غازی فی سبیل اللہ ‘حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دعوت دی‘ انھوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا‘ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انھیں عطا کر دیا۔ (ابن ماجہ)
سبحان اللہ! کیا شان ہے! سب سے بڑی ذات میزبان ہے۔ اس کے بلاوے پر اس کے بندے مہمان بن کر حاضر ہیں‘ جو مانگیں وہ ملے۔ وہ جو اس کے بلاوے پر نہ جائے وہ کتنا بدبخت ہے‘ جب کہ بلاوا انھی کو ہوتا ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے کہ انسان استطاعت رکھتے ہوئے بھی حج کا ارادہ نہ کرے۔
حج جلدی سے کر لیں۔ تم میں سے کوئی آدمی نہیں جانتا کہ اسے کیا رکاوٹ پیش آجائے۔ (ابوالقاسم اصفہانی)
جو کام بعد میں بھی کیا جا سکتا ہو‘ انسانی فطرت ہے کہ وہ اسے مؤخر کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ بسااوقات ترک فرض کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس لیے اگر استطاعت ہو تو پھر تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
جو حج کے لیے نکلا‘ اس کے بعد فوت ہو گیا اس کے لیے قیامت تک حج کا اجر لکھا جائے گا‘ جو عمرہ کرنے کے لیے نکلا پھر مر گیا تو اس کے لیے قیامت تک عمرہ کرنے کا اجر لکھا جائے گا‘ اور جو شخص غازی بن کر نکلا پھر مر گیا تو اس کے لیے قیامت تک غازی ہونے کا اجر لکھا جائے گا۔ (ابویعلٰی)
اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ اس کی بندگی کے دوران میں جو فوت ہو جائے وہ مرنے کے بعد بھی اس عبادت میں مشغول شمار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہزاروں لاکھوں سال بعد قیامت برپا ہو اس کے لیے یہ عبادت لکھی جائے گی اور اسے اجر ملتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اس سے کوئی کمی نہیں آتی۔ حج اور جہاد کے علاوہ اگرکوئی اور عبادت ہو جس میں آدمی مشغول ہو تو اس کا بھی اجر ملے گا۔ ایک آدمی جو اپنے بعد اپنا اجر جاری رکھنا چاہے‘ اس کے لیے آسان نسخہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بندگی کی نیت دل میں تازہ رکھے۔ اس سے وہ ہمہ وقت عبادت میں مصروف سمجھا جائے گا اور ثواب پاتا رہے گا۔ ہے کوئی جو اس بے پایاں اجرو ثواب کی طرف لپکے اور اپنی جھولیاں بھرے؟ کاش! ہم سب کو اس کی توفیق ملے۔
حج میں خرچ کرنے کا اجر جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنے کی طرح سات سو گنا ہے۔ (احمد‘ طبرانی)
ان دونوں عبادتوں میں آدمی گھر بار چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اس پر خصوصی نظر کرم فرماتے ہیں اور ہر عبادت کی طرح ’’انفاق‘‘ کا ثواب بھی سات سو گنا ہوجاتا ہے۔
حاجی حج کے لیے پاکیزہ خرچے کے ساتھ نکلتا اور اپنا پائوں رکاب میں رکھتا ہے اور لبیک اللھم لبیک کی صدا لگاتا ہے تو آسمان سے ندا کرنے والا ندا دیتاہے لبیک و سعدیک! تیرا خرچہ حلال‘ تیری اونٹنی حلال‘ تیرا حج مقبول اور گناہ سے پاک ہے ‘اور جب ناپاک خرچہ کے ساتھ نکلتا ہے تو آسمان سے ندا دینے والا ندا دیتا ہے: کوئی حاضری نہیں‘ کوئی رحمت نہیں تجھ پر‘ تیرا توشہ حرام‘ تیری سواری حرام‘ تیرا نفقہ حرام اور تیرا حج مقبول نہیں۔ ( طبرانی فی الاوسط)
بہت سے لوگوں کو حج کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح سے وہ حج یا عمرہ پر چلے جائیں۔ یہ اہتمام نہیںکرتے کہ خالص حلال مال سے یہ سعادت حاصل کریں۔ چنانچہ ایسے لوگ بسا اوقات حرام مال سے حج کرکے اپنے لیے ثواب کی بجائے عذاب کا سامان کرتے ہیں۔
حضرت عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ مدینہ میں مہنگائی زیادہ ہو گئی‘ لوگ سخت تکلیف میںمبتلا ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاصبر کرو‘ خوش خبری قبول کرو‘ میں نے تمھارے مختلف پیمانوں کے لیے برکت کی دعا کی ہے‘ اکٹھے مل کر کھائو‘ الگ الگ نہ کھائو‘ ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہے‘ دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہے‘ چار کا پانچ اور چھے کے لیے کافی ہے‘ اکٹھے کھانے میں برکت ہے۔ جس نے مدینہ کی گرمی اور سختی پر صبر کیا‘ میں قیامت کے روز اس کی سفارش کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا‘ اور جو اس سے منہ موڑ کر چلا گیا اللہ اس کی جگہ بہتر آدمی کو لے آئے گا۔ جو مدینہ کے ساتھ برے ارادے رکھے گا‘ اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ (مسند بزاز)
ہجرت سے پہلے مدینہ کی آب و ہوا صحت افزا نہ تھی۔ سخت قسم کے بخار کی وبا لوگوں کو کمزور کر دیتی تھی۔ ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرکزِ اسلام کی آبادی کے لیے جو دعائیں کیں‘ ان کے نتیجے میں یہ بیماریوں اور وبائوں سے محفوظ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شہر میں رہایش کو فضیلت اور برکت عطا فرمائی ہے۔ اہل ایمان کے سینوں میں مدینہ کی محبت اور تڑپ ہے۔ جو رہایش پذیرہیں وہ رہایش کی برکت پاتے ہیں اور دوسرے ’’تمنا‘‘ کی برکت پاتے ہیں۔ سچی تمنا ہو تو مدینہ میں رہایش کی برکت دور رہتے ہوئے بھی مل جائے گی۔ نبیؐ نے فرمایا‘ انما الاعمال بالنیات ، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
دو آدمی مل کر کھائیں تو ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہو گا۔ معاشی حالت کو بہتر بنانے اور تمام لوگوں تک ضروریات زندگی اور رزق کے دائرے کو وسیع کرنے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کھانے میں دوسرے کو شریک کرے۔ لیکن بات صرف مل بیٹھ کر کھانے تک کی نہیں‘ جو کچھ جسے ملا ہے‘ خواہ اس نے اپنے قوت بازو سے ہی حاصل کیا ہو‘ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صرف اس کا نہیں‘ اس میں دوسروں کے حقوق ہیں۔ اپنی ضروریات بھی انسان اوسط معیار سے پوری کرے‘اسراف و تبذیر‘ نمود ونمایش اور کبر سے بچے۔ مسلمانوں کا کلچر ہمدردی اور غم گساری کا اور ایک دوسرے کے کام آنے کا کلچر ہے۔ جتنا ہم اس سے دُور رہتے ہیں‘ دنیا میں بھی تکالیف اٹھاتے ہیں‘ آخرت میں بھی اجر سے محروم رہتے ہیں۔ سب اپنا اپنا جائزہ لیں اور اجتماعی طور پر بھی اس کلچر کو اپنانے کی تدابیر کی جائیں۔
زمزم کا پانی جس مراد کو پانے کی نیت سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے۔ اگر آپ اسے بیماری سے شفا کے لیے پیئیں تو اللہ بیماری سے آپ کو شفا دے دیں گے‘ اور اگر آپ بھوک سے سیر ہونے کے لیے پئیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو سیر کر دے گا‘ اور اگر پیاس بجھانے کے لیے پئیں تو اللہ تعالیٰ پیاس کو بجھا دیں گے۔ یہ جبرائیل علیہ السلام کے پائوں کے دبائو سے بنا اور وہ پانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو پلایا۔ (دارقطنی‘ حاکم)
’’زم زم‘‘ ایک زندہ معجزہ ہے جسے حاجی مشاہدہ بھی کرتے ہیں او ر اس سے فیض بھی حاصل کرتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ انسان جو اس پانی سے اپنے کام و دہن اور جسم کو سیراب کرے‘ جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سیراب کیا۔ یہ سوچ کر زمزم پیا جائے تو پھر کیوں نہ وہ تمام مرادیں حاصل ہوں جن کے حصول کے لیے زمزم پیا گیا ہو۔