مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۱۵

قومی زندگی میں بجٹ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ یہ ایسی دستاویز ہے جو ایک طرف حکومت کی پچھلے ایک سال کی آمدنی اور اخراجات اور آیندہ سال کے پورے مالی دروبست کا میزانیہ ہوتی ہے، تو دوسری طرف اس کی اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک ایسا آئینہ ہوتا ہے جس میں ملک کو درپیش حقیقی معاشی مسائل اور چیلنجوں کی صحیح تصویر قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے آتی ہے۔ اس میں وہ پورا نقشۂ کار بھی سامنے آجاتا ہے، جو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کے پیش نظر ہوتا ہے۔ گویا حقیقت اور وژن دونوں ہی کا عکس اس میں دیکھا جاسکتا ہے۔

بجٹ: معاشی ترقی کا آئینہ

قوم اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ درج ذیل پہلوئوں سے بجٹ کا جائزہ لینے کا اہتمام کرے:

اوّلاً: یہ حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کا بے لاگ جائزہ لینے کا بہترین موقع ہوتا ہے جس کی روشنی میں دیانت اور انصاف کے ساتھ حکومت اور معیشت دونوں کی کارکردگی کے مثبت اور منفی پہلوئوں کو متعین کرنا چاہیے۔ ان کی روشنی میں مستقبل کے لیے جو سبق سیکھا جاسکتا ہے، اس کی بھی واضح الفاظ میں نشان دہی ہونی چاہیے۔ حکومت کو خود بھی یہ کام کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ اور قوم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ خدمت انجام دے۔ اس کا مقصد محض ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا نہیں بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ ملک اور قوم کے وسائل کو عوام کی حقیقی بہبود کے لیے کس طرح خرچ کیا جائے اور اس سلسلے میں بہتر سے بہتر کی نشان دہی کی جانی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن، سرکاری ادارے اور سول سوسائٹی، دانش ور اور میڈیا، سب کی ذمہ داری ہے کہ اس بجٹ کے موقعے پر اس جائزے اور احتساب کے عمل میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

ثانیاً: مسئلہ محض ایک سال کی کارکردگی کا نہیں بلکہ معیشت کے باب میں حکومت کی بنیادی حکمت عملی کے تعین اور پھر اس حکمت عملی کوعملی جامہ پہنانے کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں، ترجیحات، ان پر عمل کے لیے وسائل کے حصول اور ان کے صحیح استعمال کے واضح نقشۂ کار کا تعین اور ان کا تنقیدی جائزہ ہے، تاکہ ملک صحیح سمت میں ترقی کرے اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاسکے۔

ان دونوں مقاصد کا حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بجٹ اور اس پر بحث کو محض   ان چند دنوں کی بحث اور منظوری کا قصّہ نہ سمجھا جائے، بلکہ بجٹ پر سوچ بچار کا عمل ہرمرحلے میں، اس پر پارلیمنٹ میں بحث اور منظوری کے دوران، اور منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد کے پورے عمل میں جاری و ساری رہنا چاہیے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بجٹ کو محض چند دنوں کا ایک تماشا سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ دنیا کے جمہوری ممالک میں بجٹ اور اس کا جائزہ پورے سال پر پھیلا ہوا ایک مسلسل عمل ہے۔ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں پورے سال معاشی اور مالی امور کے باب میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ بجٹ سازی صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ اس میں معیشت و معاشرت کے تمام ہی کردار (اسٹیک ہولڈرز) دیانت داری سے اپنا اپنا حصہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کمیٹیاں اور سول سوسائٹی کے ذمہ دار ادارے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور حکومت کو اپنا نتیجۂ فکر فراہم کرتے رہتے ہیں۔ نصف سے زیادہ ممالک میں پارلیمنٹ بجٹ پر بحث کے لیے دو سے چار مہینے صرف کرتی ہیں اور اس طرح بجٹ کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کم سے کم ۴۵دن سے لے کر چارمہینے تک وقف کرتی ہے، جب کہ ہمارے ملک میں اسے چند دن میں نمٹا دیا جاتا ہے۔ اس سال ۵جون کو بجٹ پیش ہوا ہے اور ۲۳ جون کو اسے منظور کرلیا گیا۔ گویا ۱۸دن میں اور اگر چھٹی کے دن نکال دیے جائیں تو صرف ۱۴ دن میں بجٹ کا ہرمرحلہ پورا ہوگیا۔ یہ بجٹ اور قوم دونوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ پاکستان کا سینیٹ کم از کم پچھلے سات سال سے برابر یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ بجٹ پر بحث کے دورانیے کو بڑھایا جائے، بجٹ سازی کے ہرمرحلے میں پارلیمنٹ اور عوام کو شریکِ کار بنایا جائے، سالانہ معاشی سروے بجٹ سے محض ۲۴گھنٹے پہلے شائع نہ کیا جائے، بلکہ کم از کم دو ہفتے پہلے آئے، تاکہ اس کی روشنی میں بجٹ کا جائزہ لیا جاسکے۔ ہندستان میں بجٹ پر ۴۵ دن بحث لازمی ہے، برطانیہ میں اس عمل میں چار مہینے لگتے ہیں، امریکا میں یہ عمل پورے سال اور کانگریس کے دونوں ایوانوں میں جاری رہتا ہے۔ خصوصیت سے ’تخصیصی کمیٹی‘ (Appropriation Committee) کا کردار مستقل اور مسلسل ہے اور ایک ایک سرکاری خرچ کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے۔

اسی طرح ’ضمنی بجٹ‘ کا معاملہ بھی فیصلہ طلب ہے۔ سینیٹ نے اس کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور موجودہ وزیرخزانہ جب اپوزیشن میں تھے تو یہ بھی ہماری طرح اس کے بڑے ناقد تھے۔ ان سے توقع تھی کہ وہ پارلیمنٹ کے حقوق پر شب خون مارنے کے اس مسلسل عمل کو ہمیشہ کے لیے روکنے میں کردار ادا کریں گے۔ لیکن ان کے حالیہ اور سابقہ بجٹ میں وہی پرانی کہانی دہرائی گئی ہے اور اس سال (۱۵-۲۰۱۴ئ) یہ رقم ۱۴-۲۰۱۳ء کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہوگئی ہے، یعنی   ۲۰۵؍ارب روپے، جو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر بجٹ سے بالابالا خرچ کیے گئے اور بعد از خرچ اب ان کی منظوری کی محض کاغذی کارروائی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ان ۲۰۵؍ارب روپے میں بلامنظوری اخراجات میں صرف ضابطے کی تبدیلیوں (technical reallocation) کا تعلق ۶۷؍ارب روپے سے ہے، جب کہ ۱۳۸؍ارب روپے ان مدات پر خرچ ہوئے ہیں، جن پر کوئی خرچ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتا اور جنھیں ’نئی تجاویز‘ (fresh allocations)  کہا جاتا ہے ۔ جب ان تفصیلات پر نگاہ ڈالی جائے جو ان ’غیرمعمولی اہمیت‘ کے حامل نادیدہ مصارف کی رپورٹ میں بیان کرنی پڑی ہیں، تو انسان کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ ان میں VVIP جہاز پر ۱۳کروڑ ۴۰لاکھ روپے اور ۳۵لگژری گاڑیوں کی مد میں ۲۰کروڑ ۵۰لاکھ روپے پھونک دیے گئے ہیں۔ یہ اضافی مطالباتِ زر (ضمنی بجٹ) ایک ناقابلِ معافی زیادتی ہیں جس کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔

بجٹ پر بحث کے دوران اگر حکومت اور اس کے اتحادیوں نے عجلت کے ساتھ اور آنکھیں  بند کرکے اسے منظور کر کے قوم اور ملک کے ساتھ انصاف نہیں کیا، تو وہیں پر اپوزیشن کی جماعتیں بھی جواب دہ ہیں کہ جنھوں نے فیصلہ کن مراحل پر بحث میں عدم شرکت اور بائیکاٹ کا راستہ اختیار کرکے، اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا نہیں کی۔ البتہ جہاں ہم اپوزیشن کے اس رویے پر تنقید کر رہے ہیں، وہیں اس امر کا اعتراف بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کم از کم دو جماعتوں نے بجٹ تجاویز بڑے مرتب انداز میں پیش کیں۔ تحریکِ انصاف نے متبادل بجٹ پیش کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی پاکستان کے امیر اور سیکرٹری جنرل نے بجٹ سے پہلے بجٹ کے لیے مثبت تجاویز پیش کیں۔ اخبارات اور میڈیا میں بھی اچھی بحث ہوئی اور آزاد تحقیقی اداروں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ خصوصیت سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے بجٹ سے پہلے بھی اپنی تجاویز پیش کیں اور بجٹ کے آنے کے بعد اس پر بھی اپنا مبسوط تجزیہ پیش کیا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ بجٹ سازی میں تمام اسٹیک ہولڈرز اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

معاشی ترقی کا حکومتی دعویٰ

۱۶-۲۰۱۵ء کا بجٹ مسلم لیگ (ن)کی مرکزی حکومت کا تیسرا بجٹ تھا۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے گذشتہ دو سال میں معیشت کو دیوالیہ ہونے کے بحران سے نکال کر بڑے پیمانے پر استحکام (macro stabilization) کی راہ پر ڈال دیا ہے اور اب وہ معاشی ترقی کی سمت بڑی جست لگانے کی پوزیشن میں ہے۔ بجٹ میں وزیرخزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اب وہ معاشی ترقی کے لیے فیصلہ کن اقدام کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو اگر حقائق پر مبنی ہو تو بہت خوش آیند ہے، لیکن اگر حقائق کوئی اور تصویر پیش کر رہے ہوں تو یہ ایک خطرناک مغالطہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے بجٹ، اس کے وسائل اور تجاویز کی روشنی میں اس دعوے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

گذشتہ بجٹ جسے استحکام کی راہ ہموار کرنے والی دستاویز قرار دیا گیا تھا، اس میں ۱۵اہداف سامنے رکھے گئے تھے۔ سالانہ معاشی دستاویزات کی روشنی میں جو حقیقت سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ان ۱۵ میں سے صرف چار ایسے ہیں، جن میں حکومت اپنے اہداف حاصل کرسکی ہے۔ بیرونی ذخائر ۱۷؍ارب ڈالر کی حد پار کرگئے ہیں، جو ایک اچھی خبر ہے۔ افراطِ زر کی شرح کے بارے میں دعویٰ ہے کہ ۸ فی صد سے کم ہوکر ۸ئ۴ فی صد پر آگئی ہے۔ ٹیکس کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی بھی اپنے ہدف کے قریب پہنچ گئی ہے اور ’ٹیکسوں سے بالا سرکاری آمدنی‘ ( non-tax revenue) میں ہدف سے تقریباً ۲۵ فی صد اضافے نے مجموعی محصولات کی پوزیشن مثبت کردی ہے۔

تصویر کے اس مثبت پہلو کے ساتھ منفی پہلو کا ادراک بھی ضروری ہے: معیشت کی شرح نمو (growth rate) جسے ۱۴-۲۰۱۳ء کے ۴ فی صد سالانہ کے مقابلے میں ۱ئ۵ فی صد ہونا تھا، وہ صرف ۲ئ۴ فی صد ہوسکی، یعنی ہدف سے ۲۵ فی صد کم۔ زراعت میں ترقی کی رفتار مایوس کن رہی، یعنی چار فی صد کے ہدف کے مقابلے میں صرف ۹ئ۲ فی صد۔مویشیوں کی افزایش (livestock) کے باب میں غیرمعمولی اضافے (یعنی ۷ فی صد) کی وجہ سے مجموعی پیداوار میں اضافے کا سراب رُونما ہوا۔ حکومت کے انتظامی اخراجات ہدف سے زیادہ اور ترقیاتی اخراجات میں کمی واقع ہوئی جس سے محصولاتی خسارہ بڑھ گیا۔ یہی معاملہ تجارتی خسارے کا رہا کہ درآمدات اور برآمدات کا فرق آسمان کو چھو رہا ہے۔ برآمدات میں ۴ فی صد کمی ہوئی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں نصف سے زیادہ کی کمی کے باوجود درآمدات میں خاطرخواہ کمی نہیں ہوئی۔ اگر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات میں نمایاں اضافہ نہ ہوتا اور ۳-جی اور ۴-جی کی فروخت سے’اندھی آمدنی‘ (windfall income)  نہ ہوتی تو ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہوتا۔ زراعت کی طرح سب سے پریشان کن صورت حال صنعت کی ہے ۔ بڑے پیمانے کی صنعت (LSM) اپنے ہدف کا نصف بھی حاصل نہیں کرسکی جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں ۳۰ فی صد کمی ہوئی اور اس کی وجہ سے ۲۰لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ اس پر مستزاد وہ اضافہ ہے، جو ہرسال محنت کاروں (labour force) میں آبادی کے اضافے کی وجہ سے ہو رہا ہے، یعنی تقریباً ۱۸لاکھ افراد سالانہ۔ بیرونی سرمایہ کاری گذشتہ ۱۵ سال کے مقابلے میں اس سال سب سے کم رہی ہے، یعنی اب ۸۰۰ ملین ڈالر کے پھیرے میں آگئی ہے، جو سالِ گذشتہ کی تقریباً نصف ہے۔ اور اگر اس کا مقابلہ اس رقم سے کیا جائے، جو غیرملکی سرمایہ کارسابقہ سرمایہ کاری کے منافعے کے طور پر سالانہ ملک سے باہر لے جاتے ہیں، تو اس سال کی سرمایہ کاری، منافع کی منتقلی سے جو ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے، سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ اگر اس کے ساتھ پاکستانی سرمایے کی غیرممالک میں منتقلی کو بھی شامل کرلیا جائے، جو ایک باخبر اندازے کے مطابق ۲۰؍ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے، تو بڑی ہی بھیانک تصویر سامنے آتی ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دو سال استحکام کے ہدف کے حصول کے لیے وقف کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد استحکام (stabilization)کی یہ پالیسی حکومت سے زیادہ ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ کی پالیسی ہے۔ اس پالیسی پر پچھلے دو سال نہیں، سات سال سے عمل ہو رہا ہے۔ اس کے موجودہ دور کا آغاز پیپلزپارٹی کی گذشتہ حکومت نے کیا تھا اور موجودہ حکومت نے ماضی کی حکومت سے کچھ زیادہ ہی مستعدی سے اس پر عمل کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سات برسوں میں بھی ہم معاشی استحکام حاصل نہیں کرسکے۔ ملک کا پیداواری عمل سخت جمود کا شکار ہے۔ زراعت اور صنعت دونوں ہی کی حالت دگرگوں ہے۔ صرف مالیاتی سیکٹر اور سروسز سیکٹر متحرک اور نفع بخش ہیں، جن کے نتیجے میں امیرامیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران ملک اس صورت حال سے دوچار تھا، جسے معاشیات کے ماہر stagflation کہتے ہیں، یعنی معیشت میں جمود اور ملک میں افراطِ زر ۔ ان دوسال میں ہم ’افراطِ زر کے ساتھ معاشی جمود‘ سے تو نکلے ہیں، لیکن ایک دوسری دلدل میں دھنس گئے ہیں، جسے Low-growth trap  (پیداوار میں سُست روی کا جال)کہا جاتا ہے۔ حکومت نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اور جس پر ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ اور عالمی ادارے تعریفوں کے ڈونگرے برسا رہے ہیں، وہ اس دلدل سے نہیں نکال سکتی۔ اس کے نتیجے میں تو قرضوں کا بار بڑھتا ہی رہے گا اور ماضی کے قرض ادا کرنے کے لیے نئے قرض لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا، جو کسی صورت قابلِ برداشت (sustainable ) نہیں ہے۔

ہماری قرضوں کی غلامی کی کیفیت یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے ۲۰۰۱ء تک ۵۴برسوں میں قرض کا بار ملک پر ۳۱۷۲؍ارب روپے تھا جو جنرل پرویز مشرف دورِ حکومت میں بڑھ کر ۲۰۰۸ء تک دوگنا ہوگیا، یعنی ۶۱۲۶؍ارب روپے۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سال کے تحفے کے طور پر یہ قرض بڑھ کر ۱۴ہزار۲سو۹۳ ؍ارب روپے ہوگیا۔ اب مسلم لیگ حکومت کا عطیہ یہ ہے کہ مجموعی قرض ۱۶ہزار۹سو۳۶؍ارب روپے ہے۔ ان سوا دو سال میں تقریباً تین ہزار ارب کا اضافہ ہوگیا ہے اور آج صرف سود کی ادایگی حکومت کے مصارف میں سرفہرست ہے، یعنی سرکاری مصارف کا تقریباً ۳۱فی صد، جو اَب دفاعی مصارف سے بھی ۵۰ فی صد زیادہ ہے، اور اگلے سال ۱۲۸۰ ؍ارب روپے صرف سود کی ادایگیوں کے لیے درکار ہیں۔ پاکستان کا ہربچہ، جوان اور بوڑھا ایک لاکھ تین ہزارروپے فی کس کا مقروض ہے۔ نیز حکومت ۲۰۰۵ء کے قرضوں کی حد پر پابندی کے قانون کی بھی مسلسل خلاف ورزی کرر ہی ہے اور پارلیمنٹ اور عدالتیں سب ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ’معاشی استحکام‘ کا نہیں ’دائمی معاشی عدم استحکام‘ کا راستہ ہے، اور حکومت کا حال یہ ہے کہ  

زہر دے ، اس پہ یہ اصرار کہ پینا ہوگا

درپیش معاشی چیلنج

حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ: انتظامی اخراجات میں کمی کرے گی، کفایت شعاری کی روش اختیار کرے گی اور ملک میں اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگی اور خود وزیراعظم اس کی پہلی مثال قائم کریں گے‘‘۔ وزیرخزانہ نے بجٹ کی تقریر میں بڑے واضح الفاظ میں فرمایا تھا:’’وزیراعظم صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ اس عمل کا آغاز وہ اپنے دفتر سے کریں گے‘‘۔

۱۳-۲۰۱۲ء میں وزیراعظم کے آفس کا بجٹ ۷۲ کروڑ ۵۰ لاکھ روپے تھا، جسے ۱۴-۲۰۱۳ء کے لیے ۴۵ فی صد کم کر کے بجٹ میں ۳۹کروڑ۶۰ لاکھ پر رکھا گیا۔ لیکن عمل کی کیفیت کیا رہی؟ ۱۴-۲۰۱۳ء کا ترمیم شدہ بجٹ ۷۵ کروڑ ۵۰لاکھ تھا جو ۱۵-۲۰۱۴ء میں بڑھ کر ۸۰ کروڑ ۱۰ لاکھ ہوگیا اور اب ۱۶-۲۰۱۵ء کے بجٹ میں ۸۴کروڑ ۲۰لاکھ مقرر کیا گیا ہے۔ نیز خبر ہے کہ ایک ارب روپے اس کے علاوہ ہیں، جو گذشتہ سال میں وزیراعظم کے دفتر کو فراہم کیے گئے ہیں، مگر اس کی تصدیق کرنے کے باوجود کہ ایسا ہوا ہے، بجٹ کی دستاویزات میں اس کا ذکر نہیں (ایکسپریس ٹریبیون، ۶جون ۲۰۱۵ئ)۔اس طرح وزیراعظم آفس کے روزانہ اخراجات ۲ لاکھ ۷۴ہزار روپے بنتے ہیں۔ دوسری طرف ایوانِ صدر کے اخراجات ۷۴کروڑ ۳۴ لاکھ تھے، جنھیں نظرثانی شدہ بجٹ میں ۷۴کروڑ۹۲لاکھ کردیا گیا اور اب تازہ بجٹ میں بڑھا کر ۸۰کروڑ ۱۰لاکھ تک پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔

بدقسمتی سے شاہ خرچیوں کا بازار ہر شعبۂ زندگی میں گرم ہے۔ اور اچھی حکمرانی کا کہیں وجود نہیں۔شخصی پسند و ناپسند کی بنیاد پر پورا کاروبارِ حکومت تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا گیا ہے۔  حیرت کی بات ہے کہ ملک کو ہمہ وقتی وزیرقانون، وزیردفاع، وزیرخارجہ میسر نہیں۔ ۵۰ سے زیادہ اہم سرکاری عہدوں اور اداروں کے سربراہ یا ڈائرکٹرز میں سے عدالت عظمیٰ کے حکم پر صرف دوچار جگہ تقرریاں ہوئی ہیں، باقی سب خالی پڑی ہیں۔ خالص ٹیکنیکل وزارتوں اور عہدوں پر ایسے لوگوں کا تقرر کیا گیا ہے، جنھیں متعلقہ فن کی ہوا بھی نہیں لگی۔ کرپشن کا دوردورہ ہے اور میڈیا اور عدالتوں میں ایک سے ایک بڑا اسکینڈل ہر روز سامنے آرہا ہے، مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔

وزیرخزانہ صاحب بڑے فخریہ انداز میں عددی، اسٹینڈرڈ اینڈ یوور، وال اسٹریٹ جرنل اور دی اکانومسٹ کے مثبت تبصرے بیان کرتے نہیں تھکتے، لیکن اس سوال کا کوئی جواب دینے کو تیار نہیں کہ اگر یہ سب سبز باغ ارضِ وطن کو آراستہ کرچکے ہیں تو ملک میں غربت ۵۰ فی صد سے زیادہ کیوں ہے؟ اور یہ بھی عالمی بنک ہی کی رپورٹ ہے کہ ۹کروڑ سے زیادہ افراد آج غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور آبادی کا ۲۰ فی صد اس کس مپرسی کے عالم میں ہے، جسے شدید غربت اور موت و حیات کی کش مکش کہا جاتا ہے۔

عالمی بنک ہی کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا ۶ئ۳۱ فی صد کم خوراکی  اور ’کسرِ وزن ‘ (under weight)کا شکار ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات اور زچہ کی شرحِ اموات میں پاکستان عالمی برادری میں پست ترین سطح پر ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں ہم دنیا کے ۱۸۷ ممالک میں ۱۴۴ ویں مقام پر ہیں۔ ۲کروڑ ۵۰لاکھ بچے ایسے ہیں، جو اسکول جانے کی عمر میں ہیں لیکن تعلیم سے یکسر محروم ہیں اور جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا کیا حال ہے___ یہ ایک دوسری دل خراش داستان ہے  ع     تن ہمہ داغ داغ شد ،  پنبہ کجا کجا بہم۔

حکومت خوش ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ ایک معما ہے کہ ملک کا پیداواری سیکٹر سکڑ رہا ہے، برآمدات کم ہو رہی ہیں، ٹیکسٹائل صنعت جو کبھی ہمارا طرئہ امتیاز تھی، آج زبوں حالی کا شکار ہے ۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات ،پاکستان کی برآمدات سے دوگنی ہوگئی ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری میں کمی ہورہی ہے۔ گذشتہ سال نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں ۳۰ فی صد کمی ہوئی ہے لیکن اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ یہ صرف سٹے کی وجہ سے ہی ممکن ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امیر طبقہ روپے سے روپے ڈھال رہا ہے اور ملک کی معیشت اور عام آدمی اس بہتی گنگا سے کوئی حصہ نہیں پارہے۔ ۲۰ فی صد متوسط طبقہ اور خصوصیت سے اشرافیہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور عام آدمی دوقت کی روٹی سے محروم ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں، شادی ہالوں، اُونچے طبقے کے خریداری کے مراکز پر نظر ڈالیے، قیمتی گاڑیوں کے کاروانوں کو دیکھیے، شہروں میں محلات کی اُگلتی فصلوں پر نگاہ ڈالیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف فراوانی ہی فراوانی ہے۔ لیکن اگر آبادی کے نصف سے زیادہ کے حالات کو دیکھیے تو آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں۔ ملک میں عدم مساوات بڑھ رہی ہے ۔ ایک حالیہ سرکاری رپورٹ Household Integrated Economic Survey کے مطابق ملک میں ۵۰ لاکھ افراد ایسے ہیں، جن کی خاندانی آمدنی ۱۵لاکھ سالانہ سے زیادہ ہے۔ لیکن انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد صرف ۸لاکھ ہے۔ دوسری طرف ۴۷ فی صد آبادی وہ ہے جس کی روزانہ آمدنی ۲۰۰ روپے سے بھی کم ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں کہ بھوک کی بناپر کوئی موت واقع ہوئی ہو، یا کسی نے اس کی وجہ سے خودکشی کی ہو۔ لیکن آج پاکستان میں یہ مثالیں بھی رُونما ہورہی ہیں اور بڑھ رہی ہیں۔

کیا بجٹ میں ان حالات کا کوئی حقیقی ادراک موجود ہے؟ کیا حکومت نے کوئی ایسی حکمت عملی بنائی ہے، جس سے ملک ایسی معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے، یا جس میں ملک کے وسائل سے عام آدمی مستفید ہوسکے؟ اس کی زندگی میں تبدیلی آسکے، اسے روزگار میسر آسکے، وہ اپنی ضروریاتِ زندگی عزت کے ساتھ پوری کرسکے؟اس کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں، اس کے سر پر چھت اور پیٹ میں روٹی ہو۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے اس تیسرے بجٹ میں کوئی جھلک ایک حقیقی تبدیلی کی نظر نہیں آتی۔ نہ معاشی ترقی کا کوئی ایسا واضح تصور سامنے آتا ہے جو معاشی اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہو۔ جس میں قوم ترقی اور خودانحصاری کے راستے پر گامزن ہوسکے، جس کے نتیجے کے طور پر عام افراد کی زندگی میں خوش حالی رُونما ہوسکے۔ جو دولت کی منصفانہ تقسیم اور ملک کے تمام علاقوں، خصوصیت سے پس ماندہ علاقوں، طبقوں کو شادکام کرسکے۔

وزیرخزانہ نے اگلے سال کے لیے ۵ فی صد شرحِ نمو کی بات کی ہے اور ۲۰۱۸ء تک   ۷فی صد پر لے جانے کی خوش خبری دی ہے۔ لیکن لبرل سرمایہ دارانہ معیشت کا جو راستہ یہ حکومت  آئی ایم ایف، عالمی بنک اور عالمی مالیاتی اداروں کی خواہش کے مطابق اختیار کیے ہوئے ہے،  اس کے نتیجے میں ہمیں دُور دُور تیزرفتار، مستحکم اور منصفانہ ترقی کے وقوع پذیر ہونے کے کوئی آثار  نظر نہیں آتے۔ معیشت کو حقیقی ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ بیرونی اور اندرونی قرضوں کے چنگل سے نکلا جائے اور ملک کے اپنے وسائل کو دیانت اور محنت کے ساتھ بروے کار لایا جائے۔ اس کے لیے قیادت کو فکری اور اخلاقی دونوں اعتبار سے ایک اعلیٰ مثال قائم کرنی ہوگی۔ ملک میں وسائل کی کمی نہیں ہے، ضرورت صحیح قیادت، صحیح منصوبہ بندی، اچھی حکمرانی اور سب سے بڑھ کر معاشی ترقی کے اس عمل میں پوری قوم کو، خصوصیت سے اس کے نوجوانوں کی شرکت کو   عملی صورت دینے کی ہے۔ اس قوم میں بڑی صلاحیت ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ قیادت مفقود ہے جو اس صلاحیت کو بیدار اور منظم کرسکے۔ ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے موقعے پر سب نے دیکھا کہ کس طرح خیبر سے کراچی تک قوم کے ہر طبقے اور خصوصیت سے نوجوانوں نے آفاتِ سماوی کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی اور خدمت کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ کیا قوم کی اس صلاحیت کو آزادی کی حفاظت اور ایک خوش حال اسلامی پاکستان کی تعمیر کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا؟

مسلم لیگ کا منشور اور حقائق

مسلم لیگ (ن)نے اپنے ۲۰۱۳ء کے منشور میں ’مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان‘ کا خواب دکھایا تھا اور ’ہم بدلیں گے پاکستان‘ کا جھنڈا لے کر قوم کو تعاون و تائید کے لیے پکارا تھا۔ اس میں جس منزل کو اپنی منزل قرار دیا گیا تھا وہ ’خوددار، خوش حال، خودمختار پاکستان‘ تھا۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ:

ہم وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور کفایت کی مہم کا آغاز کریں گے، خاص طور پر صدر، وزیراعظم، گورنر اور وزراے اعلیٰ سے متعلق اخراجات غیرمعمولی طور پر کم کیے جائیں گے۔

  • منشور کے چند اہم نکات کو ذہنوں میں تازہ کرنا ضروری ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان دو سال اور تین بجٹوں میں قوم اس منزل کی طرف بڑھی ہے یا ساری دوڑ دھوپ اسی پرانی ڈگر پر رہی ہے جس سے نجات کے لیے قوم سے مینڈیٹ لیا گیا تھا:
  •  تمام آمدنی پر ٹیکس لگانا، اور براہِ راست ٹیکس پر انحصار بڑھا کر ٹیکس سے آمدنی کے نظام کو  مبنی بر انصاف بنانا۔
  • آئی ٹی ڈیٹابیس کے زیادہ استعمال کے ذریعے ٹیکس سسٹم کی بنیاد کو وسیع کرنا۔lٹیکس کی عدم ادایگی کم کرنا۔ ٹیکس انتظامیات میں اصلاح کرنا۔
  • تمام اشیا کے لیے معیاری نرخ یقینی بناکر سیلزٹیکس کو معقول بنانا۔
  • منی لانڈرنگ اور کالے دھن کو سفید کرنے کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا۔اشیاے تعیش کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنا، اور غیرضروری درآمدات پر ریگولٹیری ڈیوٹی عائد کرنا، یقینی بنانا۔گیس اور بجلی تمام شہری اور دیہی صارفین کو ایک قابلِ ادایگی قیمت پر مسلسل مہیا کی جائیں گی۔
  • پانی اور بجلی، پٹرولیم اور قومی وسائل کے انضمام سے توانائی اور قومی وسائل کی ایک وزارت قائم کرنا۔ lنیپرا کی اصلاح کرنا۔
  • بجلی کی تقسیم کی کمپنیوں کی اصلاح کرنا۔lبجلی کے بلوں کو ۱۰۰ فی صد سے قریب ترین ممکنہ سطح تک وصول کرنا۔
  • گردشی قرضے کا مستقل خاتمہ کرنا۔
  • دیہی معیشت جو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اور چھوٹے کاشتکاروں پر توجہ دینا اور ٹکنالوجی کو فروغ دینا پیداواری inputs (یعنی کھاد، بیج، کرم مار ادویہ وغیرہ) تک ان کی رسائی یقینی بنانا۔   
  • تحفظ خوراک کا حصول، خاص طور پر ان ۴۰ فی صد کے لیے جو ۲۰۱۲ء میں خوراک کے    عدم تحفظ کا شکار تھے۔
  • خوراک کے حق کو دستوری ترمیم کے ذریعے دستوری حق قرار دینا۔ روزگار کی فراہمی کے ایسے پروگرام کو رواج دینا جن میں لیبر کا استعمال زیادہ ہو (labour intensive)lقومی تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنا تاکہ ناخواندگی کو جنگی بنیادوں پر ختم کیا جاسکے۔
  • تعلیم کا یکساں نظام مرحلہ بہ مرحلہ نافذ کیا جائے گا۔
  • مڈل سطح تک ۱۰۰ فی صد داخلے اور ترقی کے مقاصد کے تحت ۸۰ فی صد خواندگی حاصل کرنا (واضح رہے کہ یہ عالمی ترقیاتی منصوبے کاحصہ ہے جسے دسمبر ۲۰۱۵ء تک مکمل ہونا تھا اور پاکستان اس معاہدے کا حصہ ہے۔)

ہم نے تذکیر کے مخلصانہ جذبے سے مسلم لیگ کے منشور کے ان دعوئوں کو یہاں پیش کیا ہے۔ مگر کیا کوئی دیانت داری سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس تیسرے بجٹ میں جو درمیانی مدت (mid-term) کی حیثیت رکھتا ہے، اس وژن کی کوئی جھلک بھی نظر آتی ہے؟ ہم تو بار بار کی کوشش کے باوجود روشنی کی کوئی کرن نہ دیکھ سکے! ہمیں دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ غالباً منشور کا یہ وژن عوام کو سبزباغ دکھانے کے لیے تھا، حکومت کی پالیسیوں اور بجٹ پر اس کا کوئی سایہ دُور دُور تک نظر نہیں آتا ہے۔

ہماری نگاہ میں اس بجٹ کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس میں حالات کا صحیح تجزیہ اور معیشت کو درپیش مسائل اور چیلنجوں کا کوئی ادراک موجود نہیں ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ اعدادوشمار کی ایک اچھی مشق ہے، جس میں حالت ِ زار کو جوں کا توں (status quo) باقی رکھنے کا بندوبست ہے۔ اس حقیقی تبدیلی اور وہ بھی بنیادی تبدیلی کا کوئی اشارہ ہمیں دُور دُور نظر نہیں آتا جس کے بغیر ملک کو معاشی بحرانوں اور قرض کی غلامی کی دلدل سے نکالنا ممکن نہیں۔

بجٹ اور سروے میں پوری کوشش کی گئی ہے کہ تصویر کا ایک رُخ دکھایا جائے اور ماضی کی غلطیوں اور خود اپنی پالیسیوں کے نتائج کے بے لاگ اور معروضی تجزیے کے صحت مند راستے کے مقابلے میں الفاظ کے گورکھ دھندے اور اعداد وشمار کے دائوپیچ سے ایک ایسی منظرکشی کی جائے ،جس کے ذریعے اصل حقائق کو نظروں سے اوجھل رکھا جاسکے۔ ہم اس سلسلے میں چند مثالیں اہلِ نظر کے غوروفکر کے لیے پیش کرتے ہیں:

افراطِ زر کے بارے میں دعویٰ ہے کہ وہ ۸ئ۴ فی صد پر آگیا ہے، حالانکہ عام آدمی کا تجربہ یہ ہے کہ اشیاے خوردونوش جن کا ایک عام آدمی کے بجٹ میں بڑا حصہ ہوتا ہے، نہ صرف یہ کہ ان کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ دی نیوز کے نمایندے نے جون سالِ گذشتہ اور جون ۲۰۱۵ء کے بازار سے حاصل کردہ جو نرخ دیے ہیں، وہ نہ صرف اضافہ بلکہ ۱۰ سے ۲۰ فی صد اضافے کی خبر لاتے ہیں۔

وزیرخزانہ کا دعویٰ ہے کہ بے روزگاری میں کمی ہوئی ہے اور لیبرفورس کے ۳ئ۶ فی صد سے کم ہوکر ۶ فی صد پر آگئی ہے، جب کہ ’پاکستان پلاننگ کمیشن‘ اور ’قومی اقتصادی کونسل‘ (NEC) کی دستاویزات کی روشنی میں اس وقت بے روزگاری کی شرح ۳ئ۸ فی صد ہے۔ حکومت ہی کے اداروں کے دیے ہوئے اعداد و شمار میں ۲۵ فی صد کا فرق ہے     ؎

کس کا یقین کیجیے، کس کا یقین نہ کیجیے

لائے ہیں ان کی بزم سے یار خبر الگ الگ

وزیرخزانہ کا دعویٰ ہے کہ اس سال معیشت ۲۵ لاکھ افراد کو نیا روزگار دے سکے گی۔ لیکن معاشی ماہرین انگشت بدندان ہیں کہ معیشت کے ۵ فی صد شرحِ نمو پر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے کم از کم ۸ فی صد شرحِ نمو ضروری ہے۔ پھر جس ملک میں کئی کروڑ افراد بے روزگار ہوں یا رزق کی عام سہولتوں سے محروم ہوں، اور جس میں ۲ئ۲ فی صد آبادی میں سالانہ اضافے کے نتیجے میں ہرسال ۱۸لاکھ افراد کا روزگار کی تلاش کرنے والی فوج میں اضافہ ہورہا ہو، اس میں ۵ فی صد کی شرحِ نمو سے ۲۵لاکھ افراد کے لیے روزگار کے مواقع کیسے پیدا ہوسکتے ہیں؟ معاشیات کے  طالب علموں کے لیے یہ باور کرنا محال ہے۔

حکومت کا اپنی پالیسیوں کے باب میں نظرثانی سے اجتناب اور غیرمتعلق اُمور کو معاشی مشکلات کا سبب قرار دینے کی روش کبھی صحت مند نہیں ہوسکتی۔

وزیرخزانہ نے کہا ہے: ’’معاشی ترقی میں اضافے کی رفتار کو مجروح کرنے والے عوامل میں عالمی منڈیوں میں قیمتوں کی کمی اور ملک میں پانچ مہینے تک دھرنوں کا بڑا دخل ہے‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی منڈیوں میں قیمتوں کے اُتارچڑھائو کا اثر صرف پاکستان پر کیوں پڑا؟ ہمارے ہی جیسے دوسرے ملکوں کی ترقی کی شرح ان سے کیوں متاثر نہیں ہوئی؟ بھارت، بنگلہ دیش، ملایشیا،  سری لنکا، سب کی شرحِ نمو اور برآمدات پر منفی اثرات کیوں نہیں پڑے؟ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ ہماری درآمدات کے سستا ہوجانے کے مثبت اثرات ہماری معیشت پر کیوں نہیں پڑے؟  قیمت کم ہونے سے درآمدات کی مقدار (volume) کے مقابلے میں قدر (value) میں کمی ہونا چاہیے تھی مگر درآمدات کی قدر میں براے نام کمی ہوئی ہے ا ور تجارتی خسارہ اور بڑھ گیا ہے۔

اسی طرح دھرنے کے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، حالانکہ اگر اس کا کوئی اثر پڑا بھی ہوگا تو وہ محدود ہوگا۔ البتہ ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں افراطِ زر کی شرح دھرنے سے پہلے ۹ئ۷ فی صد تھی جو اگست ۲۰۱۴ء میں ۷ فی صد اور دسمبر ۲۰۱۴ء میں ۳ئ۴ فی صد تھی۔ یہ تبدیلی مثبت ہے یا منفی، حکومت کو غور کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر ملک کی برآمدات کو لیا جائے، تو جولائی اور اگست میں درآمدات میں کمی واقع ہوئی یعنی ۹ئ۷ فی صد اور ۶ئ۳ فی صد ،لیکن نومبر میں ۵ئ۹ فی صد کا اضافہ ہوا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اس عمل اور دھرنوں میں کوئی باہم تعلق نہیں۔ ملک میں بڑی صنعتوں کی پیداوار کے رجحان کو اگر دیکھاجائے تو صورت حال یہ سامنے آتی ہے کہ: جولائی میں اضافہ ۴۵ئ۰ فی صد، اگست میں ۴ئ۴ فی صد، ستمبر میں ۳ئ۳ فی صد، اکتوبر میں ۲ئ۲ فی صد، نومبر میں ۴ئ۵ فی صد، دسمبر میں ۶۹ئ۰ فی صد۔ یہاں بھی اعداد و شمار کسی واضح منفی رجحان کی خبر دینے سے قاصر ہیں۔ (ایکسپریس ٹریبیون، ۱۳ جون ۲۰۱۵ئ)

دھرنے کی افادیت یا اس کا مضر ہونا ہمارا موضوع نہیں۔ ہماری دل چسپی صرف اس بات سے ہے کہ وزیرخزانہ کو دلیل اور مبالغہ آمیز نعرے بازی میں فرق کرنا چاہیے اور معاشی حقائق کی روشنی میں پالیسیوں اور ان کے اثرات کا تجزیہ معروضی انداز میں کرنا چاہیے، تاکہ ان سے صحیح سبق حاصل کیاجاسکے ورنہ ہم خود بھی مغالطے کا شکار ہوں گے اور قوم کی بھی صحیح حالات کے سمجھنے میں مدد نہیں کرپائیں گے۔

مجوزہ حکمت عملی

ملک کو جن معاشی حالات اور چیلنجوں سے سابقہ درپیش ہے، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے  مناسب حکمت عملی درکار ہے۔ اس کی کوئی جھلک اس بجٹ میں نظر نہیں آتی، بلکہ مسئلے کے پورے پورے اِدراک کا بھی فقدان ہے۔ توانائی کے مسئلے کو جو اہمیت دی جانا چاہیے تھی وہ مفقود ہے۔ ٹیکس کی چوری، ٹیکس کے نیٹ ورک کی تنگ دامنی، معیشت میں ضیاع کے بڑے بڑے جھرنوں کا بدستور پھیلنا لاپروائی اور بے حسی کا عذاب، اسمگلنگ اور بڑے پیمانے پر کرپشن اور اس کی تباہ کاریوں کے سلسلے میں حکومت کوئی واضح پالیسی اور پروگرام دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ ملک میں ٹیکس وصولی کے جو امکانات ہیں اس کا بمشکل ایک تہائی اس وقت حاصل ہو رہا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو‘ (ایف بی آر)کا کردار اس میں محدود اور مشتبہ ہوتا جارہا ہے۔ ذرائع آمدنی پر  ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو بھی عملاً ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے۔ ۳۵ لاکھ سے زیادہ افراد کو  ’ٹیکس کے دائرے‘ میں ہونا چاہیے، مگر عملاً صرف ۸لاکھ افراد ہیں جو ٹیکس دے رہے ہیں۔ ساری معلومات اور دعوئوں کے باوجود ٹیکس نادہندہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ایف بی آر ناکام رہا ہے۔ عالمی بنک اور لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ایک تحقیقی مطالعہ (۲۰۱۳ئ) کے مطابق پاکستان کے موجودہ ٹیکس ادا کرنے والے ۸لاکھ افراد سے جو ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، وہ ان کے واجب الادا ٹیکس کا صرف ۳۸ فی صد ہے، باقی ۶۲ فی صد کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر ان لاکھوں افراد کو نظرانداز بھی کردیا جائے، جن کو ٹیکس دینا چاہیے اور وہ نہیں دے رہے، تب بھی جو ٹیکس دے رہے ہیں، صرف ان کا اگر تمام واجب الادا ٹیکس وصول کیا جائے تو اس وقت ۳ہزار ارب روپے کے بجاے اسے ۸ہزار ارب روپے ہونا چاہیے۔گویا ۵ہزار ارب روپے صرف ان ٹیکس دینے والوں کے کھاتے سے کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی متعین کیا گیا ہے کہ اس ۵ہزار ارب روپے کو ٹیکس گزار افراد، ٹیکس جمع کرنے والے عملے اور دوسرے سہولت کاروں کے درمیان تقریباً درج ذیل تناسب سے اُڑایا جا رہا ہے:l۷۰ فی صد ٹیکس دینے والے l۲۵ فی صد ٹیکس جمع کرنے والے l۵ فی صد ٹیکس میں سہولیات فراہم کرنے والے۔

اگر ان تمام ۳۰ سے ۳۵ لاکھ کو بھی ٹیکس کے نیٹ ورک میں لے آیا جائے، جو اس وقت ٹیکس کے نیٹ ورک سے باہر ہیں اور اگر ٹیکس کی شرح میں کمی بھی کردی جائے، تب بھی کم از کم ۸ہزار سے ۱۰ہزار ارب روپے تک مزید محصولات حکومت کو حاصل ہوسکتے ہیں۔

وسائل کے غلط استعمال اور اخراجات کے باب میں کرپشن کی کہانی اس کے علاوہ ہے۔ اندازہ ہے کہ کم از کم ۱۳؍ارب ڈالر کی سالانہ اسمگلنگ ملک میں ہورہی ہے۔  ’غیردستاویزی معیشت‘ کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ ’دستاویزی معیشت‘ سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔گویا اس وقت کُل معیشت کا صرف ۳۰ فی صد دستاویز شدہ ، باقی قانون کی گرفت سے باہر ہے۔

ایک حالیہ مطالعے کی روشنی میں صرف چین سے تجارت کے باب میں یہ حیرت ناک بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی چین سے درآمدات ۹؍ارب ڈالر سالانہ دکھائی جارہی ہیں، جب کہ چین کے شعبۂ تجارت اور شماریات کے مطابق چین کی پاکستان کو برآمدات ۱۵؍ارب ڈالر ہیں۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہمارے اور چین کے دیے ہوئے اعداد و شمار میں ۶؍ارب ڈالر کا فرق ہے۔ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ بیرونی اور ملکی قرضوں کے ذریعے حکومتی اخراجات اور ترقیاتی مصارف پورے کرنے کے بجاے خود اپنے وسائل کو ملکی معیشت کی تعمیر کے لیے منظم و متحرک کرے اور بیرونی وسائل کو متوازن انداز سے خرچ کرے تاکہ خودانحصاری کے ذریعے ترقی کا راستہ اختیار کیا جاسکے۔

ہماری نگاہ میں ایف بی آر کو مکمل طور پر ’اوورہال‘ کرنے، اس ادارے سے کرپشن کا خاتمہ کرنے، ایمان دار اور باصلاحیت افراد کو اس ادارے کی ذمہ داری سونپنے اور مناسب نگرانی کا نظام بنانے کو اوّلیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس ادارے میں مکمل خوداختیاری بھی ضروری ہے، جس کی برسوں سے مزاحمت کی جارہی ہے۔ صرف اس ایک اصلاح سے حالات میں جوہری تبدیلی رُونما ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ ہانگ کانگ ۱۹۸۱ء کی دہائی تک دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں سے تھا، لیکن چینی حکومت نے وہاں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے مؤثر انتظام کیا اور سیاسی مداخلت سے پاک نظام قائم کیا، جس نے صرف تین سال میں ہانگ کانگ سے کرپشن کا بڑی حد تک خاتمہ کردیا۔ یہ محض دیوانے کا خواب نہیں۔ اگر ایمان دار اور باصلاحیت قیادت ہو تویہ کام چند سال میں انجام دیا جاسکتا ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ ترقی کے وژن اور ترجیحات کا ہے۔ ہمیں لبرل سرمایہ دارانہ تصورات کے طلسم سے نکلنا ہوگا۔ خوش حالی اس وقت ممکن ہے جب معاشی ترقی محض دولت مند طبقے کے لیے مالی فراوانی کے مترادف نہ ہوجائے، بلکہ ہراعتبار سے معاشی اور سماجی، تمام طبقات اور تمام علاقوں کی ترقی اور خوش حالی سے عبارت ہو۔ اس کے لیے مارکیٹ کا وجود تو ضروری ہے مگر ’مارکیٹ کی حکمرانی‘ میں یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ ریاست کو اس پورے عمل میں ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، لیکن خود کاروباری بن کر نہیں، بلکہ تمام عوام کے حقوق کے محافظ اور ان کی خوش حالی کو یقینی بنانے والے کی حیثیت سے۔ ریاست کا یہ تصور ’واشنگٹن کنسنسس‘ (Washington Consensus)اور عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بنک کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔ ’حکومت کا بزنس میں کوئی کام نہیں‘ محض سرمایہ داروں کا بنایا ہوا ایک فلسفہ ہے، جس کے نتیجے میں اس نعرے کے نام پر بزنس مین، حکومت اور ریاست پر قابض ہوجاتا ہے اور انھیں اپنے مفادات میں استعمال کرتا ہے۔ اگر حکومت کا بزنس سے کوئی کام نہیں ہے تو اس سے زیادہ بزنس مین کا یہ کام نہیں کہ وہ حکومت کرے۔ حکومت اور بزنس دو الگ الگ میدان ہیں۔ بزنس مین کو قانون اور اجتماعی مفاد کے دائرے میں بزنس کا ہر موقع ملنا چاہیے، لیکن ریاست کی مشینری کا اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ریاست کو سب کا مائی باپ ہونا چاہیے، اور اس سے بھی زیادہ اس کا کام وہ ہونا چاہیے جس کا اعلان حضرت ابوبکر صدیقؓ نے زمامِ اختیار سنبھالتے وقت کیا تھا کہ ’’تمھارا طاقت ور میرے لیے کمزور ہے جب تک میں اس سے تمھارا حق حاصل نہ کرلوں، اور تمھارا کمزور میرے لیے اس بات کا حق دار ہے کہ میں طاقت ور سے اس کا حق حاصل کر کے اصل حق دار تک پہنچائوں‘‘۔

یہ ہے وہ تصورِ ریاست جس میں معاشی ترقی اور حقیقی خوش حالی قائم ہوسکتی ہے اور ایک بار پھر یہ کیفیت پیدا ہوسکتی ہے کہ زکوٰۃ دینے والے ان لوگوں کو تلاش کریں جو زکوٰۃ کے مستحق ہوں، اور معاشرے میں زکوٰۃ دینے والے ہوں اور لینے والے ناپید    ؎

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ o ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ o مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُنِیْبِنِ o ادْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ o  (قٓ ۵۰:۳۱-۳۴) اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی، کچھ بھی دُور نہ ہوگی۔ ارشاد ہوگا: ’’یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا، جو بے دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا، اور جو دلِ گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔ داخل ہوجائو جنت میں سلامتی کے ساتھ‘‘۔ وہ دن حیاتِ ابدی کا دن ہوگا۔

  •  تقویٰ: [اہلِ جنت کی صفات میں سے پہلی صفت تقویٰ ہے۔] اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جونہی کسی شخص کے متعلق یہ فیصلہ ہوگا کہ وہ متقی اور جنت کا مستحق ہے، فی الفور وہ جنت کو اپنے سامنے موجود پائے گا۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے اُسے کوئی مسافت طے نہیں کرنی پڑے گی کہ پائوں سے چل کر یا کسی سواری میں بیٹھ کر سفر کرتا ہوا وہاں جائے اور فیصلے کے وقت اور دخولِ جنت کے درمیان کوئی وقفہ ہو، بلکہ اِدھر فیصلہ ہوا اور اُدھر متقی جنت میں داخل ہوگیا۔ گویا وہ جنت میں پہنچایا نہیں گیا ہے بلکہ خود جنت ہی اُٹھا کر اس کے پاس لے آئی گئی ہے۔ اس سے کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عالمِ آخرت میں زمان و مکان کے تصورات ہماری اِس دنیا کے تصورات سے کس قدر مختلف ہوں گے۔ جلدی اور دیر اور دُوری اور نزدیکی کے وہ سارے مفہومات وہاں بے معنی ہوں گے جن سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں۔
  •   رجوع الی اللّٰہ: اصل میں لفظ اَوّاب استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس نے نافرمانی اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کا راستہ چھوڑ کر طاعت اور اللہ کی رضا جوئی کا راستہ اختیار کرلیا ہو، جو ہر اُس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہے، اور ہر اُس چیز کو اختیار کرلے جو اللہ کو پسند ہے، جو راہِ بندگی سے ذرا قدم ہٹتے ہی گھبرا اُٹھے اور توبہ کرکے بندگی کی راہ پر پلٹ آئے، جو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والا اور اپنے تمام معاملات میں اُس کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔
  •  اللّٰہ سے تعلق کی نگھداشت: اصل میں لفظ حفیظ  استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں: ’حفاظت کرنے والا‘۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو اللہ کے حدود اور اس کے فرائض اور اس کی حُرمتوں اور اس کی سپرد کی ہوئی امانتوں کی حفاظت کرے، جو اُن حقوق کی نگہداشت کرے جو اللہ کی طرف سے اُس پر عائد ہوتے ہیں، جو اُس عہدوپیمان کی نگہداشت کرے جو ایمان لاکر اُس نے اپنے رب سے کیا ہے ، جو اپنے اوقات اور اپنی قوتوں اور محنتوں اور کوششوں کی پاسبانی کرے کہ ان میں سے کوئی چیز غلط کاموں میں ضائع نہ ہو، جو توبہ کرکے اس کی حفاظت کرے اور اسے پھر نہ ٹوٹنے دے، جو ہروقت اپنا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ کہیں میں اپنے قول یا فعل میں اپنے رب کی نافرمانی تو نہیں کر رہا ہوں۔
  • بے دیکہے خدا سے ڈرنا: یعنی باوجود اس کے کہ رحمن اُس کو کہیں نظر نہ آتا تھا، اور اپنے حواس سے کسی طرح بھی وہ اس کو محسوس نہ کرسکتا تھا، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زورآور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اُس اَن دیکھے رحمن کا خوف زیادہ غالب تھا۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ رحمن ہے، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنابلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا۔ اِس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود خدا سے ڈرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی صفت ِ رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں۔

اس کے علاوہ اِس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خشیت، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق ہے۔ خوف کا لفظ بالعموم اُس ڈر کے لیے استعمال ہوتاہے جو کسی کی طاقت کے مقابلے میں اپنی کمزوری کے احساس کی بناپر آدمی کے دل میں پیدا ہو۔ اور خشیت اُس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو۔ یہاں خوف کے بجاے خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خوف ہی سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اُس پر ہروقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے۔

  •  دلِ گرویدہ: اصل الفاظ ہیں قلب ِ مُنیب لے کر آیا ہے۔ مُنیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رُخ کرنے اور باربار اُسی کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جیسے قطب نما کی سوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رُخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی ہلائیں جلائیں، وہ ہِرپھر کر پھر قطب ہی کی سمت میں آجاتی ہے۔ پس قلب ِ مُنیب سے مراد ایسا دل ہے جو ہر طرف سے رُخ پھیر کر ایک اللہ کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو اَحوال بھی اُس پر گزرے ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا۔ اِسی مفہوم کو ہم نے دلِ گرویدہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اُس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اُسی کا ہوکر رہ جائے۔

[ایسے لوگوں سے کہا جائے گا: ’’داخل ہوجائو جنت میں سلامتی کے ساتھ‘‘]۔ اصل الفاظ ہیں: اُدْخُلُوْھَا بِسَلَامٍ۔سلام کو اگر سلامتی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرقسم کے رنج اور غم اور فکر اور آفات سے محفوظ ہوکر اس جنت میں داخل ہوجائو۔ اور اگر اسے سلام ہی کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ آئو اس جنت میں اللہ اور اس کے ملائکہ کی طرف سے تم کو سلام ہے۔

اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات بتا دی ہیں جن کی بنا پر کوئی شخص جنت کا مستحق ہوتا ہے، اور وہ ہیں: ۱-تقویٰ ۲-رجوع الی اللہ ۳-اللہ سے اپنے تعلق کی نگہداشت ۴-اللہ کو دیکھے بغیر اور اس کی رحیمی پر یقین رکھنے کے باوجود اس سے ڈرنا، اور ۵- قلب مُنیب لیے ہوئے اللہ کے ہاں پہنچنا، یعنی مرتے دم تک انابت کی روش پر قائم رہنا۔(تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص ۱۲۲-۱۲۳)

کچھ خواتین نے کتاب و سنت کے اتباع اور عملی تطبیق کے ذریعے اپنے اخلاق اور طرزِ حیات کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اندر یہ جذبہ اس لیے پیدا ہوا کہ انھوں نے تحرّک بالقرآن والسنۃ کے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی۔ اس میں انھیں اس کی عملی تربیت دی گئی تھی۔

پروگرام کا آغاز معلمہ نے ان الفاظ سے کیا کہ قرآن کریم ۶ہزار سے زائد آیات پر مشتمل ہے۔ یہ آیات ہم سے مخاطب ہیں اور عمل اور معاشرے میں ایک تحرک اور بیداری کی فضا پیدا کرنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ سنت ِ رسولؐ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کتنی احادیث ہیں جن کا تقاضا ہے کہ ہم اُن کا قُرب اختیار کریں تاکہ معاشرے میں عمل کے لیے ایک تحرک پیدا ہو۔   معلمہ نے شرکاے تربیت سے گفتگو میں آیات و احادیث کو تحرک کا ذریعہ بنانے اور ان کے نفاذ و تطبیق کی عملی کوشش پر زور دیا۔ معلمہ نے کہا کہ اس کام کا آغاز اُن آیات و احادیث سے کیا جائے جن کا تعلق براہِ راست ہماری روزمرہ زندگی سے ہے اور جو ہمارے دوست احباب اور گھر، خاندان اور عزیز و اقارب کے معاملات کو درست کرنے کا سبب بن سکیں۔

عملی تربیت کے بعد خواتین میں رفتہ رفتہ آیات و احادیث کے ساتھ تعامل شروع ہوگیا اور پھر عملی جدوجہد کرنے والی خواتین نے تبدیلی کو رُونما ہوتے ہوئے محسوس کیا ۔

طالبات اپنے منفرد عملی تجربات پر بہت خوش تھیں۔ معلّمہ اُن کی حوصلہ افزائی اور اُن کے تجربات پر تبصرہ و راے بھی دے رہی تھی۔ طالبات کے ذہنوں میں یقینا بہت سے سوال ہوں گے جن کا وہ جواب معلوم کرنا چاہتی تھیں۔ ایک طالبہ نے کہا: یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ہم قرآن کریم کی تمام آیات کے ذریعے تحرک پیدا کرسکیں۔ کچھ آیات تو صرف احکام اور فرائض بیان کرتی ہیں، مثلاً:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o(البقرہ ۲:۱۸۳) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیا  ؑکے پیروکاروں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

معلمہ نے کہا: یہ آیت اہلِ ایمان سے مخاطب ہے کہ روزے اُن پر اُسی طرح فرض ہیں جس طرح اُن سے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ وہ اس طریقے سے تقویٰ اختیار کرسکیں۔

معلمہ نے طالبہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا: کیا آپ اس سے قبل تقویٰ کے موضوع پر ہونے والے دروس میں شریک ہوئی تھیں؟ طالبہ نے جواب دیا: جی ہاں، مگر میں تقویٰ کے بارے میں درس سنتی ہوں اور گھر پہنچنے سے پہلے اُسے بھول جاتی ہوں۔ یوں بہت تھوڑی باتیں میری یادداشت میں محفوظ رہ سکی ہیں حالانکہ ان دروس میں مَیں پوری توجہ اور انہماک سے شریک رہی ہوں۔ معلمہ یہ سن کر مسکرائی اور دورے میں شریک تمام خواتین سے یہی سوال پوچھ لیا کہ اس بارے میں اُن کا تجربہ کیا ہے؟ جواب ملا جلا تھا، کچھ اِس طالبہ کی طرح اور کچھ مختلف۔

یہ کیفیت دیکھنے کے بعد معلّمہ نے ہرطالبہ کو اپنے لیپ ٹاپ پر وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ کے الفاظ تلاش  کرنے کے لیے کہا۔ یہ بھی کہا کہ ہرطالبہ سکرین پر نمودار ہونے والی عبارتوں کے بارے میں مجھے آگاہ بھی کرے۔ طالبات نے یہ الفاظ تلاش کرتے ہی بلند آواز میں ان عبارتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ اگرچہ آوازیں متعدد و متنوع تھیں مگر مضمون سب کا ایک تھا، یعنی:

  • وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا o (الطلاق ۶۵:۴) جو شخص اللہ سے ڈرے اُس کے معاملے میں وہ سہولت پیدا کردیتا ہے۔

معلمہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ذرا بتایئے کہ ہم میں سے کون ہے جس کو اپنے معاملات میں آسانی کی ضرورت نہیں ہے؟ دوسری عبارت اس آیت کی تھی:

  •  وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًا o(الطلاق ۶۵:۵) جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اُس کی برائیوں کو اس سے دُور کردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔

معلمہ نے کہا:تکفیر ذنوب اور تعظیم اجروثواب کا مطلب ہے ہمیں سابقین میں شامل کردیا گیا۔ یہ تو ربِ کریم کا فضل اور مہربانی ہے۔اس سے اگلی عبارت تھی:

  •  وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ط (الطلاق ۶۵:۲، ۳) جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔

سبحان اللہ! تقویٰ کے بدلے میں نہ صرف راہِ نجات کھول دی گئی بلکہ رزق کا بھی وعدہ مل گیا۔

اسی سرگرمی کو دُہراتے ہوئے جب لفظ تَتَّقُوْا تلاش کیا گیا تو یہ آیت سامنے آگئی:

  •  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ط (الانفال ۸:۲۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمھاری بُرائیوں کو تم سے دُور کرے گا اور تمھارے قصور معاف کرے گا۔

معلمہ نے شرکا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ہم اُس وقت کتنی بدنصیبی کا شکار ہوتے ہیں جب باطل کے ساتھ حق خلط ملط ہوجائے اور کوئی فرد اُن کے درمیان فرق و امتیاز نہ کرسکے۔ ایسے موقعے پر کیا ہی بہتر ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے دونوں چیزوں کے درمیان فرق واضح کردے اور ہم حق کو حق کے رنگ میں دیکھ لیں، اور اُسی وقت اللہ سے اتباعِ حق کی دُعا کریں ۔اللہ تعالیٰ صرف یہی چیزیں واضح نہیں کرے گا بلکہ بُرائیوں کو مٹا دے گا اور گناہوں کو بخش دے گا۔پھر اگلی آیات یہ تھیں:

  •  وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ  o (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۷۹) اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔
  •  وَ اِِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا یُؤْتِکُمْ اُجُوْرَکُمْ وَلاَ یَسْئَلْکُمْ اَمْوَالَکُمْo (محمد۴۷:۳۶) اگر تم ایمان رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمھارے اجر تم کو دے گا اور وہ تمھارے مال تم سے نہ مانگے گا۔
  •  وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۸۶) اگر تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔
  •  وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاo (النساء ۴:۱۲۸) اگر تم احسان سے پیش آئو اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمھارے اس طرزِعمل سے بے خبر نہ ہوگا۔
  •  وَ اِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo (النساء ۴:۱۲۹)  اگر تم اپنا طرزِعمل درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ چشم پوشی کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

یہ آیات پڑھنے کے بعد معلمہ نے کہا: کیا ہم ان آیات میں دیکھ نہیں رہے کہ تقویٰ تو دائمی طور پر مطلوب ہے۔ یہاں تک کہ ایمان، صبر، احسان اور اِصلاح سب کیفیات اور اعمال میں مطلوب ہے۔

روزہ تقویٰ کے عملی وسائل میں سے ہے۔ یہ نفس کو تقویٰ کے لیے تیار کرتا ہے اور نفس   اس کے ذریعے تقویٰ کی منزل تک رسائی پاتا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑی اور خوب صورت کوئی بات ہے کہ اللہ تیرے لیے کافی ہوجائے، تیرے معاملات آسان ہوجائیں، تیرا رزق وافر ہوجائے، تیرے گناہ معاف ہوجائیں اور بُرائیاں مٹا دی جائیں، تیری حسنات کا اجر عظیم سے عظیم تر ہوجائے، تیرا عزم و ہمت بلند ترین سطح پر پہنچ جائے، اور یہ سب کچھ اللہ کریم و خبیر و بصیر کے علم میں ہو؟

روزہ ان تمام چیزوں کے حصول میں معاون ہے۔ دل جب ان مفاہیم سے لبریز ہوجائے اور ان کی حلاوت محسوس کرنے لگے تو اس کے لیے نفل روزوں کا اہتمام کرنا آسان تر ہوجاتا ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھنے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔ پھر جب شیطان وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ گرمی بہت شدید ہے، پیاس ناقابلِ برداشت ہے، دن بہت لمبا ہے، معاملہ بہت مشکل اور کٹھن ہے، یہ اور اس طرح کے عزم و ہمت کو کمزور کرنے والے کئی وسوسے جب انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں تو مذکورہ آیت ِ کریمہ اُس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور اُسے اُس عظیم خبر کی یاد دہانی کراتی ہے جس کا انسان منتظر ہوتا ہے۔ یہ بات کسی شک و شبہے سے بالا ہے کہ صبر صاحب ِ عزیمت لوگوں کا امتیازی وصف ہے اور انھیں خیرواطاعت کی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ رمضان کو دیکھیے کہ جب یہ مہینہ سایہ فگن ہوتا ہے تو دل اس آیت ِ کریمہ پر توجہ مرکوز کرلیتا ہے جو دلوں کو صیامِ رمضان کے اجر کی خوش خبری سے شاداں و فرحاں کرتی ہے۔ انھیں دعوت دیتی ہے کہ وہ اس بات پر فخر و انبساط کا اظہار کریں کہ وہ بھی قافلۂ مومنین و سابقین میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ آیت انھیں یاد دلاتی ہے کہ وہ تقویٰ کی منزل تک جانے والی شاہراہ پر محوِسفر ہیں۔ یوں صیام و قیامِ رمضان اور افعالِ خیر کی سرگرمی رواں دواں رہتی ہے۔ یہ ہے اس آیت کریمہ کے ذریعے عملی تحرک و تطبیق کا ایک نمونہ!

معلمہ کی گفتگو جاری تھی کہ نمازِ عشاء کے لیے مؤذن کی آواز بلند ہوئی۔ معلمہ نے گفتگو روک دی اور کلماتِ اذان کا جواب دیتی رہیں۔ ہال میں موجود خواتین اس دوران سلام دعا،  حال احوال جاننے اور تعارف میں مصروف ہوگئیں۔ معلمہ نے اختتامِ اذان پر دُعا پڑھی اور دوبارہ حاضرین مجلس سے مخاطب ہوکر کہا: کلماتِ اذان کا جواب اور اختتامی دُعا ایک خیرِعظیم ہے جسے تمھاری غفلت نے ترک کیے رکھا۔ یہ بھی اعمالِ تقویٰ میں سے ہے۔ معلمہ نے ابھی آیت وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ  تک پڑھی تھی کہ پورا ہال بہ یک زبان پکار اُٹھا:فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ (الحج ۲۲:۳۲)’’اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے‘‘۔

معلمہ نے پوچھا: پھر تم اس کا عملی نفاذ کیوں نہیں کرتیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلماتِ اذان کو مؤذن کے ساتھ ساتھ دُہرانے کی ہمیں تعلیم و تلقین نہیں فرمائی؟ جو شخص ان کلمات کو دہرائے گا وہ اُن تمام انعامات و اکرامات سے نوازا جائے گا جو اللہ سے تقویٰ رکھنے والے شخص کو عطا ہوں گے، یعنی اُس کے معاملات میں آسانی، گناہوں کی بخشش، رزق میں فراوانی، مصائب و مشکلات سے نجات اور اللہ مالک الملک کا اُس کے لیے کافی ہوجانا۔ اسی طرح اذان و اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا کا ردّ نہ ہونا۔ یہ تمام نوازشیں اُس شخص کے لیے ہیں جو تقویٰ کی اہمیت کو جانتا پہچانتا ہو اور پھر اُسے اختیار کرتا ہو، یعنی عملی تقویٰ۔

خواتین نے ان باتوں کو نہایت انہماک سے سنا۔ ایک نے تو کہا: یہ باتیں سنتے ہوئے ہمیں تو یوں لگ رہا تھا کہ پہلی بار سن رہے ہیں۔ اس طرح سے روزے اور اذان کی عملی تطبیق کا شوق دلوں میں بیدار ہوگیا۔ آیندہ پروگرام میں خواتین کی غالب تعداد روزے سے تھی اور جونہی نماز کے لیے مؤذن کی آواز بلند ہوئی تو پورے ہال پرعاجزانہ خاموشی کی چادر تن گئی۔ سب خواتین اذان کے اختتام تک کلماتِ اذان دہراتی رہیں۔ اللہ اکبر! یہ عظیم دین کتنا خوب صورت ہے!! (magmj.com)

یہ ہے مہمان گرامی قدر، جو اَب کوچ کے لیے تقریباً پابہ رکاب ہے۔ اس کے اوقات خیروبرکت سے بھرپور ہیں۔ مسلمانوں نے اس کے گنے چنے دنوں سے خوب استفادہ کیا ہے، مگر اب یہ رُخصت ہونے والا ہے۔ ہر کام کی ایک مدت ہوتی ہے۔ ہروقت سمٹنے والا ہے۔ آپ جس سے چاہیں، محبت کریں، بالآخر ایک دن آپ نے اسے چھوڑ دینا ہے۔ آپ جو چاہیں کریں،   ایک دن آپ کے عمل نے منقطع ہوجانا ہے۔

اب آپ یہ دیکھیے! کیا مسلمانوںنے اپنے مہمانِ مہربان کا خوب خیرمقدم کیا ہے؟

کیا انھوں نے اس کی اچھے طریقے سے مہمان نوازی کی کہ وہ شکرگزار اور احسان مند ہو؟

یا پھر رمضان کی مہمان نوازی کو اپنے لیے بوجھ سمجھا ہے؟ اس کے حق کو فراموش کرکے نظرانداز کیا ہے کہ وہ افسردہ و مغموم ہو؟___ مہمان یا تو میزبان کی تعریف کرتا ہے یا اس کی مذمت!

زمانے کی یادداشتوں پر مشتمل اس ڈائری کے روشن و درخشندہ صفحات، یعنی ماہِ رمضان کے دنوں میں سے بہت ہی کم صفحے خالی رہ گئے ہیں۔ زیادہ تر صفحات تو لپیٹ دیے گئے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ شر سے آلودہ ہیں یا خیر سے بھرے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا مسلمانوں نے اس کتاب کے صفحات پر نیکیوں کی روشنائی سے کچھ تحریر کیا ہے؟ کیا اسے طاعت و فرماں برداری کے اَنوار سے تابندہ کیا ہے؟ کیا اسے اخلاق کے بیل بوٹوں سے سجایا ہے؟ کیا اسے پاک صاف رکھا ہے؟ کیا اسے اخلاقِ عالیہ سے آراستہ کیا ہے اور اس پر آخر میں استغفار کی مشک لگائی ہے، یا اسے بالکل نظرانداز کردیا ہے اور غفلت کی نذر کر دیا گیا ہے اور یہ صفحات خالی رہ گئے ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ اسے نافرمانی اور حکم عدولی کی کثافت سے آلودہ کردیا ہو اور نافرمانی و سرکشی کی تاریکی سے اسے مکدر و افسردہ کیا ہو۔

یہ ہے رمضان، وہ گواہ جو ہمارے یہاں چند دنوں کے لیے مقیم رہا اور اب تقریباً واپس جانے ہی والاہے، کہ جس مہم پر اسے یہاں بھیجا گیا تھا، وہ مہم تقریباً پوری ہوچکی ہے۔ اب یہ اپنی گواہی کا اعلان کرے گا اور جو مشاہدہ کیا ہے، اسے بیان کرے گا۔ اگر نیکی اور خیر دیکھا ہے تو اس کی گواہی دے گا اور اگر بُرائی اور شر دیکھا ہے تو اس کا حال بتائے گا۔ کیا مسلمانوں کے بس میں یہ ہے کہ وہ ایسا کریں کہ اپنے اعمال کو اپنے حق میں حجت بنائیں نہ کہ اپنے خلاف گواہ؟

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی خاطر جو سواری بھیجی ہے___ زمانے کی سواری___ اس نے ایک مرحلہ طے کرلیا ہے اور اپنی منزلِ مقصود کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔ یہ اپنے دامن میں نیکی یا گناہ کو لیے پردوں کے پیچھے چلی جائے گی۔ پھر یہ سواری،  اپنے اپنے سواروں کی ہرچیز سنبھال کر رکھے گی۔ چنانچہ ہر انسان وہ کچھ دیکھ لے گا، جو اس نے آگے بھیجا ہوگا:

یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ج وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓئٍج  تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَھَا وَ بَیْنَہٗٓ اَمَدًام بَعِیْدًا ط (اٰلِ عمرٰن ۳:۳۰) وہ دن آنے والا ہے جب ہرنفس اپنے کیے کا پھل حاضر پائے گا، خواہ اس نے بھلائی کی ہو یا بُرائی۔ اس روز آدمی یہ تمنا کر ے گا کہ کاش! ابھی یہ دن اس سے بہت دُور ہوتا۔

یہ ہے عظیم ماہِ رمضان، ماہِ بابرکات، جو تیزی سے جا رہا ہے اور اس کے جانے میں بس چند ہی دن بلکہ لمحے باقی رہ گئے ہیں___ مسلمان ان مبارک اوقات میں کیا کرتے رہے ہیں، یہی سوالات ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔

میرے بھائی! آپ تو ایک عظیم انسان ہیں۔ آپ تو مردانِ کارزار میں سے ہیں۔ باقی رہے غافل انسان، ان کا حال یہ ہے کہ وہ ان محترم و مکرم دنوں کے تقدس کو نہیں جانتے۔ وہ تو ان ایامِ مبارکہ کی کھلم کھلا بے حُرمتی کرتے ہیں اور نہ وہ فرائض اور ذمہ داریوں کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہاں رمضان اور غیر رمضان برابر ہوتے ہیں۔ اس قماش کے لوگ سارا سال  لغویات میں گزار دیتے ہیں، اپنی مستیوں میں غرق ہوتے ہیں، اور اپنی اس روش پر مطمئن ہوتے ہیں، اور گناہوں سے آلودہ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ  اپنے مہمان کی بے عزتی کرتے ہیں۔

یہ لوگ اس سواری پر شرور و مفاسد کا بوجھ لاد دیتے ہیں۔ اگر اس طرح کے لوگ نجات کا ارادہ کرلیں، تو حق کی طرف واپسی کا راستہ کھلا ہے، توبہ کا امکان ہے۔ توبہ قبول کرنے والا کریم و سخی ہے۔ رجوع کا راستہ ابھی بند نہیں ہوا۔ آقا مہربان، کریم اور بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ وہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔

کیا ہی اچھا ہو، اگر یہ زیادتی کرنے والا، حد سے تجاوز کرنے والا، اپنے گناہوں سے توبہ کرلے، اپنے پروردگار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجائے۔ اس کی جانب رجوع کرلے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ ایسے مستحق کی خطائوں کو نیکیوں میں بدل دے گا۔ اس کے درجات بلند فرمائے گا۔

بے پروا اور غافل انسان سے ماہِ رمضان یوں گزر جاتا ہے، جیسے خوابیدہ قوم کے سروں سے بادل گزر جاتے ہیں۔ نہ وہ ان پر برستے ہیں، نہ انھیں بادلوں کا سایہ نصیب ہوتا ہے، نہ بادلوں کے فوائد و ثمرات سے کوئی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ ایسا انسان ضیافت کی فضیلت سے محروم    رہ جاتا ہے۔ وہ دستاویز کی توثیق اور گواہ کی مثبت گواہی سے بھی تہی داماں ہی رہتا ہے۔

یہ بدبخت مسلمان سواری کو یونہی چھوڑ دیتا ہے، حالانکہ اس پر خیرو برکت لدا ہوتا ہے۔اس کے لیے اب موزوں یہی ہے کہ وہ رمضان کے باقی ماندہ دنوں کی قدر کرے اور اپنے رُوٹھے ہوئے مہمان کو منا لے۔ باقی کے چند دنوں میں اس کی خوب آئو بھگت اور خاطر تواضع کرے۔ یوں وہ کتابِ زندگی کے صفحات میں اپنے لیے نیکیوں کے اندراجات کو یقینی بنالے۔ وہ گواہ کو راضی کرسکتا ہے کہ اس کے سامنے نیکی کے کارنامے سرانجام دینے لگے اور سواری کو حسب ِ استطاعت بھلائیوں اور ثواب کے کاموں سے بھرلے۔ ہوسکتا ہے کہ اس گنہگار مسلمان کی ان تھوڑے دنوں کی محنت کو اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت سے نوازے، اور اسے بہت بڑا اجر دے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

دُوراندیش و دانا شخص تو وہ ہے جسے مہمان کی آمد کا علم ہوا تو اس نے اس کے استقبال کے لیے خوب خوب تیاری کی، پھر مہمان کی بھرپور مہمان نوازی کی، اور اس کے پورے عرصۂ قیام کے دوران میں اس کا خندہ پیشانی سے خیرمقدم کرتا رہا۔

وہ ماہِ رمضان کی ہرگھڑی کا دل کی اَتھاہ گہرائیوں سے خیرمقدم کرتا ہے، اطاعت و فرماں برداری سے اس کی تکریم و توقیر کرتا ہے اورہرگھڑی پروردگار کا شکر بجا لاتا ہے۔ اس کی مہربانیوں پر سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اس کی زبان اپنے پالنہار کی تسبیح و تحمید اور حمدوثنا سے معطر رہتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کی کتابِ زندگی اس کے عمل اور کارکردگی کا ریکارڈ ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ اس کے نامۂ اعمال میں درج ہو رہا ہے، اس کی تدوین ہورہی ہے، اس سے اس کا رُتبہ بڑھے گا،اس کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوگا۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو اس کے آقا، اس کے رب کے رُوبرو اس کے حق میں حجت ہوگی۔ رمضان اس کا گواہ ہے، وہ اسے دیکھ رہا ہے، اس پر نگران ہے، لہٰذا وہ اس نگران و گواہ کو صرف وہی دکھائے جس سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو، یعنی نماز، روزہ، تلاوت، قیام، پاک دامنی، عفت، خودداری، پاکیزگی، طہارت، صدقہ، نیکی اور خیر کی جانب لپکنا۔ یہ گواہی اس کے حق میں بُرہان و سند ہوگی، جو قابلِ اعتبار ہوگی، جسے اہمیت دی جائے گی۔

مرد صالح و نیکوکار جب ماہِ رمضان کی سواری کو دیکھتا ہے کہ وہ تیزی سے رواں دواں ہے تو وہ پھر ہرقدم پر بہت سی نیکیاں کمانے کی فکر کرتا ہے۔ یہ شخص یقینا اس لائق ہے کہ جو کچھ اس نے پیش کیا، اس پر مطمئن ہوجائے اور اپنے انجامِ کار اور عاقبت کے بارے میں خوش بخت و سعید ہو اور بے فکر و بے اندیشہ ہو۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال۹۹: ۷-۸) پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

یہ شخص یقینا اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی مساعی دوچند ہوکر مشکور ہوں، اس کی بیداری و ہشیاری میں اضافہ ہو۔ اصل میں اعتبار انسان کے انجام و خاتمے کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مستعد و تیار و آمادہ ہوجاتے تھے۔ اپنے اہلِ خانہ کو بیدار کرتے تھے اور خود کمربستہ ہوجاتے تھے۔

برادرِ عزیز! آپ کا شمار کس قسم کے لوگوں میں ہونا چاہیے؟

دیکھو یہ رمضان ہے، جانے کا اعلان کر رہا ہے، کوچ کرنے کی منادی کر رہا ہے۔ یہ تمھارا معلّم تھا جو تمھیں صحیح مردانگی کے بنیادی اصول اِملا کروا رہا تھا۔ عزمِ مصمم اور قوی ارادے کی تربیت کرتا رہا ہے، صبروبرداشت کا عادی بناتا رہا ہے۔ تمھارے لیے راہِ آزادی کے نشانات متعین کرتا رہا ہے، تمھاری نگاہوں پر پڑے ہوئے غفلت کے پردوں کو ہٹاتا رہا ہے، حتیٰ کہ تمھاری نگاہیں اُفق پر جاپہنچیں۔ یہ رمضان تمھیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں، اس کی کتاب کے بارے میں اور اس کے دین اور اس کی آیتوں کے بارے میں فہم و بصیرت سے نوازتا رہا ہے۔

یاد رکھیے کہ ہر استاذ کا ایک حلقۂ اثر ہوتا ہے، ہرمعلّم کے اپنے شاگردوں پر اثرات ثبت ہوتے ہیں۔ اب بتائو کہ ماہِ رمضان نے تم لوگوں پر کیا کچھ اثرات چھوڑے؟ تم میں کیا کچھ بدلا؟ ذرا اپنا  موازنہ کرو رمضان سے پہلے اور بعد کی حالت سے، اور کوشش کرو اور اپنی روحوں کا جائزہ لو:

  •  کیا آپ لوگوں کا ارادہ قوی ہے اور آپ اس قابل ہوگئے ہیں کہ شرافت و دیانت کے عظیم کارناموں کو سرانجام دینے میں پیش پا افتادہ باتوں سے دامن کش ہوسکیں؟
  • کیا آپ لوگ سختیوں پر صبروبرداشت کرنے کے اہل ہوچکے ہیں؟
  • کیا عظیم مقاصد و اہداف کے حصول کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ بیدار ہوچکا ہے؟
  • کیا نگاہوں سے غفلت کے پردے چھٹ چکے ہیں؟ اور آپ کو اس حقیقت کا اِدراک ہوچکا ہے کہ اس دنیا کا مال و متاع اور سازوسامان، سب عزتِ نفس کے مقابلے میں حقیروہیچ ہے؟ عزت و شرافت، حُریت، ضمیر اور سعادتِ روح کے سامنے فروتر ہے؟
  • کیا آپ نے دین کو سمجھا ہے؟ اس کی آیات کا فہم حاصل کیا ہے؟ کیا آپ میں یہ صلاحیت ہے کہ جامد الفاظ کے پردوں کے پیچھے چھپے حقائق و معانی تک رسائی پائیں؟

اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ لوگ خوش بخت ہیں، سعادت مند ہیں، اس ہدایت ِ الٰہیہ پر  سجدئہ شکر بجا لائو___ اور اگر ایسا نہیں ہے ___ تو رمضان کی باقی ماندہ گھڑیوں میں اپنی روحوں کے آئینے کو صیقل کرنے کی کوشش کرو، اپنے نفوس کی میل کچیل دُور کرلو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیض سے اپنی روحوں کو نفع پہنچا لو۔ اس بابرکت مہینے کے پُرسعادت لمحوں کو قید کرلو۔ قید کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے بھرپور فائدہ اُٹھائو۔

اگر آپ نے ان ہدایات پر عمل کیا تو ان شاء اللہ آپ کو کامرانی نصیب ہوگی اور اگر منہ موڑ لیا اور لائق توجہ نہ سمجھا، تو پھر خسارے سے کوئی نہیں بچا سکے گا___ یااللہ! گواہ رہنا!!

(مجلہ الاخوان المسلمون، ۱۱ جنوری ۱۹۳۴ئ، بحوالہ افکارِ رمضان، ص ۱۷۷-۱۸۳)

ہر صاحب ِ ایمان ساری زندگی صدقہ و زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اس حوالے سے ایک انتخاب پیش ہے۔

زکوٰۃ و صدقہ ادا کرنا، اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنا:

__اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کی بجاآوری ہے۔

__بُخل جیسی خطرناک و مہلک بیماری سے بچاتا ہے۔

__نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون ہے۔

__ صاحب ِ ایمان ہونے کی دلیل ہے۔

__اس سے  نفس پاک و صاف ہوتا ہے۔

__اس سے نیکی میں اضافہ ہوتا ہے۔

__مال و دولت جیسی نعمت کی شکرگزاری و قدردانی کا احساس بیدار ہوتا ہے۔

__گناہوں کی بخشش ، برائیوں کے مٹنے اور لغزشوں و خطائوں کی آگ ٹھنڈی کرنے کا ذریعہ ہے۔

__آخرت میں مال کے وبال سے سلامتی کا ذریعہ ہے۔

__ اس سے بّر و احسان اور نیکی کا درجہ نصیب ہوتا ہے۔

__متقین کی صفات میں سے ہے۔

__ اخلاقِ حسنہ اور اعمالِ صالحہ کی افزایش کا ذریعہ ہے۔

__سخت گھبراہٹ کے دن خوف سے امن و امان کا ذریعہ ہے۔

__مال کی حفاظت اور افزایش کا ذریعہ ہے۔

__ بہت سے امراض کی دوا ہے۔

__مصائب و حوادث اور تمام بیماریوں سے انسان کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔

__ لوگوں کے مابین اُلفت و محبت کا ذریعہ ہے۔

__ وعدہ ہے کہ جو کچھ تم راہِ خدا میں خرچ کرو گے اُس کا پورا پورا بدلہ تم کو ادا کردیا جائے گا ۔

__ اس سے لوگوں کے درمیان حسد، کینہ اور بُغض کا مادہ کمزور ہوتا ہے۔

__ انفاق فی سبیل اللہ سے بندہ شرفا اور اہلِ فضل و کمال کے ساتھ متصف ہوتا ہے۔

__ رحمت ِ باراں کا نزول ہوتا ہے اور زکوٰۃ و صدقہ روک لینے سے رحمت ِ باراں بند ہوجاتی ہے۔

__اس کی ادایگی، میدانِ حشر میں کامیابی، جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔

__عذابِ قبر سے نجات کا ذریعہ ہے۔

__ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ کاقرب اور صدقے کا سایہ حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔

__دینے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعریف کا مستحق ٹھیرتا ہے۔

__انسان کو بُری موت سے بچاتا ہے۔

__اس سے تواضع و انکسار آتا ہے اور کبرونخوت اور فخرو ریاکاری ختم ہوتی ہے۔

__ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتا ہے۔

__اس کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری سے بچا رہتا ہے۔

__اس سے بُرائی کے ستّر دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

__قبولیت ِ دُعا اور مصیبت دُور کرنے کا ذریعہ ہے۔

__اس سے رزق میں وسعت و کشادگی ہوتی ہے۔

__اس کی وجہ سے دشمنوں کے خلاف اللہ کی جانب سے مدد آتی ہے۔

__تنگی کے بعد کشادگی اور آسانی کا سبب ہے۔

__مجاہدین فی سبیل اللہ کو دینے والے کو بھی مجاہد کی طرح اجر ملتا ہے۔

__اپنے ادا کرنے والے کو طاعت ِ خداوندی پر آمادہ کرتا ہے۔

__ اُمورِ دنیا کی انجام دہی کی آسانی کا سبب بنتا ہے۔

__عام ہلاکت اور قحط سالی میں مبتلا ہونے سے بچنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

__پابندی سے ادا کرنے والے کے مال میں برکت آتی ہے اور اس کی عمر و اولاد بڑھتی ہے۔

__ یتیموں کی کفالت کرنے والے شخص کو جنت میں نبی اکرمؐ کا قرب حاصل ہوگا۔

__ اللہ تعالیٰ دینے والے کے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام فرماتے ہیں۔

__اس کا اجرو ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔

__جو شخص اپنے مال سے مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے گھر بناتے ہیں۔

__ادا کرنے والا شخص جنت کے بالاخانوں میں رہایش پذیر ہوگا۔

__اگرچہ جانوروں اور پرندوں پر خرچ کیا جائے بہرحال اس کا ثواب ملتا ہے۔

__ اقتصادی و معاشی تنگیوں کا حل ہے۔

__ اُمت ِ مسلمہ کے مابین رابطے کا ذریعہ ہے۔

__سنگ دلوں کی سنگ دلی کا علاج ہے۔

__بندے کو قیامت کے دن گنجے سانپ سے بچائے گا اور یہ گنجا سانپ ایک مضبوط و قوی اژدہا ہے۔

__بندے کو منافقین کی صفات کے ساتھ متصف ہونے سے بچاتا ہے۔

__معیت ِ باری تعالیٰ کے حصول کا سبب ہے، جیساکہ ارشاد ربانی ہے:

                اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَo(النحل ۱۶:۱۲۸) ’’اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں‘‘۔ (ماہنامہ شاہراہِ علم، جولائی ۲۰۱۴ئ، نندوربار، مہاراشٹر)

۱۶ جون کو اکثر مسلمان ممالک میں شعبان کی ۲۹ تاریخ تھی، رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کا دن۔ بدقسمتی سے عین اسی روز کچھ بدنصیب اپنا نام مزید ظلم و ستم ڈھانے والوں میں لکھوا رہے تھے۔ قاہرہ کی عدالت میں ملک کے منتخب صدر محمد مرسی اور اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع سمیت اخوان کے درجنوں قائدین جمع تھے اور انھیں ایک بار پھر سزاے موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی جارہی تھیں۔ حالانکہ کمرۂ عدالت میں انصاف کرنے کا حکم دینے والی آیت قرآنی بھی جلی حروف میں لکھی تھی، لیکن مصر کے جج، احکام الٰہی کے نہیں، ’مصری فرعون‘ کے احکام پر عمل کے پابند ہیں۔ سب سزا یافتہ اپنے اپنے پیشہ ورانہ میدان کے شہ دماغ ہیں۔ صدر محمد مرسی انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی، مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع میڈیکل یونی ورسٹی کے پروفیسر، نائب مرشد عام خیرت کامرس میں پی ایچ ڈی اور عالم عرب کے چوٹی کے ۱۰۰ کامیاب ترین ماہرین اقتصادیات میں سے ایک۔یہی نہیں بلکہ درجنوں کی تعداد میں یہ سب نابغہء روزگار دلوں میں قرآن بسائے، دن رات قرآن کی صحبت میں گزارنے والے حفاظ کرام بھی ہیں۔

تمام سزا یافتگان نے فیصلہ سن کر تکبیر تحمید اور تہلیل بلند کی، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد لااِلٰہ اِلَّا اللّٰہ۔ صدر محمد مرسی ایمان افروز خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:’’ ان سے کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو تو خود تمھاری موت جب آئے اُسے ٹال کر دکھا دینا۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انھیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں، جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے، اُس پر خوش و خرم ہیں، اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیامیں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔(ایسے مومنوں کے اجر کو) جنھوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسولؐ کی پکار پر لبیک کہا___ ان میں جو اشخاص نیکو کار اور پرہیز گار ہیں ان کے لیے بڑا اجر ہے___ جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ اب تمھیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خوامخواہ ڈرارہا تھا۔ لہٰذا آیندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا، اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو‘‘(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۸-۱۷۵) ۔ محمد مرسی نے تلاوت مکمل کی تو پورا کمرۂ عدالت ایک بار پھر اس آیت سے گونج اُٹھا: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُo  (الِ عمرٰن ۳:۱۷۳) ۔پورے خطاب کے دوران، ظالم جج شرمندگی سے سرجھکائے بیٹھے رہے، جب کہ سزاے موت کا حکم سننے والے یہ قائدین تمتماتے چہروں کے ساتھ سرخرو تھے۔ ان میں سے کئی بزرگ کہہ رہے تھے: ’’سب نے اپنے اپنے مقررہ وقت پر یقینا جانا ہے۔ ہم نے تو اسی موت کے لیے ۴۰سال انتظار اور جدوجہد کی ہے‘‘۔

اللہ کی قدرت ملاحظہ ہو کہ اسی کمرۂ عدالت میں اسی چیف جج نے چند روز قبل بھی ان رہنماؤں کو سزاے موت سنائی تھی۔ اس وقت اس کے دائیں طرف ایک کرخت چہرے والا جج (جمال عبدہ) بیٹھا تھا۔ سزا سنانے کے چند روز بعد ۱۳ جون کو کمرۂ عدالت میں بیٹھے بیٹھے ہی اس کی حرکت قلب بند ہوئی اورسامنے کھڑے اللہ والوں کو دھڑا دھڑ موت کی سزا سنانے والا، خود ان سے پہلے اللہ کی عدالت میں حاضر کردیاگیا۔ اس سے پہلے ۱۹ مارچ کو بھی اسی طرح کے ایک حیرت انگیز واقعے میں ایک جج احمد سعد کا دل ڈوبا، اور وہ دنیا سے کوچ کرگیا۔ یہ وہی جج تھا جس نے موت سے تین ہفتے قبل تحریک حماس کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ رب ذو الجلال کی بے آواز لاٹھی اور اس کی قدرت ملاحظہ کیجیے کہ یہ سطور لکھتے ہوئے ٹی وی پر تازہ ترین خبر چل رہی ہے: ’’مصری صوبے دَمَنہور کا چیف جسٹس حازم الکحیلی اب سے پانچ منٹ پہلے ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگیا، حادثہ اتنا شدید اور عجیب تھا کہ جج کا سرتن سے کٹ کر دور جاگرا۔ یہ جج بھی اخوان کے کئی بے گناہ اللہ والوں کو سزائیں سنا چکا ہے۔ان میں ۱۷ سالہ معصوم طالبہ سارہ رضوان بھی شامل ہے، جسے اکتوبر ۲۰۱۴ء میں اس کے گھر سے گرفتار کیا گیا، اور دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگا کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ پروردگار عالم نے فرمایا ہے: اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰیo (النازعات ۷۹:۲۶)’’ اس میں (اللہ سے) ڈرنے والوں کے لیے بڑی عبرت ہے‘‘۔ وَّاللّٰہُ مِنْ وَّرَآئِھِمْ مُّحِیْطٌ  o(البروج۸۵:۲۰)’’ اور اللہ نے انھیں گھیرے میں لے رکھا ہے‘‘۔

ظالم حکمران ہیں کہ کسی بھی تنبیہہ سے عبرت حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ ۵۲ فی صد مصری عوام کے منتخب صدر کو کئی بار مختلف سزائیں سنانے کے بعد اب سزاے موت کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ۲۱جون کو انھیں عدالت میں لایا گیا تو انھیں پہلی بار سرخ لباس میں لایا گیا۔ کسی قیدی کا سرخ لباس اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اسے کسی بھی وقت پھانسی دی جاسکتی ہے۔ صدر محمد مرسی سے پہلے یہ سرخ جوڑا اخوان کے مرشدعام کو بھی پہنایا جاچکا ہے، اور اب ڈاکٹر محمد بلتاجی کو بھی۔ ڈاکٹر بلتاجی کا ایک بیٹا بھی ان کے ساتھ جیل میں بند ہے۔ بیٹی اسماء بلتاجی رابعہ میدان میں شہید کردی گئی تھی اور دوسرا بیٹا لاپتا ہے۔ لیکن سرخ جوڑا پہنے ڈاکٹر بلتاجی عدالت آئے تو چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ سامنے بیٹھے جج کے سامنے کھڑے ہوکر بلندآواز سے کہا: جج صاحب! آپ لوگ ہمیں روزانہ بھی کئی کئی بار پھانسیاں چڑھائو ہم تب بھی کسی صورت تم سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔

اخوان کی اولوالعزمی ہے کہ بدترین جبر و تشدد کے دو برس گزر جانے کے بعد بھی ان کی تحریک ختم نہیں کی جاسکی۔ ۳۰ جون سیسی کے خونیں انقلاب کی دوسری سال گرہ بلکہ ’برسی‘ ہے۔ عین ممکن ہے اس موقعے پر سزائوں پر عمل درآمد کردیا جائے لیکن مظلوم قیدیوں سے زیادہ جابر حکمرانوں کو یقین ہے کہ بالآخر ظلم کا انجام بدترین اور عبرت ناک ہوگا، بالکل فرعون کی طرح۔ اس موقعے پر ایک کوشش اخوان کے اندر غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنے کی بھی ہورہی ہے۔کچھ جذباتی نوجوانوں کو پُرامن تحریک سے مسلح جدوجہد کی طرف دھکیلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ لیکن یہ کوششیں بھی کوئی نئی بات نہیں پرانا ابلیسی ہتھکنڈا ہے اور الحمدللہ اخوان اس سے نمٹنا خوب جانتے ہیں۔

دین کی پکار پر لبیک کہتے وقت آپ اس عزم کے ساتھ آگے بڑھے تھے، کہ اب پیچھے ہٹنے کا نام نہ لیں گے۔ واپسی کی کشتیاں جلا کر آپ نے اس راہ میں قدم رکھا تھا، اور اپنے خدا سے یہ عہد کیا تھا کہ پروردگار! یہ جان بھی تیری ہے، یہ مال بھی تیرا ہے اور یہ سب کچھ میں نے تیرے ہاتھ بیچ دیا ہے، میرا اپنا اب کچھ نہیں ہے، سب کچھ تیرا ہے اور تیری ہی راہ میں صرف ہوگا۔ پروردگار! مجھے معاف فرما، مجھے شعور نہیں تھا، میں غفلت میں تھا، تیرا کرم ہے کہ تو نے مجھے غفلت سے بیدار کیا، اور اپنے دین کی خدمت کی سعادت بخشی۔ پروردگار! کس زبان سے تیرا شکر ادا کروں، تو نے مجھے وہ سعادت بخشی جو تو صرف اپنے منتخب بندوں ہی کو بخشتا ہے۔

آپ نے اپنے خدا کے دین کو سب سے بڑی دولت سمجھ کر اپنایا تھا، بڑی عقیدت کے ساتھ اپنایا تھا، اور اس یقین کے ساتھ دین کی خدمت کا بیڑا اُٹھایا تھا کہ خدا نے وہ عظیم خدمت آپ کے سپرد کی ہے، جس سے زیادہ عزت و عظمت کا اور کوئی کام دُنیا میں نہیں ہے۔ آپ کو   اپنی اس سعادت پر فخر تھا اور بجا فخر تھا۔آپ نے اپنے رب سے عہد کیا تھا    ؎

مری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی

میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

آپ نے مبارک فیصلہ کیا تھا کہ میں مرتے دم تک اسی دین کی خدمت میں لگا رہوں گا، کوئی ساتھ دے نہ دے میں آگے بڑھتا رہوں گا۔ لوگ ساتھ چلنے سے انکار کردیں گے تو میں تنہا چلوں گا۔ اس لیے کہ مجھے صرف اپنے رب کی رضا مطلوب ہے۔

کیسا مبارک تھا آپ کا فیصلہ، کیسے پاکیزہ تھے آپ کے جذبات ، اور کیسی ایمان افروز تھیں آپ کی سرگرمیاں۔ آپ خفا نہ ہوں، میری نظر میں یہ ماضی کی یادیں ہیں، ولولہ انگیز یادیں۔ آپ کو اصرار ہے کہ آپ کا فیصلہ اب بھی یہی ہے ، آپ کے جذبات اب بھی یہی ہیں، آپ کی سرگرمیاں اب بھی یہی ہیں، نہ آپ کا عہد بودا تھا، نہ آپ کا فیصلہ کمزور تھا، نہ آپ کے جذبات سرد پڑے ہیں، نہ آپ کی سرگرمیاں کسی جمود کا شکار ہوئی ہیں___ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن کیا کروں اپنی ان آنکھوں کا، کہاں لے جائوں اپنے ان کانوں کو، کیا کروں اپنے احساس کا!

کبھی جب میں آپ کو دیکھا کرتا، تو اپنی زندگی پر شرم آتی اور بے اختیار لب پر دُعا بن کر یہ تمنا آتی کہ پروردگار! میری عمر کا کچھ حصہ ان کو عطا فرما دے۔ میں جب آپ کو سرگرمِ کار دیکھتا، تو ایک حیرت انگیز ولولہ محسوس کرتا، راہِ حق میں بڑھنے کی بے پناہ قوت کا احساس ہوتا، آپ کو بڑے رشک سے دیکھتا، اپنے لیے مثال بناتا، اور بہت کچھ کرنے کے بعد بھی یہ محسوس کرتا کہ آپ کی منزل مجھ سے بہت آگے ہے، بہت کچھ کرنے کے بعد بھی شاید میں آپ کو نہ پاسکوں، اور پھر عقیدت و محبت کے ساتھ میری نگاہیں آپ کے نورانی چہرے پر جم جاتیں، مگر اب__ اب مجھے نہ وہ عزائم نظر آتے، نہ وہ ولولے، نہ وہ خارا شکن جذبات ہیں، نہ حوصلے، نہ وہ سرگرمیاں ہیں، نہ وہ ہمت و ارادے۔

آپ کا کہنا بجا کہ آپ کے ساتھیوں نے حوصلے چھوڑ دیے۔ آپ کے ساتھی اپنے عہد میں بودے ثابت ہوئے۔ آپ کا یہ کہنا بھی صحیح کہ آپ سے بہت آگے چلنے والے بہت سے ساتھی آپ سے بھی پیچھے رہ گئے۔ یہ کہنا بھی بجا کہ بہت سے سو گئے، اور ایسے سوئے کہ اب بیدار ہونے کا نام نہیں لیتے۔ یہ کہنا بھی حق کہ اگر آپ کے ساتھی برابر ساتھ دیتے رہتے تو آپ بہت آگے ہوتے، مگر راہِ حق کے ساتھی! آپ ہی ذرا گردن جھکا کر سوچیے، کیا آپ کی یہ تاویلیں صحیح ہیں؟ کیا آپ اپنے خدا سے اسی وقت وفاداری کریں گے جب دوسرے بھی کریں؟ کیا آپ نے اپنے خدا سے اس شرط کے ساتھ عہد کیا تھا کہ دوسرے تیرے دین کو سربلند کریں گے تو میں بھی مدد کروں گا ورنہ پیچھے ہٹ جائوں گا؟ کیا آپ ان تاویلوں اور بہانوں پر مطمئن ہیں؟ آپ ہی بتایئے اس قافلے کا ہر راہی اگر یہی عذر اور یہی تاویل کرنے لگے تو قافلے کا کیا حشر ہوگا، اور خدا کے اس دین پر کیا بیتے گی جو آپ کو جان سے زیادہ عزیز ہے۔

دین کی پکار پر لبیک کہنا سب سے بڑی سعادت ہے اور اس راہ میں برابر آگے بڑھتے رہنا اس سعادت کی علامت ہے ، مگر آپ آگے نہیں بڑھ رہے ہیں بلکہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس سعادت سے محروم ہو رہے ہیں اور حیرت ہے کہ آپ کو اپنی اس محرومی کا احساس بھی نہیں۔ آپ کو ذرا پریشانی نہیں کہ آپ اپنے خدا کی نظر سے گر رہے ہیں، اس کی عنایت سے محروم ہو رہے ہیں، آپ کا سینہ خدمت ِ دین کے اُن ولولوں اور حوصلوں سے خالی ہوتا جارہا ہے جو آپ کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ کبھی آپ کو دیکھ کر لوگ زندگی کی تڑپ محسوس کرتے تھے۔ اب وہ آپ کو یاد دہانی کرا رہے ہیں۔ بے شک دنیا کو آپ نے اپنا مقصد نہیں بنایا ہے لیکن آپ کو احساس نہیں، اس مکار بڑھیا نے نہایت چالاکی سے آپ کو اپنے جال میں پھانس لیا ہے۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ دین کا دامن بھی آپ کے ہاتھ میں ہے اور دنیا بھی آپ کے قدموں میں ہے، لیکن آپ دھوکے میں ہیں۔ آپ دین کی راہ میں بہت آگے بڑھ کر بہت پیچھے ہٹ آئے ہیں ، اور اگر آپ اس احساس سے بھی محروم ہیں تو یہ بہت بڑا سانحہ ہے، ایسا سانحہ جو آپ کی موت سے زیادہ تکلیف دہ ہے، اور اس پر اگر خون کے آنسو بہائے جائیں تب بھی غم ہلکا نہ ہوگا۔

نفس کو ڈھیل نہ دیجیے، یہ آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کا کڑا محاسبہ کیجیے۔ انصاف اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے جذبات کا جائزہ لیجیے۔ اپنے عزائم اور حوصلوں پر نگاہ ڈالیے، اپنے ارادوں کا جائزہ لیجیے۔ اپنی تمنائوں اور آرزوئوں پر احتساب کی نظر ڈالیے، اپنی تنہائی کی دُعائوں کو سننے کی کوشش کیجیے۔ آپ اپنے خدا سے کیا چاہتے تھے، اور اب کیا چاہ رہے ہیں۔ آپ کی تمنائیں کیا تھیں، اور اب کیا ہیں۔ آپ کی شب و روز کی دوڑ دھوپ کن کاموں کے لیے تھی، اور اب کن مقاصد کے لیے ہے۔ آپ کن آرزوئوں میں مگن تھے، اور اب کیا خواب دیکھ رہے ہیں۔

مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنا پورا سبق بھولتے جارہے ہیں۔ کل تک جن قدروں کے لیے آپ سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے، آج وہ آپ کی نظر میں بے وزن ہوتی جارہی ہیں۔ کل تک جن بُرائیوں کو دیکھ کر آپ کی پیشانی پر غضب کی شکنیں نمودار ہوجاتی تھیں، آج آپ انھی بُرائیوں سے سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ کل تک جن منکرات کو آپ مٹانے کے لیے سینہ سپر تھے، آج وہی منکرات دانستہ یانادانستہ آپ کے وجود سے قائم ہو رہے ہیں، اور آپ نہایت سادہ لوحی کے ساتھ حالات کی رَو میں بے اختیار بہے چلے جارہے ہیں۔

کل آپ کو خدا کے حضور کھڑا ہونا ہے، اُس خدا کے حضور جس سے آپ نے عہد کیا تھا، اور اس یقین کے ساتھ عہد کیا تھا کہ وہ اپنے مزدوروں کا اجر ہرگز ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے وفادار غلاموں کی کارگزاریوں سے کسی لمحے غافل نہیں ہوتا، نہ اُسے اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ وہ اپنے بندوں کی محنت و جانفشانی کی قدر کرتا ہے اور کبھی کسی مستحق کو محروم نہیں کرتا۔ اس خدا کے حضور کل آپ کھڑے ہوں گے، اور وہ آپ سے کہہ رہا ہوگا: میرے بندے! میں نے تجھے دین حق کا شعور دیا تھا، تیرا ہاتھ پکڑ کر خدمت ِ دین کی راہ پر لگا دیا تھا، تجھے توفیق دی تھی کہ میرے نیک بندوں کے ساتھ میرے دین کو سربلند کرنے میں لگ جائے۔ پھر تجھے کیا ہوا تو اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر کہاں بھاگ گیا؟

کیا آپ خدا کو یہ جواب دیں گے کہ پروردگار! میں اپنے دوسرے ساتھیوں کو مضمحل دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے اس لیے تیرے دین کی خدمت سے ہاتھ کھینچ لیاکہ دوسروں کو بھی میں نے یہی کرتے دیکھا۔ میں نے اس لیے وفاداری کا ثبوت نہیں دیا کہ دوسرے بے وفا ثابت ہورہے تھے۔ میرے جذبات اور ولولے اس لیے سرد پڑ گئے تھے کہ دوسروں کو مَیں نے ٹھنڈا دیکھا۔ میں سب کچھ جاننے کے بعد اس لیے پیچھے پلٹ گیا، کہ مجھ سے زیادہ جاننے والے پیچھے پلٹتے ہوئے نظر آرہے تھے۔

اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھیں بند ہوں، خدارا آنکھیں کھولیے اور اپنے رویے پر غور کیجیے، اپنے خدا سے کیے ہوئے عہد کو تازہ کیجیے۔ کوئی عہد پورا کرے یا نہ کرے، آپ اپنا عہد پورا کرنے کا عزم کیجیے۔ کوئی اس راہ میں بڑھتا نظر آئے یا نہ آئے، آپ آگے بڑھیے۔ آپ نے معاملہ خدا سے کیا ہے، کسی بندے سے نہیں کیا ہے ، اور جب دین کے کچھ خادم مضمحل ہوتے نظر آئیں تو آپ اپنے حوصلے اور بلند کردیجیے۔ جب کچھ لوگ جی چھوڑتے محسوس ہوں تو اپنا جوش و ولولہ اور بڑھا دیجیے، اور جب سب بھاگتے نظر آئیں تو آپ اپنے قدم اور جما دیجیے۔ دوسروں سے آپ جو کچھ توقعات رکھتے ہوں وہ خود پوری کردکھایئے۔ دوسروں کا شکوہ نہ کیجیے اپنے عمل سے انھیں شرم دلایئے، اور کوئی ساتھ نہ دے تو اپنے خدا سے بے پایاں اجر لینے کے لیے اپنی رفتار کو اور تیز کردیجیے    ؎

نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی

حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی

(اگر نغمے کی لذت سرد پڑتی نظر آئے تو ساز کو زور زور سے بجا، اگر ناقے کی پشت پر کجاوہ بھاری ہو اور ناقے کی رفتار سُست ہوجائے تو حدی کے ترانے تیز کردے۔)

اللہ کی مدد کب آتی ہے؟

اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں کے ذریعے اپنے دین کو سربلند کرتا ہے ان کے بارے میں   اس کی سنت یہی ہے کہ وہ انھیں آزمایش کی بھٹی سے گزار کر ان کی تربیت کرتا ہے اور کندن بناتا ہے اور اپنی مدد و نصرت سے بالآخر ان کے ہاتھوں دین کو غلبہ عطا کرتا ہے۔ یہ سنت انبیاے کرام ؑ، رسولِ اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اہلِ ایمان کے لیے عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصائب و آلام سے پریشان ہوکر انبیا اور اہلِ ایمان پکار اُٹھتے ہیں: مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ (البقرہ ۲:۲۱۴) ’’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘جب اہلِ ایمان آزمایش میں استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر اللہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اور اس کی مدد آجاتی ہے اور فرمایا جاتا ہے: اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ o(البقرہ ۲:۲۱۴) ’’سنو! اللہ کی مدد قریب ہے‘‘۔

اللّٰہ کی مدد کا قانون

’’اللہ کی مدد ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کے مستحق ہیں۔ اس کی نصرت کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو آخر تک ثابت قدم رہیں، جو شدائد و آلام میں ثابت قدمی دکھائیں، جو ہلا ڈالنے والی مصیبتوں کے مقابلے میں چٹان ثابت ہوں، جن کے سر طوفانوں کے آگے نہ جھکیں، جنھیں اس بات کا یقین ہو کہ مدد صرف اللہ کی مدد ہے اور وہ اس وقت آتی ہے جب اللہ چاہتا ہے، اور جب آزمایش اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے وہ صرف اللہ کی نصرت کے منتظر ہوتے ہیں، کسی اور حل کے نہیں اور نہ کسی اور مدد کے، جو اللہ کی طرف سے نہ آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدد اور نصرت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

اس کے نتیجے میں اہلِ ایمان جنت میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ جہاد، آزمایش، صبروثبات، اللہ کے لیے یکسوئی و اخلاص، صرف اللہ کے تصور اور اس کے سوا ہر شے اور ہرشخصیت سے صرفِ نظر کے بعد جنت کے مستحق و سزاوار ہوتے ہیں۔

کش مکش اور اس میں صبرواستقامت سے نفوس کو قوت و رفعت ملتی ہے۔ مصائب و آلام کی کٹھالی میں وہ تپ تپ کر پاک صاف ہوتے اور ان کا جوہر روشن و مصفٰی ہوجاتا ہے۔ اس سے ان کے عقیدے میں گہرائی، قوت اور زندگی پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کی آب و تاب سے مخالفوں اور دشمنوں کی نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں اور وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگتے ہیں___ جیساکہ واقع ہوا اور جیساکہ ہرحق کے معاملے میں ہوتا ہے۔ ابتدا میں اہلِ حق ہر طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ آزمایش میں ثابت قدم رہتے ہیں تو ان سے جنگ کرنے والے خود ان کے دائرے میں آجاتے ہیں اور ان کے بدترین دشمن ان کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور چیز جو حقیقت کے اعتبار سے اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ یہ ہے کہ دعوتِ حق کے حاملین کی اَرواح زمین کی تمام قوتوں اور اس کے تمام شرور و فتن سے بلند ہوجاتی ہیں۔ وہ سہولت پسندی و راحت طلبی ہی نہیں، آخرکار خودزندگی کی حرص سے آزاد ہوجاتی ہیں۔ یہ آزادی کمائی ہے پوری انسانیت کے لیے۔ یہ کمائی ہے ان اَرواح کے لیے، جو اس تک دنیا سے بے نیازی کی راہ سے پہنچتی ہیں۔ یہ کمائی ان تمام مصائب و آلام اور شدائد و مشکلات سے___ جن سے اہلِ ایمان، جو اللہ کے پرچم، اس کی امانت، اس کے دین اور اس کی شریعت کے حامل ہیں، دوچار ہوتے ہیں___ زیادہ وزنی ہے۔

یہ آزادی آخرکار انسان کو جنت کا اہل بناتی ہے۔ درحقیقت یہی جنت کا راستہ ہے!

وہ راستہ کیا ہے؟ ایمان وجہاد، ابتلا و آزمایش، صبروثبات اور صرف اللہ کی طرف توجہ، پھر اللہ کی مدد آتی ہے۔ پھر جنت اور اس کی نعمتیں استقبال کرتی ہیں‘‘۔(سیّد قطب شہیدؒ، فی ظلال القرآن، ج۱، ترجمہ سیّد حامد علی، ص ۵۳۳)

غزوۂ بدر اور یوم الفرقان

غزوئہ بدر وہ معرکہ ہے جسے یوم الفرقان، یعنی حق اور باطل کا فرق کردینے والا دن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آزمایش اتنی کڑی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی آہ و زاری کے ساتھ اپنے رب کو پکارا اور فریاد کی کہ: ’’خداوندا بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی‘‘۔ گویااس آزمایش کے موقعے پر نبی اکرمؐ کے بس میں جو کچھ تھا وہ آپؐ نے پیش کر دیا اور پھر اللہ سے نصرت چاہی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کن حالات کا سامنا تھا اور آپؐ کس آزمایش سے دوچار تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ’’ آپؐ نے محسوس فرمایاکہ فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے، جب کہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کرڈالا یا تو تحریکِ اسلامی ہمیشہ کے لیے   بے جان ہوجائے گی، بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لیے سر اُٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔

نئے دارالہجرت میں آئے ابھی پورے دو سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ مہاجرین بے سروسامان، انصار ابھی ناآزمودہ، یہودی قبائل برسرِ مخالفت، خود مدینہ میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقت ور عنصر موجود، گردوپیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی۔ ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں تو ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچاکر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی یک لخت مسلمانوں کی ایسی ہوا اُکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہوجائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جاے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اُٹھائیں گے اور دارالہجرت میں جینا مشکل کردیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب و اثر نہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جان، مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بناپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم فرما لیا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص۱۲۴)

اللّٰہ کی مدد

۱۷رمضان ۲ ہجری میں بدر کے میدان میں پیش آنے والا یہ معرکہ کوئی معمولی معرکہ نہ تھا۔ ایک طرف ایک ہزار کا لشکرِ جرّار تھا اور دوسری طرف ۳۱۳ ؍ اہلِ ایمان تھے جن کی بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے ۷۰ اُونٹوں سے زیادہ نہ تھے جن پر تین تین اور چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامانِ جنگ بھی ناکافی تھا۔ صرف ۶۰ آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان تھا اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہ تھا۔ گویا یہ موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔

اس موقعے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنی مدد اور نصرت سے نوازا اور نبی کریمؐ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اور وہ موقع، جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمھاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمھیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمھیں خوش خبری ہو اور تمھارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقینا اللہ زبردست اور توانا ہے۔

اور وہ وقت، جب کہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہاتھا ، اور آسمان سے تمھارے اُوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمھیں پاک کرے اور  تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کرے اور تمھاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمھارے قدم جما دے۔

اور وہ وقت، جب کہ تمھارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ’’میں تمھارے ساتھ ہوں،  تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑجوڑ پر چوٹ لگائو‘‘۔یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور رسولؐ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے....

پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمایش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقینا اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔(الانفال ۸: ۹-۱۳، ۱۷)

قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوئہ بدر میں اہلِ ایمان کی کس طرح مدد کی۔ ان کی ہیبت دشمن پر طاری کردی اور دشمنانِ اسلام کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود اہلِ ایمان کو کم دکھائی۔بارش کے ذریعے مسلمانوں کے قدم جما دیے اور کفار کی طرف زمین میں کیچڑ سے پائوں دھنسنے لگے۔ خود فرشتوں نے اہلِ ایمان کی قتال میں مدد کی۔ جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھت الوُجُوہ (چہرے بدنما ہوجائیں)کہہ کر پھینکی اور مسلمان یکبارگی کفار پر حملہ آور ہوگئے اور بالآخر سرخرو ہوئے۔

اھلِ ایمان کی کڑی آزمایش

’’اس معرکۂ کارزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرینِ مکہ کا تھا جن کے اپنے   بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا چچا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی، اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمایش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنھوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تُل گئے ہوں۔

 انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انھوں نے عرب کے طاقت ور ترین قبیلے، قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جارہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔

یہ جسارت صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انھیں ذرہ برابر پروا نہ رہی ہو۔ آخرکار ان لوگوں کی صداقت ِ ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور قریش اپنے سارے غرورِ طاقت کے باوجود ان بے سروسامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ ان کے ۷۰ آدمی مارے گئے، ۷۰ قید ہوئے اور ان کا سروسامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جو ان کے گل ہاے سرسَبد اور اسلام کی مخالف تحریک کے روحِ رواں تھے اس معرکے میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابلِ لحاظ طاقت بنا دیا۔ جیساکہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے، ’’بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا، مگر بدر کے بعدوہ مذہب ِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۱۲۶-۱۲۷)

آج بھی معرکۂ حق و باطل برپا ہے۔ اہلِ ایمان، اہلِ باطل اور اسلام مخالف قوتوں کے تمام تر جبر، ظلم و ستم، سفاکیت اور سازشوں کے اسلام کے غلبے کی جدوجہد کو منظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس راہ میں جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں، کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی منتظر ہے! شہدا کی یہ ایسی فصل ہے جو ایک طرف شہادتِ حق کے علَم برداروں کی ہے جو حق کی گواہی دے رہے ہیں، اور دوسری طرف اپنی جان راہِ خدا میں لٹاکر شہادت کی منزل پانے والوں کی ہے۔ تمام تر سفاکیت کے باوجود یہ فصل کٹنے میں نہیں آرہی، بلکہ عزیمت و استقامت کی ایک ایسی داستان ہے جو اہلِ ایمان اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن کی سازشوں سے بچتے ہوئے اور پاے استقامت میں لغزش لائے بغیر اس جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔ اللہ کی راہ میں جہاد، آزمایش، صبروثبات، اللہ کے لیے یکسوئی و اخلاص اور اللہ کے سوا ہرشے اور ہرشخصیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنا ہی جنت کا راستہ اور نصرتِ الٰہی کے قانون اور اللہ کے وعدے کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ بقول اقبال:

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا

اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

(ارمغانِ حجاز)

’سیّد قطب کو پھانسی دے دی گئی‘۔

’سیّد قطب کو شہید کر دیا گیا۔‘

اخبارات کی شہ سرخیوں اور ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروں میں اطلاع اورتاثر سے لبریز الفاظ شائع ہوئے اور آوازیں ابھریں۔

جنھوں نے سمجھا تھا: ’آواز کو دبا اور قلم کو توڑ دیا ہے، اب ہمارا اقتدار محفوظ ہے‘، وہ نہ آواز کو دبا سکے، نہ قلم کی قوت سلب کر سکے اور نہ اپنے اقتدار کو بچا سکے۔

آج وہ آواز زندہ ہی نہیں، بہت توانا بھی ہے۔ اس قلم سے نکلی تحریریں آج بھی روشنی اور نور بکھیر رہی ہیں۔ ان الفاظ کی خوشبو سے فضائوں کو معطر کرنے والے، دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ اس فرد کا استدلال، اسلام کے پروانوں کا دماغ ہے۔ وہ جو قیدوبند اور بیماری و نقاہت کے باعث ہمدردی کا مستحق قرار دیا جا رہا تھا، آج وہی ہے جو برہانِ ربّانی بنا جاہلیت اور طاغوت کی رگِ جاں کے لیے چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ یہ نام ہے سیّد قطب شہید۔

o

سیّد قطب شہید کے والد ابراہیم قطب، مصر کے ضلع اسیوط کے موشا، نامی گائوں میں رہتے تھے۔ وہیں ۶؍اکتوبر۱۹۰۶ء کوسیّد قطب کی ولادت ہوئی۔ ان کا نام سیّد رکھا گیا اور قطب ان کا خاندانی نام تھا(یہاں لفظ ’سید‘ بطور نام ہے، سیّد زادہ‘ نہیں)۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی کے بقول انھیں سیّد قطب نے بتایا تھا کہ پانچ نسلیں پیش تر ہمارے آباواجداد ہندستان کے کسی علاقے سے ہجرت کرکے عرب میں آبسے تھے۔ سید قطب کے والد ابراہیم قطب، مصر کے مشہور رہنما مصطفیٰ کامل پاشا [۱۴؍اگست۱۸۷۴ئ-۱۰؍فروری۱۹۰۸ئ] کی تحریک ’حزب الوطنی‘ سے متاثر تھے، جو مصر کی آزادی اور مغربی سامراج کی غلامی سے نجات کے لیے متحرک تھی۔ چند برسوں بعد یہ خاندان گائوں چھوڑ کر قاہرہ کی ایک نواحی بستی حلوان میں آباد ہو گیا۔

۱۰برس کی عمر میں سید قطب، قرآن کریم حفظ کرکے قاہرہ کے ثانوی مدرسے میں داخل ہوگئے۔ اسکول کے زمانے ہی میں وہ سامراجی قوتوں کے خلاف تقریریں کرنے میں پیش پیش تھے۔ کالج میں داخل ہوئے تو ماموں کے ہاں رہنے لگے۔ ۱۹۲۹ء میں ایجوکیشن میں آنرز کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا، اور لیکچرر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۸ء میں والد کا انتقال ہو گیا، تو ان کی والدہ اپنے بچوں سمیت، اپنے بھائی احمد حسین الموشی کے ہاں قاہرہ آگئیں۔ اعلیٰ صلاحیت اور محنت کے نتیجے میں ان کو ۱۹۳۹ء میں وزارت تعلیم نے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز کر دیا۔ ۱۹۴۰ء میں ان کی والدہ محترمہ بھی انتقال کر گئیں۔یوں بڑا بھائی ہونے کے ناتے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سید قطب کے کندھوں پر آگئی۔

لڑکپن کے زمانے میں سید قطب انگریزوں سے حصول آزادی کے لیے سعد زغلول پاشا (۱۸۵۹۔۲۳؍اگست۱۹۲۷ئ) اور ان کی ’وفد پارٹی‘ سے متاثر تھے، جو استعماری ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے میں بڑی جرأت سے متحرک تھی۔ تب مصر پر احمد فواداوّل (۱۸۶۸ئ-۲۸؍اپریل ۱۹۳۶ئ) کی بادشاہت تھی اور برطانیہ کی بھرپور پشت پناہی۔ سید قطب کی ابتدائی تحریریں، آزادیِ وطن کے انقلابی لہجے سے بھرپور پیغام پیش کرتی ہیں۔وہ مصری حکمرانوں کے استبداد اور انگریز نوازی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مثال کے طور پر مصر کے وزیر اعظم [۲۴؍جون ۱۹۲۸ئ- ۴؍اکتوبر۱۹۲۹ئ] محمد محمود پاشا [م:۱۹۴۱ئ] نے جب اپنے ایک بیان میں حریت و استقلال کے جذبے سے سرشار مصریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

میں قانون شکنی کرنے اور بدامنی کو ہوا دینے اور امن امان میں خلل ڈالنے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کی خبر آہنی ہاتھوں سے لوں گا۔

اس بیان نے ملک میں خوف کی لہر دوڑا دی،اور سید قطب تڑپ اٹھے۔ انھوں نے اخبار کو مضمون بھیجا، جس میں لکھا:

یَا صَاحِبَ الْیَدِ الْحَدِیْدِیَّۃِ : [اے لوہے کے ہاتھوں والے] اگر تو اپنے لوہے کے ہاتھوں پر نظر ڈالے گا، تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ وہ زنگ آلود ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم محمود پاشا سمجھ گئے کہ حملہ جوابی ہے۔ انھوں نے انتظامیہ کے اہل کار بھیجے کہ وہ مضمون نگار کو ان کے سامنے پیش کریں، تاکہ اس کو سمجھایا جا سکے۔ سید قطب، وزیراعظم دفتر پہنچے تو وزیراعظم محمود پاشا اپنے سامنے ۲۲سالہ نوجوان کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھنے لگے:

’’اے نوجوان! یہ مضمون تم ہی نے لکھا ہے؟‘‘

سید قطب نے جواب دیا: ’’جی ہاں، یہ میں نے لکھا ہے؟‘‘

وزیراعظم نے پوچھا: ’’اتنے سخت لہجے میں لکھنے کی وجہ؟‘‘

نوجوان سید قطب نے جواب دیا: ’’یہی میرا عقیدہ ہے‘‘۔

وزیراعظم نے حکمت سے کام لیتے ہوئے کہا: ’’جائو میرے بیٹے، جو دل میں آئے لکھو‘‘۔

وزیراعظم کا خیال تھا کہ دھمکی دیے بغیر، حکومت کے ایوانوں کا رعب لڑکے کے دل پر اثر ڈال کر رہے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔

یاد رہے یہ وہ زمانہ ہے جب ۱۹۲۸ء میں اخوان المسلمون ابھی اسماعیلیہ میں تشکیلی دور سے گزر رہی تھی۔ اگلے ۱۵ برسوں کے دوران میں سید قطب کا یہی قلم مختلف اخباروں اور رسالوں میں بڑی قوت سے ہم وطنوں کو سامراجی زنجیریں توڑنے کے لیے پکارتا رہا۔ حتیٰ کہ مصری حاکم اعلیٰ (۲۸؍اپریل۱۹۳۶ئ-۲۶؍جولائی۱۹۵۲ئ) شاہ فاروق تک تلملا اٹھا، اور وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی کہ سید قطب کو گرفتار کیا جائے۔ مگر اس کے وزیراعظم محمود فہمی نقراشی پاشا نے گرفتاری کے حکم پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیداکی، اور سید قطب کے خاندان سے ذاتی اور سماجی تعلق کی بنا پر شاہ فاروق سے کہا: ’’میں سید قطب کو سمجھائوں گا‘‘۔ نقراشی پاشا نے انھیں سمجھانے کی جسارت کرنے کے بجاے امریکی نظام تعلیم و تربیت کے جائزے کے لیے ملک سے باہر بھجوانے کی اسکیم بنائی۔

o

سیّدقطب شہید ایک عالم اور دانش ور ہی نہ تھے، بلکہ ایک صاحب طرز ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھوں نے ۱۹۳۹ء میں التصویر الفنی فی القرآن کے عنوان سے ایک قسط وار مقالہ لکھنا شروع کیا، جو مجلہ المقتطف میں طبع ہوتا رہا، اور بعد میں یہی سلسلۂ تحریر سیّد قطب کی پہلی علمی کتاب التصویر الفنی فی القرآن کی صورت میںڈھلا۔ اس کتاب کا انتساب انھوںنے اپنی والدہ مرحومہ کے نام کتنے والہانہ جذبے سے تحریر کیا:

اے میری ماں!

گائوں میں رمضان کا پورا مہینہ جب ہمارے گھر پر قاری حضرات دل نشین انداز میں قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے، تو آپ گھنٹوں کان لگا کر پوری محویت اور توجہ کے ساتھ پردے کے پیچھے سے تلاوت سنا کرتی تھیں۔

میں آپ کے پاس بیٹھ کر جب بچوں کی عادت کے مطابق شور کرتا تھا، تو آپ مجھے اشارے سے باز رہنے کی تلقین کیا کرتیں اور پھر میں بھی آپ کے ساتھ کان لگا کر سننے لگ جاتا۔ میرا دل الفاظ کے سحر انگیز لحن سے محظوظ ہوتا، اگرچہ اس وقت میں ان کے مفہوم سے ناآشنا تھا۔

آپ کے ہاتھوں جب پروان چڑھا تو آپ نے مجھے گائوں کے پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا۔ آپ کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ اللہ میرے سینے کو کھول دے، اور میں قرآن حفظ کر لوں، اور اللہ مجھے خوش الحانی کی نعمت سے نواز دے، اور پھر میں آپ کے سامنے بیٹھا ہر وقت تلاوت کیا کروں۔ پھر آپ کی یہ آرزو بر آئی اور میں نے قرآن حفظ کر لیا، اور یوں آپ کی آرزوئوں کا ایک حصہ پورا ہو گیا۔ اس طرح آپ نے مجھے اس نئی راہ پر ڈالا، جس پر میں اب گامزن ہوں۔

میری امی، آپ اگرچہ ہم سے رخصت ہو گئی ہیں، مگر اب تک آپ کی آخری تصویر میرے حافظے پر نقش ہے۔

گھر میں آپ کا ریڈیو کے سامنے بیٹھ کر خوش الحان قاری کی تلاوت کا سننا مجھے ابھی تک نہیں بھولا۔ تلاوت سنتے وقت آپ کے مقدس چہرے کا اتار چڑھائو بھی مجھے یاد ہے، جو اس بات کی دلیل تھی کہ آپ کے دل اور دماغ، قرآن کے اسرار و رموز کو بخوبی سمجھتے ہوئے متاثر ہوا کرتے تھے۔

پیاری امی!آپ کا وہی ننھا بچہ، آپ کا جوان لختِ جگر آج آپ ہی کی تعلیم و تربیت کی طویل محنت کا ثمرہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ حسنِ ترتیل کی اس میں کمی ہے، لیکن غالباً حسنِ تاویل کی نعمت سے وہ محروم نہیں۔

اللہ آپ کی قبر پر رحمت کا سایہ کرے اور آپ کے بیٹے کو محفوظ رکھے۔

بالکل اسی طرح سیّد قطب نے اپنی اگلی کتاب مشاہد القیامۃ فی القرآن کا انتساب اپنے کریم و حلیم والد کے نام کرتے ہوئے ان الفاظ کو چنا:

میرے ابّا،یہ کاوش میں آپ کی روح کی نذر کرتا ہوں۔

میں ابھی بچہ ہی تھا کہ آپ نے میرے احساس و وجدان پر یوم آخرت کا خوف نقش کردیا۔ آپ نے مجھے کبھی جھڑکا نہیں، بلکہ میری نظروں میں آپ کی ساری زندگی یوں گزری کہ قیامت کی باز پرس کا احساس ہر آن آپ پر غالب رہتا۔ ہروقت آپ کے دل اور ضمیر پر اس کا اثر اور زبان پر اس کا ذکر رہتا۔

دوسروں کے حقوق دلانے اور دینے کے وقت آپ اپنی ذات کو تکلیف میں ڈال لیتے، اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے وقت آپ پر بے نیازی اور ایثار کی کیفیت طاری رہتی۔

آپ دوسروں کی زیادتیوں پر کھلے دل سے درگزر فرماتے، حالانکہ ان کو جواب دینے کی آپ میں طاقت ہوتی تھی۔ دراصل آپ قیامت کے روز اس صبر کواپنے لیے کفّارہ سمجھتے تھے۔ اکثر آپ اپنی ضروریات کی اشیا بھی دوسروں کو پیش کردیتے، حالانکہ آپ کو ان کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن آپ کہا کرتے تھے: ’زادِ آخرت جمع کر رہا ہوں۔‘

آپ کاچہرہ میری یاد داشت پر اس طرح نقش ہے کہ: رات کے کھانے سے فراغت کے بعد ہم اسی طرح آپ کو تلاوتِ قرآن میں مگن دیکھتے، جس طرح آپ صبح تلاوت کیا کرتے تھے، اور اپنے والدین کی ارواح کو ثواب پہنچاتے تھے۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے بھی آپ کے ساتھ اِدھر اُدھر سے چند آیات گنگنانے لگتے، جو ہمیں پوری طرح یاد نہ ہوتی تھیں۔

سید قطب کا ابتدائی دور تحریر ادب، شاعری، ادبی تنقید اور سرگرم صحافت کی وادیوں میں  فکر و دانش کے چراغ روشن کرنے سے منسوب ہے۔ اس ضمن میں وہ عباس محمود العقاد (۲۸؍جون ۱۸۸۹ئ، اسوان- ۱۳؍مارچ۱۹۶۴ئ، قاہرہ) کے طرز تحریر اور اسلوبِ اظہار سے متاثر تھے۔ سیّدقطب کے ماموں احمدحسین الموشی، استاد عباس محمود العقاد کے دوست تھے۔ العقاد عربی ادب کے بڑے صاحبِ قلم تو تھے ہی، اور اسی طرح ان کے ہاں قرآن سے رہنمائی اور حریت پسندی سے وابستگی کے ساتھ الحاد سے بے زاری بھی فراواں تھی۔ سیدقطب نے ان تمام خوبیوں کو العقاد کی صحبت اور مطالعے سے بخوبی اخذکیا۔

سیّد قطب کی جس کتاب نے بڑے پیمانے پر اہلِ علم و دانش کی توجہ کھینچی، وہ العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ہے، جو ۱۹۴۷ء میں یعنی ان کے امریکا جانے سے پہلے شائع ہوئی۔ اردو ترجمہ [از:پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی] اسلام میں عدل اجتماعی ۱۹۶۰ء میں طبع ہوا۔

 جیسے ہی اس کتاب کی پہلی کاپی مرشد عام امام حسن البنا کے ہاتھوں میں پہنچی، تو انھوںنے کتاب پڑھ کر ایک بھری مجلس میں بے ساختہ فرمایا:

’اِن پاکیزہ افکار کے مصنف کو الاخوان المسلمون میںہونا چاہیے۔‘

مصری حکومت نے ۱۹۴۸ء میں جدید طریقۂ تعلیم و تربیت کے مشاہدے اور مطالعے کے لیے انھیں امریکا بھیجا۔ پہلے چھے مہینے وہ ولسن ٹیچرز کالج، واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ رہے۔ پھر  یونی ورسٹی آف ناردرن کولوراڈو (تاسیس:۱۸۸۹ئ) کے کولوراڈو کالج آف ایجوکیشن، گریلی میں داخل ہوئے۔ جہاں وہ تقریباً ڈیڑھ سال رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے امریکا کے دیگر شہروں: سان فرانسسکو، اسٹن فورڈ، نیویارک، شکاگو، لاس اینجلز وغیرہ میں بھی تھوڑا تھوڑا عرصہ قیام کیا اور امریکی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو قریب سے دیکھا۔

امریکا سے واپسی پر وہ چند ہفتے برطانیہ، سویزرلینڈ اور اٹلی میں بھی رہے۔ مغربی دنیا میں اس قیام کے دوران میں انھوں نے مغربی افکار کی حقیقت اور مادی تہذیب کی تباہ کاریوں کا     براہِ راست مشاہدہ کیا اور اس کے بعد ہی ان پر حقیقت واضح ہوئی اور یہ یقین ان کے دل میں   بیٹھ گیا کہ انسانیت کی فلاح صرف اسلام میں ہے۔

۱۹۵۰ء کے آخری ہفتوں میں سیّد قطب امریکا و یورپ کے سفر سے واپس آئے۔ ۱۹۵۱ء کے ابتدائی دنوں میں الاخوان المسلمون سے گہرے تعلق کو انھوں نے اپنی روح میں اترتے محسوس کر لیا، اور وابستہ ہوگئے، گویا: ’’پھر دل نے بیٹھنے نہ دیا عمر بھر کہیں‘‘۔ تب اپنی کتاب اسلام اور عدلِ اجتماعی کا انتساب ان لفظوں میں نئے سرے سے لکھا:

اُن صالح نوجوانوں کے نام

جنھیں میں اپنی چشمِ خیال میں دیکھا کرتا تھا۔

لیکن اب، ان کو حقیقی زندگی میں اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے ہوئے پاتا ہوں۔ یہ وہ مومنین ہیں، جن کے نفوس کی گہرائیوں میں یہ حقیقت پیوست ہے کہ عزت: اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین ہی کے لیے ہے۔

ان نوجوانوں کے نام

جو میرے خیالات میں، اور خوابوں میں ابھرے تھے، لیکن حقیقت میں وہ خیال سے بھی آگے، اور آرزوئوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔

ان نوجوانوں کے نام

جو ضمیرِ غیب سے اس طرح پھوٹے ہیں، جس طرح ضمیرِعدم سے حیات پھوٹتی ہے، اور جس طرح ظلمتوں سے نور پھوٹتا ہے۔

ان نوجوانوں کے نام

جو اللہ کے نام پر، اللہ کی راہ میں، اور اللہ کی رحمتوں کے زیر سایہ جہاد کرتے ہیں،

میں یہ کتاب انھی کے نام منسوب کرتا ہوں۔

سیّد قطب نے ۱۹۵۳ء میں قاہرہ سے مجلہ الفکر الجدید  جاری کیا۔ اس پرچے  میں دیگر موضوعات کے ساتھ، انھوں نے جاگیردارانہ ظلم، سرمایہ دارانہ سفاکی اور استعماری حیوانیت پر شدت سے لکھنا شروع کیا۔ دولت کی ذخیرہ اندوزی اور مالی اجارہ داری کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں غلط ثابت کیا۔ عدل، انصاف، غربا کی دست گیری اور قرآن و سنت سے اسلام کے اقتصادی نظام کی طرف دعوت دی کہ بعض لوگوں نے ان کے افکار کو اشتراکی فکر کا اثر قرار دے ڈالا۔ حالانکہ وہ فکر و خیال کی کسی لہر میں اشتراکی تحریک سے کچھ بھی علاقہ نہیں رکھتے تھے۔ درحقیقت اُس زمانے میں کمزوروں، ناداروں، مظلوموں، محکوموں اور نو آبادیاتی نظام میں جکڑے لوگوں اور پسے ہوئے طبقوں کی دست گیری کرنے یا اُن کے حق میں کلمۂ خیر کہنے والے کو بے جا طور پر ’اشتراکیت زدہ‘ باور کرنے میں کچھ دیر نہ لگتی۔ جس طرح بعد کے زمانے میں آزادی کی جدوجہد کرنے یا اپنے ملّی حقوق کا تحفظ کرنے والے ہر مسلمان کو ’دہشت گرد‘ اور’انتہا پسند‘ کہا جانے لگا۔

۲۳؍جولائی ۱۹۵۲ء کو جنرل محمد نجیب کی سربراہی میں مصر میں فوجی انقلاب آیا، تواخوان کی آزمایشوں کا دور عارضی طور پر ختم ہوگیا۔ اس دوران میں سید قطب اخوان کے مرکزی دفتر میں  شعبہ دعوت کے انچارج مقرر ہوئے۔ انھوںنے اپنے آپ کو ہمہ تن اخوان کی دعوت کے لیے وقف کردیا۔ جولائی ۱۹۵۴ء میں وہ جریدہ الاخوان المسلمون  کے مدیر مقرر ہوئے۔ ۷؍جولائی ۱۹۵۴ء کو اینگلو مصری معاہدہ ہوا۔ اخوان نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا۔ سید قطب کے قلم نے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں، اسی جرم میں یہ جریدہ ستمبر۱۹۵۴ء میں حکومت نے بند کر دیا۔

اس سے قبل ۱۹۵۰ء میں الاخوان کے نوجوان عبقری رہنما سعید رمضان نے مجلہ المسلمون جاری کیا، اور اگلے برس سید قطب سے درخواست کی کہ وہ ہر شمارے کے لیے فی ظلال القرآن کے عنوان سے ایک مستقل کالم لکھا کریں۔ سیّد قطب نے اس تجویز کو شرفِ قبولیت بخشا اور بہت جلد ان کا یہ کالم مجلہ المسلمون کی جان اور عالم عرب میں دعوتِ قرآن کا موثر وسیلہ بن گیا۔ اسی دوران میں قاہرہ کے ایک اشاعتی ادارے نے سید قطب سے باقاعدہ درخواست کی کہ وہ اس سلسلۂ مضامین کو مستقل تفسیر اور کتاب کی شکل دیں۔ یوں جنوری۱۹۵۴ء تک اس کی پہلی چار جلدیں مکمل ہو گئیں۔ ۲۶؍اکتوبر۱۹۵۴ء کو مصری غاصب حکمران جمال ناصر نے قاتلانہ حملے کے جھوٹے الزام میں اخوان کے ۵ہزار کارکنوں کو گرفتار کر لیا،جن میں سیّدقطب بھی شامل تھے۔

ان گرفتار شدگان میں سے اخوان کے چھے رہنمائوں: سیکرٹری جنرل (سابق) جسٹس عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم طیب، ہنداوی دویر اور عبداللطیف کو ۸؍دسمبر۱۹۵۴ء کے روز پھانسی دے دی، لیکن مرشد عام حسن الہضیبی کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی۔

اس گرفتاری کے دوران سید قطب کو آہنی بیڑیوں میں جکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہاں شدتِ بخار نے ان کی صحت برباد کرکے رکھ دی۔ انھیں قلعہ جیل، ابوزعبل اور لیمان طرہّ کی دہشت انگیز جیلوں میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ حالت تشویش ناک حد تک خستہ ہو گئی تو انھیں زنجیروں میں جکڑ کر فوجی ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔ اس طرح صرف آٹھ ماہ میں وہ دل، سانس اور اعصاب کے امراض میں گھر چکے تھے۔

انھی پُر مصائب ایام میں انھوں نے بچی کھچی قوت مجتمع کرکے فی ظلال القرآن کی   طبع شدہ جلدوں پر نہ صرف نظر ثانی کی، بلکہ بقیہ جلدوں پر بھی کام شروع کیا۔ تاہم ترقی پسند انقلابی فرعون جمال ناصر نے ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ: سید قطب جو لکھیں، اس میں سے ’قابلِ اعتراض‘ حصے حذف کر دیے جائیں، تاکہ ’روشن خیال قومی حکومت‘ پر کوئی زد   نہ پڑے۔‘ اس کڑے جبر کے نظام کے باوجود سید قطب نے تفسیر مکمل کی۔ مذکورہ سنسر کمیٹی نے  ’سورۂ فجر‘ اور ’سورہ بروج‘ کے مقدمے کی اشاعت روک دی۔ پھر اسی طرح تفسیری مسودے کے کئی کئی حصے حذف کر دیے۔ ایسے بعض قلمی شذرے ان کی کتاب معالم فی الطریق کا حصہ ہیں۔

سید قطب کے چھوٹے بھائی پروفیسر محمد قطب نے فی ظلال القرآن کے انگریزی ترجمے In The Shade of the Quran کی تعارفی سطور میں لکھا:

فی ظلال القرآن مصنف کی فکری زندگی کے سب سے زیادہ معرکہ آرا برسوں کا ثمر ہے۔ اس تفسیر کا طویل ترین حصہ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک کی مدت میںلکھا گیا، جب کہ وہ جیل میں قید تھے۔ اسلام کے عظیم مقاصد کی خاطر انھوں نے اپنے افکار، اپنے احساسات، اپنی راتوں، اپنے دنوں اور درحقیقت اپنی پوری زندگی کو وقف کر دیا تھا۔ اس دوران میں وہ پوری طرح قرآن کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے۔ ایک ہمہ پہلو اور بھرپور جدوجہد، جس کی وجہ سے وہ قید ہوئے اور پھر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، صرف اس مقصد کے لیے تھی کہ اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ایک گروہ کی شکل میں سامنے آئے، جو اپنی زندگی میں اسلام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کا داعی بھی ہو، یہاں تک کہ اسلام اس پوری ملت کا بحیثیت مجموعی عملی دستورِ حیات بن جائے۔ فی ظلال القرآن،درحقیقت اسی جدوجہد کی ایک اہم ترین کڑی ہے، اور اس لیے یہ قرآن کی مجرد تفسیر سے بہت آگے کی چیز ہے۔

تفسیرفی ظلال القرآن: بلند پایہ ادبی اسلوب، معتدل طرزِ بیان، ضعیف روایات سے پاک، عصری جاہلیت پر نقد و جرح، جدید تحقیقات کی عادلانہ تفہیم، فقہی اختلافات سے اجتناب، انقلاب آفرین اظہارِ مدعا اور قرآن و دین کو ایک ہمہ پہلو تحریک بنا دینے کا نصاب ہے۔

جمال ناصر نے اخوان پر دل لرزا دینے والے مظالم ڈھائے، کئی ذمہ داروں کو شہید کر دیا گیا۔ مختلف اوقات میں اخوان کے ۵۰؍ہزار کارکنوں کو جیل کی اندھیری کوٹھڑیوں میں ٹھونس دیا گیا۔انھیں کئی کئی دن بھوکا رکھا گیا۔اس حالت میں ان سے مشقت کرائی گئی، ان پر کتّے چھوڑکر بھنبھوڑا گیا۔ ان قیدیوں کو اس بری طرح پیٹا جاتا کہ پیٹنے والے تھک جاتے۔

اس داستانِ الم کو پڑھنے کی تاب ہو تو یہ کتابیں پڑھ لی جائیں: lرُودادِ قفس )ایام من حیاتی) از زینب الغزالی  lرُودادِ ابتلا از احمد رائف، lوادیِ نیل کا قافلۂ سخت جان از حامد ابونصر (ترجمہ: حافظ محمد ادریس)lیادوں کی امانت از عمر تلمسانی (ترجمہ: حافظ محمد ادریس)۔

سید قطب جیسے بے مثل فاضل مصنف اور مدبر کے ساتھ، جو انتہائی سخت حالات پیش آئے، ان کی سرگذشت یوسف المعظم نے تحریر کی ہے:

تعذیب کے گونا گوں پہاڑ سید قطب پر توڑے گئے۔ انھیں آگ سے داغا گیا۔ پولیس کے کتوں نے انھیں کچلیوں میں لے کر گھسیٹا، ان کے سر پر مسلسل کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا پانی انڈیلا گیا، انھیں لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا۔ دل آزار الفاظ اور بازاری اشاروں سے ان کی توہین کی گئی، مگر ان سب چیزوں نے سید قطب کے ایمان و یقین میں اضافہ کیا اور راہ حق پر ان کے قدم اور مضبوطی سے جم گئے۔

۱۳؍جولائی۱۹۵۵ء کو مصر کی ’عوامی عدالت‘نے سید قطب شہید کو ۱۵سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ اس روز وہ بیماری و کمزوری کے سبب اور قیدی ہونے کے باوجود عدالت میں حاضر ہونے سے قاصرتھے۔ ۱۹۵۶ء کے وسط میں ان سے کہا گیا کہ وہ چند سطریں معافی نامے کے طور پر لکھ دیں تو ان کو رہا کر دیا جائے گا۔ یہ الفاظ سید قطب کے سینے میں تیر کی طرح لگے، ان کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا اور انھوں نے تڑپ کر فرمایا:

مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو مظلوم سے کہتے ہیں کہ ظالم سے معافی مانگو۔ خدا کی قسم، اگر معافی کے چند الفاظ بھی مجھے پھانسی سے نجات دلا سکتے ہوں، تومیں تب بھی انھیں کہنے یا لکھنے کے لیے کبھی اور کسی صورت میں تیار نہ ہوں گا، اور میں اپنے رب کے حضور اس حال میں حاضر ہونا پسند کروں گا کہ میں اس سے خوش ہوں اور وہ مجھ سے خوش۔

سیّد قطب بچپن سے معدے اور انتڑیوں کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ نوجوانی میں سانس کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا۔ اسی لیے ڈاکٹر جسمانی محنت سے منع کرتے تھے۔ ۴۰ برس کی عمر میں دوستوں سے کہا: اسکندریہ جا رہا ہوں‘‘ پوچھا: ’’کیوں؟‘‘۔ کہا :’’ہوا کی تبدیلی کے لیے‘‘۔ پوچھا: ’’ہوا کی تبدیلی؟‘‘ کہا: ’’ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ تمام دوائیاں آزما لی ہیں، کچھ بھی افاقہ نہیں ہو رہا، تو بہتر یہی ہے کہ ہوا کی تبدیلی کے لیے چند ہفتے اسکندریہ چلے جائو‘‘۔

۱۹۵۴ء کی گرفتاری کے دوران میں تشدد کے باعث سانس کی بیماری دو چند ہو گئی، اور ساتھ ہی گردوں کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا، اور حالت یہ ہوگئی کہ پھیپھڑوں سے خون آنے لگا۔ اسی لیے دو ماہ تک فوجی عدالت میں سماعت بھی رکی رہی۔ جیل کے ہسپتال میں علاج ممکن نہ رہا تو ڈاکٹروں کے بورڈ نے [غیرفوجی] المنیل ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی، مگر دیر تک فوجی حکام نے اجازت نہ دی۔ انجام کار جب حالت نازک ہو گئی تو وہاں بھیجا گیا، مگر چند ہفتوں بعد پھر واپس جیل لے آیا گیا۔ دو ماہ بعد حالت ویسی ہی ہوگئی تو ایک بار پھر کچھ عرصے کے لیے المنیل لانا پڑا۔ پھر ۱۹۶۳ء میں تیسری بار صحت جواب دینے لگی تو عراقی صدر عبدالسلام عارف کی اپیل پر رہا کیا گیا۔

o

۱۹۶۴ء میں ۱۰ سالہ قید بامشقت گزارنے کے بعد سید قطب کو رہا کیا گیا۔ اخوان المسلمون کے تیسرے مرشد عام عمر تلمسانی کے بقول: ۱۹۶۴ء میں جب سید قطب رہا ہوئے، تو عراقی صدر عبدالسلام عارف نے انھیں تعلیم و تربیت کے ایک اعلیٰ منصب کی پیش کش کی، کہ وہ عراق کے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے کاوشیں کریں۔ سیّد شہید نے مجھ سے اس پیش کش کے قبول یا قبول نہ کرنے کے بارے میں مشورہ مانگا۔ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ: ’’آپ یہ پیش کش قبول کر لیں اور عراق چلے جائیں‘‘۔ دراصل مجھے مصر کے فوجی حکمرانوں کے ارادے برے نظر آ رہے تھے۔ تاہم، سیّد قطب نے میرے مشورے کے برعکس فیصلہ یہ کیا کہ وہ اپنی عالمانہ فکر کا دفاع کرنے کے لیے مصر ہی میں رہیں گے‘‘۔

رہائی پانے کے بعد سید قطب نے اپنی کتاب معالم فی الطریق کا مسودّہ، مرشدعام امام حسن الہضیبی کی خدمت میں پیش کیا، تاکہ اخوان کے کارکنان کے مطالعۂ نصاب میں اس سے استفادہ کیا جا سکے۔ مرشدِ عام نے مسودے کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا: ’’زیادہ مناسب ہوگا کہ اسے شائع کر لیا جائے، تاکہ اخوان اور عام لوگ بھی اس سے بخوبی استفادہ کرسکیں‘‘۔ چنانچہ ۱۹۶۴ء میں یہ کتاب شائع ہو گئی۔ اس کتاب کا ہر صفحہ اور ہر سطر سید قطب کے ایمانِ کامل اور عملی شعور کی زندہ دلیل ہے۔ تاہم اگلے برس اگست۱۹۶۵ء میں سید قطب کو گرفتار کرنے کے لیے ایک سازش کا افسانہ تراشا گیا۔ دیگر بے معنی الزامات کے ساتھ سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق (جادہ ومنزل ترجمہ: خلیل احمد حامدی) کے جس پیراگراف کو خطرناک قرار دیتے ہوئے، صدر ناصر نے سید قطب کو گردن زنی قرار دیا، وہ تحریر یہ تھی:

جس طرح اسلام کے دورِ اوّل میں اسلامی معاشرہ ایک مستقل اور جداگانہ معاشرے کی صورت میں ترقی کی فطری منازل طے کرتا ہوا بام عروج کو پہنچا تھا، اسی طرح آج بھی، ویسا ہی اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لیے اسی طریق کار کو اختیار کیا جانا لازم ہے۔ اس اسلامی معاشرے کو اردگرد کے جاہلی معاشروں سے الگ رہ کر اپنا تشخص قائم کرنا ہوگا۔ (جادہ و منزل، ص۵۰-۵۱)

ان پانچ سطورکو ناصر حکومت نے ’بغاوت کی بنیاد‘ قرار دیا۔ سید قطب کے ساتھ اُن کے بھائی محمد قطب اور بہنوں امینہ قطب،حمیدہ قطب کے علاوہ زینب الغزالی [۲؍نومبر۱۹۱۹ئ- ۳؍اگست۲۰۰۵ئ]، مرشد عام کی اہلیہ، ان کی بیٹی خالدہ اور ۷۰۰ سے زیادہ باپردہ خواتین کو بھی گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا: ’’ان کے ساتھ کم و بیش ۲۰ہزار مرد کارکنوں کو قید کر لیا گیا اور مزید گرفتاریاں جاری رکھیں‘‘۔ (ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ۱۱؍اکتوبر۱۹۶۵ئ)

اس گرفتاری کے دوران میںسیّد قطب اور ان کے رفقا کی کیا حالتِ زار رہی؟ اس کی ایک جھلک دکھانے کے لیے لبنانی عیسائی ادیب روکس معکرون کی کتاب اقسمت ان اَروی [میں نے قسم کھائی، سب کچھ بتائوں گا] سے چند اقتباسات ذیل میں دیے جا رہے ہیں۔ روکس معکرون اس زمانے میں چار برس تک مصر کی جیلوں میں قید رہے، لبنان واپسی پر یہ مختصر کتاب لکھی:

اخوان کے بعض نظر بند، جیل کی چاردیواری میں عمارت کے اندر چکر لگا رہے ہیں۔ ان کے پائوں زخمی ہیں اور جسم تھکن سے چور۔ مگر پہرے داروں کے ہاتھوں میں کوڑے ہیں۔ جونہی کوئی نظر بند رُکتا ہے، پہرے دار کوڑے مار مار کر اس کی کمر لہولہان کر دیتے ہیں۔ پہرے داروں کی ایک اور ٹولی نظر بندوں کے چہروں پر گرم چُونا پھینک رہی ہے۔

لیمان جیل میں ایک اِخوانی کے چند رشتے دار ملنے آئے۔ پہرے داروں نے ان میں سے ایک خاتون سے بدکلامی کی۔ اِخوانی کو غصہ آگیا، اس نے زنجیروں میں جکڑا ہونے کے باوجود پہرے دار کو ڈانٹا، اور ساتھیوں نے بھی اس کی تائید کی۔ تھوڑی دیر بعد داروغۂ جیل کے حکم پر بہت سے اخوانیوں کو صحن میں لایا گیا اور ان نہتے لوگوں پر گولیوں کی بارش ہونے لگی۔ ۲۱نوجوان تو اسی وقت شہید ہو گئے۔ مرتے مرتے ان کی زبان سے اسلام کا کلمہ طیبہ جاری تھا۔ ۵۶شدید زخمی ہوئے، جن میں سے ۱۱ بعد میں چل بسے۔ دن بھر لاشیں پڑی رہیں اور باقی لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ انھیں روندتے ہوئے گزریں۔

ایک نوجوان طالب علم محی الدین کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بھائی سے ایک ایسی حرکت کا مرتکب ہو، جس کے تصور ہی سے گھِن آتی ہے، زبان اسے بیان نہیں کر سکتی اور قلم لکھتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔ یہ حکم سُن کر طالب علم فرطِ غم سے بے ہوش ہو گیا، لیکن کوڑے مارنے والے ہی اسے ہوش میں لائے۔ اب آگے کیا لکھا جائے۔

یہ ۵۹سالہ سیّد قطب ہیں، جو مسلم دنیا کے نامور صاحب ِ قلم اور مصنف ہیں۔ جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس کی صرف ایک ہی مثال کافی ہے۔ اس عظیم دانش ور کے لیے ظالموں نے ایک بھیڑیا نما کتا پال رکھا تھا۔ جب سیدقطب بھوک، پیاس، تھکن اور سزا کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو جاتے تو کتا ان پر چھوڑ دیا جاتا۔ اور یہ کتا انھیں ٹانگ سے پکڑتا اور صحن میں گھسیٹتا پھرتا۔

سید قطب اور ان کے رفقا کا مقدمہ فوجی عدالت کے سپرد کیا گیا۔ اس نام نہاد عدالت کے کارندوں نے سماعت کے پورے دورانیے میں ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیے رکھا۔ جس کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ ذہنی اذیت دی جائے، اور دوسرا یہ کہ وہ ردِ عمل میں اگر کچھ سخت کہیں تو اسے بہانہ بنا کر یہ مشہور کیا جائے کہ یہ ’لوگ غیر مہذب‘ ہیں۔اٹارنی جنرل صلاح نصار اس نام نہاد عدالتی کارروائی کے دوران میں سید قطب کو کبھی ’جرائم پیشہ لوگوں کا لیڈر‘ اور کبھی اس سے بھی زیادہ پست لفظوں میں مخاطب کرتا۔

o

آخری مقدمے کی سماعت کے دوران میں سیّد قطب پر اٹارنی جنرل صلاح نصار کی جرح کے کچھ حصے:

صلاح نصار: آپ کے وہ مضامین جو معالم فی الطریق میں شامل ہیں، کیا جیل میں لکھے گئے، اور ان کا موضوع کیا ہے؟

  • سیّد قطب: ہاں، میں نے جیل میں لکھے ہیں۔ ان میں بنیادی موضوعات اصولِ عقیدہ سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ حاکمیتِ رب کا مسئلہ ہے، تنظیم کا مسئلہ ہے۔
  •  کیا حسن الہضیبی آپ کی اس راے سے پہلے سے واقف تھے؟ اور انھوں نے آپ کی یہ تحریر دیکھی ہے؟
  • سیّد قطب: جی انھوںنے دیکھی ہے۔
  •  کیا آپ الہضیبی سے ملے ہیں؟
  • سیّد قطب: ۱۹۶۴ء میں رہائی کے بعد الہضیبی سے تین ملاقاتیں ہوئی ہیں اور تینوں میرے گھر پر ہوئیں، اور ان میں صرف ہم دونوں ہی شریک رہے۔
  •  اخوان پر پابندی کے باوجود کیا آپ حسن الہضیبی کو مرشد عام تصور کرتے ہیں؟
  • سیّد قطب: حسن الہضیبی کو مرشد عام کی حیثیت سے تسلیم کرنا تو لوگوں کے دلوں کی بات ہے۔ پابندی ہو یا نہ ہو، جب تک وہ مرشدعام ہیں انھیں رہبر تسلیم کیا جائے گا، اورمیرے اندر بھی یہی شعور ہے کہ وہ ہمارے مرشد عام ہیں۔
  •  کیا اخوان المسلمون کو سعودی عرب سے پیسے آتے ہیں؟
  • سیّد قطب: جی ہاں، لیکن وہ پیسے ہمارے محنت کش بھائیوں ہی کی طرف سے آتے ہیں۔
  •  مختلف ممالک میں اخوان کی تنظیمیں قائم ہیں، حالانکہ وہ مختلف قومیں ہیں۔ کیا ان اخوانیوں کا یہ تعلق ان کی ’وطنیت‘ کے منافی نہیں ہے؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں عقیدے کا رشتہ، قومی یا علاقائی رشتے سے زیادہ گہرا اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں ’وطنیت‘ اور ’قومیت‘ کے ان تعصبات کو ہوا دینے میں یہودی اور عیسائی استعمار کے شہ دماغوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ افسوس کہ اس زہرناکی نے امت کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے، جسے دور کرنا ہوگا۔
  •  آپ اخوان سے جو وابستگی کی بات کرتے ہیں، یہ اسلام سے نہیں بلکہ جماعت سے تعلق اور وابستگی کی بات ہے؟
  • سیّد قطب: اخوان المسلمون کی دعوتی سرگرمیوں کی ساری  وسعت دراصل اسلام اور اسلامی عقیدے کی وسعت ہے۔
  •  وہ مسلمان جو اخوان سے تعلق رکھتے اور جو اخوان سے تعلق نہیں رکھتے، ان دونوں میں کیا امتیازی فرق ہے؟
  • سیّد قطب: جو چیز اخوان کو اپنے تمام مسلمان بھائیوں میں ممتاز کرتی ہے، وہ ہے ان کے پاس اسلام کو نافذ کرنے کا پروگرام اور ایجنڈا۔ اس اعتبار سے اخوان بہرحال اپنے ان مسلمان بھائیوں سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں، کہ جن کے پاس اسلام کا یہ عملی پروگرام نہیں ہے۔
  •  جو لوگ اخوان سے منسلک ہیں، وہ اپنے آپ کو فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا صرف اخوانی لوگ ہی اللہ کے راستے پر ہیں اور باقی نہیں ہیں؟
  • سیّد قطب: مجموعی طور پر جو لوگ اخوان المسلمون کے پروگرام کے مطابق چلتے ہیں، ان کے بارے میں، میں یہی سمجھتا ہوں۔ تاہم ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ زیادہ بہتر انداز سے نہ چل رہے ہوں۔
  •  اخوان المسلمون میں اور مسلمانوں کی دوسری جماعتوں میں آخر کیا فرق ہے؟ حالانکہ سب ایک ہی طرح کے مسلمان ہیں؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں فرق، کسی کا کسی پر فوقیت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ صرف اس بنا پر ہے کہ ایک کے سامنے واضح پروگرام اور نقشہ کار ہے، دوسرے کے پاس نہیں ہے۔ یہ چیز ہی بنیادی فرق ہے۔
  • آپ کا اپنے آخری ہدف تک پہنچنے کا طریق کار کیا ہے؟
  • سیّد قطب: ہماری آخری منزل شریعتِ الٰہی کا نفاذ ہے۔ اس راستے میں سرگرم سفر رہنے کے لیے انفرادی اور فکری تربیت کی ضرورت ہے۔ اجتماعی طور پر راستے کی طوالت اور اس کے مدارج اور اس کی مشکلات کا واضح احساس ہے۔
  •  پابندی کے بعد آپ کی تنظیم الاخوان المسلمون اس وقت خفیہ تنظیم نہیں ہے؟
  • سیّد قطب: آپ چاہیں تو اسے خفیہ کہہ لیں۔
  • جب آپ کا ہدف انفرادی، فکری اور اخلاقی تربیت ہے تو پھر آپ خفیہ کیوں ہیں، کھل کر سامنے کیوں نہیں آتے؟
  • vسیّد قطب: ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ: اس خطے میں عیسائی، یہودی اور اشتراکی قوتیں منظم طور پر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی اخلاقیات سے ربط و تعلق رکھنے والی تمام تنظیمی اور اداراتی جماعتوں کی جڑوں کو کاٹنے میں ایک دوسرے کی مدد گار کے طور پر متحرک ہیں۔ ان قوتوں کو ظلم و جبر پر مبنی یہ کام کرنے کی کھلم کھلا اجازت ہے۔ تمام مالیاتی، انتظامی، ریاستی اور ابلاغی وسائل ان کے قبضے میں ہیں۔ اتنی جابرانہ اور ظالمانہ قوت رکھنے کے باوجود، وہ ہمیں ایک دن بھی کھلم کھلا برسرِزمین کام کرنے کی اجازت دینے اور ذرا سا بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ ہمیں ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں، لکھنے، بولنے اور جمع ہونے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پھر یہی گروہ اپنی مرضی سے غیر اخلاقی اور تہذیب و شائستگی سے ٹکراتا ہوا قانون بنا کر ہمیں بند، پابند اور غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ اس لیے ہمیںمجبوراً اپنی بات کہنے کے لیے خفیہ طور پر کام لینا پڑا ہے۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ ہمیںکس بات پر، کیوں اور کس طرح روکا گیا ہے؟ اور اس کا جواز کیا ہے؟ پھر جب ہم اپنے پیدایشی حق کو استعمال کرکے ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بتایا جائے کہ بھلا اس میں ملک اور معاشرے کو ہم کیا نقصان پہنچاتے ہیں۔
  •  مسلم اُمت ایک لمبے عرصے سے تباہ اور خوار ہے، آپ اس کو زندہ اور بحال کرنے کے لیے کیا پروگرام رکھتے ہیں؟
  • سیّد قطب: ’مسلم اُمت‘ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ ’مسلم اُمت‘ تو اس کو کہتے ہیں، جو: سیاسی، اجتماعی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا کے مطابق برضا و رغبت فیصلے کرے۔ اس مناسبت سے مصر اور دنیا میں امتِ مسلمہ موجود نہیں ہے، اگرچہ مسلمان بہت موجود ہیں۔ پھر ان میں انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت سے لوگ اس چیز کے لیے کوشاں ہیں کہ یہ مسلمان بہ حیثیت امتِ مسلمہ دنیا میں اپنا منصبی کردار ادا کریں۔
  •  آپ کے خیال میں، مصر میں جو معاشرتی نظام قائم ہے، کیا یہ جاہلی نظام ہے؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں یہ غیر اسلامی نظام ہے۔
  •  آپ کے خیال میں کیا ہمارا معاشرہ جاہلی معاشرہ ہے؟
  • سیّد قطب: اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سوسائٹی اسلامی ہوتی ہے یا سوسائٹی جاہلی ہوتی ہے۔
  • [مصر کے]موجودہ نظام حکومت کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں یہ جاہلی نظام حکومت ہے۔
  •  اس کا مطلب ہے کہ آپ اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟
  • سیّد قطب: یقینا اسے تبدیل ہونا چاہیے۔
  •  اچھا، ’طاغوت‘، سے آپ کی کیا مراد ہے؟
  • سیّد قطب: میری راے میں، اللہ کے قانون سے ٹکرانے والا ہر قانون ’طاغوت‘ ہے۔
  •  ’وطنیت‘ کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں ’وطنیت‘ کی بنیاد، عقیدے پر استوار ہونی چاہیے زمین پر نہیں۔ اس لیے وطنیت کی محدود سوچ کو تبدیل ہونا چاہیے۔
  •  ’قومیت‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
  • سیّد قطب: میرا خیال ہے کہ محدود قومیت، ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اب دنیا فکر، سوچ اور عقیدے کی بنیاد پر وجود پا رہی ہے۔ اس میں ’اسلامی قومیت‘ کی بات ہو رہی ہے۔
  •  ’حاکمیتِ الٰہی‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟
  • سیّد قطب: ’حاکمیت الٰہی‘ سے مراد، اللہ کی شریعت کو قانون کا ماخذتسلیم کرنا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔
  •  آپ کو معلوم ہوگا کہ ’خوارج‘ نے بھی یہی بات کہی تھی، اور حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے ان سے کہا تھا:’’بات تو ان کی ٹھیک ہے، مگر مقصد ٹھیک نہیں؟‘‘
  • سیّد قطب: تاریخ میں کب کس نے کیا کہا تھا، اس سے قطع نظر، جب میں نے یہ اصطلاح استعمال کی، اُس وقت میرے ذہن میں وہ تاریخی واقعہ نہیں تھا۔ اللہ نے اپنی کتاب انسانی رہنمائی اور انسانی زندگی کو متوازن رکھنے اور درست فیصلے کرنے کے لیے نازل کی ہے۔ اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے ہم ’حاکمیت الٰہی‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
  •  کیا آپ نے یہ فکر سیدابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں سے اخذ نہیں کی ہے؟
  • سیّد قطب: جب میں اسلام کے بارے میں پڑھ رہا تھا، تب میں نے المودودی کی کئی کتابوں سے استفادہ کیاہے۔
  •  آپ کی دعوت اور مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے؟
  • سیّد قطب: کوئی فرق نہیں ہے۔
  •  اخوان کو مسلح کرنے اور فوجی تربیت دینے کا مقصد کیا تھا؟
  • سیّد قطب: دفاع۔
  •  کس طرف سے حملے کا دفاع؟
  • سیّد قطب: یہودیوں کے حملے سے دفاع۔ اسی طرح تشدد کے لیے گرفتار کرنے، گرفتار کرکے قتل کرنے اور ماوراے عدالت موت کے گھاٹ اتار دینے کے عمل سے دفاع… جیسا کہ ۱۹۵۴ء میں بے جا طور پر اخوان پہ مسلط کیا گیا تھا۔
  •  کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ آپ نے حکومت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟
  • سیّد قطب: جو حکومت کسی قانون اور اخلاق کی پاس داری نہیں کرتی، اس کے غلط فیصلوں سے اختلافِ راے رکھنے کا مطلب حکومت کا مقابلہ کرنا نہیں ہوتا۔
  •  موجودہ حالات میں آپ کا تنظیم قائم کرنا،کیا قانون کے خلاف نہیں ہے؟
  • سیّد قطب: میں جانتا ہوں کہ آپ کے حکم کی رو سے یہ غیر قانونی ہے۔ لیکن ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے یہ میری مجبوری ہے، کیوںکہ ایک ذمہ دار تنظیم ہی فرد اور اجتماعیت کی فکری اور اخلاقی تربیت کا ذریعہ ہوتی ہے۔
  •  قانون کی خلاف ورزی، آخر اخلاقی تربیت کا کیسے وسیلہ بن سکتی ہے؟ کیاشریعت اس کی اجازت دیتی ہے، جب کہ ملک کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہی ہو؟
  • سیّد قطب: اگر ملکی قانون ایک مسلمان کو دعوت دین کے بنیادی فریضے ہی کی ادایگی سے منع کرتا ہے، تو اصولاً یہ خرابی اس قانون میں ہے، جو دین کی ایک بنیاد کی مخالفت پر مبنی ہے۔
  •  کیا آپ کے خیال میں موجودہ مصری قوانینِ ریاست، مسلمانوں کو ان کے دینی فرائض کی انجام دہی سے اور دعوتِ دین سے منع کرتے ہیں؟
  • سیّد قطب: جو ریاستی قوانین اور جو حکومتی فیصلے الاخوان کی سرگرمیوں کو روکنے اور تنظیم کو تباہ کرنے کے لیے بنائے اور نافذ کیے گئے ہیں، یہ دین کی مخالفت کے فیصلے ہیں۔ اس لیے کہ اخوان کو دین کی دعوت کے علانیہ کام سے روکنے کا عمل، بہرحال دینِ اسلام کی تعلیمات کے منافی فعل ہے۔
  •  آپ کا مطلب ہے کہ اخوان کو تحلیل اور غیر قانونی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ دین اسلام کا کام کرتی ہے؟
  • سیّد قطب: بالکل، میں یہی سمجھتا ہوں۔
  •  بتائیے: تاریخی اعتبار سے آپ اخوان پر پابندی کے کیا اسباب جانتے ہیں؟
  • سیّد قطب: مجھے یہ تو معلوم ہے کہ حکومتی فیصلے کے نتیجے میں اخوان پر پابندی لگائی گئی ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ ایسا کیوں کیا گیاہے؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ پابندی کے اس فیصلے کا قانونی اور اخلاقی جواز کیا ہے؟ تاہم، مجھے یہ معلوم ہے کہ الاخوان المسلمون پر صرف دینی سرگرمیوں کی وجہ سے پابندی لگائی گئی ہے، اور یوں بلاوجہ اسے تحلیل کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ محض اسلام دشمن طاقت ور قوتوں کے ذہن کا خلل ہے۔
  •  اخوان کو اس کے خفیہ تنظیم ہونے کے سبب تحلیل کیا گیا ہے؟
  • سیّد قطب: مجھے معلوم ہے کہ اس وقت اخوان پر پابندی لگانے کا جواز اسے خفیہ تنظیم کے مسئلے سے جوڑ کر نکالا گیا ہے۔ تاہم، اخوان کی تحلیل کا سبب یہ نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب وہ ناپاک بیرونی سازشیں ہیں جنھوں نے اس پر پابندی لگوائی۔
  •  کیا مصر کی انقلابی حکومت ایسی خفیہ تنظیم کو اجازت دے سکتی ہے؟
  • سیّد قطب: لیکن یہ تو ممکن تھا کہ حکومت خفیہ تنظیم کے وجود پر بات کرتی اور علانیہ تنظیم کو بحال کرتی۔
  •  آپ کی راے کے مطابق کیا الاخوان المسلمون ہی وہ واحد تنظیم ہے، جو اسلامی احکامات کے عین مطابق کام کررہی ہے، جس کا  مطلب یہ ہے کہ اگر اس کو روکا گیا تو مسلمانوں کو دینی فرائض ادا کرنے سے روگا گیا؟
  •  سیّد قطب: میری راے کے مطابق مختلف مسلم ممالک میں الاخوان المسلمون دعوتِ دین کا ایک کامیاب تجربہ رہا ہے۔ گذشتہ چار عشروں کے دوران، بلاشبہہ ہم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں، جن سے تنظیم کو نقصان پہنچا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس اسلامی تحریک کو خفیہ تنظیم کے مسئلے سے الگ کر دیا جائے۔
  •  آپ کی تنظیم کے رہنمائوں علی عشماوی وغیرہ کے مطابق آپ نے ان کو یہ کہا تھا، کہ وہ جاہلیت زدہ لوگوں کے درمیان ایک مومن کا وجود رکھتے ہیں۔ ان کا اس ملک، معاشرے اور اس میں قائم شدہ حکومت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے، اور مومن ہونے کی حیثیت سے ان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو حالت ِجنگ میں سمجھیں۔ آپ نے ان کو یہ بھی کہا ہے کہ یہ ملک اسلامی اصطلاح کے مطابق آپ کے لیے ’دارالحرب‘ ہے۔ لہٰذا، جو فساد اور قتل کی سرگرمیاں یہاں ہوں گی، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اور نہ اس کی کوئی سزا ہو گی، بلکہ اس پراجر ملے گا؟
  •  سیّد قطب: یہ بات سمجھنے میںآپ اور اُن سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں:پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تنظیم ابھی ایک بیج ہے، جو بڑھے گا اور نشوونما پائے گا، تاکہ مومنین کے ہر اول دستے میں شامل ہو جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کا ’دارالحرب‘ اور ’دارالاسلام‘ سے تعلق، تو یہ گفتگو نظریاتی اصولوں کی بحث کے ضمن میں آتی ہے اور وہ بھی فقط احکام کو بیان کرنے کی غرض سے اور یہ بحث موجودہ دور میں عمل درآمد کرنے کے لیے نہیں۔ کیوںکہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ایک مسلم اُمت کا وجود مستقبل کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ یہ باتیں میں سمجھانا چاہتا تھا، لیکن افسوس، کہ وہ میری بات صحیح انداز میں سمجھ نہ پائے۔
  • انھوں نے کس طرح آپ کی باتیں سمجھنے میں غلطی کی ہے؟ خاص کر جب ان میں سے ایک فرد نے آپ سے مسلمان کے قتل کے مسئلے پر بحث کی تھی اور اس کے بقول آپ نے کہا تھا کہ صرف لاالٰہ الااللہ کہہ دینے سے کسی فرد کا قتل حرام نہیں ہو جاتا؟
  •  سیّد قطب: مجھے یہ گفتگو یاد نہیں، اور اگر ہوئی بھی ہو گی، تو ضرورا پنی جان کے دفاع کے زمرے میں کی ہوگی، اور ایسی حالت میں زیادتی کرنے والا گنہگار ہوتا ہے، نہ کہ دفاع کرنے والا۔
  •  کیا آپ نہیں دیکھتے کہ مسلمانوں کے درمیان خفیہ تنظیم کی موجودگی فتنے کا باعث بنتی ہے؟ جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا؟
  •  سیّد قطب: کبھی فتنے کا باعث بھی بنتی ہے، مگر گناہ اس پر ہوگا، جو اسے کھلم کھلا سرگرمیاں کرنے سے روکے، کہ پھر لوگ خفیہ سرگرمیاں کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس صورت حال سے بچائو اسی طرح ممکن ہے کہ کھلم کھلا سرگرمیوں کی اجازت دے دی جائے۔
  •  کیا آپ کا دین آپ پر واجب نہیں کرتا کہ آپ فتنے کو پیدا ہونے سے روک دیں؟ اور فتنے کے پیدا ہونے کے اقدامات و امکانات سے بچائیں؟
  •  سیّد قطب: دینی فریضے کی ادایگی فرض ہے، اور افتراق فتنہ ہے۔ مجھے چاہیے کہ اپنے دینی فریضے پر قائم رہوں اور اگر بے جا حکومتی رکاوٹ سے فتنہ واقع ہوتا ہے تو اس فتنے کا گناہ مجھ پر نہیں بلکہ اس پر ہو گا، جس نے میرا حقِ اظہار اور حقِ اجتماع چھینا اورمجھے چھپ کر کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔
  • آپ کے خیال میں موجودہ حکومت اور اس نظام میںوہ کون کون سے اختلافی امور ہیں، جن کو آپ ٹھیک کرنے کے لیے کوشاں ہیں؟
  •  سیّد قطب: اللہ کی وضع کردہ شریعت، ان حکمرانوں کی وضع کردہ ’شریعت‘ میں موجود نہیں۔ ہمیں تو اللہ ہی کی شریعت کا نفاذ مطلوب ہے، لیکن حکمرانوں کا اصرار اپنی خود ساختہ شریعت کے نفاذ پر ہے۔ میری راے کے مطابق یہی ہے سب سے بڑا تضاد، جس سے ہمارے معاشرے میں تمام فروعی تضادات جنم لے رہے ہیں۔(جاری)

   ۷جون ۲۰۱۵ء کو ترکی میں ہونے والے انتخابات کئی حوالوں سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ حسب سابق حکمران جسٹس پارٹی(AKP) ہی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی اور اسے ۵۵۰ میں سے ۲۵۸ نشستیں حاصل ہوئیں، لیکن یہ نشستیں تنہا حکومت بنانے  کے لیے درکار تعداد سے ۱۶ نشستیں کم ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے مخالفین کے لیے بس یہی بات شادیانوں کا پیغام لائی ہے۔ وگرنہ پارلیمنٹ میں آنے والی باقی تین پارٹیاں اس سے کہیں پیچھے کھڑی ہیں۔ کمال اتاترک کی جماعت CHP صرف ۱۳۲، جب کہ ترک نیشنلسٹ(MHP)اور  کرد نیشنلسٹ(HDP) صرف ۸۰،۸۰سیٹیں حاصل کرسکی ہیں۔ المیہ ملاحظہ کیجیے کہ حکومت سازی کے لیے درکار تعداد سے ۱۶نشستیں کم ہونے پر بغلیں بجانے والے جانتے ہیں کہ اس کامطلب ملک میں مخلوط حکومت کا قیام ہے۔

حالیہ نتائج آنے کے اگلے ہی روز سے ترکی میں سٹاک مارکیٹ بیٹھنا اور کرنسی کی قیمت کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ۲۰۰۲ء میں طیب اردوان کی پہلی بار جیت سے پہلے، ملک میں لوٹ مار کا جو طویل سفر جاری رہا، اس کا ایک اہم سبب یہ مخلوط حکومتیں ہی ہوتی تھیں۔ ترک تاریخ میں تقریباً ۶۰ مخلوط حکومتوں کا سارا عرصہ حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ اور کرپشن ہی میں  ختم ہوجاتا۔ یہ طیب اردوان کی جسٹس پارٹی ہی تھی، جس نے ملک کو ان دونوںلعنتوں سے نجات دلائی اور ملک میں تعمیر و ترقی کا نیا سفر شروع ہوا۔ ترکی جہاں طیب حکومت آنے سے پہلے ترقی کی شرح منفی ۹تک گر چکی تھی، اب اسی ترکی میں ترقی کی شرح ۹ فی صد سے بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ ترکی اب دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کی صف میں جا کھڑا ہوا ہے۔ ایک بار وزیراعظم احمد داؤد اوغلو سے اس کا راز پوچھا گیا تو انھوں نے مختصر دو لفظی جواب دیا:’’امانت و دیانت‘‘۔ طیب اردوان اور ان کے استاد پروفیسر نجم الدین اربکان نے اللہ کی توفیق سے ہمیشہ امانت اور محنت ہی کے ذریعے کامیابیاں حاصل کیں۔

تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ترکی کو دوبارہ اسی سیاست کی دلدل میں دھنس جانے پر جہاں اسرائیلی اور صہیونی لابی نے جشن منایا، وہاں بعض مسلم ممالک کے حاکموں نے بھی خوب بغلیں بجائیں۔ ایران اور متعدد عرب ممالک سے لے کر یورپ اور امریکا کے اخبارات، تقریباً سب کی سرخیاں یکساں تھیں:’عثمانی خلافت کا خواب بکھر گیا‘۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس وقت پورے عالم اسلام میں جہاں بھی کسی پر ظلم ڈھایا گیا طیب حکومت وہاں پہنچی۔ میانمار برما سے جان بچاکر نکلنے والے ہزاروں افراد کو پڑوسی مسلم ملک بنگلہ دیش نے تو گولیاں برساکر شہید کردیا یا واپس دھکیل دیا لیکن ترک بحری جہاز ان کی مدد کے لیے پہنچے۔ طیب اردوان اور وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کئی ترک اداروں کو لے کر خود برما پہنچے اور زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ صومالیہ تقریباً نصف صدی سے خانہ جنگی اور قتل و غارت کا شکار ہے، وہاں نہ صرف ترک حکومت کی رفاہی سرگرمیاں عروج پر ہیں، بلکہ وہ وہاں مصالحتی کاوشوں کے علاوہ ان کی اقتصادی حالت بھی بہتر بنانے کی دوررس کوششیں کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر چڑھائے جانے والے بے گناہ ہوں یا مصر میں منتخب حکومت کے خلاف برپا ہونے والا بدترین خونی فوجی انقلاب، صرف ترکی ہی ان کے خلاف سرکاری اور عوامی سطح پر صداے احتجاج بلند کررہا ہے۔

گذشتہ آٹھ برس سے محصور غزہ کے لیے فریڈم فلوٹیلا ترک تنظیمیں ہی لے کر نکلی تھیں، جس میں ۱۱شہری شہید ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اہل غزہ کی مسلسل پشتیبانی کررہے ہیں۔ اس وقت، یعنی دمِ تحریر ایک اور امدادی قافلہ یورپ سے روانہ ہو کر ترکی آرہا ہے، جہاں سے اس ماہ کے اختتام تک وہ دوبارہ غزہ جانے کی کوشش کریں گے۔شام کے ۴۰لاکھ مہاجرین ترکی میں پناہ گزیں ہیں۔ عالمی امدادی ادارے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ پورے کا پورا بوجھ ترکی پر آن پڑا ہے، اور وہ کوئی حرفِ شکایت زبان پر لائے بغیر ان کی مدد کررہاہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں، ترکی کی مدد کے بجاے اس انتظار میں ہیں کہ ترکی کب اس مالی بوجھ سے گرجاتا ہے۔ لیکن طیب اردوان کاکہنا ہے کہ ہم سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل درآمد کرتے ہوئے انصار و مہاجرین کے مابین مواخات کا یہ سفر جاری رکھیں گے۔

اخوت اور اسلامی یک جہتی کے ساتھ ساتھ طیب حکومت اپنے ملک اور قوم کی ترقی سے بھی قطعاً غافل نہیں۔ انتخابات سے دو روز بعد عالمی بنک کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملکی انفراسٹرکچر کی وسعت و ترقی کے لیے سرکاری اور نجی منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لحاظ سے ۲۰۱۴ئمیں ترکی پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر رہا ہے۔

ایک طرف ہر مظلوم کی مدد کے لیے لپکنے والا یہ غیرت مند ترکی ہے، اور دوسری طرف اپنے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے سفاک حکمران ہیں جو ملکی دولت کو شیر مادر کی طرح ڈکارتے جارہے ہیں۔ ۱۸ جون کو سوئٹزر لینڈ کے اسٹیٹ بنک کی رپورٹ ہی ملاحظہ کرلیجیے کہ صرف ۲۰۱۴ء کے دوران سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں اپنی دولت کے ڈھیر لگانے والوں کی دولت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش جیسے بھوک سے بلکتے ملک سے آنے والے سرمایے میں صرف ایک سال (۲۰۱۴ئ) کے دوران ۵۵ئ۳۶ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا پیسہ لوٹ مار ہی کا پیسہ ہوگا۔ بفرض محال لوٹ مار کا نہ بھی ہو تب بھی اس کا اصل مقام سوئٹزر لینڈ کے بنک نہیں،اپنے دیس کے مظلوم عوام ہونے چاہییں۔

لوٹ مار کرنے والے ان حکمرانوں کے مقابلے میں اور ترکی کو ۲۰۲۳ء تک دنیا کا کامیاب ترین ملک بنانے کا خواب دیکھنے والے اردوان میں یہی بنیادی فرق ہے کہ جس کے باعث ایک جہان ان کی دشمنی پر کمر بستہ ہے۔ طیب اردوان یا ان کی جماعت سے یقینا غلطیاں ہوئی ہیں اور مزید ہوسکتی ہیں، لیکن ان پر لگائے جانے والے الزامات میں بھی یقینا بہت مبالغہ آرائی ہے۔ طیب اردوان چند ماہ پیش تر ہی نئے صدارتی محل میں منتقل ہوئے ہیں۔ ان کے کئی بہی خواہ اس محل کی تعمیر کو اسراف سمجھ رہے ہیں۔ اگرچہ طیب اردوان کا کہنا یہ ہے کہ اس کے سیکڑوں کمروں میں علمی تحقیق کے درجنوں مراکز قائم کیے گئے ہیں اور یہ محل، ترقی یافتہ مضبوط ترکی کی علمی، فکری، تہذیبی اور تحقیقاتی ترقی کی ایک علامت بنے گا، لیکن یہ بات پوری طرح منتقل نہ ہوسکی۔

اگرچہ طیب اردوان اور ان کی ٹیم کی بنیادی صفت ہی کرپشن سے محفوظ رہنا ہے، تاہم   ان پر کرپشن کے الزامات نے انھیں بعض مواقع پر مشتعل بھی کیا ہے۔ وہ کرپشن کے بے سروپا الزامات لگانے والے کئی صحافیوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لائے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر صحافت دشمنی کے طعنے بھی کسے گئے ہیں۔ حالیہ نتائج کے بعد پورے نظام اور بالخصوص اپنے ساتھیوں کی کڑی نگرانی، جائزے اور خود احتسابی مستقبل کے کئی طوفانوں کا سدباب کرے گی۔

۲۴ جون کو طیب اردوان نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کو باقاعدہ طور پر حکومت سازی کی دعوت دی ہے۔ اس کے ۴۵ روز کے اندر اندر انھیں دوسروں کے ساتھ مل کر یا پھر اقلیتی حکومت بنانا ہوگی۔ اقلیتی حکومت کا مطلب ہے کہ حکومت سازی کے لیے مطلوب مزید ۱۶ ووٹ انھیں مل جائیں لیکن وہ حکومت کا حصہ نہ بنیں۔ اگر ایسا بھی نہ ہوسکا تو پھر ملک میں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ بعض تجزیہ نگار تو بہرصورت آیندہ سال کو نئے انتخابات کا سال قرار دے رہے ہیں۔ حکومت اگر اپنی کمزوریوں کا خود جائزہ لے کر ان کی اصلاح کرنے میں کامیاب رہی تو یقینا آیندہ نتائج حالیہ سے مختلف اور بہتر ہوں گے۔

جسٹس پارٹی کی چند سیٹیں کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ پہلی بار کسی کرد پارٹی کا پارلیمنٹ میں آنا ہے۔ کرد کئی عشروں سے ناانصافیوں کا موقف لیے مسلح کارروائیوں میںملوث ہوگئے تھے۔ اتاترک نے ان پر ترک قوم پرستی کے کئی طوق مسلط کررکھے تھے۔ بالآخر وہ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں آنے میں کامیاب رہے۔ پہلے کرد ووٹ کا تقریباً ۴۰ فی صد جسٹس پارٹی کو ملتا تھا، اس بار وہ سب کرد لہر میں بہ گیا۔ گویا جسٹس پارٹی نے سیاسی حکمت عملی سے کردوں میں اپنی اکثریت کی قربانی دے کر باغی مسلح عناصر کو پرامن سیاسی جدوجہد پر آمادہ کرلیا۔

کرد قوم پرستی کی لہر کتنی شدید ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے: جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا کہ جب ایک روز ایک ترک خاتون پریشان حالت میں اپنی تین نوجوان بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت پاکستان آئی۔ وہ ایرانی سرحد عبور کرکے بلوچستان میں داخل ہوئی، اسلام اور اسلامی جماعت کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے انھیں جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر پہنچا دیا۔ وہاں کے ساتھیوں نے ان کی بات سن کر ایک ذمہ دار کو ہمراہ بھیجا اور وہ انھیں لے کر مرکز جماعت اسلامی منصورہ لاہور آن پہنچا۔ ہم نے ان کی بپتا سنی تو معلوم ہوا کہ خاتون اور ان کی تینوں بیٹیاں حجاب، یعنی سر پر سکارف رکھنا چاہتی ہیں، لیکن ترک سیکولر قوانین میں اس کی گنجایش نہیں۔ حجاب کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کے بعد ان تینوں پر ایسے جھوٹے مقدمات قائم کردیے گئے کہ جن کی سزا موت تک بھی ہوسکتی ہے۔ یہ خاندان جس کے  سر پر کوئی مرد نہیں بچا، اپنی جان بچانے کے لیے پاکستان آیا ہے۔ محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور سے مشاورت و رہنمائی کے بعد ان کے پاکستان میں رہنے کے لیے انتظامات کردیے گئے۔ مختلف مشکلات و مسائل کے باوجود یہ خاندان تقریباً ڈیڑھ سال پاکستان رہا اور بالآخر ترکی واپس چلا گیا۔ واپس جاتے ہی ماں اور بچیاں گرفتار کرکے جیل بھیج دی گئیں۔ ایک بیٹی اسی دوران اللہ کو پیاری ہوگئی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ کچھ عرصے بعد ماں اور باقی دونوں بیٹیاں رہا ہوگئیں اور اب خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ طیب اردوان اب ان اور ان جیسی کروڑوں خواتین کے حجاب پر سے پابندیاں ختم کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

ان کی اس داستان کے کئی مزید پہلو بہت اہم ہیں، لیکن یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ ہماری یہ باحجاب بہن ہدی کایا حالیہ انتخابات میں رکن پارلیمنٹ بن گئی ہیں اور اصل خبر یہ ہے کہ وہ جسٹس پارٹی نہیں کرد نیشنلسٹ پارٹی کی طرف سے رکن بنی ہیں۔ یہ پارٹی یقینا اسلامی شناخت نہیں رکھتی لیکن اگر ہدی کایا جیسی مجاہد خاتون جو حجاب کی خاطر ہجرت اور اسیری تک برداشت کرتی رہی، جسٹس پارٹی کے بجاے کرد پارٹی میں چلی گئی ہے، تو خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ جسٹس پارٹی کی کم سیٹوں کے پیچھے شیطانی دنیا کے ابلاغیاتی نظام اور دولت کے ڈھیروں کے علاوہ بھی کون کون سے اندرونی عوامل اثر انداز ہوئے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر بلکہ باعث شکر ہے کہ وہی اسمبلی جہاں کبھی ایک باحجاب خاتون مروہ قاوقچی کے منتخب ہوجانے پر بھونچال آگیا تھا، اب وہاں ہدی کایا اور مروہ قاوقچی کی بہن روضہ قاوقچی جیسی ۱۹ خواتین اپنی اسلامی شناخت، یعنی باوقار حجاب کے ساتھ موجود ہیں۔ 

بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، چین، لائوس، بھارت اور خلیج بنگال کے درمیان گھرا ہوا میانمار (برما) مسلم اقلیت کے ساتھ جو ظالمانہ و وحشیانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

بُدھ دہشت گردوں (جنھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے)نے مسلم رُوہنگیا آبادی کو  دو ہی راستے فراہم کیے۔ یہاں سے فرار ہوجائو، ورنہ پوری آبادی کو جلاکر راکھ کردیا جائے گا۔  ۱۰۰، ۱۰۰؍ افراد پر مشتمل رُوہنگیا مسلمانوں کے قافلے چھوٹی کشتیوں پر بٹھا کر کھلے پانیوں میں نامعلوم منزل کی طرف دھکیل دیے گئے کہ یہاں سے نکل کر کہیں پناہ تلاش کرو یا سمندر میں ڈوب مرو۔

۱۳ سے ۱۵ لاکھ رُوہنگیا آبادی کے بارے میں اُن کا یہی دعویٰ ہے کہ یہ مسلم لوگ بنگال سے ترکِ وطن کرکے برما میں زبردستی آگئے تھے۔ یہ بنگالی غیرملکی ہیں، اجنبی ہیں، انھیں واپس جانا چاہیے، ان کی موجودگی غیرقانونی ہے۔

سابقہ فوجی بُدھ حکومت کی طرح موجودہ جمہوری حکومت بھی اراکانی رُوہنگیا مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگرچہ رُوہنگیا مسلمان یہاں ۵۰۰سال سے بھی زائد عرصے سے رہ رہے ہیں۔ اراکان کے نام سے اُن کی ریاست تھی۔ اراکانی ریاست کا نام بھی پانچ اراکینِ اسلام کی وجہ سے اراکان رکھا گیا تھا۔

مئی کے تیسرے ہفتے میں ملائیشیا کے ساحلی علاقوں سے کم و بیش ۱۳۵؍افراد کی لاشیں ملیں۔ اُنھیں بے سروسامانی ، بیماری اور غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے رُوہنگیا شناخت کیا گیا۔    یہ حقیقت ہے کہ لاتعداد افراد ابھی سمندر میں موجود ہیں اور خدشہ ہے کہ ان کشتیوں کا پٹرول ختم ہوتے ہی یہ افراد غرق ہوجائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے رسائل و جرائد میں تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ سیکڑوں رُوہنگیا مسلمان نوجوانوں کی کھلے سمندروں میں موجودگی کا پتا لگا۔ جب کہ انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ، آسٹریلیا، کمبوڈیا اور بنگلہ دیش کی سیکورٹی افواج ان کشتیوں کو ساحل تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں، کجا یہ کہ ان کی جان بچائیں۔

خوراک کی عدم دستیابی، کشتیوں میں مسلسل موجودگی اور بدترین حالات کی وجہ سے   ۵۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک اہل کار نے خلیج بنگال سے ملحقہ ممالک سے اپیل کی کہ وہ سمندری قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے کم از کم ان کی زندگی کو بچانے کی کوشش کریں اور ان کو عارضی قیام گاہیں فراہم کریں یا انسانی ہمدردی کی بنا پر جو کرسکتے ہوں کریں لیکن اس کا خاطرخواہ اثر نہ ہوا۔ تاہم تھائی لینڈکی حکومت نے فضائی ذرائع سے خوراک کی تقسیم کا معمولی سا سلسلہ شروع کیا لیکن خوراک اور پینے کے پانی کے حصول کے لیے چھیناجھپٹی کے دوران سمندر میں گرکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی دل دہلا دینے والی ہے۔ اس المیے کے بارے میں غور کے لیے انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ اور میانمار کے وزراے خارجہ کی میٹنگ ۲۱مئی کو طے کی گئی۔ مگر میانمار نے شرکت نہ کی اور موقف اختیار کیا کہ اس کانفرنس میں ’رُوہنگیا‘ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ یاد رہے انتہاپسند بُدھ شہری اور سرکاری افراد اُس اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرتے جہاں ’رُوہنگیا‘ لفظ استعمال ہو۔نوبل انعام یافتہ آن سان سوچی کی خاموشی بھی ناقابلِ فہم ہے۔

رُوہنگیا اپنے علاقے میں محدود رہتے ہیں۔ اُن کے علاقوں کے اردگرد بھاری فوج تعینات رہتی ہے۔ اپنے علاقے سے باہر نکلنا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ کسی بھی وقت اُن پر مسلح دہشت گرد حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ پولیس اور فوج اِن دہشت گردوں کی مددگار ہوتی ہے۔ کوئی ادارہ اُن کی آہ و بکا پر رپورٹ درج کرنے اور قانونی کارروائی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جبری مشقت کے ذریعے بھی وہ اراکانی مسلمانوں کو ختم کرنے یا سزا دینے پر عمل پیرا ہیں۔

۲۰۱۲ء میں بُدھ دہشت گردوں کے حملوں سے ڈیڑھ لاکھ افراد اپنے گھربار سے محروم کر دیے گئے تھے۔ ۸۰۰ ؍افراد ظالمانہ طریقے سے ہلاک کردیے گئے تھے۔ اُس وقت سے اب تک تنائو اور خوف کی کیفیت طاری ہے اور اسی دہشت کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے یہاں رہنا مشکل ترین بن کر رہ گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے افسوس ناک واقعات کے بعد سے کشتیوں کے ذریعے جبری انخلا کہیے، فرار کہیے، یا انسانی اسمگلروں کا جال___ ایک لاکھ افراد میانمار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس سرگرمی میں بُدھ دہشت گرد بھی شامل ہیں جنھوں نے انسانی اسمگلروں کو قانونی تحفظ اور ایسی سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں کہ وہ رُوہنگیا لوگوں کو اغوا کریں، قید کریں یا لالچ دیں اور انھیں کشتیوں میں بھر کر سمندر میں لے جائیں۔ رُوہنگیا قوم ’دُنیا کی انتہائی بے سہارا اور بے یارومددگار قوم‘ ہے۔  کشتیوں میں عموماً نوجوان کو سمگل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمت کرنے والے باقی نہ رہیں اور بعد میں میانمار کی سرزمین پر بوڑھے لوگوں، عورتوں اور بچوں کا بآسانی صفایا کیا جاسکے۔ نوجوان مسلم لڑکیوں کی عصمت دری کی داستانیں اس کے علاوہ ہیں۔

نقشے پر دیکھا جائے تو میانمار راکھن صوبہ ( سابقہ اراکان ریاست) بھی بنگلہ دیش کے ساتھ جغرافیائی طور پر ملحق ہے۔ اس کی برما سے قربت سمندر کے ذریعے ہے۔ کئی ہزار اراکانی مسلمان گذشتہ برسوں سے بنگلہ دیش میں قیام پذیر ہیں۔ اُن کی داستانِ غم علیحدہ ہے۔ موجودہ المیے کے آغاز میں یہ خبریں بھی آئیں کہ کشتیوں میں سوار ہونے والے لوگوں میں بنگلہ دیش میں قیام پذیر رُوہنگیا بھی ہیں، تاہم بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے ساحلی پٹی پر تعینات سیکورٹی گارڈز کو   یہ پیغام دینے کا موقع ضائع نہ کیا کہ ان کشتی سواروں میں سے کوئی بھی فرد بنگلہ دیش میں داخل نہ ہو۔ بنگلہ دیش کم از کم اُنھیں موت کے منہ میں جانے سے بچاسکتا ہے لیکن یہ کون سوچتا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں بھی پناہ کے طلب گاروں کو بنگلہ دیشی حکومت نے ساحلی علاقوں پر نہ اُترنے دیا تھا۔ طوفانی لہروں کا مقابلہ کرنے والے کشتی والے دربدر انسانوں کا معاملہ بین الاقوامی برادری کے سامنے آیا تو امریکی صدر باراک اوباما نے صرف یہ بیان دینے پر اکتفا کیا کہ ’’برما کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نسلی و لسانی بنیاد پر امتیاز ختم کرے‘‘۔ امریکا نے حسب معمول مسلمانوں کے قتلِ عام، بے دخلی ، نسلی تطہیر اور جلاوطنی کو برداشت کرلیا۔  گذشتہ ۵۰، ۶۰برس سے جو دہشت گردی میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے اُس کے خلاف امریکا ، روس اور چین نے کوئی بامعنی موقف اختیار نہیں کیا۔

میانمار کے اندر ایسے بُدھ بھکشو دندناتے رہے کہ جو اسلام کو اور مسلمانوں کا صفایا کرنے کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ چند بُدھ عبادت گاہوں سے باقاعدہ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس سرزمین کو مسلم غیرملکیوں سے پاک کردو۔ ان کو زندگی سے محروم کردو۔ پیدایش اور موت کا اندراج، پاسپورٹ ، تعلیم، علاج، سفر، رہایش ایسے معاملات میں مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت اور سرکاری اداروں میں عمل دخل کا سوال ہی نہیں۔ ان کے لیے زندہ رہنے کے لیے یہی راستہ چھوڑا گیا ہے کہ وہ باپ دادا کے نام بدھوں جیسے ظاہر کرکے بُدھ تہذیب اور کلچر کو اختیار کرلیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح چھوڑ دیں۔

پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملایشیا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں  چندہزار یا ایک لاکھ کے لگ بھگ جو اراکانی مسلمان موجود ہیں اُن کا مستقبل بھی محفوظ نہیں ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ نے مسئلے کو شدت سے اُٹھایا اور عالمی برادری کے سامنے اسے سمندروں میں تیرتے تابوت کی صورت میں پیش کیا۔ان تنظیموں کے نمایندوں نے جن الم ناک حالات کی نشان دہی کی وہ بیان سے باہر ہے۔

مادرِ وطن چھوڑ کر سمندروں میں زندگی اور ٹھکانے کی تلاش کرنے والے دربدر رُوہنگیا مسلمانوں کے حق میں ترکی کے علاوہ پاکستان میں بھی مختلف دینی تنظیموں نے مظاہرے کیے۔ حکومت پاکستان نے خصوصی کمیٹی بناکر اسلامی ممالک کی تنظیم سے بھی رابطہ کیا، اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے کو اُٹھانے کا جائزہ لیا اور ۵۰لاکھ ڈالر کی امداد بھی مختص کی تاکہ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے ذریعے اِن درماندہ لوگوں کی خوراک کا بندوبست کیا جاسکے۔

امیرجماعت اسلامی جناب سراج الحق نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط کے ذریعے اس کا فریضہ یاد دلایا کہ برما کی حکومت پر دبائو ڈال کر ان مسلمانوں کو اپنے وطن بھیجا جائے اور اقوامِ عالم کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی کہ جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور کی طرح اراکانی مسلمان بھی انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں اور ان کو کم از کم زندہ رہنے اور اپنی ہی سرزمین پر سانس لینے کی اجازت تو دی جائے۔  اراکان مسلمانوںکو اپنی ہی سرزمین پر رہنے کا حق دیا جائے۔ وگرنہ میانمار پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں۔ 

بنگلہ دیشی اقتدار پر قابض حسینہ واجد، انسانی لہو کے جام پر جام پی رہی ہے۔ ہزاروں علما، طلبہ، سیاسی کارکنوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے ساتھ، جس نے گذشتہ عرصے کے دوران جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں عبدالقادرمُلّا اور محمد قمرالزماں کو پھانسی دی۔ اب اس عمل میں تیزی لارہی ہے۔   اس خونیں کھیل کے لیے نام نہاد ’عالمی جنگی جرائم‘ کا ٹریبونل قائم کیا، جسے دنیا کے کسی باضمیر فرد نے عدالت تسلیم نہیں کیا۔ اسی کے ذریعے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی لیڈرشپ کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔

بھارت کی کٹھ پتلی بنگلہ دیشی حکومت کا اگلا ہدف، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد ہیں، جنھیں مذکورہ ٹریبونل نے ۱۷جولائی ۲۰۱۳ء کو سزاے موت سنائی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ ۲۷مئی ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ نے اپیلیٹ بنچ تشکیل دیا تاکہ درخواست کو سرسری سماعت کے بعد ٹھکانے لگایا جائے۔

۱۶جون کو چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کی سربراہی میں اپیلیٹ بنچ نے، علی احسن مجاہد کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزاے موت کو بحال رکھا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل محبوب عالم نے سرکاری موقف پیش کیا، جب کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے مشیراعلیٰ خوندکر محبوب حسین اور ایس ایم شاہ جہاں نے علی احسن صاحب کی وکالت کی۔

علی احسن کے بیٹے علی احمد مبرور نے کہا: ’’ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملا، اور اس فیصلے کے ذریعے ایک بار پھر انصاف کا قتل ہوا ہے‘‘، جب کہ اٹارنی جنرل محبوب عالم کے بقول: ’’سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد سزاے موت کے فیصلے پرعمل درآمد کردیا جائے گا‘‘۔

جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی شہرت یافتہ قانون دان ٹوبی کیڈمین نے بنگلہ دیش کے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو عالمی عدالتی معیارات کے یکسر منافی قرار دیتے ہوئے کہا: ’’نہ اس ٹریبونل کے ارکان کی عدالتی تربیت ہے اور نہ وہ انٹرنیشنل کریمنل قانون کے ماہر ہیں‘‘۔ اسی طرح انسانی حقوق کی بہت سی عالمی تنظیموں: ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل سنٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس نے بھی مقدمے کی سماعت ، کارروائی اور ٹریبونل کے وجود پر کھلے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد علی احسن مجاہد کے سینیر وکیل خوندکر محبوب حسین نے اخباری نمایندوں کو بتایا: ’’ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیرت ہوئی ہے، خصوصاً اس صورت میں، جب کہ استغاثہ درست گواہیاں اور موزوں ثبوت پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ بہرحال ہم تفصیلی فیصلے کی کاپی موصول ہونے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے‘‘۔

علی احسن مجاہد کے بڑے بھائی علی افضل محمد خالص (امیر جماعت اسلامی فریدپور) نے کہا: ’’میرے بھائی کو جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے، حالانکہ وہ اس مقدمے میں ہراعتبار سے بے گناہ ہیں۔ میرا خاندان اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے، جو جھوٹ، جعل سازی، سازش اور غیراخلاقی بنیاد پر گھڑا گیا ہے۔ ہم اس سفاک حکومت اور اس کی ظالم عدلیہ کے اس غیراخلاقی، غیرقانونی اور غیرانسانی فیصلے کے خلاف اس دنیا میں احتجاج تک نہیں کریں گے اور صرف اللہ تعالیٰ سے انصاف چاہیں گے، اسی کا فیصلہ انصاف اور عبرت کا نمونہ ہوگا‘‘۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر مقبول احمد نے کہا: ’’اس جھوٹے، بے بنیاد اور انتقام پر مبنی مقدمے نے ایک بار پھر اس بے رحم حکومت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے، جو جماعت اسلامی کو ختم کرنے کے لیے ہرغیراخلاقی ہتھکنڈا استعمال کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ یہ حکومت علی احسن مجاہد جیسے سنجیدہ، بہادر اور دانش ور رہنما کے وجود کو ختم کرنے کے لیے ہرانتہائی سطح تک جانے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے‘‘۔

علی احسن مجاھد کا پیغام: سزاے موت کا فیصلہ سننے کے بعد  علی احسن مجاہد صاحب نے حسب ذیل پیغام دیا ہے، جسے ان کے بیٹے علی احمد مبرور نے سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے: ’’الحمدللہ، میں اس انتہائی سزا کے اعلان پر ذرّہ برابر پریشان نہیں ہوں، جسے حکومت نے اپنی بدترین دشمنی کی تسکین کے لیے سنایا ہے۔ میرے فاضل وکلاے کرام نے مقدمے کی پیروی قابلِ تحسین محنت سے کی ہے اور سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے اس سچائی کو پوری قوت اور مہارت سے پیش کیا ہے، جو میری بے گناہی کی دلیل ہے۔ میں یقین کامل رکھتا ہوں کہ میرے خلاف گھڑے گئے مجرمانہ الزامات کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے، کجا یہ کہ ان کی بنیاد پر کوئی سزا سنائی جائے۔ حکومتی استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اسی طرح اس مقدمے کے تفتیشی افسر تک نے اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران میں، مَیں مذکورہ کسی بھی الزام یا جرم میں ملوث نہیں پایا گیا، مگر اس کے باوجود میں عدل سے محروم رکھا گیا ہوں۔

’’اس ماحول میں، مَیں جانتا ہوں کہ صرف میرا اللہ ہی میرا گواہ ہے۔ میں واشگاف لفظوں میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ پر عائد کردہ الزامات ۱۰۰ فی صد جھوٹے،جعلی اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ مجھے الزامات اور کردارکشی کی اس یلغار کا نشانہ صرف ایک بنیاد پر بنایا جا رہا ہے ، اور وہ یہ کہ میں تحریک اسلامی کا کارکن ہوں۔

’’میرے ہم وطنو! بنگلہ دیش میں روزانہ سیکڑوں لوگ قدرتی اسباب سے موت کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ اموات کسی نام نہاد عدالتی ڈرامے میں سنائی جانے والی سزاے موت سے نہیں ہوتیں۔ کب اور کہاں کس فرد نے موت کی آغوش میں جانا ہے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ زندگی اور موت کے بارے میں ذاتِ باری کے فیصلے کو تبدیل کرے۔ اس صورت میں سزاے موت کا سنایا جانا میرے لیے کوئی وزن اور وقعت نہیں رکھتا۔ سو، مجھے اس خبر پر کوئی پریشانی نہیں کہ میرے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

’’میرا ایمان ہے کہ ایک بے گناہ فرد کا قتل، تمام انسانیت کا قتل ہے۔ میں نے زندگی بھر کسی فرد کو نہ قتل کیا ہے اور نہ کسی ایسے گھنائونے فعل کا شریکِ جرم رہا ہوں۔ اسی طرح میں یہ بھی جانتا ہوں کہ حکومت نے باطنی نفرت اور سیاسی انتقام میں میرے خلاف جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات کو ایک نام نہاد عدالت میں سزاے موت کا ذریعہ بنایا ہے۔ سن لیجیے، میں اپنی زندگی کے ہرلمحے میں، اللہ کے دین کی خدمت اور سربلندی کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار تھا اور تیار ہوں۔ اللہ ہی میرا حامی و مددگار ہے___علی احسن مجاہد‘‘

سوال : میں ایک دینی مرکز کے کیمپس میں واقع مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا کرتا ہوں۔ جہاں باہر سے مہمان تشریف لاتے ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات جمع بین الصلوٰتین کی نیت سے ظہر کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عصر کی نماز اور مغرب کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عشاء کی نمازباجماعت پڑھنے لگتے ہیں۔ چنانچہ ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی نماز پڑھی جارہی ہے۔ ’جمع بین الصلوٰتین‘ کے تحت ظہر یا عصر یا عشاء کی نماز پڑھی جارہی ہے یا مغرب یا عشاء کی دوسری جماعت ہو رہی ہے؟ عام لوگ ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت سمجھ کر اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل سوالات جواب طلب ہیں:

۱- جب عام نمازیوں کو غلط فہمی کا اندیشہ رہتا ہو تو اس طرح مسجد کے اندر ’جمع بین الصلوٰتین‘ کہاں تک درست ہے؟

۲- جو لوگ ظہر یا مغرب کی نیت سے عصر یا عشاء کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، ان کی نماز ہوگی یا نہیں؟ کیوں کہ امام اور مقتدی دونوں کی نیت الگ الگ ہوگئی۔

۳- اگر مسجد میں اذان یا جماعت کے متعینہ وقت سے پہلے باجماعت نماز ادا کی جائے تو درست ہے یا نہیں؟

جواب:مسجد میں وقت ِ ضرورت دوسری جماعت کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ ہیئت تبدیل کردی جائے، یعنی پہلی جماعت مسجد کے جس حصے میں ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ دوسری جماعت کی جائے۔ اگر مسجد میں کچھ مسافر موجود ہوں اور وہ جمع بین الصلوٰتین کی غرض سے دوسری نماز جماعت سے ادا کرنا چاہیں تو وہ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ اگر کچھ مسافر مسجد میں باجماعت عصر یا عشاء کی نماز پڑھ رہے ہوں اور کوئی شخص اسے ظہر یا مغرب کی نماز سمجھ کر جماعت میں شامل ہوجائے تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟ بہ الفاظ دیگر اگر امام اور مقتدی کی نیتیں الگ الگ ہوجائیں، امام نے کسی نماز کی نیت کی ہو اور مقتدی کی نیت کسی اور نماز کی ہو تو مقتدی کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟

اس سلسلے میں احناف، مالکیہ اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز کی نیت کے معاملے میں امام اور مقتدی کا اتحاد ضروری ہے۔ اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت نمازِ ظہر کی ہے یا امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت نمازِ مغرب کی ہے تو مقتدی کی نماز درست نہ ہوگی۔ ان کا استدلال اس حدیث ِ نبویؐ سے ہے:

اِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤتَمَّ بِہٖ فَلَا تَخْتَلِفُوْا عَلَیْہِ (بخاری، کتاب الاذان) امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ اس لیے اس سے اختلاف نہ کرو۔

البتہ شوافع کہتے ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے امام اور مقتدی دونوں کی نمازوں کا ایک ہی ہونا ضروری نہیں ہے۔ نماز کے ظاہری افعال میں یکسانیت ہو تو مقتدی کی نماز درست ہوگی، خواہ اس کی نیت کسی نماز کی ہو اور امام کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو۔(الموسوعۃ الفقیہ، کویت، ۶/۲۲-۲۳، ۳۳)

کسی نماز کا وقت ہوجائے، لیکن ابھی اس کی اذان یا جماعت نہیں ہوئی ہے، کچھ لوگ ہیں جنھیں کسی ضرورت سے فوراً سفر پر نکلنا ہے، وہ مسجد میں اپنی جماعت کرسکتے ہیں۔ البتہ ان کے لیے مناسب ہے کہ مسجد کے جس حصے میں جماعت ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ اپنی جماعت کرلیں۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)


سجدئہ سہو : چند مسائل

س:  نماز میں بھول جائیں تو سجدۂ سہو لازم ہوجاتا ہے۔ اگر معمولی سی بھول ہو، مثلاً چار یا تین رکعتوں کے فرض میں دوسری رکعت کی التحیات کے بعد تیسری رکعت کے لیے اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ نمازی بھول کر درود شریف شروع کردیتا ہے مگر دوچار الفاظ (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی…) کے بعد ازخود متنبہ ہوکر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح چار فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد رکوع میں جانا ہوتا ہے۔ نمازی بھول کر آیاتِ قرآنی پڑھنا شروع کردیتا ہے (قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ…) فوراً متنبہ ہوجاتا ہے اور رکوع میں چلا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی چھوٹی موٹی بھول چوک پر بھی سجدئہ سہو لازم ہے؟

ج:  جب فرض اور واجب کی تاخیر ہوجائے یا واجب رہ جائے اور یہ تاخیر اتنی ہو کہ اس وقت میں کوئی رکن ادا کیا جاسکتا ہو تو پھر سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے۔ قعدہ اول میں جب ایک نمازی تشہد کے قعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھ لیتا ہے تو اسے فوراً تیسری رکعت کے لیے اُٹھنا چاہیے۔ اگر وہ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد اتنی دیر بیٹھ گیا کہ اس میں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ پڑھا جاسکتا ہو تو پھر سجدئہ سہو واجب ہوگیا کیوںکہ درود شریف کے مذکورہ حروف اتنے ہیں کہ ان سے رکن ادا ہوسکتا ہے، مثلاً رکوع یا سجدہ اتنی مقدار میں تسبیحات سے ادا ہوسکتا ہے۔

۲- تیسری اور چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورہ کا پڑھنا جائز ہے۔ لہٰذا تیسری یا چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد کوئی سورہ پڑھ لی تو اس سے سجدئہ سہو واجب نہیں ہوتا۔ اسی طرح سورہ کے چند الفاظ پڑھ لیے تب بھی سجدئہ سہو واجب نہیں ہوتا۔(مولانا عبدالمالک)


کھانے کا ایک ادب

س : ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پیٹ کے تین حصے کیے جائیں: ایک کھانے کے لیے، دوسرا پینے کے لیے، تیسرا خالی رکھا جائے۔ آج کل ڈاکٹرز حضرات کھانا کھانے کے ساتھ پانی پینے کو مضر گردانتے ہیں اور اس سے منع کرتے ہیں، جب کہ اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد پانی کے لیے جگہ خالی رکھی جائے۔ براہِ کرم وضاحت فرما دیں؟

ج:مقداد بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَامَلأَ آدَمِیٌّ وِعَائً شَرًّا مِّنْ بَطْنٍ ، بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ اُکَیْلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہ، فَاِنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہٖ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہٖ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہٖ (ترمذی: ۲۳۸۰، ابن ماجہ: ۳۳۴۹، صحیح ابن حبان: ۵۲۱۳) کسی آدمی نے پیٹ سے برابر تن نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے اپنی پیٹھ سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں۔ اگر وہ لازماً زیادہ کھانا ہی چاہے تو (پیٹ کے تین حصے کرلے) ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے)۔

علامہ البانیؒ نے اس حدیث کی تخریج اپنی کتاب ارواء الغلیل میں کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں بڑی حکمت کی بات بتائی گئی ہے۔ اس میں شکم پُری سے روکا گیا ہے۔ سروے رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل پیٹ کی جتنی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان میں سے زیادہ تر بسیارخوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ دعوتوں اور تقریبات کو جانے دیجیے، لوگ روزمرہ کے معمولات میں کھانے کا اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے، وہ کھانے ہی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس حدیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ آدمی کھانے کے لیے زندہ نہ رہے، بلکہ زندہ رہنے کے لیے کھائے۔

کھانے کے دوران یا اس سے فارغ ہوتے ہی فوراً پانی پینا طبی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ معدے سے ایسے افرازات (secretions) خارج ہوتے ہیں جو ہضمِ غذا میں معاون ہوتے ہیں۔ کھانا معدے میں پہنچتا ہے تو وہ افرازات اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کھانا درست طریقے سے جلد ہضم ہوتا ہے۔ کھانے کے دوران یا اس کے فوراً بعد پانی پی لینے سے ان افرازات کی تاثیر کم یا ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے نصف گھنٹے کے بعد پانی پیا جائے۔

مذکورہ بالا حدیث میں کھانے کے بعد فوراً پانی پینے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اس میں صرف یہ بات کہی گئی ہے کہ آدمی اپنے پیٹ کو کھانے سے مکمل نہ بھرلے، بلکہ کچھ گنجایش پانی کے لیے بھی رکھے۔ اب اگر کوئی شخص کھانے سے فارغ ہونے کے کچھ دیر بعد پانی پیے تو اس سے حدیث کی مخالفت نہ ہوگی، بلکہ طبی اعتبار سے یہ بہتر ہوگا۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

المدرسہ ۲۰۱۵ئ، ناشر:المدرسہ لٹریری اینڈ کلچرل سوسائٹی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، بھارت۔ صفحات ۲۰۴ (مجلاتی سائز مجلد)۔ قیمت:درج نہیں۔

یہ ایک یادگار مجلہ ہے، رنگین، دیدہ زیب، زرِ کثیر سے شائع کردہ، جس کی پیش کش دل نواز اور ترتیب و تدوین خوش کن۔ یہ چیزیں تو اور بھی جگہوں پر ہوتی ہیں، مگر اس اشاعت کی اس ثانوی خوبی کے ساتھ اصل خوبی اس کا پیغام اور اس کے مندرجات کی انفرادیت ہے۔ اس مجلے کی خوبی  یہ ہے کہ قاری، رواں دواں اسے دیکھتا اور پڑھتا چلا جاتا ہے۔ نئی نسل کے جذبات اور تعمیری اہداف سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور مسلم دانش وروں کی تخلیقی سوچ سے متعارف ہوتا ہے۔

مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر جنرل (سابق) ضمیرالدین شاہ کے عالی دماغ نے، دینی مدارس پر یلغار کے بجاے انھیں عمومی دھارے میں لانے کے لیے نومبر ۲۰۱۳ء میں ’’برج (Bridge:پل) کو رس‘‘ کا اجرا کیا۔ یعنی دینی اور دنیاوی تعلیم کے درمیان ربط و تعاون کی عملی، تدریسی اور تحقیقی صورتوں کی ٹھوس بنیادوں پر تشکیل۔ اس پروگرام کے تحت دینی مدارس کے طلبا و طالبات کو ایسی صلاحیت و قابلیت سے آراستہ کرنے کا اہتمام کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ دینی و علمی میدان میں کارہاے نمایاں انجام تو دیں ہی، لیکن اگر چاہیں تو میڈیکل، انجینیرنگ، انتظامیات اور سائنس کے شعبوں میں بھی داخلہ حاصل کرسکیں۔

مسلکی اور گروہی بنیاد پر دینی مدارس کی تقسیم بڑی واضح ہے۔ اس کورس کے ذریعے، زیرتعلیم طالب علموں کو اس محدود دائرے سے بلند ہوکر وسیع تر بنیادوں پر اُمت ِ مسلمہ کا رہنما بنانا پیش نظر ہے۔جس کے لیے فیکلٹی میں جملہ مکاتب ِ فکر کے فاضل علما بھی شامل ہیں۔ اس کورس کے فاضلین عملی میدان میں کس فکرونظر کے حامل ہوں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اگر اس کورس کی تدریس کے دوران ’تجدد پسندی‘ ،’مداہنت روی‘ اور انکار حدیث و سنت کے سایے گہرے ہوئے، تو سمجھ لیجیے کہ خواب بکھر جائے گا۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔اس ’سووینیر‘ (اُردو،انگریزی) میں بہت سے طلبا و طالبات نے کورس کی تکمیل یا زیرتعلیم ہوتے ہوئے اپنے مشاہدات کو اس طرح  بیان کیا ہے کہ ضمیرالدین شاہ صاحب کی کوششیں رنگ لاتی دکھائی دیتی ہیں۔ (سلیم منصورخالد)


آزادیِ صحافت- سب سے بڑی جنگ، احفاظ الرحمن۔ ناشر: رکتاب پبلی کیشنز،      ۴۸- جبل رحمت ٹاور، گلستانِ جوہر، کراچی۔ فون: ۲۳۹۳۱۴۳-۰۳۰۰۔ صفحات: ۵۹۰۔ قیمت: ۹۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب بنیادی طور پر ۷۸-۱۹۷۷ء میں، جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران صحافت پر گزرنے والی کٹھن رات کی رُوداد ہے۔ اسی طرح تمام مکاتب ِ فکر سے متعلق صحافی کارکنوں کی جدوجہد، مشکلات، قربانیوں اور قیدوبند کی صعوبتوں کی تفصیلات ہیں۔کتاب پر سوشلسٹ گروہ کی گہری چھاپ ہے جن کا طرزِفکر یہ ہے کہ: ’پاکستان کی تاریخ کے تمام مسائل، ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۸ء کے دوران ہی پیدا ہوئے‘۔ اس کتاب میں بھی یہی آہنگ موجود ہے اور جماعت اسلامی کے لیے طعنہ زنی کا اہتمام بھی۔ مگر اس کے باوجود اگر کوئی ایسا مقام آیا کہ جب احفاظ الرحمن کا کوئی ممدوح راستے میں آیا تو اس کو کٹہرے میں لانے کی راہ میں مؤلف نے کوئی  ہچکچاہٹ نہیں برتی۔

مثال کے طور پر: ’بھٹو کے دور میں تعزیراتِ پاکستان میں اس قسم کی ترامیم کی گئی تھیں‘ جن کے نتیجے میں الزام لگانے والے پر ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری کے بجاے [اپنی] بے گناہی کا ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈال دی گئی تھی۔ قانون کے نام پر اس ظالمانہ لاقانونیت کے نفاذ کے خلاف بھی [ہم نے] ملک گیر تحریک چلائی‘‘ (ص۵۱۵)۔ اسی طرح ۱۹۷۴ء میں روزنامہ مساوات میں خودپیپلزپارٹی کی جانب سے صحافی کارکنوں کے خلاف ’بھٹوگردی‘ اور اس کی قیادت کرتے ہوئے عباس اطہر کی یلغار (ص ۵۲۴-۵۳۰) کا حوالہ عبرت ناک ہے۔

اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۷ء کے مارشل لا کی فوجی عدالتیں کس انداز سے ’فراہمی عدل‘ کا اہتمام کرتیں اور کیسے خودساختہ گواہوں کے ’حلفیہ‘ بیانات پر، ملزم کو جرح و صفائی کا موقع دیے بغیر کوڑوں اور قید کی سزائیں دیتیں۔

۱۸جولائی سے ۱۲ستمبر ۱۹۷۸ء کے دوران ۲۱۸ صحافی گرفتار ہوئے (ص ۱۹۶-۲۰۸)۔ ان قیدیوں کے خطوط اور رُودادِ اسیری میں بہت سے نکات، جذبے کو مہمیز لگاتے، اور ادب و اظہار کے زاویے نمایاں، دُکھ اور عمل کی راہوں کو واشگاف کرتے ہیں۔(سلیم منصور خالد)


الایام،مدیر: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: مجلس براے تحقیق اسلامی تاریخ و ثقافت، فلیٹ ۱۵- اے، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ فون: ۲۲۶۸۰۷۵۔ صفحات: ۳۷۹۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

الایام ایک غیر سرکاری ادارے کے تحت شائع ہوتا ہے۔ زیرنظر جنوری تا جون ۲۰۱۵ء کا شمارہ ہے۔ الایامکثیراللسانی رسالہ ہے۔ انگریزی میں دو، فارسی اور عربی میں ایک ایک مضمون شامل ہے۔ یہ مجلہ ایچ ای سی کی منظور شدہ فہرست میں شامل ہے۔

 اس میں تاریخ، حدیث، ادب، مصوری وغیرہ کے موضوعات پر وقیع مقالات شامل ہیں، مثلاً: ’صحیح بخاری کے اشکالات اور ان کے حلول‘، ’مسلمان اور فنِ مصوری‘، ’مستشرقین اور  ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘، ’برصغیر میں قرامطہ کا سیاسی اثرورسوخ‘، ’علامہ راشدالخیری، بحیثیت تاریخ و سیرت نگار‘۔ ’پروفیسر محمد شکیل اوج مرحوم‘ پر چھے مضامین شامل ہیں، جو ان کی شخصیات اور علمی و دینی خدمات کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔

’حضور بے حضوری‘ کے عنوان سے جناب عارف نوشاہی کے عمرے کے دوسفرنامے اپنے اندر علمی اور تحقیقی پہلو رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نگار سجاد نے کلیم عاجز کا مختصر خاکہ پیش کیا ہے جس میں ان کے ادبی و شعری کمالات بھی سامنے آئے ہیں۔’مطبوعات جدیدہ‘ الایامکا مستقل حصہ ہے۔ محمد سہیل شفیق نے ۱۹ تازہ رسالوں اور کتابوں کا مختصر مختصر تعارف کرایا ہے، اور ’بیادِ رفتگان‘ میں زیباافتخار نے مرحومین کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔

الایام میں موضوعات اور مضامین کا جو تنوع ہے، وہ یونی ورسٹیوں کے رسالوں میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے، چنانچہ اساتذہ اور تحقیق کرنے والے طلبا و طالبات کے علاوہ عام قارئین کے لیے بھی اس میں دل چسپی کا سامان موجود ہے۔ اگر آیندہ اشاعتوں میں مضامین پر مراسلات کا سلسلہ بھی شامل کیا جائے تو مفید ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


ہم بھی وہاں موجود تھے، عبدالمجید ملک۔ ناشر: سنگ ِ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ فون: ۳۷۲۲۰۱۰۰-۰۴۲۔ صفحات:۳۳۶۔ قیمت: ۱۲۰۰ روپے۔

 نام ور شخصیات جنھیں اہم مناصب پر فائز رہنے اور ملکی تاریخ کے اہم مراحل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہو ان کی سرگزشت یا سوانح تاریخی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب بھی اسی نوعیت کی ہے۔ یہ ۹۶ سالہ ریٹائرڈ جرنیل اور نام ور سیاست دان جنرل عبدالمجیدملک کی آپ بیتی ہے۔ ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولنے والے عبدالمجید فوج میں سپاہی کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے جرنیل بنے۔

یوں تو زیر نظر کتاب ایک فرد کی بھرپور زندگی کی کہانی ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ تقریباً ایک صدی کی تاریخ ہے ۔صدی بھی ایسی جس میں جنگ عظیم اوّل و دوم،تحریکِ پاکستان، قیامِ پاکستان اورہجرت جیسے تاریخ ساز واقعات رُونما ہوئے۔ابتداے ملازمت میںانھیں تحریک پاکستان سے دل چسپی پیداہوئی ۔۱۹۴۸ء میں ایک ہفتے کے لیے قائداعظم کے (عارضی) اے ڈی سی بھی رہے۔ مسلم لیگ اور کانگریس کی جن نام وَر شخصیات کو انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، ان کا تذکرہ بھی ہے۔

مصنف کی زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب ذوالفقارعلی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو  پاک فوج کا سربراہ بنا دیا تو انھوں نے استعفا دے دیا۔۱۹۸۵ء کے انتخابات میںقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر میدانِ سیاست میں وارد ہوئے۔

۱۹۵۸ء کے پہلے مارشل لا کے منصوبہ سازوں میں شامل تھے، تاہم بعد میں وہ مارشل لا کے ناقد رہے اورایک طویل عرصے تک فوجی حکمرانی کے مقابلے میں سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ مصنف کے بقول سانحۂ کارگل کی تمام تر ذمہ داری جنرل پرویزمشرف اور ان کے تینوں ساتھی جرنیلوں پرعائد ہوتی ہے جنھوںنے وزیراعظم نوازشریف اور پوری سیاسی قیادت کو  اس آپریشن سے بے خبر رکھا تھا(ص ۲۴۲)۔انھوں نے جہاں پرویز مشرف کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہاں نوازشریف کے مختارِکل بننے کے شوق کے بھی ناقد ہیں۔ یہ کتاب اہم واقعات و حوادث اور فیصلوں کے گہرے مشاہدے کی داستان ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)


سوچنے کی باتیں، حافظ احسان الحق۔ ناشر: قرطاس، فلیٹ نمبر ۱۵A-، گلشن امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۵، کراچی۔ فون: ۳۸۹۹۹۰۹-۰۳۲۱۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

زندگی گزارتے ہوئے اور مطالعہ کرتے ہوئے بہت سے ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جن کا بہ ظاہر کوئی اطمینان بخش حل نظر نہیں آتا۔ کسی صاحب ِ علم کی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ زیرتبصرہ ۱۰۰صفحے کی کتاب میں اسی طرح کے ۳۸ موضوعات پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔  محترم مؤلف نے کتاب و سنت کی روشنی میں اور جدید دور کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے جامع اور مختصر جواب دیے ہیں، جو قاری کو مطمئن کرتے ہیں۔ چند موضوعات درج کر رہا ہوں تاکہ اس مختصر کتاب کی وسعت کا اندازہ ہو: پست انسانی جذبات اور تعلیمی اداروں کی زبوں حالی، اسلام میں محبت کی شادی کا تصور، غیرمسلم فوج میں ملازمت، حبط عمل کا مطلب، اسلام اور جنسی تعلیم، عمر بڑھ سکتی ہے، انسانی کلوننگ کی شرعی حیثیت، روزہ اور ہوائی سفر، بنک کی ملازمت وغیرہ وغیرہ۔ محترم مؤلف نے اظہارِ خیال کیا ہے ، اپنی راے دی ہے، فتویٰ نہیں دیا۔ اسی لیے کتاب کا نام سوچنے کی باتیں مناسب ہے۔ (مسلم سجاد)


ماحول سے دوستی کیجیے، تسنیم جعفری۔ ناشر: اُردو سائنس بورڈ، ۲۹۹-اپرمال، لاہور۔ فون:۳۵۷۵۸۴۷۵-۰۴۲۔ صفحات:۴۴۔ قیمت: درج نہیں۔

آلودگی پوری دنیا کے لیے ایک گمبھیر مسئلے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ماحول سے دوستی کیجیے، اُردو سائنس بورڈ کی ’اُردو سائنس سیریز‘ کے تحت ایک ایسی کاوش ہے جس میں ایک دل چسپ کہانی کے انداز میں ماحول کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے کے لیے رہنمائی دی گئی ہے۔ چین میں کس طرح سے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں،   ان کا بھی تذکرہ ہے، مثلاً بچوں کو بورڈنگ سکول میں پڑھایا جاتا ہے تاکہ سڑکوں پر ٹریفک کم ہو اور دھویں سے بچا جاسکے۔ اکثر لوگ ذاتی سواری کے بجاے ٹرین یا سائیکل استعمال کرتے ہیں، نیز ماحول کی بہتری کے لیے لوگ آگے بڑھ کر تعاون کرتے ہیں۔ اسی طرح صحت مند ماحول کے لیے اپنے محلے اور گردونواح کو اپنی مدد آپ کے تحت صاف ستھرا رکھنے، کوڑا کرکٹ کو جلانے کے بجاے ری سائیکل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

مصنفہ نے بجاطور پر توجہ دلائی ہے کہ ہمیں ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی آلودگی کا بھی سامنا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اچھی اقدار و روایات کو بھی پروان چڑھایا جائے اور ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں  اس کے لیے کام کرے۔ صاف ستھرا ماحول ہی صحت مند زندگی کا ضامن ہے۔(امجد عباسی)


تعارف کتب

oتیرا کوئی شریک نہیں، محمد ارشد۔ ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد۔ صفحات: ۱۷۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[زیرنظر کتاب حج کا سفرنامہ ہے۔ مصنف نے حرمین شریفین کے سفرِسعادت کے تاثرات، مشاہدات اور احساسات نہایت اختصار سے بیان کیے ہیں۔ جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، سپردِ قلم کردیا ۔ مصنف کو بعض اُمور میں نہایت تعجب ہوا کہ حرمین شریفین میں لوگ نمازیوں کے آگے سے بے تکلف گزر جاتے ہیں (ص۲۶)۔ اُونچی آواز سے روضۂ رسولؐ پر دعائیں مانگتے ہیں۔ موبائل پر اپنے دیس میں کسی عزیز سے کہہ رہے ہوتے ہیں: ’’میں یہاں  روضۂ رسولؐ کی جالیوں کے پاس ہوں‘‘ (ص ۳۲)۔ مصنف نے دل چسپ مشاہدات قلم بند کیے ہیں۔ ]

o توہین رسالتؐ: اسباب اور سدّباب ، ڈاکٹر حبیب الرحمن۔ ناشر: ڈی بی ایف، سیرت ریسرچ سنٹر، سی-۲، ہائی لینڈ ٹریڈرز بلڈنگ، سیکنڈ فلور،فیز۲، ڈیفنس، کراچی۔ فون: ۳۵۳۹۵۹۲۸-۰۲۱۔ صفحات:۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔[ مغرب میں توہین رسالتؐ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر اس کے اسباب کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہوئے تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے لیے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔ اسلام مخالف قوتیں توہین ناموسِ رسالتؐ سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں، ان کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور مؤثر احتجاج کے لیے مثالوں کے ذریعے تجاویز دی گئی ہیں۔ اپنے موضوع پر مفید مطالعہ ہے۔]

o مجلہ السیرۃ ، مدیراعلیٰ: ڈاکٹر حبیب الرحمن، ڈی بی ایف، سیرت ریسرچ سنٹر، سی-۲، ہائی لینڈ ٹریڈرز بلڈنگ، سیکنڈ فلور،فیز۲، ڈیفنس، کراچی۔ فون: ۳۵۳۹۵۹۲۸-۰۲۱۔ صفحات:۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔[دلشاد بیگم فائونڈیشن (ڈی بی ایف) کے تحت سیرت ریسرچ سنٹر قائم کیا گیا ہے اور مجلہ السیرۃ کا اجرا کیا گیا ہے۔ مجلے کا مقصد: احیاے سنت اور عظمت سیرۃ النبیؐ کو علمی و تحقیقی تحریک میں بدلنا اور اصلاحِ معاشرہ ہے (اداریہ)۔ رمضان المبارک کی مناسبت سے خصوصی اشاعت پیش کی گئی ہے۔ رمضان کی اہمیت، نبی کریمؐ کے معمولات، رمضان کے تقاضے اور جدید فقہی مسائل وغیرہ زیربحث آئے ہیں۔]

o عورت کیا کچھ کرسکتی ہے؟ خدیجہ نوید عثمانی۔ ناشر: ادارہ بتول، ۱۴-ایف، سیّد پلازا، ۳۰-فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۵۸۵۴۴۹-۰۴۲۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۹۰ روپے۔[صحابیاتِ رسولؐ کا دل نشین تذکرہ اور ادبی چاشنی لیے ہوئے ایمان افروز واقعات۔ عورت کے کردار کے مختلف پہلو: ایمان کے لیے تڑپ، تلواروں کی چھائوں میں، راہِ حق میں استقامت و عزیمت کے مراحل اور نیکی میں سبقت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان نقوش سے عمل کے لیے تحریک اور آخرت کی فکر کو تقویت ملتی ہے۔ تاہم قیمت زیادہ ہے۔]


اھم اعلان

الفرقان پارہ عَمَّ (تیسواں پارہ) جو اس سے پہلے دوچار دفعہ چھپ کر مقبول ہوچکا ہے، احباب کے اصرار پر  دیدہ زیب نیاایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ ان خواتین و حضرات کے لیے پیش کیا جا رہا ہے جو دعوتِ دین میں مصروف ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات ۶۰روپے کے ڈاک ٹکٹ ارسال کریں۔

براے رابطہ: شیخ عمر فاروق 15-B وحدت کالونی، وحدت روڈ، لاہور ۔ فون: 042-37810845

اسلامی ریاست میں شاتمِ رسولؐ ذمی کی پوزیشن

سوال: راقم نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف الجہاد فی الاسلام کا مطالعہ کیا۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ: ’’ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کردینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبروریزی کرنا، اس کے حق میں ناقضِ ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقد ِ ذمّہ باقی نہیں رہتا: ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جاملے، دوسرے یہ کہ حکومت ِ اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے‘‘۔

میری تحقیق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے ذمّی کا عقد ِ ذمہ ٹوٹ جاتا ہے۔ آپ نے اپنی راے کی تائید میں فتح القدیر ، ج۴، اور بدائع،ص ۱۱۳ کا حوالہ دیا ہے لیکن دوسری طرف      علامہ ابن تیمیہؒ نے الصارم المسلول علٰی شاتم الرسول کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے.... حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرتی رہتی تھی ۔ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹا، یہاں تک کہ وہ مرگئی۔ نبی ؐ نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا(ابوداؤد)۔ ایک مقامی عالم نے اخبار اہلِ حدیث (سوہدرہ) میں آپ کی اس راے کے خلاف ایک مضمون ’مولانا مودودی کی ایک غلطی‘ شائع کیا ہے اور متعدد علما کے فتاویٰ درج کیے ہیں۔

جواب: یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اس میں دوسری طرف بھی علما کا ایک بڑا گروہ ہے اور اس کے پاس بھی دلائل ہیں۔ اصل اختلاف اس بات میں نہیں ہے کہ جزیہ نہ دینا، یا سبِّ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا ہتک ِ مسلّمات قانونی جرم مستلزم سزا ہیں یا نہیں، بلکہ اس امر میں ہے کہ: ’یہ جرائم آیا قانون کے خلاف جرائم ہیں یا دستورِ مملکت کے خلاف؟‘ ایک جرم وہ ہے جو رعیت کا کوئی فرد کرے تو صرف مجرم ہوتا ہے۔ دوسرا جرم وہ ہے جس کا ارتکاب وہ کرے تو سرے سے رعیت ہونے ہی سے خارج ہوجاتا ہے۔ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ: ذمّی کے یہ جرائم پہلی نوعیت کے ہیں۔ بعض دوسرے علما کے نزدیک: ’ان کی نوعیت دوسری قسم کے جرائم کی سی ہے‘۔ یہ ایک دستوری بحث ہے جس میں دونوں طرف کافی دلائل ہیں۔ اخبار اہل حدیث میں جن صاحب نے مضمون لکھا ہے، انھوں نے انصاف نہیں کیا کہ اسے صرف مودودی کی غلطی قرار دیا۔ یہ اگر غلطی ہے تو سلف میں بہت سے اس کے مرتکب ہیں۔ مودودی غریب کا تو صرف یہ قصور ہے کہ [وہ] کسی مسئلے میں مسلکِ حنفی کی تائید کرتا ہے تو اہلِ حدیث سے گالیاں کھاتا ہے اور کسی میں اہلِ حدیث کی تائید کرتا ہے تو حنفی اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔( ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۵۵ئ،ص ۶۱-۶۳)

______________