دسمبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| دسمبر ۲۰۰۴ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

محمد احتشام الدین ‘لاہور

’’پاکستانی جمہوریت کا المیہ‘‘ (نومبر ۲۰۰۴ئ) میں موجودہ حکومت اور صدر مملکت کے رویے پر مثبت دلائل کے ساتھ تنقید کی گئی ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھانے کی ضرورت ہے‘ یعنی سیاست دانوں کا طرزِعمل جنھوں نے فوج کو سیاست میں بے جا مداخلت کے پیہم مواقع فراہم کیے۔ عوام اور اہلِ دانش کے لیے وہی حل قابلِ قبول ہوگا جو دونوں رخ دکھانے کے ساتھ پیش کیا جائے۔اس پر مکالمے کی ضرورت ہے۔


حکیم سید صابر علی ‘ گجرات

ترجمان القرآن کے تحقیقی اشارات رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ’’اشارات‘‘ (نومبر۲۰۰۴ئ) میں پاکستان کی سیاسی صورت حال کا بخوبی پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے صدر کی بدعہدی کو آشکارا کیا گیا ہے اور ملک کی ابتر صورت حال کے پیش نظر عوامی تحریک کی ضرورت پر زور گیا دیا ہے‘ تاہم سیاست دانوں کی ماضی کی کارکردگی‘ مفاد پرستی‘ منافقانہ کردار‘ فوجی آمریت کا تسلط اور آئین کی منسوخی کے خدشات کے پیشِ نظر لائحہ عمل کیا ہو‘ یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے۔


ابن عبدالرحمٰن ‘ لاہور

’’ساس بہو تعلقات: مسائل اور حل‘‘ (نومبر ۲۰۰۴ئ) اہم معاشرتی مسئلے پررہنمائی ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ان دنوں پاکستان ٹیلی ویژن بھی اس مسئلے کو مذاکروں کے ذریعے ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے اور خواہ مخواہ مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ہماری اقدار اور معاشرے کو تبدیل کرنے کی سوچی سمجھی پالیسی ہے۔


ڈاکٹر ممتاز احمد ‘ ہیمپٹن یونی ورسٹی ورجینیا‘امریکا

میں نے جب ۲۰۰۰ء میں بش کو ووٹ دیا اور وہ جیت گیا تو میں مایوس ہوا۔ اب ۲۰۰۴ء میں‘ میں نے اس کے خلاف ووٹ دیا اور وہ پھر بھی جیت گیا تو بھی میری کیفیت ویسی ہی ہے‘ اگرچہ بالکل ویسی نہیں۔ دونوں آپشن ہمیں کہیں نہیں پہنچاتے۔ یہ انتظامیہ جو لبرل کو لعنتی لفظ (cuss word )تصور کرتی ہے‘ کیسے پاکستان کو اور دنیا کو لبرل اقدار کی تلقین کرسکتی ہے؟ وہ پاکستان میں لبرل ازم چاہتے ہیں لیکن امریکا میں کنزرویٹو ازم۔ وہ پاکستان میں تو خاندانی منصوبہ بندی چاہتے ہیں لیکن کیری کو خواتین کے اسقاطِ حمل کے حق کی حمایت کرنے پر مرتد قرار دیتے ہیں اور کسی ایسے ہسپتال کو جو اسقاط کی سہولت فراہم کرتا ہے یا اپنے مریضوں کے سامنے اسقاط کے لفظ کا ذکر کرتا ہے‘ اس کو وفاقی حکومت کی امداد دینے سے انکار کرتے ہیں۔وہ پاکستان کے نصاب تعلیم سے اسلام کو خارج کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکا کے سرکاری اسکولوں میں ازسرنو مذہبی دعا کے آغاز کے لیے دستوری ترمیم چاہتے ہیں۔ کیا دو رنگی ہے! آج کے ری پبلکن امریکا کی بی جے پی بن چکے ہیں‘ بلکہ اس سے بھی بدتر‘ کیونکہ واجپائی ایک مانا ہوا شاعر ہے اور درست انگریزی بول سکتا ہے!