یہ ایک ایسے امریکی نوجوان کا عدالتی بیان ہے جو امریکا میں پیدا ہوا، وہیں پلا بڑھا۔ امریکا کی ظالمانہ کارروائی کا شکار ہوا۔ طارق مہنا ایک پاکستانی مصری امریکن ہیں۔ ان کے والدین پاکستان اور مصر سے امریکا رہ بس گئے اور طارق وہیں پیدا ہوئے اور آج کل امریکا ہی میں مقیم ہیں۔ انھیں امریکی حکومت نے سوشل میڈیا پر مجاہدین کی حمایت کرنے کے الزام میں اُن پر مقدمہ چلایا۔ جب امریکی عدالت کا جج انھیں سزا سنا رہا تھا انھوں نے بھری عدالت میں یہ بیان دیا تھا۔ اس بیان نے عدالت میں موجود بہت سے لوگوں کو مبہوت کر دیا تھا ۔جج نے جواب میں صرف یہ کہا: ’’امریکی عدالت صرف قانون کے مطابق فیصلہ دیتی ہے، قانون بناتی نہیں‘‘۔ طارق مہنا امریکی عقوبت خانوں میں تشدد برداشت کرنے کے بعد مدتِ قید گزار رہے ہیں۔ ادارہ
آج سے چار برس پہلے اپریل کا مہینہ تھا، جب میں ایک مقامی ہسپتال میں اپنا کام ختم کرکے گاڑی کی طرف جا رہا تھا کہ میرے پاس امریکی حکومت کے دو ایجنٹ آئے۔ انھوں نے کہا: ’’تمھیں دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایک راستہ آسان ہے اور دوسرا مشکل۔ ’آسان‘ راستہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کے مخبر بن جائو اور یوں کبھی عدالت یا قیدخانے کی شکل نہ دیکھنا پڑے گی، جب کہ دوسرا دشوار راستہ ہے۔ سو، وہ آپ کے سامنے ہے‘‘۔
تب سے اب تک ان چار برس کا بیش تر عرصہ میں نے قیدتنہائی میں ایک ایسے کمرے میں گزارا ہے، جس کا حجم ایک چھوٹی سی الماری جتنا ہے اور مجھے دن کے ۲۳گھنٹے اسی میں بند رکھا جاتا ہے۔ ایف بی آئی ، ان کے وکلا اور حکومت نے مجھے اس کوٹھڑی میں ڈالنے، مقدمہ چلانے اور بالآخر یہاں آپ کے سامنے پیش ہونے اور اس کوٹھڑی میں مزید وقت گزارنے کی منزل تک پہنچانے کے لیے عام امریکی شہریوںکے ادا کردہ ٹیکسوں کے ہزاروں ڈالر خرچ کیے ہیں۔
جب میں نے مخبر بننے سے انکار کر دیا تو حکومت نے ردعمل کے طور پر مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے دنیا بھر میں مسلم ممالک پر قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی حمایت کا ’جرم‘ کیا ہے، یا ’دہشت گردوں‘ کی حمایت کی ہے، جیساکہ وہ ایسا کہنا پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ میں کسی مسلمان ملک میں پیدا نہیں ہوا بلکہ یہیں امریکا میں پلابڑھا ہوں اور یہی بات بہت سے لوگوں کو غضب ناک کرتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ: ’’میں امریکی ہونے کے باوجود ان باتوں پر یقین رکھوں جن پر میں رکھتا ہوں اور وہ موقف اختیار کروں جو میں نے کر رکھا ہے!‘‘ انسان اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ اس کا ایک جز بن جاتا ہے، یہی اُس کا نقطۂ نظر تشکیل دیتا ہے اور یہی حال میرا بھی ہے۔ لہٰذا یہی ایک نہیں، بلکہ بہت سی وجوہ کے سبب میں جو کچھ ہوں امریکا ہی کی وجہ سے ہوں۔
چھے برس کی عمر میں مَیں نے طنزومزاح پر مبنی کتب کا ذخیرہ جمع کرنا شروع کیا تھا۔ ’بیٹ مین‘ نے میرے ذہن میں یہ تصور بویا کہ کس طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ بعض ظالم ہوتے ہیں، بعض مظلوم ہوتے ہیں اور بعض وہ جو مظلومین کی حمایت کے لیے آگے آتے ہیں۔ یہ چیز میرے ذہن میں اس طرح پیوست ہوتی رہی کہ اپنے بچپن کے پورے زمانے میں مَیں ہراس کتاب کی طرف کھنچا چلا جاتا، جس میں یہ نمونہ پیش کیا جا رہا ہو۔ The Uncle Tom's Cabin اور Autobiography of Malcom X،حتیٰ کہ مجھے تو The Cather in Ryethein میں بھی ایک اخلاقی پہلو نظر آتا تھا۔
پھر میں ہائی اسکول پہنچ گیا۔ وہاں میں نے تاریخ کے اسباق پڑھے۔ میں نے امریکا کے اصل باشندوں (ریڈ انڈینز) اور یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں ان پر ہونے والے مظالم کے بارے میں پڑھا کہ ان یورپی آبادکاروں کی نسلوں کو کس طرح کنگ جارج سوم کی جابرانہ حکومت کے دوران ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر پال ریور اور ٹام پین کے بارے میں پڑھا اور یہ جانا کہ کس طرح امریکیوں نے برطانوی فوج کے خلاف مسلح بغاوت کی۔ وہ بغاوت جس کا آج ہم امریکا کی انقلابی جنگ کی حیثیت سے جشن مناتے ہیں۔ آج جہاں ہم بیٹھے ہیں بچپن میں ہم اس سے کچھ دُور ہی اسکول کی طرف سے سیروسیاحت پر جایا کرتے تھے۔ اس دوران میں، مَیں نے ملک میں غلامی کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔ میں نے ایما گولڈمین، یوجین ڈبیز، مزدوروں کی انجمنوں اور غریبوں کی جدوجہد کے بارے میں پڑھا۔ میں نے این فرینک اور نازیوں کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس طرح اقلیتوں کو اذیتیں دیتے اور مخالفین کو قید کرتے تھے۔ پھر روزاپارکس، میلکم ایکس، مارٹن لوتھرکنگ اور شہری حقوق کی جدوجہد کے بارے میں پڑھا۔ اسی طرح ہوچی منہہ کے بارے میں پڑھا کہ کس طرح ویت نام کے باشندوں نے کئی عشروں تک یکے بعد دیگرے آنے والے غاصبوں کے خلاف لڑنے میں زندگیاں گزار دیں۔ میں نے نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ میں نسلی تعصب کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔ میں نے ان برسوں میں جو کچھ پڑھا، وہ چھے برس کی عمر میں سیکھی گئی بات کی مزید تصدیق کر رہا تھا کہ پوری تاریخ میں ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہی ہے۔ غرض جس بھی جدوجہد کے بارے میں پڑھا، میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ مظلوم کا طرف دار پایا، اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کو میں نے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا، خواہ وہ کسی بھی ملک سے ہوں اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں نے کبھی اسکول کے زمانے میں اپنی کلاسوں کے نوٹس نہیں پھینکے۔ آج بھی، جب کہ میں یہاں کھڑا ہوں، وہ نوٹس میرے کمرے کی الماری میں سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں۔
جتنی بھی تاریخی شخصیات کے بارے میں، مَیں نے پڑھا، ان میں سے ایک سب میں ممتاز تھی جس کا نام میلکم ایکس ہے۔ میلکم ایکس کی بہت سی چیزوں نے مجھے متاثر کیا، لیکن جس چیز نے سب سے زیادہ دل چسپی بڑھائی وہ تھی ان کی کایاپلٹ ۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے سپائک لی کی فلم ’ایکس‘ دیکھی ہے یا نہیں۔ یہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی ہے اور ابتدا میں نظر آنے والا میلکم آخر میں نظر آنے والے میلکم سے بہت مختلف ہے۔ وہ ایک اَن پڑھ مجرم ہوتا ہے جو بعدازاں ایک شوہر، ایک باپ ، اپنے لوگوں کا محافظ اور فصیح البیاں لیڈر بن جاتا ہے۔ ایک اصولی مسلمان جو مکہ معظمہ میں حج کا فریضہ ادا کرتا ہے اور بالآخر شہید ہوجاتا ہے۔
میلکم کی زندگی نے مجھے یہ سبق دیا کہ اسلام کوئی وراثتی دین نہیں ہے۔ یہ کسی نسل یا تہذیب کا نام بھی نہیں ہے۔ یہ تو طریقۂ زندگی ہے، ایک فکری حالت ہے، جسے کوئی بھی اپنا سکتا ہے، خواہ وہ کہیں سے بھی تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی ماحول میں پلابڑھا ہو۔ اس چیز نے مجھے اسلام کو بہ نظر غائر دیکھنے کی ترغیب دی اور بس پھر میں اس کا دلدادہ ہوگیا۔ میں تو صرف ایک نوجوان تھا اور اسلام اس سوال کا جواب پیش کرتا ہے، جو بڑے بڑے سائنسی ذہن پیش کرنے سے قاصر ہیں اور جس کا جواب نہ پاکر اُمرا اور مشہور و معروف لوگ ڈیپریشن اور خودکشیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ سوال ہے: زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس کائنات میں ہمارا وجود کیوں ہے؟
اسلام نے نہ صرف ان سوالوں کا جواب دیا ہے، بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح ہمیں زندگی گزارنی ہے۔ درحقیقت اسلام ہمیں کسی پیشوا یا راہب کا محتاج نہیں بناتا۔ لہٰذا میں نے براہِ راست قرآن و سنت کا مطالعہ شروع کردیا، تاکہ اس فہم کے سفر کا آغاز کرسکوں کہ اسلام کیا ہے؟ اور بحیثیت انسان اسلام میرے لیے اور میرے اردگرد کے لوگوں کے لیے، ساری دنیا کے لیے کیا پیش کرتا ہے؟__ جتنا جتنا میں سیکھتا گیا، مجھے اسلام کی قدروقیمت کا اتنا ہی احساس ہونے لگا ۔گویا وہ کوئی ہیرا ہے۔ یہ میرے عنفوانِ شباب کی بات ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دبائو کے باوجود میں یہاں آپ کے اور اس کمرئہ عدالت میں تمام لوگوں کے سامنے ایک مسلمان کی حیثیت سے کھڑا ہوں، الحمدللہ!
اس کے ساتھ ہی میری توجہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات کی طرف گئی۔ جدھر بھی میں نے نگاہ ڈالی، یہی دیکھا کہ نام نہاد طاقتیں میری محبوب اُمت مسلمہ کی تذلیل کرنے کے درپے ہیں۔ مجھے پتا چلا کہ: سوویت یونین نے افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا؟ سربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پر کیا قیامت ڈھائی؟ روسیوں کے ہاتھوں چیچن مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے متعلق پتا چلا ۔ مجھے پتا چلا کہ اسرائیل نے لبنان میں کیا کیا تھا اور اب امریکا کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ فلسطین میں کیا کچھ کر رہا ہے؟ اور یہ پتا چلا کہ خود امریکا مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
مجھے جنگ ِ خلیج [۱۹۹۱ئ] کے متعلق اور ان یورینیم بموں کے متعلق علم ہوا، جن سے ہزاروں لوگ مرگئے اور عراق میں کینسر کی شرح آسمان کو پہنچ گئی۔ پھر میں نے امریکا کے مسلط کردہ ان احکامات و قوانین کے بارے میں جانا، جن کے باعث عراق میں کھانا، دوائیں اور طبی سامان جانے سے روک دیا گیا، اور کس طرح اقوام متحدہ کے ذریعے ان جابرانہ اور انسانیت کش پابندیوں کے باعث ۵لاکھ سے زائد معصوم عراقی بچے ہلاک ہوگئے، جن کی کسی سے دشمنی نہ تھی، جنھوں نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ مجھے امریکی وزیرخارجہ میڈیلائن البرایٹ کے ’۶۰منٹ‘ کے انٹرویو کا ایک حصہ یاد ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ: ’’یہ بچے اسی قابل تھے‘‘۔ میں نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء (نائن الیون) کو دیکھا کہ کس طرح کچھ افراد نے ان بچوں کی ہلاکتوں پر ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے اور انھیں عمارتوں میں اُڑا کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ [۲۰۰۳ء میں] امریکا نے براہِ راست عراق پر حملہ کردیا ہے۔ اس حملے کے پہلے روز آپریشن ’Aweand Shock‘ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی دیکھی۔ ہسپتال کے وارڈوں میں وہ بچے تھے جن کے سروں میں امریکی میزائلوں کے ٹکڑے کھبے ہوئے تھے (یہ سب کچھ CNN پر نہیں دکھایا گیا)۔ مجھے حدیثہ کے قصبے کے بارے میں علم ہوا، جہاں ۲۴مسلمانوں کو، جن میں ایک ۷۶سالہ ویل چیئر پر بیٹھا بوڑھا، عورتیں اور ننھے بچے شامل ہیں، ان کو بستروں ہی پر گولیوں سے بھون دیا گیا۔
پھر مجھے عبیرالجنی کے بارے میں پتا چلا: ایک ۱۴سالہ عراقی بچی جسے پانچ امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعدازاں ان فوجیوں نے اس مظلوم بچی اور اس کے گھروالوں کے سروں میں گولیاں ماریں اور ان کی لاشوں کو جلادیا۔ میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ دیکھتے ہی ہیں کہ مسلم خواتین نامحرم مردوں کو اپنے سر کے بال تک نہیں دکھاتیں۔ ذرا تصور کریں ایک گائوں سے تعلق رکھنے والی بچی کو بے لباس کیا جائے اور پھر ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں یکے بعد دیگرے پانچ فوجی اس کی عصمت دری کریں۔ آج بھی، جب کہ میں اپنے سیل میں بیٹھا ہوتا ہوں، ان ڈرون حملوں کے بارے میں پڑھتا ہوں جو پاکستان، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں مستقل بنیادوں پر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ پچھلے ہی ماہ ان ۱۷افغان مسلمانوں کے بارے میں سنا، جن میں اکثریت مائوں اور ان کے بچوں کی تھی، جو ایک امریکی فوجی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اس نے ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا۔ یہ تو صرف چند کہانیاں ہیں جو شہ سرخیوں تک پہنچ پاتی ہیں، تاہم اسلام کے جو تصورات میں نے سب سے پہلے سیکھے، ان میں بھائی چارہ اور وفاداری بھی شامل ہے کہ ہرمسلمان خاتون میری بہن ہے اور ہر مرد میرا بھائی، اور مل جل کر ہم سب ایک جسم کی مانند ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنی ہے۔ بالفاظِ دیگر میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہے۔ امریکا بھی ظالموں میں شامل ہو اور میں غیرجانب دار رہوں۔ ان حالات میں مَیں نے صرف مظلوموں کے لیے حمایت بھی کی۔
میں نے پال ریور کا تذکرہ کیا تھا۔ وہ آدھی رات کو لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے نکلا کہ برطانوی سام ایڈمز اور جان ہینکاک کو گرفتار کرنے کے لیے لیگزنگٹن کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس کے بعد کانکورڈ جائیں گے، تاکہ وہاں آزادی کے لیے لڑنے والی ملیشیا کے ذخیرہ کردہ اسلحے کو ضبط کریں۔ جس وقت تک برطانوی کانکورڈ پہنچے آزادی کے لیے لڑنے والے لوگ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لیے ان کے سامنے مقابلے کے لیے کھڑے تھے۔ انھوں نے برطانویوں پر گولیاں چلائیں، ان سے لڑائی کی اور انھیں شکست دی۔ اسی جنگ سے امریکی انقلاب کا آغاز ہوا۔
جہاں تک میرے مقدمے کا تعلق ہے، اس کی تمام پیشیوں میں یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ میں کبھی بھی بازاروں میں ’امریکیوں کے قتل‘ کے کسی منصوبے میں شامل نہیں رہا، یا جو بھی کہانی بنائی گئی ہے، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا۔ حکومتی گواہوں نے خود بھی اس دعوے کا رد کیا ، لیکن اس کے باوجود ایک کے بعد دوسرا ’ماہر‘ اس جگہ آکھڑا ہوتا رہا، جنھوں نے میرے تحریر کردہ ہرہرلفظ کے حصے بخرے کرکے وہ وہ معانی پہنانے کے جتن کیے، جو میرے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھے۔ پھر کئی گھنٹے اس چیز پر صرف کیے گئے کہ میرے عقائد کو بیان کرسکیں، مگر اس کے باوجود مجھے رہائی مل گئی۔ اس کے بعد حکومت نے اپنا ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ وہ مجھے اپنے ’دہشت گردانہ منصوبے‘ میں ملوث ہونے کی ترغیب دے سکے، لیکن میں نے ایسے کسی بے ہودہ کام میں شمولیت سے انکار کردیا۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ جیوری کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔
لہٰذا، میرا یہ مقدمہ امریکی شہریوں کے قتل کی مناسبت سے نہیں تھا، بلکہ یہ امریکیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے قتل کے لحاظ سے میرے موقف پر تھا، اور وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے علاقوں پر غاصب قوتوں کے خلاف دفاع کرنا چاہیے، چاہے وہ امریکی ہوں، روسی ہوں یا مریخی ہوں۔ میں اسی بات پر یقین رکھتا ہوں کہ یہ نہ دہشت گردی ہے اور نہ انتہاپسندی۔ یہ تو بس اپنی ذات کے دفاع کی سادہ سی منطق ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی نمایندگی آپ کے پیچھے آویزاں ’مونوگرام‘ میں موجود علامت کے تیر کر رہے ہیں: ’’وطن کا دفاع‘‘۔ چنانچہ میں اپنے وکلا کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ کو میرے عقائد ماننے کی ضرورت نہیں۔ نہیں، بلکہ جس کے اندر تھوڑی سی بھی عقل اور انسانیت کی رمق ہوگی، لامحالہ اسے یہ بات ماننا ہی پڑے گی۔ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر چوری کرنا چاہے اور آپ کے اہل و عیال کو نقصان پہنچانا چاہے، تو عقلِ عام یہی کہے گی کہ اس جارح کو باہر نکالنے کے لیے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کیا جائے۔ لیکن جب وہ گھر کوئی مسلم سرزمین ہو، اور وہ جارح امریکی فوج ہو، تو کس وجہ سے یہ اصول بدل دیا جائے؟ اس عقلِ عام کا نام ’دہشت گردی‘ رکھ دیا جاتا ہے اور جو لوگ سمندرپار سے آئے قاتلوں سے بچنے کے لیے اپنا دفاع کرتے ہیں، وہ ’دہشت گرد‘ قرار دے دیے جاتے ہیں۔
ڈھائی صدی پہلے امریکا جس ذہنیت کا شکار تھا جب برطانوی ان سڑکوں پر چل پھر رہے تھے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس کا شکار آج مسلمان ہیں، جن کی سڑکوں پر آج امریکی فوجی مٹرگشت کررہے ہیں۔ یہ استعمار کی ذہنیت ہے۔ جب سارجنٹ بیلز نے پچھلے مہینے ان افغانوں کو قتل کیا تو ذرائع ابلاغ کا سارا زور اس کی ذات ،اس کی زندگی، اس کی پریشانی، اس کے گھر کے گروی ہونے پر تھا۔ لیکن جن لوگوں کو اس نے مارا تھا، ان کے لیے کم ہی ہمدردی دکھائی گئی۔ گویا وہ انسان نہیں تھے۔ بدقسمتی سے یہی ذہنیت معاشرے کے ہر فرد میں راسخ ہوتی جارہی ہے، چاہے اسے اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔ حتیٰ کہ میرے وکلا بھی، دو سال تک مجھے یہی سمجھانے اور وضاحتیں پیش کرنے میں لگے رہے۔ دوسال! اتنے ذہین لوگوں کو اتنا وقت لگا بات سمجھنے میں، جن کا کام میرا دفاع کرنا تھا۔ پھر مجھے جیوری کے سامنے اس طرح پیش کر دیا گیا کہ وہ میرے ’غیرجانب دار موکل‘ ہیں۔ آج جو ذہنیت امریکا پر چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میرے کوئی ساتھی ہی نہیں۔ اسی حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے مجھ پر مقدمہ چلایا، اس لیے نہیں کہ انھیں کوئی ضرورت تھی، بس صرف اس لیے کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں۔
میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں تاریخ کی کلاسوں میں ایک اور بات بھی سیکھی تھی۔ وہ یہ کہ امریکا نے تاریخ میں ہمیشہ اپنی اقلیتوں کے خلاف نہایت غیرمنصفانہ حکمت عملیاں اپنائی ہیں، اور ایسے افعال کیے ہیں جنھیں ان کے خودساختہ قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا۔ یہ سب امریکی معاشرے میں بالکل قابلِ قبول تھا، اور امریکی سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے ساتھ تھا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا امریکا بدل گیا۔ عوام اور عدلیہ دونوں نے یہی کہا کہ ’آخر ہم کیا سوچ کر ایسا کر رہے تھے؟‘ جنوبی افریقہ کی حکومت نے نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے اسے قیدحیات کی سزا سنائی تھی، لیکن وقت گزر گیا اور دنیا بدل گئی۔ انھیں احساس ہوا کہ ان کی پالیسی ظالمانہ تھی کیوں کہ دراصل وہ دہشت گرد نہیں تھا، اور اسے قید سے آزاد کر دیا گیا۔ وہ صدر بھی بن گیا۔ لہٰذا، ہر چیز ذہنیت سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی طرح’دہشت گردی‘ کا معاملہ بھی اور یہ بھی کہ کون ’دہشت گرد‘ ہے۔ یہ سب تو وقت اور مقام پر منحصر ہے، اور اس پر بھی کہ کون اس وقت ’عالمی قوت‘ ہے۔
آپ کی نظروں میں مَیں دہشت گرد ہوں اور صرف ایک مَیں ہی یہاں پر زرد لباس میں کھڑا ہوں۔ ایک دن امریکا بدل جائے گا اور لوگوں کو اس دن حقیقت کا احساس ہوگا۔ وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان غیرممالک میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اپاہج بنا دیے گئے۔ تاہم،میں ان لوگوں کا دفاع کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں۔ لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ کس طرح حکومت نے مجھے ’دہشت گرد‘ کی حیثیت سے قید رکھنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے۔ لیکن اگر ہم کسی طرح معصوم عراقی مسلمان بچی عبیرالجنی کو اس موقعے پر زندہ کر کے لاکھڑا کریں، جب وہ آپ کے فوجیوں کے ہاتھوں ذلیل ہو رہی تھی، اسے اس گواہی کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور اس سے پوچھیں کہ دہشت گرد کون ہیں، تو یقینا اس کا اشارہ میری طرف نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مجھ پر ’انتہاپسندی‘ کا بھوت سوارہے، ’امریکیوں کے قتل کا بھوت‘۔ لیکن اس دور میں رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے، میں اس سے زیادہ نفرت آمیز جھوٹ سوچ بھی نہیں سکتا۔
مترجم: ایم فل اسکالر، رفاہ یونی ورسٹی ، اسلام آباد