مارچ۲۰۰۵

فہرست مضامین

کتاب نما

| مارچ۲۰۰۵ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

رسولِ عربیؐاور عصرِجدید‘ سیدمحمداسماعیل۔ ناشر: احمد پبلی کیشنز‘ قومی پریس بلڈنگ‘ نزد  ایم اے او کالج‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے ۔

زیرتبصرہ کتاب کا موضوع سیرت النبیؐ ہے‘ لیکن مصنف نے ایک انوکھے انداز سے قلم اٹھایا ہے۔ فاضل مصنف نے کتاب کے پہلے حصے میں سیرتؐ کے واقعات کو اختصار کے ساتھ‘ مگر ایک متحرک تجربے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ جب قاری کا تعلق‘ اللہ تعالیٰ کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستیؐ سے جڑ جاتا ہے تو پھر مصنف ۱۴۰۰سال پہلے کی فضا کو‘ اکیسویں صدی کے ظلم‘ بغاوت اور لادینیت پر مبنی فساد کے جدید زمانۂ جاہلیت کے مدِّمقابل لاکھڑا کرتے ہیں۔ اس طرح ایمان کی پختگی اور عصرِحاضر کے چیلنجوں کو آمنے سامنے دیکھنے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔

مصنف اگرچہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں‘ تاہم دانشِ برہانی اور عشقِ رسولؐ سے سرشار اور زمانۂ حال کے قلب کی دھڑکنوں سے واقف اور فسادِ دوراں کی رمزوں سے خوب شناسا ہیں۔ قرآن‘ سنت اور ایمان سے وابستگی نے‘ مصنف کو رہنمائی کے لیے دلیل‘ دانش اور ابلاغ کی دولت سے نوازا ہے‘ جس کے نتیجے میں انھوں نے مغربی تہذیب و فکریات کو بڑے عام فہم انداز سے بے نقاب کیا ہے۔ جس میں خصوصاً ڈارون کے نظریۂ ارتقا‘ مارکس کے نظریۂ اشتراکیت اور فرائڈ کے نظریۂ جنس کو اس انداز سے موضوع بحث بنایا ہے‘ کہ تہذیبِ مغرب کے ان سرچشموں کی باطنی کجی اور شرانگیزی بخوبی الم نشرح ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں مغربی فلاسفہ کی اُمہاتِ کتب کے ٹھوس شواہد اور رہنمائوں کے تعامل سے ثبوت لاکر قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کا تجزیہ کیا ہے۔ یوں حیوانیات‘ نفسیات اور معاشیات کے بڑے بنیادی سوالات پر سیرحاصل بحث سامنے آگئی ہے۔

قارئین کی دل چسپی کے لیے ابتدائیے کے چند جملے پیش ہیں: ’’(محمد عربیؐ) کے نام لیوا اب بھی دنیا کے ہر گوشے میں بکثرت پائے جاتے ہیں‘ پڑھایا ہوا سبق بھی خوب صورت جلدوں میں ان کے پاس موجود ہے‘ لیکن ان کے دلوں میں وہ پہلی سی حرارت نہیں رہی۔ ذہن شکوک و شبہات سے لبریز ہیں اور روحِ عمل مفقود ہے--- ان کے تعلیم یافتہ اور ذی اقتدار طبقوں کو یقین ہوچلا ہے کہ افکار اور مسائل کے اقدار اس قدر بدل چکے ہیں کہ [اسلام] کہنہ اور فرسودہ ہوکر رہ گیا ہے۔ قدیم خیال علما اس رجحان کو الحاد اور زندقہ کے نعروں [یا فتووں] سے دبانا چاہتے ہیں‘ لیکن ان کی کوششیں ناکام نظر آتی ہیں۔ خیالات کی کسی نئی کروٹ کو الجھی ہوئی تحریروں اور جذباتی تقریروں سے دبایا نہیں جاسکتا۔… تہذیب مغرب کی نئی روشنیوں: ڈارون‘ فرائڈ اور مارکس کی تعلیم [کا مطالعہ] نہایت سنجیدہ توجہ کا محتاج ہے… ان مغربی نظریات کا تنقیدی جائزہ اور تعلیم‘ اسلام کے ساتھ ان کا ایسا موازنہ جو دانشِ مغرب کو بھی غوروفکر پر مجبور کرے‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ کتاب اسی ضرورت کے مدنظر لکھی گئی ہے‘‘ (ص ۱۱)۔

یہ کتاب‘ جدید تہذیب کے بڑے بنیادی مقدمات پر جامع بحث کرتے ہوئے قاری کا رشتہ سیرتِ رسولؐ سے جوڑتی ہے۔ مصنف نے جدید فکریات کی چمک میں پوشیدہ جہالت کے تاروپود بکھیر دیے ہیں۔ افسوس کہ یہ کتاب گذشتہ ۳۵ برس تک گوشۂ خمول میں پڑی رہی۔ اب یہ تقاضا کرتی ہے کہ خصوصاً اساتذہ اور طلبہ توجہ سے اس کا مطالعہ کریں۔ (سلیم منصور خالد)


عبدالمطّلب ہاشمی (رسولِ اکرمؐ کے دادا)‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی۔ ناشر: اسلامک بک فائونڈیشن‘ ۱۷۸۱ حوض سوئی والان‘ نئی دہلی ۱۱۰۰۰۲۔ صفحات:۱۲۰۔ قیمت: ۵۰ روپے۔

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جب بھی اور جہاں بھی تذکرہ ہوگا‘ ناممکن ہے کہ وہاں آپ کے عہدِطفلی کے حوالے سے جناب عبدالمطّلب بن ہاشم کا ذکرِخیر نہ آئے۔ جناب عبدالمطّلب حضوؐر کے شفیق دادا تھے۔ انھوں نے اپنے کم سن ’دُرِیتیم‘ پوتے کی جس بے پناہ محبت اور شفقت کے ساتھ سرپرستی اور کفالت کی‘ اس بنا پر ننھے حضوؐر کو بھی ان سے بے انتہا محبت ہوگئی تھی۔ ابھی حضوؐر آٹھ سال کے نوخیز بچے تھے کہ جناب عبدالمطّلب نے وفات پائی۔ حضوؐر کو ان کی وفات سے انتہائی صدمہ ہوا۔ مستند روایتوں میں ہے کہ آپؐ اُن کی میت کے قریب کھڑے ہوکر روتے رہے اور جب ان کا جنازہ اٹھا تو آپؐ اس کے ساتھ روتے چلے جارہے تھے۔ اس سے جناب عبدالمطّلب سے حضوؐر کے تعلقِ خاطر کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

زیرِنظر کتاب میں جناب عبدالمطّلب کے سوانح حیات بڑی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ فاضل مصنف نے بالکل درست لکھا ہے کہ جناب عبدالمطّلب‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا ہونے کے شرف کی بنا پر ہمارے لیے اور غالباً ساری دنیا کے لیے ایک عظیم ترین شخصیت ہیں‘ مگر وہ اپنی ذات‘ صفات‘ زمان‘ مکان اور مجموعی شخصیت کے اعتبار سے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔  فی الحقیقت جناب عبدالمطّلب اپنی فیاضی‘ دانش و حکمت‘ خدمتِ خلق اور دوسرے اوصافِ حمیدہ کی بناپر نہ صرف قریشِ مکہ بلکہ عرب بھر میں ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت کے طور پر مشہور و معروف تھے۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بیش تر کتبِ سیّر میں ان کے بہت تھوڑے حالاتِ زندگی ملتے ہیں۔

پروفیسر محمد یٰسین مظہر‘تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے زیرتبصرہ کتاب لکھ کر یہ کمی پوری کر دی ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کی تصنیف میںقرآن حکیم کے علاوہ حدیث‘ سیرت اور تاریخ کی کم و بیش ڈیڑھ سو کتابوں سے استفادہ کیا ہے اور بڑی محنت اور کاوش کے ساتھ جناب عبدالمطّلب کے تمام حالاتِ زندگی فراہم کیے ہیں۔ پھر ان کو نہایت قرینے سے مرتب کر کے نتائج اخذکیے ہیں اور ان کا اندازِ نگارش بڑا شستہ اور عام فہم ہے۔ بلاشبہہ یہ کتاب پروفیسر محمدیٰسین کا قابلِ ستایش کارنامہ ہے اور ساتھ ہی پوری چھٹی صدی ہجری کی تاریخِ عرب (بالخصوص مکّہ و قریش) بھی بیان کر دی ہے۔ اردو کتب تاریخ و سیرت میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اگر کتاب کے عربی الفاظ و اسما پر اِعراب لگا دیے جاتے تو اس کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔ صفحہ ۵۰ پر امیمہ بنت عبدالمطّلب کے شوہر کا نام حجش (ح ج ش) بیان کیا گیا ہے‘ صحیح نام جحش (ج ح ش) ہے‘ غالباً یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے۔ (طالب الہاشمی)


خطۂ خاک یا ارضِ پاک؟ (چند نظریاتی مباحث) پروفیسر فتح محمد ملک۔ ناشر: دوست پبلی کیشنز‘ ۸-اے‘ خیابانِ سہروردی‘ پوسٹ بکس ۲۹۵۸‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۸۶۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

پروفیسر فتح محمد ملک اُردو ادب کے جیّد نقاد اور معروف دانش ور ہیں۔ شعروادب اور نقدو انتقاد کے مسائل پر تو اُن کا جان دار قلم پہلے بھی رواں رہتا تھا لیکن ادھر کچھ عرصے سے انھوں نے بعض قومی و ملّی مسائل (خصوصاً مسئلہ کشمیر اور پاکستان کی نظریاتی اساس) پر قلم اٹھایا ہے اور پے درپے ایسے مضامین لکھے ہیں جو ایک سچے اور کھرے ادیب اور قلم کار کی پہچان ہیں۔ (اُن کے مجموعۂ مضامین کشمیر کی کہانی پر مفصل تبصرہ دیکھیے: ترجمان القرآن‘اکتوبر ۲۰۰۱ئ)

اُن کے ۳۱مضامین پر مشتمل زیرنظر مجموعے کا انتساب ’’نظریاتی محاذ پر ثابت قدمی کی روشن مثال مجید نظامی کے نام‘‘ ہے۔ یہ سب یا ان میں سے بیش تر مضامین نواے وقت میں چھپ چکے ہیں۔ یہ مضامین پاکستان‘ بھارت اور بعض غیرملکی قلم کاروں کے جواب میں لکھے گئے ہیں۔ زیادہ تر دو قومی نظریے‘ قائداعظم‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت‘ اردو زبان اور مشترکہ نصابِ تعلیم کی تجویز کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔

پروفیسر‘ ملک پاکستان کی نظریاتی اساس کے بارے میں ایک واضح تصور  رکھتے ہیں۔ نظریۂ پاکستان سے انحراف اور کشمیر پر پاکستان کے اصولی تاریخی موقف سے روگردانی کو وہ ملتِ اسلامیہ کے لیے خودکشی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں ایک آزاد‘ خودمختار اور ترقی پسند اسلامی معاشرے کی تشکیل اُن کا دیرینہ خواب ہے۔چنانچہ ’’نظریاتی استحکام کی تمنا‘‘ سے سرشار‘ یہ مضامین پاکستان کی نظریاتی اساس کے دفاع کے ضمن میں ایک قلمی جہاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اشتراکی دانش ور طارق علی ہوں یا صحافت کار ایاز امیر‘ بھارتی تجزیہ نگار کلدیپ نیر ہوں یا اسٹاک ہوم یونی ورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسراشتیاق احمد یا ماہرمعاشیات ڈاکٹر اکمل حسین--- اس طبقہ فکر کے دانش ور’علاقائی امن و سلامتی‘کی خاطر ہمیں ’نئے وژن اور نئی حکمت عملی‘ اختیار کرنے اور پاکستان کو ’بچانے‘ کی خاطر کشمیر پر استصوابِ راے کے اصولی موقف سے دست بردار ہونے کی ترغیب دے کر ’سائوتھ ایشین یونین‘ جیسی لغو تجاویز پیش کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ پروفیسر ملک نے ایسے دانش وروں کا فکری اور قلمی سطح پر تعاقب کر کے‘ فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ وہ بجاطور پر سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ اتحاد اور یہ مشترکہ دفاع کس کے خلاف ہوگا؟ دنیاے اسلام کے خلاف اور چین کے خلاف؟--- یقینا‘ جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ’اسلام بے زار یا اسلام مخالف قوتوں کو پاکستان کا آزاد اور خودمختار وجود گوارا نہیں‘۔ چنانچہ ’سائوتھ ایشین یونین کا تصورعام کرنا گویا نواستعماری خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش ہے‘۔ (ص ۵۷)

پروفیسر ملک کا خیال ہے کہ: پاکستانی قوم اس لیے مصائب و مشکلات کا شکار ہے کہ اسے اسلام کے صراطِ مستقیم کے بجاے مُلائیت اور خانقاہیت کی ٹیڑھی میڑھی راہوں پر ڈال دیا گیا ہے (ص ۱۶۰)۔ ان کی یہ تشخیص غلط تو نہیں‘ مگر ہماری رائے میں اس کی ذمہ داری ملّا سے کہیں زیادہ ضمیرفروش اربابِ سیاست‘ جاگیرداروں‘ فوج اور نوکرشاہی پر عائد ہوتی ہے۔ اگر تاریخِ پاکستان کے اوراق اُلٹیں تو معلوم ہوگا کہ اول روز ہی سے اختیار و اقتدار مسلم لیگ‘  جناح لیگ‘ ری پبلکن پارٹی‘ عوامی لیگ‘ کونسل لیگ‘ کنونشن لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ نون لیگ اور ق لیگ کے نام پر متذکرہ بالا چار طبقوں کے پاس رہا ہے اور اب تو یہ سب ایک دوسرے کے پشتی بان بن چکے ہیں۔

پروفیسر ملک کے ان مضامین میں اختلاف کے کچھ پہلو بھی موجود ہیں‘ مثلاً یہ کہنا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مرزا بشیرالدین محمود ہر دو نے جاگیرداری نظام کے شرعی جواز مہیا کرنے میں یکساں داد تحقیق دی ہے‘ بڑی زیادتی ہے۔ جن لوگوں نے سید مودودی کو پڑھا ہے‘ وہ پروفیسر ملک کی بے خبری پر اظہارِ تاسف ہی کریں گے۔ جاگیرداری اس ملک سے کیوں نہ ختم ہوسکی اور ’’پاکستان میں اسلام کے ابدی اصولوں پر مبنی ایک انقلابی معاشی نظام‘‘ کیوں نہ قائم ہوسکا؟ اس لیے کہ پروفیسر ملک کے بقول: ’’قائداعظم کی جیب کے کھوٹے سکّے‘ اس کے برعکس عزائم کے حامل تھے‘‘(ص ۱۵)۔ یقینا سید مودودی کی تحریریں جاگیرداری کے خاتمے میں رکاوٹ نہیں بنیں۔ پروفیسرملک‘ ذوالفقار علی بھٹو کے مداح ہیں‘ اور پاکستان کی آئیڈیالوجی پر بھٹو کے ’غیرمتزلزل ایمان‘ کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخاب میں ’’عوام نے جعلی آئیڈیالوجی کو رد کر کے حقیقی آئیڈیالوجی کو ووٹ دیے‘‘ (ص ۱۴۱)۔ بالیقین اگر ذوالفقار علی بھٹو کے پاس واقعی کوئی آئیڈیالوجی ہوتی یا وہ ’’حقیقی آئیڈیالوجی‘‘ پر (جس کے وہ علم بردار تھے)صدقِ دل سے یقین رکھتے تو جاگیرداری کو ختم کردیتے۔ اصل بات یہ کہ بقول پروفیسر ملک ’’پاکستان کے تمام تر مسائل آئیڈیالوجی سے اس شرم ناک انحراف کا شاخسانہ ہیں‘‘ (ص ۱۳۰)۔ فکروبیان کے جزوی اختلاف کے باوجود‘ مجموعی طور پر یہ ایک قیمتی کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


Gun and Political Development in the Sub-continent [بندوق اور برعظیم میں سیاسی ارتقا] بریگیڈیر (ر) شمس الحق قاضی۔ ناشر: شہریار پبلی کیشنز‘ سی اے ۵۸‘ سیٹلائٹ ٹائون‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۲۴۹۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

عسکری امور کے ماہر اور سیاسی و سماجی تجزیہ نگار کی حیثیت سے جناب شمس الحق قاضی کا نام محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ وہ ان معدودے چند فوجی افسروں میں سے ہیں جو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ‘ اپنے علمی اور تاریخی ورثے سے بھی بخوبی آگاہی رکھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم  یہ کہ وہ قومی و ملّی شعور اور دینی جذبے سے بھی سرشار ہیں۔ قاضی صاحب موصوف ملک و ملّت کے مسائل پر برابر سوچ بچار کرتے ہیں اور اپنے مطالعے اور نتائجِ فکروتحقیق سے اہلِ ملک و ملّت کو بواسطہ قلم و قرطاس باخبر رکھنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

زیرنظر کتاب اُن کی برسوں کی علمی تحقیق کا حاصل ہے۔ اس میں بارود کی ایجاد سے  لے کر جدید زمانے کی توپوں اور میزائلوں تک کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ بارود کا استعمال حربی تاریخ میں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ سب سے پہلے مسلمانوں نے عیسائیوں کے خلاف باقاعدہ توپ خانہ استعمال کیا۔ جدید دور کی راکٹ سازی سلطان حیدر علی والیِ میسور کی مرہونِ منت ہے۔ اس سے پہلے مسلمان منجنیق کا کامیاب تجربہ کرچکے تھے جسے انگریزی میں مشین کا نام دیا گیا۔

مغلوں کے بعد سکھوں نے توپ خانے سے کیسے فائدہ اٹھایا؟ اور چھوٹی بڑی توپوں نے بسااوقات کسی لڑائی میں کیسے پانسا پلٹ دیا؟ قاضی صاحب نے تاریخی حوالوں کے    ساتھ زیرِنظر کتاب میں اس کی پوری تفصیل پیش کی ہے۔ تاہم یہ کتاب خشک‘ فنی حقائق یافقط       بندوق و بارود کے کوائف پر مشتمل نہیں بلکہ برعظیم کے سیاسی مدوجزر کا ایک روشن آئینہ بھی ہے۔ خصوصاً اس تناظر میں کہ توپ خانے اور جنگی ہتھیاروں نے کس طرح سیاست کے نشیب و فراز کو متاثر کیا۔ مصنف یہ بھی بتاتے ہیں کہ مدمقابل پر غلبے اور اسے شکست دینے کا انحصار محض توپوں اور دیگر جنگی ہتھیاروں پر نہیں ہوتا بلکہ اصل چیز وہ عسکری روح ہے جو کسی فوج کے جسم و جان میں سرایت کرکے اسے فتح سے ہم کنار کرتی ہے۔ انھوں نے مثالیں دے کر بتایا ہے کہ مغلوں کے زوال میں بنیادی کردار فوجی افسروں کی آرام طلبی‘ بزدلی اور غداری کا تھا۔

کتاب میں متعدد تصاویر اور دستاویزات بھی شامل ہیں۔ مصنف موضوع پر قابلِ رشک مہارت اور دسترس رکھتے ہیں۔ انھوں نے عربی اور فارسی مصادر سے بھی استفادہ کرتے ہوئے کتاب کو نادرمعلومات سے مزین کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس اہم علمی تحقیق کو اُردو میں بھی شائع ہونا چاہیے۔ (ر-ہ)


شیخ احمد یاسین شہید ‘ ڈاکٹر مفکر احمد۔ ناشر: القدس پبلی کیشنز‘ لاہور۔ صفحات: ۵۱۲۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

’’ہم نہ موت سے ڈرتے ہیں نہ کسی کے سامنے جھکتے ہیں۔ ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے: عزت کی زندگی یا عزت کی موت! جب اپنا قومی وجود خطرے میں ہو تو ہر مرد‘ ہر عورت‘ ہر بچے اور ہر بوڑھے پر مزاحمت لازم ہوجاتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ظلم ہوتا رہے اور ہم کسی دوسرے سیّارے کی مخلوق بن کر چپ چاپ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں‘‘---شیخ احمد یاسین کے یہ الفاظ ان کی تحریک کا بنیادی منشور اور ان کی فکر کا خلاصہ ہیں۔ شیخ جسمانی طور پر معذور لیکن ذہنی اور فکری اعتبار سے اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے    ؎

نگہ بلند‘ سخن دل نواز‘ جاں پُرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے

ڈاکٹر مفکراحمد نے فلسطین کے اس بطلِ حریت اور پیکرِعزم و وفا کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ کتاب میں شیخ کے حالاتِ زندگی‘ ان کے انٹرویو‘ ان کے خطوط‘ اہلِ قلم کے تاثرات اور اہم شخصیات کے مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔ مصنف نے جملہ نگارشات کو خوش اسلوبی سے ترتیب دیا ہے۔ اس سے شیخ احمد یاسین کی پوری زندگی پوری تفصیل اور توانائی کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے یہودی و عیسائی حکمرانوں کے عزائم بھی بے نقاب ہوتے ہیں‘ نیز یہود و نصاریٰ کے آلہ کار بعض نام نہاد مسلم حکمرانوں کا منافقانہ کردار بھی سامنے آتا ہے۔

اس کتاب کو پڑھتے ہوئے‘ قدرتی طور پر ایک مسلمان کا ایمانی ولولہ و جوش تازہ ہوجاتا ہے۔ شیخ کی زندگی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ عزم بلند ہو تو راستے کی مشکلات سدِّراہ نہیں بنتیں۔ اُمت مسلمہ کو ایسے ہی بلند حوصلہ اور جواں عزم رکھنے والے قائدین کی ضرورت ہے جو مادی منفعت اور اقتدار سے بے نیاز ہوکر جذبۂ ایمانی کی حرارت سے مالا مال ہوں۔

کتاب میں شیخ کی چند تصاویر بھی شامل ہیں۔ شہادت کے بعد شیخ کے جسدخاکی کی تصویر یہود کی وحشت و بربریت کی بدترین مثال ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


یوسف عزیز مگسی‘ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ ناشر: مکتبہ شال‘ ۲۷۲‘ اے او بلاک ۳‘ سیٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ صفحات: ۸۵+ ۱۶۔ قیمت: ۷۰ روپے۔

نواب محمد یوسف علی خان مگسی (۱۹۰۸ئ-۱۹۳۵ئ) بلوچستان کے ایک مخلص‘ اولوا العزم اور روشن خیال خادمِ ملک و ملّت تھے۔ گو انھوں نے صرف ۲۷ برس عمرپائی مگر جب تک جیے‘ اپنے پس ماندہ معاشرے میں انقلابی تبدیلیوں اور اپنی قوم کی بیداری اور تعلیمی ترقی اور غلامانہ ذہنیت سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔ بلوچستان میں تعلیمی بیداری‘ سماجی شعور پیدا کرنے میں ان کی کاوشوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ قبائلی اور سرداری نظام میں پرورش پانے کے باوجود‘ وہ صحیح معنوں میں غریبوں کے ہمدرد اور اُن کے لیے تڑپ رکھنے والے شخص تھے۔ انھیں قیدوبند کی صعوبت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔۱۹۳۴ء میں انھیں علاج کے بہانے جلاوطن کرکے لندن بھیج دیا گیا۔ قائداعظم سے بھی اُن کا رابطہ تھا اور وہ علامہ اقبال کی شاعری سے بھی بہت متاثر تھے۔ خود انھوں نے اُردو اور فارسی میں شعر بھی کہے ہیں۔ انگلستان سے واپسی پر وہ ۳۱ مئی ۱۹۳۵ء کو کوئٹہ کے خوفناک زلزلے میں لقمۂ اجل بن گئے۔

یہ صاحبِ دل نوجوان‘ میرجعفر خان جمالی کے بقول: ’’صحیح معنوں میں اپنی درماندہ قوم کو عزت و آبرو سے سیاسی زندگی بسر کرنے کے لیے عمربھرکوشاں رہا‘‘۔ جناب انعام الحق کوثر نے مرحوم کی سیاسی و سماجی‘ علمی و ادبی اور تعلیمی خدمات کا ایک مختصر تذکرہ مرتب کیا ہے۔ وہ اس موضوع پر اس سے پہلے بھی کچھ کام کر چکے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں یوسف عزیز کے مختصر حالات‘ ان کی گوناگوں خدمات کی جھلکیاں‘ شاعری کے نمونے اور ان کے دست نوشت خطوں اور تحریروں کے عکس شامل ہیں۔ (ر-ہ)


چیک بک‘ اخترعباس۔ ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘لاہور۔ صفحات: ۱۰۲۔ قیمت: ۴۵ روپے

زیرنظر کتاب بچوں کے لیے اختر عباس کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ وہ بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں اور انھیںبچوں کی ذہنی کیفیات کو مختلف کرداروں کے ذریعے اجاگر کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ اسی بنا پر انھوں نے بچوں کے مسائل کو بعض کرداروں کی مدد سے اتنی اپنائیت سے پیش کیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے ہر بچہ ان کا دوست ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ یہ کہانیاں انھیں بچوں کا سچا دوست ثابت کرتی ہیں۔

ہمارے اردگرد ایسے بے شمار کردار ہیں‘ جنھیں ہم درخوراعتنا نہیں سمجھتے‘ اور نظرانداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ’’دیمک‘‘ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جس کے والد کو محض اپنے نفع کی فکر ہے اور وہ بچوں کا ذہنی اور دلی دکھ نہیں جان سکتے۔ ’چھیلا‘ اس باپ کے دل کی بپتا ہے جسے اس کے بیٹے نے کسی قابل ہی نہیں سمجھا تھا۔ ’پیمانہ‘ پڑھ کر یقین کرنا مشکل ہے کہ کیا مائیں ایسی سنگ دل بھی ہوسکتی ہیں جو بیٹوں کی سلامتی کے بجاے ان سے ملنے والی دولت کی خواہش مند ہوں۔ ’کمشن‘، ’دربان‘ اور ’قیمت‘ میں بھی ایسے ہی معاشرتی اور سماجی رویوںکابیان ہے جنھیں ہم عام طور پر قابلِ توجہ نہیں سمجھتے۔ بقول علی سفیان آفاقی: ان کی اکثر کہانیاں دکھوں کی کہانیاں ہیں مگر انھی میں سے خوشیوں کی کرنیں پھوٹیں گی۔

ان کہانیوں میں پلاٹ کی بُنت عمدہ‘ اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ نئی نسل بلکہ والدین اور بزرگوں کے لیے بھی یہ کہانیاں سبق آموز ہیں اور زندگی کے چھوٹے مگر مختلف النوع رویوں کو سمجھنے میںمدد دیتی ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے قاری کے دل میں ہمدردی‘ محبت اور خلوص کے جذبات اُبھرتے ہیں۔

کتاب کی حقیقی افادیت اسی وقت ممکن ہے جب قارئین ان کہانیوں کو صرف پڑھ لینے پر اکتفا نہ کریں بلکہ خود کو وقارعظیم (دیمک) سرمد کی والدہ (اندر کی چٹخنی) اور نعیم راٹھور (چیخ) جیسے کردار بننے سے روکیں‘ اور ایسے کرداروں کی مذمت کریں تاکہ معاشرہ ان کے بد اثرات سے محفوظ رہے۔ (قدسیہ ہاشمی)


عہد بے نظیر بھٹو میں حقوقِ انسانی کی زبوں حالی، ڈاکٹر ایچ بی خاں۔ الحمداکادمی‘ ۲جے‘ ۱۸-۱ ناظم آباد‘ کراچی ۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۲۰۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مصنف ایک معروف ریسرچ اسکالر ہیں۔ یہ ان کی بارھویں تالیف ہے جس میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت (۲۰ اکتوبر ۱۹۹۳ء تا ۵ نومبر ۱۹۹۶ئ) میں معاصر اخبارات و رسائل کی مدد سے حقوقِ انسانی کی پامالی (ظلم و بربریت‘ قتل و غارت گری‘ بدعنوانیوں اور رشوت ستانی وغیرہ) کا ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے۔ لوٹ مار‘ ڈاکازنی‘ پولیس کی زیادتیاں‘ اغوا براے تاوان‘ ناجائز اسلحے کی برآمدگی‘ گاڑیاں نذرآتش‘ ٹارچرسیل‘ بھتّے کی وصولی‘ ناجائز گرفتاریوں وغیرہ کے ضمن میں جو کچھ عہدِ بے نظیر میں ہوا‘ یہ اس کی تاریخ وار تفصیل ہے۔ اس سب کچھ کی ذمہ داری براہ راست بے نظیر بھٹو پر تو نہیں عائد ہوتی‘ مگر وہ اس سے بالکل بری الذمہ بھی نہیں ہو سکتیں۔

مؤلف نے اپنے مفصل مقدمے میں اس چشم کشا اور عبرت خیز کتاب کی ترتیب کا جواز پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’انسان اقتدار میں ہو یا عدمِ اقتدار میں‘ ان دونوں صورتوں میں بلکہ ہر صورت میں انسان یا انسانوں کو لذت گناہ سے روکنے والی ایک ہی طاقت ہے--- جسے قوتِ قاہرہ یا اللہ رب ذوالجلال کہتے ہیں‘‘ (ص ۶)--- مؤلف نے اختتامیے میں ’بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ اقتدار‘ کا مختصر احوال بھی بیان کر دیا ہے۔

ڈاکٹر ایچ بی خان کی محنت قابلِ داد ہے۔ یہ تاریخی ریکارڈ مرتب کر کے‘ انھوں نے تاریخ و سیاست کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے ایک مفید معاون مرتب کردیا ہے۔ (ر-ہ)


تعارفِ کتاب

  • اسلام‘ مسلمان اور تہذیبِ جدید‘ (ایک مطالعہ‘ ایک جائزہ)‘ مولانا عبدالماجد دریا بادی(مرتب: محمد موسیٰ بھٹو)۔ سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ‘ ۴۰۰بی‘ لطیف آباد‘نمبر۴‘ حیدرآباد‘سندھ۔صفحات: ۳۹۲۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[صدقِ جدید میں ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۹ء تک شائع ہونے والے شذرات‘ سوالات کے جوابات‘ مراسلات اور مضامین کا انتخاب۔ تاریخی نوعیت کی ان تحریروں میں سے بہت سی‘ آج بھی سبق آموز‘   عبرت خیز اور معلومات افزا ہیں۔]