مارچ۲۰۰۵

فہرست مضامین

کون سا اسلام؟ بش اور مشرف کا‘ یا محمدؐ عربی کا

پروفیسر خورشید احمد | مارچ۲۰۰۵ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج پوری ملّتِ اسلامیہ ہر سمت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں اور خطرات کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور اس کا سینہ اپنوں اور غیروں کے تیروں سے چھلنی ہے لیکن ہماری نگاہ میں اس وقت تین ایسے بنیادی اور گمبھیر چیلنج ہیں جن کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صحیح حکمت عملی مرتب اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور پوری اُمت مسلمہ خصوصاً ملّتِ اسلامیہ پاکستان کی بقا‘ استحکام اور ترقی اسی پر منحصر ہے۔ اسلام کی حفاظت کا بیڑا تو اس کے وحی کرنے والے نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ایک قوم اس کا حق ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ قادر ہے کہ دوسری قوموں کو اس امانت کا بار اٹھانے کے لیے آگے بڑھا دے جس طرح وہ ماضی میں کرتا رہا ہے۔ اس کی ایک تابناک مثال کی طرف اقبال نے اس طرح اشارہ کیا ہے   ؎

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

لیکن اصل مسئلہ اسلام کی بقا کا نہیں‘ بحیثیت قوم اور اُمت ہماری بقا اور ترقی کا ہے۔ تمام اہلِ ایمان اور اصحابِ بصیرت کی ذمہ داری ہے کہ ان چیلنجوں اور خطرات کا صحیح صحیح ادراک کریں جن کی زد میں ہمارا قومی اور ملّی وجود ہے اور اُمت مسلمہ کو بیدار‘ منظم اور متحرک کرنے کی سعی و جہد کریں تاکہ ان چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا جا سکے۔

جن تین چیلنجوں کو ہم بنیادی اور فیصلہ کن سمجھتے ہیں ان میں دو چیلنج اندرونی ہیں‘ اور ایک بیرونی ہے۔

داخلی صورت حال

سب سے پہلا چیلنج ہماری اپنی داخلی صورت حال کا نتیجہ ہے جس کا تعلق ذاتی کردار سے لے کر اجتماعی زندگی اور نظامِ حیات تک سے ہے۔ آج کا مسلمان فرد اور مسلمان معاشرہ ہمارے سارے دعووں کے باوجود‘ اسلام کے کم سے کم معیار سے بھی کوسوں دُور ہے اور ہم اسلام کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں‘ وہ دین حق کا پرتو ہرگز نہیں۔ اچھی مثالیں آج بھی موجود ہیں اور شاید انھی کے طفیل ہمیں زندہ رہنے کی مہلت ملی ہوئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی تمام نمازوں‘ روزوں‘ زکوٰۃ اور حج و عمروں کے باوجود‘ بحیثیت مجموعی ہم‘ انفرادی اور اجتماعی دونوں دائرہ ہاے زندگی میں جہالت‘ غفلت‘ نفاق‘ خود غرضی‘ ناانصافی‘ نفس پرستی اور دنیا طلبی کی گرفت میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ خود دین کے بارے میں ہمارا وژن دھندلا اور پراگندا ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی کے تضادات پر ہم کوئی خلش محسوس نہیں کرتے۔ جو ملک لاکھوں انسانوں کی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اس میں اسلام ہی سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ اس کے احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نظرانداز ہی نہیں‘ علی الاعلان پامال کیا جا رہا ہے اور ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

عالم یہ ہے کہ آج جان‘ مال‘ عزت بلکہ ایمان بھی محفوظ نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اسے توڑنے میں جری ہیں۔ جرائم کی فراوانی ہے اور مظلوم کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ مجرم کھلے بندوں جرم کرکے دندناتے پھرتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان کو روکنے اور قابو کرنے والا نہیں۔ مسلم معاشرے میں خودکشی کا کبھی وجود نہ تھا مگر آج یہ عفریت بھی سر اٹھا رہا ہے اور معاشرے کو تہ و بالا کرنے والے اس ’سونامی‘ سے بچانے کی کوئی فکر اہل اختیار و ثروت کو نہیں۔ انفرادی بگاڑ نے اب اجتماعی بگاڑ کی شکل اختیار کرلی ہے اور اربابِ اقتدار خوابِ غفلت میں محو اور اپنی دل چسپیوں میں گم ہیں‘ بلکہ بگاڑ کی سرپرستی کی خدمت انجام دے رہے ہیں جس کی ایک شرمناک مثال حالیہ بسنت میلہ ہے۔ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں سونامی نے اور خود اپنے ملک میں بارشوں نے تباہی مچائی۔ ۵ فروری کو مظلوم کشمیری بھائیوں سے یک جہتی کا دن منایا گیا مگر عین اسی زمانے میں خالص ہندوانہ انداز میں اور عالمی میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرسایہ قومی غیرت اور ذاتی شرم و حیا کو بالاے طاق رکھ کر بسنت میلہ منایا گیا اور اسے ملک کے ذمہ دار ترین افراد کی سرپرستی حاصل رہی۔

اس بگاڑ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب اقدار اور پیمانے تک بدلنے لگے ہیں اور ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ بناکر اور بڑا مفید اور دل آویز روپ دے کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آزادی، ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کے نام پر اصولوں‘ احکام‘قوانین اور اقدار کو سمجھوتے کی سان پر رکھ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔ یہ اجتماعی فساد اس وقت ہمارا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے۔ اگر اپنے تصورِ دین کی حفاظت اور خیروشر کے معیارات کی تفہیم اور ان کے احیا کے باب میں کچھ بھی غفلت برتی گئی تو کوئی چیز ہمیں تباہی سے نہ بچا سکے گی کہ یہ اللہ کی سنت اور تاریخ کا فیصلہ ہے   ع

چمن کی فکر کر ناداں ’’تباہی‘‘ آنے والی ہے

قیادت اور حکمرانوں کا رویہ

اس صورت حال کو پیدا کرنے‘ بڑھانے کی ذمہ دار اور اصلاح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری قیادت اور حکمران قوتیں ہیں۔ یہ بات اُمت مسلمہ کے لیے بالعموم اور پاکستان کے لیے بالخصوص صادق ہے۔ افراد اُمت کی ذمہ داری اور جواب دہی بھی اپنی جگہ حقیقت ہے اور ہم اسے کسی پہلو سے بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے مگر بگاڑ کو اس انتہا تک پہنچانے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس قیادت کی ہے جس کا فرض اس کو روکنا اور صلاح و خیر کے غلبے اور فروغ کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ ہم ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع تر معنی میں استعمال کر رہے ہیں جس میں زندگی کی ہر سطح کی قیادت شامل ہے لیکن اس وقت بگاڑ کا سب سے بڑا سرچشمہ حکومت اور ملک کا بالادست طبقہ ہے جس نے دستور‘ قانون‘ ضابطہ کار‘ روایات‘ اخلاقی اقدار سب کی پامالی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ اس میں سرفہرست فوجی قیادت‘ معاشی اشرافیہ‘ بیوروکریسی اور نام نہاد آزاد خیال سیاسی قوتوں کا گٹھ جوڑ ہے جو قوت کے ہر منبع پر قابض ہے اور اختیار اور اقتدار کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اجتماعی زندگی کو بگاڑ‘ تصادم‘ ناانصافی اور بے راہ روی کی طرف لے جا رہا ہے۔

ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اس بگاڑ میں مرکزی کردار جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کا ہے جو اصلاح کے بلندبانگ دعوے کرتے ہیں مگر ان کے ساڑھے پانچ سالہ دورِاقتدار میں بحیثیت مجموعی بگاڑ انتہا درجے تک پہنچ گیا ہے اور نظریاتی خلفشار‘ اخلاقی بے راہ روی‘ سماجی بے انصافی‘ معاشی ظلم و استحصال‘ سیاسی جنبہ داری‘ مفاد پرستی اور بے اصولی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ قوم کی ایک بیٹی کی عصمت دری کی جاتی ہے اور کہا جا رہا ہے حکمران مجرموں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین انتظامی افسر ۲۲گریڈ کے رجسٹرار کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا جاتا ہے۔ مرکزی وزرا میں وہ ’پارسا‘ بھی شامل ہیں جن پر نیب میں مقدمے چل رہے ہیں۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے اہم ترین وزیر کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کرتا ہے اور وہ برطرف وزیر‘ وزیراعلیٰ پر بدعنوانی کا الزام لگاتا ہے اور پارٹی کی مرکزی قیادت دونوں کو خاموش رہنے اور فقط سیزفائر کرانے ہی میں عافیت دیکھتی ہے۔ گویا حمام میں سب ننگے ہیں۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ قومی احتسابی ادارے (نیب) کا ایک سینیر ڈائرکٹر (جو ریٹائرڈ فوجی افسر ہے)‘ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اور وہ بھی دو دوسرے ریٹائرڈ فوجیوں ہی کے کروڑوں اور اربوں کے کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پولیس کے افسر اور اہل کار جرم کرتے ہوئے نہ پکڑے جاتے ہوں اور ہزاروں ہیں جو ہر قانون سے بالاتر اور ہر گرفت سے آزاد ہیں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو عذاب بنانے میں مصروف ہیں۔ ملک کی فوج کو اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور فوج اور عوام کے درمیان فاصلے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکمران ہیں کہ اپنے لیے مراعات اور تنخواہوں میں اضافوں کے حصول اور  حفاظت کے نام پر فاقہ کش قوم کے اربوں روپے سے بلٹ پروف مرسیڈیز اور لینڈ کروزر منگوانے اور سرکاری خرچ پر عمرے کرنے میں مصروف ہیں۔

معاشی استحکام کی حقیقت

مبادلۂ خارجہ کے ذخائر میں اضافے کی خبریں سنانے والوں کو ذرہ برابر احساس نہیں کہ عام آدمی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے اور ہمہ پہلو بدعنوانی‘ بددیانتی اور کام چوری نے زندگی کے ہر دائرے کو مسموم کیا ہوا ہے۔ ایک طرف کشکول توڑنے کے دعوے ہیں‘ دوسری طرف بڑے پیمانے پر اس غریب قوم پر قرضوں کا نیا بوجھ لادا جا رہا ہے۔ صرف ان پانچ سالوں میں اربوں ڈالر کے نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ اب تو اسٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ بیرونی قرضے پھر ۳۶ ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ وہی ورلڈ اکانومک فورم جس کے داووس (سوئٹزرلینڈ) کے سالانہ اجلاس کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز اپنی کامیابیوں اور فتوحات کے شادیانے بجانے میں کوئی کسر نہیں  چھوڑتے‘ دیکھیے وہ پاکستان کی حالت کا کیا نقشہ کھنچ رہا ہے۔ ورلڈ اکانومک فورم گذشتہ پانچ چھے سال سے ایک رپورٹ The Global Competetiveness Index شائع کررہا ہے جس میں دنیاکے مختلف ممالک کی تین بنیادوں پر درجہ بندی کی جاتی ہے یعنی Growth Competetiveness Index ‘ Technology Index اور Public Institutions Index۔ اس میں معیشت کی کیفیت‘ اداروں کی حالت‘ بدعنوانی کی صورت حال‘ مسابقت اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی صورت کو سامنے  رکھا جاتا ہے۔ اس ادارے کی تازہ ترین رپورٹ اسی ماہ شائع ہوئی ہے: The Global Competetiveness Report 2004-05 اس کی تیاری میں ۱۰۰ سے زیادہ تحقیقی اداروں نے حصہ لیاہے اور یہ ۱۶۰اشاریوں (indicators) کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے‘ اس رپورٹ میں پاکستان کا مقام دنیا کے ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر ہے یعنی ہم معاشی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جانے والے ۱۴ملکوں میں سے ایک ہیں۔ اس اشاریے میں بھارت کا نمبر ۵۵ پر آتا ہے اور مسلمان ملکوں میں دو ہم سے کم تر اور ۱۱ ہم سے بہتر ہیں۔ جنوب ایشیا میں بھارت اور  سری لنکا دونوں ہم سے نمایاں طور پر آگے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کی فہرست کا مقابلہ جب ۲۰۰۳ء سے کیا جائے تو پاکستان اوپر جانے کی بجاے نیچے چلاگیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ہم ۱۰۱ ملکوں میں ۷۳ ویں نمبر پر تھے اور ۲۰۰۴ء میں ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر آگئے ہیں۔ دعوے ترقی کے ہو رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہم ترقی کی سیڑھی پر اوپر جانے کے بجاے نیچے کی طرف لڑھک رہے ہیں۔

معروف ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے تیار کردہ گوشوارئہ بدعنوانی (کرپشن انڈکس) میں بھی وطن عزیز کی یہی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ۱۳۳ ممالک کے جائزے میں ہمارا شمار ۹۲ نمبر پر تھا اور ۱۰ میں سے ہمیں ۵ئ۲ نمبر حاصل ہوئے تھے۔ ۲۰۰۴ء میں ۱۴۵ ممالک کے جائزے میں گر کر ۱۲۹ کے شمار میں آگیا ہے اور ہمارے نمبر ۱۰میں سے ۱ئ۲ ہوگئے ہیں۔ یہ ہے ہماری کارکردگی کا اصل چہرہ جس پر جنرل پرویز مشرف یہ غلاف چڑھا رہے ہیں کہ اب ملک میں صرف معمولی نوعیت کی (tactical) کرپشن ہے یعنی اعلیٰ سطح پر بڑے پیمانے کی (strategic) کرپشن ختم ہوگئی ہے۔ چوری اور سینہ زوری اگر اس کا نام نہیں تو پھر کیا ہے؟

بگاڑ کے اسباب اور عوامل کا جائزہ لیا جائے تو افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کا     بڑا سبب پاکستان اور مسلم اُمت کی موجودہ قیادتیں ہیں جو ذات اور مفاد کے چکر میں ہیں‘ جو   مدد کو دستور‘ قانون‘ ضابطے اور اخلاق ہر چیز سے بالا رکھتی ہیں‘ جو نہ عوام میں سے ہیں اور نہ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں بلکہ جن کے مفادات اور قوم کے مفادات متصادم ہیں۔ پاکستان میں صاحبانِ اقتدار کا موجودہ سیاسی گٹھ جوڑ دراصل فوجی قیادت‘ بیوروکریسی‘ معاشی اشرافیہ اور    ان سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جو ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنے میں اپنی عافیت دیکھتے  ہیں۔

ہمارا دوسرا چیلنج یہی قیادت ہے۔

امریکا کی عالمی سیاست

تیسرا چیلنج امریکا کی عالمی سیاست ہے جس کا خصوصی نشانہ اسلام‘ اسلامی دنیا اور پاکستان اور چند دوسرے مسلمان ممالک ہیں۔ صدربش نے اپنی صدارت کے پہلے چار سال میں عالمی بساط پر امریکی تسلط کو مستحکم کرنے اور ہر متبادل قوت کو غیرمؤثر بنانے کے لیے اپنا نقشۂ جنگ خاصے تفصیلی انداز میں بنا لیا تھا اور اب دوسرے دور میں اپنی پہلی ہی تقریر اور پھر کانگریس کے سامنے State of the Nation خطاب میں اسے اور بھی نوک پلک سے درست کر کے پیش کردیا ہے۔ ۲۱منٹ کی صدارتی تقریر میں انھوں نے ۴۲ بار liberty (آزادی) اور freedom (آزادی) کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دنیا کے ہر گوشے تک آزادی اور جمہوریت کو مسلط کرنے کے عزائم کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت اس طرح صدر بش نے مستقبل کے نقشۂ جنگ کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ الفاظ پر کیسا ہی ملمع کیوں نہ چڑھایا جائے‘ دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے۔ صدارتی تقریر میں صدر بش نے freedom (آزادی) کو fire (آگ) سے تشبیہ دی ہے: a fire in the mind of men اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’آزادی کی جنگ دنیا کے تاریک ترین گوشوں تک پہنچانا‘‘ اس کا مشن ہے۔ درحقیقت یہ آزادی کی تحریک نہیں‘ آزادی کے نام پر دنیا کو آگ اور جنگ کے شعلوں میں دھکیلنے کا خونی کھیل ہے۔

لندن کے اخبار دی گارڈین کے مضمون نگار ٹرس ٹرام ہنٹ (Tristram Hunt) نے اپنے ایک تازہ مضمون میں صدربش کے ایک مشیر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں جو انھوں نے ایک امریکی صحافی رون سوس کائنڈ (Ron Suskind)سے کہے۔

اب ہم ایک سلطنت ہیں۔ جب ہم کوئی اقدام کرتے ہیں تو ہم اپنے لیے حقائق خود تخلیق کرتے ہیں۔ اور جس وقت آپ اس حقیقت کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں‘ ہم دوبارہ اقدام کرتے ہیں‘ جس سے نئی حقیقتیں تخلیق پاتی ہیں۔ ہم تاریخ ساز ہیں۔ اب آپ کا‘ اور آپ سب کا کام محض یہ رہ جائے گا کہ ہم جو کرتے ہیں‘ اس کو پڑھتے (اور دیکھتے) رہیں۔ (گارڈین‘ ۱۸ فروری ۲۰۰۵ئ)

یہ رعونت دنیا میں آزادی اور جمہوریت کے نام پر نئے استعماری نظام کے قیام کے اصل چہرے سے پردہ اٹھادیتی ہے۔ ایسی ہی رعونت کا اظہار ۱۱؍۹ سے بہت پہلے کولن پاول نے بھی کیا تھا۔ اس وقت وہ پہلی عراق جنگ کے وقت امریکن چیف آف اسٹاف تھے‘ امریکا     میں پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے پاکستان کے نیوکلیر دفاعی حق کا دفاع کرتے ہوئے  کولن پاول سے کہا تھا کہ جنرل صاحب‘ ہمارے پاس تو ایک دو ہی ’فٹ بال‘ ہیں، آپ کے پاس تو ہزاروں بم ہیں تو جنرل کولن پاول نے سختی سے جواب دیا:Madame! We are America (محترمہ! ہم امریکا ہیں۔)

یہ ایک حقیقت ہے کہ ’آزادی‘ کا علم بردار امریکا صرف حکم چلا رہا ہے اور ہمارے حکمران صرف اس کی آوازِ بازگشت بنے ہوئے ہیں۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے جو وعظ دیے جارہے ہیں‘ وہ امریکا کے نئے عالمی نظام میں اس کے حکم کے مطابق اپنے چہرے مہرے کو قابلِ قبول بنانے کی ایک کوشش سے زیادہ نہیں۔ صدربش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ نئی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس‘ ۱۱؍۹ کمیشن کی سرکاری رپورٹ‘ امریکی تھنک ٹینکس کی درجنوں رپورٹیں‘ سی آئی اے کے تھنک ٹینک‘ نیشنل انٹیلی جنس کونسل سے لے کر امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کی رپورٹوں تک کو دیکھ لیجیے‘ سب میں یک زبان ہو کر یہی کہا جا رہا ہے ہمیں مسلمانوں کے ذہن کو بدلنا ہے‘ اصل خطرہ انتہا پسندی (Extremism) بنیاد پرستی (Fundamentalism) اور اس اسلامی اداراتی نظام (Islamist infrastructure)سے ہے جو جہاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ دہشت گردی‘ حتیٰ کہ اسلامی دہشت گردی (Islamist terrorism) تو صرف مظاہر ہیں‘ اصل منبع اسلام اور اس کا تصورِ جہاد ہے جس سے سیاسی اسلام (Political Islam) رونما ہوتا ہے اور جس کا ہدف سیکولرزم کے مقابلے میں اجتماعی زندگی اور ریاست کے نظام کو دین  اور مذہب کی روشنی میں تعمیر کرنا ہے۔

ان تمام پالیسی ساز اداروں اور افراد کے تجزیے کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں امریکا سے جو نفرت ہے‘ اس کا منبع اسلام اور اس کا انقلابی تصورِحیات ہے جو ریاست اور مذہب کی دوئی کے مقابلے میں ان کی ہم آہنگی اور وحدت سے عبارت ہے۔ صدربش نے ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد صلیبی جنگوں (کروسیڈ) کی بات کر کے مسلمانوں کو چونکا دیا تھا مگر پھرفوراً ہی وہ واشنگٹن کے اسلامک سنٹرگئے اور پہلی بات جو کی وہ یہی اعتدال پسند(moderate) اسلام کی تھی۔ اس کے بعد سے جتنی بھی اہم رپورٹیں امریکی مفکرین یا اداروں کی طرف سے آرہی ہیں‘ ان میں اعتدال پسند اور انتہا پسند (extremist) اسلام کا فرق بیان کیا جا رہا ہے اور حسبِ موقع اسلامی دنیا میں سیکولرزم کے فروغ کی بات بھی کی جارہی ہے۔ ۱۱؍۹ کمیشن امریکا کا سب سے اعلیٰ بااختیار کمیشن تھاجس نے پاکستان اور جنرل پرویز مشرف کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کو امریکا کے مفاد میں سب سے اہم تصور قرار دیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ کے صفحہ ۳۶۹ پر    یہ سفارش کی ہے جسے امریکی صدر نے وائٹ ہائوس سے جاری ہونے والے حقائق نامے    (۳۰ جولائی ۲۰۰۴ئ) میں امریکی پالیسی قرار دیا ہے:

اگر پرویز مشرف‘ پاکستان اور اپنی بقا کی جنگ میں روشن خیال اعتدال پسندی کے عزم پر ڈٹے رہتے ہیں تو پھر امریکا کو مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسے پاکستان کے مستقبل کے حوالوں سے طویل المیعاد تعلق استوار کرنا ہوگا۔ امریکا کو اپنی موجودہ امداد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ‘ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں حکومت پاکستان کی مزید مدد کرنا ہوگی۔ یہ مدد ایک جامع کوشش کی صورت میں ہونی چاہیے جس کادائرہ فوجی امداد سے لے کر بہتر تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی پر محیط ہونا چاہیے اور یہ تعاون اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک پاکستانی قیادت مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہتی ہے۔ (امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کا خبرونظر‘ اگست ۲۰۰۴ء شمارہ۲)

اس رپورٹ میں پورے عالم اسلام میں ’امریکا اور ہمارے مسلمان دوستوں‘ کے بارے میں سفارش کی گئی ہے کہ:

امریکا اور اس کے دوستوں کو ایک اہم فوقیت حاصل ہے کہ ہم ان کو ایسا تصور دے سکتے ہیں جس سے ان کے بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اگر ہم عرب ممالک اور عالم اسلام کے صاحبِ فکر لیڈروں کے نظریات پر توجہ دیں تو اعتدال پر مبنی اتفاق راے حاصل ہوسکتا ہے۔ (۱۱؍۹ رپورٹ‘باب ۱۲‘ ص ۳۷۶)

صدر بش نے ستمبر ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ میں کیے جانے والے اپنے خطاب میں فرمایا کہ:

کئی عشروں سے دنیا میں آزادی‘ امن و سلامتی اور ترقی کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں اب اس دائرے کو مزید بڑھانے کا تاریخی موقع ملا ہے تاکہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا انصاف اور عزت و وقار کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکے۔

انھوں نے مزید فرمایا کہ :

ہمیں مشرق وسطیٰ کے اصلاح پسندوں کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ وہ آزادی اور پرامن جمہوری معاشروں کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ تقریر امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کے خبرونظر (اکتوبر ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ) نے صدربش‘ جنرل پرویز مشرف اور صدر حامد کرزئی کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔

جنوبی ایشیائی امور کے لیے امریکا کی نائب وزیر خارجہ کرسٹینا روکا نے ۲۲ جون ۲۰۰۴ء کو ایوانِ نمایندگان کی بین الاقوامی تعلقات کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں فرمایا:

پاکستان کو ایک جدید اور اعتدال پسند اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے اس کی مدد جاری رکھی جائے… پاکستان میں ہماری تمام پالیسیوں اور پروگراموں کا مقصد یہ ہے کہ اسے ایک اعتدال پسند اور خوش حال ملک بنانے میں مدد دی جائے۔ ہم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون اور فروغ جمہوریت اور ترقی و خوش حالی کے اپنے پروگراموں کے ذریعے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ایسے پروگرام ہیں جو انتہا پسندی اور عدمِ استحکام کی روک تھام میں مدد دیتے ہیں… ہم حکومت پاکستان کی تعلیمی اصلاحات کی کوششوں میں بھی نمایاں مدد دے رہے ہیں۔ ان میں مدارس کی اصلاح شامل ہے… ہمارے پروگراموں سے سیاسی جماعتوں کی اصلاح میں بھی مدد ملے گی۔ ہم اساتذہ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کے لیڈروں‘ نوجوانوں اور متوسط طبقے کے ان پاکستانیوں پر بھی توجہ دے رہے ہیں جن کی طرف سے جمہوری اقدار کی مزاحمت ہوسکتی ہے۔ (خبرونظر‘ جولائی ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ)

اصل ھدف: اسلام

’روشن خیال اعتدال پسندی‘ پر جو وعظ ہم گذشتہ دو سال سے سن رہے ہیں‘ ان کا شجرئہ نسب صدر بش اور ان کی انتظامیہ اور امریکی تھنک ٹینکس کے اسی تجزیے اور اصلاح کے نسخے سے مل جاتا ہے۔ اس کا ہدف اسلام کا تصورِ حیات‘ دین و دنیا کی یک رندگی کا نظریہ‘ تصورِ جہاد اور امربالمعروف ونہی عن المنکر اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا کردار ہے۔ امریکا کی نارتھ ایسٹرن یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایم شاہد عالم کی کتاب Is There an Islamic Problem? اسی ماہ شائع ہوئی ہے۔ اس میں انھوں نے بڑی دیانت اور جرأت کے ساتھ امریکا کے اصل عزائم کو بیان کیا ہے اور نہایت مدلل انداز میں ان کا تعاقب کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی قیادت کے اصل ہدف کو بہت صاف لفظوں میں بیان کیا ہے:

مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا کے خلاف امریکی اور اسرائیلی عزائم اب اس سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر ہیں جتنے وہ ۱۱؍۹ سے پہلے تھے۔ اس وقت وہ اسلامی دنیا پر گماشتوں کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اب ان کے عزائم اس سے آگے ہیں۔ وہ اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسلامی دنیا‘ بلکہ خود اسلام‘ امریکی شرائط پر اپنی اصلاح کرے۔ (America's New Civilising Mission‘ڈان‘ ۱۲ فروری ۲۰۰۵ئ)

یہ کہ اسلام ہی اصل ہدف ہے اس کا اندازہ اس امر سے کیجیے کہ امریکا صرف دینی مدارس کے نظام کی تبدیلی ہی کے لیے کوشاں نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کو سیکولر بنانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۲ء میں جو تعلیمی اصلاحات شروع کیں اور جن کے تحت نصاب کی تبدیلی‘ دینی مدارس کا رجسٹریشن اور آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ آرڈی ننس ۲۰۰۲ء وغیرہ کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ وہ سب اسی امریکی منصوبے کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں اور جنھیں وہاں کے قانونِ اطلاعات کے تحت حاصل کیا گیا ہے‘ ان میں ۲۰۰۲ء کا ایک پالیسی پیپر Strategy for Eliminating the Threat from Jehadist Networks of Al-Qaida: Status and Prospects سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت جو پالیسی پاکستان میں فروغ دے رہی ہے وہ اسی نسخے کا استعمال ہے۔

ایک ایسا سیکولر نظامِ تعلیم استوار کرنا جو پاکستان کے دیہی علاقوں کے لوگوں کے بنیاد پرست مدرسوں پر مکمل انحصار کو ختم کر دے۔

تعلیمی ’’اصلاحات‘‘

امریکی حکومت آٹھ مدات کے تحت اس مقصد کے لیے پاکستان کی مدد کر رہی ہے جس میں نصاب کی تبدیلی‘ اساتذہ کی تربیت‘ اساتذہ اور طلبہ کے تبادلے‘ تعلیمی وظائف شامل ہیں۔ لیکن چونکہ امریکا کو جنرل پرویز مشرف اور پاکستانی وزراے تعلیم کے سارے تعاون کے   باوجود پورا بھروسا نہیں‘ اس لیے اب امریکی کانگریس میں باقاعدہ ایک بل پیش کیا گیا ہے  (HR 4818) جس کی رو سے امریکا تعلیم کی اصلاح کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کی جو مالی مدد دے رہا ہے وہ اس بات سے مشروط ہوگی کہ انھیں پاکستان کی ’جنوری ۲۰۰۲ئ‘ والی تعلیمی اصلاحات کے نفاذ کے لیے استعمال کیا جائے اور اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ۹۰ دن کے اندر سیکرٹری آف اسٹیٹ ایوان نمایندگان کو مطلع کرے گا کہ یہ رقم صرف ان اصلاحات کے لیے استعمال ہوئی ہے جو امریکا کا ہدف ہے۔ ان اصلاحات کی تعریف اس قانون میں یوں کی گئی ہے:

تعلیمی اصلاحات میں پاکستان کے سیکولر نظامِ تعلیم کی توسیع اور بہتری‘ اور پاکستان کے نجی دینی مدارس کے لیے ایک معتدل نصاب تیار کرنے اور نافذ کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ (دی نیوز‘ ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پاکستان میں امریکا کی سابق سفیر نینسی پاول نے اس سلسلے میں بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کے حکم نامے پر عمل کرانے کے لیے یو ایس ایڈ نے ۱۳ اگست ۲۰۰۳ء کو آغا خان یونی ورسٹی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق ۴۵ ملین ڈالر کی مدد کا وعدہ کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر دستخط تو امریکی سفیر اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندہ شمس لاکھا صاحب نے کیے مگر اس تقریب میں اصل گواہ اس وقت کی پاکستانی وزیرتعلیم محترمہ زبیدہ جلال صاحبہ تھیں۔ امریکی سفیر نے یہ بھی کہا کہ آغا خان بورڈ کی مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو جائے۔ واضح رہے کہ عراق پر امریکی قبضے کے فوراً بعد‘ پہلے سے تیار نصاب کے مطابق درسی کتب وہاں ۱۰ اپریل ۲۰۰۴ء کو متعارف کرا دی گئی تھیں۔ یہ کتب جون ۲۰۰۲ء میں حملے سے ایک سال پہلے ہی تیار کر لی گئی تھیں۔

صدر بش نے پاکستان کے بارے میں اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں صاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان میں نصاب کی تبدیلی میرے مشورے پر امریکی امداد کے تحت کی جارہی ہے۔ اس بیان پر راقم نے سینیٹ میں سوال بھی اٹھایا جس کے جواب میں وزیرتعلیم نے فرمایا کہ یہ سب پروپیگنڈا ہے اور ہمیں کوئی dictate (مجبور) نہیں کر رہا۔ حالانکہ دو اور دو چار کی طرح یہ حقیقت واضح ہے کہ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘، ’بنیاد پرستی کی مخالفت‘، ’انتہا پسندی سے برأت‘ کی ساری باتیں امریکا کے مطالبے پر کی جارہی ہیں‘ بالکل اسی طرح جس طرح ۱۳ستمبر کو کولن پاول کے ایک ٹیلی فون پر افغان پالیسی کا یوٹرن لیا گیا تھا اور جس طرح اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہماری فوجی قیادت امریکا کی فوجی قیادت کے ہر اشارے پر تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔

ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ۱۱؍۹ کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جن   محاذوں پر پسپائی اختیار کی ہے‘ ان میں سے ہر محاذ ملک و ملّت کی سلامتی کے لیے بڑا اہم تھا یعنی افغانستان اور عالم اسلام کے عوام سے دوری بلکہ بے وفائی‘ امریکی استعمار کا آلہ کار بننا اور اس کی جنگی کارروائیوں کے لیے اپنا کندھا فراہم کرنا‘ مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے پسپائی اور جہاد کشمیر کو بھارت اور امریکا کے دبائو میں پہلے سرحدی دراندازی اور پھر دہشت گردی تک سے موسوم کرنا‘ نیوکلیر محاذ پر کمزوری اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی افسوس ناک تذلیل اور امریکا کے ناجائز مطالبات کے آگے ہتھیار ڈالنا‘ تعلیم‘ میڈیا‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے ارکان تک کی تربیت کے لیے امریکی پروگراموں کو اختیار کرنا___ یہ سب محاذ پاکستان کی سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ‘ تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اہم ہیں۔ ان کے بارے میں امریکا کے زیراثر پالیسی کی تبدیلی جس کا کریڈٹ کولن پاول اور اس سے زیادہ کونڈولیزا رائس نے اپنی ترغیب اور دبائو (carrot and stick) پالیسی٭ کی کامیابی کے عنوان سے لیا ہے۔

اسلام پر بے جا تنقید

ان میں سب سے زیادہ تشویش ناک قلابازی وہ ہے جو اسلام اور نظریہ پاکستان کے سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے کھائی ہے۔ اس کا حسین عنوان ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ہے حالانکہ اس میں ساری زبان‘ استعارے‘ محاورے‘ موضوع اور مدعا وہی ہے جو صدر بش اور امریکی کارپرداز ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ انتہاپسندی اور بنیاد پرستی سے توبہ کرتے ہیں‘ کبھی دہشت گردی پر کان پکڑتے ہیں‘ کبھی جدیدیت‘ جدید کاری اور اعتدال پسندی کی بات کرتے ہیں اور اسی خوش گفتاری میں کبھی’مُلّا‘ پر برس پڑتے ہیں اور داڑھی اور حجاب کو بھی رگید ڈالتے ہیں___ اور پھر ہمت کر کے سیکولرزم کی بات بھی کرڈالتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرزم میں گویا کوئی تضاد نہیں ہے اور ان کو متصادم قرار دینا گویا مُلّا کی سازش ہے جس سے اسلام کو آزاد کرانے کے لیے وہ نہ صرف سرگرمِ عمل ہیں بلکہ پوری او آئی سی (OIC) کو بھی متحرک کر دینا چاہتے ہیں۔ جنرل صاحب کے ان ارشادات عالیہ پر نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ مُلّا کے اسلام‘ بش کے اسلام اور مشرف کے اسلام کے خدوخال واضح ہوسکیں۔

۲۴ ستمبر ۲۰۰۳ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب کہتے ہیں:

ہمارا عقیدہ حرکی ہے جو اجتہاد(یا مشورے کے ذریعے تعبیر) کے عمل کے ذریعے مسلسل تجدید اور اطلاق کو تقویت دیتا ہے۔ اسلامی وژن تاریخ کے کسی ایک عہد کی گرفت میں نہیں ہے۔ یہ معتدل اور مستقبل بین ہے۔ اسلام کو چند انتہاپسندوں کی تنگ نظری کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔

جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ دانستہ یا نادانستہ (غالباً نادانستہ) وہ اس جملے میں ایک ایسی بات کہہ گئے ہیں جو اسلام کی پوری تعلیم پر خط تنسیخ پھیر دیتی ہے۔ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ ہمارا معیاری دور ہے جو ہمیشہ کے لیے نمونہ‘ معیار‘ دلیل اور حجت ہے۔ انھوں نے trapped in any one period of historyکے الفاظ استعمال کر کے عمومی بیان  (sweeping remark) کے ذریعے اس پر بھی ہاتھ صاف کر دیا ہے۔ بلاشبہہ اسلام موڈرن بھی ہے اور مستقبل بین بھی‘ لیکن مسلمانوں کے لیے ان کے ایمان کے تقاضے کے طور پر ان کا اصل حوالہ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہؓ ہے اور سنت رسولؐ اور سنتِ خلفاے راشدہ اسلام کے اولیں‘ مستقل اور ناقابلِ تغیر مآخذہیں جنھیں ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو OIC - Challenges and Response کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب مغرب کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر وہی زبان استعمال کرنے لگے جو صدر بش اور اسلام کے ناقدین مغربی میڈیا میں استعمال کر رہے ہیں یعنی: اسلام کا تعلق بنیاد پرستی کے ساتھ‘ بنیاد پرستی کا انتہا پسندی کے ساتھ اور انتہا پسندی کا دہشت گردی کے ساتھ۔

بجاے اس کے کہ وہ علمی انداز میں‘ ان میں سے ہر اصطلاح اور اس کے مالہٗ اور ماعلیہ کا تجزیہ کریں‘ ایک ہی سانس میں سب کا انکار کرجاتے ہیں اور اسلام کے دفاع کے نام پر وہی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا راگ الاپنے لگتے ہیں جس کا مطالبہ صدر بش اور کونڈولیزا رائس کر رہے ہیں۔

جدیدیت اور سیکولرزم کا وعظ

یہاں تک انسان خوش فہمی کا سہارا لے سکتا ہے لیکن جب آگے بڑھ کر وہ یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرزم میں کوئی تصادم نہیں تو گویا بلی تھیلے سے باہر آگئی اور اسی طرح بش کی زبان اور مشرف کے الفاظ میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ فرماتے ہیں:

ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے‘ وہ ایک نشاتِ ثانیہ ہے۔ ہمیں اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ایک مصالحانہ طرزِعمل‘ پُرامن نقطۂ نظر تاکہ ہمارے اوپر سے یہ الزام دھل جائے کہ اسلام جنگ جُو مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم کا مخالف ہے۔

اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ جنرل صاحب نے سیکولرزم کا ذکر شاید جوشِ خطابت میں اس کے اصل مفہوم کو سمجھے بغیر‘ صرف مغرب کے ناقدین کو مطمئن کرنے کے لیے کردیا ہے تو وہ اس کی گنجایش بھی نہیں چھوڑتے۔ یورپ میں Renaissance (نشاتِ ثانیہ) ایک متعین فکری‘ تہذیبی اور سیاسی انقلاب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو خدا‘ مذہب اور روایت سے بغاوت اور اجتماعی زندگی کے لیے وحی اور دینی اقدار کی جگہ خالص عقل اوردنیاوی علم کی بنیاد پر متبادل بنیادوں کے تلاش کی کوشش تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ سیکولرزم کا یہ حوالہ بس مغرب کی زبان بند کرنے کے لیے ہے۔ وہ مسلسل اس تصور کی تبلیغ فرما رہے ہیں کہ سیکولرزم اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں جو مضمون ان کے نام سے شائع ہوا ہے اور جسے تمام پاکستانی اور اخبارات نے شائع کیا‘ اس میں بھی وہ کھل کر لکھتے ہیں کہ:

میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہتا ہوں: نشاتِ ثانیہ کا وقت آگیا ہے۔ آگے کا راستہ روشن خیالی کا راستہ ہے۔ ہمیں غربت کے خاتمے اور تعلیم‘ حفظانِ صحت اور عدلِ اجتماعی کے خاتمے کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی پر توجہات مرکوز کرنی چاہییں۔ اگر ہماری سمت یہ ہو تو یہ تصادم کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ایک مصالحانہ روش اختیار کرنا ہوگی تاکہ اس عام خیال کا مقابلہ کیا جاسکے کہ اسلام شدت پسندی کا مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ (واشگٹن پوسٹ ۱-۲ جون ۲۰۰۴ئ)

ورلڈ اکانومک فورم کے داووس میں منعقد ہونے والے سیمی نار (۲۳ جنوری ۲۰۰۴ئ) میں جنرل صاحب نے پھر اسی لَے کو آگے بڑھایا ہے۔جناب کے ارشادات عالیہ کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمایئے۔ پہلے مغرب کی پوزیشن کو یوں واضح کیا ہے:

اسلام اور مسلمانوں کے بارے میںمغرب کا تصور کیا ہے؟ پہلا تصور یہ ہے کہ اسلام انتہا پسندی‘ دہشت گردی‘ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا مذہب ہے۔ دوسرا تصور یہ ہے کہ اسلام جمہوریت‘ جدیدیت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ اور تیسرا یہ ہے کہ مسلمان عالمی برادری میں جذب ہونے سے انکار کرتے ہیں۔

پھر اپنے زعم میں ان کا جواب دیا ہے کہ اسلام جمہوریت‘ سیکولرزم اور موڈرنزم کا مخالف نہیں۔ جمہوریت کی بابت تو بات زیادہ غلط نہیں کہی ہے (اگرچہ وہ یہ بھول گئے کہ خود وردی زیب تن رکھ کر اور صدارت اور چیف آف اسٹاف کے عہدے اپنی ذات میں جمع کر کے وہ کون سی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں)۔ موڈرنزم اور سیکولرزم پر ان کے ارشادات ملاحظہ ہوں:

جدیدیت کی بات ہو تو اسلام زمانے اور ماحول کے مطابق فکر کا مسلسل جائزہ لینے کے عمل پر یقین رکھتا ہے۔ اسلام جدید ہے‘ یہ زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ کبھی بھی ماضی سے پیوست نہیں رہا۔ اور تیسرے یہ کہ جہاں تک سیکولرزم کا تعلق ہے۔ اسلام اقلیتوں کے مساوی حقوق میں یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ تفصیلات میں جائے بغیر‘ پاکستان جیسے ملک میں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام کے ساتھ معروف ہے‘ لازماً یہ بات مضمر ہے کہ ہمیں اپنے تصورات میں جمہوری ہونا‘ سیکولر ہونا اور جدید ہونا ہے۔

اس کے جواب میں اس سے زیادہ کیا کہاجائے کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

اور موڈرنزم اور سیکولرزم کی جو تعریف جنرل صاحب نے فرمائی ہے۔اس کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ عالمی خاندان میں فٹ نہ ہونے کی بات کے جواب میں کٹّر(bigoted) مسلمانوں پر ہاتھ صاف کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کچھ سرپھرے ہیں جوساتھ نہیں چل پاتے‘ نہ یہ جدید علم حاصل کرتے ہیں‘ نہ انگریزی زبان سیکھتے ہیں اور موسیقی سے بھی دل نہیں بہلاتے‘ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں‘ ان کی فکر نہ کرو۔

سیکولرزم کی حقیقت

اب جنرل صاحب کو یہ کون سمجھائے کہ جس طرح Renaissance(نشاتِ ثانیہ)کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے اسی طرح Enlightenment (روشن خیالی)بھی مغرب کی تہذیبی و فکری تاریخ کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کے معنی ہی یہ ہیں کہ وحی کے بجاے عقل کی بنیاد پر تمام معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔ آخرت اور روحانی پہلو غیرمتعلق ہیں اور اصل میدانِ کار صرف یہ دنیا اور اس کے امور ہیں اور سیکولرزم اس تثلیث (نشاتِ ثانیہ‘ روشن خیالی اور سیکولرزم) کا لازمی جزو ہے‘ اور سیکولرزم ضد ہے زندگی کے اس تصور کی جو دنیا کے معاملات کو دین اور وحی کے ذریعے حاصل شدہ علم و اقدار کی بنیاد پر مرتب کرنے کا داعی ہے۔ یہ کہنا کہ سیکولرزم کا تعلق محض مذہبی رواداری یا اقلیتوں سے خوش معاملگی سے ہے ‘علم سیاست اور تاریخ دونوں سے لاعلمی کا غماز ہے۔

Vergilius Ferm کی مرتب کردہ An Encyclopaedia of Relegions (مطبوعہ: دی فلاسوفیکل لائبریری‘ نیویارک) میںThe Enlightenment کی وضاحت یوں کی گئی ہے: ’’روشن خیالی اس تحریک کا نام ہے جو اٹھارویں صدی کے عمومی ماحول کو بیان کرتی  ہے‘‘۔

اسی انسائی کلوپیڈیا میں Renaissanceکی تشریح یوں کی گئی ہے:

علمی اور جمالیاتی بیداری کی لہر‘ جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۱۴ویں صدی میں اس کا آغاز ہوا۔ یہ اچھا ہو یا برا‘ نشاتِ ثانیہ میں ایک انقلاب کی خاصیت تھی‘ اس کا کلیدی نکتہ سیکولر انسانیت دوستی تھا جس میں انسانی اور دنیاوی اقدار کو تسلیم کیا گیا تھا بغیر کسی دین یا کلیسائی جواز کے۔ (ص ۶۵۵-۶۵۶)

سیکولرزم کا مفہوم بھی اسی انسائی کلوپیڈیا میں یوں بیان کیا گیا ہے:

سیکولرزم افادی ‘ عمرانی اخلاقیات کی ایک مخصوص شکل (جی جے ہولی اوک: ۱۸۱۷ئ- ۱۹۰۶ء نے اس کو پیش کیا)‘ جو مذہب کے کسی حوالے کے بغیر اور صرف انسانی عقل‘ سائنس اور نظمِ اجتماعی کے ذریعے انسان کی بہتری چاہتا ہے۔ (ص ۷۰۰)

چونکہ سیکولرزم ان تمام اصطلاحات میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس کے مفہوم کو بالکل محکم کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مزید حوالے دے دیے جائیں۔

Victor Hictz جو Havaford College پنسلوانیا امریکا کا پروفیسر ہے‘ سوشل سائنسز انسائی کلوپیڈیا میں اپنے مضمون میں لکھتا ہے:

سیکولر بنانے کا مطلب ہے کہ معاشرے کی اخلاقی زندگی سے مذہبی عقائد اور رسومات اوراجتماعیت کے لیے احساس کو ختم کر دیا جائے۔ ایک سیکولر سوسائٹی میں روز مرہ کے امور کسی الہامی مداخلت کے بغیر انجام دیے جاتے ہیں۔ دراصل یہ روشن خیالی کا فلسفہ تھا جس نے سیکولر فکر کو اصل طاقت فراہم کی۔ اس نظریے کا دعویٰ ہے کہ معاشرے کو ان اخلاقی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے جو انسان کی اجتماعی زندگی کے آفاقی نوعیت کے بارے میں صرف عقلی بنیادوں پر حاصل کیے جائیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نظم اجتماعی کے عقلی اصولوں کو عموماً عقیدے پر مبنی مذہبی روایات کی ضد کے طور پر پیش کیا گیا۔

The Oxford Encyclopaedia of Modern Islamic Worldکی جلد چہارم میں چارلس ڈی اسمتھ اپنے مقالے میں سیکولرزم کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

سیکولر کی اصطلاح کا مطلب ہے کہ وہ جو مذہبی نہیں ہے۔ یہ لاطینی لفظ sacculum سے نکلا ہے جس کا ابتدائی مطلب وقت کے حوالے سے عہد یا نسل ہے۔ بعد میں اس کی شناخت وہ تمام معاملات ہو گئے جن کا کوئی تعلق جنت کے حصول سے نہ ہو‘ یعنی اس دنیا کے معاملات سے وابستہ ہوگیا۔

سیکولرزم یا لادینی عمل یورپ کے تاریخی تجربے پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب تھا زندگی اور فکر کے تمام پہلوئوں کا مذہب سے کسی رشتے یا کلیسائی ہدایت سے بتدریج علیحدگی۔

اسلام اور سیکولرزم کا تضاد

ہم بالکل صاف لفظوں میں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک دنیاوی امور اور مسائل کا تعلق ہے‘انسانی حقوق‘ آزادی‘ انصاف‘ تعلیم‘ صحت اور معاشی ترقی اور خوش حالی کا حصول‘ یہ سب اسلام کی نگاہ میں مطلوب ہی نہیں اس کے نظامِ حیات کا لازمی حصہ ہیں۔ اسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری‘ اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ اور تہذیب‘ سیاست اور معیشت کے دائروں میں مختلف مذاہب‘ ثقافتوں اور مکاتبِ فکروخیال کا وجود (co-existence)  اسلام کے اجتماعی نظام کا خاصہ ہیں لیکن اسلام اور سیکولرزم کا فرق___اور بڑا بنیادی اور جوہری فرق___ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے تمام معاملات کو عقل کے ساتھ وحی الٰہی کی بالا اتھارٹی کے تابع کرتا ہے اور دنیا میں حسنات کے حصول کو آخرت میں حسنات کے حصول سے مربوط کرتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام پوری انسانی زندگی کو دین کی فراہم کردہ ہدایت کی بنا پر حق وا نصاف کے ساتھ مرتب و منظم کرتا ہے اور اس طرح وہ تصورِ حیات جو صرف اس دنیا کی فلاح کا متلاشی ہو اور صرف عقل پر بھروسا کرے‘ اسے اسلام رد کردیتا ہے اور اس کی جگہ زندگی کا وہ تصور دیتا ہے جس میں دنیا کی تعمیروترقی کا سامان آخرت پر نگاہ رکھ کر اور اس کی کامیابی کو اصل منزل قرار دے کر نیز اللہ اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی رہنمائی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یہ سیکولرزم کی ضد ہے اور اس نظام میں اس سیکولرزم کی کوئی گنجایش نہیں جو مغرب کے نشاتِ ثانیہ اور روشن خیالی کے جلو میں رونما ہوا اور جس نے دنیا کو جنگ و جدال‘ ظلم و استحصال اور سماجی بے راہ روی اور انتشار کی آماج گاہ بنا دیا۔

محمدؐ عربی کا اسلام

اسلام نے زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا اور دین اور دنیا کو دو الگ الگ خانے بنانے کو وہ جاہلیت اور شیطان کی پیروی قرار دیتا ہے اور ایمان لانے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائیں۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرہ ۲:۲۰۸)

اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

اسلام کی نگاہ میں صرف دنیا طلبی یا دنیا اور عقبٰی دونوں کی یکساں طلب زندگی کے دو مختلف نظریات ہیں جن کا مقصد‘ مزاج اور نتائج جدا جدا ہیں۔ صرف دنیاطلبی‘ سیکولرزم کا مقصود ہے اور اسلام دنیا اور آخرت دونوں کی بیک وقت فکر کا نام ہے۔ قرآن پاک میں ان دونوں نقطہ ہاے نظر کو تین متصل آیات میں بڑے جامع انداز میں بیان کر دیا گیا ہے حالانکہ یہاں اول الذکر خداکے منکر نہیں بلکہ اس کے ماننے والے ہیں البتہ وہ دنیا کے حسنات کو آخرت سے مربوط نہیں کرتے۔ اس میں یہ رمز بھی پوشیدہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سیکولرزم میں مذہب کی نفی نہیں بلکہ بس اسے ذاتی معاملہ قرار دیا گیا ہے‘ ان کا جواب بھی اسی میں آگیا:

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍo وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ o اُولٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْاط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (البقرہ ۲:۲۰۰-۲۰۲)

(مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) ان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی‘ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

اسلام تو نام ہی اس دین اور مسلک کا ہے جس میں انسان پوری زندگی کو اللہ کی اطاعت کے دائرے میں لے آئے اور صرف اسی طریقے کو اللہ نے پسندیدہ قرار دیا ہے۔

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

اور

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)

اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

اسلام کی نگاہ میں زندگی کے تمام معاملات کے لیے حَکَم اور قانون ساز اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہی آخری سند ہیں۔ ہر معاملے میں‘ خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے‘ خاندانی تعلقات ہوں یا معاشی امور‘ سیاست ہو یا عدالت‘ ملکی زندگی ہو یا خارجی اور بین الاقوامی مسائل‘ حلال و حرام کا تعلق انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں سے ہے اور ان حدود کا تعین کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسولؐ کو ہے۔ ایمان کے معنی اس اختیار کو اپنے رب کو سونپنا ہے اور جس نے اس نکتے کو نہیں سمجھا‘ اسے اسلام کی ہوا تک نہیں لگی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنے ہوائے نفس کو میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع کرلے۔ پھر بندے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)

کہو‘ میری نماز ‘میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔

اس دین کا مقصد اگر ایک طرف رب کی بندگی اور اس کی رضا کے حصول کو ہر چیز پر مقدم رکھنا ہے تو دوسری طرف انسانوں کے درمیان انصاف اور عدل کا قیام اور زندگی کو حسنات اور خیر سے مالا مال کرنا ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵)

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا‘اور ان کے ساتھ کتاب (قانونِ حیات) اور میزان (عدل) نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

ایمان اور تقویٰ کا تعلق صرف رب سے قربت اور روح کی بالیدگی ہی سے نہیں دنیا کی خوش حالی سے بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ  (الاعراف ۷:۹۶)

اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

اسلام پوری دنیا کو اور اس کے تمام امکانات کو انسان کے لیے مسخر کرتا ہے اور یہی معنی ہیں انسان کی خلافت کے‘ لیکن ساتھ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں اس گھوڑے کی سی ہے جو کھونٹے سے بندھا ہوا ہے اور اس کی آزادی کی حد وہ ہے جو اس کی رسی متعین کرتی ہے جس سے وہ کھونٹے سے بندھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان آزاد ضرور ہے مگر اس کی آزادی ان حدود کی پابند ہوجائے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر فرمائی ہیں۔ کافراور مومن میں یہی فرق ہے۔ اسلام نہ مُلّا کا اسلام ہے اور نہ اسے کسی بش اور کسی مشرف کی خواہشات کے تابع کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کا نام ہے اور بات وہی معتبر ہے جس کی سند اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہو۔ اہلِ ایمان اور اہلِ رحمت کی تعریف ہی قرآن یہ کرتا ہے:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَـانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۵۷-۱۵۸)

(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘ اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتاہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اے محمدؐ، کہو کہ ’’اے انسانو‘ میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے: پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے‘ اور پیروی اختیار کرو اس کی‘ امید ہے کہ تم راہِ راست پالوگے۔

اس راستے کو اختیار کرنے کے بعد انسان اپنی آزادی کو اللہ کی مرضی اور اس کے حکم کے تابع کر دیتا ہے اور اسی کا نام اسلام ہے۔

فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (النساء ۴:۶۵)

نہیں‘ اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں‘ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں‘ بلکہ سربسرتسلیم خم کرلیں۔

اسلام کی روح اور مسلمان کا شعار یہ ہے کہ جو اللہ کا رسول ؐ حکم دے اسے تسلیم کرلیں اور جس سے وہ روک دے اس سے رک جائیں۔ یہی شان تقویٰ ہے‘ فرمایا:

وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (الحشر ۵۹:۷)

جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جائو۔ اللہ سے ڈرو‘ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

اسلام: پاکستان کا مستقبل

جو بھی اس راستے کو اختیار کرے گا وہ اللہ کا چہیتا ہوگا اور جو اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف کرے گا یا اللہ کی بندگی کرنے والوں کا استخفاف کرے گا‘ اس کا دل نورِایمان کا مسکن نہیں ہو سکتا۔ اسلام نہ مُلّا کا ہے اور نہ مشرف کا‘ اور نہ اسلام کو بش کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تراش خراش کا تختۂ مشق بنایا جا سکتا ہے۔ یہ تو صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کا نام ہے اور قیامت تک انھی نقوش پر چلنے کا نام اسلام ہے۔ یہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور کسی کے کہنے سننے سے اس حقیقت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ مسلمان وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر ڈٹ جاتا ہے اور اس سے سرِموانحراف نہیں کرتا خواہ کوئی اسے انتہاپسندی قرار دے یا بنیاد پرستی۔ مسلمان اُمتِ وسط ہیں اور اسلام عدل اور اعتدال کا راستہ ہے لیکن یہ اعتدال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متعین کردہ ہے‘ کسی دوسرے کی خواہش پر کی جانے والی تراش خراش کا نام اعتدال نہیں‘ تحریف اور ضلالت ہے۔ ان مسلمہ اصولوں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کی یہ جسارت بھی دیکھ لیںکہ وہ احکامِ الٰہی اور اسلام کے شعائر کا ذکر کس طرح کرتے ہیں اور اپنی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی رَو میں وہ کیا کچھ کہنے سے باک نہیں کرتے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان بشمول مسلمان اور دوسرے اعتدال پسندوں کا ملک ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہمیں انتہاپسند ملائوں کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ اسلام کو ان کی ضرورت ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کسی کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ پردہ کرنے‘ یا داڑھیاں رکھنے جیسی خود ساختہ اسلامی اقدار کو مسلط کریں۔ ہاں یہ بھی ہے کہ کسی کو بھی پردہ کرنے      یا داڑھی رکھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ پرویز مشرف نے عہد کیا کہ پاکستان میں    انتہا پسندی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

زباں بگڑی سو بگڑی تھی‘ خبر لیجے دہن بگڑا

مُلّا پرتبّر ا کرنے کی آڑ میں‘ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام اور دینی شعائر کا استخفاف کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اسی ہرزہ سرائی کو ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ سمجھا جائے گا‘ تو ان کی عقل پر فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ انتہاپسندی کی تہمت کی دھول (smoke screen) میں اصول‘ احکام اور شعائر کے بارے میں ایسی لاف زنی کو قبولیت حاصل ہوسکتی ہے تو اسے امریکا کے سینیٹر بیری گولڈ وائر کے یہ الفاظ سنانا شاید بے محل نہ ہو کہ:

I would remind you that extremism in the defence of liberty is no vice. And let me remind you also that moderation in the pursuit of justice is no virtue.

میں آپ کو یاد دلائوں گا کہ آزادی کے دفاع میں انتہا پسندی کوئی برائی نہیں ہے۔ اور یہ بھی آپ کو یاد دلائوں گا کہ عدل کے حصول میں اعتدال پسندی کوئی خوبی نہیں ہے۔

آخر میں ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ اسلام ایک اور صرف ایک ہے اور وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ہے۔ ملّتِ اسلامیۂ پاکستان پوری اُمتِ مسلمہ کی طرح صرف اسی اسلام کو معتبر جانتی ہے۔ کسی مُلّا‘ کسی مشرف اور کسی بش کے قول یا خواہش کو اسلام کی سند حاصل نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں بھی جس نے اسلام کا چہرہ بگاڑنے اور اسے اپنی خواہشات کا تابع بنانے کی کوشش کی‘ وہ ناکام و نامراد ہوا اور آج بھی ہر ایسی کوشش کا مقدرناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم نے جس ذکر کو اتارا ہے‘ ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o الحجر۱۵:۹)‘ اور یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا‘ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

؎  نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

  پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا