مارچ۲۰۰۵

فہرست مضامین

بنڈہ آچے میں چند روز

ڈاکٹر انس فرحان قاضی | مارچ۲۰۰۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بلڈوزر نے گندے پانی کے جوہڑ سے ملبہ نکال کر ہمارے سامنے لاپھینکا۔میں اس بلڈوزر کی تصویر لینا چاہتا تھا۔ چند قدم آگے بڑھا تو شدید بدبو میری ناک سے آٹکرائی حالانکہ میں نے ناک پر ماسک چڑھا رکھا تھا۔ ناگواری کے احساس کے ساتھ میں نے اس ملبے پر نظر دوڑائی جو ابھی ابھی میرے سامنے ڈالا گیا تھا۔ کچھ سیمنٹ‘ کچھ اینٹیں‘ کچھ لکڑیاں اور کچھ گلی سڑی سی چیز ایک ڈھیر کی صورت میں پڑی ہوئی تھی۔ میں نے غور سے دیکھا تویہ تین انسانوں کی لاشیں تھیں اور ان سے ناقابلِ برداشت حد تک بدبو اٹھ رہی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں ڈائسیکشن ہال میں مُردوں کی چیرپھاڑ تو میں دیکھ ہی چکا تھا مگر بلامبالغہ اس منظر نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ کچھ لمحات تک تو میں سمجھ ہی نہ سکا کہ یہ کیا ہے۔

الخدمت فائونڈیشن پاکستان اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کا پانچ رکنی وفد ڈاکٹرمحمد اقبال خان کی سربراہی میں ۱۳ جنوری ۲۰۰۵ء کو بنڈہ آچے انڈونیشیا‘سونامی کے متاثرین کی امداد و بحالی کے کام میں تعاون کے لیے پہنچا۔ راقم اس وفد کا رکن تھا۔

آج بنڈہ آچے میں ہمارا تیسرا دن تھا اور ہم اُس علاقے کا دورہ کرنا چاہتے تھے جو سونامی طوفان کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ طوفان کو آئے ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے۔ حدِنگاہ تک تباہ شدہ مکانات‘ گاڑیوں اور کشتیوں کے ڈھیر جن کے ملبے تلے لاشیں دب چکی تھیں اور کہیں کہیں کٹے ہوئے انسانی اعضا بھی نظرآجاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی کو دم لینے کی بھی مہلت نہ ملی ہو‘ اور جو جس حال میں تھا وہیں موت سے ہمکنار ہوگیا۔

ہماری گاڑی آہستہ آہستہ اس ساحل کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں سے یہ قیامت خیز سمندری طوفان زمین پر چڑھ آیا تھا۔ ہمارے ساتھی نے ایک مکان کے پاس سے گزرتے ہوئے اشارہ کیا۔ اس مکان کی دوسری منزل سے ایک کٹا ہو انسانی بازو لٹک رہا تھا۔ یہ منظر اس پورے طوفان کی منظرکشی کے لیے کافی تھا۔ معلوم نہیں مرنے والا اپنے آخری لمحات میں جدوجہد کے کن مراحل سے گزراہوگا۔ اس طرح کے دہشت ناک مناظر قدم قدم پر نظرآرہے تھے۔

جب ہم ساحلِ سمندر پر پہنچے توسمندر کے خاموش پانی سے بھی خوف سا محسوس ہوتا تھا۔ یہیں ساحل پر ایک خوب صورت مسجد بنی ہوئی تھی‘ جس کی چند جالیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘ لیکن عمارت جوںکی توں موجود تھی۔ مسجد کے اندر ریت کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ اس مسجد کے امام نے واقعے کی تفصیلات سنائیں۔ ان کے کہنے کے مطابق طوفان والے روز وہ حسبِ معمول فجر کی نماز پڑھا کر تقریباً سات بجے تک مسجد میں موجود رہے۔ پھر وہ اپنی موٹرسائیکل پر شہر کی جانب چل پڑے اور کچھ دور جاکر ایک چھوٹے سے ہوٹل میں چائے پینے کے لیے رکے۔ اسی دوران زلزلے کے شدید جھٹکے آنے لگے۔ وہ فوراً موٹرسائیکل لے کر اپنے گھر کی خیریت معلوم کرنے کے لیے دوڑے۔ اسی وقت ان کو طوفان آنے کی اطلاع ملی تو وہ واپس اپنی مسجد کی طرف پلٹے‘ لیکن اس وقت تک پانی شہر کے مرکز میں واقع مسجد بیت الرحمن تک پہنچ چکا تھا۔ پانی تقریباً ساڑھے سات سو کلومیٹر کی رفتار سے تقریباً ۱۰میٹر کی بلندی تک آیا اور زلزلے سے نیم تباہ شدہ مکانات اور دیگر تنصیبات کو ناقابلِ شناخت حد تک برباد کر گیا۔

مقامی لوگوں کے مطابق پانی کا زور مسجد بیت الرحمن کے سامنے آکر ٹوٹا جو ساحل سے سات کلومیٹر دور شہر کے وسط میں ہے۔ یہ مسجد انڈونیشیا کی اوّلین مساجد میں سے ہے اور اسے یہاں کے مقامی سلطان نے قبولِ اسلام کے بعد تعمیر کروایا تھا جس کے ساتھ ہی آچے کی ساری قوم نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ آچے کو مکہ کا برآمدہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں اسلام سب سے پہلے پہنچا۔ اسلام کی جڑیں آچے میں انتہائی گہری ہیں اور یہاں کی مقامی حکومت نے اس صوبے میں شریعت نافذ کر رکھی ہے۔ یہ صوبہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن اس سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ بین الاقوامی طاقتیں اس دولت کو انڈونیشیا کے ہاتھ میں دے کر اسے مضبوط نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کے نزدیک آچے کو الگ کرکے برونائی کی طرح ایک نرم و نازک سلطنت تو بنائی جاسکتی ہے لیکن انڈونیشیا کو آسٹریلیا کے مقابلے میں انتہائی کمزور رہنا چاہیے۔

بنڈہ آچے‘ آچے کا دارالحکومت ہے (بنڈہ کے معنی بندرگاہ کے ہیں)۔ یہ شہر سونامی سے بری طرح برباد ہوا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تباہی سماٹرا کے جنوبی ساحل پر موجود شہروں میں ہوئی ہے جہاں ملابونامی بڑا شہر تقریباً صفحۂ ہستی سے مٹ گیا ہے لیکن وہاں اموات کم واقع ہوئی ہیں۔ ہمارے میزبان ڈاکٹر صائفہ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں میں ان کے بزرگوں سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ جب اس قسم کا زلزلہ آئے تو فوراً پہاڑوں کی طرف بھاگو۔ زلزلہ آتے ہی لوگ اونچے مقامات کی طرف دوڑ پڑے اور کچھ دیر بعد سمندر نے ان کے شہر کو نگل لیا۔ سماٹرا کے جنوبی شہروں تک رسائی کا واحد ذریعہ ہیلی کاپٹر ہے کیونکہ سڑکیں اور بندرگاہیں تباہ ہوچکی ہیں۔ یہ علاقے مدد کے سب سے زیادہ محتاج ہیں‘ مگر تمام بین الاقوامی امداد بنڈہ آچے میں آکر ڈھیر ہو رہی ہے اور بیش تر این جی اوز صرف تصویریں کھچوا کر اور اپنی انسانیت دوستی کا چرچا کر کے واپس جارہی ہیں۔ یہاں کے لوگ سفیدفام قوموں کو پسند نہیں کرتے اور کسی بھی مسلمان ملک کی امداد پر انتہائی خوش ہوتے ہیں۔ پاکستان کا نام سن کر ان کے چہرے کھل اٹھتے تھے۔

ہماری ٹیم کے ڈاکٹروں نے مقامی ملٹری ہسپتال میں کئی پیچیدہ آپریشن کیے اور شدید بیمار بچوں کو بروقت طبی امداد پہنچائی۔ یہاں میں اُس مریض کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا‘ جس کی ٹانگ ہمارے ڈاکٹروں کی بروقت مداخلت سے بچا لی گئی‘ وگرنہ آسٹریلیا کے ایک سرجن اس کو بے کار قرار دے کر کاٹنے کے درپے تھے۔ ہسپتال کے انچارج نے پاکستانی ڈاکٹروں کی تعریف کی۔ انھوں نے ہماری ٹیم کے ڈاکٹروں سے سیکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

جمعے کے روز ہم مسجدِبیت الرحمن پہنچے‘ جو اس روز طوفان کے بعد پہلی دفعہ کھل رہی تھی۔ یہاں سے ۴۰۰ لاشیں برآمد کی گئی تھیں جو پانی میں تیر رہی تھیں۔ آج مسجد بالکل صاف ستھری اور بدبو سے پاک تھی البتہ مسجد کا مینار شکستہ حالت میں گزری ہوئی تباہی کا پتا دے رہا تھا۔ یہ مسجد اس شہرکا مرکز ہے اور مقامی لوگوں کی اسلام دوستی کا ثبوت یہ ہے کہ یہ مسجد سب سے پہلی عمارت تھی جو طوفان سے متاثر ہونے کے بعد بحال کی گئی۔ مسجد میں بے پناہ رش تھا۔ لوگ بہت جوش وخروش سے نماز پڑھنے آرہے تھے۔ امام صاحب نے اپنے خطبے میں گناہوں پر معافی مانگنے اور اللہ کی طرف پلٹنے پر زور دیا۔

بنڈہ آچے میں دو روز ہم انڈونیشیا کی ریڈ کریسنٹ کے ہسپتال میں مقیم رہے۔ تیسرے روز ہم نے ایک مکان کرائے پر لے کر اس میں اپنا مستقل مرکز قائم کرلیا۔ آنے والے گروپوں کے لیے تو ہم نے اپنے تجربے کی بنیاد پر مناسب انتظامات کرلیے‘ مگر خود ہم انتہائی سخت حالات سے گزرے۔ سب سے بڑی مشکل خوراک کی تھی۔ تقریباً ایک ہفتہ ہم نے صرف پھل کھا کر گزارا کیا۔ کیونکہ اس کے علاوہ کھانے کی کوئی چیز شہر میں دستیاب نہ تھی۔ مقامی خوراک پاکستانی ذائقے سے بالکل مختلف تھی اور ایک نوالہ بھی حلق سے نہ اترتا تھا۔ دوسری مشکل آرام کی تھی۔ مچھر وافر تعداد میں موجود تھے۔ ایک خاص قسم کی چھپکلی جسے وہ لوگ ’کوکے‘ کہتے تھے (کیونکہ وہ  کو اور کے کی آواز نکالتی تھی) رات کے پچھلے پہر انتہائی بلند آواز نکالنا شروع کر دیتی تھی۔

بنڈہ آچے کا سارا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ ہماری موجودگی میں بھی دو مرتبہ زلزلے کے شدید جھٹکے آئے۔ہر جگہ انڈونیشیا کے دوسرے علاقوں کے لوگ عارضی طور پر کام کر رہے ہیں جو مقامی حالات سے بھرپور واقفیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ بیشتر جگہوں پر غیرملکی این جی اوز نے اپنا راج قائم کر رکھا ہے۔ آچے میں موجود علیحدگی پسند تحریک کی بنا پر تمام غیرملکی این جی اوز کو مارچ کے وسط تک آچے سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ کسی غیرملکی فوج کو آچے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ صرف ملائشیا کی فوج ہمارے جانے سے ایک روز پہلے ایک معاہدے کے تحت شہر میں داخل ہوئی اور نظام سنبھالنا شروع کر دیا۔ ملائشیا کو تعمیراتی میدان میں مہارت حاصل ہے۔ ہماری آچے میں موجودگی تک جو مشینری اور افرادی قوت شہر کی صفائی کا کام کر رہی تھی وہ ناکافی تھی۔

واپسی پر ہم جکارتا کے لیے روانہ ہوئے تو دن کا وقت تھا۔ ائرپورٹ پر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ تقریباً دو گھنٹے قطار میں کھڑے رہنے کے بعد ہماری باری آئی۔ جہاز واپسی کے لیے اڑا تو نیچے حدِّنگاہ تک سبزہ نظر آرہا تھا۔ ساحلوں پر تباہی جہاز سے بھی دکھائی دے رہی تھی مگر ساحل سے ہٹ کر اندر کا علاقہ بہت خوب صورت تھا۔

جکارتا میں آخری دن انتہائی مصروف تھا۔ اس دن ہم نے بچی ہوئی نقد رقم سے ایک بڑی ایمبولینس خریدی اور اسے انسانی کمیٹی برائے آچے (انڈونیشین ہیومینیٹیرین کمیٹی KKIA) کے حوالے کیا۔ اس کے علاوہ ہم نے تقریباً ۲۰ لاکھ روپے کی ادویات ان کے حوالے کیں۔ ڈاکٹرطوطی علویہ صدارتی امیدوار کی یونی ورسٹی میں یتیم خانے کا دورہ کیا۔اس یتیم خانے میں ایک ہزار آچے سے تعلق رکھنے والے یتیم بچوں کی کفالت کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔

’ہدایت عبدالواحد‘ یہاں کی جسٹس اینڈ ویلفیئر پارٹی کے لیڈر ہیں اور ہمارے ساتھ نظریاتی مطابقت رکھتے ہیں۔ آج کل وہ پارٹی صدارت چھوڑ کر پارلیمنٹ کے اسپیکرہیں۔ انھوں نے ہمارا خیرمقدم کیا اور قاضی حسین احمد صاحب کے لیے سلام کہا۔

رات کو الوداع کہتے ہوئے ہمارے میزبان کی آنکھوں کے آنسو یہ پیغام دے رہے تھے کہ پاکستانیوں سے کہنا کہ ہم ایک ہی قوم ہیں اور ایک نہ ایک دن ہم یہ سرحدیں مٹاکر ضرور ایک ہوجائیں گے!