دسمبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

تھائی لینڈ کے روزے دار شہید

محمد ایوب منیر | دسمبر ۲۰۰۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

لائوس‘ کمبوڈیا‘ میانمار اور ملائشیا کے درمیان واقع تھائی لینڈ‘ مسکراہٹ کی سرزمین‘ کے نام سے معروف ہے۔ ۶کروڑ ۳۰ لاکھ آبادی والا یہ ملک رقبے میں فرانس کے برابر ہے‘ جب کہ اس کے دارالحکومت ’بنکاک‘ کو ایک اہم سیاحتی‘ تجارتی و تفریحی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔  تھائی لینڈ کی اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے‘ تاہم پٹانی‘ نراتھی وٹ‘ جایا اور  سونگھلا چار جنوبی مسلم اکثریتی صوبے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار مسلمانوں کی تعداد ۴ فی صد بتاتے ہیں‘ جب کہ مسلم آبادی کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ یہ مسلم اکثریتی صوبے ملائشیا سے متصل اور تھائی دارالحکومت سے ۱۲۰۰ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔

۱۱ رمضان المبارک کو نراتھی وٹ صوبے کے ٹک بے شہر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بدھ مت کے پیامِ امن کی پیروکار تھائی حکومت نے اُن ۱۵۰۰ مظاہرین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا جو ٹک بے شہر کے ضلعی پولیس اسٹیشن کے گرد اکٹھے ہوگئے تھے۔ یہ لوگ اُن چھے افراد کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جن کو تھائی فوج نے چند روز قبل گرفتار کر لیا تھا۔ الزام یہ عائد کیا گیا کہ اُنھوں نے مسلح افواج کے جوانوں سے چھے بندوقیں چھین کر علیحدگی پسند مسلمانوں کے حوالے کردی تھیں اور فوج نے اسلحہ بازیاب کرانے کے لیے اُنھیں گرفتار کیا ۔ ہفت روزہ اکانومسٹ کی رپورٹ  بھی یہی ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ کے اخبارات کا کہنا ہے کہ یہ افراد ٹک بے شہر کے حفاظتی اداروں کی طرف سے چوکیداری پر معمور تھے اور تھائی فوج نے مقامی آبادی پر دہشت ڈالنے کے لیے اسلحہ بازیابی کے بہانے اُنھیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔

پولیس اسٹیشن کے گرد جمع ہونے والے ۱۵۰۰ مظاہرین مکمل طور پر غیرمسلح تھے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے کہ جو دیکھا دیکھی مجمع میں شامل ہوتے چلے گئے۔ اُن کی اکثریت چھوٹے کاشت کاروں اور قریبی دکان داروں پر مشتمل تھی۔ وہ حکومت کے لیے کیا مسئلہ کھڑا کرسکتے تھے‘ لیکن تھائی فوج نے مظاہرے میں موجود ہر شخص کو سیکیورٹی رسک سمجھا۔ یاد رہے کہ جنوبی تھائی لینڈ کے تین مسلم صوبوں میں گذشتہ ۱۰ ماہ سے مارشل لا نافذ ہے۔ دو ماہ قبل موجودہ وزیراعظم نے اپنے وزیر دفاع کو اس بنا پر برخواست کر دیاکہ وہ جنوبی علاقوں میں ’نمایاں‘ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ۲۵ اکتوبر کو فوج کو موقع ہاتھ آگیا کہ اُن کے بقول ’’دہشت گرد مسلم علیحدگی پسندوں اور شرپسندوں‘‘ کے دماغ درست کیے جاسکیں۔

اے ایف پی‘ رائٹر‘ بی بی سی اور دیگر خبررساں ایجنسیوں نے خبر جاری کی کہ فوج کے سربراہ جنرل یراوت ونگ سوان کی اجازت کے بعد ہی یہ کارروائی ہوئی۔ اولین طور پر ۳۰۰ فوجی کمانڈو مظاہرین کے گرد حصار بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کی پشت پر خودکار اسلحہ سے لیس سیکڑوں فوجی دستے بھی موجود تھے ۔ فوج نے مظاہرین پر پائپوں سے پانی برسایا‘ پھر آنسوگیس پھینکنا شروع کی اور اس کے بعد لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ اس افراتفری کے دوران کم از کم ۲۰۰ مظاہرین قریبی علاقوں میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد قتلِ عام پر تُلی ہوئی فوج نے براہ راست گولیاں برسانا شروع کر دیں جس سے چھے افراد موقع پر شہید اور ۳۰ زخمی ہوگئے۔ ابھی مظاہرین سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ آرمی کمانڈر نے انھیں منشتر ہونے کا اعلان کیے بغیرگرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ فوجیوں نے مسلم نوجوانوں کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا‘ اُن کی قمیصیں اُتروا کر اُن کے ہاتھ اُن کی پشت پرباندھ دیے اور اُنھیں منہ کے بل زمین پر لیٹنے کا حکم دیا‘ سرتابی کرنے والوں کے سروں پر بندوقوں کے بٹ مارے جاتے‘ یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ تھائی ٹیلی ویژن نے ۲۶ اکتوبر کو  فلم دکھائی جس میں تھائی فوجی M-16آٹومیٹک رائفلیں چلا رہے تھے۔

وزیراعظم تھک سِن شِنا وترا نے پارلیمنٹ میں بھی اور ذرائع ابلاغ کے سامنے تسلیم   کیا ہے کہ یہ لوگ روزے سے تھے اور اُن سے تباہ کُن اسلحہ اور ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔  گرفتار شدگان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ کچھ عورتوں اور بچوں کا ذکر بھی ہے۔ ان لوگوں کومال برداری کے لیے چھ پہیوں والے ٹرکوں میں بھرکر فوج کے تفتیشی مرکز میں لے جایا جانے لگا۔ تفتیشی مرکز ۶۰ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ مظاہرین کو ٹرکوں میں بھرنے اور تفتیشی مرکزتک پہنچانے میں چھے گھنٹے لگے۔جب یہ ٹرک تفتیشی مرکز پہنچے تو ۷۸ روزہ دار بے بس مسلمان‘     دم گھٹنے اور ایک دوسرے کے نیچے دب کر شہید ہوچکے تھے‘ جب کہ دو ڈھائی سو کی حالت نازک تھی۔ خبرجب پھیلی تو تھائی لینڈ کے ہر مسلم گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی‘ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں افطار کے وقت آنکھیں اشک بار نہ ہوئی ہوں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ تھائی ہیومن رائٹس کمیشن اور کئی اداروں نے تھائی لینڈ حکومت کے اس رویّے کی مذمت کی اور غیر جانب دارانہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے تلاشِ حقیقت کا مطالبہ کیا۔ کچھ دنوں بعد وزیراعظم نے علاقے کا دورہ کیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ نشہ کرنے والوں‘ دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور دوسرے ممالک سے ہدایات لے کر تھائی لینڈ میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے والوں سے اس علاقے کو پاک کر دیا جائے گا‘ نیز یہ کہ اب مزید کوئی نرمی نہ برتی جائے گی۔ تھائی لینڈ کے تمام اخبارات نے وزیراعظم کی تقریر کو شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی سرزمین پر ’لاقانونیت‘ برداشت نہیں کرسکتے۔ اُنھوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ ٹرکوں کی کم تعداد کی وجہ سے تھائی مسلمان جاں بحق ہوئے‘ تاہم انھوں نے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہ کی کہ اس علاقے کے شہری نشہ آور اشیا استعمال کرنے اور روزہ رکھنے کی وجہ سے کمزور ہوگئے تھے۔ دم گھٹنے کے علاوہ اُن کی جسمانی کمزوری بھی ان کے انتقال کا سبب بنی۔ گویا فوج کا کوئی قصور ہی نہیں تھا۔

اے بی سی نیوزکے رپورٹر نے وزارتِ انصاف کے افسر مَنِت سُتاپورن کے حوالے سے یہ خبر جاری کہ کہ ٹرکوں میں محبوس لوگوں پر آنسو گیس بھی پھینکی گئی اور اُن کی موت آکسیجن کی کمی اور دم گھٹنے کے سبب ہوئی۔ یہ تمام لوگ نیم برہنہ تھے‘ اُن میں سے تین افراد کی گردن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہلاکتیں تشدد اور دم گھٹنے سے ہوئیں۔

ملائشیا کے وزیراعظم عبداللہ بداوی نے تھائی لینڈ کے وزیراعظم تھک سن شنا وترا کو احتجاجی فون کیا اور کہا کہ تھائی لینڈ کی حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اسلامی پارٹی ملائشیا نے کئی مقامات پر مظاہرے کیے اور تھائی لینڈ کی حکومت کی پُرزور مذمت کی۔ انڈونیشیا کے کئی اداروں اور تنظیموں نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب قاضی حسین احمد نے ۸۴ بے گناہ مسلمانوں کے بہیمانہ قتل پر شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کا کمیشن اس قتلِ عام کی تحقیقات کرے۔ بھارت کی حکومت نے بھی سرکاری طور پر مذمتی بیان جاری کیا۔ بنگلہ دیش‘ عرب ممالک اور یورپ کی کئی تنظیموں نے اس بہیمانہ واقعے کی پُرزور مذمت کی۔

چھے ماہ قبل ۲۸ اپریل کو اُس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی تھائی لینڈ کے دورے پر گئے تھے اور اُسی روز ۱۰۸ مسلمانوں کو تھائی افواج نے ہلاک کر دیا تھا۔ افسوس کہ وہ شدید احتجاج تو کیا اظہار مذمت بھی نہ کرسکے۔ مسلم ممالک کی مجموعی بے حسی کے سبب تھائی حکومت گذشتہ ۱۵ برس سے اس کوشش میں ہے کہ پٹانی‘ نراتھی وٹ ‘ سونگھلا اور جایا کے صوبوں میں علیحدگی کی تحریک کے آخری آثار کو بھی کچل دیا جائے اور وہ اس میں بظاہر کامیاب دکھائی دیتی ہے۔

تھائی لینڈ میں خوش حالی کا جو دور دورہ ہے اُس کے اثرات جنوبی تھائی لینڈ میں دُور دُور تک نہیں ملتے۔ وہاں کی اکثریت غریب کسانوں‘ مزدوروں اور نیم تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ میں شرح تعلیم ۹۳ فی صد ہے۔ حکومتِ تھائی لینڈ یہ الزام بار بار عائد کرتے ہوئے نہیں تھکتی کہ ان علاقوں میں نشہ بازوں‘ اسلحہ فروشوں اور بدعنوانی کرنے والوں کے گینگ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور اس علاقے کو مجرموں سے پاک کرنا ضروری ہے۔

تھائی حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ پٹانی یونائیٹڈ لبریشن آرگنائزیشن‘ پٹانی نیشنل یوتھ موومنٹ‘ بی آر این اور جی ایم آئی پی نیز آزاد اسلامی ریاست پٹانی کے خیالات کی معمولی سی حمایت کرنے والی تنظیموں کا‘ سنگاپور کی جماعت اسلامیہ اور اسامہ بن لادن کی القاعدہ تنظیم کے ساتھ تعلق ڈھونڈ نکالا جائے اور اُن کے خلاف ایسی ہی سخت کارروائی کی جائے جیسی امریکا افغانستان و عراق میں ’’دہشت گردی سدِّباب مہم‘‘ کے نام سے کر رہا ہے۔ امریکی مثال سے روشنی حاصل کرنے کے سبب گذشتہ ۱۰ ماہ کی مہم میں تھائی لینڈ میں ۴۰۰ مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں۔ نہ ان کے خلاف کہیں رپورٹ درج ہوئی ہے نہ کوئی اس خونِ ناحق کا دعویدارہے۔

اس علاقے میں بسنے والے مسلمان مَلے اور چم نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو۱۴۹۵ء میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور یہاں کے سلطان نے پٹانی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ۱۷۹۵ء میں تھائی سلطنت نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور جنگِ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد بھی یہ علاقہ آزاد حیثیت حاصل نہ کر سکا۔

پٹانی تحریکِ آزادی کے راہنما اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ دس برس ’بنیاد پرستی‘ مخالف طوفان کی نذر ہوگئے۔ اگلے دس برس ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کی مہم میں بش جونیئر کی قیادت میں صرف ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان میں عوام کا اقتدار ختم کر دیا گیا‘ عراق میں آگ و خون کی بارش اس طرح ہو رہی ہے کہ شہروں کے شہر تباہ ہو رہے ہیں‘ فلسطین کا مسئلہ کسی صورت حل ہوتا نظر نہیں آتا‘ جموں و کشمیر کے دعوے داروں نے ہاتھ جوڑ رکھے ہیں۔ ان حالات میں بچارے پٹانی والوں کی خبرگیری کون کرے گا‘ واللّٰہ المستعان!

عالمی پیمانے پر کام کرنے والی اُن تنظیموں اور خبررساں اداروں کے کردار کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جنھوں نے ٹک بے کے قتلِ عام کی تصاویر بنائیں اور جاری کیں۔ ایمنسٹی کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس کی ڈپٹی ڈائرکٹر نے اقوام متحدہ اور ریاست ہاے متحدہ سے مطالبہ کیا کہ ’’غیرانسانی قتلِ عام کی فی الفور تحقیقات کرائیں‘ ہانگ کانگ کے انسانی حقوق کمیشن نے    تھائی حکومت کے سرکاری بیان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’’تمام افراد دم گھٹنے سے ہلاک نہیں ہوئے   چند کے جسم سے گولیاں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ۱۳۰۰ کے مجمعے سے حکومت صرف چار رائفلیں بازیاب کرسکی۔ تھائی حکومت کو اپنے اقدام پر شرم آنی چاہیے‘‘۔

پٹانی کے ایک شہری کا یہ سوال برحق ہے کہ ایسا قتلِ عام اگر یورپ کے کسی ملک میں ہُوا ہوتا تو کیا عالمی ضمیر اُس وقت بھی سویا رہتا‘ یا کوئی اقدام کرتا؟