دسمبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

امریکا: عراق کی دلدل میں

محمد الیاس انصاری | دسمبر ۲۰۰۴ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

امریکی دہشت گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہیروشیما ہو یا ناگاساکی‘ ابوغریب جیل ہو یا گوانتانامو‘ یا پھر افغانستان کے گمنام بیسیوں ابوغریب جیل--- ہر جگہ ظلم کی نئی تکنیک آزمائی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکی افواج کو بھی اس ظلم کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ کم ہونے کے بجاے مزید پھیل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’دہشت گردی‘‘ میں کمی کے بجاے شدت پیدا ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے امریکا اپنی حکمت عملی میں ناکام ہوچکا ہے۔ امریکا کو اپنے ماضی سے ہی کچھ سبق سیکھنا چاہیے۔

عراق پر جارحیت سے محض ۳۰ برس قبل امریکا نے ویت نام میں جنوری ۱۹۷۳ء میں جنگ ہاری تھی۔ اس جنگ میں ۵۸ہزار امریکی فوجی ہلاک‘ ۳ لاکھ ۴۰ ہزار فوجی زخمی اور ڈھائی ہزار فوجی لاپتا ہوگئے‘ جب کہ امریکا کا ۱۵۰ ارب ڈالر سے زائد کا خرچ اٹھا۔ سابق سوویت یونین کا تجربہ بھی اس کے سامنے ہے۔ جیسے جیسے ظلم و تشدد میں اضافہ ہوگا‘ امریکا کے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا‘ امریکا کے خلاف نفرت بڑھے گی اور ردعمل میں شدت آتی چلی جائے گی۔ نتیجتاً امریکا اپنے انجام کی طرف مزید تیزی سے بڑھے گا۔ خود مغربی اہلِ دانش کو بھی اس پر تشویش لاحق ہے۔

۲۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو تمام ذرائع ابلاغ نے یہ خبر دی کہ گذشتہ سال عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ عام شہری ہلاک (شہید)ہوچکے ہیں۔ جان ہوپکن یونی ورسٹی کے پبلک ہیلتھ اسکول میں ہونے والی تحقیق کے مطابق‘ ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی     یہ تعداد ایک سروے کے ذریعے حاصل کی گئی ہے۔ زیادہ تر افراد گنجان آباد علاقوں پر ہونے والی بم باری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں گھر تباہ ہو رہے ہیں‘ بے گناہ شہری‘ معصوم بچے بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں جو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

عراق میں ابھی امریکا اور اتحادیوں کی جارحیت جاری ہے اور تحقیقی ادارے امریکی نقصانات کا بھی تجزیہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میںامریکا کی ایک مجلس دانش (think tank) دی انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز نے عراق پر امریکی جارحیت کے حوالے سے ایک تحقیقی منصوبہ شروع کیا جس میں مارچ ۲۰۰۳ء سے ۲۲ستمبر ۲۰۰۴ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا اور ۳۰ستمبر ۲۰۰۴ء کو ۸۸ صفحات پر مشتمل ایک نہایت اہم اور دل چسپ رپورٹ جاری کی جو انٹرنیٹ پر درج ذیل ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے:

www.ips-dc.org/iraq/failedtransition

اس رپورٹ کا عنوان ہے: A failed "Transition": The Mounting Costs of the Iraq War  ‘ یعنی ناکام ’’عبوری دور‘‘: جنگِ عراق کی بڑھتی ہوئی قیمت۔ رپورٹ کے اہم نکات کا خلاصہ یہ ہے:

ناکام عبوری عراقی حکومت: ناکام عبوری حکومت کی وجہ سے جنگِ عراق کے نقصانات کا امریکا عراق اور پوری دنیا کو سامنا ہے۔ بش نے دعویٰ کیا تھا کہ عراق میں عبوری حکومت کے قیام سے جانی اور مالی نقصانات کم ہوجائیں گے۔ لیکن اِس دوران زخمی اور ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد میں ماہانہ اضافہ اوسطاً ۴۱۵ سے بڑھ کر ۷۴۷ ہوگیا ہے۔

عراقی مزاحمت میں اضافہ: پینٹاگون کے اندازوں کے مطابق نومبر۲۰۰۳ء اور اوائل ستمبر ۲۰۰۴ء کے دوران عراقی مزاحمت کاروں (حریت پسندوں) کی تعداد میں ۴ گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ تعداد پہلے ۵ ہزار تھی اب یہ ۲۰ ہزار تک جاپہنچی ہے۔ عراق میں اتحادی افواج کے نائب کمانڈر برطانوی میجر جنرل اینڈریو گراہم نے ستمبر کے اوائل میں ٹائم میگزین کو بتایا تھا کہ اس کے خیال میں مزاحمت کاروں کی بیان کردہ تعداد ۲۰ ہزار نہایت کم ہے‘ جب کہ اس کے اپنے تخمینے کے مطابق یہ تعداد ۴۰ سے ۵۰ ہزار کے درمیان ہے۔ مزاحمت کاروں کی تعداد میں اس اضافے کی صورت حال اس وقت اور بھی حیران کن ہوجاتی ہے جب بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تخمینے کا پہلو بہ پہلو جائزہ لیا جائے۔ اُس کا اندازہ ہے کہ مئی ۲۰۰۳ء اور اگست ۲۰۰۴ء کے درمیان مذکورہ بالا مزاحمت کاروں کی تعداد کے علاوہ ۲۴ ہزار عراقی مزاحمت کاروں کو یا تو ہلاک (شہید) کر دیا گیا ہے یا پھر گرفتار۔ جنگ کے آغاز پر امریکی قیادت میں جنگ لڑنے والے اور اتحادی ممالک کی تعداد ۳۰ تھی۔ اب آٹھ ممالک نے اپنی افواج واپس بلا لی ہیں۔ جنگ کے آغاز پر اتحادی ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کی ۱۹ فی صد نمایندگی کرتی تھی‘ جب کہ آج وہ ممالک جن کی افواج ابھی عراق میں موجود ہیں ان کی آبادی دنیا کی کل آبادی کی ۶.۱۳ فی صد نمایندگی کرتی ہے۔

امریکا اور اتحادیوں کا جانی نقصان: جنگ کے آغاز ۱۹مارچ ۲۰۰۳ء سے ۲۲ستمبر ۲۰۰۴ء کے درمیان ۱۱۷۵ اتحادی فوجی ہلاک ہوئے جن میں ۱۰۴۰ امریکی فوجی بھی شامل تھے۔ جنگ کے آغاز سے ۷ ہزار ۴ سو ۱۳ امریکی فوجی زخمی ہوئے جن میں سے ۶ہزار ۹ سو ۵۳ یکم مئی ۲۰۰۳ء کے بعد زخمی ہوئے۔ اندازاً ۱۵۴ شہری ٹھیکیدار‘ عیسائی مشنری اور عام شہری کارکن ہلاک ہوئے جن میں سے ۵۲ کی شناخت بطور امریکی ہوئی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے   منسلکہ ۴۴ کارکن عراق میں ہلاک ہوئے جن میں وہ ۳۳ صحافی بھی شامل ہیں جو صدربش کے  اعلانِ جنگ کے بعد ہلاک ہوئے۔ ان ہلاک شدگان میں سے آٹھ صحافی امریکی تھے۔

امریکی ساکھ کو نقصان: آٹھ یورپی اور مغربی ممالک کے جائزوں کے مطابق اس جنگ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد نہیں کی‘ بلکہ اس میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اندرون ملک‘ انیسن برگ الیکشن سروے کی جانب سے کیے گئے مطالعاتی جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ ۵۲ فی صد امریکیوں کی رائے میں صدر بش‘ عراق کے معاملے کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

  عسکری غلطیاں: متعدد سابق امریکی فوجی حکام نے جنگ پر تنقید کی ہے۔ تنقید کرنے والوں میں شامل ریٹائرڈ میرین جنرل انتھونی زینی نے کہا ہے کہ جنگ کے لیے جھوٹے جواز گھڑنے‘ روایتی اتحادیوں کو چھوڑنے‘ عراقی جلاوطنوں کو ابھارنے اور ان پر اعتماد کرنے اور بعد از جنگ‘ عراق کے لیے منصوبہ بندی میں ناکامی کے ذریعے‘ بش انتظامیہ نے امریکا کو کم محفوظ بنا دیا ہے۔

  فوجیوں میں کم حوصلگی : مارچ ۲۰۰۴ء میں کیے گئے ایک فوجی جائزے سے پتا چلا کہ ۵۲ فی صد فوجیوں میں کم حوصلہ (low morale) ہے‘ جب کہ تین چوتھائی فوجیوں نے بتایا کہ ان کے افسران نے ان کی اچھی قیادت نہیں کی۔

نیشنل گارڈ ٹروپس اس وقت عراق میں امریکی فوج کا تقریباً ایک تہائی ہیں جن میں پولیس‘آگ بجھانے والے کارکنان اور ہنگامی طبّی امدادی عملے کے کارکنان ہیں۔ ان کی تعیناتی سے ان کے اپنے علاقوں کی کمیونٹی پر بھاری بوجھ آن پڑا ہے اور کسی ہنگامی صورت حال کے پیش آنے پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اندازاً ۲۰ ہزار غیر سرکاری ٹھیکیدار اس وقت عراق میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو اس سے پہلے روایتی طور پر خود امریکی فوج انجام دیا کرتی تھی۔

  امریکی معیشت پر طویل المدت اثرات : اب تک کا نقصان (The bill so far) کانگریس نے عراق کے لیے ۱.۱۵۱ ارب ڈالر کا بل منظور کیا ہے۔ کانگریس کے رہنما توقع کر رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد ۶۰ ارب ڈالر کا اضافی ضمنی بل کانگریس میں پیش ہوگا۔

ماہر اقتصادیات ڈائوگ ہین وڈ (Doug Henwood)نے اندازہ لگایا ہے کہ جنگ کی وجہ سے ایک امریکی گھرانے کا اوسطاً کم از کم ۳ ہزار ۴ سو ۱۵ ڈالر کا خرچ بڑھ جائے گا۔ ایک اور ماہر اقتصادیات جیمز گالبریتھ (James Galbraith) نے‘ جو یونی ورسٹی آف ٹیکساس سے تعلق رکھتے ہیں‘ پیشین گوئی کی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جنگی اخراجات سے ابتدائی طور پر معیشت کو فروغ ملے‘ مگر امکان ہے کہ یہ معاشی مسائل میں اضافے کا باعث ہوں گے جن میں بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور افراطِ زر کی بلند شرح بھی شامل ہے۔

امریکی خام تیل کی قیمتیں ۱۹ اگست ۲۰۰۴ء کو ۴۸ ڈالر فی بیرل تک جا پہنچیں جو ۱۹۸۳ء سے اب تک سب سے زیادہ قیمت ہے۔ اس صورت حال کو اکثر تجزیہ نگار‘ عراق میں بگڑتی ہوئی صورت حال سے جزوی طور پر جوڑ رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۴۰ ڈالر فی بیرل کے حساب سے ایک سال تک خام تیل کی قیمتیں برقرار رہتی ہیں تو پھر امریکا کی قومی خام پیداوار (GDP) ۵۰ ارب ڈالر سے بھی زیادہ گر جائے گی۔

  فوجی خاندانوں پر معاشی اثرات : افغانستان اور عراق پر جنگوں کے آغاز سے ۳لاکھ ۶۴ ہزار ریزرو فوجی اور نیشنل گارڈ سے منسلک سپاہیوں کو فوجی خدمات کے لیے طلب کیاگیا ہے۔ فوجی ہنگامی امداد (Army Emergency Relief) کے ادارے کا بیان ہے کہ فوجی خاندانوں کی جانب سے فوڈسٹیمپ اور سستی خوراک کے لیے درخواستوں میں ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۳ء کے درمیان کئی سو فی صد اضافہ ہوا ہے۔

سماجی اثرات : بش انتظامیہ کی جانب سے بھاری جنگی اخراجات اور امیروں پر ٹیکس کٹوتی میں چھوٹ کے مشترکہ اقدامات کا نتیجہ‘ سماجی ترقی کے لیے رقم میں کمی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ حالانکہ اس سال ہونے والے ۱.۱۵۱ ارب ڈالر کے جنگی اخراجات سے کم آمدن والے خاندانوں‘ بزرگوں اور معذوروں کے لیے‘ امریکی وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سہولت اور ہائوسنگ ووچرز کے تحت ۲۳ ملین گھر تعمیر ہو سکتے تھے‘ ۲۷ ملین غیرانشورنس شدہ امریکیوںکے لیے صحت کی انشورنس ہوجاتی‘ ایلیمنٹری اسکولوں کے تقریباً ۳ ملین اساتذہ کی تنخواہیں ادا ہوجاتیں‘ ۶لاکھ ۷۸ہزار ۲ سو آگ بجھانے والی گاڑیاں خرید لی جاتیں‘ ایک سال کے لیے ۲۰ملین بچوں کی مدد ہوسکتی تھی یا ۸۲ ملین بچوں کی صحت کی ضروریات پوری ہوتیں۔

  سابقہ فوجیوں کے علاج پر اخراجات:  زخمی ہونے والے ۷ ہزار سے زائد فوجیوں کے تقریباً ۶۴ فی صد کو ایسے کاری زخم آئے ہیں جن کی وجہ سے وہ ڈیوٹی پر نہیں پلٹ پائے‘ جب کہ علاج پر اخراجات الگ اٹھ رہے ہیں۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن نامی جریدے نے جولائی ۲۰۰۴ء میں تحریر کیا کہ جنگِ عراق سے پلٹنے والے ہر چھے میں سے ایک فوجی میں مابعد اعصاب زدگی‘ زبردست ذہنی دبائواور شدید نوعیت کی بے چینی کے آثار پائے گئے ہیں۔ اس مطالعے میں شامل فوجیوں میں ۲۳ سے ۴۰ فی صد فوجیوں نے ذہنی صحت کے لیے علاج معالجے کی خواہش ظاہر کی۔

  عراقی ھلاکتیں اور زخمیوں کی تعداد : امریکی جارحیت  کے نتیجے میں ۱۲ہزار ۸ سو سے ۱۴ ہزار ۸ سو ۴۳ عراقی شہری ہلاک ہوئے‘ جب کہ ایک اندازے کے مطابق ۴۰ہزار عراقی زخمی ہوئے۔ بڑے جنگی آپریشن کے دوران ۴ ہزار ۸سو ۹۵ سے ۶ہزار ۳ سو۷۰ عراقی فوجی اور مزاحمت کار ہلاک (شہید) ہوئے۔

  تخفیف شدہ یورینیم کے اثرات : پینٹاگون کے مطابق امریکا اور برطانیہ کی افواج نے زہریلے (toxic) اور ریڈیو ایکٹو دھاتوں سے بنا ۱۱۰۰ سے ۲۲۰۰ ٹن گولہ بارود مارچ ۲۰۰۳ء کی بم باری کی مہم میں استعمال کیا۔ بہت سے سائنس دان جنگِ خلیج کے دوران میں تخفیف شدہ یورینیم (DU) کے استعمال کو‘ جو عراق میں استعمال شدہ مقدار سے کہیں کم تھی‘ امریکی فوجیوں میں بیماری اور بصرہ اور جنوبی عراق میں بچوں کے پیدایشی نقص میں سات گنا اضافے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

  جرائم میں اضافہ: قتل ‘ زنا اور اغوا کی وارداتوں میں بے پناہ اضافے نے عراقی بچوں کو اسکولوں سے اور عورتوں کو بازاروں اور گلی کوچوں سے دُور رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پُرتشدد اموات کے ضمن میں ۲۰۰۲ء میں ۱۴ فی ماہ کے مقابلے میں ۲۰۰۳ء میں فی ماہ ۳۵۷ اموات کا اضافہ ہوا ہے۔

  بے روزگاری: عراق میں بے روزگاری کی شرح ‘جنگ سے پہلے ۳۰ فی صد تھی جو بڑھ کر ۲۰۰۳ء کے موسمِ گرما میں ۶۰ فی صد ہوگئی ہے‘ جب کہ بش انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ     بے روزگاری میں کمی آئی ہے۔ امریکا نے عراق کی ۷۰ لاکھ لیبر فورس میں سے صرف ایک لاکھ ۲۰ہزار کو تعمیرنو کے منصوبوں میں ملازمت دی ہے۔

  عراق کی تیل کی معیشت : امریکا مخالف قوتوں نے عراق کی عبوری حکومت کو اپنے تیل کے اثاثے استعمال میں لانے سے روک رکھا ہے۔ جون ۲۰۰۳ء سے عراقی تیل کے انفراسٹرکچر پر کم از کم ۱۱۸ حملے ہوچکے ہیں۔

نظامِ صحت کے بنیادی ڈہانچے کی تباھی: ایک عشرے سے زائد کی پابندیوں نے عراق کے نظامِ صحت کی سہولیات کو دورانِ جنگ اور بعداز جارحیت‘ لوٹ مار  (post- invasion looting) نے مزید ابتر بنا دیا۔عراقی ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی میں کمی اور مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

  تعلیم کی صورت حال :  اقوام متحدہ کے ادارۂ اطفال (UNICEF)کا تخمینہ ہے کہ اس تنازع کے دوران ۲۰۰ سے زائد اسکول تباہ ہوئے اور مزید ہزاروں اسکولوں کو  صدام حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والی افراتفری کے دوران لوٹا گیا۔

  ماحولیات: عراق میں نکاسی آب اور فراہمی آب کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ تیل کے کنوئوں کو آگ لگ جاتی ہے جس کا دھواں بڑے پیمانے پر پھیل کر عوام اور ماحول کے لیے آلودگی اور خطرات میں اضافے کا باعث ہے۔ باوردی سرنگوں اور بے پھٹے اسلحے سے ہر ماہ اندازاً ۲۰ اموات واقع ہوتی ہیں۔

  حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی: صدام کے زوال کے بعد بھی عراقیوں کو قابض فوجیوں کے ہاتھوں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کا مسلسل سامنا ہے۔

  منتقلی اقتدار کی ’’قیمت‘‘ : عراق کو ’’انتقالِ حاکمیت اعلیٰ‘‘ کے اعلان کے باوجود ابھی تک ملک امریکی اور اتحادی افواج کے قبضے میں ہے اور سیاسی اور معاشی آزادیوں کو محدود کر دیا گیا ہے۔ عبوری حکومت کو یہ اختیار تک حاصل نہیں کہ وہ سابق امریکی منتظم پائول پریمر کے قریباً ۱۰۰ احکامات کو کالعدم قرار دے سکے۔ ان میں عراق کے تیل کے سرکاری نظام کی نج کاری کی اجازت بھی شامل ہے۔ یہ احکامات تعمیرنو میں عراق کی قومی تعمیراتی فرموں کو ترجیحی بنیادوں پر شراکت سے روکتے ہیں۔

  دنیا پر اثرات : عراق پر امریکی جارحیت کے عالمی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اتحادی افواج کی موجودگی کے سبب مختلف ممالک کی افواج کو ہلاکتوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی دیگر ممالک کے لیے بھی مثال بن گئی ہے کہ وہ عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے‘ طاقت کے بل بوتے پر دوسرے ممالک پر حملہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح امنِ عالم خطرے سے دوچار ہوگیا ہے اور خود اقوام متحدہ کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بش انتظامیہ نے عراق پر قبضے کے جواز کے لیے بھی اقوام متحدہ پر دبائو ڈالا جو اس کے چارٹر کے منافی تھا۔ اسی وجہ سے کوفی عنان نے اپنی ستمبر ۲۰۰۴ء کی تقریر میں واضح طور پر کہاکہ یہ غیرقانونی جنگ ہے۔ سلامتی کونسل سے حمایت نہ ملنے پر امریکا نے دبائو کے ذریعے‘ دیگر ممالک کو اتحادی بنانے کی کوشش کی‘ جب کہ ان ممالک کی ۹۰ فی صد تک آبادی اس جنگ کے خلاف تھی۔

  عالمی معیشت کو نقصان: ۱.۱۵ ارب ڈالرجو امریکا نے جنگ میں خرچ کیے ہیں اس رقم سے دنیا بھر میں بھوک کو نصف کم کیا جا سکتا تھا اور ایچ آئی وی ایڈز کے لیے ادویات‘ بچوں کو بیماریوں سے مامون‘ ترقی پذیر ممالک کی صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی دو سال کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے نے ۱۹۷۰ء کے زمانے کی معاشی جمود کی کیفیت کے پلٹنے کے اندیشوں کو جنم دینا شروع کر دیا ہے۔ پہلے ہی بڑی فضائی کمپنیاں ہر ماہ اپنے اخراجات میں ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اضافے کی توقع کر رہی ہیں۔

  عالمی سلامتی کو خطرات : امریکی قیادت میں جنگ اور دوسرے ممالک پر قبضے نے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کو نہ صرف عراق بلکہ دنیا بھر میں کارروائیوں کے لیے محرک فراہم کر دیا ہے جس سے دنیا کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ محکمہ خارجہ کی بین الاقوامی دہشت گردی کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ۲۰۰۳ء میں دہشت گردی سے متعلقہ واقعات میں شدت سے اضافہ ہوا۔

  عالمی ماحولیاتی نقصان : امریکا کی جانب سے داغے گئے تخفیف شدہ یورینیم نے عراق کی سرزمین اور پانی کو تو آلودہ کیا ہی ہے مگر اس کے ناگزیر اثرات دوسرے ممالک تک بھی پہنچیں گے مثلاً اس کے نتیجے میں دریاے دجلہ بری طرح سے آلودہ ہوگیا ہے جو عراق‘ ایران اور کویت کے درمیان بہتا ہے (یہ سب اس کے اثرات سے متاثر ہوں گے)۔

  حقوقِ انسانی : محکمۂ انصاف کا وہ میمو جس میں وائٹ ہائوس کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ تشدد اور اذیت دینے کا عمل قانونی تھا۔ یہ تعذیب کے خلاف اُس بین الاقوامی کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے جس پر امریکا نے بھی دستخط کیے ہیں۔ عراقی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی اور توہین آمیز رویے نے ہر جارحیت پسند کو تعذیب اور بدسلوکی کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔

اس تحقیقی رپورٹ سے عراق پر امریکی جارحیت کے اثرات کی ایک جھلک سامنے آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا امریکا ویت نام کے بعد عراق کی دلدل سے جلد نکلنے کے لیے تیار  ہے یا قانونِ مکافات کے تحت اپنے پیش روئوں کی طرح کسی بدتر انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔فاعتبروا یااولی الابصار!