۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہماری تاریخ کا ایک روشن اور سنہری دن ہے۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص سے بیسویں صدی میں پہلی بار ایک آزاد اسلامی ملک وجود میں آیا__ ایک ایسا ملک، جو آزادی کی تحریکات کے قافلے میں ایک منفرد مقام رکھتا تھا۔
اس امتیازی شان کی بنیاد یہ تھی کہ مغربی استعمار کے خلاف جو دیگر اقوام اور ممالک، آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، وہ پہلے سے اپنا نام اور جغرافیہ رکھتے تھے، اور صرف اپنے اُوپر سے بیرونی تسلط سے نجات پانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ ان کے برعکس برعظیم کی صورت حال یہ تھی کہ ایک قوم جس کی بنیاد عقیدے اور نظریے پر تھی، وہ اپنے لیے ایک نیا ملک وجود میں لانے کے لیے سرگرم تھی۔ اس کی جنگ ایک نہیں دو طاقتوں کے خلاف تھی۔ ایک طرف برطانوی سامراج تھا جس نے برعظیم میں محض قوت کے بل بوتے پر قبضہ کرلیاتھا اور دوسری طرف ہندستان کی ہندو اکثریت تھی، جو ’متحدہ ہندی قومیت‘ کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے سیاسی محکومی کا ایک نیا جال بُن رہی تھی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے ان دونوں طاقتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بڑی گراں قدر قربانیوں کا نذرانہ پیش کر کے ایک خطۂ زمین حاصل کیا جسے انگریزوں اور ہندوئوں نے بڑی کانٹ چھانٹ کے بعد ہی دیا۔ یہ ملک، جغرافیائی قومیت کی بنیاد کے مقابلے میں ایک اصولی اور نظریاتی قومیت کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، تاکہ ہندی مسلمان اپنی دینی، تہذیبی اور ملّی شناخت کی حفاظت اور ترقی کا اہتمام کرسکے، نیز اپنے اصول و نظریات کی روشنی میں اپنا مستقبل تعمیر کرسکے۔
انسانی تاریخ میں نظریاتی ریاست کی یہ روشن مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کی شکل میں قائم ہوئی تھی، اور ۱۲۰۰ سال تک مختلف شکلوں میں یہ اپنا جلوہ دکھاتی رہی، لیکن مغربی استعمار کے دو ڈھائی سو سالہ دور میں اس شمع پر اندھیروں نے غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ اگرچہ دلوں میں یہ شمع روشن تھی، لیکن اس کی روشنی سے سیاسی اور اجتماعی زندگی محروم ہوگئی تھی اور مغربی دنیا ہی نہیں تقریباً دنیا کے سارے طول و عرض پر ایک نئے سیاسی اور تہذیبی نظام کو مسلط کردیا گیا تھا جس میں قوموں کی شناخت کی بنیاد نظریے اور اقدار کی جگہ جغرافیے، نسل، رنگ اور سیاسی مفادات پر رکھی گئی تھی۔ پھر سیکولرزم، لبرلزم، جمہوریت اور سرمایہ داری کے نام پر انسانیت کے استحصال کا ایک نیا اور بڑا ہی تباہ کن نظام دنیا کی اقوام پر عسکری قوت، جبرواستبداد، تہذیبی یلغار اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے مسلط کردیا گیا۔
تحریکِ پاکستان سیاسی غلامی ہی کے خلاف محض آزادی کی ایک تحریک نہ تھی، بلکہ ایک نظریاتی اور تہذیبی تحریک بھی تھی، جس نے وقت کے غالب تصورات کو چیلنج کیا اور دنیا سے اس اصول کو تسلیم کرایاکہ عقیدے، نظریے اور تہذیب کی بنیاد پر قائم ایک قوم کا یہ حق ہے کہ جن علاقوں میں اسے اکثریت حاصل ہو، وہ ان میں اپنے تصورات کے مطابق نظامِ زندگی قائم کر کے اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کے مطابق اپنا مستقبل تعمیر کرسکے۔ مغربی سامراج اور ہندو اکثریت نے بڑی مجبوری کے عالم میں اس دعوے کو قبول کیا۔ یہ ہے وہ خصوصی پس منظر، جو پاکستان کی تحریک اور پاکستان کو ایک ملک کی حیثیت سے منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے، یعنی یہاں کسی ملک نے آزادی حاصل نہیں کی بلکہ ایک قوم نے ایک ملک حاصل کیا اور اس طرح تاریخ کے ایک نئے دور کی طرف پیش قدمی کا دروازہ کھول دیا۔ اس کے لیے ان مسلمانوں نے بھی بیش بہا قربانیاں دیں جو ان علاقوں میں رہتے تھے جو پاکستان کا حصہ بنے، اور ان سے بھی زیادہ قربانیاں، ان مسلمانوں نے دیں جو یہ جانتے تھے کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے، لیکن پھر بھی برعظیم کی اُمت اسلامیہ کے مستقبل کی خاطر وہ اس جدوجہد کا حصہ بنے اور اس کے لیے سردھڑ کی بازی لگادی۔ یہ تاریخ کی بڑی ہی نادر مثال ہے کہ کروڑوں انسانوں نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس جدوجہد کے ثمرات میں کوئی حصہ نہ پائیں گے، صرف ایک نظریے کے غلبے کے لیے اپنے دنیاوی مفادات کو دائو پر لگادیا اور بے لوث نظریاتی جدوجہد کی ایک نادر مثال قائم کردی۔
تحریکِ پاکستان تک پہنچنے اور پھر اس کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے برعظیم کے مسلمان بڑے صبرآزما مراحل سے گزرے، جن کو سمجھے بغیر پاکستان کی حیثیت اور تحریکِ پاکستان کے مزاج، مراحل اور مقاصد کو سمجھنا مشکل ہے۔
برعظیم میں ایک نہیں متعدد نسلیں آباد تھیں۔ دراوڑ، آریائی، سامی، عرب، مغل اور ان کے ارتباط سے رُونما ہونے والی بے شمار نسلیں، اس سرزمین کا انسانی سرمایہ تھیں۔ بدھ مذہب، ہندومت، جین مت، اسلام اور پھر سکھ مت، عیسائیت اپنے اپنے دور اور اپنے اپنے انداز میں کارفرما قوت بنتے رہے۔ ہندومذہب اور سماج کی بنیاد ذات پات پر ہے۔ اس معاشرے کی بنیاد تخلیق انسان کے بارے میں ان کے مذہبی تصورات پر ہے اور ذات پات کی یہ تقسیم ہی ان کی اصل تہذیبی اور مذہبی شناخت ہے۔ اسلام نے ان تصورات کو چیلنج کیا اور عقیدے اور دین کی بنیاد پر انسانوں کے اجتماع کو قائم کر کے ایک حقیقی انسانی اور عالمی سماج اور ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ برعظیم کے مسلمانوں کا تعلق بھی انھی نسلوں سے تھا، جو برعظیم میں پائی جاتی ہیں لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی شناخت، نسل، رنگ، زبان، قبیلے یا طبقے پر نہیں، ایمان کی بنیاد پر ایک اُمت کی صورت اختیار کرگئی اور یہی ان کی قومیت کی بنیاد بنی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے تحریکِ پاکستان کی بنیاد، یعنی دو قومی نظریے کو بڑے سادہ مگر تاریخی حقائق پر مبنی انداز میں علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے یوں بیان کیا کہ ’’پاکستان کی بنیاد اس دن پڑگئی جس دن برعظیم کی سرزمین پر پہلا ہندو، مسلمان ہوا تھا‘‘۔
برعظیم میں مسلمانوں نے آٹھ نو سو سال تک حکمرانی کی، لیکن اس پورے دور میں تمام نشیب و فراز کے باوجود ان کی کوشش یہی رہی کہ اپنی شناخت پر کوئی سمجھوتا نہ کریں۔ دوسروں کو ان کی اپنی شناخت کے مطابق زندگی گزارنے کے پورے پورے مواقع دیں اور ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کریں، لیکن ان کی اور اپنی شناخت کو گڈمڈ کرکے کوئی مشترکہ دین اور تہذیب نہ بنائیں۔ اس سلسلے میں جو کوششیں بھی مختلف حلقوں کی جانب سے ہوئیں وہ ناکام و نامراد ہوئیں، خواہ وہ اکبربادشاہ کے سرکاری قوت کے استعمال کے ذریعے ہوں، یا انگریز سامراج کے ترغیب و ترہیب کے ہتھکنڈوں سے، یا انڈین نیشنل کانگریس کے سیکولر اور جمعیت العلماء ہند کے ایک دھڑے کے مذہبی حربوں سے ہوں۔
اس جدوجہد کا بڑا ہی اہم اور چشم کشا منظر برعظیم کی بیسویں صدی کی سیاسی جدوجہد میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سیّداحمدشہید کی قیادت میں تحریک مجاہدین،دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلمائ، سرسیّداحمد خان کی علی گڑھ تعلیمی تحریک، ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، تحریک ِخلافت کا ظہور اور ہندستان بھر میں پھیلائو اور پھر تحریک ِپاکستان اپنے اپنے انداز میں مسلم شناخت کی یافت اور حفاظت کی کوششیں تھیں۔ بلاشبہہ ایک مدت تک یہ کوشش ہوتی رہی کہ برعظیم کی تمام اقوام متحدہوکر سیاسی اہداف حاصل کریں، جن میں مسلمانوں کی شناخت کی حفاظت اور ترقی کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ جداگانہ انتخابات اور تہذیب، تعلیم، زبان اور مذہبی حقوق کی حفاظت، ۱۹۰۵ء سے لے کر ۱۹۴۰ء تک کی جدوجہد کے ہر مرحلے میں بحث و گفتگو کا مرکز اور محور رہے۔ جب کانگریس کے مسلم کش اور جارحانہ کردار، اور برطانوی حکمرانوں کے دوغلے پن سے یہ واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کی قومی شناخت، ان کی اقدار اور ان کی تہذیبی روایات کی حفاظت و ترقی کسی بھی مشترک سیاسی انتظام میں ممکن نہیں، اور اس پر تاجِ برطانیہ کے ’۱۹۳۵ء کے قانون‘ کے نفاذ اور ۱۹۳۷ء کے صوبائی انتخابات کے بعد نیشنل کانگریس کی حکومتوں کے برہمنی جارحانہ اقدامات نے مہرتصدیق ثبت کردی، تو پھر علامہ محمد اقبال کے ۱۹۳۰ء کے خطبے کی روشنی میں مارچ ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ نے تقسیمِ ملک کی منزل کو اپنا ہدف مقرر کیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف سات سال کے اندر قائداعظم کی روح پرور قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کی پوری یکسوئی کے ساتھ ایمان پرور اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمانوں کا ایک آزاد ملک وجود میں آگیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی کے طور پر یہ نعمت ۲۷رمضان المبارک کے دن حاصل ہوئی۔ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
تحریکِ پاکستان کا مقصد جہاں انگریز اور ہندو سامراج دونوں سے نجات حاصل کر کے ایک آزاد اسلامی ملک کا قیام تھا، وہیں اس کا اصل ہدف پاکستان کو ایک آئینی اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے ترقی دینا تھا، تاکہ دین اور تہذیب کی بنیاد پر استوار ہونے والی قوم کو جب آزاد ملک کی نعمت میسر آجائے، تو پھر وہ اس ملک کو اپنے نظریے کی بنیاد پر ایک مثالی ریاست بناسکے۔ جو ایک طرف اپنے نظریے کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کرے، تو دوسری طرف دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے نہ صرف تمام شہری اور انسانی حقوق کی ضمانت دے، بلکہ ان کے مذہبی اور سماجی تشخص کی حفاظت اوراس کو پروان چڑھائے جانے کے تمام مواقع بھی فراہم کرے۔
علامہ اقبال، قائداعظم اور ملت اسلامیہ پاک و ہند کا وژن اور تحریکِ پاکستان کی قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کے درمیان جو عمرانی میثاق ہوا، وہ بالکل واضح ہے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کی ۶۹ویں سالگرہ کے موقعے پر سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اس وژن اور اس میثاق کو ذہنوں میں تازہ کیا جائے اور خصوصیت سے اپنی نئی نسلوں اور زندگی کے ہر شعبے کے ذمہ دار حضرات کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ یہ ملک لاکھوں افراد کی جانوں، ہزاروں معصوم بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں، کھربوں روپے کی مالی قربانیوں، اور لاکھوں انسانوں کی ہجرت کی قیمت پر قائم ہوا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا قیام، تحفظ اور ترقی صرف ان مقاصد سے وفاداری ہی کے ذریعے ممکن ہے، جو اس کی اساس ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد قوم سے صاف لفظوں میں کہی تھی:
اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
اقبال اور قائداعظم نے قوم کو جس منزل کی طرف دعوت دی، اس کو آج دھندلا کرنے بلکہ بالکل مخالف سمت میں ڈالنے کی شرانگیز کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس وژن کو بالکل دوٹوک الفاظ میں ایک بار پھر قوم، اس کے دانش وروں، پالیسی ساز اداروں اور افراد اور سب سے بڑھ کر نئی نسل اور اس کے نوجوانوں کے ذہنوں میں تازہ اور راسخ کردیا جائے۔ اس لیے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی صرف اس وژن اور منزل کے صحیح اِدراک اور ان کو حرزِجان بنانے پر منحصر ہے۔
علامہ محمد اقبال نے اس تحریک کی فکری اور نظریاتی بنیادیں رکھیں تو قائداعظم محمدعلی جناح نے ان بنیادوں پر سیاسی اور نظریاتی تحریک برپا کی، اور اس کی قیادت اس طرح انجام دی کہ پوری قوم یکسو ہوکر ان کی تائید میں میدانِ عمل میں نکل آئی۔ ان کا اصل محرک آزادی کا حصول اور اپنی تہذیبی شناخت کی حفاظت اور ترقی تھا اور یہ دونوں ایک ہی جدوجہد کے دو رُخ ہیں، جن کو ایک دوسرے سے کسی صورت میں بھی جدا نہیں کیا جاسکتا۔
علامہ اقبال نے The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں اسلام کے تصورِ توحید اور ریاست کے تعلق کو اس طرح بیان کیا ہے کہ:
گویا بہ حیثیت ایک اصول، عملِ توحید اساس ہے حریت، مساوات اور حفظ ِ نوعِ انسانی کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروے اسلام، ریاست کا مطلب ہوگا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت ِ بشری میں مشہود دیکھنے کی۔ لہٰذا، اسلامی ریاست کو حکومت ِ الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمامِ اقتدار کسی ایسے خلیفۃ اللہ فی الارض کے ہاتھ میں دے دیں، جو اپنی مفروضہ معصومیت کے عذر میں اپنے جورواستبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے۔(Reconstruction،ص ۱۲۲-۱۲۳، ترجمہ: سید نذیر نیازی،تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ،ص ۲۳۸)
علامہ محمد اقبال نے ۳۰،۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء کے کُل ہند مسلم لیگ کے اجتماع الٰہ آباد میں اپنے خطبۂ صدارت میں نظریاتی اور دینی بنیادوں پر تقسیمِ ہند کا تصور پیش کرتے ہوئے اس کی جس بنیاد پر روشنی ڈالی وہ بہت اہم ہے۔ انھوں نے اپنی بات کا آغاز ہی اس دعوے سے کیا کہ:
آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے، جو اس امر سے مایوس نہیں ہوگیا ہے کہ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے، جو ذہنِ انسانی کو نسل اور وطن کی قیود سے آزاد کرسکتی ہے۔ جس کا عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اور جسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بحیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظامِ سیاست کے، اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوتی ہے۔ اسلام ہی کی بدولت ان کے سینے ان جذبات اور عواطف سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے، جن سے متفرق اور منتشر اجزا بتدریج متحد ہوکر ایک متمیزومعین قوم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔مسلمانوں کے اندر اتحاد اور ان کی نمایاں یکسانیت، ان قوانین اور روایات کی شرمندۂ احسان ہے جو تہذیب اسلامی سے وابستہ ہیں۔
اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے، جو خود اس کا پیدا کردہ ہے، الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کر دیا تو بالآخر دوسرے کو بھی ترک کرنا لازم آئے گا۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوگا، جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر مبنی ہو، جو اسلام کے اصولِ اتحاد کے منافی ہو۔ یہ مسئلہ ہے جو آج ہندستان کے مسلمانوں کے سامنے ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ پھر اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوکر، جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں، اس جمود کو توڑ ڈالے گا جو اس کے تہذیب و تمدن، شریعت و تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف اس کے صحیح معانی کی تجدید ہوسکے گی، بلکہ وہ زمانۂ حال کی رُوح سے بھی قریب ہوجائے گا۔
آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجۂ جواز کیا تھی؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری ہے، نہ انگریزوں کی چال__ بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔
مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآنِ پاک کو غور سے پڑھیں، اور قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔
ان لوگوں کو چھوڑ کر جو بالکل ہی ناواقف ہیں، ہرشخص جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔مذہبی، معاشرتی، دیوانی، معاشی، عدالتی، غرض یہ کہ ان مذہبی رسومات سے لے کر روزمرہ کے معاملات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اجتماعی حقوق سے لے کر انفرادی حقوق تک، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، دنیاوی سزائوں سے لے کر آنے والی [اُخروی] زندگی کی جزا وسزا کے تمام معاملات پر اس کی عمل داری ہے۔ اور ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہرشخص اپنے پاس قرآن رکھے اور خود رہنمائی حاصل کرے۔ اس لیے کہ اسلام صرف روحانی احکام اور تعلیمات تک ہی محدود نہیں ہے، یہ ایک مکمل ضابطہ ہے جو مسلم معاشرے کو مرتب کرتا ہے۔
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا ہے، ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزمائیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت ِ خاص کے ساتھ جس چیز نے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا اور یہ تاریخی کرشمہ وجود میں آیا، اسے چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- آزادی کا جذبہ اور اس کے حصول اور حفاظت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔
۲- دین، نظریۂ حیات، تہذیب و تمدن کی حفاظت اور ترقی کو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ترجیح بنانا۔
۳- عوام کی جمہوری قوت، ا ن کا اتحاد اور ان کا یہ جذبہ کہ اپنی آزادی اور اپنے دین اور نظریے کے باب میں کوئی سمجھوتا قبول نہیں کریں گے اور ان کی خاطر جان کی بازی لگادیں گے۔
۴- مخلص، باصلاحیت اور ایمان دار قیادت۔
قائداعظم نے ہر ذاتی مفاد سے بالا ہوکر صرف قوم کی خاطر اور اللہ کی خوشنودی کے لیے، عوامی قوت کے ذریعے اور پوری یکسوئی کے ساتھ اصل ہدف پر ساری توجہ مرکوز کردی۔ اس مسلم قیادت نے قوم پر اعتماد کیا اور قوم نے اس پر اعتماد کیا اور دونوں نے اپنے اپنے اعتماد کو سچ کر دکھایا۔ ایک طبقہ آج قائداعظم کو مسلم قوم کا صرف ایک ’وکیل‘ بناکر پیش کر رہا ہے، جب کہ قائداعظم نے یہ پوری جدوجہد ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے کی تھی، یہ محض وکالت نہیں تھی۔ اس سے بڑا بہتان اُن پر اور کیا ہوسکتا ہے؟ قائدکے جذبات اور محرکات کیا تھے، انھی کے الفاظ میں سننے اور ذہن میں نقش کرنے کی ضرورت ہے:
مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اُٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت ِ اسلام کا حق ادا کردیا۔ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علَمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔(روزنامہ انقلاب، ۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ئ)
یہی وہ جذبہ تھا، جس نے تحریکِ پاکستان کو ملت اسلامیہ ہند کے دلوں کی آواز بنادیا ،اور وہ ایک آزاد اسلامی ملک کے قیام کے لیے سرگرمِ عمل ہوگئی۔ قوم کی یکسوئی اور تائید اور قائد کا عزم اور بے لاگ خدمت__ جب یہ دونوں قوتیں یک جا ہوجاتی ہیں تو تاریخ کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ آج ہمارے مسائل اور مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ منزل اور مقصد کا شعور دھندلا دیا گیا ہے۔ قوم اور اس کی فلاح و بہبود کو یکسر بھلادیا گیا ہے۔ مخصوص مفادات کے پرستار زمامِ اقتدار پر قابض ہیں، جو عوام کے اعتماد سے محروم ہیں اور جن کی دیانت اور صلاحیت دونوں مشتبہ ہیں۔ وژن اور مقصد سے محرومی، عوام کی تائید اور ان کے مرکزی کردار کا عدم وجود اور صحیح قیادت کا فقدان ہمیں پستی کی انتہائوں کی طرف دھکیلے جا رہا ہے۔
۱۴؍اگست کے تاریخی لمحے کی یاد میں ان تمام حقائق، جذبات اور عزائم کو ذہنوں میں تازہ کرنا ضروری ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہماری قوت کا اصل سرچشمہ یہی عزائم، جذبات اور داعیات ہیں۔ سات سال میں تحریکِ پاکستان کی کامیابی کا راز مندرجہ بالا چاروں عوامل پر ہے۔ انھی کے سہارے ہم ان بلندیوں پر پہنچے، جن کا نقطۂ فراز ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء تھا اور گذشتہ سات عشروں میں جس پستی کی طرف ہم لڑھکتے جارہے ہیں، اس کا تعلق بھی انھی چاروں کے بارے میں کمزوری یا فقدان سے ہے۔
پاکستان کا محلِ وقوع تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی اور مادی دونوں وسائل سے ہمیں مالا مال کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی قوم نے جس درجے میں ان چاروں عناصر کا اہتمام کیا ہے، وہ بلندیوں کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مایوسی کفر ہے اور حالات کی خرابی کے باوجود کسی درجے میں بھی مایوسی مسلمان کا شعار نہیں ہوسکتی۔ اگر صحیح مقاصد کے لیے، صحیح قیادت کی رہنمائی میں، مؤثر اجتماعی اور عوامی جدوجہد کی جائے، تو بڑی سے بڑی مشکل دُور ہوسکتی ہے اور دُور دراز واقع منزل بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس جس درجے میں یہ چیزیں حاصل ہوں، اسی حد تک محدود دائروں میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس طرح پاکستان کا قیام ایک تاریخی کامیابی تھا، اسی طرح اوّلین دور میں پاکستان کی بقا اور ترقی بھی ایک کرشماتی نعمت سے کم نہیں۔ بھارتی قیادت کو یقین تھا اور انگریز سامراج بھی اسی وہم میں مبتلا تھا کہ پاکستان باقی نہیں رہ سکے گا۔
تقسیمِ ملک کے لیے اصل تاریخ اپریل ۱۹۴۸ء تھی لیکن انگریز اور کانگریسی قیادت دونوں انتقالِ اقتدار کے لیے مناسب وقت اور نقشۂ کار سے پاکستان کو محروم رکھنے اور اوّلین برسوں ہی میں شکست وریخت (collapse ) کے خطرات سے دوچار کرنے کے لیے ۱۱ مہینے کی مدت کو کم کرکے یک طرفہ طور پر ڈھائی مہینے کردیا، یعنی ۳جون کو اسکیم کا اعلان ہوا اور ۱۴؍اگست تک اس پر عمل مکمل کرنے کا نوٹس دے دیا۔ پھر سرکاری وسائل اور مالیات کی تقسیم کے پورے انتظام کو درہم برہم کردیا اور پاکستان کو اس کے حقوق سے محروم رکھا۔ ریڈکلف نے ایوارڈ میں تبدیلیاں کرکے پاکستان کو کشمیر اور دوسرے اہم علاقوں سے محروم کردیا۔ پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی اور اتنے بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل مکانی واقع ہوئی کہ پورا انتظامی ڈھانچا درہم برہم ہو گیا۔
یہ سب ایک منظم منصوبے کے مطابق ہوا، جس میں برطانوی حکومت، اس کا مقرر کردہ گورنرجنرل مائونٹ بیٹن اور کانگریس کی حکومت اور ہندو عوام سبھی برابر کے شریک تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک طرف تقسیمِ ہند کی اسکیم پر دستخط کیے تو دوسری طرف اپنی قوم سے کہا:
ہماری اسکیم یہ ہے کہ ہم اس وقت جناح کو پاکستان بنالینے دیں اور اس کے بعد معاشی طور پر یا دیگر انداز سے ایسے حالات پیدا کردیے جائیں، جن سے مجبور ہوکر مسلمان گھٹنوں کے بل جھک کر ہم سے درخواست کریں کہ ہمیں پھر سے ہندستان میں مدغم کرلیجیے۔
برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ایک طرف آزادیِ ہند کے منصوبے کی منظوری دی اور برطانوی پارلیمنٹ میں بل منظور کروایا، تو دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ:
ہندستان تقسیم ہو رہا ہے لیکن مجھے اُمید واثق ہے کہ یہ تقسیم زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گی اور یہ دونوں مملکتیں جنھیں ہم اس وقت الگ کر رہے ہیں، ایک دن پھر آپس میں مل کر رہیں گی۔(تاریخ نظریۂ پاکستان ، پروفیسر محمد سلیم، لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۲۷۵)
ان حالات میں پاکستان کا باقی رہ جانا اور جلد اپنے پائوں پر کھڑے ہوجانا، اسی طرح کا ایک دوسرا تاریخی کرشمۂ قدرت تھا جیسا سات سال میں اس کا قیام۔پاکستان کے لیے ایٹمی صلاحیت کا حصول بھی اسی طرح کا ایک ناقابلِ تصور کرشمہ ہے۔ بلاشبہہ اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی پوری ٹیم کی مہارت اور کوشش، سیاسی اور عسکری سطح پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر صدر محمدضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف اور غلام اسحاق خان کی قیادت اور قوم کی تائید اور دُعائیں سب کا کردار ہے۔ دنیا کی مخالفت، امریکا اور مغربی اقوام کی جان لیوا پابندیاں اور وسائل کی قلت کے باوجود جب وژن، محنت اور صلاحیت، تنظیم اور کوشش، عوامی تائید اور دعائیں مل جاتی ہیں، تو بڑی سے بڑی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ پاکستان نے ساری پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک ترقی پذیر ملک ہوتے ہوئے بھی یورنیم کی افزودگی ( Uranuim Enrichment) اور اسلحہ سازی (weaponization) کے اس مشکل عمل کو، جو امریکا میں۱۸سال میں مکمل ہوا تھا، صرف سات آٹھ سال میں مکمل کرلیا۔ صدر محمد ضیاء الحق نے راجیوگاندھی کو ۱۹۸۷ء میں یہ پیغام دیا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا، ہمارے پاس وہ چیز ہے جو تمھیں منٹوں میں تباہ کرسکتی ہے۔ مئی۱۹۹۸ء میں ہندستانی ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں امتحان کا لمحہ آیا تو الحمدللہ ۱۵دن کے اندر پاکستان نے چھے ٹیسٹ کرکے ہندستانی جنگ ُجو قیادت کے ہوش اُڑا دیے اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور دنیا کے چپے چپے میں مسلمانوں کا سر بلند کردیا۔ اس سے پہلے ۱۹۶۵ء میں بھارت کے حملے کے موقعے پر بھی فوج اور قوم نے جس کردار کا مظاہرہ کیا وہ لاجواب تھا۔
اکتوبر ۲۰۰۵ء میں ہولناک زلزلے نے ایک بار پھر قوم کی خوابیدہ صلاحیتوں کے خزانے کو بے نقاب کیا۔آزمایش کی اس گھڑی کے موقعے پر خیبر سے کراچی تک عوام جس طرح متحرک ہوئے اور اس قومی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر ہوگئے، وہ ایمان افروز اور اُمیدافزا تھا۔ اس موقعے پر اپنی مدد آپ کی ایک روشن مثال قائم ہوئی اور ایک بار پھر یہ یقین تازہ ہوگیا کہ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی ، بہت زرخیز ہے ساقی!
آج حالات کتنے ہی خراب ہوں، لیکن ساری خرابیوں کے باوجود قوم میں خیر کا بڑا خزانہ موجود ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی صلاحیتوں اور کارکردگیوں پر عدم اعتماد اپنی جگہ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکاری زکوٰۃ کٹوتی میں ہر رمضان میں حکومت کو چارپانچ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں۔ ملکی اور غیرملکی تحقیقی اداروں کے مطابق اصحابِ خیر کی طرف سے رضاکارانہ صدقات کی مد میں (صرف رمضان کے مہینے میں نہیں بلکہ سال بھر میں) ۱۱۰؍ارب روپے سے زیادہ رقم مستحقین کو منتقل ہوتی ہے۔ اور ’پاکستان سنٹر فار فلن تھراپی‘ کی رپورٹ کے مطابق سالانہ پاکستان میں عوامی سطح پر ۲۴۰؍ارب روپے سے زیادہ رقم مستحقین کو دی جاتی ہے۔ اس پہلو سے پاکستانی قوم، دنیا میں ان اقوام میں سرفہرست ہے، جن میں اہلِ ثروت، اہلِ ضرورت کی سب سے زیادہ مدد کرتے ہیں۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکا میں پاکستانی کمیونٹی،امریکا کی سب سے زیادہ خیرات دینے والی کمیونٹی ہے۔ پاکستان میں الخدمت، فلاحِ انسانیت، ایدھی فائونڈیشن، اخوت اور درجنوں ایسے ادارے ہیں، جو کسی نام و نمود کے بغیر خدمت ِ خلق کے جذبے سے دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ یہ تمام وہ پہلو ہیں، جو اس مایوس کن اور تاریک ماحول میں اُمید کی کرن ہیں اور یہ یقین پیدا کرتے ہیں کہ اگر قوم کو صحیح قیادت میسر ہو اور کام کرنے کے لیے مناسب طریق کار اور صحیح تنظیمِ کار کا اہتمام کیا جائے تو اس قوم میں بڑی قوت اور صلاحیت ہے۔ ضرورت صحیح وژن،صحیح تنظیم، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی ہے۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ایک تاریخی بلندی کی علامت ہے، تو پاکستان کی تاریخ میں ۱۶ دسمبر۱۹۷۱ء پستی کی ایک ہولناک تصویر ہے۔ جب بھارت کی فوج کشی کے نتیجے میں اور خود اپنی بے پناہ غلطیوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا ۔ تب پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ بھارت کی ہندو قیادت نے مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِاقتدار کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ بھارت کے موجودہ ہندوقوم پرست وزیراعظم نریندر مودی نے جون ۲۰۱۵ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں اپنے خطاب میں بھارت کے دہشت پسندانہ کردار کا سرکاری اعلان کرتے ہوئے برملا کہا:’’ بھارتی فوجی، مکتی باہنی کے ساتھ مشرقی پاکستان میں مہینوں سرگرم رہے اور بالآخر بھارت کی فوج کشی نے پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا‘‘۔
آج بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ دوسری بین الاقوامی قوتوں کی معاونت سے ملک میں جو دہشت گردی کی آگ بھڑکانے میں جو کردار ادا کر رہی ہے، اسے بھی اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے اور ۱۶دسمبر ۲۰۱۴ء کو پشاور کے فوجی اسکول پر حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ۱۶دسمبر کی تاریخ کا یہ اشتراک بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نائن الیون کے معاً بعد پاکستانی اقتدار پر متمکن جنرل پرویزمشرف نے جس طرح امریکی دھمکیوں کے آگے سپرڈالی اور ملک کو جس عذاب میں مبتلا کیا، وہ بھی ہماری تاریخ کا بڑا تاریک باب ہے۔ محض نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں حُریت کانفرنس کی قیادت کے لیے افطارپارٹی کو ملتوی کرنا، اور اوفا (روس) کی ملاقات کے بعد اعلامیے کا کشمیر کے ذکر سے خالی رہنا بھی پستی کا دل خراش واقعہ ہے۔
پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کے انتقال اور لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد اقتدار پر جس طرح بیوروکریسی، چند فوجی جرنیلوں اور جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور زرپرست عناصر کی ہوسِ اقتدار کے سایے پڑے ہیں اور جس طرح دستور کو پامال اور اداروں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے، بد سے بد تر حکمرانی کے جن اَدوار سے قوم اور ملک کو گزرنا پڑ رہا ہے اور بدعنوانی اور کرپشن کی جو داستان رقم کی جارہی ہے، وہ دل خراش بھی ہے اور تباہ کن بھی۔ آج پاکستان دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں شمار کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ ہونے کے باوجود اسے دہشت گرد ملک بلکہ دہشت گردی کا مرکز بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ جن ’اتحادیوں‘ کے لیے ہم نے اپنی عزت اور امن و چین کو قربان کیا، وہی ہم پر زبان طعن دراز کر رہے ہیں، اور ہماری سیاسی قیادتیں ہیں کہ ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ دنیا میں ہماری تصویر کیا ہے؟ اس کا اندازہ ورلڈ اکانومک فورم ۲۰۱۴ء کی Golbal Competitiveness Report سے کیجیے:
یہ ملک [پاکستان] مسابقت اور مقابلے کے تمام بنیادی اور اہم دائروں میں بہت کم نمبر حاصل کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی میں، وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی کی بیماری، بے جا نوازشات اور غیرقانونی سرپرستی کے کلچر کو پروان چڑھانے کے ساتھ ملکیتی حقوق کے تحفظ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔
اسی طرح عالمی بنک کی ۲۰۱۳ء کی رپورٹ Worldwide Governance Indicators میں بدعنوانی اور کرپشن کے باب میں پاکستان کا شمار نچلے ترین درجے میں ہوتا ہے۔ دنیا کے ممالک ۷۲ فی صد ہم سے بہتر ہیں، ہم آخری ۱۸ فی صد میں ہیں۔ بنگلہ دیش بھی ہم سے چھے درجے بہتر حالت میں ہے۔ یہی صورت قانون کی حکمرانی کی ہے۔ بنگلہ دیش اور موزمبیق ہم سے اُوپر ہیں۔ مجموعی طور پر اندازِ حکمرانی کے اشاریے میں بھی ہم پست ترین مقام پر ہیں، حتیٰ کہ غزہ بھی ہم سے اُوپر ہے۔ (ڈان، ۲۶ جون ۲۰۱۵ئ)
بدعنوانی اور کرپشن، وسائل کا ناجائز استعمال، اہم مناصب پر من پسند لوگوں کی تقرریاں، اہلیت کی دھجیاں بکھرتے ہوئے اداروں کی کمزوری اور تباہی، اداروں کے درمیان تصادم، پالیسیوں میں ہم آہنگی کا فقدان، پولیس اور بیوروکریسی کا سیاسی استعمال، عوام کی حقیقی ضروریات سے اغماض اور بنیادی سہولتوں کا فقدان اس بحران کے بدترین سرچشمے ہیں، جس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے اور سول انتظامیہ اور سیاسی قیادت دونوں کو بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور دوسری طرف حکمران مہنگے منصوبوں کے عشق میں مبتلا ہیں۔ ستم ہے کہ ان حالات میں وزیراعظم صاحب کی ترجیح یہ ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے قافلے میں نت نئی کاروں کا ہرسال اضافہ کیا جاتا رہے۔ اس وقت جب ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے، قومی خزانے سے ۳۰کروڑ روپے کی قیمت پر ۱۰ لگژری کاریں خرید رہے ہیں، جن میں چھے وہ کاریں ہیں، جو یورپ کے سربراہانِ مملکت بھی استعمال کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔
یہ منظرنامہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرناک ہے اور جس کے نتیجے میں سول اور فوجی نظام کے درمیان توازن روز بروز بگڑ رہا ہے اور ایک طبقہ مسلسل یہ راہ ہموار کر رہا ہے کہ خدانخواستہ کوئی ’مصطفی کمال‘ بن کر جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دے۔
افسوس کا مقام ہے کہ وہ دانش ور، صحافی اور اینکر خواتین و حضرات جو آزادی، روشن خیالی اور حقوق کی باتیں کرتے ہیں، وہی آج کسی طالع آزما کی تلاش اور فوجی قیادت کو کچھ کرگزرنے کی دعوتیں دے رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کی نااہلی اور کرپشن اپنی جگہ، اور وہ ایک بڑا ناسور ہے جس کی اصلاح ضروری ہے، مگر اسے بہانہ بناکر اعلیٰ فوجی قیادت کو سیاست میں ملوث ہونے کی دعوت دینا، فوج اور ملک دونوں کے ساتھ خیرخواہی کا راستہ نہیں ہے۔
فوجی قیادت کی حکمرانی کے چار دور ہم دیکھ چکے ہیں اور اس میں سے ہر دور بنیادی طور پر قومی حالات کو بگاڑنے کا سبب بنا ہے، خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کا آخری دور تو سب سے زیادہ تباہ کن رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھی فوج جو خدمت انجام دے رہی ہے، وہ چند مثبت پہلوئوں کے باوجود، بالآخر اس کی دفاعی صلاحیت کار کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ امرواقعہ ہے کہ فوج اور رینجرز کا استعمال: سول انتظامیہ، پولیس اور نچلی سطح پر عدالتی عمل کی ناکامی کی وجہ سے ہے اور ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر فوج کو اس کا موقع دیا گیا ہے۔ لیکن اسے سیاسی نظام اور دستوری انتظام کو درہم برہم کرنے کے لیے وجہ جواز بنانا ایک زیادہ بڑی تباہی کی طرف جانے کے مترادف ہوگا۔ جس دلدل میں فوج کو گرا دیا گیا ہے، وہ حقیقت ہے، لیکن اس سے نکلنے کا راستہ یہ نہیں کہ فوج کو اقتدار میں لایا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان اسباب کا تعین کیا جائے، جو پستی کی طرف لے جانے اور بگاڑ کو گمبھیر کرنے کا سبب بنے ہیں اور پھر اس دلدل کے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے، تاکہ ایک دلدل سے نکلنے کی خواہش میں کسی دوسری اور زیادہ بڑی دلدل میں نہ پھنس جائیں بلکہ وہ راستہ اختیار کریں جو فی الحقیقت بلندی اور فراز کی طرف لے جاسکے۔
حکومت کی ترجیحات میں نمایشی منصوبے مرکزیت رکھتے ہیں، جب کہ عوام کی حقیقی ضرورتوں: خوراک، صاف پانی، تعلیم، صحت، رہایش پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ معیشت کا پورا نظام سرمایہ دارانہ اصولوں پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔معاشی ترقی کا جو تصور چھایا ہوا ہے، اس کا فائدہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ فی صد آبادی کو مل رہا ہے، جب کہ ۹۰ فی صد عوام محروم ہیں۔ دولت کی عدم مساوات روزافزوں ہے۔ غربت میں کمی نظر نہیں آرہی، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ توانائی کا بحران حسب سابق ہے۔ زراعت رُوبہ زوال ہے۔ صنعت کی ترقیاتی رفتار ٹھیری ہوئی ہے، البتہ اسٹاک ایکسچینج میں بہار آئی ہوئی ہے اور بنکوںکے وارے نیارے ہیں۔ ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) کی ایک تازہ ترین رپورٹ یہ کہنے پر مجبور ہوئی ہے: ’’دنیا میں جن دو ملکوں میں بنک سب سے زیادہ منافع کمارہے ہیں وہ پاکستان اور کولمبیا ہیں‘‘۔ گذشتہ سال جب زراعت کی پیداوار کا گراف نیچے گرا ہے، اور بڑی صنعت ۲ فی صد کی شرح سے بڑھی ہے، بنکوں کا منافع ۲۵ فی صد سے ۷ئ۴۰ فی صد تک رہا ہے اور وہ بھی اس عجیب و غریب سرمایہ کاری کے نتیجے میں کہ بنکوں کے وسائل کا ۹۰ فی صد حکومت کی سیکورٹیز اور بانڈز میں لگا ہوا ہے اور صنعت اور تجارت میں ان کی سرمایہ کاری ۱۰ فی صد سے بھی کم ہے۔ بنکوں کے چیف ایگزیکٹوز کی تنخواہوں پر نگاہ ڈالیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو کی تنخواہ ایک کروڑ ۱۵لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ مسلم کمرشل بنک
[بقیہ دیکھیے: ص ۱۰۹]
[’اشارات‘ ص ۲۳ سے آگے]
کے منتظم اعلیٰ کو ۴۵لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ الائیڈبنک کے سربراہ کی تنخواہ ۴۴لاکھ ماہانہ ہے اور حبیب بنک کے سربراہ کی ۳۰ لاکھ روپے ماہانہ ہے، جب کہ ملکی آبادی کا ۶۰ فی صد اوسطاً ۶ہزار روپے ماہانہ اور ۳۰ فی صد اوسطاً صرف ۳ہزار روپے ماہانہ کما رہا ہے۔ یہ ہے وہ معاشی دہشت گردی جس کی آماج گاہ پاک وطن بن چکا ہے۔
یہ وہ حالات ہیں، جن کے نتیجے میں پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشار میں بھی مبتلا ہے، جس کی شدت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آج حالات کی اصلاح کے لیے اسی طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی حکومتوں اور بھارتی سامراج سے نجات دلانے کے لیے علامہ محمد اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا ہوئی تھی۔
ہر زبان پر یہ سوال ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟
ہماری نگاہ میں نہ فوج کی سیاسی مداخلت پاکستان کے حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد اور لُوٹ مار کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے، وہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ریاست اور ملک کے وجود کے لیے بھی خطرہ بنتی جارہی ہے۔ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی، تنگ نظری اور مفادپرستی حالات کو بگاڑ رہی ہے اور اداروں کی کمزوری اور باہم آویزش حالات کو اور بھی مخدوش بنارہی ہے۔ ایک طرف عوام کی حالت روز بروز خراب ہورہی ہے تو دوسری جانب معاشی بگاڑ کم ہونے میں نہیں آرہا۔ توانائی کے بحران میں کوئی کمی نہیں ہورہی۔ وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی دوبھر کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ضربِ عضب اور دہشت گردی کے خلاف ’نیشنل ایکشن پلان‘ نے کچھ علاقوں میں بہتری پیدا کی ہے، مگر بحیثیت مجموعی حالات ابھی گرفت میں نہیں ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسئلے کا حل صرف فوجی قوت کا استعمال نہیں۔ مناسب حد تک فوجی قوت کا استعمال اور ریاست کی رِٹ قائم کرنے کے تمام ضروری اقدامات اپنی جگہ بہت اہم، لیکن سیاسی فضا کی بہتری اور سب سے زیادہ اندازِ حکمرانی کی درستی اور اداروں کو سیاسی مداخلت اور مفاد پرستوں کی گرفت سے آزاد کرکے اہلیت اور قانون کی حکمرانی اور ضابطۂ کارکے احترام کی بنیاد پر متحرک اور مؤثر کیے بغیر تبدیلی اور اصلا ح محال ہے۔
کس قدر صدمے اور شرم کی بات ہے کہ سیاست اور جرم اس طرح شیروشکر ہوگئے ہیں اور ہرسطح پر یوں جلوہ گر ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایک ماڈل گرل کو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود چار مہینے بڑے ناز نخروں کے ساتھ زیرحراست رکھا جاتا ہے اور عدالت میں روز روز کی پیشیاں ایک تماشا بنادی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجود چارج شیٹ نہیں کیا جاتا کہ جن پر ضرب پڑتی ہے وہ ہرقانون سے بالا اور ایک دوسرے کے محافظ ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو پاکستان کی سیاست پر لوگوں کو تین حرف بھیجنے کا راستہ دکھاتے ہیں یا سیاست کی بساط لپیٹ دینے والوں کو موقع فراہم کرتے ہیں۔
اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو دستور کے دائرے میں رہ کر بدلنے کے لیے سرگرم ہوں۔ اس مقصد کے لیے بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے، جب عوام کو متحرک اور منظم کیا جائے اور عوامی تائید سے اقتدار ایک ایسی قیادت کو سونپا جائے جس کا دامن پاک ہو، جو اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل ہو، جس کا تعلق مفاد پرست طبقوں سے نہ ہو، بلکہ جو عوام میں سے ہو، جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کا جذبہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔
قوم میں یہ صلاحیت موجود ہے اور وہ بار بار اس کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ ضرورت صحیح مقصد اور منزل کا تعین اور جماعتی اور گروہی تعصبات سے بالا ہوکر تمام محب ِ وطن عناصر کو ایک مؤثر اور متحرک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی ہے۔ آسمان سے فرشتے نہیں اُتریں گے، قوم کو خود اپنے معاملات کی اصلاح کے لیے اپنے میں سے اچھے لوگوں کو آگے لانا ہوگا۔ یہی راستہ صحت مند تبدیلی کا راستہ ہے۔ اسی کو اختیار کرکے ہم خوش حال اسلامی پاکستان کی طرف پیش قدمی کرسکیں گے۔
حج کی اہمیت اور افادیت کے لیے اس کا ایک رکنِ اسلام ہونا بجاے خود کافی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کا سب سے نمایاں پہلو انبیاکرام علیہم السلام کی دعوت کے مرکزی اور کلیدی پیغام کو انسانوں کے لیے ایک قابلِ عمل عبادت اور مظہر اطاعت بنا دینا ہے۔ قرآنِ کریم نے تمام انبیا کرام ؑ کی دعوت کو محض دو الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اللہ کے بندے بن جائو اور ہرباغیانہ سرکشی سے باز آجائو، اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶)۔ چنانچہ میدانِ دعوت مکہ کی وادیِ غیر ذی زرع ہو یا ماوراالنہر کی عراق و شام کی سرسبز و شاداب سرزمین، ہر نبی برحق نے انسانوں کے خودساختہ معبودوں کو وہ پتھر اور لکڑی سے بنے ہوں یا وہم وگمان کی پیداوار ہوں، وہ مندر اور کلیسا میں ہوں یا نہاں خانۂ دل میں محفل جمائے ہوں، وہ معاشرتی رسوم کے خدا ہوں، یا معاشی استحکام اور سیاسی اقتدار کے حریص بادشاہ ہوں، ان تمام بے اصل سرچشمۂ ہوا و ہوس کو جہل خرد کی باطل پیداوار قرار دیتے ہوئے انسانیت کو صرف اور صرف ایک رب العالمین، احکم الحاکمین اور خالق کائنات کی بندگی اور اطاعت کی طرف متوجہ کیا۔
حج کا عظیم مقصد زندگی کے ہر عمل کو توحید ِخالص میں رنگ کر ایک کلّی انقلاب کا برپا کردینا ہے تاکہ انسان کے انفرادی معاملات ہوں، عقیدہ و عمل ہو، مرنا اور جینا ہو، ہرممکنہ عمل صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا پابند ہوجائے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) کہو ، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں۔
اس توحید ِ خالص کی پکار کو قرآن کریم نداے حج کے زیرعنوان یوں بیان فرماتا ہے: ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں رکھے گئے ہیں‘‘ (الحج ۲۲:۲۶-۲۸)۔ یہ توحید خالص کی دعوت تمام انسانیت کے لیے ہے کیونکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے اللہ کی طرف سے آخری اور مکمل دین بنا کر بھیجا گیا ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
حج زندگی کی بے شمار شاہراہوں کا تزکیہ کرتے ہوئے تمام انسانوں کو صراطِ مستقیم، سواء السبیل، سراجِ منیر اور الہدیٰ کی طرف بلاتا ہے تاکہ انسان خود کو ہرنوعیت کے شرک سے نکال کر ان کلمات کی تکرار کرے جو توحید ِ خالص کے پیغامبر ابوالانبیا کی زبانِ مبارک سے نکلے تھے: اِنَّنِیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَo (الانعام ۶:۱۹)’’جن کو تم شریک ٹھیراتے ہو، میں ان سب سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔ گویا میں نے تمام معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی خدائوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے مقصد ِ حیات کو پالیا ہے۔ اپنی سمت کو درست کرلیا ہے، زاویۂ نظر کی اصلاح کرلی ہے اور یکسو ہوکر صرف اور صرف اللہ کو اپنا حاکم اور مولا تسلیم کرلیا ہے۔ ’’میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔(الانعام ۶:۷۹)
اس شعوری فیصلے کا اعلان وہ تلبیہ کے ہر ہر لفظ کے ذریعے سرگوشی میں نہیں بلکہ بلندآواز سے کرتا ہے کہ کائنات کی ہر شے جس تک اس کی آواز پہنچ سکے اس راستی اور شہادتِ حق کی گواہ بن جائے۔ ہاں، ہاں، میں حاضر ہوں۔ مالک تمام عظمت، تقدس، ثنائ، حمد، تعریف صرف اور صرف آپ کے لیے ہے۔ آپ ہی ہر حمدوعظمت کے مستحق ہیں۔ آپ کے سوا کوئی حاکمیت و اقتدار میں ذرہ برابر شریک نہیں ہوسکتا اور نہ کسی تعریف و توصیف کا مستحق ہوسکتا ہے۔ میں نے اپنی مادری زبان، اپنے ملکی لباس کو، اپنے گھر کو، اپنے کاروبار کو، اپنے دوست اور اقربا کو، غرض ہر واسطے کو چھوڑ کر صرف دامنِ توحید میں پناہ لے لی ہے۔ میں آپ کی بندگی میں آکر تمام بندگیوں سے آزاد ہوکر اپنی متاعِ حیات کو آپ کے قدموں میں پیش کرتے ہوئے عہد کرتا ہوں کہ آج سے میرا سر کسی کے سامنے نہیں جھکے گا۔ اس عظمت والے گھر میں کیا جانے والا ایک سجدہ مجھے ان تمام بندگیوں سے نجات دے گا جن میں مَیں آج تک پڑا ہوا تھا۔
یہ توحیدی اجتماع ہر فرد کو آغاز سے تکمیل تک کلمۂ حق بلند کرنے اور بلاخوف و خطر خالقِ حقیقی کی عظمت و جلال کو ہر ایوان میں بلندکرنے ، اور بلاخوف و ہراس وقت کے جباروں کو للکار کر ان کی آمریت اور اللہ سے بغاوت کرنے کی روش کو رد کرتے ہوئے، زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لانے اور اپنے قبلے کی درستی کے ساتھ اپنی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔
کل تک ایک شخص کا گھنٹوں نیند کے مزے لینا اس کی ترجیح تھی تاکہ وہ تروتازہ ہوسکے۔ اب وہ یہی تازگی چند لمحات کے لیے آنکھ بند کر کے حاصل کرلیتا ہے اور وقت کا بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی حمدوعظمت کے بیان میں صرف کرتاہے۔ کل تک اس کی ترجیح اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت، آسایش کا حصول تھا۔ اب وہ اپنے دینی بھائی کے لیے اپنے حق کو قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ صبروتحمل کے ساتھ اُس سچے وعدے کے پیش نظر جو رب کریم نے اپنے بندوں سے کرلیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو فردوس کا وارث بنا دے گا، اس دنیا میں پیش آنے والی ہر آزمایش و امتحان کو خوشی کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ وہ حج کے ظاہری فوائد اخوت، رواداری، باہمی تعارف، تجارتی فروغ، مرکز توحید اور مرکز رسالتؐ سے وابستگی، اتحادِ اُمت، تعاون باہمی، سنت ِ ابراہیمی کے احیا اور ماضی کے تمام گناہوں سے نجات کے ساتھ ایک نئے عزم و ارادے سے مسلح ہوکر واپس ہوتا ہے۔
اب عصبیت، فرقہ واریت، علاقائیت، قبائلی اور برادری کے فخر اسے اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے۔ اس نے اللہ کے رنگ کو اختیار کرلیا ہے۔ تمام لبادوں کو اُتار کر اللہ کی بندگی کی قبا کو پہن لیا ہے۔ اب چاہے وہ دوبارہ اپنے ملک کی زبان میں بات کر رہا ہو لیکن اب سوچ کا انداز، دل کی دھڑکن، ذہن کا رجحان صرف ایک مرکز کی طرف ہے کہ کس طرح اللہ کی زمین میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرسکے، کس طرح ظلم و استحصال کے خدائوں سے نجات حاصل کرکے عدل و رواداری اور محبت و اخوت کو رواج دے سکے۔ جس اجتماعیت کا تجربہ اسے حج کے دوران ہوا ہے وہ اس کے اعتماد اور اللہ پر توکّل میں اضافہ کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی اُمت سے وابستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیرامۃ قرار دے کر تمام اقوامِ عالم کی سربراہی کے فریضے پر فائز کیا ہے۔ اپنے تن من دھن کو صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں دینے کے عمل کے ساتھ اب اس کا اصل کردار توحید ِ خالص کو اپنے ملک میں، اپنے معاشرے میں، اپنے گھر میں اور خود اپنی شخصیت میں ہرہرسطح پر نافذ کرنا ہے۔
حج اسے عالمی تحریک اسلامی سے وابستہ ہوکر کلمۂ حق کے بلند کرنے اور حاکمیت ِ الٰہیہ کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ حج کا انقلابی عمل معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے فروغ اور بدی اور فحش کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہدکا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ معاشرے کو وہ تازہ خون فراہم کرتا ہے جو معاشرے کی صحت کی ضمانت دیتا ہے۔ ہر سال لاکھوں افرا اس نظامِ تربیت سے گزرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم سرمایہ ہے جسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دعوت الی اللہ اور حکومت ِ الٰہیہ کے قیام کی منزل جلد قریب آسکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرشہر اور ہرگائوں میں اللہ کے ان بندوں تک پہنچا جائے جو اس عظیم فریضے کی تکمیل کے بعد اپنے گھر واپس لوٹے ہوں اور انھیں حج کے عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے منظم ہونے اور اس تربیت میں حاصل کی گئی بھلائی کو اصلاحِ معاشرہ، اصلاحِ گھر اور اصلاحِ اقتدار کے لیے استعمال کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔
کسی معاشرے اور ماحول میں رونما ہونے والے واقعات اس معاشرے اوراس ماحول میں سانس لینے والوں پر اثراندازہوتے ہیں۔ اسی طرح کسی خطے یا علاقے کاموسم بھی وہاں کی انسانی طبیعتوں اورانسانی صحت پر اچھا یا برا اثر ڈالتاہے۔ اس کی ایک مثال جون، جولائی میں پڑنے والی کراچی کی قیامت خیز گرمی ہے، جس سے اہل کراچی شدیدطورپرمتاثر ہوئے اور ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افرادموسم کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کوپیارے ہوگئے۔ اس موسمی شدت کی چند وجوہ ہیں:
۱- گذشتہ برسوں میں کراچی شہراورمتعددآبادیوں میں واقع پارکوں کو ختم کرکے اُن کے پلاٹ بناکر،عمارتیں اورپلازے کھڑے کرلیے گئے۔ پارکوں میں جتنے درخت اورپودے تھے،وہ سب تہِ تیغ ہوئے۔شاہراؤں کے ساتھ واقع سبزقطعات، سڑکوں کی توسیع کی زدمیں موت کے گھاٹ اُتر گئے اورسبزے اوردرختوں سے محروم ہوگئے اور نئے درخت نہیں لگائے گئے۔
۲- کراچی میں موٹرگاڑیوں،بسوںاورٹرالوںکی تعدادتقریباً۲۰لاکھ ہے۔اس میں سالانہ ۲۰ ہزارکے حساب سے اضافہ ہوتاہے۔یہ لاکھوںموٹریں،بسیں اورٹرالے بلکہ موٹرسائیکلیں،اپنے دھوئیں سے ماحول کوآلودہ اورفضا کوزہریلا بنانے میں اہم کرداراداکرتی ہیں۔
۳-مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے نئی نئی بستیاں وجود میںآئیں جن میں ہزارہا مکانات، عمارتیں، فلیٹ تعمیرکیے گئے یامصروف شاہراؤں اورپرانی آبادیوں میںاُونچے کئی کئی منزلہ پلازے تعمیرکیے گئے مگردرخت نہیں لگائے گئے یابہت کم لگائے گئے اوران کی بھی دیکھ بھال نہیں کی گئی۔
۴- ٹریفک کی روانی میں رکاوٹیں دورکرنے اوراسے رواں رکھنے کے لیے ’بالائی پُل‘ (اوورہیڈ) اور زیرزمین راستے(انڈرپاس) بنائے گئے۔ جب سورج حدّت دکھاتاہے،خصوصاً دوپہرکے وقت،تب اینٹ،پتھر،سیمنٹ اور لوہے سے تعمیرشدہ مکانات،پلازے،فلیٹ اور پُل خوب تپ جاتے ہیں، فضا گرم ہوجاتی ہے اور تارکول سے بنی سڑکیں ماحول کو زہریلی گیسوں سے بوجھل اورآلودہ بناتی ہیں۔ درخت اس حدت اور تپش کو کم کرتے ہیں مگر درختوں کا توہم نے پہلے ہی صفایاکرچھوڑاتھا لہٰذا زہریلی گیسوں کو کون جذب کرے اور آکسیجن کون مہیاکرے۔
فضا اور ماحول،اہل کراچی کے لیے ناقابل برداشت ہوگئے، جس کے نتیجے میں ہزاروں جانیں لقمۂ اجل بن گئیں۔جب کراچی’عروس البلاد‘کہلاتاتھااوریہ بہت پرانی بات نہیں ہے۔ کراچی میں مقیم معروف شاعر ماہرالقادری کراچی کے ماحول اورفضا سے اس قدرخوش تھے کہ انھوں نے ’کراچی نامہ‘ کے عنوان سے کراچی کے لیے ایک قصیدہ مدحیہ لکھا۔اس میں انھوں نے شہرکے حُسن وجمال اورخوب صورتی کا نقشہ کھینچا ہے۔چنداشعار دیکھیے:
کراچی ہے سب بستیوں کی دلھن
یہاں ہر طرف ہے نرالی پھبن
یہاں باغ اور سیرگاہیں بھی ہیں
یہاں چوک اور شاہراہیں بھی ہیں
۵-یہ عروس البلاد صدیوں میں بناتھا۔صدیوں کے ’بناؤ‘کوہم نے چند برسوں میں’ بگاڑ‘ میںبدل کررکھ دیا۔خیال رہے کہ ماحول کو بگاڑنے کی انفرادی کوشش سے اتنی خرابی پیدانہیں ہوتی لیکن جب چاروں طرف بکثرت سیمنٹ اور لوہے کی آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں اور جگہ جگہ اونچے اونچے پُل بنائے جائیں تو پھرفطرت بھی انتقام لیتی ہے۔
پاکستان کے کچھ اور بڑے شہروں(لاہور،اسلام آباد،ملتان،پشاور) میں جس طرح کے منصوبے بنائے گئے ہیں اور کچھ بنائے جارہے ہیں انھیں بروے کار لانے کے لیے ماحول دوست ہزاروں درختوں کو بے دردی کے ساتھ کاٹاگیا۔ لاہور میںنہرکے دونوں کناروں پرسڑکوں کووسیع کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹے گئے ۔آخرکار ہائی کورٹ کو درخت کاٹنے پرپابندی لگانی پڑی۔ (برسبیل تذکرہ : سڑکوں کو محض چوڑا کرنے سے ٹریفک کا بہاؤ تیز نہیں ہوتا۔ پیرس اور لندن کی بہت سی سڑکیں ہماری سڑکوںکے مقابلے میں بہت کم چوڑی ہیں، مگر وہاں ٹریفک نہیں رُکتی۔ کیوں کہ قواعد کی سختی سے پابندی کرائی جاتی ہے۔یہاں تو خودٹریفک پولیس والے قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہوتے ہیں۔)
کراچی میں درجۂ حرارت شاید ۴۹ درجے تک چلا گیاتھا۔ پنجاب اور سندھ کے دیہاتوں میں بعض اوقات درجۂ حرارت اس سے بھی زیادہ ہوتاہے لیکن وہاں گرمی کی شدت سے بہت کم اموات ہوتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دیہات کا ماحول آلودہ نہیں ہوتا۔ فضا صاف ستھری اور زہریلی گیسوں سے پاک ہوتی ہے۔چاروں طرف بکثرت سبزہ اور درخت موجود ہوتے ہیں جو رات کوزہریلی گیس جذب کرتے ہیں اور دن بھرآکسیجن چھوڑتے ہیں اور اس طرح ماحول کو صاف بناتے رہتے ہیں۔اس طرح ۲۴ گھنٹے انسانوں کی خدمت میںلگے رہتے ہیں۔
اچھے یا برے ماحول کا اثرانسانی طبیعتوں پر پڑتاہے۔جب دم گھٹے گا،ناک میں دھواں جائے گا، توعین ممکن ہے کسی کے لیے منہ سے کوئی برا لفظ نکل جائے یا بددعانکلے۔ اس کے برعکس اگر فضا خوش گوارہوگی،سبزہ، درخت اور پھول پھلواری نظر آئے گی تو طبیعت میں انبساط پیداہوگا۔ مجھے فضل کریم احمد فضلی کے ناول خون جگر ہونے تک کا ایک نمایاں کردار ذلیل الدّی یاد آرہا ہے، جو ایک غریب شخص تھا مگر بلبل کی آواز سن کر خوش ہوتااور جھوم جھوم جاتا۔ پھردن یارات کے کسی لمحے وہ تصور ہی تصور میں بلبل کی آواز کو یاد کرکے ایک خودساختہ مصرع پڑھا کرتاتھا ع
کائنات میں سب سے اہم چیز کیاہے؟ ’انسان‘ اگر وہی پریشان ہے،مضطرب اور بے چین ہے اور فضائی آلودگیوں کے سبب طرح طرح کے امراض کا شکار ہورہاہے تو پھریہ ترقی، تیزرفتار میٹرو، اُونچے اُونچے پلازے اور دولت کی ریل پیل سب کچھ ہیچ ہے۔ اگر ماحول بہتر نہ بنایا گیاتو بیماریاں بڑھتی جائیں گی۔طرح طرح کے وائرس اور جراثیم انسان کو سکون کاسانس نہیں لینے دیں گے۔
یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ بڑے شہروں کے ماحول کوبہتر بنانے،موجودآلودگیوں کو کم کرنے اور مزید آلودگیوں سے بچانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوششیں کرنی چاہییں۔جس حد تک ممکن ہو ماحول دشمنانہ اقدامات کو قوت اور طاقت سے روکنا چاہیے (اگر سیاسی پارٹیاں اس مسئلے کا ادراک کرلیں تو ان کا احتجاج مؤثر اور ان کی کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں)۔ اگر قوت نہیں ہے تو زبان ہی سے،تقریروں اور تحریروں کے ذریعے احتجاج فرض ہے کیوں کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔
ماہ نامہ ترجمان القرآن (اپریل ۱۹۴۱ئ) میں ’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘ کے عنوان سے مولانا مودودی نے تشکیل جماعت کی تجویز پیش فرمائی تھی۔ اسی دوران یکم جون ۱۹۴۱ء کو میری شادی ہوگئی۔ میرے ولیمے کے اگلے ہی روز ایک اندوہ ناک واقعہ پیش آیا۔ میرے ماموں خسر فتح محمد صاحب دعوت ولیمہ میں شرکت کے لیے اہل و عیال کے ہمراہ اپنے گائوں صفدرپور سے ہمارے ہاں راے پور آئے ہوئے تھے۔ ولیمے کے اگلے روز میرے والد صاحب اور کچھ دوسرے رشتہ دار انھیں بیل گاڑی پر بٹھا کر نڈالہ کے لاری اڈے پر چھوڑنے جارہے تھے۔ یہ ابھی گائوں سے نکل کر آدھ پون کلومیٹر کی دُوری پر تھے کہ ماموں فتح محمدصاحب کے سینے میں درد اُٹھا، اور انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے دم توڑ دیا۔ میرے والد اور دوسرے رشتہ دار ان کی میت چھکڑے پر واپس رائے پور لے آئے۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ ان کی بیوی، بچے اور میری اہلیہ تیسرے روز، روتے دھوتے واپس صفدرپور روانہ ہوگئے۔
اس وجہ سے ۲۲ یا ۲۳؍اگست ۱۹۴۱ء کو، یعنی شادی کے بعد پہلی بار اہلیہ کو اپنے گھر لانے کے لیے میں روانہ ہوا۔ راستے میں کپورتھلہ پڑتا تھا۔ ابھی میں راستے میں کپورتھلہ پہنچا ہی تھا کہ مجھے چودھری عبدالرحمن صاحب نے بتایا: ’ایک صالح جماعت کی ضرورت ‘ کی تجویز کے مطابق مولانا مودودی صاحب کی دعوت پر لاہور میں اجتماع ہو رہا ہے۔ پھر مستری محمد صدیق صاحب اور چودھری عبدالرحمن صاحب نے مجھے بھی لاہور کے اس اجتماع میں شرکت کی پُرزور دعوت دی، اور میں سسرال جانے کے بجاے راستے ہی سے ان کے ہمراہ لاہور کی جانب چل دیا۔ ان دنوں میں گورنمنٹ کالج لاہور اور یونی ورسٹی لا کالج کی تربیت اور ماحول کے زیراثر لباس کی حد تک مکمل مغربی طرزِ معاشرت کے مطابق زندگی بسر کرتا تھا۔ اسی حالت میں، مَیں لاہور کے اجتماع میں شریک ہوا۔ یہ اجتماع اسلامیہ پارک لاہور میں مولانا ظفراقبال صاحب کی کوٹھی فصیح منزل سے متصل مسجد کے سامنے مولانا مودودی صاحب کی رہایش گاہ میں منعقد ہوا۔
یہ اجتماع ۲۵، ۲۶ ؍اگست ۱۹۴۱ء مطابق یکم، دوشعبان ۱۳۶۰ھ دو دن جاری رہا۔ پہلے دن تو جماعت کے لیے مجوزہ دستوری خاکے پر بحث ہوتی رہی۔ شرکا نے بعض ترامیم پیش کیں۔ یہ دستور ساز کمیٹی آٹھ دس آدمیوں پر مشتمل تھی۔ ان افراد میں مَیں بھی شامل تھا۔ اس پہلے اجتماع میں شریک جن لوگوں کی یاد ذہن میں محفوظ ہے، ان میں سیّد عبدالعزیز شرقی صاحب، مولانا جعفرشاہ پھلواروی صاحب، مولانا محمد منظور نعمانی صاحب، نعیم صدیقی صاحب، حافظ فتح اللہ صاحب، شیخ فقیر حسین صاحب، مستری محمد صدیق صاحب، چودھری عبدالرحمن صاحب، ماسٹر عزیز الدین صاحب وغیرہ شامل تھے۔
اس کام میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بیان کردہ ایمان و اسلام کے تقاضوں کو سمجھ کر اور ’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘ والا مضمون پڑھنے کے بعد بالکل یکسو ہوگیا تھا۔ میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص (مولانا مودودی) جو کچھ کہتا ہے بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ پھر میں یقین کی اس منزل کو پہنچ گیا کہ یہ ایک ایسی سچائی اور ایسا حق ہے کہ اس دنیا میں کوئی تیسرا شخص اس فرد کا ساتھ دینے کے لیے اُٹھے یا نہ اُٹھے، مَیں بہرحال اس کا ساتھ دوں گا اور آخر دم تک اس کا ساتھ دوں گا۔ ہم یہی کام کرتے کرتے اپنے خالق و مالک کے پاس چلے جائیں گے۔
تاسیس جماعت کا اجتماع بڑا رقت آمیز تھا۔ ہرشخص جو کلمۂ شہادت کی تجدید کے لیے اُٹھتا، شدتِ جذبات سے اس کی ہچکی بندھ جاتی تھی، اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شہادت کی اس ذمہ داری کو وہ زمین و آسمان کے بوجھ سے بھی زیادہ وزنی سمجھ کر اُٹھا رہا ہے۔ اس کے بعد جب اجتماعی دُعا ہوئی تو وہ بڑی اثرانگیز اور شرکا پر رقت طاری کرنے والی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اجتماع میں جو لوگ شریک تھے، وہ اس کی کیفیات اور تجربے کو عمربھر نہیں بھلا سکے ہوں گے۔
یہ واقعہ میری یاد میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ اس اجتماع میں مدراس [چنائے] سے پشاور اور پٹنہ سے کراچی و بمبئی تک پورے [غیرمنقسم]ہندستان سے ۷۵ آدمی شریک ہوئے۔ اس دو روزہ اجتماع کا پہلا دن تو باہمی تعارف اور عام تبادلۂ خیالات اور ملاقاتوں میں گزرا۔ پھر جماعت کے لیے مجوزہ دستور کا مسودہ اجتماع میں پیش ہوا۔ ایک کمیٹی نے اس مسودے پر نظرثانی کی اور غوروبحث کے بعد اسے آخری شکل دے دی۔
دستور مکمل ہوجانے کے بعد اگلے روز صبح کے اجلاس میں مولاناسیّدابوالاعلیٰ مودودی اُٹھے اور افتتاحی خطاب کیا (یہ خطبہ رُوداد جماعت اسلامی، حصہ اوّل میں پڑھا جاسکتا ہے)۔ اس کے بعد فرمایا: ’’اس جماعت کی رکنیت کے لیے سب سے پہلے میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں اور آپ سب کو گواہ کر کے پورے فہم و شعور کے ساتھ کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت ادا کر کے ازسرِنو ایمان لاتا ہوں اور اس جماعت کی رُکنیت اختیار کرتا ہوں‘‘۔
مولانا مودودی کے بعد لکھنؤ سے محترم مولانا محمد منظور نعمانی اور پھر یکے بعد دیگرے دوسرے حضرات بھی کلمۂ شہادت کی تجدید کرکے جماعت میں شامل ہوتے گئے۔ پانچویں یا چھٹے نمبر پر میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت میں اپنے آبائی وطن ریاست کپورتھلہ (مشرقی پنجاب) میں وکیل تھا۔ ۲۷ برس عمر تھی اور اڑھائی تین ماہ پیش تر شادی ہوئی تھی۔ جیساکہ بتا چکا ہوں میں اہلیہ کو گھر لانے کے بجاے اجتماع میں آگیا تھا اور حسب معمول کوٹ پتلون اور ٹائی ہی میں ملبوس تھا۔ ہیٹ میرے ہاتھ میں تھا اور داڑھی مونچھ صاف۔
میں نے اُٹھ کر کہا: ’’میں بھی اپنے آپ کو جماعت اسلامی کی رکنیت کے لیے پیش کرتا ہوں‘‘۔ اس پر ہمارے نہایت محترم شریک محفل جناب مولانا محمد منظورنعمانی جنھیں میں نے اسی اجتماع میں دیکھا تھا، انھوں نے میری وضع قطع کو دیکھ کر اعتراض کیا: ’’ان فرنگی آلایشوں کے ساتھ کسی شخص کو جماعت کی رکنیت میں کیسے لیا جاسکتا ہے؟‘‘ بعض دوسرے حضرات نے بھی مولانا نعمانی صاحب کی بات کی پُرزور تائید کی۔
میں نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ مانے۔ آخر میں نے درد بھرے لہجے میں التجا کرتے ہوئے کہا: ’’آپ مجھے موقع تو دیجیے‘‘۔
چنانچہ مولانا مودودی کی تجویز پر مجھے آزمایشی طور پر اس شرط کے ساتھ جماعت میں شامل کرلیا گیا کہ اگر چھے ماہ کے اندر میں نے اپنے ذریعۂ معاش اور دوسری قابلِ اصلاح چیزوں کو درست کرلیا تو رکنیت برقرار رہے گی، ورنہ ساقط کردی جائے گی۔
اس طرح میں ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت کی تاسیس کے روز ہی جماعت میں شامل ہوگیا۔ سراسر خداوند تعالیٰ کے فضل و توفیق سے میں نے جماعت کی طرف سے مقرر کردہ میعاد سے پہلے ۲۳جنوری ۱۹۴۲ء کو شرائط داخلہ پوری کردیں۔ اگرچہ اس کی وجہ سے مجھے والدین، اعزہ و اقربا اور احباب و شناسا، سب کی شدید ناراضی کا برسوں تک سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کسی نصب العین کو اختیار کرنے کے بعد ان باتوں سے سابقہ پیش آنا ایک قدرتی امر ہے۔ مستقبل میں بھی اس راہ پر قدم بڑھانے والے ہر شخص کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس فیصلے اور اقدام کے بارے میں مجھے آج تک ذرہ بھی تردّد نہیں ہوا۔ بڑے بڑے طوفان آئے، بڑے بڑے برج گر گئے، بڑے بڑے دعوے کرنے والے ساتھ چھوڑ گئے، لیکن اللہ نے میرے پائوں میں کوئی لغزش نہ آنے دی اور نہ اس کا مجھ پر کبھی کوئی اثر پڑا کہ فلاں فرد جماعت کو چھوڑ کر چلا گیا، یا فلاں نے یہ کہہ کر راہِ فرار اختیار کرلی ہے وغیرہ وغیرہ۔ امرِواقعہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد اپنی ذمہ داری کا احساس اور زیادہ بڑھ جاتا۔
جماعت اسلامی اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی ایک بنیادی مقصد لے کر میدان میں آئی ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے، صرف اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے دین کے پیرو بن کر رہیں۔ اپنی زندگیوں کا تزکیہ کریں اور نیکی کو پھیلائیں۔ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات و تعلیمات، قرآنِ مجید اور حضور نبی آخر الزمان حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہیں، ان احکام و تعلیمات کو من و عن اور عملی طور پر ایک نظام کی صورت میں اپنے معاشرے میں برپا اور نافذ کریں۔ یہی جماعت اسلامی کے بنیادی مقاصد ہیں۔ اسی کو قرآن کی زبان میں ’اقامت ِ دین‘ کہا گیا ہے۔ جس کے لیے جدوجہد کیے بغیر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ممکن نہیں ہے۔ رضاے الٰہی ہی انسانی زندگی کا اصل مقصود ہے۔
قرآن نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ (vice gerent) کہا ہے۔ خلیفہ اسے کہتے ہیں جو اپنے مالک کی مرضی پر خود بھی چلے اور دوسروں پر بھی اس مرضی کو نافذ کرے۔ نہ خود اس کے خلاف کوئی کام کرے اور نہ کسی اور کو ایسا کرنے دے۔(مشاہدات، مرتبہ: سلیم منصور خالد، ص ۶۱-۶۷)
قرآن کریم نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے دستورِحیات اور اصلاح و تربیت کا ہدایت نامہ (manual) ہے۔ اس کا ایک اعجاز یہ ہے کہ انتہائی بلیغ انداز میں، مختصر ترین کلمات میں اپنی ہدایات کو ایک عام فہم طریقے سے دلوں اور دماغوں میں اُتار دیتا ہے، تاکہ دماغ اور دل جس معاملے میں بھی فیصلہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے فتویٰ کی بنیاد یہ ہدایت، یہ نور اور یہ دستور ہی ہو۔
قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کی ضرورت کا احاطہ کرتے ہوئے محض چار مختصر جملوں میں یہ کتابِ ہدایت ہمیں جو یاد دہانی کراتی ہے اس کی اعلیٰ ترین مثال سورئہ عصر ہے۔ یہ ان سورتوں میں سے ہے جسے ایک بچے سے لے کر ایک ۹۰سال کے معمر شخص نے بھی حافظے میں محفوظ کر رکھاہے لیکن المیہ یہ ہے ذہن میں محفوظ رکھنے کے باوجود ہم اکثر اس کے معنی اور مفہوم اور اس میں دی گئی ہدایات پر غور نہیں کرسکے۔
وَالْعَصْرِ o اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o ( العصر ۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
پہلی بات جو سمجھائی جارہی ہے وہ اسلام کی دعوتِ انقلاب پر ایمان ہے۔ توحید جو اسلام کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ کمال بھی، مطالبہ یہ ہے کہ ہر وہ فرد جو اپنے آپ کو اسلامی تحریک سے وابستہ خیال کرتا ہے، اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ اس کے فکرو عمل میں توحید کتنی موجود ہے یا اسلام پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس نے بے شمار خدائوں کو گوارا کیا ہوا ہے؟ کیا اس کے وقت کا ایک ایک لمحہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی میں صرف ہو رہا ہے یا معاشرے میں رائج رسوم و رواج، طورطریقوں اور لادینی تہذیب کی خدمت میں صرف ہو رہا ہے؟ اس کا اپنا گھر کہاں تک توحید کا نمونہ پیش کرتا ہے؟ اگر وہ ایک تاجر ہے تو جو مال وہ فروخت کر رہا ہے وہ اسی معیار کا ہے جس کی قیمت لے رہا ہے یا جلد نفع کے حصول کی خواہش نے اسے معیار پر سمجھوتا کرنے پر آمادہ کردیا ہے؟ کہیں وہ اپنے معاشی معاملات میں خسارے کا حامل انسان تو نہیں بن گیا، جس کا ذکر سورئہ عصر میں کیا گیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جو انسان بھی اُن چار اُمور کی پروا نہیں کر رہا وہ خسارے میں ہے۔ یہ چار اُمور ہیں: ایمان، عملِ صالح، تلقینِ حق اور مستقل مزاجی کے ساتھ دعوتِ دین۔تحریکِ اسلامی کی دعوت کا پہلا نکتہ اللہ تعالیٰ پرشعوری طور پر ایمان لانا ہے: اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے‘‘۔ اس ایمان لانے کو دوسرے مقام پر یوں کہا گیا کہ ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کرلی‘‘ (حم السجدہ ۳۰:۴۱)۔ ان کی محبت اور وابستگی صرف اور صرف اللہ رب العزت کے ساتھ ہوتی ہے۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘۔(البقرہ ۲:۱۶۵)
اس تعلق کا مطالبہ ہے کہ وہ جھکیں تو صرف اللہ کے سامنے، توکّل کریں تو صرف اللہ پر اور ان کی کثرت ِ تعداد اور ان کے ہمراہ چلنے والے لاکھوں افراد کا آجانا انھیں اپنی طاقت پر ناز کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ وہ افراد کے ہجوم (street power) پر بھروسا کرنے یا اپنی قلت تعداد کے باوجود اپنے رب کی نصرت اور فرشتوں کے ذریعے ان کی حمایت پر زیادہ توکّل رکھتے ہوں۔ اور اگر اللہ انھیں بڑی تعداد میں رضاکار اور کارکن فراہم کردیتا ہے تو شکر میں اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
یہ ایمان اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اللہ کی کتاب سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں اور کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اس کی تلاوت، غوروفکر کے ساتھ کرتے ہیں۔ تلاوت کے آداب اور حق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کلامِ عزیز کی ایک ایک آیت ٹھیرٹھیر کر نمناک آنکھوں اور خشیتِ قلب کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اگر اس کیفیت میں کمی ہے تو پھر بعد کے مراحل بھی کمزور ہوں گے۔ یہ دعوت کا پہلا زینہ ہے۔ دوسروں کی اصلاح سے قبل اپنے نفس کی تربیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
دعوتِ دین دینے اور خصوصاً ان کے قائدین کو ہر وقت سورئہ صف کی دوسری آیت کو ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے۔ فرمایا گیا: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ o(الصف ۶۱:۲) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘۔قرآن کے نزدیک ایمان ایک قابلِ محسوس حقیقت ہے۔ یہ کسی مخفی روحانی کیفیت کا نام نہیں جس کا اظہار اللہ کی بندگی کی شکل میں نہ ہورہا ہو۔ خصوصاً جو زمانے کا رُخ بدلنے اور باطل نظام کی جگہ حق و صداقت اور عدل و رواداری کے نظام کو قائم کرنے نکلے ہوں، ان کے لیے ایمان کے اس مفہوم کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ تغیر وتبدیلی کا آغاز اندر سے ہوتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف (نفس) کو نہیں بدل دیتی‘‘۔(الرعد ۱۳:۱۱)
ایمان اس داخلی تبدیلی کا نام ہے ،جو عمل صالح کی شکل میں اپنا اظہارکرتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے کا پہلا تقاضا نظامِ صلوٰۃ کا قیام ہے، جس کا تذکرہ مسلسل قرآنِ کریم میں آتا ہے: ’’یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے ان اہلِ ایمان کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نظامِ صلوٰۃ قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۲-۳)۔گویا ایمان کا فوری تقاضا انفرادی اور اجتماعی طور پر نظامِ صلوٰۃ قائم کرنا ہے، صف بندی کر کے طاغوت، ظلم، جہالت، قتل و غارت کے خلاف جہاد کرنا ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو مال کی غلامی سے نکال کر اُس مال کو جو اخلاقی ضابطے کے تحت پیدا کیا ہے، اس کے نام پر اسے خوش کرنے کے لیے خرچ کرنا ہے جس نے دیا ہے۔ جس نے ایمان کے ان دو اوّلین مطالبات کو سمجھ لیا اور پا لیا، اس نے ایک بیش بہا دولت حاصل کرلی۔ اسے آخرت میں سفارش کرنے والے دو اعمال مل گئے جو روزِ محشر ربِ کریم سے سفارش کریں گے کہ آپ کے اس بندے نے آپ کی زمین پر نماز کے نظام کو قائم کیا اور آپ کی راہ میں اپنے مال کو دل میں تنگی لائے بغیر خرچ کیا۔
العصر میں جس ایمان اور عملِ صالح کا تذکرہ آیا ہے قرآن کریم کا ہرصفحہ اس کی تفسیر پیش کرتا ہے۔ یہ چار آیات دعوتِ دین کے ہر داعی کو بطور ایک انعام الٰہی نازل فرما کر یہ تاکید بھی کردی کہ اپنی ذات کی اصلاح کے ساتھ حق کی دعوت کو اپنی ذات تک محدود نہ رکھو۔ اسے لے کر گلی گلی اور کوچے کوچے میں پہنچ جائو۔ حق کی تواصی، خود اپنے آپ کو اور تمام انسانوں کو کرنا ایمان کا تقاضا اور انسانی معاشرے کو تبدیل کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کا الہامی طریقہ ہے۔
مکی سورتوں میں ۱۳سال تک مکہ مکرمہ میں ایمان اور عملِ صالح پر اسی لیے زور دیا گیا کہ آگے چل کر جس نظامِ حق کو نافذ کرنا مقصود ہے، وہ اندر کی اصلاح کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ امرواضح ہے کہ معاشرے اور نظام کی تبدیلی محض عوام کے ہجوم سے نہیں ہوسکتی۔ سمندر او ردریا میں جب طغیانی آتی ہے تو سطحِ آب جھاگ سے بھر جاتی ہے اور ساتھ ہی خس و خاشاک بھی ہر جانب پھیل جاتے ہیں لیکن قرآن کریم ظاہری شدت کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔ وہ اُس تعداد کو زیادہ قوی قرار دیتا ہے جو بندگیِ رب سے سرشار ہوکر صرف اپنے مالک پر توکّل کرکے راہِ حق میں نکلتی ہے۔
ہاں، کامیابی کی اوّلین شرط ایمان کا دل و نگاہ کی گہرائی میں بس جانا اور عملِ صالح کی شکل میں ظاہر ہونا ہے: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟‘‘(العنکبوت ۲۹:۲)
جدوجہد کے دوران کارکن اور قیادت اکثر اس سوال کا سامنا کرتی ہے کہ ہم کو کام کرتے ہوئے اتنے سال ہوگئے، مگر منزل اب بھی قریب نظر نہیں آتی۔ ہم اپنا وقت، اپنی صلاحیت، اپنا مال ہر چیز مقدور بھر اللہ کی راہ میں لگا رہے ہیں، لیکن نتائج وہ نہیں ہیں جو ہونے چاہییں۔ ان سوالات کے اُبھرنے کے ساتھ ہی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہماری نظر سے اوجھل ہوجاتی ہے کہ کیا واقعی ہمارے وقت کا بڑا حصہ اس دعوت کے لیے استعمال ہو رہا ہے یا اپنی تجارتی، انتظامی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد چھٹی کے دن چند گھنٹوں کے لیے دعوتی کام میں لگانے کو ہم اپنے وقت کی قربانی تصور کرلیتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی قرآن فہمی، سیرت پاکؐ سے قربت و تعلق، علومِ فقہ، حدیث، اصول تاریخ میں اتنا درک حاصل کرلیا ہے کہ ہم دین کی دعوت کے لیے ہر نکتے کو قرآن و حدیث اور فقہ کے اصولوں کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے عوام الناس کے سامنے پیش کرسکیں؟ کیا ہم نے اپنے مال کے حوالے سے وہ اصول اختیار کیا ہے جس میں ایک تہائی اپنے لیے، ایک تہائی اپنی اولاد اور حادثاتی مواقع کے لیے، اور ایک تہائی اللہ کے لیے صرف کیا ہے؟ اگر ایمان کے یہ بنیادی تقاضے ابھی مکمل نہیں ہوسکے ہیں اور ساتھ ہی منزل کے قریب نہ ہونے کا احساس ہو رہا ہے تو کیا ان دونوں میں واقعی کوئی منطقی ربط ہے؟
اگراہلِ ایمان ، دعوتِ دین کی تحریک کے کارکن اور قائدین،ایمان کے بنیادی تقاضوں کو جیساکہ ان کا حق ہے اختیار کرلیں تو پھر قرآن کریم کا وعدہ ہے: ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ (حم السجدہ ۴۱:۳۱-۳۲)
تواصی بالحق فرضِ عین ہے، کیونکہ سورۂ عصر کے آغاز ہی میں یہ صراحت کردی گئی کہ خسارے سے بچنے کے لیے اہلِ ایمان کے کرنے کے چار کاموں میں سے ایک یہ ہے۔ لیکن اس تواصی بالحق کے لیے حق کا جاننا اور براہِ راست قرآن و سنت سے جاننے کے ساتھ عملِ صالح کا اختیار کرنا شرط ہے۔ ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور جادہ صبرواستقامت ان میں گہرا اندرونی رشتہ ہے۔ یہ جڑواں اُمور ہیں انھیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ تواصی بالحق کیا صرف نماز کے لیے ہوگی، صرف زکوٰۃ کے لیے ہوگی، صرف روزے کے لیے ہوگی، صرف حج کی ترغیب کی شکل میں ہوگی یا مکمل دین اور دین کے مکمل نفاذ کے لیے؟ بات واضح ہے قرآن کریم نہ نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرتا ہے اور نہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں۔
حق کی شہادت،پورے دین کے نظام کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس عمل میں ترجیحات تو ہوسکتی ہیں ، تفریق نہیں ہوسکتی۔ عین ممکن ہے کہ ایک دعوتی مرحلے میں زیادہ ضرورت معاشرتی فلاحی کاموں کی ہو۔ چنانچہ قرآن کریم اہلِ ایمان کے حقوق کے حوالے سے ہدایت کرتا ہے کہ نہ صرف خونی رشتوں کا احترام ہو بلکہ جارالجنب ، یعنی تھوڑی دیر کے لیے ہم نشین یا پڑوسی کے حق کو بھی ادا کیا جائے۔
حق کی دعوت ایک جزوقتی (part-time) کام نہیں ہے کہ جب آدمی کو کرنے کا کوئی کام نہ ہو، فرصت ہو، عمر کے ایسے مرحلے میں آگیا ہو کہ اب وقت اپنی حد کو چھوتا نظر آرہا ہو، تو وہ اللہ کے دین کے کام کے لیے پائوں گردآلود کرنا شروع کر دے۔ یہ فریضہ ہمہ وقتی فریضہ ہے۔ اس میں کوئی رخصت اور کوئی تعطیل نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے انبیاے کرام نے لیلاً ونہارًا کیا اور ایک دو سال یا ۷۰،۸۰سال نہیں کیا، بلکہ ۹۰۰ سال کیا۔ یہ کرنے کے بعد بھی شکوہ نہیں کیا کہ لوگ ہی ایسے ہیں کہ ایک کشتی بھر تعداد کے علاوہ دعوت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ آخر وقت تک، حتیٰ کہ جب طوفانِ نوحؑ کا آغاز ہوچکا تھا، اس وقت بھی مستقل مزاجی، لگن اور تڑپ کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا۔ دعوتِ حق کا کام تعداد کی قلت و کثرت سے بلند کام ہے۔ یہاں ایک فرد کو صحیح انداز سے دعوت پہنچا دینا بھی ایسے ہی نجات کا باعث بن سکتا ہے جیسے ایک پوری قوم کو ہدایت سے آشنا کردینا۔ صبرواستقامت کی کمی کا اظہار اُس پریشانی سے ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ بے اعتمادی میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ ہم کام کر رہے ہیں پھر نتائج کیوں نہیں نکل رہے۔ کیا کسان فصل اچھی نہ ہونے پر زمین کو طعنہ دیتا ہے یا اپنی سعی اور کوشش کو ذمہ دار ٹھیراتا ہے؟ قرآن کریم نے جو قولِ فصیل دیا ہے وہ حق اور قیامت تک صداقت کا حامل ہے کہ اگر واقعی صبروحکمت کے ساتھ دعوت دی جائے تو نہ صرف کارکن بلکہ قائدین کی جماعت پیدا ہوسکتی ہے: ’’اور جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے قائدین (ائمہ و پیشوا) پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے‘‘۔(السجدہ ۳۲:۲۴)
حق کی نصیحت نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے خاموش اور بے لوث طرزِعمل سے کرنا فی الواقع ایک صبرآزما کام ہے۔ عوامی تحریکات میں بظاہر ہزاروں افراد جمع ہوجاتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی دعوت اور شخصیت کا کمال ہے۔ وقت آنے پر حقیقت کچھ اور ہی نکلتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کا مزاج عوامی ہنگاموں سے مختلف ہے۔ یہ محض جذباتی نعروں کا مجموعہ نہیں ہے ،بلکہ فکروسوچ کو ہلادینے والی فکر اور انسان کی شخصیت کو سرتاپا تبدیل کر دینے والی تربیت کا نام ہے۔ شخصیت کی تبدیلی کے لیے ایک فرد کے ذہن اور ترجیحات کو نئے سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ یہ اصلاحی عمل غیرمعمولی صبروحکمت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کی بہترین مثال مکی دور کے وہ ۱۳سال ہیں جو اپنی اثرانگیزی کے لحاظ سے ۱۳قرنوں سے کم نہیں کہے جاسکتے۔ ان ۱۳سالوں میں شخصیت وکردار کے جوہر کو ایسی جلا بخشی گئی کہ خاک کا ہر ذرّہ ایک چمکتا ہوا چاند بن کر توحید کے محور کے گرد گردش میں آگیا۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اصلاحی تحریکات بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرتی ہیں، جب کہ سیاسی تحریکات صرف سیاسی اقتدار کے حصول میں اپنی ساری قوت صرف کردیتی ہیں۔ اصلاحی تحریکات فرد، خاندان اور معاشرے میں اصلاح و تبدیلی کی جدوجہد کے ساتھ اپنے دور کے فکری نظریات اور معتقدات کا تنقیدی جائزہ اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان مسائل کا حل پیش کرنے پر بھی مامور ہوتی ہیں۔ اس ہمہ جہت جہاد میں ان کی قوتیں مختلف محاذوں پر تقسیم ہوجاتی ہیں۔ گو ہدف تبدیلیِ نظام ہی رہتا ہے لیکن بیک وقت فکری محاذ پر معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل پر توجہ دینے کے نتیجے میں سیاسی تبدیلی کا عمل قدرے طویل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان حالات میں یہ کام قیادت کا ہے کہ وہ معاشرے کے دبائو کو سمجھتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر کامیابی کی رفتار کا تعین کرتی رہے۔
قرآن کریم نے اس نوعیت کی صورتِ حال کا تذکرہ حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰی ؑ کے تناظر میں بار بار کیا ہے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ’’آخر اللہ کی مدد کب آئے گی‘‘۔ جواب ظاہر ہے جو لوگ اپنے رب پر مکمل ایمان کے ساتھ اس کے دین کی سربلندی کے لیے، اس کے بتائے ہوئے طریقے سے ہلکے اور بھاری نکل کھڑے ہوتے ہیں، ان کی امداد کے لیے فرشتوں کے پَرے کے پَرے اُترتے ہیں اور دشمن کے جوڑ جوڑ پر چوٹ لگا کر اسے پسپا کردیتے ہیں۔ ہاں،یہاں پھر شرط اوّل اللہ پر مکمل ایمان اور صبرواستقامت کا رویہ ہے۔
کامیابی کی کنجی احتساب کے عمل میں ہے کہ ہرہرفرد اپنا احتساب کر کے دیکھے کہ وہ کس حدتک ان مطالبات پر پورا اُترتا ہے جو تحریک اپنے کارکنوں سے کرتی ہے۔ وہ منصبی ذمہ داریوں کی ادایگی اور طلب کیے جانے پر بروقت حاضر ہو یا مالی اعانت یا نمازوں اور دیگر عبادات کا اہتمام، قرآن کریم کی تلاوت و فہم ہو یا اللہ کے بندوں کی خدمت کے لیے گائوں، گلی کوچے میں جاکر ان کی امداد کرنا یا اپنے گھر میں اہلِ خانہ او ر رشتہ داروں کو دعوتِ حق پہنچانا، احتساب کا عمل ہی ہمیں صحیح جواب فراہم کرسکتا ہے کہ کمی کہاں پائی جاتی ہے۔
العصر کا پیغام بہت آسان ہے ۔ اپنی سیرت و کردار کو مثالی داعی کی شکل دی جائے تاکہ ہمارا ہرعمل دعوت کی پکار بن جائے اور ربِ کریم کے ہاں مقبول ہوجائے۔ تبدیلیِ زمامِ اقتدار کو اپنی تمام اہمیت کے باوجود انتہائی منزل و مقصد نہیں کہا جاسکتا۔ انتہائی مقصد تو صرف اللہ کی رضا کا حصول ہے جس کے لیے معاشرے اور نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔
اسلامی معاشرے کا کیا مطلب اور مفہوم ہے؟ اس کی کیا خصوصیات ہونی چاہییں اور معاشرتی و اخلاقی اعتبار سے اس کو کیسا ہونا چاہیے؟ جب تک ذہن میں اس معاشرے کا تصور واضح نہیں ہوگا، اس کے قیام کی جدوجہد اور مقصد کی تکمیل بے سمت رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ جائزہ بھی لینا ہوگا کہ جب یہ معاشرہ قائم تھا تو اس میں کب، کہاں اور کس قسم کی خرابیوں نے جنم لیا… اور اس وقت دنیا میں جہاں جہاں اس سے ملتا جلتا معاشرہ قائم ہے، وہاں ایک ’مثالی اسلامی معاشرے‘ کے مقابلے میں کیا تبدیلیاں اور فرق پایا جاتا ہے۔ اس جائزے کے نتیجے میں ان خرابیوں، تبدیلیوں اور فرق کو دُور کرنے کے اقدامات تجویز کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد آخری مرحلے پر اصل مقصد کا حصول اور مسلم دانش وروں کے سامنے طریق کار اور لائحہ عمل پیش کرنے کا کام ہوگا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دورِ خلافت میں ایک علاقے کے گورنر نے خلیفہ کو خط لکھا: ’’غیرمسلموں کے بڑی تعداد میں مسلمان ہونے سے جزیے کی آمدنی کم ہوتی جارہی ہے‘‘۔ خلیفہ نے جواب دیا: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق و صداقت کا پیامبر بناکر بھیجا گیا تھا تاکہ سچائی فروغ پائے۔ انھیں تحصیل دار بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا کہ لوگوں سے رقم جمع کرتے رہیں‘‘۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا یہ جواب اسلامی معاشرے کے اس بنیادی مقصد کی تائید کرتا ہے کہ اس معاشرے کو انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے۔
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔(الحدید۵۷:۲۵)
قرآن کا یہ فرمان انبیاے کرام ؑ کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ انسانوں کے لیے ایک ایسا نظامِ حیات تشکیل دیا جائے، جس میں انفرادی اور اجتماعی معاملات اور ایک فرد کی پوری زندگی انصاف کے اصول کے تابع ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں زندگی کے ہرشعبے میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں جن لوگوں نے اس مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی، انھوں نے عدل و انصاف کے اس بنیادی فلسفے کو نمایاں رکھا۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد فرمایا: ’’جو شخص مظلوم ہے وہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے اور جو ظالم ہے وہ سب سے کمزور ہے۔ اس وقت تک جب تک ظلم کا خاتمہ نہ کیا جائے اور مظلوم کے حقوق نہ دلوائے جائیں‘‘۔ اب یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ عدل و انصاف، معاملات کی شفافیت اور توازن اسلامی معاشرے کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
مکی زندگی میں چند صحابہؓ، رسولِ اکرمؐ کے پاس آئے اور کفار کے جبروتشدد اور ظلم وستم کی شکایت کی۔ حضرت خباب بن الارتؓ فرماتے ہیں کہ ’’آپؐ کعبہ کے سایے میں چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹے ہوئے تھے (اُس زمانے میں مکہ والے بے پناہ ظلم و ستم مسلمانوں پر توڑ رہے تھے)۔ ہم نے آپؐ سے عرض کیا کہ: ’’آپؐ ہمارے لیے اللہ کی مدد طلب کیوں نہیں کرتے؟ آپؐ اس ظلم کے خاتمے کی دُعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ (آخر یہ سلسلہ کب تک دراز ہوگا؟ کب یہ مصائب ختم ہوں گے؟)
حضوؐر نے یہ سن کر فرمایا: ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ ان میں سے کسی کے لیے گڑھا کھودا جاتا، پھر اسے اس گڑھے میں کھڑا کیا جاتا۔ پھر آرا لایا جاتا اور اس سے اس کے جسم کو چیرا جاتا، یہاں تک کہ اس کے جسم کے دو ٹکڑے ہوجاتے، پھر بھی وہ دین سے نہ پھرتا، اور اسی طرح اس کے جسم میں لوہے کے کنگھے چبھوئے جاتے جو گوشت سے گزر کر ہڈیوں اور پٹھوں تک پہنچ جاتے، مگر وہ اللہ کا بندہ حق سے نہ پھرتا۔
قسم ہے خدا کی! یہ دین غالب ہوکر رہے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء (یمن) سے حضرموت تک کا سفر کرے گا اور راستے میں اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ البتہ چرواہے کو صرف بھیڑیوں کا خوف رہے گا کہ کہیں بکری اُٹھا نہ لے جائیں لیکن افسوس تم لوگ جلدی کرتے ہو‘‘۔(بخاری)
ایک اور موقع پر آپؐ نے حضرت عدی ابن حاتم ؓ سے فرمایا کہ ’’ایک وقت آئے گا جب صنعا (عرب کے ایک سرے پر واقع تھا) سے ایک عورت مکہ تک جائے گی اور بالکل محفوظ ہوگی۔ قیصروکسریٰ کی بڑی بڑی سلطنتوں کے خزانے تم نے دیکھے ہیں، یہ سب میری اُمت کے ہوںگے۔ ایک وقت آئے گا کہ ایک شخص ہاتھ میں سونا لے کر نکلے گا اور کوئی اس کو لینے والا نہیں ہوگا‘‘۔
ان واقعات سے پتا چلتا ہے کہ قانون کی بالادستی، قانون کی نظر میں سب کی برابری، معاشی انصاف اور خوش حالی اس معاشرے کی خصوصیات ہیں، جہاں ایک شخص دوسرے کی خیرات پر زندہ نہیں رہتا اور ہر شخص کو اس کا حق ملتا ہے۔
یہ اسلامی معاشرے کی وہ اہم خصوصیات ہیں جو موجودہ دور میں اس منزل کی نشان دہی کرتی ہیں جس کی سمت ہمیں انسانیت کی رہنمائی کرنا ہے، یعنی انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: ’’تاکہ دنیا میں انصاف ہوسکے‘‘ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ایک اور جگہ فرمان ہے: ’’ہم نے لوہا اُتارا جو (سیاسی) طاقت کی علامت ہے ‘‘ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک سیاسی قوت ہاتھوں میں نہ ہو۔
اب اس مسئلے کے دوسرے پہلو کا جائزہ لیتے ہیں، یعنی یہ کہ جب اسلامی معاشرہ قائم تھا تو اس میں کب، کہاں اور کس قسم کی خرابیوں نے جنم لیا؟ جب تک ان خرابیوں کی نشان دہی نہیں ہوگی، اس معاشرے کی دوبارہ تعمیر ممکن نہیں۔
نبی کریمؐ کی حیاتِ طیبہ میںمسجد نبویؐ میں ایک شخص فرض نماز ادا کرنے کے بعد کھڑا ہوا اور اسی جگہ نفل پڑھنے لگا۔ حضرت عمر فاروقؓ وہاں موجود تھے۔ آپ نے اس شخص کو ٹوکا اور فرمایا کہ پچھلی قومیں اسی لیے تباہ کردی گئیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ اہم باتیں، کم اہم باتوں کے ساتھ شامل کردی گئی ہیں اور جو باتیں غیراہم ہیں انھیں اہمیت دے دی گئی ہے کیوں کہ ان کی ادایگی سہل ہے۔ اسلامی معاشرے کی اہم باتوں میں ایک بات، اللہ کے دین کے لیے مسلسل جدوجہد ہے۔ یہ ایک سخت اور مشکل کام ہے۔ ہم نے اسے کم اہم بنا دیا ہے۔ یوں ترجیحات کا پورا نظام اُلٹ کر رکھ دیا گیا جس سے اسلامی معاشرے کی اساس کو نقصان پہنچا ہے۔
اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والا تیسرا بگاڑ یہ ہے کہ ایک نظریے کے طور پر اسلام کو غالب کرنے اور دین کو پھیلانے کا کام ترک کر دیا گیا۔ ہم یہ احساس ہی برقرار نہ رکھ سکے کہ یہ نظریہ صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے اور ایک داعیانہ اور تبلیغی جذبے کے ساتھ اسے دنیا میں پھیلانا ہے۔ اس انقلابی فکر کو بھلانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم مصلحت پسند ہوگئے۔ ہر جگہ اسی رویے سے کام لینے لگے۔
امریکی صدرآئزن ہاور کو واشنگٹن کی ایک مسجد کے افتتاح کے لیے مدعو کیا گیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک غیرمسلم سربراہِ مملکت کو مسجد کے افتتاح کے لیے بلایا جائے گا، لیکن یہ ہوا اور اس وجہ سے ہوا کہ ہم اسلام کا مشنری جذبہ کھو بیٹھے ہیں۔ مسجد اللہ کی بندگی اور عبادت کی جگہ ہے۔ مسلم معاشرے میں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے تقدس اور اہمیت کو اس طرح نظرانداز کرنا اس خرابی کی ایک مثال ہے، جو تبلیغِ دین کے سلسلے میں ہمارے اندر پیدا ہوئی۔
یہ وہ خرابیاں ہیں جو اسلامی معاشرے کے قیام کے کچھ عرصے بعد پیدا ہونی شروع ہوئیں۔
غیرمتوقع طور پر یہ بات تو ان نوآبادیاتی قوتوں کے لیے ممکن نہ ہوسکی کہ وہ مسلمانوں کا مذہب تبدیل کراسکیں۔ وہ انھیں عیسائیت قبول کرنے پر آمادہ نہ کرسکے، لیکن بہرحال وہ ایک ایسی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے، جو اپنے اعتقادات کے بارے میں واضح تصورات نہیں رکھتی تھی، جو قرآن و سنت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا تھی اور جسے اپنے مستقبل پر یقین نہیں تھا۔ مغربی حکمرانوں کی کوششوں سے پیدا ہونے والی اس نسل نے تعداد میں بہت قلیل ہونے کے باوجود، ہر اس جگہ مسائل پیدا کیے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی یا وہ سیاسی طاقت حاصل کر سکتے تھے۔
یہ نسل مسلمان معاشرے میں وجود رکھتے ہوئے دوہری شخصیت کا شکار ہوکر رہ گئی۔ اس نسل کو گھر پر کچھ تعلیم دی جاتی ہے اور اسکولوں، کالجوں میں بالکل متضاد نظریات کا درس دیا جاتا ہے۔ مذہب اسے ایک سمت میں بڑھنے کا اشارہ کرتا ہے لیکن مغربی فلسفہ اور نظریات کی بنیاد پر دی جانے والی تعلیم اسے بالکل مخالف سمت کھینچنا چاہتی ہے۔ اس کش مکش میں مسلم معاشرے کا فرد داخلی انتشار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ داخلی انتشار کی یہ بیماری پورے مسلم معاشرے میں بہت گہری ہوچکی ہے اور ان ممالک میں حکمرانوں اور محکوموں میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ ان ممالک میں حکمرانوں اور محکوموں میں اختلاف مستقل حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مملکت کے وہ تمام وسائل جو قومی ترقی کے لیے استعمال ہونے چاہییں تھے، بلاوجہ باہمی کش مکش اور تصادم میں ضائع ہو رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
’قومیت‘ بذاتِ خود ایک ’مذہب‘ ہے، جو ’اسلام‘ کے بالکل متضاد ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ایک شخص مغربی علمِ کلام کی رُو سے ’قومیت‘ کا فلسفہ اختیار کرتا ہے تو وہ سچا مسلمان باقی نہیں رہتا، کیونکہ قومیت کے نظریے میں خدا کی جگہ ’قوم‘ سے پُر کی جاتی ہے۔ اگر مغرب میں قومیت کے ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب اجتماعی زندگی سے ’کلیسا‘ کا اقتدار اور ’خدا‘ کی حاکمیت کو خارج کردیا گیا، تو ان کی جگہ پُر کرنے کے لیے اور بندگی کے فطری ذوق کی تسکین کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہ ضرورت قومیت کے بت سے پوری کی گئی۔
قرآن میں ربِ کائنات ، مالکِ کائنات اور اللہ کی اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں۔ ایک سیکولر نظام میں اللہ کی جگہ ریاست اور قوم لے لیتی ہے۔ مالک کی جگہ ’عوامی استحکام‘ کے تصور سے پُر کی جاتی ہے، اور ’رب‘ کی جگہ ’سائنس اور ٹکنالوجی‘ کے بت بناکر سجا لیے جاتے ہیں۔ قومیت کے یہ تین اجزا آج جدید تثلیث کی نئی شکل ہیں۔
پہلے مسلمان کا مقصد رضاے الٰہی کا حصول تھا لیکن مغربی تہذیب اپنانے کے بعد اب ہرآزاد مسلم ملک کے حکمران اپنے عوام کے سامنے معاشی ترقی، زیادہ پیداوار، زیادہ صنعتیں وغیرہ کی تعمیر کے مقاصد پیش کرتے ہیں۔ آج تقریباً ہرمسلم ملک انھی مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے۔ اصل مقصد فراموش کردیا گیا ہے۔
اس حکمت عملی سے معاشرہ داخلی تضادات کا شکار ہوا، کیوںکہ مقصد ِ زندگی ارفع و اعلیٰ اقدار کا حصول نہیں، بلکہ مادی خواہشات کا حصول ہوگیا، اور جب بات اقتصادی ترقی کی ہوئی تو پھر ترجیحات ہر طاقت ور فرد کی ذات سے وابستہ ہوگئیں۔ علاقے کی سطح پر ترقی کا سوال آیا تو ’میرا گھر، میرا گائوں، میرا شہر اور میرا صوبہ‘ اور سب سے آخر میں ’ملک‘ کی بات آئی۔ ترقی کی اس دوڑمیں جو پیچھے رہ گیا، وہ دوسروں سے شاکی اور متصادم نظر آنے لگا۔ اقتصادی ترقی ایک مسلم معاشرے میں اعلیٰ اقدار کے حصول کا ذریعہ ہوسکتی ہے ،مقصد ِ زندگی نہیں۔
آخری بات یہ کہ مسلم دنیا کی ترقی کے لیے اسے جو منصوبہ دیا گیا، وہ بذاتِ خود اس کے اپنے مفادات کے خلاف ہے۔ آج کی مسلم دنیا میں دو طرح کے وسائل موجود ہیں: ایک افرادی قوت اور دوسرے قدرتی وسائل۔ لیکن یہ ممالک اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہیں۔ ان وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے کے لیے نقد رقم کی شدید کمی ہے۔ اس صورت حال میں مسلم ملکوں کی اقتصادی ترقی کے لیے جو منصوبے بنائے گئے اور جنھیں آنکھیں بند کر کے قبول بھی کرلیا گیا، ان کی بنیاد ان قرضوں پر ہے۔ ان قرضوں اور امداد کے نام پر عمل میں آنے والی کارروائیوں کا ان ملکوں کی آزادی، خودمختاری اور ترقی پر کیا اثر پڑے گا، اس سوال کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہاں ابتدائی ۲۰سال گزرنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اگر اربوں روپے کے صرافے سے اقتصادی ترقی کے پروگراموں پر عمل درآمد جاری رکھا گیا، تو عام آدمی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور وہ پہلے ہی کی طرح مفلوک الحال رہے گا۔ اس وقت پاکستان میں متعدد بڑی صنعتیں ہیں، شپ یارڈ، اسٹیل مل لیکن زراعت سے وابستہ ملک کی ۷۰فی صد آبادی بدستور بدحالی کا شکار ہے۔
یہ وہ پانچ بڑے مسائل ہیں جن کا مسلم دنیا کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مسلم دانش وروں کو انھیں حل کرنے کی تدابیر کرنی چاہییں۔ مسلم معاشرے کی تشکیل نو میں اہلِ علم و دانش کا کردار جس قدر اہمیت رکھتا ہے، اُس کا اندازہ اسلامی تعلیمات کے پہلے لفظ ’اقرائ‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن فکر کی دعوت دیتا ہے اور ذہانتوں کے استعمال کی ترغیب دلاتا ہے۔
اسلامی معاشرے کی تعمیر نو میں اندرونی اور بیرونی طور پر رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ علاقائی سطحوں سے بین الاقوامی سطح تک، سازشوں کے جال بچھائے جاتے ہیں اور جن ملکوں میں اسلامی معاشرے کے قیام کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے حالات کو اس قدر خراب کردیا جاتا ہے کہ اسے اپنی سرحدوں کی حفاطت کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ ان تمام حربوںکو پیش نظر رکھنے اور ان کے سدّباب کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام میں یہ یقین اور اعتماد پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ اسلام ہی ان کے تمام مسائل کا واحد حل ہے اور یہی دین و دنیا کی بہتری اور بھلائی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے بغیر اسلامی معاشرے کی تعمیرنو کا کام مؤثر طور پر نہیں ہوسکتا۔
آج مسلم دنیا میں نئے معاشرے کی تشکیل کی خواہش نظر آتی ہے۔ اس تحریک کے ہراول دستے میں ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جو اسلام کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا اور یورپی ملکوں میں کام کرنے والے مسلم دانش وروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں ان تحریکوں کی فکری رہنمائی کریں۔ ان کے لیے وقت صرف کریں، وہاں کے مخصوص حالات میں مسائل کا حل تلاش کریں اور جہاں تک ممکن ہو ان تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لیے ہرممکن اقدام کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہرمسلم ملک میں اسلامی معاشرے کے قیام کی تحریک شروع ہوئی، لیکن وہیں یہ مشاہدہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند برسوں بعد ہی ان میں سے بیش تر تحریکیں غیرمقبولیت کا شکار بھی ہوئیں۔ اس کی وجہ آمرانہ نظام، خوش کن نعرے، اقتصادی نظام یا بین الاقوامی حالات ہوسکتے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں اگر اس قسم کی تحریک برسرِاقتدار آگئی تو اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اسے ان دانش وروں کی فعال رفاقت اور رہنمائی کی ضرورت ہوگی، جو مغربی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ مغربی نظام کی کوتاہیوں، خامیوں اور خوبیوں کا قریب سے مطالعہ کرتے رہے ہیں اور بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔
اسلامی معاشرے کی تشکیلِ نو صرف علما اور دانش وروں کے اقدامات کے نتیجے میں ہی عمل میں نہیں آئے گی، کیوںکہ کوئی بھی نظریہ اور کوئی بھی نظام، دنیا میں صرف کتابوں، نعروں، جلوسوں، کانفرنسوں اور تقریروں کے ذریعے قائم نہیں ہوا۔ جس طرح کسان بیج بونے سے پہلے اور بعد میں مسلسل جدوجہد کرتا ہے، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی مسلسل اور اَن تھک محنت کی ضرورت ہے۔ اس لیے دانش وروں کا صرف فکری محاذ پر کام کرنا کافی نہیں، انھیں عملی جدوجہد میں بھی شریک ہونا چاہیے۔
جنوری اور فروری۱۹۶۶ء میں خصوصی عدالت کی کار روائی میں سیّد قطب اور ان کے رفقا کو زبردستی، اعتراف جرم کرانے کے لیے جبر و تشدد اور اعضا شکنی کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد کے ان واقعات کی تائید ’ایمنسٹی انٹر نیشنل‘ کی رپورٹ میںبھی شائع ہوئی تھی۔ اس تنظیم کو نہ اخوان سے کوئی دل چسپی تھی،اور نہ مصری حکومت سے کوئی دشمنی۔
’’ایمنسٹی انٹر نیشنل بڑے افسوس سے اس امر کا اظہار کرتی ہے:
۱- ایک خصوصی قانون کے تحت مصر کے صدر کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ سیاسی وجوہ کی بنا پر جس شخص کو چاہے، مقدمہ چلائے بغیر گرفتار کر سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ایک خاص عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جس کے جج صدر خود نامزد کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملزم کی قسمت کا فیصلہ صدر خود کرتا ہے۔
۲- فوجی جیلوں میں ملزموں پر بے تحاشا مظالم توڑے گئے، لیکن عدالت میں ان کا ذکر کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس مقدمے کے مشہور نظر بند سیّد قطب نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا، تو عدالت نے یہ کہہ کر روک دیا: ’’تمام ملزمان جھوٹے ہیں، ان کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
۳- سیّد قطب اور دوسرے اخوانی نظر بندوں کو اپنی صفائی کے لیے وکیل مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
۴- اس خاص عدالت کے سامنے ملزموں پر تشدد کا سوال ہوا، تو کارروائی بند کمرے میں ہونے لگی۔ اخباری نامہ نگاروں کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ مل سکی۔
۵- ایمنسٹی انٹرنیشنل بڑے افسوس سے یہ اعلان کرتی ہے کہ عدالتی کارروائی سے ان مظالم کی تصدیق ہوتی ہے جس کا اظہار نظر بندوں کی طرف سے کیا گیا۔ نیز مصر کے عدالتی نظام کی غیر جانب داری بھی مشکوک معلوم ہوتی ہے۔ یہ کارروائی اس اعتبار سے بھی غیر تسلی بخش ہے کہ سماعت کے وقت ملزم جسمانی اعتبار سے صحت مند نہیں تھے۔ بعض مقدمات میں تو ایک ملزم کو صرف دو منٹ کا وقت دیا گیا۔
یہ تمام حقائق مصری قانونِ انصاف کی غیر جانب داری کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ لازم ہے کہ حکومت ملزموں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے اور کھلے عام منصفانہ مقدمے کی کارروائی کا موقع دے۔
۹؍اپریل۱۹۶۶ء کو اس ٹربیونل نے صحافیوں کا داخلہ بھی کمرۂ سماعت میں روک دیا۔ کیونکہ سیّد قطب کے حوالے سے تشدد کی خبر دنیا بھر میں پھیل گئی تھی۔ جوں ہی کار روائی شروع ہوئی تو فوجی جج محمد فواد الدجوی غصّے میںسیّد قطب پر برس پڑے: ’’یہ سب جھوٹ ہے‘‘۔ ۱۲؍اپریل کو جب معالم فی الطریق (جادہ و منزل) زیر بحث لائی گئی، تو اس موقعے پر یہی جج مختلف جملے پڑھ کر آگے بڑھے، تو سیّد قطب نے وضاحت کے لیے کھڑے ہو کرجواب دینا چاہا۔ مگرجج نے انھیں بولنے کی اجازت نہ دی اور کہا: ’’ہر بات واضح ہے‘‘۔ دوسری بار سیّد قطب نے جواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’کیا میں جواب دے سکتا ہوں؟‘‘ لیکن روزنامہ الاہرام کے مطابق جج نے بولنے کی اجازت دینے کے بجاے کہا: ’’یہ بات بھی سزا کی مستحق ہے‘‘۔ تیسری بار صفائی پیش کرنے کی کوشش میں سیّد قطب کی زبان سے بس اتنا جملہ ہی نکل پایا تھا کہ: ’’یہ سب میں نے نہیں کہا‘‘ تو جج صاحب انھیں وہیں ٹوک کر، بہتان تراشی اور طنزو استہزا پر مبنی جملوں کے ساتھ حملہ آور ہوگئے۔ سیّد قطب نے چوتھی بار کہا: ’’مجھے اپنی بات تو کہنے کی اجازت دی جائے‘‘، مگرجج نے اس بات کا جواب دینے کے بجاے محمد یوسف ہواش کو طلب کرنے کا آرڈر جاری کر دیا تو سیّدقطب نے پھر کہا: ’’ایک منٹ‘‘ لیکن جج نے بات کرنے سے روک دیا۔ (روزنامہ الاہرام، قاہرہ ۱۱-۱۳؍اپریل۱۹۶۶ئ)
اخوان کے ان اکابرملزموں کی پیروی کرنے والا کوئی وکیل اس نام نہاد عدالت میں موجود نہیں تھا۔ ’فرانسیسی نیشنل بار ایسوسی ایشن‘ کے سابق صدر ولیم تھروپ اور ممتاز قانون دان اے جے ایم ونڈال اور مراکش کے دو سابق وزراے قانون اور متعدد نامور وکلا نے مقدمے کی پیروی کے لیے اجازت چاہی، جسے اس عدالت نے مسترد کر دیا۔ سوڈان سے وکلا رضاکارانہ طور پر قاہرہ پہنچے اور قاہرہ ایسوسی ایشن سے رجسٹریشن حاصل کر کے جونہی عدالت پہنچے، تو انھیں پولیس نے تشدد کرکے عدالت کے احاطے سے بھگا دیا اور فوراً مصر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
اسی ’ترقی پسند‘ ،’روشن خیال‘، اور قوم پرست فوجی عدالت نے ۲۲؍اگست ۱۹۶۶ء کو سیّد قطب، محمدیوسف ہواش اور عبدالفتاح اسماعیل کے لیے سزاے موت کا حکم سنا دیا۔
مجھے پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ اس مرتبہ حکومت میرے سر کی طالب ہے۔ مجھے نہ اس پر افسوس ہے اور نہ اپنی موت کا رنج، بلکہ میں خوش ہوں کہ اپنے مقصد کے لیے جان دے رہا ہوں۔ اس بات کا فیصلہ تو آنے والا مؤرخ ہی کرے گا کہ ہم راہ راست پر تھے یا کہ حکومت؟
قاہرہ کی تازہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں اخوان المسلمون کے خلاف عدالتی کارروائی کا جو ڈراما ہو رہا تھا، اس کے نتیجے میں عالمِ اسلامی کے نہایت ممتاز مفکر، عالم اور صاحبِ قلم سیّد قطب اور چھے دوسرے اصحاب کے لیے سزاے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور باقی ۲۸؍اشخاص کو طویل قید کی سزائیں دی گئی ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے ۱۹۵۴ء میں صدر ناصر کی حکومت دنیاے اسلام کی ایک نہایت قیمتی شخصیت سید عبدالقادر عودہ کو اپنی سیاسی اغراض پر قربان کر چکی ہے، جن کی کتاب اسلامی قانونِ تعزیرات کو آج تمام اہل علم خراجِ تحسین ادا کر رہے ہیں۔
اب پھر ایک دوسری قیمتی شخصیت کو انھی اغراض کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، جس کی کتاب اسلام میں عدل اجتماعی اور جس کی تفسیر فی ظلال القرآن اسلامی لٹریچر میں ہمیشہ یاد گار رہنے والی چیزیں ہیں۔ درحقیقت یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ مصر کے حکمران ایسے نازک وقت میں، جب کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات عرب اور اہلِ عرب کے خلاف روز بروز ترقی پر ہیں، اپنی ساری طاقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صرف کیے جا رہے ہیں۔
اس وقت ضرورت ہے کہ دنیاے اسلام کے ہر گوشے سے ان حکمرانوں پر اس روش سے باز آجانے کے لیے اخلاقی دبائو ڈالا جائے۔ جس عدالتی کارروائی کو انھوں نے اخوان پر یہ ظلم ڈھانے کے لیے بہانہ بنایا ہے، اس کو ایمنسٹی انٹر نیشنل پوری طرح بے نقاب کر چکی ہے، اور صدر ناصر کے سوا کوئی شخص بھی یہ باور نہ کرے گا کہ اس نام نہاد عدالت میں فی الواقع یہ مظلوم لوگ مجرم ثابت ہوئے ہیں۔
پھر ۲۶؍اگست کو مولانا مودودی نے مصری صدر کے نام یہ اپیل ارسال کی:’’سیّد قطب دنیاے اسلام کا مشترک سرمایہ ہیں۔ خدارا، اس قیمتی مسلمان کی زندگی کو ختم نہ کیجیے‘‘۔
۲۶؍اگست ہی کو نومسلمہ مریم جمیلہ نے مصری صدر ناصرکے نام برقی خط بھیجا: ’’آپ کے پاکستانی بھائی، سیّد قطب اور دوسرے اخوانی رہنمائوں کو سزاے موت سناے جانے کے فیصلے پر گہرے دکھ کا اظہار اور شدید احتجاج کرتے ہیں۔ خدانخواستہ، آپ کے ہاتھوں ان کی موت دنیاے عرب ہی نہیں بلکہ دنیاے اسلام کے لیے ایک ناقابلِ تلافی علمی اور تہذیبی نقصان ہوگا۔ اگر آپ نے اس سزا پر نظر ثانی نہ کی، تو اللہ تعالیٰ آپ کے اس جرم کو کبھی معاف نہیں کرے گا‘‘۔
پوری دنیا سے سیّدقطب کی رہائی کے لیے اپیلیں شروع ہو گئیں، البتہ پاکستان اور ہندستان میں مضبوط مذہبی تعلیمی روایت رکھنے والے مکتب فکر کے چند حضرات نے ناصر کے اقدامات کی تائید کی۔ یہ ناصر حکومت کی خوش قسمتی تھی کہ اسے دنیابھر کی کمیونسٹ پراپیگنڈا مشینری کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس غوغا آرائی نے ناصر کو ہیرو بنائے رکھا، حالانکہ وہ اپنی قوم اور مسلمانوں کے لیے دہشت، ظلم، ذلت اور شکست خوردگی کی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
سیّد قطب کی سب سے چھوٹی بہن حمیدہ قطب، اپنے بڑے بھائی کی شہادت سے ایک رات پہلے کی رُوداد بیان کرتی ہیں:
۲۸؍اگست۱۹۶۶ء کی رات، جب کہ میں جیل ہی میں تھی، جیلر صفوت نے مجھے طلب کیا اور کہا: ’’یہ دیکھو تمھارے بھائی کی موت کا آرڈر، اسے کل پھانسی دے دی جائے گی۔ حکومت چاہتی ہے کہ تمھارا بھائی سیّد ہماری بات کا جواب ’ہاں‘ میں دے۔ اگر وہ جواب ’ہاں‘ میں نہیں دے گا تو صرف تم اپنا بھائی نہیں ضائع کر دو گی، بلکہ ہم اور مصر بھی اسے کھو دیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اسے پھانسی دی جائے، ہم اسے بچانا چاہتے ہیں۔ اسے سمجھانے اور بچانے میں صرف تم ہماری مدد کر سکتی ہو۔ تم سیّد سے یہ بات لکھوا دو: ’’ہماری تحریک کا تعلق کسی نامعلوم گروپ سے ہے‘‘۔
میں نے کہا: ’’یہ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی ،اور خود ناصر کو بھی معلوم ہے کہ اخوان کا تعلق کسی ملکی یا غیر ملکی ناپسندیدہ گروپ سے نہیں ہے، تو پھر میں یہ بات کیوں اپنے بھائی سے کہوں؟‘‘
جیلر نے کہا: ’’تم ٹھیک کہتی ہو، ہمیں معلوم ہے کہ تمھارا تعلق کسی ایسے ناپسندیدہ گروہ سے نہیں ہے اور آپ اچھے لوگ ہیں، لیکن سیّد کو بچانے کے لیے ہمیں اس تحریر کی ضرورت ہے‘‘۔
میں نے کہا: ’’اس بات پر بھائی کا جواب مجھے معلوم ہے، لیکن اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان تک یہ بات پہنچا دیتی ہوں‘‘۔
جیلر نے عملے سے کہا: ’’اسے سیّد قطب کے پاس لے چلیں‘‘۔
میں نے جیلر اور عملے کی موجودگی ہی میں بھائی تک پیغام پہنچایا۔
بھائی سیّد نے میرے چہرے کی طرف اس طرح دیکھا کہ گویا پوچھ رہے ہوں: ’’کیا تم بھی یہی چاہتی ہو یا یہ چاہتے ہیں؟‘‘
میں نے اشارے سے ان کو بتایا: ’’یہ چاہتے ہیں‘‘۔
پھر بھائی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’خدا کی قسم! اگر یہ بات سچی ہوتی تو میں لکھ دیتا اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے یہ کہنے اور لکھنے سے نہ روک پاتی، لیکن چونکہ یہ بات ہے ہی سراسر جھوٹ، اس لیے میں کسی صورت میں جھوٹ نہیں بولوں گا‘‘۔
جیلر صفوت نے سیّد بھائی سے کہا: ’’اچھا، تو پھر آپ کی یہی راے ہے؟‘‘
سیّد بھائی نے کہا: ’’ہاں، یہی ہے‘‘۔
جیلر مجھے یہ کہہ کر چلا گیا: ’’اپنے بھائی کے پاس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ لو‘‘۔
اب ہم دونوں بہن بھائی اکیلے تھے، اور یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ میں نے بھائی کو بتایا کہ: ’’اس نے مجھے طلب کرکے کیا آرڈر دکھائے، اور کیا بات کی، اور میں نے کیا جواب دیا‘‘۔
سیّد بھائی نے ساری بات سننے کے بعد براہ راست مجھ سے پوچھا: ’’کیا تمھیں یہ بات پسند ہے کہ میں وہ بات لکھ دوں جو یہ چاہتے ہیں؟‘‘
میں نے بھائی کو ایمان اور دکھ سے لبریز ایک حرفی جواب دیا: ’’نہیں‘‘۔
پھر سیّد بھائی نے کہا: ’’زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ لوگ میری زندگی کا فیصلہ نہیں کرسکتے، یہ نہ میری زندگی میں کمی کر سکتے ہیں اور نہ اضافہ، مجھے وہی منظور ہے جو اللہ کو منظور ہے‘‘۔
اب یہاں پر مصری جیل خانہ جات پولیس کے دو اہل کار بھائیوں کی یادداشت پیش کی جا رہی ہے، کہ جب وہ ۲۹؍اگست۱۹۶۶ء کے روز سیّد قطب کی پھانسی کے وقت موقعے پر موجود تھے۔ یہ روایت محمد عبدالعزیز المسند نے تحریر کی ہے:
’’جس چیز نے ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا، وہ یہ مناظر تھے‘‘۔
ہم ہر رات فوجی جیل [قاہرہ] میں بوڑھے اور جوان قیدی وصول کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ: ’’یہ یہودیوں کے ساتھی، بڑے خطر ناک اور غدار ہیں، ان سے تمام راز اگلوانے ضروری ہیں، اور یہ کام صرف تشدد ہی سے کیا جا سکتا ہے‘‘۔
ان قیدیوں کو ہم جیل جانے میں کوڑوں اور چھڑیوں سے اتنا مارتے کہ ان کے جسموں کی رنگت تبدیل ہو جاتی۔ یہ کام کرتے وقت ہمیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہم ایک مقدس قومی ذمہ داری ادا کررہے ہیں، لیکن دوسری طرف ہم نے ہمیشہ یہ بھی دیکھا کہ وہ ’غدار‘ راتوں میں مسلسل اللہ کو پکارتے تھے اور سختی سے نمازوں کی پابندی کرتے تھے۔
ان میں سے کچھ تو بدترین تشدد اور وحشی کتوں کے جبڑوں میں نوچے جانے کے سبب موت کے گھاٹ اتر گئے، لیکن حیرت ناک منظر یہ تھا کہ وہ پھر بھی مسکراتے اور مسلسل اللہ کا نام لیتے رہے۔ یہ دیکھ کر ہم کبھی کبھار اس شک میں پڑ جاتے کہ ہمیں حکام بالا نے جو بتایا ہے، وہ درست ہے یا نہیں۔ کیونکہ یہ بات ناقابلِ یقین تھی کہ: ’’اتنے پختہ ایمان اوریقین رکھنے والے یہ لوگ ملک کے غدار اور یہودی دشمنوں کے ساتھی ہو سکتے ہیں‘‘۔ میں نے اور میرے بھائی نے فوجی حکام کا یہ رویہ دیکھ کر طے کیا کہ ہم ممکن حد تک ان قیدیوں کو تکلیف پہنچانے سے گریز کریں گے۔
کچھ ہی مدت بعد قید خانے کے اس حصے سے تبدیل کرکے ہماری ڈیوٹی ایک ایسی کوٹھڑی پر لگائی گئی، جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ: ’’اس میں سب سے خطر ناک قیدی اور ان تمام مجرموں کا سرغنہ قید ہے، جس کا نام سیّد قطب ہے‘‘۔ اس قیدی کی کوٹھڑی پرتعینات ہوئے، تو ہم نے دیکھا کہ اب تک اس شخص پر اتنا تشدد کیا جا چکا تھا کہ اس کے لیے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا تک مشکل تھا۔
اسی نگرانی کے دوران میں ایک رات اس خطر ناک قیدی کی پھانسی کے احکامات موصول ہوئے، اور احکامات آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اس شخص کے پاس ایک سرکاری مولوی صاحب کو لایا گیا، جنھوں نے اس قیدی سے کہا: ’’اپنے گناہوں کی توبہ کرلو‘‘۔ جواب میں قیدی نے کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا، بس ایک گہری نگاہ سے ان مولوی صاحب کا چہرہ دیکھا، اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
اگلی صبح سرکاری احکامات کے مطابق ہم دونوں اس قیدی کے ہاتھ باندھ کر، کوٹھڑی سے باہر ایک بندگاڑی میں لے گئے۔ اس گاڑی میں دو قیدی پہلے سے موجود تھے۔ کچھ ہی لمحوں بعد یہ گاڑی پھانسی گھاٹ کی طرف روانہ ہوگئی۔ ہمارے پیچھے کچھ مصری فوجی گاڑیاں تھیں، جو قیدیوں کو غالباً فرار ہونے سے باز رکھنے کے لیے ساتھ ساتھ آ رہی تھیں (حالانکہ ہم جیل کی چاردیواری کے اندر ہی تھے)۔ اس فوجی قافلے میں شامل ہر سپاہی نے ذاتی پستول کے ساتھ اپنی اپنی پوزیشن سنبھال رکھی تھی۔
جلّاد ان قیدیوں کو پھانسی دینے کے لیے تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔ مخصوص پھانسی گھاٹ کے تختے پر کھڑا کرکے، دوسرے دو ساتھیوں کے ساتھ اس خاص شخص کی آنکھیں کالی پٹیوں سے باندھی اور گردن میں رسا ڈال دیا گیا۔ ایک چاق و چوبند جلّاد، اس شخص اور اس کے دو ساتھیوں کے قدموں تلے تختے کو گرانے کے احکامات کا منتظر تھا۔ اس حکم کے لیے بطور علامت، ایک کالے جھنڈے کو لہرایا جانا تھا۔
ہم صاف لفظوں میں سن رہے تھے کہ وہ تینوں قیدی تختۂ دار پر بلندآواز میں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے جنت میں ملنے کی خوش خبری کا تبادلہ کر رہے تھے۔ اور بار بار کہہ رہے تھے: اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد[اللہ عظیم ہے اور تمام تعریفیں اس کے لیے ہیں]۔
ان دردناک اور سانس روک دینے والے لمحات میں ہم نے ایک فوجی گاڑی کو بڑی تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھا۔ جوں ہی ہمارے قریب پہنچ کر گاڑی کا دروازہ کھلا، تو اس میں سے ایک اعلیٰ فوجی افسر نمودار ہوا، جس نے بلند آواز میں، جلّاد کو فوراً پیچھے ہٹنے کو کہا۔
وہ افسر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے سیّد کی طرف بڑھا اور اس کی گردن سے رسا ہٹانے اورآنکھوں سے پٹی کھولنے کا حکم دیا۔ پھر کپکپاتی آواز میں سیّد سے یوں مخاطب ہوا: ’’میرے بھائی سیّد، میں تمھارے پاس رحم دل صدر [جمال ناصر]کی طرف سے زندگی کا تحفہ لایا ہوں۔ صرف ایک جملہ تمھیں اور تمھارے دوستوں کو موت سے بچا سکتا ہے‘‘۔
اس نے سیّد کے جواب کا انتظار کیے بغیر ایک کاپی کھولی اور کہا:
’میرے بھائی، تم صرف یہ جملہ لکھ دو، ’میں نے غلطی کی تھی اور میں معافی مانگتا ہوں۔‘
سیّد کے چہرے پر ایک ناقابل بیان مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ افسر کی طرف دیکھا اور حیران کن طور پر، مطمئن لہجے میں افسر سے مخاطب ہو کر کہا:
’’نہیں، کبھی نہیں۔ میں اس عارضی زندگی کو، ہمیشہ کی زندگی پر ترجیح نہیں دے سکتا‘‘۔
فوجی افسر نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا: ’’سیّد، اس کا مطلب صرف موت ہے‘‘۔
سیّد نے جواب دیا: ’’اللہ کے راستے میں موت کو خوش آمدید، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد‘‘۔
یہ جواب سیّد کے عقیدے کی پختگی ظاہر کرتا تھا۔ اس سے زیادہ مکالمے کو جاری رکھنا ناممکن تھا۔ افسر نے جلاد کو پھانسی لگانے کے لیے پکارتے ہوئے اشارا کیا۔ اس آخری لمحے میں ان کی زبانوں سے جو جملہ نکلا، وہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے: لا اِلٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔
اورپلک جھپکنے سے پہلے سیّد قطب اور ان کے دونوں ساتھیوں کے جسم، لٹکتے رسّوں پر جھول گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
[چودھری غلام جیلانی روایت کرتے ہیں]’’ریڈیو پاکستان سے سیّد قطب کی شہادت کی خبر سنتے ہی میں بے چین ہو کر، دکھی دل کے ساتھ مولانا مودودی کے گھر اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر۵۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ کی طرف چل پڑا۔ راستے میں مولانا گلزار احمد مظاہری بھی ساتھ ہو لیے۔ مولانا نے ہمیں معمول کے خلاف اپنے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا: میں اور مولانا گلزار احمد ایک جانب کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مولانا کے چہرے سے شگفتگی غائب تھی۔
مولانا گلزاراحمد مظاہری نے کہا: ’’مولانا، شہداے اخوان کی تعزیت آپ سے نہ کی جائے تو اور کس سے کی جائے؟‘‘
مجھے یاد آیا، ایک بار مولانا نے شگفتہ انداز میں فرمایا تھا: ’’مجھ میں ایک بہت بڑا عیب ہے، اور وہ یہ کہ میرا چہرہ میری داخلی کیفیت کو ظاہر نہیں ہونے دیتا‘‘… لیکن آج یہ پہلا موقع تھا کہ دل کا حزن اور طبیعت کا ملال مولانا کے چہرے اور آواز سے مترشح تھا۔
مولانا نے فرمایا: ’’اللہ جب کسی کو محبوب رکھتا ہے تو اسے اِسی راہ سے اپنے پاس بلاتا ہے‘‘۔
مجھے یکا یک ایسا محسوس ہوا کہ گویا مولانا کے الفاظ ان کے آنسوئوں میں بھیگ رہے ہیں۔ کمرے میں سناٹا سا طاری تھا۔ پنکھا چل رہا تھا، لیکن روح کی انگیٹھی گویا دہکنے لگی تھی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا، جیسے مولانا نے آج اپنے پاسبانِ فکر کو رخصت دے دی تھی، اور اب وہاں فقط ایک بندۂ مومن کا دل تھا، جو اپنے ہمراہی کے غم میں ڈوب رہا تھا۔
قدرے توقف کے بعد مولانا مودودی نے فرمایا:
میرا توکل سے برا حال ہو رہا ہے۔ آج صبح [۲۹؍اگست۱۹۶۶ئ] جب میں ناشتہ کرکے اپنے دفتر میں کام کرنے کے لیے آیا، تو مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا گویا مجھ پر depression [افسردگی]سا طاری ہو رہا ہے۔ میں نے اخبار اٹھا کر پڑھنا چاہا، لیکن میرا دماغ، میری نگاہوں کا ساتھ نہ دے رہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مجھ پر یہ کیفیت کیوں طاری ہے؟ ذہن منتشر تھا اور کوشش کے باوجود کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے روشنی گل کر دی اور بستر پر لیٹ گیا۔ دوپہر کے قریب اٹھا، تو بھی کیفیت میں وہی اضمحلال رچا ہوا تھا۔ اتنے میں [بیٹے] محمدفاروق نے آکر اطلاع دی کہ ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ سیّد قطب اور ان کے دو ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ تب میں سمجھا کہ مجھ پر یہ depression کیوں طاری تھا۔ جس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل اچانک بیٹھ رہا ہے، تو غالباً وہ وہی وقت تھا ، جب سیّد قطب کو تختۂ دار پر لٹکایا جا رہا ہوگا۔
یہاں پہنچ کر مولانا مودودی کی آواز شدتِ جذبات سے بالکل رُندھ گئی۔ ہم خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا نے اچانک میز پر پڑے کاغذات کی جانب ہاتھ بڑھا دیا، اور ہم سمجھ گئے کہ مولانا اس موضوع پر کچھ زیادہ بول کر اپنے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں کرنا چاہتے اور زندگی کی مہلت کو اسی خالق کی راہ میں صرف کرنے کو مطلوب سمجھتے ہیں‘‘۔
۲۹؍اگست، سہ پہر ریڈیو پر سیّد قطب اور ان کے دوساتھیوں کو پھانسی دیے جانے کی خبر سن کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اخبارات کو یہ بیان دیا:
آج صدر ناصر نے سیّد قطب اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے کر پوری دنیاے اسلام کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں ، اور اسلامی تاریخ میں اپنے لیے ایک ایسی جگہ پیدا کر لی ہے، جو کسی کے لیے باعث ِعزت نہیں ہو سکتی۔ مصری حکومت کے سارے پراپیگنڈے کے باوجود آج کوئی شخص بھی یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام (اسلام اور عدلِ اجتماعی) کا مصنّف واقعی سزاے موت کا مستحق مجرم تھا۔ اس فعل پر دشمنانِ اسلام تو ضرور خوش ہوں گے، مگر کوئی مسلمان اس پر ہرگز خوش نہیں ہو سکتا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان شہیدوں کی قربانیاں قبول فرمائے، اور مصر کی سرزمین کو زیادہ عرصے تک عدل و انصاف کی نعمت سے محروم نہ رکھے۔
o
یاد رہے، خود سیّد قطب، مولانا مودودی کے علمی و فکری اثاثے کے دل و جان سے قدر دان تھے۔ انھوں نے فی ظلال القرآن میں متعدد مقامات پر اس کا والہانہ اعتراف کیا ہے۔ یہاں پر صرف دو اقتباس دیے جاتے ہیں:
اخوان المسلمون کے رہنمائوں کو جب موت کی سزائیں سنائی گئیں، تو پورا عالم اسلام غم و اندوہ کی تصویر بن کر تھرا اٹھا، یہ اس کا پہلا رد عمل تھا۔ دوسرا رد عمل یہ تھاکہ وہ سراپا احتجاج بن گیا۔ اور آخر وقت تک میں مصر کے ارباب اختیار کو اس ہولناک گناہ کے ارتکاب سے روکنے کی کوشش کی، مگر مشیت الٰہی کو یہ منظور نہ تھا۔ جن نفوسِ قدسیہ کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے شہادت کی سعادت لکھ دی تھی، وہ عالم اسلام کے احتجاج کی بنا پر اس سعادت سے کیوں کر محروم کیے جا سکتے تھے؟ اور جن کے لیے عذاب الٰہی کانوشتہ لکھا جا چکا تھا، وہ اس نوشتے کی پاداش سے کیونکر بچ سکتے ہیں۔
سیّد قطب اور ان کے ساتھیوں کے لیے یقینا موت کا ایک دن مقرر تھا۔ ان کی زندگی کے ساغر کے لبریز ہو کر چھلک جانے کی ایک ساعت متعین تھی، اس میں نہ تقدیم ہو سکتی تھی، نہ تاخیر۔ ان خادمان حق نے اپنی زندگیاں دینِ حق کی خدمت میں بسر کی تھیں اور وقت آگیا تھا کہ ان کے حسنِ عمل کو قبولیت حاصل ہو: قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ لَنَا(التوبہ۹:۵۱) ’’ان سے کہو، ہمیں ہرگز کوئی(بُرائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے شہادت لکھ رکھی تھی۔ لہٰذا، بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر عالم آخرت کا سفر اختیار کرنے کے بجاے وہ شہادت کا تاج سر پر رکھے، رحمت کے فرشتوں کے دوشِ سعادت پر سوار ہو کر اپنے پروردگار کے جوارِ رحمت میں چلے گئے۔ اس اعتبار سے سیّد قطب نہایت خوش قسمت تھے۔
سیّد قطب کی شہادت پر اہلِ حق اس لیے غم زدہ نہیں ہوئے تھے کہ وہ موت کی آغوش میں چلے گئے، موت کی آغوش میں تو ہر شخص کو جو پیدا ہوا ہے، جانا ہے۔ افسوس اور غم اس پرہوا کہ اسلام اور عالمِ اسلام ان کی خدمات سے محروم ہوگیا۔ افسوس ان کی موت کا نہیں، افسوس عالم اسلام کی بے بسی کا ہوا۔ یہ شہیدانِ حق خوش نصیب تھے۔ بدنصیب تو وہ تھے جو اپنے زعم میں یہ سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کی راہ سے چند کانٹوں کو ہٹادیا ہے۔ کیا خوب کہا تھا، آل فرعون کے ایک آدمی نے، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہ:
اے میری قوم کے برسراقتدار لوگو، آج تمھیں ملک میں اقتدار حاصل ہے اور تم جو چاہو کر سکتے ہو، مگر یہ تو بتائو کہ خدا کے عذاب سے تمھیں کون بچائے گا، جب کہ وہ آئے گا۔
سیّد قطب اور ان کے رفقا پر تشدد اور ظلم کے پہاڑ توڑنے والے اور انھیں پھانسی کے پھندوں پر لٹکانے والے ذلت کی زندگی جئے اور ذلت کی موت مرے۔
اس بندۂ مومن کی یہ صدا ہزاروں برس سے مسلسل فضاے بسیط میں گونج رہی ہے۔ یہ صدا ہر اس موقعے پر نشۂ اقتدار میں بدمست ان لوگوں کو جھنجھوڑتی ہے، جو اس چند روزہ زندگی کے مزے کی خاطر خدا کے دین کی طرف بلانے والوں کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اپنے اقتدار کی اندھی، بہری اور حیوانی طاقت سے کام لیتے ہیں۔
پروفیسر جان کیلورٹ( شعبہ تاریخ، گیریگٹن یونی ورسٹی، اوماہا، ریاست ہزاسکا) کو سیّدقطب پر تخصّص حاصل ہے۔ وہ ان کے بارے میں مغرب کے منفی پراپیگنڈے کا جواب دیتے ہیں: ۲۰۱۰ء میں کولمبیا یونی ورسٹی سے شائع شدہ اپنی کتاب Sayyid Qutb and the Origins of Radical Islamism [سیّد قطب اور انقلابی اسلام]میں لکھتے ہیں:
مصر کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والا سادا سا نوجوان سیّدقطب، پہلے پہل ایک سیکولر قوم پرست تھا، مگر مطالعے اور حالات کے معروضی مشاہدے نے اسے تبدیل کردیا۔ جس کے نتیجے میں وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلی لانے کے لیے مصلح بن کر سامنے آیا۔ امریکا کے سفر نے سیّدقطب کو مشتعل نہیں کیا، بلکہ ان کے اسلامی سماجی، معاشی اور سیاسی مطالعے کو اور زیادہ دلائل و تقویت فراہم کی۔ درحقیقت سیّدقطب کے انقلابی تصورات کی تشکیل کا بنیادی قصّہ یہ ہے کہ: مغربی سامراجی اور مابعد نوآبادیاتی دھونس کے خلاف جدوجہد نے انھیں ظلم کے خلاف ابھارا، جس میں وہ سامراجیت، اشتراکیت، قوم پرستی اور سرد جنگ کے جبر کو چیلنج کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔
سیّد قطب نے مطالعہ قرآن سے دل بستگی اور ایثار و قربانی کا سبق حاصل کیا۔ تاہم، ان کے انقلابی تصورات کی تشکیل میں دو چیزوں کو بنیادی دخل حاصل ہے: پہلا یہ کہ عصرِ حاضر اوراس کے افکار و نظریات کا وسیع تنقیدی مطالعہ۔ دوسرا یہ کہ آمرِ مطلق ناصر کے ہاتھوں مصر کی جیلوں میں اخوان کے کارکنوں پر ہولناک مظالم۔ اس کے باوجود سیّدقطب کے ہاں ’تصورجاہلیت‘ میں کہیں یہ بات شامل نہیں ہے کہ جاہلیت زدہ یا بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا جائے۔ اس لیے سیّدقطب کو نائن الیون یا القاعدہ سے جوڑنا، مغربی دانش وروں اور مقتدر قوتوں کی کم فہمی اور کج روی ہے۔
یاد رہے کہ مصر کے نوبیل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ (۱۹۱۱ئ- ۲۰۰۶ئ) نے برملا اعتراف کیا: ’’مجھے تاریکی اور ظلمت سے نکالنے والی ہستی سیّدقطب ہی تھے‘‘۔ علامہ عبدالعزیز بن باز (۱۹۱۰ئ-۱۹۹۹ئ)کہتے ہیں: ’’سیّدقطب راہ خدا کے داعی تھے۔ جب اللہ نے ان کو سیدھا راستہ دکھایا تو انھوں نے قرآن کریم سے خوب لو لگائی‘‘۔
سیّد قطب شہید کی اخوان المسلمون سے وابستگی سے پہلے کس کو معلوم تھا کہ یہ نوجوان دنیا کی عظیم اسلامی شخصیت ہوگا، اسلام کو اس کے ذریعے روحانی طاقت حاصل ہو گی۔ اسے اصلاح معاشرہ اور اشاعت ِ اسلام کی عظیم تحریک کی رفاقت کی سعادت حاصل ہوگی۔
بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے سیّد قطب ایک جانب اپنی تین بہنوں: نفیسہ قطب، امینہ قطب، حمیدہ قطب اور اکلوتے بھائی محمد قطب کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے کی جانب متوجہ رہے اور باقی وقت ملازمت، صحافت اور قومی جدوجہد میں مصروف رہے۔ ۴۴برس کی عمر میں اخوان المسلمون سے منسلک ہوئے اور ۴۷برس کی عمر میں دس سال قید بامشقت میں جکڑ دیے گئے۔ ۵۷برس کی عمر میں رہا ہوئے اور ۵۸برس کی عمر میں دوبارہ گرفتار کرلیے گئے۔ اسی دوران ۵۹برس اور ۱۱ ماہ کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرکے حیاتِ جاوداں پاگئے۔ ان کٹھن شب وروز میں وہ شادی نہ کر پائے۔ اس دنیا میں ان کی اولاد ان کی ۲۵کتب اور ان سے فیض پانے والے لاکھوں فرزندانِ اسلام ہیں۔
سیّد قطب گندمی رنگ، درمیانی قامت، اکہرے بدن،بڑی بڑی روشن آنکھوں اور کشادہ پیشانی کے مالک تھے۔ یہاں ان کے بھائی بہنوں کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے:
شہادت سے کچھ عرصہ پہلے سیّد قطب شہید نے عزم و ایمان کے جذبات سے لبریز یہ اشعار کہے تھے:
اے میرے دوست! تو قید و بند میں بھی آزاد ہے،
توسب رکاوٹوں کے باوجود آزاد ہے،
اگر تو اللہ کا دامن مضبوطی سے تھامے ہے،
توپھر بندوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں،
اے میرے دوست! تاریکی کے لشکر فنا ہو کر رہیں گے،
اور دنیا میں صبحِ نو طلوع ہو کر رہے گی،
تو اپنی روح کو روشن اور منور ہونے تو دے،
وہ دیکھ! دور سے صبح ہمیں خوش آمدید کہہ رہی ہے،
میرے بھائی! تیرے دل پر فریب کا ایک کمزور اور ناکارہ سا تیر آکر لگا،
یہ تیر تھکے ہوئے بازوئوں نے تیری طرف نشانہ بنا کر پھینکا تھا۔
ان شاء اللہ، یہ [ظالم ]بازو ایک روز کٹ جائیں گے،
لہٰذا، تو صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھ۔
اُس منّوردن کے بعد یہ[ظالم] بازو، شیروں کے مسکن تک نہ پہنچ سکیں گے۔
میرے بھائی! تیری ہتھیلیوں سے خون کے فوارے ابل رہے ہیں،
تیرے ہاتھوں نے ان حقیر زنجیروں کے اندر شل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
تیرے ہاتھوں کی قربانی نے عرشِ اعلیٰ پر قبولیت پائی ہے
یہ ہاتھ، اس مہندی سے گل رنگ ہوں گے،جو کبھی بے رنگ نہ ہو گی۔
میرے ہم دم! آنسو بہاکر میری قبر کو ان سے تر نہ کرنا،
بلکہ میری ہڈیوں سے، تاریک راہوں میں بھٹکنے والوں کے لیے شمع روشن کرنا،
اے میرے دوست! میں معرکۂ حق سے ہرگز نہیں اکتایا،
او رمیں نے ہتھیار ہرگز نہیں ڈالے،
اگرچہ جہالت اور تاریکی کے لشکر مجھے چاروں طرف سے گھیر ہی لیں،
تب بھی مجھے صبحِ روشن کے طلوع ہونے کا پختہ یقین ہے!
اللہ نے ہمیں اپنی دعوت کے لیے منتخب کیا ہے،
ہم اُس کے راستے پر ضرور گام زن رہیں گے۔
ہم میں سے کچھ نے جان دے کر اپنی نذر پوری کر دی،
اور کچھ، اس راہ وفا میں اپنے عہد و پیمان پر قائم ہیں۔
میں بھی اپنے رب اور اس کے دین پر خود کو نچھاور کر دوں گا،
اور یقین و ایمان کے ساتھ اس راہ پہ چلتا رہوں گا،
پھر اِس دنیا میں کامرانی سے بہرہ ور ہوں گا، یا
اللہ کے پاس ابدی حیات سے ہم کنار ہوں گا!
’’۹ مئی ۲۰۱۴ء کو ہماری نسبت طے ہوئی۔ شادی ہوئی تو میں نے پہلے ہی روز معاذ سے کہا کہ میں نے ایسے جیون ساتھی کے لیے دعا کی تھی جو مجھے اپنے ساتھ جنت لے جائے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے جنت لے کر جائیں گے۔ شہادت سے کئی ہفتے قبل انھوں نے مجھے کہا کہ ہم دونوں روزانہ قرآن کریم کے ۱۰صفحات تلاوت کیا کریں گے، تاکہ اکٹھے ختم قرآن کیا کریں۔ شہادت کے روز بھی فجر کے وقت معاذ نے مجھے جگایا اور کہا کہ آج مجھے ایک آپریشن کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ میں نے ابھی دو رکعت نماز شہادت بھی ادا کرلی ہے اور اللہ سے یہ دُعا بھی کی ہے کہ کسی بے گناہ مسلمان کا خون میرے سر نہ آئے‘‘۔ یہ الفاظ اُردنی ایئر فورس کے اس پائلٹ معاذ الکساسبہ کی بیوہ کے ہیں، جسے چند ماہ پہلے داعش نے آہنی پنجرے میں کھڑا کرکے، زنجیروں سے جکڑ کر زندہ جلا دیا تھا۔ جلانے کے اس پورے عمل کو فلمایا اور وسیع پیمانے پر پوری دنیا میں دکھایا گیا۔
عراق اور شام میں ’اسلامی ریاست‘ (داعش) کے قیام کا دعویٰ کرنے والے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے آئے روز کوئی نہ کوئی نئی صورت ایجاد کرتے ہیں۔ جانوروں کی طرح ذبح کرنے کے واقعات تو اب ہزاروں میں ہیں۔ ان ذبح شدہ انسانوں کے سروں کی نمایش کرنا بھی اب معمول کی بات ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کسی زندہ انسان کو بلند عمارت سے سر کے بل پھینک کر قتل کرنا، کسی کو پنجرے میں بند کر کے سمندر میں ڈبو دینا، کسی کی گردن کے ساتھ بارودی مواد باندھ کر اُڑا دینا… غرض یہ کہ ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک طریقہ ایجاد کیا جاتا ہے۔ پھر انتہائی مہارت سے اس کی فلم بنائی اور دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں بڑے بڑے ابلاغیاتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ علاقے کے لوگوں کو وہاں آنے کا حکم دیا جاتا اور قتل و تعذیب کے سارے مناظر دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اصل بدقسمتی یہ ہے کہ مارنے والے بھی ’اللہ اکبر‘ کہہ رہے ہوتے ہیں اور قتل ہونے والے بھی، اکثر لوگ کلمۂ شہادت ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض غیرمسلموں کو بھی ہلاک کیا گیا ہے، لیکن ان کی تعداد ہزاروں میں سے چند درجن ہی بنتی ہے۔
مسلمانوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کے مرتد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ارتداد کی وجہ اکثر وبیش تر ان کا بیعت سے انکار یا ’باطل نظام‘ کا حصہ دار اور دشمن کا ایجنٹ ہونا بتایا جاتا ہے۔ اب تو اس کام کے لیے اعلانِ عام کردیا گیا ہے۔ ایک ویڈیو پیغام میں داعش کا ایک نوجوان ہرمسلمان کو ترغیب دیتا ہے کہ:’’ اسلامی ریاست کے علاوہ تمام حکومتیں باطل پر مبنی ہیں۔ اس کے کارپردازان بالخصوص فوج اور پولیس کے ملازمین کو قتل کر کے ہمارے پاس آجائو ہم تمھیں پناہ دیں گے‘‘۔ اس طرح کے پیغامات سے متاثر ہوکر مختلف کارروائیاں کرنے والوں کی تعداد بھی اب کافی ہوچکی ہے۔ حالیہ عیدالفطر کے چاند کا اعلان ہونے کے چند گھنٹے بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی ایک چیک پوسٹ پر خودکش حملہ کیا گیا۔ حملے سے پہلے حملہ آور نے اپنے سگے ماموں راشد ابراہیم الصفیان کو قتل کر دیا کیونکہ وہ سعودی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔
افسوس کہ والا شب ِ عید اپنے سگے بھانجے کے ہاتھوں شہید ہوگیا۔ پھر گذشتہ آٹھ برس سے صہیونی فوجوں اور جنرل سیسی کے ہاتھوں محصور اہلِ غزہ کے خلاف اعلانِ جنگ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عنقریب غزہ آرہے ہیں۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو وہاں خون کے دریا بہہ جائیںگے‘‘۔
ریاض شہر کے سابق الذکر واقعے کے بعد وہاں داعش یا دیگر مسلح تنظیموں سے تعلق کے شبہے میں ۵۰۰ کے قریب افراد گرفتار کرلیے گئے۔ اس واقعے کی خبر اسرائیلی اخبارات میں ملاحظہ کیجیے: ’’غزہ میں موجود داعش کے ذمہ داران نے خبردار کیا ہے کہ ہم ریاض میں ہونے والی گرفتاریوں کا بدلہ لیں گے‘‘۔ یہ خبر ۱۹جولائی کو شائع ہوئی اور ۲۰جولائی کی صبح غزہ میں حماس اور جہاد اسلامی کے ذمہ داروں کو نشانہ بناتے ہوئے پانچ بم دھماکے ہوگئے۔ ممکن ہے کہ یہ دھماکے داعش نے نہ کیے ہوں، لیکن ان کے بیان کے بعد ہرشخص کا ذہن سب سے پہلے ادھر ہی جاتا ہے۔
داعش کے بارے میں دنیا میں ہر طرف بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بظاہر ساری دنیا اس کی دشمن دکھائی دیتی ہے۔ امریکی سربراہی میں ۴۰ ممالک نے اس کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کررکھی ہے۔ ۵۵۰؍ارب ڈالر اس جنگ کا بجٹ رکھا گیا ہے، لیکن شام کے مختلف علاقوں پر قبضے کے بعد جنوری ۲۰۱۴ء میں اچانک عراق کے وسیع علاقوں پر قابض ہونے، اور اپنی ریاست کا اعلان کرنے سے لے کر اب تک اس کے علاقوں، افرادی قوت اور اسلحے میں اضافہ ہی ہوا ہے، کوئی کمی نہیں ہوئی۔ جدید ترین اسلحے اور گاڑیوں کی نمایش کئی کئی فرلانگ لمبے جلوسوں کی صورت میں کی جاتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک ایک گاڑی اور ایک ایک جھونپڑی کو ڈرون حملوں سے اُڑا دینے والے امریکا کو دشمن کا یہ طویل جلوس اور نمایش کبھی دکھائی نہیں دیے۔
اس بارے میں، میں مزید حقائق تلاش کر رہا تھا کہ عراق سے الاخوان المسلمون کے ایک بزرگ اور مرکزی رہنما نے ہاتھ سے لکھا، اپنا تجزیہ مطالعے کے لیے ارسال کیا۔ اس تجزیے کے اہم نکات اور خلاصہ پیش خدمت ہے: ’’سوویت یونین کے خاتمے (اکتوبر ۱۹۱۷ئ- دسمبر ۱۹۹۱ئ) کے بعد امریکی پالیسی ساز اداروں کے لیے اپنا کوئی نیا دشمن ایجاد کرنا ضروری تھا۔ واشنگٹن نے ’اسلامی بنیاد پرستی‘ اور ’اسلامی دہشت گردی‘ کے نام پر دشمن ایجاد کرلیا۔ وسیع تر مشرق وسطیٰ کو جس میں افغانستان، پاکستان، ایران، خلیجی ریاستوں اور تمام اہم عرب ممالک سے لے کر ترکی تک سب ممالک شامل تھے، اس نئے دشمن کے خلاف جنگ میں ناکامی یا کامیابی کا اصل پیمانہ قرار پایا۔ بعض اہم ممالک میں عرب بہار اور اس کے نتیجے میں سیاسی اسلام (یعنی اسلامی تحریکوں) کی کامیابی سے امریکا کو اپنے مفادات خطرے میں پڑتے دکھائی دیے۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں سایکس پیکو (۱۹۱۶ئ)، سان ریمو (۱۹۲۰ئ) اور لوزان (۱۹۲۳ئ) معاہدوں کے مطابق خطے کی تقسیم میں مزید ترمیم کا فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا تھا۔ اب اس نقشے میں رنگ بھرتے ہوئے تقسیم در تقسیم کا نیا مرحلہ شروع کر دیا گیا۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شروع کی جانے والی جنگ افغانستان ابھی عروج پر تھی کہ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق میں بھی فوجیں اُتار دی گئیں۔ تمام تر مذہبی اور نسلی فتنہ پردازیوں اور ۲۰۰۶ئ،۲۰۰۷ء میں بدترین خانہ جنگی کے بعد امریکا نے اس جنگ کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچائے بغیر وہاں سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اس عرصے میں تمام عالمی رپورٹوں کے مطابق عراق دنیا کی ناکام ترین ریاستوں میں سرفہرست آگیا‘‘۔
عراقی رہنما مزید لکھتے ہیں: ’’داعش مختلف مواقع اور واقعات کی روشنی میں مسلسل توانا ہوتی چلی گئی۔ عراق میں امریکی فوجوں کی آمد کے بعد اصل مزاحمت وہاں کی اہلِ سنت آبادی کر رہی تھی۔ امریکا اور عراق کی شیعہ حکومتوں نے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینے کے لیے ’القاعدہ‘ کا نام استعمال کیا۔ لیکن پھر جب اہلِ سنت آبادی نے اکثر علاقوں سے ’القاعدہ‘ کا تقریباً صفایا کردیا تو اس موقعے پر مختلف فرضی کارروائیوں کے ذریعے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا، مثلاً ابوغریب اور تکریت جیل سے قیدیوں کو رہا کروا کر لے جانا۔ پھر اچانک بغداد کے بعد عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر بآسانی داعش کا قبضہ ہوگیا۔ اتنا بآسانی کہ خود داعش کو بھی اس پر حیرت ہوئی۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور اس کی حکومت داعش کے اس قبضے کے ذریعے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ داعش نے کسی مزاحمت کے بغیر تین سے چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیا۔ اہلِ سنت اکثریتی آبادی کے شہر انبار کے گورنر کا کہنا ہے کہ میں عراقی وزیردفاع، فضائیہ کے سربراہ اور فوجی آپریشنز کے انچارج سے رابطہ کر کے انھیں داعش کا راستہ روکنے اور کوئی کارروائی کرنے کا کہتا رہا، لیکن انھوں نے چپ سادھے رکھی۔ موصل شہر کے سیکورٹی چیف نے واضح طور پر کہہ دیا کہ داعش کے سامنے مزاحمت کیے بغیر پسپا ہوجانے اور اپنا اسلحہ وہیں چھوڑ جانے کا حکم براہِ راست عراقی وزیراعظم کی طرف سے ملا ہے‘‘۔ عراقی اخوان رہنما نے اس تجزیے میں مستقبل کی ممکنہ صورتوں پر بھی تفصیلی بات کی ہے جن سب کا نچوڑ یہی ہے کہ خطے میں یہ سب شروفساد ’منظم انتشار‘ نامی امریکی منصوبے کا حصہ ہے۔ طے شدہ اہداف اور ضروریات کے مطابق مختلف مہروں کو استعمال میں لایا جاتا رہے گا۔ ان کے خلاف جنگ بھی لڑی جائے گی اور انھیں باقی بھی رکھا جائے گا اور بالآخر پورے خطے کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔
اس موقعے پر ایک صہیونی مضمون نگار عوفرہ بانجو کی تحریر بعنوان: ’کردستان اور داعش نئے علاقائی نقشہ گر‘ کا حوالہ بھی اہم ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب روزنامے’ العربی ۲۱‘ میں اس کا مکمل ترجمہ شائع ہوا ہے۔اس کی تحریر کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ: ’’عراق اور شام اب کبھی ماضی کے عراق اور شام نہیں بن سکیں گے۔ اب بغداد حکومت، کردستان اور داعش کی ایک گنجلک تکون مستقبل کا نقشہ تشکیل دے گی‘‘۔ عوفرہ اس امرپر بھی اظہار اطمینان کرتا ہے کہ داعش اور اس کی شدت پسندی نے عراق، کردستان اور شام میں سیاسی اسلام (یعنی الاخوان المسلمون ) کے اثرونفوذ میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق کردستان کو موجودہ صورت حال میں جو اہم نقصان ہوا، وہ یہ ہے کہ اس کی آزادی (یعنی علیحدگی) کے لیے مجوزہ ریفرنڈم میں تاخیر ہو رہی ہے، لیکن اس کے مقابل اسے دو اہم فوائد ملے ہیں۔ ایک یہ کہ اسی ہنگامے کے دوران اس نے تیل کے ان اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جو بغداد کسی صورت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ داعش کی سفاک شناخت کے مقابل کردستان ایک مہذب اور انسان دوست ریاست کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔ داعش لوگوں کو غلام اور ان کی خواتین کو باندیاں بنارہا ہے اور کردستان لاکھوں مہاجرین کو پناہ دے رہا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار اس امر پر بھی اطمینان آمیز حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ بہت سے کام جو ملکوں کی باقاعدہ افواج انجام نہیں دے سکیں، مسلح ملیشیا انجام دے رہی ہیں۔ اس موضوع پر گذشتہ مارچ کے ماہنامہ المجتمع میں ایک مضمون شائع ہوا تھا کہ استعماری اور جارح افواج کس طرح اپنے مقبوضہ علاقوں میں خود وہیں سے ایسی عوامی تحریکیں کھڑی کرتی ہیں کہ جو اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہب افراد کو دشمن افواج سے بھی زیادہ سفاکیت سے تہِ تیغ کرتی ہیں۔ فرانسیسی فاتح نپولین نے مصر پر قبضہ کیا تو ’یعقوب المصری‘ نامی غدارِ ملّت اور اس کی تحریک کی سرپرستی کی۔ الجزائر پر فرانسیسی قبضہ کرتے ہوئے ’الحرکیون‘ نامی تحریک شروع کروائی گئی۔ ۱۹۶۲ء میں الجزائر آزاد ہوا تو فرانسیسی جنرل ڈیگال نے ان کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہتک آمیز جملہ کہا: ’’یہ لوگ تاریخ کا ایک کھلونا تھے، محض ایک کھلونا‘‘۔ ویت نام میں امریکیوں نے ’اسٹرے ٹیجک بستیوں‘ کے نام سے ۱۶ہزار خائن بستیاں تیار کیں۔
عراق اور شام ہی نہیں خطے کے کئی ممالک میں اس وقت یہی کھیل جاری ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ہرجگہ تقریباً ایک ہی نسخہ آزمایا جا رہا ہے اور ہم دیکھتے بھالتے دشمن کے بچھائے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ ایسی فضا میں ہر ملک یا گروہ اپنے اپنے دشمنوں پر وہی لیبل لگانا شروع کر دیتا ہے جس کے خلاف راے عامہ تیار کی گئی ہو۔ اس وقت اخوان کو شام اور عراق میں داعش نے اپنی سنگین کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہے لیکن جنرل سیسی، بشارالاسد اور حوثی قبائل سمیت بہت سے لوگ کمال بددیانتی سے اخوان ہی کو داعش کا سرپرست قرار دے رہے ہیں۔ عیدالفطر کے تین روز بعد ترکی کے سرحدی شہر سروج میں خودکش حملہ کرکے داعش نے۳۱شہری شہید کردیے اور دوسری طرف ترک صدر طیب ایردوان کے مخالفین انھیں مسلسل داعش کا مددگار قرار دے رہے ہیں۔دشمن ایجاد کرنے کی جو بات آغاز میںگزری، وہ طویل عرصے تک عالمِ اسلام میں اپنے زہرآلود پھل دیتی رہے گی۔ امریکا، اسرائیل اور آمر حکمرانوں کو اپنے لیے یہی صورت حال مثالی اور مطلوب دکھائی دیتی ہے۔ جابر حکمران چونکہ خود بھی ایک عارضی مہرہ ہوتے ہیں، اس لیے انھیں حتماً اور جلد اس ظلم کا انجام دیکھنا ہوگا، لیکن امریکا اور اسرائیل جو اس پوری فتنہ گری میں خود کو محفوظ و مامون سمجھ رہے ہیں، خود بھی یقینا اپنے انجام کو پہنچیں گے کہ یہی قانونِ فطرت ہے۔
عالمِ اسلام کے لیے اصل راہِ نجات قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہے۔ آپؐ کی اُمت کو رب ذوالجلال نے اُمت ِ وسط، یعنی راہِ اعتدال پر چلنے والی اُمت قرار دیا ہے۔ کسی بھی انتہا کا شکار ہو جانا اس کے لیے موت کا پیغام ہے۔ آج اگر ایک طرف اسلام کی تمام بنیادی اصطلاحات: جہاد، اسلامی ریاست، اسلامی خلافت، امیرالمومنین، خلیفۃ المسلمین، حتیٰ کہ قرآن کریم اور رسولِؐ رحمت کو مذاق و استہزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو دوسری طرف جہاد، شریعت، اسلامی حدود اور قوانین کو اپنے ہرمخالف کا صفایاکردینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بزعم خود امیرالمومنین کی بیعت سے انکار کو ارتداد اور ہرمرتد کو قابلِ گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔خود یہ امر بھی انتہائی باعث ِ حیرت ہے کہ اس کے تمام تر ظلم و ستم کا اصل نشانہ خود مظلوم مسلمان ہی بنتے ہیں۔ شامی آمر بشارالاسد جیسا درندہ اور اس کی فوج ان سے محفوظ رہتی ہے، لیکن اس سفاک درندے سے برسرِپیکار مظلوم عوام اور ان کی مزاحمتی تحریک کو وہ چُن چُن کر موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ غزہ کے محصور و بے کس عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں، صہیونی ناجائز ریاست کے بارے میں کچھ نہیں فرماتے۔
انبیاے کرام ؑ کے بعد محترم ترین ہستیوں، یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی کچھ لوگ راہِ اعتدال سے ہٹ کر ایسی ہی انتہا پسندی کا شکار ہوگئے تھے۔ اُمت انھیں ’خوارج‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ بھی اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (یوسف ۱۲:۴۰)جیسی لازوال حقیقت سے روشنی حاصل کرنے کے بجاے، اپنے علاوہ سب کو مرتد قرار دینے جیسی ہلاکت کا شکار ہوگئے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے الفاظ میں کلمۂ حق کہہ کر اس سے مراد باطل لیتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’ان کی تلاوت، ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے سامنے تمھیں اپنی تلاوت، اپنی نمازیں اور اپنے روزے کم تر دکھائی دینے لگیں گے۔ لیکن وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ قرآنِ کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترا ہوگا۔ وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے‘‘۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے: ’’وہ اہلِ اسلام کو قتل کرتے اور اہلِ اوثان کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ بالآخر ان کی کج فہمی اور ’زعم تقویٰ‘ نے انھیں ایک ہی شب حضرت معاویہ ، حضرت علی اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم جیسی جلیل القدر ہستیوں تک کو شہید کرنے پر آمادہ کر دیا۔
اُمت کی بدقسمتی یہ ہے کہ صدیوں پرانے اس فتنے کو جس کے پیچھے سراسر منافقین اور یہودیوں کی دسیسہ کاری شامل تھی، آج بھی اپنی تباہی کا ذریعہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ شیعہ سُنّی یا خوارج کی اصطلاحیں صرف کسی مخصوص گروہ ہی کا نام نہیں بلکہ ایک مخصوص ذہنیت اور طریق کار کا نام بھی ہے۔ آج کا عالمِ اسلام بُری طرح اس تقسیم کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام نسلی، لسانی، علاقائی اور سیاسی تعصبات سے لیا جا رہا ہے۔ عراق اور شام کا خونی نقشہ اب یمن تک پھیل چکا ہے۔ القاعدہ کے بعد داعش اور بعض مغربی دستاویزات کے مطابق داعش کے بعد کوئی اور ایسی تنظیم سامنے لائی جانا ہے، جس کے سامنے داعش کا نام بھی ہلکا لگنے لگے۔ کاش! کہ ہم سب کسی نہ کسی تعصب کا شکار ہوکر خود کو دھوکا دینے کے بجاے صرف اور صرف حق و انصاف کا ساتھ دینے والے بن جائیں۔ ظلم کرنے والا خواہ بشارالاسد ہو یا جنرل سیسی، داعش ہو یا باغی حوثی قبائل، ہم میں سے کوئی ان کی حمایت یا دفاع نہ کرے۔ مظلوم خواہ کویت یا سعودی عرب کی کسی امام بارگاہ میں مارا جائے یا عراق و یمن کی کسی مسجد میں، اللہ ہمیں ہمیشہ اس مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑا دیکھے۔ بے گناہ قیدی مصر کی جیلوں میں ہوں یا فلسطین، بنگلہ دیش، کشمیر،اراکان اور افغانستان کے زندان خانوں میں ہمیں ان کی آزادی کے لیے ہر دروازے پر دستک دینا ہوگی۔ ایسا نہ ہوا تو خدانخواستہ ایک روز سب ہی کو ایسے روزِ بد دیکھنا پڑ سکتے ہیں والعیاذ باللّٰہ۔
پروفیسر خورشیداحمد کی علمی خدمات اور اداروں کی تشکیل و تعمیر میں ایک منفرد مقام ہے۔ پیش نظر کتاب مغربی دنیا، خصوصاً انگریزی دان طبقے کو اسلام کی اساسی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے تالیف کی گئی ہے۔ کتاب تین اجزا پر مشتمل ہے: اسلام کے بنیادی تصورات اور حکمت عملی پر پہلا مقالہ ادارے کا مرتب کردہ ہے۔ ایک طرح سے یہ اسلام کا عمومی تعارف ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد، اصول اور اس کی منفرد خصوصیات پر پروفیسر خورشیداحمد کا تفصیلی مقالہ ہے، جس میں وہ اسلام کے نظریۂ حیات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک سادہ، مگر عقلی اور عملی مذہب ہے، جو انسان کی پوری زندگی کے ایک متوازن تصور کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور فرد اور اجتماع کے درمیان ایک ہم آہنگ توازن ہے۔
علامہ محمد اسد لکھتے ہیں کہ عیسائیت کے برخلاف اسلام نے انسانی فطرت کو بنیادی طور پر خیربتلایا ہے، نہ کہ گناہ سے آلودہ۔ اسلام امیر اور غریب کو اپنی اپنی زندگی گزارنے کے مواقع کی آزادی دیتا ہے۔ عبدالرحمن عزام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔
اللہ بخش بروہی نے انسانی تاریخ پر قرآنِ مجید کے گہرے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیسویں صدی میں انسان نے جو مثالیے (Ideals) تسلیم کیے ہیں وہ سب ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات میں واضح کردیے گئے ہیں۔ ان میں انسان کا احترام اور مساواتِ انسانی، تعلیم کی آفاقیت، حُریت، غلامی کا استیصال، خواتین کے حقوق اور اس طرح کی اساسی تعلیمات شامل ہیں۔ انھیں رسولؐ اللہ نے عملی نمونے کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر کے بھی دکھا دیا تھا۔ بلاشبہہ آپؐ کا تشکیل دیا ہوا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ تھا۔
ٹی بی اِروِنگ ’اسلام اور سماجی ذمہ داری‘ کے ذیل میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۱۰ سال کے عرصے میں عرب کے بدو، باہم آویزش میں مبتلا قبائل کو جوڑ کر ایک کر دیا۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق توحید ہی ہے جو سب انسانوں کو باہم متحد کر کے ایک کردیتی ہے۔ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک، تمام انسانوں کے ساتھ انصاف اور احسان، غربا کے ساتھ بھی احترام کا اچھا رویّہ اور برتائو، قتلِ ناحق کی مخالفت__ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔
مصطفی احمد زرقا نے ’اسلام کے تصورِ عبادت‘ پر روشنی ڈالی ہے۔ عبادت، مخصوص مراسم کا نام نہیں، بلکہ یہ انسان کی ساری زندگی پر محیط نظام ہے۔ اسلام میں کردار کی دُرستی ہی کا نام عبادت ہے۔
سیّد قطب، اسلام کے سماجی انصاف کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ساری کائنات اسلام کے نزدیک ایک اکائی ہے۔ انسان کی مادی اور روحانی دوئی کو وہ ایک غلط تفریق بتاتے ہیں۔ اسلام نے فرد اور اجتماع کی تمام ضروریات کو اعتدال کے ساتھ پورا کیا ہے۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا تفصیلی مقالہ ’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘، اللہ کی حاکمیت اور انسان کی خلافت، ریاست کے بنیادی اصول و مقاصد اور طریق حکمرانی کی وضاحت کرتا ہے۔
جمال بداوی نے اسلام میں عورت کے تصور اور اس کے حقوق کا جائزہ لیا ہے۔ محمد عمر چھاپرا اسلام کے معاشی نظام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے معاشی انصاف ہی کو اسلامی معیشت کی اصل قرار دیتے ہیں۔ عبدالحمید صدیقی کے مقالے کا عنوان ہے: ’’اسلام نے انسانیت کو کیا دیا؟‘‘ سیّدحسین نصر عالمِ مغرب کے اسلام کو چیلنج اور محمد قطب ’جدید دنیا کے بحران اور اسلام‘ کے عنوان سے مذہب اور سائنس کے تعلق اور دورِ جدید کے انسان کو مذہب کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
یہ کتاب اس سے قبل اسلامک فائونڈیشن برطانیہ کے زیراہتمام بھی شائع ہوتی رہی ہے۔ کتاب کے آخر میں ’اسلامی کتابیات‘ کے عنوان سے بعض مصنّفین اور ان کی کتابوںکی فہرست دی گئی ہے، جو مؤلف کے خیال میں اسلام کی تفہیم کے لیے اہم ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس کا ایک ارزاں ایڈیشن بھی شائع ہوجائے۔ نیز تمام انگریزی خواں تعلیمی اداروں میں اسلام کے اس تعارف کو پھیلا دیا جائے۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر لکھنے والوں نے جس کمال حزم و احتیاط اور تحقیق و تفحص سے کام لے کر اس فریضے کو انجام دیا اس کی مثال تاریخِ انسانی میں مفقود ہے۔ اس سلسلۂ ذہب میں کسی اُمتی کا نام شامل ہوجانا بڑی سعادت ہے۔
کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں واقعاتِ سیرت کا ربط پہلے دور میں نازل ہونے والی سورتوں سے قائم کیا گیا ہے۔ نیز سابقون الاولون رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے کوائف بھی درج کیے گئے ہیں۔ ان تین موضوعات، یعنی سیرت، تفسیر اور تذکرۂ صحابہ کو ایک لڑی میں پرو کر صدرِاوّل کی تصویر کشی کی گئی ہے جو ایک مشکل امر ہے، کیوں کہ ہر سہ موضوعات تطویل طلب ہیں۔ ان کا ہم آہنگ ہونا آسان نہیں۔
کتاب میں دو ایک اُمور محل نظر ہیں۔ایک مصنف کا تفرُّد، دوسرا، حالاتِ حاضرہ سے تعرّضُ۔ تفرُّد کی مثال قاری کو وہاں ملتی ہے جہاں دیگر مصنّفین کی آرا سے اختلاف ہے، مثلاً قبل نبوت معاشرے کے بارے میں یہ اظہارِ خیال کیا گیا ہے: ’’تاریخ نگاروں اور شعرا نے ان لوگوں کے وحشی اور ظالم ہونے کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ قطعاً غلط اور نامناسب ہے۔ یہ چُنیدہ انسانی اجتماع تھا جو آنے والے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اُن کے استقبال کے لیے اللہ نے تیار کیا تھا اور ہرلحاظ سے اس ذاتِ گرامی کے شایانِ شان تھا‘‘۔ اختلاف کا تقاضا تھا کہ مطعون تاریخ نگاروں کے منفی شواہد کے مقابلے میں مثبت تاریخی شواہد پیش کیے جاتے۔ یہاں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کا حوالہ دیں گے، فرمایا: عائشہ تیرے آقا کو اللہ کی راہ میں جس قدر ستایا گیا ہے کسی نبی ؑ کو نہیں ستایا گیا (او کما قال)، جو درج بالا تحریر کے منافی ہے۔
اسی طرح دیگر تحریکی جماعتوں کے بارے میں تنقیص و تبصرہ: ’’اس بات پر ذرا غور کریں کہ آج دین کے لیے اُٹھنے والی تحریکیں، قرآن کے اس چارٹر کا کتنا خیال رکھتی ہیں کہ جب تک قریب آنے والے افراد اپنی سیرت کی تعمیر میں ان ابتدائی مطالباتِ سیرت پر پورے نہ اُتر جائیں انھیں احیائی تحریکوں میں کوئی مقام حاصل نہیں ہونا چاہیے.... اور ہرکلمہ گو کو جو چندا دے سکے اور لفاظی کرسکے اس کو دینی تحریک اپنے سر پر بٹھائے گی‘‘ وغیرہ جیسے فاصلہ کن رواں تبصرے (sweeping remarks) کی شمولیت موضوع سے مغائرت کے علاوہ دینی حکمت کے بھی منافی ہے۔اپنے موضوع کے اعتبار سے اگر کتاب کا نام ’کاروانِ نبوت‘ کے بجاے ’کاروانِ نبوی‘ ہوتا تو زیادہ مربوط ہوتا۔ (پروفیسر عنایت علی خان)
کتاب کے نام کی وضاحت اس کی ضمنی سرخی سے ہوتی ہے:’’روایتی اسلامی فکر پر سیکولر اعتراضات کا تحقیقی مطالعہ‘‘۔ پاکستان ہی نہیں، مسلم دنیا میں ’اسلام اور جدیدیت‘ یا پھر درست اصطلاح استعمال کی جائے تو ’اسلام اور سیکولرزم‘ کی کش مکش کا سرا اٹھارھویں صدی عیسوی سے جڑتا ہے، جب مغرب کی سامراجی قوتوں نے مسلم علاقوں پر جارحانہ یلغار کا سلسلہ شروع کیا۔ برعظیم پاک و ہند میں اس فکر کے ڈانڈے سرسید احمد خاں کی تحریک سے جڑتے ہیں، تاہم وہ دینی پس منظر اور وضع داری کے باعث اکثر حجاب و احتیاط کا دامن تھامنے کی کوشش بھی کرتے۔ بہرحال، اس خطۂ زمین میں نام نہاد ’جدیدیت‘ (دراصل لادینیت اور ’تشکیک‘) کے مدارالمہام نیاز فتح پوری ہی تھے۔
یہ فکر کبھی ’ملائیت‘ پر پھبتی کسنے اور شریعت کو نشانہ بنانے میں ڈھلی، اور کبھی انکار سنت اور نیاز مندیِ مغرب کے پلنے میں پروان چڑھی۔ کچھ ’دانش وروں‘ نے اِدھر اُدھر کے سہارے تلاش کرنے کے بجاے عملاً: سینٹ پال کی ڈگر یا مارٹن لوتھر کے راستے کا انتخاب کیا۔ اس شاہراہ کا زادِراہ دو لفظوں کو بنایا گیا: ’روشن خیالی‘ اور ’اجتہاد‘ ۔ ’روشن خیالی‘ توخیر اسلامی علم کلام کا حصہ نہ تھی، یہ خالص مغربی اصطلاح تھی، البتہ ’اجتہاد‘ فی الواقع دینی اصطلاح تھی۔ اب ان دو مورچوں سے فکری یلغار کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اس فوج میں بعض بھلے لوگ بھی رضا کار بن کر شامل ہو گئے۔ چونکہ ایسے بہت سے افراد عربی سے نابلد ہونے کے سبب اسلامی الٰہیات کے متن تک براہ راست پہنچ نہ رکھتے تھے، اس لیے وہ ترجموں کی مدد سے کام چلانے لگے۔
زیر نظر کتاب درحقیقت گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں پروان چڑھتی ایسی ہی ’جدیدیت‘ کی صدا ے بازگشت کا تجزیہ ہے۔ حوالہ اگرچہ محترم ڈاکٹر منظور احمد صاحب کی فکر و دانش ہے، جنھیں اُس ’قافلۂ خرد مندی‘ کے ایک اہم دانش ور کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، جس میں سرسید احمد، نیاز فتح پوری، علامہ عنایت اللہ مشرقی، اسلم جیراج پوری، غلام احمد پرویز، ڈاکٹر فضل الرحمن کسی نہ کسی روپ میں جلوہ افروز رہ چکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے افکار و آثار کا یہ تجزیاتی مطالعہ، ڈیڑھ سو برس پر پھیلی اسی ’خرد مندی‘ سے متعارف کراتا ہے۔ زیربحث موضوعات کا پھیلائو: قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک و شبہہ، حجیت ِ حدیث سے انکار، اجتہاد کے پردے میں آزاد روی، سود کے مسئلے سے لے کر حدود تک میں انوکھی بلکہ خالص تجدد پسندانہ تعبیرات، سیکولرزم کی ترویج اور اس سے وابستہ دیگر اُمور پر محیط ہے۔
ظفر اقبال نے متانت، سنجیدگی، تحقیق اور احتیاط سے چیزوں کو ان کے پس منظر میں دیکھنے اور بنیادی سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اکثر ’خردمند‘ یہی کہتے ہیں : ’’ہماری بات کو درست طور پر سمجھا نہیں گیا‘‘۔ مگر اس کتاب میں پوری طرح احتیاط برتی گئی ہے کہ سیاق و سباق کو خبط نہ ہونے دیا جائے۔ بلاشبہہ یہ کتاب دین اسلام پر نام نہاد جدیدیت کی یلغار کو سمجھنے میں ایک مفید ماخذ ہے۔ تاہم، کتاب کے نام میں ’روایتی اسلامی فکر‘ درست بات نہیں ہے۔ (سلیم منصور خالد)
۲۱ویں صدی جہاں سائنسی ایجادات و اکتشافات ٹکنالوجی ، آزادی، مساوات، عدل و انصاف، بنیادی انسانی حقوق، حقوقِ نسواں جیسے تصورات کی صدی قرار پائی، وہیں اپنے جلو میں بے شمار سماجی اور اختلافی مسائل بھی ساتھ لے کر آئی ہے۔ ان مسائل نے انسانی زندگی کو پیچیدہ بنانے ، فتنہ و فساد، پریشان خیالی اور بے راہ روی سے دوچار کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا فتنہ و فساد کی آماج گاہ، اخلاق و شرافت سے عاری اور مادرپدر آزادی کے ساتھ انسان کو حیوان اور معاشرے کو حیوانی معاشرے کی صورت میں پیش کر رہی ہے۔
۲۱ویں صدی کی رنگارنگی اور بوقلمونی سے جنم لیتے مسائل تو بے شمار ہیں لیکن ان میں سے چند اہم مسائل پر معروف عالمِ دین ، محقق اور مصنف ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے قلم اُٹھایا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں کُل ۱۱مضامین جن میں نکاح کے بغیر جنسی تعلق، جنسی بے راہ روی اور زناکاری، رحم مادر کا اُجرت پر حصول، ہم جنسیت کا فتنہ، مصنوعی طریقہ ہاے تولید، اسپرم بنک: تصور اور مسائل، رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل، گھریلو تشدد، بوڑھوں کے عافیت کدے، پلاسٹک سرجری اور عام تباہی کے اسلحے کا استعمال شامل ہیں۔ ان مسائل پر تحقیقی انداز میں بحث کے ساتھ ساتھ اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح وقت کی ایک اہم ضرورت پوری کی گئی ہے۔(عمران ظہور غازی)
۱۹۷۱ء میں، آخرکار متحدہ پاکستان ایک داخلی انتشار اور بھارتی جارحیت کے نتیجے میں دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا، مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ کتاب تب پاکستانی فوج کے بنگالی نژاد میجر (بعدازاں کرنل اور سفیر) کی ایک بھرپور جنگی و سیاسی رُودادِ زندگی کا باب ہے، جس میں انھوں نے کوئٹہ چھائونی سے فرارہوکر، خود اپنی پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے ہندستان پہنچنے کی اسکیم بنائی۔ اس ضمن میں کتاب کے حصہ اوّل اور دوم (ص ۱۹-۱۶۲) کو پڑھتے ہوئے قاری ایک ہوش ربا جاسوسی ناول کا ذائقہ چکھتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوجی زندگی سے باہر کا پروپیگنڈا کس طرح خود فوج کے کڑے نظم و ضبط میں افسروں اور جوانوں کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نسلی قوم پرستی کی تیز آنچ نے میجردالم کی حسِ عدل کو اس طرح مفلوج کیا کہ وہ مارچ ۱۹۷۱ء کے اواخر میں پاکستانی فوج کے جوابی آپریشن کی مبالغہ آمیز داستانوں پر تو آج بھی یقین رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنی کتاب میں ایک سطر بھی ان مظلوم غیربنگالی پاکستانیوں کے لیے نہیں لکھ سکے، جنھیں یکم مارچ سے ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگیوں اور خود پاکستانی مسلح افواج کے باغی بنگالیوں نے بے دریغ قتل کیا تھا، مظلوم عورتوں کی بے حُرمتی کی، لُوٹ مار مچائی اور ننگ ِ انسانیت فعل انجام دیے۔ جسے لسانی قوم پرستی کا شیطانی جنون کہا جاسکتا ہے۔
کتاب کا حصہ سوم (ص ۱۶۳-۲۵۲) قدرے مختصر ہے۔ یہ حصہ مصنف کے شعور میں پیوست دو قومی نظریے پر مبنی مسلم قومیت کے آثار نمایاں کرتا ہے، جب وہ سرزمینِ ہند پر ہندستانی مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیوں کے اس امتیازی رویے کو دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ دالم کو قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ یہ علیحدگی، آزادی سے زیادہ بھارتی غلامی کی طرف جھکائو کے رنگ میں رنگی جارہی ہے، یا اسے بھارتی غلامی کی زنجیر میں باندھ دیا جائے گا۔
حصہ چہارم (ص ۲۵۳-۴۵۰) شریف الحق دالم جیسے فوجی آفیسر کی سیاسی حساسیت، جمہوریت و اشتراکیت کے گہرے مطالعے، تاریخ کے وسیع فہم اور روزمرہ سیاسیات کے تضادات کا ایک ایسا ریکارڈ پیش کرتا ہے کہ صاحب ِ تصنیف کی سنجیدگی اور بے لوثی کا اعتراف کیے بغیر نہیںرہا جاسکتا۔ اس مرکزی حصے میں وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ شیخ مجیب کس طرح روزِ اوّل سے پوری قوم کو اپنی اور بھارتی غلامی میں لے جانے کے لیے سرگرم کار تھا، جب کہ عوامی لیگ کے غنڈا عناصر پورے ملک میں لُوٹ مار اور ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ اسی طرح وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح بنگالی ہٹلر مجیب کو اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ ۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ پانچواں حصہ (۴۵۱-۵۱۶) مجیب کے خاتمے کے بعد کی ریاستی صورت حال کے اُتارچڑھائو کو واضح کرتا ہے۔
یہ کتاب دراصل خوابوں کے بننے اور بکھرنے کی دستاویز ہے، جس میں مصنف نے بڑی روانی اور مشاقی سے تاریخ کا ایک ایسا ریکارڈ مطالعے کے لیے فراہم کردیا ہے، جو اپنے دامن میں عبرت کا درس رکھتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں علیحدگی پسند عناصر کے لیے تویہ کتاب قطب نما کے مصداق ہے۔ تاہم اس کتاب کے کئی مقامات محلِ نظر ہیں، جن میں وہ سیکولرزم، اسلام، سوشلزم اور پاکستان کے موضوعات کو زیربحث لاتے ہیں۔
اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اسے ایک بنگلہ دیشی قوم پرست (بنگالی قوم پرست نہیں، کیونکہ بنگلہ ’دیشی قومیت‘ بہرحال دو قومی نظریے کی شکل میں زندگی کی جنگ لڑرہی ہے) نے لکھا ہے جو پہلے پاکستانی تھا، مگر بعد میں پاکستان کے خلاف لڑا، اور اسی پس منظر ہی میں اس نے بہت سے واقعات کی تعبیر کی ہے، یا انھیں پیش کیا ہے۔ رانا اعجاز احمد نے کرنل (ریٹائرڈ) شریف الحق دالم کی کتاب Untold Facts کا بہت رواں ترجمہ کیا ہے، لیکن بنگلہ زبان سے ناواقفیت کے باعث، بنگالی الفاظ کو متعدد جگہ درست طور پر نہیں پیش کیا جاسکا، مگر اس کمی کا کتاب کے مجموعی تاثر اور تاثیر پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ پاکستانی تاریخ کے تکلیف دہ باب کا یہ تکلیف دہ مطالعہ کئی سبق رکھتا ہے۔(سلیم منصور خالد)
تعلق باللہ پر یہ اپنی ہی نوعیت کی ایک پیش کش ہے، جس میں اس موضوع کے مختلف پہلو: اللہ کی شان ربوبیت، اس کی مخلوق سے محبت اور تعلق، ہماری اپنے خالق سے محبت کے تقاضے، اس کی ذات، اس کی صفات اور اس کے اختیارات اس طرح سامنے لائے گئے ہیں کہ قاری ایک کیفیت میں پڑھتا، اثر قبول کرتا اور اپنے اللہ سے قرب محسوس کرتا ہے۔ یہ آیات و احادیث یا احکام کو براہِ راست پیش کرنے کے بجاے باتوں ہی باتوں میں، کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے ادب کی چاشنی کے ساتھ، عملی زندگی کے ہر سرد و گرم میں تعلق باللہ کی آبیاری کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہترین حمدیہ کلام میں اللہ سے تعلق کا بہترین اظہار ہے۔ حکیم محمدعبداللہ نے اپنی رحلت سے ایک روز قبل جو حمد لکھی اس کے دو اشعار ہیں:
میرے دل کی ہے یہی آرزو
تیری راہ میں میرا بہے لہو
نہ یہ زخم ہو میرا رفو
تیرے دَر پر پہنچوں میں سرخ رو
بیش تر تحریریں خواتین نے لکھی ہیں۔(مسلم سجاد)
o پاکستان اور رُوہنگیا مسلمان ، تالیف: مولانا محمد صدیق ارکانی۔ ناشر: جمعیت خالد بن ولید الخیریہ، ارکان، برما۔ فون: ۸۲۳۶۵۰۰-۰۳۲۱۔ صفحات: ۶۲۔ قیمت: درج نہیں۔ [رُوہنگیا (ارکانی) مسلمانوں پر میانمار (برما) میں ڈھائے جانے والے مظالم نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ مؤلف نے ارکان اور برما کے متعلق بنیادی معلومات، جدوجہد کے مراحل کے ساتھ ساتھ حالیہ مظالم کے خلاف پاکستان میں طبع شدہ مضامین اور بیانات کو یک جا کردیا ہے۔ اس طرح سے ارکان کے مسئلے سے آگہی کے لیے مفید معلومات یک جا ہوگئی ہیں۔]
o ماں کی مامتا ، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۷۵- ۰۴۲۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۱۲۰روپے۔[قرآنی قصص میں بنی اسرائیل کا مفصل تذکرہ آتا ہے۔ حافظ محمد ادریس صاحب نے ماں کی مامتا کے عنوان سے بچوں کی تربیت کے لیے اس قصے کو دل چسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت جہاں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور ہٹ دھرمیوں کا تذکرہ ہے وہاں مسلمانوں کے لیے عبرت اور سبق بھی ہے۔ مسلم ہیرومہدی سوڈانی کے کردار اور جس طرح اس نے انگریزوں کا مقابلہ کیا اس کا الگ تذکرہ ہے۔ہرکہانی کے آخر میں اہم نکات ذہن نشین کرنے کے لیے مشقی سوالات بھی دیے گئے ہیں۔]
’سیّد قطب شہید: قرآنی دعوت انقلاب کے داعی‘ (جولائی ۲۰۱۵ئ) حدیث نبویؐ افضل الجہاد کلمۃ عدل (او حق) عند سلطان جائر (ابوداؤد، ترمذی، نسائی)کی صحیح عکاسی ہے، اور سیّد قطب شہید کی جرأت، بے باکی اور شجاعت کی اعلیٰ مثال ہے۔ اس مضمون کے مطالعے سے ایمانی جرأت میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان کے نئے بجٹ پر اشارات میں ایک عالمانہ تجزیہ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے منتخب ادارے اور قیادت قوم کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔
’بجٹ اور پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنج‘ (جولائی ۲۰۱۵ئ)بہت خوب تجزیہ ہے۔ اگر وہ پاکستان، بھارت اور برطانیہ کی معیشت کا تقابلی جائزہ بھی پیش کرسکیں تو موزوں ہوگا۔
فہم قرآن کے ضمن میں ’اہلِ جنت کے اوصاف‘ کے زیرعنوان تفسیر تفہیم القرآن، جلدپنجم سے اخذ کردہ مضمون بہت خوب اور مفید ہے۔ اس میںص ۲۳ پر سورہ قٓ کی چار آیات درج ہیں۔ ان میں سے آیت ۳۳ میں ’بقلب منیب‘ میںحرف ’ن‘ لفظ منیب کے ساتھ جڑ گیا ہے جو درست نہیں، جب کہ مضمون ’مقامِ عبرت‘ ایک چشم کشا تحریر ہے۔
’غزوئہ بدر اور نصرتِ الٰہی کا قانون‘ ایک ایمان افروز تذکرہ ہے۔
عالمِ اسلام کے مسائل کے بارے میں جو معلومات عالمی ترجمان القرآن سے پڑھنے کو ملتی ہیں، اس قدر جامعیت سے یہ چیزیں کہیں اور کم ہی نصیب ہوتی ہیں۔
تصحیح:l (جولائی ۲۰۱۵ئ) درست: تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا نہم (ص۱۴، سطر ۱۲) /درست: ملائِ اعلیٰ (ص ۴۲، سطر ۱۷) l (جون ۲۰۱۵ئ) درست: خوب کہا امام مالک نے: (ص۱۸، سطر ۵)
جن بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ اتفاق کے ساتھ پاکستان کا نظامِ زندگی تعمیر کرنا ممکن ہے، ان میں اوّلین اہمیت اسے حاصل ہے کہ قرآن و سنت کو منبعِ ہدایت اور اوّلین ماخذ ِ قانون تسلیم کیا جائے۔
دوسری بنیاد جس پر اتفاق ہوسکتا ہے ، جمہوریت ہے....
یہ بات ہم کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت کو درہم برہم کر کے آمریت کی راہ پر چل پڑنا جتنا آسان ہے، جمہوریت کی طرف پھر پلٹ آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ آمریت خواہ پُرامن طریقے ہی سے قائم ہو، بہرحال پُرامن طریقے سے دفع نہیں ہوسکتی، اور اس امر کی بھی کوئی ضمانت کسی کے پاس نہیں ہے کہ جو لوگ ابتداء ً آمریت کے سربراہ کار ہوں وہی ہمیشہ اس کے سربراہ کار رہیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کل بساط اُلٹ جائے اور آمر خود مامور ہوکر رہ جائیں، بلکہ آمریت کے شکار ہوکر رہیں۔ لہٰذا تمام لوگوں کو___ جمہور کی نمایندگی کرنے والوں کو بھی اور آمریت کی طرف رجحان رکھنے والوں کو بھی___ اس طرح کا کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ آیا وہ آمریت کے اُن نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جو بہرحال اس کے فطری نتائج ہیں؟
آمریت خواہ کتنی ہی خیراندیش ہو اور کیسی ہی نیک نیتی کے ساتھ قائم کی جائے، اُس کا مزاج اس کے اندر لازماً چند خصوصیات پیدا کردیتا ہے جو اس سے کبھی دُور نہیں ہوسکتیں، اور ان خصوصیات کے چند لازمی اثرات ہوتے ہیں جو مترتب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ وہ تنقید کو برداشت نہیں کرتی۔ وہ خوشامد پسند ہوتی ہے۔ وہ اپنے محاسن کا اشتہار دیتی اور عیوب پر پردہ ڈالتی ہے۔ اس میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ خرابیاں بروقت نمایاں ہوجائیں اور ان کا تدارک کیا جاسکے۔ وہ عام راے اور افکار و نظریات سے غیرمتاثر ہوتی ہے۔ اس میں ردّ و بدل کسی کھلے کھلے طریقے سے نہیں بلکہ درباری سازشوں اور جوڑتوڑ سے ہوتا ہے جنھیں عوام الناس صرف تماشائی ہونے کی حیثیت سے دیکھتے رہتے ہیں۔ اس میں صرف ایک محدود طبقہ ملک کے سارے دَر وبست پر متصرف ہوتا ہے اور باقی سب بے بس محکوم بن کر رہتے ہیں۔ اس کے تحت یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ پوری قومی طاقت دلی رضا اور ارادے کے ساتھ کسی مقصد کے لیے حرکت میں آسکے۔ اس کا آغاز چاہے کتنی ہی نفع رسانی کے ساتھ ہو، انجامِ کار وہ ایک جابر طاقت بنے بغیر نہیں رہتی اور عام لوگ بیزار ہوکر اس سے خلاصی کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں۔ مگر خلاصی کے جتنے پُرامن راستے ہوتے ہیں وہ انھیں چُن چُن کر بند کردیتی ہے اور مجبوراً ملک ایسے انقلابات کی راہ پر چل پڑتا ہے جو مشکل ہی سے اس کو کسی منزلِ خیر پر پہنچنے دیتے ہیں۔ (’اشارات‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۴۴، عدد۶،ذو الحجہ ۱۳۷۴ھ، اگست ۱۹۵۵ء ،ص۲،۵)
______________