۱۹۵۳ء میں جماعت اسلامی پر جو دورِ ابتلا آیا (بلکہ سچ یہ ہے کہ زبردستی لایا گیا) اُس میں [مولانا مسعود عالم ندوی]مرحوم کا صبروثبات ہم سب کے لیے قابلِ رشک ہے۔
وہ سالہا سال سے دمے کے مریض تھے، ایسے سخت مریض کہ دمے کے دورے کی وہ شدت کبھی ہمارے مشاہدے میں نہیں آئی۔ ان کی صحت تمام تر دوا اور غذا کے خاص اہتمام اور اوقات کی باقاعدگی پر منحصر تھی ، اور ان چیزوں میں سے کسی میں بھی فرق آجانا ان کے لیے پیامِ موت تھا۔ اِس حالت میں حکومت نے یکایک ان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور ان کے مرض کا لحاظ کر کے علاج و غذا کا کوئی خاص انتظام نہ کیا۔ حتیٰ کہ اس مریضِ ناتواں کو جیل میں چارپائی تک نہ دی گئی۔ جو لوگ اس ظلم کے ذمہ دار تھے ان کو قطعاً کوئی احساس نہ تھا کہ وہ اپنی قوم کے کیسے قیمتی جوہر کو ضائع کر رہے ہیں اور مرحوم کی غیرت یہ گوارا کرنے کے لیے تیار نہ تھی کہ اپنے مرض کا حوالہ دے کر کسی ظالم سے رحم کی بھیک مانگیں۔ جو تکلیفیں بھی پیش آئیں کمال درجۂ صبر اور تسلیم و رضا کے ساتھ جھیلتے چلے گئے اور اُف تک نہ کی۔ بعید نہیں کہ یہی چیز آخرکار ان کی اچانک وفات کی موجب ہوئی ہو۔ بہرحال چلتے چلتے اُس مردِ مومن نے استقامت کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جو بہت سے اہلِ ایمان کے لیے تقویت ِ قلب کا سبب بنا اور ان شاء اللہ آیندہ بھی بنے گا۔ (’اشارات‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴، عدد۴، شوال ۱۳۷۴ھ ، جون ۱۹۵۵ئ، ص۵)
______________