۱۶ مئی کو قاہرہ کا ایک جج، صدر محمد مرسی سمیت ۱۲۴؍افراد کو سزاے موت سناچکا ،تو وکیل کی آواز آئی: جناب ان میں سے کئی افراد تو کئی سال پہلے وفات پاچکے ہیں۔جج نے جواب دیا: ’’تو مجھے کیا لگے‘‘ اور عدالت برخاست کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’ججوں کے تین گروہ ہوں گے۔ دو گروہ جہنم اور ایک جنت میں جائے گا۔ جس نے حق جان کر بھی باطل فیصلہ کیا یا باطل ہی کو حق قرار یا وہ جہنم میں اور حق کے مطابق فیصلے کرنے والا جنت میں جائے گا‘‘۔
ڈیڑھ سال کی نام نہاد عدالتی کارروائی کے بعد اس حیرت ناک فیصلے میں ۱۰۶؍ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ جنوری ۲۰۱۱ء میں مصری آمر حسنی مبارک کے خلاف جاری تحریک کے دوران انھوں نے ایک جیل پر حملہ کرکے قیدی رہا کروائے تھے، جب کہ ۱۸؍ افراد کو اس الزام میں سزاے موت سنائی گئی کہ انھوں نے فلسطینی تحریک حماس کے ساتھ خفیہ رابطے کرکے ملک کو نقصان پہنچایا۔ اس ’جرم‘ کی سزا پانے والوں میں معروف فلسطینی الصایغ شہیدحسام بھی شامل ہیں، جو حسنی مبارک کے خلاف تحریک سے تین سال پہلے ۲۰۰۸ء میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہوچکے ہیں۔ تیسیر ابو سمیہ بھی ہیں جو ۲۰۰۹ء میں صہیونی بمباری سے شہید ہوگئے تھے، رائد الطیار اور دوسرے دو فلسطینی مجاہد بھی ہیں جو ۲۰۱۴ء میں شہید ہوگئے تھے۔ ایک اور حیرت انگیز نام فلسطینی ہیرو حسن سلامہ کا ہے جو ۱۹ سال پہلے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف ایک کامیاب کارروائی کے دوران گرفتار ہوگئے اور صہیونی عدالت نے انھیں ۴۸بار عمر قید کی سزا سناائی۔ مصری عدالت نے ۱۹ سال سے اسرائیلی جیل میں قید اس مجاہد کو بھی ۲۰۱۱ئمیں مصر کی وادی النطرون نامی ’جیل توڑنے‘ کا مجرم قرار دے دیا۔
دیگر سزا یافتہ افراد میں حالیہ مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد مرسی بھی شامل ہیں، جنھیں چند ہفتے قبل ایک اور بے بنیاد مقدمے میں ۲۰ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔اخوان کے مرشد عام پروفیسر ڈاکٹر محمد بدیع بھی شامل ہیں، جنھیں اس سے قبل چار مقدمات میں سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان میں سے ایک فیصلے کے تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد انھیں ان قیدیوں کا سرخ لباس پہنادیا گیا ہے، جنھیں کسی بھی وقت پھانسی دی جاسکتی ہے۔ وہ اب یہی سرخ لباس پہنے، ہنستے مسکراتے عدالت آتے ہیں۔ مصر کی پہلی منتخب اسمبلی کے منتخب سپیکر پروفیسر ڈاکٹر سعد الکتاتنی بھی انھی سزا یافتہ افراد میں شامل ہیں۔ اخوان کے نائب مرشد عام انجینیر خیرت الشاطر اور ۱۶ سالہ شہید بیٹی اور نوجوان اسیر بیٹے کے والد، ملک کے معروف سرجن ڈاکٹر محمد البلتاجی سمیت ۱۲۴ بے گناہوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مثالی کردار رکھنے والی شخصیات پر مشتمل ہے۔ حافظ قرآن تو یہ سب ہی ہیں اور دن رات قرآن کے سایے میں گزارتے ہیں۔ سزاے موت پانے والوں میں ۱۹ سالہ صحافی سندس عاصم بھی شامل ہیں، جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ فوجی انقلاب کے وقت ایوان صدر کے میڈیا سیل میں ملازم تھیں۔ وہ اس وقت اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کررہی ہیں۔
سزاؤں کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر دنیا پر ثابت کردیا کہ جدید فرعون جنرل سیسی اپنے ہر مخالف کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ جیل توڑنے کا الزام اُمت مسلمہ کے عظیم اسکالر، ۱۵۰سے زائد شہرۂ آفاق دینی کتب کے مصنف ۸۹سالہ علامہ یوسف القرضاوی پر لگاتے ہوئے انھیں بھی سزاے موت سنادی گئی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نصف صدی سے زائد عرصہ ہوا قطر میں مقیم ہیں۔ المعہد الدینی اور مرکز براے دراسات سیرت و سنت کی تاسیس کرنے اور قطر یونی ورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد وہ اب اپنا زیادہ وقت علمی اور دعوتی سرگرمیوں میں گزارتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے انھوں نے ۱۱برس پہلے ایک انٹرنیشنل یونین براے مسلم اسکالرز بھی تشکیل دے رکھی ہے۔ دنیا بھر میں جس کے ہزاروں ارکان ہیں۔
ان تمام بزرگ اور عظیم ہستیوں پر جو من گھڑت الزام لگائے گئے ہیں، وہ اس قدر بے بنیاد ہیں کہ ان کا جواب دینا یا وضاحت کرنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔ لیکن یہاں اخوان کی امن پسندی اور احترام قانون کی عملی مثال سب کے سامنے رہنا چاہیے۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء کو سابق آمر حسنی مبارک کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، تو حکومت نے متعدد جیلوں میں خطرناک قیدیوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہوئے متعدد جیلوں سے فرار کروادیا۔ انھیں یہ ہدف دیا گیا کہ وہ حکومت مخالف مظاہروں میں جاکر غنڈا گردی کا ارتکاب کریں۔ وادی النطرون نامی جیل میں اس وقت ۱۱ہزار ایک سو۶۱ قیدی بند تھے، جن میں محمد مرسی سمیت اخوان کے کئی قائدین بھی شامل تھے۔ اچانک ایک سہ پہر جیل کی ساری انتظامیہ غائب ہوگئی۔ قیدیوں کے جو اہل خانہ اپنے عزیزوں سے ملاقات کرنے آئے ہوئے تھے، وہ بھی جیل کے دروازے کھول کر اپنے رشتہ دار رہا کرواکے لے گئے۔اخوان کی قیادت اس موقعے پر بھی سب سے مختلف نظر آئی۔قیدیوں او ران کے اہل خانہ کی یلغار اور جیل ٹوٹ جانے کے باوجود انھوں نے وہاں سے فرار ہونے سے انکار کردیا۔ وہ اور ان کے اہل خانہ خود وزارت داخلہ اور جیل انتظامیہ کو تلاش کرتے رہے۔ جب ان میں سے کوئی نہ ملا تو ڈاکٹر مرسی نے الجزیرہ سمیت مختلف ٹی وی چینلوں کو فون کرکے بتایا کہ: ’’جیل کی ساری انتظامیہ غائب اور سارے قیدی جاچکے ہیں۔ ہم اس وقت جیل کے باہر کھڑے ہیں اور بغیر قانونی کارروائی کے یہاں سے جانا نہیں چاہتے‘‘۔کئی ٹی وی چینلوں نے وہاں پہنچ کر اس کی فوٹیج بھی بنائی۔ کئی گھنٹے تک جب کوئی نہ آیا تو بالآخر وہ اور ان کے ساتھی بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہی قیدی محمد مرسی ملک کے پہلے منتخب صدر بن گئے۔ ایوانِ صدارت میں ایک روز ان کے سامنے ۸۵۰صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ وادی النطرون جیل سے فرار کی واقعے کی پیش کی گئی۔ صدر محمد مرسی نے رپورٹ کا ایک بھی صفحہ پڑھے بغیر پوری فائل متعلقہ تحقیقاتی اداروں کو اس نوٹ کے ساتھ بھجوادی کہ اس کی مبنی برحقیقت، شفاف اور مکمل تحقیق کی جائے۔
ایک جانب تو اخوان کے ان رہنماؤں کی اتنی احتیاط اور قانون کی پاس داری لیکن دوسری طرف آج فرعون بنے حکمرانوں کی ذہنیت ملاحظہ ہو کہ انھیں ۱۱ہزار ایک سو۶۱ قیدیوں میں سے صرف اخوان کی قیادت ہی ملی کہ جن پر مقدمہ چلاکر سزاے موت کا حق دار قرار دیا گیا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی ۳۰ جولائی ۲۰۱۳ء کو صدر مرسی کے خلاف خونی انقلاب لانے کے بعد بلامبالغہ ہزاروں بے گناہ شہریوں کو ماوراے عدالت قتل کرچکا ہے۔ نام نہاد عدالتوں کے ذریعے بھی سیکڑوں افراد کو چند منٹ کی کارروائی کے بعد سزاے موت سنائی گئی ہے۔ گذشتہ تقریباً دوسال میں اب تک ان نام نہاد عدالتوں کے ذریعے ۱۷۰۷ بے گناہ شہری سزاے موت کا عدالتی ’اعزاز‘ پاچکے ہیں۔ اس وقت مصر کے حالات حسنی مبارک کے تاریک دور سے بھی بدتر ہوچکے ہیں۔
وہ درجنوں دانش ور، صحافی اور سیاسی و دینی رہنما، جو اخوان دشمنی میں کبھی سیسی کی مدح سرائی کے لیے بے تاب رہتے تھے، اب خود بھی اس کے مظالم کا شکار ہیں۔عبد الفتاح السیسی نے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹتے ہوئے اس وقت ملک میں جتنے بھی بحران گنوائے، بلکہ خود پیدا کیے تھے، اب وہ سب بحران پہلے سے کہیں سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔
منتخب حکومت پر قبضہ کرتے ہوئے جنرل سیسی کو سب سے بڑا سہارا امریکا، اسرائیل اور یورپی یونین کی پشتیبانی اور بعض عرب ریاستوں کی طرف سے خطیر مالی تعاون کی صورت میں ملاتھا۔ اب امریکا و یورپی یونین ہی نہیں خود خلیجی ریاستوں کی طرف سے بھی سیسی انتظامیہ کے بارے میں گہرے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس سیاہ واقعے سے لے کر گذشتہ مارچ تک سیسی انتظامیہ کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کی طرف سے ۵ئ۳۹؍ ارب ڈالر کی نقد امداد دی گئی ہے۔ اس مادی مدد کا ایک ہی ہدف تھا کہ عوام کی معاشی حالت بہتر بناتے ہوئے، انھیں اخوان کے بجاے سیسی حکومت کا حامی و ہمدرد بنایا جائے۔ اگر اس نقد امداد کے ساتھ تیل اور گیس وغیرہ کی مدد بھی شامل کی جائے تو کل امداد ۵۰؍ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ لیکن ساری دنیا گواہ ہے کہ حالات بہتر نہیں بدتر، بلکہ بدترین ہورہے ہیں۔ اس امر کے بھی واضح ثبوت ملے ہیں کہ اس مالی امداد کا بڑا حصہ ملکی خزانے کے بجاے، حکمرانوں کی ذاتی تجوریوں میں پہنچ گیا ہے۔ اس بڑی امداد کے راز کاانکشاف بھی خود جنرل سیسی کی اپنے قریبی جرنیلوں کے ساتھ گفتگو کی خفیہ ٹیپ کے ذریعے ہوا ہے، جس میں جنرل سیسی ان خلیجی ریاستوں سے ملنے والی امداد کا ذکر کرتے ہوئے شکر گزار ہونے کے بجاے ان کا شکوہ اور ان کی بدخوئی کرتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: ’’ان حکمرانوں کے پاس ڈالروں اور ریالوں کے انبار ایسے لگے ہوئے ہیں، جیسے کسی گودام میں چاولوں کے انبار لگے ہوتے ہیں۔ انھیں کہو کہ ہمیں اتنے ارب ڈالر کی فوری امداد مزید دیں، وگرنہ وہ خود ذمہ دار ہوں گے‘‘۔ یہ خفیہ ٹیپ سامنے آنے اور عالمی اداروں سے اس کی تحقیق ہوجانے کے بعد کہ وہ واقعی جنرل سیسی ہی کی آواز تھی، خلیجی عوام میں سیسی کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا ہے۔
احسان فراموشی کا عالم دیکھیے کہ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبد اللہ کی وفات کے بعد، جنرل سیسی کے بارے نئے سعودی حاکم شاہ سلمان کی پالیسی میں کچھ گرم جوشی کم ہوئی تو سیسی نے اپنے سفاک ابلاغیاتی کارندے اور ادارے شاہ سلمان پر تنقید کے لیے آزادکردیے۔ اب ایک طرف وہ سعودی عرب سے امداد بٹورنا چاہتا ہے، یمن میں سعودی حملے کا حصہ بھی(بظاہر) بنا ہوا، اور اپنے میڈیا کے ذریعے شاہ سلمان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا بھی کر رہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آنے والا وقت سعودی عرب کو جنرل سیسی کا واضح مخالف اور ترکی اور قطر کا عملی حلیف بنادے۔
’فرعون مصر‘ اور اس کے ساتھیوں کی رعونت ملاحظہ ہو کہ چند ہفتے قبل ایک محنتی لیکن غریب خاکروب کا بیٹا، مقابلے کے امتحان میںکامیاب ہوکر جج کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ سیسی کے وزیر انصاف محفوظ صابر نے اسے اس عہدے تک پہنچنے سے روکتے ہوئے بیان دیا: ’’اب ہم اپنی ججوں کی اتنی توہین کریں کہ ایک خاکروب کا بیٹا بھی جج بنالیں؟ میں کسی صورت ایسا نہیں ہونے دوں گا‘‘۔یہ بیان جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر بلکہ پورے عالم عرب میں پھیل گیا اور وزیر انصاف کو مجبوراً مستعفی ہونا پڑا۔ جنرل سیسی نے اس کی جگہ حسنی مبارک کے زمانے کے ایک بدنام زمانہ جج احمد الزند کو وزیر انصاف بنادیا۔ صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور اقتدارمیں اس شخص نے عدلیہ کے محاذ پر انھیں سب سے زیادہ تنگ کیا تھا۔ حالانکہ اس کے خلاف مالی بدعنوانی کے درجنوں مقدمات اس وقت بھی عدالتوں میں ہیں، جن میںایک مقدمے کے مطابق اس نے سرکاری خزانے کے ۲۰ملین پاؤنڈچرائے تھے۔ یہ وہی جج ہے، جس نے ایک بار مصری عوام کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا: نحن السادۃ و غیرنا عبید ’’ہاں ہم آقا اور باقی لوگ ہمارے غلام ہیں‘‘۔
اس وقت یہ سوال اہم ہے کہ کیا صدر محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں کو دی جانے والی سزا پر عمل درآمد کیا جاسکے گا؟ غیب کا علم اللہ کو ہے، لیکن اس سوال کا ایک جواب ان سزاؤں کا اعلان ہونے پر عالمی ردعمل کے آئینے میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی انصاف پسند شہری ایسا ہو کہ جس نے اس فیصلے پر سیسی اور اس کی عدالتوں کی ملامت و مذمت نہ کی ہو۔ مغربی ممالک اور عالمی صحافت کو بھی اس ملامت میں شامل ہونا پڑا ہے۔تاہم، ایک اسرائیلی اخبار نے اس سزا پر عمل درآمد کی مخالفت کرتے ہوئے تاویل کی: ’’مرسی کو پھانسی نہیںدینا چاہیے وگرنہ وہ مصری قوم کے بجاے ساری دنیا کے مسلمانوں کا ہیرو بن جائے گا۔ اس سے پہلے ۱۹۶۶ء میں سید قطب کو پھانسی دی گئی تھی اور وہ بھی آج تک بہت سے لوگوں کا ہیرو ہے اور اس کی فکر و فلسفہ عام ہورہا ہے‘‘۔ لیکن ایک دوسرے اسرائیلی اخبار نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ’’مرسی اور اس کے ساتھیوں کی سزا نافذ کردینا چاہیے‘‘۔
جنرل سیسی کے بیرونی آقاؤں کی ہدایات کچھ بھی ہوں، یہ حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہے کہ جنرل سیسی اور اس کے ساتھیوں کا انجام مصر کے سابق فرعونوں کی طرح عبرت ناک ہوگا۔ دوسال سے ظلم کے پہاڑ توڑے جانے کے باوجود مصری عوام کی تحریک ایک دن کے لیے بھی نہیں رکی۔ ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کے بقول: ’’صدر محمد مرسی کے خلاف سزاے موت کا فیصلہ سنانے والے بہت جلد تاریخ کے کوڑے کے ڈھیر پر دکھائی دیں گے‘‘۔ ترکی اب سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک کو ساتھ لے کر ان مظالم کے خلاف عالمی جدوجہد کررہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں، دنیا کے باضمیر شہری اور مسلم حکومتیں اس ضمن میں اپنا کردار مسلسل ادا کرتی رہیں۔ خصوصاً اس پس منظر میں کہ اس سیاہ فیصلے کے تین روز بعد امریکی کانگریس کی اُمورِخارجہ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس نے اس انسانیت کش فیصلے سے ’صرفِ نظر‘ کرنے اور خطے میں ’اپنے اہداف‘ کو مقدم رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
مصر اپنے فرعونوں کے لیے جہنم کب بنے گا؟ اس کا علم تو صرف پروردگار کو ہے، لیکن علامہ یوسف القرضاوی نے اپنی پھانسی کا حکم سن کر قرآن کا فرمان دہرایا ہے:قُلْ ھَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ وَ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یُّصِیْبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْ بِاَیْدِیْنَا فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَo(التوبہ ۹:۵۲)’’ان سے کہو ’’تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو، وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمھارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزادیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمھارے ساتھ منتظر ہیں!‘‘