مارچ۲۰۰۵

فہرست مضامین

عالمی امن و انصاف: اسلامی تناظر میں

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | مارچ۲۰۰۵ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

امن و انصاف کا حصول انسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے اور تمام مذاہب نے اس کی اہمیت اور مرکزیت کے پیش نظر اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو سیکولر مفکرین کے نزدیک بھی یہ اتنا ہی اہم ہے اگرچہ اس کے بنیادی تخیلات اور     پس پردہ جذبہ مکمل طور پر کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو۔

سرمایہ دارانہ ذہنیت کے زیراثر جو معیشت کے استحکام‘ انفرادیت اور ہر دم بدلتی ہوئی اخلاقیات کا مجموعہ ہے‘ ایک نئی سوچ اور فکر یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے طویل المیعاد سماجی اور معاشی فوائد جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔

عدم تشدد اور عدم جارحیت کا فلسفہ جو پہلے چند افراد یا مذاہب کی ذاتی فکر کا مظہر سمجھا جاتا تھا‘ وقت گزرنے کے ساتھ عالمی سیاسی حکمت عملی کی صورت اختیارکرگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج اور جنگوں کے ذریعے خام مال پر قبضہ اور نئی معاشی منڈیوں کی تلاش کی سرمایہ دارانہ حکمت عملی کی جگہ یہ سوچا جانے لگا ہے کہ امن کے نام پر‘ عدم جارحیت کے زیرعنوان اور آزاد تجارت کا نعرہ بلند کر کے بھی سرمایہ دارانہ قوتیں وہی کچھ حاصل کرسکتی ہیں جس کے لیے پہلے طول طویل اور خوں ریز جنگیں لڑی جاتی تھیں۔

عالمی جنگوں کے دور کے بعد بین الاقوامی سطح پر ترقی پذیر ممالک پر قابو پانے اور انھیں اپنا ماتحت بنانے کے لیے تجارت‘ سیاحت اور جمہوریت کو قابلِ عمل طریقہ اور بنیاد سمجھا گیا۔  امن کی تلاش کے اس دور میں جنگی تصادم سے بچنے کی کوششیں اس لیے بھی کی گئیں کیوںکہ جنگ کو تجارت اور سیاحت کا دشمن خیال کیا جاتا ہے۔

سرد جنگ کے زمانے میں علاقائی معیشت‘نیوکلیئر صلاحیت اور باہمی تعاون کی راہیں کھلیں۔ گو صرف فکری طور پر ہی سہی ‘ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا قیام عدم جارحیت کے فلسفے کا عالمی سطح پر ظہور تھا۔ اس ادارے کی کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر اس کے قیام کا بڑا مقصد مسائل کا پرامن حل تلاش کرنا تھا۔ اس لیے امن کا قیام و انصرام اس سیکولر ادارے اور اس کے رکن ممالک کا جزو ایمان بن گیا۔

دیگر اقوام کو یورپ کے سامراجی اور نوآبادیاتی تسلط اور چیرہ دستیوں سے آزاد کرانے والی جمہوری جدوجہد ایک عرصے تک نہ صرف پُرامن تحریک اور تشدد سے آزاد مزاحمتی تحریک سمجھی جاتی رہی‘ بلکہ دیگر تحریکات کو بھی اس کا حصہ تصور کیا جاتا رہا‘ مثلاً مساوات مرد و زن کی تحریک۔ مغرب میں یہ تحریک عورتوں کے مساوی حقوق کی علم بردار بن کر اٹھی‘ جب کہ عورتوں کی معاشرے میں انصاف پسندانہ اور شفاف شراکت کار کو اہمیت نہیں دی گئی۔ بہرصورت یہ ایک پُرامن تحریک ہی رہی۔ لیکن سیاسی منظرنامے پر موجود معاشرے میں جمہوریت کے نفاذ کی تحریکیں کبھی تو پرامن رہیں اور بعض اوقات تشدد پسند۔ تاہم‘ عالمی امن اور مسائل کے غیرفوجی حل پر مشتمل تحریکیں اپنے تمام تر سیکولر کردار کے باوجود ایک اچھے انسانی معاشرے کے قیام کا دعویٰ اور اس کے لیے سرگرمی اختیار کرتی رہیں۔ ایٹمی قوت سے پاک دنیا کی تحریک بحالیِ امن اور سیکولر معاشرے کے قیام کی داعی رہی۔

دوسری طرف اُن لوگوں کو انتہا پسندی‘ بنیاد پرستی‘ تشدد‘ دہشت گردی اور خون خرابہ شروع کرنے کا الزام دیا جاتا تھا جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ گو کئی عشروں تک شمالی آئرلینڈ کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی فرقوں کو مذہبی تشدد‘ بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کا الزام دیا جاتا تھا‘ تاہم اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تونہ کیتھولک اور نہ پروٹسٹنٹ فرقہ ہی اس قسم کے خون خرابے کی اجازت دیتا ہے‘ نہ کروشیا اور سربیا کے لوگوں کی بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی ہی صحیح مذہبی عیسائیت کا اظہار کہی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ باضمیر‘ دیانت دار اور صحیح العقیدہ یہودی بھی صہیونیوں کے فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کھلے تشدد اور ننگِ انسانیت اقدامات کی حمایت نہیں کرتے۔ بہت سے اسرائیلی پائلٹوں کے فلسطین کے مختلف ٹھکانوں پر بم باری کرنے کے انکار سے واضح ہوتا ہے کہ تمام یہودی فلسطین میں ہونے والی صہیونی دہشت گردی میں شریک نہیں‘ یعنی چاہے مجبوراً انھیں ایسے اقدام کرنے پڑتے ہوں۔ اس مختصر جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن ہر انسان کی مشترک خواہش ہے‘ چاہے وہ دین دار ہو یا سیکولر۔ مزید یہ کہ مذہب کے نام پر تشدد کسی بھی معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا۔

عام طور پر امن اور بحالی امن کے اقدامات‘ مسائل کے پرامن حل‘ اجتماعی دفاع کی سوچ‘ بچائو کی مختلف تدابیر‘ تخفیف اسلحہ جیسے موضوعات آج کی دنیا کے عملی مسائل ہیں اور عموماً یہ مسائل اور جھگڑے‘ چاہے سیاسی ہوں یا معاشی‘ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ان کا حل طاقت و قوت سے ہوگا    یا گفت و شنید سے۔ اس لیے بحالی امن کے اقدامات پر گفت و شنید کے لیے ایسے فورم (forum) ضروری ہیں جہاں ان مسائل پر معروضی طور پر غور اور تبادلۂ خیالات کیا جاسکے۔

اجتماعی دفاع کی سوچ باہمی اور کثیرجہتی تعلقات کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور علاقائی یا عالمی امن پر منتج ہوتی ہے۔ تخفیف اسلحہ کا مطلب اسلحے کے عدم توازن کو ختم کرنے کی کوششیں‘ ایٹمی اسلحے پر موثر کنٹرول اور ایٹمی فضلہ جات کو صحیح طور پر ٹھکانے لگانا اور شعوری طور پر اسلحے کی دوڑ میں حصہ نہ لینے جیسے اقدامات کرنا ہیں۔ امن کے لیے اقوام متحدہ جیسے اداروں کو بلاواسطہ شریک کرنا‘ بچائو کی حکمت عملی اور تدابیر کا اہم جزو ہوسکتا ہے۔ اگرچہ امریکی سامراج کی یک قطبی دنیا اور اس کے غیر قانونی طور پر عراق پر حملے اور قبضہ کرنے کے اقدامات نے نہ صرف اقوام متحدہ اور اس جیسے اداروں کی بے بسی کو واضح کر دیا ہے بلکہ ان کی موت پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی ہے۔ لیکن ہم اس سے مایوس نہیں ہیں بلکہ اس سے ہمارے اس خیال کو تقویت پہنچی ہے کہ دانش ور‘ مذہبی قائدین اور وہ تمام لوگ جو کسی بھی سطح پر پالیسی کی منصوبہ بندی سے وابستہ ہیں‘ اجتماعی طور پر موجودہ بین الاقوامی معاشی‘ سماجی اور سیاسی مسائل پر ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنے میں اپنا حصہ ادا کرسکتے ہیں‘ ایسی دنیا جس کی بنیاد گفت و شنید‘ دلیل و برہان‘ باہمی تعلق اور عدم تشدد کی سوچ پر ہو۔

عالمی امن کے حصول میں موجودہ مذاہب کا کیا کردار ہے‘ اور خاص طور پر اسلام کا اس بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے؟ یہ سوال ہمیں غیر جذباتیت اور خالص دلیل و برہان کی بنیاد پر قرآن و سنت کی رہنمائی میں حل تلاش کرنے کی دعوتِ تحقیق دیتا ہے۔

لغوی طور پر اسلام کا مادہ س ل م ہے جس کے معنی امن‘ سکون‘ بندگیِ رب اور اللہ کی بڑائی کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا ہے۔ اگر عملی حقیقت یہی ہے تو نام نہاد ’’مقدس جنگ‘‘ اور ’’اسلامی جہاد‘‘ کا عالمی شوروغوغا کیوں؟ اس شوروغوغا میںاور اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے میں عالمی ابلاغ عامہ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا‘ مستشرقین اور آزاد خیال لوگوں کی ان تحریروں کا بڑا کردار ہے جن میں اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جوڈتھ مِلر (Judith Miller) کی کتاب ’’خدا کے ننانوے نام‘‘ پیش کی جاسکتی ہے جو اپنے منصب اور ذمہ داری کے لحاظ سے نیویارک ٹائمز کی مشرق وسطیٰ کے امور پر ماہر اور نامہ نگار ہے لیکن اسے کبھی خود مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں معقول عرصے تک رہنے اور مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا‘ اور نہ وہ عربی کی ابجد سے ہی واقفیت رکھتی ہے لیکن پھر بھی اسلام کے بارے میں سند سمجھی  جاتی ہے۔ ایڈورڈ سعید (Edwards Saeed) اس کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان ’’ماہرین‘‘ (مِلر‘ سیموئیل ہن ٹنگٹن‘ مارٹن کرامر‘ برنارڈ لیوس‘ ڈینیل پائپز‘ سٹیفن ایمرسن اور  باری رُبن‘ اس کے علاوہ اسرائیلی مصنفین) کے لکھنے کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کو ’’خطرے‘‘ کے طور پر پیش کیا جائے‘ اسلام کو دہشت اور تشدد کا علم بردار ثابت کیا جائے اور دوسری طرف ذاتی تشہیر‘ میڈیا میں اثرورسوخ پیدا کرنے کے ساتھ اپنی جیبیں بھی بھری جائیں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال اسٹیفن شوارٹز (Stephen Schwartz) کی کتاب ’’اسلام کے دو چہرے: آل سعود روایت سے دہشت تک‘‘ ہے جوایسے ’’شیاطین‘‘ کو تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے جن کا وجود شاید مصنف کے ذہن کے علاوہ اور کہیں نہیں پایا جاتا۔

اسلام کی اس تصویر کشی کی ایک کھلی وجہ ’’جہاد‘‘ کو غیرمسلموں اور ان کی تہذیب کے دشمن کے طور پر پیش کرنا ہے۔ ۱۱ستمبر کے ہولناک واقعات نے مسلمانوں اور جہاد کے متعلق صدیوں سے مروجہ غلط فہمی پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بارے میں عمومی طور پر مسلمانوں نے معذرت خواہانہ یا جذباتی رویے اختیار کرتے ہوئے مغرب کو جہاد کے صحیح تصور اور حقیقی مقصد کو سمجھانے میں کوئی مدد کی اور نہ مثبت طور پر اسلام کے اصول پیش کیے۔ نتیجتاً آج جہاد کو بڑی آسانی کے ساتھ تشدد اور دہشت گردی کا ہم معنی قرار دے دیا گیا ہے۔

لغوی طور پر تشدد کا مطلب کسی کو تکلیف دینے‘ زخمی کرنے اور تذلیل کرنے کے لیے طاقت کا سوچا سمجھا استعمال کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے کسی کو زخمی کرنا یا قتل کرنا یا املاک کو نقصان پہنچانا دہشت گردی اور تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ گو‘ہر قوت کا استعمال تشدد نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن جب بھی قوت کے استعمال کے ساتھ مقصد یہ ہو کہ کسی کو اذیت اور ذلت کا مزا چکھایا جائے تو پھر یہ استعمالِ قوت تشدد بن جاتا ہے۔

اس چیز کو ہم سرجن کے نشتر کی مثال سے واضح کرسکتے ہیں جس کا مقصد نشتر کے ذریعے تکلیف دینا نہیں ہوتا‘ بلکہ فاسد مادہ کا نکالنا یا ناکارہ عضو کا اس غرض سے کاٹنا ہوتا ہے کہ باقی سارا جسم اس تکلیف اور غلاظت سے نجات حاصل کر کے صحت مند اور توانا رہے۔ جہاد کا ٹھیک یہی مقصد اور مقام قرآن میں بیان کیا گیا ہے‘ یعنی معاشرے میں امن و انصاف کے قیام اور لاقانونیت اور استحصال کے خاتمے کے لیے جہاد کو ایک ذریعہ بنانا۔

معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے والے لوگ اکثر جہاد کی دو قسمیں مدافعانہ اور جارحانہ بیان کرتے ہیں اور دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ یعنی دارالحرب اور دارالسلام۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ جہاد صرف اور صرف مدافعانہ ہی ہوتا ہے اور کسی کے خلاف جنگ کرنا اسلام کا مدعا نہیں ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ہر اُس چیز کے خلاف جنگ کرنا جہاد قرار دیتے ہیں جو غیراسلامی ہو۔ دونوں تعبیرات جہاد کے حقیقی اور وسیع مفہوم کا احاطہ نہیں کرتیں۔

اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اس میں لفظ جہاد تقریباً۴۰ مرتبہ اور لفظ قتال تقریباً ۱۶۰ مرتبہ مختلف معنوں میں آیا ہے۔قرآنی تعلیمات کے مطابق جہاد کسی مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش‘ انتہائی جدوجہد اور پیہم عمل کا نام ہے‘ جب کہ قتال سے مراد لڑنا اور جنگ کرنا ہے۔

قرآن کے مطابق جہاد کا مقصد لوگوں کو ظلم و ناانصافی‘ غلامی اور استحصال سے نجات دلانا اور حقوقِ انسانی کی بحالی ہے۔ اگرچہ زیادہ زور مسلمانوں کے حقوق پر دیا گیا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ جہاد صرف مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن میں لفظ مستضعفین ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو ظلم و زیادتی کا شکار ہوں اور قرآن ان کے حقوق کی بحالی کے لیے لڑنے پر اُبھارتا ہے۔ یہ مستضعفین مسلمانوں کے علاوہ دیگر مظلوم افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:

بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں‘ عورتوں اور ننھے منے بچوں کے لیے جہاد نہ کرو جو یوں دعا مانگ رہے ہیں کہ اے پروردگار ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی اور کارساز مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔ (النساء ۴:۷۵)

اسی طرح انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے ایک دوسری جگہ قرآن میں تین مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے:

اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ہٹاتا نہ رہتا تو عبادت خانے‘ گرجے اور معبد اور مسجدیں بھی ڈھائے جا چکے ہوتے جہاں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے۔ (الحج ۲۲:۴۰)

سورۂ نساء اور سورۂ حج کی مندرجہ بالا آیات سے جو اصول نکلتے ہیں وہ جہاد کے ایک عملِ اصلاح اور حقوق انسانی کے قیام کے لیے ایک حکمت عملی ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ پہلی بات یہاں پر یہ کہی گئی کہ جن عورتوں‘ بچوں اور مردوں کو محض اس بنا پر کہ وہ اپنے رب کی بندگی کرنا چاہتے ہوں‘ ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو (جیسے آج مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں بعض مسلم اکثریتی ممالک میں اہلِ حق کے ساتھ کیا جا رہا ہے)‘ تو اہلِ ایمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی رہائی اور نجات کے لیے مادی اور اخلاقی امداد کریں۔

اگلی بات یہ واضح کر دی گئی کہ جہاد محض مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے حصول کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ یہود و عیسائی وغیرہ کو بھی اگر اپنے عبادت خانوں میں عبادت کرنے سے محروم کردیا جائے تومسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کا یہ مذہبی حق ان کو دلوائیں۔ اس طرح جہاد محض اُمت مسلمہ کے حقوق انسانی کے تحفظ تک محدود نہیں رہتا بلکہ عالمی طور پر مذہبی حقوق کے احیا و بحالی کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اصل میں جہاد قرآنی تعلیمات کی روشنی میں انسانی حقوق کی آزادی‘انسانی عظمت کی حفاظت اور بحالی کی ’’تحریک‘‘ کا نام ہے۔ یہ صرف کافروں کے خلاف ایک مقدس جنگ (holy war) نہیں ہے۔ مقدس جنگ کا عربی ترجمہ ’’حرب المقدس‘‘ ہوگا۔ قرآن و سنت کسی مقام پر بھی ’’حرب المقدس‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔ تاریخی طور پر ’’مقدس جنگ‘‘ کا تصور عیسائیت کی پیداوار ہے۔اسی طرح امن و سلامتی اور صلح کے الفاظ اسلامی روایات میں جنگ کی ضد میں استعمال نہیں ہوتے‘ بلکہ اس سے مراد امن‘ برداشت‘ رواداری‘ باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم کا کلچر ہے۔ قرآن تمام انسانیت کو ایک امہ قرار دے کر امن کی دعوت دیتا ہے: ’’اور اللہ تم کو سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہِ راست پر چلنے کی توفیق دیتا ہے‘‘ (یونس ۱۰:۲۵)۔ مختلف الفاظ اور حوالوں سے سلامتی اور امن کا تقریباً ۱۳۸ مرتبہ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔

امن و سلامتی کا وہ تصور جو اسلام کے پیشِ نظر ہے صرف تخفیفِ اسلحہ‘ اجتماعی دفاع کی تدابیر اور عدم جارحیت تک محدود نہیں بلکہ زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ جزئیات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسلام کے تصور ’’امن و صلح‘‘ کو سات نکات کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے جوکہ ’’عالمی امن‘‘ کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

۱- توحید

اسلامی تصور حیات میں ’’امن و انصاف‘‘کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اس کا اظہار انفرادی و اجتماعی طور ہردو جگہ پر ہوتا ہے۔ قرآن میں بیان کردہ امن کا تصور بلاواسطہ طور پر تصورِتوحید سے جڑا ہوا ہے۔ توحید‘ جس پر اسلامی فکر کی بنیاد ہے‘ کا مفہوم دراصل ایک انسان کا اپنے طرزِعمل‘ اپنی شخصیت اور سماجی رویوں میں موجود تناقصات اور تضادات کا شعوری خاتمہ کرنا ہے۔ اس کے بعد انفرادی سطح پر جو شخصیت سامنے آتی ہے وہی امن و انصاف کی مستند اور مؤثر بنیاد بنتی ہے۔ توحید انسان کو ہر قسم کے دوغلے پن اور شخصیت کے انتشار سے بچاتی ہے‘ چنانچہ  خواہ اپنے خاندان یا کاروباری شریکِ کار سے معاملات طے کرنے ہوں‘یا کسی حکومتی عہدے کی ذمہ داری پوری کرنی ہو‘ توحید ہر ہر مرحلے میں اس کے لیے رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔

اندرونی تضادات کا خاتمہ اور فکروعمل کی یہ یک جائی (توحید) ایک واقعاتی امن کا راستہ کھولتی ہے۔ توحید یا ایک بالاتر اصول کی آفاق و انفس میں فرمانروائی ان لوگوں کے لیے بھی زندگی میں یک رنگی پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے جو بظاہر مسلمان ہونے کے دعوے دار نہیں۔ یہی سوچ و فکر کی یکجائی عالمی سطح پر انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل اور امن و انصاف کے لیے اولین بنیاد فراہم کرتی ہے۔

۲- عدل

انسانی معاشرے میں قیام امن کا دوسرا سنہری اصول عدل ہے۔ قرآن عدل کی تقریباً سات جہتوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے جو پایدار معاشرتی امن کی بنیادیں ہیں۔

پہلی اور بنیادی چیز قانون کی حکمرانی‘ مساوات اور انسانی جان کا احترام ہے۔ قانون کی حقیقی حکمرانی سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان فرق ختم ہوجاتا ہے۔ قانون بنیادی انسانی حقوق میں مسلم اور غیرمسلم کی تقسیم نہیں کرتا۔غیرمسلم کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اتنی ہی اہم ہے جتنی کسی مسلم کی۔ انسانی جان کی حفاظت اور نشوونما بنیادی انسانی قدر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں امن و سکون اس وقت ہی قائم ہوسکتاہے جب  انسانی جان کی حفاظت کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ انسانی جان کی حفاظت اور نشوونما ہی امن و سکون اور پایدار معاشرے کی ضمانت ہے۔ قرآن نہ صرف انسانی قتل کی مذمت کرتا ہے بلکہ اس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی کے بچانے کو‘ گویا پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ اور تعلیمات نبویؐ میں تو درختوں‘ پرندوں اور جانوروں تک پر ظلم و زیادتی کی اجازت نہیں دی گئی۔

اگلا پہلو سماجی اور معاشی عدل ہے۔ اس کا مطلب ہے ایک شخص اپنے خاندان اور معاشرے حتیٰ کہ ناواقفوں کے حقوق و فرائض کی بھی صحیح طور پر بجاآوری کی کوشش کرے۔ قرآن و سنت حقوق و فرائض پر بہت زور دیتے ہیں اور اسی چیز کو بالکل بنیادی اور نچلی سطح تک پُرامن زندگی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ حقیقی جاے امن‘ یعنی جنت میں داخلہ اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اپنے مالک اور بھائی بند کے حقوق کی ادایگی صحیح طریقے پر کرتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد‘ دونوں کی صحیح ادایگی ہی اسے آخرت میں کامیاب بناسکتی ہے۔

پایدار معاشرتی عدل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اپنے معاملات اور سماجی رویوں میں اس کا اظہار کریں بلکہ اس کا مظاہرہ اپنی تجارت اور معاشی زندگی میں بھی کریں۔ لین دین میں خیانت اور استحصال نہ صرف ایک سماجی برائی ہے بلکہ یہ امن و سکون کو بھی برباد کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خیانت کی سخت سزا مقرر کی ہے تاکہ معاشرے میں امن و سکون پیداہو‘ تجارتی شاہراہیں محفوظ و مامون ہوں اور تجارتی قافلوں کی بھی محفوظ نقل و حرکت ممکن ہو۔

قرآن معاشی زندگی میں اخلاقیات پر زور دیتا ہے کہ یہی معاشرتی امن و سکون کی بنیاد ہے۔ قرآن کہتا ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو‘ لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے۔ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔ (النسائ۴:۲۹)

اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو‘ نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال  ظلم و ستم سے اپنا لیا کرو‘ حالانکہ تم جانتے ہو۔ (البقرہ ۲:۱۸۸)

اسی طرح ناپ تول میں خیانت سے منع فرمایا گیا ہے:

اور جب ناپنے لگو تو بھرپور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۵)

اسلام نہ صرف معاشی معاملات میں عدل و انصاف اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے‘ بلکہ معاشی استحصال (چاہے وہ سود ہو یا کسی اور شکل میں) کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا بزور انسداد کرتا ہے اور اس کو معاشرے کے لیے باعثِ نزاع اور معاشی جبر قرار دیتا ہے۔

۳- سیاسی آزادی اور حریت

سیاسی عمل میںآزادانہ شرکت قرآن کے نزدیک ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ سیاسی انصاف‘ حمایت و مخالفت کا حق ‘ آزادی اور حکومتی امور میں شرکت امن و سکون کی بنیادیں ہیں۔

۴- تنقیدی سوچ اور غوروفکر پر مبنی رویہ

معاشرتی عدل کا چوتھا نکتہ قرآنی تعلیمات کے مطابق عالمی امن کے قیام کے لیے انفرادی اور سماجی معاملات میں انسان کے اندر تنقیدی سوچ‘ غوروفکر اور شعور کا پیدا کرنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے امن کا قیام اس وقت تک ناممکن ہے جب تک افراد اور معاشرہ دونوں اپنے معاملات میں راستی کا رویہ نہیں اپنا لیتے۔

انفرادی اور اجتماعی پالیسی سازی کا قریبی تعلق معاشرے میں مروجہ تنقیدی رویوں کے ساتھ ہے۔ تنقیدی نقطۂ نظر سے مراد کسی شخص کی ذاتی پسند و ناپسند نہیں بلکہ عقل کا صحیح‘ معروضی اور متوازن استعمال ہے۔ اجتماعی منصوبہ بندی اور پایدار امن کے لیے اس کا وجود ایک بنیادی ضرورت ہے۔

۵- صنفی تعلقات

اسلامی تصورحیات میں امن و سکون‘ صنفی تعلقات اور جنسی اخلاقیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ غیراخلاقی جنسی تعلق کو قرآن نہ صرف فحش‘ بلکہ ایک بڑی خیانت‘استحصال اور معاشرے کی ’’بیمار‘‘ ذہنیت کی عکاسی قرار دیتا ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے باقی مذاہب کے برعکس اسلام تجرد اور رہبانیت کی زندگی اختیار کرنے کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کے نزدیک خاندان کے ادارے کا قیام‘ معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کا فریضہ ہے کہ وہ غیرشادی شدہ لوگوں کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کرائے:

تم میں سے جو مرد اور عورت مجرد ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے امیر بنادے گا۔ اللہ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (النور۲۴:۳۲)

اسلام نہ صرف بیوہ کو شادی کی اجازت دیتا ہے ‘ بلکہ خاندان اور بڑے کنبے کی تعریف و توصیف بھی کرتا ہے اور اس پر اُبھارتا ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے سے اسلام جنسی بے راہ روی سے بچاتا ہے اور معاشرے میں امن و سکون اور اخلاقی فضا کو قائم کرتاہے۔

۶- مذھبی آزادی

اسلامی تصور عدل کا چھٹا اہم پہلو مسلمان معاشروں میں مذہبی آزادی اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ مذہبی آزادی کے حق کو قرآن میں امن و انصاف قائم کرنے کے لیے بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں آتا ہے:

دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ (البقرہ ۲:۲۵۶)

۷- قانونی انصاف

بے لاگ قانونی انصاف کا حصول بھی عدل ہی کا ایک پہلو ہے اور اس کا اطلاق مذہب‘ رنگ و نسل‘ صنف اور کسی انسان کے سماجی مقام و مرتبے کے تعصب سے بلند ہے۔ قرآن کہتا ہے:

اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجائو‘ راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جائو‘ کسی قوم کی عداوت تمھیں خلافِ عدل پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو‘ یقین مانو کہ   اللہ تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔ (المائدہ ۵:۸)

ایک اور اہم بات معاشرے میں کثیریت (pluralism) کا فروغ‘ مذہبی اور مسلکی آزادی اور اس کا احترام ہے۔ اس کی وجہ سے مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ اکٹھے ایک معاشرے میں امن وسکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

عدل وا نصاف کی ان سات جہتوں کا تعلق مسلمانوں یا کسی خاص وقت اور خاص جگہ کے ساتھ نہیں ہے‘ بلکہ یہ آفاقی اخلاقی اصول ہیں جو عالمی مکالمے کی اساس اور بنیاد ہیں اور انھی کے ذریعے امن وسکون‘ عدل و انصاف اور باہمی تعاون کو فروغ ملتا ہے‘ اور یہ اصول ایسی دنیا کی تعمیر کرتے ہیں جس کی بنیاد مذہبی آزادی و رواداری‘ انسانی جان کے احترام اور نشوونما اورفکرونظر کی آزادی پر ہو۔

مسلمان فلاسفر‘ مثلاً الغزالی (م: ۱۱۱۱ئ) اور شاطبی (م: ۱۳۸۸ئ) کے خیال میں اوپر بیان شدہ نکات میں سے پانچ نکات الہامی قانون‘ یعنی قرآن و سنت کی بنیاد بنتے ہیں۔ قرآن کی بہت سی تعلیمات اور احکامات انھی اصولوں کی بنیاد پر ہیں۔ ان اصولوں کی آفاقیت اور اسلامی اصولوں (توحید اور عدل) کے ساتھ عقلی تعلق‘ ان کو ہر ایک کے لیے قابلِ عمل بناتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا ثقافت سے ہو‘ اور یہی چیز معاشرے میں امن و انصاف کو دوام بخشتی ہے۔

یہ آفاقی اور غیر فرقہ وارانہ اصول امن کے عالمی مکالمے کی بنیاد ہیں اور شفاف سماجی ایجنڈے کی اساس۔ یہ اصول امن کے قیام اور سیاسی‘ سماجی اور معاشی انصاف کے نفاذ کے لیے بنیادی شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آج‘ جب کہ عالمی طور پر ’’سیکولر بنیاد پرستی‘‘ اپنے غیرجامد اور ہرلمحے بدلتے ہوئے خیالات اور اخلاقیات کے ساتھ سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ قانونی اور تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ‘اور آفاقی عالمی اقدار کی جگہ لادین اور سرمایہ دارانہ اقدار فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں‘ امن و سکون اور عدل و انصاف ہر شخص کی ذاتی پسند و ناپسند اور سوچ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ’’آفاقی اخلاقی قدروں‘‘ کی جگہ مادیت کا دور دورہ ہے۔ اس خلا کی وجہ سے معاشرے میں تصادم برپا ہے۔ کثیریت‘ انصاف اور امن (داخلی اور خارجی)‘ اس سیکولر تہذیب کا شکار ہوگئے ہیں۔

امن و انصاف کا خواب حقیقت کا روپ کیسے دھارے؟ شاید اس کا جواب ایک ’’اخلاقی فورس‘‘ کے قیام میں مضمر ہے جس میں وہ تمام مذہبی اور سیکولر عناصر شامل ہوں جو تشدد‘ سماجی اور معاشی ناانصافی‘ استحصال اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف متحد ہوں۔

دانش وروں‘ مذہبی قائدین اور پروفیشنل پر مشتمل یہ ’’اخلاقی فورس‘‘ نہ صرف لوگوں کو حقیقی امن کی آگاہی دے سکتی ہے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر راہِ عمل بھی متعین کرسکتی ہے۔ (Policy Perspectives‘اسلام آباد‘ اپریل ۲۰۰۴ئ)