ایک مدت کے بعد تم نے اپنے حالات و کوائف سے آگاہ کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس جہان کی پہنائی میں کھو گئے تھے۔ ماضی کے وسیع نشیب و فراز میں کتنے ہی احباب ہیں جنھوں نے حافظے کے وسیع میدان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ان کو آواز دیں تو انھیں سنائی نہیں دیتی۔ انھیں بلائیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حافظے کی دھندلی شاہراہ پر گزرے ہوئے راہ گیروں کے نقوشِ قدم ہیں جو ایام کی گرد کے نیچے مدہم پڑتے جا رہے ہیں۔ تم بھی انھی مدہم نشانات میں سے ایک نشان بن کر رہ گئے تھے۔
تم نے یہ کیا لکھ دیا کہ ’’میرے لیے دعا کرو۔ نماز سے رغبت کم ہوگئی ہے۔ دعوتِ دین سے نظری اتفاق باقی ہے لیکن عملی طور پر شل ہوگیا ہوں۔ شاید شیطان کا قابو چل گیا ہے۔ مقصدِزندگی سے دھیما دھیما سا لگائو ہے لیکن ساتھ چلنے سے جی چُراتا اور کتراتا ہوں۔ صحت بہتر ہے لیکن طبیعت بے چین رہتی ہے۔ بتائو کیا کروں‘ کیا پڑھوں‘‘۔
عزیز دوست! بعض اوقات کسی عزیز کی‘ مقصدی زندگی کے ایسے انجام سے اس کی موت زیادہ خوش گوار محسوس ہونے لگتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ محاذِ جنگ سے مفرور ہونے سے پہلے وہ محاذِ جنگ پر کام آگیا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ مجھے شدت سے کام لینے کا طعنہ نہ دینا۔ میرے نزدیک دین حق کی سربلندی کا جھنڈا اٹھانے کے بعد اسے پھینک دینا‘ بیٹھ جانا اور پیٹھ دکھانا موت سے بدتر انجام ہے۔
ایسا خوفناک خط تم مجھے نہ لکھتے تو شاید میں تمھاری طرف سے مطمئن رہتا اور سمجھتا کہ زندگی کے کارزار میں تم کسی نہ کسی محاذ پر ضرور مردانہ وار‘ باطل کے خلاف چومکھی لڑائی لڑ رہے ہوگے‘ لیکن تمھاری ان سطور نے تو کتنے ہی زخموں کے ٹانکے توڑ دیے ہیں۔ تم نے خط میں کاروباری کاموں کی کثرت اور معاشی جدوجہد کی مصروفیات کا رونا بھی بہت رویا ہے اور مجھے محسوس ہوا ہے کہ غربتِ اسلام کے اس پُرمصائب دور میں اسلام کے غریب خادموں میں سے ایک خادم کو جیسے خوش حالی نے ڈس لیا ہے۔
دعا تو میں ضرور کرتا ہوں۔ باطل کے خلاف حمایتِ حق میں لڑنے والے ہر ساتھی کے لیے دعائیں کیا کرتا ہوں۔ لیکن دُعا وہی کارگر ہوتی ہے جو انسان خود اپنے مالک سے قریب تر ہوکر ‘اُسے دردمندی سے پکار کر‘ اس کے سامنے اپنی ساری مجبوریاں‘ معذوریاں‘ کمزوریاں اور کوتاہیاں رکھ کر مدد کے لیے پکارتا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنْ سے بڑی دعا اور کیا ہوسکتی ہے۔ بس شرط یہی ہے کہ بندہ مدد مانگنے سے پہلے اپنی بندگی کو خالص کر کے‘ اپنے مالک کے سامنے اسے عاجزانہ ہدیے کے طور پر پیش کر سکے۔
مادہ پرستی کی دوڑ میں مصروفیت کی سب سے پہلی چوٹ نماز پر ہی پڑتی ہے جو مالک سے قربت کی ڈیوڑھی ہے اور اس کے سامنے عاجزانہ حاضری میں مدد طلبی کی واحد صورت ہے۔ پھر نماز تو اس کا حکم ہے‘ البتہ مالک کے حکم کے علاوہ مزید اس کی بارگاہ میں عرض معروض کرنے سے جو اخلاص پیدا ہوتا ہے اس کا ذریعہ نوافل ہیں جس سے پتا چلے کہ بندہ اس در سے کچھ مزید کا طالب ہے اور خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ ہو سکے تو الارم لگا کر رات کے پچھلے پہر اٹھو۔ چند دن ہی سہی‘ ڈیوٹی سمجھ کر ہی سہی‘ چاہے اپنے آپ پر جبر کر کے ہی سہی اور یہ سمجھو کہ حاکم سے ایک خاص کام پڑ گیا ہے اور اس کے دربار میں آسانی سے بازیابی کے لیے وہی وقت مقرر ہے۔ چھپ چھپاکر جب اس کے سامنے اظہارِ بندگی کیا جائے اور صرف اسی کو مخاطب اور متوجہ کر کے کیا جائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی جائے کہ حاکمِ اعلیٰ تک اپروچ کا بندے نے ایک راستہ ڈھونڈ لیا ہے‘ تب دعا میں تاثیر بڑھ جاتی ہے اور اخلاص کا ثبوت ملتے ہی دعا بجلی کی سی سرعت سے آدمی کی ہستی سے اٹھ کر افلاک کی پہنائیوں میں سرایت کر جاتی ہے--- تو بھائی میرے! اگر مصروفیت نے پکڑ لیا ہے تو اس وقت مالک کے پاس عرضداشت لے کر پہنچو جب تمھارے شہر میں کوئی دکان کھلی نہیں ہوتی اور کوئی کاروبار الجھانے کے لیے موجود نہیں ہوتا۔ اگر رغبت نہ ہو تو ابتداء ً یہ کام جبر سے ہی کرو۔ درِاجابت تو خود تمھارا دل ہے۔ اگر اسے سومنات کے مندر کی طرح بند رکھو گے تو پھر اسے دوسرے کی دعائیں کیسے کھولیں گی۔ دوسرے تو زیادہ سے زیادہ اخلاصِ عمل کی دعا کرسکتے ہیں اور وہ بھی تب اثر کرتی ہے جب پودا زمین میں جڑ پکڑ چکا ہو۔ اگر جڑ ہی اکھڑی ہوئی ہو تو باہر کا پانی کوئی سرسبزی پیدا نہیں کر سکتا۔
ایک کام اور کرو۔ تمھارے محلے میں ایک ہسپتال ہے۔ کبھی کبھی وقت نکال کر ہسپتال میں مریضوں کی مزاج پُرسی کے لیے چلے جایا کرو۔ بیمار‘ ناتواں‘ مجروح‘ زندگی سے بیزار اور پریشان حال نحیف و نزار انسانوں سے جاکر ملو‘ ان کے حالات معلوم کرو۔ ان کے دکھ درد کا جائزہ لو۔ ان کے غم و اندوہ اور رنج و الم کو دیکھو‘ ان سے تعارف حاصل کرو۔ روزانہ کم از کم تین مریضوں کی مزاج پُرسی کو آیا کرو۔ اسے چند دنوں کے لیے معمول بنائو اور یہ سمجھو کہ مالک اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا بندہ اس کے دوسرے مصیبت زدہ بندوں سے ہمدردی کرے۔ اگر کبھی کسی مریض کو حقیقی حاجت مند پائو تو ہمت کر کے اس کی مدد بھی کرڈالو۔ لیکن کراہت سے نہیں‘ خوش دلی سے۔ بس کبھی کبھی یہ محسوس کرنے کی کوشش کرنا کہ ان کے بجاے تم خود ہوتے تو تمھارا کیا حال ہوتا۔ تم کتنے دوسروں کی ہمدردی کے محتاج ہوتے۔ تم کتنے دوسروں کے ہمدردانہ الفاظ تک کے منتظر ہوتے۔ بس یہ سوچ کر خدا کے ان نحیف و نزار بندوں کی عیادت ضرور کر آیا کرو۔
اس کام کے ساتھ ساتھ ایک تیسرا کام بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوسکے تو کبھی کبھار محلے کے قبرستان میں بھی ہو آیا کرو۔ وہاں بڑے بڑے کاروباری اپنا کاروبارِ حیات سمیٹ کر پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مکانات تمھارے اپنے محلے میں ہیں جن کے گرنے یا کھڑے رہنے کی طرف سے وہ ایسے بے نیاز ہیں جیسے انھوںنے کبھی یہ بنائے ہی نہ تھے۔ ان کے کاروبار تمھاری بستی میں اب بھی چل رہے ہیں۔ لیکن جن کا گمان تھا کہ ان کے بغیر یہ کاروبار نہ چلیں گے‘ کاروبار چل رہے ہیں--- لیکن وہ کاروبار کے ساتھ نہ چل سکے جنھیں لمحہ بھر فرصت نہ ملتی تھی۔ اب انھیںتاقیامت فرصت ہی فرصت ہے۔ کاروبار سے بھی اور عمل سے بھی۔ اس لیے کہ دنیا کی امتحان گاہ میں یہی تو مقابلہ تھا کہ کاروبارِ دنیا کے اندر رہ کر عمل کیسے کیا جائے اور عمل کرتے ہوئے کاروبارِ دنیا کو کیسے نبھایا جائے۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی شے مطلوب نہ تھی۔ اگر ہوتی تو امتحان ہی کیوں ہوتا۔ امتحان تو تھا ہی اس مقابلے اور توازن میں۔ اس لیے چند دن اس شہرِخموشاں کا علی الصبح یا سرِشام دورہ رکھو۔ ان کی قبروں کا حال دیکھو۔ ان کے کتبے پڑھو۔ ان سے علیک سلیک کرو اور آخرت کی عدالت لگنے تک‘ عدالت کے احاطے میں ان کے صدیوں کے انتظار کا حال دیکھو۔ غور کرو کہ اس قطار میں کھڑے ہونے کے لیے ہم تم بھی قبرستان کے اس جمِ غفیر کی طرف رواں دواں چلے جا رہے ہیں۔ ] کبھی اپنے کسی بھائی بند کا جنازہ پڑھتے ہوئے ہی یہ بات ذہن میں لے آئو![
فی الحال یہ تین کام کرو اور یہ حمیت و غیرت بھی اپنے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرو کہ دشمنِ حق نے آخر تمھی کو نرم چارہ سمجھ کر‘ کیوںمقصدِحیات سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ پھر وہ اتنا جری کیوں ہوگیا ہے کہ علی الاعلان تمھیں احساسِ شکست دلا رہا ہے کہ میں نے تم پر قابو پالیا ہے۔ یہ تو بڑی شرم کی بات ہے بلکہ یہ بات حمیتِ مومن کے خلاف اوراس کی مردانگی کو کھلا کھلا چیلنج ہے۔ اس نے اگر تمھیںیہ احساس دلایا ہے کہ وہ تم پر قابو پاگیا ہے تو تم بھی اسے خم ٹھونک کر جواب دو کہ بندئہ مومن کو مفتوح کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ فرعون و نمرود بھی جس مومن کی سطوت سے پناہ مانگیں اس پر چند اندیشہ ہاے دُور و دراز کا جال پھیلا کر قابوپانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
پڑھنے کے لیے قرآن میں قیامت اور احوالِ آخرت کے مقامات‘ حدیث میں کتاب الرقاق کا حصہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی سیرتوں سے زیادہ موزوں چیزاور کوئی نہیں ہے۔ جنھوں نے یہ کام احسن طریقے پر پہلے کیا ہے ‘ ان کی درخشاں زندگیاں ہی تھکے ہوئے راہیوں کے لیے نشانِ منزل کا کام دے سکتی ہیں۔ ہو سکے تو قرآن کے ۳۰ویں پارے میں قیامت کا حال بتانے اور لرزا دینے والی سورتیں پڑھو۔
خلفاے راشدین کے احوال پڑھو۔ یہ سمجھ کر پڑھو کہ اصل وہ تھے اور ہمیں انھی کی نقل کے مطابق اصل کام کرنا ہے۔ کاروبار انھوں نے بھی کیے تھے لیکن ترازو کے ایک پلڑے میں سامانِ دنیا ہوتا تو دوسرے میں خوفِ خدا۔ پیمانے کے ایک سرے پرکپڑا ناپا جاتا تو دوسرے سرے پر قبر کا کنارہ نظرآتا رہتا۔ ایک طرف ملکوں کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہوتیں تو دوسری طرف رات کو ڈاڑھی ہاتھ میں پکڑے رو رہے ہوتے کہ اے دنیا مجھ سے دُور ہوجا! مجھے فریب نہ دے‘ میں تجھے طلاق دے چکا۔ یہی تو وہ لوگ تھے جو زمین کا نمک تھے جن کی مثل گروہ تختۂ زمین پر کبھی وارد نہ ہوا۔ ہمیں انھی کے نقشِ قدم کی تلاش ہے۔ وہ نقشِ قدم مل جائے تو عزیز دوست‘ زندگی سونے کی کان سے زیادہ قیمتی اور ہر سانس‘ جواہرات سے زیادہ بیش بہا ہوجائے--- اور تم خوب جانتے ہو کہ وہ جس پارس سے چھو کر سونا بنے تھے وہ خود فریضۂ اقامت دین کے لیے اٹھنے سے پہلے اپنے دیس کا ملک التجار تھا۔ لیکن جب اپنے مالک سے زندگی کا سودا کیا تو روپیہ کمانے والے کاروبارسے دامن جھاڑ کر اٹھ گیا اور روپیہ بناتے بناتے انسان سازی کا کام شروع کر دیا۔ تم خود جانتے ہو کہ اس کے بنائے ہوئے انسان دنیا میں بے مثل ثابت ہوئے اور دنیا کا بہترین گروہ کہلائے--- دائیں ہاتھ سے نوالا اٹھانے کی سنت تو آج ہر مسلمان کو یاد رہ گئی ہے۔ لیکن شاید یہ سنت یاد نہیں رہی کہ سرورِعالمؐ نے مالک کی راہ میں اپنی زندگی کا سارا سونا لگا دیا تھا اور اپنے پاس کھجور کے بوریئے کے سوا باقی کچھ نہیں رکھا تھا۔
دین حق سے دل و دماغ کا اتفاق‘ اور دست و بازو کا فالج تو بہت بڑی بیماری ہے جس کا تم نے اپنے بارے میں ذکر کیا ہے۔ اسی نفاق نے تو ہماری ساری قومی زندگی کو بے جان بناکر رکھ دیا ہے اور پوری ملت بھوسے کا ڈھیر بن کر رہ گئی ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے ڈنڈا ہاتھ میں لیے اس پر سوار ہوجاتا ہے اور یہ اپنے قیمتی اصولوں پر نظری ایمان رکھتے ہوئے عملی طور پر ہر ہنٹرباز کے اشارے پر چلتی رہتی ہے اور بالعموم پشتِ بمنزل ہی چلتی ہے۔
تم بہت مایوس نظر آتے ہو۔ کہتے ہو برسوں بیت گئے ہیں لیکن اسلامی نظام نہیں آیا ہے۔ تمھاری یہ مایوسی بھی دراصل اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ تم نے چشمۂ بیم و رجا سے رشتہ کمزور کر لیا ہے۔ جس راہ پر چلنے کا دعویٰ تم لے کر چلے تھے وہاں حساب کتاب نہیں کیا جاتا‘ کہ کب چلے اور کتنا چلے اور کہاں تک پہنچے‘ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس راستے پر جانا ہے وہ راستہ موجود ہے اور اس کی دی ہوئی ٹانگیں بھی ابھی موجود ہیں۔ وہ نہ رہیں گی تو گھٹنوں کے بل چلیں گے‘ پیٹ کے بل گھسٹیں گے‘ اور اس سے بھی گزر گئے تو آنکھیں تو نشانِ منزل کو دیکھنے کے لیے موجود ہیں‘ وہ کبھی مایوس نہ لوٹیں گی۔
بھائی میرے! یہ تو سوچو کہ جس راہ پر چلنے کا عزم رکھتے ہو‘ اس راہ پر ایسے ایسے راہ رَو گزر چکے ہیں جنھوں نے اگر ۹۰۰ سال تک دعوتِ دین کا کام بے ثمر کیا ہے تو بھی مایوس نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ زمین کے مالک نے جیسی زمین دی تھی‘ مزارع نے اسی کے اندر ہل چلانا تھا۔ ہمارا کام توا س کی زمین میں ہل چلاتے رہنا ہے۔ شورزمین میں کچھ پیداوار نہ ہوئی تو مالک خوب جانتا ہے کہ اس کے نوکر نے محنت کی یا نہیںکی اور فصل نہیں ہوئی تو اس میں کسان کی محنت کا قصور ہے یا زمین کے شور کا۔ تم نے خدا کے اس نیک بندے کا نام تو سنا ہی ہے جنھیں حضرت ایوب علیہ السلام کہتے ہیں۔ برسوں تک بیماری میں مبتلا رہنے اور بدترین تکلیف دہ حالات گزارنے کے بعد‘ جب انھیں کہا گیا کہ وہ اپنے مالک سے اپنی بیماری اور تکلیف کے لیے دعا کریں‘ تو انھوں نے فرمایا کہ مجھے اپنے مالک سے شرم آتی ہے جس نے عمر بھر خوش و خرم اور خوش حال رکھا‘ اب ابتلا کے چند ایام پر ہی بے صبر ہوکر‘ میں اس کے احسانات کیسے بھول جائوں۔ مالک خوب جانتا ہے کہ اس کا بندہ کس حال میں ہے‘ اور وہ اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ مالک کا شکر کرو کہ اس نے کامیابی کو اجر کا مدار نہیں قرار دیا‘ بلکہ اجر کی ابتدا نیت سے کی اور مومن کی دل شکستگی پر اسے دہرے اجر کی خوش خبری سنائی۔
تم نے ویت نام والوں کو دیکھا جو اپنے خدا سے کسی اجر کی توقع نہیں رکھتے تھے لیکن محض زمین کے ٹیلوں‘ باغوں‘ کھیتوں‘ کارخانوں اور جنگلوں تک کے لیے پیہم لڑنے اور ہزار سال تک نسل در نسل لڑنے کا داعیہ رکھتے تھے۔ اگر نفس کا بندہ انسان درختوں‘ ٹیلوں‘ پہاڑوں اور دریائوں کے لیے صدیوں تک لڑنے کا داعیہ رکھ سکتا ہے تو خدا کا بندہ مومن اپنے مالک کے لیے باطل کے خلاف زندگی بھر لڑنے اور کبھی نہ جھکنے کا عزم کیوں نہیں رکھ سکتا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان میں سے کفر کے حصے میں سونا اور اسلام کے حصے میں مٹی آئی ہے۔ اگر تم یہ کہو تو یہ احساسِ کمتری کا مظاہرہ کرو گے۔ میں تو یہ بات کہنے کے لیے تیارنہیں ہوں۔میں تو یہی کہوں گا کہ مومن کو اپنی پوشیدہ قوتوں کا شعور نہیں ہے۔ جس روز وہ جاگے گا دنیا کے اندھیرے روپوش ہوجائیں گے۔
ذاتی تربیت اور اصلاحِ فرد کے بارے میں بھی تمھارے خیالات میں الجھائو پیدا ہوگیا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ سیاسی الجھائو سے ہٹ کر یکسوئی کے ساتھ اپنی اور عوام الناس کی تربیت کی جائے۔ پھر مثال دیتے ہو کہ ہمارے تربیت کردہ لوگوں کے مقابلے میں فلاں فلاں طریقے پر تربیت یافتہ لوگ تقویٰ اور پرہیزگاری کے معروف پیمانے سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ تم کس طرح پلٹ کر‘ پھر گزرے ہوئے راستوں پر بھٹک رہے ہو۔
تحریکِ اسلامی کے نزدیک ذاتی تربیت اور اصلاحِ فرد کا وہی طریقہ بہترین اور فطری ہے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے لیے استعمال فرمایا تھا۔ جو بھی آگے بڑھا اس کے اعتقاد و ایمان کی بنیادیں درست کرکے اسے بھی دعوتِ دین کے اسی کام میںلگا دیا گیا جس میں حضوؐرخود مصروف تھے‘ یعنی نظامِ باطل سے کش مکش۔ یہ کام ہی خود ایسی بھٹی ہے جو سونے کو کندن اور کندن کو پارس بنا دیتی ہے اور جو مال کھوٹا ہو اسے کاٹ کر الگ پھینک دیتی ہے۔ اس تربیت کے لیے علیحدہ کسی خانقاہ کی تعمیر اور اس کے نظام الاوقات مرتب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ نہ کسی چلّہ کشی کی حاجت ہوتی ہے‘ جیسے صحابہ کرامؓ کو اس کی ضرورت نہ پڑی تھی۔
خانقاہی طریقہ تو نہایت خلوصِ نیت کے ساتھ ہی سہی‘ اس وقت مرتب ہوا جب ملوکیت نے مذہب کو سیاست بدر کر دیا اور مسلمانوں کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ مذہب سے آزاد ہو کر مذہب سے آزاد سیاست کے تحت چلا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی تنگ صورت حال میں جو نظامِ تربیت بھی بنے گا وہ ایک طرف انسانی زندگی کے بہت وسیع سیاسی دائرے کو چھوڑ کر بنایا جائے گا اور دوسری طرف انسانی زندگی کے لیے دیے ہوئے اسلام کے وسیع تر احکامات معطل ہوکر‘ جب صرف عبادت اور اوراد و اشغال تک ہی محدود ہوجائیں گے تو اسی محدود دائرے میں انہماک و اشتغال بھی بڑھ جائے گا۔
بلاشبہہ اس سے معروف رواجی متقیوں جیسی ہیئت ابھر آتی ہے۔ اس لیے کہ اس مذہبی ہیئت کی تیاری‘ مذہب بلاسیاست کے طریقے سے ہوتی ہے۔ لیکن تربیت ہمہ پہلو اور ہمہ گیر نہ ہونے کے سبب زندگی دو رنگی‘ سہ رنگی بلکہ پچرنگی تک ہوجاتی ہے اور عبادات و اوراد اور معروف شرعی ہیئت کے ساتھ ساتھ معاملات کی خرابی اور کردار کی کمزوری تک بیٹھ جاتی ہے‘ بلکہ لوگ منکرات تک میں مبتلا رہتے ہیں اور کوئی انقباض یا تضاد محسوس نہیں کرتے‘ چونکہ تربیت کا سانچہ ہمہ گیر نہیں بلکہ چند پہلوگیر بنا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے ایک معمار تو پوری عمارت بنانا جانتا ہو‘ چاہے معمار نہایت اعلیٰ نہ ہو اور دوسرا معمار صرف غسل خانہ ہی بنا سکتا ہو چاہے اس کا معیار اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو۔ اب ظاہر ہے کہ انسانی زندگی کو تو پورے مکان کی ضرورت ہے۔ ایک غسل خانے میں تو ساری زندگی بسر نہیں کی جا سکتی۔ غسل خانے میں چاہے غسل و طہارت کے تمام شرعی آداب کا لحاظ رکھا گیا ہو‘ لیکن اس سے باہر تو زندگی نہ معلوم کن کن آلودگیوں میں ملوث ہوتی رہے گی۔ گویا نظامِ باطل کے خلاف کش مکش سے ہی خالص ہمہ پہلو اسلامی کردار تعمیر ہوتا ہے۔ اس کش مکش سے علیحدہ کردار مکمل نہیں ادھورا بنتا ہے۔ اسلام نے اگر فرد کی اصلاح کا کوئی نظامِ تربیت مرتب کیا تھا تو اپنے غلبے کے لیے کیا تھا نہ کہ وہ باطل کے غلبے کو قائم رکھنے اور اسے دیانت دار کارکن فراہم کر کے‘ اس کی بنیادیں زیادہ مضبوط کرنے کے لیے کیا تھا۔
بھائی میرے! عملی پسپائی آدمی کو کہاں کہاں ذہنی پسپائی پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔ آج تم فرد کی اصلاح کے کسی ایسے طریقے کی تلاش میں ہو جو اسلامی بھی ہو اور نظامِ باطل اس سے ناراض بھی نہ ہو۔ سوچنے کا یہ ڈھنگ سخت بے چارگی کا آئینہ دار ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ ایسا کوئی اسلامی طریقہ ایجاد نہیں ہوا ہے جس پر باطل ناراض نہ ہو اور اگر کوئی ہے تو وہ ایجادِ بندہ کی قسم کا ہوگا۔ قرآن و سنت کے اسلام سے اسے کوئی قریبی تعلق نہ ہوگا۔ اس لیے کہ اسلام تو اپنے وجود کے اندر ہی اپنی سلطنت کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اس کے احکام نافذ ہوں۔ منظم فوجوں کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ باطل کے خلاف اس کا حکمِ جہاد پورا کیا جائے۔ پولیس کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اس کے قوانین کو نافذ و جاری کیا جائے اور اس کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی تادیب کی جائے۔ عدالتوں کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اس کے قوانین کے مطابق مجرموں کو سزائیں دی جائیں اور اس کے الٰہی قوانین کے مطابق فیصلے ہوں۔ پھر وہ یہ تک کہتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ مشرک‘ ظالم اور فاسق ہیں۔ اب بتائو ایسا اسلام کہاں سے لائو گے جو ایسا فرد تیار کرے جس پر نظامِ باطل بھی پورا اعتماد کرے اور اس کی خدمات سے خوش اور مطمئن بھی ہو۔
تم جو طبیعت کی بے چینی کا تذکرہ کرتے ہو‘ تو دراصل یہ بے چینی راہِ مستقیم پر ڈگمگانے کا نتیجہ ہے۔ تمھیں شاید اسلام کا انقلابی اور ہمہ گیر تصور چھوڑ کر کسی عافیت کے گوشے کی تلاش ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ نظامِ باطل کی عمل داری میں مومن کے لیے کسی جگہ کوئی عافیت کا گوشہ نہیں پایا جاتا‘ جب تک وہ غلبۂ اسلام کے تصور سے ہی دست بردار نہ ہو جائے۔ دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں‘ اس کا کلمہ بلند کرنے کی جدوجہد میں اور اس کے دین کے نفاذ کے لیے سختیاں سہنے کے عزم میں ہی پایا جاتا ہے۔ خاطر جمع رکھو کہ دل کا اطمینان اور کسی جگہ بھی نہ ملے گا۔ دل کا اطمینان ابن زیاد کو نہیں‘ امام حسینؓ کو حاصل تھا۔ مامون کو نہیں‘ احمدؒبن حنبل کو حاصل تھا۔ جہانگیر کو نہیں‘ مجدد الف ثانیؒ کو حاصل تھا۔عیاش فاروق کو نہیں حسن البنا شہید کو حاصل تھا۔ یہ بات مجھ سے نہ پوچھو۔ ملتِ مسلمہ کی اپنی تاریخ سے پوچھ لو اور دل کے اطمینان کی تلاش میں ان کُوچوں کا رُخ نہ کرو جہاں چمک دمک تو بہت ہے‘ دنیوی مال و متاع بھی بہت ہے لیکن اگر کوئی شے نہیں پائی جاتی ہے تو وہ یہی دل کا اطمینان ہے۔
اللہ تعالیٰ تمھیں حقیقی قلبی اطمینان عطا فرمائے۔ (قافلۂ سخت جاں‘ ص ۶۵-۷۹)