۱۶؍اگست ۲۰۱۵ء کو نمازِ فجر کے بعد خبریں سننے کے لیے ٹی وی کھولا تو پہلی خبر ہی جنرل حمیدگل کے انتقال کی تھی___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
موت برحق ہے۔ ہم سے رخصت ہونے والا یاددہانی کراتا ہے کہ آنے والی اصل زندگی کے لیے کچھ کر رکھنے کی فکر ہماری ہر فکرمندی پر غالب ہونی چاہیے۔ نیز رخصت ہونے والا جتنا عزیز، جتنا قریب اور جتنا عظیم ہوتا ہے اس سے جدائی کا دُکھ بھی اتنا ہی شدید، اتنا ہی گہرا اور قلب کو تڑپانے والا ہوتا ہے۔ جنرل حمیدگل عزیز ہی نہیں، عزیز جہاں بھی تھے۔ ان کا انتقال بلاشبہہ میرے لیے ایک بڑا ذاتی نقصان ہے لیکن مجھے علم ہے کہ یہ نقصان میرے جیسے ہزاروں انسانوں کا نقصان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور عالمِ اسلام کا نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ان کو اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے،ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کو جنت کے اعلیٰ مقامات سے نوازے۔ یہ بھی دُعا ہے کہ ان کی وفات سے پاکستان بلکہ عالمِ اسلام میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کے بھرنے کا انتظام فرمائے اور اس قوم کو وہ قیادت میسر آئے جس کا وژن ہر آلودگی سے پاک ہو، جس کی سیرت بے داغ ہو، جو عزم و ہمت کا پیکر ہو، جس کی منزل اور مشن اسلام کی سربلندی، پاکستان کے نظریاتی، سیاسی ، معاشی اور تہذیبی وجود کا استحکام ہو، اور جو ملت اسلامیہ کے لیے ایک روشن مستقبل کی تعمیروتشکیل کے لیے سرگرم ہو۔
جنرل حمیدگل سے میرا پہلا تعارف اس دن ہوا جب مارچ ۱۹۸۸ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں، جس میں جنیوا معاہدے پر بحث ہو رہی تھی، ان کو ارکانِ پارلیمنٹ کے سامنے افغان جہاد اور جنیوا معاہدے کے بارے میں بریفنگ کی دعوت دی گئی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ معاہدہ ہوجائے، اور وزارتِ خارجہ نے ایسی بریفنگ دی تھی جو تصویر کا ایک خاص رُخ پیش کر رہی تھی۔ آئی ایس آئی کے چیف کی حیثیت سے جنرل حمیدگل کو بریفنگ کی دعوت دی گئی اور وزیراعظم صاحب کی توقعات کے برعکس انھوں نے بڑے مضبوط دلائل سے اور بڑے اعتماد اور بڑی جرأت کے ساتھ اس معاہدے کا پوسٹ مارٹم کرڈالا اور تصویر کا وہ رُخ پیش کیا جسے چھپایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم اور ان کے وزیروں خصوصیت سے زین نورانی کے چہروں پر ایک رنگ آتا اور ایک رنگ جاتا۔ بالآخر جونیجو صاحب سے نہ رہا گیا اور بیچ میں مداخلت کر کے انھوں نے جنرل حمیدگل کو بات ختم کرنے کی ہدایت کی۔ جنرل حمیدگل نے کسی ناراضی کے بغیر بات کو ختم کردیا، لیکن ارکان پارلیمنٹ نے صاف محسوس کرلیا کہ ان کی زبان بندی کی گئی ہے۔ محترمہ سیّدہ عابدہ حسین میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان سے بھی رہا نہ گیا اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا کہ حالات کی یہ تصویر تو ہمارے سامنے آئی ہی نہ تھی! پارلیمنٹ میں مَیں نے اور حزبِ اختلاف کے دوسرے ارکان نے جنیوا معاہدے کی بھرپور مخالفت کی، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی راہداری میں سابق وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب علی نے بھی اپنے اضطراب کا اظہار کیا (وہ رکن نہ تھے اس لیے بحث میں شرکت نہیں کرسکتے تھے)۔ لیکن جونیجو صاحب نے وہ کیا جو امریکا چاہتا تھا اور اس طرح جہاد افغانستان کو de-rail کرنے (پٹڑی سے اُتارنے) اور افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے ایک جیتی ہوئی بازی کو ہار کی طرف دھکیلنے کا عمل شروع ہو گیا جس کے نتائج آج تک ہم اور پورا خطہ بھگت رہا ہے۔
جنرل حمیدگل نے سرکاری افسر ہوتے ہوئے وزیراعظم کی لائن سے ہٹ کر صحیح صحیح صورتِ حال پیش کر کے ایک تابناک مثال قائم کی___ اوریہیں سے میرے اور ان کے تعلقات کا آغاز ہوا۔ میں نے ان کی راے کی تائید کی، ان کی زبان بندی پر احتجاج کیا اور جنیوا معاہدے کو رد کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ پہلی ملاقات ایک اجتماع میں ہوئی تھی، جس میں مَیں نے سرعام ان کے تجزیے اور ان کی جرأت دونوں کو سراہا۔ جو تعلق ۱۹۸۸ء کی اس ملاقات میں بنا تھا، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا اور ذاتی دوستی اور اعتماد کے رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ الحمدللہ، ہمارے تعلقات ۲۷سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ بارہا میرے گھر اور میرے دفتر میں تشریف لائے۔ مجھے یاد ہے کہ کم از کم دو بار مَیں بھی ان کے گھر گیا او ان کے دیوان خانہ میں سجا ’دیوارِبرلن‘ کا ٹکڑا آج بھی یاد ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر ایک ماہ ہم ۱۹۹۳ء میں کابل میں تقریباً ساتھ رہے۔ گو ہمارا قیام دو مختلف جگہوں پر تھا، مگر ہم روزانہ ہی ملتے رہے اور مجاہدین کے متحارب گروہوں کو ایک متفقہ لائحہ عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے رفیق کار رہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ گو ہم (یعنی جماعت اسلامی کا وفد جس کی قیادت محترم قاضی حسین احمد کر رہے تھے اور جس میں مولانا جان محمد عباسی، مولانا عبدالحق بلوچ، پروفیسر ابراہیم، برادرم خلیل حامدی اور مَیں شامل تھے) افغانستان کے صدر پروفیسر ربانی کے مہمان تھے اور جنرل حمیدگل ایک دوسرے مہمان خانے میں ٹھیرے ہوئے تھے، لیکن دن کا بڑا حصہ ہمارے ہی ساتھ گزرتا تھا، جس میں بار بار پروفیسر ربانی، احمد شاہ مسعود، پروفیسر سیاف اور حکمت یار (جن کا کیمپ (base) کوئی ۲۱ کلومیٹر دُور تھا) سے مشترکہ اور الگ الگ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ جنرل حمیدگل کے پسندیدہ مجاہد گلبدین حکمت یار تھے اور یہی بات جماعت اسلامی کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے، اس میں اتنی صداقت تو ضرور ہے کہ وہ اور ہم سب گلبدین حکمت یار کی دل سے قدر کرتے تھے اور کرتے ہیں اور حزبِ اسلامی کے جو حقیقی اثرات تھے ان کا ادراک رکھتے تھے، مگر اس بات میں قطعاً کوئی صداقت نہیں کہ جنرل صاحب یا ہم کسی ایک کے ساتھ بریکٹ (bracket) تھے۔ پروفیسر ربانی کے تو ہم مہمان ہی تھے، احمد شاہ مسعود سے بھی بڑے اچھے تعلقات تھے اور ہر روز ہی بات چیت ہوتی تھی۔ میں شاہد ہوں کہ جنرل حمیدگل کو سب کا اعتماد حاصل تھا۔ اُس پورے مہینے میں مَیں نے خود دیکھا کہ سب مجاہد رہنما ان کی عزت کرتے تھے ، ان کی بات کو وزن دیتے تھے اور ان سے تعلقات میں کوئی شائبہ بھی اس کا نہیں تھا کہ وہ انھیں کسی ایک کا سرپرست سمجھتے ہوں۔ جب بھی حکمت یار صاحب کے بارے میں میری ان سے بات ہوئی تو انھوں نے ہمیشہ اپنے اتفاق اور اختلاف دونوں کا اظہار کیا، البتہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ میں زمینی حقائق سے واقف ہوں کہ کس کی کتنی قوت ہے اور کس کے کیا اہداف ہیں!
جنرل حمیدگل ۲۰نومبر ۱۹۳۶ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان سوات سے کوئی ۱۰۰برس پہلے پنجاب منتقل ہوا تھا لیکن ان کے گھرانے میں پشتون اور پنجابی دونوں روایات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ۱۹۵۶ء میں فوج میں ان کا کمیشن ہوا اور وہ اپنی خداداد صلاحیت اور غیرمعمولی فکری اور پروفیشنل خدمات کی بنا پر تیزی سے بلندی کے مراحل طے کرتے ہوئے کورکمانڈر، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور ڈی جی، آئی ایس آئی کے مناصب پر فائز ہوئے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دورِ حکومت میں ان کو ۱۹۸۹ء میں آئی ایس آئی سے ملتان کور کی کمانڈ کے لیے منتقل کردیا گیا اور پھر ۱۹۹۲ء میں اس وقت کے چیف آف اسٹاف نے ان کو ٹیکسلا ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں منتقل کرنے کی کوشش کی، مگر جنرل گل نے معذرت کی اور فوج سے رخصت ہوگئے۔ بلاشبہہ انھوں نے اس وقت کی سیاسی قیادت کی ناقدری کے باعث ۱۹۹۲ء میں وردی اُتار دی لیکن جو حلف فوج میں داخل ہوتے وقت لیا تھا، اسے زندگی کے آخری لمحے تک نبھایا۔ پاکستان اور اسلام ان کی زندگی کا محور اور ان کے عشق کا مرکز تھے۔ اپنے ۲۷سالہ تعلق کی بنیاد پر مَیں شہادت دے سکتا ہوں کہ انھوں نے جو عہد اپنے اللہ سے کیا تھا اسے پورا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ چھوڑی۔
جنرل حمیدگل کو میں نے ایک بہت باخبر فرد پایا۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور ان کی فکر بہت بیدار تھی۔ اقبال کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ مولانا مودودی کی بھی بیش تر کتب کا مطالعہ وہ کرچکے تھے۔ مغربی فکر اور خصوصیت سے عسکری اور بین الاقوامی اُمور پر ان کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر تھے۔ پھر ان کے روابط اتنے وسیع اور اتنے کثیرالجہت تھے کہ تعجب ہوتا ہے کہ ایک انسان ۲۴گھنٹے میں اتنا کچھ کیسے کرلیتا ہے۔ اہلِ خانہ کو بھی وہ وقت دیتے تھے، اہلِ محلہ سے بھی ان کے روابط گہرے تھے، فوجیوں اور سابق فوجیوں میں بھی بڑے متحرک تھے۔ دوستوں کے وہ دوست تھے لیکن مخالفین سے بھی میل ملاپ رکھتے تھے۔ میڈیا سے بھی ان کی راہ و رسم معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ دینی اور سیاسی حلقوں میں بھی ان کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ سفارت کاروں اور غیرملکی صحافیوں اور سیاست کاروں کا بھی ان کی طرف رجوع رہتا تھا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ؎
ایک دل ہے اور ہنگامہ حوادث اے جگر
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں مَیں
میں نے جنرل حمیدگل کو ایک اچھا انسان، ایک محب ِ وطن پاکستانی، اسلام کا ایک شیدائی اُمتی، ایک پیشہ ور فوجی اور کامیاب جرنیل اور ایک بالغ نظر دانش ور پایا۔ ان کو اپنی بات پر بڑا اعتماد ہوتا تھااور انھیں اپنی بات کہنے کا بڑا سلیقہ آتا تھا۔ میں نے ان کو اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا کرتے نہیں دیکھا۔ وہ اپنی بات بڑے محکم انداز میں اور بڑی جرأت کے ساتھ بیان کرتے تھے لیکن دوسرے کی بات کو اختلاف کے باوجود سننے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے اور سلیقے سے رد کرنے کا بھی۔ میں نے انھیں دوسروں کی تحقیر کرتے نہیں دیکھا۔ یہ ان کی شخصیت کا بڑا دل فریب پہلو تھا۔
الحمدللہ، جنرل حمیدگل نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور زندگی کے آخری لمحے تک وہ متحرک رہے اور اُس مقصد کی خدمت میں مصروف رہے جسے انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنایا تھا۔ بلاشبہہ پاکستان کی تاریخ میں ان کا ایک مقام ہے اور کم ظرفی کے اس سارے مظاہرے کے باوجود جو اُن کے ناقدین نے ان کی زندگی ہی میں نہیں ان کے انتقال کے بعد بھی کیا ہے، ان کی خدمات اَنمٹ ہیں اور مدتوں یاد رہیں گی۔ ان کی وفات سے جہاں ہرکسی نے کچھ نہ کچھ کھویا ہے، مَیں محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک مخلص دوست اور ساتھی سے محروم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے، آمین!
جنرل حمیدگل ان لوگوں میں سے تھے جو فکری یکسوئی کی اعلیٰ ترین مثال ہوتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں بھی بڑی ہم آہنگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ذات، سیاسی رجحانات اور ان کی تزویراتی فکر کے بارے میں تو اختلافی آرا کا اظہار ہوا ہے، لیکن ان کی دیانت اور ان کے کردار کے بارے میں کسی کو انگشت نمائی کی جرأت نہیں ہوئی۔ انھوں نے ایک صاف زندگی گزاری جس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کرتے ہیں۔ امریکا کی نگاہ میں وہ ایک کانٹا تھے اور امریکی سیاست دان، سفارت کار اور صحافی ان پر تیراندازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے لیکن ان کی وفات پر جو اطلاعاتی شذرہ انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز (۱۶؍اگست ۲۰۱۵ئ) میں شائع ہوا ہے اور جس میں ان کی تزویراتی فکر پر اعتراضات کیے گئے ہیں اور انھیں سیاسی طور پر ایک متنازع فیہ شخصیت کہا گیا ہے ،مگر وہاں بھی وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ :
ان کے گرد سیاسی اور دہشت گردی سے متعلق تنازعات کی کثرت کے باوجود ان پر کبھی بھی معمولی سی اخلاقی یا مالی بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا گیا۔
جنرل حمیدگل اپنی وفات کے بعد بھی ان شاء اللہ زندہ رہیں گے اور پاکستان اور اسلام کی سربلندی کے لیے جو جدوجہد انھوں نے کی وہ جاری و ساری رہے گی اور ظلمت کی یہ شام ان شاء اللہ ختم ہوگی۔