اللہ تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے کہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہم پر اور اُمت مسلمہ پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ اہلِ ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور یہ ہماری بڑی بدنصیبی ہوگی کہ اس مبارک مہینے کو پائیں، اللہ کی رحمت سے اس میں روزوں کی سعادت بھی حاصل کریں، مگر اس اصل مقصد اور پیغام کے بارے میں غافل رہیں جو اس مہینے اور اس میں انسانیت کو دیے جانے والے ربانی تحفے کا اصل جوہر ہے۔
روزہ اللہ کے ماننے والے تمام انسانوں کے لیے ہر دور میں فرض کیا گیا ہے اور اس کی بے شمار مصلحتوں میں سے تین کم از کم ایسی ہیں جن کا ہرلمحے شعور از بس ضروری ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے، اس توقع کے ساتھ کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔
بس یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے اور اس مہینے کا حق یہ ہے کہ ہم پورے شعور کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن کیا ہے، اس کی اتھارٹی کی کیا حیثیت ہے، اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے، اس سے ہمارا تعلق کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے اور اس کے پیغام کے ہم کس طرح علَم بردار ہوسکتے ہیں تاکہ اللہ کے انعام کا شکر ادا کرسکیں۔ اس موقعے کی مناسبت سے ہم قرآن کے مقصد ِ حیات، اس سے تعلق کی بنیادوں اور ان کے تقاضوں پر اپنی معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۵) تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔
قدرت کا قانون ہے کہ جب تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو روشنی اس کا سینہ چیرتی ہوئی رُونما ہوجاتی ہے، ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں اور فضا نور سے بھرجاتی ہے۔ تاریخِ انسانی میں روشنی اور نور کا سب سے بڑا سیلاب ۲۷رمضان المبارک ۱۳ قبل ہجرت میں رُونما ہوا۔
خشکی و تری اور بحروبر پر تاریکی کا غلبہ تھا۔ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ (الروم ۳۰:۴۱) کی حقیقی تصویر بن کر ظلم اور فساد سے خدا کی زمین بھر گئی تھی۔ انسان اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر جھوٹے خدائوں کی بندگی کر رہے تھے۔ ارض و سما کے مالک نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو ہدایت اور رہنمائی بھیجی تھی، انسان نے اس کو گم کر دیا تھا۔ نتیجے کے طور پر گمراہی اور ظلمت کا دور دورہ تھا۔ انسان، آگ، درخت، پتھر، پانی اور جانوروں تک کی پوجا کر رہے تھے۔ زندگی کے اجتماعی معاملات میں کچھ انسان دوسرے انسانوں کے خدا اور رب بن بیٹھے تھے، اور اپنی من مانی کر رہے تھے۔ نیکیاں معدوم ہورہی تھیں اور بُرائیاں پَر افشاں تھیں۔ نسل، قوم اور قبیلے کے بتوں کی پوجا ہورہی تھی۔ حق، انصاف، آزادی، مساوات اور بندگیِ رب کو انسانیت ترس رہی تھی۔
یہ تھی وہ دنیا، جس میں خدا کے ایک برگزیدہ بندے، انسانیت کے گل سرسبد اور دنیا کے سب سے نیک انسان محمدؐ بن عبداللہ نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ظلم کے اس راج اور بدی کے اس غلبے پر حیران و سرگردان تھا، وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰیo (الضحٰی ۹۳:۷)۔ وہ جھوٹے خدائوں کا باغی اور ایک حقیقی خدا کی بندگی کا جویا تھا۔ دست ِ فطرت نے ۴۰سال اس کی تربیت فرمائی۔ پھر زمین و آسمان کے مالک نے ایک شب اس باکمال ہستی کو انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبیؐ کی حیثیت سے مامور فرما دیا۔ وہ غارِحرا میں عبادت میں مشغول تھا کہ خدا کا فرشتہ، اس کا امین اور پیام بر رُونما ہوا۔ بندگی میں مشغول بندے کو سینے سے لگایا، اسے خوب بھینچا اور رب السموات والارض کی طرف سے پہلی وحی اس پر نازل کی:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام سے جس نے (ساری چیزوں) کو پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ پڑھو اور تمھارارب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا،اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اس کو معلوم نہ تھیں۔
تاریکیوں کے لیے موت کا پیغام آگیا۔ طاغوت کے غلبے کا دور ختم ہوگیا۔ رب کی آخری ہدایت کا دور شروع ہوگیا۔ یہ سلسلہ ۲۳سال تک چلتا رہا، حتیٰ کہ ہدایت مکمل ہوگئی اور انسانیت کو نور کا وہ خزانہ مل گیا، جس کی روشنی تاقیامت قائم رہے گی جس کے ذریعے وہ ہمیشہ رہنمائی اور ہدایت حاصل کرتی رہے گی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط(المائدہ ۵:۳)آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
خدا کی اس زمین پر انسان کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق اس کی جسمانی اور مادی زندگی سے ہے، اور دوسری وہ جو اس کی روحانی، اخلاقی اور سماجی زندگی سے متعلق ہیں۔ خدا کی ربوبیت کاملہ کا تقاضا تھا کہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں پوری کی جائیں، تاکہ وہ زندگی کی آسایشیں بھی حاصل کرسکے اور ان کو صحیح طریقوں سے استعمال بھی کرسکے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو بہ حسن و کمال پورا کیا ہے۔ مادی اور جسمانی ضروریات کی تسکین کے لیے زمین و آسمان میں بے شمار قوتیں ودیعت کردی ہیں، جن کی دریافت اور ان کے مناسب استعمال سے انسان کی تمام ضرورتیں پوری ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی روحانی، اخلاقی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت نازل فرمائی اور اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس ہدایت کو انسانوں تک پہنچایا بلکہ ان کی زندگیوں میں اسے متشکل کرکے بھی دکھا دیا۔ اس طرح انسانیت نے اپنا سفر تاریکی میں نہیں، روشنی میں شروع کیا، اور ہر دور میں خدا کی ہدایت اس کے لیے مشعلِ راہ بنی رہی۔ اس دنیا میں پہلا انسان [آدم ؑ] پہلا نبی بھی تھا۔ خدا کی یہ ہدایت اپنی آخری اور مکمل ترین شکل میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی۔ یہی ہدایت قرآن کی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
۱- یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک، آقا، رب اور حاکم ہے۔ ہرشے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیارکُلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہرچیز کا خالق اور مالک ہے، اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ، مالک اور حاکم ہے۔ اس مالکِ حقیقی نے انسان کو ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر، اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابعِ فرمان کیا ہے۔
۲-انسان کو خلافت کی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالکِ حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا اور اس کی رہنمائی صراطِ مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہاں اس کے لیے ہے، اس کے تابع ہے، لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمایش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کردے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا ، وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہوگا۔
۳- یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک، اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہرملک اور ہرقوم میں انبیا مبعوث ہوئے۔ اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربی ؐ ہیں۔ آپؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین، یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا جن لوگوں نے آپؐ کی دعوت قبول کرلی اور اسلام کو بہ حیثیت زندگی کے دین اور راستہ اختیار کرلیا، وہ ایک اُمت بن گئے۔ اب یہ اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے جو اللہ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا، اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتی رہے۔
قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے ، جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے، جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اُتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیروفلاح کی ضامن ہے۔ قرآن اپنی حیثیت اور اپنے مقصد کو اس طرح واضح کرتا ہے:
(الف) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o (البقرہ ۲:۲) یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔
(ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔
(ج) یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:
الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲:۱۸۵) قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔
(د) یہ ہدایت کا ایسا مرقع ہے جسم میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کردی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:
وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ۵:۴۸) پھر اے نبیؐ، ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے ، اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔
(ہ) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo (الحجر۱۵:۹)بلاشبہہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں۔
(و) انسانیت کے دُکھوں کا واحد علاج یہ ہدایت ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس۱۰:۵۷)لوگو!تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے جو دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں۔
(ز) اور یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو مھیمن کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔
قرآن کی اس نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کی وضاحت آسان ہوجاتی ہے، اسے ہم مختصراً یوں بیان کرسکتے ہیں:
o قرآن کا موضوع انسان ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے اس کی فلاح اور خسران کس چیز میں ہے۔
o قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہربینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے باعث انسانوں نے خدا، نظامِ کائنات ، اپنی ہستی اور اپنی دنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں اور ان نظریات کی بنا پر جو رویے اختیار کرلیے ہیں، وہ سب حقیقت کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے جسے انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بیان فرما دیا ہے۔ اس حقیقت کے لحاظ سے وہی رویہ درست اور خوش انجام ہے جو خدا کو اپنا واحد حاکم اور معبود تسلیم کرکے اس دنیا میں اس کی ہدایت کے مطابق اپنی پوری زندگی کو گزارا جائے۔
o قرآن کا مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے، جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن، جلد اوّل، مقدمہ از مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ)
نزولِ قرآن کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے۔ (الفوز الکبیر)
قرآن تمام انسانوں کو ابدی سعادت کی طرف بلاتا ہے، اور انسان کے ظاہروباطن کی ایسی تعمیر کرتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، دنیا اور آخرت کی زندگیوں میں حقیقی چین اور راحت نصیب ہو۔ یہی راستہ رب کی بندگی کا راستہ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریات ۵۱:۵۶) میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔
یہ بندگی انسان کی پوری زندگی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ہر سانس احساسِ عبدیت سے معمور ہونا چاہیے اور اس کا ہرعمل مالک کی اطاعت کا مظہر ہونا چاہیے۔
یہ مقام ہے جہاں سے قرآن کا انقلابی تصورِ حیات ہمارے سامنے آتا ہے۔ قرآن انسانی زندگی کو مختلف گوشوں اور شعبوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ وہ پوری زندگی کو بندگیِ رب میں لانا چاہتا ہے۔ انسان کے فکروخیال اور عقیدہ و رجحان سے لے کر اس کی اجتماعی زندگی کے ہرپہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:
اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ۲:۲۰۸) داخل ہوجائو خدا کے دین میں پورے کے پورے۔
یعنی اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کے بعد زندگی کے کسی شعبے کو خدا کی ہدایت سے آزاد رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی اجتماعی زندگی ، خدا کے قانون کی پابندی اور اس کی رضا کو تلاش کرنے والی ہوگی۔پھر تمدن کے پورے نظام، یعنی معاشرت، سیاست، معیشت، قانون و عدالت، انتظام و انصرام، ملکی اور بین الاقوامی تعلقات، سب پر خدا کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اُوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا، بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینا ہے۔ انسانیت کو حق کی طرف بلانا ہے، اور ہر اس رکاوٹ کو ہٹانے کی جدوجہد کرنی ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان اس تعلق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہے۔ اس کا نام دعوتِ حق ہے جو اسلام میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف یہ کتاب بلاتی ہے۔
علامہ اقبالؒ مشہور صوفی بزرگ شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ کے حوالے سے قرآن کے اس مخصوص مزاج کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:’’محمد عربیؐ برفلک الافلاک رفت و باز آید واللہ اگر من رفتمے ہرگز با ز نیامدے، محمد عربی ؐ [معراج کے موقعے پر] آسمانوں پر گئے اور واپس آگئے۔ اللہ کی قسم! اگر میں جاتا تو ہرگز واپس نہ آتا۔ یہ مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ؒ کے الفاظ ہیں جن کی نظیر تصوف کے سارے ذخیرۂ ادب میں مشکل ہی سے ملے گی۔ شیخ موصوف کے اس ایک جملے سے ہم اس فرق کا اِدراک نہایت خوبی سے کرلیتے ہیں جو شعورِ ولایت اور شعورِ نبوت میں پایا جاتا ہے۔ صوفی نہیں چاہتا کہ وارداتِ اتحاد سے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے اسے چھوڑ کر واپس آئے لیکن اگر آئے بھی، جیساکہ اس کا آنا ضروری ہے، تو اس سے نوعِ انسانی کے لیے کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ، نبیؐ کی بازآمد تخلیقی ہوتی ہے ۔ وہ ان واردات سے واپس آتا ہے تو اس لیے کہ زمانے کی رُو میں داخل ہوجائے اور پھر ان قوتوں کے غلبہ و تصرف سے، جو عالمِ تاریخ کی صورت گرہیں، مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔ صوفی کے لیے تو لذتِ اتحاد ہی آخری چیز ہے۔ لیکن انبیا علیہم السلام کے لیے اس کا مطلب ہے ان کی اپنی ذات کے اندر کچھ اس قسم کی نفسیاتی قوتوں کی بیداری، جو دنیا کو زیروزبر کرسکتی ہیں، اور جن سے کام لیا جائے تو جہان انسانی دگرگوں ہوجاتا ہے۔ لہٰذا انبیا ؑکی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان واردات کو ایک زندہ اور عالم گیر قوت میں بدل دیں… لہٰذا انبیاؑ کے مذہبی مشاہدات اور واردات کی قدروقیمت کا فیصلہ ہم یہ دیکھ کر بھی کرسکتے ہیں کہ ان کے زیراثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے‘‘۔ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، علامہ محمد اقبال، ترجمہ سیّد نذیرنیازی، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۱۸۸-۱۹۰)
مطلب یہ کہ بزرگ صوفی کا یہ قول زندگی کے محدود تصور کا غماز ہے۔ اس تصور میں اصل اہمیت عرفانِ ذات کی ہے اور وہ اس سے اُونچے کسی مقام کا تصور نہیں کرسکتی ہے کہ بندے کے قدم وہاں پہنچ جائیں جہاں فرشتوں کے پَر جلتے ہیں۔ پھر اس دنیا کی طرف واپس آنے کا کیا سوال؟ لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم جس دین کے علَم بردار ہیں وہ دین جس کا نبی اس بلندی پر پہنچ کر پھر اس دنیاے رنگ و بو میں لوٹتا ہے، تاریخ کے منجدھار میں قدم رکھتا ہے اور اس نور سے جو اسے حاصل ہوا ہے تنگ و تاریک دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ صرف اپنے اس سینے کو گنجینۂ اَنوار نہیں بناتا بلکہ پورے عالم کو روشن کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ ایک نیا انسان بنانے، ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنے، ایک نئی ریاست قائم کرنے اور تاریخ کو ایک نئے دور سے ہمکنار کرنے میں مصروفِ جہاد ہوجاتا ہے۔
قرآن اسی دعوتِ انقلاب کو پیش کرتا ہے، وہ زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد ایک انقلاب برپا کرنا ہے___ دلوں کی دنیا میں بھی انقلاب اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب۔ وہ صالح انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت کی روش ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہوجائے۔ بُرائیاں سرنگوں اور نیکیوں کو غلبہ حاصل ہو۔ خدا کے منکر اور اس سے غافل قیادت کو مسند سے ہٹا دیا جائے اور اس کے مطیع اور فرماں بردار بندے زمانے کی قیادت سنبھال لیں___ یہ ہے نزولِ قرآن کا مقصد اور یہی ہے انسانیت کی نجات کا راستہ۔
ہم اُمت مسلمہ کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس اُمت کا ہر فرد اس موقعے پر اور بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ قرآن کی اصل حقیقت کو سمجھے۔ اس کے مقصد کا حقیقی شعور پیدا کرے۔ اس کے پیغام پر کان دھرے اور اس کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائے۔
قرآن نے انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس نے قبیلے، نسل، رنگ، خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظامِ اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے، یعنی عقیدہ اور مسلک۔ اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی اُمت بنائی اور اس اُمت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کردیا:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
قرآن نے اس اُمت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے، اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیروصلاح کا علَم بردار بنایا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔ جس نے عرب کے اُونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنایا۔ جس نے ریگستان کے بدوئوں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنادیا۔ جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اُٹھائے، جو انسانیت کے رہبر بنے۔ جس نے وہ نظام قائم کیا، جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کرڈالا۔
قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔ اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی اصلیت بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی، اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو، بشرطیکہ وہ اس کا حق ادا کرسکیں، انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بناسکتا ہے۔
خوب کہا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے:
لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلُحَ اَوَّ لُھَا، اس اُمت کے بعد کے حصے کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوگی، جس سے اس کے اوّل حصے کی اصلاح ہوئی تھی۔
___ اور یہ چیز قرآن ہے۔
قرآن سے حقیقی تعلق اور تقاضے
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن نے پہلے بنجر اور شور زمین سے ایک نیاجہاں پیدا کردیا تھا، تو آج وہ یہ کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہا؟
oاگر وہ کل شفا و رحمت تھا، تو وہ آج یہ وظیفہ سرانجام دیتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا؟
oاگر ہم کل اس کی وجہ سے طاقت ور تھے، تو آج اس کے باوجود ہم کمزور کیوں ہیں؟
oاگر کل اس کے ذریعے ہم دنیا پر غالب تھے، تو آج اس کے ہوتے ہوئے ہم مغلوب کیوں ہیں؟
اگر غور کیا جائے تو اس کی دو ہی وجوہ ہوسکتی ہیں___ ایک،یہ کہ ہم نے عملاً اس کتابِ ہدایت کو اپنا حقیقی رہنما باقی نہ رکھا ہو۔ اس سے ہمارا تعلق، غفلت و سردمہری و بے التفاتی اور بے توجہی کا ہوگیا ہو۔ دوسرے، یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا احترام اور تقدیس کررہے ہوں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح راستہ اور صحیح طریقہ اختیار نہ کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔
برف کی طرح پگھلتی اور ہر آن قطرہ قطرہ ختم ہوتی، اس زندگی میں یہ بڑا ہی سنہری موقع ہے کہ ہم لمحہ بھر رُک کر سوچیں کہ خدا کی اس کتاب سے ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اور ہمیں اس سے کیا معاملہ کرنا چاہیے تاکہ یہ اپنے اثرات دکھاسکے اور اس کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے کو نور سے بھردے۔
۱- اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اپنے اس سوئے ہوئے ایمان کو بیدار کیا جائے جو قرآن پر لایا تو ضرور گیا ہے، مگر اس کا یقین اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جذبے اور شوق سے عاری ہے۔ یاد رکھیے کہ یہ ایمان اس کے، خدا کی کتاب ہونے پر، اس کے مکمل طور پر محفوظ ہونے پر، اس کے ہرلفظ کے حق و صداقت ہونے پر، اس کے بتائے ہوئے طریقے کے درست اور مفید ہونے پر، اس کے بتائے ہوئے علاج کے اصل ضامنِ شفا ہونے پر ہے___ یہ ہے نقطۂ آغاز:
اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ o وَ مَآ اَنْتَ بِھٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِھِمْ ط اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَھُمْ مُّسْلِمُوْنَ o (النمل ۲۷:۸۰-۸۱) بے شک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہو۔ جب وہ اعتراض کرتے ہوئے منہ پھیر لیں، اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال سکتے ہو۔ تم تو صرف انھی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَo(البقرہ ۲:۱۲۱) اور جو لوگ اس کا انکار کریں گے، وہ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔
۲- پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دل قرآن حکیم کی عظمت اور بلندی، اس کے اعلیٰ اور برتر کلام ہونے کے احساس سے معمور ہو۔ یہ وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ شق ہو جاتے۔ اس پُرعظمت کلام کے مقابلے میں اپنی عاجزی کا احساس اور دل کا اس کے لیے موم ہوجانا بہت ضروری ہے:
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ (المائدہ ۵:۸۳) جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اُترا ہے، تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہوجاتی ہیں۔
یہ معرفت حق کا لازمی نتیجہ ہے۔
۳- قرآن سے رہنمائی اور رہبری کے لیے رجوع کرنا، اس کے بارے میں غفلت کی روش کو ترک کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ دیکھنا کہ کس طرح وہ ہماری زندگی کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے، اس کتاب کو مضبوطی سے تھامنا اور ہرمعاملے میں اس سے ہدایت حاصل کرنا__ یہی وہ طریقہ ہے جس سے اس کتاب کے اصل اسرار و رُموز ہم پر منکشف ہوسکیں گے:
فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِِلَیْکَ اِِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o وَاِِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ o (الزخرف ۴۳: ۴۳-۴۴) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھاری طرف وحی کیا گیا ہے، اس کو خوب مضبوط پکڑے رہو۔ یقین رکھو کہ تم سیدھے راستے پر ہو اور یہ (قرآن) تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یقینا ایک نصیحت نامہ ہے اور آگے چل کر تم سب سے اس کی بابت بازپُرس ہوگی۔
امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے بجا فرمایا ہے:
جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہم دم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔ یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا۔ (الموافقات، ج۳، ص۳۴۶)
۴- قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور اس طرح کیا جائے جو اس کا حق ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط (البقرہ ۲:۱۲۱) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔
اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ قرآن کی تلاوت کے ظاہری آداب پورے کیے جائیں، یعنی اسے پاک حالت میں چھوا جائے، ادب سے مطالعہ کیا جائے، ترتیل سے پڑھا جائے اور خوش الحانی سے پڑھا جائے وغیرہ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے معنی کو سمجھا جائے اور ان پر غوروفکر کیا جائے۔قرآن کے الفاظ پر سے یوں ہی نہ گزرجایا جائے، بلکہ اس کی گہرائیوں میں اُترنے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ یہی قرآن کا مطالبہ ہے:
کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo(یونس ۱۰:۲۴) غور کرنے والوں کے لیے ہم نے اس طرح آیات تفصیل سے بیان کی ہیں۔
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَo(الانبیا ۲۱:۱۰) لوگو، ہم نے تمھاری طرف کتاب اُتار دی ہے، جس میں تمھارا ذکر ہے، کیا تم غور نہیں کرتے۔
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (صٓ ۳۸:۲۹) اے پیغمبرؐ، یہ قرآن برکت والی کتاب ہے، جو ہم نے تمھاری طرف اُتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، وہ اس سے نصیحت پکڑیں۔
یہی صحابہ کرامؓ کا طریقہ تھاکہ وہ قرآنِ پاک کی آیات کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے تھے اور ان پر غوروفکرکرتے تھے۔
۵- قرآن پر عمل کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے فکروعمل کو بدلا جائے۔ قرآن پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہوسکتا، کہ قرآن کے احکام کے مطابق اپنے کو بدلنے کے بجاے اپنی بداعمالیوں کے لیے جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کو (نعوذباللہ) بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح یہ بھی قرآن کے حقوق کے منافی ہے کہ اس کے احکام کو تو پڑھا جائے، مگر دوسری جانب ان پر عمل نہ کیا جائے۔ قرآن نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے، کہ اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تعمیر کیا جائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق عمل کی سعی کی جائے۔ حضرت ابن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی شخص ہم میں سے ۱۰ آیتیں سیکھ لیتا تھا، تو اس سے زیادہ نہ پڑھتا تھا، جب تک ان کے معنی نہ سمجھ لیتا اور ان پر عمل نہ کرتا‘‘۔(ابن کثیر، جلداوّل، ص ۵)
۶- پھر قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کے سلسلے میں رہنما اور نمونہ اس مبارک ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننا، جس پر یہ کتاب نازل ہوئی:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء ۴:۸۰) جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے سرمو انحراف بھی قرآن سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔
قرآن کے نظام کو قائم کرنے کے لیے جدوجھد
اور آخری چیز یہ ہے کہ قرآن جس دعوت کو لے کر آیا ہے، اسے پھیلانے اور اس کے نظام کو قائم کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بہت سچ لکھا ہے کہ:
___ فہمِ قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا، جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے، جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے، کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رُموز حاصل کرلیے جائیں.... یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم برداران کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے، ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے، ایک ایک فتنہ ُجو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے کام شروع کر کے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال میں یہ کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی۔ اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اس نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔
___ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفر و دیں اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی منزل کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو، اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیں اور جس جس طرح یہ کتابِ ہدایت دیتی جائے، اس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گی جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ، حبشہ اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا۔ منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے اور سابقین اوّلین سے لے کر مولفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’سلوک‘ ہے جس کو میں ’سلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔
___ پھر اس کلیے کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین، آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے، جب تک وہ ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے، جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔(تفہیم القرآن، ج۱، مقدمہ،ص ۳۳-۳۴)
یہ ہیں قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں اور اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا ہو تو پھر قرآن انفرادی زندگی کا نقشہ بھی بدل دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کی شکل بھی تبدیل کرا دیتا ہے۔ انفرادی زندگی اس کی برکتوں سے بھرجاتی ہے اور اجتماعی زندگی نیکی اور خوشی کی بہار سے شادکام ہوتی ہے۔
قرآن پر ایمان اسی وقت مفید اور معنی خیز ہوسکتا ہے، جب ہم قرآن کے پیغام کو سمجھیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے اور اس کی ہدایت کے ذریعے اپنے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کریں۔ آج عالمِ اسلام جن مسائل اور مصائب سے دوچار ہے، ان سے نکلنے، ترقی اور عزت کی راہ پر پیش قدمی کرنے کا راستہ صرف یہی ہے اور صادق برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تلقین کی تھی:
رسولؐ اللہ: خبردار عنقریب ایک بڑا فتنہ سر اُٹھائے گا۔
حضرت علیؓ: اس سے نجات کیا چیز دلائے گی یارسولؐ اللہ!
__ اس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ہیں۔
__ تم سے بعد میں ہونے والی باتوں کی خبر ہے۔
__ اور تمھارے آپس کے معاملات کا فیصلہ ہے۔
__ اور یہ ایک دوٹوک بات ہے، کوئی ہنسی دل لگی کی بات نہیں۔
__ جو سرکش اسے چھوڑے گا، اللہ اس کی کمر کی ہڈی توڑ ڈالے گا۔
__ اور جو کوئی اسے چھوڑ کر کسی اور بات کو اپنی ہدایت کا ذریعہ بنائے گا، اللہ اسے گمراہ کردے گا۔
__ خدا کی مضبوط رسی یہی ہے۔
__ یہی حکمتوں سے بھری ہوئی یاد دہانی ہے۔
__ یہی بالکل سیدھی راہ ہے۔
__ اس کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں کرتیں۔
__ اور نہ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں۔
__ اہلِ علم کا دل اس سے کبھی نہیں بھرتا۔
__ اسے کتنا ہی پڑھو طبیعت سیر نہیں ہوتی۔
__ اس کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
__ جس نے اس کی سند پر کہا، سچ کہا۔
__ جس نے اس پر عمل کیا، اجر پائے گا۔
__ جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا، اس نے انصاف کیا۔
__ جس نے اس کی دعوت دی، اس نے سیدھی راہ کی دعوت دی۔(مشکوٰۃ)
یہی وہ سیدھی راہ ہے، جس کی طرف قرآن ہم سب کو دعوت دے رہا ہے!
۱۶ مئی کو قاہرہ کا ایک جج، صدر محمد مرسی سمیت ۱۲۴؍افراد کو سزاے موت سناچکا ،تو وکیل کی آواز آئی: جناب ان میں سے کئی افراد تو کئی سال پہلے وفات پاچکے ہیں۔جج نے جواب دیا: ’’تو مجھے کیا لگے‘‘ اور عدالت برخاست کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’ججوں کے تین گروہ ہوں گے۔ دو گروہ جہنم اور ایک جنت میں جائے گا۔ جس نے حق جان کر بھی باطل فیصلہ کیا یا باطل ہی کو حق قرار یا وہ جہنم میں اور حق کے مطابق فیصلے کرنے والا جنت میں جائے گا‘‘۔
ڈیڑھ سال کی نام نہاد عدالتی کارروائی کے بعد اس حیرت ناک فیصلے میں ۱۰۶؍ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ جنوری ۲۰۱۱ء میں مصری آمر حسنی مبارک کے خلاف جاری تحریک کے دوران انھوں نے ایک جیل پر حملہ کرکے قیدی رہا کروائے تھے، جب کہ ۱۸؍ افراد کو اس الزام میں سزاے موت سنائی گئی کہ انھوں نے فلسطینی تحریک حماس کے ساتھ خفیہ رابطے کرکے ملک کو نقصان پہنچایا۔ اس ’جرم‘ کی سزا پانے والوں میں معروف فلسطینی الصایغ شہیدحسام بھی شامل ہیں، جو حسنی مبارک کے خلاف تحریک سے تین سال پہلے ۲۰۰۸ء میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہوچکے ہیں۔ تیسیر ابو سمیہ بھی ہیں جو ۲۰۰۹ء میں صہیونی بمباری سے شہید ہوگئے تھے، رائد الطیار اور دوسرے دو فلسطینی مجاہد بھی ہیں جو ۲۰۱۴ء میں شہید ہوگئے تھے۔ ایک اور حیرت انگیز نام فلسطینی ہیرو حسن سلامہ کا ہے جو ۱۹ سال پہلے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف ایک کامیاب کارروائی کے دوران گرفتار ہوگئے اور صہیونی عدالت نے انھیں ۴۸بار عمر قید کی سزا سناائی۔ مصری عدالت نے ۱۹ سال سے اسرائیلی جیل میں قید اس مجاہد کو بھی ۲۰۱۱ئمیں مصر کی وادی النطرون نامی ’جیل توڑنے‘ کا مجرم قرار دے دیا۔
دیگر سزا یافتہ افراد میں حالیہ مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد مرسی بھی شامل ہیں، جنھیں چند ہفتے قبل ایک اور بے بنیاد مقدمے میں ۲۰ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔اخوان کے مرشد عام پروفیسر ڈاکٹر محمد بدیع بھی شامل ہیں، جنھیں اس سے قبل چار مقدمات میں سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان میں سے ایک فیصلے کے تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد انھیں ان قیدیوں کا سرخ لباس پہنادیا گیا ہے، جنھیں کسی بھی وقت پھانسی دی جاسکتی ہے۔ وہ اب یہی سرخ لباس پہنے، ہنستے مسکراتے عدالت آتے ہیں۔ مصر کی پہلی منتخب اسمبلی کے منتخب سپیکر پروفیسر ڈاکٹر سعد الکتاتنی بھی انھی سزا یافتہ افراد میں شامل ہیں۔ اخوان کے نائب مرشد عام انجینیر خیرت الشاطر اور ۱۶ سالہ شہید بیٹی اور نوجوان اسیر بیٹے کے والد، ملک کے معروف سرجن ڈاکٹر محمد البلتاجی سمیت ۱۲۴ بے گناہوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مثالی کردار رکھنے والی شخصیات پر مشتمل ہے۔ حافظ قرآن تو یہ سب ہی ہیں اور دن رات قرآن کے سایے میں گزارتے ہیں۔ سزاے موت پانے والوں میں ۱۹ سالہ صحافی سندس عاصم بھی شامل ہیں، جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ فوجی انقلاب کے وقت ایوان صدر کے میڈیا سیل میں ملازم تھیں۔ وہ اس وقت اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کررہی ہیں۔
سزاؤں کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر دنیا پر ثابت کردیا کہ جدید فرعون جنرل سیسی اپنے ہر مخالف کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ جیل توڑنے کا الزام اُمت مسلمہ کے عظیم اسکالر، ۱۵۰سے زائد شہرۂ آفاق دینی کتب کے مصنف ۸۹سالہ علامہ یوسف القرضاوی پر لگاتے ہوئے انھیں بھی سزاے موت سنادی گئی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نصف صدی سے زائد عرصہ ہوا قطر میں مقیم ہیں۔ المعہد الدینی اور مرکز براے دراسات سیرت و سنت کی تاسیس کرنے اور قطر یونی ورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد وہ اب اپنا زیادہ وقت علمی اور دعوتی سرگرمیوں میں گزارتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے انھوں نے ۱۱برس پہلے ایک انٹرنیشنل یونین براے مسلم اسکالرز بھی تشکیل دے رکھی ہے۔ دنیا بھر میں جس کے ہزاروں ارکان ہیں۔
ان تمام بزرگ اور عظیم ہستیوں پر جو من گھڑت الزام لگائے گئے ہیں، وہ اس قدر بے بنیاد ہیں کہ ان کا جواب دینا یا وضاحت کرنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔ لیکن یہاں اخوان کی امن پسندی اور احترام قانون کی عملی مثال سب کے سامنے رہنا چاہیے۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء کو سابق آمر حسنی مبارک کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، تو حکومت نے متعدد جیلوں میں خطرناک قیدیوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہوئے متعدد جیلوں سے فرار کروادیا۔ انھیں یہ ہدف دیا گیا کہ وہ حکومت مخالف مظاہروں میں جاکر غنڈا گردی کا ارتکاب کریں۔ وادی النطرون نامی جیل میں اس وقت ۱۱ہزار ایک سو۶۱ قیدی بند تھے، جن میں محمد مرسی سمیت اخوان کے کئی قائدین بھی شامل تھے۔ اچانک ایک سہ پہر جیل کی ساری انتظامیہ غائب ہوگئی۔ قیدیوں کے جو اہل خانہ اپنے عزیزوں سے ملاقات کرنے آئے ہوئے تھے، وہ بھی جیل کے دروازے کھول کر اپنے رشتہ دار رہا کرواکے لے گئے۔اخوان کی قیادت اس موقعے پر بھی سب سے مختلف نظر آئی۔قیدیوں او ران کے اہل خانہ کی یلغار اور جیل ٹوٹ جانے کے باوجود انھوں نے وہاں سے فرار ہونے سے انکار کردیا۔ وہ اور ان کے اہل خانہ خود وزارت داخلہ اور جیل انتظامیہ کو تلاش کرتے رہے۔ جب ان میں سے کوئی نہ ملا تو ڈاکٹر مرسی نے الجزیرہ سمیت مختلف ٹی وی چینلوں کو فون کرکے بتایا کہ: ’’جیل کی ساری انتظامیہ غائب اور سارے قیدی جاچکے ہیں۔ ہم اس وقت جیل کے باہر کھڑے ہیں اور بغیر قانونی کارروائی کے یہاں سے جانا نہیں چاہتے‘‘۔کئی ٹی وی چینلوں نے وہاں پہنچ کر اس کی فوٹیج بھی بنائی۔ کئی گھنٹے تک جب کوئی نہ آیا تو بالآخر وہ اور ان کے ساتھی بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہی قیدی محمد مرسی ملک کے پہلے منتخب صدر بن گئے۔ ایوانِ صدارت میں ایک روز ان کے سامنے ۸۵۰صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ وادی النطرون جیل سے فرار کی واقعے کی پیش کی گئی۔ صدر محمد مرسی نے رپورٹ کا ایک بھی صفحہ پڑھے بغیر پوری فائل متعلقہ تحقیقاتی اداروں کو اس نوٹ کے ساتھ بھجوادی کہ اس کی مبنی برحقیقت، شفاف اور مکمل تحقیق کی جائے۔
ایک جانب تو اخوان کے ان رہنماؤں کی اتنی احتیاط اور قانون کی پاس داری لیکن دوسری طرف آج فرعون بنے حکمرانوں کی ذہنیت ملاحظہ ہو کہ انھیں ۱۱ہزار ایک سو۶۱ قیدیوں میں سے صرف اخوان کی قیادت ہی ملی کہ جن پر مقدمہ چلاکر سزاے موت کا حق دار قرار دیا گیا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی ۳۰ جولائی ۲۰۱۳ء کو صدر مرسی کے خلاف خونی انقلاب لانے کے بعد بلامبالغہ ہزاروں بے گناہ شہریوں کو ماوراے عدالت قتل کرچکا ہے۔ نام نہاد عدالتوں کے ذریعے بھی سیکڑوں افراد کو چند منٹ کی کارروائی کے بعد سزاے موت سنائی گئی ہے۔ گذشتہ تقریباً دوسال میں اب تک ان نام نہاد عدالتوں کے ذریعے ۱۷۰۷ بے گناہ شہری سزاے موت کا عدالتی ’اعزاز‘ پاچکے ہیں۔ اس وقت مصر کے حالات حسنی مبارک کے تاریک دور سے بھی بدتر ہوچکے ہیں۔
وہ درجنوں دانش ور، صحافی اور سیاسی و دینی رہنما، جو اخوان دشمنی میں کبھی سیسی کی مدح سرائی کے لیے بے تاب رہتے تھے، اب خود بھی اس کے مظالم کا شکار ہیں۔عبد الفتاح السیسی نے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹتے ہوئے اس وقت ملک میں جتنے بھی بحران گنوائے، بلکہ خود پیدا کیے تھے، اب وہ سب بحران پہلے سے کہیں سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔
منتخب حکومت پر قبضہ کرتے ہوئے جنرل سیسی کو سب سے بڑا سہارا امریکا، اسرائیل اور یورپی یونین کی پشتیبانی اور بعض عرب ریاستوں کی طرف سے خطیر مالی تعاون کی صورت میں ملاتھا۔ اب امریکا و یورپی یونین ہی نہیں خود خلیجی ریاستوں کی طرف سے بھی سیسی انتظامیہ کے بارے میں گہرے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس سیاہ واقعے سے لے کر گذشتہ مارچ تک سیسی انتظامیہ کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کی طرف سے ۵ئ۳۹؍ ارب ڈالر کی نقد امداد دی گئی ہے۔ اس مادی مدد کا ایک ہی ہدف تھا کہ عوام کی معاشی حالت بہتر بناتے ہوئے، انھیں اخوان کے بجاے سیسی حکومت کا حامی و ہمدرد بنایا جائے۔ اگر اس نقد امداد کے ساتھ تیل اور گیس وغیرہ کی مدد بھی شامل کی جائے تو کل امداد ۵۰؍ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ لیکن ساری دنیا گواہ ہے کہ حالات بہتر نہیں بدتر، بلکہ بدترین ہورہے ہیں۔ اس امر کے بھی واضح ثبوت ملے ہیں کہ اس مالی امداد کا بڑا حصہ ملکی خزانے کے بجاے، حکمرانوں کی ذاتی تجوریوں میں پہنچ گیا ہے۔ اس بڑی امداد کے راز کاانکشاف بھی خود جنرل سیسی کی اپنے قریبی جرنیلوں کے ساتھ گفتگو کی خفیہ ٹیپ کے ذریعے ہوا ہے، جس میں جنرل سیسی ان خلیجی ریاستوں سے ملنے والی امداد کا ذکر کرتے ہوئے شکر گزار ہونے کے بجاے ان کا شکوہ اور ان کی بدخوئی کرتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: ’’ان حکمرانوں کے پاس ڈالروں اور ریالوں کے انبار ایسے لگے ہوئے ہیں، جیسے کسی گودام میں چاولوں کے انبار لگے ہوتے ہیں۔ انھیں کہو کہ ہمیں اتنے ارب ڈالر کی فوری امداد مزید دیں، وگرنہ وہ خود ذمہ دار ہوں گے‘‘۔ یہ خفیہ ٹیپ سامنے آنے اور عالمی اداروں سے اس کی تحقیق ہوجانے کے بعد کہ وہ واقعی جنرل سیسی ہی کی آواز تھی، خلیجی عوام میں سیسی کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا ہے۔
احسان فراموشی کا عالم دیکھیے کہ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبد اللہ کی وفات کے بعد، جنرل سیسی کے بارے نئے سعودی حاکم شاہ سلمان کی پالیسی میں کچھ گرم جوشی کم ہوئی تو سیسی نے اپنے سفاک ابلاغیاتی کارندے اور ادارے شاہ سلمان پر تنقید کے لیے آزادکردیے۔ اب ایک طرف وہ سعودی عرب سے امداد بٹورنا چاہتا ہے، یمن میں سعودی حملے کا حصہ بھی(بظاہر) بنا ہوا، اور اپنے میڈیا کے ذریعے شاہ سلمان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا بھی کر رہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آنے والا وقت سعودی عرب کو جنرل سیسی کا واضح مخالف اور ترکی اور قطر کا عملی حلیف بنادے۔
’فرعون مصر‘ اور اس کے ساتھیوں کی رعونت ملاحظہ ہو کہ چند ہفتے قبل ایک محنتی لیکن غریب خاکروب کا بیٹا، مقابلے کے امتحان میںکامیاب ہوکر جج کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ سیسی کے وزیر انصاف محفوظ صابر نے اسے اس عہدے تک پہنچنے سے روکتے ہوئے بیان دیا: ’’اب ہم اپنی ججوں کی اتنی توہین کریں کہ ایک خاکروب کا بیٹا بھی جج بنالیں؟ میں کسی صورت ایسا نہیں ہونے دوں گا‘‘۔یہ بیان جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر بلکہ پورے عالم عرب میں پھیل گیا اور وزیر انصاف کو مجبوراً مستعفی ہونا پڑا۔ جنرل سیسی نے اس کی جگہ حسنی مبارک کے زمانے کے ایک بدنام زمانہ جج احمد الزند کو وزیر انصاف بنادیا۔ صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور اقتدارمیں اس شخص نے عدلیہ کے محاذ پر انھیں سب سے زیادہ تنگ کیا تھا۔ حالانکہ اس کے خلاف مالی بدعنوانی کے درجنوں مقدمات اس وقت بھی عدالتوں میں ہیں، جن میںایک مقدمے کے مطابق اس نے سرکاری خزانے کے ۲۰ملین پاؤنڈچرائے تھے۔ یہ وہی جج ہے، جس نے ایک بار مصری عوام کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا: نحن السادۃ و غیرنا عبید ’’ہاں ہم آقا اور باقی لوگ ہمارے غلام ہیں‘‘۔
اس وقت یہ سوال اہم ہے کہ کیا صدر محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں کو دی جانے والی سزا پر عمل درآمد کیا جاسکے گا؟ غیب کا علم اللہ کو ہے، لیکن اس سوال کا ایک جواب ان سزاؤں کا اعلان ہونے پر عالمی ردعمل کے آئینے میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی انصاف پسند شہری ایسا ہو کہ جس نے اس فیصلے پر سیسی اور اس کی عدالتوں کی ملامت و مذمت نہ کی ہو۔ مغربی ممالک اور عالمی صحافت کو بھی اس ملامت میں شامل ہونا پڑا ہے۔تاہم، ایک اسرائیلی اخبار نے اس سزا پر عمل درآمد کی مخالفت کرتے ہوئے تاویل کی: ’’مرسی کو پھانسی نہیںدینا چاہیے وگرنہ وہ مصری قوم کے بجاے ساری دنیا کے مسلمانوں کا ہیرو بن جائے گا۔ اس سے پہلے ۱۹۶۶ء میں سید قطب کو پھانسی دی گئی تھی اور وہ بھی آج تک بہت سے لوگوں کا ہیرو ہے اور اس کی فکر و فلسفہ عام ہورہا ہے‘‘۔ لیکن ایک دوسرے اسرائیلی اخبار نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ’’مرسی اور اس کے ساتھیوں کی سزا نافذ کردینا چاہیے‘‘۔
جنرل سیسی کے بیرونی آقاؤں کی ہدایات کچھ بھی ہوں، یہ حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہے کہ جنرل سیسی اور اس کے ساتھیوں کا انجام مصر کے سابق فرعونوں کی طرح عبرت ناک ہوگا۔ دوسال سے ظلم کے پہاڑ توڑے جانے کے باوجود مصری عوام کی تحریک ایک دن کے لیے بھی نہیں رکی۔ ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کے بقول: ’’صدر محمد مرسی کے خلاف سزاے موت کا فیصلہ سنانے والے بہت جلد تاریخ کے کوڑے کے ڈھیر پر دکھائی دیں گے‘‘۔ ترکی اب سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک کو ساتھ لے کر ان مظالم کے خلاف عالمی جدوجہد کررہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں، دنیا کے باضمیر شہری اور مسلم حکومتیں اس ضمن میں اپنا کردار مسلسل ادا کرتی رہیں۔ خصوصاً اس پس منظر میں کہ اس سیاہ فیصلے کے تین روز بعد امریکی کانگریس کی اُمورِخارجہ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس نے اس انسانیت کش فیصلے سے ’صرفِ نظر‘ کرنے اور خطے میں ’اپنے اہداف‘ کو مقدم رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
مصر اپنے فرعونوں کے لیے جہنم کب بنے گا؟ اس کا علم تو صرف پروردگار کو ہے، لیکن علامہ یوسف القرضاوی نے اپنی پھانسی کا حکم سن کر قرآن کا فرمان دہرایا ہے:قُلْ ھَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ وَ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یُّصِیْبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْ بِاَیْدِیْنَا فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَo(التوبہ ۹:۵۲)’’ان سے کہو ’’تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو، وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمھارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزادیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمھارے ساتھ منتظر ہیں!‘‘
ماہِ رمضان ایک معزز مہمان ہے۔ کیا ہی اچھا مہمان ہے! یہ معزز مہمان بھی ہے اور محترم و مکرم ملاقاتی بھی۔ جو ایک سال کے طویل وقفے کے بعد ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ یہ ایک شوقِ عظیم ہے جس کی طرف دل لپکتے ہیں۔ گناہ گار اس کے منتظر رہتے ہیں تاکہ اس کے بابرکت لمحات میں گناہوں سے تائب ہوجائیں۔ عبادت گزار اور طاعت شعار لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اپنی عبادت و اطاعت میں اضافہ کرسکیں۔ اس ماہِ مبارک میں___ دن کو صیام، رات کو قیام، شب و روز کے اوقات میں اعمالِ صالحات، آلودہ نفوس کا تزکیہ، زنگ آلود قلوب کا تصفیہ، شرحِ صدر اور اصلاحِ احوال، رحمت رب کا حصول، مغفرتِ رب کا نزول، جہنم سے آزادی، آتشِ دوزخ سے نجات، رب کی خوشنودی و رضامندی اور اعمالِ صالح کی قبولیت و مطلوبیت کے قابلِ رشک لمحات اُمت مسلمہ کو سال بھر کے وقفے سے میسر آجانا رب کی بے پایاں رحمت کا کرشمہ ہے!
یہ سنہری لمحات ہر صاحب ِ ایمان کے لیے اپنی محرومیوں کو دُور کرنے، کمیوں کو پورا کرنے، رب سے لَو لگانے، شیطان سے جان چھڑانے اور کامیاب کلمہ گو بننے اور کہلانے کا عظیم اور بے نظیر موقع ہے۔ اس عظیم فرصت کو اپنے لیے غنیمت کا موقع بنانا ہر مسلمان کے اپنے اختیار میں ہے۔ مومن کو اس مہینے میں اپنے ساتھ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، اپنے احباب و اقارب، اور محلہ و بستی کے ساتھ، اپنی قوم و ملّت کے ساتھ اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق و مالک کے ساتھ اخلاص و خلوص، وفاداری ووفاشعاری اور نصیحت و خیرخواہی کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے۔ اس ماہِ عظیم کو دیگر مہینوں کے معمولات کی طرح گزار دینا بہت بڑی اور ناقابلِ تلافی محرومی ہے۔ معلوم نہیں یہ اوقاتِ مبارک، یہ لمحاتِ بابرکت، یہ نیکیوں کا موسم بہار، یہ رب کی عطائوں، عنایتوں، مہربانیوں، بخششوں اور نعمتوں، ثروتوں کا بے مثل مہینہ اگلے برس کسے نصیب ہوتا ہے! لہٰذا مومنانہ فراست کا تقاضا یہ ہے کہ اس ماہِ عظیم کو اپنی زندگی سنوارنے اور کامیاب و کامران بنانے کا آخری موقع تصور کیا جائے۔
نیت خالص اور درست کرلی جائے کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے اچھے اور نیک کام بھی حسنِ نیت سے اجر کے اعتبار سے پہاڑ بن جاتے ہیں مگر پہاڑ جیسے اچھے کام نیت کی خرابی سے رائیگاں چلے جاتے ہیں۔ وقت کا ضیاع اس مہینے میں مومن کے لیے بہت بڑے نقصان کا سبب ہے اور اس کا درست اور بھرپور استعمال اجرعظیم اور فلاحِ کبیرکا ضامن ہے۔ بہت سی حلال، مباح اور جائز مصروفیات میں وقت گزاری کے بجاے نگاہ ارفع اور اعلیٰ اعمالِ صالح پر رکھی جائے۔
یہ موقع خوش نما لباس خریدنے، بنانے اور افطاری میں انواع و اقسام کے دسترخوان سجانے کا نہیں۔ یہ سامانِ افطاری کی مہنگے نرخوں پر فراہمی کے ذریعے چندروپے کمالینے کو غنیمت سمجھنے کا موقع نہیں۔یہ اپنی قسمت بدلنے، رجحانات کو تبدیل کرنے، روشِ زندگی کو بامقصد بنانے، دنیوی امتحان گاہ میں شرکت کے موقع کو آخری سمجھ کر کامیابی کے لیے پورا زور صرف کرنے کا موقع ہے۔ خطرات و خدشات میں گھرے اِس موقع سے بحفاظت و سلامتی باہر نکل آنے کے لیے بھرپور قسم کی منصوبہ بندی چاہیے۔ ایسی منصوبہ بندی ماہِ رمضان کے ۳۰روز و شب تک محدود نہ ہو بلکہ زندگی کے لیے نفس و کردار کی دائمی تبدیلی کا مستقل عنوان بن جائے۔
رمضان کے مقاصد و مطالب کے حصول کے لیے رمضان میں ذاتی معمول بنالینا مفید ہوتا ہے۔ منتشر اُمور و معاملات کو سمیٹنا اور مجتمع کرنا لمحاتِ سعادت سے حقیقی طور پر مستفید ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ زندگی بھر انسان ترقی و کامیابی کے بے شمار خواب دیکھتا اور ان کی تعبیر پانے میں کوشاں رہتا ہے۔ صاحب ِ فراست مومن کے لیے لازمی ہے کہ وہ بھی ایک خواب دیکھے، سہانا خواب، کامیابی و کامرانی کا خواب، ترقی و خوش حالی کا خواب___ یعنی جنت کا خواب! ہم بہت سی عبادات، اعمالِ طاعات اور کارہاے صالحات انجام دیے جارہے ہوتے ہیں مگر پیش نظر کوئی مقصد اور نصب العین نہیں ہوتا، کوئی ہدف اور منزل نہیں ہوتی۔ اگر کسی بڑے خواب کی تعبیر پانے کی غرض سے یہ جدوجہد کی جائے تو وہ خواب جنت ہی ہوسکتی ہے۔ حصولِ جنت سے بڑھ کر منزل کیا ہوسکتی ہے۔ رب کی خوشنودی سے بڑی کامیابی کیا ہوسکتی ہے۔ قربِ خداوندی سے بڑا مرتبہ کیا ہوسکتا ہے، جنت کے خواب سے اعلیٰ اور برتر خواب کیا ہوسکتا ہے۔ جنت کا حصول، رب کی رضاجوئی سے ممکن ہے اور رب کی رضا کا حصول سزاوار جنت ہونے کا نام ہے۔ کاش! ہم دنیاوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے خوابوں سے نکل کر حصولِ جنت اور خوشنودیِ رب کا عظیم خواب دیکھیں۔ پھر اس کی تعبیر کو ممکن بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہوجائیں۔ تمام چھوٹے اور عارضی اساس رکھنے والے خوابوں پر اسی عظیم اور دائمی خواب کو ترجیح اور اوّلیت دیں تاکہ اپنی منزل اور ہدف کو پالیں۔
خسارے کی صورت حال سے دوچار کاروبار سے نکلنے کے لیے جہاں چند نئے اُمور ناگزیر اور لازمی ہوتے ہیں وہیں ماضی کی کوتاہیوں سے نہ صرف دستکش ہونا ضروری ہوتا ہے، بلکہ ان کوتاہیوں سے پیدا ہونے والی محرومیوں کا ازالہ کرنا بھی ناگزیر ٹھیرتا ہے۔ رمضان مومن و مسلم کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور محرومیوں کا ازالہ بھرپور طریقے سے کرسکے۔ اس نئی زندگی کی کامیابی کا انحصار ماضی کی تلافیِ مافات پر ہے۔ لہٰذا انسانی معاشرے کے بشری معاملات میں خطائوں، لغزشوں اور کمیوں کوتاہیوں کو اپنے اعمال نامے کے بدنما داغ کے طور پر قبول کیے رکھنا، یا اُن پر کسی بے چینی اور اضطراب کا احساس نہ ہونا زندہ دل اور زندہ ضمیر کی علامت نہیں۔ یہ موقع ہے کہ دلوں کے بند دریچوں کو وَا کرلیا جائے۔ اپنے اور دوسروں کے درمیان بند دروازوں کو کھول دیا جائے۔ دوسروں کے بارے میں اپنے دل کو صاف و شفاف کرلیا جائے۔ اُن کے لیے دل میں محبت و مودت اور خیروفلاح کے جذبات پیدا کیے جائیں۔ عفو و درگزر اور رواداری و برداشت اور تحمل و تسامح کا رویہ اپنا لیا جائے۔ اس عمل کی انجام دہی کے دوران قرآن کی یہ آیت ہمیشہ مدنظر رہے:
وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳-۱۳۴) دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔
رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا عشرہ ہے۔ رب سے اُس کی رحمت کا سوال کیا جائے۔ لہٰذا پہلے خود اس رحمت کو دوسروں کے لیے عام کیا جائے۔ کیوںکہ جو انسانوں پر رحیم نہیں ہوگا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں فرمائے گا۔ رب کے درِ رحمت پر دستک دینے سے قبل اپنی نرمی و ملائمت اور رحم دلی کے دروازے پر دستک دی جائے۔دُور و نزدیک، عزیز و عامی ہر کسی کے ساتھ رحم کا معاملہ روا رکھا جائے۔ صلہ رحمی کرکے اللہ کی رحمت کا مستحق بنا جائے۔ خیر اور بھلائی صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کا حق دار سمجھا جائے۔ حسد و بُغض اور کینہ و کدورت کو دلوں سے نکال باہر کیا جائے۔ دل کے اندر جو بھی سیاہی موجود ہے اس کو ایمان کے پانی سے دھو ڈالا جائے۔ اس میں تاریکی طاری رکھنے کے بجاے اُسے روشن اور چمک دار بنا دیا جائے اور اسے بلند و برتر اور اعلیٰ و ارفع خیالات کی آماج گاہ بنایا جائے۔ اسے قلب ِ سلیم کا مطلوب اور قابلِ رشک روپ دے لیا جائے۔ وہ قلب جو قیامت کے دن اہلِ دل کو نفع دے گا۔
رمضان میں رب کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ خود اپنے نفس کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کیا جائے۔ اپنے غموں اور پریشانیوں، مصروفیتوں اور مشغولیتوں سے توکل علی اللہ کے سہارے باہر نکل آیئے۔ کیوںکہ وہی واحد ذات ہے جو کاشف الغم اور مفرج الہم ہے۔ جو اُس پر توکل کرے وہ کبھی نقصان میں نہیں رہتا۔ انسان کو ازخود اپنے اُوپر عائد کردہ پابندیوں اور ازخود پہنی ہوئی بیڑیوں سے خود کو آزاد کرنا چاہیے۔ اپنے آپ کو اَلم و حزن کی قید سے چھڑا لینا چاہیے۔ ان تمام چیزوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔یہ حبیب ِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع ہے۔ آپؐ دعا کیا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الھَمِّ وَالْحُزْنِ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبُنِ وَالْبُخْلِ ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدِّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَالِ
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکروغم سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں ناتوانی و سُستی سے اور بچائو چاہتا ہوں تیرے ذریعے بُخل اور بزدلی سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں قرض کے غلبے اور لوگوں کے سخت دبائو سے۔
اصلاحِ حال اور تزکیۂ نفس کا عمل اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک انسان دوسروں کو ایذارسانی کی ذہنیت سے کامل طور پر دست بردار نہ ہوجائے، لہٰذا کسی انسان کو تکلیف دینے، ایذاپہنچانے، اُس کا حق مارنے، اُس پر ظلم کرنے اور زیادتی کرنے کا تو ایک مومن سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہاں تو اُن لوگوں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک اور عفو و درگزر کی تعلیم ہے جو انسان کو دُکھ دے چکے ہوں، اُس کا حق کھا چکے ہوں، اُس پر ظلم ڈھا چکے ہوں۔ مومن اُن کے غلط اعمال کو اپنے نیک اعمال کے لیے رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ مومن کا رویۂ احسان اُن کے لیے بھی عام ہوتا ہے جو اُس کی جان کے دشمن ہوں۔ ماہِ رمضان موقع ہے ایسے لوگوں کے دلوں میں اُتر جانے کا، اُن کے نظریۂ زندگی کو بدل ڈالنے کا، اپنی پارسائی اور فطری شرافت کو اُن پر واضح کر نے کا، اُن کا دل بدل ڈالنے اور روشِ زندگی کا رُخ موڑ دینے کا!
دلوں میں کدورت، حسد اور بُغض پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب غیبت اور چغلی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ محفلوں اور مجلسوں کا مرغوب پھل بن گیا ہے۔ لوگ اپنی نشست و برخاست اور میل ملاقاتوں کے مواقع پر یہ پھل کھائے بغیر رہ نہیں سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان معلوم رہنا چاہیے کہ:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ o (الحجرات ۴۹:۱۲) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
غیبت سے بچنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم روزہ تو حلال رزق کھاکر رکھیں مگر افطار غیبت جیسی حرام چیز سے کرلیں۔
رمضان جہاں دوسروں کو معاف کردینے، درگزر سے کام لینے اور عفو و تسامح اختیار کرنے کا بہترین موقع ہے وہیں دوسروں سے اپنی کوتاہیوں اور خطائوں کی معافی مانگ لینے کا بھی سنہری موقع ہے۔ اپنے بُرے اعمال کا اعتراف اور اُن پر رب اور رب کے بندوں سے اعتذار کرلینا مومن کے ان اوصاف میں سے عظیم وصف ہے جنھیں قرآن نے بیان کیا ہے۔ یہ موقع ہے کہ قیامت کے روز دنیا کے ظلم کو ظلمات بننے سے روک لیا جائے۔ اپنی نیکیوں کو دوسروں کے نامۂ اعمال کی زینت بننے اور اُن کے ترازو کا وزن بننے کے بجاے اپنے ہی ترازو کے لیے محفوظ رکھا جائے۔ دوسروں کے گناہوں کو اپنے نامۂ اعمال کا ثقل مزید بننے نہ دیا جائے۔ لہٰذا موقع ضائع کیے بغیر متاثرین سے معافی مانگی جائے۔ زبانی کلامی اور تحریری و قلمی جس طریقے سے بھی ممکن ہو اُن سے اپنے قصور کی بخشش کا سوال کیا جائے۔ دوسروں سے انسان کا اعترافِ حق تلفی اِس کی اپنی عظمت و فضیلت اور دوسروں کے لیے درسِ حکمت ہے۔ اُن کے دل اِس عمل سے شاداں و فرحاں ہوجائیں گے اور معافی کا خواستگار اُن کی آنکھوں میں بہت بڑا بہادر اور انصاف پسندٹھہرے گا۔ حق تلفی کے مجرم کو فوراً ان سے معذرت کرلینا نہایت ضروری ہے، خصوصاً اُن لوگوں سے اپنے ظلم و ناانصافی کی معافی لینا اشد ضروری ہے جن کے اُوپر کیے گئے ظلم و ستم اور حق تلفی نے انسان کی نیند اُڑا کر رکھ دی ہو۔ راتوں کا چین غارت کر دیا ہو، ہر کروٹ کے ساتھ یہ احساس بیدار رہتا ہو، رات آنکھوں میں گزر جاتی ہو، رات بھر ضمیر ملامت کرتا اور جھنجھوڑتا رہتا ہو کہ اے انسان تو نے اِن مظلوموں کے ساتھ کیا کیا تھا؟
رمضان ماضی کے غم میں مبتلا رہنے اور ماضی کی ناکامیوں کے احساس میں اپنے آپ کو گھلانے کے بجاے مستقبل پر نظر رکھنے اور اُس کی تیاری اور منصوبہ بندی کرنے کا سبق دیتا ہے۔ ہمت اور حوصلے کو چار نہیںدس چاند لگا دیتا ہے۔ ناکامی کی جگہ کامرانی کا احساس پیدا اور نمایاں کرتا ہے۔ دل و ضمیر کو اُمید و رجا سے بھرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ حسرت و ندامت کے بجاے عزم و ہمت اور ارادہ و نیت کو عمل میں لانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ظالموں اور حق تلف کرنے والوں کو چھوڑ دینے، نظرانداز کرنے، اور اُن کے لیے ہدایت کی دُعا کرنے کا وقت ہے۔ اگر وہ راہِ راست پر نہیں آتے تو جان رکھو کہ اللہ حاکمِ عدل ہے وہ ایک روز اُن کے ظلم وستم کا حساب لے کر رہے گا۔
رمضان وہ فرصت اور موقع ہے جس میں بُرائی سے دُوری اور بھلائی سے دوستی میں نجات ہے۔ ہر مومن کو قرآنِ مجید کی ان دو آیتوں کی روشنی میں اپنا روزانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ط ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ط ھُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ o (الحج ۲۲: ۷۷،۷۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، اِسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیساکہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہوجائو اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملّت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا۔ اور اِس (قرآن) میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہوجائو۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔
(المجمتع: عدد ۲۰۱۱، ۲۰۱۳)
روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہوجائے اور وہ ایسا مطیعِ امر ہوکر یہ ساعتیں گزارے کہ ہراس چیز سے رُکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہر اس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا....
اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام ان افعال کا ارتکاب کیے چلا گیا جنھیں خدا نے حرام کیا ہے تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مُردہ لاش، کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے، مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا، اسی طرح اس بے روح روزے کو بھی کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔ یہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ: ’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے‘‘۔(بخاری)
جھوٹ بولنے کے ساتھ ’جھوٹ پر عمل کرنے‘ کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے یہ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ لفظ تمام نافرمانیوں کا جامع ہے۔ جو شخص خدا کو خدا کہتا ہے اور پھر اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ حقیقت میں خود اپنے اقرار کی تکذیب کرتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد تو عمل سے اقرار کی تصدیق ہی کرنا تھا، مگر جب وہ روزے کے دوران میں اس کی تکذیب کرتا رہا تو پھر روزے میں بھوک پیاس کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ حالاںکہ خدا کو اس کے خلوے معدہ کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اسی بات کو دوسرے انداز میں حضوؐر نے اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔(دارمی)....
انسان کو خدمت گار اور آلۂ کار کی حیثیت سے جو بہترین ساخت کا حیوان (جسم) دیا گیا ہے اس کے بنیادی مطالبات تین ہیں، اور چوںکہ وہ تمام حیوانات سے اُونچی قسم کا حیوان ہے اس کے مطالبات بھی ان سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ صرف زندہ رہنے کے لیے غذا ہی نہیں مانگتا، بلکہ اچھی غذا مانگتا ہے۔ طرح طرح کی مزے دار غذائیں مانگتا ہے، غذائی مواد کی ترکیبوں کا مطالبہ کرتا ہے، اور اس کے اس مطالبے میں سے اتنی شاخیں نکلتی چلی جاتی ہیں کہ اسے پورا کرنے کے لیے ایک دنیا درکار ہوتی ہے۔ وہ صرف بقاے نوع کے لیے صنف ِ مقابل سے اتصال ہی کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ اس مطالبے میں ہزار نزاکتیں اور ہزار باریکیاں پیدا کرتا ہے، تنوع چاہتا ہے، حُسن چاہتا ہے، آرایش کے بے شمار سامان چاہتا ہے، طرب انگیز سماں اور لذت انگیز ماحول چاہتا ہے، غرض اس سلسلے میں بھی اس کے مطالبات اتنی شاخیں نکالتے ہیں کہ کہیں جاکر ان کا سلسلہ رُکتا ہی نہیں۔ اسی طرح اس کی آرام طلبی بھی عام حیوانات کے مثل صرف کھوئی ہوئی قوتوں کو بحال کرنے کی حد تک نہیں رہتی، بلکہ وہ بھی بے شمار شاخیں نکالتی ہے جن کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا....
اس طرح ان تین ابتدائی خواہشوں سے خواہشات کا ایک لامتناہی جال بن جاتا ہے جو انسان کی پوری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لینا چاہتا ہے۔ پس دراصل انسان کے اس خادم، اس منہ زور حیوان کے پاس یہی تین ہتھیار وہ سب سے بڑے ہتھیار ہیں جن کی طاقت سے وہ انسان کا خادم بننے کے بجاے خود انسان کو اپنا خادم بنانے کی کوشش کرتا ہے، اور ہمیشہ زور لگاتا رہتا ہے کہ اس کے اور انسان کے تعلق کی نوعیت صحیح فطری نوعیت کے برعکس ہوجائے۔ یعنی بجاے اس کے کہ انسان اس پر سوار ہو، اُلٹا وہ انسان پر سوار ہوکر اسے اپنی خواہشات کے مطابق کھینچے کھینچے پھرے.... اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حیوان، شرالدواب___ تمام حیوانات سے بدتر قسم کا حیوان___ بن کر رہ جاتا ہے۔
بھلا جس حیوان کوا پنی خواہشات پوری کرنے کے لیے انسان جیسا خادم مل جائے اس کے شر کی بھی کوئی حد ہوسکتی ہے۔ جس بیل کی بھوک کو بحری بیڑا بنانے کی قابلیت میسر آجائے، زمین کی کس چراگاہ میں اتنا بل بوتا ہوتا ہے کہ اس کے معاشی مفاد کی لپیٹ میں آجانے سے بچ جائے؟ جس کتے کی حرص کو ٹینک اور ہوائی جہاز بنانے کی قوت مل جائے، کس بوٹی اور کس ہڈی کا یارا ہے کہ اس کی کچلیوں کی گرفت میں آنے سے انکار کردے؟ جس بھیڑیے کو اپنے جنگل کے بھیڑیوں کی قومیت بنانے کا سلیقہ ہو اور جو پریس اور پروپیگنڈے سے لے کر لمبی مار کی توپوں تک سے کام لے سکتا ہو، زمین میں کہاں اتنی گنجایش ہے کہ اس کے لیے کافی شکار فراہم کرسکے؟ جس بکرے کی شہوت، ناول، ڈراما، تصویر، موسیقی، ایکٹنگ اور حُسن افزائی کے وسائل ایجاد کرسکتی ہو، جس میں بکریوں کی تربیت کے لیے کالج، کلب اور قلمستان تک پیدا کرنے کی لیاقت ہو، اس کی دادعیش کے لیے کون حدوانتہا مقرر کرنے کا ذمہ لے سکتا ہے؟
ان پستیوں میں گرنے سے انسان کو بچانے کے لیے.... ضروری ہے کہ اس حیوان کے ساتھ اس کے تعلق کی جو فطری نوعیت ہے، اس کو عملاً قائم کیا جائے اور مشق و تمرین کے ذریعے سے سوار کو اتنا چُست کردیا جائے کہ وہ اپنی سواری پر جم کر بیٹھے اور ارادے کی باگیں مضبوطی کے ساتھ تھامے، اور اس پر اتنا قابو یافتہ ہو کہ اس کی خواہشات کے پیچھے خود نہ چلے بلکہ اپنے ارادے کے مطابق اسے سیدھا سیدھا چلائے.... جتنی چیزیں خدا نے اس دنیا میں ہمارے لیے مسخر کی ہیں، ان میں سب سے زیادہ کارآمد چیز یہی حیوانی جسم ہے.... لیکن بہرحال یہ ہماری اور ہمارے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے ہے نہ کہ ہم اس کی اور اس کے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے۔ اس کو ہمارے ارادے کا تابع ہوناچاہیے، نہ کہ ہمیں اس کی خواہشات کا تابع۔ اس کا یہ مرتبہ نہیں ہے کہ ایک فرماں روا کی طرح اپنی خواہشات ہم سے پوری کرائے بلکہ اس کا صحیح مرتبہ یہ ہے کہ ایک غلام کی طرح ہمارے سامنے اپنی خواہشات پیش کرے.... روزے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد انسان کو اس کے حیوانی جسم پر یہی اقتدار بخشنا ہے....
ایک ذرا سی حکیمانہ تدبیر نے روزے کو انفرادی عمل کے بجاے اجتماعی عمل بنا کر اس کے فوائد و منافع کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تدبیر بس اتنی سی ہے کہ روزے رکھنے کے لیے ایک خاص مہینا مقرر کردیا گیا....
اس حکیمانہ تدبیر سے ایک خاص قسم کی نفسیاتی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک شخص انفرادی طور پر کسی ذہنی کیفیت کے تحت کوئی کام کر رہا ہو، اور اس کے گردوپیش دوسرے لوگوں میں نہ وہ ذہنی کیفیت ہو اور نہ وہ اس کام میں اس کے شریک ہوں، تو وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں بالکل اجنبی پائے گا۔ اس کی کیفیت ذہنی صرف اسی کی ذات تک محدود اور صرف اسی کی نفسی قوتوں پر منحصر رہے گی۔ اس کو نشوونما پانے کے لیے ماحول سے کوئی مدد نہیں ملے گی بلکہ ماحول کے مختلف اثرات اس کیفیت کو بڑھانے کے بجاے اُلٹا گھٹا دیں گے۔ لیکن اگر وہی کیفیت پورے ماحول پر طاری ہو، اگر تمام لوگ ایک ہی خیال اور ایک ہی ذہنیت کے ماتحت ایک ہی عمل کر رہے ہوں تو معاملہ برعکس ہوگا۔ اس وقت ایک ایسی اجتماعی فضا بن جائے گی جس میں پوری جماعت پر وہی ایک کیفیت چھائی ہوئی ہوگی اور ہر فرد کی اندورنی کیفیت ماحول کی خارجی اعانت سے غذا لے کر بے حدوحساب بڑھتی چلی جائے گی۔ ایک شخص اکیلا برہنہ ہو اور گردوپیش سب لوگ کپڑے پہنے ہوئے ہوں تو وہ کس قدر شرمائے گا؟ بے حیائی کی کتنی بڑی مقدار اس کو برہنہ ہونے کے لیے درکار ہوگی اور پھر بھی ماحول کے اثرات سے اس کی شدید بے حیائی بھی کس قدر باربار شکست کھائے گی؟ لیکن جہاں ایک حمام میں سب ننگے ہوں وہاں شرم بے چاری کو پھٹکنے کا موقع نہ ملے گا، اور ہر شخص کی بے شرمی دوسروں کی بے شرمی سے مدد پاکر افزوں اور افزوں ہوتی چلی جائے گی....
اجتماعی روزے کا مہینا قرار دے کر رمضان سے شارع نے یہی کام لیا ہے۔ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہرغلہ اپنا موسم آنے پر خوب پھلتا پھولتا ہے اور ہر طرف کھیتوں پر چھایا ہوا نظر آتا ہے، اسی طرح رمضان کا مہینا گویا خیروصلاح اور تقویٰ و طہارت کا موسم ہے۔ جس میں بُرائیاں دبتی ہیں، نیکیاں پھلتی ہیں، پوری پوری آبادیوں پر خوفِ خدا اور حب ِ خیر کی روح چھا جاتی ہے، اور ہر طرف پرہیزگاری کی کھیتی سرسبز نظر آنے لگتی ہے۔ اس زمانے میں گناہ کرتے ہوئے آدمی کو شرم آتی ہے۔ ہرشخص خود گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کسی دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر اسے شرم دلاتا ہے۔ ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کچھ بھلائی کا کام کرے، کسی غریب کو کھانا کھلائے، کسی ننگے کو کپڑا پہنائے، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، کہیں کوئی نیک کام کر رہا ہو تو اس میں حصہ لے، کہیں کوئی بدی ہو رہی ہو تو اسے روکے۔ اس وقت لوگوں کے دل نرم ہوجاتے ہیں، ظلم سے ہاتھ رُک جاتے ہیں، بُرائی سے نفرت اور بھلائی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے، توبہ اور خشیت و انابت کی طرف طبیعتیں مائل ہوتی ہیں، نیک بہت نیک ہوجاتے ہیں اور بد کی بدی اگر نیکی میں تبدیل نہیں ہوتی تب بھی اس جلاب سے اس کا اچھا خاصا تنقیہ ضرور ہوجاتا ہے۔ غرض اس زبردست حکیمانہ تدبیر سے شارع نے ایسا انتظام کردیا ہے کہ ہرسال ایک مہینے کے لیے پوری اسلامی آبادی کی صفائی ہوتی رہے، اس کو اوور ہال کیا جاتا رہے، اس کی کایاپلٹی جائے۔ اور اس میں مجموعی حیثیت سے روحِ اسلامی کو ازسرِنو زندہ کردیا جائے۔
اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب رمضان آتاہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں‘‘۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’جب رمضان کی پہلی تاریخ آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جِنّ باندھ دیے جاتے ہیں۔ دوزخ کی طرف جانے کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کی طرف جانے کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔ اس وقت پکارنے والا پکارتا ہے: ’’اے بھلائی کے طالب آگے بڑھ اور اے بُرائی کے خواہش مند ٹھیرجا!‘‘(اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص۷۸ تا ۱۰۸)
اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ ط (العنکبوت ۲۹:۴۵) (اے نبیؐ)تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔
قرآن کریم نے نماز کے موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس آیت میں تلاوتِ قرآن اور نماز کے قیام کی خاص طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی جارہی ہے کہ قرآن پڑھا کیجیے اور نماز قائم کیجیے۔ اس طرح سے نماز اور قرآن کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔
دراصل قرآن پڑھنے کا جو لطف نماز کی حالت میں آتا ہے وہ ویسے نہیں آتا، اور جو قرآن نماز میں سمجھ آتا ہے وہ ویسے نہیں آتا۔ اگر آپ قرآن کے علوم سے آشنا ہونا چاہتے ہیں تو وہ آیاتِ قرآن نماز میں پڑھ کر دیکھیے جو آپ کو ویسے سمجھ نہ آتی ہوں۔ آپ کو احساس ہوگا کہ آپ قربِ الٰہی میں اور دامن رب میں بیٹھ کر خطاب سن رہے ہیں اور آپ اس خطاب کے تاثرات کو محسوس کر رہے ہیں۔ یہ لطف صرف نماز کے اندر ہی آتا ہے۔
قرآن کریم نے اکثر مقامات پر قرآن پڑھنے کو نماز سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کریم نے کہا:
یٰٓاََیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳:۱-۴) اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا اس سے کچھ بڑھا دو، اور قرآن خوب ٹھیرٹھیر کر پڑھو۔
یہاں ترتیل سے قرآن پڑھنے کو کہا گیا ہے اور مراد نماز ہے لیکن ذکر قرآن کا ہو رہا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ نماز کے اندر قرآن کریم کو پڑھا جائے۔ جب آپ رات کو اُٹھ کر نماز کی حالت میں خدا کا قرآن پڑھیں گے تو آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ آپ دربارِ الٰہی میں حاضر ہیں اور اللہ خطاب فرما رہے ہیں اور آپ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے اس کا خطاب سن رہے ہیں۔
ہم عام طور پر قرآن کو یوں پڑھتے ہیں جیسے خدا کی کتاب کو ایک مخصوص رنگ دینے کے لیے پڑھ رہے ہیں۔ ہم اس بات سے اپنے آپ کو بے پروا سمجھتے ہیں کہ کوئی ہم سے مخاطب ہو رہا ہے۔ ہم اس بات سے ناآشنا رہتے ہیں۔ اگر ہم وہاں سر جھکائے اس انداز سے کھڑے ہوں کہ میری زبان سے جو کچھ نکل رہا ہے یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ مجھ سے مخاطب ہے اور میں ایک قاری کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک سامع کی حیثیت سے اسے سُن رہا ہوں تو اس کا تاثر کچھ اور ہوگا، اور کچھ اور ہی کیفیت محسوس ہوگی۔
قرآنِ مجید نے نماز اور کتاب کو خاص طور پر اہمیت دی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَo (فاطر ۳۵:۲۹) جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انھیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقینا وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں، جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا۔
سورئہ مومنون کے آغاز میں اہلِ ایمان کی صفات بیان کی گئی ہیں۔پہلی صفت بھی نماز قرار دی اور آخری بھی نماز بیان کی ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ o (المومنون ۲۳:۹) ’’اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں‘‘۔قرآن کریم میں نماز کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ شاید ہی کسی اور حکم کو اتنی اہمیت دی گئی ہو۔
بنیادی طور پر بچہ محنت کر کے امتحان میں پاس ہوتا ہے اور اس کی محنت سے اس کا نتیجہ مرتب ہوتا ہے لیکن اگر اس کی حاضریاں کم ہوں تو اس کا داخلہ روک لیا جاتا ہے اور ساری محنت ہی اکارت چلی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں یہ نظام ہے کہ اگر کسی بچے کی حاضری مکمل نہ ہو تو اس کا داخلہ یونی ورسٹی اور بورڈ میں نہیں بھیجا جاسکتا۔ اسی طرح نماز حاضری ہے اور اس کے بعد پھر محنت کا مرحلہ آتا ہے۔ اگر یہ حاضری ہی کم نکلی تو پھر دوسری محنت رائیگاں چلی جائے گی۔
یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے فوج میں پریڈ ہوتی ہے ۔ ایک سپاہی ہزار درجے بہادر ہو، اس کا نشانہ بہت اچھا ہو، خوب اچھی ورزش کرنا جانتا ہو ، اس کی وردی بہت خوب صورت ہو، وہ بہت تنومند ، سڈول اور چست و چالاک ہو اور بہادر اور قوی بھی ہو لیکن اگر وہ پریڈ میں حاضری نہیں دیتا اور فوجی مشق میں نہیں آتا تو اُسے اصل جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ہم عام طور پر سوچتے ہیں کہ نماز کیا ہے اور اس کے پڑھ لینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ انسان کو مسلمان ہونا چاہیے اور بس!
جب آپ دعوتِ دین کے میدان میں نکلیں گے تو لوگ یہ سوال کریں گے کہ آپ کہتے ہیں کہ نماز بُرائی سے روکتی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے نماز پڑھنے والے جن کے چہروں پر سجدوں کے نشان پڑگئے ہیں عملاً بُرائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں، خیانت کرتے ہیں۔ وہ رشوت لیتے ہیں اور ڈنڈی بھی مارتے ہیں۔ وہ ملاوٹ بھی کرتے ہیں، خائن بھی ہوتے ہیں۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ نماز پڑھنے والوں کو نماز بُرائی سے روک دیتی ہے۔
پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نماز میں کیا رکھا ہے؟ انسان کو دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ پھر وہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ حج بہت بڑی نیکی ہے۔ ہم نے بڑے بڑے حاجی دیکھے ہیں جو اسمگلنگ کرتے ہیں۔ تم کہتے ہو روزہ رکھنے سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے روزہ رکھنے والوں کو بڑی بڑی بُرائیاں کرتے دیکھا ہے۔
غور کرنا چاہیے کہ آیا واقعی ایسا ہے۔ فی الواقع بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں لیکن جب وہ تجارت کرتے ہیں تو جھوٹ بولنے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور خیانت کرتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھی کا مال ہڑپ کر جانے سے گریز نہیں کرتے، یا دھوکا دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں، جب کہ ہم کہتے ہیں کہ نماز بُرائی سے روکتی ہے۔ دراصل ہمارے تصور میں شاید یہ بیٹھا ہوا ہے کہ نماز پڑھنے والے کو نماز بُرائی سے روکتی ہے۔ مطلب یہ کہ جب وہ بُرائی کرنے جاتا ہے تو نماز اسے پیچھے سے کھینچتی ہے کہ نہ کرو لیکن لوگ بُرائی کا ارتکاب کرلیتے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر وضو کر کے نہ آئو تو نماز میں سجدہ نہیں ہوتا۔ سجدہ تو ہوجاتا ہے لیکن نماز کا حق ادا نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو نماز کا حق ادا نہیں کرتا اس سے بُرائی ہوجاتی ہے اور نماز کا حق ادا کرنے والے سے بُرائی نہیں ہوتی اور نماز اس کو بُرائی سے روک دیتی ہے۔ درحقیقت نماز یہ مقام رکھتی ہے۔
بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جو نماز پڑھتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو اسے نماز چھوڑ دینی چاہیے، اس لیے کہ نماز میں کیا رکھا ہے، دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ روزے میں کیا رکھا ہے یا داڑھی میں کیا رکھا ہے، دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ مسلمان کو دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ ایک صحیح مسلمان وہی ہوگا جو دل سے مسلمان ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے والے منافقین فی الواقع مسلمان نہیں تھے۔ وہ باقاعدہ نماز پڑھتے تھے اور بڑی بڑی باتیں بھی کرتے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر آپؐ ان کی باتیں سنیں تو سنتے ہی رہ جائیں۔ ان کی باتیں بڑی انوکھی لگیں گی لیکن عملاً وہ باتیں بے سود ہیں اور وہ لوگ بے کار ہیں۔
یہ بات مشاہدے میں ہے کہ لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن بُرائیاں بھی کرتے ہیں تو کیا نماز کی اہمیت ختم ہوگئی؟ یہ بالکل اس طرح کی بات ہے کہ کوئی شخص بازار میں ننگا کھڑا ہو اور آپ اسے کہیں کہ حیا کر، بازار میں ننگا کھڑا ہے، تجھے شرم نہیں آتی۔ وہ جواب میں یہ کہے کہ تم کیا سمجھتے ہو جتنے کپڑے پہننے والے ہیں سب حیادار ہیں۔ میں تمھیں دکھلا سکتا ہوں کہ کپڑے پہن کر بھی لوگ بے حیا ہیں، حتیٰ کہ برقعہ اُوڑھنے والی بھی بے حیا ہیں۔ اس کی یہ بات ہم مان لیں گے کہ لباس پہننے والے لوگ بے حیا ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ کپڑے پہن لو تو باحیا بن جائو گے۔ مجھے یہ بتائو کہ جس مِلمیںکپڑا بنایا جاتا ہے کیا اس میں حیا کا کوئی دھاگا ہوتا ہے جس سے وہ کپڑا بُنتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ کپڑے پہننے سے حیا پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن کیا وہ سچ کہتا ہے کہ کپڑے اُتار دینے چاہییں؟
یہ تو ہم مانیں گے کہ کپڑا پہننے کے ساتھ حیا وابستہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص کپڑا پہن کر بھی بے حیا ہو۔ لیکن ہم یہ نہیں مان سکتے کہ حیادار ننگا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یہ تو ہم مان لیں گے کہ کوئی نماز پڑھتے ہوئے مومن نہ ہو لیکن یہ نہیں مان سکتے کہ مومن ہوکر وہ نماز نہ پڑھتا ہو۔ بیک وقت یہ دونوں باتیں نہیں ہوسکتیں۔
نماز کی اتنی اہمیت ہے کہ میرے خیال میں اسلام کے اندر واحد عمل ایسا ہے جس کے نہ کرنے پر کفر کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ متعمدًا فَقَدْ کَفَرَ ، یعنی’’ جس نے قصداً نماز ترک کی اس نے کفر کیا‘‘۔یہ واحد عمل ہے جس کے چھوڑ دینے سے انسان کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ فرمایا کہ نماز مومن اور کافر کے درمیان حدِ فاصل ہے۔ یہ فرق بتلاتی ہے کہ کوئی شخص مومن ہے یا کافر۔
بچہ سکول میں داخل ہو، وہ ابھی بستہ لے کر سکول نہ گیا ہو کہ اتنے میں سکول کی گھنٹی بج جائے تو کیا گھر میں قیامت نہ برپا ہوجائے گی۔ وہ پوچھے گا کہ میرا بستہ کہاں ہے؟ میری یونیفارم کہاں ہے؟ یوں سمجھیے کہ گھر میں زلزلہ آجائے گا۔ اور جب گھنٹی بجنے پر اس کے سر میں جوں بھی نہ رینگے اور اسے کوئی فرق نہ پڑے تو ہم سمجھیں گے کہ یہ شاید سکول میں داخل نہیں ہے۔
اذان کی آواز آنے کے بعد ایک مومن کے اندر ہلچل نہیں مچتی تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مومن ہے اور مسجد کا نمازی ہے۔ اگر یہ نمازی ہوتا تو اس کے اندر ایک ہیجان پیدا ہوتا کہ اللہ کی طرف سے پکار آگئی ہے اور میں یہاں کیوں بیٹھا ہوں؟
ہم لوگ اکثر نماز کے اس پہلو سے کوتاہی کرجاتے ہیں۔ ہمیں نماز پڑھنے میں مزا نہیں آتا۔ اسے عادت کے طور پر ادا کرتے ہیں عبادت کے طور پر ادا نہیں کرتے۔ سچی بات یہ ہے کہ کسی کے ساتھ پیار ہو تو کیفیت کچھ اور ہوتی ہے۔
آپ اندازہ لگایئے کہ راہ چلتے اگر کوئی اجنبی شخص آپ کو کھڑا کرے کہ ذرا میری بات سنیے۔وہ لمبی بات کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ بھائی مختصر بات کرو میں جلدی میں ہوں۔ آپ اسے لمبی بات کرنے نہیں دیتے۔ لیکن اگر کوئی دوست مل جائے جس سے آپ کو محبت ہو اور آپ تھکاوٹ سے چُور ہوں، بہت سارے کام سر پر ہوں اور وہ آپ کو کھڑا کرلے تو آپ باتیں کرتے اُکتائیں گے نہیں۔ نہ پائوں تھکتے ہیں، نہ جسم تھکتا ہے، نہ کوئی کام یاد آتا ہے اور نہ نیند ہی آتی ہے۔ اور پھر جب وہ جانے لگتا ہے تو آپ بازو پکڑ لیتے ہیں کہ ٹھیرو یار چلے جانا، اتنی جلدی کیا ہے؟
کیا یہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔ دراصل محبت کی کیفیات مختلف ہوتی ہیں۔قرآنِ مجید نے یہی بات بیان فرمائی ہے:
وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَ اَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o (البقرہ ۲:۴۵-۴۶) بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
میں نے جب یہ فقرہ سنا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ نماز بھلا بھاری کیسے ہوئی؟ہم دیکھتے ہیں کہ مزدور سارا سارا دن بوجھ اُٹھاتا ہے، ۱۲، ۱۲گھنٹے بھٹی کی آگ پر کھڑا ہوتا ہے۔ چوکیدار رات بھر جاگتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کی لگن لیے کوہِ پیما چوٹی سر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کئی گرجاتے ہیں، کچھ مربھی جاتے ہیں لیکن چوٹی سر کرنے کی لگن ہے کہ چڑھتے چلے جاتے ہیں۔
ایک طرف یہ صورتِ حال ہے اور جب انھیں دو رکعت نماز کے لیے کہا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ اتنی مشقت اُٹھاتے ہیں لیکن دو رکعت نماز ادا کرنا ان کے لیے مشکل ہے۔ اور دو رکعت نماز ادا کرنا واقعتا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نماز واقعتا مشکل ہے مگر ان لوگوں کے لیے نہیں جو پہلو میں یہ تڑپ لیے پھرتے ہیں کہ کل اسی بہانے اپنے رب سے ملاقات نصیب ہوگی۔ ان کے لیے نماز یقینا آسان ہے۔
اذان کی آواز آتی ہے اور کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی آواز آئی بھی ہے یا نہیں۔ اگر اللہ بلائے اور ہم محبت کا دعویٰ بھی کریں اور پھر حالت یہ ہو کہ ابھی جاتے ہیں، یہ تھوڑا سا کام کرلوں۔ آپ کسی دوست سے روز ملتے ہوں اور اگر اس کی آواز گلی میں سے گزرتے ہوئے آجائے، خواہ آپ نے اسے بلایا بھی نہ ہو تو لپک کر اسے ملنے چلے جاتے ہیں کہ دوست آیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ سب فریب ہے۔ اللہ سے پیار ہو تو یہ روش نہیں ہوسکتی۔ نماز تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ رسول پاکؐ حضرت بلالؓ سے کہتے ہیں کہ بلال! اذان پڑھو، میری آنکھیں نماز میں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ واقعتا یہ کیفیت اُسی کی ہوتی ہے جسے اللہ سے پیار ہوجائے۔ پھر نماز میں آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور نماز میں لطف آتا ہے۔ پھر تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ رات تڑپ کر گزری ہے، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور سینہ ہنڈیا کی طرح اُبل رہا ہے اور پائوں میں وَرم پڑگئے ہیں۔لیکن صبح اُٹھ کر پھر یہی کہا جا رہا ہے کہ مالک! تیری عبادت کا حق تو ادا نہ ہوسکا۔
واقعتا محبت میں پیمانے ہی بدل جاتے ہیں۔ جیسے انسان اگر کسی غلط جگہ پر آجائے، جن لوگوں سے پیار نہ ہو، ایسی بستی میں آجائے جو اجنبی ہو اور اُوپر سے رات بھی ہوجائے تو وہ رات کیسے گزرتی ہے، لیکن اگر رات محبوب کے دامن میں گزرے اور وہ ساری رات بٹھائے رکھے کہ باتیں کرنی ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ مؤذن کو کیا ہوا کہ آج اس نے بڑی جلدی فجر کی اذان دے دی۔
اگر کیفیت کچھ مختلف ہو تو وہی رات بہت طویل لگتی ہے کہ قیامت کی رات ہے، ختم ہونے میں نہیں آرہی۔خدا کے پیار میں جنھوں نے راتیں گزاری ہیں انھیں یوں لگا کہ جیسے بات ہی کوئی نہیں ہوئی اور بڑی جلدی رات گزر گئی ہے۔ اللہ کے پیار میں کھڑے ہونے والوں سے پوچھیے کہ اس میں کتنا لطف ہے ۔
درحقیقت محبت اور عشق والوں کا معاملہ ہی مختلف ہے۔ محبت کی کیفیت کے انداز ہی مختلف ہیں۔ لوگ سونے میں مزا لیتے ہیں اور یہ جاگنے میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لوگ مال جمع کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہ مال لٹانے میں مزا لیتے ہیں۔ لوگ ہنسنے میں مزا لیتے ہیں اور انھیں رونے میں لطف آتا ہے۔ یہ کیفیات ہی مختلف ہیں۔ یہ محبت کے بعد معلوم ہوتا ہے۔
تنہائی میں خدا کو یاد کیا اور آنکھیں برس پڑی ہیں اور کراماً کاتبین بھی بے خبر ہیں کہ کیوں رورہا ہے؟ کس مزے میں ہے؟ اور کس نشے میں ہے؟ قیامت کے روز حکم ہوگا کہ اسے بلا لائو اور میرے عرش کے سایے میں بٹھائو، گرمی میں کھڑا نہ رہنے دو۔ خلوتوں میں میری یاد میں رونے والے کو میرے دامنِ رحمت میں جگہ دے دو۔
وہ بچہ جو کھلے میدان میں مٹی کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور بڑے مزے میں بیٹھا ہوا ہے۔ اِدھر ماں آواز دیتی ہے تو ہلکی سی کوفت ہوتی ہے۔ کھلونوں کو چھوڑ کر اُٹھنا، بڑے پیارے سے جو گھروندے بنائے تھے اور ساتھیوں کو چھوڑ کر اُٹھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ ماں بلاتی ہے اور مٹی والے کپڑے اُتار دیتی ہے۔ جب وہ کپڑے اُتارنے لگتی ہے تو تب تھوڑا سا روتا ہے، اور جب نہلانے لگتی ہے تو روتا ہے کہ یہ زیادتی کر رہی ہے اور مجھے نہلا رہی ہے۔ جب وہ نہلادُھلا کر گود میں لٹا لیتی ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ وہ دوست بھی بھول جاتے ہیں، کھلونے بھی بھول جاتے ہیں، کھلی فضا بھی بھول جاتی ہے اور دیکھنے والے کو حیرت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی سی گود کے اندر اسے کیا نشہ آرہا ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے کہ:
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (السجدہ ۳۲:۱۶-ــ۱۷) ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔
نماز کے لیے اُٹھنے میں تھوڑی سی کوفت ہوتی ہے۔ پھر وضو کرنے میں بھی کچھ کوفت ہوتی ہے۔ جب وضو بھی کرلیتا ہے، بستر سے بھی اُٹھ آتا ہے اور شیطان کی ساری زنجیریں توڑ ڈالتا ہے، اور اللہ کے حضور تہجد کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو پھر جو لطف آتا ہے تو وہ دنیا والوں کو نہیں پتا کہ نرم بستر میں زیادہ مزا ہے یا اس چٹائی پر سجدہ ریز ہونے میں زیادہ لطف ہے۔ اللہ کی معرفت، اللہ کے پیار اور اللہ سے محبت کے بعد یہ لطف آتا ہے اور یہ لذت نصیب ہوتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کتنے سخت سے سخت اور کٹھن سے کٹھن مرحلے گزرے ہیں۔ طائف کے بازار میں آپؐ کے ساتھ کیا کیا زیادتی نہیں ہوئی۔ تمام جسم سے لہو بہہ رہا تھا اور عالم یہ تھا کہ آپ گر جاتے تھے اور اُٹھائے جاتے تھے کہ پھر پتھروں کا نشانہ بنایا جائے لیکن آپ کی زبان سے یہی الفاظ نکلے کہ: اے اللہ! مجھے ان زخموں کی پروا نہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کی نسلوں میں سے کوئی تیرا نام لیوا پیدا ہوجائے۔
میدانِ بدر میں حضوؐر کس عالم میں اللہ سے دعا اور التجا کرتے ہیں اور اللہ کی نصرت کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔
گویا اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے نزدیک نماز بہت ہی اہم چیز ہے۔ نماز کا ادا کرنے والا جب نماز کا حق ادا کرتا ہے تو وہ دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ کی جنت کا حق دار بن جاتا ہے، بشرطیکہ نماز کا حق ادا کیا ہو۔ نماز کے اندر اس کی توجہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکتی رہی ہو۔
ہمارا حال بھی عجیب ہے۔ ہم نماز پڑھنے آتے ہیں لیکن دل ظالم کو ساتھ نہیں لاتے۔ وہ گھر پہ ہوتا ہے یا دکان میں اَٹکا ہوتا ہے، دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے یا کسی اور محفل میں۔ جب تک ہم اسے ساتھ نہیں لائیں گے نماز کیسے ادا ہوگی۔
قرآنِ مجید میں جہاں سُکرٰی (نشہ) کی بات کی گئی ہے وہ چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن بہت عظیم فقرہ ہے اور اس میں نماز کی عظمت بھی بیان کی گئی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النساء ۴:۴۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔
یہ بہت بڑی بات کہی گئی ہے۔ آپ کسی کو ملازم رکھتے ہیں۔ آپ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں گھر میں جھاڑو دینا ہوگی۔وہ کہتا ہے : جی ہاں اور سر ہلا دیتا ہے۔ آپ کچھ اور کام بتاتے ہیں، وہ سر ہلاتا جاتا ہے اور جی ہاں کہتا ہے۔ آپ اسے جھنجھوڑ کر کہتے ہیں کہ سر ہلاتے جارہے ہو، کیا یہ سب کام کر بھی سکو گے۔
اللہ کہتے ہیں کہ تو جو میرے دروازے پر کھڑا ہوا اتنے وعدے کر رہا ہے، یعنی:
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo(الفاتحہ ۱:۴)ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَ اِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ،خدایا! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز اور سجدہ کرتے ہیں اور ہماری ساری کوششیں اور ساری دوڑ دھوپ تیری ہی خوشنودی کے لیے ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
یعنی اتنے معاہدے میرے ساتھ کرتا چلا جا رہا ہے، کیا سوچ کر کہہ رہا ہے یا ایسے ہی کہے جا رہا ہے۔
یہ بنیادی بات ہے کہ ہم اس کے دروازے پر آئیں تو دل کو ساتھ لائیں اور پھر اس محبوب کی تلاش میں نکلیں۔ نماز کی حالت میں بہت سے خیالات آتے ہیں اور ایسے میں اللہ کے خیال کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ دراصل ہم تلاش کے اندر مخلص نہیں ہوتے ورنہ تلاش میں مخلص ہونے والا جمگھٹوں سے نہیں گھبراتا۔
آپ کسی پُرہجوم چوک میں کھڑے ہوں اور کسی دوست کی تلاش میں نکلے ہوں، اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہوں۔ بہت سے لوگ آپ کو دیکھ کر سلام کریں گے لیکن آپ نہیں دیکھیں گے۔ وہ بعد میں ملیں گے اور کہیں گے کہ آپ فلاں چوک میں کھڑے تھے ، ہم نے بہت ہاتھ ہلایا لیکن آپ نے دیکھا ہی نہیں۔ آپ نے میری آواز سنی اور میرے سلام کا جواب ہی نہیں دیا۔واقعتا آپ کے کانوں سے اس کی آواز تو ٹکرا رہی تھی اور آپ اس کے ہاتھ کو دیکھ رہے تھے لیکن کس طرح دیکھ رہے تھے۔قرآن کہتا ہے:
فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِo (الحج ۲۲:۴۶) حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
یہ آنکھیں اندھی نہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوگئے ہیں۔ دل جس کی تلاش کرتا ہے، آنکھیں بھی اسی کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ اس دنیا کے بازار میں آپ اس ایک کی تلاش میں یوں نکلیں کہ ہزاروں گزر جائیں لیکن آپ کی نگاہ میں نہ ٹھیریں، اور جب وہ نظر آئے تو آپ شور مچا دیں کہ ہاں وہی ہے۔ اس انداز میں جب آپ نماز پڑھیں گے تو تخیلات آتے رہیں، انھیں دھکا دے کر کہیں کہ میں تو اسی ایک کی تلاش میں نکلا ہوں۔
انسان کمزور ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خیالات آ بھی جاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ دل لگا لینا نقصان دہ ہے۔
آپ کے ہاں مہمان آجائے جو عزیز دوست بھی ہو۔ جب وہ بات کر رہا ہوتو آپ کے بچے آپ سے چمٹ جائیں۔ آپ کبھی اس کی بات سنیں اور کبھی بچوں کو پیار کریں۔ مہمان بات کر رہا ہے اور آپ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے، تو مہمان کہے گا کہ یہ میری بے عزتی ہے۔ یہ تو بچوں کے ساتھ ہی مصروف ہوگئے ہیں اور میں نے جو بات کی وہ انھوں نے غور سے سنی ہی نہیں۔
اب ایک یہ کیفیت ہے کہ مہمان آیا ہے اور بچے بھی آکر چمٹ گئے ہیں۔ آپ انھیں کہیں کہ بیٹا بات کرلینے دو۔ ادھر سے کوئی دوسرا بچہ آجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ بیٹے ذرا بیٹھو بات کرلینے دو۔ بچے آرہے ہیں، آپ نے انھیں مارا نہیں یا بُرا بھلا نہیں کہا بلکہ انھیں ہٹاتے جارہے ہیں اور بات دوست کی سن رہے ہیں۔ دوست اس پر بُرا نہیں منائے گا کہ بچے ہیں، نادان ہیں لیکن وہ تو توجہ کر رہا تھا۔
اگر نماز میں دنیا کے خیالات اِدھر اُدھر سے آنے کی کوشش کریں تو انھیں ہٹانے کی کوشش کریں کہ میں اللہ سے بات کر رہا ہوں۔ میں اپنے خدا سے پیار کی بات کر رہا ہوں۔ اگر ہم ادھر منہمک نہ ہوئے تو قابلِ معافی ہیں اور اگر ہم نے ان بچوں سے پیار کرنا شروع کردیا اور مہمان کا خیال نہ کیا، تو وہ کہے گا کہ سارا دن تو ان کے ساتھ رہا ہے اور اب بھی انھی سے سروکار ہے، میرا تو اُس نے خیال ہی نہ کیا۔ پھر یہ بات ناگوار ہوگی۔
اللہ کے ہاں سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ نماز جس شخص کی درست ہوجاتی ہے، اس کا ایمان درست ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی تلاش میں سرگرداں شخص ہی دراصل نماز کا حق ادا کرسکتا ہے ورنہ نماز کا حق ادا ہی نہیں ہوتا، اور جو نماز کا حق ادا کردیتا ہے وہ پھر گناہ کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ پھر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ گناہ کے راستے پر چل سکے اور جو شخص گناہ کے راستے پر جاتے ہوئے نماز ادا کرتا ہے وہ خدا کا مذاق اُڑاتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ نماز کے اندر جو دعا حکماً لازماً منگوائی گئی ہے وہ صراطِ مستقیم کی دُعا ہے: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘۔اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، اس دعا کو ہم سے لازماً منگوایا جاتا ہے۔ یہ فقط ایک دعا ہے جو نماز میں مانگی جاتی ہے اور اسی کے لیے فی الواقع ہم نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ میری ملازمت چھوٹ گئی ہے، اور مجھے روزی دے دے، یا مَیں بیمار ہوں مجھے صحت دے دے وغیرہ۔ دراصل ہدایت وہ بنیادی بات ہے جو ہم اللہ سے مانگتے ہیں، اور بڑی التجا کر کے مانگتے ہیں۔
ایک شخص ملتان جانا چاہتا ہے وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ ملتان کس طرف ہے؟ آپ اسے بتاتے ہیں کہ اس طرف ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کسی اور جگہ جاکر ملتان کا راستہ پوچھتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ تو پیچھے رہ گیا۔ وہ پھر آپ سے ملتا ہے تو آپ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں بتایا تو تھا کہ ملتان اس طرف ہے۔ وہ پھر کہیں اور سے گھومتا پھرتا آپ کے پاس آجاتا ہے کہ ملتان کا راستہ بتادیں۔ آپ غصے میں آجاتے ہیں کہ تم خود بے وقوف ہو یا مجھے بے وقوف بنا رہے ہو اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم کتنے اہتمام سے اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور اس کی حمد بیان کرتے ہیں کہ اے اللہ! تو پاک ہے، میں تیری حمد کرنے آیا ہوں۔ تیرا نام بڑا برکت والا ہے، تیری شان بڑی بلند ہے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، تو بڑا مہربان ہے، تو بڑا رحیم ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں اور تجھ سے پوچھتا ہوں کہ بتا سیدھا راستہ کون سا ہے؟
جب وہ نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتا ہے اور دکان پر بیٹھ کر ترازو پکڑ کر ڈنڈی مارنے لگتا ہے تو اندر سے آواز آتی ہے کہ یہ سیدھا راستہ نہیں ہے۔ تو نے صبح مجھ سے پوچھا تھا نا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے؟ یہ غلط راستہ ہے، ُتو غلط راستے پر چل نکلا ہے۔ جب ڈنڈی مار کر دو پیسے بچا لیتا ہے تو پھر اسی طرح نمازِظہر میں اللہ سے سیدھا راستہ مانگتا ہے۔ پھر دفتر میں بیٹھا ہے اور کسی نے ۱۰۰ کا نوٹ رشوت کے طور پر دے دیا، یا جیب میں ڈال دیا تو دل لرزا کہ یہ رشوت ہے، حرام ہے۔ یہ سیدھا راستہ نہیں ہے لیکن رکھ لیتا ہے کہ اللہ معاف کردے گا۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ پڑھ لیتا ہے۔
عصر کی نماز میں پھر آکر کھڑا ہوتا ہے اور پھر خلوص سے کہتا ہے کہ اللہ سیدھا راستہ کس طرف ہے؟ پھر جب باہر نکلتا ہے تو کسی کی غیبت، کسی پر بہتان، کہیں جھوٹ اور کسی سے زیادتی۔ اندر سے مسلسل آواز آرہی ہے کہ غلط چل رہا ہے، سیدھا راستہ تو اس طرف ہے تو کس طرف جا رہا ہے؟
اب بتایئے یہ تماشا کب تک رہے گا۔ ایک وقت آئے گا کہ وہی نماز گندے چیتھڑے کی طرح منہ پر دے ماری جائے گی، اور وہ نماز خود کہے گی کہ تجھے خدا اس طرح خراب کرے جیسے تُو نے مجھے خراب کیا ہے۔
جب تک نماز کا حق ادا نہیں ہوگا، نماز اثرانداز نہیں ہوگی۔ اگر ہم نماز کا حق ادا کردیں تو پھر دیکھیے کہ ایک نماز پڑھنے والے کی کیا شان ہے! یقین کیجیے جب حجابات اُٹھ جائیں تو صرف ایک نماز کے اندر کائنات ساری کی ساری ہی بدلتی نظر آئے گی۔ یہ کیفیات ہی مختلف ہیں۔
حضوؐر فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تو حضرت حارثہؓ سے ملاقات ہوگئی۔ پوچھا: حارثہ! صبح کیسی ہوئی؟ اے حارثہ! ایمان کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں، تو بتا تیرے ایمان کی کیا کیفیت ہے؟ کہنے لگے: یارسولؐ اللہ! جنتی جنت کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں اور دوزخی دوزخ کی طرف، اور میں ہرروز اپنے آپ کو عرشِ معلی کے قریب ہوتا ہوا پاتا ہوں___پھر یہ ایمان نصیب ہوتا ہے!
یہ تب ممکن ہے جب وہ فاصلہ صراطِ مستقیم کی طرف طے کرے۔ جب وہ چل ہی اس کے مخالف رہا ہے تو صراطِ مستقیم نصیب ہونے کی بات تو نہ ہوئی۔ عرش کے قریب تو وہ تب ہوتا جب چل ہی اس راستے کی طرف رہا ہو۔ پھر اس راستے پر چلتا رہے اور رب سے برابر ہدایت مانگتا رہے۔ پھر بھی قدم قدم پر اس راستے پر چلتے ہوئے پوچھنا پڑے گا، اللہ سے ہدایت و استقامت مانگنی پڑے گی۔
ایک شخص اگر تیرنا نہیں جانتا تو کسی تیراک نے اگر اس کا بازو پکڑ لیا ہے تو وہ بار بار کہے گا کہ دیکھنا میرا بازو نہ چھوڑ دینا، میںتیرنا نہیں جانتا۔ میں تو محتاج ہوں۔ اگر وہ کہے کہ ٹانگیں سیدھی رکھو تو وہ ٹانگیں سیدھی رکھے گا۔ اگر وہ کہے کہ سمیٹ لو تو سمیٹ لے گا۔ وہ کہے کہ چپ ہو جائو تو چپ ہوجائے گا۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے ہاتھ چھوڑ دیا تو میں غرق ہوجائوں گا۔
ہم اللہ سے جب سیدھا راستہ مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو بازو پکڑ کر سیدھے راستے پر لے جارہا ہے، تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کہے کہ ٹانگیں سمیٹ لو تو ہم کھول دیں۔ وہ کہے کہ زبان بند کرلو تو ہم کھول دیں ۔ وہ کہے کہ جھوٹ نہ بولو اور ہم جھوٹ بولیں۔ اس لیے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ درحقیقت ہم جس چیز کا اقرار کرتے ہیں عمل اس کے خلاف کرتے ہیں۔ گویا ہم جو کچھ کہتے ہیں، غلط کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر ہم اس کی عظمت کا اعتراف کرتے تو پھر ہم اس کے راستے پر چلتے اور ضرور چلتے۔ پھر ہمیں اس کے راستے پر چلتے ہوئے لطف آتا، اور اس کی طرف بڑھنے میں مزا آتا۔ جب تک یہ کیفیت نہ پیدا ہو، اس وقت تک عبادت کی لذت نصیب نہیں ہوسکتی۔
ہم عبادت رسماً اور ایک عادت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم اسے عبادت کے طور پر ادا کریں تو یہ سجدہ اللہ کے ہاں بڑا قیمتی سجدہ ہے۔ ہماری عبادت جیسی کیسی ہے، وہ ہمیں معلوم ہے۔ یہ تو اللہ کی قدردانی ہے۔ وہ واقعتا قدردان ہے۔ وگرنہ ہماری عبادت کی کیا بساط ہے اس کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آسمان پر ملائکہ کے پَروں کی چرچراہٹ کی آواز آتی ہے اور فرمایا کہ ان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ یہ آواز پیدا ہو۔ اس لیے کہ آسمان پر کوئی چپّہ برابر بھی جگہ خالی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ سجدے میں ، قیام میں، قعود میں اللہ کی تسبیح نہ کر رہا ہو، اور سبوح قدوس کا ترانہ نہ گا رہا ہو۔ پھر کیا ہمارے یہ دو سجدے کوئی مقام رکھتے ہیں۔ یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے انھیں اہمیت دے دی اور بڑا مقام دے دیا۔ کہا کہ اے فرشتو! ذرا خیال کرنا کہ میرا مہمان آرہا ہے۔ پھر اس چٹائی پر جتنا لطف آتا ہے وہ قالینوں پر نہیں آتا۔
یہ گھر والوں کی نگاہ کا فرق ہوتا ہے۔ اس واسطے یہ لطف آتا ہے۔ گھر والا اگر اچھے قسم کے صوفے پر بٹھا دے اور چہرے پر تیوری چڑھی ہو اور تکبر سے بات کر رہا ہو تو اچھا نہیں لگتا۔ اگر چٹائی پر بٹھا دے اور عزت و احترام دے تو وہ گھر اچھا لگتا ہے۔ اللہ کی چٹائی پر کیوں اتنا مزا آتا ہے جو لوگوں کے قالینوں پر نہیں آتا؟ یہ اس لیے کہ گھر والا پیار سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب گھر والا اتنے پیار سے دیکھ رہا ہو تو پھر کیوں نہ مزا آئے!
اللہ نے اپنے فرشتوں کی عبادت کو چھپا کر رکھا ہے کہ کہیں یہ دو نفل ادا کرنے والا اس کا بندہ شرم محسوس نہ کرے۔ بعض دفعہ ہم تھوڑی سی نیکی کربیٹھتے ہیں تو اِترانے لگتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ جو ہم نے کیا ہے شاید دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کرنا کوئی کمال نہیں، اصل تو یہ ہے کہ وہ اسے قبول کرلے۔ عبادت جب اس انداز سے کی جائے گی تو لطف کچھ اور ہوگا۔ اللہ ہمیں نماز میں وہ لذت عطا فرمائے جس میں رفعت بھی ہو اور اللہ کا پیار بھی نصیب ہو، اور اللہ کے دیدار کی وہ کیفیات بھی نصیب ہوں۔
خدا دیکھ رھا ھے!
کیا پیاری کیفیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں:
عبادت ایسے کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ نہ کرسکو تو یہ تصور کرو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔
یہی تصور غالب آجائے تو بہت بڑی بات ہے۔ ساری کیفیات ہی بدل جائیں گی۔ یہ تصور بھی ہم دلوں میں نہیں بٹھا سکتے اور نہ غالب آتا ہے۔ اگر کوئی نابینا بھی بادشاہ کے دربار میں ملنے کے لیے آئے، اگرچہ وہ اندھا ہے اور اسے کچھ نظر نہیں آتا، لیکن جب اسے یہ کہا جائے کہ اب بادشاہ تمھارے بالکل سامنے ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے اعضا ڈھیلے پڑجائیں گے۔ اس کی گردن ڈھیلی پڑ جائے گی، اس کے قدموں میں فرق آجائے گا اور اس کی آواز دب جائے گی۔ فقط یہ سنتے ہی کہ بادشاہ سامنے ہے، اس پر یہ کیفیت طاری ہوجائے گی حالانکہ وہ نابینا ہے اور اسے کچھ نظر نہیں آرہا۔ ہم نابینا ہی سہی۔ اگر صرف یہ تصور ہی دل میں بٹھا لیں کہ خدا دیکھ رہا ہے تو ہماری عبادت کی کیفیات بدل جائیں۔ اگر اللہ اپنی عظمت ہمارے دل میں بٹھا دے اور رونے کی توفیق بھی عطا فرما دے تو پھر کیا کہنے! (تدوین: امجد عباسی)
ماہِ رمضان ایک معزز مہمان ہے۔ کیا ہی اچھا مہمان ہے! یہ معزز مہمان بھی ہے اور محترم و مکرم ملاقاتی بھی۔ جو ایک سال کے طویل وقفے کے بعد ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ یہ ایک شوقِ عظیم ہے جس کی طرف دل لپکتے ہیں۔ گناہ گار اس کے منتظر رہتے ہیں تاکہ اس کے بابرکت لمحات میں گناہوں سے تائب ہوجائیں۔ عبادت گزار اور طاعت شعار لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اپنی عبادت و اطاعت میں اضافہ کرسکیں۔ اس ماہِ مبارک میں___ دن کو صیام، رات کو قیام، شب و روز کے اوقات میں اعمالِ صالحات، آلودہ نفوس کا تزکیہ، زنگ آلود قلوب کا تصفیہ، شرحِ صدر اور اصلاحِ احوال، رحمت رب کا حصول، مغفرتِ رب کا نزول، جہنم سے آزادی، آتشِ دوزخ سے نجات، رب کی خوشنودی و رضامندی اور اعمالِ صالح کی قبولیت و مطلوبیت کے قابلِ رشک لمحات اُمت مسلمہ کو سال بھر کے وقفے سے میسر آجانا رب کی بے پایاں رحمت کا کرشمہ ہے!
یہ سنہری لمحات ہر صاحب ِ ایمان کے لیے اپنی محرومیوں کو دُور کرنے، کمیوں کو پورا کرنے، رب سے لَو لگانے، شیطان سے جان چھڑانے اور کامیاب کلمہ گو بننے اور کہلانے کا عظیم اور بے نظیر موقع ہے۔ اس عظیم فرصت کو اپنے لیے غنیمت کا موقع بنانا ہر مسلمان کے اپنے اختیار میں ہے۔ مومن کو اس مہینے میں اپنے ساتھ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، اپنے احباب و اقارب، اور محلہ و بستی کے ساتھ، اپنی قوم و ملّت کے ساتھ اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق و مالک کے ساتھ اخلاص و خلوص، وفاداری ووفاشعاری اور نصیحت و خیرخواہی کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے۔ اس ماہِ عظیم کو دیگر مہینوں کے معمولات کی طرح گزار دینا بہت بڑی اور ناقابلِ تلافی محرومی ہے۔ معلوم نہیں یہ اوقاتِ مبارک، یہ لمحاتِ بابرکت، یہ نیکیوں کا موسم بہار، یہ رب کی عطائوں، عنایتوں، مہربانیوں، بخششوں اور نعمتوں، ثروتوں کا بے مثل مہینہ اگلے برس کسے نصیب ہوتا ہے! لہٰذا مومنانہ فراست کا تقاضا یہ ہے کہ اس ماہِ عظیم کو اپنی زندگی سنوارنے اور کامیاب و کامران بنانے کا آخری موقع تصور کیا جائے۔
نیت خالص اور درست کرلی جائے کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے اچھے اور نیک کام بھی حسنِ نیت سے اجر کے اعتبار سے پہاڑ بن جاتے ہیں مگر پہاڑ جیسے اچھے کام نیت کی خرابی سے رائیگاں چلے جاتے ہیں۔ وقت کا ضیاع اس مہینے میں مومن کے لیے بہت بڑے نقصان کا سبب ہے اور اس کا درست اور بھرپور استعمال اجرعظیم اور فلاحِ کبیرکا ضامن ہے۔ بہت سی حلال، مباح اور جائز مصروفیات میں وقت گزاری کے بجاے نگاہ ارفع اور اعلیٰ اعمالِ صالح پر رکھی جائے۔
یہ موقع خوش نما لباس خریدنے، بنانے اور افطاری میں انواع و اقسام کے دسترخوان سجانے کا نہیں۔ یہ سامانِ افطاری کی مہنگے نرخوں پر فراہمی کے ذریعے چندروپے کمالینے کو غنیمت سمجھنے کا موقع نہیں۔یہ اپنی قسمت بدلنے، رجحانات کو تبدیل کرنے، روشِ زندگی کو بامقصد بنانے، دنیوی امتحان گاہ میں شرکت کے موقع کو آخری سمجھ کر کامیابی کے لیے پورا زور صرف کرنے کا موقع ہے۔ خطرات و خدشات میں گھرے اِس موقع سے بحفاظت و سلامتی باہر نکل آنے کے لیے بھرپور قسم کی منصوبہ بندی چاہیے۔ ایسی منصوبہ بندی ماہِ رمضان کے ۳۰روز و شب تک محدود نہ ہو بلکہ زندگی کے لیے نفس و کردار کی دائمی تبدیلی کا مستقل عنوان بن جائے۔
رمضان کے مقاصد و مطالب کے حصول کے لیے رمضان میں ذاتی معمول بنالینا مفید ہوتا ہے۔ منتشر اُمور و معاملات کو سمیٹنا اور مجتمع کرنا لمحاتِ سعادت سے حقیقی طور پر مستفید ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ زندگی بھر انسان ترقی و کامیابی کے بے شمار خواب دیکھتا اور ان کی تعبیر پانے میں کوشاں رہتا ہے۔ صاحب ِ فراست مومن کے لیے لازمی ہے کہ وہ بھی ایک خواب دیکھے، سہانا خواب، کامیابی و کامرانی کا خواب، ترقی و خوش حالی کا خواب___ یعنی جنت کا خواب! ہم بہت سی عبادات، اعمالِ طاعات اور کارہاے صالحات انجام دیے جارہے ہوتے ہیں مگر پیش نظر کوئی مقصد اور نصب العین نہیں ہوتا، کوئی ہدف اور منزل نہیں ہوتی۔ اگر کسی بڑے خواب کی تعبیر پانے کی غرض سے یہ جدوجہد کی جائے تو وہ خواب جنت ہی ہوسکتی ہے۔ حصولِ جنت سے بڑھ کر منزل کیا ہوسکتی ہے۔ رب کی خوشنودی سے بڑی کامیابی کیا ہوسکتی ہے۔ قربِ خداوندی سے بڑا مرتبہ کیا ہوسکتا ہے، جنت کے خواب سے اعلیٰ اور برتر خواب کیا ہوسکتا ہے۔ جنت کا حصول، رب کی رضاجوئی سے ممکن ہے اور رب کی رضا کا حصول سزاوار جنت ہونے کا نام ہے۔ کاش! ہم دنیاوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے خوابوں سے نکل کر حصولِ جنت اور خوشنودیِ رب کا عظیم خواب دیکھیں۔ پھر اس کی تعبیر کو ممکن بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہوجائیں۔ تمام چھوٹے اور عارضی اساس رکھنے والے خوابوں پر اسی عظیم اور دائمی خواب کو ترجیح اور اوّلیت دیں تاکہ اپنی منزل اور ہدف کو پالیں۔
خسارے کی صورت حال سے دوچار کاروبار سے نکلنے کے لیے جہاں چند نئے اُمور ناگزیر اور لازمی ہوتے ہیں وہیں ماضی کی کوتاہیوں سے نہ صرف دستکش ہونا ضروری ہوتا ہے، بلکہ ان کوتاہیوں سے پیدا ہونے والی محرومیوں کا ازالہ کرنا بھی ناگزیر ٹھیرتا ہے۔ رمضان مومن و مسلم کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور محرومیوں کا ازالہ بھرپور طریقے سے کرسکے۔ اس نئی زندگی کی کامیابی کا انحصار ماضی کی تلافیِ مافات پر ہے۔ لہٰذا انسانی معاشرے کے بشری معاملات میں خطائوں، لغزشوں اور کمیوں کوتاہیوں کو اپنے اعمال نامے کے بدنما داغ کے طور پر قبول کیے رکھنا، یا اُن پر کسی بے چینی اور اضطراب کا احساس نہ ہونا زندہ دل اور زندہ ضمیر کی علامت نہیں۔ یہ موقع ہے کہ دلوں کے بند دریچوں کو وَا کرلیا جائے۔ اپنے اور دوسروں کے درمیان بند دروازوں کو کھول دیا جائے۔ دوسروں کے بارے میں اپنے دل کو صاف و شفاف کرلیا جائے۔ اُن کے لیے دل میں محبت و مودت اور خیروفلاح کے جذبات پیدا کیے جائیں۔ عفو و درگزر اور رواداری و برداشت اور تحمل و تسامح کا رویہ اپنا لیا جائے۔ اس عمل کی انجام دہی کے دوران قرآن کی یہ آیت ہمیشہ مدنظر رہے:
وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳-۱۳۴) دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔
رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا عشرہ ہے۔ رب سے اُس کی رحمت کا سوال کیا جائے۔ لہٰذا پہلے خود اس رحمت کو دوسروں کے لیے عام کیا جائے۔ کیوںکہ جو انسانوں پر رحیم نہیں ہوگا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں فرمائے گا۔ رب کے درِ رحمت پر دستک دینے سے قبل اپنی نرمی و ملائمت اور رحم دلی کے دروازے پر دستک دی جائے۔دُور و نزدیک، عزیز و عامی ہر کسی کے ساتھ رحم کا معاملہ روا رکھا جائے۔ صلہ رحمی کرکے اللہ کی رحمت کا مستحق بنا جائے۔ خیر اور بھلائی صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کا حق دار سمجھا جائے۔ حسد و بُغض اور کینہ و کدورت کو دلوں سے نکال باہر کیا جائے۔ دل کے اندر جو بھی سیاہی موجود ہے اس کو ایمان کے پانی سے دھو ڈالا جائے۔ اس میں تاریکی طاری رکھنے کے بجاے اُسے روشن اور چمک دار بنا دیا جائے اور اسے بلند و برتر اور اعلیٰ و ارفع خیالات کی آماج گاہ بنایا جائے۔ اسے قلب ِ سلیم کا مطلوب اور قابلِ رشک روپ دے لیا جائے۔ وہ قلب جو قیامت کے دن اہلِ دل کو نفع دے گا۔
رمضان میں رب کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ خود اپنے نفس کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کیا جائے۔ اپنے غموں اور پریشانیوں، مصروفیتوں اور مشغولیتوں سے توکل علی اللہ کے سہارے باہر نکل آیئے۔ کیوںکہ وہی واحد ذات ہے جو کاشف الغم اور مفرج الہم ہے۔ جو اُس پر توکل کرے وہ کبھی نقصان میں نہیں رہتا۔ انسان کو ازخود اپنے اُوپر عائد کردہ پابندیوں اور ازخود پہنی ہوئی بیڑیوں سے خود کو آزاد کرنا چاہیے۔ اپنے آپ کو اَلم و حزن کی قید سے چھڑا لینا چاہیے۔ ان تمام چیزوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔یہ حبیب ِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع ہے۔ آپؐ دعا کیا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الھَمِّ وَالْحُزْنِ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبُنِ وَالْبُخْلِ ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدِّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَالِ
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکروغم سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں ناتوانی و سُستی سے اور بچائو چاہتا ہوں تیرے ذریعے بُخل اور بزدلی سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں قرض کے غلبے اور لوگوں کے سخت دبائو سے۔
اصلاحِ حال اور تزکیۂ نفس کا عمل اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک انسان دوسروں کو ایذارسانی کی ذہنیت سے کامل طور پر دست بردار نہ ہوجائے، لہٰذا کسی انسان کو تکلیف دینے، ایذاپہنچانے، اُس کا حق مارنے، اُس پر ظلم کرنے اور زیادتی کرنے کا تو ایک مومن سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہاں تو اُن لوگوں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک اور عفو و درگزر کی تعلیم ہے جو انسان کو دُکھ دے چکے ہوں، اُس کا حق کھا چکے ہوں، اُس پر ظلم ڈھا چکے ہوں۔ مومن اُن کے غلط اعمال کو اپنے نیک اعمال کے لیے رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ مومن کا رویۂ احسان اُن کے لیے بھی عام ہوتا ہے جو اُس کی جان کے دشمن ہوں۔ ماہِ رمضان موقع ہے ایسے لوگوں کے دلوں میں اُتر جانے کا، اُن کے نظریۂ زندگی کو بدل ڈالنے کا، اپنی پارسائی اور فطری شرافت کو اُن پر واضح کر نے کا، اُن کا دل بدل ڈالنے اور روشِ زندگی کا رُخ موڑ دینے کا!
دلوں میں کدورت، حسد اور بُغض پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب غیبت اور چغلی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ محفلوں اور مجلسوں کا مرغوب پھل بن گیا ہے۔ لوگ اپنی نشست و برخاست اور میل ملاقاتوں کے مواقع پر یہ پھل کھائے بغیر رہ نہیں سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان معلوم رہنا چاہیے کہ:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ o (الحجرات ۴۹:۱۲) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
غیبت سے بچنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم روزہ تو حلال رزق کھاکر رکھیں مگر افطار غیبت جیسی حرام چیز سے کرلیں۔
رمضان جہاں دوسروں کو معاف کردینے، درگزر سے کام لینے اور عفو و تسامح اختیار کرنے کا بہترین موقع ہے وہیں دوسروں سے اپنی کوتاہیوں اور خطائوں کی معافی مانگ لینے کا بھی سنہری موقع ہے۔ اپنے بُرے اعمال کا اعتراف اور اُن پر رب اور رب کے بندوں سے اعتذار کرلینا مومن کے ان اوصاف میں سے عظیم وصف ہے جنھیں قرآن نے بیان کیا ہے۔ یہ موقع ہے کہ قیامت کے روز دنیا کے ظلم کو ظلمات بننے سے روک لیا جائے۔ اپنی نیکیوں کو دوسروں کے نامۂ اعمال کی زینت بننے اور اُن کے ترازو کا وزن بننے کے بجاے اپنے ہی ترازو کے لیے محفوظ رکھا جائے۔ دوسروں کے گناہوں کو اپنے نامۂ اعمال کا ثقل مزید بننے نہ دیا جائے۔ لہٰذا موقع ضائع کیے بغیر متاثرین سے معافی مانگی جائے۔ زبانی کلامی اور تحریری و قلمی جس طریقے سے بھی ممکن ہو اُن سے اپنے قصور کی بخشش کا سوال کیا جائے۔ دوسروں سے انسان کا اعترافِ حق تلفی اِس کی اپنی عظمت و فضیلت اور دوسروں کے لیے درسِ حکمت ہے۔ اُن کے دل اِس عمل سے شاداں و فرحاں ہوجائیں گے اور معافی کا خواستگار اُن کی آنکھوں میں بہت بڑا بہادر اور انصاف پسندٹھہرے گا۔ حق تلفی کے مجرم کو فوراً ان سے معذرت کرلینا نہایت ضروری ہے، خصوصاً اُن لوگوں سے اپنے ظلم و ناانصافی کی معافی لینا اشد ضروری ہے جن کے اُوپر کیے گئے ظلم و ستم اور حق تلفی نے انسان کی نیند اُڑا کر رکھ دی ہو۔ راتوں کا چین غارت کر دیا ہو، ہر کروٹ کے ساتھ یہ احساس بیدار رہتا ہو، رات آنکھوں میں گزر جاتی ہو، رات بھر ضمیر ملامت کرتا اور جھنجھوڑتا رہتا ہو کہ اے انسان تو نے اِن مظلوموں کے ساتھ کیا کیا تھا؟
رمضان ماضی کے غم میں مبتلا رہنے اور ماضی کی ناکامیوں کے احساس میں اپنے آپ کو گھلانے کے بجاے مستقبل پر نظر رکھنے اور اُس کی تیاری اور منصوبہ بندی کرنے کا سبق دیتا ہے۔ ہمت اور حوصلے کو چار نہیںدس چاند لگا دیتا ہے۔ ناکامی کی جگہ کامرانی کا احساس پیدا اور نمایاں کرتا ہے۔ دل و ضمیر کو اُمید و رجا سے بھرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ حسرت و ندامت کے بجاے عزم و ہمت اور ارادہ و نیت کو عمل میں لانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ظالموں اور حق تلف کرنے والوں کو چھوڑ دینے، نظرانداز کرنے، اور اُن کے لیے ہدایت کی دُعا کرنے کا وقت ہے۔ اگر وہ راہِ راست پر نہیں آتے تو جان رکھو کہ اللہ حاکمِ عدل ہے وہ ایک روز اُن کے ظلم وستم کا حساب لے کر رہے گا۔
رمضان وہ فرصت اور موقع ہے جس میں بُرائی سے دُوری اور بھلائی سے دوستی میں نجات ہے۔ ہر مومن کو قرآنِ مجید کی ان دو آیتوں کی روشنی میں اپنا روزانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ط ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ط ھُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ o (الحج ۲۲: ۷۷،۷۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، اِسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیساکہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہوجائو اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملّت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا۔ اور اِس (قرآن) میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہوجائو۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔
(المجمتع: عدد ۲۰۱۱، ۲۰۱۳)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اذن و حکم سے قریشی عوام و خواص کے ستائے ہوئے مسلمانانِ مکہ نے سرزمینِ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ کیونکہ وہ بہ فرمانِ نبوی ’ارضِ عدل و صدق‘ تھی اور اس کے عادل حاکم نجاشی کے ملک میں کسی پر ظلم و جبر نہیں کیا جاتا تھا، حالاںکہ وہ ایک غیرعرب ملک تھا، جو بحراحمر کے پار افریقہ میں واقع تھا اور اس کا حاکم عقیدہ و مذہب کے لحاظ سے عیسائی تھا۔
قدیم ترین سیرت نگاروں کے سرخیل ابن اسحاق نے بلاسند یہ فرمانِ نبویؐ نقل کیا ہے: ’’تم لوگ سرزمین حبشہ میں چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ وہ پاک سرزمین ہے۔ وہاں اس وقت تک رہو جب تک اللہ تعالیٰ تمھارے معاملے میں کوئی کشادگی نہ پیدا کردے‘‘۔
اس حدیث کے دوسرے اطراف بھی ہیں، جو دوسری کتبِ سیرت و حدیث میں موجود ہیں۔ ابن اسحاق کی روایات کے ایک اہم خوشہ چیں ابن سیدالناس نے ان میں سے ایک کو بیان کیا ہے اور وہ امام عبدالرزاق کے ہاں روایت ہے۔ بخاری کی بحث ’ہجرۃ الحبشہ‘ کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اس کا دوسرا طرف مختلف الفاظ میں ابن اسحاق جیسا ہی نقل کیا ہے۔ امامانِ حدیث و سیرت اور ان کے شارحین کرام نے نہ اس حدیثِ نبویؐ پر بحث کی ہے اور نہ اس کے ماخذ و سرچشمہ کا حوالہ دیا ہے۔۱؎ بہر کیف یہ واضح ہے کہ وہ وحی الٰہی اور ہدایتِ ربانی پر مبنی فرمان تھا، کیوںکہ آپؐ کی احادیث بھی قرآنی وحی کی طرح وحی ربانی ہوتی تھیں۔ ظاہری طور پر یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ رسولِ اکرمؐ اپنی حکمتِ بالغہ سے مختلف امصار و دیار اور ان کے اکابر کے بارے میں واقفیت رکھتے تھے۔ ۲؎
نبوت کے پانچویں اور چھٹے سال مختلف قریشی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ۱۰۰مسلمان مختلف مرحلوں میں حبشہ کو ہجرت کرگئے۔ ان میں بیش تر نوجوانانِ قریش تھے، جن میں کنوارے بھی تھے اور شادی شدہ بھی، جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ مامون ملک میں پناہ لینے گئے تھے۔ ان کی حفاظت کی خاطر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہِ حبشہ نجاشی کو فرمان نامہ بھی ارسال فرمایا تھا، جس میں ان کو قریشی مظالم سے بچانے کا مضمون تھا۔
روایات کے مطابق بنو ہاشم و بنومطلب کے شیخ اور رسولِ اکرمؐ کے چچا ابوطالب بن عبدالمطلب ہاشمی نے بھی بعض خطوط لکھے تھے۔ مہاجرینِ حبشہ کے بیانات کو رسولِ اکرمؐ کے فرمانِ وحی آمیز نے مستند کیاتھا اور خطوطِ ابوطالب نے ایک شیخِ مکہ کی درخواست سے اس کو مزید سیاسی اور سفارتی تقویت پہنچائی تھی۔ مکی مہاجرینِ حبشہ کی ایک پڑوسی ملک میں سکون واطمینان کی زندگی اور اپنے دین و مذہب کے مطابق عبادت گزاری،دشمن اکابر قریش کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ انھوں نے قومی مجلس میں بحث و فیصلہ کے مطابق پناہ گزیں اہلِ مکہ کو حبشہ سے واپس لانے کا منصوبہ بنایا اور زیرک و حکیم سفارت کاروں کے وفود بھیجے۔
حضرت عمرو بن العاص سہمیؓ ، جو دور جاہلی میںاپنی حکمت و دانش اور سفارت کاری کے داؤ پیچ اور سیادت و سیاست کے فن کے ماہر تھے، وہی سربراہِ وفود رہے تھے، مگر ان کے تمام سماجی، دینی، علاقائی اور سفارتی کارناموں کا نتیجہ صفر رہا اور وہ پناہ گزینوں کو واپس لانے میں ناکام رہے۔ ان کے بعض ارکانِ وفد اور مکہ مکرمہ کے بہت سے اکابر و شیوخ مظالم کے خلاف بھی تھے اور پناہ گزیں مہاجرین کے خلاف سخت اقدامات کے مخالف بھی کہ وہ بہرحال ان کے ا پنے عزیز و قریب تھے اوران سے خون و قرابت کے گہرے رشتے تھے، کیاہوا کہ وہ جدا دین رکھتے تھے۔ ۲؎
غریب الوطنی، عزیزوں اور رشتہ داروں سے مفارقت اور مقامی لوگوں کے استہزاء وغیرہ کا مداوا کوئی حکومت نہیں کرسکتی۔ طاقت و حکومت کے ذریعے قانون بنایا اور نافذ کیا جاسکتا ہے اور نجاشی نے وہ کیا بھی، لیکن سماجی خوف اور پریشان حالی کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ نجاشی نے بہر حال قوانین کے ذریعے مہاجرینِ حبشہ کی حفاظت کے ساتھ سماجِ غیر میں مہذب سلوک کی جدوجہد بھی کی۔ قانونی طور سے ان کا ایک عادلانہ کام یہ تھا کہ اگر کوئی حبشی یاعیسائی شہری مسلم مہاجرین میں سے کسی کو کسی قسم کی اذیت دے گا تو اسے چار درہم جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ غالباً اس کے بعد بھی زبانی تعذیب اور سماجی طنز و تشنیع کا سلسلہ کسی حد تک جاری رہا تو مہاجرین کی درخواست پر کہ یہ رقمِ جرمانہ روک تھام میں ناکافی ہے، نجاشی نے اسے دوگنا یعنی آٹھ درہم کردیا۔ یہ تدبیر خاصی مؤثر رہی۔
تاہم غیرملک میں مہاجرین حبشہ کے ساتھ بیگانگی اور سرد مہری کا جو سلوک ہوتا رہا، وہ بھی سوہانِ روح تھا، جیسا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب ہاشمیؓ کی زوجۂ مہاجرہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ کا بیان صحیح بخاری وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ حکومتی اور انتظامی سطح پر بہرحال حضرت نجاشی نے ایک دوسرا حکم جاری کیا کہ مہاجرینِ حبشہ کے لیے کھانے اور کپڑے کا انتظام سرکاری خزانے سے کیا جائے: أمَرَ لَنَا بِطَعَامٍ وکِسوَۃٍ جیسا کہ ابن کثیر نے حافظ ابونعیم کی دلائل النبوۃ کی بنا پر لکھا ہے۔ سرکاری کفالت کا یہ اقدام صرف اس بنا پر کیا گیا کہ حکم راں مہرباں اور عادل تھا اور مقامی آبادی کی اکثریت بے نیاز و بے مروّت تھی۔۳؎
قدیم جاہلی دور سے قریشِ مکہ اور دوسرے طبقات اور خاندانوں کے حبشہ سے گہرے تجارتی تعلقات چلے آرہے تھے۔ وہ مکی دورنبوی میں بھی جاری رہے اور قریشی اکابر اورمکی سوداگر برابر عرب حبشہ تجارت کے باہمی کاروبار میں مشغول رہے تھے۔ عربی اور قریشی تاجر ہر سال کے ہرزمانے میں حبشہ تجارت کے لیے مسلسل آتے رہتے تھے، کیوںکہ وہ ان کی خاصی اہم تجارتی منڈی تھی۔ یہاں تک کہ جب قریشی وفود اوران کے اشراف و سفارت کار مہاجرینِ حبشہ کے انخلا اور خروج کے مقصد سے گئے تو سامانِ تجارت ساتھ لے گئے۔
یہ در اصل قریشی اور عرب تجارت کا ایک اصول و دستور تھا کہ جنگ وامن کسی بھی موقعے پر تجارت اور کاروبار کو نہیں بھولتے تھے۔ حبشہ میں مکی سامانِ تجارت میں چمڑے کے سامان -کھالوں اور دوسری مصنوعات-کی بڑی مانگ تھی اور وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لاتے تھے۔ اسی طرح حبشی تاجر و کاروباری عرب کی مختلف منڈیوں، خاص کر مکہ اور طائف کے قرب و جوار کے علاقوں میں مختلف سامانِ تجارت لاتے تھے۔ روایاتِ سیرت مہاجرینِ حبشہ کی تجارتی سرگرمیوں اور ان کی شاہی محافظت و مراعات کے بارے میں خاموش ہیں، لیکن دوسرے سماجی شواہد اور دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ مہاجرینِ حبشہ کی اتنی بڑی تعداد مدتوں تک محض مراحم خسروانہ پر زندہ نہیں رہی تھی۔ اول تو حکومتی وظائف کھانے کپڑے ہی کا مستقل بار نہ سنبھال سکتے تھے، تو دوسرے اخراجات و ضروریات کے لیے کیا سامانِ کفالت کرتے۔ دوسرے تمام مہاجرینِ حبشہ قریشی اشراف خاندانوں کے جوان و خود دارافراد تھے اور اپنی مکی زندگی میں تجارت و کاروبار میں مقام بنا چکے تھے۔
قیاس ہے کہ وہ اپنی مہاجرت کے زمانے میں اپنی ضروریات کی تکمیل کاروبار و تجارت سے کرتے تھے اور ملکی تجارت میں حصہ لیتے تھے۔ اس پر ابھی تحقیق باقی ہے، مگر ہجرتِ مدینہ کے بعد مہاجرینِ مکہ انصار کے بے مثال ایثار کے بعد جس طرح تجارت و کاروبار کرنے لگے تھے، اسی طرح وہ ہجرتِ حبشہ کے قیام کے زمانے میں بھی ضرور کرتے رہے ہوںگے۔ اس قیاس کو تقویت اس سے ملتی ہے کہ متعدد مہاجرینِ حبشہ نے بعد میں ہجرتِ مدینہ کرکے دوہری مہاجرت کاتجربہ اور اجر و ثواب حاصل کیاتھا، وہ کسی طرح اپنے معاشی معاملے سے رُوگردانی نہ کرسکتے تھے کہ وہ ان کے خون میں شامل تھا۔ ان میں: حضرت عثمان بن عفان اموی، عبدالرحمن بن عوف زہری، زبیر بن عوام اسدی، ابوحذیفہ بن عتبہ عبشمی، ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومی، عثمان بن مظعون جمحی، عمرو و خالد فرزندانِ سعید بن العاص اموی رضی اللہ عنہم جیسے تجربہ کار اور مکی دور میں مسلمہ تجارِ قریش تھے اور دوسروں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ ان کے علاوہ متعدد حضرات و خواتین صنعت و دست کاری کے پیشے سے وابستہ رہے تھے اور متعدد مہاجرین کا مشغلہ مزدوری کا رہا تھا۔ قوی امکان ہے، بلکہ قریب قریب وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مہاجرینِ حبشہ نے حصولِ معاش کے روایتی طریقے اپنائے تھے اور حکومت نے ان کو مراعات دی تھیں۔۴؎
روایاتِ سیرت و تاریخ اور احادیث و آثار کا اتفاق ہے کہ مہاجرینِ حبشہ کی ایک بڑی تعداد وہاں آباد و مقیم رہی۔ اگرچہ اکابرِ مکہ کے اسلام لانے کی خبر سن کر ایک بڑی تعداد مکہ مکرمہ لوٹ آئی تھی اور وہاں سماجی تحفظ کے نظام کے تحت بعض سرداروں کے تحفظ و جوار میں اپنے اپنے گھروں اور خاندانوں میں رہنے لگی تھی۔ مہاجرین کی بقیہ تعداد واپس حبشہ چلی گئی اور شاہ نجاشی نے ان کو وہی تحفظ فراہم کردیا۔ بعد کے واقعات و روایات اور شاہ نجاشی کے عادلانہ اور خسروانہ طریق سے یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان مہاجرین کی آمد و رفت میں حکومتِ وقت نے مالی یا مادی امداد فراہم کی تھی، جیسے مہاجرینِ حبشہ کے آخری انخلا کے وقت نجاشی نے کشتیوں کا انتظام کیا تھا۔ حبشہ واپس جاکر دوبارہ بسنے والے مہاجرین کی تعداد تیس چالیس کے درمیان بتائی جاتی ہے ۔ یہ لوگ وہاں قریب قریب دس بارہ سال مزید مقیم رہے اور ان کے بال بچے پیدا ہوئے، جنھوں نے سماجِ حبشہ میں پرورش پائی۔ اس میں تعلیم و تربیت اور دوسرے سماجی معاملات بھی شامل تھے۔۵؎
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اور ان کے ساتھ اشعری اور دوسی مہاجرین کا ایک نیا دستہ حالات کے ہاتھوں حبشہ جا پہنچا۔ طوفانی ہوائیں ان کی کشتیوں کو مدینہ منورہ لے جانے کے بجائے حبشہ کے ساحل پر لے گئیں، حالاںکہ وہ ہجرتِ نبوی کی خبر سن کر مدینہ کے قصد سے نکلے تھے۔ ان کی تعداد کافی تھی۔ بخاری وغیرہ کی روایات کے مطابق حضرت جعفر بن ابی طالب ہاشمیؓ کے مشورے پر وہ حبشہ میں ہی مقیم رہے کہ ان کے لیے یہی اذنِ نبوی تھا۔ ابن اسحاق وغیرہ نے مکی مہاجرین کے بقیہ افراد کی آخری واپسی کے واقعہ میں ۳۴؍ افراد کے اسماء گرامی خاندان وار گنائے ہیں ۶؎ ،لیکن ان کے ساتھ نہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے ساتھ اشعری اور دوسی مہاجرین حبشہ کی واپسی بیان کی ہے، نہ ان کے نام لیے ہیں اور نہ ان کی تعداد ذکر کی ہے۔
دوسری روایات اور شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان یمنی مہاجرین حبشہ کی تعداد ایک سو کے قریب یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔ ہجرتِ نبوی کے بعد کم از کم ڈیڑھ سو مہاجرینِ حبشہ کی حفاظت و کفالت اور سرپرستی و وکالت کا منصفانہ کارنامہ نجاشی نے انجام دیا تھا۔۷؎ اسی کے ساتھ رسول اکرم ؐ کے قاصدِ خاص حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ اور ان کے قافلہ و وفد کی مہمان داری اور ضیافت بھی وہ کرتے رہے تھے۔ مکی اور مدنی دونوں ادوار میں قاصدینِ نبوی اور دوسرے اسلامی وفود کا مرکزِ نبوت سے حبشہ جانا ایک مسلّمہ امر ہے اور ان کا دورانیہ بھی خاصا تھا۔۸؎ اس پورے دور میں حضرت نجاشیؓ نے اور ان کے بعد ان کے جانشین نے پورے تحفظ و حمایت اور کفالت و سرپرستی کا شان دار کارنامہ انجام دیا تھا۔
بحث کا دوسرا حصہ حبشہ میں حضرت نجاشیؓ کی اشاعت و تبلیغ دین کی مساعی پر مشتمل ہے، جو ایک طویل مدت تک جاری رہا۔ یہ سنہ ۵-۶ نبوی / ۶۱۵-۶۱۶ عیسوی میں ہجرتِ حبشہ کے آغاز سے سنہ ۷ھ/۶۲۹ء میں تمام قریشی اور یمنی مہاجرین کی مدینہ واپسی تک تقریباً تیرہ چودہ برسوں کا عرصہ ہے۔ یہ کوششیں نجاشی کے فرزند و جانشین نے بھی بعد میں جاری رکھیں۔ ان کے کئی پہلو اور جہات ہیں اور ان سب کے اثرات و نتائج بھی کافی موثر و نتیجہ خیز رہے تھے۔ ان کا ذکر آیندہ سطور میں ایک منطقی ترتیب سے کیا جاتا ہے۔
روایاتِ سیرت و تاریخ اور آثار و احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ معاصر اولین نجاشی حضرت اصحمہ بن ابجرؓ نے دربار میں حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی تقریر اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سننے کے بعد نہ صرف آپؐ کی تصدیق کی تھی، بلکہ اسلام بھی قبول کرلیا تھا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے اسلام کو چھپایا تھا، تاکہ ان کے مذہبی رہ نما (بطارقۃ) اور دوسرے امرا ہنگامہ نہ کھڑا کردیں، جب کہ بعض دوسری روایات و احادیث سے حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ حضرت نجاشی اولؓ نے سفیرانِ نبوی کے ذریعے اپنے خطوط و پیغامات میں اور مہاجرینِ حبشہ کے واسطے سے بھی اپنے اسلام قبول کرنے کا ذکر کیا تھا اور خدمتِ نبوی میں اس کا اقرار و اظہار کرنے کا ولولہ دکھایا تھا۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت نجاشیؓ نے امورِ مملکت اور حکم رانی کی مکروہات میں مبتلا ہونے کے سبب بارگاہِ نبوی میں حاضری سے معذرت کی تھی، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی عرض بھیجی تھی کہ حکم ہو تو سب کچھ تج کرکے حاضرِ خدمت ہوکر قدم بوسی کروں، تاکہ اسلام کے اثبات کے ساتھ شرفِ صحبت بھی مل جائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اظہارِ ایمان، اقرارِ اسلام، تصدیقِ رسالت، محافظتِ مہاجرین اور کفالتِ پناہ گزین کو کافی سمجھا،ان کو مکہ مکرمہ یا مدینہ آنے کی اجازت یا اذن نہیں دیا کہ اس کے بغیر ہی ان کا سچ ثابت تھا اور حبشہ کی فرماں روائی اور حکومت پر ان کا تصرف عظیم اسلامی مصالح کا ضامن تھا۔ ان کے حبشہ سے مرکزِ نبوت میں آبسنے سے بہت سے فوائد و ثمرات سے محرومی ہوجاتی۔ حضرت نجاشیؓ نے اپنی وصیت میں بھی اپنے اسلام لانے کاا علان و اقرار کیا تھا اور اسے اپنے سینۂ صدق و صفا پر چسپاں کرلیا تھا۔ انھی اسباب اور شواہد کی و جہ سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات کی خبر سن کر ان کی غائبانہ نمازِجنازہ صحابہ کے ساتھ پڑھی تھی۔ حضرت اصحمہ بن ابجرؓ کے انتقال کے بعد ان کے جانشین نجاشی حضرت ابونیزر عبداللہ بہ حیثیت مسلم تاج دارِ حبشہ حکومت کرتے رہے اور مطیعِ مرکز رہے۔۹؎
بعثتِ محمدی کا واقعہ اہل کتاب میں یہود و نصاریٰ دونوں کے لیے رسول آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مبارک کی بشارتِ انبیاء کے وعدۂ ربانی کا ایفا تھا۔ ان کی کتبِ سماوی (تورات و انجیل وغیرہ) میں اوصافِ محمدی ہی نہیں، خصائص و صفاتِ صحابۂ کرام بھی بیان کی گئی تھیں۔ نصاریٰ خاص طور سے رسول کریمؐ کی آمد و ظہور کے منتظر تھے کہ ان کے رسول معظم حضرت عیسٰی ؑ نے اپنے بعد احمدؐ کی نبوت و رسالت کی بشارت دی تھی۔ روایاتِ سیرت و حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر جلد ہی عام ہوگئی تھی۔ مکہ مکرمہ، یثرب وغیرہ کے نصاریٰ اور ان کے احبار و علماء نہ صرف اس خبر و واقعہ سے واقف ہوچکے تھے، بلکہ کئی نے آپ کی تصدیق بھی کی تھی۔۱۰؎
بعض روایات میں ہے کہ بعثتِ نبوی کے اولین عرصے میں ہی حبشہ کے نصاریٰ کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خبر مل گئی تھی اور ان کا ایک بیس نفری وفد تحقیقِ احوال اور زیارت و ملاقات کے لیے ہجرتِ حبشہ سے قبل مکہ آیا اور مسجد حرام میں آںحضرتؐ سے ملا۔ ان کے علماء اور صاحبانِ فکر و دانش نے سلام و کلام اور تعارفی بات چیت کے بعد متعدد دینی امور پر بحث و ومذاکرہ کیا۔ آپؐ نے ان کے سوالات کے جوابات دیے، ان کو قرآنی آیات سنائیں، چنانچہ وہ آپ کی حقانیت سے مطمئن ہوگئے اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
دوسری روایات اور ان پر اہل علم کی تحقیقات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حبشہ کے نصاریٰ کا اولین وفد آپؐ کی خدمت میں ہجرتِ حبشہ کے بعد آیا تھا۔ بہرحال اس کا بھی امکان ہے کہ ایسے دو وفود مکہ مکرمہ کے زمانے میں آئے ہوں کہ واقعات کے تعدّد کا امکان بہ قول محدثین ہمیشہ رہتا ہے۔ تمام اختلافاتِ روایات سے قطعِ نظر یہ حقیقت مسلّم ہے کہ بہ ہر کیف مکی دور میں حبشہ کے نصاریٰ کی ایک جماعت نے دستِ نبوی پر اسلام قبول کیا تھا۔۱۱؎
ابن اسحاق نے اس وفدِ نصاریٰ کا ذکر تفصیل سے کیا ہے اور ان کے ضمن میں سورۂ قصص کی آیاتِ کریمہ : ۵۲-۵۵ کے نزول کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے نصاریٰ کے اس وفد کے بارے میں یہ خیال کہ وہ نجران سے آیا تھا ، غلط قرار دیا ہے اور اس کو’یُقال‘ کے صیغۂ تضعیف سے نقل کیا ہے۔ انھوں نے مزید بیان کیا ہے کہ مسجد حرام کے صحن میں اکابرِ قریش کی مجالس میں ان کے حاضرین بھی اس واقعہ کے شاہد تھے اور سخت مضطرب بھی۔ ابوجہل مخزومی حسبِ فطرت برداشت نہ کرسکا تو وفد کے ارکان سے الجھ پڑا اور ان کو سخت سرزنش کی کہ تمھارا وفد بدترین ہے، اللہ تمھیں غارت کرے، تمھارے لوگوں نے تم کو بھیجا تھا کہ اس شخص کے بارے میں خبر لے کر آؤ، لیکن تم اس کی مجلس میں بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ دیا اور اس کا دین قبول کرکے تصدیق بھی کی۔ ارکانِ وفد نے صبر وثبات سے جواب دیا کہ ’’سلام علیکم، ہم آپ سے اپنی بات پر جہالت بھری بحث نہیں کریں گے، آپ کا موقف آپ کے ساتھ اور ہم نے جو صحیح سمجھا اسے اختیار کرلیا‘‘۔ دوسرے سیرت نگاروں نے بھی اس وفد اور اس کے قبول اسلام کے واقعات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔۱۲؎
سیرت نگاروں اور مورخوں نے مدنی عہد نبوی میں صرف ایک اور حبشی وفد کی آمد اور زیارتِ نبوی کا ذکر کیا ہے۔ روایات کے مطابق یہ وفد ۷۰؍ افراد پر مشتمل تھا اور حضرت جعفر بن ابی طالب ہاشمیؓ کے زیر قیادت مہاجرینِ حبشہ کے آخری حصہ کی وطن واپسی پر ساتھ آیا تھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ وہ سب قدیم مسلمان تھے، یعنی بارگاہِ رسالت میں حاضری سے قبل اپنے ملک میں ہی اسلام لاچکے تھے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ مدینہ میں زیارتِ نبوی کے موقع پر آپ کے دستِ مبارک پر اسلام لائے۔ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔۱۳؎
واقعہ تو یہ تھا کہ وہ تمام حبشی افراد پہلے اسلام لاچکے تھے۔ مدینہ حاضری پر انھوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعتِ اسلام کی۔ یہ تطبیق کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ واقعاتِ قبولِ اسلام کا ایک خاص فطری، نفسیاتی اور سماجی رجحان ہے، جو بار بار نظر آتا ہے۔ عرب بدوی قبائل کے افراد کا معاملہ ہو یا خاص مکہ و مدینہ کے افراد کا یا دوسرے دیار و امصار کے افراد و طبقات کا، وہ اسلام تو دعاۃ و مبلغین کی دعوت پر لاتے تھے اور اپنے اپنے علاقوں میں اسلامی تعلیمات کے خوگر اور عامل بن جاتے تھے۔ ان کی عقیدت و شیفتگی بعد میں موقع ملتے ہی کشاں کشاں بارگاہِ رسالت میں لے جاتی اور وہ آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے۔ اہلِ سیرت اسے اسلام لانے سے تعبیر کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک دستِ نبوی پر اسلام لانا شاید مزید شرف کا نام تھا۔۱۴؎
دوسرے وفود میں ایک کا حوالہ اسدالغابہ میں ملتا ہے کہ غزوۂ بدر کی فتح کے بعد نجاشی اور حبشی امت مسلمہ کو خوشی ہوئی۔ بعض دوسری روایات میں ہے کہ بدر کی فتح کی خوش خبری نجاشیؓ نے اپنے لوگوں کے ساتھ مہاجرینِ حبشہ کو سنائی تھی۔ بہرحال اسدالغابہ کے مطابق مسلمانانِ حبشہ کے ایک گروہ نے نجاشیؓ سے اجازت مانگی کہ وہ زیارتِ نبوی کے لیے مدینہ جائیں۔ اجازت ملی اور وہ مرکزِ اسلام حاضر ہوئے۔ وہ وقت غزوۂ احد کا تھا۔ انھوں نے اذنِ نبوی سے غزوۂ احد میں شرکت کی سعادت پائی۔ ایسے اور بھی وفود ہوسکتے ہیں اور اگر واقعات و روایات ان کی تصدیق نہیں کرتے تو بہرحال اس حقیقت کی تائید تو کرتے ہی ہیں کہ مکی اور مدنی دونوں ادوار میں حبشی امتِ اسلامی کی تشکیل و تعمیر میں مہاجرینِ حبشہ، ان کے اپنے مبلغین اور نجاشیؓ کی دعوت و تبلیغ کا خاصا گہرا اثر پڑا تھا اور ان کے سبب سے وقتاً فوقتاً حبشی افراد و طبقات اسلام لاتے رہے تھے۔ ان کا ذکرِ خیر تراجمِ صحابہ کی کتابوں میں ملتا ہے، جسے مولانا مجیب اللہ ندویؒـ نے اپنی کتاب میں جمع کردیا ہے۔ ان کے تجزیہ سے اسلام کی اشاعت کا ایک مرقع بنایا جاسکتا ہے۔۱۵؎
قریشی قائدین کے صفِ اول کے سالار، سیاست و سفارت کے اعلیٰ جان کار اور قوم و ملت کے مرد حکیم تھے حضرت عمرو بن العاص سہمیؓ، جو مختلف اسباب سے اسلام کے مخالف اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے اور غزوات میں مقابلہ آرائی کرتے رہے۔ مکی دور میں ان کی مخالفتِ اسلام میں سیاست و سفارت کاری اور حکمت و دانش کا مظاہرہ ان قریشی وفود میں ہوا جو مہاجرینِ حبشہ کو کسی طرح نجاشی کے عادلانہ نظام سے نکال کر قریشی مظالم کی چکی میں پیسنے کے لیے اپنی قوم کے معاند اکابر کے ساتھ کرتے رہے تھے۔ غزواتِ بدر و احد و خندق میں اپنی فوجی ناکامیوں اور رسولِ اکرمؐ کی قائدانہ کامیابیوں سے وہ اسی طرح دل برداشتہ ہوئے تھے جس طرح حبشہ میں اپنی سفارت کاریوں کے انجام سے۔ اس کے باوجود وہ اسلام کے بارے میں اپنی فکر و دانش کا رخ صحیح نہیں کرسکے۔ صلح حدیبیہ کے معاہدہ نے ان کو مزید شکستہ خاطر کردیا، لہٰذا وہ گوشۂ عزلت میں جابیٹھے اور یہ ان کی ناکام سیاست کا ایک نشان بن گیا۔ اس گوشہ تنہائی میں ان کو ایک خیال سوجھا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ حبشہ جابسیں، تاکہ محمدؐ کے تسلّط و غلبہ کے سبب وہ حمایت و حفاظتِ نجاشی کی بنا پر محفوظ و مامون رہیں۔ اس زمانے میں بھی ان کو اسلام کا غلبہ تو نظر آرہا تھا، لیکن اس کو قبول کرنا منظور نہ تھا۔
قومی و خاندانی حمایت و تائید سے حضرت عمرو بن عاص سہمیؓ دربارِ نجاشی میں اس وقت پہنچے جب رسولِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر خاص حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ اپنے سفارتی وفد کے ساتھ موجود تھے، تاکہ بقیہ مہاجرینِ حبشہ کو واپس مرکز اسلام لے جاسکیں اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان اموی رضی اللہ عنہما سے کراکے ان کو بہ طور اُم المومنین رخصت کراکے مدینہ پہنچائیں۔ ۱۶؎ دربارِ عام میں حضرت نجاشیؓ کو سفیرِ نبوی سے محوِ کلام دیکھا تو ان کے دماغ میں مخالفتِ اسلام اور عنادِ رسول کا کیڑا پھر کلبلایا۔ انھوں نے اپنے رفقاء خاص کی تائید و حمایت سے سفیرِ نبوی کو قتل کرکے قریش کا دل ٹھنڈا کرنے کا منصوبہ بنایا اور دربار خاص اور بارگاہ خلوت میں حضرت نجاشیؓ سے اپنی قدیم دوستی اور دیرینہ تعلقات کی وجہ سے جسارت کی اور سفیرِ نبوی کو براے قتل مانگ لینے کی درخواست کرڈالی۔
نجاشیؓ اس جسارتِ بے جا پر اتنے غضب ناک ہوگئے کہ ان کے چہرے پر مکّا مار کر ان کی ناک لہو لہان کردی اور ان کو سخت شرم سار کیا۔ نجاشیؓ نے ان کی عقل و فہم سے اپیل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر کو طلب کرتے ہو؟ حالاںکہ وہ سچے رسول ہیں اور ان کے پاس وہی ناموسِ اکبر آتا ہے، جو حضرات موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام پر نازل ہوا کرتا تھا۔ ابھی تک تمھاری فراست اس حقیقت کو نہ پاسکی؟ عالمِ شرمندگی میں ان کے قلب و نظر سے بغض و عناد کے پردے اُٹھ گئے اور وہ سمجھ گئے کہ اس حق کلی کو تمام عرب و عجم نے جان لیا ہے اور نجاشیؓ نہ صرف معرفتِ حق سے سرفراز ہیں، بلکہ سچے رسول پر ایمان بھی لاچکے ہیں۔ معرفتِ حق کا جلوہ دیکھتے ہی انھوں نے حضرت نجاشیؓ سے رسالتِ محمدیؐ کی تصدیق چاہی تو وہ فوراً ملی اور اسی کے ساتھ ان کے قلب و روح میں اسلام سماگیا۔ انھوں نے شاہ حبشہ سے اسلام اور رسالت محمدیؐ پر بیعت لینے کی درخواست کی، جو فوراً قبول ہوئی اور حضرت عمرو بن العاصؓ مسلمان ہوگئے۔
دربارِ خاص میں حضرت عمرو بن العاص سہمیؓ کو خلعتِ شاہی سے نوازا گیا۔ روایت کا اصرار ہے کہ وہ ان کے لباس کے خون آلود ہونے کے سبب بہ طور عطیہ ملا تھا، جب کہ شاہ نجاشیؓ کا عطیہ دراصل ان کے اسلام کے خلعتِ خاص سے سرفراز کرنے کا تھا اور وہ نو مسلم کا حق بھی تھا۔ حضرت عمرو بن العاص سہمیؓ کے دل میں صرف ایک دھن سوار تھی کہ کسی صورت میں وہ سیدھے بارگاہِ نبوی میں پہنچ جائیں۔ باہر نکل کر انھوں نے رفقاے وفد سے ضروری کام کا بہانہ بنایا اور سیدھے ساحلِ سمندر پر پہنچے اور ایک کشتی میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ شعیبہ کی بندرگاہ پر اترے، اونٹ کی سواری کی اور مرالظہران سے ہوتے ہوئے مقام ہدہ پہنچے، تو دیگر قریشی قائدین و منصب دار حضرات خالد بن ولید مخزومی اور عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوگئی، جو اسلام لانے کے لیے مدینہ جارہے تھے۔ یہ ان کے ساتھ ہوگئے۔ یہ قافلۂ ہدایت بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا اور آپؐ کے دست مبارک پر اسلام لایا۔ یہ حضرات خالد و عثمان رضی اللہ عنہما کا اولین قبولِ اسلام تھا اور حضرت عمرو سہمیؓ کا تائیدی، کہ اسلام تو انھوں نے حضرت نجاشیؓ کے دستِ حق پرست پر قبول کیا تھا اور اسے اپنے رفقاء اور زمانے سے مخفی رکھا تھا۔
اوائل سنہ ۷ھ/۶۲۹ء میں حضرت نجاشیؓ کے ہاتھ پر ایک عظیم قائدِ قریش اور مدبرِ قوم کا اسلام لانا ایک سادہ واقعہ نہیں ہے، بلکہ وہ متعدد دینی اور سماجی جہات اور حکمتیں رکھتا ہے، جن سے بالعموم بحث نہیں کی جاتی۔ امامانِ سیرت و تاریخ ابن اسحاق و واقدی کی متفقہ روایت اور بعد کے دوسرے اہل سیرت و تاریخ کی تائیدی روایات سے ان کا ایک اندازہ ہوتا ہے:
۱- ابن اسحاق / ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، حمدی طباعت، قاہرہ ۲۰۰۶ئ، ۱/۲۰۴ ومابعد ؛ سہیلی، الروض الانف، مرتبہ عبدالوکیل، قاہرہ، غیر مورخہ، ۳/۲۰۳-۲۱۵ ومابعد؛ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دار صادر بیروت، ۱۹۵۷ئ، ۱/۲۰۳-۲۰۸؛ ابن سیدالناس، عیون الاثر، قاہرہ ۱۹۲۷ئ، ۱/۱۵۱-۱۵۸؛ ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ ، مصر ۱۹۳۲ئ، ۳/۶۶-۷۹؛ نیز بخاری / فتح الباری: ۷/۲۳۵-۲۳۸ ومابعد؛ بلاذری، انساب الاشراف، قاہرہ ۱۹۵۹ئ، ۱/۱۹۸-۲۰۵
۲- ابن اسحاق / ابن ہشام، سہیلی، بخاری، فتح الباری وغیرہ کے مباحث ہجرتِ حبشہ میں وارد روایات کا تجزیہ راقم نے اپنی کتاب ’مکی اسوۂ نبوی‘ میں کیا ہے۔ نجاشی کے نام نامۂ نبوی کا ذکر ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے طبری کے حوالے سے کیا ہے۔
۳- ابن ہشام ، ۲/۳۶۰-۳۶۱؛ سہیلی ، ۳/۲۴۸ وغیرہ؛ فتح الباری، ۷/۲۳۷-۲۳۸ اور ۶۰۵-۶۰۸؛ ابن کثیر ۳/۷۰-۷۱؛ مولانا مودودی، سیرت سرورِعالمؐ، ۲/۵۹۲ ومابعد بحوالہ ابن عساکر وطبرانی۔
۴- ابن ہشام ، ۱/۳۵۷؛ سہیلی ، ۳/۲۴۴؛ مولانا مودودی، ۲/۵۶۹؛ مکی اسوہ نبوی، ۱۲۰-۱۲۲
۵- ابن اسحاق/ ابن ہشام، ۳/۲۲۹-۲۳۵ وغیرہ؛ مکی اسوہ نبوی ، حوالہ سابق
۶- ابن اسحاق کے علاوہ بلاذری میں قریشی مہاجرین کی تعداد چالیس بیان کی گئی ہے۔ فتح الباری ، ۷/۶۰۷ میں اس پر مزید بحث ہے۔
۷- حدیث بخاری (۴۲۳۰) میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے مطابق ان کی قوم کے بضع و خمسین (۵۰ سے زائد) ثلاثۃ وخمسین (۵۳) یا اثنین وخمسین (۵۲) افراد کی تعداد تھی۔ کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر؛ فتح الباری، ۷/۶۰۵-۶۰۷ ومابعد وغیرہ۔ بحث حافظ ابن حجر میں ۵۰؍اشعریوں کے علاوہ چھ افراد قبیلہ / خاندان عک کے بھی ان کے ساتھ تھے، جو حافظ ابن مندہ کی اس روایتِ بخاری کا دوسرا طرف ہے اور جسے امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کی تطبیق کی ہے۔ اصل روایتِ بخاری میں مردوں (رجال) کی تعداد ہے اور ان میں بالعموم عورتوں اور بچوں کو شامل نہیں کیا جاتا، جیسا کہ عرب راویوں، سیرت نگاروں اور محدثین کرام کا عام طریقہ ہے۔ ابن سعد ، ۲/۱۶۸۔ وفد الاشعریین میں پچاس اشعری اور صرف دو عکی مرد ان کار (رجال) کا ذکر ہے۔ ایسے اختلافات اور بھی ہیں، جن پر بحث کا یہ موقع نہیں ہے۔
۸- حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کے ایک سے زیادہ وفود لے جانے کا ذکر ملتا ہے۔ وہ مکی دور سے مدنی دور تک کئی بار فرامینِ نبوی دربار نجاشی میں لے گئے تھے۔ ظہور احمد اظہر، ’شاہِ حبشہ، خدمت نبویؐ میں‘ ۲۰۱۳ئ، لاہور،۱۸۶، ۱۹۰ و مابعد میں ان کے وفود پر بحث ہے اور دوسرے معاملات پر بھی، خاص کر حضرت نجاشیؓ کی خاطر مدارات اور تحفظ و مراعات پر۔
۹- مکی اسوۂ نبویؐ، ۱۲۸-۱۳۱، جس کے مآخذ یہ ہیں: ابن کثیر ، ۳/۷۰: فأنا أشہد أنہ رسول اللہ وأنّہ الذی بشّر بہ عیسٰی ، ولولا ما أنا فیہ من الملک لآتیہ حتی أقبّل نعلیہ‘‘ ، ۳/۷۲،بہ روایت حافظ ابونعیم؛ ۳/۷۷ میں ان کی وصیت کی دستاویز کے لیے۔ بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب موت النجاشی؛ فتح الباری، ۷/۲۴۰-۲۴۱؛ کتاب الجنائز، مختلف ابواب، مسلم، کتاب الجنائز؛ نیز ابن ہشام ، ۱/۳۶۱ وما بعد؛ سہیلی ، ۳/۳۴۸-۲۵۲ وغیرہ۔ نیز ظہور احمد اظہر کے دوابواب ۴۲-۸۷۔
۱۰- قرآن مجید کی متعدد مکی اور مدنی آیات کریمہ میں انبیاء کرام کی بشارتیں اوران کی کتابوں اور صحف میں آپ کا ذکر خیر ملتا ہے۔ جیسے سورۂ فتح کی آخری آیت : ’’مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہ الخ؛ سورۂ صف : ۶ میں بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام: وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَّاتِی مِن بَعدِی اسمُہ أحمَد؛ سورۂ اعراف : ۱۵۷: ’’۔۔۔ یَجِدُونَہ مَکتُوباً عِندَہُم فِی التَّورَاۃِ وَالانجِیل الخ وغیرہ۔ ابن اسحاق / ابن ہشام ، ۱/۱۵۳: صفۃ رسولؐ اللہ من الانجیل؛ نیز اس کے بعد کا باب ، ۱/۱۵۴، جو انبیاء سے میثاق الٰہی کا ذکر کرتا ہے۔ حضرت ورقہ بن نوفل اسدیؓ کی تصدیق رسالتِ محمدی ایک مصدّقہ واقعہ ہے۔ دوسرے ’احناف‘ میں سے بھی بعض نے اس کی تصدیق کی۔ حضرت ورقہؓ کے اسفارِ تلاشِ حق اور متعدد احبار و علماء سے ملاقاتیں اور دوسرے احناف کے اسفار بھی بعثت کی خبر پھیلانے کا باعث بنے تھے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کے قبولِ اسلام کے ضمن میں متعدد عیسائی علماء اور رہبان نے آپؐ کی آمد کی بشارت دی تھی اور اسی کی وجہ سے حضرت سلمان فارسیؓ نے عرب کا رخ کیا تھا کہ اسی کے ایک مقام موعود پر رسول آخر الزماں کا ظہور ہوگا۔ ابن ہشام ، ۱/۱۵۶-۱۵۷؛ اور اسلام سلمانؓ کے لیے، ۱/۱۴۲ ومابعد ، بخاری / فتح الباری، کتاب مناقب الانصار۔
۱۱- ابن اسحاق/ ابن ہشام، ۲/۲۶-۲۷ نے بیس نفر یا اس کے قریب کا ذکر کیا ہے اور بعض دوسرے مآخذ میں ۶۰کی تعداد بھی ہے۔
۱۲- حوالہ سابق؛ ابن کثیر، ۳/۷۱-۹۰؛ مکی اسوہ نبوی، ۱۳۱ ومابعد؛ ظہور احمد اظہر ، ۱۶۲-۱۶۹، بہ حوالہ ابن ہشام، ابن کثیر، سیر اعلام النبلاء اور زرقانی وغیرہ۔ موصوف نے حسب معمول اس بحث میں بھی دوسرے امورِ سیرت اور واقعاتِ تاریخ سے بحث کی ہے، جو ان کے جوش ایمانی کی عکاس ہے۔
۱۳- ابن اسحاق/ ابن ہشام؛ ابن سعد، ۴/ ۳۷۱۔ ابو موسیٰ الاشعریؓ کے بارے میں صراحت کی ہے کہ وہ مکہ میں اسلام لائے، پھر ارضِ حبشہ کو ہجرت کی اور پھر دو کشتیوں والوں کے ساتھ خیبر میں خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ وہ مکہ میں اسلام لانے کے بعد اپنے وطن میں کام کرتے رہے، پھر وہاں سے حبشہ پہنچے۔ اشعریوں کی تعداد ۵۵ تھی؛ ۴/۳۷۷۔ ان کے ساتھ دوسی حضرات بھی تھے۔
۱۴- بدوی قبائل عرب میں مقامی مبلغین کرام اور داعیوں کے ہاتھ پر قبولِ اسلام کا ایک درخشاں سلسلہ ہے اور اس کے بعد چمکتے ستارے ہیں: حضرت ابوہریرہ دوسیؓ، حضرت عمرو بن طفیل دوسیؓ کے خاندان والے، حضرت اشج عبدالقیسیؓ اور ان کے برادر زادے۔ بحث کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ’عہدنبویؐ میں تنظیم ریاست و حکومت‘، طبع دہلی ۱۹۸۵ء کا باب دوم۔
۱۵- مجیب اللہ ندوی، اہل کتاب صحابہ و تابعین، مطبع اعظم گڑھ، ص ۲ و مابعد اور حاشیہ: ۱-۲؛ مکی اسوۂ نبوی ، حوالہ سابق۔
۱۶- ابن اسحاق / ابن ہشام اور واقدی کی دو روایات بابت اسلام حضرات ثلاثہ میں رسولِ اکرم ؐ کے ایک نامہ گرامی کا ذکر ہے۔ ابن سعد (۴/۴۴۴) نے لکھا ہے کہ عمرو بن امیہ ضمریؓ کے بہ دست دونامے بھیجے گئے تھے، جن میں الگ الگ دو مضامین تھے۔ حضرت عمرو ضمریؓ جنگِ احد کے بعد فوراً اسلام لائے تھے۔
پاکستان کی نظریاتی اساس اور پاکستانیوں کے اصل تشخص پر گذشتہ ۲۰برسوں میں انگریزی صحافت نے جس یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس بے بنیاد تصور کو پھیلایا ہے کہ پاکستان بنانے والوں کے ذہن میں ایک سیکولر ریاست کا تصور تھا، وہ ہماری صحافتی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ صحافت کے بنیادی اصولوں میں تحقیق و تفتیش کو اہم مقام حاصل ہے اور ہرصحافی سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ تحقیق کرنے کے بعد ایک مصدقہ خبر نشر کرے گا لیکن اس کے برخلاف کالم نگاروں اور ’دانش وروں‘ نے قائداعظمؒ کی جو تصویر پیش کی ہے اس کا کوئی تعلق قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت سے نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمدارشد کا تحقیقی مقالہ اسلامی ریاست کی تشکیل جدید: علامہ محمداسد کے افکار کا تنقیدی جائزہ اس سلسلے میں ایک اہم معروضی علمی تحقیق ہے، جو نہ صرف علامہ محمداسد کے افکار بلکہ خود تحریکِ پاکستان کی فکری بنیادوں اور مستقبل کے بارے میں تاریخی حقائق کا مرقع ہے۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ مقدمہ ایک مختصر تاریخی جائزہ پیش کرتا ہے جس میں دورِ اوّل سے عصرِجدید تک اہم سیاسی فکری رجحانات کا تذکرہ ہے۔ باب دوم علامہ محمداسد کی سوانح اور فکری تشکیل کا جائزہ لیتا ہے جس میں بعض وہ معلومات بھی شامل ہیں جو پاکستان کے قیام کے بعد پیدا ہونے والی نسلوں تک نہ نصابی کتب نے اور نہ ابلاغِ عامہ نے پہنچائی ہیں، مثلاً علامہ اسد کا علامہ اقبال اور مولانا مودودی سے براہِ راست رابطہ اور تینوں افراد کا مل کر ملت ِاسلامیہ کی فکری اصلاح کے لیے منصوبہ تیار کرنا۔ علامہ اسد کا علمی مجلہ عرفات کا صرف اس غرض سے اجرا۔ ان کا لاہور میں ادارہ تعمیرنو اور تحقیقاتِ اسلامی کے ڈائرکٹر کے طور پر تعین اور پھر نیویارک میں اقوام متحدہ میں بطور سفارت کار مقرر کیا جانا۔ ان کی ذاتی مساعی سے شاہ فیصل سے پہلی مرتبہ رابطہ اور ان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا استوار کروانا۔ یہ وہ احسانات ہیں جن کے بارے میں آج تک نہ ابلاغِ عامہ اور نہ نظریۂ پاکستان پر لکھی جانے والی کتب اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کیا وجہ تھی کہ ایک فرد جو نہ اس سرزمین میں پیدا ہوا ، نہ یہاں پرورش پائی، نہ یہاں پر شادی بیاہ کر کے منسلک ہوا بلکہ صرف اور صرف اسلام کے رشتے کی بنا پر پاکستانی شہریت اور پاکستان کی سرکاری نمایندگی کے لیے منتخب کیا گیا۔
تیسرے باب میں علامہ اسد کی تصنیفات کا تذکرہ ہے اور باب چہارم میں جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے، قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور قیام کے بعد پاکستان کے نظریاتی تشخص میں علامہ اسد کے کردار سے بحث کی گئی ہے۔ پانچواں باب علامہ اسد کی فکر کی روشنی میں اسلامی ریاست کے مقصد، نوعیت اور ماہیت سے بحث کرتا ہے۔ چھٹے باب میں اسلامی ریاست میں غیرمسلم اور مسلم شہریوں کے حقوق اور ساتویں باب میں اسلامی ریاست میں قانون سازی کے دائرۂ کار کا تذکرہ ہے۔ اس باب میں خصوصی طور پر اجتہاد اور عصرِحاضر میں قانون سازی پر گراں قدر معلومات پائی جاتی ہیں۔ آٹھویں اور آخری باب میں علامہ اسد کی نگاہ میں اسلام اور مغرب کے تعلق اور اسلامی تہذیب کی برتری اور اسلام اور مغرب کے درمیان مکالمہ اور مفاہمت سے بحث کی گئی ہے۔
یہ مقالہ نہ صرف علامہ اسد کی حیات، فکری کارنامے اور عملی طور پر پاکستان کی تحریک میں ان کے کردار کا جائزہ لیتا ہے بلکہ قیامِ پاکستان کے مقصد اور مستقبل کا ایک واضح نقشہ پیش کرتا ہے۔ مطالعہ پاکستان کے اساتذہ جو عموماً یورپ اور امریکا کے مصنفین کی کتب کے سہارے تحریکِ پاکستان کا کورس پڑھاتے ہیں، ان کے لیے اس کا مطالعہ ایک فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کتاب کو ہر پاکستانی کالج، اسکول اور یونی ورسٹی کے کتب خانے میں ایک سے زائد نسخوں کی شکل میں موجود ہونا چاہیے تاکہ جدید نسل اپنی صحیح تاریخ سے آگاہ ہوسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
قرآنِ مجید، دین اسلام کا ہمارے لیے مصدرِ اوّل ہے۔ اس کو پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھی ہماری ترجیحِ اوّل ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے اسے ایک مشکل اور طویل المیعاد علمی سرگرمی سمجھاجاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے۔
یہ کتاب اسی احساس کے تحت ایک عملی تدریسی منصوبے کی غرض سے مرتب کی گئی ہے۔ متن وترجمۂ قرآن آمنے سامنے درج کرنے کے بعد نصابی کتب کے طریقے کے مطابق مشقیں دی گئی ہیں، جن میں مختلف نوعیت کے سوالات ہیں۔ یہ کتاب چھٹی جماعت اور اس کی مساوی تعلیمی سطح کے طلبہ و طالبات کے لیے ہے۔ جس میں ۴۸سورتوں کا ترجمۂ قرآن شامل ہے۔ مشقوں کی تیاری اور ترتیب میں بہت محنت کی گئی ہے۔ تحریری اور زبانی امتحان کے ماڈل پیپر بھی دیے گئے ہیں۔ گویا طریقۂ تدریس کے تمام کتابی لوازمات مکمل طور پر فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مرتب نے قرآن کو نصابی کتاب کے طور پر پیش کرنے کی قابلِ قدر سعی فرمائی ہے۔ قرآن فہمی کے حلقے اور اس طرز کے اسکول اس سے بھرپور استفادہ کرسکیں گے۔ دینی مدارس اور حفظ ِ قرآن کے مدارس کے طلبہ و طالبات اور عام لوگ گھروں میں بھی اس کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ تاہم ضرورت ہے کہ اس کو کتابت کی اغلاط سے پاک کیا جائے۔ متنِ قرآن رموزِ اوقاف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ (ارشاد الرحمٰن)
زیرنظر کتاب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبات سے معمور ایک ایسے عالمِ دین کے قلم سے سامنے آئی ہے، جسے غیرمسلم کمیونٹی میں زندگی بسر کرنے کا موقع ملا ہے۔ چنانچہ انھوں نے کتاب کے ۲۰مناظر میں حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کے وصال تک کے منتخب اہم واقعات والہانہ انداز میں بیان کردیے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ انھیں سیرت النبیؐ پر لکھنے کا عرصے سے شوق تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی خواہش تھی کہ اسباق میں سیرت النبیؐ کی کوئی کتاب شامل ہونا چاہیے۔مدارس میں سیرتِ طیبہ کو موضوع کے طور پر پڑھایا نہیں جاتا۔ صرف حدیث آخری سال میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس پر انھیں ایک مدت سے خیال آیا کہ سیرت النبیؐ پر کتاب لکھی جائے۔ کتاب کا ایک حصہ مسجد نبویؐ میں لکھا گیا (ص ۱۶)۔کتاب کی زبان عام فہم ہے۔ کتاب کے مطالعے سے حضور اکرمؐ سے محبت و تعلق میں تازگی محسوس ہوگی۔(ظفرحجازی)
ہر انسان کا وجود اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور جان کا احترام بھی۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہرفرد کی اہمیت دوسرے فرد کے نزدیک اکثر اوقات خاص وقعت نہیں رکھتی۔ تاہم، روزِاوّل سے بعض افراد ایسے ہیں کہ جن کا وجود، اُس زمانے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ہرآنے والے زمانے میں بھی انسانیت کے لیے خاص وزن اور اہمیت رکھتا ہے۔ اسی بنا پر ان شخصیات کے کارنامۂ حیات کو جاننے کی طلب تازہ دم رہتی ہے۔مؤلفہ نے زیرنظر کتاب میں اسی طلب کا جواب فراہم کیا ہے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے لے کر شیخ احمد یٰسین تک ۱۵؍افراد کا تذکرہ متوازن انداز میں پیش کیا ہے۔ ان شخصیات میں حضرت سیّداحمدشہید، بدیع الزمان نورسی، مولانا محمد الیاس، ناصرالدین البانی، ابوالحسن علی ندوی اور سیّدقطب شہید کے نام نامی بھی شامل ہیں۔
اگرچہ کتاب کے مندرجات کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے، لیکن محترم پروفیسر خورشیداحمد کے تحریر کردہ مقدمے کی یہ سطور تصویر کو بحسن و خوبی پیش کرتی ہیں، کتاب میں: ’’شخصیت پرستی سے دامن بچاکر، اس شخص کی حقیقی خدمات اور اثرات کو توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔ پھر شخصیات کے انتخاب میں بھی تنوع ہے۔ کسی خاص علاقے یا کسی خاص شعبۂ زندگی تک اس انتخاب کو محدود نہیں رکھا گیا، بلکہ اُمت کے پورے کینوس پر نظر ڈال کر تاریخ ساز شخصیات کا [ایک] انتخاب کیا گیا ہے‘‘ (ص۲۰)۔ایسی کتب کا مطالعہ فرد میں کچھ کرنے کی اُمنگ اور اپنی زندگی کا احتساب کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔(سلیم منصور خالد)
زیرنظر کتاب میں مصنف نے قرآن اور حدیث کو بنیاد بناکر تصوف کے مسئلے کی تفہیم اور ۱۸؍ابواب میں موضوع سے متعلق علمی نکات کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان ابواب میں خلوص، توبہ، نیت، صبر، شکر، فقر، مراقبہ، استقامت اور دُعا جیسے اہم عنوانات کے تحت قرآن و سنت ، احیا العلوم اور رسالہ قشیریہ کے حوالے سے مباحث کو فکرانگیز اور نتیجہ خیز بنایا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے تصوف کے متعلق قاری کا ذہن شکوک و شبہات سے پاک ہوجاتا ہے۔ مصنف کی یہ محنت لائق ستایش ہے کہ انھوں نے ویدانتی، یونانی اور فلسفیانہ مباحث سے گریز کرتے ہوئے تصوف کے متعلق قرآنی تعلیمات اور اسوئہ نبویؐ کی وضاحت کی ہے۔ اگرچہ بے شمار کتابیں تصوف کے حوالے سے لکھی گئی ہیں۔
قرآنِ مجید نے جن اخلاقی فضائل کے حصول اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، مصنف نے انھی اخلاقی اوصاف کی اسوئہ نبویؐ کی روشنی میں تکمیل کی کوشش کو تصوف قرار دیا ہے، تاہم تصوف کوئی شرعی نام نہیں (ص ۱۷)۔ آج کل تصوف کے نام پر جس قسم کی غیراسلامی رسوم و عبادات رائج ہوگئی ہیں وہ سب گمراہی ہے اور ان سے بچنا ضروری ہے۔ پہلے یہ کتاب ہندستان میں شائع ہوئی تھی، اب یہ اُس کا ری پرنٹ ہے۔(ظفر حجازی)
صحافت اپنے عہد کی تصویر ہوتی ہے۔ صحافی جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے قلم بند کرتا ہے اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتاہے۔ نویدِفکرافشاں نوید کے کالموں کا مجموعہ ہے جو اپنے عہد کی ترجمانی کرتا ہے۔ ملک کو درپیش مسائل، معاشرتی انحطاط اور مٹتی اقدار، اسلام اور مغرب کی کش مکش، عالمی قوتوں کی سفاکیت، عورت کے حقوق اور مغرب زدہ خواتین، حقوقِ نسواں تحریک کا چیلنج، نظریۂ پاکستان اور سیکولرفکر کے علَم بردار، حجاب کا خوف کیوں؟ اور اس کے علاوہ فرد اور معاشرے کی تربیت کے تقاضے جیسے موضوعات پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ ان کے کالم اختصار اور جامعیت لیے ہوئے ہیں۔
حریمِ ادب خواتین کی اصلاحی اور ادبی انجمن ہے۔ اس کے پیش نظر ادبی تخلیقی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں صحت مند مزاج کو فروغ دینا ہے۔ نویدفکر کی اشاعت سے اس نے اچھی مثال قائم کی ہے۔ تاہم کالموں کے انتخاب میں زمانی ترتیب کے بجاے اگر موضوعاتی ترتیب کو بنیاد بنایا جاتا تو زیادہ بہتر تھا اور تنوع بھی قائم رہتا۔(امجد عباسی)
تحقیق کسی بھی نوعیت کی ہو، اشاریے اور کتابیات عملی تحقیق کے بنیادی معاون کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مدد سے مطلوبہ مضامین یا کتابوں تک پہنچنا آسان ہوتا ہے اور تلاش و تفتیش میں تحقیق کار کا قیمتی وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ علمی وادبی موضوعات پر رسائل و جرائد میں جو ذخیرہ پوشیدہ ہے، تحقیق میں اسے کام میں لانے کے لیے رسائل کے اشاریے بنائے گئے ہیں۔ زیرنظر کتاب رسالہ معاصر (کے۱۹۷۹ء سے دسمبر ۲۰۱۰ء تک کے ۲۳شماروں کا) اشاریہ ہے جس کے بانی اور مدیر اعلیٰ عطاء الحق قاسمی ہیں۔
ہرموضوع کے تحت رسالے میں شائع ہونے والے مضامین اور مکاتیب وغیرہ کے حوالوں کو مصنف وار ترتیب دیا گیا ہے۔ عنوان: ’سوانح‘ کے تحت معروف ادیبوں اور شاعروں پر مضامین (سوانح کے بجاے زیادہ تر ان کے ادبی اور شعری کارناموں پر)۔ تبصرۂ کتب اور تقریبات کی رُودادیں، مکالمات۔ آخر میں ۱۸صفحات پر مشتمل، ایک مختصر اشاریہ شامل ہے، یہ مصنف وار ہے اور یہ اس کتاب کا سب سے کارآمد حصہ ہے۔ اشاریہ ساز برادران اس سے پہلے بھی متعدد رسائل کے اشاریے مرتب کرچکے ہیں۔ مجلس ترقی ادب کے ناظم ڈاکٹر تحسین فراقی نے بجاطور پر لکھا ہے کہ ’’یہ اشاریہ تخلیق، تنقید اور تحقیق کے نئے راستے کھولے گا‘‘۔ (رفیع الدین ہاشم)
محمد قمرالزمان کے تختۂ دار پر لٹکائے جانے کی تفصیل (مئی ۲۰۱۵ئ) سے جہاں عوامی لیگی حکومت کی ذہنیت کا علم ہوا ہے، وہیں شہید قمرالزمان کی جانب سے اسلام کے فروغ کی سعی و کوشش کے درخشاں پہلو بھی مطالعے میں آئے ہیں۔ اس شمارے میں علامہ یوسف القرضاوی کا مضمون ایک بہترین علمی تحفہ اور علمی خدمت ہے۔
’محمد قمرالزمان کی شہادت اور بنگلہ دیش‘ (مئی ۲۰۱۵ئ) سے اندازہ ہوا کہ اہلِ بنگلہ دیش کس طرح سے عزیمت و استقامت کی داستان رقم کر رہے ہیں۔ شہید کی وصیت اور شہادت ایمان افروز ہے۔ ’گاہے گاہے بازخواں‘ سے مولانا مودودی کی سزاے موت پر رحم کی اپیل سے انکار کے تاریخ ساز واقعے کی یاد تازہ ہوگئی۔
’مطالعہ قرآن: اہمیت اور تقاضے‘بچوں کی دنیوی تعلیم پر بڑے پیمانے پر وقت اور سرمایہ لگانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا قرآن کی تعلیم ان کی ترجیحِ اوّل ہے! ’آبادی کی منصوبہ بندی؟‘ عقلی دلائل سے بھرپور مضمون ہے۔
’مطالعۂ قرآن : اہمیت اور تقاضے‘ (مئی ۲۰۱۵ئ) میں لفظ ’اُمّی‘ کے استدلال کے طور پر سورئہ بقرہ کی آیت ۷۸ درج کی گئی ہے۔ لفظ اُمّی کا یہ مفہوم اور اس کا استدلال غلط ہے۔ نہ لفظ ’اُمّی‘ قرآن مجید نے ان معنوں میں استعمال کیا ہے اور نہ مذکورہ آیت میں ’اُمّیوں‘ سے وہ لوگ مراد ہیں جو قرآنِ مجید کا علم نہیں رکھتے اور نہ آیت میں لفظ الکِتٰبُ سے مراد قرآنِ مجید ہے۔ سورئہ بقرہ کی یہ آیت بنی اسرائیل کے طویل تذکرے میں آئی ہے، جہاں ایک قتلِ نفس اور گائے کے ذبح کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعے کے بعد اُن کی سنگ دلی اور ہٹ دھرمی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جو کتاب کا علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد اُمیدوں اور آرزوئوں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں‘‘۔ یہاں الکِتٰب سے مراد ’تورات‘ ہے۔
’دعوت،تربیت اور اقامت ِدین‘ (اپریل ۲۰۱۵ئ)اور ’عصرحاضر اور نوجوان‘ بہت فکرانگیز ہیں۔ اللہ تمام مسلمانوں کو اقامت ِ دین کا شعور عطا فرمائے، آمین!
تصحیح: ’نائیجیریا کے صدارتی انتخابات‘ (مئی ۲۰۱۵ئ) جیتنے والے مسلم صدر محمدبخاری کو ایک کروڑ ۵۴ لاکھ ووٹ ملے، جب کہ ہارنے والے اُمیدوار کوایک کروڑ ۲۹ لاکھ ووٹ ملے۔(ادارہ)
رمضان المبارک کی مناسبت سے ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا اُردو اور سندھی زبان میں تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ مع بنیادی مسائل و دیگر معلومات اور قرآنی و مسنون دعائیں بلامعاوضہ حصول کے خواہش مند خواتین و حضرات عام ڈاک کے لیے کم از کم 15 روپے اور ارجنٹ میل سروس کے لیے 55 روپے کے ڈاک ٹکٹ بنام ڈاکٹر ممتاز عمر T-473، کورنگی نمبر2، کراچی-74900 کے پتے پر روانہ کر کے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔
۱۹۵۳ء میں جماعت اسلامی پر جو دورِ ابتلا آیا (بلکہ سچ یہ ہے کہ زبردستی لایا گیا) اُس میں [مولانا مسعود عالم ندوی]مرحوم کا صبروثبات ہم سب کے لیے قابلِ رشک ہے۔
وہ سالہا سال سے دمے کے مریض تھے، ایسے سخت مریض کہ دمے کے دورے کی وہ شدت کبھی ہمارے مشاہدے میں نہیں آئی۔ ان کی صحت تمام تر دوا اور غذا کے خاص اہتمام اور اوقات کی باقاعدگی پر منحصر تھی ، اور ان چیزوں میں سے کسی میں بھی فرق آجانا ان کے لیے پیامِ موت تھا۔ اِس حالت میں حکومت نے یکایک ان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور ان کے مرض کا لحاظ کر کے علاج و غذا کا کوئی خاص انتظام نہ کیا۔ حتیٰ کہ اس مریضِ ناتواں کو جیل میں چارپائی تک نہ دی گئی۔ جو لوگ اس ظلم کے ذمہ دار تھے ان کو قطعاً کوئی احساس نہ تھا کہ وہ اپنی قوم کے کیسے قیمتی جوہر کو ضائع کر رہے ہیں اور مرحوم کی غیرت یہ گوارا کرنے کے لیے تیار نہ تھی کہ اپنے مرض کا حوالہ دے کر کسی ظالم سے رحم کی بھیک مانگیں۔ جو تکلیفیں بھی پیش آئیں کمال درجۂ صبر اور تسلیم و رضا کے ساتھ جھیلتے چلے گئے اور اُف تک نہ کی۔ بعید نہیں کہ یہی چیز آخرکار ان کی اچانک وفات کی موجب ہوئی ہو۔ بہرحال چلتے چلتے اُس مردِ مومن نے استقامت کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جو بہت سے اہلِ ایمان کے لیے تقویت ِ قلب کا سبب بنا اور ان شاء اللہ آیندہ بھی بنے گا۔ (’اشارات‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴، عدد۴، شوال ۱۳۷۴ھ ، جون ۱۹۵۵ئ، ص۵)
______________