رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اذن و حکم سے قریشی عوام و خواص کے ستائے ہوئے مسلمانانِ مکہ نے سرزمینِ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ کیونکہ وہ بہ فرمانِ نبوی ’ارضِ عدل و صدق‘ تھی اور اس کے عادل حاکم نجاشی کے ملک میں کسی پر ظلم و جبر نہیں کیا جاتا تھا، حالاںکہ وہ ایک غیرعرب ملک تھا، جو بحراحمر کے پار افریقہ میں واقع تھا اور اس کا حاکم عقیدہ و مذہب کے لحاظ سے عیسائی تھا۔
قدیم ترین سیرت نگاروں کے سرخیل ابن اسحاق نے بلاسند یہ فرمانِ نبویؐ نقل کیا ہے: ’’تم لوگ سرزمین حبشہ میں چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ وہ پاک سرزمین ہے۔ وہاں اس وقت تک رہو جب تک اللہ تعالیٰ تمھارے معاملے میں کوئی کشادگی نہ پیدا کردے‘‘۔
اس حدیث کے دوسرے اطراف بھی ہیں، جو دوسری کتبِ سیرت و حدیث میں موجود ہیں۔ ابن اسحاق کی روایات کے ایک اہم خوشہ چیں ابن سیدالناس نے ان میں سے ایک کو بیان کیا ہے اور وہ امام عبدالرزاق کے ہاں روایت ہے۔ بخاری کی بحث ’ہجرۃ الحبشہ‘ کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اس کا دوسرا طرف مختلف الفاظ میں ابن اسحاق جیسا ہی نقل کیا ہے۔ امامانِ حدیث و سیرت اور ان کے شارحین کرام نے نہ اس حدیثِ نبویؐ پر بحث کی ہے اور نہ اس کے ماخذ و سرچشمہ کا حوالہ دیا ہے۔۱؎ بہر کیف یہ واضح ہے کہ وہ وحی الٰہی اور ہدایتِ ربانی پر مبنی فرمان تھا، کیوںکہ آپؐ کی احادیث بھی قرآنی وحی کی طرح وحی ربانی ہوتی تھیں۔ ظاہری طور پر یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ رسولِ اکرمؐ اپنی حکمتِ بالغہ سے مختلف امصار و دیار اور ان کے اکابر کے بارے میں واقفیت رکھتے تھے۔ ۲؎
نبوت کے پانچویں اور چھٹے سال مختلف قریشی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ۱۰۰مسلمان مختلف مرحلوں میں حبشہ کو ہجرت کرگئے۔ ان میں بیش تر نوجوانانِ قریش تھے، جن میں کنوارے بھی تھے اور شادی شدہ بھی، جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ مامون ملک میں پناہ لینے گئے تھے۔ ان کی حفاظت کی خاطر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہِ حبشہ نجاشی کو فرمان نامہ بھی ارسال فرمایا تھا، جس میں ان کو قریشی مظالم سے بچانے کا مضمون تھا۔
روایات کے مطابق بنو ہاشم و بنومطلب کے شیخ اور رسولِ اکرمؐ کے چچا ابوطالب بن عبدالمطلب ہاشمی نے بھی بعض خطوط لکھے تھے۔ مہاجرینِ حبشہ کے بیانات کو رسولِ اکرمؐ کے فرمانِ وحی آمیز نے مستند کیاتھا اور خطوطِ ابوطالب نے ایک شیخِ مکہ کی درخواست سے اس کو مزید سیاسی اور سفارتی تقویت پہنچائی تھی۔ مکی مہاجرینِ حبشہ کی ایک پڑوسی ملک میں سکون واطمینان کی زندگی اور اپنے دین و مذہب کے مطابق عبادت گزاری،دشمن اکابر قریش کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ انھوں نے قومی مجلس میں بحث و فیصلہ کے مطابق پناہ گزیں اہلِ مکہ کو حبشہ سے واپس لانے کا منصوبہ بنایا اور زیرک و حکیم سفارت کاروں کے وفود بھیجے۔
حضرت عمرو بن العاص سہمیؓ ، جو دور جاہلی میںاپنی حکمت و دانش اور سفارت کاری کے داؤ پیچ اور سیادت و سیاست کے فن کے ماہر تھے، وہی سربراہِ وفود رہے تھے، مگر ان کے تمام سماجی، دینی، علاقائی اور سفارتی کارناموں کا نتیجہ صفر رہا اور وہ پناہ گزینوں کو واپس لانے میں ناکام رہے۔ ان کے بعض ارکانِ وفد اور مکہ مکرمہ کے بہت سے اکابر و شیوخ مظالم کے خلاف بھی تھے اور پناہ گزیں مہاجرین کے خلاف سخت اقدامات کے مخالف بھی کہ وہ بہرحال ان کے ا پنے عزیز و قریب تھے اوران سے خون و قرابت کے گہرے رشتے تھے، کیاہوا کہ وہ جدا دین رکھتے تھے۔ ۲؎
غریب الوطنی، عزیزوں اور رشتہ داروں سے مفارقت اور مقامی لوگوں کے استہزاء وغیرہ کا مداوا کوئی حکومت نہیں کرسکتی۔ طاقت و حکومت کے ذریعے قانون بنایا اور نافذ کیا جاسکتا ہے اور نجاشی نے وہ کیا بھی، لیکن سماجی خوف اور پریشان حالی کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ نجاشی نے بہر حال قوانین کے ذریعے مہاجرینِ حبشہ کی حفاظت کے ساتھ سماجِ غیر میں مہذب سلوک کی جدوجہد بھی کی۔ قانونی طور سے ان کا ایک عادلانہ کام یہ تھا کہ اگر کوئی حبشی یاعیسائی شہری مسلم مہاجرین میں سے کسی کو کسی قسم کی اذیت دے گا تو اسے چار درہم جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ غالباً اس کے بعد بھی زبانی تعذیب اور سماجی طنز و تشنیع کا سلسلہ کسی حد تک جاری رہا تو مہاجرین کی درخواست پر کہ یہ رقمِ جرمانہ روک تھام میں ناکافی ہے، نجاشی نے اسے دوگنا یعنی آٹھ درہم کردیا۔ یہ تدبیر خاصی مؤثر رہی۔
تاہم غیرملک میں مہاجرین حبشہ کے ساتھ بیگانگی اور سرد مہری کا جو سلوک ہوتا رہا، وہ بھی سوہانِ روح تھا، جیسا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب ہاشمیؓ کی زوجۂ مہاجرہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ کا بیان صحیح بخاری وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ حکومتی اور انتظامی سطح پر بہرحال حضرت نجاشی نے ایک دوسرا حکم جاری کیا کہ مہاجرینِ حبشہ کے لیے کھانے اور کپڑے کا انتظام سرکاری خزانے سے کیا جائے: أمَرَ لَنَا بِطَعَامٍ وکِسوَۃٍ جیسا کہ ابن کثیر نے حافظ ابونعیم کی دلائل النبوۃ کی بنا پر لکھا ہے۔ سرکاری کفالت کا یہ اقدام صرف اس بنا پر کیا گیا کہ حکم راں مہرباں اور عادل تھا اور مقامی آبادی کی اکثریت بے نیاز و بے مروّت تھی۔۳؎
قدیم جاہلی دور سے قریشِ مکہ اور دوسرے طبقات اور خاندانوں کے حبشہ سے گہرے تجارتی تعلقات چلے آرہے تھے۔ وہ مکی دورنبوی میں بھی جاری رہے اور قریشی اکابر اورمکی سوداگر برابر عرب حبشہ تجارت کے باہمی کاروبار میں مشغول رہے تھے۔ عربی اور قریشی تاجر ہر سال کے ہرزمانے میں حبشہ تجارت کے لیے مسلسل آتے رہتے تھے، کیوںکہ وہ ان کی خاصی اہم تجارتی منڈی تھی۔ یہاں تک کہ جب قریشی وفود اوران کے اشراف و سفارت کار مہاجرینِ حبشہ کے انخلا اور خروج کے مقصد سے گئے تو سامانِ تجارت ساتھ لے گئے۔
یہ در اصل قریشی اور عرب تجارت کا ایک اصول و دستور تھا کہ جنگ وامن کسی بھی موقعے پر تجارت اور کاروبار کو نہیں بھولتے تھے۔ حبشہ میں مکی سامانِ تجارت میں چمڑے کے سامان -کھالوں اور دوسری مصنوعات-کی بڑی مانگ تھی اور وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لاتے تھے۔ اسی طرح حبشی تاجر و کاروباری عرب کی مختلف منڈیوں، خاص کر مکہ اور طائف کے قرب و جوار کے علاقوں میں مختلف سامانِ تجارت لاتے تھے۔ روایاتِ سیرت مہاجرینِ حبشہ کی تجارتی سرگرمیوں اور ان کی شاہی محافظت و مراعات کے بارے میں خاموش ہیں، لیکن دوسرے سماجی شواہد اور دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ مہاجرینِ حبشہ کی اتنی بڑی تعداد مدتوں تک محض مراحم خسروانہ پر زندہ نہیں رہی تھی۔ اول تو حکومتی وظائف کھانے کپڑے ہی کا مستقل بار نہ سنبھال سکتے تھے، تو دوسرے اخراجات و ضروریات کے لیے کیا سامانِ کفالت کرتے۔ دوسرے تمام مہاجرینِ حبشہ قریشی اشراف خاندانوں کے جوان و خود دارافراد تھے اور اپنی مکی زندگی میں تجارت و کاروبار میں مقام بنا چکے تھے۔
قیاس ہے کہ وہ اپنی مہاجرت کے زمانے میں اپنی ضروریات کی تکمیل کاروبار و تجارت سے کرتے تھے اور ملکی تجارت میں حصہ لیتے تھے۔ اس پر ابھی تحقیق باقی ہے، مگر ہجرتِ مدینہ کے بعد مہاجرینِ مکہ انصار کے بے مثال ایثار کے بعد جس طرح تجارت و کاروبار کرنے لگے تھے، اسی طرح وہ ہجرتِ حبشہ کے قیام کے زمانے میں بھی ضرور کرتے رہے ہوںگے۔ اس قیاس کو تقویت اس سے ملتی ہے کہ متعدد مہاجرینِ حبشہ نے بعد میں ہجرتِ مدینہ کرکے دوہری مہاجرت کاتجربہ اور اجر و ثواب حاصل کیاتھا، وہ کسی طرح اپنے معاشی معاملے سے رُوگردانی نہ کرسکتے تھے کہ وہ ان کے خون میں شامل تھا۔ ان میں: حضرت عثمان بن عفان اموی، عبدالرحمن بن عوف زہری، زبیر بن عوام اسدی، ابوحذیفہ بن عتبہ عبشمی، ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومی، عثمان بن مظعون جمحی، عمرو و خالد فرزندانِ سعید بن العاص اموی رضی اللہ عنہم جیسے تجربہ کار اور مکی دور میں مسلمہ تجارِ قریش تھے اور دوسروں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ ان کے علاوہ متعدد حضرات و خواتین صنعت و دست کاری کے پیشے سے وابستہ رہے تھے اور متعدد مہاجرین کا مشغلہ مزدوری کا رہا تھا۔ قوی امکان ہے، بلکہ قریب قریب وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مہاجرینِ حبشہ نے حصولِ معاش کے روایتی طریقے اپنائے تھے اور حکومت نے ان کو مراعات دی تھیں۔۴؎
روایاتِ سیرت و تاریخ اور احادیث و آثار کا اتفاق ہے کہ مہاجرینِ حبشہ کی ایک بڑی تعداد وہاں آباد و مقیم رہی۔ اگرچہ اکابرِ مکہ کے اسلام لانے کی خبر سن کر ایک بڑی تعداد مکہ مکرمہ لوٹ آئی تھی اور وہاں سماجی تحفظ کے نظام کے تحت بعض سرداروں کے تحفظ و جوار میں اپنے اپنے گھروں اور خاندانوں میں رہنے لگی تھی۔ مہاجرین کی بقیہ تعداد واپس حبشہ چلی گئی اور شاہ نجاشی نے ان کو وہی تحفظ فراہم کردیا۔ بعد کے واقعات و روایات اور شاہ نجاشی کے عادلانہ اور خسروانہ طریق سے یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان مہاجرین کی آمد و رفت میں حکومتِ وقت نے مالی یا مادی امداد فراہم کی تھی، جیسے مہاجرینِ حبشہ کے آخری انخلا کے وقت نجاشی نے کشتیوں کا انتظام کیا تھا۔ حبشہ واپس جاکر دوبارہ بسنے والے مہاجرین کی تعداد تیس چالیس کے درمیان بتائی جاتی ہے ۔ یہ لوگ وہاں قریب قریب دس بارہ سال مزید مقیم رہے اور ان کے بال بچے پیدا ہوئے، جنھوں نے سماجِ حبشہ میں پرورش پائی۔ اس میں تعلیم و تربیت اور دوسرے سماجی معاملات بھی شامل تھے۔۵؎
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اور ان کے ساتھ اشعری اور دوسی مہاجرین کا ایک نیا دستہ حالات کے ہاتھوں حبشہ جا پہنچا۔ طوفانی ہوائیں ان کی کشتیوں کو مدینہ منورہ لے جانے کے بجائے حبشہ کے ساحل پر لے گئیں، حالاںکہ وہ ہجرتِ نبوی کی خبر سن کر مدینہ کے قصد سے نکلے تھے۔ ان کی تعداد کافی تھی۔ بخاری وغیرہ کی روایات کے مطابق حضرت جعفر بن ابی طالب ہاشمیؓ کے مشورے پر وہ حبشہ میں ہی مقیم رہے کہ ان کے لیے یہی اذنِ نبوی تھا۔ ابن اسحاق وغیرہ نے مکی مہاجرین کے بقیہ افراد کی آخری واپسی کے واقعہ میں ۳۴؍ افراد کے اسماء گرامی خاندان وار گنائے ہیں ۶؎ ،لیکن ان کے ساتھ نہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے ساتھ اشعری اور دوسی مہاجرین حبشہ کی واپسی بیان کی ہے، نہ ان کے نام لیے ہیں اور نہ ان کی تعداد ذکر کی ہے۔
دوسری روایات اور شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان یمنی مہاجرین حبشہ کی تعداد ایک سو کے قریب یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔ ہجرتِ نبوی کے بعد کم از کم ڈیڑھ سو مہاجرینِ حبشہ کی حفاظت و کفالت اور سرپرستی و وکالت کا منصفانہ کارنامہ نجاشی نے انجام دیا تھا۔۷؎ اسی کے ساتھ رسول اکرم ؐ کے قاصدِ خاص حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ اور ان کے قافلہ و وفد کی مہمان داری اور ضیافت بھی وہ کرتے رہے تھے۔ مکی اور مدنی دونوں ادوار میں قاصدینِ نبوی اور دوسرے اسلامی وفود کا مرکزِ نبوت سے حبشہ جانا ایک مسلّمہ امر ہے اور ان کا دورانیہ بھی خاصا تھا۔۸؎ اس پورے دور میں حضرت نجاشیؓ نے اور ان کے بعد ان کے جانشین نے پورے تحفظ و حمایت اور کفالت و سرپرستی کا شان دار کارنامہ انجام دیا تھا۔
بحث کا دوسرا حصہ حبشہ میں حضرت نجاشیؓ کی اشاعت و تبلیغ دین کی مساعی پر مشتمل ہے، جو ایک طویل مدت تک جاری رہا۔ یہ سنہ ۵-۶ نبوی / ۶۱۵-۶۱۶ عیسوی میں ہجرتِ حبشہ کے آغاز سے سنہ ۷ھ/۶۲۹ء میں تمام قریشی اور یمنی مہاجرین کی مدینہ واپسی تک تقریباً تیرہ چودہ برسوں کا عرصہ ہے۔ یہ کوششیں نجاشی کے فرزند و جانشین نے بھی بعد میں جاری رکھیں۔ ان کے کئی پہلو اور جہات ہیں اور ان سب کے اثرات و نتائج بھی کافی موثر و نتیجہ خیز رہے تھے۔ ان کا ذکر آیندہ سطور میں ایک منطقی ترتیب سے کیا جاتا ہے۔
روایاتِ سیرت و تاریخ اور آثار و احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ معاصر اولین نجاشی حضرت اصحمہ بن ابجرؓ نے دربار میں حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی تقریر اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سننے کے بعد نہ صرف آپؐ کی تصدیق کی تھی، بلکہ اسلام بھی قبول کرلیا تھا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے اسلام کو چھپایا تھا، تاکہ ان کے مذہبی رہ نما (بطارقۃ) اور دوسرے امرا ہنگامہ نہ کھڑا کردیں، جب کہ بعض دوسری روایات و احادیث سے حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ حضرت نجاشی اولؓ نے سفیرانِ نبوی کے ذریعے اپنے خطوط و پیغامات میں اور مہاجرینِ حبشہ کے واسطے سے بھی اپنے اسلام قبول کرنے کا ذکر کیا تھا اور خدمتِ نبوی میں اس کا اقرار و اظہار کرنے کا ولولہ دکھایا تھا۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت نجاشیؓ نے امورِ مملکت اور حکم رانی کی مکروہات میں مبتلا ہونے کے سبب بارگاہِ نبوی میں حاضری سے معذرت کی تھی، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی عرض بھیجی تھی کہ حکم ہو تو سب کچھ تج کرکے حاضرِ خدمت ہوکر قدم بوسی کروں، تاکہ اسلام کے اثبات کے ساتھ شرفِ صحبت بھی مل جائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اظہارِ ایمان، اقرارِ اسلام، تصدیقِ رسالت، محافظتِ مہاجرین اور کفالتِ پناہ گزین کو کافی سمجھا،ان کو مکہ مکرمہ یا مدینہ آنے کی اجازت یا اذن نہیں دیا کہ اس کے بغیر ہی ان کا سچ ثابت تھا اور حبشہ کی فرماں روائی اور حکومت پر ان کا تصرف عظیم اسلامی مصالح کا ضامن تھا۔ ان کے حبشہ سے مرکزِ نبوت میں آبسنے سے بہت سے فوائد و ثمرات سے محرومی ہوجاتی۔ حضرت نجاشیؓ نے اپنی وصیت میں بھی اپنے اسلام لانے کاا علان و اقرار کیا تھا اور اسے اپنے سینۂ صدق و صفا پر چسپاں کرلیا تھا۔ انھی اسباب اور شواہد کی و جہ سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات کی خبر سن کر ان کی غائبانہ نمازِجنازہ صحابہ کے ساتھ پڑھی تھی۔ حضرت اصحمہ بن ابجرؓ کے انتقال کے بعد ان کے جانشین نجاشی حضرت ابونیزر عبداللہ بہ حیثیت مسلم تاج دارِ حبشہ حکومت کرتے رہے اور مطیعِ مرکز رہے۔۹؎
بعثتِ محمدی کا واقعہ اہل کتاب میں یہود و نصاریٰ دونوں کے لیے رسول آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مبارک کی بشارتِ انبیاء کے وعدۂ ربانی کا ایفا تھا۔ ان کی کتبِ سماوی (تورات و انجیل وغیرہ) میں اوصافِ محمدی ہی نہیں، خصائص و صفاتِ صحابۂ کرام بھی بیان کی گئی تھیں۔ نصاریٰ خاص طور سے رسول کریمؐ کی آمد و ظہور کے منتظر تھے کہ ان کے رسول معظم حضرت عیسٰی ؑ نے اپنے بعد احمدؐ کی نبوت و رسالت کی بشارت دی تھی۔ روایاتِ سیرت و حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر جلد ہی عام ہوگئی تھی۔ مکہ مکرمہ، یثرب وغیرہ کے نصاریٰ اور ان کے احبار و علماء نہ صرف اس خبر و واقعہ سے واقف ہوچکے تھے، بلکہ کئی نے آپ کی تصدیق بھی کی تھی۔۱۰؎
بعض روایات میں ہے کہ بعثتِ نبوی کے اولین عرصے میں ہی حبشہ کے نصاریٰ کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خبر مل گئی تھی اور ان کا ایک بیس نفری وفد تحقیقِ احوال اور زیارت و ملاقات کے لیے ہجرتِ حبشہ سے قبل مکہ آیا اور مسجد حرام میں آںحضرتؐ سے ملا۔ ان کے علماء اور صاحبانِ فکر و دانش نے سلام و کلام اور تعارفی بات چیت کے بعد متعدد دینی امور پر بحث و ومذاکرہ کیا۔ آپؐ نے ان کے سوالات کے جوابات دیے، ان کو قرآنی آیات سنائیں، چنانچہ وہ آپ کی حقانیت سے مطمئن ہوگئے اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
دوسری روایات اور ان پر اہل علم کی تحقیقات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حبشہ کے نصاریٰ کا اولین وفد آپؐ کی خدمت میں ہجرتِ حبشہ کے بعد آیا تھا۔ بہرحال اس کا بھی امکان ہے کہ ایسے دو وفود مکہ مکرمہ کے زمانے میں آئے ہوں کہ واقعات کے تعدّد کا امکان بہ قول محدثین ہمیشہ رہتا ہے۔ تمام اختلافاتِ روایات سے قطعِ نظر یہ حقیقت مسلّم ہے کہ بہ ہر کیف مکی دور میں حبشہ کے نصاریٰ کی ایک جماعت نے دستِ نبوی پر اسلام قبول کیا تھا۔۱۱؎
ابن اسحاق نے اس وفدِ نصاریٰ کا ذکر تفصیل سے کیا ہے اور ان کے ضمن میں سورۂ قصص کی آیاتِ کریمہ : ۵۲-۵۵ کے نزول کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے نصاریٰ کے اس وفد کے بارے میں یہ خیال کہ وہ نجران سے آیا تھا ، غلط قرار دیا ہے اور اس کو’یُقال‘ کے صیغۂ تضعیف سے نقل کیا ہے۔ انھوں نے مزید بیان کیا ہے کہ مسجد حرام کے صحن میں اکابرِ قریش کی مجالس میں ان کے حاضرین بھی اس واقعہ کے شاہد تھے اور سخت مضطرب بھی۔ ابوجہل مخزومی حسبِ فطرت برداشت نہ کرسکا تو وفد کے ارکان سے الجھ پڑا اور ان کو سخت سرزنش کی کہ تمھارا وفد بدترین ہے، اللہ تمھیں غارت کرے، تمھارے لوگوں نے تم کو بھیجا تھا کہ اس شخص کے بارے میں خبر لے کر آؤ، لیکن تم اس کی مجلس میں بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ دیا اور اس کا دین قبول کرکے تصدیق بھی کی۔ ارکانِ وفد نے صبر وثبات سے جواب دیا کہ ’’سلام علیکم، ہم آپ سے اپنی بات پر جہالت بھری بحث نہیں کریں گے، آپ کا موقف آپ کے ساتھ اور ہم نے جو صحیح سمجھا اسے اختیار کرلیا‘‘۔ دوسرے سیرت نگاروں نے بھی اس وفد اور اس کے قبول اسلام کے واقعات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔۱۲؎
سیرت نگاروں اور مورخوں نے مدنی عہد نبوی میں صرف ایک اور حبشی وفد کی آمد اور زیارتِ نبوی کا ذکر کیا ہے۔ روایات کے مطابق یہ وفد ۷۰؍ افراد پر مشتمل تھا اور حضرت جعفر بن ابی طالب ہاشمیؓ کے زیر قیادت مہاجرینِ حبشہ کے آخری حصہ کی وطن واپسی پر ساتھ آیا تھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ وہ سب قدیم مسلمان تھے، یعنی بارگاہِ رسالت میں حاضری سے قبل اپنے ملک میں ہی اسلام لاچکے تھے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ مدینہ میں زیارتِ نبوی کے موقع پر آپ کے دستِ مبارک پر اسلام لائے۔ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔۱۳؎
واقعہ تو یہ تھا کہ وہ تمام حبشی افراد پہلے اسلام لاچکے تھے۔ مدینہ حاضری پر انھوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعتِ اسلام کی۔ یہ تطبیق کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ واقعاتِ قبولِ اسلام کا ایک خاص فطری، نفسیاتی اور سماجی رجحان ہے، جو بار بار نظر آتا ہے۔ عرب بدوی قبائل کے افراد کا معاملہ ہو یا خاص مکہ و مدینہ کے افراد کا یا دوسرے دیار و امصار کے افراد و طبقات کا، وہ اسلام تو دعاۃ و مبلغین کی دعوت پر لاتے تھے اور اپنے اپنے علاقوں میں اسلامی تعلیمات کے خوگر اور عامل بن جاتے تھے۔ ان کی عقیدت و شیفتگی بعد میں موقع ملتے ہی کشاں کشاں بارگاہِ رسالت میں لے جاتی اور وہ آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے۔ اہلِ سیرت اسے اسلام لانے سے تعبیر کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک دستِ نبوی پر اسلام لانا شاید مزید شرف کا نام تھا۔۱۴؎
دوسرے وفود میں ایک کا حوالہ اسدالغابہ میں ملتا ہے کہ غزوۂ بدر کی فتح کے بعد نجاشی اور حبشی امت مسلمہ کو خوشی ہوئی۔ بعض دوسری روایات میں ہے کہ بدر کی فتح کی خوش خبری نجاشیؓ نے اپنے لوگوں کے ساتھ مہاجرینِ حبشہ کو سنائی تھی۔ بہرحال اسدالغابہ کے مطابق مسلمانانِ حبشہ کے ایک گروہ نے نجاشیؓ سے اجازت مانگی کہ وہ زیارتِ نبوی کے لیے مدینہ جائیں۔ اجازت ملی اور وہ مرکزِ اسلام حاضر ہوئے۔ وہ وقت غزوۂ احد کا تھا۔ انھوں نے اذنِ نبوی سے غزوۂ احد میں شرکت کی سعادت پائی۔ ایسے اور بھی وفود ہوسکتے ہیں اور اگر واقعات و روایات ان کی تصدیق نہیں کرتے تو بہرحال اس حقیقت کی تائید تو کرتے ہی ہیں کہ مکی اور مدنی دونوں ادوار میں حبشی امتِ اسلامی کی تشکیل و تعمیر میں مہاجرینِ حبشہ، ان کے اپنے مبلغین اور نجاشیؓ کی دعوت و تبلیغ کا خاصا گہرا اثر پڑا تھا اور ان کے سبب سے وقتاً فوقتاً حبشی افراد و طبقات اسلام لاتے رہے تھے۔ ان کا ذکرِ خیر تراجمِ صحابہ کی کتابوں میں ملتا ہے، جسے مولانا مجیب اللہ ندویؒـ نے اپنی کتاب میں جمع کردیا ہے۔ ان کے تجزیہ سے اسلام کی اشاعت کا ایک مرقع بنایا جاسکتا ہے۔۱۵؎
قریشی قائدین کے صفِ اول کے سالار، سیاست و سفارت کے اعلیٰ جان کار اور قوم و ملت کے مرد حکیم تھے حضرت عمرو بن العاص سہمیؓ، جو مختلف اسباب سے اسلام کے مخالف اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے اور غزوات میں مقابلہ آرائی کرتے رہے۔ مکی دور میں ان کی مخالفتِ اسلام میں سیاست و سفارت کاری اور حکمت و دانش کا مظاہرہ ان قریشی وفود میں ہوا جو مہاجرینِ حبشہ کو کسی طرح نجاشی کے عادلانہ نظام سے نکال کر قریشی مظالم کی چکی میں پیسنے کے لیے اپنی قوم کے معاند اکابر کے ساتھ کرتے رہے تھے۔ غزواتِ بدر و احد و خندق میں اپنی فوجی ناکامیوں اور رسولِ اکرمؐ کی قائدانہ کامیابیوں سے وہ اسی طرح دل برداشتہ ہوئے تھے جس طرح حبشہ میں اپنی سفارت کاریوں کے انجام سے۔ اس کے باوجود وہ اسلام کے بارے میں اپنی فکر و دانش کا رخ صحیح نہیں کرسکے۔ صلح حدیبیہ کے معاہدہ نے ان کو مزید شکستہ خاطر کردیا، لہٰذا وہ گوشۂ عزلت میں جابیٹھے اور یہ ان کی ناکام سیاست کا ایک نشان بن گیا۔ اس گوشہ تنہائی میں ان کو ایک خیال سوجھا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ حبشہ جابسیں، تاکہ محمدؐ کے تسلّط و غلبہ کے سبب وہ حمایت و حفاظتِ نجاشی کی بنا پر محفوظ و مامون رہیں۔ اس زمانے میں بھی ان کو اسلام کا غلبہ تو نظر آرہا تھا، لیکن اس کو قبول کرنا منظور نہ تھا۔
قومی و خاندانی حمایت و تائید سے حضرت عمرو بن عاص سہمیؓ دربارِ نجاشی میں اس وقت پہنچے جب رسولِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر خاص حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ اپنے سفارتی وفد کے ساتھ موجود تھے، تاکہ بقیہ مہاجرینِ حبشہ کو واپس مرکز اسلام لے جاسکیں اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان اموی رضی اللہ عنہما سے کراکے ان کو بہ طور اُم المومنین رخصت کراکے مدینہ پہنچائیں۔ ۱۶؎ دربارِ عام میں حضرت نجاشیؓ کو سفیرِ نبوی سے محوِ کلام دیکھا تو ان کے دماغ میں مخالفتِ اسلام اور عنادِ رسول کا کیڑا پھر کلبلایا۔ انھوں نے اپنے رفقاء خاص کی تائید و حمایت سے سفیرِ نبوی کو قتل کرکے قریش کا دل ٹھنڈا کرنے کا منصوبہ بنایا اور دربار خاص اور بارگاہ خلوت میں حضرت نجاشیؓ سے اپنی قدیم دوستی اور دیرینہ تعلقات کی وجہ سے جسارت کی اور سفیرِ نبوی کو براے قتل مانگ لینے کی درخواست کرڈالی۔
نجاشیؓ اس جسارتِ بے جا پر اتنے غضب ناک ہوگئے کہ ان کے چہرے پر مکّا مار کر ان کی ناک لہو لہان کردی اور ان کو سخت شرم سار کیا۔ نجاشیؓ نے ان کی عقل و فہم سے اپیل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر کو طلب کرتے ہو؟ حالاںکہ وہ سچے رسول ہیں اور ان کے پاس وہی ناموسِ اکبر آتا ہے، جو حضرات موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام پر نازل ہوا کرتا تھا۔ ابھی تک تمھاری فراست اس حقیقت کو نہ پاسکی؟ عالمِ شرمندگی میں ان کے قلب و نظر سے بغض و عناد کے پردے اُٹھ گئے اور وہ سمجھ گئے کہ اس حق کلی کو تمام عرب و عجم نے جان لیا ہے اور نجاشیؓ نہ صرف معرفتِ حق سے سرفراز ہیں، بلکہ سچے رسول پر ایمان بھی لاچکے ہیں۔ معرفتِ حق کا جلوہ دیکھتے ہی انھوں نے حضرت نجاشیؓ سے رسالتِ محمدیؐ کی تصدیق چاہی تو وہ فوراً ملی اور اسی کے ساتھ ان کے قلب و روح میں اسلام سماگیا۔ انھوں نے شاہ حبشہ سے اسلام اور رسالت محمدیؐ پر بیعت لینے کی درخواست کی، جو فوراً قبول ہوئی اور حضرت عمرو بن العاصؓ مسلمان ہوگئے۔
دربارِ خاص میں حضرت عمرو بن العاص سہمیؓ کو خلعتِ شاہی سے نوازا گیا۔ روایت کا اصرار ہے کہ وہ ان کے لباس کے خون آلود ہونے کے سبب بہ طور عطیہ ملا تھا، جب کہ شاہ نجاشیؓ کا عطیہ دراصل ان کے اسلام کے خلعتِ خاص سے سرفراز کرنے کا تھا اور وہ نو مسلم کا حق بھی تھا۔ حضرت عمرو بن العاص سہمیؓ کے دل میں صرف ایک دھن سوار تھی کہ کسی صورت میں وہ سیدھے بارگاہِ نبوی میں پہنچ جائیں۔ باہر نکل کر انھوں نے رفقاے وفد سے ضروری کام کا بہانہ بنایا اور سیدھے ساحلِ سمندر پر پہنچے اور ایک کشتی میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ شعیبہ کی بندرگاہ پر اترے، اونٹ کی سواری کی اور مرالظہران سے ہوتے ہوئے مقام ہدہ پہنچے، تو دیگر قریشی قائدین و منصب دار حضرات خالد بن ولید مخزومی اور عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوگئی، جو اسلام لانے کے لیے مدینہ جارہے تھے۔ یہ ان کے ساتھ ہوگئے۔ یہ قافلۂ ہدایت بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا اور آپؐ کے دست مبارک پر اسلام لایا۔ یہ حضرات خالد و عثمان رضی اللہ عنہما کا اولین قبولِ اسلام تھا اور حضرت عمرو سہمیؓ کا تائیدی، کہ اسلام تو انھوں نے حضرت نجاشیؓ کے دستِ حق پرست پر قبول کیا تھا اور اسے اپنے رفقاء اور زمانے سے مخفی رکھا تھا۔
اوائل سنہ ۷ھ/۶۲۹ء میں حضرت نجاشیؓ کے ہاتھ پر ایک عظیم قائدِ قریش اور مدبرِ قوم کا اسلام لانا ایک سادہ واقعہ نہیں ہے، بلکہ وہ متعدد دینی اور سماجی جہات اور حکمتیں رکھتا ہے، جن سے بالعموم بحث نہیں کی جاتی۔ امامانِ سیرت و تاریخ ابن اسحاق و واقدی کی متفقہ روایت اور بعد کے دوسرے اہل سیرت و تاریخ کی تائیدی روایات سے ان کا ایک اندازہ ہوتا ہے:
۱- ابن اسحاق / ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، حمدی طباعت، قاہرہ ۲۰۰۶ئ، ۱/۲۰۴ ومابعد ؛ سہیلی، الروض الانف، مرتبہ عبدالوکیل، قاہرہ، غیر مورخہ، ۳/۲۰۳-۲۱۵ ومابعد؛ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دار صادر بیروت، ۱۹۵۷ئ، ۱/۲۰۳-۲۰۸؛ ابن سیدالناس، عیون الاثر، قاہرہ ۱۹۲۷ئ، ۱/۱۵۱-۱۵۸؛ ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ ، مصر ۱۹۳۲ئ، ۳/۶۶-۷۹؛ نیز بخاری / فتح الباری: ۷/۲۳۵-۲۳۸ ومابعد؛ بلاذری، انساب الاشراف، قاہرہ ۱۹۵۹ئ، ۱/۱۹۸-۲۰۵
۲- ابن اسحاق / ابن ہشام، سہیلی، بخاری، فتح الباری وغیرہ کے مباحث ہجرتِ حبشہ میں وارد روایات کا تجزیہ راقم نے اپنی کتاب ’مکی اسوۂ نبوی‘ میں کیا ہے۔ نجاشی کے نام نامۂ نبوی کا ذکر ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے طبری کے حوالے سے کیا ہے۔
۳- ابن ہشام ، ۲/۳۶۰-۳۶۱؛ سہیلی ، ۳/۲۴۸ وغیرہ؛ فتح الباری، ۷/۲۳۷-۲۳۸ اور ۶۰۵-۶۰۸؛ ابن کثیر ۳/۷۰-۷۱؛ مولانا مودودی، سیرت سرورِعالمؐ، ۲/۵۹۲ ومابعد بحوالہ ابن عساکر وطبرانی۔
۴- ابن ہشام ، ۱/۳۵۷؛ سہیلی ، ۳/۲۴۴؛ مولانا مودودی، ۲/۵۶۹؛ مکی اسوہ نبوی، ۱۲۰-۱۲۲
۵- ابن اسحاق/ ابن ہشام، ۳/۲۲۹-۲۳۵ وغیرہ؛ مکی اسوہ نبوی ، حوالہ سابق
۶- ابن اسحاق کے علاوہ بلاذری میں قریشی مہاجرین کی تعداد چالیس بیان کی گئی ہے۔ فتح الباری ، ۷/۶۰۷ میں اس پر مزید بحث ہے۔
۷- حدیث بخاری (۴۲۳۰) میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے مطابق ان کی قوم کے بضع و خمسین (۵۰ سے زائد) ثلاثۃ وخمسین (۵۳) یا اثنین وخمسین (۵۲) افراد کی تعداد تھی۔ کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر؛ فتح الباری، ۷/۶۰۵-۶۰۷ ومابعد وغیرہ۔ بحث حافظ ابن حجر میں ۵۰؍اشعریوں کے علاوہ چھ افراد قبیلہ / خاندان عک کے بھی ان کے ساتھ تھے، جو حافظ ابن مندہ کی اس روایتِ بخاری کا دوسرا طرف ہے اور جسے امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کی تطبیق کی ہے۔ اصل روایتِ بخاری میں مردوں (رجال) کی تعداد ہے اور ان میں بالعموم عورتوں اور بچوں کو شامل نہیں کیا جاتا، جیسا کہ عرب راویوں، سیرت نگاروں اور محدثین کرام کا عام طریقہ ہے۔ ابن سعد ، ۲/۱۶۸۔ وفد الاشعریین میں پچاس اشعری اور صرف دو عکی مرد ان کار (رجال) کا ذکر ہے۔ ایسے اختلافات اور بھی ہیں، جن پر بحث کا یہ موقع نہیں ہے۔
۸- حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کے ایک سے زیادہ وفود لے جانے کا ذکر ملتا ہے۔ وہ مکی دور سے مدنی دور تک کئی بار فرامینِ نبوی دربار نجاشی میں لے گئے تھے۔ ظہور احمد اظہر، ’شاہِ حبشہ، خدمت نبویؐ میں‘ ۲۰۱۳ئ، لاہور،۱۸۶، ۱۹۰ و مابعد میں ان کے وفود پر بحث ہے اور دوسرے معاملات پر بھی، خاص کر حضرت نجاشیؓ کی خاطر مدارات اور تحفظ و مراعات پر۔
۹- مکی اسوۂ نبویؐ، ۱۲۸-۱۳۱، جس کے مآخذ یہ ہیں: ابن کثیر ، ۳/۷۰: فأنا أشہد أنہ رسول اللہ وأنّہ الذی بشّر بہ عیسٰی ، ولولا ما أنا فیہ من الملک لآتیہ حتی أقبّل نعلیہ‘‘ ، ۳/۷۲،بہ روایت حافظ ابونعیم؛ ۳/۷۷ میں ان کی وصیت کی دستاویز کے لیے۔ بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب موت النجاشی؛ فتح الباری، ۷/۲۴۰-۲۴۱؛ کتاب الجنائز، مختلف ابواب، مسلم، کتاب الجنائز؛ نیز ابن ہشام ، ۱/۳۶۱ وما بعد؛ سہیلی ، ۳/۳۴۸-۲۵۲ وغیرہ۔ نیز ظہور احمد اظہر کے دوابواب ۴۲-۸۷۔
۱۰- قرآن مجید کی متعدد مکی اور مدنی آیات کریمہ میں انبیاء کرام کی بشارتیں اوران کی کتابوں اور صحف میں آپ کا ذکر خیر ملتا ہے۔ جیسے سورۂ فتح کی آخری آیت : ’’مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہ الخ؛ سورۂ صف : ۶ میں بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام: وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَّاتِی مِن بَعدِی اسمُہ أحمَد؛ سورۂ اعراف : ۱۵۷: ’’۔۔۔ یَجِدُونَہ مَکتُوباً عِندَہُم فِی التَّورَاۃِ وَالانجِیل الخ وغیرہ۔ ابن اسحاق / ابن ہشام ، ۱/۱۵۳: صفۃ رسولؐ اللہ من الانجیل؛ نیز اس کے بعد کا باب ، ۱/۱۵۴، جو انبیاء سے میثاق الٰہی کا ذکر کرتا ہے۔ حضرت ورقہ بن نوفل اسدیؓ کی تصدیق رسالتِ محمدی ایک مصدّقہ واقعہ ہے۔ دوسرے ’احناف‘ میں سے بھی بعض نے اس کی تصدیق کی۔ حضرت ورقہؓ کے اسفارِ تلاشِ حق اور متعدد احبار و علماء سے ملاقاتیں اور دوسرے احناف کے اسفار بھی بعثت کی خبر پھیلانے کا باعث بنے تھے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کے قبولِ اسلام کے ضمن میں متعدد عیسائی علماء اور رہبان نے آپؐ کی آمد کی بشارت دی تھی اور اسی کی وجہ سے حضرت سلمان فارسیؓ نے عرب کا رخ کیا تھا کہ اسی کے ایک مقام موعود پر رسول آخر الزماں کا ظہور ہوگا۔ ابن ہشام ، ۱/۱۵۶-۱۵۷؛ اور اسلام سلمانؓ کے لیے، ۱/۱۴۲ ومابعد ، بخاری / فتح الباری، کتاب مناقب الانصار۔
۱۱- ابن اسحاق/ ابن ہشام، ۲/۲۶-۲۷ نے بیس نفر یا اس کے قریب کا ذکر کیا ہے اور بعض دوسرے مآخذ میں ۶۰کی تعداد بھی ہے۔
۱۲- حوالہ سابق؛ ابن کثیر، ۳/۷۱-۹۰؛ مکی اسوہ نبوی، ۱۳۱ ومابعد؛ ظہور احمد اظہر ، ۱۶۲-۱۶۹، بہ حوالہ ابن ہشام، ابن کثیر، سیر اعلام النبلاء اور زرقانی وغیرہ۔ موصوف نے حسب معمول اس بحث میں بھی دوسرے امورِ سیرت اور واقعاتِ تاریخ سے بحث کی ہے، جو ان کے جوش ایمانی کی عکاس ہے۔
۱۳- ابن اسحاق/ ابن ہشام؛ ابن سعد، ۴/ ۳۷۱۔ ابو موسیٰ الاشعریؓ کے بارے میں صراحت کی ہے کہ وہ مکہ میں اسلام لائے، پھر ارضِ حبشہ کو ہجرت کی اور پھر دو کشتیوں والوں کے ساتھ خیبر میں خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ وہ مکہ میں اسلام لانے کے بعد اپنے وطن میں کام کرتے رہے، پھر وہاں سے حبشہ پہنچے۔ اشعریوں کی تعداد ۵۵ تھی؛ ۴/۳۷۷۔ ان کے ساتھ دوسی حضرات بھی تھے۔
۱۴- بدوی قبائل عرب میں مقامی مبلغین کرام اور داعیوں کے ہاتھ پر قبولِ اسلام کا ایک درخشاں سلسلہ ہے اور اس کے بعد چمکتے ستارے ہیں: حضرت ابوہریرہ دوسیؓ، حضرت عمرو بن طفیل دوسیؓ کے خاندان والے، حضرت اشج عبدالقیسیؓ اور ان کے برادر زادے۔ بحث کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ’عہدنبویؐ میں تنظیم ریاست و حکومت‘، طبع دہلی ۱۹۸۵ء کا باب دوم۔
۱۵- مجیب اللہ ندوی، اہل کتاب صحابہ و تابعین، مطبع اعظم گڑھ، ص ۲ و مابعد اور حاشیہ: ۱-۲؛ مکی اسوۂ نبوی ، حوالہ سابق۔
۱۶- ابن اسحاق / ابن ہشام اور واقدی کی دو روایات بابت اسلام حضرات ثلاثہ میں رسولِ اکرم ؐ کے ایک نامہ گرامی کا ذکر ہے۔ ابن سعد (۴/۴۴۴) نے لکھا ہے کہ عمرو بن امیہ ضمریؓ کے بہ دست دونامے بھیجے گئے تھے، جن میں الگ الگ دو مضامین تھے۔ حضرت عمرو ضمریؓ جنگِ احد کے بعد فوراً اسلام لائے تھے۔