رکھا جائے۔ بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے یکم جون ۲۰۱۵ء کو اعلان کیا تھا کہ ’’بھارتی وزیراعظم کے دورئہ اسرائیل کا پروگرام طے کرلیا گیا ہے، جس میں دفاع اور دہشت گردی کے خاتمے کو اوّلیت حاصل ہوگی، اور یہ دورہ تاریخی اہمیت کا حامل ہوگا‘‘۔ اب اگر عرب شیوخ اور راجے امریکی معاشرت میں، صہیونیوں سے بے زار شہریوں کی اصطلاح ’Jew‘ اور ’Black Jew‘کو سامنے رکھیں تو انھیں بخوبی علم ہو جائے گا کہ ’کالے یہودیوں‘ سے مراد بھارتی قوم پرست لیے جاتے ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ۲۶؍جنوری۲۰۰۶ء کو حرمین شریفین کے خادم شاہ عبداللہ مرحوم نے بھارت کے یوم جمہوریہ کی سالانہ پریڈ منعقدہ نئی دہلی میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔ تب انھوں نے بھارتی سرزمین پر بھارت کو کسی ’دہشت گردی سے محفوظ رکھنے‘ کی خواہش کا اتنا پرزور اظہار کیا تھا کہ بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ نے ان خیالات کو واضح اور متعین طور پر: ’’کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے خلاف سعودی حکومت کے عزم اور دہلی سرکار کی ظالم حکومت سے طرف داری‘‘ سے منسوب کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بیانات سے حریت کانفرنس اور مظلومانِ کشمیر کو سخت مایوسی ہوئی تھی۔ ازاں بعد فروری ۲۰۱۴ء میں ’سعودی بھارت دفاعی تعاون کا معاہدہ‘ طے پایا۔ یہ چیزیں خصوصاً گذشتہ ۱۰برسوں میں تیزی سے پروان چڑھیں اور انھی کے پس منظر میںمودی کے حالیہ دورۂ متحدہ عرب امارات کو دیکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ’بھارت سعودی اسٹرے ٹیجک شراکت کاری‘ کی بنیاد شاہ عبداللہ نے جنوری۲۰۰۶ء میں نئی دہلی میں ’اعلانِ دہلی‘ کے ذریعے رکھی تھی، اور پھر ۲۰۱۰ء میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے سعودیہ کے دورے کے دوران ’اعلانِ ریاض‘ کے ذریعے اسے کئی درجے آگے بڑھا دیا تھا۔ شاہ عبداللہ نے شاہ فہد کے انتقال کے بعد اگست ۲۰۰۵ء میں زمام کار سنبھالی تھی اور گذشتہ۵۱برسوں کے دوران وہ پہلے سعودی حاکم تھے، جنھوں نے (ساڑھے پانچ ماہ بعد ہی) ان تعلقات کا سنگ بنیاد رکھا۔ (دی اکانومک ٹائمز ، ۲۳؍جنوری۲۰۱۵ئ)
پھر چند برسوں بعد ریاست اومان نے بھی بھارت سے ’فوجی تعاون کا معاہدہ‘ کیا، جس سے بحیرۂ عرب میں بھارت کے قدم اورپھیل گئے۔شرق اوسط میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اسٹرے ٹیجک وسعت پذیری پر، دی نیویارک ٹائمز کے خصوصی نمایندے کبیر تانیجا نے لکھا ہے: ’’نئی دہلی حکومت نے ۲۰۰۸ء میں دوحہ (قطر) میں نہایت مہنگے اور اپنی نوعیت کے منفرد (one of a kind) دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ ایسا معاہدہ آج تک کسی اور ملک سے نہیں کیا، جس کے تحت بھارت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قطر کے اثاثہ جات (assets) اور مفادات (interests)کو لاحق بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے۔‘‘ (The Diplomat، ۸؍مارچ۲۰۱۵ئ)
یہاں دل چسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست قطر کو بیرونی خطرات کس سے لاحق ہو سکتے ہیں: کیا ایران سے؟ سعودی عرب سے؟ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے؟ یا امریکاسے؟ فرض کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ملک قطر پر چڑھ دوڑتا ہے تو کیا بھارت، مذکورہ ممالک سے اپنے گہرے تعلقات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر قطر کا دفاع کرنے کے لیے کھڑا ہو جائے گا، یا اس کاغذی معاہدے کا اکلوتا مقصد اربوں ڈالر اینٹھنے کا کھیل ہی کھیلنا ہے؟
سعودی گزٹ (۱۷؍اگست۲۰۱۵ئ) نے بتایا ہے کہ: ’’بھارتی وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کے دو روزہ دورے کا آغازوہاں کی عظیم مسجد میں قدم رکھتے ہوئے کیا، جہاں شیخ زید بن سلطان کی قبر ہے۔ گذشتہ ۳۴ برسوں میں یہ پہلا بھارتی وزیراعظم ہے، جس نے اس ملک کا دورہ کیا ہے۔‘‘ اس پر دل چسپ تبصرہ خود بھارت میں ہوا، جہاں تمام مسلم مکاتبِ فکر کے نمایندہ پلیٹ فارم: ’’مسلم پرسنل لابورڈ‘ کے سیکرٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے فرمایا: ’’بہتر ہوتا کہ مودی، ہندستان کی کسی مسجد کا دورہ کرتے‘‘ (روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز، ۱۸؍اگست)۔ درحقیقت اس ایک جملے میں مولانارحمانی نے شہید بابری مسجد کی چیخ اور ہندوانتہا پسندوں کے دست شرانگیز میں پھڑپھڑاتی کئی مسجدوں کا نوحہ بیان کیا ہے۔ گلف نیوز (۱۶؍اگست) کو انٹریو دیتے ہوئے مودی نے ایک طرح دار جملہ یہ بھی کہا: ’’متحدہ عرب امارات میں ایک چھوٹا بھارت ہے۔‘‘ سعودی گزٹ نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: ’’سات ریاستوں کے اس ملک میں ۲۶لاکھ بھارتی ماہرین اور کارکن بستے ہیں، جو متحدہ عرب امارات کی کل آبادی کا ایک تہائی ہیں، اور یہاں سے ۱۴؍ارب ڈالر سالانہ بھارت لے جاتے ہیں۔‘‘ یاد رہے اسی دورے میں مودی کو سرزمین عرب پر مندر بنانے کے لیے شاہانِ امارات نے زمین کا بڑا ٹکڑا دے کر، وہاں فتح مکہ کے چودہ سوسال بعد پہلا ’بت کدہ‘ بنانے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس پر بجاطور پر کئی عرب علما نے سخت احتجاج کیا ہے۔
دبئی کرکٹ گرائونڈ میں تقریباً ۵۰ ہزار بھارتی باشندوں سے خطاب کے دوران مسلم کشی کے دیوتا نریندرا مودی نے پاکستان پر سنگین حملے کرتے ہوئے کہا: ’’اچھی دہشت گردی یا بُری دہشت گردی نہیں چلے گی۔ تمھیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ تم دہشت گردوں کے ساتھ ہو یا انسانیت کے ساتھ؟ ہم سارک کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، مگر کچھ ہیں جو رخنہ اندازی کر رہے ہیں، اور پھر سارک کے تمام ممالک کے نام دہرائے، مگر ان ناموں میں پاکستان کا نام نہیں لیا (خلیج ٹائمز، ہندستان ٹائمز، ۱۸؍اگست)۔ مودی نے اس تقریر میں شرانگیزی کی حد تک پاکستان کا خاکہ اُڑانے کی کوشش کی ہے۔ وال سٹریٹ جنرل نے اسی تقریر کی رپورٹ میں لکھا ہے: ’’مودی نے پاکستان پر شدید حملہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام ریاستوں کو دہشت گردی کی ’پناہ گاہ‘ کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے، حالانکہ پاکستان نہ صرف ان الزامات کی تردید کرتا ہے، بلکہ وہ خود بدترین دہشت گردی سے متاثر ہے‘‘ (WST، ۱۸؍اگست)۔ گویا کہ مودی نے اس دورے میں پاکستان اور اس سے وابستہ مسائل کو نفرت انگیز طریقے سے نشانہ بنانا اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھا۔
مودی کے دورے کے اختتام پر ۳۱ نکاتی مشترکہ اعلامیے کو دیکھیں تو اس کے پانچ نکات (۲،۳، ۴، ۵، ۱۶) دراصل ایک ہی نکتہ ہیں: ’’مذہب کا غلط استعمال، برداشت، امن، دہشت گردی کا خاتمہ، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خفیہ معلومات کا تبادلہ، اس ضمن میں اقوامِ متحدہ میں بھارتی مجوزہ ضابطے کی تائید‘‘ وغیرہ۔ یہاں پر پھر دھیان اس طرف جاتا ہے کہ امارات میں تو کوئی دہشت گردی ہو نہیں رہی، البتہ بھارت کے ہاں بغاوت اور خوداختیاریت کی داخلی تحریکیں یقینا مضبوط ہیں، جنھیں بھارت ’دہشت گردی‘ کہتا ہے۔ اسی طرح عرب دنیا میں بھارتی مسلمان مزدور اپنی کمائی سے دین اسلام کے آخری قلعے، مدرسے اور مساجد محفوظ کرنے کے لیے ایثار کرتے ہیں، ان کی رقوم کو بند کرنے کے لیے بھی اسی اعلامیے کا کوڑا برسایا جائے گا۔ برہمن بنیے نے کمال ہوشیاری سے ’دہشت گردی‘ کا سکّہ رائج الوقت اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے عربوں کا کندھا استعمال کیا ہے۔
عرب دنیا میں بھارت سے گہرے تعلقات کے علم بردار طبقے یہ دلیل پورے زورو شور سے پیش کرتے ہیں کہ: ’’بھارت میں ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں، اس لیے ہم کس طرح اس کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔‘‘ عرب محبانِ بھارت کی دلیل جزوی طور پر درست ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ خود بھارت میں یہی مسلمان، جن کی تعداد گن گن کر بھارت، عربوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے، وہ بھارت کی فیصلہ سازی، حکومت اور ریاستی ڈھانچے میں کیا وزن، حیثیت اور مقام رکھتے ہیں؟
ہند کی ۱۸فی صد آبادی رکھنے کے باوجود یہ مسلمان، جن کا واسطہ دے کر تعلق بنایا یا تعلق بڑھانے کا جھانسہ دیا جاتا ہے، بے وزن ہی نہیں، بڑی حدتک بے حیثیت بھی ہیں۔ وہاں ان کا جو وجود ہے، وہ دینی مدارس، دینی جماعتوں، مسلم رفاہی اور تعلیمی اداروں کے بل بوتے پر ہے، اور جو وزن ہے وہ جنوبی ریاستوں میں ان کی آزادانہ معاشی ترقی کی بنیاد پر۔ وگرنہ کانگریس سے لے کر راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کی دہشت گرد سیاسی قیادت تک زیر اقتدار ۲۰کروڑ مسلمانوں کی قسمت کو چند حوالوں سے بخوبی جانچا جا سکتا ہے: یعنی بابری مسجد کی شہادت، احمد آباد اور ممبئی میںمسلم نسل کشی (جس کی قیادت یا سرپرستی مسٹر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی نے کی)، آزادی سے لے کر اب تک ۳۰ہزار مسلم کش فسادات، گذشتہ آٹھ برسوں سے اب تک پورے ہند میں ذہین اور متحرک مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر جیلوں میں گلنے سڑنے کے لیے ڈال دینے کا عمل، مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے ’گھر واپسی مہم‘، ۱۹۷۱ء میں پاکستان پر فوج کشی اور ۶۸ برسوں سے ایک کروڑ کشمیری مسلمانوں پر تاریخ کی بدترین فوجی یلغار اور مسلم خواتین کی بڑے پیمانے پر بے حرمتی۔ یہ چند مثالیں بھارتی سیاسی قیادت کی ’مسلم دوستی‘ کے زندہ ثبوت ہیں۔ اور اگر ثناء خوانِ تقدیسِ بھارت، ۹مارچ ۲۰۰۵ء کو ، جسٹس راجندرسچر کی سربراہی میں قائم سات رکنی اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ (۱۷؍نومبر۲۰۰۶ئ) کو چشم ہوش سے پڑھ لیں، تو انھیں بھارت میں مسلمانوں کے خون کی ارزانی، معاشی قتل عام، سماجی اور انسانی تذلیل کے بہت سے ثبوت مل جائیں گے (حالانکہ خود مسلمان اس رپورٹ کو بھی ادھورا سچ کہتے ہیں)۔ اسی طرح یہی لوگ چند کتابیں بھی مطالعہ کرلیں: قیدی نمبر۱۰۰، از انجم زمرد حبیب (کشمیری تحریکِ آزادی سے وابستہ خاتون جس نے زندگی کا قیمتی حصہ تہاڑ جیل میں گزارا)۔ آپریشن اکشردھام از راجیو یادویو اور شاہ نواز عالم، گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے از مفتی عبدالقیوم، اور کرکرے کے قاتل کون؟ ایس ایم مشرف (سابق انسپکٹر جنرل پولیس مہاراشٹر) تو یہ بھارت کے ’من موہنے چہرے‘ کو عرب پالیسی سازوں کے سامنے واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ آخرالذکر کتاب میں مصنف نے بتایا ہے کہ ایک ہندو پولیس افسر ہیمنت کرکرے نے کس طرح جواں مردی، انسان دوستی اور انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے اُن اصل ہندو انتہاپسند قاتلوں کو بے نقاب کردیا تھا، جو ہرقسم کی دہشت گردی کرتے اور الزام اُلٹا مسلمانوں کے سر دھرتے ہیں۔ اس ہندو پولیس افسر کو اس ’جرم‘ کی پاداش میں ممبئی کے مشہور اور نام نہاد ’حادثے‘ کے دوران قتل کردیا گیا۔
بھارت کے اس ڈپلومیٹک حملے کا تقاضا ہے کہ جہاں مسلم دنیا کے تحقیقی ادارے معروضی انداز سے گواہی پیش کریں، وہیں مسلم حکومتوںکو بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔ یہ کام محض ملازمانہ ذہنیت رکھنے والے سفارت کار نہیں کرسکتے۔