ستمبر ۲۰۱۵

فہرست مضامین

آئین، عدلیہ اور قرآن و سنت کی بالادستی

پروفیسر خورشید احمد | ستمبر ۲۰۱۵ | اشارات

Responsive image Responsive image

پاکستان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہ محض ایک خطۂ زمین کا نام نہیں۔ پاکستان ایک نظریہ پہلے ہے اور ایک مملکت بعد میں۔۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے پاکستان نام کا کوئی خطۂ زمین دنیا کے نقشے پر موجود نہ تھا لیکن ایک نظریہ تھا ،جو ایک قوم کو اپنے نظریاتی اور تہذیبی وجود کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک خطۂ زمین پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی ایک تاریخی جدوجہد میں سرگرم کیے ہوئے تھا۔ یہی وہ جدوجہد تھی جس کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے، قائداعظمؒ کی قیادت میں اُمت مسلمہ پاک و ہند کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان کے تصور نے ایک خطۂ زمین کی شکل اختیار کی۔ عالمی سیاسی بساط پر ایک ایسے ملک کا رُوپ دھارا جو صرف ایک قومی ریاست (نیشن اسٹیٹ) نہیں، بلکہ اپنی اصل میں ایک نظریاتی ریاست ہے۔یہ مغرب کی لادینی لبرل جمہوریت اور ایشیا کی اشتراکی ریاست اور بھارت کی سیکولر ریاست کے مقابلے میں ایک ایسے سیاسی تصور کے مظہر کے طور پر وجود میں آئی جس میں دنیوی مسائل کو حل کرتے ہوئے الہامی ہدایت اور اخلاقی قوت کی تسخیر کے ذریعے سب کے لیے عدل و انصاف، اخوت اور بھائی چارے اور حقوق و فرائض کی پاس داری پر مبنی نظام قائم کیا جاسکے۔

پاکستان کے تمام مسائل اور مصائب کی اصل جڑ ہی یہ ہے کہ قائداعظم اور قائدملّت کے بعد ملک کی زمامِ کار پر ایسے لوگوں نے قبضہ کرلیا، جن کا کوئی عملی کردار تحریکِ پاکستان میں نہ تھا۔  ملک غلام محمد، محمد علی بوگرا، جسٹس منیر، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان ایک دوسری ہی فکر کے    علَم بردار، اورایک دوسرے ہی طرزِ زندگی کے گرویدہ تھے۔ انھوں نے نظریاتی نیشن اسٹیٹ کو محض ایک ’نیشن اسٹیٹ‘ (قومی ریاست) میں ڈھالنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں نظریاتی، معاشی اور تہذیبی کش مکش رُونما ہوئی۔ اس کش مکش نے قوم کو بانٹ دیا ہے اور وہ اصل منزل کی طرف یکسوئی اور یک جہتی سے گامزن ہونے کے بجاے مفادات کی جنگ کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ قائداعظمؒ نے نہایت صاف الفاظ میں حصولِ آزادی کے بعد قوم کو یہی یاد دہانی کرائی تھی کہ:

ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔ (۱۲جنوری ۱۹۴۸ئ، اسلامیہ کالج پشاور)

۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے افسروں سے خطاب میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا:

جس پاکستان کے قیام کے لیے ہم نے گذشتہ ۱۰ برس جدوجہد کی ہے، آج اللہ کے  فضل سے وہ ایک مسلّمہ حقیقت بن چکا ہے، مگر کسی قومی ریاست کو معرضِ وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں ہوسکتا بلکہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں، جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح  رہ سکیں، جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے، اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے۔

پاکستان کی طاقت کا سرچشمہ یہی وژن اور اس کو حقیقت کا رُوپ دینے کی انفرادی اور اجتماعی کوشش ہے، اور پاکستان کی کمزوری اور خلفشار کا سبب اس نصب العین اور منزل سے صرفِ نظر کرکے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم ہونے میں ہے۔

اس مرکزی اہمیت کے مسئلے پر ہماری اور پوری قوم کی توجہ ایک بار پھر سپریم کورٹ کے  فل کورٹ (۱۷ ججوں) کے فیصلے نے مرکوز کرا دی ہے۔ اگرچہ فیصلے کا اصل موضوع دستور کی ۱۸ویں، ۱۹ویں اور ۲۱ویں ترامیم ہیں اور ان کے بارے میں اکثریتی راے سے وہ تلوار ہٹ گئی ہے جو ان ترامیم پر منڈلا رہی تھی۔ پارلیمنٹ کو بھی سُکھ کا سانس لینے کا موقع مل گیا ہے کہ ان ترامیم کو  ردّ نہیں کیا گیا۔ عدالت بھی خوش ہے کہ اس نے اپنے اختیارات سے دست برداری اختیار نہیں کی، اور دفاعی ادارے بھی سُکھ کا سانس لے رہے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ملزموں پر مقدمات چلانے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ کوئی اسے عدالتی تدبر (judicious statesmanship) قرار دے رہا ہے، کسی نے اسے ’عدالتی حقیقت پسندی‘ (judicial pragmatism)کا نام دے دیا ہے اور کوئی اس پر ’عدالتی موقع پرستی‘ (judicial opportunism) کی پھبتی کی تہمت دینے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ بظاہر فیصلہ چند قانونی اور انتظامی اُمور سے متعلق ہے، لیکن ۹۰۲ صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں بڑی اہم قانونی اور نظریاتی بحثیں کی گئی ہیں۔ بڑی عرق ریزی سے جج حضرات نے اپنے فیصلے لکھے ہیں۔ آٹھ ججوں کا مرکزی اور اجتماعی فیصلہ ہے اور اِس وقت کے چیف جسٹس سمیت نو ججوں نے الگ اپنے اپنے فیصلے لکھے ہیں اور پاکستان کے نظریاتی تشخص، قراردادمقاصد کے مقام اور کردار، دستور میں کسی ناقابلِ تغیر اساس کے وجود یا عدم وجود، عدالتوں کے کردار اور پارلیمنٹ کے دستور میں ترمیم کے اختیار جیسے اہم موضوعات پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ فیصلہ متفقہ نہیں لیکن اختلافی فیصلے (split judgement) کی وجہ سے بحث بڑی مفید، متنوع اور ہمہ جہتی ہوگئی ہے اور نقطہ ہاے نظر کے اختلاف اور امکانات کے تنوع نے سوچ بچار کے نئے گوشے وَا کرا دیے ہیں۔ یہ بات بھی باعث ِ مسرت ہے کہ بحث کا معیار بالعموم بڑا علمی اور باوقار ہے اور ان مباحث میں غوروفکر اور اختلاف و اتفاق کا بڑا سامان موجود ہے اور منظر یہ نظر آتا ہے کہ  ع

ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است

البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مباحث میں کچھ بڑے سخت مقامات بھی آگئے ہیں، جن پر نقدواحتساب، علمی بحث اور کھلے ذہن سے افہام و تفہیم کی کوشش کی ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے قومیں ترقی کرسکتی ہیں۔

بحث طلب بنیادی اُمور

دستور میں ۱۸ویں ترمیم اپریل ۲۰۱۰ء میں ہوئی تھی اور اس کے خلاف درخواستیں اس وقت سے عدالت کے زیرسماعت تھیں۔ دستور کی دفعہ ۱۷۵-اے کے بارے میں، جس کا موضوع اعلیٰ عدلیہ  میں ججوں کا تقرر تھا، عدالت کے ایک جزوی فیصلے کی روشنی میں پارلیمنٹ نے ۱۹ویں ترمیم کی اور اسی طرح ۱۸ویں اور ۱۹ویں دونوں ترامیم عدالت کے زیرغور آگئیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے دستوری چھتری فراہم کرنے کے لیے ’ضربِ عضب‘ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اور تینوں افواج سے متعلق خصوصی قوانین میں اور خود دستور میں ۲۱ویں ترمیم کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں، تاکہ ایسی فوجی عدالتیں قائم ہوسکیں جن میں سول ملزموں پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ ان ترامیم کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور تقریباً ۳۹ درخواستیں(petitions) سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں، جن کے بارے میں فل کورٹ کا فیصلہ ۵؍اگست ۲۰۱۵ء کو سنایا گیا ہے۔

اگر مرکزی مباحث کا تجزیہ کیا جائے تو بنیادی مسائل تین ہی تھے: یعنی اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرر کا نظام اور اس میں پارلیمنٹ کا کردار، ایسی فوجی عدالتوں کا قیام کہ جن میں کچھ خاص نوعیت کے الزام میں سویلین شہریوں پر مقدمہ چلایا جائے، اور غیرمسلموں کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں پر تقرر کا طریقہ۔ پہلے اور تیسرے مسئلے کا تعلق ۱۸ویں اور ۱۹ویں ترمیم سے ہے اور دوسرے کا تعلق ۲۱ویں ترمیم سے ہے، لیکن بات صرف ان متعین مسائل کی نہیں تھی۔ عدالت کو زیادہ موضوعات پر بڑی گہرائی میں جاکر راے قائم کرنا پڑی اور اصل اہمیت ان بنیادی مسائل ہی نے اختیار کرلی، یعنی:

۱- کیا پاکستان کے دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچا یا متعین اور ناقابلِ تغیر حصے ہیں جو دستور کی اساس ہیں اور جن کو تبدیل کرنے کا اختیار خود پارلیمنٹ کو بھی حاصل نہیں؟ بہ الفاظِ دیگر   دستورِ مملکت، بلاشبہہ ملک کے سیاسی اور قانونی نظام کی بنیاد ہے، لیکن زمانے کی تبدیلیوں اور نئے مسائل اور مشکلات کے پیدا ہونے سے اس میں ترمیم و تبدیلی بھی وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ: دستور اگر ایک قوم اور ملک کے اجتماعی نظام کا صورت گر ہے، اور اسے قوم نے ایک بنیادی فیصلے کے طور پر طے کیا ہے، تو اس میں کن چیزوں کو تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کون سی ایسی بنیادیں ہیں، جو قوم کی شناخت کے ان پہلوئوں کی حامل ہیں، جن کی تبدیلی سے اس کا وجود اور اجتماعی تشخص بھی مجروح ہوجاتا ہے؟ یقینا کچھ ایسے ناقابلِ تغیر حصے، اصول یا اقدار ہیں جنھیں پارلیمنٹ ترمیم کے نام پر تبدیل نہیں کرسکتی۔ ترمیم صرف جزوی معاملات کے بارے میں ہوسکتی ہے۔ اصل مقاصد کے حصول کی راہ میں اگر کچھ رکاوٹیں آرہی ہوں تو ان کو رفع کرنے کے لیے ہوسکتی ہے، لیکن قوم کے مقاصد اور نظریاتی اہداف، بنیادی حقوق اور اساسی اداروں، یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور ان کا توازن، یا ایسی ہی کچھ دوسری چیزیں ہیں، جو وجود کا درجہ رکھتی ہیں وہ ناقابلِ تغیر ہیں۔ نیز ان ناقابلِ تغیر حصوں یا اصولوں کا تعین کو ن کرے گا؟ کیا دستور خود یہ طے کرے گا یا دستور کی روشنی میں عدلیہ کا بھی اس میں کوئی کردار ہے؟

۲- اگر دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچا یا ناقابلِ تغیر اصول، اقداراور اہداف ہیں تو پھر ان کی حفاظت کیسے ہو؟ کیا پارلیمنٹ ہی ان کی واحد ذمہ دار ہے، یا دستور کے ان پہلوئوں کی حفاظت کی ذمہ داری میں عدلیہ کا بھی کردار ہے جسے قانون کی اصطلاح میں عدلیہ کے نظرثانی کرنے کا اختیار (judicial review) کہتے ہیں؟

۳- بنیادی حقوق کو دستور میں کیا مقام حاصل ہے؟ دستور نے ہی پارلیمنٹ پر یہ پابندی لگا دی ہے کہ وہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں کرسکتی اور دستور نے اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار دیا ہے کہ متاثر افراد کی شکایت پر یا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نہ صرف نوٹس لے، بلکہ اگر کوئی قانون ان سے متصادم ہو تو اس کو خلافِ دستور قرار دے کر منسوخ کردے۔ لیکن کیا یہ اختیار اس صورت میں بھی حاصل ہے جب پارلیمنٹ عام قانون سازی نہیں، بلکہ کوئی ایسی دستوری ترمیم کرے جو بنیادی حقوق کو پامال کرنے یا مجروح کرنے کا سبب بن سکتی ہو؟

انسانی حقوق کی حفاظت اور عام افراد کے لیے عدل کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب عدلیہ آزاد ہو۔ کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی یا دستوری ترمیم کرسکتی ہے، جو عدلیہ کی آزادی کو مجروح کردے اور اس طرح وہ دستور کی حفاظت اور بنیادی حقوق کی ضمانت کا فرض ادا نہ کرسکے۔ نیز اگر ریاست کا کوئی نظریہ ہے، جیسے پاکستان کے دستور میں ’قراردادِ مقاصد‘ اور دستور کی دفعہ۲ اور ۲-اے میں اسلام کو ملک کا مذہب قرار دیا گیا ہے اور قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی پر پابندی ہے، کیا ان حصوں میں بھی ترمیم ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اور کیا دفعہ ۲-اے کے نتیجے میں قانون ہی نہیں دستور کے بارے میں بھی عدالت یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ اس کی کچھ شقیں قرآن و سنت سے متصادم ہیں؟ یہ سوال بھی اس سلسلے میں اہمیت رکھتا ہے کہ کیا ایسی ناقابلِ تغیر چیزوں کا تعین ہوگیا ہے یا خود اس بارے میں غوروفکر کا دروازہ کھلا رہے گا اور اس فہرست میں اضافہ یا کمی ہوسکتی ہے اور اگر ہوسکتی ہے تو یہ فیصلہ کون کرے گا___ یعنی کیا پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے، جو   اس کو متعین کرنے کا کام انجام دے گی، یا اس میں پارلیمنٹ کا بھی کوئی کردار ہے، یا صرف پارلیمنٹ ہی یہ فریضہ انجام دے سکتی ہے؟

اس بحث میں ایک بنیادی اور مشکل سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کیا ترمیم کے معنی معمولی اور جزوی تبدیلیاں ہیں، جو اصل مقاصد کے حصول کے لیے ضرورت کے تحت یا مشکلات کو دُور کرنے کے لیے یا نئے امکانات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے کی جاسکتی ہیں؟ یا ترمیم کے معنی دستور کو re-writeکرنا، یا زیادہ خام لفظوں میں اس کی مکمل تنسیخ (abrogation) ،یا ایسی تبدیلیاں کرنا ہے جو اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیں، یعنیsubversion؟ اور اگر ترمیم اور تنسیخ دو الگ الگ چیزیں ہیں تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کیا جو ترامیم کی گئی ہیں ان میں کہاں معاملہ صرف ترمیم کا ہے اور کہاں بات تخریبی (subversive)  حد تک پہنچ گئی ہے اور کہاں بات تنسیخ یا معطل کرنے (suspension) کی صورت اختیار کر گئی ہے؟

۴-  ایک اور اہم مسئلہ وہ ہے جس کا تعلق ’نظریۂ ضرورت‘ سے ہے۔ جسٹس محمدمنیر کے زمانے سے آج تک یہ آسیب باربار سایۂ فگن رہا ہے۔ ملک غلام محمد کے پہلی دستوریہ کو تحلیل کرنے سے لے کر جنرل پرویز مشرف کے دستور کو معطل کرنے تک، دستور پر بار بار یہ شب خون مارا گیا ہے، اور ہربار اعلیٰ عدالتوں نے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لے کر ایسے اقدام کو جواز اور اعتبار (validation) فراہم کیا ہے اور پارلیمنٹ نے بھی بعد میں بہ امر مجبوری انھیں تحفظ دیا ہے، لیکن عدالت ِ عظمیٰ ہی نے کم از کم دوبار دوٹوک الفاظ میں ’نظریۂ ضرورت‘ کی نفی کی ہے۔ دستور کو منسوخ کرنے یا محض معطل کرنے کو اختیارات کا بدترین استعمال کہا ہے اور اسے کسی بھی قسم کا قانونی تحفظ فراہم کیے جانے کو بھی وطن دشمنی یا غداری (high treason) قرار دیاہے، اور اس کے مرتکب کو غاصب (usurper) کہا ہے۔

اسماء جیلانی کیس میں چیف جسٹس حمودالرحمن کی صدارت میں عدالت نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا (۱۹۶۹ئ-۱۹۷۱ئ) کو ایسا ہی جرم قرار دیا تھا، اور ایک مقدمے میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں فل کورٹ نے ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کیا تھا۔ خود پارلیمنٹ نے ۱۸ویں ترمیم کے ذریعے دفعہ۶ میں مزید ترمیم کر کے ’نظریۂ ضرورت‘    سے براء ت کا اعلان کیا تھا، لیکن کیا فی الحقیقت ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ہے؟ کیا بظاہر اس کا دروازہ بند کیا گیا ہے، مگر کھڑکی یا روشن دان کھلے ہیں، جن سے اس کے داخل ہوجانے یا دَر آنے کے امکانات موجود ہیں؟

یہ وہ بڑے ہی بنیادی مسائل ہیں جن پر اس موجودہ فیصلے میں معرکہ آرا بحثیں کی گئی ہیں، گو کوئی متفقہ فیصلہ نہیں آسکا۔ تاہم، اکثریتی اور اقلیتی فیصلوں کی شکل میں بحث کے تمام ہی اہم گوشے منقش ہوکر سامنے آگئے ہیں اور اس طرح اختلاف راے کے آئینے میں امکانات کی شکلیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔

فیصلے کے اھم نکات

اگر ہم فیصلے کا خلاصہ پیش کریں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ:

(الف) اکثریت نے دبے لفظوں میں یہ تسلیم کرلیا ہے کہ دستور کے کچھ حصے اور کچھ اصول اور اقدار جن پر دستور مبنی ہے وہ ناقابلِ تغیر ہیں۔ بھارت میں جس انداز میں بنیادی ڈھانچے کے نظریے کو دستوری اصولِ قانون (constitutional jurisprudence) کا حصہ بنا دیا گیا ہے  وہ کیفیت تو ہماری عدالت کے فیصلے میں نظر نہیں آتی، مگر اصول کی حد تک الفاظ بدل کر دستور کے بنیادی خدوخال (salient features) کی بات کو اکثریت نے تسلیم کیا ہے۔

(ب) اُوپر جس اصول کو تسلیم کیا گیا ہے، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس باب میں پارلیمنٹ کے اختیارات بسلسلہ ترمیم دستور کی تحدید ہوجاتی ہے، اور اس حد تک اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ دستوری ترامیم پر بھی نظرثانی کرسکے، جس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی ترمیم کو دستور کے بنیادی خدوخال سے متصادم پائے تو اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

(ج) دستور کے بنیادی خدوخال کیا ہیں___ اس بارے میں کچھ نکات کو فیصلے کے مختلف حصوں میں بیان کیا گیا ہے، لیکن کوئی جامع فہرست اور مکمل تصویر نہیں دی گئی۔ بنیادی حقوق کا تحفظ اور عدلیہ کی آزادی اور حقوق اور دستور کی حفاظت کے باب میں اس کے کردار کو واضح طور پر دستور کے بنیادی خدوخال کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ اسلام کو ملک کا مذہب تسلیم کرنے اور اس کے وجود کی اصل وجہ (raison d'etre) تسلیم کرنے کے باوجود کھل کر اسے دستور کے بنیادی خدوخال میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ اس کا انکار نہیں کیا گیا ہے اور چند محترم جج صاحبان نے اپنے انفرادی فیصلے میں ’قرارداد مقاصد‘ اور دستور کی اسلامی دفعات کو بنیادی خدوخال کا حصہ قرار دیا ہے، خصوصیت سے جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس دوست محمد خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحبان نے بلاواسطہ یا بالواسطہ انداز میں قراردادِ مقاصد اور دفعہ۲- اے کو ایک مرکزی اہمیت دی ہے۔ آٹھ ججوں کے مشترک فیصلے میں اس کو بالکل نظرانداز کردیا گیا ہے، حالانکہ عدالت کے دستوری ترمیم پر نظرثانی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ جناب جسٹس ثاقب نثار نہ عدالت کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں اور نہ قرارداد مقاصد کوکوئی مستقل اور فیصلہ کن کردار دینے کا عندیہ دیتے ہیں، بلکہ ان کے فیصلے میں ’قراردادِ مقاصد‘ کا قد کاٹھ کم کرنے ( belittle) کے متعدد پہلو پائے جاتے ہیں، جن پر ہم آگے کلام کریں گے۔

چیف جسٹس ناصرالملک صاحب نے بھی چونکہ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مکمل اختیارات کا حامل قرار دیا ہے، اور اس ضمن میں عدلیہ کے کسی کردار کی نفی کی ہے، اس لیے وہ بھی ’قراردادِ مقاصد‘ کی فیصلہ کن حیثیت پر خاموش ہیں۔ اس طرح اکثریت نے بلالحاظ اس کے کہ وہ دستوری ترمیم کے باب میں عدالت کے نظرثانی کے حق کے قائل ہیں یا نہیں، کھل کر دستور کے بنیادی خدوخال میں ’قراردادِمقاصد‘ اور ’اسلامی دفعات‘ کا ذکر نہیں فرمایا۔ جناب جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہہ الدین احمد نے اسے ایک بھول قرار دیا ہے۔ خدا کرے یہ صرف بھول ہو، لیکن اگر یہ بھول ہے تب بھی کوئی معمولی بھول نہیں ہے، جلد ازجلد اس کی تلافی ہونی چاہیے اور ایسا ہونا ہی خوشی کی بات ہوگی!

(د) فوجی عدالتوں کے باب میں ۱۷ میں سے چھے جج صاحبان نے انھیں دستور کے خلاف قرار دیا ہے لیکن ۱۱ جج صاحبان نے دستور اور اس کی بنیادی حقوق کی دفعات سے انھیں متصادم تصور نہیں کیا۔ البتہ عدالت کے لیے جزوی نظرثانی کی کھڑکی ضرور کھول دی ہے، جو روشنی کی ایک ہلکی سی کرن ہے۔ نیز اس ترمیم کا ایک متعین مدت (دو سال) کے لیے ہونا بھی ایک مثبت پہلو ہے جسے عدالت نے اپنی راے قائم کرتے وقت ملحوظ رکھا ہے۔

(ھ) غیرمسلموں کی اضافی نشستوں کے بارے میں عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لیکن چونکہ اکثریت نے آٹھویں ترمیم کو دستور سے متصادم قرار نہیں دیا، اس لیے اس سلسلے میں درخواست خود بخود غیرمؤثر ہوگئی ہے۔

ہم قانون کی حکمرانی کے قائل ہیں اور عدالت کا فیصلہ ہی اس وقت کا قانون ہے اور   اس وقت تک رہے گا، جب تک پارلیمنٹ یا عدلیہ اس میں تبدیلی نہ کریں، لیکن دنیا بھر میں یہ بڑی صحت مند روایت ہے کہ عدالتی فیصلوں کے ان پہلوئوں پر بحث و گفتگو کی جاتی ہے، جن کا تعلق اصولوں سے ہو، یا ان اُمور سے متعلق ہوں جو عوامی اہمیت کے حامل ہیں، جیسے انسانی حقوق، معاشی حقوق، معاشرتی عدل اور معاشرے کے اخلاقی اور تہذیبی مسائل وغیرہ۔ اس فیصلے کے اختلافی فیصلہ ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ خود اعلیٰ عدالت میں مختلف آرا، بلکہ متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آج کا اکثریتی فیصلہ کل کا اقلیتی فیصلہ بھی بن سکتا ہے اور آج کا اقلیتی فیصلہ کل کا اکثریتی فیصلہ۔ اسی طرح صرف علمی بحثوں میں ہی نہیں، عدالتی بحثوں میں بھی اکثریتی فیصلے کے ساتھ اختلافی فیصلوں کو بھی دلیل کی بنیاد بنایا جاتا ہے اور ایسے فیصلوں کا حوالہ (quote) بھی دیا جاتا ہے۔ یہی وہ صحت مند روایت ہے جس کے ذریعے غوروفکر کا باب کھلا رہتا ہے اور علمی ترقی اور انصاف کی فراہمی دونوں میں مدد ملتی ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ ہم فاضل عدالت کے ججوں کے لیے احترام کے بہترین جذبات کے ساتھ کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں:

نظریۂ ضرورت کے احیا کا خدشہ

پہلی گزارش ’نظریۂ ضرورت‘ کے دوبارہ بڑی خاموشی سے سر اُٹھانے کے بارے میں ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ فیصلے میں ’نظریۂ ضرورت‘ کا کھل کر دفاع نہیں کیا گیا ہے، اور ایک ڈھکے چھپے انداز میں حالات کی سنگینی اور غیرمعمولی کیفیات کی بناپر، وقتی طور پر ایک محدود مدت کے لیے، کچھ نظرثانی کی گنجایش پیدا کرتے ہوئے،سویلین افراد کے لیے فوجی عدالتوں کے وجود کو  تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کچھ گنجایش اس بنیاد پر نکالی گئی ہے کہ دستور میں عدالتی نظام میں کثرتیت (plurality ) پہلے ہی موجود ہے۔ اگر ’خصوصی عدالتیں‘ اور ’ٹریبونل‘ موجود ہیں، تو اسی چلن کے تحت وقتی طور پر تھوڑی سی گنجایش اور بھی پیدا کی جاسکتی ہے، لیکن یہاں اس بنیادی بات کو شاید ملحوظ نہیں رکھا گیا کہ دستور نے مرکزی نظامِ عدل سے ہٹ کر جہاں کہیں گنجایش پیدا کی ہے، وہ بھی بنیادی طور پر سول قانون ہی کی فراہمی کی ایک شکل ہے۔ جہاں تک قانون کے مرحلہ وار عمل (due process of law) کا تعلق ہے ،جو اَب دستور میں ایک بنیادی حق کے طور پر موجود ہے، اور جو اسلام کا بھی ایک مسلّمہ اصول ہے، اس باب میں نظامِ عدل میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ دوسرے لفظوں میں قانون کا بنیادی ڈھانچا اور قانونی عمل ایک ہی ہے، گو خصوصی میدانوں کے لیے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ فوجی عدالتوں کا معاملہ اصولاً مختلف ہے۔ بلاشبہہ اس کے اپنے آداب اور قواعد ہیں ، لیکن شہری قانون (civil law) میں جسے ’قانونی مرحلہ وار عمل‘  کہا جاتا ہے اور جس میں گرفتاری کی وجہ، دفاع کا حق، اپنی مرضی کے وکیل کا انتظام، دورانِ حراست ضروری تحفظات، مقدمے کی کھلی سماعت و کارروائی، شہادتوں پر جرح کا حق، فیصلے کے خلاف اپیل کے امکانات وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے برعکس فوجی عدالتی نظام میں یہ چیزیں نہیں ہوسکتیں۔

اصل ضرورت اس کی ہے کہ ہم اپنے عدالتی نظام کو ٹھیک کریں۔ تفتیش (investigation) اور استغاثے (prosecution) کو صحیح بنیادوں پر منظم کریں۔ ججوں، وکیلوں اور گواہوں کو تحفظ فراہم کریں۔ عدالتوں کی تعداد میں اضافے اور مقدمے کے لیے فیصلے کی مدت میں کمی، انصاف کی فراہمی کو بہتر بناسکتے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کو بہتر بناکر وہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے جو فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے ملزمان کو بھیجنے سے حاصل کیا جانا پیشِ نظر ہے۔ پھر قانون میں یہ بڑا سقم ہے کہ دہشت گردی کو بھی انواع و اقسام میں تقسیم کردیا گیا ہے، گویا مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کی جانے والی دہشت گردی اور شے ہے، اور نسلی، لسانی، معاشی، سیاسی اور دوسری بنیادوں پر کی جانے والی دہشت گردی اور شے ۔ یہ صریح امتیاز (discrimination) ہے جو انسانی شرف اور ہمارے دستور دونوں کے خلاف ہے۔

’نظریۂ ضرورت‘ نے اس قوم کو بڑے چرکے لگائے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ نظریہ کسی چوردروازے سے آکر ایک بار پھر ملک میں قانون کی حکمرانی اور عدل کی فراہمی کے نظام کو تہ و بالا نہ کردے۔

نظریاتی تشخص اور اسلامی دفعات

دوسرا اور اہم ترین پہلو جس پر ہم بات کرنا چاہتے ہیں، اس کا تعلق دستور کی اسلامی دفعات اور ملک کے نظریاتی تشخص کی حفاظت اور ترقی سے ہے۔ ہماری نگاہ میں ملک و قوم کے مستقبل کا انحصار اس مسئلے کے بارے میں صحیح موقف اختیار کرنے پر ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق اور پاکستان کے نظامِ حکومت اور نظامِ زندگی میں اسلام کے کردار کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر ایک مخصوص طرز فکر کو منظم انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک خاص گروہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت فکری انتشار پھیلانے اور اسلام اور دینی قوتوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ اس پس منظر میں عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ ضرورت اور بھی محکم ہوجاتی ہے کہ اس بارے میں قوم میں مکمل یکسوئی ہو۔دلیل، تاریخی حقائق اور قوم کے حقیقی جذبات و احساسات کی روشنی میں قوم، پارلیمنٹ اور عدالت ایک واضح راستہ اختیار کریں۔ ہمیں توقع ہے کہ ان شاء اللہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس فیصلے پر نظرثانی کرکے وقت کی اس ضرورت کو پورا کرے گی۔ ہم مسئلے کی اہمیت اور نوعیت کی صحیح تفہیم کے لیے اصل مسئلے اور عدالت کے فیصلے میں اُٹھائے گئے سوالات کے بارے میں اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔ ہم دلیل سے بات سننے اور خود اپنی راے پر دوبارہ غور کرنے کے لیے ہمیشہ آمادہ ہوں گے۔ ہماری درخواست اور دُعا ہے کہ ہماری اعلیٰ ترین عدالت کے فاضل جج بھی دلیل سے بات سننے اور اگر دلیل معقول ہو تو اپنی راے پر نظرثانی کرنے کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پاس کریں گے۔

پاکستان کا قیام محض تحریکِ آزادی کا ایک حصہ نہیں، بلکہ ایک قوم کے حق خود ارادی کی بات، ایک نظریے کی بنیاد پر ایک علاقے کے حوالے سے تھی، یعنی قوم ایک نظریے کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک علاقے کو حاصل کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نظریہ ہی قوم کی بنیاد تھا اور نظریہ ہی ریاست کی بنیاد بنا۔ قراردادِ مقاصد اس نظریاتی اور تاریخی حقیقت کا دستاویزی مرقع اور پاکستانی قوم کے ریاست سے عمرانی معاہدے کا اقرار و اظہار ہے۔ یہ روایتی طور پر دساتیر اور قوانین میں درج ہونے والے عام پیش لفظوں (preambles)سے قطعاً مختلف اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک منفرد دستاویز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف دستور ہی نہیں، پاکستانی قوم اور ریاست کی زندگی میں اس کا ایک ایسا مقام ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں پائی جاتی اور جسے کوئی درہم برہم نہیں کرسکتا۔

’قراردادِ مقاصد‘ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تین اور دستاویزات کو بغور دیکھا جائے اور ان کے پس منظر میں قراردادِ مقاصد کے اصل پیغام اور مقام کو متعین کیا جائے:

  •  خطبۂ الٰہ آباد: پہلی دستاویز علامہ اقبال کا ۱۹۳۰ء کا خطبہ ہے، جس میں کھل کر تین باتوں کا اعلان کیا گیا ہے اور وہ تینوں ہی آگے کی جدوجہد، تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے سنگ ہاے میل بنیں۔

اوّلاً: اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ دین و دنیا کی تفریق کی اس میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ایمان باللہ اور ایمان بالرسولؐ صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ وہ بیک وقت بندے اور رب کے درمیان جہاں ایک روحانی اور اخلاقی تعلق کو استوار کرتے ہیں، وہیں انسانوں کے درمیان تعلقات اور سماجی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے لیے بھی ایک واضح ضابطۂ کار فراہم کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عقیدے اور اجتماعی زندگی میں ایک ناقابلِ تنسیخ تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ تعلق اتنا بنیادی ہے کہ ایک کی کمزوری یا رشتے کی نوعیت کی تبدیلی واقع ہو، تو دوسرا رشتہ بھی باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عقیدے کے طور پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کو اسلام کے احکام کے مطابق ڈھالنے کا اہتمام ہو اور جو چیزیں اس میں مانع ہیں، ان سے نجات حاصل کی جائے۔

دوم: برعظیم پاک و ہند میں مسلمان مغرب کے لبرل جمہوری نظام کا حصہ بن کر اپنا دینی اور اجتماعی تشخص برقرار نہیں رکھ سکتے۔ مسئلہ صرف مسلمانوں کے دنیوی مفادات اور سیاسی حقوق کا ہی نہیں، ان کے دین و معاشرت اور ان کے عقیدے اور ایمان کا بھی ہے۔ جن حالات سے مسلمان دوچار ہیں، ان میں ہندو اکثریت کے ساتھ مشترک قومیت اور مشترک سیاسی اور اجتماعی نظام کی صورت میں نہ ہماری تہذیب و تمدن کی بقا ممکن ہے اور نہ سیاست اور معاشرت کی اور نہ عقیدے اور ایمان کی حفاظت۔اس لیے نئی سیاسی تنظیم بندی اور سیاسی اقتدار کے لیے نئی علاقائی تشکیل ناگزیر ہوگئی ہے۔

سوم: اُوپر کے مقاصد کے حصول کے لیے جو قابلِ عمل راستہ ہے، وہ تقسیمِ ملک ہے، تاکہ  جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں ان کو نئی سیاسی تنظیم کے ذریعے آزاد اور خودمختار ملک کی شکل دے دی جائے ،اور جن علاقوں میں ہندوئوں کی اکثریت ہے وہاں وہ حکمران ہوں۔

  •  قراردادِ لاھور: اس سلسلے کی دوسری دستاویز مارچ ۱۹۴۰ء کی قراردادِ لاہور اور اس کی تشریح میں کی جانے والی قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تقریر ہے، جس میں مسلمانوں کے ایک عقیدے، ایک دین، ایک تصورِ حیات، ایک ضابطۂ اخلاق اور ایک تہذیب و تمدن کے حامل ہونے کی بنیاد پر ایک قوم کا تصور دیا گیا اور اس قوم کے لیے اپنے نظریات کے مطابق زندگی کے نقشے کو تشکیل دینے کے لیے ایک آزاد ملک کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں پاکستان کا نام نہ تھا، تاہم نئی ریاستی تشکیل کے بارے میں ایک ابتدائی خاکہ دیا گیا تھا۔
  • قرارداد ۱۹۴۶ئ: تیسری اہم دستاویز اپریل ۱۹۴۶ء کی وہ قرارداد ہے، جس میں ۱۹۴۰ء کی قرارداد کی واضح ترین اور معتبر ترین تشریح و تعبیر کی گئی۔ جس میں دو قومی نظریے کو قرارداد کے دیباچے کے طور پر قرارداد کا حصہ بنایا گیا اور پھر جس کے تقاضے کے طور پر ایک مملکت جس کا نام پاکستان ہوگا، اس کا واضح تصور پیش کیا گیا۔ اس قرارداد پر پورے برعظیم سے منتخب ہونے والے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے اللہ کا نام لے کر اور اس اقرار کے ساتھ کہ: ’’میری نماز اور میرے تمام مراسمِ عبودیت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘ (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الانعام ۶:۱۶۲) حلف لیا تھا کہ اس مقصد سے وفادار رہیں گے اور اس کے لیے کسی قربانی سے کوئی دریغ نہیں کریں گے۔

یہ ہیں وہ تین دستاویزات، جن کے خمیر سے قراردادِ مقاصد کی صورت گری کی گئی ہے۔ اس کا سلسلۂ نسب کسی اور طرف جوڑنا تاریخ اور حقائق دونوں سے زیادتی ہوگا۔

قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظمؒ نے کم از کم ۱۳ بار پاکستان کے اسلامی تشخص اور تاریخی کردار کا کھل کر اظہار کیا، اور تقسیم سے قبل ۱۰۰ سے زیادہ بار جو تصور انھوں نے دیا تھا اور جس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ایک نیا عزم، نئی زندگی اور نئی جدوجہد پر کمربستہ کیا تھا اس کا اعادہ کیا۔ جوافراد اس مشن اور منزل سے انحراف یا اغماض کی باتیں کر رہے تھے ان کو منہ توڑ جواب دیا۔

قراردادِ مقاصد کی جوھری حیثیت

اس پس منظر میں پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر اس امر پر کھلا اظہارِ خیال ہوا کہ دستور کو کیسا ہونا ہے، اس کو ایک قراردادِ مقاصد کی شکل میں دستور کے بننے سے پہلے مرتب کر دیا جائے، تاکہ پاکستان کی منزل کا تحریکِ پاکستان کے اوّلیں ذمہ داران کے ہاتھوں دستوری زبان میں تعین کردیا جائے۔ اس زمانے کے اخبارات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تحریکِ پاکستان کے سیکڑوں قائدین اور کارکنوں اور علماے کرام کی بڑی تعداد نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ریاست کے اسلامی کردار کے بارے میں دستوری زبان میں جلد از جلد اظہار و اعلان کیا جائے۔

مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد شفیعؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، مولانا اکرم خان کے مشورے سے جناب لیاقت علی خان اور ان کے رفقا خصوصیت سے جناب عبدالرب نشتر، جناب ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے ایک مسودہ تیار کیا، جس پر پارلیمنٹ سے باہر اہلِ علم سے بھی مشاورت ہوئی۔ میں گواہ ہوں کہ اس کا مسودہ پارلیمنٹ میں آنے سے پہلے مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم  کے ذریعے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا اور انھوں نے اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔

قراردادِ مقاصد محض ایک دستوری دیباچہ (preamble) نہیں بلکہ ایک مستقل دستوری دستاویز ہے اور ’میگناکارٹا ‘کی طرح اپنا منفرد وجودرکھتی ہے۔ بلاشبہہ اس میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور پاکستان میں کن بنیادوں پر اور کن خطوط پر اجتماعی نظام کا قیام عمل میں آئے گا، اس کے تمام ضروری خدوخال واضح کردیے گئے ہیں۔ ساتھ ان بنیادی خدوخال کی روشنی میں دستور بنانے کی ہدایت (direction) دی گئی ہے، جو محض ایک خواہش یا نظری تمنا نہیں، بلکہ واضح طور پر ایک قانونی حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی زبان، اس کی ترتیب، اس کے مندرجات ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا کے تمام دساتیر میں پائے جانے والے دیباچوں سے اس کا موازنہ کر لیجیے، یہ سب سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پاکستان میں بنائے جانے والے تمام دساتیر میں بطور دیباچہ یہ شامل ہے، وہاں اس کی اپنی ایک مستقل بالذات حیثیت ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اور پھر ۱۹۸۵ء میں ترمیم کے ذریعے بطور دفعہ ۲-اے شامل ہوجانے سے، اس کے قانونی کردار میں اگر کوئی ابہام تھابھی، تووہ دُور ہوچکا ہے۔

قراردادِ مقاصد پہلی دستوریہ میں بڑی اچھی فضا میں کھلی بحث کے بعد منظور کی گئی۔ تمام مسلمان ارکانِ پارلیمنٹ نے اس کی تائید کی اور چند نے بڑی جان دار تقاریر کیں، جو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ صرف کانگریس کے ارکانِ اسمبلی نے مخالفت کی، اور اس طرح ایک بار پھر وہی منظر دنیا نے دیکھ لیا، جو تقسیم سے قبل تحریکِ پاکستان کے دوران شب و روز نظر آتا تھا___ مسلمان اپنے ایمان، نظریے اور نظامِ زندگی پر مبنی شناخت کی بنیاد پر ایک فریق اور ہندو اور سیکولر قوتیں دوسرا فریق۔ مسلمانوں میں علما بھی تھے اور لبرل بھی، لیکن سب یک زبان تھے۔ مولانا شبیراحمدعثمانی  ؒ سے لے کر میاں افتخارالدین صاحب تک سب نے اس قرارداد کے حق میں پورے جذبے اور جوش سے بڑے محکم دلائل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا اور کانگریس کے ہندو ارکان نے اپنے تاریخی اور روایتی موقف کے مطابق اختلاف کا اظہار کیا۔ کانگریس کے ارکان نے درجن بھر ترامیم بھی پیش کیں، جو اکثریت سے رد کردی گئیں۔ پھر قرارداد منظور ہوئی، لیکن اس پر کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی۔ اس لیے اسے دستور ساز اسمبلی کی متفقہ قرارداد بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن اس سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ پوری قوم نے یک زبان ہوکر اس کی تائید کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، اس کے ذریعے ملک کی منزل اور ترقی کا رُخ متعین کردیا اور اس کی شکل میں اللہ کی حاکمیت کا ابدی اور سب سے بڑی حقیقت کی حیثیت سے اظہار کیا۔ واضح رہے کہ حالیہ سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک ملک کی قیادت نے اللہ کی حاکمیت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کے اندر اپنی آزادی اور اجتماعی اور انفرادی زندگی کی تشکیل کا عہد کیا اور پارلیمنٹ کو حکم دیا کہ ان خطوط پر نیا دستور مرتب کرے۔ یہ محض ایک خواہش کا اظہار نہ تھا، جیساکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی اپنے وضاحتی نوٹ میں لکھا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ وہ ایک واضح رہنمائی (direction) ہے اور اس حیثیت سے وہ خود بھی ایک حکم (order)کا درجہ رکھتی ہے اور اس میں جو اصول طے کیے گئے ہیں، وہ بھی اپنی ایک مستقل حیثیت رکھتے ہیں، جو ایک تاریخی عمرانی معاہدہ ہیں اور جن میں کسی کو بھی تغیر و تبدیلی کی اجازت نہیں۔ وہ اصول کیا ہیں؟ پہلے ان کو ذہنوں میں تازہ کرلیں تاکہ قراردادِ مقاصد کی امتیازی شان اور اس کا دیا ہوا پاکستان کا وژن واضح ہوجائے:

۱- قراردادِ مقاصد کا سب سے اہم حصہ اس کا ابتدائیہ ہے، جو پوری قرارداد کے رُخ اور خطوطِ کار کو متعین کرتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ پوری قوم، ریاست اور اس کے تمام اداروں کے لیے واضح اور مستقل ہدایات کی بنیاد فراہم کرتا ہے:

چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکت ِغیرے حاکمِ مطلق ہے اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکت ِ پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے۔

اس تمہید پر جو اساس ہے، غور کیا جائے تو پاکستان کا خصوصی اور امتیازی کردار واضح ہوجاتا ہے:

                ۱-            سیکولر تصورِ زندگی کے مقابلے میں یہ زندگی کا ایک بالکل دوسرا تصور ہے کہ کائنات کا اصل حاکم اللہ تعالیٰ ہے، انسان کی حیثیت اس کے خلیفہ کی ہے۔ جو انسان اس خلافت کی ذمہ داری کو قبول کریں وہ مسلمان ہیں اور اس حاکمِ مطلق کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور زندگی کا نظام چلانے کا عہد کرتے ہیں۔

                ۲-            اس تصور کا تقاضا ہے کہ زندگی اور حکمرانی کا پورا نظام اللہ کی بتائی ہوئی حدود کے اندر اور اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق انجام دیا جائے اور یہ ہدایت زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں ہے، کوئی دائرہ اس سے باہر نہیں۔

                ۳-            اجتماعی زندگی میں حکمرانی کا یہ اختیار کسی خاص فرد، خاندان، گروہ یا طبقے کو نہیں دیا گیا بلکہ یہ اختیار ملک کے تمام عوام کو دیا گیا ہے، جن کی مرضی سے اور جن کے منتخب نمایندوں کے ذریعے اسے انجام دیا جائے گا۔

                ۴-            زندگی اور تمام وسائل کی حیثیت ایک امانت کی ہے اور امانت کے تصور میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں کہ جس نے یہ امانت دی ہے اصل فیصلہ کرنے والا وہی ہے اور اس امانت کو اس کی ہدایت کے مطابق ادا ہونا چاہیے، اور دوسرے یہ کہ اس امانت کے ساتھ جواب دہی بھی لازمی ہے اور اس فریم ورک میں یہ جواب دہی دُہری ہے، یعنی ایک اللہ کے سامنے اور دوسرے عوام کے سامنے جن کے ذریعے اس امانت کو استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

                ۵-            آخری چیز یہ ہے کہ اس طرزِ حکمرانی اور طریقۂ فیصلہ سازی کا اطلاق ریاست اور اس کے تمام اداروں پر یکساں ہے۔ ریاست کے لفظ کا استعمال یہاں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جہاں اختیار عوام کو دیا گیا ہے وہیں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست کے جتنے بھی ادارے ہیں وہ اپنے اپنے دائرے میں اس امانت کے امین اور اس کے سلسلے میں جواب دہ ہوں گے۔

واضح رہے کہ جس مثالیے ( paradigm) کو اس قرارداد میں پیش کیا گیا ہے وہ کوئی  نئی بات نہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مدینہ کی ریاست کے قیام سے لے کر آج تک اُمت کا یہی نقطۂ نظر رہا ہے۔

چیف جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس مسلمانوں کے اس امتیازی طرزِعمل کو یوں بیان کرتے ہیں:

اسلامی ریاست کی بنیاد خود مذہب کی آمد کے ساتھ ہی رسولؐ اللہ کو اللہ کی طرف سے براہِ راست ہدایت کے ذریعے مکمل جزئیات کے ساتھ ڈال دی گئی تھی۔ جن کو ایسی روشن بصیرت، فہم کی گہرائی اور ذہنی قوت مرحمت کی گئی تھی کہ ۱۰سال کے مختصر عرصے میں قرآنی ہدایت اور رسولؐ اللہ کے عمل کی روشنی میں حکومتی نظم و ضبط، قانون اور خارجہ اُمور چلانے کے اصول، یعنی ایک ایسی سلطنت کے تمام لوازمات جو پورے عرب پر حاوی تھی، بیان کردیے گئے تھے۔(Chief Justice Cornelius of Paksitan: An Analysis with Letters and Speeches، مرتبہ:رالف برے بنٹی، اوکسفرڈ   یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹ئ، ص ۲۸۹)

خود قائداعظم نے عثمانیہ یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی تصورِ ریاست کو اس طرح واضح کیا تھا:

اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے، جس کی تکمیل کا عملی ذریعہ قرآنِ مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآنی اصول و احکام کی حکومت ہے۔ (ملاحظہ ہو: قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ مرتبہ: حمیدرضا صدیقی،  ناشر:کاروان، لاہور، ۱۹۹۳ئ، ص ۸۱)

قراردادِ مقاصد کے محرک جناب لیاقت علی خان نے قرارداد پیش کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ بھی قرارداد کی منظوری کے اُس موقعے کو ملک کی زندگی کااہم واقعہ سمجھتے تھے: ’’اہمیت کے اعتبار سے صرف حصولِ آزادی کا واقعہ اس سے بلند تر ہے‘‘ کہہ کر انھوں نے فرمایا تھا:

پاکستان اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ برعظیم کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے کہ آج حیاتِ انسانی کو طرح طرح کی جو بیماریاں لگ گئی ہیں، ان سب کے لیے اسلام ہی اکسیراعظم (panacea) کی حیثیت رکھتا ہے۔

انھوں نے میکیاولی کے تصورِ سیاست کے مقابلے میں اسلام کے اصولِ حکمرانی کی بنیاد پر ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور صاف الفاظ میں کہا: ’’ہماری ریاست کی بنیاد یہ ہے کہ تمام اختیار اور اقتدار ذاتِ الٰہی کے تابع ہونا لازمی ہے اور اس طرح مملکت کے وجود کو خیر کا آلۂ کار ہوناچاہیے، نہ کہ شرکا‘‘۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمانی موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام (انسانی) اقتدار اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہوسکے‘‘۔

ہماری ان گزارشات سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ قراردادِ مقاصد کوئی روایتی قرارداد یا محض ایک دستور کے لیے مقدمہ نہیں تھی، بلکہ ایک نئے تصورِ زندگی کو ریاست کی بنیاد بنانے کا اعلان اور اس اعلان کے مطابق ایک دستور کی تدوین اور نظامِ حکمرانی کے قیام کے لیے واضح اور حتمی حکم نامہ ہے۔

یہاں ضمناً ہم یہ وضاحت بھی کردیں کہ قراردادِ مقاصد کے اصل مسودے میں لفظ ’اسٹیٹ‘ موجود ہے اور اب بھی دستور کی دفعہ ۲-اے میں جس قرارداد کا ذکر کیا گیا ہے، وہ قرارداد انھی الفاظ کے ساتھ ہے، جو ۱۲مارچ ۱۹۴۸ء کو دستورساز اسمبلی میں منظور کی گئی تھی اور جس میں سے ’’اسٹیٹ‘‘ کے لفظ کو نکلوانے کے لیے کانگریس کے رکن جناب پروفیسر چکرورتی نے ایک ترمیم پیش کی تھی، کہ اسے ’عوام‘ سے بدل دیا جائے جو اس وقت منظور نہیں ہوئی تھی۔ آج بھی یہ اصل ’قراردادِ مقاصد‘ میں موجود ہے۔ دستور کے ضمیمے میں جو قرارداد دی گئی ہے، وہ انھی الفاظ میں ہے جن میں وہ اصلاً منظور کی گئی تھی۔ اس میں ’ریاست‘ کے ساتھ ’عوام‘ کا ذکر بھی ہے۔ البتہ، بعد میں جب دستور میں اس قرارداد کو بطورِ دیباچہ شامل کیا گیا تو ’ریاست‘ کا لفظ نکال دیا گیا۔ ضمناً یہاں یہ بھی وضاحت کردوں کہ یہ تبدیلی ۱۹۵۶ء کے دستور میں کی گئی تھی اور فاضل جج جسٹس جواد ایس خواجہ کا یہ خیال درست نہیں کہ یہ تبدیلی ۲۴سال بعد ۱۹۷۳ء میں کی گئی ہے۔ ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء دونوں کے دساتیر  نکال کر دیکھ لیں ان میں ’ریاست‘ کا لفظ نہیں ہے۔ میری ذاتی راے میں ’ریاست‘ کا لفظ رہنا چاہیے تھا، اس لیے کہ عوام کے ذریعے اس اختیار کے استعمال کی بات قرارداد کے دیباچے اور آگے کی ہدایات دونوں میں موجود ہے۔

قراردادِ مقاصد کا اصل جوہر اور اساس یہی تصورِ کائنات، تصورِ زندگی اور سیاسی نظام کا تصور ہے اور یہ جدید عالمی سیاسی تناظر میں ایک حقیقی مرکز ثقل  کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ایک تبدیلی سے ہر چیز بدل جاتی ہے کہ اب ہماری آزادی ان حدود کی پابند ہوجاتی ہے، جو قرآن و سنت نے ہمارے لیے متعین کی ہیں۔ آزادی برحق اور عوام کا یہ اختیار کہ وہ ہی حکمرانوں کا انتخاب کریں اور ان کا احتساب کریں اپنی جگہ مسلّم، لیکن عوام اور اربابِ اقتدار، افراد اور ادارے سب حدود اللہ کے پابند کردیے گئے ہیں۔ سب کو وہ مقصد اور مشن دے دیا گیا ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ؑ بھیجے اور جس کا مکمل ترین اظہار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، تعلیمات اور نمونے میں ہے۔

قراردادِ مقاصد کی باقی تمام شقیں اس بنیادی اپروچ کی وجہ سے بالکل مختلف معنویت رکھتی ہیں اور اگر الفاظ میں دنیا کے دوسرے دساتیر سے کچھ مماثلت نظر آتی ہے، تو وہ بھی صرف ظاہری ہے۔ جوہری اعتبار سے ان سب کا مفہوم حدود اللہ کی وجہ سے بدل جاتا ہے۔ ویسے تو شکل و صورت کے اعتبار سے ایک مسلمان اور کافر میں بہت سی چیزیں مشترک اور مماثل ہیں، لیکن تصورِ زندگی اور  حلال و حرام کی حدود دونوں کو دو مختلف شخصیتیں بنادیتے ہیں۔ اسی طرح قراردادِ مقاصد اور خصوصیت سے اس کے اساسی عقیدے نے ہر چیز کا رُخ بالکل بدل دیا ہے۔

۲- قراردادِ مقاصد نے اس بنیادی حقیقت اور پاکستان کے دستور اور حکمرانی کے لیے نئے مثالیے کی نشان دہی کے بعد پاکستان کے سیاسی نظام کا جو نقشہ دیا ہے وہ یہ ہے:

                ۱-            مملکت اپنے اختیارات اور اقتدار کو جمہور کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔

                ۲-            جمہوریت، آزادی، مساوات ، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائے گا۔

                ۳-            جس کی رُو سے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کے لائق بنایا جائے گا۔

                ۴-            جس کی رُو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور اس پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔ نیز اقلیتوں اور پس ماندہ طبقوں کے جائز حقوق کو تحفظ ملے گا۔

                ۵-            جس کی رُو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون و اخلاقِ عامہ کے ماتحت مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہارِ خیال، عقیدہ و دینی عبادات اور ارتباط کی آزادی شامل ہو۔

                ۶-            جس کی رُو سے وفاق کے علاقوں کی حفاظت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا جن میں اس کے برو بحر و فضا پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔

ان چھے بنیادوں پر پاکستان کی علاقائی سالمیت اور عوام کی خوش حالی اور اقوامِ عالم میں  اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کرنے اور امنِ عالم کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنے کے مقاصد کے حصول کو ملک و قوم کا ہدف اور منزل مقرر کیا گیا۔

واضح رہے کہ قرارداد میں نظریاتی ریاست کی تشکیل کے باب میں ابتدائیہ کے علاوہ:  دو دفعات نظریاتی ریاست میں مسلم معاشرے کی تشکیل سے متعلق ہیں، اور دو دفعات غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کے لیے۔ ایک دفعہ عوامی نمایندہ حکومت اور عوام کے سرچشمۂ قوت ہونے کے بارے میں ہے۔ ایک کا تعلق سب شہریوں کے لیے بنیادی حقوق کی ضمانت سے ہے۔ ایک عدلیہ کی آزادی کے بارے میں ہے، ایک علاقائی حدود کے تعین اور ان کی حفاظت سے متعلق ہے، اور ایک مملکت کے وفاقی نظام کی وضاحت کرتی ہے۔ یہی تمام پہلو دستور کے وہ بنیادی خصائص (features) ہیں، جن سے ہمارا سیاسی اور تہذیبی وجود عبارت ہے اور جن میں کوئی تبدیلی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ قرارداد اور دستور کے یہ پہلو ہر چیز پر غالب اور حکمران ہیں اور ان کی حفاظت عوام، پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔(جاری)