دسمبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

علامہ اقبال اور بتانِ آزری کی غلامی

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | دسمبر ۲۰۰۴ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

بانگِ درا کے ابتدائی حصے میں‘ بچوں کے لیے ایک نظم ہے: ’’پرندے کی فریاد‘‘--- جس کا آغاز یوں ہوتا ہے    ؎

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ

وہ باغ کی بہاریں‘ وہ سب کا چہچہانا

پرندہ‘ ماضی کی آزادانہ زندگی کو یاد کرتے ہوئے‘ موجودہ قیدوبند پر افسردہ و رنجیدہ ہے اور دکھے دل کے ساتھ اپنی قسمت کو رورہا ہے    ؎

اس قید کا الٰہی‘ دکھڑا کسے سنائوں

ڈر ہے یہیں قفس میں‘ مَیں غم سے مر نہ جائوں

بانگِ درا میں شامل بچوں کے لیے بیشتر نظمیں‘ انگریزی شاعری سے ماخوذ ہیں‘ مگر ’’پرندے کی فریاد‘‘ پر ’’ماخوذ‘‘ کی وضاحت درج نہیں ہے۔ پروفیسر حمیداحمد خاں مرحوم کی  تحقیق یہ ہے کہ اقبال کو اس نظم کی تحریک‘ معروف انگریز شاعر ولیم کوپر کی ایک نظم سے ہوئی‘اور انھوں نے اس نظم میں کوپر کی آزاد ترجمانی کی ہے‘ لیکن اس سے قطع نظر‘ کہ یہ کوپر سے ماخوذ ہے یا ایک طبع زاد تخلیق ہے‘ اقبال کی یہ نظم معنی خیز ضرور ہے۔ یہ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں‘ یعنی ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء تک کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب غلام ہندستان‘ برطانوی استعمار کے شکنجے میں بُری طرح جکڑا ہوا تھا ‘ اور غلامی کے خلاف کھل کر فریاد کرنا بھی مشکل تھا۔ اس لیے ہمارے بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اس نظم کے ذریعے،’گفتہ آید درحدیثِ دیگراں‘ کے مصداق‘ علامہ نے اہلِ وطن کی غلامی پر احتجاج کیا ہے۔

ہم اقبال کے شارحین اور نقادوں سے اتفاق کریں یا اختلاف‘ یہ مُسلّم ہے کہ علامہ ہرنوع کی غلامی کے خلاف تھے۔ غلامی‘ سیاسی اور مادی و معاشی ہو یا روحانی اور ذہنی‘ براہ راست ہو یا بالواسطہ‘ غیروں کی ہو یا اپنوں کی‘ اقبال اسے انسانیت کی توہین سمجھتے ہیں اور اُن کے لیے کسی کی خودساختہ حکمرانی‘ کسی کا من مانا اقتدار یا کسی کا جبری تسلط ناقابلِ قبول تھا۔ ان کا عقیدہ تو یہ تھا کہ قوت‘ طاقت اور حکمرانی کا سرچشمہ نہ عوام ہیں‘ نہ خواص‘ نہ اشرافیہ‘ نہ کوئی فردِ واحد‘ بلکہ صرف اور صرف باری تعالیٰ کی ذات ہے     ؎

سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بتانِ آزری

علامہ اقبال کی شاعری انھی بُتانِ آزری کے خلاف ایک پُرزور صداے احتجاج ہے۔ اقبال نے دورِ غلامی میں آنکھ کھولی تھی اور وہ دُور دیس سے آنے والے فرنگیوں کی محکومی کے ماحول میں پروان چڑھے۔ اُنھی کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی‘ پھر یورپ کے آزاد اور لادین معاشروں کا مشاہدہ کیا۔ وہ مختلف قوموں کی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن جیسے وسیع المطالعہ اور صاحبِ بصیرت دانش ور کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ غلامی‘ انسان کے لیے بہت بڑی لعنت کے مترادف ہے۔ غلامی کی زندگی‘ انسان کی فطرتِ آزاد کواعلیٰ انسانی اور اخلاقی اوصاف و اقدار سے محروم کرکے‘ اُسے حسنِ خیال و عمل سے تہی دامن اور مردہ ضمیر بنا دیتی ہے اور وہ ایک بے بصیرت و بے توفیق انسان کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے:

بدن غلام کا سوزِ عمل سے ہے محروم

کہ ہے مُرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام


غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی

جسے زیبا کہیں‘ آزاد بندے‘ ہے وہی زیبا

بھروسا کر نہیں سکتے‘ غلاموں کی بصیرت پر

کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

غلام اقوام میں خیروشر کے پیمانے بدل جاتے ہیں‘ خوب و ناخوب کی تمیز اٹھ جاتی ہے‘ اور حق و باطل میں کوئی تفریق باقی نہیں رہتی‘ بلکہ خوے غلامی راسخ ہو جائے تو‘ آج کل کی اصطلاح میں ’’یوٹرن‘‘لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ جہاد اور تحریکِ آزادی کو دہشت گردی    مان لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا     ؎

تھا جو ناخوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

قوموں کی تاریخ میں‘ ایسی صورتِ حال بہت تشویش ناک ہوتی ہے کیوں کہ بقول حضرت علامہ: ’’محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید‘‘۔ اپنی بے چارگی کا ذمہ دار وہ تقدیر کو قرار دیتا ہے (برلبِ او حرفِ تقدیر است و بس)۔ اس کے پاس ’’دیدئہ نمناک‘‘ کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا  ع

محکوم کا سرمایہ فقط دیدئہ نمناک

علامہ کہتے ہیں کہ بے بسی و بے کسی کے اس عالم میں‘ نہ تو شمشیریں کام آتی ہیں نہ تدبیریں--- ’’ذوقِ یقین‘‘ تو اُس سے پہلے ہی چھن چکا ہوتا ہے‘ اس کے اندر’’نفسیاتِ غلامی‘‘ پیدا کرنے میں غلام قوم کے بعض شعرا‘ حکما اور علما اہم کردار ادا کرتے ہیں     ؎

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

خوے غلامی پختہ کرنے میں‘ سیاست دان اور حکمران بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں کیوں کہ ’’حکمراں کی ساحری‘‘ محکوم کی نفسیات کو بہ خوبی سمجھتی ہے‘ اور اُسے چند پُرفریب مگر دل کش وعدوں کا نشہ پلا کر‘ اُسے سلا دینے کے فن میں بہت ماہر ہے     ؎

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

یہ ساحری‘ بدیسی ہو یا مقامی‘ دونوں کے طور اطوار ایک جیسے اور طریقۂ واردات یکساں ہے---

قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں کاذکر ہے (یہ راقم کے لڑکپن کا زمانہ تھا) ایک سوال دیواروں پر لکھا نظر آتا تھا: ’’انگریز رخصت ہوچکا‘ انگریز کا نظام کب رخصت ہوگا؟‘‘--- یہ سوال آج بھی تشنہ جواب ہے ---بہ ظاہر تو ہم ایک آزادمملکت کے باشندے ہیں لیکن کیا    ہم واقعی آزاد ہیں؟ یہ بیرونی قرضے‘ آئی ایم ایف کی چاکری اور بالادست قوتوں کی نیازمندی‘  وہی yours most obedient servant والا رویّہ--- حضرتِ علامہ نے اس ضمن میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ ظفر احمد صدیقی کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’غلام قوم‘ مادّیات کو روحانیات پر مقدّم سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور جب انسان میں خوے غلامی راسخ ہو جاتی ہے تو وہ ہر ایسی تعلیم سے بے زاری کے بہانے تلاش کرتا ہے جس کا مقصد‘ قوتِ نفس اور روح انسانی کا ترفّع ہو‘‘۔ (اقبال نامہ‘ اول‘ ص ۲۰۱)

اسی خوے غلامی کا شاخسانہ ہے کہ ہم نے بیرونی بالادستوں کے احکامات کی تعمیل میں قومی تعلیم کے پورے نظام کو تلپٹ کرنے میں کمال درجے کی مستعدی دکھائی ہے اور خاص طور پر ان شعبوں کو جن کا تعلق ہماری تہذیب‘ دین  اور روایت سے ہے‘ مثلاً: اردو زبان کو بارہ پتھر باہر قرار دے کر انگریزی کو اوّل جماعت ہی سے جابرانہ طریق سے مسلّط کیا جا رہا ہے‘ پھر دینی تعلیم کو اپنے کنٹرول میں لینے اور اس کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش‘ اسی طرح عمرانی و مشرقی علوم سے بے اعتنائی --- غرض جملہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے فرنگی تہذیب کے غلبے کی ایک ہمہ جہتی تگ و دو ہے جس کا مقصد بقولِ اقبال یہ ہے کہ: ’’روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو‘‘۔

یہ روحِ محمدؐ، یہ خودی‘ یہ خودداری اور یہ اسلامی اور ملّی تشخص ہی وہ کانٹاہے جو بالادست طاقتوں سے لے کر سیکولر طبقوں‘ دیسی انگریزوں اور نام نہاد روشن خیال بزرجمہروں تک سب کو کھٹکتا ہے۔ یہی تشخص تو علامہ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد کی بنیاد تھا‘ اسی بنا پر قرارداد پاکستان پاس ہوئی اور اسی تشخص پر اصرار کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آیا--- اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنے تشخص سے دست بردار ہوجائو--- یہ دوستی کی باتیں‘ یہ سرحدیں گرانے اور مٹانے کے مشورے‘ یہ مشترکہ تہذیب کی باتیں‘ یہ ثقافتی طائفے اور ’’ہم ایک ہیں‘‘ کے راگ--- علامہ نے کیا خوب کہا ہے     ؎

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر

نئی نسل کی تعلیم کے لیے جس قسم کا تیزاب تیار کیا جا رہا ہے‘ بلکہ تیار ہوچکا ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک اس غیرمعمولی آرڈی ننس میں دیکھی جاسکتی ہے جو دو سال پہلے (۸ نومبر ۲۰۰۲ئ) کو جاری ہوا جس کے تحت ہمارے امتحانات کا نظام‘ آغا خان امتحانی بورڈ کے تصرف میں چلا جائے گا۔ نہ صرف امتحانات‘ بلکہ نصابات بھی۔ (دیکھیے: سلیم منصور خالد کا مضمون ’’تعلیم کا استعماری ایجنڈا: آغا خان بورڈ‘‘، ترجمان‘ ستمبر۲۰۰۴ئ)

علامہ اقبال کے نزدیک کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا انحصار اس کے اجتماعی رویوں پر ہے۔ شاید ہم دورِ غلامی کی غلامانہ ذہنیت اور yours most obedient servant قسم کے فدویانہ رویّے سے چھٹکارا نہیں پاسکے‘ چنانچہ دوسروں کو دوش کیا دیں‘ علامہ اقبال کے بقول     ؎

یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے‘ یورپ سے نہیں ہے

حضرتِ علامہ کے خیال میں خودی کا احساس اور فقر کا رویّہ‘کسی قوم کو پستی سے اٹھانے اور سربلندی و آزادی کی طرف لے جانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس خودی اور فقر سے پہلوتہی اور غفلت‘ قوموں کو پستی کی طرف کھینچتی اور غلامی کے گڑھے میں گرا دیتی ہے۔ خیال رہے کہ علامہ کے ہاں خودی اور فقر‘ ایک دوسرے کے مترادف ہیں اور لازم و ملزوم بھی     ؎

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو

کہ تجھ سے ہو نہ  سکی‘ فقر کی نگہبانی

جس طرح خودی کا ضعف‘ افراد واقوام کو غلامی میں مبتلا کرنے کا باعث بنتا ہے‘ اسی طرح خودی کی پرورش و استحکام اور فقر کا رویّہ ترقی و عروج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے:

سنا  ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے

اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل

سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام

کیسا عبرت ناک منظر ہے کہ اُمتِ مسلمہ‘ جس نے انسانیت کو بتانِ آزری کی بندگی سے آزاد کیا‘ اور غلاموں کو آزاد کر کے‘ معاشرے کے معزز و محترم افراد کی حیثیت سے اپنے برابر لابٹھایا‘ اور علامہ کے نزدیک روے زمین پر ہم ہی وہ قابلِ فخر امت ہیں  ع

نوعِ انسان کو غلامی سے چھڑایا جس نے

اور ظلم و استبداد کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کرنے کا سہرا بھی اسی اُمت کے سر ہے  ع

توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب

وہی اُمت آج دوسروں کی دست نگر ہے--- وطن عزیز میں اس وقت جو صورت حال ہے‘ اس کے پیشِ نظر قدرتی طور پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں یا غلام؟ جہاں اپنے ہی شہریوں کو پکڑ پکڑ کر غیرملکی ظالموں کے حوالے کیا جا رہا ہو اور جہاں پاکستان ہی نہیں‘ پوری اُمتِ مسلمہ کے محسن سائنس دانوں کو مجرموں کی طرح نظربند کر دیا گیا ہو‘ تو ایسا سوال پیدا ہونا فطری ہے۔

ضربِ کلیم میں ’’مناصب‘‘ کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم ہے جو وطنِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال میں معنی خیز اور قابلِ مطالعہ ہے۔ علامہ کہتے ہیں:

ہوا ہے بندئہ مومن فسونیِ افرنگ

اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نمناک

ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب

کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک

مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی

سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعتِ چالاک

’’شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراک‘‘

حاکم کی نگاہ میں محکوم کی حیثیت‘ پرِکاہ کے برابر بھی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ ’’جوہرِ ادراک‘‘ غیروں کے ہاتھ بیچنے کے بعد‘ اب اس بات کا فیصلہ بھی ہمارے غیرملکی آقا ہی کرتے ہیں کہ وزیراعظم کون ہوگا‘ کون سی وزارت کس کے لیے موزوں ہے اور کون سا قلم دان‘ کس کے سپرد کرنا چاہیے۔

علامہ اقبال ‘ سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ہمراہ ۱۹۳۳ء میں افغانستان گئے تھے۔ مثنوی مسافر اسی سفر کی یادگار ہے--- کابل کی مصروفیات سے فارغ ہو کر‘ بطورخاص غزنی اور قندھار کا سفر کیا اور بابر‘ حکیم سنائی‘ محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کے مقابر کی زیارت کی۔ بابر کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے ان پر جو کیفیت طاری ہوئی‘ اس کی ایک جھلک اس شعرمیں ملتی ہے    ؎

خوشا نصیب کہ خاکِ نو آرمید ایں جا

کہ ایں زمیں ز طلسمِ فرنگ آزاد است

تو کیسا خوش نصیب ہے کہ تیرا جسدِ خاکی‘ اس سرزمین میں آرام کر رہا ہے‘ جو فرنگیوں کے طلسم سے آزاد ہے۔

میں سوچتا ہوں سرزمینِ غزنی و قندھار سے توآزادی چھن چکی اور اب سرزمین پاکستان بھی‘ جہاں علامہ اقبال کا جسدِخاکی دیوارِ مسجد کے سائے میں محوِخواب ہے‘ طلسمِ فرنگ کی زد میں ہے۔ جب کبھی ہم اقبال کی یاد تازہ کرتے ہیں تو رہ رہ کر احساس ہوتا ہے کہ روحِ اقبال‘ کس قدر افسردہ و رنجیدہ اور بے قرارو مضطرب ہوگی؟