سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن لکھ کر اردو کے دینی ادب میں جو گراں قدر اضافہ کیا‘ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تفہیم سادہ و سلیس ادبی زبان میں فقہی مسائل‘ کلامی مباحث اور اسلام کی تحریکی روح کا وہ مرقع ہے جس سے ہر سطح اور ہر طبقۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
تفہیم کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس کا ترجمہ دنیا کی بہت سی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ اسے پاکستان کی بعض مقامی زبانوں میں بھی منتقل کیا جا چکا ہے۔ اب چھے جلدوں میں اس کا پشتو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے۔ پشتوزبان نہ صرف صوبہ سرحد کے بڑے حصے میں بولی جاتی ہے بلکہ افغانستان کی قومی زبان بھی ہے۔ جہادِ افغانستان کے زمانے میں محترم قیام الدین کشّاف نے مولانا مودودیؒ، سید قطب شہیدؒ اور حسن البنا شہیدؒ کی متعدد کتب کے ساتھ ساتھ تفہیم القرآن کا بھی پشتو میں ترجمہ کیا تھا مگر یہ افغانی پشتو میں تھا۔ افغانی پشتو اور صوبہ سرحد کے اکثر علاقوں میں بولی جانے والی یوسف زئی پشتو میں‘ الفاظ و تراکیب کی مماثلت کے باوجود‘ لہجے کے اعتبار سے‘ اور بعض اوقات لغات کے لحاظ سے بھی خاصا فرق ہے۔ یوسف زئی پشتو نہ صرف صوبہ سرحد کے تمام علاقوں کے لوگ سمجھتے اور بولتے ہیں بلکہ افغانستان کے اہلِ پشتو بھی اس کو بڑی حد تک سمجھتے ہیں۔ جب کہ افغانی پشتو سرحد والوں کے لیے کسی قدر نامانوس ہے‘ چنانچہ تخت بھائی ضلع مردان کے پروفیسر شفیق الرحمن صاحب نے یوسف زئی پشتو میں تفہیم القرآن کا مکمل ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس میں مولانا مودودیؒ کی تحریر کو پشتو کے قالب میں کچھ اس انداز سے ڈھالا گیا ہے کہ اس میں پشتو کی ادبی چاشنی بھی ہے اور تفہیم القرآن کی سلاست اور روانی بھی برقرار ہے۔ اس ترجمے میں بھی ایک کشش ہے جو آدمی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
اس اشاعت کی ایک خوبی یہ ہے کہ تفہیم القرآن کے صفحات کی ترتیب کو بالکل اصل کی طرح برقرار رکھا ہے اور جہاں ترجمے کے صفحات میں اضافہ ہوگیا ہے‘ وہاں ترتیب کو برقرار رکھنے کے لیے حروفِ تہجی کی ترتیب سے اضافی اوراق لگا دیے ہیں۔تفہیم القرآن کے آخر میں جو اشاریہ ہے‘ وہ بھی اسی ترتیب اور اسی انداز سے‘ بہ زبان پشتو‘ شامل کیا گیا ہے۔ (مگر تعجب ہے کہ جلداول‘ دوم اور چہارم میں اشاریہ نہیں دیا گیا؟)
اس مکمل ترجمے کے بعد‘ اسی مترجم کے قلم سے مختصر ترجمۂ قرآن بھی منظرعام پر آیا ہے۔ اس میں مترجم نے ایک طرف مولانا مودودیؒ کے اردو ترجمے کو سلیس پشتو میں ڈھالا ہے اور دوسری طرف بین السطور میں آسان لفظی ترجمہ بھی شامل کردیا ہے۔ مزید یہ کہ مختصرتفسیر میں دوسرے مفسرین سے بھی استفادہ کیاگیا ہے۔اس طرح دو جلدوںمیں یہ ایک مختصر مگر جامع پشتو تفسیر بن گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ پروفیسر شفیق الرحمن کا پشتو بولنے والوں پر احسانِ عظیم ہے۔ اس تفسیر کی مقبولیت کے سبب دو ماہ بعد اس کا دوسرا اڈیشن شائع کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مترجم اور مؤلف دونوں کو اجرعظیم سے نوازے اور اہلِ اسلام کو اس سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (گل زادہ شیرپاؤ)
دنیا کی مختلف زبانوں خصوصاً عربی اور اردو میں آنحضوؐر کی سیرت نگاری کی ایک پختہ روایت موجود ہے البتہ پنجابی زبان میں اس روایت نے قدرے مختلف صورت اختیار کی ہے اور یہ روایت منظوم سیرت نگاری کی ہے۔ زیرنظر کتاب‘ پنجابی زبان میں منظوم سیرت النبیؐ کے اُس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس کا آغاز گلزارِ محمدی (۱۸۶۵ئ) سے ہوا اور اب تک جاری ہے۔
محمد انورمیر کا شمار‘ ہمارے گوشہ نشین مگر پختہ فن شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے قرآن‘ حدیث اور سیرت پاکؐ کے وسیع مطالعے کی بنیاد پر پنجابی زبان میں یہ شہکار تخلیق کیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول: ’’اس کا اساسی آہنگ میاں محمد صاحب کی سیف الملوک کا ہے جو پنجابی میں اخلاقی و روحانی شاعری کا معیاری آہنگ بن چکا ہے‘‘۔ اس کی ہیئت مثنوی کی ہے جو طویل نظم کے لیے موزوں ہے‘ کہیں کہیں قصیدے کی ہیئت بھی اختیار کی ہے اور کچھ حصے آزاد نظم کے اسلوب میں ہیں۔
مصنف بتاتے ہیں کہ اس منظوم سیرت کی تحریک انھیں حفیظ تائب کی ایک نعت سے ہوئی تھی۔ انورمیر صاحب نے اس کے کچھ حصے حلقۂ ادب لاہور کے اجلاس میں بھی پیش کیے جس پر انھیں داد وتحسین ملی اور ان کا حوصلہ بڑھا۔ واقعاتِ سیرت منظوم کرتے ہوئے انھوں نے صحت و استناد کا خاص خیال رکھا ہے۔ کتاب پر پروفیسر تحسین فراقی نے پنجابی میں اور حفیظ الرحمن احسن نے اردو میں مقدمہ لکھا اور ڈاکٹر خورشید رضوی نے تقریظ۔ ان اصحابِ نقد و انتقاد کی تحسین و آفرین بھی اس کی عمدگی پر دال ہے اور اسے شہکار قرار دیے جانے کا جواز بھی۔
مجموعی طور پر یہ منظوم سیرت‘ محمد انورمیر کی راست فکری اور فنی صلابت کا عمدہ نمونہ ہے۔ سب سے اہم تو میرِحجازسے شاعر کی گہری قلبی وابستگی ہے‘ جو اس تخلیق کا محرک بنی اور جس نے اُن سے یہ پُرتاثیر منظوم سیرت لکھوائی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
جناب طالب الہاشمی صحابہ کرامؓ کی سیرت نگاری میں ایک قابلِ رشک تخصّص حاصل کرچکے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی ۱۵ تالیفات شائع ہوچکی ہیں‘ جن میں سات آٹھ سو صحابہ کرامؓ کے سوانحی نقوش منضبط کیے جاچکے ہیں۔ ان میں سے بعض تالیفات (سیرت خلیفۃ الرسول سیدنا صدیق اکبرؓ - سیرت حضرت ابو ایوب انصاریؓ- سیرت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ- سیرت حضرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ اور سیرت حضرت فاطمۃ الزہرائؓ) یک موضوعی تفصیلی مطالعے ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔
جملہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سیدنا حضرت ابوہریرہؓ کا امتیاز و انفرادیت یہ ہے کہ آپ سب سے بڑے راویِ حدیث ہیں‘بقول مؤلف: ’’ان سے ۵۳۷۴ احادیث مروی ہیں‘‘۔ یہ تعداد دوسرے کسی بھی صاحبِ رسولؐ یا صحابیہؓ سے مروی احادیث کی تعداد سے زیادہ ہے۔ اکثر اربابِ سیر نے حضرت ابوہریرہؓ کی جلالتِ قدر کا ذکر ان کی روایتِ حدیث ہی کے حوالے سے کیا ہے‘‘ (ص ۱۵)۔ آپ سفروحضر میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت رسول کریمؐ کی صحبت میں گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔
جناب طالب الہاشمی نے نہایت تحقیق و تدقیق اور تلاش و تفحص کے بعد سیدنا ابوہریرہؓ کے شخصی حالات و سوانح کے ساتھ کچھ اور پہلوئوں (مثلاً: آپ کے معمولاتِ شب و روز‘ جہادی سرگرمیوں‘ اخلاق و عادات‘ علمی زندگی‘ سفرِ آخرت اور آپ کے مقام و مرتبے) کی تفصیل جمع کی ہے۔ آخری حصے میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کردہ تقریباً ڈیڑھ سو ایسی احادیث کا اردو ترجمہ شاملِ کتاب کیا ہے جو زیادہ تر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اور چند ایک دیگر کتبِ حدیث میں ملتی ہیں۔
اپنے موضوع پر یہ مفصل اور مستند سوانح عمری‘ تعلیم و تربیت کے اعتبار سے بھی‘ ایک مفید کتاب ہے۔ کتابت و طباعت اطمینان بخش اور قیمت مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
بھارت اپنے دستور کی رُو سے ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولرازم کے معروف مفہوم کے مطابق بھارت میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور مذہب کی تبلیغ کی مکمل آزادی ہے۔ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ بھارت کی نصف صدی میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا‘ وہ سیکولرازم کا منہ چڑھا رہا ہے۔ ملازمتوں میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا ‘ اُردو زبان کو بتدریج ختم کرنے کی حکمت عملی‘ سیکڑوں خوں ریز فسادات‘ بلادریغ اور بعض اوقات پولیس کی سرپرستی میں قتل و غارت گری اور مکانات و املاک کی آتش زنی‘ پھر اسی تسلسل میں ۶دسمبر۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا۔ زیرنظرکتاب کے مرتب کہتے ہیں کہ اب رام مندر کی تحریک اپنے شباب پر پہنچ چکی ہے اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی زبردست تیاریاں کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف بھارتی مسلمانوں کی نوجوان نسل کو علم نہیں کہ بابری مسجد کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ اور رام مندر کے پسِ پردہ کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس موضوع پر کتابوں‘ اخباروں اور رسائل کو کھنگال کر اور بہت سی رپورٹوںاورقانونی و عدالتی دستاویزات کا مطالعہ کرکے بابری مسجد کے تاریخی پس منظر اور پیش منظر کے بارے میں دو جلدوں میں بڑا ہی اہم اور قیمتی لوازمہ جمع کیا ہے‘ اس کی حیثیت بابری مسجد کے انسائیکلوپیڈیا کی ہوگئی ہے۔ پہلی جلد ’’شہادت سے قبل‘‘ کی صورت حال پر اور دوسری جلد ’’شہادت کے بعد‘‘ کے وقوعات پر لکھے گئے مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے۔
یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابواب کے عنوانات سے اس کی جامعیت اور مباحث کے وسیع دائرے کا اندازہ ہوتا ہے: بابری مسجد کی دینی اور شرعی حیثیت۔ ہندتو: حقیقت‘ تاریخ‘ عزائم۔ بابری مسجد کی تاریخی حیثیت۔ بابری مسجد بنام جنم بھومی۔ شہید بابری مسجد: قانونی پہلو۔ اجودھیا تنازع۔ بابری مسجد‘ شہادت کے بعد۔ اجودھیا تنازع اور وزیراعظم واجپائی کے بیانات۔ متنازعہ مقامات کی کھدائی اور محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ۔ راے بریلی عدالت کا فیصلہ۔ بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں گواہوں کی دل چسپ داستان۔ وشواپریشد کے عزائم۔ بابری مسجد: موجودہ صورت حال۔ موجودہ حالات میں مسلمانانِ ہند کے لیے راہِ عمل‘ دستاویزات۔
ان مباحث میں بہت سی نئی باتیں اور چونکا دینے والے انکشافات ہیں‘ مثلاً: اترپردیش کے وزیر پنڈت لوک پتی ترپاٹھی کا بیان کہ ’’رام جنم بھومی کی تحریک امریکا میں شروع ہوئی اور ہندو مسلم تعلقات کو بگاڑنے کے لیے سی آئی اے اجودھیا میں شرارت کرتی رہی وغیرہ۔ مولانا عبدالحلیم اصلاحی نے ’’پیش لفظ‘‘ میں لکھا ہے کہ بابری مسجد کا مسئلہ ہندستان میں ملّتِ اسلامیہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور مسجد کو ازسرنو تعمیر کرنے کی کوشش مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے۔ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا تو آیندہ بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ذہنی اور فکری طور پر پسپا ہوچکا ہے اور یہ کتاب اسی پسپائی سے نکالنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔
بظاہر یہ متفرق تحریروں کا انتخاب ہے لیکن جو لوگ اخذ و ترتیب اور تدوین و تصنیف کے آداب اور دکھ درد سے واقف ہیں‘ وہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ عارف اقبال صاحب نے کتنے وسیع مطالعے‘ کتنی محنت اور کتنی کاوش و دیدہ ریزی کے بعد یہ کتابیں تیار کی ہیں۔
سارے لوازمے کو نہایت سلیقے اور حسن ترتیب کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے۔ کتابت‘ طباعت‘ سرورق اور جلدبندی سب کچھ عمدہ اور معیاری ہے اور قیمتاً نہایت مناسب ہے۔ مرتب اور ناشر اس کارنامے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (ر - ہ )
آندرے ژید نے ٹرائے کی جنگ کے حوالے سے ایک عجیب و غریب کردار کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب حملہ آوروں نے شہر پر قبضے کے لیے یلغار شروع کی تو شہر کے سبھی لوگ مال و دولت سمیٹے بھاگ رہے تھے‘ لیکن ایک نوجوان لڑکا اپنی پشت پر ایک بوڑھے کو‘ جو محض ہڈیوں کا پنجر تھا‘ لیے چلا جا رہا تھا۔ پوچھا گیا: ’’تم سب کچھ چھوڑ کر اس بڈھے کھوسٹ کو کیوں اٹھائے جا رہے ہو؟‘‘ نوجوان نے کہا:’’دولت تو کوشش کر کے دوبارہ مل جائے گی‘ لیکن ہڈیوں کا یہ پنجر میرے ماضی‘ میری دانش‘ اور میرے مستقبل کا نشانِ راہ ہے‘ یہ چھن گیا تو میرا سب کچھ چھن جائے گا‘‘--- افسوس کہ ہم نے اپنے نشاناتِ راہ کو بھلا دیا‘ گنوا دیا‘ بلکہ بوجھ سمجھ کر واقعی دفن کر دیا ہے۔ حالانکہ جو قومیں قحط الرجال کا شکار ہوں‘ ان کے لیے ماضی کے عظیم انسان لائٹ ٹاور کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔
پروفیسرڈاکٹر محمد سلیم ‘ نہ صرف پاکستان بلکہ ملت اسلامیہ کے ایک مایہ ناز سائنس دان‘ عالمی شہرت کے حامل ماہر طبیعیات (فزکس) اور ایک دردمند قلم کے مالک ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب‘ مصنف کے نومضامین کا مجموعہ ہے‘ جن میں: قائداعظم‘ مولانا محمد علی جوہر‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ حسرت موہانی‘ مولانا سید سلیمان ندوی‘ ظفر علی خان‘ مولانا شبیراحمد عثمانی‘ نواب بہادریار جنگ اور حکیم محمد اجمل شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی فرد کے ساتھ مصنف کو ہم نشینی کی سعادت تو نصیب نہیں ہوئی‘ لیکن اپنے سائنسی اسلوب‘ اختصار اور ’دوجمع دو مساوی چار‘ کے فارمولے پر عمل پیرا ڈاکٹر محمد سلیم صاحب نے مذکورہ بالا شخصیات پر قلم اٹھایا اور خوب لکھا ہے۔ ادب سے گہری مناسبت اور تاریخ کے پختہ ذوق نے ان کے اسلوب کو دل چسپ بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مستند مآخذ کو کشید کرکے‘ اور تنکا تنکا جمع کر کے ان خلدآشیانی حضرات کے شخصی خاکے تحریر کیے ہیں‘ بلکہ یوں سمجھیے کہ چلتی پھرتی تصویروں پر مشتمل ایک فلم پیش کی ہے‘ اس طرح زیربحث شخصیت کا ہر قابلِ ذکر پہلو ذہن پر نقش ہوجاتا ہے‘ اور خود شخصیت چلتی‘ پھرتی‘بولتی اور رہنمائی کرتی دکھائی دیتی ہے۔
ان تحریروں سے مختلف شخصیات کا جوہری پہلو اُبھر کر سامنے آیا ہے‘ اسے دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ اس کتاب کا نام ہوتا: ’’مسلم انڈیا کے نورتن‘‘۔ ہم ان مضامین کو نئی نسل کے مطالعے کے لیے لازم قرار دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مضامین ایک ثقافتی تحرک کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
صوفی محمد ضیاء الحق (۱۹۱۱ئ-۱۹۸۹ئ) مولانا اصغر علی روحی (۱۸۶۷ئ-۱۹۵۴ئ)کے بیٹے اور فارسی و عربی کے فاضلِ اجل تھے۔ نصف صدی کے قریب تدریسی خدمات انجام دیں اورہزاروں تلامذہ میں عربی زبان و ادب کا ذوق پیدا کیا۔ نام و نمود سے گریزاں‘ اور عمربھر گوشہ نشین رہے۔ ان کی بیشتر تصانیف مسودوں کی صورت غیرمطبوعہ پڑی رہ گئی۔ زیرنظر تالیف‘ مرحوم کے دو لائق شاگردوں (ڈاکٹر خورشید رضوی اور ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا) کی توجہ اور کاوش اور ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ کی دل چسپی اور علم دوستی سے منصہ شہود پر آئی ہے۔
بارہ منتخب نعتیہ عربی قصائد کا یہ مجموعہ ہے‘ معروف نعت گووں (حسان بن ثابت‘ امام بوصیری‘ امام برعی‘ شاہ ولی اللہ دہلوی‘ یوسف نبھانی‘ احمد شوقی‘ مولانا روحی اور خطیب مکی) کے دس ایسے قصیدوں پر مشتمل ہے جن کا قافیہ ہمزہ پر ختم ہوتا ہے۔ مجموعے میں دو بائیہ قصیدے (یعنی جن کا قافیہ حرف ’’ب‘‘ پر ختم ہوتا ہے) بھی شامل ہیں۔
انتخابِ قصائد کے ضمن میں مصنف کا معیار کیا رہا؟ اس سلسلے میں انھوں نے بڑی پتے کی بات کہی ہے‘ لکھتے ہیں: ’’نعت لکھنا درحقیقت بہت مشکل اور نازک کام ہے‘ بعض لوگ جادئہ اعتدال سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں اور صحیح نعت وہی ہوگی جس میں خدا کو خدا‘ رسول کو رسول اور اولیاء اللہ کو اولیاء اللہ ہی سمجھا جائے ورنہ یہ دھوکا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تعریف سے کبھی خوش نہیں ہو سکتے جس میں خدا کا درجہ کم کر کے رسولؐ کا رتبہ بڑھا دیا جائے یا جس میں خدا اور رسولؐ میں فرق نہ رکھا جائے ‘‘(ص ۴)۔ گویا نعت گو کے لیے مقامِ رسالت کا صحیح ادراک وشعور لازم ہے۔
مصنف ِ علام نے فقط نعتوں کے انتخاب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر نعت سے پہلے شاعر کے مختصر حالات‘ پھر شعر بہ شعر مشکل الفاظ و اصطلاحات اور اعلام کے معنی و مفہوم بتائے گئے ہیں‘ اس کے بعد اردو ترجمہ‘ پھر تشریح۔ اگر کسی شعر میں سیرت کے کسی خاص پہلو یا واقعے کی طرف اشارہ ہے تو تشریحات میں وہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح بعض اشعار کی تشریحات خاصی بھرپور اور طویل ہوگئی ہیں۔ بعض نعتوں میں مذکور مقامات کا تعارف بھی کرایا گیا ہے (ص ۳۶۷-۳۷۲)۔ یہ تشریحات مصنف کے علم و فضل اور سیرت النبیؐ پر ان کی عمیق نظر کی دلیل ہیں۔
یہ عربی نعت کا ایک خوب صورت تعارف ہے اور سیرت پاکؐ پر ایک اعلیٰ درجے کی کتاب بھی--- شیخ زاید اسلامی مرکز نے اسے شائع کر کے ایک لائقِ تحسین علمی خدمت انجام دی ہے۔ (ر-ہ)
مصنف نے دیباچے میں بتایا ہے کہ انھوں نے مسیحی فکر کو سمجھنے کا آغاز زمانۂ طالب علمی سے کیا۔ رفتہ رفتہ دل چسپی بڑھتی گئی‘ مطالعہ وسیع تر ہوتا چلا گیا اور انھوں نے اس موضوع پر باقاعدہ تحقیق شروع کی۔ اس کام کے سلسلے میں وہ بہت سے عیسائی اسکالروں سے بھی ملے جہاں جہاں سے جو جو معلومات انھیں دستیاب ہوئیں‘ ان سب کو تحقیق کی چھلنی سے گزار کر انھوں نے یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔ یہی ناشر (اسلامک اسٹڈی فورم) قبل ازیں بہائیت‘ قادیانیت اور فری میسنری پر کتابیں پیش کرچکا ہے۔
کتاب میں بائبل کے ارتقا‘ اس کی تدوین اور تشکیل کے مراحل اور ان تحریفات پر بحث کی گئی ہے جو مختلف ادوار میں کی جاتی رہیں۔ مصنف نے بائبل‘ یہودیت‘ عیسائیت وغیرہ پر مختلف مقالات کو بنیادی مآخذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔
کتاب بنیادی طور پر دو حصوںمیں ہے۔ پہلے حصے میں عیسائیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور عیسائیوں کی اناجیلِ اربعہ اور اس کی زمانی تشکیلات کا بیان ہے‘ نیز بعض عقائد کے سلسلے میں اسلام اور عیسائیت کا اختلاف اور متضاد نقطۂ نظر بھی بتایا گیا ہے۔ پھر عیسائیوں کے ان تبلیغی ہتھکنڈوں اور ان کی خفیہ اور علانیہ چالوں کا تذکرہ ہے جو وہ مسلم ممالک میں عیسائیت کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتاب کا دوسرا حصہ یہودیت اور یہود کی بائبل (عبرانی بائبل‘ اس کے قدیم نسخوں اور اس کے ترجموں) سے بحث کرتا ہے۔ پھر یہود کے عہدنامۂ قدیم کے بارے میں پائے جانے والے ایسے شکوک وشبہات کا ذکر ہے جو یہودیت اور خود عیسائیت کے اندر موجود ہیں۔ اس کے بعد یہودیت کے مختلف فرقوں کا بیان ہے۔ مجموعی اعتبار سے ‘آسمانی مذاہب میں جس قدر یہودیت اور نصرانیت نے تحریف کی ہے‘ اس کا مختصر مگر جامع خاکہ اس کتاب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اسلام کی حقانیت کا صحیح ادراک ہوتا ہے۔ یہ خالصتاً ایک علمی اور تحقیقی مطالعہ ہے۔ اردو اور انگریزی مآخذ کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
٭ رحمن کیانی‘ منتخب کلام۔ ناشر: رحمن کیانی میموریل سوسائٹی۔ بی‘۱۶۰‘ بلاک ۱۰‘ گلشنِ اقبال کراچی‘ فون: ۴۹۶۰۰۲۱۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ ] رحمن کیانی ۲۵ برس تک فضائیہ سے بطور ماسٹر ورانٹ افسر وابستہ رہے۔ ان کی شاعری میں اسلام اور پاکستان سے نظریاتی وابستگی بہت نمایاں ہے۔رزمیہ شاعری کی قومی‘ ملّی اور جہادی ترانے لکھے ؎
میں نقیبِ ملّتِ بیضا ہوں‘ میری شاعری
نغمۂ بربط نہیں‘ تلوار کی جھنکار ہے
ڈاکٹر سید عبداللہ‘ ممتاز حسن‘ نعیم صدیقی اور اشتیاق حسین قریشی ایسے اکابر نے ان کی شاعری کی تحسین کی ہے۔[