فقہ میں اپنی تحقیق یا کسی عالم کی تحقیق کی پیروی کرتے ہوئے کوئی ایسا طرزِعمل اختیار کرنا جس کے لیے شریعت میں گنجایش موجود ہو‘ فرقہ بندی نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی قباحت واقع ہوسکتی ہے۔ اس طریقے سے مختلف لوگوں کی تحقیقات اور ان کے طرزعمل میں جو اختلاف واقع ہوتا ہے وہ مذموم تفرق و اختلاف نہیں ہے جس کی برائی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ایسے اختلافات خود صحابۂ کرام اور تابعین میں رہ چکے ہیں۔ دراصل فرقہ بندی جس چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ فروع کے اختلافات کو اہمیت دے کر اصولی اختلاف بنا دیا جائے اور اس میں اتنا غلو کیا جائے کہ اسی پر الگ الگ گروہ بنیں اور ہر گروہ اپنے مسلک کو بہ منزلۂ دین قرار دے کر دوسرے گروہوں کی تکفیروتضلیل کرنے لگے۔ اپنی نمازیں اور مسجدیں الگ کرلے‘ شادی بیاہ اور معاشرتی تعلقات میں بھی علیحدگی اختیار کرے اور دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کے سارے جھگڑے انھی فروعی مسائل پر ہوں‘ حتیٰ کہ اصل دین کے کام میں بھی دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کا تعاون ناممکن ہوجائے۔ اس قسم کی فرقہ بندی اگر پیدا نہ ہو اور فروع کو صرف فروع کی حیثیت میں ہی رہنے دیا جائے تو مسائلِ فقہ میں مختلف مسلکوں کے لوگ اپنے اپنے طریقے پر عمل کرتے ہوئے بھی ایک ساتھ جماعت میں منسلک رہ سکتے ہیں…
فقہی اختلافات کی بنا پر نمازوں کو الگ کرنے کا کوئی ثبوت سلف میں نہیں ہے۔ یہ فقہی اختلافات صحابۂ کرام کے درمیان بھی تھے اور تابعین کے درمیان بھی اور تبع تابعین کے درمیان بھی‘ لیکن یہ سب لوگ ایک ہی جماعت میں نماز پڑھتے تھے۔ یہی طریقہ ائمہ مجتہدین کا بھی رہا۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ نماز دین کی بنیادوں میں سے ہے اور فقہی اختلافات بہرحال فروعی ہیں۔ ان فروعی اختلافات کی بنا پر نمازیں الگ کرنا تفرق فی الدین ہے جس کو قرآن نے گمراہی قرار دیا ہے۔ نمازیں الگ کرلینے کے بعد مسلمانوں کی ایک اُمت نہیں رہ سکتی اور اس کا امکان نہیں ہے کہ جو لوگ مل کر نماز نہیں پڑھ سکتے وہ دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کی سعی میں متحد ہوکر کام کر سکیں گے۔ یہ چیز اب نظری نہیں رہی ہے بلکہ صدیوں کے عملی تجربے نے اسے ثابت کر دیا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اپنے فرقی اختلافات کی وجہ سے نمازوں کی علیحدگی پر اصرار کرتے ہیں وہ دراصل دین کی جڑ پر ضرب لگاتے ہیں۔ (’’رسائل و مسائل‘‘، مولانا مودودیؒ، ترجمان القرآن‘ جلد۲۵‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ و ذی الحجہ ۱۳۶۳ھ۔ نومبر‘ دسمبر ۱۹۴۴ئ‘ ص ۷۷-۷۸)