حضرت انسان بھی خوب ہیں۔ اس بات پر پریشان رہے کہ آبادی میں اضافہ ہوتا جائے گا اور یہ بم پھٹے گا توکیا ہوگا؟ یا اب اس پر پریشان ہیں کہ آبادی کم ہوتی گئی (اور بوڑھی نسل میں اضافہ ہوتا گیا) تو اس دنیا کا کیا بنے گا؟ اللہ تعالیٰ کے کام مقررہ اندازوں سے ہوتے ہیں لیکن بندہ اپنی عقل و دانش سے ان اندازوں کو بگاڑتا ہے اور پھر ان کے نتائج بھگتتا ہے۔
وسط ستمبر ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ نے انتباہ جاری کیا کہ دنیا کے بڑے شہروں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ لاگوس کی آبادی ۱۹۹۵ء میں ۶۵ لاکھ تھی‘ جو ۲۰۱۵ء تک ایک کروڑ ۶۰لاکھ ہونے کا امکان ہے۔
یہ مکمل کہانی نہیں ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں خاندانوں میں اولاد کی تعداد کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ شرح افزایش میں ۱۹۷۲ء کے مقابلے میں آدھی سے زیادہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ پہلے ایک عورت چھے بچوں کو جنم دیتی تھی اب وہ اوسطاً صرف ۹ئ۲ بچوں کو جنم دیتی ہے۔ ماہرین آبادی کے مطابق اس تعداد میں تیزی سے مزید کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
دنیا کی آبادی میں اضافہ بہرحال جاری رہے گا۔ آج دنیا کی آبادی ۶ ارب ۴۰ کروڑ ہے جو ۲۰۵۰ء میں ۹ ارب تک جا پہنچے گی۔ اس کے بعد آبادی میں بہت تیزی سے کمی ہونا شروع ہوجائے گی۔ اُس وقت آبادی کی کمی کے اثرات سامنے آجائیں گے تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تدابیر کی جائیں گی۔ کئی ممالک میں یہ عمل پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔ آبادی کا یہ نیا توازن قوموں کی قوت‘عالمی معاشی افزایش‘ ہماری زندگیوں کا معیار‘غرض دنیا کی ہر چیز کو تبدیل کر دے گا۔
یہ انقلابی تبدیلی ترقی یافتہ ممالک نہیں‘ بلکہ ترقی پذیر ممالک کے ذریعے آئے گی۔ ہم میں سے اکثر لوگ آبادی کے رجحانات کے حوالے سے یورپ کے بارے میں آگاہ ہیں جہاں برسوں سے شرح پیدایش میں کمی آتی جارہی ہے۔ اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یورپ کی ہر عورت کے ہاں ۱ئ۲ بچے پیدا ہوں مگر یورپ میں شرح پیدایش اس سے بھی کہیں کم ہے۔ اقوام متحدہ کی آبادی رپورٹ ۲۰۰۲ء کے مطابق فرانس اور آئرلینڈ ۸ئ۱ بچوں کے تناسب سے یورپ میں سب سے بلند شرح پیدایش‘ جب کہ اٹلی اور اسپین ۲ئ۱ بچوں کے تناسب سے یورپ میں سب سے کم شرح پیدایش کے حامل ممالک ہیں‘ جب کہ ان کے درمیان جرمنی جیسے ممالک ہیں جن کی شرح پیدایش ۴ئ۱ کے تناسب سے یورپ کی اوسط کے مطابق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے ۴۰برسوں میںجرمنی کی کُل ۸ کروڑ۲۵ لاکھ آبادی میں سے پانچواں حصہ کم ہوجائے گا۔
یہی صورت حال پورے یورپ میں ہے۔ بلغاریہ کی آبادی میں ۳۰ فی صد‘ رومانیہ میں ۲۷فی صد‘ جب کہ ایسٹونیا میں ۲۵ فی صد کمی ہوگی۔ مشرقی یورپ کے بعض خطے جو پہلے ہی کم آبادی کا شکار ہیں‘ ان کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ ’بیابان‘ میں تبدیل ہوجائیں گے۔
یہ اندازے اور تخمینے برلن انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے ڈائرکٹر Reiner Klingholz کے ہیں۔ روس پہلے ہی سالانہ ساڑھے سات لاکھ آبادی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ روسی صدر نے اس صورت حال کو ’’قومی بحران‘‘ قرار دیا ہے۔ یہی حالت مغربی یورپ کی بھی ہے جہاں زیادہ نہیں تو اس صدی کے وسط تک سالانہ ۳۰ لاکھ لوگوں کی کمی ہوجایا کرے گی۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اسی روش کو نہایت تابعداری کے ساتھ اندھوں کی طرح اپنا رہے ہیں۔ جاپان جلد ہی آبادی کے خسارے سے دوچار ہونے والا ہے۔ اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق اگلے چار عشروں میں جاپان اپنی موجودہ ۳ئ۱شرح پیدایش کے سبب ۱۲ کروڑ ۷۰ لاکھ کی آبادی کا ایک چوتھائی کھوبیٹھے گا۔ مگر چین کا کیا کیا جائے جہاں ۱۹۷۰ء میں شرح پیدایش ۸ئ۵ تھی‘ آج گھٹ کر ۸ئ۱ رہ گئی ہے۔ چین کی مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق شرح پیدایش اس سے بھی کم یعنی ۳ئ۱ ہے۔ دوسری جانب اوسط عمر میں اضافہ ہونے کے باعث بوڑھوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ چین کی ایک ہی نسل میں جتنے لوگ بوڑھے ہوں گے وہ پورے یورپ میں ایک سو سال میں نہیں ہوئے ہوں گے۔ چین اور جاپان کے بارے میں یہ اعداد وشمار نہایت مستند ادارے Centre for Strategic and International Studies واشنگٹن نے اپنی ایک رپورٹ میں شائع کیے ہیں۔ جسے نیوزویک نے ۲۷ ستمبر ۲۰۰۴ء کے شمارے میں نقل کیا ہے۔
۲۰۱۵ء میں چین امریکا سے زیادہ بوڑھا ہوگا‘ یعنی چینی بوڑھے بہت زیادہ تعداد میں ہوں گے۔ ۲۰۱۹ء یا اس کے آس پاس چین کی آبادی اپنی انتہا کو چھوتے ہوئے ڈیڑھ ارب تک جا پہنچے گی۔ (اس وقت ۲۰۰۵ء میں چین کی کل آبادی ایک ارب ۳۰ کروڑ ۳۴ لاکھ ۵۸ ہزار ۵ سو ۲۷ ہے)۔ صدی کے درمیان تک چین کی آبادی فی نسل کے حساب سے ۲۰ سے ۳۰ فی صد گھٹتی جائے گی۔
ایسی ہی صورت حال ایشیا کے ان ممالک میں بھی ہے جہاں چین کی طرح تحدید آبادی کے سخت گیر قوانین اور پالیسیاں نافذ نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ صنعتی اقوام مثلاً سنگاپور‘ ہانگ کانگ‘ تائیوان اور جنوبی کوریا میں نسلِ انسانی کی افزایش میں کمی کا رجحان بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ حقائق واشنگٹن کے American Enterprise Instituteکے ماہرآبادیات نکولس ایبرسٹیٹ کے بیان کردہ ہیں۔اس فہرست میں تھائی لینڈ‘ برما‘ آسٹریلیا‘ سری لنکا‘ کیوبا‘ متعدد کیریبین (Caribbean) اقوام اور اسی طرح یوروگوئے اور برازیل کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ میکسیکو اس قدر تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے کہ اگلے چند عشروں میں نہ صرف یہ کہ اس کی آبادی میں اضافہ رک جائے گا‘ بلکہ امریکا کے مقابلے میں یہاں آبادی کہیں زیادہ بوڑھوں پر مشتمل ہوگی۔ ایبرسٹیٹ کے بقول ’’اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو پھر دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی ایسے ممالک کے اندر رہ رہی ہوگی جہاں مرنے والوں اور پیدا ہونے والوں کی تعداد یکساں ہو‘ یعنی نہ کمی نہ اضافہ۔ ان اعداد و شمار میں کچھ مستثنیات بھی ہیں‘ مثلاً یورپ میں البانیہ اور کوسووا میں آبادی کی افزایش صحیح انداز سے جاری ہے۔ اسی طرح سے کچھ خطے ایشیا میں بھی ہیں‘ مثلاً منگولیا‘ پاکستان اور فلپائن۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ مشرقِ وسطی کی آبادی اگلے بیس برسوں میں دُگنی ہوجائے گی۔ مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ آبادی ۳۲ کروڑ ۶۰ لاکھ ہے جو ۲۰۵۰ء میں بڑھ کر ۶۴ کروڑ ۹۰ لاکھ ہوجائے گی۔ دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدایش والا ملک سعودی عرب ہے جس کی شرح ۷ئ۵ ہے۔ اس کے بعد فلسطینی علاقے ہیں جہاں یہ شرح ۴ئ۵ ہے۔ پھر یمن کی باری آتی ہے۔
کچھ چیزیں حیرت انگیز بھی ہیں۔ مثلاً تیونس کم آبادی والے ممالک میں جاچکا ہے۔ (تیونس کی موجودہ آبادی ایک کروڑ سے کچھ زائد ہے)۔ لبنان اور ایران آبادیاتی خسارے کی دہلیز پر ہیں۔ مجموعی طور پر اس خطے کی آبادی میں اگرچہ اضافہ جاری ہے لیکن اس کی وجہ پیدایش کے وقت بچوں کی وفات کی شرح میں کمی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں یہاں شرح پیدایش تیزی سے گھٹ رہی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ آنے والے عشروں میں مشرق وسطیٰ میں بھی دنیا کے دوسرے خطوں کے مقابلے میں بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔
افریقہ میں شرح پیدایش بلند ہے۔ ایڈز کی وبا کے پھیلائو کے باوجود اندازہ ہے کہ افریقہ کی آبادی میں اضافے کی رفتار جاری رہے گی اور یہی معاملہ امریکا کا ہے۔
ماہر سماجیات بین ویٹن برگ (Ben Wattenberg) Fewer: How the new Demography of Depopulation will shape our future. میں لکھتا ہے کہ ’’سیاہ طاعون کے زمانے سے لے کر اب تک کے ۶۵۰ برسوں میں شرح پیدایش اور بارآوری (fertility) کی شرح آج تک اتنی تیزی سے اتنے مقامات پر کبھی نہیں گری۔
اقوام متحدہ کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر جگہ لوگ دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ یہ شہر ۲۰۰۷ء تک دنیا کی کُل آبادی کا نصف سموئے ہوئے ہوں گے۔ پھر شہروں میں بچے پالنا نفع بخش کام کے بجاے نقصان کا سودا ہوگا۔
۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء کے دوران نائیجیریا کی شہری آبادی ۱۴ فی صد سے بڑھ کر ۴۴ فی صد تک جا پہنچی۔ جنوبی کوریا میں یہ ۲۸ فی صد سے ۸۴ فی صد پر چلی گئی۔ لاگوس سے لے کر نیو میکسیکو سٹی تک نام نہاد عظیم شہروںکی آبادیوں میں دیکھتے دیکھتے حیرت انگیز اضافہ ہوگیا مگر ملک کی مجموعی آبادی کی شرح پیدایش میں کمی آگئی۔ پھر دوسرے عوامل بھی اپنی جگہ کارفرما ہیں مثلاً خواتین میں شرح تعلیم میں اضافے اور اسکولوں میں بچیوں کے داخلے کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے شرح پیدایش میں کمی آگئی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں دیر سے شادی کرنے کے رجحان کے ساتھ ساتھ اسقاطِ حمل اور طلاق نے بھی آبادی میں اضافے کی رفتار کو کم کر دیا ہے۔ گذشتہ عشرے میں مانع حمل آلات اور ادویات کے استعمال میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ۶۲ فی صد شادی شدہ یا inunion (ایسی خواتین جو شادی کے بغیر مردوں کے ہمراہ زندگی گزاریں) خواتین جو بچے پیدا کرنے کی عمر کی حامل ہیں‘ اب غیرفطری ضبطِ تولید کے ذرائع استعمال کر رہی ہیں۔ ہندستان جیسے ممالک میں جو ایچ آئی وی (ایڈز وائرس) کے عالمی دارالحکومت کی شکل اختیار کرگئے ہیں وہاں یہ وبا کی تحدید آبادی میں ایک عنصر کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔
روس میں تحدید آبادی کے عوامل میں شراب نوشی‘ گرتی ہوئی صحت اور صنعتی آلودگی شامل ہے جو مردوں کی مجموعی تولیدی صلاحیت (sperm counts) کے بگاڑ کا اصل سبب ہیں۔
دولت بچوں کی پیدایش کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ یہ چیز یورپ میں ایک عرصے سے دیکھی گئی اور اب ایشیا میں بھی یہی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ ماہرسماجیات ویٹن برگ کے بقول ’’سرمایہ داری بہترین آلۂ مانع حمل ہے‘‘۔ (Capitalism is the best contraceptive)
آبادی کی یہ صورت حال اپنے اندر کیا مضمرات سمیٹے ہوئے ہے اور عالمی معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس بارے میں فلپ لونگ مین (Philip Longman) نے اپنی ایک حالیہ کتاب The Empty Cardle: How Falling Birth Rates Threaten World Prosperity and What to do about it ‘یعنی ’’خالی پنگوڑے: گرتی ہوئی شرح پیدایش دنیا کی خوشحالی کے لیے کس طرح خطرہ ہیں اور اس کا حل کیا ہے؟‘‘ میں تفصیلات بیان کی ہیں۔
فلپ لانگ مین نیو امریکا فائونڈیشن واشنگٹن میں ماہرِآبادیات ہے۔ وہ آبادی کے اس رجحان کو عالمی خوش حالی کے لیے ایک خطرہ تصور کرتا ہے۔ چاہے جایداد کا کاروبار ہو یا صارفین کی جانب سے کیے جانے والے اخراجات۔ معاشی ترقی اور آبادی کا باہمی قریبی تعلق ہوتا ہے۔ فلپ نے بڑے خوب صورت انداز میں ایک بات کہی ہے کہ ’’ایسے لوگ بھی ہیں جو اس امید سے چپکے ہوئے ہیں کہ متحرک معیشت بڑھتی ہوئی آبادی کے بغیر ممکن ہے مگر ماہرین اقتصادیات کی اکثریت اس بارے میں قنوطیت پسند ہے‘‘۔
ماہرین آبادیات کی پیشن گوئی کے مطابق اٹلی میں اگلے چار عشروں میں کام کے قابل آبادی میں ۴۰ فی صد کمی آئے گی‘ جب کہ یورپی کمیشن کے مطابق براعظم یورپ میں بھی اتنی ہی کمی واقع ہوگی۔ پھر جب ۲۰۲۰ء میں بچوں کی افزایش میں اضافے کے خواہش مند ریٹائر ہوجائیں گے تو اس وقت کیا بنے گا؟ جرمنی‘ اٹلی‘ فرانس اور آسٹریا میں ۲۰۰۴ء میں پنشن کے حوالے سے اصلاحات کے ضمن میں ہونے والی ہڑتالوں اور مظاہروں کو یورپ کے بزرگوں اور آنے والی نسلوں کے درمیان بڑی سماجی لڑائیوں کے اندیشے کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر اس کا موازنہ چین سے کیا جائے تو پھر یہ تو محض ایک چھوٹی جھڑپ ہوگی کیونکہ چین میں بوڑھے زیادہ ہوں گے اور وہاں ایسے حقوق کی جنگ شدید ہوگی۔ چین میں مارکیٹ اصلاحات نے ’’جھولے کی جگہ قبر‘‘ کے فوائد کی طرف توجہ دینا شروع کر دی ہے‘ جب کہ کمیونسٹ پارٹی نے معقول سماجی حفاظتی نظام روبہ عمل لانے کے لیے ترتیب ہی نہیں دیا ہے۔ CSIS کے مطابق ریٹائرمنٹ پر پنشن کی سہولت ملک کی ایک چوتھائی سے بھی کم آبادی کو حاصل ہے جس کی وجہ سے بزرگوںکی دیکھ بھال کا تمام بوجھ اس نسل پر ہوگا جو اس وقت بچے ہیں۔
چین کی ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ نے نام نہاد ’’۱-۲-۴ مسئلہ‘‘ کی سمت اختیار کرلی ہے۔ اس مسئلے میں آج کا بچہ آنے والے کل میں اپنے والدین اور چار دیگر افراد یعنی دادا‘ دادی اور پڑدادا پڑدادی کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہوگا۔ چین میں آمدنیاں اس بوجھ کی تلافی کے لیے تیزرفتاری سے بڑھ رہی ہیں۔ کچھ نوجوان دیہات سے نکل کر شہروں کا رخ کر گئے ہیں جس کی وجہ سے ایسے گھرانوں کے بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ پھر بوڑھی ہوتی ہوئی چینی آبادی جلد ہی چین کی عالمی کاروباری مسابقت کو گہنا دے گی کیونکہ چین کی معاشی ترقی کا اس وقت انحصار نہ ختم ہونے والی مسلسل سستی لیبرفورس کی فراہمی پر ہے۔ مگر ۲۰۱۵ء کے بعد اس لیبرفورس کی فراہمی کا سلسلہ ٹھنڈا پڑنا شروع ہوجائے گا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو چینی ماہراقتصادیات ہوانگانگ (Hu Angang) نے بیان کی ہیں۔ اُن کے مطابق اس مسئلے سے نبٹنے کے لیے چین تقریباً بے اختیار ہوگا۔ اس کا حل چین کو نہایت مغربی انداز میں اختیار کرنا ہوگا یعنی اسے اپنی ورک فورس کا تعلیمی معیار بلند کرناہوگا اور زیادہ پیداواری بنانا ہوگا۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے؟ یہی دراصل ایک واضح سوال ہے۔ مغربی حل بھی بالآخر منفی شرح پیدایش پر منتج ہوگا اور بات وہیں آجائے گی کہ بوڑھوں کی فوج اور نوجوانوں کا خاتمہ۔ بہرحال صورت حال خواہ کچھ بھی ہو‘ مگر یہ بات تو یقینی ہے کہ ایشیا کی اُبھرتی معاشی قوتوں میں سے چین اپنے امیر ہونے سے پہلے ہی بوڑھا ہوجائے گا۔
ماہراقتصادیات اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی حالیہ کتاب The Economy of a Shrinking Population کے جاپانی مصنف آکی ہیکومیٹسوٹانی (Akihiko Matsutani) نے پیش گوئی کی ہے کہ جاپان کی معیشت ۲۰۰۹ء تک ’’منفی ترقی‘‘ (Negative Growth) کے عہد میں داخل ہوجائے گی۔ ۲۰۳۰ء تک قومی آمدن ۱۵ فی صد تک سکڑجائے گی۔
جاپان میں شرح زچگی مسلسل چوتھے سال بھی کم ہوئی ہے اور اب یہ کمی ریکارڈ حد تک گر گئی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں جاپان کی شرح زچگی ۲۹ئ۱ ہوگئی تھی اور ۲۰۰۴ء میں ۲۸ئ۱ ہوئی۔ اس شرح سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اوسطاً جاپانی عورت کے کتنے بچے ہوں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس شرح میں کمی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جاپانی حکومت کی زیادہ بچوں کی پیدایش کی مہم ناکام ہوئی ہے۔ جاپان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جن میں شرح پیدایش بہت کم ہے۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے جاپان کی حکومت نے کئی ایسے منصوبے شروع کیے ہیں جن سے والدین کو بچوں کو سنبھالنے اور دیکھنے میں مدد ملے۔ ان میں ملازمت کرنے والی مائوں کے لیے چائلڈ کیر سنٹرز اور دیگر سہولتیں شامل ہیں۔ لیکن جاپانی خواتین کہتی ہیں کہ محض ان سہولتوں کی موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان کا اصل مسئلہ معاشرے میں روایتی توقعات سے ہے۔ مردوں سے توقع کی جاتی ہے کہ دفتر میں دیر تک کام کریں‘ جب کہ خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بچے کی پیدایش کے بعد نوکری بالکل چھوڑ دیں۔
غوروفکر کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ایسے ممالک کا مستقبل خطرے میں ہے اور ماہرین اقتصادیات کے سامنے بہت تیکھے سوالات ہیں مثلاً جاپان کی مشہور زمانہ بلند ترین بچتوں کا معاملہ ہی لیں جن کے باعث جاپانی معیشت ہمیشہ محفوظ رہی ہے اور ان بچتوں سے دنیا بھر نے خصوصاً امریکا نے ادھار لے کر سرمایہ کاری کی ہے۔ اب جب کہ جاپان کا بڑھاپا قریب تر آتا جا رہا ہے‘ تو کیا ایسی صورت میں وہ اثاثے جو جاپانیوں کے ہیں ریٹائرمنٹ کی صورت میں انھیں درکار نہیں ہوں گے۔ انھیں واپس کرنے کی صورت میں امریکا میں اور پوری دنیا میں شرح سود میں اضافہ ہوگا۔ کیا جاپانیوں کو خود اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے مسابقت کے ماحول میں قلتِ سرمایہ کا سامنا نہیں ہوگا؟ جاپانی سرمایہ کار آخر کس چیز میں اندرونِ ملک سرمایہ لگائیں گے جب کہ صارفین بوڑھے ہوں گے؟ آخر وہ کون سی نئی چیزیں ان بوڑھوں کو مہیا کریں گے جو پہلے سے موجود نہیں ہیں؟ قومی انفراسٹرکچر پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ ماہراقتصادیات میٹسوٹانی کی پیش گوئی کے مطابق: ’’قومی خزانے میں ٹیکس کی مَد میں حاصل ہونے والے کم محاصل کی وجہ سے حکومتیں مجبور ہوں گی کہ ملک میں سڑکوں‘ پُلوں‘ ریلوے لائنوں اور اسی قسم کے انفراسٹرکچر میں تعمیرومرمت کے حوالے سے اخراجات میں کٹوتی کریں یا پھر کم از کم انھیں ملتوی کر دیں۔ زندگی کم آسان ہوجائے گی۔ نہایت صاف ستھرا ٹوکیوشہر ۷۰ء کے عشرے کا نیویارک جیسا بن کر رہ جائے گا۔ ۷۰ء کے عشرے میں نیویارک کے بہت سے شہری‘ اس شہر کو چھوڑ کر اس کے نواحی علاقے میں چلے گئے تھے جس کی وجہ سے نیویارک اس ٹیکس آمدن سے محروم ہوگیا جو اُس کے شہری ادا کیا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شہر کو چلانے والے ذمہ داران‘ زیادہ دیر تک شہر کے نظم و نسق کی دیکھ بھال نہ کرسکے۔ مگرکیا جاپانی اس مسئلے کا حل تلاش کر سکیں گے؟
آبادیاتی تبدیلیاں ملک کے مسائل کو چاہے وہ سماجی ہوں یا اقتصادی‘ بہت بڑھا دیتی ہیں۔ بہت زیادہ بوجھ تلے دبی فلاحی ریاست کو بڑھاپے کے مارے لوگ زوال سے دوچار کردیں گے۔
تارکینِ وطن کی آمد کا خیال ہی پریشان کن ہے مگر شرح پیدایش کی یہ تبدیلیاں درآمد شدہ لیبرفورس میں اضافے کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہیں جو آنے والے کل میں یورپ کے لیے فیصلہ کن معاملے کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوچنے کی حد تک تو یہ بات دل کو آسان لگتی ہے کہ گھٹتی آبادی والے امیرملکوں اور آبادی میں اضافہ جاری رکھنے والے غریب ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج خود اچھے مواقع پیدا کرے گی۔ لیبرفورس زیادہ آبادی مگر کم وسائل کے حامل جنوب کے ممالک سے ترقی یافتہ شمال کا رخ کریں گے جہاں ملازمتوں کی بہتات کا جاری رہنے والا سلسلہ موجود ہوگا۔ سرمائے اور کمائی سے حاصل شدہ آمدنیاں امیر اقوام سے غریب اقوام تک منتقل ہوں گی جس کا سبھی کو فائدہ ہوگا۔ تصور سے ہٹ کر حقیقی دنیا میں اگر جائزہ لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عملاً ایسا ہوسکے گا؟ آیئے! ذرا اصل صورت بھی دیکھ لیں۔ اگر اہلِ یورپ کی جانب سے شمالی افریقہ سے وسیع پیمانے پر نقل مکانی کے بارے میں مزاحمت پر مبنی حالیہ رویہ مدنظر رکھا جائے اور جاپان کی صفر ترکِ وطن پالیسی بھی ذہن میں رہے تو پھر اوپر بیان ہونے والا خیال درست نہیں لگتا اور اس بارے میں خوش فہمی میں مبتلا رہنا درست نہیں ہے۔
یورپ اور ایشیا کے اکثر حصوں میں جب آبادی گھٹ رہی ہے تو ایسے میں امریکا کی مقامی آبادی (تارکینِ وطن کی آمد کو چھوڑ کر) نسبتاً استحکام کی حامل رہے گی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ شرح پیدایش میں کمی کے بادل امریکا پر منڈلاتے رہیں گے۔ اگر تارکینِ وطن کی آنے والی آبادی کو امریکا کی مجموعی آبادی میں شامل کرتے جائیں تو امریکا میں آبادی میں اضافے کی رفتار جاری رہے گی۔ اگلے ۴۵برسوں میں امریکا کی آبادی میں ۱۰ کروڑ کا اضافہ ہوگا۔ ویٹن برگ کے تخمینوں کے مطابق یورپ اسی عرصے میں تقریباً اتنی ہی آبادی کے خسارے سے دوچار ہوگا۔ اس صورت حال کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیا جانا چاہیے کہ آمدہ آبادیاتی تبدیلیوں کی نحوست سے امریکا بچ پائے گا۔ امریکیوں کو بھی بوڑھی ورک فورس اور اس سے متعلقہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا‘ مثلاً صحت اور سوشل سکیورٹی کا خرچہ ۲۰۰۰ء میں کل جی ڈی پی کا ۳ئ۴ فی صد تھا جو ۲۰۳۰ء میں بڑھ کر ۵ئ۱۱ فی صد جبکہ ۲۰۵۰ء میں امریکی کانگریس بجٹ آفس کے مطابق مزید بڑھ کر ۲۱ فی صد ہوجائے گا۔ اس کا معاشرتی پہلو بھی سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ممکنہ نسلی تنائو کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکا کی جامد سفیدفام آبادی اور سیاہ فاموں کی کم ہوتی ہوئی آبادی‘ اسے امریکا کے کثیرالثقافتی سمندر میں مزید اقلیت میں تبدیل کردے گی۔ پھر آج کے اس زمانے میں جب اقوام کا انحصار ایک دوسرے پر ہے تو امریکا کے تجارتی شراکت داروں یعنی یورپ اور جاپان کے مسائل بھی خود امریکا کے مسائل بن جائیں گے۔ اس بات کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ اس وقت ’’چینی منڈی‘‘ ایک بہت ہی بڑی منڈی کے طور پر بیان کی جارہی ہے اور اسی وجہ سے امریکی کمپنیوں نے چین میں بہت بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر ۲۰۵۰ء میں ایک تخمینے کے مطابق چین اپنی ۳۵ فی صد ورک فورس کھو بیٹھے گا اور بوڑھوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی تو پھر ان کمپنیوں کو منافع کی کیا شرح ہاتھ آئے گی؟
امریکا کی آبادیاتی یک قطبی حیثیت خود امریکا کی سلامتی کے حوالے سے گہرے مضمرات رکھتی ہے۔ امریکا کو نام نہاد دہشت گردی اور ناکام ریاستوں کے حوالے سے کافی تشویش ہے۔ لانگ مین نے اپنی کتاب خالی پنگوڑا (The Empty Cradle) میں امریکی رہنمائوں کے حوالے سے نہ حل ہونے والے امکانات کا خاکہ پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی صورت میں امریکا کے لیے ادایگی میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
ایک طرف یہ تمام حقائق ہیں تو دوسری طرف اس صورت حال کو تسلیم کرنے سے انکاری گروہ بھی موجود ہے۔ اس کے لیے وہ یہ دلیل دیتا ہے کہ آبادی میں اضافے کی وہ کوششیں جو بعض یورپی ممالک کر رہے ہیں ضرور رنگ لائیں گی اور یوں آبادیاتی عدم توازن پیدا نہیں ہوگا۔ ان کے بقول فرانس اور ہالینڈ نے خاندان دوست پالیسیاں نافذ کی ہیں جو عورتوں کو کام کاج کرنے کے ساتھ ساتھ ممتا کے جذبے کے فروغ میں مددگار ہوں گی۔ ان خاندان دوست پالیسیوں کے تحت فرانس اور ہالینڈ میں ان مائوں کو اپنے بچوں کو اوقات کار کے دوران ڈے کیئر مرکز میں رکھنے کے لیے‘ سرکاری مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ بھی دی جائے گی۔ سیکنڈے نیوین ممالک نے شرح پیدایش کو بلند رکھنے کی غرض سے فراخ دلانہ سہولیات بشمول جزوقتی ملازمت فراہم کی ہیں۔ ایسی ہی ترغیبات اور پروگرامات سکڑتی آبادی کے حامل ملک سنگاپور نے بھی دی ہیں جن میں دیگر سہولیات کے علاوہ حکومت کے زیرانتظام ’’date service‘‘بھی ہے مگر اس کے باوجود آبادی میں کمی کی لہر کو اضافے میں بدلنے میں اس ’’سروس‘‘ کا بھی کوئی ’’فائدہ‘‘ نہیں ہوا ہے۔
آبادی کا مسئلہ مسلم اُمت کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم انھیں تحدیدنسل سے روکتی ہے لیکن ان کی حکومتیں مغرب کے احکامات کے تحت تمام سرکاری وسائل اس تحریک کے فروغ میں صرف کر رہی ہیں۔ اس کے اثرات ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے خود مغربی معاشروں میں ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف ذاتی یا انفرادی نہیں‘ اجتماعی اہمیت کا ہے۔ آبادی کی‘ تعداد کی اہمیت ہر دائرے میں اثرانداز ہوتی ہے۔ اس لیے دشمن مسلمانوں کی تعداد کم کرنا چاہتا ہے‘ جب کہ مسلمانوں کو اپنی تعداد میں مناسب اضافے کی فکر رکھنا چاہیے۔
امریکی دہشت گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہیروشیما ہو یا ناگاساکی‘ ابوغریب جیل ہو یا گوانتانامو‘ یا پھر افغانستان کے گمنام بیسیوں ابوغریب جیل--- ہر جگہ ظلم کی نئی تکنیک آزمائی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکی افواج کو بھی اس ظلم کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ کم ہونے کے بجاے مزید پھیل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’دہشت گردی‘‘ میں کمی کے بجاے شدت پیدا ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے امریکا اپنی حکمت عملی میں ناکام ہوچکا ہے۔ امریکا کو اپنے ماضی سے ہی کچھ سبق سیکھنا چاہیے۔
عراق پر جارحیت سے محض ۳۰ برس قبل امریکا نے ویت نام میں جنوری ۱۹۷۳ء میں جنگ ہاری تھی۔ اس جنگ میں ۵۸ہزار امریکی فوجی ہلاک‘ ۳ لاکھ ۴۰ ہزار فوجی زخمی اور ڈھائی ہزار فوجی لاپتا ہوگئے‘ جب کہ امریکا کا ۱۵۰ ارب ڈالر سے زائد کا خرچ اٹھا۔ سابق سوویت یونین کا تجربہ بھی اس کے سامنے ہے۔ جیسے جیسے ظلم و تشدد میں اضافہ ہوگا‘ امریکا کے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا‘ امریکا کے خلاف نفرت بڑھے گی اور ردعمل میں شدت آتی چلی جائے گی۔ نتیجتاً امریکا اپنے انجام کی طرف مزید تیزی سے بڑھے گا۔ خود مغربی اہلِ دانش کو بھی اس پر تشویش لاحق ہے۔
۲۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو تمام ذرائع ابلاغ نے یہ خبر دی کہ گذشتہ سال عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ عام شہری ہلاک (شہید)ہوچکے ہیں۔ جان ہوپکن یونی ورسٹی کے پبلک ہیلتھ اسکول میں ہونے والی تحقیق کے مطابق‘ ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی یہ تعداد ایک سروے کے ذریعے حاصل کی گئی ہے۔ زیادہ تر افراد گنجان آباد علاقوں پر ہونے والی بم باری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں گھر تباہ ہو رہے ہیں‘ بے گناہ شہری‘ معصوم بچے بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں جو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
عراق میں ابھی امریکا اور اتحادیوں کی جارحیت جاری ہے اور تحقیقی ادارے امریکی نقصانات کا بھی تجزیہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میںامریکا کی ایک مجلس دانش (think tank) دی انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز نے عراق پر امریکی جارحیت کے حوالے سے ایک تحقیقی منصوبہ شروع کیا جس میں مارچ ۲۰۰۳ء سے ۲۲ستمبر ۲۰۰۴ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا اور ۳۰ستمبر ۲۰۰۴ء کو ۸۸ صفحات پر مشتمل ایک نہایت اہم اور دل چسپ رپورٹ جاری کی جو انٹرنیٹ پر درج ذیل ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
www.ips-dc.org/iraq/failedtransition
ناکام عبوری عراقی حکومت: ناکام عبوری حکومت کی وجہ سے جنگِ عراق کے نقصانات کا امریکا عراق اور پوری دنیا کو سامنا ہے۔ بش نے دعویٰ کیا تھا کہ عراق میں عبوری حکومت کے قیام سے جانی اور مالی نقصانات کم ہوجائیں گے۔ لیکن اِس دوران زخمی اور ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد میں ماہانہ اضافہ اوسطاً ۴۱۵ سے بڑھ کر ۷۴۷ ہوگیا ہے۔
عراقی مزاحمت میں اضافہ: پینٹاگون کے اندازوں کے مطابق نومبر۲۰۰۳ء اور اوائل ستمبر ۲۰۰۴ء کے دوران عراقی مزاحمت کاروں (حریت پسندوں) کی تعداد میں ۴ گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ تعداد پہلے ۵ ہزار تھی اب یہ ۲۰ ہزار تک جاپہنچی ہے۔ عراق میں اتحادی افواج کے نائب کمانڈر برطانوی میجر جنرل اینڈریو گراہم نے ستمبر کے اوائل میں ٹائم میگزین کو بتایا تھا کہ اس کے خیال میں مزاحمت کاروں کی بیان کردہ تعداد ۲۰ ہزار نہایت کم ہے‘ جب کہ اس کے اپنے تخمینے کے مطابق یہ تعداد ۴۰ سے ۵۰ ہزار کے درمیان ہے۔ مزاحمت کاروں کی تعداد میں اس اضافے کی صورت حال اس وقت اور بھی حیران کن ہوجاتی ہے جب بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تخمینے کا پہلو بہ پہلو جائزہ لیا جائے۔ اُس کا اندازہ ہے کہ مئی ۲۰۰۳ء اور اگست ۲۰۰۴ء کے درمیان مذکورہ بالا مزاحمت کاروں کی تعداد کے علاوہ ۲۴ ہزار عراقی مزاحمت کاروں کو یا تو ہلاک (شہید) کر دیا گیا ہے یا پھر گرفتار۔ جنگ کے آغاز پر امریکی قیادت میں جنگ لڑنے والے اور اتحادی ممالک کی تعداد ۳۰ تھی۔ اب آٹھ ممالک نے اپنی افواج واپس بلا لی ہیں۔ جنگ کے آغاز پر اتحادی ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کی ۱۹ فی صد نمایندگی کرتی تھی‘ جب کہ آج وہ ممالک جن کی افواج ابھی عراق میں موجود ہیں ان کی آبادی دنیا کی کل آبادی کی ۶.۱۳ فی صد نمایندگی کرتی ہے۔
امریکا اور اتحادیوں کا جانی نقصان: جنگ کے آغاز ۱۹مارچ ۲۰۰۳ء سے ۲۲ستمبر ۲۰۰۴ء کے درمیان ۱۱۷۵ اتحادی فوجی ہلاک ہوئے جن میں ۱۰۴۰ امریکی فوجی بھی شامل تھے۔ جنگ کے آغاز سے ۷ ہزار ۴ سو ۱۳ امریکی فوجی زخمی ہوئے جن میں سے ۶ہزار ۹ سو ۵۳ یکم مئی ۲۰۰۳ء کے بعد زخمی ہوئے۔ اندازاً ۱۵۴ شہری ٹھیکیدار‘ عیسائی مشنری اور عام شہری کارکن ہلاک ہوئے جن میں سے ۵۲ کی شناخت بطور امریکی ہوئی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے منسلکہ ۴۴ کارکن عراق میں ہلاک ہوئے جن میں وہ ۳۳ صحافی بھی شامل ہیں جو صدربش کے اعلانِ جنگ کے بعد ہلاک ہوئے۔ ان ہلاک شدگان میں سے آٹھ صحافی امریکی تھے۔
امریکی ساکھ کو نقصان: آٹھ یورپی اور مغربی ممالک کے جائزوں کے مطابق اس جنگ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد نہیں کی‘ بلکہ اس میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اندرون ملک‘ انیسن برگ الیکشن سروے کی جانب سے کیے گئے مطالعاتی جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ ۵۲ فی صد امریکیوں کی رائے میں صدر بش‘ عراق کے معاملے کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
عسکری غلطیاں: متعدد سابق امریکی فوجی حکام نے جنگ پر تنقید کی ہے۔ تنقید کرنے والوں میں شامل ریٹائرڈ میرین جنرل انتھونی زینی نے کہا ہے کہ جنگ کے لیے جھوٹے جواز گھڑنے‘ روایتی اتحادیوں کو چھوڑنے‘ عراقی جلاوطنوں کو ابھارنے اور ان پر اعتماد کرنے اور بعد از جنگ‘ عراق کے لیے منصوبہ بندی میں ناکامی کے ذریعے‘ بش انتظامیہ نے امریکا کو کم محفوظ بنا دیا ہے۔
فوجیوں میں کم حوصلگی : مارچ ۲۰۰۴ء میں کیے گئے ایک فوجی جائزے سے پتا چلا کہ ۵۲ فی صد فوجیوں میں کم حوصلہ (low morale) ہے‘ جب کہ تین چوتھائی فوجیوں نے بتایا کہ ان کے افسران نے ان کی اچھی قیادت نہیں کی۔
نیشنل گارڈ ٹروپس اس وقت عراق میں امریکی فوج کا تقریباً ایک تہائی ہیں جن میں پولیس‘آگ بجھانے والے کارکنان اور ہنگامی طبّی امدادی عملے کے کارکنان ہیں۔ ان کی تعیناتی سے ان کے اپنے علاقوں کی کمیونٹی پر بھاری بوجھ آن پڑا ہے اور کسی ہنگامی صورت حال کے پیش آنے پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اندازاً ۲۰ ہزار غیر سرکاری ٹھیکیدار اس وقت عراق میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو اس سے پہلے روایتی طور پر خود امریکی فوج انجام دیا کرتی تھی۔
امریکی معیشت پر طویل المدت اثرات : اب تک کا نقصان (The bill so far) کانگریس نے عراق کے لیے ۱.۱۵۱ ارب ڈالر کا بل منظور کیا ہے۔ کانگریس کے رہنما توقع کر رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد ۶۰ ارب ڈالر کا اضافی ضمنی بل کانگریس میں پیش ہوگا۔
ماہر اقتصادیات ڈائوگ ہین وڈ (Doug Henwood)نے اندازہ لگایا ہے کہ جنگ کی وجہ سے ایک امریکی گھرانے کا اوسطاً کم از کم ۳ ہزار ۴ سو ۱۵ ڈالر کا خرچ بڑھ جائے گا۔ ایک اور ماہر اقتصادیات جیمز گالبریتھ (James Galbraith) نے‘ جو یونی ورسٹی آف ٹیکساس سے تعلق رکھتے ہیں‘ پیشین گوئی کی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جنگی اخراجات سے ابتدائی طور پر معیشت کو فروغ ملے‘ مگر امکان ہے کہ یہ معاشی مسائل میں اضافے کا باعث ہوں گے جن میں بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور افراطِ زر کی بلند شرح بھی شامل ہے۔
امریکی خام تیل کی قیمتیں ۱۹ اگست ۲۰۰۴ء کو ۴۸ ڈالر فی بیرل تک جا پہنچیں جو ۱۹۸۳ء سے اب تک سب سے زیادہ قیمت ہے۔ اس صورت حال کو اکثر تجزیہ نگار‘ عراق میں بگڑتی ہوئی صورت حال سے جزوی طور پر جوڑ رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۴۰ ڈالر فی بیرل کے حساب سے ایک سال تک خام تیل کی قیمتیں برقرار رہتی ہیں تو پھر امریکا کی قومی خام پیداوار (GDP) ۵۰ ارب ڈالر سے بھی زیادہ گر جائے گی۔
فوجی خاندانوں پر معاشی اثرات : افغانستان اور عراق پر جنگوں کے آغاز سے ۳لاکھ ۶۴ ہزار ریزرو فوجی اور نیشنل گارڈ سے منسلک سپاہیوں کو فوجی خدمات کے لیے طلب کیاگیا ہے۔ فوجی ہنگامی امداد (Army Emergency Relief) کے ادارے کا بیان ہے کہ فوجی خاندانوں کی جانب سے فوڈسٹیمپ اور سستی خوراک کے لیے درخواستوں میں ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۳ء کے درمیان کئی سو فی صد اضافہ ہوا ہے۔
سماجی اثرات : بش انتظامیہ کی جانب سے بھاری جنگی اخراجات اور امیروں پر ٹیکس کٹوتی میں چھوٹ کے مشترکہ اقدامات کا نتیجہ‘ سماجی ترقی کے لیے رقم میں کمی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ حالانکہ اس سال ہونے والے ۱.۱۵۱ ارب ڈالر کے جنگی اخراجات سے کم آمدن والے خاندانوں‘ بزرگوں اور معذوروں کے لیے‘ امریکی وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سہولت اور ہائوسنگ ووچرز کے تحت ۲۳ ملین گھر تعمیر ہو سکتے تھے‘ ۲۷ ملین غیرانشورنس شدہ امریکیوںکے لیے صحت کی انشورنس ہوجاتی‘ ایلیمنٹری اسکولوں کے تقریباً ۳ ملین اساتذہ کی تنخواہیں ادا ہوجاتیں‘ ۶لاکھ ۷۸ہزار ۲ سو آگ بجھانے والی گاڑیاں خرید لی جاتیں‘ ایک سال کے لیے ۲۰ملین بچوں کی مدد ہوسکتی تھی یا ۸۲ ملین بچوں کی صحت کی ضروریات پوری ہوتیں۔
سابقہ فوجیوں کے علاج پر اخراجات: زخمی ہونے والے ۷ ہزار سے زائد فوجیوں کے تقریباً ۶۴ فی صد کو ایسے کاری زخم آئے ہیں جن کی وجہ سے وہ ڈیوٹی پر نہیں پلٹ پائے‘ جب کہ علاج پر اخراجات الگ اٹھ رہے ہیں۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن نامی جریدے نے جولائی ۲۰۰۴ء میں تحریر کیا کہ جنگِ عراق سے پلٹنے والے ہر چھے میں سے ایک فوجی میں مابعد اعصاب زدگی‘ زبردست ذہنی دبائواور شدید نوعیت کی بے چینی کے آثار پائے گئے ہیں۔ اس مطالعے میں شامل فوجیوں میں ۲۳ سے ۴۰ فی صد فوجیوں نے ذہنی صحت کے لیے علاج معالجے کی خواہش ظاہر کی۔
عراقی ھلاکتیں اور زخمیوں کی تعداد : امریکی جارحیت کے نتیجے میں ۱۲ہزار ۸ سو سے ۱۴ ہزار ۸ سو ۴۳ عراقی شہری ہلاک ہوئے‘ جب کہ ایک اندازے کے مطابق ۴۰ہزار عراقی زخمی ہوئے۔ بڑے جنگی آپریشن کے دوران ۴ ہزار ۸سو ۹۵ سے ۶ہزار ۳ سو۷۰ عراقی فوجی اور مزاحمت کار ہلاک (شہید) ہوئے۔
تخفیف شدہ یورینیم کے اثرات : پینٹاگون کے مطابق امریکا اور برطانیہ کی افواج نے زہریلے (toxic) اور ریڈیو ایکٹو دھاتوں سے بنا ۱۱۰۰ سے ۲۲۰۰ ٹن گولہ بارود مارچ ۲۰۰۳ء کی بم باری کی مہم میں استعمال کیا۔ بہت سے سائنس دان جنگِ خلیج کے دوران میں تخفیف شدہ یورینیم (DU) کے استعمال کو‘ جو عراق میں استعمال شدہ مقدار سے کہیں کم تھی‘ امریکی فوجیوں میں بیماری اور بصرہ اور جنوبی عراق میں بچوں کے پیدایشی نقص میں سات گنا اضافے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
جرائم میں اضافہ: قتل ‘ زنا اور اغوا کی وارداتوں میں بے پناہ اضافے نے عراقی بچوں کو اسکولوں سے اور عورتوں کو بازاروں اور گلی کوچوں سے دُور رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پُرتشدد اموات کے ضمن میں ۲۰۰۲ء میں ۱۴ فی ماہ کے مقابلے میں ۲۰۰۳ء میں فی ماہ ۳۵۷ اموات کا اضافہ ہوا ہے۔
بے روزگاری: عراق میں بے روزگاری کی شرح ‘جنگ سے پہلے ۳۰ فی صد تھی جو بڑھ کر ۲۰۰۳ء کے موسمِ گرما میں ۶۰ فی صد ہوگئی ہے‘ جب کہ بش انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ بے روزگاری میں کمی آئی ہے۔ امریکا نے عراق کی ۷۰ لاکھ لیبر فورس میں سے صرف ایک لاکھ ۲۰ہزار کو تعمیرنو کے منصوبوں میں ملازمت دی ہے۔
عراق کی تیل کی معیشت : امریکا مخالف قوتوں نے عراق کی عبوری حکومت کو اپنے تیل کے اثاثے استعمال میں لانے سے روک رکھا ہے۔ جون ۲۰۰۳ء سے عراقی تیل کے انفراسٹرکچر پر کم از کم ۱۱۸ حملے ہوچکے ہیں۔
نظامِ صحت کے بنیادی ڈہانچے کی تباھی: ایک عشرے سے زائد کی پابندیوں نے عراق کے نظامِ صحت کی سہولیات کو دورانِ جنگ اور بعداز جارحیت‘ لوٹ مار (post- invasion looting) نے مزید ابتر بنا دیا۔عراقی ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی میں کمی اور مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تعلیم کی صورت حال : اقوام متحدہ کے ادارۂ اطفال (UNICEF)کا تخمینہ ہے کہ اس تنازع کے دوران ۲۰۰ سے زائد اسکول تباہ ہوئے اور مزید ہزاروں اسکولوں کو صدام حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والی افراتفری کے دوران لوٹا گیا۔
ماحولیات: عراق میں نکاسی آب اور فراہمی آب کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ تیل کے کنوئوں کو آگ لگ جاتی ہے جس کا دھواں بڑے پیمانے پر پھیل کر عوام اور ماحول کے لیے آلودگی اور خطرات میں اضافے کا باعث ہے۔ باوردی سرنگوں اور بے پھٹے اسلحے سے ہر ماہ اندازاً ۲۰ اموات واقع ہوتی ہیں۔
منتقلی اقتدار کی ’’قیمت‘‘ : عراق کو ’’انتقالِ حاکمیت اعلیٰ‘‘ کے اعلان کے باوجود ابھی تک ملک امریکی اور اتحادی افواج کے قبضے میں ہے اور سیاسی اور معاشی آزادیوں کو محدود کر دیا گیا ہے۔ عبوری حکومت کو یہ اختیار تک حاصل نہیں کہ وہ سابق امریکی منتظم پائول پریمر کے قریباً ۱۰۰ احکامات کو کالعدم قرار دے سکے۔ ان میں عراق کے تیل کے سرکاری نظام کی نج کاری کی اجازت بھی شامل ہے۔ یہ احکامات تعمیرنو میں عراق کی قومی تعمیراتی فرموں کو ترجیحی بنیادوں پر شراکت سے روکتے ہیں۔
دنیا پر اثرات : عراق پر امریکی جارحیت کے عالمی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اتحادی افواج کی موجودگی کے سبب مختلف ممالک کی افواج کو ہلاکتوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی دیگر ممالک کے لیے بھی مثال بن گئی ہے کہ وہ عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے‘ طاقت کے بل بوتے پر دوسرے ممالک پر حملہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح امنِ عالم خطرے سے دوچار ہوگیا ہے اور خود اقوام متحدہ کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بش انتظامیہ نے عراق پر قبضے کے جواز کے لیے بھی اقوام متحدہ پر دبائو ڈالا جو اس کے چارٹر کے منافی تھا۔ اسی وجہ سے کوفی عنان نے اپنی ستمبر ۲۰۰۴ء کی تقریر میں واضح طور پر کہاکہ یہ غیرقانونی جنگ ہے۔ سلامتی کونسل سے حمایت نہ ملنے پر امریکا نے دبائو کے ذریعے‘ دیگر ممالک کو اتحادی بنانے کی کوشش کی‘ جب کہ ان ممالک کی ۹۰ فی صد تک آبادی اس جنگ کے خلاف تھی۔
عالمی معیشت کو نقصان: ۱.۱۵ ارب ڈالرجو امریکا نے جنگ میں خرچ کیے ہیں اس رقم سے دنیا بھر میں بھوک کو نصف کم کیا جا سکتا تھا اور ایچ آئی وی ایڈز کے لیے ادویات‘ بچوں کو بیماریوں سے مامون‘ ترقی پذیر ممالک کی صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی دو سال کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے نے ۱۹۷۰ء کے زمانے کی معاشی جمود کی کیفیت کے پلٹنے کے اندیشوں کو جنم دینا شروع کر دیا ہے۔ پہلے ہی بڑی فضائی کمپنیاں ہر ماہ اپنے اخراجات میں ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اضافے کی توقع کر رہی ہیں۔
عالمی سلامتی کو خطرات : امریکی قیادت میں جنگ اور دوسرے ممالک پر قبضے نے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کو نہ صرف عراق بلکہ دنیا بھر میں کارروائیوں کے لیے محرک فراہم کر دیا ہے جس سے دنیا کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ محکمہ خارجہ کی بین الاقوامی دہشت گردی کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ۲۰۰۳ء میں دہشت گردی سے متعلقہ واقعات میں شدت سے اضافہ ہوا۔
عالمی ماحولیاتی نقصان : امریکا کی جانب سے داغے گئے تخفیف شدہ یورینیم نے عراق کی سرزمین اور پانی کو تو آلودہ کیا ہی ہے مگر اس کے ناگزیر اثرات دوسرے ممالک تک بھی پہنچیں گے مثلاً اس کے نتیجے میں دریاے دجلہ بری طرح سے آلودہ ہوگیا ہے جو عراق‘ ایران اور کویت کے درمیان بہتا ہے (یہ سب اس کے اثرات سے متاثر ہوں گے)۔
حقوقِ انسانی : محکمۂ انصاف کا وہ میمو جس میں وائٹ ہائوس کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ تشدد اور اذیت دینے کا عمل قانونی تھا۔ یہ تعذیب کے خلاف اُس بین الاقوامی کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے جس پر امریکا نے بھی دستخط کیے ہیں۔ عراقی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی اور توہین آمیز رویے نے ہر جارحیت پسند کو تعذیب اور بدسلوکی کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ سے عراق پر امریکی جارحیت کے اثرات کی ایک جھلک سامنے آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا امریکا ویت نام کے بعد عراق کی دلدل سے جلد نکلنے کے لیے تیار ہے یا قانونِ مکافات کے تحت اپنے پیش روئوں کی طرح کسی بدتر انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔فاعتبروا یااولی الابصار!