مارچ۲۰۰۵

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| مارچ۲۰۰۵ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

اویس حسن‘ کراچی

’’فوجی حکومت اور عوام کے جمہوری حقوق‘‘ (فروری ۲۰۰۵ئ) میں ملک کو درپیش تمام اہم مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے حکمرانوں کو بروقت متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ خود ’’روشن خیالی‘‘اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو تسلیم کریں اور عوام کو متحدہ حزب اختلاف کی قیادت میں آخری چارئہ کار کے طور پر ایک ملک گیر عوامی تحریک پر مجبور نہ کریں۔ ابھی وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھا جائے۔


طلحہ داؤد ‘ لاہور

’’حکمت مودودیؒ ،،(جنوری ۲۰۰۵ئ) کے تحت جہاد پر بہت عمدہ انتخاب تھا جس سے جہاد کا     حقیقی تصور اجاگر ہوکر سامنے آیا اور بہت سی غلط فہمیاں دُور ہوئیں۔


زہیر صالح ‘ پاک پتن

’’دہشت گردی کے بارے میں سچائی کی تلاش‘‘ (فروری ۲۰۰۵ئ) سے معلوم ہوا کہ خود مغرب کے  علمی حلقوں میں بھی امریکا کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اب یہ مسلمانوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سوچ کے حامل طبقے تک رسائی اور اس آواز کو توانا کرنے کی ضرورت ہے۔


عرفان جعفرخان  ‘ لاہور۔ نسیم احمد‘ اسلام آباد

’’برکت کا تصور‘‘ (فروری ۲۰۰۵ئ) سے برکت کا جامع تصور سامنے آیا۔ واقعی اگر ایمان اور تقویٰ کی روش اپنائی جائے اور دین و ایمان کے عملی تقاضے پورے کیے جائیں تو تھوڑا بہت ہوجائے۔ فارسی مقولہ درست یوں ہے: مسلمانی در کتاب و مسلماناں درگور۔


غلام قادر پہوڑ‘ خانیوال

’’اپنی تربیت آپ‘‘ (فروری ۲۰۰۵ئ) ایک فرد کے لیے تربیت کے بہت سے پہلو اجاگر کرتا ہے لیکن اصل ضرورت عمل کی ہے۔


ڈاکٹر طارق محمود مہر ‘ماتلی‘ بدین

بدیع الزمان سعید نورسیؒ کے مریضوں اور مصیبت زدگان کے لیے روحانی مرہم کے ۲۳ نسخے (جنوری۲۰۰۵ئ) مادہ پرستی اور مفاد پرستی کے اس دور میں ہر مسلمان کی عمومی اور طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں‘ ہسپتالوں اور شفاخانوں کے لوگوں کی خصوصی ضرورت ہیں۔ یہ نسخے جہاں ہر انسان (جو کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے) کے لیے علاج ہیں وہاںمعالجوں کے لیے مختصر مگر جامع ریفریشر کورس بھی ہیں۔


سید وصی مظہرندوی ‘ کینیڈا

الحمدللہ ’’اشارات‘‘ کا معیار مولانا مودودیؒ کے رسالے کے شایانِ شان ہے بلکہ زورِقلم‘ تجزیہ اور استدلال تو خود مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔

مغربی تہذیب کوئی نئی فکر و فلسفہ پیش کرنے سے تو اب قاصر ہے‘ تاہم اپنی بداعمالیوں کے جواز تلاش کرنے میں اب بھی خاصی چست و چالاک ہے۔ اسی سلسلے میں آج کل یہاں پہلے   ہم جنس پرستی کو دو بنیادوں پر سندِجواز دی گئی۔ ایک ’’فرد‘‘ کی آزادی کی بنیاد پر‘ اور دوسرے اس رجحان کو جینیاتی تقاضا قرار دے کر۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں بنیادیں نہایت کمزور ہیں۔ مگر یہاںخالص علمی اور عقلی انداز میں کوئی ان پر تنقید کا حق ادا کرنے والا نظر نہیں آتا۔

یہاں کے ماحول میںکام کرنے والے تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اس لعنت کے خلاف ہتھیار فراہم کرنا آپ جیسے عالمِ اسلام کے فکری رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہاں تو مذہب اور قانون دونوں نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ چرچ میں ہم جنس جوڑوں کی شادیاں ہو رہی ہیں۔ اعلیٰ ترین عدالتوں نے اس رجحان کو فرد کی آزادی کے نام پر جائز قرار دے دیا ہے اور اب حکمران پارٹی نے پارلیمنٹ میں اس طرح کی شادیوں کو مکمل قانونی درجہ دینے کے لیے باقاعدہ ایک مسودۂ قانون براے منظوری پیش کر دیا ہے۔


مشتاق چاولہ ‘لودھراں

آج ہم جس جدید دور میں سانس لے رہے ہیں‘ اگرچہ معاشرہ بظاہر ترقی یافتہ نظر آتا ہے لیکن حقیقی ترقی سے کوسوں دور ہے۔ معاشرہ ہمدردی‘ اخوت‘ محبت اور اخلاص جیسی اعلیٰ اقدار سے عاری‘ جب کہ نفرت و حقارت‘ بے راہ روی اور خودغرضی اور ظلم و استحصال اور انسانیت کا خون عام ہے۔امن و مساوات کے علم بردار اور انسانیت کا درس دینے والے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر اپنی طاقت کے زعم میں عدل وا نصاف اور امن عالم کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور جمہوریت کی آڑ میں بدترین آمریت مسلط کر رہے ہیں۔ دنیا کو آج کل سے زیادہ امن و انصاف اور انسانیت کی تلاش ہے۔ مغرب کے اس تضاد کو بھرپور اور مدلل انداز میں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں کمیونسٹ نظریات کے خلاف اہلِ قلم‘ ادیب اور شاعر پیش پیش رہے۔ آج پھر امریکی سامراجیت کے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ اہلِ علم و دانش اپنا کردار ادا کریں۔ اس محاذ پر منظم اور بھرپور سرگرمی وقت کا تقاضا ہے۔