مارچ۲۰۰۵

فہرست مضامین

مشرق وسطیٰ کا سونامی

عبد الغفار عزیز | مارچ۲۰۰۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

رفیق بہاء الدین الحریری نے لبنان کے ایک غریب کاشتکار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ بچپن میں صیدا شہر کے گردونواح میں لیموں اور مالٹے کے باغات میں پھل چننے کا کام کرتا رہا‘ پھر تعلیم کے ساتھ ساتھ لبنان کے اخبار النہار میں چھوٹی سی ملازمت کرتا رہا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے اتنی دولت سے نوازاکہ ۳۰ سال کے بعد اسی اخبار کا مالک بن گیا‘ پھر ’’المستقبل‘‘ نامی سیٹلائٹ چینل ، المستقبل اخبار اور دنیا بھر میں ہوٹلوں‘ تعمیراتی کمپنیوں‘ بنکوں‘ جہازوں اور اسٹاک ایکسچینج کی بے شمار دولت کا مالک بنا اور دنیا میں چوٹی کے مال دار ترین ۱۰۰ افراد میں ۵۴ویں نمبر پر آگیا۔

۱۹۷۳ء میں پٹرول کے عالمی بحران کے وقت رفیق الحریری سعودی عرب میں تھا۔ مختلف تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے آگے بڑھتے بڑھتے شاہی خاندان سے تعلقات استوار ہوچکے تھے۔ شہزادہ فہد بن عبدالعزیز سے ذاتی دوستی ہوگئی تھی اور کئی سرکاری ٹھیکے بھی مل رہے تھے۔ ۱۹۷۷ء میں شاہ خالد بن عبدالعزیز نے کانفرنس پیلس بنانے کا ٹھیکہ دیا جو الحریری نے  چھے ماہ کی ریکارڈ مدت میں پورا کر دیا اور پھر ہر جانب سے ہُن برسنے لگا۔ ۱۹۷۸ء میں ایک نادر المثال تکریم کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ لبنانی رفیق الحریری کو سعودی شہریت دے دی گئی‘ اور پھر لبنانی نژاد سعودی ساہوکار ’’حی الورود‘‘ پھولوں کی بستی میں اپنے محل ’’قصرالحریری‘‘ کا باسی ہوگیا۔

۱۹۷۶ء میں لبنان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا‘ اور ۱۷ سال تک لبنان میں وہ خونریزی ہوئی کہ ’’لبنانائزیشن‘‘ کا لفظ خانہ جنگی‘ باہمی قتل و غارت اور تباہی و بربادی کا مترادف لفظ بن کر ڈکشنریوںمیں لکھا گیا۔ ۱۹۸۹ء میں سعودی عرب کے شہر طائف میں شاہ فہد بن عبدالعزیز کی دعوت پر تمام متحارب لبنانی فریق جمع ہوئے اور لبنان میں مصالحت کی لاتعداد کوششوں کے بعد بالآخر یہ کوشش کامیاب ہوگئی۔ معاہدئہ طائف ایک نئے لبنان کی بنیاد بن گیا۔ اہم حکومتی عہدے مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اب اگر لبنان کا صدر مارونی مسیحی ہے تو وزیراعظم سنی اور پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ ہوتا ہے۔ معاہدئہ طائف پاکستان کے ۷۳ء کے دستور کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس پر سب کا اجماع ہے۔ رفیق الحریری بھی سنی وزیراعظم کی حیثیت سے حکمران رہے۔ اپنی سیاسی حیثیت منوانے کے لیے ان کا سرمایہ اور وسیع بین الاقوامی تعلقات ان کا اصل ہتھیار تھے۔ ان کی شخصیت اور سوچ کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز نے متعدد افراد کو سعودی عرب میں تعمیروترقی میں اضافے کے لیے مشورے دینے کے لیے کہا تو رفیق الحریری کا کہنا تھا کہ ’’دنیا میں سعودی عرب کی اقتصادی ترقی کی تصویر اجاگر کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر صرف کر کے دنیا کے اربوں ڈالر کا رخ اپنی طرف موڑا جا سکتا ہے‘‘۔ شاید اسی فارمولے پر عمل درآمد کرتے ہوئے حریری نے امریکا کے شہر بوسٹن میں بزنس اینڈ ایڈمنسٹریشن کالج کی تعمیر کے لیے ۲۵ ملین ڈالر کا عطیہ دیا۔

لبنان میں متفق علیہ قومی فارمولے کے مطابق امور مملکت چلائے جا رہے تھے۔ اپوزیشن بھی فعال رہی ہے لیکن ایسا شاذونادر ہوا کہ کوئی لاینحل بحران اٹھ کھڑا ہوا ہو۔ جنوبی لبنان پر اسرائیلی قبضہ طویل جہاد کے بعد ختم کروا لیا گیا۔ بلدیاتی اور قومی انتخابات بھی ہو رہے تھے‘ لیکن عراق پر امریکی قبضے کے بعد لبنان میں جو سیاسی بحران اٹھے‘ رفیق الحریری کا قتل ان کا نقطۂ عروج ہے۔ لبنان میں شامی افواج گذشتہ ۲۹ سال سے موجود ہیں۔ لبنان اور شام کے تعلقات عملاً دوقالب یک جان کے مترادف ہیں۔ دونوں ملکوں کے شہری بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔ لاکھوں شامی باشندے لبنان میں تجارت یا ملازمت کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو لاحق صہیونی خطرے کے مقابلے کے لیے بھی دونوں یک جا ہیں۔ لبنان میں داخلی و خارجی امن میں مدددینے کے لیے ۱۵ ہزار سے زائد شامی افواج لبنان میں ہی رہتی ہیں۔ انٹیلی جنس کا نظام مستزاد ہے۔ معاہدئہ طائف میں بھی شامی افواج کی موجودگی کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ شامی افواج وادیِ بقاع میں رہیں گی۔

امریکا کی طرف سے شام‘ اس کی افواج اور اس کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں پہلے بھی بارہا تان اٹھائی جاتی تھی‘ لیکن عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے اس کی لَے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ لبنانی اپوزیشن نے بھی لبنان سے شامی افواج کی واپسی اپنا ہدف اولیں قرار دے دیا۔ امریکا سے گہرے تعلقات رکھنے والے وزیراعظم رفیق الحریری نے بھی اسی نہج پر کام شروع کر دیا‘ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں اس کے بجاے سابق وزیراعظم عمر کرامے کو وزیراعظم چن لیا گیا اور الحریری کھل کر شام پر تنقید کرنے لگا۔ دُرزی (فرقۂ دروز کے) رہنما ولید جنبلاط تو پہلے ہی شمشیربرہنہ تھا اب سرمایہ دار حریری بھی ان سے آملا۔ ستمبر ۲۰۰۴ء میں سلامتی کونسل نے شام کے خلاف قرارداد ۱۵۵۹ منظور کرتے ہوئے اسے لبنان سے افواج نکال لینے کاکہا۔ یہ قرارداد منظور کروانے میں فرانس اور امریکا پیش پیش تھے اور رفیق الحریری نے اپنے ذاتی دوست صدر شیراک اور دیگر عالمی رہنمائوں سے مل کر اس قرارداد کی منظوری میں فعال کردار ادا کیا۔

الحریری نے شام نواز لبنانی صدر امیل لحود کو ہٹانے اور ایک ایسا صدر لانے کی بھی کوشش کی جو شامی افواج کو نکالنے کا کام انجام دے‘ لیکن لبنانی حکومت نے شامی اثرونفوذ کے سائے میں دستوری ترمیم کرتے ہوئے لحود کے عرصۂ صدارت میں تین سال کا اضافہ کر دیا۔

اس سارے پس منظر میں جب ۱۴ فروری ۲۰۰۵ء کو بیروت کے قلب میں دن دہاڑے رفیق الحریری کا پورا قافلہ نامعلوم دھماکے کا شکار ہوا تو پہلے ہی ثانیے سے اس قتل کا الزام شام پر لگنا شروع ہوگیا۔ جرمن اخبارات‘ ایک ہسپانوی اور ایک فرانسیسی اخبار کے علاوہ باقی تمام عالمی میڈیا حریری کے قتل کا ذمہ دار شام کو ٹھیرانے لگا اور پھر جیسے جیسے تدفین کے لمحات قریب آتے گئے‘ قتل کا الزام پیچھے رہ گیا اور لبنان سے انخلا کا مطالبہ سرفہرست آگیا۔ امریکا نے فوراً ہی  دمشق سے اپنی سفیرہ کو واپس بلالیا‘ امریکی نائب وزیرخارجہ اور کئی عالمی رہنما بیروت پہنچنے لگے‘ اور صدر بش گویا ہوئے:’’شام لبنان سے اپنا استعماری قبضہ ختم کرے۔ لبنانی عوام کو آزادی سے جینے کا حق ہے‘‘۔ لبنانی اپوزیشن نے حریری کے جنازے میں جمع ہونے والے لاکھوں شہریوں کے جلوس کو ’’انتفاضہ الاستقلال‘‘قرار دے دیا اور حریری کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کیا۔ ولد جنبلاط کے الفاظ میں: ’’لبنان کی آزادی اور بالادستی کے لیے بیرونی جمہوری طاقتوں سے استعانت بھی جائز ہے۔ ہم باہر سے بھی مدد لیں گے۔ اب ہم ہر پابندی سے آزاد ہیں‘‘۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ارشاد فرمایا: ’’لبنانی عوام کو دہشت گردی اور شام کے استعماری قبضے سے آزادی ملنی چاہیے‘‘۔

رفیق الحریری کے مجرمانہ قتل کا ارتکاب کرنے والوں کے سوا ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ یہ قتل کس نے کیا ہے اور قطع نظر اس کے کہ اس میں شام ملوث ہے یا نہیں‘ کسی بھی طرح کی تحقیقات سے پہلے تمام تر الزام شام پر لگاتے ہوئے پورا مغرب اس پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ لبنان سے نکل جائے۔ لیکن کیا صرف شامی افواج لبنان سے نکال لیے جانے پر یہ عالمی دبائو ختم ہوجائے گا؟ قطعاً نہیں۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان کا جملہ ہی دیکھ لیجیے:’’…دہشت گردی اور شام کے استعماری قبضے کا خاتمہ‘‘۔ دہشت گردی سے ان کی مراد شام کا شیعہ لبنانی تحریک ’’حزب اللہ‘‘ سے تعاون‘ حماس کی قیادت کو دمشق میں پناہ دینا‘ اور عراق میں جاری تحریک مزاحمت کو مدد فراہم کرنا ہے۔ شام لاکھ انکار کرے اور ہزار مطالبات پورے کر ڈالے عراقی و فلسطینی مزاحمت کی سرپرستی کے الزام سے چھٹکارا ممکن نہیں کہ اسی الزام کی آڑ میں شامی ایٹمی اسلحے کی تیاری کے امکانات کا خاتمہ‘ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کروانا‘ اور ایران سے قطع تعلق کرتے ہوئے خطے میں امریکی و صہیونی منصوبوں کی تکمیل میں شریک کرنا بھی مطلوب و مقصود ہے۔

دہشت گردی کے اس بڑے واقعے کے فوراً بعد صہیونی وزیراعظم شارون نے سلامتی کونسل کی قرارداد ۱۵۵۹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے لبنان سے شامی فوجیں نکالے جانے کو شام کے ساتھ کسی بھی گفتگو کے لیے شرط اولیں قرار دیا۔ اس کے وزیرخارجہ سلفان شالوم نے بھی حادثے کے لمحۂ اول سے شام کو اس کا مرتکب اور ذمہ دار قرار دیا۔ ایک بڑے صہیونی روزنامے معاریف نے حادثے کے اگلے ہی روز (۱۵ فروری) کو تل ابیب یونی ورسٹی کے شعبۂ تاریخِ مشرق وسطیٰ کے سربراہ پروفیسر ایال زیسر کے ایک مضمون میں لکھا: ’’صورت حال جو بھی ہو شام کو قتل کے  اس واقعے کی قیمت چکانا ہوگی‘ خواہ عملاً اس واقعے کے پیچھے اس کا ہاتھ نہ بھی ہو‘‘۔ باعث حیرت و افسوس امر یہ ہے کہ شام پر عالمی دبائو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ صدر بش نے برسلز میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’لبنان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ پورے خطے کی تشکیلِ نو کے منصوبے کا حصہ ہے‘‘۔ لیکن خطے کے تمام ممالک لاتعلق بیٹھے ہیں۔

اخوان المسلمون کو شام میں بڑی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے‘ اب بھی ان کے ہزاروں کارکنان و قائدین ملک بدر‘ گرفتار یا لاپتا ہیں‘ لیکن اخوان نے اپنے بیان میں شام کے خلاف تمام امریکی و اسرائیلی منصوبوں اور سازشوں کو مسترد کرتے ہوئے پوری مسلم دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اس حساس موقعے پر خاموش تماشائی نہ رہیں‘ شام کو تنہا نہ چھوڑیں اور صورت حال کو سنبھالنے کے لیے آگے بڑھیں۔

رفیق الحریری کے قتل کو بجا طور پر مشرق وسطیٰ کا سونامی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات لبنان یا شام تک محدود نہیں رہیں گے۔ صدر بش کے الفاظ میں یہ سب: ’’خطے کی تشکیلِ نو کے منصوبے کا حصہ ہے‘‘۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل اٹھانا چاہے گا تاکہ حماس‘ حزب اللہ‘ جہاد اسلامی اور الفتح کے جہادی عناصر کا قلع قمع کردے۔ اس حادثے کے ذریعے امریکا بھی وہ تمام مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا‘ جن کے حصول کے لیے وہ شام پر فوجی حملے کی دھمکیاں دیتا اور تیاریاں کرتا آرہا ہے‘ لیکن عراقی دلدل میں دھنس جانے کے باعث عمل درآمد نہیں کرپارہا۔ حصولِ مفادات کی لمبی فہرست کے اس تناظر میں تجزیہ نگار یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ حریری کے قتل کے پیچھے امریکا اور اسرائیل کا ہاتھ کیوں نہیںہوسکتا۔ آخر اپنے ہر حلیف کو بالآخر ٹھکانے لگانا بھی تو ان دونوں کی سرشت میں ہے۔  خاص طور پر ان حالات میں کہ جب قربانی کے اس بکرے کے ذریعے کئی دیگر اہداف کو شکار کرنا مقصود ہو۔ اب امریکا کے لیے اصل پریشانی یہ ہے کہ حریری کے قتل کو دو ہفتے گزرنے اور شام کو عالمی دھمکیوں کا ہدف بنادینے کے باوجود بھی عراق میں امریکی فوجیوں پر حملوں میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی۔