مضامین کی فہرست


فروری ۲۰۱۹

 طاقت کے نشے میں چور کسی بھی ملک کے لیے جنگ کی دلدل میں کود جانا بہت آسان، لیکن اس سے جان بچاکر واپس نکلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہر حملہ آور کی طرح اب امریکا بھی ’مقبوضہ‘ افغانستان سے نکلنے کی راہیں تلاش کررہا ہے۔ گذشتہ صدی کے اختتام پر ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روسی سلطنت اور ۱۹ویں صدی کے دوران ۱۸۴۲ء میں برطانیا بھی اسی انجام کو پہنچا تھا۔ اشتراکی روس تو اپنے الحادی نظریات سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ باقی ماندہ روس کو نہ صرف وسطی ایشیا کو بھی آزاد کرنا پڑا، بلکہ مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک کو اپنی ’نظریاتی‘ اور سیاسی غلامی سے آزادی دینا پڑی۔ برطانیا جس کے راج میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اپنے جزیرے تک محدود رہ گیا۔ اب اس کی تقریباً آدھی آبادی کا خیال ہے کہ وہ یورپی یونین میں باقی رہے تو باقی ماندہ استقلال و امتیازی مقام بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ آدھے برطانوی شہری سمجھتے ہیں کہ یورپی یونین سے نکلے تو شدید اقتصادی بحرانوں میں گھر جائیں گے۔
امریکا، افغانستان میں وہی غلطیاں کرنے پر تلا ہوا ہے، جن کا ارتکاب افغانستان پر قبضے کے آخری اَدوار میں تباہی کا نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کے باوجود، برطانیا اور اشتراکی روس نے کیا تھا۔ گذشتہ دونوں عالمی طاقتوں کی طرح اب امریکا بھی اسی انجام سے دوچار ہوا چاہتا ہے۔ اوّل الذکر دونوں وہاں سے نکلنا چاہتے تھے، لیکن وہاں اپنا قبضہ بھی باقی رکھنا چاہتے تھے۔ دونوں نے اپنے بعد وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں باقی رکھنے پر اصرار کیا۔ اب تیسرا طالع آزما امریکا بھی وہاں اپنے مضبوط فوجی اڈے باقی رکھنے کی ضد پر اڑا ہوا ہے، اور وہاں سے جانے کے بعد افغانستان کی حکومت اور نظام بھی من مرضی کا چاہتا ہے۔
بظاہر تو افغانستان پر امریکی حملے کی فوری وجہ نائن الیون کے واقعات بنے، لیکن اس کی خواہش و تیاریاں گذشتہ کئی عشروں سے جاری تھیں۔ اشتراکی روس کے خلاف جنگ میں افغان عوام کی مدد کرکے ایک ہدف حاصل کرنا یقینا اس کے پیش نظر تھا۔ افغانستان اور وسطی ایشیا کے وسیع تر قدرتی وسائل تک رسائی بھی غیر علانیہ، مگر بڑا واضح ہدف تھا۔ اشتراکی روسی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں کوئی مستحکم حکومت نہ بننے دینا بھی اسی امریکی ہدف کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے کے لیے تھا۔ مختلف افغان دھڑوں اور جنگی سرداروں کے اختلافات اور لڑائیوں کی آگ پر مسلسل تیل چھڑکتے رہنا بھی انھی مقاصد کے حصول کے لیے تھا۔ لیکن آخر کار قرآن کریم کا اصول ایک اٹل حقیقت کی صورت میں سامنے آگیا:
 وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ ط(الفاطر۳۵: ۴۳)، اور بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ 
اس الٰہی سنت کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔ افغانستان اور عراق میں ہونے والے نقصانات کا شمار کرنے کے لیے ایک امریکی باشندے کی بنائی ہوئی پیشہ ورانہ ویب سائٹ icasualties.org  کے مطابق افغانستان اور عراق میں گذشتہ ۱۸ برسوں کے دوران امریکا اور اس کی حلیف فوجوں کے۸ہزار ۴سو ۵۰  فوجی قتل اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ ان میں سے صرف امریکا کے جہنم واصل ہونے والے فوجی ۶ہزار ۹سو ۸۵ تھے۔ بعض دیگر آزاد ذرائع مرنے والے حملہ آور فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔ امریکا کی اس مسلط کردہ افغان جنگ کی آگ میں بھسم ہونے والے امریکی مالی وسائل ۳ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔ اب بھی ہر آنے والا دن ان مالی و جانی نقصانات میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ عراق میں موجود ایک لاکھ ۳۵ہزار فوجیوں پر ایک ہفتے میں ایک ارب ڈالر خرچ ہورہے تھے۔ آخرکار ، امریکی مسلح افواج کی بڑی تعداد وہاں سے نکالنا پڑی، لیکن مداخلت و قبضہ اب بھی دو طرفہ نقصانات و تباہی کا سبب بن رہا ہے۔

امریکا کا جنگی جنون

ایک امریکی دانش وَر اور جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹر جوئل اینڈریس نے اس امریکی جنگی جنون کے بارے میں اپنی کتاب Addicted To War  (’جنگی جنون‘ ترجمہ: محمد ابراہیم خان) میں ان امریکی جنگوں اور امریکا پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۹۱ء میں لکھی گئی تھی۔ افغانستان پر امریکی فوج کشی کے بعد نئے اضافوں کے ساتھ ۲۰۰۲ء میں دوبارہ شائع ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں: 
امریکا میں جنگی جنون پانچ عشروں سے بھی زائد مدت سے پروان چڑھتا آیا ہے۔ امریکا نے اپنی جنگی مشین کو برقرار رکھنے اور دنیا کو وقتا فوقتاً اپنی بھرپور طاقت دکھاتے رہنے پر کم و بیش ۱۵ ہزار ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ جنگی جنون نے امریکاکو کس قدر نقصان پہنچایا ہے؟ اس کااندازہ لگانے کے لیے یہی دیکھ لینا کافی ہے کہ عوام کی محنت کی کمائی سے وصول کیے ہوئے ٹیکسوں کی مدد سے فوج اور اسلحہ خانے کو جو کچھ دیا جاتا رہا ہے اس کی مالیت ملک کے تمام اثاثوں کی مجموعی مالیت سے بھی زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ امریکا میں جتنے پُل، سڑکیں، واٹر سسٹم، اسکول، ہسپتال، اسٹیڈیم، مکانات، شاپنگ مال، گھریلو آلات، سرکاری مشینری، گاڑیاں اور دوسری بہت سی چیزیں ہیں ان کی مجموعی مالیت بھی اس خطیر رقم سے زیادہ ہے، جو اَب تک فوج پر خرچ کی جاچکی ہے .... تمام فوجی تنصیبات، فوجی حملے اور سابق فوجیوں کی بہبود کے کھاتے میں جو کچھ خرچ کیاجاتا ہے وہ سالانہ ۸۰ ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ صرف اس ایک مد میں ایک منٹ میں ۱۰ لاکھ ڈالر خرچ ہورہے ہیں… امریکا کی جنگی مشین متحرک رکھنے کے لیے بہت کچھ درکار ہے۔ اس وقت امریکاکے پاس ۱۲ طیارہ بردار بیڑے ہیں۔ ایک طیارہ بردار بحری جہاز کم و بیش ایک ارب ڈالر کا پڑتا ہے… امریکا نے چھے عشروں کے دوران جوہری تجربات کے ذریعے کم و بیش ۴لاکھ ۸۰ ہزار فوجیوں کو ایٹمی تابکاری مواد کے سامنے کھڑا کیاہے۔ ان میں سے بہت سوں کی صحت کے لیے انتہائی پیچیدہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ ہزاروں امریکی فوجی سرطان میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔
اسی کتاب میں ڈاکٹر جوئیل اینڈریس ان جنگی اخراجات کی وجہ سے پورے امریکی معاشرے پر روز بروز مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں، جنھیں دیکھ کر ہر صاحبِ عقل امریکی ذمہ دار کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوجانا چاہیے تھا، لیکن صدافسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دسمبر ۲۰۱۸ء میں یہ اعلان تو کردیا کہ: ’’امریکا، افغانستان میں اپنے باقی ماندہ ۱۴ ہزار فوجیوں میں آدھے فوری طور پر نکال رہا ہے‘‘، اوراس سے ایک دن قبل انھوں نے اسی طرح کا اعلان شام سے اپنی فوجیں نکالنے کے حوالے سے بھی کیا تھا۔ لیکن یہ اعلانات اس الل ٹپ انداز سے کیے گئے کہ خود امریکی انتظامیہ بھی اس کے لیے تیار نہ تھی۔ وزیردفاع اس پر احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے۔ افغانستان میں موجود امریکی عسکری قیادت نے ایسے بیان دے دیے کہ جو اسی امریکی جنگی جنون کو جاری رکھے جانے کا اعلان ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے وضاحت کی: ’’افغانستان میں امریکی کارروائیاں منصوبے کے مطابق جاری رہیں گی‘‘۔ ناٹو افواج کے کمانڈر جنرل سکاٹ ملر بولے: ’’ہمیں افغانستان سے فوجیں نکالنے کے کوئی احکام موصول نہیں ہوئے‘‘۔
دوسری جانب دیکھیں تو خطے میں مختلف امریکی نمایندگان اور ذمہ داران حکومت کی ’شٹل ڈپلومیسی‘ (متحرک سفارت کاری) عروج پر ہے۔افغان نژاد خصوصی امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد پاکستان، افغانستان، خلیجی ریاستوں اور چین میں بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ گذشتہ کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے نئے دور منعقد ہو رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ یہ مذاکرات کئی بار تعطل کا شکار ہوئے اور آخرکار طالبان کی یہ شرط قبول کرلینے کے بعد ۲۱ جنوری ۲۰۱۹ء کو دوبارہ شروع ہوئے کہ:’’ امریکا افغانستان سے مکمل انخلا کا ٹائم ٹیبل فراہم کرے گا‘‘۔ امریکا نے شرط تسلیم کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ: ’’افغانستان کو کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا‘‘۔ مذاکرات دو روزہ تھے، لیکن کئی دن جاری رہے۔ کابل میں قائم افغان حکومت کی شدید خواہش اور کوشش تھی کہ اسے بھی مذاکرات میں شریک کیا جائے، لیکن طالبان نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔

امریکا طالبان مذاکرات اور مضمرات

امریکا اور طالبان کے مابین حالیہ مذاکرات کا نتیجہ جو بھی نکلے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے کو ہے۔ ایسے ہر نازک موڑ کی طرح اس موقعے پر تمام اطراف کو انتہائی احتیاط، حکمت، انصاف، حقیقت پسندی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ افغان عوام نے گذشتہ ۱۸ سال کے دوران بدترین امریکی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ ان ۱۸برسوں کے دوران میں امریکی سربراہی میں نیٹو افواج نے قتل و غارت کے کیا کیا نئے ریکارڈ  قائم نہیں کیے۔ مدارس میں حفظ قرآن کی اسناد وصول کرتے ہوئے سیکڑوں ہونہار پھولوں کو    خون میں نہلا دیا گیا۔ شادی کی تقریبات میں جمع خاندانوں اور جنازوں میں جانے والے سوگواروں کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور معصوم عوام سے بھرے بازاروں کو راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔ پورے کے پورے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ دس سالہ سوویت جنگ کے دوران (۲۵ دسمبر ۱۹۷۹ء سے لے کر ۲ فروری ۱۹۸۹ء تک) ۲۰ لاکھ سے زائد بے گناہ افغان شہری شہید کردیے گئے تھے۔ حالیہ امریکی جنگ میں بھی مزید لاکھوں شہری پیوند خاک کیے جاچکے ہیں۔ اسلحے اور بارود کی بارش نے پورا ملک تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس ساری تباہی و بربادی کے باوجود آخرکار امریکا اپنی تاریخ کی یہ سب سے طویل جنگ ختم کرنے پر مجبور ہورہا ہے۔ آغاز میں ان حملہ آور فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے متجاوز تھی۔ صدر اوباما نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق ۲۰۱۴ میں بڑی تعداد میں فوج واپس نکال لی تھی اور صرف ۱۰ ہزار باقی رہ گئے تھے۔ ٹرمپ نے بھی انتخابی مہم میں یہی وعدہ دُہرایا تھا، لیکن انتخاب میں کامیابی حاصل کرتے ہی چار ہزار مزید فوجی بھیج دیے۔اب اسے بھی گھٹنے ٹیکنے پڑرہے ہیں۔ 
اس نازک ترین مرحلے پر تمام افغان اطراف کو اپنے تمام گذشتہ تلخ تجربات کو یاد رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ 

خانہ جنگی کا خدشہ

اُمت مسلمہ کی تاریخ میں کئی بار یہ سانحہ ہوا کہ میدان جنگ میں جیتی ہوئی لڑائی، جنگ ختم ہونے کے بعد ہار دی گئی۔ ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کا آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا تو اُمید پیدا ہوئی کہ خونِ شہداء سے سیراب اس سرزمین کو اب سکون و سلامتی اور تعمیر و ترقی کے دن دیکھنا نصیب ہوں گے۔ لیکن روسی سلطنت نے اپنے انخلا کے بعد اپنی قائم کردہ کٹھ پتلی نجیب اللہ حکومت کو باقی رکھا۔ نتیجتاً جنگ اسی طرح جاری رہی۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے یہ جنگ افغان عوام اور روسی فوج کے درمیان تھی، روس نکل گیا تو اب یہ جنگ براہِ راست افغان دھڑوں کی جنگ بن گئی۔ ایک جانب بالواسطہ روسی سرپرستی کا حامل صدر نجیب اللہ اور دوسری جانب روسیوں کے خلاف جہاد و مزاحمت کرنے والے تمام افغان دھڑے۔ اپریل ۱۹۹۲ء میں بالآخر صدر نجیب کی کٹھ پتلی حکومت بھی زمیں بوس ہوگئی۔ افغانستان میںوہ نازک ترین لمحہ آگیا،جس سے بچنے کے لیے ساری دنیاکی اسلامی تحریکیں اور مخلص رہنما مسلسل کوششیں کرتے رہے تھے،مگر پھر تاریخ نے ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک خود افغان مجاہدین کے مابین خوں ریزی کا بدنما دور دیکھا۔
اشتراکی روس کے خلاف جہاد پر پوری افغان قوم ہی نہیں، پورا عالم اسلام متفق تھا۔لیکن پورا عالم اسلام مل کر بھی جہاد کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کو متحد نہ کرسکا۔ پروفیسر برہان الدین ربانی (مرحوم) اور انجینیر گل بدین حکمت یار کے مابین آرا کا اختلاف پہلے دن سے موجود تھا۔ پروفیسر ربانی صاحب اشتراکی روسی مداخلت کا مقابلہ صرف سیاسی میدان میں کرنے کے قائل تھے، جب کہ حکمت یار صاحب مسلح جہاد ضروری سمجھتے تھے۔ بالآخر سب رہنما جہاد پر تو مجتمع ہوگئے، لیکن دس برس کے دوران کئی معاہدوں اور لاتعداد مصالحتی کوششوں کے باوجود اپنے باہمی اختلافات کی خلیج ختم نہ کرسکے۔ نجیب حکومت بھی رخصت ہوئی توکابل کے ایک کنارے پر احمد شاہ مسعود اپنے مسلح دستوں کے ساتھ موجود تھے اور دوسرے کنارے پر گلبدین حکمت یار۔ دونوںرہنما افغان جہاد میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں کا خیال تھا کہ: ’’میری قوت اور صلاحیت زیادہ ہے‘‘۔ بدقسمتی سے دونوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان تھا اور اسی کمزور پہلو کو سب دشمن قوتیں استعمال کرنا چاہتی تھیں۔

ماضی کے مصالحتی مذاکرات

آج بھی جمعۃ المبارک کی وہ خوش گوار صبح ایک ایک تفصیل کے ساتھ یاد ہے۔ پشاور میں ساری دنیا سے آئے ہوئے اہم مسلمان رہنما اور اسلامی تحریکوں کی قیادت جمع تھی۔ اس سے پہلی شب مصالحتی مذاکرات کے مختلف ادوار چلتے رہے۔ جن میں طے پایا تھا کہ انجینئر حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود کے مابین براہِ راست بات چیت کروائی جائے گی۔ یہ ذمہ داری محترم قاضی حسین احمد صاحب کو سونپی گئی۔ صبح ہی صبح ہم پشاور میں واقع برہان الدین ربانی صاحب کے مرکز پہنچ گئے۔ ربانی صاحب ہمارا استقبال کرنے کے بعد ایک دوسری جگہ جمع مختلف افغان، عرب اور پاکستانی رہنماؤں کے اجلاس میں چلے گئے۔کافی انتظار اور کوششوں کے بعد یہ تین جہتی وائرلیس رابطہ قائم ہوسکا۔ 
کابل کے دونوں کناروں پر بیٹھے افغان رہنما اور پشاور میں محترم قاضی حسین احمد صاحب، تینوں کے درمیان ایک طویل مکالمہ ہوا۔ اس میں شکوے بھی تھے، دھمکیاں بھی تھیں اور ڈانٹ بھی، لیکن آخر میں یہ واضح تھا کہ باہم اتفاق راے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس براہِ راست رابطے کے بعد موہوم اطمینان کے ساتھ ہم نماز جمعہ ادا کرنے قریبی مسجد پہنچے۔ دیگر سب رہنما بھی پہنچنا شروع ہوگئے۔ نماز ختم ہوتے ہی پروفیسر عبدالرب رسول سیاف صاحب کھڑے ہوئے اور سب کو مبارک باد دیتے ہوئے اعلان کرنے لگے کہ:’’سب افغان رہنما ایک فارمولے پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت پہلے چار ماہ صبغۃ اللہ مجددی صدر ہوں گے۔ ان کے بعد چھےماہ کے لیے برہان الدین ربانی صاحب صدر ہوں گے۔ وزارت عظمیٰ حزب اسلامی (حکمت یار) کو دی جائے گی اور پھر انتخابات ہوں گے‘‘۔ 
ان کا اعلان ختم ہوتے ہی قاضی صاحب نے سیاف صاحب کو مسجد کے ایک گوشے میں لے جاکر پوچھا، اس فارمولے پر: ’’کیا حکمت یار بھی متفق ہوگئے ہیں؟‘‘ 
وہ کہنے لگے کہ: ’’نہیں، انھیں آپ اس پر راضی کریں گے‘‘۔ 
قاضی صاحب نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا: ’’کاش! آپ اس قبل از وقت یک طرفہ اور ناقابل عمل فارمولے کا اعلان نہ کرتے۔ افغان بحران کا اصل حل دونوں مرکزی قوتوں کو یک جا کرنے سے ہی ممکن ہوسکتا ہے‘‘۔
اس ضمن میں درجنوں بلکہ سیکڑوں مصالحتی کاوشوں میں سے ایک کا ذکر اس لیے کیا کہ خرابی کی اصل جڑ واضح ہوسکے۔ پورے دور جہاد کے دوران مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے کسی نہ کسی افغان جماعت کو غالب اور کسی کو نظر انداز و کمزور کرنے کی روش اپنائے رکھی۔ کبھی مالی و عسکری امداد کی غیرمنصفانہ تقسیم کے ذریعے، کبھی سیاسی شعبدہ بازی کے ذریعے اور کبھی نسلی و مذہبی تعصب کی آگ بھڑکا کر۔

امریکا کا ہدف: غیرمستحکم افغانستان

اس تقسیم کا اصل مقصد اور نتیجہ یہی تھا کہ افغانستان میں عوام کی کوئی حقیقی نمایندہ اور مستحکم حکومت نہ بن سکے اور اگر بنے بھی تو تقسیم کرنے والوں کی تابع فرمان ہو۔ آج بھی افغانستان پر قابض اور افغان عوام میں نفوذ رکھنے والی قوتوں کا بنیادی ہدف یہی ہے۔ امریکا نے اپنے ۱۸ سالہ جنگ و جدل کے دوران مختلف افغان اطراف میں بھی گہرا نفوذ حاصل کیا ہے۔ طالبان حکومت کے خلاف عسکری کارروائی کرتے ہوئے ’شمالی اتحاد‘ کا تعاون حاصل کیا گیا۔ طالبان مخالف ازبک اور ہزارہ گروپوں کو بھی سنہرے خواب دکھاکر ساتھ ملالیا گیا۔ لیکن جب حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس کے ذریعے حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے چہرے سامنے لے آئے گئے۔ بون کانفرنس میں عبوری صدارت کے لیے تین نام پیش ہوئے تھے: عبدالستار سیرت، حامد کرزئی اور امین ارسلا۔ ابتدائی راے دہی ہوئی تو عبدالستار سیرت کو گیارہ، حامد کرزئی  کو دو اور امین ارسلا کو ایک ووٹ ملا۔ پھر مذاکرات نے مزید طول کھینچا۔ امریکی خصوصی ایلچی    زلمے خلیل زاد (جنھیں کئی افغان رہنما امریکی ’وائسرائے‘ کا طعنہ دیتے تھے) اور اقوام متحدہ کے   خصوصی نمایندہ الاخضر الابراہیمی نے حامد کرزئی کی خصوصی وکالت و اعانت کی۔ بالآخر وہ عبوری اور پھر ’منتخب‘ صدر بنادیے گئے۔
زلمے خلیل زاد حالیہ دنوں میں بھی خصوصی امریکی ایلچی کی حیثیت سے مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کی شخصیت کا مختصر تعارف آج اور کل کا پورا منظرنامہ سمجھنے میں معاون ہوگا۔ وہ ۱۹۵۱ء میں شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ دونوں پشتون تھے۔ بعدازاں مزارشریف سے کابل منتقل ہوگئے، جہاں ’غازی‘ سکول میں انٹر کیا۔ انگریزی بہتر کی اور امریکن یونی ورسٹی، بیروت(لبنان) میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وظیفہ حاصل کرلیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد امریکا کی شکاگو یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۷۹ء میں پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔ اسی دوران آسٹریا کی شیرل بینرڈ سے شادی کرلی۔ دونوں میاں بیوی نے عالم اسلام کے بارے میں کئی اہم مقالے اور سفارشات لکھیں۔ ۱۹۸۴ء میں امریکی شہریت مل گئی۔ امریکی صدور: جمی کارٹر، رونالڈ ریگن اور جارج بش (سینیئر) کے ادوار میں کئی اہم مشاورتی و پالیسی ساز ذمہ داریوں پر فائز رہے، یہاں تک کہ افغان اُمور پر امریکا میں سب سے نمایاں نام بن گئے۔ صدر کلنٹن نے ذمہ داریوں سے فارغ کیا تو اہم امریکی تھنک ٹینک ’رینڈ کارپوریشن‘ میں ملازمت مل گئی۔ یہاں انھوں نے عالم اسلام اور اسلام کے بارے میں کئی سفارشات پیش کیں۔ اسی زمانے میں امریکی تیل کمپنی یونوکال (Unocal) کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ کمپنی افغانستان اور پڑوسی ممالک میں تیل و گیس کی تلاش اور اسے پائپ لائن کے ذریعے بحر ہند تک پہنچانے کے منصوبے پر کام کررہی تھی۔ اس وقت حامد کرزئی بھی یونوکال کے مشیر کی حیثیت سے ملازمت کررہے تھے۔ وہ بھی امریکی یونی ورسٹی بیروت سے فارغ تھے۔ دونوں کی دوستی مزید گہری ہوگئی جو بالآخر افغان صدارت پر منتج ہوئی۔
حامد کرزئی اور زلمے خلیل زاد ہی نہیں، امریکی یونی ورسٹی لبنان سے فارغ التحصیل کئی مشترکہ دوست افغانستان کے مدار المہام قرار پائے۔ ان میں سے ایک نام جناب اشرف غنی احمدزئی کا ہے۔ وہ ورلڈ بنک کے لیے خدمات انجام دیتے رہے اور انتہائی وفادار قرار پائے۔ افغان وزارت خزانہ ان کے سپرد کردی گئی۔ انھی ہم جولیوں میں ڈاکٹر شریف فائز(وزیر براے اعلیٰ تعلیم)، یوسف پشتون (وزیر بہبود دیہی آبادی) اور خالد پشتون (گورنر قندھار) کے نام بھی شامل ہیں۔ وزارتوں اور عہدوں سے زیادہ ان حضرات کا ہدف مغربی تہذیب سے ہم آہنگ افغان معاشرے کی تشکیل نو تھی۔ 
افغانستان دوراہے پر!
حالیہ افغان تاریخ کے دوراہے پر ایک بار پھر بون کانفرنس کے اصل کردار فعال تر ہیں۔ لیکن ایک حقیقت سب اطراف کو یاد رکھنا ہوگی کہ نومبر ۲۰۰۱ میں وہ کانفرنس امریکی حملے اور جزوی فتح کے تناظر میں منعقد ہوئی تھی۔ آج بظاہر امریکا، افغانستان سے نکلنے کے لیے کسی معقول راستے کی تلاش میں ہے۔ لیکن اگر گذشتہ ۱۸ سال کی ناکامیوں اور تباہی سے سبق نہ سیکھا گیا، تو شاید رہا سہا وقار بھی خاک میں مل جائے گا۔
تاریخ افغانستان کے اس نازک موڑ پر ایک انتہائی اہم فریضہ خود افغان طالبان کو بھی انجام دینا ہوگا۔ انھیں اپنے سابقہ دور حکومت اور اس کے بعد رُوپذیر تمام واقعات کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے اپنے رویے پر بھی سنجیدہ نظرثانی کرناہوگی۔ 
افغانستان میں اشتراکی روس کی آمد کے بعد سے لے کر آج تک جتنی ناکامی اور تباہی ہوئی ہے، حملہ آور جارح قوتوں اور کئی غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے بعد، اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود افغان بھائیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اپنے سوا باقی سب کو قابل گردن زدنی قرار دینے سے کسی بھی ملک اور معاشرے میں کبھی امن و سکون نہیں آسکتا۔ افغان طالبان کی ویب سائٹ پر آج بھی اکثر افغان احزاب اور ان کے رہنماؤں کو امریکا اور روس جیسا دشمن ہی قرار دیا جارہا ہے۔ ۲۱ جنوری ۲۰۱۹ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا دور شروع ہوا اور اسی صبح وردگ میں افغان فوج کے تربیتی سنٹر پر خود کش حملہ کرکے ۱۰۰ سے زائد افغان شہری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔  جس طرح ایسا کوئی حل ناقابلِ عمل اور تباہ کن ہوگا کہ افغانستان سے نکلتے ہوئے، بون کانفرنس جیسا کوئی اور حل مسلط کردیا جائے، طالبان پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر طالبان اور افغان فوج کو جنگ کی کسی نئی جہنم میں جھونک دیا جائے، خدانخواستہ افغانستان میں کسی نئی خانہ جنگی کا آتش فشاں لاوا اگلنے لگے، تباہی، مہاجرت اور خوں ریزی مسلط ہوجائیں۔ اسی طرح یہ راستہ بھی تباہ کن ہوگا کہ آنکھیں بند کرکے سابقہ غلطیوں کو دہرایا جانے لگے۔ ملک و قوم کے کسی بھی حصے کو اپنے جسم سے کاٹ پھینکا جانے لگے۔
افغانستان پر قبضے کے علاوہ امریکی افواج اور اس کے زیراثر حکومت نے وہاں جن کئی دیگر حماقتوں کا ارتکاب کیا، ان میں افغانستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف نفرت کی اونچی دیواریں کھڑی کرنا بھی شامل ہے۔ 
اشتراکی روس کی یلغار سے لے کر آج تک افغان اور پاکستانی قوم عملاً یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکی موجودگی میں وہاں بھارت کو گہرا اثرونفوذ حاصل کرنے کے خصوصی مواقع دیے گئے۔ ذرائع ابلاغ سے پاکستان کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہوئے نفرت کے زہریلے بیج بوئے گئے۔ بعض ناراض پاکستانی قبائل سرداروں کو مزید متنفر کرتے ہوئے انھیں پاکستان سے علیحدگی اور دشمنی کے الاؤ بھڑکانے پر اکسایا گیا۔ افغان فوج کو ٹریننگ دیتے ہوئے پاکستان کو دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔ 
ایک پُرامن افغانستان کے قیام کے لیے ان تمام منفی اقدامات کی نفی کرتے ہوئے تمام پڑوسی ممالک کو دوستی اور بھائی چارے کا پیغام دینا ہوگا۔ پاکستان ایران، وسط ایشیائی ریاستوں، چین، روس اور بھارت سمیت تمام علاقائی ممالک کو بھی اپنے مفادات کے بجاے افغان امن و استحکام کو ترجیح اول بنانا ہوگا۔ صرف افغان عوام اور ان کے تمام حقیقی رہنماؤں کو پرامن مذاکرات کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دینا ہوگا۔ افغانستان کا امن و استحکام یقینا تمام پڑوسی ممالک کے لیے بھی مثبت نتائج پیدا کرسکے گا۔
علامہ محمد اقبال آج سے تقریباً ایک صدی پہلے دنیا کو خبردار کرگئے تھے کہ:

آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ  او  فسادِ آسیا
در کشادِ  او  کشادِ  آسیا

ایشیا آب و خاک سے بنا ایک جسم ہے، جس میں ملتِ افغان دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی تباہی پورے ایشیا کی تباہی اور اس کی تعمیر و خوش حالی پورے ایشیا کی خوش حالی ہوگی۔

۳جنوری ۲۰۱۹ء کو دی پنجاب اسکول [خیابانِ جناح کیمپس] لاہور کے نوتعمیر شدہ ’سیّد مودودی آڈیٹوریم‘ کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر ایک مختصر خطاب، جو اپنے اندر ایک جامع پیغام رکھتا ہے۔ ادارہ

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝۲۸ۭ (الفتح ۴۸:۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔
 جو آیت آپ کے سامنے تلاوت کی ہے، یہ معروف اور جانی پہچانی آیات میں سے ہے۔
مولانا مودودیؒ نے جس وقت دعوتِ انقلاب لوگوں کے سامنے رکھی، اس وقت ایک بڑی تعداد ایسے بزرگوں کی تھی جنھوں نے بعدازاں اس موضوع پر بڑی وضاحت سے لکھا۔ تب دعوت کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ’اقامت ِ دین‘ تھی۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کے علاوہ کچھ دوسرے لوگ بھی مختلف پیرایے میں اور مختلف انداز سے یہی دعوت پیش کر رہے تھے، اور وہ بڑے جانے پہچانے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک طبقہ بڑی قوت سے یہ بات کہہ رہا تھا کہ: ’’ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے، اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس کی دعوت کو عام نہیں کرتے۔ حالاں کہ ہم سب اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن کے بغیر یہ دعوت کچھ بھی نہیں‘‘۔ پھر ہمارے اسی معاشرے میں ’حکومت ِ الٰہیہ‘ کی بات بھی ہوتی تھی۔ نظامِ اسلامی کا ذکر ہوتا تھا اور ایک عرصہ گزرنے کے بعد نظامِ مصطفےٰؐ کی بات بھی چلی۔ مراد یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ عنوانات بدلتے رہے، تاہم دین کی بات کی جاتی رہی اور دین کی ضرورت کا احساس بڑے طبقے تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
لیکن اب کئی عشروں سے صورتِ حال اس طرح ہے کہ جو لوگ ’اقامت ِ دین‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور بڑے پیمانے پر اس کے لیے نفوذ کے راستے تلاش کرتے تھے، اور لوگوں تک پہنچ کر ان کے دلوں پر دستک دیتے تھے، ان کی ایک بڑی تعداد آج کچھ اور عنوانات سے زیادہ متاثر ہوتی نظر آتی ہے۔ 
عنوانات یا نعرے کچھ بھی ہوں اصل کام تو ہے: غلبۂ دین اور اقامت ِ دین۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب دین غالب ہوگا، حقیقی معنوں میں اسلامی انقلاب اُسی وقت برپا ہوگا۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ کردار سازی کی جائے، نئے عنوانات کے ذریعے لوگوں کو ربّ کی طرف بلانے کا اہتمام کیا جائے۔ کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس طرف دعوت دینے میں کمی پیدا ہوئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اس بات کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اقامت ِ دین کا مطلب کیا ہے؟
اس بات کی یاد دہانی اور تذکیر درحقیقت بہت اہم ہے اور ضرورت ہے کہ ہمارے اجتماعی معاملات میں اقامت ِ دین کا جو عمل دخل ہوتا تھا، اسے اَزسرِنو تازہ کیا جائے۔ جب یہ تحریک برپا کی گئی، اُس وقت مولانا مودودیؒ کے قریبی رفیق اور بلندپایہ عالم دین مولانا صدرالدین اصلاحی مرحوم [م:۱۳ نومبر۱۹۹۸ء]نے تین بنیادی کتب لکھی تھیں: فریضہ اقامتِ دین، اساسِ دین کی تعمیراور حقیقت نفاق۔ بعد میں انھوں نے نسبتاً آسان زبان میں ایک اور کتاب لکھی: اسلام ایک نظر میں!
جب اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی کارکن رکنیت کی درخواست دیتا تھا تو اسے یہ تین کتابیں ابتدا ہی میں سبقاً سبقاً  پڑھائی جاتی تھیں۔ اگرچہ ان کی زبان دقیق تھی، لیکن ذہن سازی کے لیے یہ نہایت مؤثر استدلال فراہم کرتی تھیں ۔ ان کو مطالعاتی مجالس (study circles) کے ذریعے ذہن نشین کیا جاتا تھا اور پھر کارکن پُراعتماد ہوکر ایک ایک طالب علم، ایک ایک نوجوان تک اور   اگر ممکن ہوتا تو دس آدمیوں کی مجلس میں پورے یقین کے ساتھ مدّعا بیان کرتا تھا کہ جب تک غلبۂ دین نہیں ہوگا تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اس کی بات سن کر لوگ حیران ہوتے تھے کہ اس کو کہاں سے یہ بات معلوم ہوئی ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سفر کو وہیں سے دوبارہ شروع کرنا ہوگا، جہاں سے بظاہر ختم ہوگیا تھا۔ اس قافلۂ حق میں جو اہلِ علم اور پڑھے لکھے لوگ ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اقامت ِ دین، اساسِ دین اور اسلامی انقلاب کے کاموں کو سرفہرست رکھ کر ان پر بات کریں اور صحیح معنوں میں  فہم دین پیدا کرنے میں کارکنوں کی مدد کریں اور انھیں رہنمائی فراہم کریں۔ دین کی وسعتوں اور پہنائیوں سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ جب تک کارکنوں کے اندر دین کی ہمہ پہلو اُمنگ پیدا نہ ہو،   اس وقت تک اس کام سے غفلت نہ برتی جائے۔
اس لیے خود جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر برادر تنظیموں کو اپنے تربیتی اور تنظیمی دائروں میں اور دعوت کے عنوانات میں فریضۂ اقامت دین کی بحث کو اَزسرنو اُٹھانا ہوگا۔ ہمارے اندر ایک بڑی تعداد ایسے اہلِ علم کی موجود ہے، جو اس موضوع پر مطالعاتی حلقوں (اسٹڈی سرکلز) کا اہتمام کرسکتے ہیں، اور اس طرح لوگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں کہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا مطلب کیا ہے؟ ہمیں کلمۂ طیبہ کے پیغام اور اس کے تقاضوں کو ذہن نشین کرنا اور کرانا ہے کہ اس کے بغیر دین کا کام ممکن نہیں۔
یہ جو ہم اکثر اپنے گردو پیش کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں، ان تبصروں میں بہت سی باتیں بڑی معقول اور نہایت سنجیدہ اور بہت کچھ کرگزرنے کا عنوان اپنے اندر سموئے ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جس نے مولانا مودودی کو پڑھا اور سمجھا ہے اور فی الحقیقت لوگوں تک پہنچنے کے لیے دعوتی موضوعات اور عنوانات کی کہکشاں سجائی ہے۔ ان کو اپنی سطح پر یہ کام شروع کر دینا چاہیے۔ 
جن لوگوں نے اسلامی انقلا ب کے نعرے کو سمجھ لیا ہے انھیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلامی انقلاب کا نعرہ تو بہت پُرکشش ہے اورسننے والوں کے دلوں میںگرمی اور سوز پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کی روح، بنیاد اور تقاضوں کو سمجھنا نعروں کی گونج سے زیادہ ضروری ہے۔ مگر بہرحال یہ بات سمٹتی، سکڑتی اور محدود ہوتی جارہی ہے۔
کل جس لمحۂ تاریخ میں اقامت ِ دین کے حوالے سے بات کی گئی تھی، آج کا یہ عہد اُس سے بھی زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس پیغام کو تروتازہ کیا جائے۔ دلوں کے اندر اس کے پیغام کو سمویا جائے، سوتوں کو جگایا جائے اور فی الحقیقت اقامت ِ دین کی اصطلاح کو نووارد رفقا تک پہنچانے کے لیے جس توجہ اور دماغ سوزی کی ضرورت ہے، اس کا اہتمام کیا جائے۔

مجھے ایک فاضل دوست نے خط کے ذریعے متوجہ کیا ہے کہ مَیں عورت اور معاشرے کے حوالے سے، مرد و عورت کے مقام اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں کچھ عرض کروں کہ اسلام نے اس سلسلے میں کیا احکام دیے ہیں، اور لوگوں کو اس پر اُبھاروں کہ وہ ان احکام پر مضبوطی سے عمل کریں۔
میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ اس طرح کے موضوع پر لکھنا کس قدر اہم ہے ،اور نہ اس سے بے خبر ہوں کہ عورت کے حال کی درستی و شیرازہ بندی اُمت کی فلاح و بہبود کے لیے  کس قدر ضروری ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عورت ملت ِ اسلامیہ کی نصف آبادی پر مشتمل ہے، بلکہ یہ وہ نصف حصہ ہے جو اُمت کی زندگی پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے کہ عورت ہی وہ پہلا مدرسہ ہے جو گروہوں کی تشکیل کرتا اور نئی پود کو ڈھالتا ہے۔ بچہ جس انداز سے تربیت پاتا ہے اسی پر قوم اور ملّت کی زندگی کے رُخ کا انحصار ہوتا ہے۔ پھر بچپن ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی نوجوانوں اور مردوں کی زندگی میں عورت ہی مؤثر حیثیت رکھتی ہے۔
میں ان میں سے کسی چیز سے بے خبر نہیں ہوں اور نہ دینِ حنیف نے اس معاملے کو واضح کیے بغیر یونہی چھوڑ دیا ہے۔ چوں کہ اسلام تمام انسانوں کے لیے نور اور ہدایت بن کر آیا ہے اور اس نے انسانی زندگی کی پوری باریک بینی کے ساتھ بہترین بنیادوں اور اصولوں پر تنظیم کی ہے۔ ہاں، دینِ حنیف نے یقینا اس معاملے کو واضح کیے بغیر نہیں چھوڑ دیا ہے کہ لوگ اِدھر اُدھر حیران و سرگرداں مارے مارے پھریں، بلکہ ان کے لیے اس قدر وضاحت سے بیان کیا ہے کہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔
درحقیقت یہ بات کچھ زیادہ اہم نہیں ہے کہ عورت اور مرد اور ان کے باہمی تعلقات و فرائض کے سلسلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا ہمیں علم ہو، کیوںکہ یہ علم قریب قریب ہرشخص کو ہے، البتہ جو چیز اہم ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہم اسلام کے احکام کے آگے سرجھکانے کو تیار ہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ اس ملک، نیز دوسرے مسلم ممالک پر تقلید ِ مغرب کا شغف تیزو تند سیلاب کی طرح چھا گیا ہے اور لوگ اس میں ٹھوڑیوں تک غرق ہیں۔ پھر کچھ لوگ اسی پر بس نہیں کرتے کہ یورپ کی تقلید میں اس طرح ڈوب جائیں، بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام کو ان مغربی خواہشات اور مغربی تہذیب کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو دھوکا دے لیں، اور اس دین کی سہولت اور اس کے احکام کی نرمی کو ناجائز طور پر استعمال کرکے اور ان کی اسلامی صورت ختم کر کے انھیں ایسے نظاموں کی شکل دے دیں، جن کا دین سے کسی طرح کا جوڑ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اسلامی شریعت کی روح اور بہت سی نصوص کو جو ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں نظرانداز کردیں۔
فی الحقیقت یہ دوچند ہلاکت ہے، کیونکہ یہ لوگ صرف مخالفت پر بس نہیں کرتے بلکہ اس مخالفت کے لیے خودساختہ قانونی حیلے ڈھونڈتے ہیں اور ان کو جواز اور حلّت کا رنگ دیتے ہیں، تاکہ اس سے توبہ کرنے یا کسی دن اس سے باز آجانے کی نوبت ہی نہ آئے۔
پس، درحقیقت اب کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اسلامی احکام پر ایسی نظر ڈالیں جو ہواے نفس سے پاک ہو اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے قبول کرنے پر آمادہ کریں، خصوصاً اس معاملے میں،جو موجودہ ترقی و بیداری کے دور میں بنیادی و اساسی خیال کیا جاتا ہے۔

عورت کا مقام و دائرہ کار

اس لیے بے جا نہ ہوگا اگر ہم اس ضمن کے ان احکام کو بھی بیان کریں جن کا لوگوں کو علم ہے، اور ان کو بھی جن کا ان کے لیے جاننا ضروری ہے:
۱- سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام عورت کی قیمت و وقعت کو زیادہ کرتا ہے اور حقوق و فرائض میں اسے مرد کا شریک ٹھیراتا ہے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا صحیح و واقعی ہونا مسلّم ہے، کیوں کہ اسلام نے عورت کو اعلیٰ مقام بخشا اور اس کا مرتبہ بلند کیا اور اسے مرد کی بہن اور اسے اس کا ایسا شریکِ حیات ٹھیرایا، گویا وہ ایک دوسرے کا جزو ہیں، بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ۔ نیز اسلام نے عورت کے کامل شخصی حقوق، کامل تمدنی حقوق، کامل سیاسی حقوق کا اعتراف کیا ہے اور اس کے ساتھ اس حیثیت سے معاملہ کیا ہے کہ وہ ایک کامل الانسانیت ہستی ہے، جس کے کچھ حقوق ہیں اور اس پر کچھ فرائض ہیں۔ جب وہ اپنے فرائض ادا کرے گی تو مستحقِ شکرگزاری ہوگی اور جو اس کے حقوق ہیں ان کی ادایگی ضروری و لازم ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں ایسی نصوص بہت ہیں جن سے اس بات کی تائید و توضیح ہوتی ہے۔
۲- مرد اور عورت کے حقوق میں تفریق ان فطری و طبعی اختلافات کی بنا پر ہے جن سے مرد و عورت کو کوئی مفر نہیں، نیز یہ تفریق اس ذمہ داری کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے جو وہ دونوں انجام دیتے ہیں اور یہ ان حقوق کی حفاظت کے لیے ہے جو ہردو کو بخشے گئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ: ’’اسلام نے مرد اور عورت میں بہت سے حالات و ظروف میں فرق کیا ہے اور ان میں کامل مساوات نہیں رکھی ہے‘‘۔ بظاہر یہ بات درست لگتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر عورت کا حق ایک گوشے میں کچھ کم کیا گیا ہے تو اس سے بہتر حق اس کو دوسرے گوشے میں دے دیا گیا ہے یا حقوق کی یہ کمی پہلے اس کے فائدے اور بھلائی کے لیے ہے اور پھر کسی اور کے لیے۔ علاوہ بریں کیا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عورت کی جسمانی و روحانی ساخت مرد کی جسمانی و روحانی ساخت کے بالکل مساوی ہے؟ یا کیا یہ دعویٰ ممکن ہے کہ عورت کو اپنی زندگی میں جو کردار ادا کرنا ضروری ہے کیا وہ بعینہٖ وہی ہے جو مرد کے لیے ضروری ہے؟ جب تک ہم مادریت و پدریت پر یقین رکھتے ہیں، اس وقت تک اس طرح کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے!
میرا یقین یہ ہے کہ عورت اور مرد کی ساخت مختلف ہے اور اسی طرح دونوں کے فرائض بھی مختلف ہیں، اور اس فرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان دونوں سے متعلق نظمِ زندگی میں بھی اختلاف ہو۔ اسلام نے عورت اور مرد کے حقوق و واجبات میں جو فرق و امتیاز روا رکھا ہے، اس  کا راز یہی ہے۔
۳- عورت اور مرد میں ایک دوسرے کی طرف قوی فطری جاذبیت ہے اور یہی ان کے باہمی تعلق کی پہلی بنیاد ہے۔ اس جاذبیت کا حاصل اگرچہ یہ بھی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے قربت اور تمتع کرتے ہیں، مگر اس کی اوّلین غایت و غرض یہ ہے کہ حفظ نوعِ انسانی اور مشکلاتِ زندگی کی برداشت میں باہمی تعاون پیدا ہو۔
اسلام نے اس نفسانی میلان کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کو پاک کرکے حیوانیت سے روحانیت کی طرف عمدگی کے ساتھ موڑ دیا ہے۔ اس کو باعتبارغرض و مقصود مقامِ بلند عطا کیا ہے اور اسے محض جنسی تمتع کی پستی سے نکال کر کامل تعاون کی صورت بخش دی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ط(الروم ۳۰:۲۱)اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے پیدا کیں تمھارے لیے خود تمھاری جنس سے تمھاری بیویاں، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اور تم میں باہم مودّت و رحمت پیدا کی۔
یہی وہ اصول ہیں، جن کو اسلام نے عورت کی حیثیت متعین کرتے وقت ملحوظ رکھا ہے اور انھی پر اسلام کی اس حکیمانہ قانون سازی کی بنیاد ہے، جو دونوں جنسوں کے درمیان باہم تعاون کی پختہ بنیاد فراہم کرتی ہے کہ دونوں سے ایک دوسرے سے سماجی سطح پر پورا فائدہ اُٹھا سکیں اور مسائلِ حیات میں ایک دوسرے کے معاون بن سکیں۔

عورت کی تربیت کے تقاضے

اسلامی نظریے کے مطابق معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہے، مختصر طور پر دو نکات میں اسے بیان کیا جاسکتا ہے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام اس بات کو ضروری و لازم قرار دیتا ہے کہ ابتدا ہی سے عورت کے اخلاق کی درستی و پاکیزگی کی کوشش کی جائے اور اس کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ فضائل و کمالات کی حامل بن سکے۔ اسلام والدین اور لڑکیوں کے سرپرستوں کو اس تربیت پر اُبھارتا ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے اجرِعظیم کا وعدہ کرتا ہے اور اگر وہ ا س میں کوتاہی کریں تو سزا کی دھمکی دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ۝۶ (تحریم ۶۶:۶) اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت اور متشدد فرشتے متعین ہیں، جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور جن باتوں کا انھیں حکم دیا جاتا ہے، اس کی تعمیل میں مصروف رہتے ہیں۔
اور حدیث صحیح میں ہے:
تم میں سے ہرشخص ذمّہ دار ہے اور ہرشخص سے اس کی ذمہ داری میں دی ہوئی چیز کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ امیرالمومنین ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں سوال ہوگا ، آدمی اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اسے ان کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمّہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ ہوگی، اور نوکر اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں سوال ہوگا، غرض تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کی جواب دہی کرنی ہے۔[  مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۴۹۶]
حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے ساتھ رہیں یا وہ ان کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا رہے تووہ اسے جنّت میں پہنچانے کا باعث بنیں گی۔[ ابن   حبّان،کتاب البروالاحسان، حدیث:۴۴۷]
اور ابوسعید خدریؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہے اور ان کے معاملے میں خداترسی کی روش اختیار کرے، تو وہ جنت کا مستحق ہے۔ [ترمذی، ابواب البّر والصلۃ، حدیث : ۱۸۸۸]
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظِ حدیث انھی کے ہیں اور امام ابوداؤد نے بھی اسے روایت کیا، مگر ان کے الفاظ یہ ہیں کہ اس نے ان کو تربیت دی اور ان سے حُسنِ سلوک کیا اور ان کی شادی کرا دی تو اس کے لیے جنّت ہے۔
عورت کی حُسنِ تربیت کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ اس کو ان چیزوں کی تعلیم دی جائے جو  اس کے لیے ناگزیر ہیں اور جن کی ضرورت اسے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں پڑتی ہے، جیسے: لکھنا پڑھنا، حساب کتاب، دینی تعلیم، سلف صالح مردوں اور عورتوں دونوں کی تاریخ، تدبیر منزل، حفظانِ صحت، مبادی تربیت، اُمور ِ اَطفال اور وہ تمام اُمور جن کی ایک ماں کو گھر کے نظم اور بچوں کی نگہداشت کے سلسلے میں ضرورت پڑتی ہے۔
 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں، انھیں دین میں بصیرت و تفقہ حاصل کرنے میں شرم مانع نہیں آتی۔[ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، حدیث:۲۷۳]
چنانچہ سلف میں بہت سی عورتیں علم و فضل اور بصیرتِ دین میں بہت اُونچا مقام رکھتی تھیں۔ رہے وہ علوم جن کی عورت کو ضرورت نہیں تو ان پر زور دینا فضول و بے فائدہ ہے کیوںکہ عورت کو ان کی کوئی حاجت نہیں اور اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنا وقت کسی مفید اور نفع بخش کام میں لگائے۔ چنانچہ عورت کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ اسے مختلف زبانوں میں تبحّر حاصل ہو اور نہ اسے خصوصی فنی معلومات کی ضرورت ہےکیوں کہ جیساکہ عنقریب معلوم ہوگا کہ عورت اوّل و آخر گھر ہی کے لیے ہے، نہ عورت کو اس کی حاجت ہے کہ اسے قانون میں مہارت حاصل ہو، بس اس کو قانون کا اتنا علم کافی ہے جس کی عام طور پر لوگوں کو ضرورت پڑتی ہے۔ 
مشہور قدیم عربی شاعر ابوالعلا المعری عورتوں کے بارے میں کہتا تھا:
ان کو کاتنا اور بُننا سکھائو اور نوشت و خواند چھوڑ دو۔ کیوںکہ ’حمد‘ اور ’اخلاص‘ کے ساتھ لڑکی کا نماز پڑھنا کافی ہے اور ’یونس‘ اور ’براءت‘ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن ہم اس حد پر ٹھیرنے کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتے، مگر ہم وہ بھی نہیں چاہتے جو یہ غالی اور افراط پسند لوگ چاہتے ہیں کہ عورت پر ان علوم و فنون کو لاد دیں جن کی اس کو کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت کو وہ تعلیم دو جس کی اسے اپنی ان ذمہ داریوں اور خدمات کی ادایگی کے سلسلے میں ضرورت ہے جن کے لیے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے، یعنی تدبیرمنزل اور بچّے کی نگہداشت و تربیت۔

مخلوط کے بجاے جداگانہ معاشرت

دوسرا پہلو :عورت اور مرد میں دُوری ___ اسلام عورت اور مرد کے اختلاط میں حقیقی خطرات محسوس کرتا ہے۔ اس لیے نکاح کی شکل کے علاوہ وہ دونوں کو ایک دوسرے سے دُور دُور رکھتا ہے۔ اس بناپر اسلامی سوسائٹی مخلوط سوسائٹی ہونے کے بجاے غیرمخلوط سوسائٹی ہے۔
اختلاطِ مرد و زن کے علَم بردار کہیں گے کہ عدمِ اختلاط میں دونوں جنسیں ملنے جلنے کی لذت اور انس کی اس شیرینی سے محروم ہوجائیں گی، جسے ان میں سے ہر ایک دوسرے سے سکون حاصل کرنے میں پاتا ہے اور جس سے ان کا شعور اُجاگر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے اجتماعی اخلاق پیدا ہوتے ہیں، مثلاً ملاطفت، حُسنِ معاشرت، شائستگی کلام اور نرم خُوئی وغیرہ وغیرہ۔  اسی طرح ملتے رہنے سے ایک دوسرے کی طرف میلان بڑھتا ہے۔
یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتوں پر بہت سے نوجوان فریفتہ ہوجاتے ہیں، بالخصوص اس لیے کہ یہ طرزِفکر خواہشات و شہواتِ نفس کے عین موافق ہے۔ ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ باوجود یہ کہ ہم اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتے، جو تم نے سب سے پہلے بیان کی ہے۔ ہم تم سے کہتے ہیں کہ اس لذتِ اجتماع اور حلاوتِ شہوت کے نتیجے میں جو آبروئوں کی بربادی، نیتوں کی خباثت، دلوں کا فساد، گھروں کی ویرانی، خاندانوں کی تباہی اور جرائم کی وبا رُونما ہوتی ہے، اور پھر اس اختلاط کے نتیجے میں اخلاق میں جو لوچ اور کردار میں جو ضُعف پیدا ہوجاتا ہے، اس کے نتیجے میں مردوں اور عورتوں کی فطرتیں تک تبدیل ہوجاتی ہیں۔ یہ سب نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، جس کا انکار کوئی ضدی اور ہٹ دھرم انسان ہی کرسکتا ہے۔
اختلاط کے یہ تمام بُرے نتائج،ان کے متوقع فوائد سے ہزار درجے بڑھ کر ہیں اور اگر کسی شے میں مصالح و مفاسد کے دو متعارض پہلو موجود ہوں تو مفاسد کا دُور کرنا مصالح حاصل کرنے سے زیادہ بہتر ہے، خصوصاً اس وقت، جب کہ مفاسد کے مقابلے میں مصالح بالکل بے وزن و حقیر ہوں۔
اسی طرح دوسری دلیل بھی صحیح نہیں کہ اختلاطِ مرد و زن سے ایک دوسرے کی جانب میلان اور بھی بڑھتا ہے۔ ایک قدیم ضرب المثل ہے کہ کھانا بھوک کی خواہش بڑھاتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ عمر بھر رہتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ اس کی طرف ہمیشہ نیامیلان پاتا ہے، جب کہ جو عورتیں مردوں سے اختلاط رکھتی ہیں، وہ قسم قسم کی آرایش و زیبایش کی نمایش میں نئے نئے انداز اختیار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہیں اور اسی وقت راضی و خوش ہوتی ہیں، جب اس طرح وہ مردوں کی نگاہوں میں پسندیدہ قرار پاجائیں۔ اس مشق کا ایک بُرا اقتصادی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آرایش و نمایش میں حد سے تجاوز اور فضول خرچی کی وجہ سے افلاس، بربادی اور فقروفاقہ تک نوبت پہنچتی ہے۔
اس لیے ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ، بے مہار اور غیرقانونی مخلوط میل ملاپ کا معاشرہ نہیں ہے۔ اس میں مردوں کے لیے مردوں کا معاشرہ ہے اور عورتوں کے لیے عورتوں کا۔ چنانچہ اسلام نے عورتوں کے لیے عیدگاہ میں جانا اور جماعت میں شامل ہونا اور ضرورت پڑنے پر میدانِ جنگ تک میں پہنچنا جائز قرار دیا ہے، مگر اسلام اسی حد پر رُک گیا ہے اور اس کے لیے بھی اس نے سخت شرطیں لگائی ہیں، مثلاً یہ کہ عورت آرایش و زیبایش کے تمام مظاہر سے دُور رہے، ستر کا لحاظ رکھے اور اپنے جسم کو کپڑوں سے اس طرح ڈھانک لے کہ نہ تو جسم نمایاں ہو، نہ جھلکتا ہو اور کسی اجنبی کے ساتھ وہ تنہا نہ رہے خواہ کیسے ہی حالات ہوں، اور اسی طرح کی دوسری شرائط بھی۔
واضح اسلامی تعلیمات کی رُو سے یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ مرد کسی ایسی عورت کے ساتھ جو اس کی محرم نہ ہو،تنہائی میں رہے۔ چنانچہ اسلام نے دونوں جنسوں کے باہم اختلاط کے ضمن میں نہایت قوی اور محکم احکام دیے ہیں۔ چنانچہ اسلام کے آداب میں سے ایک بات یہ ہے کہ لباس میں ستر کو ملحوظ رکھا جائے، نیز احکامِ دین میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اجنبی کے ساتھ تنہائی میں رہنا حرام ہے۔ اسی طرح اللہ کے دین نے اس بات کو ضروری قرار دیا ہے کہ نگاہیں نیچی رکھی جائیں۔ نیز یہ چیز اسلامی شعائر میں داخل ہے کہ عورتیں گھروں کے اندر رہیں، حتیٰ کہ نماز بھی گھروں ہی میں پڑھیں۔ اسی طرح اللہ کی مقرر کردہ حدوں میں سے ایک حد یہ ہے کہ بات یا اشارے کے ذریعے دوسروں کے جذبات کو مشتعل کرنے، نیز آرایش و زیبایش کے تمام مظاہر سے دُور رہا جائے بالخصوص باہر نکلتے وقت اور ان سب احکام کا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت کے فتنے سے بچیں۔ چنانچہ آیات و احادیث میں یہ سب باتیں وضاحت سے بیان ہوئی ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سورئہ نُور میں فرماتا ہے:
 (اے نبیؐ) اہلِ ایمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی   شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی روش ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ یقینا اللہ ان تمام کاموں سے باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں اور اہلِ ایمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی زیبایش ظاہر نہ کریں مگر وہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈال لیں اور اپنی زیبایش ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں، اپنے باپوں ، اپنے خسروں، اپنے بیٹوں، اپنے شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھتیجوں، اپنے بھانجوں، اپنی عورتوں، اپنے غلاموں یا ماتحت مردوں کے سامنے جو عورتوں کی ضرورت نہیں رکھتے یا ان بچوں کے سامنے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں پر مطلع نہیں ہوئے اور اپنے پائوں نہ ماریں کہ جو زیبایش وہ چھپائے ہوئے ہیں اس کا علم ہوجائے اور اے مومنو! اللہ کی طرف تم سب پلٹو تاکہ تم فلاح پائو۔(النور ۲۴: ۳۰-۳۱)
اور سورئہ اَحزاب میں ہے:
اے نبیؐ! کہہ دیجیے اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہ لٹکا لیں اپنے اُوپر اپنی بڑی چادریں، اس طرح زیادہ آسانی سے وہ پہچان لی جائیں گی اور انھیں چھیڑا نہ جائے گا۔(الاحزاب۳۳:۵۹) 

حیا اسلامی معاشرت کا شعار

اسی طرح احادیث میں کثرت سے اس سلسلے کے احکام موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کے اس ارشاد کو نقل فرمایا:
غیرمحرم پر نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک مسموم تیر ہے، تو جو کوئی میرے خوف سے اسے ترک کر دے، تو میں اس کے بدلے میں اسے ایمان کی حلاوت بخشوں گا جسے وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔[مسند الشھاب القضاعی ،حدیث:۲۸۳]
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
تمھیں اپنی نظریں ضرور نیچی رکھنی چاہییں اور اپنی شرم گاہوں کی ضرور حفاظت کرنی چاہیے، ورنہ اللہ تمھارے چہروں کو مسخ کردے گا۔[المعجم الکبیر للطبرانی، باب مااسند ابوامامۃ،حدیث: ۷۷۰۴]
حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
ہرصبح دوفرشتے ندا دیتے ہیں: ہلاکت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کے چکّر میں پھنسے ہوں، اور ہلاکت ہو ان عورتوں پرجو مردوں کے چکّر میں پھنسی ہوئی ہوں۔(ابن ماجہ،  حاکم، کتاب الفتن، حدیث: ۳۹۹۷]
حضرت عقبہ بن عامرؓ راوی ہیں کہ اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
عورتوں کے پاس ہرگز نہ جائوتو انصار میں سے ایک شخص نے پوچھا: کیا خیال ہے آپ کا دیور کے بارے میں؟ (کہ وہ بھابی کے پاس جائے) تو آپؐ نے فرمایا: دیور تو موت ہے۔ [بخاری،کتاب النکاح، حدیث: ۴۹۳۸،  مسلم،کتاب السلام، حدیث:۴۱۳۲]
اس حدیث میں دیور کے پاس جانے سے مراد تنہائی میں جانا ہے جیساکہ دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں جاتا ہے تو شیطان ان کا تیسرا ہوتا ہے۔[صحیح ابن حبان، کتاب السیّر، حدیث:۴۶۴۶]
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے مگر ا س وقت، جب کہ اس کا کوئی محرم بھی موجود ہو۔[بخاری، کتاب النکاح، حدیث: ۴۹۳۹]
حضرت معقل بن یسارؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
تم میں سے کسی شخص کے سر میں لوہے کی سلاخ چبھو دی جائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہوگا کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔ [طبرانی، حدیث: ۱۷۲۸۴]
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورتوں سے تنہائی میں ملنے سے بچو کیوںکہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! جب بھی کوئی شخص کسی عورت سے تنہائی میں ملتا ہے تو شیطان ان دونوں کے درمیان میں داخل ہوجاتا ہے۔  کسی انسان کی کسی ایسے سور سے رگڑ لگ جائے جو گارے یا کیچڑ میں لت پت ہو، یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے کسی ایسی عورت کے کندھوں سے رگڑ کھائیں جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔[الطبرانی، باب الصاد، حدیث: ۷۶۹۴]
حضرت ابوموسیٰؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہرآنکھ زانی ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر کسی مجلس سے گزرے تو وہ بھی زانی ہے‘‘(ترمذی،باب الادب، حدیث:۲۷۸۱]۔اسی حدیث کو نسائی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: ’’جو عورت معطر ہوکر مردوں کے پاس سے اس لیے گزرے کہ وہ اس کی خوشبو پالیں، تو وہ زانیہ ہے اور ہر آنکھ زانیہ ہے‘‘۔’’ہر آنکھ زانیہ ہے‘‘ سے مراد وہ آنکھ ہے جو عورت کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھے۔
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔(بخاری، ، کتاب اللباس، حدیث: ۵۵۵۴]
حضرت ابن عباسؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک بار ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے کمان لگائے ہوئے گزری تو آپؐ نے فرمایا: اللہ نے ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کے ساتھ تشبّہ کرتی ہیں اور اسی طرح ان مردوں پر جو عورتوں کے ساتھ تشبّہ کرتے ہیں‘‘۔[المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث: ۴۰۹۷]
حضرت ابن مسعودؓ نے ایک بار فرمایا: ’’اللہ لعنت بھیجے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں اور خوب صورتی کے لیے بال نوچنے والیوں اور دانتوں میں خلا پیدا کرنے والیوں پر، جو اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو بگاڑتی ہیں‘‘۔[مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، حدیث: ۲۱۲۵]
اس پر ایک عورت نے ان پر اعتراض کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’جس پر اللہ کے رسولؐ نے لعنت بھیجی اس پر میں کیوں نہ لعنت بھیجوں، جب کہ اللہ کی کتاب میں اللہ کا فرمان موجود ہے: ’’رسولؐ جو تم کو دیں اسے لے لو اور جس سے منع کردیں اس سے رُک جائو‘‘۔ (بخاری ،کتاب اللباس، حدیث: ۵۶۰۲]
حضرت ابوہریرہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نقل فرمایا ہے کہ: ’’اہلِ دوزخ میں سے دو گروہوں کو مَیں نے نہیں دیکھا۔ ایک وہ گروہ کہ جس کے ساتھ گائے کی دُم کے مانند کوڑے ہوں گے اور ان سے وہ لوگوں کو پیٹتے ہوں گے۔ اور ایک وہ عورتیں جو پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، اپنی طرف دوسروں کو مائل کرنے والی اور ناز و اَدا سے چلنے والی ہوں گی، ان کے سر اُونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ وہ جنّت میں داخل نہ ہوں گی، اور نہ اس کی خوشبو پاسکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دُور سے سونگھنے میں آتی ہے۔[مسلم، کتاب اللباس، حدیث: ۴۰۶۵]
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اسماءؓ بنت ابی بکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح آئیں کہ وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا: اے اسماءؓ، جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے جسم میں سے سواے اِس اور اِس کے___اور آپؐ نے چہرے اور ہتھیلی کی طرف اشارہ کیا___ اور کچھ نظر نہ آنا چاہے‘‘۔[الترغیب والترھیب، المنذری، حدیث: ۲۰۴۵]
نیز ابوحمید ساعدیؓ کی زوجہ اُمِ حمیدؓ فرماتی ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہوں‘‘۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو مگر تمھارے لیے کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اس سے بہترہے کہ کمرے میں پڑھو اور کمرے کی نماز گھر کی نماز سے بہتر ہے اور گھر کی نماز تمھارے لیے محلے کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور محلے کی مسجد میں تمھارا نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘۔[مصنف ابن ابن شیبہ، کتاب صلاۃ التطوع، حدیث:۷۵۰۳]
 اس پر اُمِ حمیدؓ نے اپنے لیے اپنے گھر کے آخری اور تاریک ترین حصے میں مسجد بنوالی اور اس میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملیں۔(احمد، ابن خزیمہ، ابن حبان)

موجودہ روش اور اسلام

اس وضاحت کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت نہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہماری جو روش ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، چنانچہ ہمارے مردوں اور عورتوں میں یہ کھلا ہوا اختلاط جو مدرسوں، اداروں، مجمعوں اور عام محفلوں میں ہوتا ہے اور عورتوں کا یہ کھیل کود کے مقامات اور ہوٹلوں اور پارکوں کی سیر کرنا اور یہ بازاری پن اور یہ آرایش و زیبایش جو ننگ پن اور حیافروشی کی حد تک پہنچ گئی ہیں، اسلام سے ان کا کوئی جوڑ نہیں لگایا جاسکتا،نیز اس کے بدترین نتائج ہماری اجتماعی زندگی میں رُونما ہورہے ہیں۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اسلام نے پبلک معاملات میں حصہ لینا عورت پر حرام نہیں کیا ہے اور کوئی بھی نص ایسی موجود نہیں ہے جس کا یہ مفہوم ہو،اگر ہے تو ایسی کوئی نص لائو جس میں اس کی حُرمت کی صراحت ہو؟ ان لوگوں کا حال اس شخص کی مانند ہے جو یہ کہے کہ والدین کو پیٹنا جائز ہے کیونکہ آیت میں صرف ’اُف‘کہنے سے منع کیا گیا ہے اور پیٹنے کے ممنوع ہونے پر کوئی نص نہیں۔
اسلام نے عورت کے لیے یہ بات حرام ٹھیرائی ہے کہ وہ اپنے بدن کا کوئی حصہ کھولے یا کسی غیر کے ساتھ تنہائی میں رہے اور اس سے ملے جلے اور اس کے لیے یہ بات پسندیدہ قرار دی ہے کہ وہ نماز اپنے گھر میں پڑھے۔ پھر اسلام غیرمحرم پر نظر ڈالنے کو ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر خیال کرتا ہے اور عورت کو اس بات پر بھی ٹوکتا ہے کہ وہ مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے کمان کو بھی لٹکائے۔ کیا اس کے بعد بھی کہا جائے گا کہ اسلام نے اس بات کی صراحت نہیں کی ہے کہ عورت کے لیے پبلک اُمور میں حصہ لینا جائز نہیں ہے۔ 
اسلام کے نزدیک عورت کی فطری و بنیادی ڈیوٹی گھر اور بچے کی ہے۔وہ ایک لڑکی ہے جسے اپنے گھریلو مستقبل کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ وہ ایک بیوی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کے لیے وقف ہوجائے۔ وہ ایک ماں ہے جس کا اپنے شوہر اور اپنی اولاد اور گھر کے لیے فارغ ہونا ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ وہ گھر کی مالک، منتظم اور ملکہ ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر وہ کسی اور ذمہ داری کو کس طرح سنبھال سکتی ہے کیونکہ وہ گھر کے فرائض سے کب فارغ ہوسکتی ہے؟ لیکن اگر اجتماعی ضروریات مجبور کریں کہ اس فطری ڈیوٹی کے ماسوا عورت کوئی اور کام بھی کرے تو عورت کو لازم ہے کہ اُن تمام شرائط کا پوری طرح لحاظ رکھے، جو اسلام نے اس لیے مقرر کی ہیں کہ عورت مرد کے فتنے سے دُور رہے اور مرد عورت کے فتنے سے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا یہ عمل بقدر ِ ضرورت ہی ہو، نہ یہ کہ یہ کوئی عام قاعدہ یا چلن ہو، جس کے مطابق عمل کرنا ہرعورت کا حق ہو___ لیکن اس معاملے کے بہت سے گوشے ہیں جو طویل بحث و تمحیص کے طالب ہیں، بالخصوص یہ پہلو کہ اس ’میکانکی و مادی‘ دور میں بے روزگاری اور مردوں کی بے کاری ہر قوم اور ہرحکومت کی مشکل ترین گتھی ہے۔

۵جنوری ۲۰۱۹ء میں یہاں لسٹر [برطانیہ]میں نمازِ فجر کی تیاری کے لیے اُٹھا ہی تھا کہ  ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور برادر عزیز سلیم منصور خالد نے یہ دل خراش اطلاع دی کہ ’’محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔بے ساختہ میری زبان سے نکلا: An Era is over۔ ہماری تحریکی تاریخ کا ایک اہم باب اپنے اختتام کو پہنچا۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب ان خوش نصیب ساتھیوں میں سے تھے، جنھیں قیامِ پاکستان سے پہلے تحریک ِ اسلامی کی رکنیت اختیار کرنے اور دارالاسلام میں ہجرت کرکے منتقل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ بلاشبہہ مولانا مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں دینِ حق کی دعوت  اس کی اصل شکل میں پیش کرنے اور عملاً اس دعوت کی بنیاد پر اصلاح اور اجتماعی انقلاب کی تحریک برپاکرنے کی سعادت سے نوازا، اور انھوں نے اپنی زندگی کے شب و روز اس خدمت کے لیے وقف کر دیے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن سعید روحوں نے مولانا محترم کی دعوت پر لبیک کہا اور قیامِ جماعت اور اس کے بعد کے برسوں تحریک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، ان میں سے ہرشخص زمین کے نمک اور پہاڑی کے چراغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
مجھے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کی سعادت ۱۹۵۰ء میں اور جماعت اسلامی کی رکنیت کے حلف پڑھنے کا اعزاز ۱۹۵۶ء میں حاصل ہوا۔ مَیں اس حیثیت سے بڑا خوش نصیب ہوں کہ مجھے جماعت کے سابقون الاولون میں سے ایک معقول تعداد کی رفاقت نصیب ہوئی، اور ان سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا۔ پھر ان میں سے کچھ کے ساتھ، خصوصیت سے محترم میاں طفیل محمدصاحب،    مولانا مسعودعالم ندوی صاحب، مولاناعبدالغفار حسن صاحب، ملک نصراللہ خاں عزیز صاحب، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، سیّدعبدالعزیز شرقی صاحب، خان سردار علی خان صاحب، چودھری غلام محمدصاحب، حکیم اقبال حسین صاحب، چودھری علی احمدخاں صاحب، مولانا معین الدین خٹک صاحب، ملک غلام علی صاحب، نعیم صدیقی، سیّد اسعد گیلانی اور چودھری رحمت الٰہی صاحب کے ساتھ بہت قریب ہونے اور ان سے بے حدوحساب استفادے کا موقع ملا ہے۔ ان کا پیار اور سرپرستی میری زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔ ان کا وژن، ا ن کی مقصدیت اور اس باب میں یکسوئی، دین اور تحریک سے ان کی وفاداری، دیانت، امانت، معاملہ فہمی، صبروتحمل اور حکمت و تدبر کی تابناکی میرے لیے مشعل راہ رہی ہیں۔ اپنے اپنے انداز میں ہر ایک سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا اور مجھے جو تھوڑی بہت خدمت انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی، اس میں ان حضراتِ گرامی قدر کی رہنمائی اور رفاقت کا بڑا دخل ہے۔ مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی تو سرفہرست ہیں، لیکن اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ ان میں سے ہربزرگ اور ساتھی کے مجھ پر بے پناہ احسان ہیں۔ 
یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں، جنھوں نے مولانا محترم کے دستِ راست کی حیثیت سے اس تحریک کے قیام اور تشکیل و ترقی میں اہم کردار اداکیا ہے اور جو کچھ تحریک آج ہے، اللہ کے فضلِ خاص کے بعد، ان سب محسنوں کی محنت، خدمت اور کاوش کا حاصل ہے اور ان کے رخصت ہوجانے کے باوجود ان کی برکات سے یہ تحریک ہمیشہ فیض یاب ہوتی رہے گی۔ کسی نے مولاناابوالکلام آزاد مرحوم سے تاج محل کی مضبوطی اور حُسن کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے برملا کہا کہ: ’’اس کا حُسن اور اس کی مضبوطی ہردو کا انحصار اُن پتھروں پر ہے جو نظر نہیں آرہے، لیکن جو اس کی بنیاد میں ہیں اور اسے تھامے ہوئے ہیں۔ مولانا محترم اور ان کے ان ساتھیوں کا معاملہ بھی تحریک کی بنیاد ہی کا سا ہے اور ان شاء اللہ ان مضبوط بنیادوں پر یہ تحریک ہمیشہ قائم رہے گی، بشرطیکہ ہم اور ہمارے بعد آنے والے اللہ سے وفاداری، مقصد کے باب میں یکسوئی، اور دعوت اور تنظیم کے اُصولوں پر قائم رہیں اور دیانت اور حکمت سے اپنا فریضہ انجام دیتے رہیں:
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝۲۸ۭ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا۝۰ۡسِيْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ۝۰ۚۖۛ وَمَثَلُہُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ۝۰ۣۚۛ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِہٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ۝۰ۭ وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۝۲۹ (الفتح ۴۸:۲۸-۲۹) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گےاُنھیں رکوع وسجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوش نودی کی طلب میں مشغول پائوگے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے اُن کی صفت تورات میں، اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفّار اُن کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجرکا وعدہ فرمایا ہے۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب تحریک کے ان سابقون الاولون میں سے آخری چراغ تھے۔ ان کی وفات پر بے ساختہ میرے دل سے ایک باب اور ایک عہد کے ختم ہونے کی فریاد نکلی، کہ:

داغ چراغ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اِک شمع رہ گئی تھی ، سو وہ بھی خموش ہے

یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ تحریک کی کتابِ زندگی اور میدانِ دعوت کھلے ہوئے ہیں اور ان شاء اللہ کھلے رہیں گے۔ایک باب ضرور مکمل ہوا ہے، لیکن وہ نئے ابواب کا پیش خیمہ اور ان کے لیے  مشعلِ راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چودھری رحمت الٰہی صاحب کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ان کی قبر کو روشن اور ان کو جنت کے اعلیٰ مقامات سے سرفراز فرمائے اور جو صدقات جاریہ وہ چھوڑ گئے ہیں، انھیں جاری رکھے اور ان کے لیے بلند درجات کا ذریعہ بنائے، آمین!
چودھری رحمت الٰہی صاحب ضلع جہلم میں ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوئے اور ۵جنوری ۲۰۱۹ء کو لاہور میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ گریجویشن تک تعلیم حاصل کر کے برٹش انڈین فوج میں ملازمت اختیار کی اور نان کمیشنڈ افسر کی حیثیت سے ۶،۷ سال فوجی خدمات انجام دیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جنوب مشرقی ایشیا خصوصیت سے ملایا (جو اَب ملایشیا ہے) میں وقت گزرا۔ نماز، روزے کی پابندی اس زمانے میں بھی کی اور اس کی پاداش میں کورٹ مارشل اور قید کی سزا بھی بھگتی۔  مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے غالباً ۴۶-۱۹۴۵ء میں شناسائی ہوئی۔ دسمبر ۱۹۴۶ء میں سیالکوٹ میں فوجی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مولانا کے جلسے میں شرکت کی اور شہادتِ حق پر مولانا کی شہرئہ آفاق تقریر سنی، اور اسی وقت یہ عزم کرلیا کہ اب زندگی انگریزکی فوج میں نہیں، اللہ کے سپاہی کی حیثیت سے گزارنی ہے۔ فوج نے بھی ڈسپلنری کارروائی کی اور اس طرح طوقِ غلامی سے نجات پاکر نوجوان سپاہی دارالاسلام میں مولانا مودودی کے ساتھ قافلۂ حق میں شریک ہوگیا۔ 
۱۹۴۷ء کے اوائل میں رکنیت اختیار کی اور اپنے کو جماعت کے حوالے کر دیا۔ تقسیمِ ہند کے موقعے پر دارالاسلام میں مہاجرین کی دیکھ بھال، پھر لاہور کی طرف ہجرت اور وہاں مہاجر کیمپوں میں جماعت کی طرف سے خدمت اور امداد کی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ کچھ عرصے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئے اور یہاں مولانا مسعود عالم ندوی اور جناب عبدالجبار غازی کی شاگردی اختیار کی اور خصوصیت سے عربی اور دینی علوم کے حصول کو منزل بنایا۔ بدقسمتی سے یہ انتظام زیادہ عرصہ نہ چل سکا تو کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں ایک سرکاری دفتر میں ملازمت اختیار کرلی، لیکن پھر ۱۹۵۰ء کے صوبہ پنجاب و بہاول پورکے انتخابات کے موقعے پر تحریکی خدمات کے لیے پنجاب آگئے اور اس کی پاداش میں ملازمت سے فارغ کر دیے گئے۔ ویسے بھی اس زمانے میں سرکاری دفاتر سے جماعت سے متعلق افراد کی چھانٹی ہورہی تھی۔ 
اس کے بعد کراچی میں حکیم اقبال حسین صاحب، شیخ سلطان احمد صاحب اور صادق حسین صاحب کے دواساز ادارے سے وابستہ ہوگئے۔پھر محترم چودھری غلام محمدصاحب کے ساتھ مل کر ٹنڈوالٰہ یار میں زراعت کے شعبے سے وابستگی اختیار کرلی۔ جہاں تک مجھے علم ہے زراعت سے ان کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں باقی رہا، لیکن عملاً ۱۹۵۳ء سے ان کا زیادہ وقت جماعت کے مرکزی نظام میں گزرا۔ تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں جو ابتلا جماعت پر پڑی اور مولانا مودودی کو سزاے موت اور مرکزی قیادت کی گرفتاری سے آزمایش کا جو دور آیا اس میں شیخ سلطان احمد صاحب کی امارت جماعت اسلامی پاکستان میں چودھری رحمت الٰہی صاحب نے بحیثیت قیم گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 
یہی وہ زمانہ ہے جب مجھے پہلی مرتبہ ان سے ملنے اور اس کے بعد مسلسل ان سے ربط میں رہنے کا موقع ملا۔ مَیں اس زمانے میں پہلے صوبہ سندھ میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم تھا اور پھر اگست ۱۹۵۳ء میں ناظم اعلیٰ منتخب ہوا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب ایک سال تک قیم جماعت رہے اور اس کے بعد پھر کچھ عرصے کے لیےدواساز کمپنی ’آئی ساکو‘ اور پھر زراعت سے وابستہ رہے۔ ۱۱دسمبر ۱۹۶۳ء سے عملاً جماعت سے ہمہ وقتی طور پر وابستہ ہوگئے، جو سلسلہ ۲۰۰۹ء تک مختلف شکلوں میں جاری رہا۔ 
کراچی اور سندھ کے قیام کے دوران انھوں نے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر ایم اے بھی کیا اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئے۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب اور سیّد اسعد گیلانی صاحب نے میری ذاتی لائبریری سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ یہ ایک بڑی چشم کشا اور قابلِ توجہ خوبی تھی کہ جماعت کے اوّلین ارکان میں سے ہر فرد کا مَیں نے کتاب سے بڑے قریبی رشتے کا مشاہدہ کیا۔ بلالحاظ اس کے کہ ان کے پاس ڈگری تھی یا نہیں، یا کس شعبۂ زندگی سے وہ متعلق ہیں۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب فوج کے پس منظر سے آئے تھے، چودھری علی احمد خاں صاحب پولیس سروس سے آئے تھے، چودھری غلام محمد صاحب صرف میٹرک تھے اور ریلوے سروس سے آئے تھے،  مگر ان میں ہر ایک سنجیدہ مطالعے کا شوقین تھا۔ صرف جماعت کا لٹریچر تو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ہی، وہ تفسیر، حدیث، فقہ، سیاست، تاریخ، بین الاقوامی اُمور، مذہب، اشتراکیت، ادب، مغربی تہذیب اور جدید مباحث پر بصد ذوق و شوق کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ آج جہاں وطنِ عزیز میں بحیثیت مجموعی کتاب کا کردار کم ہو رہا ہے، وہیں خود تحریک میں بھی کتاب سے رشتہ کمزور ہوگیا ہے اور اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب نے محترم سلطان احمد صاحب کی امارت میں ایک سال، اور پھر محترم مولانا مودودی صاحب کی امارت میں سات سال، ازاں بعد محترم میاں طفیل محمد کی امارت میں پانچ سال بحیثیت قیم جماعت خدمات انجام دیں۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب کے دور میں ۱۹۷۹ء سے ۲۰۰۹ تک نائب امیر جماعت رہے۔ ۱۹۶۴ء میں جماعت پر پابندی کے دور میں وہ عملاً جماعت کے کرتا دھرتا تھے اور ساری قانونی اور سیاسی جنگ انھی کی قیادت میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ جماعت کے نصف درجن سے زیادہ اہم اداروں کے سربراہ یا کسی بھی مفوضہ ذمہ داری پر مامور رہے اور ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو بہترین صلاحیت، دیانت، معاملہ فہمی ،حکمت اور خوش اسلوبی سے انجام دیا۔اس طرح جماعت کی تاریخ کے بڑے حصے پر(یعنی تقریباً ۶۳برس)  ان کی  گراں قدر خدمات کے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب سے میرا  ذاتی طور پر بڑا گہر ا تعلق رہا ہے، جو ۱۹۵۳ء سے ان کی آخری بیماری تک کے طویل عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ میرے لیے وہ ایک بڑے بھائی اور تحریکی قائد تھے، مگر انھوں نے ہمیشہ جس محبت اور عزت سے معاملہ کیا، وہ میرے لیے زندگی کا سرمایہ اور ان کے کردار کا روشن ستارہ ہے۔ انھوں نے کبھی مجھے اپنے سے کم عمر محسوس نہیں ہونے دیا اور یہ ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔ 
تحریک کے جس وژن کو انھوں نے جوانی میں قبول کیا تھا، پورے اعتماد اور یکسوئی کے ساتھ وہ اس پر قائم رہے اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ پیش آمدہ معاملات پر غوروفکر کرتے اور مسائل کا حل نکالتے رہے۔معاملہ فہمی، حالات کا تجزیہ، ٹھنڈے دل و دماغ سے معاملات پر غور کرنا اور سارے ممکنہ پہلوئوں کا ادراک کرکے راے قائم کرلینا اور جو راے سوچ بچار کے نتیجے میں قائم کرلیں اسے دلیل اور سلیقے سے،کسی رو رعایت کے بغیر پیش کرنا ان کا معمول تھا۔ دوسرے کی بات کو سننا اور اس پر غور کرنا، اتفاق یا اختلاف کو دلیل کے ساتھ معقول انداز میں اور بڑے توازن کے ساتھ بیان کرنا اور پھر جو بات سب کے اتفاق یا کثرت راے سے طے ہوجائے، اس پر دیانت داری اور انہماک سے عمل کرنا___ یہ ان کا طریقہ تھا۔ میں نے انھیں کبھی اُونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ کئی معاملات پر میری اور ان کی، یا ان کی اور امیرجماعت کی راے میں اختلاف ہوا، لیکن اختلاف کو جس سلیقے سے انھوں نے پیش کیا، وہ اتنا عمدہ تھا کہ  اس کا نقش دل سے کبھی دُور نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح مجھے اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ چند معاملات پر بعد میں ثابت ہوا اور خود مَیں نے اعتراف کیا کہ ان کی راے صحیح اور میری یا میرے دوسرے ساتھیوں کی راے درست نہیں تھی۔ اس سلسلے میں ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا بائیکاٹ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اگر چودھری رحمت الٰہی صاحب کی راے پر عمل ہوتا تو مجھے اعتراف ہے کہ وہ تحریک اور ملک کے لیے کہیں بہتر ہوتا۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب اپنے مقصد ِ زندگی کے بارے میں نہایت یکسو تھے اور  اسی وجہ سے اپنے وژن اور معاملات کی تفہیم کے باب میں بہت واضح ذہن رکھتے تھے۔ تحریک کے متعلق ان کی راست فکری بے حد نمایاں اورمتاثرکن تھی۔ ان کی دیانت اور امانت اور جماعت کے اثاثوں کے بارے میں حساسیت اپنی مثال آپ تھی۔ اجتماعی زندگی کے معاملات میں اعتدال اور میانہ روی ان کا طرئہ امتیاز تھا۔ سادگی، صفائی اور نظافت ان کے مزاج کے مظاہر تھے۔ معاملات میں مشاورت، دوسرے کی راے کو سننا، اس پر غور کرنا اور سلیقے سے ردعمل ظاہر کرنا ان کا شعار اور مشاورت کے نظام کو فروغ دینے میں ممدومعاون تھا۔وہ تحمل اور بُردباری کا ایک نہایت قابلِ قدر نمونہ تھے اور اصول اور ضابطے کی پاسداری میں اپنی مثال آپ تھے۔ اقبال کے الفاظ میں اگر مَیں ان کی شخصیت کا خلاصہ بیان کروں تو کہہ سکتا ہوں کہ:

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز

ان کی شخصیت کے دو پہلو مزید ایسے ہیں، جن کا ذکر کیے بغیر بات نامکمل رہے گی۔    مَیں نے اُن میں Crisis Management (یعنی بحرانی صورتِ حال سے نمٹنے) کی غیرمعمولی صلاحیت کا بار بار مشاہدہ کیا۔ ایک انسان کا اور خصوصیت سے ایک قائد اور ذمہ دار شخص کا سب سے بڑا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اسے کسی بحران یا چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خواہ اندرونی ہو یا بیرونی۔ میں نے محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب کو بحران کی دونوں صورتوں میں بڑا متحمل، متوازن، معاملہ فہم اور مشکلات اور غلط فہمیوں میں سے راستہ نکالنے والا پایا۔ 
اس ضمن میں میرا پہلا تجربہ اس وقت سے متعلق ہے جب مَیں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا اور ڈاکٹر اسراراحمد بھائی نے ایک زوردار تقریر کر کے جمعیت کو اندرونی طور پر بڑے تنظیمی بحران سے دوچار کر دیا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب اس وقت قیم جماعت تھے، اگرچہ وہ بلاواسطہ اس کمیٹی میں نہیں تھے جس نے معاملات کا جائزہ لے کر اس بحران سے جمعیت کو محفوظ کیا۔ لیکن ذاتی طور پر میں پہلی مرتبہ ان سے اس موقعے پر ملا اور ان کی گفتگو اور دلائل سے دل پر بڑا گہرا نقش ثبت ہوا۔ اسرار بھائی کے خیال میں حالات کا تقاضا یہ تھا کہ: ’’جماعت اور جمعیت کو ایک نظم میں آنا چاہیے‘‘۔ لیکن چودھری رحمت الٰہی صاحب نے بڑے سلیقے اور ٹھنڈے انداز میں جداگانہ نظم کی حکمتوں پر روشنی ڈالی اور اس سے مجھے بہت تقویت محسوس ہوئی۔ 
پھر جب ۱۹۶۴ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی پر پابندی لگی تو اس موقعے پر پوری قانونی اور سیاسی لڑائی میں چودھری رحمت الٰہی صاحب کا کردار قائدانہ تھا۔ جماعت کے اندر نظم کو قائم رکھنا اور جماعت کے باہر کے عناصر سے ربط اور ان سے تعاون کا حصول،    اے کے بروہی صاحب اور پوری قانونی ٹیم کو ضروری معلومات فراہم کرنا اور ان سے قانونی معاملات طے کرنا، پھر اسی پس منظر میں ملک کی دوسری سیاسی قوتوں کو جمع کر کے ’متحدہ حزبِ اختلاف‘ (Combined Opposition Parties - COP) کا قیام اور اس میں جماعت کا کردار، اور پھر محترمہ فاطمہ جناح کو صدر جنرل ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی اُمیدوار کے لیے لانا، اس کے لیے جماعت کے اندر اور باہر فضا ہموار کرنا، اس مقصد کے لیے مولانا مودودی اور جماعت کی زیرحراست قیادت سے ربط و مشورہ___ یہ پورا دور غیرمعمولی دبائو، کش مکش، اشتعال اور تنازعے کا دور تھا۔ تاہم، چودھری رحمت الٰہی صاحب نے جس سمجھ داری، تحمل، حکمت اور تحریکی وفاداری کے ساتھ یہ معرکہ سر کیا، اس نے دل میں ان کے مقام کو بلند اور محکم کر دیا۔ 
اسی طرح جب ۱۹۹۴ء میں کچھ خاص اندرونی حالات کی وجہ سے محترم قاضی حسین احمد صاحب سخت دل برداشتہ ہوکر جماعت کی امارت سے مستعفی ہوگئےتھے۔ ان چند مہینوں میں بھی قائم مقام امیر کی حیثیت سے محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب نے تمام معاملات کو حکمت و دانائی اور دستورِ جماعت کے فریم ورک میں رہتے ہوئے سلجھایا اور محترم قاضی صاحب نے پھر انتخابِ امارت کے بعد ذمہ داری سنبھالی۔ 
بیرونِ ملک بھی ایک اسلامی تحریک کے اندرونی خلفشار کے عالم میں اس کے ارکان نے محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور مجھے معاملات کو سلجھانے کی ذمہ داری سونپی اور میں نے دیکھا کہ اللہ کے فضل اور چودھری صاحب کی بالغ نظری کی وجہ سے ایک ہفتے ہی میں معاملات کو سنبھال لیا گیا۔ یہ ان کی غیرمعمولی صلاحیت اور خدمت تھی۔جزاھم اللہ خیر الجزاء۔
دوسرا تذکرہ ہے ان کے اس کردار کا، جو بحیثیت وزیربجلی اور توانائی انھوں نے انجام دیا۔ مجھے ان کے ساتھ پاکستان قومی اتحاد کی مرکز میں حکومت میں آٹھ ماہ گزارنے کا موقع ملا۔ ڈیڑھ مہینے تک میں ان کے اور پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب اور برادرم محموداعظم فاروقی کے ساتھ واپڈا گیسٹ ہائوس میں رہا ہوں، جو انھی کی وزارت کے تحت تھا۔ وہ خود تقریباً پانچ مہینے وہاں رہے اور پروفیسر عبدالغفور صاحب اور محموداعظم فاروقی صاحب وزارت کے پورے زمانے میں وہیں مقیم رہے۔ وزارت اور کابینہ میں اور عوام اور انتظامیہ کے ساتھ نیز فوجی قیادت کے ساتھ، جس طرح وہ معاملہ کرتے تھے اور جس اعتماد اور خوب صورتی سے اپنی راے کا اظہار کرتے تھے، وہ نہایت متاثرکن تھا۔ حالاں کہ ہم سب کا حکومت میں یہ پہلا تجربہ تھا لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جماعت سے متعلق چاروں وزرا نے اپنے اپنے شعبوں میں، اور بحیثیت مجموعی ان تمام افراد پر جن سے سابقہ پیش آیا ایک منفرد مثال قائم کی۔ 
صلاحیت ِکار اور دیانت دونوں پہلوئوں سے اپنے نقوش چھوڑے اور پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک ہی بار ایسا ہوا ہے کہ جب وزیروں نے استعفا دے کر حکومت چھوڑی ہو، اور وزارت کے لوگوں نے اجتماعی طور پر دعوت کی شکل میں رخصت کرنے کا اہتمام کیا ہو۔ جماعت کے چاروزرا کے علاوہ کسی دوسرے وزیر کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، اور اس سے پہلے اور اس کے بعد اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزارت میں آنے کے وقت خوش آمدید کہنے کی مثالیں تو موجود ہیں،  لیکن وزارت چھوڑتے وقت اس طرح رخصت کرنے کی مثال کم از کم ہمارے ملک میں تو نہیں۔ محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب کے وزارت چھوڑنے پر وزارت کے اسٹاف کو سخت افسوس تھا۔ واپڈا کے اس وقت کے چیئرمین فضل رزاق صاحب جو صوبہ سرحد کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل فضل حق کے بھائی تھے، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، وہ بھی ان سے متاثر تھے اور ہمیشہ ان کا ذکر احترام سے کرتے تھے:

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

جماعت کا ۱۹۵۸ء کے انتخاب کے لیے جو منشور مرتب ہوا، اس کا پہلا ڈرافٹ جس کمیٹی نے بنایا، اس کے سربراہ بھی چودھری رحمت الٰہی صاحب تھے اور اس کمیٹی میں چودھری غلام محمد صاحب اور مجھے اس کی رکنیت کا شرف حاصل ہے۔آخری ڈرافٹ بہرحال مولانا مودودی نے مرتب فرمایا تھا، لیکن اس میں ہمارے ڈرافٹ کا بڑا حصہ شامل تھا۔ ایک مدت تک مرکزی مجلس شوریٰ کی قرارددوں کو جو کمیٹی مرتب کرتی یا آخری شکل دیتی رہی، اس میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب، چودھری رحمت الٰہی صاحب اور مجھے یہ خدمت انجام دینے کی سعادت حاصل رہی۔چودھری صاحب کی اُردو تحریر جامع، مختصر اور واضح ہوتی تھی اور جس تحریر کو وہ دیکھ لیتے تھے اس کے بارے میں اطمینان ہوجاتا تھا کہ وہ نقص سے پاک ہے۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب اپنے خاندان اور اس سے بڑھ کر اپنے وسیع تر نظریاتی اور تحریکی خاندان کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت تھے۔ موت برحق ہے اور کسی کو بھی اس سے مفر نہیں، لیکن ان کے اُٹھ جانے سے جو خلا واقع ہوا ہے اس کا بھرنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ مگر یقین ہے کہ اللہ کے دین کی یہ دعوت دنیا کے آخری لمحے تک کے لیے ہے اور جس ربّ نے یہ رہنمائی کمالِ مہربانی سے عنایت فرمائی ہے، وہ برابر ایسے افراد بھی ذمہ داری کے مناصب پر مامور کرتا رہے گا، جو دین حق کو اس کی اصل شکل میں، اپنے دور کے حالات کی اصلاح اور تشکیل نو کے لیے برپا کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دُعا ہے کہ ہمارے رخصت ہونے والے بھائی پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا رہے اور ان کی اس ابدی زندگی کو روشن اور تابناک بنائے، آمین!

اس کا چہرہ گرد سے اَٹا پڑا تھا۔ کپڑوں پر جگہ جگہ پیوند تھے۔ بھوک اور بدحالی چہرے سے صاف جھلک رہی تھی۔میں نے اسے بنک کی دہلیز پر سوتے ہوئے دیکھا۔ سورج کی کرنیں قریب تر ہوتے ہوتے اس کے سینے تک جاپہنچی تھیں۔ لیکن ان کی گرمی ابھی اسے محسوس نہیں ہوئی تھی۔ شاید بھوک کے مارے وہ رات بھرسو نہیں سکا تھا۔
میں اسے دیکھ کر گہری سوچ میں ڈوب گیا:’’اس فقیر کے اور دولت کے خزانے کے درمیان صرف چند میٹر کی دوری ہے۔ بخدا ہم تضادات کی دنیا میں جی رہے ہیں‘‘۔
میں نے جیب میں حرکت محسوس کی۔ ہاتھ ڈالا تو گرم اور متحرک سی چیز ہاتھ آگئی۔    نکال کردیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، یہ تو روپیہ ہے۔
میں نے کہا: میری جیب میں تمھیں کیا پریشانی تھی جونکلنے کے لیے یوں بے چین تھے؟
روپیہ : میں مدت سے تمھاری جیب میں ہوں، مگر تم نے میرے مقصد ِوجود کے مطابق کبھی میرے ساتھ معاملہ نہیں کیا۔
مـیں: تمھارے وجود کا کیا مقصد ہے؟
روپیہ : یہی کہ ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے علاوہ اللہ کے بندوں کی مدد کی جائے۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مجھے خرچ کیا جائے۔
مـیں:لیکن یہ بھی تو بتائو کہ تم میرے پاس کس طرح پہنچے؟
روپیہ : میری کہانی بہت لمبی ہے۔ میںبہت سے ہاتھوں میں گھومتا رہا ہوں۔ ایک شخص نے میرے بدلے شراب خریدی، دوسرے نے مجھے دے کر گندی فلمیں خریدیں،تیسرے نے چوتھے کو رشوت میں پیش کیا۔ اس نے تم سے ایک سامان خریدا اور میں تمھاری جیب میں آگیا۔   وہ سب دولت کے پجاری تھے، البتہ ابھی تمھارے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے۔
مـیں: تمھیں کیسے پتا چلا کہ وہ دولت کے پجاری تھے؟
روپیہ : ان کا میرے ساتھ سلوک اس پر گواہ ہے۔ اسی لیے امام حسن بصریؒ نے کہا تھا: ’’ہر قوم کا ایک بت ہوتا تھا جسے وہ لوگ پوجتے تھے ۔اس قوم کا بت درہم و دینار [روپیہ] ہیں‘‘۔
 اور یہ بھی سن لو کہ اگر تم نے مجھے بھلائی کے کاموں میں خرچ نہیں کیا تو میں تمھیں جلادوں گا۔
مـیں: ارے یہ کیا کہہ رہے ہو؟
روپیہ : ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انھیں خداکی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں ، پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا‘‘۔
مـیں: تم تو بہت خطرناک چیز ہو۔
روپیہ : ان کا حال دیکھو، جن کے پاس میں پہلے تھا۔ وہ برائیاں بوتے تھے اور نیکی کے پھلوں کی اُمید رکھتے تھے۔ کیا ببول کے درخت سے انگور بھی ملا کرتے ہیں۔ ان کے راستے سے ہوشیار رہو۔دیکھو، یہ بے چارا بھوک کا مارا فقیر جو تمھارے سامنے ہے، مجھے ا س کے حوالے کردو ۔ میں قیامت کے روز تمھارے حق میں گواہی دوں گا۔ تم اپنے اندر سفیانؒ ابن عیینہ جیسا احساس پیداکرو۔
مـیں: ابن عیینہ کون تھے اور ان کا احساس کیسا تھا؟ کچھ بتائو بھی تو سہی۔
روپیہ : وہ عظیم تابعی تھے ۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں آگے آگے رہتے تھے۔ ایک بار اپنے شاگرد کے ساتھ جارہے تھے کہ راستے میں ایک سائل ملا۔ اس دن ان کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہ رونے لگے۔ شاگرد نے کہا: ’’استاد محترم آپ رو کیوں رہے ہیں؟ ‘‘  انھوں نے جواب دیا: ’’کسی آدمی کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی کہ اس سے بھلائی کی توقع کی جائے اور وہ توقع پوری نہ ہوسکے‘‘۔
مـیں: یہ تو بڑا لطیف احساس ہے۔
روپیہ : یہ احساس پیدا کرواور اپنی جوانی کے ان سنہرے اوقات کی قدر کرو، تاکہ اجر وثواب میں کئی گنا اضافہ ہو۔
مـیں: تو کیا بھلائی کے کاموں پر بڑھاپے اور جوانی کا فرق بھی اثر انداز ہوتا ہے؟
روپیہ : ہاں، ایک شخص رسول پاکؐ کے پاس آیا اور پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ سب سے عظیم صدقہ کیا ہے؟ 
آپؐ نے جواب دیا : وہ صدقہ جو تم تندرستی کی حالت میں دو ، دل میں مال کی محبت ہو اور فقیر ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ 
علامہ ابن بطالؒ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: ’’چونکہ صحت ہوتی ہے تو مال سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے اس وقت صدقہ کرنا سچی نیت کی علامت اور زیادہ ثواب کا باعث قرار پایا۔ اس کے برخلاف ایک وہ آدمی ہوتا ہے جو اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا ہوتا ہے اور اسے صاف نظر آتا ہے کہ اس کا مال اب دوسرے کی جھولی میں جانے والا ہے‘‘۔
مـیں: بخدا تم نے میرے ذہن کے کئی بند گوشے کھول دیے۔ لیکن کیا تمھیں ایسا نہیں لگتا کہ تم فتنے کا سبب ہو؟
روپیہ : یقینا میں ایک فتنہ ہوں۔ عام لوگوں کی بات چھوڑو۔ کتنے عالم، زاہد اور دین کے داعی ہیں جو میرے جال میں پھنس گئے۔ تم بہت سارے لوگوں سے ملوگے، جن کا لباس دین دارانہ اور جن کا دسترخوان زاہدانہ نظر آئے گا، لیکن وہ میری چمک اور کھنک برداشت نہیں کرپاتے۔
مـیں: تم درست کہہ رہے ہو۔ خدا مجھے فتنوں سے محفوظ رکھے اور قناعت کی دولت نصیب کرے۔پھر میں آہستہ سے فقیر کے قریب جابیٹھا۔اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھا۔ وہ چونک کر  اُٹھ بیٹھا۔ میں نے کہا:
ڈرو مت، میں بھلا آدمی ہوں۔ یہ روپیہ لو اور اپنی مصیبتوں سے مقابلہ کرو۔
اس نے بے نیازی سے روپے لینے سے انکار کردیا اور بولا میں بھکاری نہیں ہوں۔
میں نے کہا: تم بھکاری نہیں ہو، لیکن ضروت مند توہو۔
میرے اصرار پر اس نے وہ روپیہ لے لیا۔

جا نماز سے

فجر سے کچھ پہلے اس کی آنکھ کھلی۔ اسے شدید پیاس کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ بستر سے باہر نکلا۔ یکایک اسے فرش کی طرف سے کراہنے کی آواز آئی ۔ وہ غور سے دیکھنے لگا۔ آواز غائب ہوگئی۔  وہ پانی کے جگ کی طرف گیا، ایک گلاس پانی پیا اور دوبارہ آکر بستر میں گھس گیا۔ 
سردی اچھی خاصی تھی۔ کراہنے کی آواز دوبارہ سنائی دی۔ اس مرتبہ آواز اور تیز تھی۔ لگ رہا تھا کہ کوئی رو رہا ہے۔ اس نے لیٹے ہی لیٹے فرش کو ٹٹولا اس کے ہاتھ میں وہاں رکھی ہوئی جانماز آگئی۔ جانماز ہاتھ آتے ہی آواز بند ہوگئی۔
اس نے تعجب سے کہا: کیا تم ہی کراہ رہی تھیں؟
جانماز: ہاں۔
وہ: لیکن کیوں؟
جانماز:تمھیں تو تمھاری پیاس نے جگادیا۔ تم پانی پی کر سیر بھی ہوگئے۔ مجھے بھی تو پانی کی ضرورت ہے، لیکن مجھے سیراب کرنے والا کوئی نہیں ملتا۔
وہ: تو کیا تم چاہتی ہو کہ میں ایک گلاس پانی تمھارے اوپر لا کر انڈیل دوں؟
جانماز:نہیں یہ پانی میری پیاس نہیں بجھائے گا، میری پیاس تو عبادت وانابت کرنے والے اللہ کے نیک بندوں کے آنسوئوں سے بجھے گی۔
وہ: میں تمھیں ایسے آنسو کہاں سے لاکر دو ں، میری جانماز؟
جانماز:یہی تو میرے رونے کی وجہ ہے۔ اُٹھو رات کے اس اندھیرے میں دو رکعت نماز اللہ کے حضور ادا کرو۔ یہ نماز قبر کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُجالا کرے گی۔ رات تھوڑی سی ہی بچی ہے۔ وقت کم ہے ۔ پھر فجر کا مؤذن اذان دے دے گا۔
وہ: تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو (وہ سوجاتا ہے)۔
جانماز: اٹھو فجر کی نماز تو پڑھ لو کہ فجر کی نماز قلب وروح کی زندگی ہے۔ دیکھو، مؤذن پکار رہا ہے: الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ ’’نماز نیند سے بہتر ہے‘‘۔ تم … تم دن رات دنیا کی پکار پر دوڑتے رہتے ہو مگر خداے ذوالجلال کی پکار پر تمھارے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ آخر تمھیں کیا ہوگیا ہے؟
وہ: (جھنجھلاہٹ سے) مجھے سونے دو۔ تم روز مجھے دیکھتی ہو میں رات کو تھکا ہوا آتا ہوں، مجھے جی بھر کر سو لینے دو۔ وہ پھر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
جانماز: سنو! کیا تم اپنی زندگی، دین سے زیادہ دنیا کی نذر کردو گے؟
وہ: (سختی سے) اب خاموش ہوجائو۔ میں تھکا ہوا ہوں، مجھے سونے دو۔
جانماز: (غمگین لہجے میں) آہ کہاں گئے وہ فجر کے نمازی! کہاں گئے وہ فجر والے!
سنو! کیا تم نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ خوش خبریاں نہیں سنیں:

  • جس نے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے (یعنی فجر اور عصر کی ) نماز پڑھی، وہ جہنم کی آگ میں نہیں جائے گا۔
  • جس نے ٹھنڈک والی (فجر اور عصر) دونوں نمازیں پڑھیں وہ جنت میں جائے گا۔
  • اندھیرے میں مسجد کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی خوش خبری سنادو۔ 
  • منافقوں پر فجر اور عشاء سے زیادہ گراں اور کوئی نماز نہیں ہے اور اگر وہ ان کے ثواب کو جان لیں تو گھسٹتے ہوئے آئیں۔

وہ: چونک پڑا! اس کا مطلب ہے کہ فجر کی نماز بہت اہم ہے۔
جانماز: یہی تو بات ہے۔ اب اُٹھو ، اٹھ کر نماز کی تیاری کرو۔
وہ: دیکھو میں کل سے ضرور نماز شروع کردو ں گا لیکن آج مجھے سونے دو۔ آج تھکا ہوا ہوں۔
جانماز: (افسوس سے) جسے عمل کے ثواب کا یقین نہ ہو، اس پر ہر حالت گراں ہوتی ہے۔ سونے کے لیے قبر کی کوٹھری بہت کافی ہے، مدتوں سوتے رہو گے، پھر میری نصیحت یاد آئے گی۔
جانماز خاموش ہوگئی۔ وہ دوبارہ سوگیا۔ لیکن یہ کیا! یہ تو اس کی آخری نیند تھی۔ وہ سویا مگر پھر اس کی آنکھ نہیں کھل سکی…!

قیامِ پاکستان کے ۱۱ سال اور ۵۴ روز بعد، ۷؍اکتوبر۱۹۵۸ء رات کےساڑھے دس بجے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلےصدر اسکندر مرزا [م:۱۳ نومبر ۱۹۶۹ء]نے ملک میں مارشل لا نافذکرکے قومی اور صوبائی حکومتوں کو برطرف ،مرکز اور صوبوں میں اسمبلیوں کو برخواست،سیاسی جماعتوں پر پابندی اور سپہ سالار جنرل محمد ایوب خان [م: ۱۹؍اپریل ۱۹۷۴ء]کو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا اعلان جاری کیا۔اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان میں سول حکومتوں کے خاتمے اورفوجی حکمرانی کے ۱۳ سالہ طویل دور کا آغاز ہوا، جس کا اختتام ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء  کو اُس وقت ہوا، جب آمریت کے تضادات، داخلی تصادم اور بھارتی یلغار کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔
اس زمانے میں مغربی دانش وَر اورمؤثر حلقے تسلسل سے یہ نظریہ پیش کر رہے تھے کہ: ’’فوج ترقی پذیر ممالک میں سب سے منظم اور جدید تعلیم یافتہ ادارہ ہے اور ان ملکوں میں فوجی اقتدار ہی ایک مؤثر نظام حکومت فراہم کر سکتا ہے جس کے ذریعے یہ ریاستیں ترقی کرسکتی‎ ہیں‘‘۔ 
جنرل محمد ایوب خان پاکستان کےپہلے فوجی حکمران تھے۔وہ ۱۷جنوری ۱۹۵۱ء کو پاکستانی افواج کے اولین کمانڈر انچیف بنے۔ انھوں نے اکتوبر۱۹۵۸ء سے مارچ ۱۹۶۹ء تک کے زمانے میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، فیلڈ مارشل اور پھر صدر کی حیثیت سے مجموعی طور پر ۱۰ سال سے زائد عرصہ تک متحدہ پاکستان میں حکومت کی۔ ان کی خواہش کے مطابق تیار کردہ ‎۱۹۶۲ء کا آئین، پارلیمانی نظام کے بجاے صدارتی نظام پر مبنی تھا، جو پوری طرح جنرل ایوب خان کی ذات کے گرد گھومتا تھا۔  ان کے دورِ حکومت میں پاکستان میں ایک نا ہموار اور غیر متوازان معاشی ، صنعتی اور زرعی ترقی ہوئی۔ تاہم، ان کے کئی ہمدرد آج تک انھیں ایک ’خیراندیش‘ آمر (Benevolent Dictator) کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں۔
جنرل ایوب خان کا نظریہ تھا کہ: ’’دورِجدید کے سیکولر نظام حکومت کو اپنا کر ہی پاکستان ترقی کر سکتا ہے‘‘۔ اپنے ۱۰ سالہ دور اقتدار میں انھوں نے پاکستانی عوام کوہمیشہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مسائل کا حل جدید دور کے نظریات ہی کی مدد سے ممکن ہے۔ انھیں اپنے بارے میں یقین تھا کہ صرف وہی پاکستان کے نجات دہندہ ہیں اور تمام ’رجعت پسند‘ (Reactionaries) اور   ’بنیاد پرست‘ (Fundamentalists ) قوتوں کو بے اثر کرسکتے ہیں، جو ان کے بقول: ’’اسے پتھر کے زمانے کی غاروں میں واپس دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘۔
اس پورے عرصے میں ایک پالیسی کے تحت مولانا مودودی [م:۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء]کی ذات اورجماعت اسلامی، جنرل ایوب صاحب کا خاص ہدف تھی۔ جس کی وجوہ سیاسی اور نظریاتی بھی تھیں۔ اس دور میں جماعت اسلامی واحد سیاسی اور دینی پارٹی تھی، جو مولانا مودودی کی قیادت میں ایک واضح نصب العین کے ساتھ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام ، قانون کی حکمرانی کے احیا اور فوجی آمریت کے خلاف، جمہوریت پسند قوتوں سے مل کر بھرپور سیاسی جدوجہد کر رہی تھی۔
میاں طفیل محمد [م:۲۵ جون ۲۰۰۹ء]کے مطابق: ’’[ جنرل ایوب خان ] پاکستان میں مستقلاً غیر محدود حکمرانی کا اختیار حاصل کرنا چاہتے تھے اور مولانا مودودی کو اپنی راہ کی بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے مولانا مودودی کو لاہور کے گورنر ہاؤس میں بلا کران سےطویل ملاقات کی۔ میاں طفیل محمد جو اس میٹنگ میں مولانا کے ساتھ شریک تھے ،انھوں نے اس بات چیت کےبارے میں لکھا ہے کہ جنرل ایوب نے مولانا کو سمجھاتے ہوئے بہت ’مشفقانہ انداز‘  میں فرمایا: ’مولانا یہ سیاست تو بہت گندا کام ہے۔ آپ جیسے بلندکردار اور پاکیزہ نفس لوگ اس میں کیوں پڑگئے ہیں؟ آپ اسے چھوڑیں اور ملک کے اندر بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی تبلیغ فرمائیں۔ سیاست، سیاسی لوگوں کو کرنے دیں۔ اس دلدل میں تو جو بھی قدم رکھے گا، کیچڑ سے لت پت ہوگا ۔ آپ مذہب کا اور تبلیغ کا کام کریں تو ہماری حکومت آپ سے تعاون کرے گی‘۔ مولانا نے اس کے جواب میں فرمایا:’جنرل صاحب، آپ ٹھیک ہی فرماتے ہیں کہ اس وقت سیاست کو غلط کار اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے ایک گندا کھیل بنا دیا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے اور اس خرابی نے ہماری زندگی کے ہردوسرے شعبے کو فلتھ ڈپو [گندگی کا مرکز]بنا دیا ہے۔ اس لیے جب تک سیاست کو گندگی سے پاک نہیں کیا جائے گا، زندگی کے کسی شعبے کو بھی درست اور صحت مند نہیں بنایا جاسکتا۔ اجتماعی نظامِ زندگی سے اس گندگی کو دُور کرنے کی کوشش ہمارے نزدیک کوئی سیاسی کام نہیں، بلکہ سراسر ایک دینی فریضہ ہے‘‘۔
ایوب خان نے فرمایا: ’’مولانا، پھر یہ کام کرتے ہوئے تو آپ اپنے کو غلاظت کی آلودگی سے نہیں بچا سکتے‘‘۔ مولانا نے جواب دیا:’’اس میں کیا شک ہے کہ جو شخص بھی غلاظت اور سیوریج صاف کرنے کا کام کرے گا، وہ چاہے کتنی ہی احتیاط برتے، کچھ نہ کچھ چھینٹے تو اس کے کپڑوں پر ضرور پڑیں گے۔ لیکن اگر اس خوف سے سیوریج صاف ہی نہ کیا جائے تو پھر لامحالہ سارے شہر کی صحت خطرے میں پڑ جائے گی‘‘۔(مشاہدات ،میاں طفیل محمد،نومبر ۲۰۰۰ء، ص ۳۲۲)
مولانا مودودی کو سیاست سے دست بردار کرنے میں ناکامی کے باعث ایوب خان اور ان کے ساتھیوں کی سوچ میں، جماعت اسلامی اور امیر جماعت مولانا مودودی کے خلاف پہلے سے موجودمخاصمت میں اور بھی شدت آگئی۔ 
 –ایوب خان اپنے دورِ اقتدار میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف جارحانہ رویےپر قائم رہے ۔ اس منفی سوچ کا اندازہ ان کی خود نوشت Friends not Masters (’جس رزق   سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘) کے مطالعے سے ہوتا ہے، یا پھر ان کی تحریر کردہ ڈائری کے مندرجات سے، جو ۲۰۰۷ء میں امریکی مصنف اور سفارت کار کریگ بیکسٹر (Craig Baxter ) نے: Diaries of Field Marshal Muhammad Ayub Khan (1966-1972) کے نام سے مرتب کی اور اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔   
 اس سے پہلے کہ ہم مولانا مودودی کے بارے میں جنرل ایوب خان کی انتہائی آرا سے آگاہی حاصل کریں ،ایوب خان کےعروج اور زوال کے عوامل کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں: 
ایوب خان جنوری ۱۹۴۸ء میں مشرقی پاکستان میں جرنل آفیسر کمانڈنگ مقرر ہوئے۔ اس تقرر کے دوران انھیں وہاں کے تمام قابل ذکر سیاست دانوں سے ملنے کا موقع ملا اور ان کی باہمی چپقلش کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ پھر سیاست دانوں کے بارے میں فرض کر لیا کہ: ’’سیاست دان ملک کو ایک مضبوط اور مستحکم لیڈرشپ فراہم نہیں کر سکتے‘‘۔ ۱۹۵۰ء میں مشرقی پاکستان سے واپسی پر فوج کے ہیڈ کوارٹر (GHQ) راولپنڈی میں ایڈجوٹنٹ جنرل مقرر ہوئے۔ وہ فوجی افسروں کے سامنے مختلف لیکچرز میں بار بار یہ کہتے: ’’پاکستان کو چلانے کے لیے سیاست دانوں پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اس دوران ان کے تعلقات اسکندر مرزا سے استوار ہوئے، جو اس وقت پاکستان کےسیکریٹری دفاع تھے۔ اسکندر مرزا ہی کی حمایت سے ایوب خان جنوری ۱۹۵۱ء میں پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف مقرر ہوئے۔ اسی سال پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران ۱۶؍اکتوبر کو گولی مار کر شہید کردیا گیااورملک غلام محمدگورنر جنرل بن گئے [ملک غلام محمدکا تعلق بیورو کریسی کی آڈٹ اور اکاؤنٹ سروس سے تھا اور ۱۹۵۱ءمیں وہ پاکستان کے وزیر خزانہ تھے]۔ انھوں نے گورنر جنرل کے اختیارات کو ایک سویلین آمر کی طرح استعمال کیا اور دستور ساز اسمبلی ۲۴؍اکتوبر۱۹۵۴ء کو برخواست کر دی۔ ۱۹۵۵ء میں اسکندر مرزا نے ملک غلام محمد کو مستعفی ہونے پر مجبور کرکے خود گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔اس دوران ملک میں یکے بعد دیگرے تین وزیر اعظم تبدیل ہوئے، جب کہ دوسری جانب ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۸ء تک کے عرصے میں جنرل ایوب کو کمانڈر ان چیف کے عہدےپر (الطاف گوہر کے مطابق دوبار چار چار سال کی،جب کہ امریکی محقق ہربرٹ فیلڈمین کے مطابق انھیں دونوں مرتبہ پانچ پانچ سال کی) توسیع ملتی رہی۔ ۱۹۵۳ء میں ایوب خان نے ترکی کا دورہ کیا تو ترک فوج ان کی آئیڈیل بن گئی اور پھر ۱۹۵۴ء میں امریکا کے تفصیلی دورے میں ایوب خان امریکیوں کو یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ :’’میری سر براہی میں پاکستانی فوج خطے میں کمیونزم کو پھیلنے سے روک سکتی ہے‘‘۔   ایوب خان ہی کی کوششوں سے پاکستان سیٹو اور سینٹو کا ممبر بنا اور۱۹۵۵ءمیں امریکا اور پاکستان کے درمیان ’باہمی دفاعی معاہدہ‘طے پایا، جس سے پاکستان میں امریکی اثر ورسوخ اور قومی اُمور میں مداخلت میں بے حداضافہ ہوا۔یادرہے کہ ایوب خان۱۹۵۴ء سے کمانڈر انچیف کے ساتھ ساتھ وزیردفاع کے عہدے پر فائز تھے، اور اس حیثیت میں مرکزی کابینہ کے ایک انتہائی بااثر رکن تھے۔
۱۹۶۷ء میں شائع ہونے والی اپنی خودنوشتFriends Not Masters میں ایوب خان صاحب لکھتے ہیں: ’’آغاخان سوم [م:۱۱جولائی ۱۹۵۷ء]کی دُور اندیشی سے مَیں بہت متاثر تھا۔ مجھے ان سے بارہا گفتگو کا موقع ملا۔ لیاقت علی خاں کے قتل کے کچھ ہی دن بعد جب مَیں برطانیہ گیا ہوا تھا، آغاصاحب کی دعوت پر سمندر کے کنارے ایک پُرفضا مقام یاکی مور، نیس[فرانس] میں مَیں اُن کا مہمان تھا۔تب ان سے میری ایک دل چسپ ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھے کہا: ’میں کہے دیتا ہوں کہ اگر آپ نے پارلیمانی نظام اختیار کیا تو پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ دراصل میں نے یہی بتانے کے لیے تمھیں یہاں بلوایا ہے، اور تنہا تم ہی وہ شخص ہو جو پاکستان کو بچاسکتے ہو‘۔ میں نے پوچھا: ’آپ کے خیال میں کس طرح بچا سکتا ہوں؟‘۔وہ بولے: ’اس نظام کو بدل دو، اور یہ کام حقیقت میں تم ہی کرسکتے ہو‘‘(ص ۱۹۲)۔اور جنرل صاحب نے اس بات کو بطور ’وصیت‘ پلّے باندھ لیا۔
صدر اسکندرمرزا نے ۷؍اکتوبر۱۹۵۸ء کو ۱۹۵۶ء کا متفقہ پارلیمانی آئین منسوخ کردیا، اور پورے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے ایوب خان کونہ صرف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بلکہ مسلح  افوا ج کا سپریم کمانڈر بھی مقرر کردیا۔حالاں کہ ۱۹۵۶ء کے آئین کے مطابق یہ عہدہ صدر پاکستان کے لیے مخصوص تھا۔ پھر جنرل ایوب خان سپریم کمانڈر نے اپنے ہی اعلان کردہ مارشل لا نظام میں ۲۷؍اکتوبر کو اسکندرمرزا سےاستعفا لیا ، خودصدر بن گئے اورمرزا صاحب کو لندن جلاوطن کر دیا۔ پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ اس وقت تک کئی دھڑوں میں تقسیم ہو کر مختلف ناموں سے کام کررہی تھی۔ تب پاکستان میں مولانا مودودی کی سر براہی میں جماعت اسلامی وہ واحد سیاسی قوت تھی، جو پورے پاکستان میں ایک مضبوط تنظیم اور مربوط منشور کے ساتھ سرگرم عمل تھی۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی سخت گیر مارشل لا کی دہشت بٹھاکر اقتدار مستحکم کرلیا۔ ۱۹۵۹ء میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی، اور آزاد صحافت بھی قدغن کا شکار بن کر رہ گئی۔ ایوب دور میں عوام کی سیاسی عمل میں شرکت صرف ’بنیادی جمہوریت‘ کے نئے نظام کے تحت ہی ممکن بنائی گئی ۔ پاکستان کا صدر منتخب کرنے کا حق صرف ۸۰ ہزار مقامی رہنماؤں کو دے کرایوب خان نے یہ فرض کرلیا کہ اب وہ ہرقسم کے احتساب سے آزاد ہیں۔ ان کی حکومت کا دارو مدار بیورو کریسی پر تھا۔
ایوب خان کے قائم کردہ شخصی نظام میں حکومت پر جائز تنقید، بازپُرس اور اس کے احتساب کی کوئی گنجاش نہیں تھی۔جو بھی ان کے حکومتی اقدامات پر تنقید یا اعتراض کرنے کی کوشش کرتا تو اسے ’اقتدار کا بھوکا‘ اور ’غیر محب وطن‘ ٹھیرایا جاتا۔ مذہبی طبقے،علمااور خصوصاً مولانا مودودی، ایوب خان کی ناراضی کااس لیے خاص ہدف تھےکہ وہ منظم ترین پارٹی جماعت اسلامی کو اپنی تخلیق کردہ کنونشن مسلم لیگ کا اصل حریف سمجھتے تھے۔
Friends Not Masters  میں علما پر عموماً اور مولانا مودودی پر خصوصاً تنقید کی ہے۔ پھر ایوب خان نے نام لے کر تاریخی حقائق کے برعکس مولانا کو قوم پرست علمامیں شامل کرکے     لکھا ہے:’’جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی نے جو پاکستان کے شدید مخالف تھے، پاکستان آتے ہی پاکستانی حکومت کو غیراسلامی قرار دے کر اسے اسلامی بنانے کی تحریک شروع کردی‘‘ [ص ۲۰۲، ۲۰۳]۔ ایوب خان کو دوسرے دیگربہت سے جدیدیت زدہ افراد کی طرح کاروبارِ مملکت میں اسلام کا نام لینے سے چِڑ تھی۔ ایوب خان صاحب کے دماغ میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ اسلامی دستور کی ساری جدوجہد کا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہے۔ وہ سیاست دانوں اور دینی رہنماؤں پر بھروسا کرنے کے بجاے اپنے آپ کو پاکستان کا واحد خیرخواہ اور اس پر بلاشرکت غیرےحکمرانی کا جائزحق دار سمجھتے تھے۔
ایوب خان کی یہ ڈائری ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۲ء تک کے برسوں پر محیط ہے۔ ایوب خان کے بارے میں الطاف گوہر کی کتاب Ayub Khan - Pakistan’s First Military Ruler  کے مطالعےسے معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈائری کے پہلے حصے کا مسودہ بھی موجود ہے، جو ۱۹۶۶ء سے پہلے کے برسوں پر مشتمل ہے، لیکن یہ جِلد ابھی تک کہیں نہیں چھپی۔ ایوب خان جب تک اقتدار میں رہے، انھوں نے ڈائری میں مولانا کا ذکر ہر جگہ صرف ’مودودی‘ کے نام سے کیا ہے (ہم نے ایوب خان کی تحریر کا ترجمہ کرتے ہوئے مجبوراً مولانا کے لیے صیغۂ واحد میں وہی لفظ استعمال کیا ہے)۔  
اس ڈائری میں مولانا مودودی کے حوالے سے پہلا نوٹ ۶ستمبر۱۹۶۶ءکو ایک ’سابق احراری عالم‘ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب [م:۲۳فروری ۱۹۸۴ء]کی مناسبت سےلکھا گیا ہے: ’’انھوں [صاحبزادہ فیض الحسن] نے کل مجھے بتایا کہ ’’مودودی کے حامی، دیوبندی گروپ اور احرار وغیرہ، میرے [یعنی ایوب خان کے] خلاف نفرت پھیلا رہےہیں۔وہ عائلی قوانین پر تنقید کر رہے ہیں، جن کے ذریعے غریب خواتین، یتیموں اور مجبور لوگوں کو بڑی مدد ملی ہے اور وہ خاندانی منصوبہ بندی اسکیم کی مخالفت کررہے ہیں‘‘ [ایضاً، ص ۵]۔ ایوب خان چاہتے یہ تھے کہ وہ جو بھی تبدیلی لائیں ہرطبقہ اسے من وعن تسلیم کر لے۔ اسی لیے اپنے نافذ کردہ عائلی اور ضبط ولادت کے قوانین پر تنقید کرنے والوں کو وہ ’اسلام کے نام پر ترقی کے سخت دشمن‘قرار دیتے اور الزام عائد کرتے ہیں کہ: ’’ان کے مذہبی فلسفے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیا سی شعوررکھنے والے لوگ مذہب سے دُور ہورہے ہیں۔ انھوں [علما] نے حسد کی وجہ سے ان لوگوں کو کافر قرار دیا ہے، جنھوں نے ملت ِاسلام میں محض روشن خیالی لانے کی کوشش کی ہے‘‘۔  [ڈائریز آف فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، ص۵]
۲؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’گورنرموسیٰ [ملک امیر محمد خان کی جگہ نئے گورنر] سے میٹنگ میں مودودی کی شرپسندانہ سرگرمیوں کا توڑ کرنے پر بات ہوئی ہے‘‘ [ایضاً،ص ۱۴]۔ حالاں کہ جماعت کی تمام تر سرگر میاں ہمیشہ کی طرح سیاسی اور قانونی دائرے کے اندر جاری تھیں۔
اگرچہ ایوب خان صاحب کو اپنی ’روشن خیالی‘ پر بڑا ناز تھا اور وہ خود کو’ جدیدیت‘ کا علَم بردار تصور کرتے تھے۔  لیکن رؤیتِ ہلال کے مسئلے پر ان کی توہم پرستانہ اقتدار پسندی کھل کر سامنے آتی ہے ۔ ۱۳جنوری ۱۹۶۷ء کے روز عید جمعے کو ہونے کا قوی امکان تھا ۔بدھ کی شام پورے ملک کے  کسی ‏علاقے سے رؤیتِ ہلال کی مصدقہ اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔ کسی نے ایوب خان کے دل میں یہ وہم ڈال رکھا تھا کہ: ’’عید جمعے کے دن نہیں ہونی چاہیے، کیوںکہ جمعے کے دن دو خطبے حکمرانوں پر بھاری ہوتے ہیں‘‘۔ اس لیے رات گئے ۱۲جنوری ۱۹۶۷ء جمعرات کو سرکاری طور پرعید منانے کا اعلان ہوگیا، جب کہ ہر مکتب ِ فکر کے علما نےزبردستی کی سرکاری عید منانے سے انکار کر دیا۔ 
ایوب صاحب نے علما کےبائیکاٹ کا سارا غصّہ مولانا مودودی اور کسی حد تک مولانا احتشام الحق تھانوی [م: ۱۱؍اپریل ۱۹۸۰ء] پر ظاہر کیا اور پیر آف دیول شریف [م: ۲۵ستمبر۱۹۹۵ء] کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’یہ لوگ لاؤڈ اسپیکروں پر اعلانات کرکے لوگوں کو ۱۲ تاریخ کو عید منانے سے منع کررہے تھے‘‘۔ ایوب خان کا کہنا ہے کہ: ’’یہ لوگ متوازی حکومت چلانے، اور عوام کی   بے خبری و معصومیت کو سیاسی استحصال کے لیے برتنے کی کوشش کر رہے ہیں… میں ایسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اسلام صرف رسم ورواج اور تقریبات منانے، دوسرے الفاظ میں ’مُلّا ازم‘ تک محدود نہ رہ جائے بلکہ یہ زندگی کا ایک متحرک فلسفہ بن جائے‘‘[ایضاً،ص ۴۸]۔ گویا کہ عید جیسے دینی شعار بھی ’رسم ورواج‘ میں شامل ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’یہ معاملہ سمجھ لینا چاہیے کہ مُلائوں میں شرپسند عناصر کو پیش قدمی نہیں کرنے دی جائے گی اور نتیجہ وہی ہوگا کہ جو معاملہ عیسائیت کے ساتھ ہوا یا پھر ترکی میں اسلام کے ساتھ، اور دیگر بہت سے ممالک میں بھی‘‘ [ایضاً،ص ۴۸]۔یادرہے کہ سرکاری ‏عید کو تسلیم نہ کرنے والے علما میں مولانا مودودی بھی شامل تھے اور ان کو گرفتار کرکے بنوں [خیبرپختونخوا]میں قید کردیا گیا تھا۔ ’ترقی‘ اور ’روشن خیالی‘ کی اس سے بہتر کیا اور مثال ہو سکتی تھی کہ جعلی عید نہ منانے والوں کی آزادی سلب کر کے ان کو دُور دراز کے علاقوں کی جیلوںمیں بند کر دیا جائے۔
ایوب خان کی اس پسندیدگی سے حوصلہ پاکر فیض الحسن صاحب نےبھانپ لیا تھا کہ     مولانا مودودی کی مخالفت کے نام پر مفادات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ۹فروری ۱۹۶۷ء کو ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’انھوں [یعنی فیض الحسن صاحب] نےمطالبہ کیا کہ انھیں اپنی فیملی کے اخراجات اور مودودی کے خلاف جارحانہ مہم چلانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ اس مطالبے کا خلاصہ یہ تھا کہ:انھیں بسوں کے نئے روٹ پرمٹ اورایک چھوٹی انڈسٹری شروع کرنے کے لیے سرمایہ دیا جائے ۔ میں، فیض الحسن سے بے تکلفی سے بات کرسکتا ہوں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ، آزاد خیال اور حسِ مزاح کے حامل انسان ہیں‘‘۔[ایضاً، ص ۵۹]
۱۸فروری ۱۹۶۷ء کو ایوب خان صاحب، جماعت اسلامی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مغربی پاکستان کی کابینہ کے اجلاس میں ، خرابی پیدا کرنے والی جماعت اسلامی اور سیاسی مُلاؤں کا معاملہ زیربحث آیا، اور متعدد اقدامات تجویز کیے گئے۔ میں نے کہا: اصل مسئلہ یہ ہے کہ مُلّا اپنے آپ کو اسلام کی تعبیر کا اجارہ دار سمجھتا ہے‘‘۔ [ایضاً، ص ۶۳]
مولانا مودودی کے خلاف مہم کے ذریعے فائدہ حاصل کرنے کے متمنی صاحبزادہ صاحب تنہا نہیں تھے۔ ۲۰فروری ۱۹۶۷ء کو ڈائری کے اندراج سے معلوم ہوتا ہے: ’’کوثر نیازی [م: ۱۹مارچ ۱۹۹۴ء ] ملنے آئے۔ وہ بڑے ترقی پسند مُلّا ہیں، جو مودودی کے گمراہ کن فلسفےاور  طرزِ عمل کے مکمل طور پر مخالف ہیں۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے مودودی کی سرگرمیوں کا توڑ کرنے کے لیے ایک تفصیلی یادداشت دیں گے اور بتائیں گےکہ مسلم لیگ کو اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے… بعدازاں [چودھری غلام احمد- م: ۲۴فروری ۱۹۸۵ء] پرویز صاحب بھی ملے، انھوں نے ماوزے تنگ [م: ۹ستمبر ۱۹۷۶ء]کے فلسفے پر بڑا فکرکشا مطالعہ لکھا ہے۔ حقیقت ہے کہ  اسلام میں حیات بخش فلسفہ ہے، جسے مُلّاازم کی گہری زنگ آلودگی سے صاف کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔[ایضاً،ص۶۴، ۶۵]
 ۲۵فروری کو ڈائری میں ایوب خان صاحب لکھتے ہیں: ’’گورنروں کی کانفرنس میں جماعت اسلامی کی طرف سے پیدا کیا جانے والا دبائو زیربحث آیا، اور حسب ذیل نکاتِ کار کی مناسبت سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی: اوّل یہ کہ علما اور مساجد کو کس طرح قومی پالیسی کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے؟ دوم یہ کہ مخالفت کرنے والوں کو کس طرح بے اثر بنایا جائے؟ سوم یہ کہ جماعت اسلامی جیسی سیاسی پارٹی نے مذہب کے لبادے میں موجودہ حکومت کو غیراسلامی قرار دینے کی مہم چلا رکھی ہے۔ اس سے کس طرح نبٹاجائے؟‘‘[ایضاً، ص ۶۶،۶۷]
اندازہ ہوتاہے کہ ایوب خان صاحب ہر اس شخص کی بات پر یقین کرکے اس کی مدد لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، جو انھیں مولانا مودودی کی مخالفت کرتے ہوئے ملتا ہے۔ ۲۷مارچ ۱۹۶۷ء کو لکھتے ہیں: ’’صاحبزادہ فیض الحسن اپنی سربراہی میں ۲۰علما کا ایک وفدلے کر مجھے ملنے آئے۔ انھوں [صاحبزادہ صاحب ]نے مودودی کی سرگرمیوں کے خلاف ناراضی ظاہر کرتے ہوئے راے ظاہر کی ہے کہ اس کی سرگرمیاں انتشار انگیز اور سیاسی محرکات کی حامل ہیں اور پھر اس ارادے کا اظہار کیا کہ ہم ہر طرح سے ان [یعنی مولانا مودودی]کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں… علما کے اس وفد نے میرے دستور پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط مرکز کی وجہ سے [ایوبی] دستوراسلامی تصور کے بہت قریب ہے… صاحبزادہ صاحب نے علیحد گی میں مجھے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ علما[جنھیں وہ خود لائے تھے] اگرچہ مودودی کے مقابلے میں بہت اچھا کام کر سکتے ہیں، لیکن روپے پیسے کے معاملے میں ان کی دیانت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی‘‘[ایضاً، ص۷۵]۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ مالی وسائل صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کے تصرف میں دیے جائیں۔
ایوب خان صاحب کی طرف سےمولانا مودودی کے خلاف سلگتی ہوئی مخاصمت کا اندازہ  ۴؍اپریل ۱۹۶۷ء کے اس نوٹ سے ہوتاہے: ’’عربی زبان میں لکھا ہوا ایک کتابچہ میرے نوٹس میں لایا گیا ہے جس پر میرا اور پاکستان کا ذکر سخت بُرے الفاظ میں کرتے ہوئے بتایا گیا ہےکہ پاکستان میں مُلّاازم کی اجازت نہیں ہے اور میری پالیسیاں غیر اسلامی ہیں۔اگرچہ اس کتابچے پر مصنف کا نام نہیں دیا گیا لیکن گمان یہی ہے کہ یہ مودودی کی تصنیف ہے ۔یہ کتابچہ عرب دنیا میں وسیع پیمانے پر تقسیم کے لیے لکھا گیا ہے‘‘[ایضاً، ص ۷۹]۔ ایوب خان نے اگلے جملے میں مولانا پر انتہائی گندے الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے انھیں ’پاکستان کا غدار اور اسلام کا دشمن‘ قرار دیا ہے۔
تاریخی اعتبار سے امرواقعہ ہے کہ مولانا نے کوئی تحریر اپنے نام کے بغیر کبھی شائع نہیں کی۔ حتیٰ کہ بیرون ملک سفر کے دوران پاکستان کے اندرونی حالات پر تبصرہ کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ امپیکٹ انٹرنیشنل، لندن کے ایڈیٹر حاشر فاروقی صاحب راوی ہیں کہ: ’’۱۹۶۸ء میں جب مولانا مودودی لندن تشریف لائے اور بی بی سی اردو سروس کے براڈکاسٹر انعام عزیز نے ان سے پاکستان کی سیاسی صورتِ حال کے بارے میں سوال کیا، تو مولانا نے بیرونِ ملک ہونے کے باعث  تبصرہ کرنے سے معذرت کی ۔ اسی دورے میں پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران بھی مولانا نے پاکستان کے حالات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ 
ایوب خان کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اقتدار کا رنگ پھیکا اور ترقی کا غلغلہ اپنی کشش کھورہا تھا۔ ملک میں بے چینی کی لہر بڑھتی جا رہی تھی۔ حزب اختلاف مختلف جماعتوں میں منتشر تھی۔ایوب حکومت کی تمام تر الزام تراشیوں اور بدنام کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود مولانا مودودی کی سربراہی میں جماعت اسلامی اپنے اصولی اور جمہوری موقف کے ساتھ حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی۔اس کا حل ایوب خان کے قلم سے ۲۲؍ اپریل ۱۹۶۷ء کو یہ سامنے آتا ہے: ’’الطاف گوہر [سیکرٹری اطلاعات] سے علما کے معاملے پر بات چیت کے دوران انھیں ہدایت کی ہے کہ مودودی اور اس کی پارٹی کے ساتھ صرف اور صرف سیاست دانوں کے طور پر معاملہ کیا جائے، جنھوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے‘‘۔[ایضاً، ص ۸۵]
پاکستان نیوی میں مبینہ سازش کے حوالے سے۲۱مئی ۱۹۶۷ء کو ایوب خان کے بقول: ’’گورنر موسیٰ اور ڈی آئی جی ترین صبح مجھے ملنے آئے اور رپورٹ دی کہ پاکستان نیوی کے ایک معمولی افسر فیض حسین نے مارشل لا لگانے، گورنروں اور فوجی قیادت کو برطرف کرنے،مشرقی پاکستان میں [جنرل] اعظم اور مغربی پاکستان میں مولوی فرید احمد کو گورنر اور مودودی کو وزیرقانون مقرر کرنے کی سازش کی ہے‘‘ [ایضاً، ص ۹۸]۔ اس بے سروپا سازش کو ’بے نقاب‘ کرنے پر ایوب خان نے پولیس کی تعریف، جب کہ آئی ایس آئی اور نیول انٹیلی جنس کو کوتاہی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ اگرچہ ایوب خان نے اس سازش میں مولانا کو ملوث نہیں کیا کیوںکہ انھیں اچھی طرح علم تھا کہ مولانا مودودی صرف اور صرف جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے اور تبدیلی کے لیے کسی سازش، شارٹ کٹ یا پُرتشدد طریقوں کے سخت مخالف ہیں۔ ایوب خان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو لاہور میں جماعت کے کُل پاکستان اجتماع پر سرکاری غنڈوں نے مولانا مودودی پر براہِ راست اندھا دھند فائرنگ کرکے جماعت کے ایک کارکن اللہ بخش کو شہید کر دیا، لیکن اس موقعے پر بھی مولانا نے گولی کا جواب تشدد سے دینے سے منع کردیا۔ اپنے کارکنوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے پُرامن طریقے سے اپنی جدوجہد پر قائم رہنے کا سبق دیا تھا۔
ایک سال اور پانچ ماہ بعد ۱۴؍اکتوبر ۱۹۶۸ء کو ایوب خان صاحب لکھتے ہیں: ’’حیدرآباد اور کراچی کے اسکولوں میں خسرے کے خلاف حفاظتی ٹیکوں کے لگانے پر بے چینی پھیلانے میں جماعت اسلامی کا ہاتھ لگتا ہے۔ ہمارے لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور ہراحمقانہ بات کو مان لیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ صوبائی حکومت ان شرپسندوں کو پکڑے گی اور ان کی گردن مروڑ دے گی‘‘ [ایضاً، ص۲۷۲]۔یاد رہے یہی ہے وہ زمانہ کہ جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے طول و عرض میں ایوب حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ہورہے تھے، مگر وہ اپنا غصّہ صرف جماعت اسلامی پر نکالتے نظر آتے ہیں۔
ایوب خان اقتدارسے محروم ہونے کے حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک سال دو ماہ بعد، ۱۸جنوری ۱۹۷۰ءکو انھوں نےڈائری میں ایک بار پھر ذکر کیا، مگر پہلی دفعہ مولانا مودودی کے نام کے ساتھ ’مولانا‘ کا لفظ استعمال کیا۔ یاد رہے اس روز عوامی لیگ نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کرکے سیکڑوں کارکنوں کو زخمی اور چھےکارکنوں کو قتل کر دیا تھا۔ ایوب خان نے لکھا ہے کہ:’’صبح کی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ  مولانا مودودی کے حامیوں اور دوسروں کے درمیان ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسۂ عام کے دوران لڑائی ہوئی ہے۔ ایک آدمی کے قتل ہونے کی خبر ہے، جب کہ ۴۰۰ زخمی ہوئے۔ جلسہ منتشر کردیا گیا اور ڈایس کو آگ لگا دی گئی۔ مولانا کا ان کی قیام گاہ تک تعاقب کیا گیا‘‘[ایضاً، ص۳۵۷]۔ ایوب خان کو اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے تھا کہ انھوں نے اپنے طویل دور حکومت میں جس طرح مولانا مودودی کے خلاف جذباتی انداز سے نفرت کی سوچ کو پروان چڑھایا تھا، عوامی لیگ کے دہشت گرد اور کمیونسٹ انتہاپسند اس کا عملی مظاہرہ پیش کر رہے تھے۔
۱۴؍اگست ۱۹۷۰ء کو ایوب خان لکھتے ہیں: ’’راولپنڈی کے جلسے میں پیپلزپارٹی کے مقررین نے میرے اور مودودی کے خلاف تقریریں کیں‘‘ [ص ۴۰۴] اور ۲۸ستمبر کو لکھا کہ: ’’مودودی اور دولتانہ کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہوئے قادیانی، حتیٰ کہ شیعہ بھی بھٹو کی حمایت اور مدد کر رہے ہیں‘‘ [ایضاً،ص ۴۰۷]۔ ۲۳دسمبر ۱۹۷۰ء کو تحریر کیا: ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ مودودی جیسے لوگ انتخابات میں مجیب اور بھٹو کی ناقابلِ مثال کامیابی میں خطرات دیکھتے ہیں‘‘۔ [ایضاً، ص ۴۲۸]
۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو لکھا ہے: ’’آج روزنامہ جنگ  بھٹو اور اس کے ساتھیوں کی بہت سی تصویروں سے بھرا پڑا ہے۔ دراصل یہ سب اس کی دل جوئی کا سامان ہے کیوں کہ بھٹو کے آدمیوں نے حمایت نہ کرنے پر جنگ کی تنصیبات کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ پھر اس بات کے آثار بھی موجود ہیں کہ پیپلزپارٹی کے یہ لوگ مودودی کے گھر کو آگ لگانا چاہتے ہیں‘‘۔ [ایضاً، ص ۴۶۷]
ایک سال دو ماہ بعد بھٹوصاحب کے دورِ حکومت میں ۱۹جون ۱۹۷۲ء کو لکھتے ہیں: گذشتہ مہینے متعدد سیاسی قتل ہوئے، جن میں جماعت اسلامی کے نمایاں افراد بھی شامل ہیں۔ اس ضمن میں جنرل اکبر نے بھٹو کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ بلاشبہہ جماعت اسلامی ایک تشدد پسند جماعت نہیں ہے‘‘۔[ایضاً، ص ۵۳۰]
اسی طرح ایوب خان صاحب کی بے خبری دیکھیے کہ۱۴نومبر ۱۹۷۲ء کو لکھتے ہیں: ’’اگر بھٹو نہیں تو پھر کون؟‘‘ کا نعرہ جماعت اسلامی نے گھڑ ا اور پھیلایا ہے‘‘[ایضاً،ص ۵۴۲]۔ حالاں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب بھٹوحکومت بڑے پیمانے پر اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈال رہی تھی۔ معلوم نہیں یہ نکتہ کس طرح موصوف کے حاشیۂ خیال میں آیا؟
سابق صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب کی یہ ڈائری بڑے سائز کے ۵۵۲ صفحات کے خودنوشت اندراجات،۵۰ صفحات پر ذاتی تصاویر اور ۴۶صفحات کے تعارفی و ادارتی حاشیوں کے ساتھ کُل ۶۴۹ صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہاں پر ڈائری کے صرف ان مندرجات کو سمجھنے اور تبصرہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن کا تعلق مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے ہے۔ یہ ڈائری ایوب خان صاحب کےصاحبزادے گوہر ایوب صاحب کے پاس محفوظ تھی۔ ایوب صاحب کی خواہش تھی کہ الطاف گوہر اس ڈائری کو مرتب کریں۔ واقعات اور شخصیات کی حساسیت کے باعث اس کی اشاعت پر کچھ عرصہ کے لیے رضاکارانہ پابندی لگائی ہوئی تھی۔ جب اس کی اشاعت کا وقت آیا تو الطاف گوہر صاحب کا انتقال [۱۴نومبر۲۰۰۰ء]ہو چکا تھا۔
 فیلڈ مارشل جنرل محمدایوب خان کی ڈائری کے مطالعے سے ان کے ’نظریۂ حکمرانی‘ کی بنیاد دیکھی جاسکتی ہے کہ: ’’جب ایک لیڈراقتدار سنبھال لے تو اس کے پاس اتنی زیادہ طاقت ہونی چاہیے کہ وہ خودحکومتی اُمور کنٹرول کر سکے۔ایک مضبوط مرکزی اتھارٹی [شخصیت ] کے بغیر ملک کو  متحد نہیں رکھا جا سکتا‘‘۔ اس وقت پاکستان میں اور بھی مذہبی جماعتیں موجودتھیں، لیکن ایوب خان صرف مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے ہی کیوں خائف تھے؟ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایوب خان اپنی سیکولر سوچ کے تحت اسلام کے حرکی تصور سے ہراساں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ  مولانا مودودی کی سربراہی میں جماعت اسلامی نہ صرف ایک منظم سیاسی قوت ہے بلکہ اسلام کو  ایک مکمل ضابطۂ حیات مانتے ہوئےاسلام پر مبنی نظام حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔   پاکستانی حکمرانوں میں ایوب خان وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نےمنظم اسلامی قوتوں کے ’خطرے‘ کو محسوس کیا ۔پھر اسلامی قوتوں کی طرف سے سیکولرزم اور لبرلزم کو بے اثر کرنے کی سعی کی مزاحمت کے لیے اپنی سی کوششیں کیں۔

 مولانا مودودی ؒ نے اپنی پوری زندگی ملت اسلامیہ کی فکری و عملی رہنمائی کے لیے وقف کررکھی تھی۔ انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اسلامی نظام کی تشریح و تفسیر اور اس کے قیام کی جدوجہد میں صرف کردیا۔ پھر دورِ حاضر کو اسلام کی ایسی ہم آہنگی سے پیش کیا، کہ اُمت کے بہی خواہ اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام عصرِ حاضر کا دین ہے۔ 
مولانا مودودی ؒنے اس فکر کو عام کرنے کے لیے اس دور میں ہر معروف ذریعۂ ابلاغ کو استعمال کیا۔ پاکستان میں ایسی کوئی قابلِ ذکر جگہ نہیں رہی ہو گی، جہاں انھوں نے دینِ مبین کو عام کرنے کے لیے دورہ نہ کیا ہو۔مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش ) میںبھی مولانا مودودیؒ نے کئی بار دعوتی دورے کیے۔تاہم، اگست ۱۹۴۷ء سے قبل متحدہ ہندستان میں بھی انھوں نے دہلی ،اورنگ آباد، بہار، لکھنؤ، علی گڑھ ، حیدر آباد دکن، گورداس پور (پنجاب) کے علاوہ متعدد جگہوں کا دورہ کیا۔ 
مولانا مودودی نے ۱۹۲۵ء سے، جب اخبار الجمعیۃ ،دہلی کے ذریعے بڑے پیمانے پر اسلامی فکر اور اُمت کے مسائل کو موضوع بنایا تو اسی زمانے میں آپ کا نام جموں و کشمیر کے اہلِ علم میں معروف ہوچکا تھا۔ پھر جب ۱۹۳۳ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن ،حیدرآباددکن کے ذریعے احیاے اسلام کا علَم بلند کیا، تو یہ آواز بہت جلد ریاست جموں و کشمیر بالخصو ص وادی کشمیر میں بھی پہنچ گئی، اور مختصر مدت میںایک بڑی تعداد اس دعوت اور فکر سے متعارف ہوگئی۔ ماہنامہ ترجمان القرآن ۱۹۳۶ء کے اوائل ہی سے کشمیرکے معروف کتب فروشوں کی دکانوں پر دستیاب رہتا تھا۔ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے مؤسس مولانا سعدالدینؒ ترجمان القرآن کے ذریعے ہی مولانا مودودیؒ کی فکر سے شناسا ہوئے تھے۔ انھی ایام میں سری نگر کے ایک کتب فروش سے انھیں ترجمان القرآن        کا ایک شمارہ ملا، جسے پڑھ کر انھوں نے محسوس کیا جیسے یہ ان کے دل کی آواز ہے، اور پھر وہ اس کے مستقل قاری بن گئے۔ ایک سال کے بعد، یعنی ۱۹۳۸ء میں انھوں نے ’دارالاسلام ‘ (جمال پور، پٹھان کوٹ) میں خود کو وقف کرنے کی درخواست بھی دی تھی۔
دوسری اہم شخصیت جناب مولانا احرارا حمد تھے۔وہ بھی ۳۸ ۱۹ ء کے اوائل میں یا آس پاس مولانا مودودی کے افکار سے متعارف ہوئے۔ ۱۹۴۰ء میں تاسیس جماعت سے قبل، اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر عبدالبشیر آذری [مولانا مودودی کے ایک قریبی ساتھی، م:۲۷مارچ ۱۹۸۳ء ] کے ساتھ مولانا مودودی کشمیر کے دورے پر آئے۔ عبد۱لبشیر آذری اکثر گرمیوں میں کشمیر آیا اور شوپیان میں قیام کیا کرتے تھے۔ انھی کی دعوت پر مولانا نے کشمیر کا دورہ کیا تھا ا ور انھی کے کہنے پر شوپیان میں قیام فرمایا تھا۔
مولانا امین شوپیانی صاحب نے بتایا ہے کہ: ’’جب مولانا مودودی سرینگر سے شوپیان کی طرف جارہے تھے، تو ان کے ہمراہ پردہ نشین خواتین میں ان کی والدہ ، اہلیہ ،ایک بچہ اور ملازمہ شامل تھے۔ مولانا امین صاحب کا کہنا ہے کہ: ’’جب راستے میں نماز کا وقت آیا تو ہم نے ایک ساتھ نماز ادا کی۔ امرواقعہ ہے کہ اس نماز کے دوران ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کتنی عظیم شخصیت ہیں‘‘۔ ڈاکٹر حمید فیاض صاحب کے مطابق: ’’مولانا مودودی نے چند دن (ایک روایت کے مطابق ایک مہینہ) وادیِ کشمیر کے اس خوب صورت اور مردم خیز علاقے میں قیام کیاتھا۔یہاں آپ نے ملک عزیز شاہ اکرم شاہ کا بنگلہ کرایے پر لیا۔ 
مولانا احرار احمد صاحب کے مطابق:’’اس مکان کے مالک نے مولانا مودودی سے بدسلوکی کی اور انھیں گھر خالی کرنے پر مجبور کیا‘‘۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:’’ جس گائوں میں مولانا مودودی نے قیام کیا تھا، وہاں کے مولوی صاحب اور متولیوں نے مولانا پر وہابی ہونے کا ’الزام‘ لگایا اور     شاہ اکرم شاہ کو اس بات کے لیے اکسایا کہ وہ مولانا مودودی کو گھر سے نکال دیں۔ شاہ صاحب نے ایسا ہی کیا۔ وہاں سے نکلنے کے بعد مولانا مودودی نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ محمد عبداللہ وانی صاحب کے ہاں قیام کیا اور پھر شالیمار بھی تشریف لے گئے۔ 
کشمیر میںقیام کے دوران بہت سے لوگوں نے مولانا مودودی سے استفادہ کیا۔  پروفیسر جناب عبدالبشیر آذری نے مولاناا حرار احمد صاحب کو مولانا مودودی کی چند کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ جس کے بعد مولانا احرار صاحب کامولانا سعدالدین سے رابطہ ہوا، اور یہ رابطہ ایسا تھا جو زندگی کے آخری دم تک باقی رہا۔ اس مختصر قافلۂ سخت جان میں جب قاری سیف الدین صاحب اور چودھری محمد شفیع صاحب نے شمولیت اختیار کی، تویہ قافلہ منظم اور مضبوط ہوگیا۔ چودھری محمد شفیع صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ۱۹۴۲ء میں ریاست جموں و کشمیر کے اوّلین ناظم حلقہ مقرر ہوئے تھے اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ عبدالبشیر آذری صاحب ہی نے کشمیر کے اولین تحریکی اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ 
جب ۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کا کل ہند اجتماع بمقام پٹھانکوٹ منعقد ہوا، جس میں وادیِ کشمیر سے مولانا سعدالدین اور محمد شفیع صاحب کے علاوہ مولانا احرار صاحب اور قاری سیف الدین نے بھی اس تاریخی اور روح پرور اجتماع میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔مذکورہ اجتماع نے ان تینوں بزرگوں میں انقلابی تبدیلیاں پروان چڑھائیں، کیوں کہ ابھی تک یہ مولانا مودودی کے افکار کا مطالعہ ترجمان القرآن سے ہی کرتے تھے، لیکن اس اجتماع میں انھوں نے مولانا مودودی سے براہِ راست استفادہ کیا جس سے ان درویش صفت انسانوں کی تحریک سے وابستگی اور بھی مستحکم ہوگئی۔ مولانا مودودی نے اسی تاریخی اجتماع میں سلامتی کا راستہ  کے نام سے جو خطاب کیا، اس کو انھوں نے براہِ راست سماعت فرمایا۔ 
دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے واپس لوٹنے کے بعد اس مختصر قافلے نے آپس میں صلاح مشورے کے بعد کشمیر میں تحریک اسلامی کے کام میں وسعت کا آغاز کیا۔سب سے پہلے ۱۹۴۶ء میں دارالمطالعہ نوابازار میں ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا، جس میں وادی کے اطراف و اکناف سے تقریباً ۱۰۰  کے قریب تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ یہ افراد پہلے ہی سے جماعت اسلامی کے نصب العین سے واقف تھے۔اس اجتماع میں مولانا سعدالدین نے انتہائی بصیرت افروز تقریر کی، جس میں انھوں نے کشمیر میں اسلام کے پہلے داعی امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒکی انقلاب آفرین دعوت و تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’امیر کبیر سیّد علی ہمدانی نے کفر و شرک کی تاریکیوں کو چیر کر اسلام کی آفاقی کرنوں سے پورے علاقے کو منور کیا اور لاکھوں انسانوں کو جہالت سے نکال کر صراط مستقیم پر لاکھڑا کیا۔ آج ہم ان کے اسوہ پر چلتے ہوئے جماعت اسلامی کی دعوت اور کام کو وسعت کی راہوں پر استوار کر رہے ہیں‘‘۔اس بصیرت افروز خطاب کے بعد تحریک اسلامی کشمیر کھل کر منصہ شہود پر آگئی اورمولانا سعدالدین کو باقاعدہ امیر منتخب کیا گیا۔ مولانا مودودی کی برپا کردہ تحریک اسلامی نے برصغیر کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت ریاست جموں و کشمیر میں بہت تیزی سے اپنا سفر آگے بڑھایا۔      
دوسری جانب یہ اگست ۱۹۶۵ء کی بات ہے کہ وادیِ کشمیر سے تباہ حال مہاجرین خطِ متارکۂ جنگ (کنٹرول لائن)کو عبور کرکے آزاد کشمیر جارہے تھے کہ مولانا مودودی نے ان کی تائید کے لیے اپیل کرتے ہوئے بیان دیا:’’خدا وہ وقت جلد لائے ،جب ہم مال ہی سے نہیں بلکہ جان سے بھی کشمیری بھائیوں کی آزادی کے لیے آگے بڑھ سکیں‘‘۔ ۶ستمبر ۱۹۶۵ء کی صبح بھارتی افواج نے لاہور پر یلغار کی تو مولانا مودودی نے بیان دیا: ’’اہلِ کشمیر کا جہادِ آزادی نہ صرف ان کا حق بلکہ فرض بھی ہے‘‘۔
پاک بھارت جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء کے دوران گفتگوئوں میں کشمیر کے حقِ خود ارادیت کا ذکر بھی آتا رہا، جو پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل وجۂ نزاع ہے۔ ایک نوجوان نے کہا: ’’بھارت کا کہنا ہے کہ [مقبوضہ]کشمیر میں متعدد بار انتخابات ہوچکے ہیں اور عوام ان انتخابات کے ذریعے اپنی راے ظاہر کرچکے ہیں، اس لیے مزید کسی راے شماری کی ضرورت نہیں‘‘۔
مولانا مودودی نے جواب میں فرمایا: ’’مقبوضہ کشمیر میں جو انتخابات ہوئے ہیں، انھیں کسی بھی راے شماری کے مترادف قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق راے شماری کے ذریعے ہی کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنا مقصود تھا کہ آیا وہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان سے؟ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اب تک اس ایشو کے بارے میں عوام کی راے کبھی معلوم نہیں کی گئی۔ بھارت کے زیرتسلط وہاں جو انتخابات ہوئے ہیں، ان کی بنیاد یہ ایشو  کبھی قرار نہیں دیا گیا، اس لیے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا مقصد پورا نہیں ہوا، اور اسی لیے وہاں کے عوام کو اپنی راے کے اظہار کا حق ملنا چاہیے‘‘۔ 
اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا:
اگر بھارت کی اسی نام نہاد دلیل کو درست مان لیا جائے کہ چوں کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی بار انتخابات ہوچکے ہیں، اس لیے اب وہاں راے شماری کی ضرورت نہیں ہے، تو پھر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ متحدہ ہندستان کو آزادی نہیں ملنی چاہیے تھی، اور انگریزی حکومت قائم رہنی چاہیے تھی، کیوں کہ متحدہ ہندستان میں بھی ۱۹۴۷ء سے پہلے کئی انتخابات منعقد ہوچکے تھے۔ کیا کوئی ہوش مند آدمی اس دلیل کو انگریز سے آزادی کی جدوجہد کے خلاف پیش کرسکتا ہے؟‘‘ (۵-اے ، ذیلدار پارک، دوم، مرتبہ:رفیع الدین ہاشمی، ۱۹۷۹ء، ص۳۸)
انھی دنوں ۶نومبر ۱۹۶۵ء کو وکلا کی دعوت پر ملتان بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیا تو ایک وکیل نے سوال پوچھا: ’’کیا سلامتی کونسل کے رویے کے پیش نظر مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی اُمید کی جاسکتی ہے؟‘‘ مولانا مودودی نے جواب دیا: 
اقوام متحدہ کے قیام کے بعد ابتداً یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ادارہ دنیا کو لڑائی سے نجات دلائے گا اور امن و انصاف کی بنیادوں پر بین الاقوامی جھگڑوں کا حل پیش کرے گا۔ لیکن جب سے یہ ادارہ قائم ہے، تب سے آج تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ادارہ امن و انصاف کے اصولوں پر کوئی فیصلہ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ [ا س دوران میں] سلامتی کونسل نے جو کچھ کیا ہے وہ کوئی نئی اور حیرت کی چیز نہیں۔ اس بات کو نگاہ میں رکھیے کہ دنیا کی طاقتیں بنیے کی طرح دونوں فریقوں کو ترازوں میں رکھ کر دیکھتی ہیں اور فریقین کے موقف کا نہیں بلکہ فریقین کا وزن دیکھ کر کوئی راے قائم کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک مسائل کے حل کا یہی پیمانہ ہے۔ انھیں اس سے بحث نہیں کہ انصاف کیا شے ہے؟ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادیں علی الاعلان اس کے منہ پر دے ماریں، لیکن کوئی بولا نہیں کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ سب دیکھتے رہے اور بھارت نے علی الاعلان کشمیر کو اپنا داخلی مسئلہ قرار دے ڈالا۔(ہفت روزہ آئین، لاہور، ۱۵نومبر ۱۹۶۵ء،ص ۸)
۲۴نومبر ۱۹۶۵ء کو آزاد کشمیر حکومت کی دعوت پر مولانا مودودی لاہور سے راولپنڈی پہنچے، جہاں سے ۲۵نومبر کو کار کے ذریعے مظفرآباد روانہ ہوئے۔ میاں طفیل محمد، نعیم صدیقی، سیّدصدیق الحسن گیلانی ان کے ہمراہ تھے۔ ڈیڑھ بجے مظفرآباد سے باہر ہزاروں شہریوں نے ان کا استقبال کیا اور ایک بڑے باوقار جلوس کی شکل میں مظفرآباد لے کر گئے۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد ڈگری کالج کے گرائونڈ میں مولانا مودودی خطاب کے لیے پہنچے جہاں صدر جلسہ سردار عبدالقیوم تھے۔ انھوں نے مولانا کا استقبال کرتے ہوئے کہا: 
کشمیر کے لیے مولانا مودودی نے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں، مہاجرین کشمیر کے لیے جماعت اسلامی نے جو کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں، اسے اہلِ کشمیر اور  ان کی آیندہ نسلیں کبھی نہیں بھلا سکیں گی۔
جواب میں مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کا بڑی تفصیل سے تذکرہ کیا، اور ابتدائی کلمات میں یہ فرمایا : ’’ایک مدت سے میری تمنا تھی کہ مجھے آزاد کشمیر آنے کا موقع ملے، اور بارہا یہاں کے دوستوں نے آنے کی دعوت بھی دی، مگر آنا ممکن نہ ہوسکا۔ لیکن اب اس جنگ کے زمانے میں جوحالات یہاں گزرے اور جس طرح ہزارہا مہاجرین مقبوضہ کشمیر سے نکل نکل کر تباہ حال یہاں پہنچے، ان کے حالات سننے کے بعد دوسری تمام مصروفیتوں کو چھوڑ کر اس لیے یہاں آیا ہوں کہ اپنے بھائیوں کی حالت سے براہِ راست واقفیت حاصل کروں، اور جو خدمت میرے بس میں ہے، وہ انجام دوں۔اس جنگ کے دوران میں پاکستان کی سرحدوں پر بھی لاتعداد انسان بے گھر ہوئے ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد مقبوضہ کشمیر سے بھی تباہ حالی کے ساتھ نکلنے پر مجبور ہوگئی۔میں نے وہاں بھی اس طرح کی داستانیں سنی ہیں اور یہاں آکر بھی ایسی داستانیں سنی ہیں جن کو حقیقت میں صبر کے ساتھ سننا نہایت مشکل ہے۔ پتھر کا جگر ہی چاہیے ان چیزوں کو سن کر برداشت کرنے کے لیے۔ لیکن جو بات مجھے کہنی ہے، وہ یہ ہے کہ، وہ کم ہمت اور بزدل قومیں ہوتی ہیں جو اس طرح کے حالات میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر کسی قوم میں غیرت و حمیت اور زندگی موجود ہو، تو ایسے حالات اس کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کردیتے ہیں۔ پھر وہ ہمت کے ساتھ اُٹھتی ہے اور حالات کو بدلنے میں لگ جاتی ہے‘‘۔
مغرب کی نماز اد ا کرنے کے بعد مولانا مودودی نے مظفرآباد کے کلب ہوٹل میں درسِ قرآن دیا۔ اس موقعے پر صدر مجلس، آزاد کشمیر حکومت کے صدر[۶۹-۱۹۶۴ء] جسٹس عبدالحمید خان [م: ۱۳؍اگست ۱۹۸۶ء] تھے۔ درس کے بعد حاضرین کے سوالات کے شافی جوابات دیے۔
۲۷نومبر کو مولانا مودودی نے ریڈیو آزاد کشمیر، مظفرآباد میں تقریر ریکارڈ کرائی، جب کہ کلب ہوٹل کے سبزہ زار میں سردار محمد عبدالقیوم احباب کے ہمراہ گھاس پر بیٹھے مولانا کی واپسی کے منتظر تھے۔ جوں ہی مولانا واپس آئے تو سردار عبدالقیوم صاحب نے مولانا کو اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی اور پھر خود کار چلاتے ہوئے کوہالہ پُل تک الوداع کہنے آئے۔ مولانا نے ظہرکی نماز مری میں پڑھی اور پھر راولپنڈی کی طرف کوچ کیا۔
۲۸نومبر کا دن راولپنڈی میں گزارا، اور سوموار، یعنی ۲۹نومبر کو مولانا مودودی آزاد کشمیر کے دوسرے بڑے شہر میرپور روانہ ہوئے، جہاں کے ڈپٹی کمشنر مرزا عزیز احمد اور معززین شہر نے آپ کا والہانہ استقبال کیا۔ ڈھائی بجے سہ پہر گورنمنٹ کالج میرپور کی مجلس اسلامیات کے سیمی نار میں مولانا نے تقریر کے بجاے حاضرین کے بہت سے سوالوں کے جوابات دیے۔
ایک استاد نے سوال پوچھا:’’ کیا بھارت اور پاکستان کی جنگ کو دونوں ملکوں کی ہوسِ ملک گیری کہا جاسکتا ہے؟‘‘
مولانا مودودی نے جواب دیا: ’’بھارت کی حد تک یہ بات درست ہے، مگر پاکستان کے بارے میں ہوسِ ملک گیری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ [اگست ۱۹۴۷ء میں] برعظیم ہند کی تقسیم جس اصول پر ہوئی تھی اور جسے ہندوئوں اور انگریزوں نے بھی تسلیم کیا تھا، وہ یہ تھا کہ مسلم آبادی سے متصل علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے، اور ہندو اکثریت کے متصل علاقے بھارت میں___ اس لحاظ سے جموں و کشمیر کو آپ سے آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہیے ۔ اس لیے اگر پاکستان کشمیر کے لیے لڑائی پر مجبور کر دیا جائے تو اسے ہوسِ ملک گیری نہیں کہا جاسکتا‘‘۔
ایک صاحب نے پوچھا: ’’عہد ِخیرالقرون کے شہدا اور شہداے کشمیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟‘‘
مولانا مودودی نے جواب میں فرمایا: 
شہادت کا درجہ جذبے کی شدت کے حساب سے ہوتا ہے۔ ایک شخص لاکھوں روپے  اللہ کی راہ میں پیش کرتا ہے، دوسرا صرف ایک کھجور___ کھجور والے کے پاس جو کچھ تھا اس نے سب کچھ پیش کر دیا۔گویا اس کے جذبے کی Intensity [شدت] لاکھوں روپے دینے والے کے مقابلے میں زیادہ ہے، تو اس کو اجر زیادہ ملے گا۔ اللہ کی راہ میں جس شخص کا جذبہ جتنا صادق ہوگا، اتنا ہی بڑا درجہ اس کو نصیب ہوگا، مگر درجات کا فیصلہ کرنا بہرکیف ہمارا کام نہیں ہے ۔ ہم تو صرف اس قدر جانتے ہیں کہ ایک شخص بندئہ مومن تھا، لڑا اور شہید ہوگیا۔ اللہ اس کی شہادت اور جذبۂ شہادت کو قبول فرمائے‘‘۔
سوال و جواب کی اس بھرپور نشست کے بعد مولانا مودودی آزاد کشمیر کا دورہ مکمل کر کے ۳۰نومبر ۱۹۶۵ء کی صبح لاہور روانہ ہوئے۔(۵-اے، ذیلدار پارک، دوم، ص ۵۰-۷۹)
مولانا مودودی کشمیر کے بارے میںپُرخلوص ، نہایت سنجیدہ اور فکر مند رہتے تھے۔ وہ  اہلِ کشمیر کی سیاسی ،فکری ،عملی اور دینی رہنمائی کے لیے متحرک رہتے تھے اورخطۂ کشمیر کے لیے ان کا دل ہمیشہ بے چین رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں کشمیر اور اس کے مسئلے کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔مولانا مودودی جن بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے، وہاں اس دیرینہ مسئلے کومدبرانہ اور مدلل انداز سے پیش کرکے اس کے حق میں قرارداد ضرور منظور کرواتے تھے۔
 ۱۹۶۶ء میں حج ِ بیت اللہ کے موقعے پر مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے انھوں نے ایک مقالہ تحریر فرمایا، جس کو عربی ،فرانسیسی، بنگلہ اورانگریزی زبان میں ترجمہ کرکے مختلف ممالک میں ۳۰ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا گیا،تاکہ دنیا اس حساس مسئلے کی طرف توجہ دے۔ مولانا مودودی کشمیر کے اس دیرینہ اور انسانی مسئلے کے حل کے لیے نہایت کوشاں رہتے تھے، جس میں ریاست جموں و کشمیر کے عوام ایک طویل عرصے سے مبتلا ہیں۔مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کو سب سے اہم اور حساس مسئلہ قرار دیا اور اس مسئلے پر جو عالمانہ اور قائدانہ کردار ادا کیا، وہ ان کی دینی، فکری ،سیاسی بصیرت کے شایان شان تھا۔ 

بنگلہ دیش میں انتخابی عمل، ہوبہو تصویر ہے مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد انتخابی ڈراموں کی۔ بنگلہ دیش کا ۱۱واں پارلیمانی الیکشن ایک ایسا کھیل تھا کہ جس میں ہر مدمقابل کھلاڑی کے ہاتھ بندھے تھے، جب کہ محبوب کھلاڑی کے ہاتھ کھلے ہوئے تھے اور پھر منصف بھی کھلے ہاتھ والی ٹیم کا رکن تھا۔ حسینہ واجد کی قیادت میں عوامی لیگ ۲۰۰۹ء میں برسرِاقتدار آئی، جس نے ۲۰۱۴ء میں جعلی مینڈیٹ کی بنیاد پر اگلے پانچ سال حکمرانی کی، اور اب اسے تیسری مرتبہ بھی ووٹ کی ضرورت تھی۔ حقائق اور واقعات چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں کہ اس انتخابی ڈرامے کو عملاً بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے ڈیزائن کیا۔
گذشتہ سات برسوں کے دوران حسینہ واجد حکومت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو پھانسیاں دینے کے لیے افسانوی مقدموں کو نام نہاد ’خصوصی عدالتوں‘ میں چلایا۔ پھر جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر(اسلامی جمعیت طلبہ )کے کارکنوں کو جیلوں میں ڈالنے، بہیمانہ تشدد کرکے سیکڑوں کارکنوں کو معذور اور اپاہج بنانے، ملازمتوں سے برطرف کرنے کے علاوہ، جماعت کے اداروں اور نجی کاروباروں کو تباہ کرنے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگا دیا۔ پھر جماعت اسلامی کی حلیف ’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘ (بی این پی) کی قیادت کو میدان سے نکال باہر کرنے کے لیے، اس کی سربراہ خالدہ ضیا بیگم کو ۱۷سال کی سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا۔
اس پس منظر میں بنگلہ دیش میں ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء کو ایسا نام نہاد انتخاب ہوا کہ پارلیمنٹ کی ۳۰۰نشستوں میںسے ۲۸۸ سیٹیں جتوا کر، ۹۸ فی صد کامیابی حکمران عوامی لیگ کے نام کی گئی، جسے ہر عاقل انسان اور حسِ انصاف رکھنے والے فرد نے مسترد کیا۔ تاہم، نئی دہلی اور بیجنگ حکومتوں نے سربراہی سطح سے فوری طور پر انتخابی نتائج کو قبو ل کرکے مبارک باد کے پیغامات روانہ کیے، اور چند روز بعد ’اسلامی تعاون تنظیم‘(OIC) کے سیکرٹری جنرل نے بھی یہی کیا۔
حزبِ اختلاف نے اگرچہ الیکشن سے پہلے ہی دنیا بھر کی حکومتوں کے سامنے اور ذرائع ابلاغ پر یہ دہائی دی تھی کہ قبل از انتخاب دھونس دھاندلی کا طوفان اُٹھایا جا رہا ہے۔ ستمبر۲۰۱۸ء میں  ’ڈجیٹل سیکورٹی ایکٹ‘ پاس کر کے اخبارات و ذرائع ابلاغ کی آزادی  سلب کرلی گئی۔ پھر مدمقابل پارٹیوں کے اُمیدواروں اور لیڈروں کو قیدوبند، مقدمات کی بھرمار اور پولیس یا باقاعدہ منظم غنڈوں کے ذریعے ڈرا دھمکا کر انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی مہم چلائی گئی۔ حتیٰ کہ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، اور جب کاغذات داخل ہوگئے تو آدھے سے زیادہ حلقوں میں اُمیدواروں کو ایک روز کے لیے بھی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اور جس روز رسمی انداز سے الیکشن کا انعقاد ہوا، اسی روز : ’’اندرونِ ملک مختلف حلقوں میں عوام کو ڈرا دھمکا کر عوامی لیگ کے انتخابی نشان ’کشتی پر مُہر لگانے پر مجبور کیا گیا‘۔(ڈیلی اسٹار، ڈھاکا، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
۳۰ دسمبر یومِ انتخاب کو بی بی سی کے نمایندے نے آنکھوں دیکھا حال دنیا بھر میں پہنچایا اور سنایا کہ: ’’ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس بھر کر پولنگ اسٹیشنوں میں لائے جارہے ہیں‘‘۔ اور جب بنگلہ دیش کے دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ میں متعین بی بی سی کے نامہ نگار نے  لکھن بازار میں ایک بھرا بیلٹ بکس، قبل از الیکشن دیکھ کر پریذائیڈنگ افسر سے سوال کیا: ’جناب یہ کیا ہے؟‘ تو متعلقہ افسر نے جواب دینے سے انکار کردیا۔ چٹاگانگ کے اس پولنگ اسٹیشن پر صرف سرکاری پارٹی کا نمایندہ موجود تھا، اور یہی حال دوسرے پولنگ اسٹیشنوں کا ہے‘‘(بی بی سی ویب سائٹ، ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء)۔’’خود ڈھاکا شہر کے متعدد مقامات پر عوامی لیگ نے انتخابات شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس، ووٹوں سے بھر دیے، اور لوگوں کو مصروف رکھنے کے لیے گھنٹوں تک لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا رکھا گیا، تاکہ ہجوم سے تنگ اور تھکن سے مجبور ہوکر لوگ ووٹ ڈالے بغیر خود ہی گھروں کو واپس لوٹ جائیں‘‘۔(ڈیلی ساؤتھ ایشین مانیٹر، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
انتخابات کے روز بھی لوگ اس ظلم پر بڑے پیمانے پر چیخ پکار کرتے رہے، لیکن کسی نے ان کی بات نہیں سنی: ’’یاد رہے، قانون نافذ کرنے والے چھے لاکھ سیکورٹی اہل کاروں کی نگرانی میں انتخابات ہورہے تھے۔ انتخابی عملے اور کئی جگہوں پر سیکورٹی اہل کاروں نے عوامی لیگ کے لیے مُہریں لگاکر ’انتخاب‘ کو ’محفوظ‘ بنایا۔ ڈھاکا یونی ورسٹی میں قانون کے پروفیسر آصف نذرل نے بیان کیا : بہت سے پولنگ اسٹیشنوں پر عوامی لیگ کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کے اُمیدواروں کو  ذاتی طور پر یا ان کے پولنگ ایجنٹوں تک کو نہ بیٹھنے دیا گیا اور نہ انتخابی عمل کے معائنے کی اجازت دی گئی۔ اور جو پولنگ ایجنٹ کسی طرح، کسی مقام پر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے، ان کی اکثریت کو گنتی شروع کرتے وقت بھگا دیا گیا۔ بنگلہ دیش کے لوگ احمق نہیں ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ  ان کے ووٹ پر کس انداز سے، اُن کی آنکھوں کے سامنے ڈاکا زنی کی گئی ہے۔اس طرح عملاً  ایک پارٹی کی حکومت مسلط کی جارہی ہے‘‘۔(ڈیلی ساؤتھ ایشین مانیٹر، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
حزبِ اختلاف نے بدانتظامی، بدنظمی اور بددیانتی تمام مظاہر کو دیکھ کر، اس انتخابی ڈھونگ کو فراڈ، جعل سازی اور دھاندلی زدہ ڈراما قرار دیا، مسترد کیا اور کہا کہ: ’’یہ موت کے سکوت اور خوف کے بھوت کا کھیل تھا‘‘ (ڈیلی واشنگٹن پوسٹ ، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یاد رہے کہ الیکشن کے روز ۲۲؍افراد قتل کر دیے گئے اور سیکڑوں افراد کو زخمی کرکے دہشت پھیلائی گئی۔ ملک کے سنجیدہ حلقے بنگلہ دیش میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے شدید صدمے اور مایوسی سے دوچار ہیں۔
بنگلہ دیش لیفٹ ڈیموکریٹک الائنس (LDA)نے ۸۲اُمیدواروں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا۔ اس کی قیادت نے ڈھاکا پریس کلب میں بتایا: ’’پورا ملک عینی شاہد ہے کہ حکمران ٹولے نے انتخابی عمل کو برباد کرکے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا ہے‘‘۔ اور کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش (CPB) کا موقف ہے: ’’عوامی لیگ نے الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد جبر، دھوکے، دھاندلی اور جھوٹ کا طوفان برپا کیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۲جنوری۲۰۱۹ء)
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW)نے انتخابات سے قبل، حسینہ حکومت کی بدنیتی کی نشان دہی کر دی تھی، اور الیکشن کے بعد اس کے ڈائرکٹر ایشیا، مسٹربریڈ ایڈمز نے گواہی دی: ’’حزبِ اختلاف کے اہم لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے، بعض کو قتل کر کے اور بعض کو لاپتا کرکے جس خوف اور گھٹن کا ماحول پیدا کیاگیا، اس میں کسی بھی لحاظ سے یہ قابلِ اعتبار انتخابات نہیں ہیں‘‘ (بی بی سی لندن، ۳۱دسمبر ۲۰۱۸ء)۔ بنگلہ دیش میں سابق امریکی سفیر اور ولسن سنٹر کے سینئر اسکالر ولیم بی میلان نے کہا: ’’بنگلہ دیش کے انتخابات پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ یہ انتخابات سراسر بددیانتی کی ایک مجسم مثال ہیں اور حسینہ واجد کی حکومت غیرقانونی ہے‘‘ (ڈیلی نیونیشن، ڈھاکا، ۱۷جنوری ۲۰۱۹ء)۔’’برطانیہ، امریکا اور یورپی یونین نے بھی انتخابات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا‘‘(رائٹر، ۲جنوری ۲۰۱۹ء)۔ البتہ اپنا روایتی’ریکارڈ‘ برقرار رکھتے ہوئے یہ ممالک چند ہفتوں بعد اس جعلی انتخاب کو تسلیم کرکے حسب ِ معمول تعاون شروع کردیں گے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی ان انتخابات کی صداقت کو مشکوک اور فساد زدہ قرار دیا ہے کہ: ’’جس میں بدعنوانی کے بے شمار شواہد اپنی کہانی آپ بیان کر رہے ہیں‘‘ (ڈیلی بی ڈی نیوز۲۴، ۱۶جنوری ۲۰۱۹ء)۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے جمع کردہ حقائق کی بنیاد پر بیان دیا: ’’بنگلہ دیش کے موجودہ انتخابی نتائج کو مسترد کرنے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے کے لیے منطقی اور اصولی بنیادیں موجود ہیں‘‘۔ (ڈیلی نیو ایج، ڈھاکا، ۱۷ جنوری ۲۰۱۹)
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گڑیس نے اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات درست نہیں ہوئے۔ ہم بنگلہ دیش میں سیاسی عمل اور شہری زندگی کو پُرسکون بنانے کے لیے بامعنی کردار کی ضرورت پر زور دیتے ہیں‘‘۔(ڈیلی نیو ایج، ۱۹ جنوری ۲۰۱۹)
امرِواقعہ ہے کہ خاص طور پر۲۰۰۹ء کے بعد، جب سے حسینہ واجد کی عوامی لیگ برسرِاقتدارہے، بنگلہ دیش پہلے سے بھی کہیں زیادہ بھارتی گرفت میں جکڑا گیا ہے۔ وہ بہت سے مفادات جو بھارت ابتدائی ۳۷برسوں میں حاصل نہ کرسکا تھا، گذشتہ ۱۰ برسوں میں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جس میں خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں (اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورام، ناگالینڈ، تری پور اور سکم) تک، بنگلہ دیش کی سرزمین سے گزر کر نئی دہلی انتظامیہ کی براہِ راست رسائی ہے۔ اسی لیے حسینہ واجد نے کہا کہ: ’’ہمارے برسرِاقتدار رہنے سے بھارت سے تعلقات مضبوط اور باثمر ہوں گے اور تجزیہ نگار ہرانمے کارلیکر نے دعویٰ کیا ہے کہ:’’ ضیاء الرحمان، حسین محمد ارشاد اور خالدہ ضیا کے اَدوارِ حکومت میں بنگلہ دیش، بھارت سے فاصلے پر اور پاکستان سے قربت کی طرف گیا تھا‘‘ (ڈیلی دی پانیئر، نئی دہلی، ۶جنوری ۲۰۱۹ء)۔ اسی اخبار نے بھارتی مقتدر قوتوں کی خواہشات کے آئینہ دار مضمون Why We need Hasina?  میں وضاحت سے بتایا کہ: ’’خالدہ ضیا نے کبھی بھارتی مفادات کے لیے کام نہیں کیا ہے بلکہ یہ جماعت اسلامی کی حمایت سے برسرِاقتدار آتی ہے اور بھارتی مفادات کے برعکس پاکستان سے قربت کی طرف بڑھتی ہے‘‘۔(ڈیلی دی پانیئر، نئی دہلی، ۷جنوری ۲۰۱۹ء)
بھارت اور دوسری طاقتیں بنگلہ دیش کو تجرباتی طور پر اسلامی قوتوں کی بیخ کنی کا میدانِ کارزار بنانا چاہتی ہیں۔ جب اسلامی شناخت کا ذکر آتا ہے تواس علاقے میں خودبخود پاکستان کا نام نمایاں ہوتا ہے۔ یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ حسینہ واجد کے لیے تیسری بار اقتدارکا راستہ ہموار کرنے میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی بنگلہ دیشی نیشنلسٹ قیادت کو بُری طرح دبایا، منتشر اور بے اثر کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ۲۰۲۱ء کو، جب کہ بنگلہ دیش کے قیام کے ۵۰سال مکمل ہوں، تو اس مناسبت سے پاکستان کے خلاف زیادہ منظم طریقے سے، تسلسل کے ساتھ مہم چلاکر اسے بدنام کیا اور دبائو میں لایا جائے۔
حسینہ واجد کے سیاسی مشیر اور ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ کے ایچ ٹی امام نے برملا کہا:  ’’بی این پی نے جماعت اسلامی سے تعاون جاری رکھا ہے۔ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ پارٹی چین اور پاکستان کی حامی ہے، اس لیے بنگلہ دیش کی سیاست میں بھارت کسی بھی صورت، بی این پی پر بھروسا نہیں کرسکتا‘‘(دی اسٹار آن لائن، ۱۶ جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یہ سوچ بنگلہ دیش سے زیادہ بھارت کے ان استعماری رویوں کی گواہی پیش کرتی ہے کہ برسرِزمین نئی دہلی کس انداز سے بنگلہ دیش کی سیاست اور ریاست کے معاملات میں دخیل ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے حسینہ واجد سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے مبارک دُہرائی اور کہا کہ: ’’حسینہ واجد کی صورت میں، بھارت کے لیے مشرقی محاذ محفوظ اور مامون ہے‘‘ (ڈیلی ایشین ایج، ۱۷جنوری)۔ دیکھیے: ’’حکومت ِ ہند اور بھارتی سیاست دان اور میڈیا کے لوگ بہت مسرور ہیں کہ عوامی لیگ کی کامیابی کی وجہ سے بنگلہ دیش، اسلامی بلاک میں جانے سے بچ گیا ہے‘‘۔ (سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، ۱۴جنوری۲۰۱۹ء)
بنگلہ دیش کے اخبارات کے مطابق نئی حکومت کی شروعات کے طور پر بنگلہ دیش کے وزیرقانون انیس الحق نے کہا: ’’عوامی لیگ کی حکومت ایسی قانون سازی کرے گی کہ جس کے تحت جماعت اسلامی کو سزا دینے کا عمل تیزتر ہوگا۔ اس قانونی ترمیم کا مسودہ، وزیراعظم حسینہ واجد کی ہدایات کی روشنی میں ترتیب دیا جارہا ہے اور جلد کابینہ میں پیش کر دیا جائے گا۔ اس ترمیم کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ تاحال بنگلہ دیش جماعت اسلامی کو پوری طرح سزائیں نہیں دی جاسکیں۔ فروری ۲۰۱۳ء کے ترمیمی ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں افراد کو سزائیں دینے کا ذکر ہے، مگر پارٹی کو عبرت کا نشان بنانے کا معاملہ مذکور نہیں ہے۔ اب ہمارے پیش نظر یہ ہدف حاصل کرنا ہے‘‘ (ڈیلی اسٹار،۱۰جنوری ۲۰۱۹ء)۔یاد رہے کہ: ’’حسینہ واجد کی حکومت، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے کئی اہم لیڈروں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے باوجود جماعت اسلامی کی کمر نہیں توڑ سکی‘‘ (سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، ۱۴ جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یہ نامرادی نئی دہلی اور ڈھاکا کی حکومتوں کے لیے غصّے اور شرمندگی کا باعث ہے۔
اس تسلسل میں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھی اور عملاً ریٹائرڈ زندگی گزارنے والے بھارت نواز ڈاکٹر کمال حسین نے منصوبے کے مطابق پہلے تو ایک جعلی انتخاب کو قابلِ قبول بنانے کے لیے، بڑی مہارت سے سیاسی پارٹیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کا کام کیا۔ اور پھر منصوبہ سازی شروع کی ہے کہ: ’’بی این پی کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ جماعت اسلامی سے اپنے ۱۵سالہ اتحاد و اتفاق کو ترک کرکے، جماعت سے الگ ہوجائے‘‘ (ڈیلی سن، ڈھاکا، ۱۲جنوری ۲۰۱۹ء)۔حسینہ واجد نے سیاسی پارٹیوں کو مذاکرات کی دعوت دی، جس پر تمام پارٹیاں شرکت کرنے یا شرکت نہ کرنے پر غور کرر ہی ہیں، لیکن کمال حسین نے فوراً شرکت کا عندیہ دیا۔(ڈیلی اسٹار، ۱۴جنوری۲۰۱۹ء)
یہ تمام حقائق اور حوادث بتاتے ہیں کہ بھارت کسی صورت نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش میں ایسی امن و سکون کی فضا پروان چڑھے کہ وہاں کے لوگ امن اور خوش حالی کی زندگی بسر کرسکیں۔  اس طرح وہ بھارت کا دست ِ نگر رہے۔ دوسرا یہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری نہ آئے اور باہم فاصلے بڑھتے رہیں۔ تیسرا یہ کہ جماعت اسلامی کے تنظیمی ہیکل کو تباہ اور بی این پی کے سیاسی وجود کو ختم کیا جائے۔ ان حالات میں مسلم اُمہ کے فہمیدہ افراد اور اداروں کو بنگلہ دیشی بھائیوں کی اس انداز سے دست گیری کرنی چاہیے کہ وہ بھارتی تسلط سے آزاد اور مسلم اُمت سے قریب تر ہوسکیں۔

یوں تو کشمیر میں ماہ جنوری ہر سال کئی خونچکاں یادوں کے ساتھ وارد ہوتا ہے، جس میں گاؤکدل، مگھرمل باغ، ہندوارہ اور برسہلا (ڈوڈہ) میں ہوئے قتل عام شامل ہیں، مگر ۶جنوری ۱۹۹۳ء کا دن تجارتی مرکز سوپور کے لیے ایک ایسی قیامت کے ساتھ طلوع ہوا کہ جو بھلائے بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ 
اس سے ٹھیک ایک ماہ قبل دسمبر۱۹۹۲ء کو ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ بھارتی دارالحکومت دہلی کے کئی علاقے بھی فسادات کی زد میں آگئے تھے۔ صحافت کی دنیا میں میرے ابتدائی دن تھے۔ سوچا کہ سوپور میں اپنے والدین کے ساتھ چند روز گذار کر آوٗں ، تاآنکہ حالات کسی حدتک بہتر ہوجائیں۔ دہلی سے جموں تک بذریعہ ٹرین، پھر موسم سرما میں برف باری اور رکاوٹوں سے اَٹے راستے، جموں سرینگر ہائی وے کا تکلیف دہ سفر اور پھر سرینگر سے سوپور تک سیکورٹی چک پوسٹوں پر تلاشیاںوغیرہ عبور کرتے ہوئے گھر پہنچا تو خاصی رات ہوچکی تھی۔اگلے روز شاید صبح نو بجے کا وقت ہوگا، جب کہیں دُور سے دھماکے کی آواز سنائی دی۔ اس ہولناک دن یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں اور آسمان اَبر آلود تھا۔ معلوم ہوا کہ نیوکالونی کے قریب ایک بارودی سرنگ پھٹ گئی ہے۔ پھر کہیں قریب سے ہی ایک فائر کی آوازبھی سنائی دی۔ ۱۹۹۰ء میں جموں و کشمیر میں عسکریت کے آغاز کے بعد سوپور اور اس کے اطراف خاصے متاثر تھے، اس لیے اس طرح کے واقعات عام تھے ۔ میں نے دیکھا کہ اس دھماکے کے باوجود تاجر حضرات دکانیں کھولنے اور ڈیوٹیاں دینے والے دفتروں یا بس اڈے کی طرف رواں دواں تھے۔ 
اسی دورا ن دریاے جہلم کی دوسری طرف فائرئنگ کی متواتر آوازوں کے ساتھ چیخ پکار بھی سنائی دینے لگی۔ چند ساعتوں کے بعد آگ کے بلند ہوتے شعلے جلد ہی آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ ان کی تپش دریاے جہلم کے دوسری طرف بھی اب محسوس ہو رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ نیم فوجی تنظیم بارڈر سکیورٹی فورس(بی ایس ایف) کی ۹۴ ویں بٹالین، شہر کے مرکز میں آگ و خون کی ہولی کھیل رہی ہے۔ آرم پورہ، مسلم پیر، کرالہ ٹینگ، شالہ پورہ اور شاہ آباد کے علاقے آگ کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ کئی گھنٹوں تک قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ رات گئے قصبے کو فوج کے حوالے کردیا گیا۔ 
اگلے روز معلوم ہوا کہ ۷۵ معصوم افراد کو گولیوں سے اُڑا دیا گیا، اور کئی افراد کو زندہ جلادیا گیا تھا، جب کہ ۴۰۰ سے زائد رہایشی و تجارتی عمارات اور زنانہ کالج کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں ہمارے محلے کے آس پاس کے ایک درجن افراد شامل تھے۔ لاشوں کی شناخت، ان کو گھروں تک لاتے اور نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے بازو شل ہوگئے ۔ شہر کو دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے نسیم حجازی [م:۲مارچ ۱۹۹۶ء] کے ناول آخری چٹان  میں تاتاریوں کی درندگی کی داستان صفحۂ قرطاس سے نکل کر حقیقت کا رُوپ دھار گئی ہو۔ سنگینوں کے سایے میں لوگ بکھری ہوئی لاشوں کو اکٹھا کررہے تھے۔ بین کرتی ہوئی خواتین اپنے پیاروں کی باقیات، گرم راکھ سے ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک دوست عبدالحمید اپنے ایک ٹیلر دوست کو ڈھونڈ رہا تھا۔ جلی ہوئی دکان کے اندر اس کو بس چند ہڈیاں ہی مل گئیں، جنھیں اس نے اپنے فرن میں باندھ کر لپیٹ لیا۔ ہسپتال میں قیامت کا منظر تھا۔ کلمے کا ورد کرتے ہوئے شدید زخمی افراد زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ 
جھیل وولر کے دھانے پر دریاے جہلم کے دونوں کناروں پر واقع اس شہر کو غالباً۸۸۰ء  میں راجا اونتی ورمن کے ایک وزیر سویہ نے بسایا اور نام سویہ پور دیا، جو بعد میں سوپور ہوگیا۔ کشمیر کے لیے اس قصبے کی وہی اہمیت رہی ہے، جو بھارت کے لیے ممبئی یا پاکستان کے لیے کراچی کی ہے۔ یہ نہ صرف شمالی کشمیر کے لیے راہداری ہے، بلکہ خطے کے اکثر متمول گھرانوں اور معروف کاروباری شخصیات کا تعلق بھی اسی قصبے سے رہا ہے۔ جب آس پاس کی زمینیں زرخیز ہوں اور باشندوں کی گھٹی میں تجارتی فراست اور محنت شامل ہو، تو اس علاقے کا فی کس آمدنی کی شرح میں اوّل آنا فطری امر تھا۔ اسی لیے سوپورکو ’چھوٹے لندن‘ کی عرفیت اور اعلیٰ سیبوں کے مرکز کے نام سے بھی یاد کیا جاتا رہا ہے۔۱۹۸۹ء کے اواخر میں جب بھارتی حکومت نے جگموہن کو گورنر بنا کر بھیجا، تاکہ عسکری تحریک، جو ابھی ابتدا میں ہی تھی کو لگام دی جاسکے۔ اس کی تجویز تھی کہ سب سے پہلے آزادی پسند حلقوں اور تحریک حُریت کو ملنے والی فنڈنگ کی روک تھام ہونی چاہیے۔
 جگموہن جو بعد میں مرکز میں وزیر بھی رہے، ان کا خیال تھا کہ اگر سوپور میں تجارتی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جائے، یا ان کی کڑی نگرانی کی جائے تو یہ قصبہ تحریک کی مالی معاونت کے قابل نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں جگموہن نے بھارتی وزارت داخلہ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ دہلی کی آزادپور فروٹ منڈی کے آڑھتیوں کو قائل کیا جائے کہ وہ اس علاقے سے سیبوں کی خرید بند یا کم کر دیں۔ دہلی میں بھی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر سیاسی آگہی کے اس مرکز کو صدیوں پہلے چانکیہ کی تجویزکی ہوئی پالیسی سام (گفتگو) دھام (لالچ)، ڈھنڈ ( سزا) اور بھید (بلیک میل) سے قابو کر لیا جائے، تو بقیہ ریاست سے بھی تحریک کا آسانی سے صفایا ہو سکتا ہے۔ابھی تک آٹھ بار اس شہر کے مختلف علاقوں کو جلا کر اقتصادی لحاظ سے اس کو بے دست و پا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 
جب آگ و خون کا کھیل شروع ہوا تو بانڈی پورہ جانے والی ایک مسافر بس اس وقت وہاں سے گزر رہی تھی، مگر افسوس کہ یہ بس مسافروں کے لیے تابوت بن گئی۔ جموں و کشمیر سول سوسائٹی کے ذریعے جمع کی گئی تفصیلات کے مطابق اس واقعے سے کئی روز قبل نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن عبد الاحد کنجوال کے گھر جاکر چند فوجیوں نے ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس علاقے کو چھوڑ کر کسی اور جگہ منتقل ہوجائیں۔ جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قتل عام کی پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی اور یہ کوئی وقتی اشتعال کے نتیجے میں قتل و غارت گری نہیں تھی۔ بانڈی پورہ سے آنے والی موٹر کار میں ایک فیملی سفر کر رہی تھی۔ ایک بھارتی اہل کار نے ان کے شیرخوار بچے کو   ہوا میں اُچھال کر آگ میں پھینک دیا۔جب بچے کی ماں بین کرنے لگی، تو انھوں نے بقیہ افراد کو بھی گولیوں سے بھون دیا اور ان مظلوموں کی تڑپتی لاشیں آگ میں ڈال دیں۔
 خون کی اس ہولی کے اگلے روز بی ایس ایف کے اس وقت کے سربراہ پرکاش سنگھ قصبے میں وارد ہوئے اور معززین شہر کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ قتل گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے اس نے پنجابی میں اہل کاروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ: ’’کس کس پنجابی شیر نے بازو آزمانے میں پوری طاقت لگائی ہے؟‘‘ ایک اوباش اہل کار نے فخریہ انداز میں بتایا کہ: ’’سر، میں نے کئی افراد کو ہلاک کیا ہے‘‘۔ پرکاش سنگھ نے سب کے سامنے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ قرون وسطیٰ کی وہ تاریخ شاید دہرائی جارہی تھی، جب منگول حکمران چنگیز خان جنگ کے میدا ن کا معائنہ کرتے ہوئے لاشوں کے مینار دیکھ کر جرنیلوں کو شاباش دیتا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پرکاش سنگھ آج کل بھارت میں پولیس میں ’اصلاحات‘ اور فورسز میں ’انسانی حقوق کی بیداری‘ لانے کے بڑے نقیب بن بیٹھے ہیں۔ 
کئی روز بعد دلّی سے مرکزی وزرا مکھن لال فوطیدار،غلام نبی آزاد، کانگریس کی ریاستی شاخ  کے صدر مرحوم غلام رسول کارکی معیت میں وارد ہوئے اور ہر ممکن امداد فراہم کرنے کاوعدہ کیا۔ لیکن سوپور کے باشندوں نے حکومتی امداد قبول نہیں کی، بلکہ عوامی سطح جو ریلیف جمع کیا گیا تھا، وہی متاثرین میں تقسیم ہوا۔ انشورنس کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا، جس کے بعد اس وقت کے مرکزی وزیرخزانہ من موہن سنگھ کی مداخلت کے بعد انشورنس کمپنیوں نے معاوضہ واگزار کرنے کا یقین دلایا، تاہم یہ وعدہ کبھی ایفا نہ ہو سکا۔ مقامی تجارتی انجمن نے عدالت سے رجوع کرکے انشورنس کمپنیوں سے معاوضہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی، مگر چند ہی دکان دار معاوضہ حاصل کرسکے۔ عوامی دبائوکے تحت حکومت نے ۹۴ بٹالین بی ایس ایف کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہل کاروں سمیت معطل کیا۔ 
۹جنوری کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے احکامات بھی صادرکیے اور ۳۰جنوری کو  جسٹس امر سنگھ چودھری کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا۔ اس تحقیقاتی عمل کو کبھی آگے بڑھایا نہ جاسکا، بلکہ دوسال گزر جانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیاگیا۔ محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سرینگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ، جن میں سینئر افسران شامل ہیں،کے بیانات قلم بند کیے جاسکیں۔ وہ سرینگر آنے سے گریزاں رہا، تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے لیے ۱۵سے۱۷دسمبر ۱۹۹۳ء کا وقت دیا۔کمیشن کی میعاد جو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی، ۳۰جنوری ۱۹۹۴ء تک بڑھا دی گئی۔ کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کردیا۔ اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی ۲۱سے ۲۵مارچ تک جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سکیورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے۔ لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کرکے اطلاع دی گئی کہ اب سماعت مارچ ۱۹۹۴ء کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔ وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل ۱۹۹۴ء میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔ چیف سیکرٹری نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے:’’ہمیں یہ ڈراما ختم کرنا چاہیے کہ گذشتہ ۱۵ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی‘‘۔ 
ریاستی چیف سیکرٹری بی کے گوسوامی نے ۱۸؍اپریل ۱۹۹۵ء کومرکزی داخلہ سیکرٹری   پدمنا بھیا کو لکھا: ’’کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبارکو شدید زک پہنچی ہے۔ کمیشن کے قیام کا مقصد فوت ہو چکا ہے اور اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے، لیکن کوئی کارروائی کرنے سے قبل ہم سارا ماجرا حکومت ہند کے نوٹس میںلانا چاہتے ہیں‘‘۔ اس مکتوب کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کردیا گیااور ہمیشہ کے لیے انصاف کو دفن کردیا گیا۔ 
بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دو اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیا، جب کہ۹۴ بٹالین کو سوپور سے ہٹاکر پلوامہ تبدیل کیا گیا، جہاں انھوں نے لوگوں کو سوپور سانحے کو دُہرانے کی دھمکیاں دیں۔ اس سانحے سے متعلق دو کیس پولیس اسٹیشن سوپور میں درج کیے گئے تھے اور وہاں سے ۲۳جنوری کو انھیں تحقیقات کے لیے مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کو سونپا گیا۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق: ’’دوران تحقیقات انھوں نے عینی گواہوں اور مقامی لوگوں کے بیانات لینے کی از حد کوشش کی، تاہم کسی بھی زخمی یا کسی گواہ نے بی ایس ایف اہل کاروں کی شناخت نہیں کی اور نہ مطلوبہ معلومات فراہم کیں،جس کے نتیجے میں اس سانحے میں ملوث لوگوں کی نشان دہی ناممکن بن گئی اور یہ پتا نہ چل سکا کہ کس نے عام لوگوں کی جان لی اور آتش زدگی کے لیے کون ذمہ دار ہے‘‘۔ 
تقریباً چوتھائی صدی بیت چکی ہے مگر دل پر لگے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ آخر کب تک سوپور جیسے قتل عام ہوتے رہیں گے؟ یہ حقیقت بہرحال تسلیم کرنا پڑے گی کہ ان تمام المیوں کا ماخذ کشمیرکا حل طلب مسئلہ ہے۔ لہٰذا، بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کی بجاے اس مسئلے کے حل کی سبیل پیدا کی جائے۔کوئی ایسا حل نکالا جائے جو تمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہو، تاکہ برصغیر میں امن و خوش حالی کے دن لوٹ سکیں۔ سوپور کے شہیدوںکے لیے بھی یہ ایک طرح سے خراجِ عقیدت ہوگا۔ اس ہنگامہ خیز بستی کی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی اور بعید نہیں کہ یہ شہر تہذیب، ترقی اور تجارت کا ایک قابلِ رشک محور بن جائے۔

اسلامی نظام میں سود کی بنیاد پر بنکنگ نہیں کی جاسکتی اور نہ فریکشنل ریزرو بنکنگ ہی کی کوئی گنجایش ہے۔ یہاں صرف امانتاً رقوم رکھوائی جاسکتی ہیں۔ اگر لوگ اپنی بچتوں پر منافع حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو انھیں سرمایہ کاری کھاتوں (Investment Accounts) کی سہولت ہوگی، جس کی بنیاد نفع و نقصان پر ہوگی۔ ایسے نظام میں عدم استحکام کا سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ اثاثوں اور ذمہ داریوں کے درمیان شفاف طور پر برابری ہوتی اور اضطراب کے محرکات کا سدّباب ہوجاتا ہے۔ 

نیا عالمی معاشی بحران

اس پس منظر میں اب ہم قارئین کو اس اُبھرتے بحران سے آگاہ کریں گے، جس کی   پیش گوئی ماہرین کی ایک بڑی تعداد کررہی ہے۔ اس کا نقطۂ آغاز قرضوں کی مقدار میں بے تحاشا اضافہ ہے، جو اس سطح سے بہت زیادہ ہے جو ۲۰۰۸ء کے بحران سے پہلے تھی۔ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق: عالمی قرضہ کی سطح ۲۴۱ کھرب ڈالر پر پہنچ گئی ہے، جو دنیا کی مجموعی آمدنی (۷۷ کھرب ڈالر) کی نسبت سے ۳۱۵ فی صد سے زیادہ ہے۔ اس میں سے کارپوریٹ سیکٹر (یا غیر مالیاتی سیکٹر) کا حصہ ۱۸۶ کھرب ڈالر ہے۔ یہ سطح اس سے تقریباً دو گنی ہے جو پچھلے بحران کے موقعے پر تھی۔ اس قرضے کی تشکیل بھی ماضی کی طرز پر ہوئی ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ بحران سے نمٹنے کے لیے امریکی وزات خزانہ نے ریاست کے سارے خزانے اس نظام کو بچانے کے لیے وقف کردیے تھے۔ اس میں سب سے بڑی مدد مرکزی بنک نے کی تھی، جس نے قریباً صفر شرح سود پر معمولی نوعیت کی سکیورٹیرز کے عوض بڑی مقدار میں قرض جاری کیے جس سے ’مالیاتی خشک سالی‘ (Lack of Liquidity ) کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ یہ کم شرح سود ماضی قریب تک جاری رہی۔ 
’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) کے سینیر ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکڑ ڈیوڈ لپٹن نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ’’قرضوں کی زیادتی اور کم شرح سود، مارکیٹ کے لیے بڑے خطرات کا باعث ہیں‘‘۔ دوسری طرف خود امریکا کا اپنا قرضہ ۲۱ کھرب  ڈالر کو پہنچ گیا ہے، جو اس کی مجموعی آمدنی کا ۱۰۸ فی صد ہے۔ امریکی نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹرڈین کوٹس کا کہنا ہے کہ’’امریکی قرضے کی بڑھتی ہوئی سطح سے ہماری معاشی اور قومی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے‘‘۔ 
ان خطرات میں اس وقت اضافہ کرنے کے لیے مزید عناصر میدان میں آگئے ہیں:
اوّل: مرکزی بنک نے شرح سود بڑھانا شروع کردی، جس سے مارکیٹ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس پالیسی کی شدید مذمت کی ہے اور اس کو معیشت کے لیے مہلک قرار دیا ہے۔ لیکن مرکزی بنک کا بورڈ اس قسم کے بیانات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ تو افراط زر یا قیمتوں میں اضافے کو روکنا چاہتا ہے، جو صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب اشیا کی مجموعی مانگ میں کمی واقع ہو جس کے لیے شرح سود میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بہرحال اس سے اُٹھنے والے خطرات کی نوعیت وہی ہے جو ۲۰۰۸ء کے بحران کا باعث بنے تھے۔ لیکن آج رہن بردار قرضوں کا سلسلہ تباہی کا باعث نہیں بنے گا۔ اس کا ذریعۂ انتقال کا معاملہ، شرح تبادلہ پر اس کے منفی اثرات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ شرح سود بڑھنے سے ڈالر کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے امریکی برآمدات کو شدید دھچکا   لگا ہے اور اس کا تجارتی توازن مزید خراب ہوگیا ہے۔
دوم: یہ سب اس موقعے پر ہورہا ہے، جب امریکا نے چین کے ساتھ ایک نامعقول تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی توازن میں چین کی طرف جھکاؤ کا بہانہ بناکر امریکا نے چین سے آنے والی درآمدات پر ٹیرف نافذ کردیے ہیں، جو ’بین الاقوامی تجارتی تنظیم‘ (WTO) کے ضابطوں سے متصادم ہے۔ 
شرح سود میں اضافہ اور چین امریکا تجارتی جنگ ایسے حالات پیدا کررہے ہیں، جہاں عالمی معیشت کو انجانے خوف و خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور دنیا ایک نئے معاشی بحران کی طرف بڑھتی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ بحران شرح تبادلہ میں ہیجانی ردوبدل کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ اور اس کے ابتدائی اثرات ابھرتی معیشتوں کی کرنسیوں میں ڈالر کے مقابلے میں شرح تبادلہ میں زبردست کمی کی صورت میں مرتب ہورہے ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ارجنٹائن، ترکی، برازیل، جنوبی افریقہ، بھارت اور روس کی کرنسیوں میں ڈالر کے مقابلے میں علی الترتیب ۱۰۷فی صد، ۶۱فی صد، ۲۲فی صد، ۱۵فی صد، ۱۴ فی صد اور ۱۴ فی صد گراوٹ آچکی تھی۔ ایران پر پابندیوں کے باوجود عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں حیران کن کمی کی وجہ سے ان ممالک کی شرح تبادلہ حالیہ دنوں میں کچھ بہتر ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان ممالک میں ترقی کی رفتار میں کمی بلکہ تنزلی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔
 شرح تبادلہ میں اس بڑی کمی کی وجہ سے در حقیقت ان ملکوں میں ایک بحرانی کیفیت کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ سارے ممالک مغربی بنکوں کے مقروض ہیں اور ان کے قرضوں کی مالیت کا تعین ڈالر ($) یا یورو ( €€) میں ہوتا ہے۔ شرح تبادلہ میں اس قدر کمی کے باعث مقامی کرنسی میں ان کا بوجھ اسی تناسب سے بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا، قرضوں کی ایک خاطر خواہ مقدار اس قابل نہیں رہی کہ ان کے مقروض قرض کی ادایگیوں کو پورا کرسکیں، جس کا نتیجہ دیوالیہ پن کی طرف تیزی سے بڑھنا ہے۔
اگر یہ قرضے ناکارہ ہوجاتے ہیں تو مغربی بنکوں کو اس کے عوض اپنے سرمایے کو بڑھانا پڑے گا، جو ایک معاشی بدحالی کے دور میں بآسانی دوسرے سرمایہ کاروں سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکی مرکزی بنک نے بھی آسان قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ، جو ۲۰۰۸ء کے بحران سے نمٹنے کے لیے شروع کیا تھا، منقطع کردیا ہے، کیوںکہ وہ تو افراط زر سے نمٹنے کے لیے شرح سود کو متواتر بڑھا رہاہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ مجموعی طلب کو کم کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا، بنکوں کے لیے ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ وہ موجودہ اثاثوں میں سے مطلوبہ مالیت کا ایک حصہ فروخت کرکے اس سرمایے کو حاصل کریں۔ لیکن یہ فروخت ایک اضطراری اقدام ہوگا، کیونکہ یہ سرمایے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے شروع کیا جارہاہے نہ کہ کسی طے شدہ حکمت عملی کے تحت کاروباری تقاضوں کے مطابق۔ ان حالات میں اثاثوں کی وہ مالیت نہیں ملے گی، جو کتابوں میں درج کی گئی ہوگی۔ یوں یہ عمل بذاتِ خود ایک مزید نقصان اور اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ اس کےعوض سرمایے کو بڑھانے کا عمل شروع کرے گا۔ یہ سلسلہ بالآخر بنکوں کے دیوالیہ ہونے پر منتج ہوگا۔
 دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کار بنکوں کو جو ابتدائی طور پر نقصانات ہوئے ہیں، انھوں نے نقصانات کا اعلان کرنا شروع کردیا ہے لیکن یہ سلسلہ ابھی محدود ہے اور فی الحال اس سے کوئی اضطراب نہیں پھیلا ہے، جب کہ حکومتیں بھی اس عمل کو محدود رکھنے میں مدد کررہی ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں یہ نظام ’اُلٹے اہرام‘ پر مبنی ہے جہاں زر کا پھیلاؤ اس کی حقیقی مالیت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کا انہدام اسی انداز میں ہوتا ہے جیسے ’اُلٹے اہرام‘ کا ہوگا۔

عالمی تجارتی جنگ

ایک اور ذریعہ جہاں سے بحران اُٹھ سکتا ہے، وہ عالمی تجارت کی مقدار میں کمی ہے۔ چین اور امریکا میں چھڑنے والی حالیہ ٹیرف جنگ، جو کسی حد تک صدر ٹرمپ نے یورپ میں بھی پھیلادی ہے اور جو برطانیہ کی یورپی یونین سے نکلنے کے بعد مزید خراب ہوگی، وہ عالمی تجارت کی مقدار میں نہ صرف کمی کا باعث ہوگی، بلکہ اس نے دیوار برلن کے انہدام سے شروع ہونے والی عالم گیریت (Globalization) کی تیز رفتار پیش قدمی کو روک دیا ہے۔ دنیا اب پھر ’قومیت‘ اور ’قومی ریاستوں‘ کے بت کی پوجا کرنے نکلی ہے، اور یورپ میں ایک بار پھر اس عفریت کے سیاہ بادل منڈلانے لگے ہیں۔
لیکن تجارت میں کمی سے مرتب ہونے والے اثرات کا سلسلہ بھی بالآخر مالی ترسیلات سے جڑا ہوا ہے۔ ۲۰۰۹ء کے بعد سے اُبھرتی معیشتوں میں ترقی یافتہ ممالک سے اوسطاً ایک کھرب ڈالر کی سالانہ سرمایہ کاری آئی ہے، جو ان ممالک کی آمدنی کا اندازاً ۵۰ فی صد ہے اور جس کی بنیادی وجہ مرکزی بنکوں کی ضرورت کے مطابق آسان مالیاتی پالیسی رہی ہے۔ امریکا، برطانیہ، یورپ، جاپان اور چین کے بنک اس کام میں سرگرم ہیں۔ لہٰذا ،تجارت کی کمی سے بھی اس بحران کے امکانات میں ابھرتی معیشتوں پر پڑنے والے منفی اثرات سے مزید اضافہ ہوگا۔   
بڑھتی شرح سود، مضبوط ڈالر اور ابھرتی معیشتوں میں گرتی شرح تبادلہ وہ ایندھن ہیں، جو حد سے بڑھے ہوئے عالمی قرضے کے ڈھیر کو آگ لگا سکتے ہیں۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اس وقت عالمی قرضہ عالمی آمدنی کا ۳۰۷ فی صد ہوگیا ہے، اور یہ سطح ۲۰۰۸ءکے بحران سے دو گنا زیادہ ہے۔ لیکن ماہرین کو اب یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر نیا بحران آتا ہے، تو اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے کون سا ہتھیار استعمال کیا جائے گا؟ کیوںکہ ماضی میں تو مرکزی بنک اور وزرات خزانہ نے تقریباً صفر شرح سود پر قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ( Quantative Easing )شروع کیا تھا، جو اَب منقطع ہوچکا ہے اور اس کی وجہ افراط زر کو قابو میں رکھنا ہے۔ لہٰذا، اس کو دوبارہ شروع کریں گے تو انجامِ کار ایک نئی مصیبت درآئے گی۔ 
دوسری جانب اُبھرتی معیشتوں میں مختلف وجوہ کی بنا پر، جس میں شرح تبادلہ کی گراوٹ بھی شامل ہے، بنکوں کے پاس موجود ’بیماری زدہ قرضوں‘ کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ان قرضوں کی تنظیم نو (restructuring ) ناگزیر ہوگئی ہے، لیکن اس کے لیے دست یاب وسائل ناکافی ہیں، کیوںکہ ان معیشتوں میں مالیاتی اور بیرونی ادایگیوں کے توازن پہلے ہی بگڑے ہوئے ہیں۔ اس تنظیم نو کے لیے وسائل مہیا کرنے سے یہ توازن مزید بگڑ جائیں گے۔ لہٰذا، عافیت اسی میں ہے کہ فی الحال اسے التوا میں رکھا جائے۔ ان معیشتوں کو تیل کی قیمتوں سے بھی شدید خدشات لاحق ہیں، جو حالیہ دنوں میں کچھ کم ہوگئے ہیں۔ 

پاکستانی معیشت پر اثرات

اس بحران کے پاکستان جیسی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟ مختصراً ہم یہ عرض کریں گے کہ پاکستان نسبتاً اس بحران کے بھنور میں نہیں ہوگا (ہم بدقسمتی سے پہلے ہی دہشت گردی کے طوفان میں دو عشروں سے پِس رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں پر بیرونی سرمایہ کاری کا فقدان رہا ہے)۔ اس مالیاتی بحران کے پاکستان پر محدود اثرات ہوں گے، کیوںکہ ہم دنیا کے مالیاتی نظام میں کسی قابل ذکر مقام کے حامل نہیں ہیں۔ یہاں بیرونی سرمایہ بہت محدود مقدار میں آیا ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں تو جو آیا تھا اس کا بڑا حصہ گذشتہ دو برسوں کے دوران واپس جا چکا ہے۔ ہم نے کچھ بانڈز اور سکوک فروخت کیے ہیں، جن کی مالیت میں بڑی گراوٹ آچکی ہے کیونکہ ہماری اقتصادی پالیسیاں اس دوران زبردست بگاڑ کا شکار رہی ہیں، جس کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں نے ان میں دل چسپی لینا چھوڑ دی ہے۔ 
ہمیں سب سے بڑا خطرہ تیل کی قیمت سے ہے، جس کے بُرے اثرات پہلے ہی مرتب ہورہے ہیں۔ خوش قسمتی سے تیل کی مارکیٹ میں قیمتوں میں حالیہ گراوٹ کچھ ڈھارس بندھا رہی ہے، لیکن اس کی پاےداری مشتبہ ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیندہ یہ قیمت کس سمت میں سفر کرے گی۔ ایک دوسرا خطرہ جو ہمارے سر پر کھڑا ہے وہ ایک ارب ڈالر کے پانچ سالہ بانڈز اور سکوک ہیں، جن کا اجرا اپریل ۲۰۱۴ء میں ہوا تھا اور جو اس سال اپریل میں ادا کرنا ہوںگے۔ عموماً ان بانڈز کو ادا کرنے کے لیے نئے بانڈز جاری کردیے جاتے ہیں، جب کہ سرمایہ دار بھی اس طرف مائل ہوتے ہیں۔ لیکن آج ہماری معیشت جس مخدوش حالت سے دوچار ہے اور آئی ایم ایف کا پروگرام اور اس کی طرف سے جاری شدہ ’صحت مندی کا سرٹیفکیٹ‘ بھی ہمارے پاس نہیں ہے، تو ہمیں اس عمل میں دشواری کا سامنا ضرور ہوگا، خصوصاً ایسے موقعے پر جب عالمی بحران کے آثار نمایاں ہورہے ہوں۔

امریکی معیشت پر اثرات

اسی طرح بحران کا ایک دوسرا امکان دیکھیے: ہم نے عرض کیا تھا کہ بڑھتی شرح سود، مضبوط ڈالر اور ابھرتی معیشتوں میں گرتی شرح تبادلہ وہ ایندھن ہیں جو حد سے بڑھے ہوئے عالمی قرضے کے ڈھیر کو آگ لگا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان عوامل کا امتزاج ابھرتی معیشتوں سے ہٹ کر خود امریکا کے اپنے اندر سے پیدا ہوگا۔ ریمنڈ ڈالیو، جو ایک ارب ڈالر ہیج فنڈ کے مالک ہیں، ان کی شہرت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ممتاز فنڈ مینیجر ہیں جو دنیا کے ۱۰۰ امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ۲۰۰۸ء کے بحران کی قبل از وقت  پیش گوئی کردی تھی۔  
ڈالیو نے حال میں یہ پیش گوئی کی ہے کہ:’’ امریکا ایک بڑے مالی بحران سے دو سال کے فاصلے پر ہے، جس کے دوران امریکی ڈالر زبردست گراوٹ کا سامنا کرے گا کیوںکہ امریکا اپنے بڑھتے ہوئے بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ڈالر کو بڑی تعداد میں چھاپے گا،  جب کہ اس کی عالمی مانگ میں زبردست کمی ہونے والی ہے‘‘۔ جب ڈالر کی مانگ کم اور اس کی فراہمی زیادہ ہو تو اس کی قدر، دیگر عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں گرنی شروع ہوجائے گی۔ یہ اس وجہ سے بھی ہوگا کہ امریکا میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں افراط زر بڑھ جائے گا اور کرنسیوں کی مالیت کے درمیان طویل المدت مساوات (Purchasing Power Parity) کا قانون ڈالر کی مالیت کو کم کردے گا۔
یہ سب کچھ کیوںکر ہوگا؟ گذشتہ سال صدر ٹرمپ نے ٹیکسوں میں امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ٹیکس چھوٹ (tax cut) کا اعلان کیا تھا۔ اس چھوٹ سے ٹیکس دہندگان کو آیندہ دس سال میں ۵ء۵ کھرب ڈالر یا، کچھ اور اندازوں کے مطابق، اس سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ لیکن یہ چھوٹ بجٹ خسارے کا باعث بنے گی۔ ان مراعات کے عوض صدر ٹرمپ نے ایسی کوئی تجاویز نہیں دیں جو بجٹ کے اس خسارے کو پورا کردیں۔ ان کی پارٹی کا موقف یہ رہاہے کہ ٹیکسوں کی کٹوتی سے معاشی سرگرمیوں کو تقویت ملے گی، جس سے ترقی ہوگی، جو بالآخر ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافے کا باعث ہوگی۔ لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی چھوٹ سے ہونے والی بچت اس قدر معاشی ترقی کو فروغ نہیں دے گی کہ اس سے ہونے والی ٹیکسوں کی آمدنی میں اتنا اضافہ ہو، جو نقصان کو پورا کردے۔ ایک ایسے ٹیکس نظام میں جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہو کہ ایک متمول ٹیکس گزار اپنی بڑھتی آمدنی کا ایک بڑھتا حصہ بصورت ٹیکس ادا کرے گا،جب کہ ٹیکسوں کی آمدنی عوامی فلاح و بہبود پر لگائی جائے گی، وہاں اتنی بڑی چھوٹ متمول ٹیکس گزاروں کو زیادہ فائدہ پہنچائے گی اور ملک میں تقسیم دولت کو ان کے حق میں کردے گی۔ 
ڈالیو کو یہ بھی کہنا ہے کہ: صدر ٹرمپ کی دی ہوئی ٹیکس چھوٹ کے اثرات ۱۸ مہینوں میں زائل ہوجائیں گے، جب کہ سوشل سیکیورٹی اور پنشن کی بڑھتی ذمہ داریوں کے سامنے ٹیکسوں کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہوگی۔ دوسری جانب شرح سود میں اضافہ ہونے سے مجموعی قرضے اور اس پر سود کی ادایگی میں اضافہ ہوگا اور یوں بجٹ کا خسارہ خطرناک حد تک بڑھ جائے گا (واضح رہے کہ امریکا کا مجموعی قرضہ پہلے ہی اس کی آمدنی کا ۱۰۸ فی صد ہوچکا ہے)۔ ایسی صورت میں ترقی کے عمل میں زبردست کمی واقع ہوگی۔ ڈالیو مزید کہتے ہیں کہ: ’’حکومت کو بڑی مقدار میں بانڈز فروخت کرنا پڑیں گے اور امریکی عوام اتنی بڑی مقدار میں بانڈز نہیں خرید سکتے۔ لہٰذا مرکزی بنک کو (بانڈز خریدنے کے لیے) نوٹ چھاپنا پڑیں گے تاکہ خسارے کو پورا کیا جاسکے۔ لیکن یہ ڈالر کی قدر میں گراوٹ کا باعث ہوگا‘‘۔ 

ایک خوف ناک معاشی منظرنامہ

در حقیقت یہ ایک بڑا خوف ناک منظرنامہ ہے۔ جس بات کا ذکر یہاں ڈالیو نے نہیں کیا وہ یہ ہے کہ نہ صرف امریکی عوام بانڈز نہیں خرید سکیں گے بلکہ دنیا میں امریکا کے بانڈز کے خریدار بھی نہیں ہوں گے۔ جس کی وجہ سے مرکزی بنک کو نوٹ چھاپ کر حکومت کو قرضے دینے پڑیں گے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی ڈالر نے دنیا پر تنہا حکمرانی کی ہے۔ شروع میں جب ڈالر دنیا کی ریزرو (reserve) کرنسی بنا تو اس نے تمام ممالک سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے ہمیشہ اس کے بدلے ایک خاص مقدار میں سونا فروخت کرے گا۔ لیکن جب ۱۹۷۱ء میں فرانس نے اپنے ڈالر کے ذخائر کے عوض سونا مانگا تو اس نے انکار کردیا اور ’ڈالر سونا تبادلے‘ کا وعدہ ختم کردیا۔ لیکن اس کے بعد امریکی معیشت کی ترقی اور اس کی سیاسی طاقت نے ڈالر کی مانگ کو نہ صرف مستحکم رکھا، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا، کیوںکہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک نے ہمیشہ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکی بنکوں میں رکھنا محفوظ تصور کیا ہے۔ اشتراکی روس کے خاتمے کے بعد ڈالر کو کوئی مزید خطرہ باقی نہ رہا۔ دیوار برلن کے انہدام اورعالم گیریت کے آغاز نے ڈالر کی شہنشاہی کو چار چاند لگا دیے۔
لیکن گذشتہ دو عشروں سے جاری متعدد جنگوں نے امریکی معیشت کو تہ و بالا کردیا ہے، جب کہ چین کی شکل میں ایک نئی معاشی طاقت امریکا کے مقابل یوں آ کھڑی ہوئی ہے کہ وہ بس  آگے نکلا ہی چاہتی ہے۔ پھر یورپ نے بھی خود کو امریکا سے دُور کرنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔   ان حالات میں ڈالر کی وہ حیثیت نہیں رہی ہے جو اس نئی صدی کے آغاز پر تھی بلکہ اب اس کی مانگ گررہی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اس کی بادشاہی مکمل ختم ہوجائے۔
اس پس منظر میں ڈالیوکا کہنا ہے کہ: ’’انھیں دو باتوں کا خوف ہے: ایک یہ کہ دولت کی تقسیم میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی موجودگی سے معاشرے میں تناؤ بڑھ گیا ہے، لہٰذا اگلا بحران ۲۰۰۸ءکے مقابلے میں ایک بڑے سماجی تصادم کا باعث بنے گا۔ دوسرے یہ کہ پالیسی سازوں کے پاس بحران سے نمٹنے کے لیے کم طریقے اور محدود اختیارات ہوں گے کیوںکہ شرح سود ابھی بھی کم ہے، لہٰذا ماضی کی طرح کوئی حل بھی میسر نہیں ہوگا‘‘۔ ڈالیو مزید کہتے ہیں کہ: ’’وہ پالیسی سازوں اور سرمایہ کاروں کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ ’کاروباری چکر‘ (Business Cycle) ایک ناگزیر   حقیقت ہے۔ قرضوں کا سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور ناقابلِ برداشت سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ ’کاروباری چکّر ‘میں جب سمٹنے یا مندی کا مرحلہ آتا ہے تو دیوالیہ پن ہر طرف پھیلنے لگتا ہے اور مالیاتی ادارے ڈوبنے لگتے ہیں‘‘۔ ایسے موقعوں پر مجموعی مانگ کو مصنوعی طور پر بڑھانے کی کوششیں جیساکہ ٹرمپ انتظامیہ نے ٹیکس کی چھوٹ دے کر کیا ہے وہ ناگزیر نتائج کو مؤخر ضرور کرتے ہیں، لیکن آخرکار ابتری کا باعث ہوتے ہیں۔
ڈالیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ: ’’قرضوں کا بحران کیا اثرات مرتب کرے گا؟ اس کا تعین اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے کیا طریق کار اپنایا جارہا ہے؟‘‘ انھوں نے تجویز دی ہے کہ: ’’اگلے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک نئی قانون سازی کی ضرورت ہے، جس میں ایک صدارتی کونسل قائم کی جائے، جو صدر، اسپیکر، سینیٹ کے قائد اکثریت اور مرکزی بنک کے چیئرمین پر مشتمل ہو اور جس کے پاس اس بحران سے نمٹنے کے لیے مکمل اختیارات ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ قانونی ڈھانچا آمدہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ گنجایش فراہم نہیں کرتا‘‘۔
اس بحث کے اختتام پر ہم چند گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جیساکہ کہہ چکے ہیں کہ قرض کا معاہدہ اپنی تعمیر میں ایک خرابی کا باعث ہے اور اس سے بہر صورت تباہ کن نتائج مرتب ہوتے رہیں گے۔ علاوہ ازیں سرمایہ داری کا نظام بھی اپنے اندر خرابیِ صورت کا حامل ہے۔ جب تک معاشرے میں باہمی اعتماد، محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی کے احساسات پیدا نہیں ہوں گے، انسانی معاشرہ جنگل کے مناظر پیش کرتا رہے گا۔ ترقی کی ہوس، ذاتی منفعت کی فوقیت، غیر ضروری مقابلے کا رجحان، اجارہ داری کے حصول کی کوششیں، اور کمزوروں کو دبانے کی تیزخواہش وہ شیطانی جذبے اور محرکات ہیں جو دنیا کو امن کا گہوارہ نہیں بنائیں گے اور بد امنی، جنگیں اور معاشی بحران وقتاً فوقتاً دنیا کو بے چین رکھیں گے۔ 

پاکستان کی ۷۰ سالہ تاریخ پہ نظر ڈالیں تو ترقی کی راہ میں جو رکاوٹیں نظر آتی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہمارے معاشرے کا افراط وتفریط کا شکار ہونابھی ہے۔ جب تک ہم ایک ذمہ دار قوم کی طرح بغیرکسی دباؤکے اپنی ضروریا ت اور حقیقی ترجیحات کے مطابق فیصلے اور طرزِعمل نہیں اختیار کریں گے، اس وقت تک ترقی کا سفر طے کرنا مشکل ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارے معاشرے میں عورت(جو کسی بھی معاشرے کاکلیدی کردارہے)کے متعلق مختلف اور حددرجہ متحارب و متضاد تصورات ہیں۔ تاہم، گذشتہ دو عشروں سے اس رجحان میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ اگرچہ دیہات میں اب تک صورتِ حال کافی گھمبیر ہے، لیکن شہروں میں تعلیم کے باعث اور کچھ گلوبل ایجنڈے پہ عمل درآمدکے دباؤ کی وجہ سے تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب پہلے کی نسبت عورت کو نہ صرف جلدانصاف ملنے لگا ہے اور اس کے حقوق کا شعور بھی بیدار ہونے لگا ہے، نیز اس کے مسائل کو اہمیت ملنے لگی ہے، بلکہ وہاں تعلیم اور روزگار کے مواقع میں بھی کشادگی پید ا ہوئی ہے۔
 الحمدللہ، یہ سب کچھ بہت خوش آیند ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا معاشرہ عورت کو ایک استحصال سے نکال کر دوسرے استحصال کی طرف دھکیل دے۔مستقبل کے منظر نامے پر نظر ڈال کرسوچنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہم کیا کریں کہ عدم توازن کا شکار ہوئے بغیر توازن اور ترقی کا سفر بہ آسانی طے ہوسکے اور اس کے لیے ہم خودبھی بحیثیت فرد یا گروہ اپنافعال کرداراداکرسکیں۔ ریا ستی سطح پراب الحمد للہ، اعلیٰ تعلیم کے میدان میں طلبہ و طالبات کو یکسا ں موا قع حاصل ہیں۔ اس وقت ملک میں بشمو ل کشمیر اور گلگت اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۸۷ سرکاری اور غیرسرکاری یونی ورسٹیاں کا م کر رہی ہیں، جب کہ خوا تین کی ۱۰علیحدہ یو نی و ر سٹیوں کے با عث ان کو مزیدبھی موا قع حاصل ہیں۔
پاکستان میں عمومی سطح پر اب یہ تصور پرانی بات لگتا ہے کہ ’لڑکیو ں کو پڑھ لکھ کر کیا کرناہے؟‘ اب یہ سمجھا جاتا ہے: معاشرے کو اعلیٰ تعلیم یا فتہ خوا تین کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ مردوں کی۔ اعلیٰ تعلیم فرد کے علم و ہنر اور کا م کر نے کی استعداد میں اضا فہ کر تی ہے۔ خواتین خواہ وہ گھر کی ذمہ داریا ں سنبھا لیں،بچو ں کی نگہداشت کر یں، یا گھر سے باہر ملازمت وغیرہ، ہر جگہ تعلیم ان کو آگے بڑھاتی ہے۔ نہ صرف گھر یا تعلیم اور طب جیسے میدا نو ں میں خواتین کی ضرورت ہے بلکہ صحافت، قانون، نفسیا ت، حتیٰ کہ بعض صورتوں میں سکیورٹی، ریسرچ،سائنس، سوشل سا ئنس جیسے شعبو ں میں خوا تین کی مو جو د گی کی ضرورت ہے۔

مردوں اور عورتوں میں معاشی عدم توازن

چند لمحے کے لیے اسے ایک حو صلہ افز ا پہلو سمجھ بھی لیا جائے تو اس کے سا تھ ساتھ ایک گھمبیر مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے، جومستقبل کے منظرنامے کی خوف نا ک تصویر کشی کرتا ہے۔وہ یہ کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کا تنا سب عدم توا زن کا شکا ر ہے۔
ہما رے ہا ں لڑکیو ں میں محنت سے آگے بڑ ھنے کا جذبہ نسبتاً زیا دہ دکھائی دیتا ہے،جب کہ مردوں کے آگے بڑھنے کے راستے میں اگرچہ کو ئی طبعی رکا وٹ مو جو د نہیں ہے، مگر اس کے باوجود اعلیٰ تعلیم میں ان کا گرا ف تیزی سے نیچے گررہا ہے۔ اس چیز کا اندا زہ امتحا نی نتا ئج اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دا خلو ں میں لڑکوں کے پیچھے رہ جانے سے ہو تا ہے ۔
اعلیٰ تعلیم میں مردوں اور عورتوں کا تناسب دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیا دہ تر یو نی ورسٹیوں میں لڑکیو ں کی تعداد ۷۰فی صد سے زیادہ ہے اور میڈیکل یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں اس سے بھی زیادہ، جب کہ خوا تین یونی ورسٹیوں میں پڑ ھنے والی طالبا ت کی تعداد اس کے علا وہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں مردوں اور عورتوں کے تناسب کا اندا زہ درج ذیل شوا ہدسے بخو بی کیا جا سکتا ہے:
۲۰۱۳ء اور۲۰۱۴ء میں کرا چی یو نی ورسٹی میں لڑ کیو ں کی تعداد۷۳ فی صد، جب کہ  لڑکوں کاتناسب ۲۷ فی صد تھا۔ اسی طرح این ای ڈی انجینیرنگ یو نی ورسٹی میں ۵۰، ۵۰ فی صد کا تناسب تھا (یاد رہے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں میں یہاں پر طالبات کا تناسب ۴ اور ۸فی صد تھا)۔ پنجا ب یو نی ورسٹی کے زیا دہ تر شعبو ں میں نما یا ں طو ر پر طا لبا ت کی بر تری دو تہا ئی سے زیا دہ آرہی ہے۔  ۲۰۱۷ء کے اعداد و شمار کے مطابق قائداعظم یونی ورسٹی میں، ایم ایس سی کورسز میں طالبات کی تعداد  ۱۷۳۵ ، جب کہ طلبہ ۱۴۷۴ تھی۔ ایم فل میں بھی طالبات کی تعداد غیرمعمولی طور پر زیادہ رہی۔
پاکستان میڈیکل اینڈڈینٹل کونسل کے مطابق مجموعی طور پر میڈیکل کی تعلیم میں خواتین کا تناسب ۸۰فی صد، جب کہ مردوں کا ۲۰فی صد ہے۔دوسری جانب جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق میڈیکل کی تعلیم میں طالبات کا تناسب ۷۰فی صد ہے اور ہرسال طالبات کے تناسب میں اضافہ ہی ہورہاہے، کمی نہیں۔
مستقبل کا نقشہ کچھ یوں نظر آرہا ہے کہ اچھے اور ذمہ دار عہدوں پہ مردوں اور عورتوں کا تناسب عدم توازن کا شکار ہوگا۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد کافی زیادہ ہوگی، حتیٰ کہ مردوں کے علاج کے لیے بھی عمومی طور پہ زیادہ تر خواتین اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہی میسر ہوںگی۔ اور گھریلو نظام چلانے کے لیے بھی عورت کی معاشی استعدادمرد سے زیادہ ہوگی۔ 
 مندرجہ بالا صو رتِ حا ل سے مستقبل میں معا شرے کا نقشہ اور توازن اُلٹ پلٹ ہو تا  نظر آتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اعلیٰ تعلیم میں لڑکیو ں کی پیش رفت کو تشویش کی نظر سے دیکھا جائے۔ ہرگزنہیں، اس کی حو صلہ افز ائی کے ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑ کوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پیشہ ورا نہ تر بیت کے موا قع میں اضا فہ کیا جا ئے۔ بصو رتِ دیگر تمام ملازمتوں پر بالخصوص اعلیٰ عہدو ں پر ملا زمت کے معیار کو زیا دہ تر خوا تین ہی پو ر ا کر یں گی۔ اس طرح معاشی ذمہ داریوں کا بو جھ مرد کے کا ندھو ں سے کم ہوکر عورت کے کا ندھو ں پر بڑھنا شروع ہوجائے گا۔

مردوں کی معاشی ذمہ داری کا تقاضا

عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ ہما رے معاشرے میں لڑکیوں کو تو کسی حد تک یہ سکھایاجاتا ہے کہ ان کو دوسرے گھر جانا ہے، اس لیے دوسروں کواپنی زندگی میں جگہ دینے کی استعداد پیدا کرنی چاہیے، جب کہ لڑکوں کی تربیت اپنی عملی زندگی اور با لخصو ص خانگی زندگی کے بارے میں نہ ہو نے کے برابر ہوتی ہے۔ہماری معاشرتی اُٹھا ن اور مردوں کی بیرون خانہ مصروفیات کے باعث گھریلو ذمہ داریاں عموماً عورت ہی کے کا ندھو ں پرہوتی ہیں۔ پھر ،جب کہ صورت حال یہ ہو کہ لڑکے تعلیم اور ہنر کے میدان میں پیچھے ہونے کے باعث معاشی میدان میں بھی پیچھے رہ رہے ہوں، تو مستقبل میں عورت کے کاندھوں پر بچو ں کو پا لنے، ان کی تر بیت کر نے، گھر اورخاندان کے نظا م کو چلا نے اور شوہراور سسرال والوں کی خدمت وغیر ہ جیسے کام تو کہیں کم ہو تے نظر نہیں آرہے، کجاکہ معا ش کی ذمہ داریوں کا بو جھ بھی اس کے کا ندھو ں پر بڑھنا شروع ہو جا ئے۔ 
 بظاہر صنف نازک تر قی کر تی نظر آرہی ہے لیکن درحقیقت وہ چکّی کے دونو ں پاٹوں میں  پس رہی ہوگی۔ گویاکہ وہ ایسی موم بتی کی مانندہوگی، جو اپنے دونوں سروں سے جل رہی ہواور   اس طرح وہ ایک نئے اور کہیں زیادہ اذیت ناک استحصال کا شکار ہوجائے گی۔ اس کے برعکس  دینِ اسلام تو مرد کو ’قوّام‘ قرار دیتا ہے۔ یہ ’قوامیت‘ اس بنیاد پر ہے کہ وہ اپنے خاندان کا معاشی اور معاشرتی بوجھ اٹھانے کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ لہٰذا، باوجود اس کے کہ عورت بھی اپنی بنیادی    ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ، اللہ کی بتائی گئی حدود میں رہ کر معاشی میدان میں کام کر سکتی ہے، باوجود اس کے کہ عورت کتنا بھی کماکر لارہی ہو، تب بھی مرد اپنی اس معاشی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔

پیشہ ورانہ رہنمائی کا فقدان

دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ نہ صرف تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم تک کے لیے بھی کسی پیشہ ورانہ رہنمائی (کیرئیر گا ئیڈنس) کا انتظا م نہیں ہے، جس کے با عث بلاتخصیص مرداور خواتین اپنے دا ئرۂ کار کو مدّنظر رکھے بغیر اکثروبیش تر اندھا دھند صرف بھیڑ چا ل کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔ اپنے میدان کا ر کے انتخا ب کے وقت دُور اندیشی سے نہ خود سو چتے ہیں اور نہ انھیں سمجھا یا جا تا ہے کہ کو ن سے میدا ن کا ا نتخا ب ان کی فطری اور لازمی ذمہ داریو ں(mandatory role) سے مناسبت رکھتا ہے اور کو ن سا نہیں؟ اکثر خوا تین اُن مضامین کو منتخب کر لیتی ہیں، جن کے اوقا ت کار ان کی فطری اور لازمی ذمے داری سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس طر ح وہ اپنی اس تعلیم کا استعما ل نہیں کرپاتیں اور اس پہ صرف کیا جانے والا وقت اور سرمایہ ضائع ہوتا ہے، یاپھر دوہری محنت کے باوجود دونوں جانب حق ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ اس دوہرے بوجھ سے یہ پڑھی لکھی خواتین نہ صرف طبعی اور نفسیاتی دبا ؤ کا شکا ر ہو تی ہیں، بلکہ ان کے بچے بھی مطلو بہ نگہدا شت سے محروم رہتے ہیں اور اس کے مظاہر جب ان بچوں کی جوانی اور ازاں بعد سامنے آتے ہیں تو درستی کا کوئی دروازہ کھلا نہیں ملتا۔

درپیش چیلنج اور تقاضے

اس صو رتِ حا ل میں سر کا ری اور نجی شعبوں میں حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کچھ فوری اور ہنگامی بنیادپراور کچھ دوررس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہے :

  •  لڑکو ں کے لیے بھی متوازی اداروں کا قیام: اگرچہ یہ خوش آیندامر ہے کہ ہمارے ہا ں ’ویمن ڈیولپمنٹ‘ (عورتوں کی ترقی)کا شعو ر گذشتہ دو عشروں میں بہت قوت سے اُجاگر ہواہے، حتیٰ کہ ملک کی بڑی یونی ورسٹیوں میں ’ویمن ڈویلپمنٹ‘ کے باقاعدہ شعبے بھی کھلے ہیں، مگراس کے سا تھ ’مین ڈیو یلپمنٹ‘ (مردوں کی ترقی)کی بھی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مزید اضافہ ضروری ہے، تا کہ تمام اہل طلبہ وطالبا ت کے لیے داخلے ممکن ہوسکیں۔ خواتین یو نی ورسٹیوں کے متوازی طلبہ کے لیے بھی یونی ورسٹیاں قائم کرنا بہت ضروری ہیں، تا کہ مقابلتاً پیچھے رہ جانے کے باعث کوئی بھی طالب علم اعلیٰ تعلیم سے محرو م نہ رہے اورہر اہل طالب علم کے لیے اعلی تعلیم کا حصول ممکن ہوسکے اور معا شرے کی گاڑی کسی عدم توازن کا شکا ر ہوئے بغیر آگے بڑھتی رہے۔
  • لڑکوں کی تعلیم میں عدم دل چسپی کی وجوہ: ہمارے ہاں یہ عمومی شکایت پائی جارہی ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے تعلیم اور لکھنے پڑھنے میں بہت کم دل چسپی لیتے ہیں اور اس لیے وہ نتائج میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس مسئلے کو نظرانداز کرنے کے بجاے ہمارے شعبۂ تعلیم کے ذمہ داروں اور تعلیم سے متعلق تحقیقی اداروں کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے، کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماراتعلیمی نظام لڑکوں کی مطلوبہ درجے میں توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرا  رہا؟ 
  • پیشہ ورانہ رہنمائی کی ضرورت: اسکو لوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں کی سطح تک مردوں اور عو رتو ں کے دا ئرۂ کا ر، کا م کا بو جھ اٹھا نے کی فطری استعداد اور فطری صلاحیت و رجحان کو جاننا ازبس ضروری ہے۔ بحیثیت مرد یا عورت اپنے فطری کردار کے ادراک کے حوا لے سے کیرئیرگائیڈنس یا پیشہ ورانہ رہنمائی کا انتظام ہونا لا زمی ضرورت ہے، تا کہ بھیڑ چال اور اندھی تقلید کے بجاے، ہر فرد سوچ سمجھ کر اپنے عملی میدان کا انتخاب اورمستقبل کی منصو بہ بندی کرسکے۔ اصولاًتو  اس کیر ئیر گا ئیڈنس کو ہمارے نظام تعلیم میں ہی شامل ہونا چاہیے، مگر جب تک ایسا نہیں ہے، اس وقت تک تعلیمی،تربیتی اور تحقیقی کام کرنے والے افراد اور اداروں کو، رضاکارانہ طور پر مختصر دورانیے کے نصاب یا ریفریشر کورس تیار کرنے چاہییں۔ جن کے ذریعے طالب علموں کو نہ صرف ان کے رجحان اوراستعداد کے مطابق بلکہ ان کی سما جی ذمہ داریو ں کے متعلق بھی آگا ہی دی جا ئے۔ ان کو اپنے فرا ئض اور دوسروں کے حقوق بتا ئے جا ئیں، تا کہ خاندان اور معاشرے میں اپنے کر دار کا فہم ان کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے وقت اپنے مضامین کے انتخاب میں مدد د ے سکے۔
  • ترجیحات متعین کرنے کی ضرورت: شعبۂ تعلیم کے ’مراکز دانش‘ کی یہ   ذمہ داری ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے تمام شعبوں میں اور بالخصوص پیشہ ورانہ تعلیم میں، اپنی قومی ترجیحات کا جائزہ لیں اورقومی ضرورت کے مطابق نشستوں کا تعین کریں، نہ کہ جبری کوٹہ سسٹم رائج کرکے کسی ایک طبقے میں احساس محرومی اور ردعمل پیداہو۔
  • خواتین کے لیے لچک دار اوقاتِ کار کی ضرورت: ملا زمت پیشہ خوا تین کی سہولت اور تحفظ کے حوا لے سے جولچک دار قوا نین اور اوقات (Flexible working hours) مو جو د ہیں، ان پر عمل درآمد کو یقینی بنا یا جا ئے، تاکہ جو تعلیم یافتہ خوا تین معا شی عمل میں کردار ادا کررہی ہیں، وہ اپنے گھر اور بالخصوص بچو ں کی نگہداشت کے سا تھ اپنے کا م کو انجام دے سکیں۔
  • ’گھر سے کام‘ کی سہولت کی فراہمی:’گھر سے کام‘ (Work from home) کا تصور خصو صاً خوا تین کے لیے بہت پُرکشش ہے اور یہ بہت سے ممالک میں را ئج بھی ہے (اس سے مراد یہ ہے کہ بہت سے کام گھر پر ہی کرکے معاشی اور فنی عمل کا حصہ بناجائے)۔ ہمارے ہاں چند اداروں نے اس کو اپنایاہے، لیکن اگر دیگر ادارے بھی اس کو ممکن بنا ئیں، تو خاندان اور گھرانے ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہونے سے بچ سکیں گے۔
  • نئی نسل کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دینے کی ضرورت:ضرورت ہے کہ نئی نسل کی تعلیم وتربیت کو معاشرے کے ایک عظیم کام کے طور پہ منوایا جائے۔جو اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین چھوٹے بچوں کی پرورش اور نگہداشت اور گھریلوذمہ داریوں کی ادایگی میں مصروف ہیں، ان کے کام کو بھی معاشرے میں ایک لائق تحسین کام کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ان کی فکری اور عملی مدد کرنے کو ترجیح دی جائے۔
  • حقیقی تصورِ تعلیم کو اُجاگر کرنے کی ضرورت: تعلیم کے اس تصور کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے کہ اعلی تعلیمی ڈگری کا استعمال صرف اچھی ملازمت،اعلیٰ عہدہ یاکوئی بھرپور کاروبار ہی میں ہو سکتا ہے۔اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی معاشی ضروریات بغیر ملازمت کیے پوری ہورہی ہیں، توان کو اپنا وقت، تعلیم اور صلاحیت معاشرے کی تعمیر و ترقی اور بھلائی کے کاموں میں رضاکارانہ صرف کرنا چاہیے۔ ’تعلیم براے روزگار‘ کے تصور سے بالا ہوکرتعلیمی، دعوتی اور سماجی خدمت کے کاموں کا حصہ بننا چاہیے۔ اس حوالے سے ہمارا معاشرہ بہت پیاسا ہے۔ یہاں ایسے افراد کی بہت ضرورت ہے، جو کسی بھی ذاتی مفاداور معاشی فائدے سے بالاتررہ کر قوم کی بھلائی اور بہتری کے لیے کا م کریں۔
  • پس ماندگی دُور کرنے کی ضرورت: دیہات میں پس ماندگی دُورکرنے اور فروغِ تعلیم کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھانے اور منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔

 اگر معاشرے کی اس بدلتی ڈگر اور عدم تناسب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم توازن کا ادرا ک نہ کیا گیا اور اس کے سد باب کی کوشش نہ کی گئی تونہ صرف مرد نقصان میں رہیں گے، بلکہ عورت ہی سب سے زیادہ استحصال کا شکارہوکر رہ جائےگی، اور چند ہی برسوں میں معاشرے میں ترجیحات کاتوازن بگڑ جائے گا۔ایسی صورت حال میں نہ صحت مند معاشرہ پیدا ہوگا اور نہ قوم ترقی کی منازل طے کرسکے گی۔
 اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کومتوازن اور صحت مند معاشرہ منتقل کرنا چاہتے ہیں، اور یقینا ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں، تو پھر ہم اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اور اگر ہم کسی ادارے یا کسی گروہ کے ذمہ دار ہیں، تو اس حیثیت میں بھی، مستقبل کے درپیش چیلنجوں کا آج ہی سے ادراک کریں۔ اپنے معاشرے کی ترجیحات اور اقدارکو اُلٹ پلٹ ہونے سے بچانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں۔ یہ دینی ذمہ داری بھی ہے اور قومی فرض بھی۔

کیا ہم اپنے معاشرے کو جانتے ہیں؟ اور کیا ہمارا معاشرہ ہمیں جانتا ہے؟
ان بنیادی سوالات کا جواب تب ہی مل سکتا ہے یا اسی وقت دیا جاسکتا ہے، جب یہ واضح ہو کہ ’جاننے‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ عمل کیا ہے اور اس عمل کے تقاضے کیا ہیں؟
ہمارا فوری جواب یہی ہوگا کہ ’ہم معاشرے کو جانتے ہیں اور ہمارا معاشرہ ہمیں جانتا ہے‘۔ ممکن ہے کہ یہ جواب درست ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’جاننے‘ کے عمل سے ہم لاتعلق ہوں اور یوں دونوں سوالات تشنۂ جواب ہی ہوں۔ کسی فلاسفر نے کہا تھا کہ: ’میں یہ جانتا ہوں کہ میں کیا  نہیں جانتا‘۔ تاہم، عمومی چلن کے مطابق: جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ ’میں جانتا ہوں‘ اسی کو عالم سمجھا جاتا ہے۔
چند لمحوں کے لیے مان لیجیے کہ: ’’ہم اپنے معاشرے کو نہیں جانتے اور اسی طرح سے یہ معاشرہ بھی ہمیں نہیں جانتا‘‘۔ گذشتہ دو عشروں میں جوان ہونے والی نسل اگر ہمیں نہیں جانتی تو اس کی بنیادی وجہ یہ خوش فہمی ہے کہ ’ہم معاشرے کو جانتے ہیں‘۔ 

معاشرہ: چند غورطلب پہلو

آئیے چند پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ کسی معاشرے کو جاننے کے لیے کیا ضروری ہے:

  • پہلا مقدمہ یہ ہے کہ کیا معاشرے کا پورا منظر نامہ ہمارے سامنے موجود ہے یا چند پہلوئوں کو دیکھ کر ہم راے قائم کرلیتے ہیں؟ ایک داعی کے طور پر فرد سے کس طرح ملتے ہیں؟    کیا یہ جانتے ہیں کہ ہمارا مخاطب اور اس کی شخصیت کیسی ہے، اس کے مسائل کیا ہیں اور وہ کن امور پر بات کرنا چاہتا ہے؟ ہم اس کی بات سنتے ہیں یا اسے محض اپنی سناتے ہیں؟ 
  • ہمارے معاشرے کی کوئی مخصوص نفسیاتی پہچان ہے یا خود ہماری معاشرت بھی عمومی طور پر اسی رنگ میں رنگی ہے؟ ہم جذباتی کیفیات میں زیادہ وقت گزارتے ہیں یا رویوں پر ٹھیرائو غالب رہتا ہے؟ عملی کیفیات میں داعیانہ جذبہ کس حد تک غالب ہے کہ جو مخاطب کو متاثر کرتا ہے اور کس انداز سے متاثر کرتا ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنے مخاطب کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کی کوشش کی، خواہ ادھورا ہی سہی یا پھر جو پیش نظر ہے، وہی پیش کردیتے ہیں؟
  • ہمارے معاشرے میں ترقی کی منازل طے کرنے والا ہم عصر کلچر کیا ہے؟ پہلے سے مروج روایات سے یہ کلچر کس حد تک ہم آہنگ ہے؟ معاشرتی سطح پر فرد اور گروہ کے روابط اور تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ کیا ہم ربط اور تعلق کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں یا ربط سے تعلق پیدا کرنے اور مستحکم کرنے کا کام لیتے ہیں؟
  •  مختلف گروہوں ، اداروں اور تنظیموں کا کردار ہمارے زیر مطالعہ رہتا ہے یا ہم ادھورے ابلاغی پروپیگنڈے سے متاثر رہتے ہیں؟ کیا ہم وسعت کو پسند کرتے ہیں یا ’جو ہے اور جہاں ہے‘ ہی کو کافی سمجھتے ہیں؟ اس فرق کو پہچانتے ہیں یا اپنی محدود معلومات کو کافی سمجھتے ہیں؟
  • پاکستان کے زندہ معاشرتی مسائل اور مقدمات کیا ہیں؟ ان امور میں سے کتنے اُمور واقعی مسائل بن چکے ہیں  اور کتنے مسائل، بڑے چیلنج بننے جارہے ہیں؟ ہم ان امور کو مسائل اور پھر چیلنج بننے سے کس حد تک روکنے میں کامیاب ہیں؟ اس کش مکش کو سمجھتے ہیں یا اس عمل سے الگ ہیں؟ ان سوالات کا جواب پانے کی کوشش کرتے ہیں یا امور اور مسائل کی جنگ میں خاموش اور غیر جانب دار ناظر ہیں؟
  • آج کے زندہ رجحانات کیا ہیں؟ ’زندہ‘ سے مراد صرف ’مثبت‘ نہیں ہے، اس سے مراد ’منفی‘ بھی ہے۔ ہر ایسا رجحان ’زندہ‘ ہے جو معاشرے میں رائج ہے یا رواج پانے کو بے تاب ہے، خواہ اس کے اثرات مثبت ہیں یا منفی ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کسی بھی رجحان سے اس کی جملہ حرکیات، اسباب اور انجام سے آگاہ ہیں یا آگاہ ہونے کی کوشش میں ہیں؟
  • معاشرے میں رہنے سہنے اورملنے جلنے کے انداز اور معاملات میں تبدیلی آرہی ہے،   لباس تبدیل ہو رہے ہیں، خواہ یہ مردانہ ہوں یا زنانہ۔ رویے اور میل ملاپ میں تبدیلی آرہی ہے۔ ہم ان تبدیلیوں کو کس حد تک محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہم ان میں روپذیر منفی رویوں پر کڑھتے رہتے ہیں؟ ہم عملی سطح پر حکمت آزماتے ہیں یا تنقید سے کام چلاتے ہیں؟ قطع تعلق کرتے ہیں یا حوصلہ بڑھاتے ہیں؟
  • دین اور مذہب کے بارے میں لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سوچ کس طرح بدل رہی ہے؟ کیا ہم ہر نئی سوچ اور نئے عمل کو سیکولر اور لبرل کہہ کر تو فارغ نہیں ہوجاتے؟ کیا محض یہ سوچ لینا ہی مطلوب ہے؟ کیا یہ رویہ ایسی سوچ کا حصہ بن کر اپنا حصہ تو نہیں ڈالتا؟ یا اس سے جدا ہو کر اسے منافقت، گمراہی ، بے راہ روی وغیرہ قرار دینا ہی کافی ہے؟ اگر ایسا ہے بھی، تو کیا اسے درست کرنے کی حکمت بھی آزماتے ہیں؟
  • مجموعی طور پرلوگوں کا کردار وراثتی ہوتا ہے، جو نسل در نسل چلتا ہے۔ ہر کام کا ایک مخصوص پس منظر ہوتا ہے اور اکثر اسی پس منظر کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ کیا ہم اسی پس منظر کو جانتے ہیں؟ یا خود کو اس کی جگہ رکھ کر غور کرتے ہیں؟ کیا ہم لوگوں پر تنقید، پس منظر کو سمجھے بغیر تو نہیں کرتے؟ 
  • خانگی روایات، تعلیمی کیفیات، شخصی رجحانات، گروہی نظریات، فکری مطالبات بہ یک وقت سرگرمِ عمل ہوتے ہیں۔ معاشرے کی عمومی قوت، اقدار کے انداز، روایات کے اسلوب سمیت بے شمار جہتیں ہیں اور ہر جہت ایک قوت ہے۔ کیا ہم ان سب کو اپنے خلاف کرلیتے ہیں، یا انھیں فطری سطح پر اپنےخلاف پاتے ہیں؟ ان کو اپنے حق میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں؟ یا پھر یہ کہتے ہیں کہ وہ جانے اور اُس کا کام!
  • وقت بہت بڑا عامل، معالج اور استاد ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا آج کا نوجوان مولانا مودودیؒ کے نام اور کام سے واقف ہے؟ کیا آج کا معاشرہ جماعت اسلامی کو اس کی اصل پہچان کے حوالے سے جانتا ہے؟ کیا آج کا معاشرہ جماعت اسلامی کا تاثر قائم ہوتے دیکھ رہا ہے؟ کیا وہ اس کے تاثر کو آگے بڑھاتا ہے یا اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے؟ اسے آگے بڑھانا ہے تو حکمت عملی کیا ہے یا پھر کسی حکمت عملی کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟
  • معاشرے میں حقوق و فرائض کا کیا تصور کام کر رہا ہے؟ کیا یہ تصور دینِ اسلام میں حقوق و فرائض کے تابع ہے، یا پھر یہ جدیدیت کے تابع ہے؟ کیا ہر حق (Right) سیکولر ہوتا ہے، اور   کیا ہرفرض مذہبی ہوتا ہے، اور کیا معاشرے کو واضح سوچ دینے کی ضرورت ہے؟

یہاں داعیانہ پہلوئوں کی طرف کہیں کہیں اشارہ اس لیے کیا ہے، تاکہ ہم اپنے ’جاننے کے دعوے‘ کو جان سکیں۔ ہم میں سے ہرکارکن خود سے یہ سوال ضرور پوچھے: ¤ ان پہلوئوں کو پورا جانتا ہے یا نہیں جانتا ہے! ¤ ان پہلوئوں کو ادھورا جانتا ہے یا کچھ کو جانتا ہے! ¤ جس قدر جانتا ہے، اس کا استعمال کرتا ہے ہیں یا نہیں کرتا!
پہلی صورت کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اگر ہم ان پہلوئوں کو نہیں جانتے، تو گویا اپنی دعوت کو بھی کماحقہ نہیں جانتے۔ اس کمی کو دُور کرنے کے لیے ہمیں داعی اور دعوت کے بارے میں بنیادی لٹریچر کا بھرپور مطالعہ کرنا چاہیے،اور یہ مطالعہ سمجھ کر ہی کرنا چاہیے، ورق گردانی نہیں!
یہاں ایک مثال پیش ہے۔ امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی حراست کے دنوں میں ایک ورکشاپ میں ہمارے ناظمین نشرو اشاعت شریک تھے۔ جماعت اسلامی اس معاملے کو پوری قوت سے لے کر چل رہی تھی۔ راقم نے نشست میں سوالات پیش کیے: ¤ یہ قاتل کتنے دنوں سے اور کہاں قید ہے؟¤ اسے ریمانڈ کے لیے کب اور کہاں پیش کیا گیا؟¤ متاثرہ پاکستانی خاندانوں کا وکیل کون ہے؟¤ امریکی سفارت خانے کی گاڑی نے کس نوجوان کو کچل کر مار ڈالا؟
    اسی طرح کے دس بارہ سوالات اُٹھائے، مگر کسی کے پاس ان کا مکمل جواب نہیں تھا۔ تقریباً ۲۵فی صد نے تاریخ صحیح بتائی۔ کئی شرکا کو مقتول عباد الرحمٰن کے نام کا علم نہیں تھا۔ ۵۰فی صد کو علم نہیں تھا کہ وکیل کون ہے اور وکیل کا جماعت سے کیا تعلق ہے؟
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت کارکن زیادہ تر، موقف کی چند سطروں کی واقفیت تک محدود رہتے ہیں۔ جس دن اس کیفیت سے نکل کر معاشرے میں اُتریں گے اور جماعت اسلامی میں رہنے لگیں گے تو ہم معاشرے میں بھی رہنے لگیں گے۔ محض تصور میں رہ کر ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی پالیسی اور پروگرام کے تحت کام کر رہے ہیں، جو درست مفروضہ نہیں ہے۔ جب کارکن پالیسی کو پوری طرح سمجھ نہ رہا ہو، تو وہ گہری لگن کے ساتھ کام بھی نہیں کرسکے گا۔   
مثال کے طور پر مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد ارکان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ:

  • آپ نے نظم سے رابطہ کر کے دریافت کیا کہ موجودہ حالات میں جماعت کی پالیسی کیا ہے؟
  • جماعت اسلامی نے جن قراردادوں کی منظوری دی ہے، ان کے موضوعات کیا ہیں؟
  • کیا سیاسی صورت حال پر جماعت کی موجودہ اور سابقہ قرارداد کا فرق جانتے ہیں؟

اگر اپنا بے لاگ جائزہ لیں تو اپنے بارے میں درست فیصلہ کرنا کچھ مشکل محسوس نہیں ہوگا کہ کیفیت کیا ہے؟ اگر ہم کو سارے یا بیش تر امور کا علم ہے، نظم سے رابطہ کر کے فہم حاصل کیا ہے تو ہم جماعت میں رہتے ہیں۔ دوسری صورت میں ہم جماعت سے محض ثقافتی یا واجبی سا تعلق رکھتے ہیں، حقیقی تعلق نہیں رکھتے۔ یہ ایک خطرناک صورت ہے جس سے ہماری خاصی تعداد متاثر ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم کنارے پر چلنے کے بجاے جماعت اسلامی میں رہنا شروع کر دیں۔ حالات و واقعات پر گہری نگاہ رکھیں۔ پھر ہماری دعوت کو بھی معاشرے سے جدا اور تصوراتی نہیں ہونا چاہیے، کہ اس کے بغیر ہم دعوت نہیں پھیلا سکتے ۔
یقین مانیے، جماعت سے جدا رہنے کا مطلب، معاشرے سے جدا رہنا ہے۔ اسی لیے ہم کسی حلقے میں دس افراد ہیں تو دس سال بعد بھی غالباً دس یا گیارہ ہی ہیں، یعنی ’کوئی خود ہم سے    آن ملے، ہم کسی سے کیوں جاکر ملیں‘۔ جب کارکن اس عادت سے ہٹ کر کام کرتا ہے تو معاشرے کے قریب ہو جاتا ہے۔ 
ہم درس قرآن، ہلکا پھلکا اجتماعی مطالعہ یا دیگر پروگرام کرتے ہیں، لیکن اپنے اردگرد کے ماحول کو نظر انداز کرکے۔ یہ نہیں جانتے کہ اڑوس پڑوس میں کیا صورتِ حال ہے؟ ہمارے بارے یہ تاثر رہا ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہے۔ ہمارے حلقے میں ایک رکن جماعت ہوا کرتے تھے، انھیں پورا محلہ نہیں بلکہ پورا علاقہ جانتا تھا کہ یہ رکن جماعت ہیں ۔ ہر موقعے پر موجود، ہر مسجد میں حاضر، ہر خوشی اور غمی میں لوگوں کے ساتھی تھے۔ وہ سرگرم رہے، کوشش کرتے کرتے ربّ کے حضور پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ والے اب بھی موجود ہیں، لیکن وہی چار، چھے اور کبھی دس۔ وجہ یہ ہے کہ عام آدمی سے رابطہ نہیں ہے۔ جماعت کا نام موجود ہے، مگر جماعت کا تصور موجود نہیں ہے اور کسی سےرابطے کی طلب اور پیاس بھی کم تر ہے۔ 

معاشرتی شناخت کے تقاضے

 دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا معاشرہ ہمیں جانتا ہے؟ یہاں چند سوالات غور طلب ہیں:

  • کیا معاشرہ یہ جانتا ہے کہ ہم دین و سیاست سے علیحدہ ہونا درست نہیں سمجھتے؟ جی نہیں، آج کا معاشرہ یہ بات نہیں جانتا۔ اب بات یہ ہوتی ہے کہ’ مذہبی جماعتیں باز کیوں نہیں آتیں، ان کو بڑی جماعتوں کا ووٹ بنک خراب کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے‘ وغیرہ۔
  • ہمارا معاشرہ ہماری دعوت کو نہیں جانتا تو اس کی ذمہ داری ہماری طرف سے پہچان نہ کرانے پر ہے۔ اسی میں پوشیدہ یہ پہلو بھی ہے کہ کیا آج کا نوجوان ہماری ہرسطح کی قیادت کو دعوت کے ماڈل کے طور پر جانتا ہے؟ 
  • مشاہدہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہمارا کام مثبت سمت میں نہیں جارہا۔ ہم جواب آں غزل میں اُلجھ جاتے ہیں۔ لوگ ہمارے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں، لیکن ہم انھیں محض تنقید سمجھ کر مزید اُلجھ جاتے ہیں۔ داعی کو جواب دینا چاہیے ، مگر اکثر صورتوں میں جواب مسائل پیدا کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اپنی حرکیات ہیں۔ ہمارے سوشل میڈیا کے ماہرین چُست جملے میں جواب دینے کو سوشل میڈیا کا درست استعمال سمجھ بیٹھے ہیں۔ چست جواب دینا کسی عام سیاسی گروہ کا معاملہ تو ہو سکتا ہے،جماعت اسلامی کا نہیں۔ جماعت اسلامی کو سوشل پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور صرف دعوت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ 
  • ایک اور پہلو نہایت اہم اور حسّاس ہے، وہ ہے عورت اور خاندان سے مخاطب ہونے کا معاملہ، مرد اور خاندان سے مخاطب ہونے کا معاملہ۔ جماعت کے حلقۂ خواتین کے وجود کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ خاندان اور اس سے متعلقہ امور پر صرف حلقۂ خواتین ہی مخاطب ہو اور جواب دے۔ بات وہی درست ہے کہ پوری جماعت کو ان امور پر مخاطب ہو کر معاشرے سے بات کرنی ہے۔ ہم نصف آبادی، یعنی مرد آبادی کو خانگی و معاشرتی حوالوں سے مخاطب نہیں کر رہے۔ یہ حلقہ خواتین کے کام میں مداخلت نہیں بلکہ گھر کے مرد سے مخاطبت کرنے کا معاملہ ہے۔ ہمارا معاشرہ ضرور جاننا چاہے گا کہ ہم گھر، خاندان،  مرد و عورت اور نوجوان نسل کے بارے میں کیا اور کس طرح کہنا چاہتے ہیں؟
  • مذکورہ نکتے کو تعلیم، روزگار، عملی زندگی کے مسائل کے حل پر بھی منطبق کیا جائے تو نظر آئے گا کہ معاشرہ ہم سے اور ہم معاشرے سے کتنے فاصلے پر ہیں۔

یہ محض چند مثالیں ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ ہم ان مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر ہم اس دبائو میں زندہ ہیں کہ اب معاشرہ لٹریچر کا نہیں ہے، اور الیکٹرانک میڈیا کا دبائو ہے۔ ایسا نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اسے لٹریچر کی طرف لانا بھی ہماری اور معاشرے کی ضرورت ہے۔ 
ہم کھلے دل سے یہ تسلیم کرلیں کہ ہم اور معاشرہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنتے دکھائی دیتے ہیں، جو اس درجہ پہلے نہیں تھا۔ ایسا ماننا ہی ہم کو مسئلے کے حل کی جانب لے جائے گا (اس اجنبی پن کی وجوہ بہت سی ہیں، تاہم اس وقت وہ پہلو زیربحث نہیں)۔ زیربحث بات یہ ہے کہ ہم اس اجنبیت کی دیوار کو کس طرح توڑ سکتے ہیں؟ 

معاشرے میں نفوذ کی راہ 

اس دیوار کو گرانے کے لیے ہمیں پہلے مرحلے میں دیوار کے اس پار جانا ہوگا، جہاں معاشرہ بس رہا ہے۔ ہم اکیلے یہ دیوار نہیں گرا سکتے، اس کام کے لیے ہمیں معاشرے کا ساتھ درکار ہے۔ ہم اس دیوار کے اس پار کس طرح اور کیوں کر جاسکتے ہیں؟ یہ ایک چیلنج بھی ہے اور دعوت و تحریک کا تقاضا بھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا وسائل ہیں، جن سے یہ سفر طے کیا جاسکتا ہے:

  • ہمارے مادی اور عددی وسائل بہت سے ہیں، مگر ان کا استعمال یک طرفہ، یکسانیت زدہ  اور معیارِ مطلوب سے کم تر ہے۔ مثال کے طور پر:
  • ہمارے پاس کارکن موجود ہیں، لٹریچر موجود ہے، انداز موجود ہے، صلاحیت اور طریقۂ استعمال موجودہے، لیکن ’داعی کارکن‘ موجود نہیں ہے۔
  • ہمارے پاس دعوت کے ذرائع متنوع اور روزافزوں ترقی پانے والے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ افراد تک پہنچنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ ہم کم زور، کم وسائل اور کم حیثیت تحریک نہیں، مگر بن رہے ہیں۔ ہمیں اس نفسیاتی خول سے باہر نکل کر اپنے داعیانہ مقام، وسائل، حیثیت اور اثر پذیری سے معاشرے کو مخاطب کرنا ہے۔
  • جو چیز کم ہو رہی ہے، وہ ’اُمید‘ ہے اور جو بڑھ رہی ہے، وہ ’یاس‘ ہے۔ ہماری اُمید اقامتِ دین ہے اور ہماری یاس سیاسی ناکامی ہے، داعیانہ ناکامی نہیں۔ افسوس کہ ہم نے سیاسی ناکامی کو داعیانہ کمزوری سمجھ لیا ہے۔ ہمارا اپنا تاثر یہ ہے کہ: ’لوگ بات نہیں سن رہے‘۔ اصل بات یہ ہے کہ ’ہم بات سنا نہیں رہے‘۔ اور جو نہیں ہے، اس کے ہونے کے ہم سب منتظر ہیں، مگر جو موجود ہے، اسے جاننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
  • ہم کیا کریں؟ ہم اپنی پہچان کرائیں یا ہماری دعوت ہماری پہچان کرائے؟ ہمیں یہ دونوں کام کرنا ہوں گے۔ یہ دعوت کی ٹھوس ضرورت ہے۔ ہمیں اس کردار میں سامنے آنا چاہیے۔ ہم کس طرح اس کردار میں ڈھل سکتے ہیں؟ یہ بہت آسان ہے، مگر بہت نظر انداز پہلو ہے۔
  • یہ تاثر موجود ہے کہ ہم جملہ سرگرمیوں میں اپنا داعیانہ کردار محدود کر رہے ہیں یا پھر رفتہ رفتہ یہ کردار ختم ہورہا ہے۔ اس تاثر اور اسباب پر جماعت کے نظام میں مقامات کی سطح پر اور بالائی سطحوں پر بات ہونی چاہیے۔ ان تنظیمی اکائیوں میں بات تسلیم کرکے غوروفکر کرنا ہوگا کہ   عام آدمی کی نگاہ میں ہم داعی نہیں، بلکہ ایک سیاسی مذہبی جماعت بن کر رہ گئے ہیں۔ داعی کے طور پر کارکن کا کردار بڑھانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہم اقامت دین کا کام کرنا چاہیں تو دعوتِ دین کے کام کو بہت زیادہ مستحکم اور متحرک کرنا ہوگا۔ اسے ہمہ گیر اور ہمہ جہت بنانا ہوگا۔
  • ماننا ہوگا کہ داعیانہ کردار کو ٹریڈ یونین کے سے انداز نے گہنا دیا ہے۔
  • سیاسی جماعتوں سے رابطوں کی عدم موجودگی نے مخاصمت کا تاثر گہرا کیا ہے۔ ان کے حوالے سے لوگ واضح اور ٹھوس موقف چاہتے ہیں۔

اجنبیت کی دیوار گرانے کے یہ چند پیمانے ہیں۔ ان کے بیان میں متبادل انداز بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں خیر خواہوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ نیکی اور خیر خواہی کے جذبے سے عوام سے ملنا ہوگا۔ جب یہ جذبہ عام آدمی کی ضرورت بنے گا، تب ہم کہہ سکیں گے کہ ہماری بات سنی جا رہی ہے۔

اہل قرآن کے تاویلاتی افکار اور نماز پنجگانہ کا تحقیقی مطالعہ،ڈاکٹرظفر اقبال خان۔ ناشر:ادارہ اسلامیہ ،حویلی بہادر شاہ جھنگ۔فون: ۶۷۷۱۷۶۸-۰۳۳۲۔ صفحات:۵۳۶۔ قیمت:۷۰۰ روپے۔
انکارِ حدیث کے حاملین اپنے آپ کو ’اہلِ قرآن‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے عقائد وافکار کا مطالعہ ظفر اقبال خان کا خاص موضوع ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت کردہ معروف حدیث (بُنِيَ الْاِسْلاَمُ عَلٰى خَمْسٍ…)کے مطابق اسلام کی بنیاد جن پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے، ان میں سے نماز ایک اعتبار سے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسانی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ نماز بار بار اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ چونکہ اُمت مسلمہ کی اکثریت نماز نہیں پڑھتی یا بے قاعدگی سے اور کبھی کبھار پڑھتی ہے، اس لیے اس کا مسلمان ہونا مشکوک ہے۔ اہلِ قرآن یا پرویزصاحب کے مقلدین نے اسلام کے اسی بنیادی رکن نماز پر تیشہ چلایا ہے۔ 
مصنف نے اس گروہ پر علمی گرفت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انکار نماز کا فتنہ کب اور کہاں سے شروع ہوا اور اس سلسلے میں کیا تاویلات کی گئیں؟ مصنف نے بڑی گہرائی سے موضوع کا تجزیہ کیا ہے۔ نہ صرف نماز کے مسئلے پر منکرین حدیث کے عقائد بلکہ بہ حیثیت مجموعی ان کی گمراہیوں کی نشان دہی کی ہے۔ دیباچہ نگار محمدیعقوب کے بقول ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس گروہ اور فکر کی تاویلاتِ رقیقہ وباطلہ کا رد معقولات ومنقولات کے ایسے مسکت دلائلِ قاطعہ سے کر کے اس ضلالت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔
کتاب کی سطر سطر سے مصنف کی علمیت اور عربی ،انگریزی مآخذ اور قرآن وحدیث پر  ان کی دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔ تاہم، کتاب کا مجموعی اسلوب بہت پیچیدہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ اسلوب مطالعہ کتاب کی راہ میں باربار حائل ہو جاتا ہے۔ پھر کچھ مسئلہ ترتیب وتدوین کا بھی ہے۔
یہ کتاب اپنے انداز سے عوام کے بجاے خواص اور علما کے لیے دکھائی دیتی ہے۔ اصطلاحات کی تشریح کے باوجود عام قاری کے لیے اسے سمجھنا قدرے مشکل ہے۔ البتہ کتاب کے آخری حصے میں قرآن وحدیث کے حوالے سے نماز کی اہمیت اور فرضیت کا بیان عام فہم اور آسان ہے اور عام قاری کے لیے اس کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی ) 
جیو ٹیکٹانکس ، پروفیسر رئوف نظامی ۔ناشر: اردو سائنس بورڈ، ۲۹۹ ۔ شاہراہ قائد اعظم ، لاہور۔ فون: ۹۹۲۰۵۹۶۹-۰۴۲۔ صفحات :۲۹۵۔ قیمت : ۵۳۰ روپے ۔
جیوٹیکٹانکس جیالوجی (علم ارضیات ) کا ایک ذیلی مگر اہم مضمون ہے۔ اس میں زمین کی ابتدا، ارتقا، اور اس کی بنت وبناوٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان تبدیلیوں کا انسانی زندگی اور ماحول کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جیسے زلزلے انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ 
سترہ ابواب پر مشتمل مباحث میں سے بعض تو خالصتاً ٹیکنیکی اور سائنسی ہیں، مگر یہ خشک موضوعات بھی معلومات افزا ہیں۔ بعد کے ابواب میں زلزلوں کے مختلف پہلوئوں ، (پیش گوئی ) سونامی ، پاکستان کو سونامی سے خطرہ، ۲۰۰۸ء کے زلزلے، جاپان کے سونامی زلزلے ، اور زلزلوں سے جوہری بجلی گھروں کو خطرے پر کلام کیا گیاہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ توانائی کے لیے جوہری بجلی گھر قائم کرنا خطرناک ہے۔ ا س میں نقصانات کا اندیشہ زیادہ ہے۔ اس کے بجاے پَن بجلی زیادہ سستی، محفوظ اور سود مند ہے۔ توانائی کے مسئلے کے حل کے لیے مصنف نے ایک اہم نکتے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:’’دنیا کے چند لاکھ افراد کے خاص طرزِ زندگی پر ہی بہت سی توانائی صرف ہو جاتی ہے، اس طرح باقی اربوں انسان توانائی کے قحط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ [اس لیے] عالمِ انسانیت کی فلاح وبقا کے [لیے ] سب سے پہلے پُر تعیش لائف سٹائل کو خیر باد کہنا ضروری ہے‘‘۔ (ص ۲۷۳) 
یہ کتاب سائنس کے طلبہ واساتذہ بلکہ عام قارئین کی معلومات اور ان کے شعور میں بھی اضافے کا باعث ہو گی ۔ (رفیع الدین ہاشمی ) 

بشیراحمد کانجو ،ڈھرکی، گھوٹکی
جنوری ۲۰۱۹ءکا شمارہ جامع اور ہرعنوان کے لحاظ سے قابلِ تحسین تھا۔ بیش تر مضامین پڑھ کر آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے ’اشارات‘ ہمیشہ ہی قابلِ قدر ہوتے ہیں۔ ’اشارات‘ میں مولانا مودودیؒ کے یہ الفاظ: ’’میرے لیے یہ قرآن شاہِ کلید ہے۔ مسائل حیات کے جس قفل پر اُسے لگاتا ہوں وہ کھل جاتا ہے۔جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے اُس کا شکریہ ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے‘‘ کس قدر متاثرکُن ہیں۔ عارف الحق عارف کے مضمون: ’تقریب ِ ولیمہ‘ سے یہ سبق ملتا ہے کہ بامقصد لوگ اپنے سفروحضر کو کس خوبی کے ساتھ گزارتے ہیں۔ تقریب ِ ولیمہ میں کی جانے والی تقریر ایمان افروز کاوش ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کا مضمون ’شراب اور پاکستان کے منتخب نمایندے‘، ایک غیرمسلم بھائی کی حق گوئی کا ایک بیّن ثبوت ہے اور یہ الفاظ وجدآفریں ہیں کہ: ’’مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کو حرام  قرار دینے کا اعلان فرمایا تو اس موقعے پر بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہم غیرمسلموں کوبطور تحفہ کیوں نہ دے دیں مگر آپؐ نے تحفہ دینے سے بھی منع کر دیا۔ اور یوں شراب مدینہ کی گلیوں میں بہا دی گئی۔ ہم غیرمسلم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے نام پر شراب نوشی بند کی جائےلیکن مسلمان وزیر کہہ رہا ہے کہ ’’جس کو شراب پینی ہے وہ پیے‘‘۔شراب نوشی کو اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب سے نتھی کرنا توہینِ مذہب کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔ یہ الفاظ مسلمان وزراکے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ ’محمد بن قاسم: غیرمسلم سندھی رعایا سے برتائو‘مضمون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کشمیر پر دو تحریریں: ’گفتگو دنیا سے‘، ’قرآن کریم اور روحانیت‘ نہایت اہم مضامین ہیں۔ 


پروفیسر ظفر حجازی ،لاہور

جنوری کا شمارہ اپنی علمی ثقاہت کے لحاظ سے لائقِ تحسین ہے۔’اشارات‘ میں بجاطور پر سیّد مودودی کی فکری اساس قرآنِ مجید بیان کی گئی ہے، جو قارئین کے لیے قابلِ توجہ بھی ہے اور عمل کے لیے ایک دعوت بھی۔ ’قرآن اور روحانیت‘ البتہ پھیکا اور اسلوبِ بیان میں ابہام لیے ہوئے ہے۔


غلام قادر پرہاڑ ، محمودکوٹ، مظفرگڑھ

تقریب ِ ولیمہ کا واقعہ نہایت قابلِ ستایش اور واقعی قابلِ عمل اور ہرمعاشرت میں قابلِ تقلید ہے۔ اور جناب شعیب لاری کا اندازِ دعوتِ دین بھی۔’سنکیانگ‘ پر مطالعہ کتاب دینا ایک دینی خدمت ہے۔


حمیداللہ  خٹک ، لاہور

جنوری ۲۰۱۹ء میں ’قرآن اور روحانیت ‘ اچھی تذکیر ہے۔ ’اخباراُمت‘ کے تحت تین میں سے دومضامین کشمیر اور ایک بھارت پر دے کر عدم توازن پیدا کیا گیا ہے۔ ’عالمی اُفق پر منڈلاتا معاشی بحران‘ مطالعہ کتاب کے ذیل میں ’سنکیانگ نامہ‘ فکرانگیز ، معلوماتی اور وقت کی ضرورت ہیں۔ ’قرآن، اقامت دین اور  مولانا مودودی‘ کے عنوان سے ’اشارات‘ میں سیکھنے کو بہت کچھ رہنمائی ہے۔ تاہم، ملکی اور بین الاقوامی صورتِ حال پر سیرحاصل تبصرے مفقود ہیں۔ ’گفتگو ، دنیا سے‘ میٹرک کی سطح کے طلبہ کے لیے مناسب تحریر ہے۔


راجا محمد عاصم ، موہری شریف، کھاریاں

ڈاکٹر جاسم محمد مطوع نے ’گفتگو، دنیا سے‘ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں انسان کا دنیا سے تعلق واضح کرکے آخرت کی تیاری کا راستہ دکھایا ہے۔نیز عارف الحق عارف نے ’ایک یادگار تقریب ِ ولیمہ‘میں اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا بہترین طریقہ سمجھایا ہے۔


ڈاکٹر عبدالرزاق ، کالا گوجراں ،جہلم

نومبر ۲۰۱۸ء ،اشارات، ص ۷ کے الفاظ:’ ’لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے موضوع و مقصد کو عوام اورووٹروں کے لیے باعث ِ کشش نہیں بناسکے‘‘ہرکارکن اور ہرسطح کے لیڈر کے لیے قابلِ توجہ ہیں۔ ’۶۰سال پہلے‘ کے ایک صفحے سے ارکان جماعت کو رہنمائی ملتی ہے۔ تمام مضامین بہت اہم، ایمان افروز اوراُمت مسلمہ کے حالات سے باخبر رہنے کا ذریعہ ہیں۔ 

دراصل اسلام رسموں اور تہواروں کا مذہب ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایک سیدھا اور معقول مذہب ہے، جو انسان کو رسموں کی جکڑبندیوں سے، کھیل تماشے کی بے فائدہ مشغولیتوں سے، اور فضول کاموں میں وقت، محنت اور دولت کی بربادیوں سے بچاکر، زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اُن کاموں میں آدمی کو مشغول کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور آخرت کی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہوں۔
ایسے مذہب کی فطرت سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتش بازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کردے اور آدمی سے کہے کہ تو مستقل طور پر ہرسال اپنی زندگی کے چند قیمتی گھنٹے اور اپنی محنت سے کمائے ہوئے بہت سے روپے ضائع کرتا رہا کر۔ اور اس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ  وہ کسی ایسی رسم کا انسان کو پابند بنائے جو صرف وقت اور روپیہ ہی برباد نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات جانوں کو بھی ضائع کرتی ہے اور گھر تک پھونک ڈالتی ہے۔
اس قسم کی فضولیات کا حکم دینا تو درکنار، اگر ایسی کوئی رسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہوتی تو یقینا اس کو حکماً روک دیا جاتا، اور جو ایسی رسمیں اس زمانے میں موجود تھیں اُن کو روکا ہی گیا۔
ابتدائی زمانے میں جو لوگ شریعت محمدی کی روح کو سمجھتے تھے انھوں نے نئی رسمیں ایجاد کرنے سے انتہائی پرہیز کیا، اور جو چیز لازمی رسم بنتی نظر آئی اس کی فوراً جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک چیز جس کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کر ابتدا میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے، وہ رفتہ رفتہ کس طرح سنت، پھر واجب، پھر فرض، اور آخرکار فرضوں سے بھی زیادہ اہم بنتی چلی جاتی ہے اور جہالت کی بنا پر لوگ اس نیکی کے ساتھ کس طرح بہت سی بُرائیاں ملا جلا کر ایک قبیح رسم بنا ڈالتے ہیں۔ اس لیے ابتدائی دور کے علما اور امام اس بات کی سخت احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ شریعت میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہ ہونے پائے۔ ان کا یہ مستقل عقیدہ تھا کہ جو چیز شریعت میں نہیں ہے اسے شرعی حیثیت دینا، یا جس چیز کی شریعت میں جو حیثیت ہے اس سے زیادہ اہمیت اس کو دینا بدعت ہے، اور ہربدعت گمراہی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ بعد کی صدیوں میں اس طرف سے انتہائی غفلت برتی گئی اور بتدریج مسلمان بھی اپنی خودساختہ رسموں کے جال میں اسی طرح پھنستے چلے گئے، جس طرح دنیا کی دوسری قومیں پھنسی ہوئی تھیں۔ (’شب ِ برات‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۵، فروری ۱۹۵۹ء، ص۱۷، ۲۰)