پاکستان کی نظریاتی اساس اور پاکستانیوں کے اصل تشخص پر گذشتہ ۲۰برسوں میں انگریزی صحافت نے جس یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس بے بنیاد تصور کو پھیلایا ہے کہ پاکستان بنانے والوں کے ذہن میں ایک سیکولر ریاست کا تصور تھا، وہ ہماری صحافتی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ صحافت کے بنیادی اصولوں میں تحقیق و تفتیش کو اہم مقام حاصل ہے اور ہرصحافی سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ تحقیق کرنے کے بعد ایک مصدقہ خبر نشر کرے گا لیکن اس کے برخلاف کالم نگاروں اور ’دانش وروں‘ نے قائداعظمؒ کی جو تصویر پیش کی ہے اس کا کوئی تعلق قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت سے نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمدارشد کا تحقیقی مقالہ اسلامی ریاست کی تشکیل جدید: علامہ محمداسد کے افکار کا تنقیدی جائزہ اس سلسلے میں ایک اہم معروضی علمی تحقیق ہے، جو نہ صرف علامہ محمداسد کے افکار بلکہ خود تحریکِ پاکستان کی فکری بنیادوں اور مستقبل کے بارے میں تاریخی حقائق کا مرقع ہے۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ مقدمہ ایک مختصر تاریخی جائزہ پیش کرتا ہے جس میں دورِ اوّل سے عصرِجدید تک اہم سیاسی فکری رجحانات کا تذکرہ ہے۔ باب دوم علامہ محمداسد کی سوانح اور فکری تشکیل کا جائزہ لیتا ہے جس میں بعض وہ معلومات بھی شامل ہیں جو پاکستان کے قیام کے بعد پیدا ہونے والی نسلوں تک نہ نصابی کتب نے اور نہ ابلاغِ عامہ نے پہنچائی ہیں، مثلاً علامہ اسد کا علامہ اقبال اور مولانا مودودی سے براہِ راست رابطہ اور تینوں افراد کا مل کر ملت ِاسلامیہ کی فکری اصلاح کے لیے منصوبہ تیار کرنا۔ علامہ اسد کا علمی مجلہ عرفات کا صرف اس غرض سے اجرا۔ ان کا لاہور میں ادارہ تعمیرنو اور تحقیقاتِ اسلامی کے ڈائرکٹر کے طور پر تعین اور پھر نیویارک میں اقوام متحدہ میں بطور سفارت کار مقرر کیا جانا۔ ان کی ذاتی مساعی سے شاہ فیصل سے پہلی مرتبہ رابطہ اور ان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا استوار کروانا۔ یہ وہ احسانات ہیں جن کے بارے میں آج تک نہ ابلاغِ عامہ اور نہ نظریۂ پاکستان پر لکھی جانے والی کتب اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کیا وجہ تھی کہ ایک فرد جو نہ اس سرزمین میں پیدا ہوا ، نہ یہاں پرورش پائی، نہ یہاں پر شادی بیاہ کر کے منسلک ہوا بلکہ صرف اور صرف اسلام کے رشتے کی بنا پر پاکستانی شہریت اور پاکستان کی سرکاری نمایندگی کے لیے منتخب کیا گیا۔
تیسرے باب میں علامہ اسد کی تصنیفات کا تذکرہ ہے اور باب چہارم میں جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے، قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور قیام کے بعد پاکستان کے نظریاتی تشخص میں علامہ اسد کے کردار سے بحث کی گئی ہے۔ پانچواں باب علامہ اسد کی فکر کی روشنی میں اسلامی ریاست کے مقصد، نوعیت اور ماہیت سے بحث کرتا ہے۔ چھٹے باب میں اسلامی ریاست میں غیرمسلم اور مسلم شہریوں کے حقوق اور ساتویں باب میں اسلامی ریاست میں قانون سازی کے دائرۂ کار کا تذکرہ ہے۔ اس باب میں خصوصی طور پر اجتہاد اور عصرِحاضر میں قانون سازی پر گراں قدر معلومات پائی جاتی ہیں۔ آٹھویں اور آخری باب میں علامہ اسد کی نگاہ میں اسلام اور مغرب کے تعلق اور اسلامی تہذیب کی برتری اور اسلام اور مغرب کے درمیان مکالمہ اور مفاہمت سے بحث کی گئی ہے۔
یہ مقالہ نہ صرف علامہ اسد کی حیات، فکری کارنامے اور عملی طور پر پاکستان کی تحریک میں ان کے کردار کا جائزہ لیتا ہے بلکہ قیامِ پاکستان کے مقصد اور مستقبل کا ایک واضح نقشہ پیش کرتا ہے۔ مطالعہ پاکستان کے اساتذہ جو عموماً یورپ اور امریکا کے مصنفین کی کتب کے سہارے تحریکِ پاکستان کا کورس پڑھاتے ہیں، ان کے لیے اس کا مطالعہ ایک فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کتاب کو ہر پاکستانی کالج، اسکول اور یونی ورسٹی کے کتب خانے میں ایک سے زائد نسخوں کی شکل میں موجود ہونا چاہیے تاکہ جدید نسل اپنی صحیح تاریخ سے آگاہ ہوسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
قرآنِ مجید، دین اسلام کا ہمارے لیے مصدرِ اوّل ہے۔ اس کو پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھی ہماری ترجیحِ اوّل ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے اسے ایک مشکل اور طویل المیعاد علمی سرگرمی سمجھاجاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے۔
یہ کتاب اسی احساس کے تحت ایک عملی تدریسی منصوبے کی غرض سے مرتب کی گئی ہے۔ متن وترجمۂ قرآن آمنے سامنے درج کرنے کے بعد نصابی کتب کے طریقے کے مطابق مشقیں دی گئی ہیں، جن میں مختلف نوعیت کے سوالات ہیں۔ یہ کتاب چھٹی جماعت اور اس کی مساوی تعلیمی سطح کے طلبہ و طالبات کے لیے ہے۔ جس میں ۴۸سورتوں کا ترجمۂ قرآن شامل ہے۔ مشقوں کی تیاری اور ترتیب میں بہت محنت کی گئی ہے۔ تحریری اور زبانی امتحان کے ماڈل پیپر بھی دیے گئے ہیں۔ گویا طریقۂ تدریس کے تمام کتابی لوازمات مکمل طور پر فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مرتب نے قرآن کو نصابی کتاب کے طور پر پیش کرنے کی قابلِ قدر سعی فرمائی ہے۔ قرآن فہمی کے حلقے اور اس طرز کے اسکول اس سے بھرپور استفادہ کرسکیں گے۔ دینی مدارس اور حفظ ِ قرآن کے مدارس کے طلبہ و طالبات اور عام لوگ گھروں میں بھی اس کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ تاہم ضرورت ہے کہ اس کو کتابت کی اغلاط سے پاک کیا جائے۔ متنِ قرآن رموزِ اوقاف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ (ارشاد الرحمٰن)
زیرنظر کتاب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبات سے معمور ایک ایسے عالمِ دین کے قلم سے سامنے آئی ہے، جسے غیرمسلم کمیونٹی میں زندگی بسر کرنے کا موقع ملا ہے۔ چنانچہ انھوں نے کتاب کے ۲۰مناظر میں حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کے وصال تک کے منتخب اہم واقعات والہانہ انداز میں بیان کردیے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ انھیں سیرت النبیؐ پر لکھنے کا عرصے سے شوق تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی خواہش تھی کہ اسباق میں سیرت النبیؐ کی کوئی کتاب شامل ہونا چاہیے۔مدارس میں سیرتِ طیبہ کو موضوع کے طور پر پڑھایا نہیں جاتا۔ صرف حدیث آخری سال میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس پر انھیں ایک مدت سے خیال آیا کہ سیرت النبیؐ پر کتاب لکھی جائے۔ کتاب کا ایک حصہ مسجد نبویؐ میں لکھا گیا (ص ۱۶)۔کتاب کی زبان عام فہم ہے۔ کتاب کے مطالعے سے حضور اکرمؐ سے محبت و تعلق میں تازگی محسوس ہوگی۔(ظفرحجازی)
ہر انسان کا وجود اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور جان کا احترام بھی۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہرفرد کی اہمیت دوسرے فرد کے نزدیک اکثر اوقات خاص وقعت نہیں رکھتی۔ تاہم، روزِاوّل سے بعض افراد ایسے ہیں کہ جن کا وجود، اُس زمانے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ہرآنے والے زمانے میں بھی انسانیت کے لیے خاص وزن اور اہمیت رکھتا ہے۔ اسی بنا پر ان شخصیات کے کارنامۂ حیات کو جاننے کی طلب تازہ دم رہتی ہے۔مؤلفہ نے زیرنظر کتاب میں اسی طلب کا جواب فراہم کیا ہے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے لے کر شیخ احمد یٰسین تک ۱۵؍افراد کا تذکرہ متوازن انداز میں پیش کیا ہے۔ ان شخصیات میں حضرت سیّداحمدشہید، بدیع الزمان نورسی، مولانا محمد الیاس، ناصرالدین البانی، ابوالحسن علی ندوی اور سیّدقطب شہید کے نام نامی بھی شامل ہیں۔
اگرچہ کتاب کے مندرجات کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے، لیکن محترم پروفیسر خورشیداحمد کے تحریر کردہ مقدمے کی یہ سطور تصویر کو بحسن و خوبی پیش کرتی ہیں، کتاب میں: ’’شخصیت پرستی سے دامن بچاکر، اس شخص کی حقیقی خدمات اور اثرات کو توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔ پھر شخصیات کے انتخاب میں بھی تنوع ہے۔ کسی خاص علاقے یا کسی خاص شعبۂ زندگی تک اس انتخاب کو محدود نہیں رکھا گیا، بلکہ اُمت کے پورے کینوس پر نظر ڈال کر تاریخ ساز شخصیات کا [ایک] انتخاب کیا گیا ہے‘‘ (ص۲۰)۔ایسی کتب کا مطالعہ فرد میں کچھ کرنے کی اُمنگ اور اپنی زندگی کا احتساب کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔(سلیم منصور خالد)
زیرنظر کتاب میں مصنف نے قرآن اور حدیث کو بنیاد بناکر تصوف کے مسئلے کی تفہیم اور ۱۸؍ابواب میں موضوع سے متعلق علمی نکات کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان ابواب میں خلوص، توبہ، نیت، صبر، شکر، فقر، مراقبہ، استقامت اور دُعا جیسے اہم عنوانات کے تحت قرآن و سنت ، احیا العلوم اور رسالہ قشیریہ کے حوالے سے مباحث کو فکرانگیز اور نتیجہ خیز بنایا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے تصوف کے متعلق قاری کا ذہن شکوک و شبہات سے پاک ہوجاتا ہے۔ مصنف کی یہ محنت لائق ستایش ہے کہ انھوں نے ویدانتی، یونانی اور فلسفیانہ مباحث سے گریز کرتے ہوئے تصوف کے متعلق قرآنی تعلیمات اور اسوئہ نبویؐ کی وضاحت کی ہے۔ اگرچہ بے شمار کتابیں تصوف کے حوالے سے لکھی گئی ہیں۔
قرآنِ مجید نے جن اخلاقی فضائل کے حصول اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، مصنف نے انھی اخلاقی اوصاف کی اسوئہ نبویؐ کی روشنی میں تکمیل کی کوشش کو تصوف قرار دیا ہے، تاہم تصوف کوئی شرعی نام نہیں (ص ۱۷)۔ آج کل تصوف کے نام پر جس قسم کی غیراسلامی رسوم و عبادات رائج ہوگئی ہیں وہ سب گمراہی ہے اور ان سے بچنا ضروری ہے۔ پہلے یہ کتاب ہندستان میں شائع ہوئی تھی، اب یہ اُس کا ری پرنٹ ہے۔(ظفر حجازی)
صحافت اپنے عہد کی تصویر ہوتی ہے۔ صحافی جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے قلم بند کرتا ہے اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتاہے۔ نویدِفکرافشاں نوید کے کالموں کا مجموعہ ہے جو اپنے عہد کی ترجمانی کرتا ہے۔ ملک کو درپیش مسائل، معاشرتی انحطاط اور مٹتی اقدار، اسلام اور مغرب کی کش مکش، عالمی قوتوں کی سفاکیت، عورت کے حقوق اور مغرب زدہ خواتین، حقوقِ نسواں تحریک کا چیلنج، نظریۂ پاکستان اور سیکولرفکر کے علَم بردار، حجاب کا خوف کیوں؟ اور اس کے علاوہ فرد اور معاشرے کی تربیت کے تقاضے جیسے موضوعات پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ ان کے کالم اختصار اور جامعیت لیے ہوئے ہیں۔
حریمِ ادب خواتین کی اصلاحی اور ادبی انجمن ہے۔ اس کے پیش نظر ادبی تخلیقی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں صحت مند مزاج کو فروغ دینا ہے۔ نویدفکر کی اشاعت سے اس نے اچھی مثال قائم کی ہے۔ تاہم کالموں کے انتخاب میں زمانی ترتیب کے بجاے اگر موضوعاتی ترتیب کو بنیاد بنایا جاتا تو زیادہ بہتر تھا اور تنوع بھی قائم رہتا۔(امجد عباسی)
تحقیق کسی بھی نوعیت کی ہو، اشاریے اور کتابیات عملی تحقیق کے بنیادی معاون کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مدد سے مطلوبہ مضامین یا کتابوں تک پہنچنا آسان ہوتا ہے اور تلاش و تفتیش میں تحقیق کار کا قیمتی وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ علمی وادبی موضوعات پر رسائل و جرائد میں جو ذخیرہ پوشیدہ ہے، تحقیق میں اسے کام میں لانے کے لیے رسائل کے اشاریے بنائے گئے ہیں۔ زیرنظر کتاب رسالہ معاصر (کے۱۹۷۹ء سے دسمبر ۲۰۱۰ء تک کے ۲۳شماروں کا) اشاریہ ہے جس کے بانی اور مدیر اعلیٰ عطاء الحق قاسمی ہیں۔
ہرموضوع کے تحت رسالے میں شائع ہونے والے مضامین اور مکاتیب وغیرہ کے حوالوں کو مصنف وار ترتیب دیا گیا ہے۔ عنوان: ’سوانح‘ کے تحت معروف ادیبوں اور شاعروں پر مضامین (سوانح کے بجاے زیادہ تر ان کے ادبی اور شعری کارناموں پر)۔ تبصرۂ کتب اور تقریبات کی رُودادیں، مکالمات۔ آخر میں ۱۸صفحات پر مشتمل، ایک مختصر اشاریہ شامل ہے، یہ مصنف وار ہے اور یہ اس کتاب کا سب سے کارآمد حصہ ہے۔ اشاریہ ساز برادران اس سے پہلے بھی متعدد رسائل کے اشاریے مرتب کرچکے ہیں۔ مجلس ترقی ادب کے ناظم ڈاکٹر تحسین فراقی نے بجاطور پر لکھا ہے کہ ’’یہ اشاریہ تخلیق، تنقید اور تحقیق کے نئے راستے کھولے گا‘‘۔ (رفیع الدین ہاشم)