مارچ۲۰۰۵

فہرست مضامین

نئی نسل کے نام٭

نعیم صدیقی | مارچ۲۰۰۵ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

اے فرزند! اے دُختر!

بہت دُور سے ‘مگر درحقیقت بہت قریب سے---موت کے قافلے کی صداے جرس مجھے سنائی دے رہی ہے۔ یہ قافلہ مجھے لے جانے کے لیے آ رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ یہ مجھ تک پہنچے‘ میں اپنی قوتوں کی آخری پونجی اس پر صرف کرنا چاہتا ہوں کہ دل کی محبت کی  باتیں جو بس اسی گھڑی کہنے کی تھیں ‘ان کو تم تک پہنچانے کی فکر کروں۔

O

یہ سربمہر وصّیت نامہ جسے لکھواتے ہوئے میرے ذہن میں سب سے پہلے حضرت سیدنا ابراہیم و اسمٰعیل علیہم السلام کی وہ پاکیزہ تمنّا ضوبار ہوئی جو تعمیر کعبہ کے دوران میں ان الفاظ میں نمودار ہوئی تھی: ’’اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا اطاعت گزار بنا اور ہماری نسل میں سے    اپنی اطاعت کرنے والی ایک امت برپا کر‘‘ ، اور پھر وہ پاکیزہ وصیت کہ: ’’اے میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے ایک طریق زندگی منتخب کر دیا ہے سو اب تم کو موت نہ آئے بجز اس حال کے کہ     تم مسلم ہو‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے سینے میں یعقوب علیہ السلام کے دل کی وہ تڑپ بھی    لہرائی جو بسترمرگ پر اولاد سے بالفاظ ذیل خطاب کرنے کی محرک ہوئی: ’’میرے بعد تم کس کی بندگی و طاعت کرو گے‘‘--- اور پھر ان الفاظ کا وہی جواب سننے کی آرزو مجھے اپنے اندر محسو س ہوئی جو یعقوب علیہ السلام کو ان کی اولاد کی طرف سے ملا تھا کہ: ’’ ہم تیرے اللہ کی اور تیرے آبا ابراہیم اور اسماعیل ؑاور اسحاقؑ کے اللہ کی بندگی و طاعت کریں گے جو واحد اللہ ہے اور ہم اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں‘‘ ! اور پھر میرے ذہن میں لقمان کے وہ کلمات وصّیت بھی نمودار ہوئے جن کو قرآن میں جگہ پانے کی سعادت ملی۔ اور پھر سب سے آخر میں اپنے دور کے سب سے بڑے مسلم شاعر کا وہ جذبہ انگیز نتیجہء کاوش سامنے آیا جو اس نے ’’ سخنے بہ نژادِنو‘‘ کے نام سے قلم بند کیا ہے اور میرا جی چاہا کہ اس صاحبِ درد کے یہ معنی خیز الفاظ دہرا دوں کہ:

لاالہٰ گوئی؟ بگو از روے جاں

تا ز اندام تو آید بوے جاں!

مومن و پیشِ کساں بستن نطاق!

مومن و غدّاری و فقر و نفاق!

شیوۂ اخلاص را محکم بگیر

پاک شو از خوف سُلطان و امیر

عدل در قہر و رضا از کف مدہ

قصد در فقر و غناء از کف مدہ

سِّر دیں! صدق مقال‘ اکلِ حلال

خلوت و جلوت تماشاے جمال!

در رہِ دیں سخت چوں الماس زی

دل بحق بربند و بے وسواس زی!

دیں سراپا سوختن اندر طلب

انتہایش عشق و آغازش ادب!

سترِ زن! یا زوج یا خاک لحد

سترِ مرداں! حفظِ خویش از یارِ بد

گرچہ باشی از خداونداں دہ

فقر را از کف مدہ‘ از کف مدہ

درجہاں جز دردِ دل ساماں مخواہ

نعمت از حق خواہ و از سلطاں مخواہ!

سالہا اندر جہاں گردیدہ ام

نم بچشم منعماں کم دیدہ ام

لاالٰہ کہتا ہے‘ تو دل کی گہرائیوں سے کہہ تاکہ تیرے بدن سے بھی روح کی خوشبو آئے۔ مومن اور دوسروں کی غلامی کرے؟ مومن ہو اور غداری‘ نفاق اور فاقہ مستی اختیار کرے؟ اخلاص کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑ اور سلطان و میر کے خوف سے آزاد ہو جا (صرف اللہ تعالیٰ کا ہو جا)۔ غصّے میں ہو یا خوشنودی میں‘ عدل کو ہاتھ سے نہ دے اور افلاس ہو یا امارت‘ میانہ روی نہ چھوڑ۔ دین کا راز سچ بولنے اور حلال کھانے اور خلوت و جلوت میں حق تعالیٰ کے جمال کا نظارہ کرنے میں ہے۔ دین کی راہ میں الماس کی طرح سخت زندگی بسر کر‘ اللہ تعالیٰ سے دل لگا اور ہر قسم کے وسوسہ سے آزاد ہو۔ دین کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طلب میں اپنے آپ کو سوختہ کر دینا‘ اس کی ابتدا ادب ہے اور انتہا عشق ۔ عورت کا ستر اس کا خاوند ہے یا قبر‘ مرد کا ستر بُری صحبت سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔خواہ تو کتنا بڑا جاگیردار ہو‘ پھر بھی فقر کو ہرگز ہاتھ سے نہ چھوڑ۔  دنیا میں درد دل کے علاوہ کسی اور سامان کی خواہش نہ رکھ‘ جو بھی نعمت چاہتا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگ‘ کسی بادشا ہ سے نہ مانگ۔ میں برسوں دنیا میں پھرا ہوں‘ میں نے دولت مندوں کی آنکھوں میں نم بہت کم دیکھی ہے۔

مجھے اس سے زائد کچھ کہنا نہیں اور میرے دل میں جو کچھ ہے اسے مجھ سے پہلے مجھ سے بہتر لوگ کہہ گئے ہیں۔ لیکن آدمی اپنے دل کی بات اپنی زبان سے اور اپنے لفظوں میں کہہ کر ہی آسودگی پاتا ہے‘ سو میں کہتا ہوں تم سنو!

O

جب یہ وصّیت نامہ اول اول تمھارے ہاتھوں میں دیا جائے گا تو ایک طرف تو میری ہستی اور میری عمر رفتہ کی ساری جھلکیاں اور تمھارے اور میرے تعلقات کی دور تک پھیلی ہوئی یادیں سمٹ کر تمھاری آنکھوں کے سامنے آجائیں گی اور تمھیں وہ خلا بہ شدت محسوس ہو گا جو میری موت سے پیدا ہونے والا ہے اور جسے پُر کرنے کی ذمہ داری اب تمھارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ دوسری طرف تم دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ مہریں توڑتے ہوئے یہ گمان بھی کرو گے کہ نہ معلوم تمھارے باپ نے تمھارے لیے کہیں کوئی خزانہ چھپا رکھا ہو‘ کہیں کوئی ترکہ محفوظ پڑا ہو‘ اور یہ وصیت نامہ اس کی اطلاع کے لیے قلم بند کرایا گیا ہو--- نہیں--- مگر غالباً تم  ایسے پست خیالات سے بسا بلند نکلوگے۔ پر اگر تم ایسے خواب دیکھ سکتے ہو اور تمھاری توجہ تمھاری سطح سے نیچے کی چیزوں کی طرف جا سکتی ہے‘ تو پھر میں تم کو صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمھارے باپ نے نہ کبھی ضرورت سے زیادہ کمایا‘ نہ کبھی کچھ بچایا‘ اور نہ وہ تمھارے لیے سونے چاندی کے ذخائر‘ قطعات اراضی‘ باغات اور محل چھوڑ مرنے کے پروگرام سامنے رکھ کر جیا تھا۔

O

مجھے خوشی ہے کہ میں نے تمھارے لیے کچھ نہیں چھوڑا--- اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے تمھارے لیے بہت کچھ چھوڑا --- میں نے عمر بھر اس بات کی پوری پوری کوشش کی ہے کہ تمھارے دماغوں کو ایسے افکار‘تمھارے قُلوب کو ایسے عقائد‘ تمھاری سیرتوں کو ایسے اصول ‘اور تمھارے عمل کو ایسے محرکات سے مالا مال کر دوں کہ تمھارے پیکر نہ صرف تمھارے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے لازوال خزانے بن جائیں۔

ہم جس دور میں پیدا ہوئے وہ انسانیت کی انتہائی پستی کا دور تھا اور جو ماحول ہمیں نصیب ہوا وہ ’’کافر گر‘‘ ماحول تھا‘ ’’مسلم ساز‘‘ کسی لحاظ سے نہیں تھا--- اور اب یہی ماحول میں تمھارے لیے ترکے میں چھوڑ رہا ہوں۔ مگر اب اس ماحول میں ایک تبدیلی آ چکی ہے جس سے تم فائدہ اٹھا سکتے ہو۔

ایسے گندے دور اور ایسے پلید ماحول نے ہمارے دماغوں میں دنیا کے بد ترین خیالات کی کاشت کی اور پھر ان کی خوب خوب آبیاری کی۔ اس نے ہماری فطرتوں کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ اس نے ہمارے اخلاق کو روگ لگانے میں کسی پہلو سے کوتاہی نہیں کی۔ اس نے ہماری روحانی موت کے سامان کرنے میں کسی طرح کی کمزوری نہیں دکھائی۔ اس دور اور اس ماحول کی لپیٹ میں جو آیا‘ اس میں خواہش پرستی پیدا ہوئی‘ اس میں نفس کی غلامی پیدا ہوئی‘ اس میں نفاق پیدا ہوا‘ اس کے ذہن میں تضاد نے اپنے گل کھلائے‘ اس میں بے حیائی نے جڑیں پکڑیں‘ اس میں نفسانیت اور بہیمیت نے چھائونیاں ڈالیں اور اس میں نمایش اور ریانے اپنے اڈے جمائے۔ اُسے تعلیم‘ لٹریچر‘ صحافت اور دوسرے موثر ذرائع سے مجبور کر دیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل ترین سانچوں میں ڈھالنے پر تیار ہو جائے۔ چنانچہ وہ ذلیل ترین سانچوں میں ڈھل رہا ہے اور ہم بھی ان ہی سانچوں میں ڈھال دیے گئے‘بلکہ ہر طرف سے بہ بہا کر آئے اور خودبخود  ان سانچوں کے اندر اتر گئے۔

O

ہم--- ہم کیا ہیں؟

تمھارا باپ‘ تاریکی اور طوفان اور غلاظت کے درمیان پیدا ہوا‘ تاریکی اور طوفان اور غلاظت میں پلا‘ اور تاریکی اور طوفان اور غلاظت کے سائے میں جواں ہوا۔

انھی حالات میں ہم نے اپنے خالق کی آواز سنی۔ یہ آواز تو ہمیشہ سے ہر ایک کے دل میں گونجتی رہی ہے‘ لیکن اس پر متوجہ ہونے کی سعادت جسے مل گئی‘ مل گئی--- اس آواز پر ہم نے لبّیک کہی اور ہمیں ہمارے مقام کا پتا چلا کہ وہ کتنا بلند ہے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا کہ وہ کتنی بھاری ہیں۔

وہ ایک نئی دنیا پیدا کرنے کا فرض تھا جس پر ہم نے لبیک کہی’ ہم نے وہ کڑی اٹھالی جس سے بڑے بڑوں کے دل اِبا کرتے تھے۔ ہم اس قابل فخر مہم کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے جس کی طرف رُخ کرنا ایک ناپاک ماحول میں موجب صد شرم بن چکا تھا۔ ہم نے وہ نعرہ علی الاعلان    بلند کردیا جسے زبان پر لاتے ہوئے خواص و عوام سبھی اپنے اندر احساس کمتری کی لہر اٹھتی دیکھتے تھے۔

O

تمھارے باپ نے جب ’’نظام باطل‘‘ کے خلاف کش مکش کر کے نظام حق کو بپا کرنے کا تہیہ کر لیا تو نظام باطل نے اس سے کہا کہ اس نیت کے ساتھ ایک انچ بھی حرکت کرو گے تو عزت‘  شرف‘ سر بلندی ‘ ترقی اور شہرت کے دروازے تمھارے اوپر بند کر دیے جائیں گے۔ عُہدوں کی کرسیاں تمھارے لیے حرام قرار دی جائیں گی‘  علم و ادب کے میدان میں کوئی خدمات انجام دو گے تو ان خدمات کو صحیح قدر و قیمت کا مقام کبھی حاصل نہ ہو گا‘ تم دن رات محنت کر کے بھی میرے خزانہ ہاے رزق سے پیٹ بھرروٹی نہ پاسکو گے۔

عزیز بچو! جانتے ہو کہ تمھارے باپ نے اس کا کیا جواب دیا؟ میرے خیال میں     تم بہت اچھی طرح جانتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں حق کے لیے ان سارے نقصانات کو قبول کرتا ہوں اور باطل کو راضی رکھ کر جو فوائد حاصل ہوتے ہوں ان سب پہ لات مارتا ہوں۔

جس دن نظام باطل کے خاموش چیلنج کا یہ جواب میں نے دے دیا‘ اس دن گویا میں نے اپنی دنیا بنانے اور تمھارے لیے لذتوں کے اسباب سمیٹنے اور بھاری ترکہ چھوڑ جانے کے سارے پروگرام دریا برُد کر دیے۔

پھر نظام باطل نے کہا کہ تم جس راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہو‘ کچھ معلوم بھی ہے کہ یہ راہ کیسی پرخار راہ ہے۔ اس راستے کے چپے چپے پر بھوک اور فاقہ ہے‘ نفرتیں اور حقارتیں ہیں‘ گالیاں اور الزام تراشیاں ہیں‘ جیل اور پھانسیاں ہیں ‘ ظلم اور تشدد ہیں‘ اور یہاں موت ہر مرحلے پر رقص کرتی نظر آتی ہے‘ یہاں اپنے بیگانے بن کر ڈستے ہیں‘ یہاں رہبر غول بیابانی سے ساز باز کر کے حملہ آور ہوتے ہیں‘ یہاں دوستوں کو دشمنوں میں جا ملتے دیر نہیں لگتی‘ یہاں زہد و تقدس تک کفر و فسق کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ملے گا۔ پھر کیا تمھیں اس وادی جانکاہ میں غبار بن کر پریشان ہو جانا منظور ہے؟

تب تمھارے غیور و جسّور باپ نے کہا کہ ہاں‘ میں ہزار مسّرتوں کے ساتھ ان سارے ممکن حوادث کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

چنانچہ تمھارے باپ نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی قلت اور اپنی بے سروسامانیوں کے ساتھ دشمن کی کثرت اور اس کے سروسامان کی پرواہ کیے بغیر وہ کش مکش چھیڑ دی جو اب پرُزور معرکہ آرائیوں کے ساتھ تمھارے گردوپیش میں جاری ہے۔

اس کش مکش کے لیے اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح تمھارے باپ کو اپنی ساری سیرت کو ادھیڑ کر از سر نو بُننا پڑا ہے‘ اپنی عادتوں سے جنگ کرنی پڑی ہے‘ اپنے پرانے خیالات کی گہری جمی ہوئی جڑیں دماغ سے اکھڑتے ہوئے بہت ہی دور تک چبھنے والا درد محسوس کرنا پڑا ہے‘ روحانی لحاظ سے تحویل قبلہ کرنی پڑی ہے‘ اسے دوستیوں اور دشمنیوں کا رخ بدلنا پڑا ہے۔ اسے   نیا جنم لینا پڑا ہے۔ تم کیا جانو کہ تمھارا باپ کن احوال سے گزرا ہے اور اس نے دوسروں کی چوٹیں کھانے سے پہلے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے خود اپنے اوپر کتنی چوٹیں لگائی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسے باپ کی کوتاہیوں پر رنجیدہ ہونے کے بجاے تم اس پر رحم کھائو گے اور اس کے لیے دعاے مغفرت کرو گے۔

O

نظام باطل کے بنائے ہوئے ماحول کے انسان اپنے شعوری فیصلے کے تحت چاہے کتنی ہمہ گیر تبدیلیاں اپنے اندر بپا کر لیں‘ لیکن وہ کبھی بھی پوری طرح اپنے آپ کو آلودگیوں سے پاک نہیں کر سکتے۔ افسوس کہ تمھارا باپ اگرچہ ساری عمر اپنی ذہنی ساخت اور اپنی سیرت کی تعمیر کو درست کرنے میں مصروف رہا لیکن اسے بعض کمزوریاں ساری عمر چمٹی رہیں اور وہ ان سے پوری طرح نجات نہ پا سکا۔ اسے اس بات کا بہت ہی صدمہ ہے کہ اس کی ان کمزوریوں کا پرتو تم پر پڑکے رہا ہو گا۔

میں نے دراصل ساری عمر یہ چاہا کہ تم کو ایک ’’مسلم‘‘ کی اٹھان پر اٹھائوں۔ اس کے لیے میں نے گھر میں ایک ماحول بنایا‘ اس کے لیے میں نے اپنے اوپر کئی پہلوئوں سے جبر کیا‘ اپنے جذبات کی باگ مضبوطی سے تھامی‘ اپنی بہت سی خواہشوں کو پامال کیا ‘ اپنے بہت سے ارمان دل کے دل میں دبے رہنے دیے۔ پھر اپنی بے شمار کمزوریاں تھیں کہ جن کو تم سے پوری طرح چھپانے کی کوشش کی۔ پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوں کہ میں اس مہم کو ٹھیک سے مکمل کر کے رخصت ہو رہا ہوں۔

O

میں تم سے اس بات پر بھی معافی چاہتا ہوں کہ میں نے تم کو تمھاری بہت سی خواہشات سے روک کے رکھا ہے۔ میں نے تم کو بے شمار دل چسپیوں سے محروم کیا ہے۔ میں نے بہت سی مروجہ تفریحات سے تمھیں لطف اندوز ہونے نہیں دیا۔ میں نے تمھیں بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے اور وسیع کاروبار چلانے کے لیے نہ تربیت دی اور نہ وسائل مہیا کیے۔ میرے جگر کے ٹکڑو!--- میں نے تم پر زیادتی نہیں کی بلکہ میری یہ خدمت ایسی ہی ہے جیسے ایک باپ نباتاتی گھی کی مٹھائیوں سے‘ گندے سڑے پھلوں سے اور جراثیم ملے شربتوں سے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے تمھارے اخلاق و سیرت کی صحت و قوت کو ہر خطرے سے بچانے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ میں اپنے گندے ماحول کی رگ رگ سے چونکہ واقف تھا‘ اس لیے میں اس کی یورشوں کے خلاف بالکل اسی طرح تمھارے بچائو کی سعی کرتا رہا جیسے ایک مرغی‘ اپنے چوزوں کو دشمن کی زد سے بچانے کے لیے خاص اہتمام کرتی ہے۔ میں نے تمھیں اس طرح سینت سینت کر رکھا ہے جیسے کوئی اپنی ساری عمر کی کمائی کو چوروں اچکوں سے بچا بچا کر رکھتا ہو۔ میں نے تمھاری حفاظت اس طرح کی ہے جیسے روپے سے بھری ہوئی جیب کی حفاظت جیب کتروں سے کی جاتی ہے۔ میں سائے کی طرح ہمیشہ تمھارے ساتھ رہا‘ میں نے تم کو کبھی اکیلا چھوڑنا گوارا نہیں کیا‘ میں تمھارے گردوپیش میں ہر طرف تمھارے خلاف سر اٹھانے والے خطروں کو سونگھتا پھرا ہوں۔

یہ آخر کس لیے؟

یہی بات بتانے کے لیے میں نے یہ وصّیت نامہ لکھوایا ہے!

O

ہم نے جس جنگ کو شروع کیا تھا‘ وہ اگرچہ روزبروز گرم سے گرم تر ہوتی جا رہی ہے اور بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ عنقریب حق کی فتح اور باطل کی شکست پر اس کا خاتمہ ہونے والا ہے‘ لیکن اس کا امکان بھی موجود ہے کہ یہ جنگ کچھ اور طول پکڑے تو اس صورت میں تمھارا باپ تم سے --- اور حق پرستوں کی موجودہ نسل اپنے سلیم الفطرت اخلاف سے--- یہ توقعات رکھتی ہے کہ ان کے بعد تم سب اس جنگ کو لڑ کر فتح تک پہنچائو گے۔ یہی وہ مقصد تھا کہ جس کے لیے میں نے تمھیں ایک مسلم‘ ایک مجاہد‘ ایک سپاہی‘ ایک غیور و جسور اور با اصول انسان کی اٹھان پر اٹھایا ہے۔

یہ مقصد جو میرے سامنے تھا‘ اگر تم اس کو قبول کرتے ہو جیسے کہ مجھے تم سے توقع ہے تو ابھی اسی وقت خدا کے سامنے سر اطاعت کو زمین پر رکھ کر یہ عہد استوار کرو کہ ہم اس مقصدِ حق کی کامیابی کے لیے اپنے سارے دل‘ اپنی ساری روح اور اپنی ساری جان کے ساتھ جدوجہد کریں گے۔

                اور اگر---  خدانخواستہ--- جس کی مجھے تم سے دُورپار کی کو ئی خفیف سے خفیف توقع بھی نہیں--- بہر حال خدانخواستہ اگر تم اپنے باپ کے مقصدِ حق کو اور اس کی ذمہ داریوں کو اٹھانے سے کترائو اور اپنی بُزدلی اور بے غیرتی کی وجہ سے میرے اس ترکے کو نظام باطل کے ہاتھ دنیوی فوائد کے لیے بیچ ڈالو تو پھر میں اور توکچھ نہیں کر سکتا‘ اور تمھارے فیصلوں کو بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا‘ لیکن اتنی درخواست تم سے ضرور کروں گا کہ پھر مجھ سے اپنے آپ کو منسُوب کر کے میری روح کو تکلیف نہ پہنچانا۔ میرے لیے اس سے زیادہ مایوس کن حادثہ کوئی نہ ہوگا کہ گوشت کے جن لوتھڑوں کو پال پوس کر میں نے ایک ناپاک قوت کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا ہو‘ وہ اداے فرض کا لمحہ آنے پر اپنے آپ کو‘ اپنے باپ کے اصولوں کو اور اس کے مقاصد کو‘ دشمنوں کے ہاتھ جاکے فروخت کر دیں۔

لیکن ان شاء اللہ ایسا کبھی نہیں ہو گا!

O

جائو! میرے خالی کیے ہوئے مورچوں پر کھڑے ہو جائو‘ لڑو‘ ٹکرائو‘ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائو‘ یہاں تک کہ یا تو باطل کا عَلَم قطعی طور پر سرنگوں ہو جائے‘ یا تمھاری لاشیں خاک و خون میں تڑپتی نظر آئیں۔ یاد رکھو! کہ میں نے تم کو دنیا کے عیش لوُٹنے کے لیے نہیں پالا ہے۔

پس دو باتیں گرہ میں باندھ لو!

ایک یہ کہ حق کا بول بالا کرنا وہ پاکیزہ نصب العین ہے جو تمھارے باپ کو خدا کے    انبیا وصلحا سے ورثے میں ملا ہے اور اسی کو میں تمھارے لیے ترکے میں چھوڑ رہا ہوں۔ ہر لحظہ اس پر نگاہیں جمائے رکھو!

دوسرے یہ کہ مہلک ماحول تم کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس سے خبردار رہو‘ اس کے خفیہ حملوں کی مدافعت کی فکر کرو‘ اور اس کے جادو کا توڑ فراہم کرو‘ اس کے دام کے ’دانوں‘ کی حقیقت پر نگاہ رکھو!

اگر نظام حق کا قیام تمھارے ہاتھوں ہو گیا اور اس کی پاکیزہ فضا میں ایک لمحہ بسر کرنے کی سعادت بھی تم کو مل گئی تو تم محسوس کرو گے کہ وہ ایک لمحہ ہزار سال سے زیادہ قیمتی‘ زیادہ میٹھا اور زیادہ دل چسپ ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو ہم اور تم اور وہ سارے لوگ جو اپنے سے بعد والوں کے لیے کسی آنے والے زمانے میں ایک جنت خیروفلاح کی بنیاد ڈال رہے ہیں‘ دنیا کی اس  عظیم ترین نیکی کو قائم کرنے میں حصہ دار ہیں کہ جس کے فیضان کی وسعتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس پاک مہم میں قوت کی جو ایک رمق‘ مال کا جو ایک حبّہ‘ خون کا جو ایک قطرہ‘ اور وقت کا جو ایک پل کسی نے خلوص سے صرف کیا ہوگا‘ عنداللہ اس کی جزا کیا ہو گی!

O

ایک آخری بات!

میرا مقصد تمھیں نہ اپنی ذات کی طرف بلانا ہے اور نہ کسی ذاتی عقیدہ و تصور کی طرف۔ نظریہ اور نظام اور طریق انقلاب صرف وہی برحق ہے جس کی تعلیم خدا کی کتاب اور رسول    صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ملتی ہے---میں چاہتا ہوں کہ تم نہ مجھے دیکھو‘ نہ کسی اور شخصیت کو--- بلکہ اپنا رشتہ سیدھا خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استوار کرو۔ اُدھر سے جو اصول اور ہدایات ملیں ان پر سختی سے کاربند رہو۔ اپنے نفس یا دوسروں کی خاطر ان میں سے نہ کسی چیز کو چھوڑو‘ نہ اضافہ کرو‘ اور نہ ا حکام میں ترمیمیں کرو۔

اگر کتاب و سنت سے رشتہء وفا استوار کر لو تو وقت کے نت نئے نظریات اور باطل کے فتنہ آفریں اسالیب کار سے نہ تم مرعوب ہو گے اور نہ اقتدار‘ شان و شوکت اور دولت کے مظاہروں کا جادو تم پر چل سکے گا۔

خدا تمھیں قول و عمل کے تضاد سے بچائے اور تم ایمان اور مفاد پرستی میں جوڑ لگا کر منافقانہ طرز عمل اختیار کرنے سے مجتنب رہو!

                اللہ کا کام کرتے ہوئے اللہ ہی تمھار حامی و ناصر ہو!

(ٹھنڈی آگ ‘مکتبہ چراغ راہ کراچی‘ ۱۹۵۷ ‘ ص ص ۲۹۴- ۳۰۴)