دسمبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

فلسطین اور یاسر عرفات

عبد الغفار عزیز | دسمبر ۲۰۰۴ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

فلسطین پر قابض برطانوی افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہونے والا نوجوان یاسر اسے اپنا ہیرو محسوس ہوا‘اور قاہرہ یونی ورسٹی میں انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے نوجوان محمد عبدالرحمن عبدالرئوف عرفات القدوہ الحسینی نے اپنا نام یاسر رکھ لیا۔ پھر کسی کو یاسر عرفات کا اصل نام‘ جو ۲۴ اگست ۱۹۲۹ء کو قاہرہ میں پیدا ہونے پر والدین نے رکھاتھا‘ یاد نہ رہا۔

دورِ جوانی ہی سے یاسر جس نے اپنی کنیت ابوعمار رکھی تھی فلسطین کے لیے بہت جذباتی اور متحرک تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں ’’فلسطینی طلبہ اتحاد‘‘ کی تشکیل میں اس کا نمایاں کردار تھا۔ تعلیم کے بعد ۱۹۵۶ء میں وہ مصری فوج میں بھرتی ہوگیا اور لیفٹیننٹ کا عہدہ حاصل کیا۔ اسی سال مصر پر اسرائیل‘ برطانیہ اور فرانس کا مشترکہ حملہ ہوا اور لیفٹیننٹ یاسر کو باقاعدہ جنگ کا تجربہ حاصل ہوا۔

علامہ یوسف قرضاوی‘ ابوعمار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ ’’فلسطین پر قبضے کے بعد اخوان المسلمون نے کسی بھی باقاعدہ فوج سے پہلے اور زیادہ جرأت و جذبے سے برطانوی و صہیونی قابض فوجوں کا مقابلہ کیا۔ امام حسن البناؒ نے اس دور میںمصر سے زیادہ فلسطین کو اہمیت دی اور قبلۂ اول کے دفاع و آزادی کے لیے اپنے ہزاروں مجاہدین فلسطین روانہ کیے۔ ان مجاہدین کی تربیت کے لیے مصر کے مختلف علاقوں میں تربیتی کیمپ قائم تھے۔ ایک کیمپ میں  مَیں بھی شریک تھا۔ اس میں ایک نوجوان یاسر تربیت دیا کرتا تھا۔ میرا اس سے پہلا تعارف اس طرح ہوا کہ ایک ساتھی کی کسی غلطی پر طیش میں آکر یاسر نے اسے ڈانٹتے ہوئے اس پر بندوق تان لی۔ میں نے کیمپ انچارج‘ اخوان کے ذمہ داران سے اس واقعے کی شکایت کی اور انھوں نے یاسر کو بلا کر نوٹس لیا… یہ میری اور یاسر عرفات کی پہلی ملاقات تھی‘‘۔

فوج سے فارغ ہو کر ابوعمار نے کویت جاکر تلاش معاش کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں مقیم فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ مل کر ’’الفتح‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ان نوجوانوں کی اکثریت بھی اخوان المسلمون سے متاثر تھی جن میں سلیم زعنون‘ خلیل الوزیر (ابوجہاد) اور صلاح خلف نمایاں تھے۔ الفتح نے ۱۹۵۹ء میں بیروت سے فلسطیننا  (ہمارا فلسطین) نامی رسالہ شائع کرنا شروع کیا اور اس طرح ’’الفتح‘‘ فلسطین کی آواز بن کر ابھرنا شروع ہوئی۔

یاسر عرفات کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے‘ اس دوران وہ طالب علم لیڈر بھی رہا‘ فوجی کمانڈر بھی‘ خفیہ مسلح جدوجہد کا نگران بھی رہا اور سیماب پا سیاسی لیڈر بھی۔ عرب حکمران اسے کبھی اپنا بھائی اور بازوے شمشیر زن قرار دیتے رہے اور کبھی اس سے ملنے سے بھی انکاری۔ اُردن میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد قیام پذیر ہے۔ یاسر عرفات نے وہاں اپنی سرگرمیوں کا مرکز قائم کیا۔ ’’العاصفہ‘‘ (آندھی) گوریلا تنظیم قائم کی اور مقبوضہ فلسطین میں فدائی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اُردن کا شہر الکرامہ‘ الفتح کی قیادت کا مسکن تھا۔ ۲۱ مارچ ۱۹۶۸ء کو الکرامہ پر اسرائیلی فوجوں نے حملہ کیا۔ اُردنی خفیہ اداروں کو اس حملے کی اطلاع ہو چکی تھی۔ انھوں نے الفتح کو بھی مطلع کر دیا اور جب حملہ ہوا تو اسرائیلیوں کو لاشیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

اسی اُردن میں دو سال بعد ستمبر ۱۹۷۰ء کو شاہ حسین کے حکم پر فلسطینی کیمپوں پر دھاوا بولا گیا۔ الزام یہ تھا کہ حکومتِ اردن کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ اس حملے میں۳ہزار فلسطینی شہید کر دیے گئے اور بالآخر ان کی قیادت اور مجاہدین کو اُردن چھوڑ کر لبنان آنا پڑا۔ فلسطینی اب بھی ان زخموں کو نہیں بھولے۔ اس حملے میں پاکستانی فوج بھی شریک تھی۔ نتیجتاً پاکستان سے بھی ابدی شکوہ قائم ہے۔ اس سانحے کے لیے عالمی قوتوں نے کس طرح اسٹیج تیار کیا تھا‘ اس کی ایک جھلک کسنجر کی یادداشتوں کے اس پیراگراف میں ملتی ہے: ’’میں نے اسحاق رابن کو اُردن سے موصولہ اطلاعات سے آگاہ کیا اور میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ اس دوران اسرائیلی فضائی حملہ ہمارے لیے باعث اطمینان ہوگا اور ہم اس بات کے لیے بھی تیار ہیں کہ نقصان ہونے کی صورت میں اس کا ازالہ کریں‘‘۔

۷۰ کی دہائی میں لبنان مختلف فلسطینی گروپوں کا مرکز رہا۔ اسرائیلی افواج اور صہیونی بستیوں کو ان کی لاتعداد گوریلا کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران یہودیوں نے ہر شیطانی چال اختیار کی۔ سیکڑوں ذمہ داران قتل کیے‘ ۱۹۷۵ء میں لبنان کی خانہ جنگی پر تیل چھڑکا۔ مشرق وسطیٰ کے اہم رکن ملک مصر کو پوری اُمت سے الگ کرتے ہوئے ۲۶مارچ ۱۹۷۹ء کو کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کر لیا اور بالآخر ۱۹۸۲ء میں لبنان پر حملہ کرتے ہوئے بیروت کے ۱۰ ہفتے کے مکمل محاصرے کے بعد‘ فلسطینی قیادت اور فدائی گروپوں کو لبنان سے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ یاسرعرفات ۳۰ اگست ۱۹۸۲ء کو بیروت کی بندرگاہ سے لبنان میں ۱۱سال قیام کے بعد رخصت ہوا اور مصر سے ہوتا ہوا تیونس میں جا مقیم ہوا۔

اب ابوعمار ایک فدائی لیڈر کے علاوہ سیاسی قائد بھی شمار ہوتا تھا۔ عرب سربراہی کانفرنس کے اہم مقرر ہونے کے علاوہ ۱۳ نومبر ۱۹۷۴ء کو وہ اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اجلاس میں پہلے فلسطینی لیڈر کی حیثیت سے خطاب کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ’’میں ایک انقلابی کی بندوق کے ساتھ ساتھ زیتون کی شاخ بھی لے کر آیا ہوں۔ اس سبز شاخ کو میرے ہاتھ سے نہ گرنے دو… جنگ کا آغاز بھی فلسطین سے ہوتا ہے اور امن کا آغاز بھی فلسطین ہی سے ہوتا ہے‘‘۔

یاسر عرفات ۱۹۹۴ء تک تیونس ہی میں مقیم رہا۔ اس دوران تنظیم آزادی فلسطین اور الفتح تنظیم بڑے اندرونی بحرانوں سے گزری۔ کئی لیڈر اسرائیل نے شہید کر دیے‘ بہت سے اپنوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ فلسطینی سرزمین اور سرحدوں سے دُور ہونے کے باعث کوئی قابلِ ذکر فدائی کارروائیاں نہ ہو سکیں۔البتہ اس دوران پورے مسئلہ فلسطین کو یاسر عرفات کی ذات تک محدود کرنے کی عالمی کوششیں عروج پر رہیں۔ مسئلہ فلسطین کو پہلے صرف عربوں کا‘ پھر صرف فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دیا گیا اور بالآخر یاسرعرفات کو فلسطینیوں کا ’’الممثل الشرعی والوحید‘‘ (اکلوتا قانونی نمایندہ) قرار دے کر کہا گیا کہ اس کے علاوہ کسی کو فلسطین کی وکالت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

فلسطین کی تاریخ میں‘ ۱۹۴۸ء کے بعد دسمبر ۱۹۸۷ء سے شروع ہونے والا مرحلہ سب سے اہم ہے۔ اس سال پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی‘ جس میں بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین سمیت پوری فلسطینی قوم نے حصہ لیا۔ تحریکِ انتفاضہ کا سہرا اسلامی تحریک مزاحمت حماس اور اس کے رہبر شیخ احمد یاسین کے سر جاتا ہے۔ صہیونی انتظامیہ نے پتھروں اور غلیلوں سے ’’مسلح دہشت گردوں‘‘ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے اور فلسطین پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ یاسر عرفات نے سیاسی محاذ پر‘ امن مذاکرات کی بات آگے بڑھائی اور ۱۹۸۸ء میں فلسطینی کونسل نے الجزائر میں اپنے اجلاس کے دوران پیش کش کی کہ غزہ اور مغربی کنارے پر فلسطینی ریاست کے قیام کے مقابل ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں کونسل نے یاسرعرفات کو مجوزہ فلسطینی ریاست کا مجوزہ صدر قرار دے دیا اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا ایک طویل دور شروع ہوگیا۔

تحریکِ انتفاضہ کی قربانیاں جاری رہیں اور یاسرعرفات کے مذاکرات بھی‘ یہاں تک کہ ۱۹۹۳ء میں ناروے کے دارالحکومت میں عرفات رابن اوسلو معاہدے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر رقبے میں سے صرف مغربی کنارے کے ۲ہزار ۲ سو ۷۰ مربع میل اور غزہ کے ۱۳۵ مربع میل علاقے پر فلسطینی ریاست کی تشکیل کا خواب دکھایا گیا۔ یہ رقبہ پورے فلسطین کا صرف ۲۳ فی صد بنتا ہے اور اس میں سے بھی ۶۰ فی صد علاقے پر یہودی بستیوں کی تعمیر کرکے وہاں لاکھوں یہودیوں کو بسا دیا گیا ہے۔ اپنے وطن سے دست برداری کے معاہدے کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ’’سلام الشجعان‘‘(بہادروں کا امن معاہدہ) ہے۔ جھوٹے وعدوں اور نو برس پر پھیلے اس گورکھ دھندے اور سراب سے فلسطینیوں کو یہ خواب دکھایا گیا کہ آزادی نہ سہی‘ چلیے فلسطین میں پائوں دھرنے کی جگہ تو ملی۔ لیکن اس معاہدے کی اصل قیمت تحریکِ انتفاضہ کے ابابیل بچوں نے چکانا تھی۔ غلیلوں اور پتھروں سے ’’لیس‘‘ نوجوانوں کو اب یہودی بمباری کا ہی نہیں فلسطینی انتظامیہ کی آٹھ خفیہ ایجنسیوں اور پولیس فورس کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

یاسرعرفات اپنی قوم کو مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی خوش خبری سناتے ہوئے  تحریکِ انتفاضہ روکنے کے لیے ایک کے بعد دوسرے صہیونی مطالبے کو پورا کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا اور اگر حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی یہ دوٹوک پالیسی اور اصرار نہ ہوتا کہ ہم اپنی بندوقوں کا رخ صرف اپنے مشترکہ دشمن کی طرف رکھیں گے‘ حماس اور عرفات انتظامیہ کے درمیان لبنانی خانہ جنگی سے بھی خطرناک خانہ جنگی ہوچکی ہوتی۔ شیخ احمد یاسین نے ہمیشہ کہا کہ عرفات انتظامیہ کے لیے ہمارا پیغام ہمیشہ وہی رہے گا جو آدم علیہ السلام کے بیٹے نے پہلے انسانی قتل کے وقت اپنے بھائی کو دیا تھاکہ لَئِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَابِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ج (المائدہ ۵:۲۸)’’تم اگر مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائو گے تو بھی میں تمھیں قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ نہیں اٹھائوں گا‘‘۔

سات برس تک اوسلو معاہدے پر عمل درآمد کے ذریعے صہیونی انتظامیہ سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد‘ اور فلسطینی عوام میں فلسطینی انتظامیہ سے بڑھتی ہوئی مایوسی کے پس منظر میں جون ۲۰۰۰ء میں ایک بار پھر کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ صہیونی وزیراعظم ایہود باراک‘ یاسر عرفات اور صدر کلنٹن کے درمیان کئی دن بند دروازے میں ہونے والے یہ مذاکرات بالآخر صہیونی ڈھٹائی کی نذر ہوگئے۔ اسی اثنا میں صہیونی اپوزیشن لیڈر ارییل شارون اپنے لائولشکر سمیت مسجد اقصیٰ میں جا گھسا اور اس پر یہودی استحقاق کا اعلان کر دیا۔ ستمبر ۲۰۰۰ء میں یہی لمحہ دوسری تحریکِ انتفاضہ کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ اب الفتح بھی (یاسر عرفات کے اعتراف کے بغیر) اس شہادتی کارواں کا حصہ بنی۔

اس تحریکِ انتفاضہ کے خاتمے کے لیے جنین‘ رفح اور رام اللہ  جیسے دیگر فلسطینی کیمپ اور شہر کھنڈروں میں تبدیل کر دیے گئے۔ تحریک کی پوری قیادت شیخ احمد یاسین‘ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی اور اب یاسر عرفات کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد ۸ ہزار ہوگئی‘ ہزاروں بچوں اور بڑوں کو شہید کر دیا گیا۔ لیکن تحریکِ انتفاضہ اب بھی جاری ہے۔ سیکڑوں میل لمبی دیوار عُنصریت بھی شہادتی کارروائیوں کا راستہ نہیں روک سکی۔ حالیہ رمضان میں بھی القدس میں ایک کامیاب شہادتی حملہ ہوا ہے۔

یاسر عرفات ۲۰۰۱ء سے اپنے ہیڈ کوارٹر میں محصور کر دیے گئے تھے۔ اوسلو معاہدے کے بعد امن کا نوبل انعام کا حق دار‘ اب فلسطینی قیادت میں سب سے ناپسندیدہ شخص بن گیا تھا۔ اسے قیادت سے یا پھر دنیا ہی سے ہٹا دینے کی تکرار ہو رہی تھی‘ یہی وہ عرصہ تھا جب فلسطینی عوام میں یاسرعرفات کی مقبولیت کا گراف دوبارہ بلند ہونا شروع ہوا۔ ابوعمار نے اپنی قوم کا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا شروع کیا۔ لیکن اب مضمحل قویٰ اور بیماریوں کی یلغار نے ۷۵ سالہ ابوعمار کا کردار محدود تر کر دیا تھا۔ اب وہ امیدوں کے مرکز کے بجاے ہمدردیوں کا مستحق قرار پایا۔ اس کے دست و بازو قرار دیے جانے والے بھی صہیونیوں کی چھیڑی گئی اس بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے کہ مابعد عرفات کیا ہوگا۔

ابوعمار کی وفات بھی اس کے متعلق پائے جانے والے کئی معموں میںسے ایک معمہ ہے۔ اس کے کئی ساتھی اور کئی افراد خانہ مصّرہیں کہ انھیں زہر دیا گیا ہے۔ اس کے بھائی محسن عرفات نے ۲۰نومبر کو پیرس سے واپسی پر کہا ہے کہ ہمیں یاسرعرفات کی وفات کے بارے میں صحیح حقائق نہیں بتائے جارہے۔ انھوں نے کہا کہ خود فرانسیسی وزیرخارجہ نے مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس وقت موت کے حقیقی اسباب جاننے پر اصرار‘ فلسطینیوں کے حق میں نہیں ہے‘‘۔ محسن عرفات نے اس امر پر بھی دکھ کا اظہار کیا کہ ’’فلسطینی قیادت اسرائیلی ذمہ داران کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے میں مصروف ہے اور سمجھتی ہے کہ موت کے اسباب جاننے پر اصرار مذاکرات کے ماحول پر منفی اثرات مرتب کرے گا‘‘۔

یاسر عرفات کی حیات و موت بے حد عبرت آموز ہے۔ عہدشباب میں جب وہ اخوان سے وابستہ تھے تو قبلۂ اول اور جہاد کی دینی اہمیت و منزلت کا پرچار کیا کرتے تھے۔ الفتح کی تشکیل اور عالمی روابط کے آغاز کے بعد دینی تعلیمات ہی نہیں اسلام کے ذکر سے بھی احتراز کرنے لگے۔ حجت یہ تھی کہ فلسطین میں عیسائی بھی ہیں اور لامذہب بھی‘ ہمیں ان سب کی نمایندگی کرنا ہے۔ جمال عبدالناصر‘ابوعمار کے اخوانی پس منظر کے باعث ان سے تعاون میں متردد تھا اور ابوعمار نے اس تردد اور اخوانی چھاپ کے ازالے کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جس سے ان کے تئیں عرب حکمران مطمئن ہو سکتے تھے۔ پھر جب اسرائیل سے مذاکرات شروع کیے تو اسے مطمئن کرنے‘ اس کا دل جیتنے اور معاہدہ یقینی بنانے کے لیے دست برداری کو وقتی حکمت قرار دیتے ہوئے اپنی مستقل پالیسی بنا لیا۔ اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینی انتظامیہ نے تحریکِ انتفاضہ کو صہیونی فوج سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ کچلا۔ صہیونی مطالبے پر الفتح کے بنیادی دستور سے وہ تمام شقیں خارج کر دی گئیں جو پورے فلسطین کی آزادی اور جہاد کے وسیلۂ آزادی ہونے سے متعلق تھیں۔ مجوزہ فلسطینی ریاست کی ’’وسیع تر‘‘ سرحدوں کا دائرہ ۱۹۶۷ء تک صہیونی قبضے سے آزاد رہ جانے والے علاقوں تک محدود کردیا‘ لیکن بالآخر قابلِ گردن زدنی قرار پائے۔ بش اور شارون دونوں نے اعلان کر دیا کہ یاسر عرفات فلسطینی ریاست کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکی روڈمیپ پر سفر کا آغاز نئی فلسطینی قیادت سے مشروط قرار دے دیا گیا۔ پھر اسرائیلی ٹینک اور بلڈوزر ابوعمار کے ہیڈ کوارٹر کی ایک کے بعد دوسری دیوار گرانے لگے۔ اس وقت ابوعمار کا خطاب ایک بار پھر وہی خطاب تھا جو وہ کبھی عہدِشباب میں کیا کرتا تھا۔ آج الجزیرہ سے ان کی تقریروں کے اقتباس نشر ہوتے ہیں جن میں وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے حوالے دیتا ہے کہ:’’ میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہے گا۔ وہ اللہ کی مدد سے اپنے دشمن پر غالب رہے ہوگا‘ اسے اپنوں کی بے وفائی اور غیروں کا جور کوئی نقصان نہ دے گا۔ وہ اسی حال میں رہیں گے جب تک اللہ کا فیصلہ نہ آجائے۔ آپؐ سے پوچھا گیا: یہ گروہ کہاں ہوگا یارسولؐ اللہ؟ توآپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے گردونواح میں‘‘۔(متفق علیہ)

تاریخ کے طالب علم اظہار حسرت کرتے ہیں کہ کاش! یاسر عرفات کو یہ سبق قوتِ کار کے عروج میں بھی یاد رہتا۔

آج یاسر عرفات کی وفات کے بعد اس کے جانشین کا مسئلہ درپیش ہے اور بدقسمتی سے ہلاکت کی اسی ڈگر پر چلنے کی تیاریاں ہیں‘ جن پر پہلے رسوائی حاصل ہوئی۔ ۹جنوری کو فلسطینی انتظامیہ کے صدارتی انتخابات ہونا طے پائے ہیں۔ اب یہ بات تقریباً طے ہے کہ محمود عباس (ابومازن) جو یاسر عرفات کی متبادل قیادت کے مطالبے پر‘ وزیراعظم بنائے گئے تھے اور چار ماہ کے بعد مستعفی ہوگئے تھے‘ آیندہ صدر منتخب کر لیے جائیں گے۔ ابومازن عرفات کے ابتدائی رفقا میں سے ہیں۔ عرفات جب کویت میں تھے تو ابومازن قطر میںتھے۔ الفتح کی تشکیل میں دونوں شریک تھے۔ ابومازن نے حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑوں سے مذاکرات کیے ہیں۔ گاہے بہ گاہے قومی حکومت کی تشکیل کی بات بھی کی ہے لیکن پالیسی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کیا جائے‘ امریکی سرپرستی حاصل کی جائے اور اس کے دیے گئے روڈمیپ پر آگے بڑھا جائے۔

شارون نے مذاکرات کے لیے پانچ شرائط عائد کی ہیں جو اصل میں ایک ہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ: ۱-فلسطینی عرفات سے زیادہ معتدل قیادت کا انتخاب کریں۔ ۲- یہ قیادت دہشت گردی کچلنے کی ضمانت دے۔ ۳- دہشت گرد تنظیموں کا انفراسٹرکچر ختم کرے۔ ۴- نئی انتظامیہ شدت پسند کارروائیوں (انتفاضہ) کا خاتمہ کرے۔ ۵-نئی قیادت اسرائیل کے ساتھ مذاکرات و مفاہمت کا اختیار و صلاحیت رکھتی ہو۔ شارون نے امریکا کے سامنے بھی تین بنیادی شرطیں رکھیں: ۱- امریکا ضمانت دے کہ فلسطین سے باہر موجود فلسطینیوں (مہاجرین) کو واپسی کی اجازت نہیں ہوگی۔ ۲-تقریباً تمام یہودی بستیوں پر اسرائیل کا کنٹرول تسلیم کیا جائے گا۔ ۳- دیوار تقسیم کی تکمیل و حفاظت کی جائے گی۔

لیکوڈ پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شارون نے کہا ہے کہ فلسطینی یہ ضمانت بھی دیں کہ اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیز پروپیگنڈا بند کیا جائے گا۔ اس نے کہا: ’’اسرائیل کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈا‘ اسکولوں اور ذرائع ابلاغ میں اس کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت‘ فلسطینی ہتھیاروں سے کم خطرناک نہیں ہیں‘‘۔بالمقابل ابومازن نے اسرائیلی جنگ بندی اور فلسطینی وزیراعظم احمدقریع ابوعلاء نے نقل و حرکت کی آزادی‘ اسرائیلی فوج کے محدود انخلااور اسی صورت حال کی بحالی کی بات کی ہے جو ستمبر ۲۰۰۰ء سے پہلے تھی۔

فلسطینی انتظامیہ کے لیے صہیونی زور و سفاکیت کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ اندرونی اختلافات ہیں۔ فلسطینی انتظامیہ کے کئی ارکان پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی ہیں۔ یاسر عرفات کی تعزیت کے لیے بلائے گئے ایک اجتماع میں محمود عباس کے ایک گارڈ کو قتل کر دیا گیا۔ ایک اور حادثے میں محمد دحلان کی گاڑی جلا دی گئی۔ محمد دحلان خود بڑا قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ امریکی و اسرائیلی بھی اسے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ اوسلو معاہدے کے بعد عرفات انتظامیہ میں داخلی امن و امان کا ذمہ دار تھا اور حماس و جہاد اسلامی کے خلاف تقریباً تمام کارروائیاں اس نے اور جبریل رجوب نے کی تھیں۔ اس کے اور اسرائیلیوں کے چاہنے کے باوجود فی الحال اس کے لیے قیادت کے دروازے نہیں کھل سکے۔

حماس نے خود کو اس ساری اندرونی کش مکش سے دور رکھا ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کے صدارتی انتخابات میں وہ حصہ نہیں لے گی۔ البتہ بلدیاتی انتخابات میں ضرور حصہ لے گی تاکہ عوام کو روز مرہ خدمات فراہم کی جا سکیں۔ صہیونی انتظامیہ بدستور حماس کی قیادت پر قاتلانہ حملے کر رہی ہے۔ حال ہی میں دمشق میںاس کے ایک اہم کمانڈر کو شہید کر دیا گیا۔ خالد المشعل سمیت متعدد لیڈر تو اس کی ہٹ لسٹ پر ہیں ہی‘ اس کارروائی سے شام کو بھی پیغام دیاگیا ہے کہ صہیونی کارروائیوں کا دائرہ اب شام تک وسیع ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف فلسطین و مصر سرحد پر تین مصری فوجیوں کو ٹینکوں کے گولوں سے شہید کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ بعد میں معذرت کرتے ہوئے کہہ دیا گیا کہ یہ غلط فہمی سے ہواہے لیکن ایسی غلطیاں پہلے بھی کئی بار ہوچکی ہیں اور ان میں چھپا پیغام صرف ’’غلطیوں‘‘ کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔

تیسری طرف اُردن نے وہاں موجود فلسطینی مہاجر کیمپوں میں اچانک تعمیراتی کام شروع کروا دیے ہیں اور بلامانگے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ سرگرمی ان کیمپوں کو مستقل کرنے اور فلسطینی مہاجرین کو مستقل طور پر اُردن ہی میں رکھ لینے کے لیے نہیں ہیں‘ بلکہ فلسطینی مہاجرین کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ واضح رہے کہ مسئلہ فلسطین کے صہیونی حل میں محدود فلسطینی علاقے میںمحدود تر خودمختاری دینے کے ساتھ ساتھ اُردن میں فلسطینیوں کا مستقل قیام بھی شامل ہے۔

اس تناظر میں آیندہ فلسطین میں مزید آزمایشیں اور سازشیں منہ پھاڑے آگے بڑھ رہی ہیں۔ امریکا اور اسرائیل یاسرعرفات کے وجود کو امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے رہے ہیں اور اب اس رکاوٹ کے ہٹ جانے سے وہ اپنے تمام اقدامات کی تکمیل خود فلسطینیوں کے ہاتھوں کروانے کے لیے بے تاب ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو خاکم بدہن خود فلسطینی فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگتے دکھائی دیں گے اور اگر محمود عباس اور ساتھیوں نے حماس اور دیگر جہادی قوتوں کے ساتھ مفاہمت و یک جہتی کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا تو نہ صرف سیاسی طور پر ان کے وزن و رسوخ میں اضافہ ہوگا       بلکہ میدان میں بھی وہ اپنی کئی شرطیں تسلیم کروا سکیں گے۔ اس ضمن میں ایک بڑی ذمہ داری     مسلم حکمرانوں کے سر عائد ہوتی ہے۔ اگر یہ ممالک فلسطینی اتحاد کی سعی کریں گے تو نہ صرف فلسطینیوں کے لیے اُمید کی شمع روشن کریں گے بلکہ اپنے مصائب میں بھی کمی کا سامان کریں گے۔