دنیا میں جہاں جو خرابی بھی پائی جاتی ہے اُس کی جڑ صرف ایک چیز ہے‘ اور وہ ہے اللہ کے سوا کسی اور کی حاکمیت تسلیم کرنا۔ یہی اُمُّ الخبائث ہے۔ یہی اصل بِس کی گانٹھ ہے۔ اِسی سے وہ شجرِخبیث پیدا ہوتا ہے جس کی شاخیں پھیل پھیل کر انسانوں پر مصیبتوں کے زہریلے پھل ٹپکاتی ہیں۔ یہ جڑ جب تک باقی ہے‘ آپ شاخوں کی جتنی چاہیں قطع و برید کرلیں‘ بجز اِس کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کہ ایک طرف سے مصائب کا نزول بند ہو جائے اور دوسری طرف سے شروع ہو جائے۔
ڈکٹیٹرشپ یا مطلق العنان بادشاہی کو مٹایا جائے گا توحاصل کیا ہوگا؟ یہی نا کہ ایک انسان یا ایک خاندان خدائی کے مقام سے ہٹ جائے گا اور اس کی جگہ پارلیمنٹ خدا بن جائے گی۔ مگر کیا فی الواقع اس طریقے سے انسانیت کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے؟ کیا ظلم اور بغی اور فساد فی الارض سے وہ جگہ خالی ہے جہاں پارلیمنٹ کی خدائی ہے؟
امپریلزم کا خاتمہ کیا جائے گا تو اس کا حاصل کیا ہوگا؟ بس یہی کہ ایک قوم پر سے دوسری قوم کی خدائی اُتر جائے گی۔ مگر کیا واقعی اس کے بعد زمین پر امن اور خوش حالی کا دَور شروع ہوجاتا ہے؟ کیا وہاںانسان کو چین نصیب ہے جہاں قوم آپ اپنی خدا بنی ہوئی ہے؟
سرمایہ داری کا استیصال ہوجائے گا تو اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا؟ صرف یہ کہ محنت پیشہ عوام مال دار طبقوں کی خدائی سے آزاد ہو کر خود اپنے بنائے ہوئے خدائوں کے بندے بن جائیں گے۔ مگر کیا اس سے حقیقت میں آزادی‘ عدل‘ اور امن کی نعمتیں انسان کو حاصل ہوجاتی ہیں؟ کیا انسان کو وہاں یہ نعمتیں حاصل ہیں جہاں مزدوروں کے اپنے بنائے ہوئے خدا حکومت کر رہے ہیں؟
اللہ کی حاکمیت سے منہ موڑنے والے زیادہ سے زیادہ بہتر نصب العین جو پیش کرسکتے ہیں وہ بیش ازیں نیست کہ دنیا میں مکمل جمہوریت قائم ہوجائے‘ یعنی لوگ اپنی بھلائی کے لیے آپ اپنے حاکم ہوں۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ یہ حالت واقعی دنیا میں رونما ہوبھی سکتی ہے یا نہیں(تجربات شاہد ہیں کہ حقیقی جمہوریت آج تک دنیا میں کبھی قائم نہیں ہوسکی اور عقلی دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ہونا عملاً محال ہے)‘ غور طلب سوال یہ ہے کہ ایسی حالت اگر رونما ہوجائے تو کیا اُس فرضی جنت میں انسان خود اپنے نفس کے شیطان‘ یعنی اُس جاہل اور نادان ’’خدا‘‘ کی بندگی سے بھی آزاد ہوجائے گا جس کے پاس خدائی کرنے کے لیے علم‘ حکمت‘ عدل‘ راستی کچھ بھی نہیں‘ صرف خواہشات ہی خواہشات ہیں‘ اور وہ بھی اندھی اور جابرانہ خواہشات۔
غرض دنیا کے مختلف گوشوں میں انسانی مصائب اور پریشانیوں کے جتنے حل بھی سوچے جارہے ہیں ان سب کا خلاصہ بس اتنا ہی ہے کہ خدائی یا حاکمیت بعض انسانوں سے سلب ہوکر بعض دوسرے انسانوں کی طرف منتقل ہوجائے۔ اور یہ مصیبت کا ازالہ نہیں ہے بلکہ صرف اُس کا اِمالہ ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ سیلابِ بَلااب تک جس راستے سے آتا رہا ہے اُدھر سے نہ آئے بلکہ دوسرے راستہ سے آئے۔ اِس کو اگر حل کہا جا سکتا ہے تو یہ ایسا ہی حل ہے جیسے دق کی بیماری کو سرطان سے تبدیل کر لیا۔ اگر مقصود محض دِق کو دُور کرنا تھا تو بے شک آپ کامیاب ہوئے‘ لیکن اگر اصل مقصد جان بچانا تھا تو ایک پیامِ اجل کو دوسرے پیکِ اجل سے تبدیل کرکے آپ نے کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کی۔
خواہ ایک انسان دوسرے کا خدا بنے‘ یا دوسرے کی خدائی تسلیم کرے‘ یا آپ اپنا خدا بن جائے‘ بہرحال ان تمام صورتوں میں تباہی اور خسران کا اصل سبب جوں کا توں باقی رہتا ہے۔ کیونکہ جو فی الواقع بادشاہ نہیں ہے وہ اگر بادشاہ بن بیٹھے‘ جو حقیقت میں بندہ اور غلام ہے۔ وہ اگر اپنے آپ کو خواجگی و خداوندی کے مقام پر متمکن سمجھ لے‘ جو دراصل ذمہ دار اور مسئول رعیت ہے وہ اگر غیرذمہ دار اور خودمختار حاکم بن کر کام کرنے لگے‘ تو اِس اِدّعا کی اور ایسے اِدّعا کو تسلیم کرنے کی حقیقت ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ اصلیت جو کچھ ہے وہ تو بہرحال وہی کی وہی رہے گی۔حقیقت میں تو جو خدا ہے وہ خدا ہی رہے گا اور جو بندہ ہے وہ بندہ ہی رہے گا۔ مگر جب بندہ اس عظیم الشان بنیادی غلط فہمی پر اپنی زندگی کی ساری عمارت اٹھائے گا کہ وہ خود حاکمِ اعلیٰ ہے یا کوئی دوسرا بندہ اِس کا حاکمِ اعلیٰ ہے‘ اور جب وہ یہ سمجھ کر کام کرے گا کہ اس سے بالاترکوئی حاکم نہیں ہے جس کے سامنے وہ جواب دہ ہو اور اپنے امرونہی میں جس کی رضا لینے کا محتاج ہو‘ تو یقینا اس کی زندگی کی عمارت ازسرتاپا غلط ہوکر رہ جائے گی اور اس میں راستی و صحت کو تلاش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
یہ بات آخر کس طرح انسان کی عقل قبول کر لیتی ہے کہ خلق کسی کی ہو اور امر کسی اور کا ہو؟ پیدا کرنے اور پالنے والا کوئی ہو اورحکم کسی اور کا چلے؟ ملک کسی کا ہو اور بادشاہت کسی اور کی ہو؟
جس نے انسان کو بنایا‘ جس نے انسان کے لیے زمین کی قیام گاہ بنائی‘ جو اپنی ہوا‘ اپنے پانی‘ اپنی روشنی اور حرارت‘ اور اپنے پیدا کیے ہوئے سامانوں سے انسان کی پرورش کر رہا ہے‘ جس کی قدرت انسان کا اور اُس پوری زمین کا‘ جس میں انسان رہتا ہے‘ احاطہ کیے ہوئے ہے‘ اور جس کے حیطۂ قدرت سے انسان کسی حال میں نکل ہی نہیں سکتا‘ عقل اور فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہی انسان کا اور اس زمین کا مالک ہو‘ وہی خدا اور رب ہو‘ اور وہی بادشاہ اور حاکم بھی ہو۔ اُس کی بنائی ہوئی دنیا میں خود اُس کے سوا اور کس کو حکومت و فرمانروائی کا حق پہنچتا ہے؟ کس طرح ایک مملوک یہ کہنے کا حق دار ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے مملوکوں کا مالک ہے؟ صانع اور پروردگار کے سوا اپنی مصنوعات اور اپنے پروردوں کی ملکیت اور کس کے لیے جائز ہوسکتی ہے؟ کون اتنی قدرت رکھتاہے‘ کس کے پاس اتنا علم ہے‘ کس کا یہ ظرف ہے کہ اس سلطنت میں فرمانروائی کرسکے؟ اگر انسان اس سلطنت کے اصلی سلطان کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا اور اُس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت مانتا ہے‘ یا خود اپنی حاکمیت کا اِدّعا کرتا ہے تو یہ صریح واقعہ کے خلاف ہے‘ بنیادی طور پر غلط ہے‘ ایک عظیم الشان جھوٹ ہے۔ سب سے زیادہ سفید جھوٹ‘ ایساجھوٹ جس کی تردید زمین و آسمان کی ہر شے ہر وقت کر رہی ہے۔ ایسے بے بنیاد دعوے اور ایسی غلط تسلیم و اطاعت سے حقیقتِ نفس الامری میں ذرّہ برابر بھی فرق واقع نہیں ہوتا۔ جو مالک ہے وہ مالک ہی رہے گا‘ جو بادشاہ اور حاکم ہے وہ بادشاہ اور حاکم ہی رہے گا‘ البتہ خود اُس انسان کی زندگی ازسرتاپا غلط ہوکر رہ جائے گی جو واقعہ کے خلاف دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرکے‘ یا خود اپنی حاکمیت کا مدّعی بن کر کام کرے گا۔ حقیقت اِس کی محتاج نہیں ہے کہ تم اس کا ادراک کرو تب ہی وہ حقیقت ہو۔ نہیں! تم خود اس کے محتاج ہو کہ اس کی معرفت حاصل کر کے اپنی سعی و عمل کو اس کے مطابق بنائو۔ اگر تم حقیقت کو محسوس نہیں کرتے اور کسی غلط چیز کو حقیقت سمجھ بیٹھتے ہو تو اس میں نقصان تمھارا اپنا ہے۔ تمھاری غلط فہمی سے حقیقت میں کوئی تغیر رونما نہیں ہو سکتا۔
ظاہر ہے کہ جس چیز کی بنیاد ہی سرے سے غلط ہو اس کو جزوی ترمیمات اور فروعی اصلاحات سے کبھی درست نہیں کیا جاسکتا۔ ایک جھوٹ کے ہٹ جانے اور اس کی جگہ دوسرے جھوٹ کے آجانے سے حقیقت میں کوئی فرق بھی واقع نہیں ہوتا۔ اس قسم کی تبدیلی سے طفل تسلی تو ہوسکتی ہے مگر غیرحق پر زندگی کی عمارت قائم کرنے کا جو نقصان ایک صورت میں تھا وہی دوسری صورت میں بھی علیٰ حالہٖ باقی رہتا ہے۔
اس نقصان کو دُور کرنے اور انسانی زندگی کو حقیقی فلاح سے ہمکنار کرنے کی کوئی صورت اِس کے سوا نہیں ہے کہ غیراللہ کی حاکمیت سے کلیتاً انکار کیا جائے اور اُس کی حاکمیت تسلیم کی جائے جو فی الواقع مالک الملک ہے۔ ہر اُس نظامِ حکومت کو ردّ کر دیا جائے جو انسانی اقتدارِ اعلیٰ کے باطل نظریات پر قائم ہو اور صرف اُس نظامِ حکومت کو قبول کیا جائے جس میں اقتدارِ اعلیٰ اُسی کا ہو جو فی الحقیقت مقتدرِ اعلیٰ ہے۔ ہر اُس حکومت کے حق حکمرانی کو ماننے سے انکار کر دیا جائے جس میں انسان بذاتِ خود حاکم اور صاحبِ امرونہی ہونے کا مدّعی ہو‘اور صرف اُس حکومت کو جائز قرار دیا جائے جس میں انسان اصلی اور حقیقی حاکم کے ماتحت خلیفہ ہونے کی حیثیت قبول کرے۔ یہ بنیادی اصلاح جب تک نہ ہوگی‘ جب تک انسان کی حاکمیت‘ خواہ وہ کسی شکل اور کسی نوعیت کی ہو‘ جڑ پیڑ سے اُکھاڑ کر نہ پھینک دی جائے گی‘ اور جب تک انسانی حاکمیت کے غیر واقعی تصور کی جگہ خلافتِ الٰہی کا واقعی (realistic) تصور نہ لے لے گا‘اُس وقت تک انسانی تمدّن کی بگڑی ہوئی کَل کبھی درست نہ ہوسکے گی‘ چاہے سرمایہ داری کی جگہ اشتراکیت قائم ہوجائے‘ یا ڈکٹیٹرشپ کی جگہ جمہوریت متمکن ہوجائے‘ یا امپریلزم کی جگہ قوموں کی حکومت ِخود اختیاری کا قاعدہ نافذ ہو جائے۔
صرف خلافت ہی کا نظریہ انسان کو امن دے سکتا ہے‘ اُسی سے ظلم مٹ سکتا ہے اور عدل قائم ہو سکتا ہے‘ اور اسی کو اختیار کرکے انسان اپنی قوتوں کا صحیح مصرف اور اپنی سعی و جہد کا صحیح رخ پاسکتا ہے۔ ربُّ العالمین اور عالم الغیب والشہادۃ کے سوا اور کوئی انسان تمدّن و عمران کے لیے ایسے اصول اور حدود تجویز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا جو بے لاگ ہوں‘ جن میں جانب داری‘ تعصب اور خودغرضی کا شائبہ تک نہ ہو‘ جو ٹھیک ٹھیک عدل پر قائم ہوں‘ جن میں تمام انسانوں کے مفاد اور حقوق کا یکساں لحاظ کیا گیا ہو‘ جو گمان و قیاس پر نہیں بلکہ حقائق فطرت کے یقینی علم پر مبنی ہوں۔ ایسے ضابطے کی نعمتوں سے انسان صرف اسی طرح بہرہ ور ہو سکتا ہے کہ وہ خود صاحبِ مراد اور قانون ساز بننے کے زعم سے دست بردار ہو جائے‘ خدا پر اور اس کے بھیجے ہوئے قانونِ زندگی پر ایمان لائے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوئے اُس ضابطے کو دنیا میں قائم کرے۔
اسلام انسانی زندگی میں یہی بنیادی اصلاح کرنے آیا ہے۔ اس کو کسی ایک قوم سے دل چسپی اور کسی دوسری قوم سے عداوت نہیں ہے کہ ایک کو چڑھانا اور دوسری کوگرانا اُس کا مقصود ہو‘ بلکہ اُسے تمام نوعِ انسانی کی فلاح و سعادت مطلوب ہے جس کے لیے وہ ایک عالمگیر کلیہ و ضابطہ پیش کرتا ہے۔ وہ ایک تنگ زاویہ سے کسی خاص ملک یا کسی خاص گروہِ انسانی کو نہیں دیکھتا بلکہ وسیع نظر سے تمام روے زمین کو اُس کے تمام باشندوں سمیت دیکھتا ہے‘ اور چھوٹے چھوٹے وقتی حوادث و مسائل سے بالاتر ہوکر اُن اصولی و بنیادی مسائل کی طرف توجہ کرتا ہے جن کے حل ہوجانے سے تمام زمانوں اور تمام حالات و مقامات میں سارے فروعی و ضمنی مسائل آپ سے آپ حل ہو جاتے ہیں۔ اسے ظلم کی شاخوں اور فساد کی فروعی شکلوں سے بحث نہیں ہے کہ آج ایک جگہ ایک شاخ کو کاٹنے پر زور صرف کرے اور کل دوسری جگہ کسی دوسری شاخ سے طبع آزمائی کرنے لگے‘ بلکہ وہ ظلم کی جڑ اور فساد کے سرچشمے پر براہ راست حملہ کرتا ہے تاکہ اِن شاخوں کی پیدایش ہی بند ہو جائے اور جگہ جگہ آئے دن کی کاٹ چھانٹ کا جھگڑا ہی باقی نہ رہے۔
یہ چھوٹے چھوٹے ضمنی مسائل جن میں آج دنیا کی مختلف قومیں اور جماعتیں الجھ رہی ہیں‘ مثلاً یورپ میں ہٹلر کا طغیانِ ناز‘ یا حبش میں اٹلی کا فساد‘ یا چین میں جاپان کا ظلم‘ یا ایشیا و افریقہ میں برطانیہ و فرانس کی قیصریت‘ ] اسی طرح موجودہ عالمی مسائل کو قیاس کرلیجیے[ اسلام کی نگاہ میں اِن کی اور ایسے تمام مسائل کی کوئی اہمیت نہیں۔ اُس کی نگاہ میں ایک ہی سوال اہمیت رکھتا ہے۔ وہ تمام دنیا سے پوچھتا ہے:
ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ (یوسف۱۲:۳۹)
جو لوگ پہلی صورت کے پسند کرنے والے ہیں اسلام اُن سب کو ایک سمجھتا ہے‘ خواہ وہ آپس میں کتنے ہی مختلف شعبوں میں بٹے ہوئے ہوں۔ اُن کی ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد‘ اسلام کی نظر میں ایک فساد کے خلاف دوسرے فساد کی جدوجہد ہے۔ ان میں سے کسی کی دشمنی بھی نفسِ فساد سے نہیں ہے بلکہ فساد کی کسی خاص شاخ سے ہے اور اس لیے ہے کہ جس فساد کا جھنڈا ایک فریق نے بلند کر رکھا ہے‘ وہ سرنگوں ہو اور اُس کی جگہ وہ فساد سربلند ہو جس کا جھنڈا دوسرا فریق اُٹھائے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے فریقین میں سے کسی کے ساتھ بھی اُس کا اشتراکِ عمل نہیں ہو سکتا جو اصل فساد کا دشمن ہو۔ اُس کے لیے تو ایک جھوٹے رب کے پرستاروں اور دوسرے جھوٹے رب کے بندوں میں ترجیح کا سوال ہی نہیں۔ اس کی تو بیک وقت سب سے لڑائی ہے۔ وہ تو اپنا سارا زور صرف ایک ہی مقصد پر صرف کرے گا اور وہ یہ ہے کہ انسان کو متفرق غیرحقیقی ربوں اور الٰہوں کی بندگی سے نکالا جائے اور اُس اللہ واحد قہار کی حاکمیت تسلیم کرائی جائے جو فی الحقیقت رَبُّ النَّاس، مَلِکَ النَّاس اور اِلٰہُ النَّاس ہے۔
لفظ ’’مسلمان‘‘ اگر کوئی بے معنی لفظ ہے اور محض علم کے طور پر انسانوں کے کسی گروہ کے لیے استعمال ہونے لگا ہے‘ تب تو مسلمانوں کو پوری آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ اپنی زندگی کے لیے جو مقصد چاہیں قرار دے لیں اور جن طریقوں پر چاہیں کام کریں۔ لیکن اگر یہ لفظ اُن لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جنھوں نے اسلام کو بطورِ مسلک و مشرب قبول کیا ہے تو یقینا مسلمانوں کے لیے کوئی نظریہ‘ کوئی مقصد اور کوئی طریق کار اسلام کے نظریہ‘ مقصد اور طریق کار کے سوا نہیں ہو سکتا۔ غیر اسلامی نظریہ اور پالیسی اختیار کرنے کے لیے حالاتِ زمانہ اور مقتضیاتِ وقت کا بہانہ کوئی بہانہ نہیں ہے۔ مسلمان جہاں جس ماحول میں بھی ہوں گے ان کو وقتی حوادث اور مقامی حالات و معاملات سے بہرحال سابقہ پیش ہی آئے گا۔ پھر وہ اسلام آخر کس کا اسلام ہے جس کا اتباع صرف مخصوص حالات ہی میں کیا جائے اور جب حالات دگرگوں ہوں تو اسے چھوڑ کر حسبِ سہولت کوئی دوسرا نظریہ اختیار کر لیا جائے؟
دراصل تمام مختلف حالات میںاسلام کے اساسی نظریہ اور بنیادی مقصد کے مطابق طرزِعمل اختیار کرنا ہی مسلمان ہونا ہے‘ ورنہ اگر مسلمان ہر حادثے اور ہر حال کو ایک جداگانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے لگیں اور ہمیشہ موقع و محل دیکھ کر ایک نئی پالیسی وضع کر لیا کریں جس کو اسلام کے نظریہ و مقصد سے کوئی لگائو نہ ہو تو ایسے مسلمان ہونے میں اور نامسلمان ہونے میں قطعاً کوئی فرق نہیں۔ ایک مسلک کی پیروی کے معنی ہی یہ ہیں کہ آپ جس حال میں بھی ہوں آپ کا نقطۂ نظر اور طریق کار اُس مسلک کے مطابق ہو جس کے آپ پیرو ہیں۔ ایک مسلمان‘ سچا مسلمان اُسی وقت ہوسکتا ہے‘ جب کہ وہ زندگی کے تمام جزئی معاملات اور وقتی حوادث میں اسلامی نقطۂ نظر اور اسلامی طریقہ اختیار کرے ‘ جو مسلمان کسی موقع و محل میں اسلامی پہلو چھوڑ کر غیر اسلامی پہلو اختیار کرتا ہے اور یہ عذر پیش کرتا ہے کہ اِس موقع اور اِس محل میں تو مجھے غیراسلامی طریقے ہی پر کام کرلینے دو‘ بعد میں جب حالات سازگار ہوجائیں گے تو مسلمان بن کر کام کرنے لگوں گا‘وہ دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ یا تو اسلام کو وہ بجاے خود کوئی ایسا ہمہ گیر نظامِ زندگی ہی نہیں سمجھتا جو زندگی کے ہر معاملے اور زمانے کی ہر گردش پر یکساں حاوی ہوسکتا ہو‘ یا پھر اس کا ذہن اسلام کے سانچے میں پوری طرح نہیں ڈھلا ہے جس کی وجہ سے اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اسلام کے کلُیات کو جزئی حوادث پر منطبق کرسکے اور یہ سمجھ سکے کہ مختلف احوال میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔…
تمام مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ بحیثیت ایک مسلم جماعت ہونے کے ہمارا تعلق اُس تحریک سے ہے جس کے رہبر و رہنما انبیا علیہم السلام تھے۔ ہر تحریک کا ایک خاص نظامِ فکر اور ایک خاص طریق کار ہوتا ہے۔ اسلام کا نظامِ فکر اور طریق کار وہ ہے جو ہم کو انبیا علیہم السلام کی سیرتوں میں ملتا ہے۔ ہم خواہ کسی ملک اور کسی زمانہ میں ہوں‘ اور ہمارے گردوپیش زندگی کے مسائل و معاملات خواہ کسی نوعیت کے ہوں‘ ہمارے لیے مقصد و نصب العین وہی ہے جو انبیا کا تھا‘ اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ وہی ہے جس پر انبیا ہر زمانے میں چلتے رہے۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہ (الانعام ۶:۹۰)’’وہی لوگ تھے جن کی اللہ نے رہنمائی کی تھی‘ لہٰذا ان کی ہدایت کی پیروی کرو‘‘۔ ہمیں زندگی کے سارے معاملات کو اُسی نظر سے دیکھنا چاہیے جس سے اُنھوں نے دیکھا۔ ہمارا معیارِ قدر وہی ہونا چاہیے جو اُن کا تھا۔ اور ہماری اجتماعی پالیسی اُنھی خطوط پر قائم ہونی چاہیے جن پر انھوں نے قائم کی تھی۔ اس مسلک کو چھوڑ کر اگر ہم کسی دوسرے مسلک کا نظریہ اور طرزِعمل اختیار کریں گے تو گمراہ ہو جائیں گے۔ یہ بات ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم اُس تنگ زاویے سے معاملاتِ دنیا پر نگاہ ڈالیں جس سے ایک قوم پرست‘ یا ایک جمہوریت پسند‘یا ایک اشتراکی ان کو دیکھتا ہے۔ جو چیزیںان کے لیے بلند ترین منتہاے نظر ہیں وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں۔ اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے‘ انھی کی زبان میں باتیں کریں گے‘ اور اُنھی گھٹیا درجے کے مقاصد پرزور دیں گے جن پر وہ فریفتہ ہیں‘ تو اپنی وقعت کو ہم خود ہی خاک میں ملا دیں گے۔ شیر اگر بکری کی سی بولی بولنے لگے اور بُزغالوں کی طرح گھاس پر ٹوٹ پڑے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جنگل کی بادشاہی سے وہ آپ ہی دست بردار ہوگیا۔ اب وہ اس کی توقع کیسے کر سکتا ہے کہ جنگل کے لوگ اس کی وہ حیثیت تسلیم کریں گے جو شیر کی ہونی چاہیے؟
… خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہو کر تمام دنیا سے غیراللہ کی حاکمیت مٹادیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں۔ یہ شیر کا منصب ہے اور اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں ہیں‘ بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے۔ وہ شیر‘ شیر نہیں ہے جو اگر پنجرے میں بند ہو تو بکری کی طرح مِمیانے لگے‘ اور شیر وہ بھی نہیں جو بکریوں کی کثرت تعداد کو دیکھ کر یا بھیڑیوں کی چیرہ دستی دیکھ کر اپنی شیریّت بھول جائے۔ (انتخاب: تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘ حصہ دوم‘ ص ۹۴-۱۰۸)