دسمبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

کشمیر پر کمانڈو صدر کی اُلٹی زقند

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۰۴ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اک نشترِزہرآگیں رکھ کر نزدیک رگِ جاں بھول گئے!

اُمت مسلمہ کے مصائب اور آلام کی آج کوئی انتہا نہیں ہے۔ ہر سطح پر بگاڑ ہے اور سارا جسم زخم زدہ‘ گویا ’’تن ہمہ داغ داغ شد‘‘ کی کیفیت ہے۔ لیکن سب سے بڑا المیہ ایمان‘ معاملہ فہمی اور عوام کے جذبات اور احساسات کے ادراک کے باب میں ہماری قیادت کا افلاس اور دیوالیہ پن ہے جس نے دل و دماغ کو سوچنے اور صحیح راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ جنھیں معاملات کا امین بنایا گیا تھا‘ وہ اپنی اُمت کی دولت کو خود ہی برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دلوں کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے‘ مگر انسانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر پر حکم لگائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوںپر حکمران بلکہ قابض قیادتوں کے اعمال اور اعلانات کو دیکھ کر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے  ع

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اس المیے کا تازہ ترین مظہر وہ بیان ہے جو جنرل پرویز مشرف نے کشمیر جیسے نازک اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مسئلے پر ۲۵ اکتوبر کو اپنے ہی وزیراطلاعات کی طرف سے دی جانے والی افطار پارٹی میں اپنے ہی ملک کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے‘ بڑی سہل انگاری بلکہ دیدہ دلیری سے‘جو زبان پر آیا بس کہہ ڈالا (off the cuff) کے انداز میں دے ڈالا اور اس کے عواقب اور مضمرات کا کچھ بھی خیال نہ کیا۔ اب خود وطن عزیز کے سنجیدہ فکر عناصر کے منفی ردعمل اور اس سے بھی بڑھ کر بھارت کی بے حسی اور سینہ زوری دیکھ کر ان کی اور ان کے حواریوں کی طرف سے عجیب عجیب تاویلات کی جارہی ہیں اور عالم یہ ہے کہ   ع

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

اہلِ دانش تو بچے کو بھی یہ سکھایا کرتے تھے کہ پہلے بات کو تولو‘ پھر منہ سے بولو‘ لیکن ہماری قیادت کا عالم یہ ہے کہ منہ سے بولنے کے بعد بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔  اب ارشاد ہو رہا ہے کہ مجھے misrepresent ] غلط پیش[کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کس نے misrepresent کیا؟ آپ کے اپنے وزیراطلاعات نے؟ آپ کے اپنے منتخب صحافیوں نے؟ آپ نے خود ہی تو ان سے کہا تھا:

ہم کیا چاہتے ہیں؟ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اور اس پر بحث کرنا چاہیے۔

میری نظر میں consensus ]اتفاق راے[ وہ ہوگی جو آپ debate ]بحث[ کروائیں۔ میں سن رہا ہوں گا‘ دیکھ رہا ہوں گا‘ ٹی وی پر میڈیا پر لوگ کیا باتیں کر رہے ہیںاور وہی consensus ہوتا ہے۔ کوئی ووٹنگ نہیں ہوتی ہے اس میں۔ اُسی سے میں judgment ]اندازہ اور فیصلہ[کروں گا کہ ok ] ٹھیک ہے[ یہ میرے خیال میں لوگوں کو پسند ہوگا۔ وہ لے کر پھر بات کروں گا… میری آپ سے درخواست ہے کہ اس پر بحث کا آغاز کریں‘ اس پر لکھیں‘ debate کروائیں‘ لوگوں کو بلائیں اور ان سے بات کروائیں۔ (بحوالہ ۲۵اکتوبر ۲۰۰۴ء کی تقریر کا سرکاری متن)

اگر کسی نے misrepresent کیا ہے تو وہ خود جنرل پرویز مشرف ہی ہیں‘ کوئی اور نہیں۔ پتا نہیں انھوں نے خود اپنے کو  misrepresent کیاہے یا نہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان‘ پاکستانی قوم اور اس مسئلے پر قائداعظم سے لے کر اب تک کے قومی اجماع (national consensus) کو خود انھوں نے بری طرح misrepresent کیا ہے۔ انھوں نے جس قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے‘ اس پر ان کا بھرپور مواخذہ (impeachment) ہونا چاہیے۔

کشمیر پر قومی موقف

کشمیر پر قومی اجماع جن امور پر ہے اور قائم رہ سکتا ہے‘ وہ یہ ہیں:

                ۱-            جموں و کشمیر کی ریاست ایک وحدت ہے‘ اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا ہے۔

                ۲-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے‘ اس کے دو تہائی علاقے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے‘ نام نہاد الحاق ایک ڈھونگ اور دھوکا ہے جسے کوئی دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں۔

                ۳-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے جسے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی انتظام میں استصواب راے کرایا جائے گا۔

                ۴-            کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا تنازع ہے‘ نہ سرحد کی صف بندی کا معاملہ ہے‘ اور نہ محض پاکستان اور بھارت میں ایک تنازع ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام ---جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔

                ۵-            کشمیر بھارت کے لیے غاصبانہ ہوسِ ملک گیری کا معاملہ ہے اور پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق ان بنیادوں سے ہے جن پر پاکستان قائم ہوا اور تقسیمِ ہند عمل میں آئی۔ اس کے ساتھ اس کا تعلق ریاست کے مسلمانوں کے (جن کو عظیم اکثریت حاصل ہے) مستقبل اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات‘ نیز معاشی اور تہذیبی وجود سے بھی ہے۔

ان پانچ امور پر قومی اجماع تھا اور ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۸ئ‘ ۵ جنوری ۱۹۴۹ء اور سلامتی کونسل کی دوسری قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دوراقتدار کے اولین برسوں میں اسی موقف کا اظہار کیا اور ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی تقریر میں جنگِ آزادی اور دراندازی کے بارے میں ایک ابہام کے اظہار کے بعد‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ء کو مظفرآباد میں آزاد کشمیر کی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اصولی موقف کا ایک بار پھر پوری قوت اور صراحت سے اعادہ کیا اور قومی موقف پر ڈٹ جانے کے عزم کا اظہار کیا جسے  موجودہ پسپائی کی اہمیت اور سنگینی کو سمجھنے کے لیے ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔

پرویز مشرف صاحب کہتے ہیں:

گذشتہ برسوں سے ۵ فروری ہم سب کے لیے ایک اہم دن ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ اس دن پاکستان کی حکومت اور عوام بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے یک جہتی کو تازہ کرتے ہیں‘ اور کشمیری عوام کو ان کے لاینفک حق خودارادی کی شان دار جدوجہد میں غیر متزلزل‘ واضح اور جائز حمایت کو تقویت دیتے ہیں۔ آج ہم تنازع کشمیر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تنفیذ کے لیے اپنے عہد کو تازہ کرتے ہیں‘ اور بین الاقوامی برادری خصوصاً ہندستان کو وہ حلفیہ وعدہ یاد دلاتے ہیں جو کشمیر کے عوام سے کیا گیا تھا کہ انھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہم ہندستان کے غیر قانونی قبضے کے خلاف اہلِ کشمیر کی جدوجہد کے شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

گذشتہ ۱۳ برسوں میں کشمیریوں کی حق خود ارادی کی جدوجہد نے خصوصی طور پر سخت لیکن المناک منظر دیکھا ہے۔ ۷ لاکھ بھارتی افواج نے ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ایسی روش اختیار کی جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس عرصے کے دوران ۸۰ ہزار سے زیادہ کشمیری شہید کیے گئے ہیں۔ ہزاروں کو تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ معذور ہوگئے ہیں اور ہزاروں تعذیب خانوں اور نظربندی مراکز میں انتہائی بے بسی کی حالت میں محبوس ہیں۔

خلاصہ یہ کہ کشمیر کے نوجوانوں کو عملاً انتہائی بے رحمی اور منظم انداز سے ختم کیا جا رہا ہے۔ بھارتی قابض فوجوں کا ایک خصوصی ہدف خواتین ہیں۔ بھارتیوں کا گھنائونا ہدف یہ ہے کہ کشمیر کے عوام کو جبراً جھکا دیا جائے اور انھیں مجبور کیا جائے کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کے استعمال کا مطالبہ ترک کر دیں۔

خواتین و حضرات! مقبوضہ ریاست کے ایک کروڑ عوام کو ان کے آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا ان کا حق‘ وقت گزرنے کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی برادری کی ناکامی نے ان کے جواز کو کم نہیں کر دیا۔

بھارت آزادی کی تحریک کو بدنام کرنے کی ایک بدباطن عالمی مہم میں مصروف ہے۔ وہ الزام لگاتا ہے کہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی باہر سے پاکستان کے ذریعے سرپرستی کی جارہی ہے۔ اس نے اس کو سرحد پار دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ وہ مغرب کے خدشات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی راے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔

بھارت پاکستان پر کشمیر میں پراکسی وار کا الزام لگاتا ہے۔ یہ سوال کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اگر کشمیر کی جدوجہد کو باہر سے منظم کیا جا رہا ہے تو وہ ۸۰ ہزار شہدا کون ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں دفن ہیں۔

خواتین و حضرات! کوئی بھی بیرونی عنصر کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو‘ عوام کی خواہشات کے علی الرغم کسی بھی تحریک کو اس پیمانے پر‘ اس شدت سے‘ اتنے طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کی بھاری بھرکم فوجی مشین کی‘ مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی جبری طاقت کے کلّی استعمال اور قوانین کے بلاامتیاز استعمال کے باوجود‘ آزادی کی تحریک کو کچلنے میں ناکامی کشمیری جدوجہد کی مضبوطی‘ مقبولیت اور مقامی ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ جدوجہد کشمیر کے عوام کے دل و دماغ میں پیوست ہے۔ اس کے لیے وسائل اور توانائی کا مخزن بہادر کشمیری مردوں اور عورتوں کا خون پسینہ اور ان کے قائدین کا استقلال و عزم ہے۔

بھارت چاہتا ہے کہ ’سٹیٹس کو‘ کی بنیاد پر سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے قبضے کو مستحکم کرے اور فوجی حل مسلط کرے۔ اس طرح کی کوششیں دنیا میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اصولوں اور فیصلوں سے انحراف تنازعات اور سنگین صورت حال میں اضافے اور طوالت کا باعث ہوا ہے۔ کشمیر کوئی استثنا نہیں ہے۔دوسرے عالمی مسائل  کی طرح تنازع کشمیر کو بھی اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کی بنیاد پر اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔

خواتین و حضرات! میں اپنے کشمیری بھائیوں کو واضح یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت‘ عوام اور میں خود اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے‘ اور ان کی منصفانہ اور عظیم جدوجہد کی مکمل سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ (آزاد جموں اورکشمیر اسمبلی اور جموں اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ئ)

ہم نے یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کی زبان سے قومی اجماع کا واضح اور مکمل اظہار تھا اور قوم آج بھی اس پر قائم ہے مگر جنرل صاحب نے ایک الٹی زقند لگاکر قومی اتفاق راے کو پارہ پارہ کرنے اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کو بھارت اور امریکا کے عزائم اور مطالبات کے تابع کرنے کی مجرمانہ جسارت کی ہے اور کچھ حاصل کیے بغیر لچک کے نام پر وہ سب کھو دیا ہے جو ہمارا سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی سرمایہ اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی تقویت کا سامان تھا اور اب خود بھی جھینپ مٹانے کے لیے اصولی موقف کی طرف پلٹنے کی بات کر رہے ہیں۔

کشمیر پالیسی میں تبدیلی

یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کے بیان کے بعد دیے جانے والے بیانات میں ۵ فروری کے بیان کو چھوڑ کر ایک طے شدہ انداز(pattern ) نظر آتا ہے۔ انھوں نے آہستہ آہستہ پسپائی اختیار کی۔ جنرل صاحب کی پسپائی کا نقطۂ عروج ان کا ۲۵ اکتوبر کا بیان ہے جو دائرہ پورا کر کے قومی کشمیر پالیسی کی یکسر نفی پر منتج ہوا۔

                ___        پہلے دبے لفظوں میں ’’سرحد پار مداخلت‘‘ کو بند کرنے کی بات کی گئی۔

                ___        پھر پاکستانی زمین کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کا اعلان ہوا (حالانکہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں اور لائن آف کنٹرول کسی سرحد کا نام نہیں اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ایک ہی قوم آباد ہے)

                ___        پھر کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی عملی اعانت اور تعاون سے بڑی حد تک دست کشی اختیار کی گئی۔

                ___        پھر ایک انٹرویو میں رائٹر کے نمایندے سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالاے طاق رکھنے ( set aside کرنے) کا مجرمانہ اعلان کسی قانونی یا سیاسی اختیار کے بغیر کرڈالا گیا۔

                ___        اور اب ۲۵ اکتوبر کے بیان میں جسے بظاہر غوروفکر کے لیے لوازمہ (food for thought ) کہا جا رہا ہے‘ اور جو ہر قسم کے thoughtسے عاری ہے‘ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۹۷ء تک دس بار مختلف شکلوں میں بیان کردہ نام نہاد آپشن ( option) کو اپنے زعم میں ایک نئے راستے لیکن حقیقت میں پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کے طور پر پیش کیا ۔ اس سے بھی زیادہ بات یہ کی کہ اسے ایک خود ساختہ مگر برخود غلط اصول کے نام پر پیش کیا کہ جو چیز بھارت کے لیے ناقابلِ قبول (unacceptable) ہے‘ اس سے ہٹ کر راستہ نکالنا چاہیے۔

یہ بڑی ہی بنیادی تبدیلی ہے جسے اسٹرے ٹیجک پسپائی اور بھیانک سیاسی غلطی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ بنیادی مفروضہ ہی ناقابلِ قبول ہے اس لیے کہ مسئلہ بھارت یا پاکستان کا قبول کرنا یا نہ کرنا نہیں بلکہ اصولی مسئلہ ہے جس کا تعلق ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت سے ہے۔ اس اصول کا انحصار کسی کی پسند اور ناپسند پر نہیں۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو پھر دنیا بھر کی سامراجی قوتوں سے گلوخلاصی کا تو کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا اس لیے کہ کوئی قابض قوت کبھی بھی اپنے تسلط کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ اسے مجبور کر دیا جائے اور اس کے لیے قبضہ جاری رکھنا ممکن نہ رہے۔

دوسرا انحراف یہ کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کی وحدت کو سات حصوں میں پارہ پارہ کرتے ہوئے مسئلے کا مرکزی نقطہ (focus) ہی بدل دینے کی حماقت کی گئی ہے۔ اصل مسئلہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق (accession) کا ہے جسے تبدیل کر کے ریاست کی تقسیم (division) کا مسئلہ بنا دیا گیا۔

تیسری بنیادی چیز ان علاقوں کی حیثیت (status)کی ہے جس میں بلاسوچے سمجھے امریکا کے عالمی کھیل کے لیے دروازے کھولنے کے لیے آزادی‘ اقوام متحدہ کی تولیت اور بھارت اور پاکستان کے مشترک انتظام کے تصورات کو مختلف امکانات کی شکل میں پیش کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی ادراک تک نہیں کیا گیا کہ ان میں سے ہر ایک کے پاکستان کی سالمیت‘ حاکمیت اور علاقے کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور ان عوام کے دل پر کیا گزرے گی جو ۵۷ سال سے بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔

چوتھی چیز شمالی علاقہ جات کے مسئلے کو نہایت سہل انگاری اور عاقبت نااندیشی سے سات میں سے ایک حصے کے طور پر پیش کر دیا گیاہے حالانکہ اس سلسلے میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے اسے استصواب کے سلسلے میں جموں و کشمیر کی ریاست کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے ایک اسٹرے ٹیجک پردے میں رکھا تھا۔ اس کی اہم تاریخی اور علاقائی وجوہ تھیں کہ تقسیم سے قبل کشمیر کی اسمبلی میں نمایندگی کے باوجود یہ علاقہ اس طرح کشمیر کا حصہ نہیں تھا جس طرح باقی ریاست تھی اور نہ یہ اس خرید و فروخت کا حصہ تھا جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر پر ڈوگرا حکمرانی قائم ہوئی تھی۔ نیز یہ علاقہ وہاںکے لوگوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں شامل ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ آزاد کشمیر کا حصہ نہیں شمار کیا گیا۔چین سے ہمارے سرحدی رشتے کا انحصار اس حصے پر ہے جو چین کے دو اہم صوبوں سے ملحق ہے۔ جنرل صاحب نے شوق خطابت میں ان تمام نزاکتوں کو نظرانداز کر کے اس علاقے کو بھی ’’آزادی‘‘ بین الاقوامی تولیت اور بھارت کے ساتھ مشترک کنٹرول کی سان پر رکھ دیا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

سیاست‘ حکومت اور سفارت کاری کی نزاکتوں سے ناواقف جرنیل جب بھی اقتدار پر غاصبانہ قبضہ جماکر ایسے معاملات سے نبٹتے ہیں اور فردِ واحد کو اجتماعی اور اداراتی فیصلہ کاری سے ہٹ کر قوموں کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار مل جاتا ہے تو پھر ایسی بھیانک غلطیاں اور ٹھوکریں اس قوم کی قسمت بن جاتی ہیں۔

مغربی تجزیہ نگار اور بہارتی مبصرین کی رائے

پاکستانی قوم اور اس کے معتبر سیاسی قائدین تو اس سیاسی غارت گری( vandalism ) پر آتش زیرپا ہیں لیکن دیکھیے کہ مغربی تجزیہ نگار اور خود بھارتی سیاسی‘ صحافتی دانش ور‘ جنرل صاحب کی ان ترک تازیوں کو کس رنگ میں دیکھ رہے ہیں۔

سب سے پہلے برطانیہ کے رسالے ہفت روزہ اکانومسٹ (۳۰ اکتوبر تا ۶ نومبر ۲۰۰۴ئ) کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں جسے اس نے ’کمانڈو ڈپلومیسی‘ کا عنوان دیا ہے:

گذشتہ ۱۸ مہینوں سے بھارت اور پاکستان اپنے ۵۷ سالہ جھگڑے کے تصفیے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امن کے دو متوازی عمل جاری ہیں۔ ایک میں رکھ رکھائو والے سفارت کار جامع مذاکرات میں مصروف ہیں۔ دوسرا پاکستان کے صدر جنرل مشرف کا انفرادی مظاہرہ (solo show) ہے۔ بعض اوقات وہ سفارتی خندقوں سے تھک کر اوپر آجاتے ہیں اور عوامی سطح پر تبادلۂ خیالات کرتے ہیں۔ ان کے ابلاغی منتظمین (media managers) کو سوچنا چاہیے کہ جو ایک دفعہ کمانڈو بن گیا وہ ہمیشہ کے لیے ایک کھلی بندوق ہے (once a commando, always a loose cannon)۔ ان کے تازہ ترین ارشادات اب تک کے سب سے زیادہ غیر سفارتی ہیں۔ بھارت سے اپنے مرکزی تنازعے‘ یعنی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل مشرف اب تک عمومی اصولوں پر قائم رہے ہیں۔ کشمیر لائن آف کنٹرول کے ذریعے بھارتی اور پاکستانی انتظام کے حصوں میں تقسیم ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اسے مستقل سرحد تسلیم نہیں کرتا۔ جنرل مشرف نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ یہ ’سٹیٹس کو‘ کسی حل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ وہ کہتے ہیں یہ تنازع ہے اوریہی تین جنگوں کا سبب ہے۔ تازہ ترین جنگ ۱۹۹۹ء میں ہوئی۔

بہرطور ۲۵ اکتوبر کو ایک افطار ڈنر میں جنرل مشرف اپنے خیالات کو دو قدم آگے لے گئے۔

اول : وہ یہ قبول کرتے دکھائی دیے کہ جس طرح لائن آف کنٹرول پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے‘ اسی طرح استصواب کے لیے پاکستان کا مطالبہ جس میں کشمیری بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں گے‘ بھارت کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔

دوم: انھوں نے دوسرے متبادلات (options) کو بیان کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کے سات علاقے ہیں‘ دو پاکستان میں اور پانچ بھارت میں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں سے کچھ یا سب کو غیر فوجی کر دیا جائے اور ان کی حیثیت تبدیل کر دی جائے۔ جس کا نتیجہ آزادی ہو سکتا ہے‘ بھارت پاکستان کے درمیان کانڈومینیم (condominium)  ]ایسا علاقہ جہاں دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں[ ہوسکتا ہے یا اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ۔

بہرحال شک و شبہے کی وجوہات ہیں۔ جنرل صاحب کی تجاویز کی اس وقت جو شکل ہے اس میں ان خیالات کی بازگشت سنی جا سکتی ہے جو عرصے سے فضا میں گردش کر رہے ہیں اور جو بھارت کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔بدتر بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس کے ذریعے بات چیت کا مطلب یہ ہے کہ دونوں فریقوں میں خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اس قسم کے خیالات پر کوئی ابتدائی بات بھی نہیں ہوئی ہے۔

بھارت نے سرد مہری کے ساتھ رسمی ردعمل دیا اور کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے کشمیر پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مگر اس نے کم سے کم ان خطوط پر بات چیت کو یکسر خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ شاید اس کو اندازہ ہے کہ جنرل مشرف ملک کی مذاکرات کی پوزیشن میں انقلابی تبدیلی کے لیے راے عامہ ہموار کرنے کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو اس کی ضرورت ہے۔ ان کے مخالفین نے ابھی سے ہی ان پر کشمیر کی فروخت کی سازش کا الزام لگا دیا ہے۔

اپنے اقتدار کے پانچ سال میں جنرل مشرف نے اپنی حکومت کو پالیسی کی کچھ غیرمعمولی تبدیلیوں سے گزارا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے پروردہ طالبان کو گہری کھائی میں پھنسا دیااور ایٹمی معلومات فروخت کرنے کے الزام پر ایک قومی ہیرو عبدالقدیر خان کی توہین کی۔ اس سب پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے جس پر انھوں نے اب تک قابو پایا ہے۔ اب انھوں نے غالباً اب تک کی سب سے مشکل فروخت شروع کر دی ہے: اپنے اہلِ وطن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ کشمیر پہ اپنے بیش تردعووں سے دست بردار ہوجائیں۔

جنرل صاحب کے ابلاغی منتظمین اور وہ خود اپنی ان تجاویز پر جو بھی روغن چڑھائیں‘ ان کا ماحصل کشمیر پر اپنی قومی پالیسی اور اہداف سے مکمل طور پر دست کش ہونا اور تحریکِ آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے سوا کچھ نہیں۔ دیکھیے خود بھارت کے دانش وروں اور تجزیہ نگاروں نے اسے کس رنگ میں دیکھا ہے۔

انڈین ایکسپریس (۲۷ اکتوبر ۲۰۰۴ئ) میں سی راجا موہن لکھتا ہے:

جنرل مشرف کی تجویز ہے کہ ریاست میں لائن آف کنٹرول کے پار جموں و کشمیر کا ایک حصہ باہمی سمجھوتے کے تحت متعین کیا جائے‘ وہاں سے فوجیں ہٹا لی جائیں اور اس علاقے کی سیاسی حیثیت کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہ تجویز پاکستان کے ہمیشہ سے قائم کئی مضبوط موقفوں سے انحراف کیا ہے‘ یعنی:

اول: استصواب راے کے خیال کو ایک طرف رکھنے سے جنرل مشرف نے یہ اشارہ دیاہے کہ پاکستان کا اپنا ہی پروردہ خود ارادیت کا نظریہ جموں و کشمیر میں عملاً بروے کار نہیں آسکتا۔

دوم: انھوں نے اس تصور کو ترک کر دیا ہے کہ پاکستان جموں و کشمیر کے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے شامل کر لے۔

سوم : تیسری اور زیادہ اہم تبدیلی یہ ہے کہ نام نہاد شمالی علاقوں کو بھی معاملے کا حصہ بنا دیا ہے حالانکہ ۱۹۷۲ء کے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان نے شمالی علاقوں(بلتستان اور گلگت) کو پاکستانی ]آزاد[ کشمیر سے انتظامی طور ر علاحدہ کر دیا تھا۔

بھارت کے اہم روزنامے دی ہندو کی ۸ نومبر کی اشاعت میں جان شیرین نے مشرف صاحب کی تجاویز پر بھارت کے سفارت کاروں کے ردعمل کو یوں بیان کیا ہے:

بھارت کے سفارتی مبصرین نے جنرل مشرف کی نئی پہل کاری میں کشمیر پر پاکستان کے قدیم موقف سے انحراف کو نوٹ کیا ہے۔ پہلی دفعہ ایک پاکستانی صدرِ ریاست نے اشارہ دیا ہے کہ لائن آف کنٹرول دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد کے لیے اندازاً خدوخال فراہم کرسکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کرلیا ہے کہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقے جو پاکستانی انتظام میں ہیں‘ متنازعہ علاقے ہیں۔

جنرل مشرف کی نئی تجویز نے استصواب کے مسئلے کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اس کے بجاے منقسم جموں و کشمیر کے سات علاقوں کو متعین کیا ہے۔ جنرل مشرف نے جو خیال پیش کیا ہے‘ اس کے مطابق ساتوں علاقوں کے لوگ علاحدہ علاحدہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

جان شیرین نے سری نگر مظفرآباد بس سروس اور گیس کی پائپ لائن کا بھی ذکر کیا ہے کہ اب پاکستان ان تمام امور کا کشمیر کے ’’کور ایشو‘‘ کے بنیادی مسئلے سے تعلق توڑنے (delink) کے لیے تیار ہے اور اس قلب ماہیت میں امریکا کا خصوصی کردار ہے جس کا امریکا کے وزیرخارجہ کولن پاول صاحب نے اپنے ۱۸ اکتوبر کے ایک بیان میں کریڈٹ لے بھی لیا ہے۔

دی ہندو کے ۸ نومبر ہی کے شمارے میں ایک اور تجزیہ نگار لوو پوری کا تبصرہ بھی توجہ کے لائق ہے:

صدر (جنرل مشرف) پاکستان کے وہ پہلے صدر ریاست ہوگئے جنھوں نے کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کی اس حقیقت کا اعتراف کیا جس پر کم بحث کی گئی ہے‘ یعنی جموںو کشمیر لسانی‘ نسلی اور جغرافیائی اور مذہبی طور پر ایک منقسم ریاست ہے اور کوئی بھی حل اس ناقابلِ تردید حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔

پاکستانی صدر نے پہلی دفعہ اس اہم حقیقت کو بیان کیا ہے کہ پاکستانی ]آزاد[کشمیر اور وادی کشمیر میں بہت کم قدرِ مشترک ہے‘ اس لیے کہ دونوں کی مختلف نسلی اور لسانی بنیادیں ہیں… مشرف کی تجویز گیلانی کی اس پرانی تجویز کے خلاف ہے کہ جموںو کشمیر کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے اور چونکہ یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے‘ اس لیے پاکستان کے حق میں رائے دے گی۔

مشرف کے فارمولے کے ماخذ کے بارے میں اشارہ پاکستان کی حامی جمعیت المجاہدین کی قیادت کے ردعمل سے سامنے آتا ہے:جنرل مشرف ایک امریکی حل کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح کشمیر کے مسئلے پر نظریاتی پسپائی دکھا رہے ہیں اور کشمیر کے عوام سے دغابازی کررہے ہیں۔

جب واقعات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے نئے فارمولے کے پیچھے بین الاقوامی ڈور بہت واضح ہو جاتی ہے۔ یکم دسمبر ۱۹۹۸ء کو تاجر فاروق  کاٹھواڑی (جو اصلاً وادی کشمیر کا باشندہ ہے) کی سربراہی میں کام کرنے والے کشمیر اسٹڈی گروپ نے ایک رپورٹ میں تجویز دی تھی:

’’جموں و کشمیر کی سابقہ ریاست کے ایک حصے کو (کسی بین الاقوامی تشخص کے بغیر) ایک خودمختار وحدت کے طور پر تشکیل دیا جائے جس میں پاکستان اور بھارت دونوں طرف آنے جانے کی سہولت حاصل ہو‘‘۔ دراصل یہ تجویز زمینی اور آمدورفت کی رکاوٹوں کے باوجود کشمیری زبان کے حوالے سے نئی ریاست کی تہذیبی ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتی ہے۔

آخری نتیجے کے طور پر اس گروپ نے جس کے کئی ارکان امریکی ایوانِ نمایندگان کے رکن ہیں یا دانش ور ہیں‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان وادی کشمیر کے لیے کنڈومونیم (ایسا علاقہ جس میں دو خودمختار ریاستوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں) کا کیس پیش کر دیا تھا۔ تقریباً چھے سال بعد صدر مشرف ایک حل کے طور پر کنڈومونیم کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس طرح ایک متحدہ جموں و کشمیر میں استصواب راے کے پاکستان کے سخت اور اصرار کیے جانے والے مطالبے کو ایک دم ترک کر دیتے ہیں۔ صدر مشرف کے تجویز کردہ سات حصوں کی مشابہت ان سات علاقوں تک جاتی ہے جن کا تعین کاٹھواڑی رپورٹ کے دوسرے حصے میں کیا گیا ہے جو بعد میں آئی۔ (فرنٹ لائن‘ ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۹ئ)

اس میں ایک تفصیلی نقشے کے ساتھ سات تجاویز ہیں جو امریکا کے سیاسی جغرافیے کے ماہرین کی مدد سے تیار کی گئی ہیں۔ ساتوں تجاویز میں کمیونل فالٹ لائن (مذہبی بنیادوں پر علیحدگی) واضح طور پر نظر آتی ہے۔ رپورٹ کی چھے تجاویز میں جموں و لداخ کے علاقوں کی تقسیم کی تجویز دی گئی ہے۔ تقسیم کے لیے اصل بنیاد مذہب محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ زبان‘ ثقافت اور معیشت کے بندھنوں کو کم اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک مکمل آزاد مسلم ریاست تخلیق کی جائے۔

اسی روزنامے میں ایک اور صحافی اور دانش ور مرالی دھر ریڈی‘ جنرل صاحب کے ۲۵ اکتوبر کے خطاب پر ۲۹ اکتوبر کی وزارت خارجہ کی توضیحات پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ جنرل صاحب نے جو کچھ کہا‘ وہ ایک کمانڈو کے انداز کا مظہر ہے اور وہ اپنے یوٹرن کے لیے فضا بنانے کے لیے یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں:

تجویز پر ایک نظرڈالنا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کو ۱۹۴۷ء کے بعد سے پاکستانی انتظامیہ کی کشمیر پالیسی کے بارے میں ایک بالکل نئی سوچ کا عنوان دیا جائے۔ پاکستان کا بیان کردہ موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نافذ کیا جائے اور کشمیریوں کو موقع دیا جائے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا۔

اس تبدیلی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے ریڈی کہتا ہے:

ایک ایسے موڑ پر جب بھارت کے ساتھ مکالمہ جاری ہے‘ کس چیز نے مشرف کو اپنی تجویز کو عوام کے سامنے لانے پر آمادہ کیا؟ نئی تجویز ۱۱؍۹ کے اثرات کا منطقی نتیجہ نظرآتی ہے۔ مشرف کو افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے لاتعلقی پر اس وقت مجبور ہونا پڑا جب ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک میں جڑواں ٹاور زمین بوس ہوگئے۔ ان قوتوں کے چیلنج نے‘ جو ’’دہشت گردی ‘‘کے خلاف امریکا کے نام نہاد اتحاد میں پاکستان کی شرکت کی مخالف ہیں‘ پاکستان کے اندر اس بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ کشمیر پر ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے۔

ایک اور بھارتی روزنامے دی ٹربیون میں ڈیوڈ دیوداس نے کشمیر ڈائری کے عنوان  سے ۱۰ نومبر کی اشاعت میں بڑی دل چسپ اور کھری کھری باتیں لکھی ہیں جن پر پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور سیاسی قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے بلکہ سردھننا چاہیے:

بے چارہ جنرل مشرف! کشمیر کے بارے میں انھوں نے حال ہی میں جو تجویز دی ہے‘ اس کی تاریخی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے سرحد کے اس طرف کے ردعمل سے ان کو شدید طور پر ناامید ہونا چاہیے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جولائی ۲۰۰۱ء میں انھوں نے آگرہ میں اہتمام کر کے میڈیا میں جو نئی اٹھان (come uppance) حاصل کی وہ انھوں نے کھلی کھلی باتیں کر کے نمبر بناکر حاصل کی۔ لیکن اس دفعہ اسی انداز کے کھلے پن نے ان کو ایک تکلیف دہ صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ انھوں نے پاکستان کی سوداکاری کی پوزیشن کو علانیہ بیان کر کے‘ جس پر دونوں ممالک بالآخر راضی ہو سکتے ہیں‘ بے حد محدود کر دیا۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے اپنے ملک میں اپنے مخالفین کے ہاتھ میں اپنی ٹھکائی کے لیے موٹا ڈنڈا تھما دیا ہے۔

جنرل صاحب کو خاص طور پر جسونت سنگھ کا ردعمل پڑھ کر پریشانی ہوئی ہوگی جنھوں نے بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے کسی تصفیے کی تلاش میں سرحدوں میں تبدیلی کو مسترد کر دیا۔ مسٹرسنگھ این ڈی اے کی حکومت میں مختلف اوقات میں وزیرخارجہ‘ وزیر دفاع اور وزیر خزانہ رہے ہیں۔ صدر مشرف نے جس حل کا ذکر کیا ہے اس کے بہت قریب کے حل پر اس وقت بحث ہوئی ہے‘ جب کہ این ڈی اے کی حکومت تھی…

معلوم ہوتا ہے کہ جنرل صاحب جس چیز کو آخری پیش کش ہونا تھی‘ وہاں سے مذاکرات کا آغاز کر کے انتہائی پیچیدہ صورت حال کا شکار ہوگئے ہیں۔ بلاشبہہ یہی ایک سپاہی اور سیاست دان کا فرق ہے۔ غالباً ان کا اعتماد اس ملاقات کی بنیاد پر ہے جو انھوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ستمبر میں وزیراعظم من موہن سنگھ  کے ساتھ کی تھی۔ یقینا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جس آدمی سے بات کر رہے ہیںوہ سیاست کی غیریقینی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا اور ایک دانش ور کی طرح حقائق پر انحصار کرتا ہے۔

اگر یہ سچ ہے تو صدر مشرف کو دو عوامل کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ پہلا: ڈاکٹر سنگھ نے ایک طویل مدت ایک کامیاب بیوروکریٹ کے طور پر گزاری ہے۔ دوسرا: اگر وہ سیاست دانوں کے طریقوں میں کوئی دقت محسوس کرتے بھی ہیں تو بہرحال وہ سرکاری مذاکرات کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

فوجی حکمرانوں کے ملمع سازاور ابلاغی ماہرین جنرل مشرف کی ذہنی قلابازیوں اور تکے بازیوں پر جو بھی رنگ روغن چڑھانے کی کوشش کریں‘ عالمی میڈیا اور خصوصیت سے بھارتی میڈیا نے ان کی تجاویز کے اصل خدوخال کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے اور اس آئینے میں جناب کمانڈو صدر صاحب کی الٹی زقند کا اصل چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر بھارتی قیادت نے جس بے التفاتی بلکہ حقارت سے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور اپنے موقف سے سرمو ہٹنے سے انکار کردیا ہے‘ اس نے جنرل صاحب کی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اب وہ بھارت سے غلط اشاروں کا گلہ کر رہے ہیں اور کسی بچے کی طرح بلبلا کر کہہ رہے ہیں کہ اگر بھارت اٹوٹ انگ کی بات کرے گا تو ہم بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات کرنے لگیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمراں نہ برعظیم کی تاریخ کے نشیب و فراز سے واقف ہیں اور نہ ہندو قیادت کے ذہن اور عزائم کا حقیقی ادراک رکھتے ہیں۔ ان کی گرفت برہمن کی سیاست کاری‘ دھوکا دہی اور کہہ مکرنیوں پر بھی نہیں‘ اور وہ مکروفریب کے ان حربوں سے بھی ناآشنا ہیں جو کانگرس اور بھارت کی ہندو قیادت کا طّرہ امتیاز ہیں۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاست اور سفارت کاری کو اس کے مسلمہ آداب کے مطابق انجام نہ دیا جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ جو قیادت اپنے اصولی موقف کو اس سہل انگاری کے ساتھ ترک کر دیتی ہے اس کا انجام ناکامی اور ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی قیادت نے اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں یہی چوٹ کھائی اور جنرل پرویز مشرف قوم کو اسی ہزیمت اور پسپائی کی طرف لے جارہے ہیں۔ لیکن ان شاء اللہ پاکستانی قوم ان کو اس راہ پر ہرگز نہیں چلنے دے گی اور جموں و کشمیر کی عظیم جدوجہد آزادی سے کسی کو غداری کرنے کا موقع نہیں دے گی۔

شخصی آمریت کا خمیازہ

اگر جنرل مشرف کی اس اُلٹی زقند کا تجزیہ کیا جائے تو چند باتیں سامنے آتی ہیں:

اولاً‘ یہ نتیجہ ہے ملک میں جمہوری اداروں کی کمزوری‘ فردِ واحد کے ہاتھوں میں فیصلے کے اختیارات کے دیے جانے اور اس کے ہر مشورے بلکہ خیال آرائی کے قانون‘ ضابطۂ احتساب اور جواب دہی سے عملاً بالاتر ہونے کا۔ یہ اس بات کا کھلا کھلا ثبوت ہے کہ شخصی نظام سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا اور اس میں ایسی ایسی بھیانک غلطیاں ہوتی ہیں جو تاریخ کا رخ بدل دیتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جنرل صاحب کو ایسے پالیسی بیانات دینے کا اختیار کس نے دیا؟ ان کی حیثیت ایک عام تبصرہ گو کی نہیں‘ وہ پاکستان کی پالیسی کے امین اور اس کے پابند ہیں اور ان کو ذاتی خیالات کے اس طرح اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں۔ دستور کے مطابق پالیسی سازی‘ پارلیمنٹ اور اس کابینہ کا کام ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے۔ دستور میں صدر کے لیے صواب دیدی اختیارات کے تمام اضافوں کے باوجود‘ صدر کو پالیسی سازی یا طے شدہ پالیسی سے ہٹ کر بیان دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ وہ ان تمام معاملات میں کابینہ کی ہدایت کا پابند ہے۔ لیکن کیا ستم ہے کہ نہ پارلیمنٹ سے مشورہ ہوتا ہے‘ نہ کابینہ کسی مسئلے اور تجویز پر غور کرتی ہے‘ نہ وزارتِ خارجہ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور صدر مملکت ایک کمانڈو کی شان سے اتنے بنیادی امور کے بارے میں طے شدہ پالیسی سے ایسے جوہری انحراف پر مبنی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور سرکاری پارٹی کے ارکان مواخذہ کرنے کے بجاے تاویلیں کرنے اور آئیں بائیں شائیں کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اصل وجہ ایک شخص کے ہاتھوں میں اقتدار کا ارتکاز اور قومی اور اجتماعی محاسبے کا فقدان ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دیا گیا ہے۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست اور سفارت دونوں میں اصولی اور انتہائی (maximal)  پوزیشن کے بارے میں اس وقت تک کوئی لچک نہیں دکھائی جاتی جب تک مخالف قوت اپنے پتے کھیل نہیں لیتی۔ جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ بھارت کا ہے اور لچک ہم دکھا رہے ہیں۔ تجویز بھارت کی طرف سے آنی چاہیے اور ردعمل ہمارا ہونا چاہیے لیکن یہاں الٹی گنگا  بہہ رہی ہے کہ قابض قوت تو اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے‘ اور لچک ہم دکھا رہے ہیں اور  ایک خیالی آخری (minimal)پوزیشن کو بات چیت کے آغاز میں پیش کر رہے ہیں۔ایں چہ بوالعجبی است۔

وقت آگیا ہے کہ اس بات کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے کہ اس کام کے لیے مخصوص اہلیت اور ایک ایسی سیاسی قیادت جسے تاریخی حقائق اور عالمی سفارت کاری کا گہرا ادراک ہو‘ ضروری شرط ہے۔ فوج کا اپنا ایک مزاج اور تربیت ہوتی ہے اور فوجی کمانڈ کا یہ کام نہیں کہ وہ اہم اور سنجیدہ سفارتی‘ سیاسی اور فنی معاملات پر جولانیاں دکھائیں بلکہ اصول تو یہ ہے کہ فوج بلاشبہہ دفاع کے لیے ہے‘ لیکن جنگ و صلح ایسے اہم امور ہیں کہ ان کو صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پھر آمریت کا تو خاصّہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے‘ اور خود کو ہر مشورے سے بالا سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حق اور قانون کا درجہ دینے لگتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو تباہی کا سبب بنتی ہے اور انسانوں کو ہٹلر‘ مسولینی اور اسٹالن بنا کر چھوڑتی ہے۔ ان حالات میں خوشامد‘ چاپلوسی اور مفاد پرستی کا کلچر جنم لیتا ہے۔ فیصلے حقائق اور میرٹ کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے اور قومی مفاد تک کو  دائو پر لگا دیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔ کابینہ بھی کچھ اصولوں اورحدود کی پابند ہوتی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ انداز میںاعلانات اور صرف اپنی مرضی کے مطابق اتفاق راے بنوانے کے ڈرامے نہیں ہوتے۔ ادارے فیصلے کرتے ہیں اور قومی مفاد کو ذاتی ترنگ کی چھری سے ذبح کرنے کا کسی کو موقع نہیں دیا جاتا۔ دیکھیے کہ بھارتی صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر جس کو جنرل صاحب نے ۲۵اکتوبر سے ہی پہلے اپنے ان خیالات عالیہ سے روشناس کرا دیا تھا‘ بگاڑ کی اصل وجہ کو کس طرح بیان کرتا ہے:

مشرف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ ایک حکمران کو جو کچھ کرنا چاہیے وہ بس یہ ہے کہ جرأت کا مظاہرہ کرے اور لوگ اس کی پیروی کریں گے۔ مشرف کو پاکستان میں بہت سے مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ جمہوریتیں اتفاق راے کی بنیاد پر کام کرتی ہیں نہ کہ حکم دینے پر‘ حکمران کتنے ہی جرأت مند کیوں نہ ہوں… مشرف سے ملاقات کے بعد میں نے محسوس کیا کہ انھیں بھارت کے زمینی حقائق کے بارے میں کچھ زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی‘ حکمران کانگریس‘ بی جے پی یا کوئی دوسری جماعت لائن آف کنٹرول کو تبدیل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ (روزنامہ ڈان‘ ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پاکستان کی کمزوری کی اصل وجہ قیادت کا دستور‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ اجتماعی فیصلہ کاری  اور ادارتی نظم و احتساب سے بالا ہونے کا تصور رکھنا اور اس کیفیت کا مسلسل برداشت کیا جانا ہے۔ جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوگی پاکستانی قوم ۲۵ اکتوبر جیسے اعلانات کی طرح کی بھیانک غلطیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قومی مفاد سے ایسا خطرناک کھیل کھیلنے والوں کا مؤثر مواخذہ کیا جائے؟ کیا پارلیمنٹ اور قوم ایسی عاقبت نااندیش قیادت کو لگام دے گی یا اس کی سواری کے لیے بدستور اپنی پشت پیش کرتی رہے گی؟

زمینی حقائق پر نظر

اس وقت جو عالمی حالات ہیں ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ۱۱؍۹ کے بعد جو فضا بنا دی گئی ہے‘ وہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ امریکا سے دنیا بھر کے عوام کی بے زاری اور عراقی عوام کی مجاہدانہ مزاحمت اپنا رنگ دکھا کر رہے گی۔ امریکا کا جنگی بجٹ آج دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی جنگی بجٹ کے برابر ہوگیا ہے۔ امریکا کا تجارتی خسارہ اس وقت ۵۵۰ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ رہا ہے جو اس کی کل قومی پیداوار کے ۷ئ۵ فی صد کے برابر ہے۔ اسی طرح اس کے بجٹ کا خسارہ ۴۰۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ امریکا میں قومی بچت کی سطح بہت گرگئی ہے اور دنیا کی دوسری اقوام کی قومی بچت کو امریکا کے لیے استعمال کرنے پر ہی اس کی ترقی بلکہ بقا کا انحصار ہے۔ اس وقت دنیا کی بچت کا تقریباً ۸۰ فی صد یعنی تقریباً ۶ئ۲ بلین ڈالر روزانہ امریکا کی نذر ہو رہا ہے۔ نتیجتاً امریکا دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بن گیا ہے۔ امریکی قیادت اور دنیا بھر کے عوام کے درمیان خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے۔ حالات ایک نئے رخ پر جا رہے ہیں--- مسئلہ وقت کا ہے‘ صبروہمت کا ہے‘ بصیرت اور تاریخ شناسی کا ہے۔ اور وقت ہمارے ساتھ ہے بشرطیکہ ہم حکمت اور صبر کا راستہ اختیار کریں۔

اسی طرح جموں و کشمیر کے زمینی حقائق بھی غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ بھارت ریاستی ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈے استعمال کر کے بھی وہاں کے عوام کو اپنی گرفت میں رکھنے میں ناکام ہے۔ اس امر پر سب ہی کا اتفاق ہے کہ وادیِ کشمیر ہی نہیں‘ جموں تک میں بھارتی حکومت اور دہلی کے اقتدار سے مکمل بے زاری ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے جن معروف زمانہ آزاد خیال اور سیکولر صحافیوں نے مقبوضہ جموں کشمیر کا دورہ کیا تھا‘ ان میں سے ہر ایک اس پر متفق ہے کہ وہاں کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں۔ لبرل لابی کے ایک سرخیل کے الفاظ میں: alienation from Dehli is complete & irreversible. (دہلی سے بے زاری مکمل اور ناقابل رجوع ہے)۔

یہی وجہ ہے کہ اگر ۱۹۶۵ء کے زمانے میں پاکستان سے جانے والے کمانڈوز کو بھارتی فوج پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو آج کیفیت یہ ہے کہ چند ہزار مجاہدین نے سات لاکھ بھارتی فوجیوں کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ جہاد و حریت کی تمام تر جدوجہد مقبوضہ کشمیر کے جا ں نثاروں کے لہو کا ثمر ہے جس کا زندہ ثبوت ہر بستی میں وہاں کے شہیدوں کے مرقد ہیں۔ تاہم آزاد کشمیر اور پاکستان سے جو مجاہدین وہاں گئے ہیں وہ وہاں کے عوام کے ہیرو ہیں جن کو مکمل پناہ دی جاتی ہے اور شہادت کی صورت میں ۳۰‘۳۰ ۴۰‘۴۰ بلکہ ۵۰‘۵۰ ہزار افراد نماز جنازہ میں شرکت کر کے ان سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر جنازہ بھارت کے تسلط اور قبضے کے خلاف بستی بستی ایک استصواب کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ مزاحمت‘ متحدہ جہاد کونسل اور حریت کانفرنس کے قائد سید علی شاہ گیلانی نے جنرل پرویز مشرف کی تجاویز کی سخت مخالفت کی ہے اور پاکستانی قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ جب ہم اپنی جانوں کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور استبداد کی قوتوں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں توآپ کمزوری اور تھکن کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ ہم اس وقت آپ سے استقامت کی توقع رکھتے ہیں۔ اسلامی تاریخ سخت سے سخت حالات میں بھی حق کی خاطر ڈٹ جانے والوں کی تابناک مثالوں سے بھری پڑی ہے اور آج بھی فلسطین‘ عراق‘ افغانستان‘ کشمیر اور شیشان ہر محاذ پر طاقت ور دشمن کا مقابلہ کرنے والے کمزور مسلمان سینہ سپر ہیں۔ پھر پاکستان کی قوم اور قیادت کیوں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رہی ہے۔

امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جب مائوزے تنگ سے تائیوان کے بارے میں بات کی تو اس نے یہ کہہ کر کسنجر کی زبان بند کر دی تھی کہ’’ہم اس معاملے میں ۱۰۰ سال بھی انتظار کرسکتے ہیں‘‘۔

اہل جموں و کشمیر نے ۵۷ سال جدوجہد کی ہے اور ۱۹۸۹ء کے بعد سے تو ان کی جدوجہد دسیوں گنا بڑھ گئی ہے۔ کیا ایسی جرأت مند اور جان پر کھیل جانے والی قوم کی ہمتوں اور امنگوں کے باب میں ہم بحیثیت قوم فخر اور تائید کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرسکتے ہیں؟ وقت ہمارے ساتھ ہے۔ بھارت اس انقلابی قوت کا تادیر مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تاریخ میں کوئی بھی استعماری اور قابض قوت ہمیشہ غالب نہیں رہی ہے۔ جس قوم نے بھی بیرونی استبداد کے خلاف سپر نہ ڈالنے کا عزم کیا ہے‘ وہ ایک دن اپنی آزادی حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے: تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ یہی زمانے کی کروٹیں اور نشیب و فراز ہیں جن سے تاریخ عبارت ہے۔

کیا ہم تاریخ کے اس سبق اور اللہ کے اس قانون کو بھول گئے ہیں؟ آزادی‘ ایمان اور عزت کوئی قابلِ خریدوفروخت اشیا نہیں۔ کشمیری قوم نے بھارتی وزیراعظم کے ۲ئ۵ بلین ڈالر کے معاشی پیکج کا ایک ہی جملے میں جواب دے دیا: ’’ہمیں سیاسی آزادی درکار ہے‘ معاشی پیکج ہمارا ہدف نہیں‘‘۔ اہلِ کشمیر نے تو اپنا جواب دے دیا‘ سوال یہ ہے کہ پاکستانی قوم کا جواب کیا ہوگا اور پاکستانی فوج جس کا مقصد وجود ہی ملک کا دفاع‘ کشمیر کی آزادی کا حصول اور علاقے پر بھارت کی بالادستی کو حدود کا پابند کرنا ہے‘ اس کا جواب کیا ہوگا؟ کیا یہ فوج معاشی کاروبار کرنے‘ زمینوں کا انتظام کرنے‘ سول ملازمتوں اور سیاست پر قبضہ کرنے کے لیے ہے یا ملک کے دفاع‘ مظلوموں کی مدد اور پاکستان کی شہ رگ کو دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ فوج کے سربراہ نے اپنی دستوری‘ قانونی‘ اخلاقی ہر ذمہ داری کے برخلاف ایک ایسی تجویز پیش کر دی ہے جس کے معنی کشمیر کی تقسیم ہی نہیں بلکہ کشمیر کو اس خطے کے نقشے سے ہمیشہ کے لیے غائب کر دینے کے مترادف ہے۔ ان کی غفلت اور خوش فہمی کا یہ حال ہے کہ  ع

اک نشترِ زہرآگیں رکھ کر نزدیک رگ جاں بھول گئے!

ھماری قومی ذمہ داری اور تقاضے

اس خطرناک کھیل کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟ پارلیمنٹ اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ اپنا کردار ادا کرے۔ قومی احتساب کو موثر بنائے اور اس قومی اجماع پر سختی سے قائم ہوجائے جس کی شیرازہ بندی قائداعظمؒ نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی‘ اور اپنی ساری توجہ اصولی موقف پر مکمل اعتماد اور استقلال کے ساتھ مرکوز کرے اور کشمیری عوام کی تحریکِ مزاحمت کی بھرپور معاونت کی پالیسی اختیار کرے اور پاکستان کی معاشی‘ اخلاقی‘ عسکری اور سیاسی قوت میں اضافے کے لیے اقدامات کرے تاکہ یہ قوم اپنا حق لے سکے‘ مظلوموں کی مدد کر سکے اور ظالموں کو ظلم سے روک سکے:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًاo(النسائ۴:۷۵)

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔

اس مقصد کے لیے قوت فراہم کرنا اور اس قوت کو رب کی امانت کے طور پر اپنی حفاظت اور مظلوموں کی مدد و استعانت کے لیے استعمال کرنا بھی عبادت ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کیا ہے:

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکرِخاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

اور یہ اس لیے کہ    ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اُمت مسلمہ آج جن حالات سے دوچار ہے کشمیر ہو یا فلسطین‘ افغانستان ہو یا عراق‘ مینڈانائو ہو یا شیشان--- حق و باطل کی کش مکش میں سرخرو ہونے کا ایک ہی راستہ ہے--- ایمان‘ تقویٰ اور جہاد۔ پسپائی‘ سمجھوتے اور کمرہمت کھول دینے سے کوئی قوم عزت اور آزادی کی زندگی نہیں گزار سکتی:

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ

جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوے کم آب

اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی

اُمت مسلمہ‘ پاکستانی قوم اور اس کی سیاسی و عسکری قیادت کے لیے آج کے حالات میں اور خصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے پس منظر میں اقبال کا پیغام یہ ہے کہ:

جس میں نہ  ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی

روح امم کی حیات‘ کش مکش انقلاب

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

نغمہ ہے سوداے خام خون جگر کے بغیر

اس قوم کا مقدر پسپائی نہیں‘ اپنے ملّی اور تاریخی اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا ہے۔ یہ کم ہمت لوگوں کا شعار ہے کہ زمانے کے ساتھ بہ جاتے ہیں۔ زمانہ ساتھ نہ دے تو مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ وہ زمانے کو بدلنے کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے‘ اور یہی عزت اور کامیابی کا راستہ ہے۔ آج جن کے ہاتھوں میں مسلمانوں کی قیادت ہے  اُن کو ہوا کے رخ پر مڑجانے والے مرغ بادنما کے مذموم کردار سے احتراز کرنا چاہیے اور اپنے مقاصد اوراہداف کے حصول کے لیے زمانے کو مسخر کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے    ؎

حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز

زمانہ با تو نسازد تو بازمانہ ستیز

صبح و شام اقبال اور قائداعظم کا نام لینے والے کیا اقبال اور قائداعظم کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہیں؟