مارچ۲۰۰۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مارچ۲۰۰۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

نقد‘ اُدھار اور قسطیں

سوال : نقد اور اُدھار قیمت کے فرق کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر بنک جو گاڑیاں اقساط پر دیتے ہیں‘ وہ اضافی قیمت لیتے ہیں۔ عموماً بنک بھی اسے سودی کاروبار کہتے ہیں۔ لہٰذا اضافی قسط‘ انٹرسٹ‘ منافع یا ایگریمنٹ یا کوئی اور نام رکھنے سے بلاسود بنک کاری نہیں ہوجاتی۔ اگر کوئی خریدار مقررہ وقت پر گاڑی کی قسط ادا نہ کر سکے تو کیا جرمانہ سود نہ ہوگا؟دوسرا پہلو یہ ہے کہ رضامندی سے طے شدہ زائد ظالمانہ رقم اگر سود نہیںتومجبوراً ادا کیا جانے والا جرمانہ تو سود ہی ہوگا۔ قسطوں کے کاروبار میں نقد اور اُدھار کے فرق پر شرعی نقطۂ نظر واضح کریں۔

جواب:   نقد اور اُدھار کی قیمتوں کے فرق کی گنجایش کو ایسے کاروبار کا ذریعہ نہ بنا دینا چاہیے جو سود کا متبادل بن کر رہ جائے اور جس میں سودی ذہنیت کارفرما ہو۔ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں سود اور بیع کا فرق بیان کرتے ہوئے اس مسئلے کی اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے: ’’تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے‘ بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے‘ ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو‘ بہرطور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے‘ اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی‘ اس کے تمام وسائل معیشت حتیٰ کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کرلے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے‘‘(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۲۱۲-۲۱۳)۔ مزید تفصیل کے لیے حاشیہ ۳۱۸‘ جو آیت وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(البقرہ ۲:۲۷۵) ’’حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘ کی تفسیر کے سلسلے میں تحریر کیا گیا ہے‘    کا مطالعہ فرمائیں۔

اقساط کی صورت میں وہ منافع جو غیرسودی ہے اور وہ جو سودی ہے‘ کا فرق اس طرح   ملحوظ رکھا جائے کہ قسطیں طے ہونے کے بعد اس میں مزید اضافہ کسی صورت میں نہ ہو تو یہ بیع اور غیرسودی کاروبار شمار ہوگا‘ جیسے کہ تفہیم القرآن میں وضاحت ہوگئی ہے کہ بیع میں منافع طے شدہ ہوتا ہے اور ایک ہی مرتبہ ہوتا ہے‘ اس میں اضافہ نہیں ہوتا اور اگر اس میں اضافہ ہوتا رہے تو پھر وہ اقساط سود شمار ہوں گی۔ نیز کسی شے کا بہت زیادہ مہنگا ہونا جو سود کا متبادل بن کر رہ جائے‘     وہ بھی درست نہیں ہے۔ اگرچہ طے شدہ ہونے کی صورت میں ہم اسے سود نہیں بلکہ منافع ہی کہیں گے۔واللّٰہ اعلم!  (مولانا عبدالمالک)


حج کے بعد عمرہ

س : حج کے بعد عمرہ ادا کرنے کے متعلق دو آرا ہیں۔ ایک رائے ہماری وزارت مذہبی امور کی ہے جن کے مطابق حج کے بعد عمرہ کرنے کی کھلی اجازت ہے:

منیٰ سے واپس آکر جب تک مکہ مکرمہ میں قیام رہے بکثرت طواف کرتے رہیں۔ یہ سب سے اعلیٰ عبادت ہے۔ اگر وقت ملے تو عمرے بھی کریں۔ (انوارحرمین‘ حصہ اول‘ وزارت مذہبی امور اسلام آباد‘ص ۵۱)

دوسری رائے سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور کی ہے جو حج کے بعد عمرہ ادا کرنے کے خلاف ہے۔ ان کا خیال ہے حج کے بعد عمرہ ادا کرنا مشروع نہیں:

جو لوگ حج کے بعد تنعیم یا جعرانہ وغیرہ سے بکثرت عمرہ کرتے ہیں تو اس کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں… تنعیم سے حضرت عائشہؓ کا عمرہ مخصوص سبب سے تھا… لہٰذا جس کو حضرت عائشہؓ جیسا عذر درپیش ہو‘ اس کے لیے اجازت ہے کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ کرے[عام اجازت نہیں ہے]۔(حج و عمرہ اور زیارت‘ علامہ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازؒ، ترجمہ: شیخ مختار احمد ندوی‘ وزارتِ اسلامی ‘سعودی عرب‘ ص ۴۳-۴۴)

ان دو متضاد آرا کی وجہ سے زائرین حج اُلجھن میں پڑجاتے ہیں کہ کیا صحیح اور کیا   غلط ہے؟

ج: جب یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حج کے بعد عمرہ کیا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حج کے بعد عمرہ کیا جاسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ حضرت عائشہؓ کا عمرہ اس عمرہ کی قضا تھی جو ان سے رہ گیا تھا‘ تو اس سے حج کے بعد عمرہ کو قضا کی صورت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کے بعد نفل عمرہ کیا جاسکتا ہے جس طرح عمرہ کی قضا کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ عمرہ قضا ہو یا ادا‘ واجب ہو یا سنت‘ اس کا طریق کار‘ شرائط‘ واجبات اور سنن میں کوئی فرق نہیں ہے‘ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جعرانہ سے مستقل عمرہ کیا تھا۔ حج کے بعد عمرہ کی نفی اس وقت کی جاسکتی ہے جب نبی کریمؐ نے اس کی نفی یا حمایت کی ہو یا حضرت عائشہؓ کو عمرہ کرنے کے موقع پر فرمایا ہو کہ جس کا عمرہ رہ گیا ہو وہ حج کے بعد عمرہ کر سکتا ہے۔ دوسرا شخص جس نے حج سے پہلے عمرہ کر لیا ہو‘ وہ بعد میں عمرہ نہیں کرسکتا۔ رہی یہ بات کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ حج کے بعد عمرہ کو معمول نہیں بنایا تو اس سے بھی حج کے بعد عمرہ کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ بیان جواز کے بعد معمول نہ بنانے سے جواز کی نفی نہیں کی جاسکتی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت عائشہؓ کو حج کے بعد عمرہ کروا کر اس بات کا جواز بیان کر دیا کہ حج کے بعد عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔ آج کل بھی حجاج کرام کا معمول نہیں ہے کہ وہ حج کے بعد تنعیم سے عمرہ کریں۔ کچھ لوگ عمرہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ محض طواف پر اکتفا کرتے ہیں۔ دونوں طریقے صحیح ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ کسی کی اپنی طرف سے نفی نہ کی جائے کہ یہ شریعت میں اپنی طرف سے اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ غلو اور افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م)


ایک امام کی تقلید

س : کیا اسلام میں کسی ایک امام کو لازماً ماننا اور اس کی اتباع کرنا ضروری ہے؟ کیا بیک وقت تمام ائمہ میں سے جس کی جو بات پسند آئے‘ لی جا سکتی ہے‘ یعنی کچھ باتیں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے مطابق اورکچھ باتیں امام شافعیؒ کے مسلک کے مطابق‘ جب کہ تمام ائمہ ایک ہی دین کے پیروکار تھے؟

ج: آپ نے دریافت کیا ہے کہ کیا اسلام میں کسی ایک امام کو لازماً ماننا اور اس کی اتباع کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک سوال اتباع کا ہے‘ قرآن نے سورۂ آل عمران میں اس کو واضح کردیا ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اتباع غیر مشروط ہے‘ جب کہ اولی الامر کی اتباع مشروط ہے‘ یعنی جب تک وہ اللہ اور رسولؐ کے احکامات کی پیروی کرتے اور کرواتے ہیں ان کی پیروی کی جائے گی (اٰل عمرٰن ۳:۵۹)۔ اسلام کے اس اصولِ اطاعت کو حدیث نبویؐ میں یوں واضح کر دیا گیا ہے کہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق، یعنی خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن و سنت ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہر مسلمان عورت اور مرد اپنے تمام معاملات کا فیصلہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی ہدایات کی روشنی میں کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہرمسلمان خود قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے کی عادت ڈالے اور قرآن و سنت کے طریق و حکمت سے واقفیت پیدا کرے۔ ہماری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہمارے ادوارِ زوال میں بھی اعلیٰ طبقات کے افراد ہی نہیں وہ بھی جنھیں آزادی سے محروم کر کے غلام بنا لیا گیا تھا‘ اجتہادی صلاحیت رکھتے تھے‘ حتیٰ کہ اگر ادب کا مطالعہ کیا جائے تو الف لیلہ و لیلہ میںایسے واقعات ملتے ہیں جب ایک خادمہ ہر ہر سوال کے جواب میں صرف قرآنی آیات سے جواب دیتی ہے۔ اس صلاحیت کا تعلق اس ثقافتِ علم سے ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک ایسی مثالی صورت حال پیدا نہ ہو توکیا کیا جائے؟ ظاہر ہے بغیر علمی وسائل کے اگر ہر فرد اپناامام خود بن جائے تو گمراہی کا امکان بڑھ جائے گا۔ اس لیے علما وفقہا یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد جس امام کی تعلیمات پر ایک فرد کا دل مطمئن ہو یا وہ جس مسلک فقہی میں پیدا ہوا ہو اور اُس سے مطمئن ہو‘ اس پر قائم رہے۔ تاآنکہ وہ خود مصادر شریعہ کو سمجھنے اور اصول و قواعد فقہ کے استعمال سے واقف ہو جائے۔

فقہا و حکما کا کہنا یہ بھی ہے کہ چونکہ انسانی فطرت سہولت طلب ہے‘ اس لیے اگر ہر ہر فقہ سے صرف آسان ترین راستے اختیار کر لیے جائیں تو یہ دین کی وسعت کا صحیح استعمال نہ ہوگا۔ دین لازمی طور پر آسانی چاہتا ہے لیکن سستی اور کاہلی کو بھی پسند نہیں کرتا۔ اس لیے کسی ایک مسلک کو اختیار کرنا بہتر ہوگا تاکہ اس کی بعض بظاہر مشکلات کے ساتھ بہت سی آسانیوں سے بھی فائدہ حاصل کرسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)