فرانس‘ یورپ میںمسلمانوں کی آبادی (۵۰ لاکھ) کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک تصور کیا جاتا ہے جہاں مسلمان سیکولرزم اور مذہبی آزادی کی بنیاد پر مسلم تشخص کی بقا کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اسکارف پر حالیہ پابندی کے قانون نے اس جدوجہدمیں مزید سرگرمی پیدا کی ہے۔ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں پر اس کے آیندہ کیا اثرات مرتب ہوںگے‘ اس کا ایک اندازہ اگلے برس اپریل میں ہونے والے فرانسیسی کونسل براے مسلم فیتھ (French Council of the Muslim Faith- CFCM) کے انتخابی نتائج سے بھی لگایا جا سکے گا۔
CFCM بنیادی طور پر فرانسیسی مسلمانوں کا نمایندہ حکومتی ادارہ ہے جو ۲۰۰۳ء میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے صدر دلیل بوبکر ہیں جو پیرس کی قدیم مسجد کے جدید ذہن کے حامل ریکٹر ہیں اور ان کی تعیناتی وزیرداخلہ نکولس سارکوزی (Nicolos Sarkozy) سے مذاکرات کے بعد کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کونسل کے دو نائب صدر ہیں جن میں سے ایک کا تعلق یونین آف اسلامک آرگنائزیشن آف فرانس (UOIF) سے ہے اور دوسرے کا نیشنل فیڈریشن آف فرنچ مسلمز (FNMF) سے‘ دونوں ہی سخت موقف کے حامل گروپ شمار کیے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ محتاط قیادت کے تحت فرانسیسی مسلمانوں کی اجتماعی طور پر نمایندگی ہوسکے۔
اس مرتبہ خیال کیا جارہا ہے کہ انتخاب کھلے ماحول میں ہوں گے۔ ایک انتخابی حلقہ مسجد یا نماز کے لیے مختص جگہ پر مشتمل ہوگا۔ ۴ ہزار نمایندے تقریباً ۹۰۰انتخابی حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ موجودہ ۴۱ رکنی CFCM میں ۷۰ فی صد ارکان کا تعلق UOIFیا FNMFسے ہے‘ جب کہ صرف ۱۵ فی صد کا تعلق بوبکر کے کیمپ سے ہے۔ اس بار مزید دو سخت گیر جماعتوں کا انتخاب میں حصہ لینے کا امکان ہے۔ دوسرے لفظوں میں‘ مروجہ قوانین کے تحت موجودہ صدر کو بآسانی شدت پسند گروپ کی اکثریت ہٹاسکتی ہے۔
بوبکر نے اس خدشے کے پیش نظر دھمکی دی ہے کہ اگر مروجہ انتخابی قوانین کو تبدیل نہ کیا گیا تو وہ انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ ووٹنگ کی بنیاد مسجد کے رقبے کو بنایا گیا ہے۔ ان کے خیال میں قدیم اور جدید مساجد کو رقبے کی بنیاد پر برابر شمار کرنا ناانصافی ہے۔ حالانکہ پیرس کی مسجد قدیم ترین مسجد ہے جو ۱۹۲۰ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے مقابلے میں مخالفین کا اصرار ہے کہ قوانین میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ یہ بحث شدت پکڑ رہی ہے۔
کچھ لوگوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس طرح سخت گیر موقف کے حامل گروہ کونسل پر چھا جائیں گے۔ وہ اس کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ موجودہ صدر کی قیادت میں کونسل اسکارف کی سرکاری پالیسی کی حمایت کرتی ہے اور مسلمانوں کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی کریں‘ جب کہ اس کے برعکس UOIFاسکول کی بچیوں کو اسکارف پہننے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
UOIF اگرچہ کسی بیرونی تنظیم سے تعلق کی نفی کرتی ہے لیکن یہ بنیادی طور پر اخوان المسلمون سے متاثر ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کی علم بردار ہے۔ UOIF کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ لڑکیوں کی تیراکی کے لیے الگ تالاب کا بھی ہے جس سے ان کی فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات بھی ایک اہم موضوع ہے۔ اس سے وہ سیاست دان جو شدت پسند اسلام کے مخالف ہیں‘ ان کی تشویش میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ ان اختلافات کے ساتھ امن و امان سے کس طرح رہا جا سکتا ہے۔
وزیرداخلہ سارکوزی اور ماڈریٹ مسلمانوں کے خیال میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کی نمایندگی پر مشتمل ایک مضبوط کونسل کا قیام اس لحاظ سے مفید ہوگا کہ اس طرح مسلم راے عامہ کے تمام نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی ممکن ہوسکے گی۔ فرانسیسی سیاست دانوں میں بھی دونوں آرا کے حامی پائے جاتے ہیں۔ وزیر داخلہ اگرچہ اسکارف پر پابندی کے حامی ہیں لیکن انھوں نے UOIF کی سالانہ کانفرنس میں بھی شرکت کی جو اس پابندی کی مخالف ہے۔
فرانسیسی وزیرداخلہ اس نقطۂ نظر کی نمایندگی بھی کر رہے ہیں جن کے خیال میں فرانس کو ۱۹۰۵ء کے قانون میں تبدیلی کرنی چاہیے جس کے تحت مذہب اور ریاست کو جدا جدا کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک تازہ کتاب میں مطالبہ کیا ہے کہ جب حکومت ثقافتی اور کھیل پر مبنی گروہوں کی مالی اعانت کرتی ہے تو مذہبی گروہوں کی اعانت کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر مذہبی گروہوں کی حمایت کی جائے تو بیرونی ممالک کی مداخلت کو جو مساجد اور مذہبی اسکولوں کی بہت بڑی تعداد کی اعانت کرتے ہیں‘ روکا جا سکتا ہے۔ یاد رہے عراق میں (اگست ۲۰۰۴ئ) فرانسیسی صحافیوں کو اغوا کرنے والوں کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ فرانس میں اسکارف پہننے پر پابندی ہٹائی جائے۔
فرانسیسی مسلم کونسل کا متوقع انتخاب‘ مسلمانوں کے لیے متفقہ مؤقف اور یک جہتی کے مظاہرے کا تاثر پیش کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ اختلاف راے اپنی جگہ لیکن اجتماعی مفاد پر اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ: اکانومسٹ‘ ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)