نظریاتی تحریکات کو اکثر ایسے مواقع پیش آتے ہیں، جب دعوتی میدان میں یا بعض اوقات سیاسی محاذ پر متوقع کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور تحریک کے ہمدرد اور بہی خواہ ہی نہیں خود اس کے کارکن اور ذمہ دار افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کمی کمزوری کہاں ہے؟___ ہماری اپنی دعوت میں، ہمارے طریقِ دعوت میں ،ہماری شہرت اور عوامی تصویر میں ،عوام الناس کی عقل و فہم اور تعلیم میں، یا ہمارے اسلوب دعوت اور عوامی ذہن و مسائل کے صیحح طور پر سمجھنے میں۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ انسان اپنی کامیابی کے نتیجے میں، اپنی قوت پر نازاں ہوتا ہے اور ناکامی سے اعصابی تناؤ اورمایوسی کا شکار ہوتا ہے۔تاہم، ایسے مواقع پر خود احتسابی اور رُک کر اپنا جائزہ لینا عملِ خیر ہے، جو مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
پاکستان میں تحریک ِ اسلامی کی تاریخ کے دوران کئی بار ایسے مواقع آئے، جب اس نے رُک کر یہ غور کیا کہ: کیا وہ اپنے مقصد اور نصب العین پر قائم ہے یا کہیں انحراف کے کچھ پہلو رُونما تو نہیں ہورہے ہیں؟ پھر یہ سوال بھی زیربحث آیا کہ: کیا اس کا طریق کار درست خطوط پر جاری و ساری ہے یا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جماعت اسلامی کو اس کے قیام کے تقریباً ۱۶سال بعد اس نوعیت کا ایک مرحلہ پیش آیا۔ چنانچہ ۱۹۵۷ء میں اس کے بعض ذمہ دار ارکان نے یہ محسوس کیا کہ: ملکی سیاست میں براہِ راست حصہ لینے سے شاید جماعت اپنے ہدف سے ہٹ گئی ہے۔اس صورت حال پر داعیِ جماعت اسلامی نے کُل پاکستان اجتماعِ ارکان میں تمام شرکا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا، اور جو ارکان اس راے سے اختلاف رکھتے تھے، انھیں بھی اپنی پوری بات تفصیل سے بیان کرنے کا پورا موقع دیا۔ اس طرح غور و فکر اور تبادلۂ خیالات کے بعد استصواب راے ہوا تو داعیِ تحریک کی پیش کردہ قرارداد کے حق میں ۹۲۰؍ ارکان نے اور اس سے اختلاف کرتے ہوئے ۱۵؍ ارکان نے راے دی۔
جولائی ۲۰۱۸ء میں قومی انتخابات کے نتائج پر تحریکی قیادت نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے کارکنوں اور ہم خیال افراد سے اجتماعی ملاقاتیں کیں۔ مختلف مقامات پر اجتماعات میں سوال و جواب کی نشستوں کا اہتمام کیا، تو اس دوران میں یہ سوال کسی نہ کسی شکل میں سامنے آیا کہ: ’’ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا حصہ نہیں لینا چاہیے؟‘‘ مولانا مودودی نے سیاست اور غیرسیاست کا جواب ۹؍اپریل ۱۹۴۵ء کو اس طرح دیا تھا:
ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو یہ بات کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتِ الٰہیہ سے مراد محض ایک سیا سی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو، پھر چوں کہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لا محالہ وہی مسلمان ہوں گے، جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں۔ اس لیے خود بہ خود اس تصور میں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دین دارانہ وعظ شروع ہو تا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’تمھارے پیش نظر محض دنیا ہے ، حالاںکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہیے‘‘___ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے، تو بہ آسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی___ انفرادی اور اجتماعی___ میں وہ ہمہ گیر انقلاب رُونما ہو جو اسلام رُونما کرنا چاہتا ہے۔
اگر ہم اپنی دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات پر مشتمل ہوگی:
اسی بات کو ۱۹۵۷ء کے خصوصی اجتماعِ ارکان میں مولانا مودودی نے اپنی مفصل تقریر میں بیان فرمایا، اور بتایا کہ: جماعت اسلامی کی دعوت کے چار نکات: (۱) تطہیر افکار و تعمیر افکار (۲)صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت (۳)اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کی سعی، اور (۴)نظام حکومت کی اصلاح کے لیے جمہوری ذرائع سے منظم کوشش___ یہ نکات کسی وقتی ضرورت کی بنا پر وجود میں نہیں آئے، بلکہ قرآن و سنت رسول ؐاور خلفاے راشدینؓ کے اسوہ کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد متعین کیے گئے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل حالات میں چوتھے مقصد کے لیے نکلنے کا موقع نہ تھا، لیکن قیامِ پاکستان اور ’قراردادِ مقاصد‘ کے منظور ہونے کے بعد جب یہ موقع ملا، تو بھرپور انداز میں دینی اور ملکی ترجیحات کی روشنی میں بروے کار لایا گیا۔
ایک نظریاتی، اصلاحی اور دعوتی جماعت جو ان چار بنیادی اجزا کو بنیادی اہمیت دیتی ہو، یعنی: تطہیر افکار اورتعمیرافکار، تعمیر سیرت وکر دار ، تنظیم افراد اور تبدیلی امامت___ اسے محض ایک سیاسی جماعت نہیں کہا جاسکتا، نہ اسے محض ایک دعوتی جماعت کہا جا سکتا ہے۔ اس کی ساخت اُن تمام سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوتی ہے، جن کے بنیادی مقاصد، اہداف میں تعمیر کردار اور تعمیر افکار کو مرکزیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہاں پر جہاں مرکزیت شخصی اور گروہی مفادات کو حاصل ہوتی ہے ، نیز سیاسی جماعت کے قائد سے غیر مشروط وفاداری ہی کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد ہوتی ہے، اور ان سب کا مفاد صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔
ایک اصلاحی دعوتی جماعت کی منزلِ مقصود محض سیاسی اقتدار نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے اصل مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ جن مقامات پر قیادت کا حصول حالات کی بنا پر ممکن نظر نہ آتا ہو، وہاں بھی اقامت دین کے یہ چار عناصر اس کا تشخص برقرار رکھتے ہیں ، البتہ چوتھے عنصر کے لیے کوشش کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تبدیلیِ قیادت کی عملی جدوجہد پروان چڑھ سکے۔اور جب اور جس حد تک حالات اس کی اجازت دیں، اس میدان میں سرگرم ہوا جاتا ہے۔ ان چاروں اجزا پر مناسب تناسب کے ساتھ بیک وقت عمل کی کوشش کی جاتی ہے، البتہ اس راہ میں توازن کا اہتمام ضروری ہے اور اگر توازن برقرار نہ رہے تو ترقی کا عمل متا ثر ہوتا ہے۔
یہ چار عناصر نہ تو زمانے کی پیداوار ہیں، اور نہ کسی ایک فرد کے ذہن کی تخلیق ہیں بلکہ جو متلاشیِ حق خلوصِ نیت کے ساتھ قرآن سے ہدایت طلب کرے گا اور سیرت پاکؐ پر غور کرے گا، وہ انھی چار عناصر تک پہنچے گا۔ یہی وجہ تھی کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم اور حسن البنا شہید، جو کبھی زندگی میں نہ ملے اور نہ خط کتابت کی اور نہ ایک دوسرے کی تحریروں کا مطالعہ کیا، لیکن دونوں نے انھی چار عناصر کو اپنی تحریکات کا ستون قرار دیا۔
انسانی ذہن جب بھی دعوت اسلامی کی کامیابی یا ناکامی کو، عددی پیمانے یا سیاسی کامیابی سے وابستہ کر دیتا ہے تو پھر اس کا اعتماد اپنی دعوت کے حق ہونے اور طریق کار کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہونے میں بھی متزلزل ہوناشروع ہوجاتا ہے۔ بلاشبہہ اگر تحریک اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہوتی تو نعروں کے بدلنے سے نتائج پر فرق پڑ سکتا تھا، لیکن جب تک وہ ایک ہمہ گیر دعوتی و اصلاحی جماعت ہے، اسے ایسی کسی نئی شناخت (Branding)کی ضرورت نہیں۔البتہ ، اسے انتہائی بے لاگ اور ناقدانہ خود احتسابی کی ہمیشہ ضرورت رہے گی اور اسی میں اس کے لیے خیر ہوگی۔
بلاشبہہ برقی ابلاغ عامہ آج عوام کی راے سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پھر ایک واضح ثقافتی یلغار: این جی اوز کے تعلیمی منصوبوں اور ابلاغ عامہ کے اشتہارات، ڈراموں اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے بے راہ روی، فکری انتشار، مذہب سے دُوری، حتیٰ کہ دہریت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور آزادیِ اظہار کے نام پر یہ سارا کام بغیر کسی روک ٹوک کے کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس اثر انگیزی اور کثرتِ استعمال کی بنا پر بعض تحریکی ہمدرد بھی یہ سوچنے لگے ہیں کہ اگر اپنے فکری مخالفین کا دوبدو مقابلہ نہیں کیا جاتا تو سوشل میڈیا پر مخالفین ہی کا بیانیہ چھایا رہے گا۔
یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے کہ موعظۂ حسنہ محض تلقین اور تحریر تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آج برقی ابلاغ عامہ کی سہولت ہم اپنا لیں گے تو ہماری بات لاکھوں افراد تک پہنچ جائے گی۔ یہ تمنا لازماًقابل احترام ہے، لیکن اس کے باوجود تجربہ بتاتا ہے کہ ذاتی ربط اور براہِ راست (face to face) تبادلۂ خیال کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ کیا دعوت کا مطلب بہت سے لوگوں تک تحریک یا لیڈر کے نام کا پہنچنا ہے یا دعوت کا مطلب تربیتِ اخلاق اور تعمیر سیرت و کردار کا نام ہے، اورکیا یہ نصب العین صرف سوشل میڈیا سے حاصل ہو سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کا تیز رفتاری سے لاکھوں افراد تک پیغام پہنچانا اپنی جگہ اہم سہی، لیکن کیا اس کے ذریعے نفس مضمون کی وضاحت اور وہ تشریح ہو سکتی ہے جوفرد اور فرد کے براہِ راست رابطے میں پائی جاتی ہے؟
دعوت ایک ایسا ہمہ پہلو عمل ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چیز ایک فرد سے ذاتی رابطے کا بدل نہیں ہوسکتی۔ ذاتی رابطہ ہی انسان کو دوسرے انسان کی فکر اور سیرت سے متاثر کرتا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ ایک فرد کی قوت فہم، تجزیہ و تحقیق کے بجاے جلد نتائج کی عادت کو پروان چڑھاتے ہیں اور فرد میں توجہ دینے کا پیمانہ انتہائی مختصر ہو جاتا ہے ۔
موجودہ ماحول میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ توجہ کے ساتھ کتب بینی کے رواج کو زندہ کیا جائے، سفری لائبریری اور مطالعہ گھر قائم کیے جائیں اور تحریکی لٹریچر کو جدید ابلاغی آلات کے ذریعے بھی سمجھایا جائے۔ مثال کے طور پر ممکن ہو تو کسی کتاب کے ایک باب یا ۲۰،۲۵صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد مطالعے کی بنیاد کو سامنے رکھ کر پانچ سے سات منٹ کا پاورپوائنٹ حاصلِ مطالعہ تیار کیا جائے۔ اگر اجتماعی مطالعے کی صورت ہے تو سامعین کو سوالات کی دعوت دی جائےاور پھر ان سوالوں کے جوابات اجتماعی طور پر تلاش کیے جائیں۔
بعض جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ: ’’دعوت اور تنظیم کو مقبول بنانے کے لیے دعوتی اور سیاسی کاموں کو دو الگ الگ شعبوں میں بانٹ دیا جائے۔ایک شعبہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار میں مصروف ہو اور دوسرا شعبہ سیاسی مہم جوئی کے لیے وہ تمام حربے استعمال کرے جو سیاسی جماعتیں استعمال کرتی ہیں، تاکہ تبدیلیِ قیادت میں کامیابی جلد ازجلد حاصل کی جاسکے‘‘۔
ایسی تحریک کہ جو دین کے جامع تصور کی علَم بردار ہو،اسے دوسری سیاسی جماعتوں پر قیاس کرنا ہی بنیادی غلطی ہوگی۔دین کے جامع تصور کے بجاے دین و سیاست کی علیحدگی اختیار کرنا نہ صرف تحریک کی شناخت تبدیل کرنا ہوگا بلکہ اس کی بنیادی فکر سے بھی انحراف ہو گا۔البتہ، فرق اگر پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ دین کے ہمہ گیر تصور کے ساتھ عصری مسائل پر دلائل و نصوص پر مبنی موقف کو پیش کیا جائے، تا کہ عوام کو دوسری سیاسی جماعتوں کے موقف اور تحریک کے موقف میں واضح فرق نظر آئے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت عام کرنا ایک مثبت تجویز ہے، لیکن دعوتِ اسلام میں ذاتی کردار اور شخصیت کا عنصر سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسی لیے انبیا ؑ کو مجسمِ دعوت بنا کر بھیجا گیا کہ ان کا ہر عمل وہ مسکراہٹ ہو یا غصے پر قابو پانا، وہ اہل خانہ کے ساتھ نرمی و احترام ہو یا شرک اور کفر کے خلاف پوری قوت سے جہاد کرنا، وہ تجارتی معاملات میں ایمان داری اور شفافیت ہو یا عہد کی پابندی نبھانا، غرض شخصیت کا اعلیٰ معیار لوگوں کے سامنے موجود ہو۔ ان انبیاکرام ؑ کے پیروکاروں کو اسی طرح لوگوں کے سامنے دعوت کا نمونہ بننا ہے۔ یہ مقصد، برقی پیغام رسانی سے چاہے وہ کتنے دل فریب چارٹوں پر مشتمل کیوں نہ ہو کماحقہ‘ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اس وقت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی اکثر معلومات کا غیرمصدقہ ہونا واضح ہے۔ ان خامیوں کے باوجود اس کا محدود استعمال تو ہونا ہی چاہیے، لیکن یہ استعمال کسی بھی نظریاتی اور اصلاحی جماعت کو لٹریچر سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔ کتاب اور معلمِ کتاب دو ایسے قرآنی اصول ہیں، جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد دعوت اسلامی کے بنیادی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور جن کا تذکرہ قرآن کریم کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ تذکیر بالقرآن اور تذکیر بالسیرۃ النبیؐ کا اسوہ اور الکتاب کی تعلیم ہی دین ہے۔ یہی دین کی عالم گیر دعوت اور دین کی مکمل شکل ہے۔
نئی رُوپ کاری (re-branding ) ان اداروں کے لیے ضروری ہوتی ہے، جن کا وجود منڈی کی معیشت کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ عملاً خریدار یا صارف کو اپنا ’والی وارث‘ قرار دیتے ہوئے، وہی رنگ ڈھنگ اختیار کرتے ہیں، جو ان کے مَن کو بھاتا ہو۔ تاجر اور صنعت کار کے لیے صارف کی خواہش اور طلب ہی اصل ’حق‘ ہوتا ہے۔ اسی لیے بنک ہوں یا دواساز ادارے، کپڑے فروخت کرنے والے ہوں یا سامانِ آرایش بنانے والے، وہ اپنا تجارتی نشان (برانڈ) اور تعارفی نعرے ایسے رنگوں کے انتخاب سے پیش کرتے ہیں جو جاذبِ نگاہ ہو۔
جب کہ، دعوتِ قرآن و سنت ابدی اصولوںکی صورت میں ہمارے پاس اپنی مکمل ترین شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اس میں کوئی تعلیم نہ پرانی ہوئی ہے نہ اس کی حقانیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی کشش اور اثر آج بھی ایک طالبِ حق کے لیے ویسا ہی ہے، جیسا دورِ رسالتؐ میں مکّہ اور مدینہ کے ماحول میں تھا۔
کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اس دعوت کو کس موقعے پر ، کس طرح ، کن الفاظ میں اور کس فرد کےسامنے رکھا جائے۔ اگر موعظہ(communication ) ہو تو وہ احسن ہو ، اور اگر جدال (Dialogue ) ہو تو وہ بھی احسن ہو ۔ اگر حکمت کا استعمال ہو تو وہ بھی اعلیٰ ترین ہو۔ بات لازماً کھری اور دل نشین ہو، کھردری نہ ہو۔ بات کرنے والا تھانے دار بن کر بات نہ کرے ، نہ اس کے اظہارِ بیان اور طرزِعمل اور طرزِمعاشرت سے برتری کا اظہار ہو۔ وہ ہرلمحے شگفتہچہرے کے ساتھ (جو اسوہ نبویؐ ہے )مختصر اور ہمدردانہ (الدین النصیحہ) بات کرے۔ دعوت اور طریق دعوت کو دل سوزی سے پیش کرنے کے باوجود اگر کوئی بات نہ مانے تو اسے چھوڑ کراس سے کٹ نہ جائے، یعنی مایوسی کا شکار ہونے کے بجاے مسلسل اپنا کام جاری رکھے، حتیٰ کہ ربِّ کریم خود ان افراد کے دلوں کو حق کے لیے کھول دے۔ایسے موقعے پر بھی اپنی بندگی اور حلم اور خاکساری کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ رب العالمین سے استغفار طلب کرتا رہے اور اسے اپنا کارنامہ یاقیادت کا کرشمہ، حکمت عملی کی برتری ، اپنے منصوبے کی کامیابی نہ سمجھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سمجھے۔
دعوت و فکر میں کامیابی کا پیمانہ ووٹ نہیں ہے بلکہ اپنی جانب سے مکمل کوششیں کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مسلسل استعانت کی طلب اور ہمہ وقت امید پر قائم رہنا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اقتدار مل جاتا ہے، جب بھی اسے کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس راہ میں اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے ، سیاسی نتائج کامیابی کا حتمی معیار نہیں ہیں۔ کارکردگی کے معیارات للہیت ، تعلق باللہ ، بندگیِ رب، احتسابِ نفس، عدل و انصاف کا قیام اور اپنے دائرۂ اختیار میں بے راہ روی کو دُور کرنا ہے۔ معروف کا قائم کرنا، اور منکر کا کم سے کم ہو جانا ہے۔ یہاں بھی یہ شرط نہیں ہے کہ ۱۰۰فی صد افراد اہل حق بن جائیں ، حتیٰ کہ ریاست ِمدینہ جیسے معاشرتی عدل کے باوجود منافقین اور فاسقین کی ایک تعداد موجود رہی۔ اس لیے کامیابی کا پیمانہ محض افراد کی گنتی یا انتخابات میں ووٹ کی تعداد نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی مسلسل کوشش اور جدوجہد کا صحیح معنوں میں ایثار و قربانی ، درست سمت اور مستقل مزاجی پر مبنی ہونا ہے۔
جن اُمور پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان میں اوّلین چیز خود اس لٹریچر کا مطالعہ ہے، جو اس تحریک کو شروع کرتے وقت لکھا گیا تھا۔ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ انقلابی اور اصولی تحریریں وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کا قصہ بن جاتی ہیں۔ اگر آج بھی کوئی طالب علم یہ خواہش رکھے کہ وہ فقہ اسلامی میں کوئی نئی راہ نکالے تو اسے سب سے پہلے مقاصد ِ شریعت اور فقہ کے ان اصولوں کو سمجھنا ہوگا کہ جن کی بنیاد خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے رکھی، اور جن کی روشنی میں تمام عظیم المرتبت فقہا، مجدّدین اور صلحاے اُمت نے ہر دورمیں فکری اور عملی رہنمائی کی۔ اس سلسلے میں امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام ابن حنبل، امام شافعی، امام غزالی، امام ابن تیمیہ، امام شاہ ولی اللہ وغیرہ کے قرآن و سنت پر مبنی روشن کردہ چراغ آج بھی مینارئہ نور ہیں۔
ایسے ہی تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں کیا ہیں ، اس کا مقصدِ تاسیس کیا ہے، اس کا طریق کار کیا ہونا چاہیے؟ یہ سب موضوعات سنجیدہ مطالعے اور غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں، جن سے کوئی لیڈر اور کارکن بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل اس لحاظ سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے، جو طے کرتی ہے کہ کس طرح ایک دعوتی و اصلاحی تحریک صبر و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ اپنا سفر رواں دواں رکھتی ہے اور اس کا یہ سفرکس طرح ان چار اجزا کے متناسب طور پر اختیار کرنے سے طے ہوسکتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا جماعت کی دعوت میں کوئی اضافہ نہ تھا اور نہ تحریف۔ یہ خیال ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے تو جماعت اسلامی ایک دعوتی جماعت تھی، اسی لیے متعدد صاحبانِ علم اس میں شامل ہو گئے تھے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب جماعت نے اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا تو وہ سیاسی جماعت بن گئی، تو اس لیے وہ احباب اس سے الگ ہو گئے۔ یہ درست بات نہیںہے۔ جماعت پہلے ہی دن سے اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک اقامت دین ہرمسلمان اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کا مقصد ِ زندگی اور مقصد ِ وجود ہے اور یہی اس کی امتیازی شان ہے۔
ان معروضات کا دوسرا پہلو بہت زیادہ غور طلب ہے کہ کیا دعوت کے چار اجزا پر گذشتہ عشروں میں واقعی صحیح تناسب کے ساتھ کام کیا جاتا رہا ہے، یا سب سے زیادہ سرگرمیاں چوتھے جز پر مرتکز رہیں اور تطہیر افکار اور تعمیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار کے باب میں کمی آگئی؟کیا اس ربع صدی میں جماعت کے پاس ایک مناسب تعداد ایسے افراد کی پیدا ہوئی ہے، جو اس فکری کام کو اعلیٰ سطح پر آگے بڑھا سکے ہوں؟
کیا ساٹھ اور ستّر کے عشرے کے بعد ایسے کارکن پیدا ہو سکے جو چودھری غلام محمد، نعیم صدیقی، چودھری رحمت الٰہی، پروفیسر عبدالحمید صدیقی ، سیّد سیاح الدین کاکاخیل، مولانا معین الدین، ڈاکٹر نذیر احمد شہید ،مولانا جان محمد بھٹو، مولانا گوہر رحمان، مولانا عبدالعزیز، چودھری غلام جیلانی، ڈاکٹرسیّداسعد گیلانی ، پروفیسر غلام اعظم، قاضی حسین احمد، خرم مراد وغیرہ کے خلا کو پُر کر سکتے ہوں؟ کیا جماعت سے وابستہ افراد کی معتدبہ تعداد اپنے مالی اور معاشرتی معاملات میں وہ رویہ اختیار کرسکی، جو تحریک کی پہلی اور دوسری نسل کے افراد نے برقرار رکھا تھا؟
اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت میں خرابیاں در آئی ہیں، تاہم اس جانب متوجہ کرنا مطلوب ہے کہ بڑے اجتماعات کی حاضری سے دعوتی نفوذ کو جانچنا درست پیمانہ نہیں ہے۔تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ سیرت و کردار کے حامل وہ افراد ہیں جو چاہے تعداد میں بہت کم ہوں لیکن عبادات اور سماجی زندگی کے معاملات میں سب سے افضل ہوں۔ ان میں بے لوثی، تعلق باللہ اور علمی صلاحیت سب سے زیادہ ہو۔ وہ نہ صرف قرآن و سنت اور سیرت بلکہ عالمی سیاست، معیشت اور جدید رجحانات سے براہِ راست واقف ہوں یا واقفیت حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں اور ایک تعداد تو اجتہادی صلاحیت رکھتی ہو۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم ماضی قریب میں ایسے افراد پیدا کر سکے جو بیسیوں افراد پر علمی اورانتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے غالب آسکتے ہوں؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو اصل مسئلہ لیبل، نعرے اور برانڈنگ کا نہیں ہے بلکہ ان چار اجزا پر خود احتسابی کا ہے، اور اس کے نتیجے میں مؤثر منصوبہ بندی اور مردانِ کار کی تیاری کا ہے۔
تحریک کے چوتھے جز کا حصول اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اوّلین تین اجزا کو مطلوبہ حد تک حاصل کریں۔ تحریک سے وابستگی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریک کی دعوت کو جسم و روح کا جزو بنائے بغیر یہ خواہش کرنا کہ دعوت کا استقبال ہر طرف سے ہو، ایک خام خیالی ہے۔یہ سفر لمبا اور صبر آزما ضرور ہے ،لیکن جب تک اس طویل مرحلے سے نہ گزرا جائے، کامیابی عملی شکل اختیارنہیں کرسکتی۔
کوئی بھی فکری اور نظریاتی تحریک اسی وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کے تربیت یافتہ افراد ، تعمیر افکار اور تربیت اور مقصد سے والہانہ لگن کو اوّلیت دیتے ہیں۔ سیاسی موضوعات پر ایک عظیم تعداد میں جلسہ کر لینا، نہ دعوت کی مقبولیت کی علامت ہے نہ قیادت یا نعرے کی اثر انگیزی کا ثبوت۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ فکر نہ صرف ہم خیال کے دل و دماغ کو متاثر کرے بلکہ جو ابھی تک مخالفت کر رہا ہے، اسے غوروفکر کرنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح آج اصل چیلنج یہ نہیں ہے کہ کسی معجزاتی انداز میں اپنی دعوت بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچادی جائے۔ آج اصل چیلنج تعمیرِ افکار کا ہے۔ مستشرقین اسلام کی نئی نئی تعبیرات گھڑتے اور خود اسلام کو تاریخ کا ایک دور قراردیتے ہوئے، Post Islamism جیسی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ غیر مسلم ہی نہیں خود مسلمان دانش وَر بھی مغربی تقلید میں اس اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں۔اس چیلنج کو سمجھنا تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے۔
یہ کام ایسے افراد تیار کرنے سے ممکن ہے کہ جو اسلام کے منشا کو مکمل طور پر سمجھنے اور جذب کرنے کے بعد تحریکی فکراور قرآنی پیغام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ مسئلہ افراد کی کثرت کا نہیں ہے بلکہ پیغام کی تاثیر کا ہے۔ آج کے معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور تعلیمی مسائل پر تحریک کے موقف کو قرآن و سنت کے نصوص اور جدید فکر کے تنقیدی جائزے کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ اس بنیادی کام کے بغیر لاکھوں افراد تک جدید برقی ذرائع سے محض اپنا نام پہنچانا تو ممکن ہے، لیکن اس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ یہ بات ایک کان سے سنی جائے اور دوسرے کان سے نکال دی جائے۔ دعوت کی اثر انگیزی اسی وقت ہو گی جب فرد کا فرد سے رابطہ ، تبادلۂ خیالات اور داعی کی شخصیت خود اپنے ہر عمل سے دعوت کا مرقع ہو۔ یہ کام آج بھی اسی طرح ہو سکتا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد تک ہوتا رہا، اور جس کے لیے بعض ادارے بھی قائم کیے گئے۔ گویا کہ مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر ترجیح محض سیاسی کامیابی ہو گی تو یہ کام کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ اگر ترجیح دعوت کے چاروں اجزاہوں گے تو یہ کام نہ صرف آسان ہو گا بلکہ اس کے نتائج جماعت کے سیاسی اثر(Impact)کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور جماعت کی اثر انگیزی وقتی طور پر نہیں بلکہ دیرپا اور طویل المیعاد سطح پر ہو سکے گی۔
انسان کی فطری صلاحیتوں کے اُبھرنے اور نشوونما پانے کے لیے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر عام طور پر ذہنوں پر مادی اور افادی پہلو کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ انسان کے لیے یہ حددرجہ مشکل ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو ان کی فطری پاکیزگی میں دیکھ سکے اور زندگی کی اہم قدروں اور بیش قیمت حقیقتوں کو سمجھ سکے۔ اس کش مکشِ زندگی میں روزہ ایک مقدس عبادت اور ہماری روحانی اور اخلاقی تربیت کے ایک بہترین ذریعے کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔روزے کا اصل مقصد طہارتِ روح اور تقویٰ ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ (البقرہ۲:۱۸۳) اے ایمان لانے والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
جب تک انسان میں ضبط ِ نفس نہ ہو، اس کے اندر تقویٰ کی کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی۔ خواہشات سے مغلوب انسان کو نہ خدا کی عظمت کا احساس ہوتا ہے اور نہ وہ زندگی کی اعلیٰ حقیقتوں اور ضرورتوں کو محسوس کرپاتا ہے۔ غالب حیوانگی اور نفسانی خواہشات اسے یہ موقع ہی نہیں دیتیں کہ وہ اپنی فطرت کے حقیقی تقاضوں کی طرف توجہ دے سکے؟روزہ اس بات کا عملی مظاہرہ پیش کرتا ہے کہ اکل و شرب اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے، جو ہماری توجہ کی طالب ہے۔ روزہ بندے کو اللہ کی طرف اور زندگی کی ان اعلیٰ حقیقتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے، جو انسانی زندگی کا اصل سرمایہ ہیں۔ وہ بندے کو اس اعلیٰ مقام پرپہنچاتا ہے، جہاں بندہ اپنے ربّ سے بے حد قریب ہوجاتا ہے، جہاں تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور نفسانی حجابات اُٹھ جاتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس قول میں بھی ایک سبق ہے کہ: کَمْ مِنْ مُّفْطِرٍ صَائِمٌ وَکَمْ مِّنْ صَائِمٍ مُّفْطِرٌ، ’’کتنے ہی لوگ روزے سے نہیں ہوتے اس کے باوجود کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صائم ہوتے ہیں، اور کتنے ہی لوگ روزہ رکھتے ہوئے بھی درحقیقت روزہ دار نہیں ہوتے‘‘۔ روزہ بظاہر اس چیز کا نام ہے کہ انسان سحر کے وقت سے لے کر سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اورجنسی خواہش کی تکمیل سے رُکا رہے۔ لیکن اپنی روح کے لحاظ سے روزہ جس چیز کا نام ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی خواہشات پر قابو ہو، اور اسے تقویٰ کی زندگی حاصل ہو۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان بظاہر تو روزے سے ہوتا ہے، لیکن حقیقت میںاس کا روزہ نہیں ہوتا، نہ اس کی نگاہیں عفیف ہوتی ہیں اور نہ اس کی زندگی پاکیزگی اور خداترسی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
روزے کے لیے قرآن کریم نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ’صوم‘ ہے۔ صوم کے لغوی معنی احتراز و اجتناب، اور خاموشی کے ہیں۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
’صوم‘ کے اصل معنی کسی کام سے رُک جانے کے ہیں، خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا بات چیت کرنے اور چلنے پھرنے سے ہو۔ اسی وجہ سے گھوڑا چلنے پھرنے یا چارہ کھانے سے رُک جائے تو اسے صائم کہتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے: خیل صام، اخری غیر صائمۃ (بعض گھوڑے نہیں کھا رہے تھے اور بعض چارہ کھا رہے تھے)۔ تھمی ہوئی ہوا اور دوپہر کے وقت کو بھی صوم کہتے ہیں، اس تصور کے ساتھ کہ اس وقت سورج وسط ِ آسمان میں رُک جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ درحقیقت کسی چیز سے رُک جانے کی کیفیت کا نام ’صوم‘ ہے۔ روزہ حقیقت میں اسی شخص کا ہے جو روزے کی حالت میں تو کھانے پینے سے باز رہے، لیکن پھر گناہوں کے ارتکاب اور ناپسندیدہ طرزِعمل کو ہمیشہ کے لیے ترک کردے۔
روزہ اپنے آپ کواللہ کے لیے ہرچیز سے فارغ کرلینے اور کامل طور پر اللہ ہی کی طرف متوجہ ہونے کا نام ہے۔ اس پہلو سے روزے کو اعتکاف سے بڑی مناسبت ہے۔ اسی لیے اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنا ضروری ہے، بلکہ قدیم شریعت میں تو روزے کی حالت میں بات چیت سے بھی احتراز کیا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآن میں آتا ہے کہ: حضرت مسیح ؑ کی پیدایش کے موقعے پر حضرت مریم ؑ بے حد پریشان ہوئیں اور انھوں نے یہاں تک کہا کہ کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور لوگ مجھے بالکل بھول جاتے۔ اس وقت انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا گیا تھا:
فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا۰ۙ فَقُوْلِيْٓ اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِـيًّا۲۶ۚ (مریم ۱۹:۲۶)پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو (اشارے سے) کہہ دینا: میں نے رحمٰن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے ، میں آج کسی آدمی سے نہ بولوں گی۔
روزے میں انسان کو فرشتوں سے بڑی حد تک مشابہت حاصل ہوتی ہے۔ فرشتے کھانے پینے کی ساری ضرورتوں سے مستغنی ہیں۔ ان کی غذا اللہ کی حمدوتسبیح ہے۔ روزے کی حالت میں مومن بندہ بھی خواہشاتِ نفس اور کھانے پینے سے کنارہ کش ہوکر اللہ کی بندگی اور عبادت میں مصروف نظر آتا ہے۔
روزہ رکھ کر بندہ اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پاتا ہے۔ اس شخص سے جو اپنے نفس کو زیر نہ کرسکے آپ اس بات کی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ حق کی حمایت اور باطل کے استیصال کے لیے جان توڑ کوشش کرسکتا ہے۔ جہاد کے لیے صبر اور عزیمت دونوں درکار ہیں۔ صبر اور عزیمت روزے کی خصوصیات میں سے ہیں ۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے مہینے کو ’صبر کا مہینہ‘ کہا ہے۔رمضان کے مہینے میں مسلسل صبر، ضبط اور اللہ کی اطاعت کی مشق کرائی جاتی ہے۔
عام حالات میں آدمی کو دوسروں کی تکلیف اور بھوک پیاس کا احساس نہیں ہوپاتا۔ روزے میں بھوک پیاس کا عملی تجربہ آدمی کے اندر فطری طور پر یہ احساس اُبھارتا ہے کہ وہ ناداروں اور ضرورت مندوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے اور انھیں ان کی پریشان حالی میں نہ چھوڑے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے کو ’مواسات کا مہینہ‘ یعنی ہمدردی و غم خواری کا مہینہ کہتے تھے اور اس مہینے میں آپؐ انتہا درجہ فیاض ہوتے تھے۔
روزہ سراپا عاجز ی و خاکساری کا اظہار بھی ہے۔ اسی لیے گناہوں اور غلطیوں کے کفّارے میں روزے کو بڑادخل ہے۔ چنانچہ شریعت میں کفّارے کے طور پر روزہ رکھنے کا حکم آتا ہے۔ روزہ نہ صرف یہ کہ گناہ کے اثرات کو دل سے مٹاتا ہے بلکہ دُعا کی قبولیت اور اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ قدیم صحیفوں میں بھی روزے کی اس خصوصیت کا ذکر ملتا ہے:
خداوند کا روز (ایام اللہ) عظیم اور خوف ناک ہے۔ کون اس کو برداشت کرسکتا ہے؟ لیکن خداوند فرماتا ہے: اب بھی پورے دل سے روزہ رکھ کر اور گریہ و زاری اور ماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع لائو اورکپڑوں کو نہیں بلکہ دلوں کو چاک کر کے اپنے خداوند کی طرف متوجہ ہو، کیوں کہ وہ رحیم اور مہربان، قہر میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے۔(یوایل ۲:۱۱-۱۳)
روزہ مقدس ترین عبادت ہے۔ روزہ اللہ پاک کی بڑائی اور عظمت کا مظہر اور اظہارِ تشکر کا ذریعہ ہے۔ روزے کے ذیل میں قرآنِ مجید میں جہاں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (تاکہ تقویٰ حاصل کرو) فرمایا گیا ہے، وہیں یہ بھی ارشاد ہوا:
وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۸۵ (البقرہ ۲:۱۸۵) اور تاکہ اس ہدایت پر جو تمھیں بخشی گئی ہے اللہ کی بڑائی کرو اور تاکہ تم (اس کا) شکر کرو۔
بنی نوع انسان پر یوں تو اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں، لیکن اس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں قرآن جیسی نعمت سے نوازا۔قرآن نے انسان کو ابدی زندگی کا راستہ دکھایا۔ انسان کو اخلاق کے اس بلند مرتبے سے آشنا کیا، جس کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ روزہ رکھ کر بندہ اللہ کی اس عظیم عطا اور بخشش پر خوشی اور شکرگزاری کا اظہار کرتا ہے کہ انسان اللہ کا بندہ اور اس کا پروردہ ہے۔ وہی اس کا آقا و معبود ہے۔ انسان کے لیے خوشی اور مسرت کا بہترین ذریعہ وہی ہے، جس سے اس تعلق اور رشتے کا اظہار ہوتا ہے جو رشتہ اور تعلق اس کا اپنے خدا سے ہے ع ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا؟
یہ اظہارِ تعلق فطری طور پر خدا کے احسانات کا اعتراف بھی ہوگا، جو شکر کی اصل بنیاد ہے۔ رمضان کا مہینہ خاص طور پر روزے کے لیے اس لیے منتخب فرمایا گیا کہ یہی وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل ہونا شروع ہوا۔ نزولِ قرآن کے مقاصد اور روزے میں بڑی مناسبت پائی جاتی ہے۔ قرآن جن مقاصد کے تحت نازل ہوا ہے، ان کے حصول میں روزہ معاون ثابت ہوتا ہے۔
رمضان میں ایک ساتھ مل کر روزہ رکھنے سے نیکی اور روحانیت کی فضا پیدا ہوتی ہے، جس کا دلوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ کم ہمت اور کمزور ارادے کے انسان کے لیے بھی نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ کامیاب وہی ہے، جس پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ اس کی ذمہ داری صرف روزے کے ظاہری آداب و شرائط کی نگہداشت تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ روزے کے اصل مقصد سے غافل نہ ہو۔ روزے کا اصل مقصد اور اس کی غرض و غایت صرف روزے کے زمانے تک مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق انسان کے پورے عرصۂ حیات سے ہے۔ قدیم صحیفوں میں بھی ایسے روزوں کو بے وقعت قرار دیا گیا ہے، جس کا تقویٰ، اخلاص اور اعلیٰ اخلاق سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ذیل کے فقرے کس قدر مؤثر ہیں:
تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمھاری آواز عالمِ بالا پر سنی جائے۔ کیا یہ وہ روزہ ہے جو مجھ کو پسند ہے؟ کیا وہ روزہ جو مَیں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اور جوئے کے بندھن کھولیں اور مظلوموں کو آزاد کریں، بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں۔ کیا یہ نہیں کہ تو اپنی روٹی بھوکوں کو کھلائے اور مسکینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے، اور جب کسی کو ننگا دیکھے تو اسے پہنائے اور تو اپنے ہم جلیس سے روپوشی نہ کرے؟… اور اگر تو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آزردہ دل کو آسودہ کرے، تو تیرا نُور تاریکی میں چمکے گا اور تیری تیرگی دوپہر کی مانند روشن ہوجائے گی۔ (یسعیاہ:۵۸)
اگر روزے سے واقعتاً فائدہ اُٹھایا جائے تو وہ فرد کو اس مقام پر کھڑا کردیتا ہے کہ اسے ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ اس کے شب و روز کبھی بے خوف اور بے پروائی کے ساتھ بسر نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ گناہوں سے اجتناب کرے گا، اور اپنے مقصد ِ زندگی کو پیش نظر رکھے گا۔
اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت والا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ۔ اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا ہونے کو نفل مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی نیک نفل کام اللہ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے کرے گا، تو وہ ایسا ہوگا جیسے اس مہینے کے سوا دوسرے مہینے میں کسی نے فرض ادا کیا ہو۔ اور جواس مہینے میں فرض ادا کرے گا، وہ ایسا ہوگا جیسے اس مہینے میں کسی نے ۷۰ فرض ادا کیے۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے اور یہ ہمدردی و غم خواری کا مہینہ ہے۔ اور وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس کسی نے اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا، تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور (جہنم کی) آگ سے آزادی کا سبب ہوگا، اور اسے اس روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔
آپؐ سے عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! ہم میں ہر ایک کو سامان میسر نہیں ہوتا کہ جس سے وہ روزہ دار کو افطار کراسکے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی یا کھجور پر یا پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کو افطار کرا دے اور کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے۔ اللہ اسے میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا کہ اس کو پیاس ہی نہیں لگے گی، یہاں تک کہ وہ جنّت میں داخل ہوجائے گا۔ یہ (رمضان) وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ (دوزخ کی) آگ سے آزادی ہے۔ اور جو شخص اس مہینے میں اپنے مملوک (غلام یا خادم) کے کام میں تخفیف کردے گا، اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا، اور اسے (دوزخ کی) آگ سے آزادی دے دے گا۔(بیہقی)
عظمت اور برکت والے مہینے سے مراد رمضان کا مبارک مہینہ ہے۔ رمضان کی فضیلت اور خصوصیت کے سلسلے میں کئی باتیں آپؐ نے ارشادفرمائیں۔ آپؐ نے شب قدر کے بارے میں فرمایا کہ ’’وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ قرآن اسی مبارک رات سے اُترنا شروع ہوا ہے۔ اس رات کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ وہ رات ہے جس میں ان باتوں کا فیصلہ ہوتا ہے، جو علم و حکمت پر مبنی ہوتی ہیں اور جن میں دنیا کی فلاح اور بھلائی ہوتی ہے۔ دنیا کے معاملات کا فیصلہ اسی رات میں ہوتا ہے۔ وہ رات جس میں قرآن اترنا شروع ہوا ہے، وہ کوئی معمولی رات نہیں ہوسکتی۔ یہ رات تو ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے۔ کبھی ہزار مہینوں میں بھی انسانوں کی فلاح کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس ایک رات میں ہوا۔ اس رات کو فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے اُترتے ہیں۔(دیکھیے: سورۃ القدر، سورۃ الدخان، ۳-۵)
رمضان میں دن کو روزہ رکھنا فرض ہے اور رات کو تراویح پڑھنا اور زیادہ سے زیادہ نماز میں خدا کے حضور کھڑا ہونا فرض تو نہیں ہے بلکہ یہ عمل اللہ کو بے حد پسند ہے۔رمضان کا مہینہ روزے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اس مہینے میں تمام مسلمان مل کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس طرح انفرادی عبادت ایک اجتماعی عبادت بن جاتی ہے۔ لوگوں کے الگ الگ روزہ رکھنے سے جو روحانی و اخلاقی فائدے ہوسکتے تھے، سب کے مل کر روزہ رکھنے سے وہ فائدے بے حد و حساب بڑھ جاتے ہیں۔ رمضان کا یہ مہینہ پوری فضا کو نیکی اور پرہیزگاری کی روح سے بھردیتا ہے۔ فرد کو روزہ رکھ کر گناہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ لوگوں میں نیکی کی رغبت بڑھ جاتی ہے اور ان کے دلوں میں یہ خواہش اُبھرتی ہے کہ وہ غریبوں اور محتاجوں کے کام آئیں اور نیک کاموں میں حصہ لیں۔ نیکیوں کی تاثیر اور برکت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے اللہ کے یہاں ان کے اجر میں بھی بے انتہا اضافہ ہوجاتا ہے۔
اس مہینے میں انسان بھوک پیاس کی تکلیف اُٹھا کر اپنی خواہشات پر قابو پانے اور اپنے کو خدائی احکام کا پابند بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے اندر ایسی صلاحیت اور قوت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے وہ اللہ کے راستے میں صبرواستقامت کے ساتھ آگے بڑھ سکے اور ان تکالیف و مصائب کا جو اسے راہِ حق میں پیش آئیں، پامردی کے ساتھ مقابلہ کرسکے۔
روزے میں اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے ہمدردی کا جذبہ شدت کے ساتھ پیدا ہونا چاہیے۔ بھوک پیاس میں مبتلا ہوکر آدمی اس بات کو اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے کہ مفلسی اور تنگ دستی میں آدمی پر کیا کچھ گزرتی ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں بے انتہا رحیم و شفیق ہوجاتے تھے۔ پھر کوئی سائل دروازے سے خالی نہیں جاتا تھا۔ ظاہری اور روحانی ہرطرح کی برکات اس مہینے میں حاصل ہوتی ہیں۔
یہ مہینہ نیکیوں کی بہار لے کر آتا ہے۔ اہلِ ایمان اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت اور بندگی میں لگ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں پر اللہ کی خاص رحمت اور عنایت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ رمضان کا ابتدائی حصہ گزرنے کے بعد اہلِ ایمان اور اللہ کے اطاعت گزار بندوں کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ اللہ ان کی پچھلی غلطیوں اور گناہوں سے درگزر فرمائے اور ان کی خطائوں کو معاف کردے۔ اس مہینے کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے اس مبارک مہینے سے فائدہ اُٹھانے والوں کی زندگیوں میں اتنی پاکیزگی آجاتی ہے اور اس درجے کا تقویٰ ان کے اندر پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نجات یافتہ قرار دیے جانے کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
ابنِ آدم کے ہرعمل کا ثواب ۱۰ گنا سے ۷۰۰سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ اس سے مستثنا ہے کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کا (جتنا چاہوں گا) بدلہ دوں گا۔ انسان اپنی شہوتِ نفس اور اپنا کھانا میری ہی خاطرچھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں: ایک مسرت افطار کے وقت اور دوسری اپنے ربّ کی ملاقات کے وقت۔ اور روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہتر ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے۔جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شوروشغب اور دنگا فساد کرے اور اگر اسے کوئی گالی دے یا اس سے لڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔(بخاری، مسلم)
اس حدیث میں کئی اہم اور بنیادی باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے نیک اعمال کا اجر ان کی نیتوں اور خلوص کے اعتبار سے ۱۰گنا سے ۷۰۰ گنا تک دیتا ہے، لیکن روزے کا معاملہ اس عام قانون سے مختلف ہے۔ روزہ خاص اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ دوسری عبادتیں اور نیکیاں کسی نہ کسی ظاہری صورت میں کی جاتی ہیں۔ اس لیے دوسرے لوگوں سے چھپانا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ لیکن روزہ ایسا خاموش اور غیرمرئی عمل ہے، جس کو روزہ دار اور اللہ کے سوا دوسرا کوئی نہیں جان سکتا۔ اس لیے اللہ اس کا اجر بھی بے حدوحساب عطا فرمائے گا۔ اس کے علاوہ رمضان میں نیکی اور تقویٰ کا عام ماحول میسر آجاتا ہے، جس میں خیر اور عمل صالح کے پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ انسان جتنی زیادہ نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اس مہینے میں عمل کرے گا اور جتنا زیادہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا، اور سال کے باقی گیارہ مہینوں میں رمضان کے اثرات کو باقی رکھے گا، اتنا ہی زیادہ اس کے نیک اعمال پھلتے پھولتے رہیں گے، جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہ خصوصیت عام حالات میں دیگر اعمال کو حاصل نہیں ہے۔
روزے دار کے لیے دو مسرتیں ہیں۔ ایک مسرت اور خوشی اسے دنیا ہی میں افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے۔ دن بھر بھوکا پیاس رہنے کے بعد جب وہ شام کو افطار کرتا ہے تو اسے جو لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے، وہ عام حالات میں کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کی بھوک پیاس بھی دُور ہوجاتی ہے اور اسے یہ روحانی خوشی بھی حاصل ہوتی ہے کہ اس کو اللہ کے حکم کی تعمیل کی توفیق ملی۔ روزِ محشر میں خدا سے ملاقات کی جو خوشی حاصل ہوگی اس کا تو کہنا ہی کیا۔
روزے کی حالت میں منہ کی بُو خراب ہوجاتی ہے لیکن اللہ کی نگاہ میں وہ مشک کی خوشبو سے کہیں زیادہ قابلِ قدر ہے۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے خدا کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا کی طلب کے سوا کوئی اور جذبہ کام نہیں کر رہا تھا۔ روزے کی حیثیت ڈھال کی ہوتی ہے۔ جس طرح ڈھال کے ذریعے آدمی دشمن کے وار سے اپنے کو بچاتا ہے اسی طرح روزہ شیطان اور نفس کے حملوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے۔ روزے کے آداب کا آدمی اگر لحاظ رکھے تو وہ روزے کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور آخرت میں آتشِ دوزخ سے نجات پاسکتا ہے۔
جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے اس کے سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور (اسی طرح) جو رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ (راتوں میں) کھڑا ہوگا، اس کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ اور (اسی طرح) جو شب قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کرے گا، اس کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔(بخاری، مسلم)
’ایمان‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور آخرت کا جو عقیدہ اسلام نے دیا ہے، وہ اس کے ذہن میں تازہ رہے اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا کا طالب ہو۔ ہروقت اپنے خیالات اور اعمال پر نظر رکھے کہ کہیں وہ اللہ کی رضا کے خلاف تو نہیں جا رہا ہے۔ اس کے اعمال و افکار کے پیچھے کوئی غلط قسم کا جذبہ ہرگز نہ ہو۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھنے سے اللہ اس کے پچھلے گناہوں کو بخش دے گا۔ اس لیے کہ وہ کبھی خدا کا نافرمان تھا بھی، تو اب وہ نافرمانی سے باز آگیا اور خدا کی طرف رجوع کرلیا۔
آخرت میں آسودگی اور چین و راحت تو اس شخص کے لیے ہے، جس کو آخرت کی فکر نے دنیا میں آسودہ ہونے کا موقع نہ دیا۔ غافل شخص اپنے دل کو تاریکی سے بچا نہیں سکتا۔ دل کی تاریکی سب سے بڑی محرومی ہے۔ روزہ آدمی کو اس بات کا سبق دیتا ہے کہ وہ شکم پروری کو حیات کا اصل مقصود نہ سمجھے، زندگی کی قدروقیمت اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: مَا مَلأَ آدَمِیٌّ وِعَآءً شَرًّا مِّنْ بَطْنِ بِحَسْبِ ابْنِ اٰدَمَ اُکُلَاتٌ یُقْصِمْنَ صُلْبَہٗ فَاَنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ طَعَامَ وَثُلْثٌ شَرَابٌ وَثُلْثٌ لِّنَفْسِہٖ (ترمذی، ابن ماجہ)’’آدمی نے کوئی برتن پیٹ سے بدتر نہیں بھرا (جب کہ پیٹ کو اس طرح بھرا جائے کہ آدمی محض چرنے چگنے والا جانور بن کر رہ جائے اور دین کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہی رہے)۔ آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں، جو اس کی کمر کو سیدھی رکھ سکیں اور اگر پیٹ بھرنا ضروری ہو تو پیٹ کے تین حصے کرے۔ ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ اپنے لیے (یعنی سانس وغیرہ لینے کے لیے)۔
گویا روزے میں بھوکا پیاسا رہنا بذاتِ خود مطلوب نہیں بلکہ روزے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کے اندر تقویٰ پیدا ہو، اور وہ خدا ترسی کی زندگی بسر کرسکے۔
مطلب یہ ہے کہ جب کسی نے روزے اور قیام کے اصل مقصد کو سمجھا ہی نہیں اور نہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کی تو پھر اس کی اُمید کیسے کی جاسکتی ہے کہ روزے اور قیام سے اسے کوئی فائدہ پہنچے گا۔
’تسبیح‘ سے مراد ہے سبحان اللہ کہنا۔ اللہ کی عظمت و برتری کا اظہار ایسا عمل ہے، جو نصف میزانِ عمل کو بھر دینے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ یہ اظہار سچے دل سے ہوا ہو۔ سچے دل سے اللہ کی عظمت کا اقرار آدمی کی زندگی کو بدل سکتا ہے، پھر اس کی میزان نیکیوں سے کیوں نہ بھرے گی؟
’الحمدللہ‘ یعنی اللہ کی حمدوستایش۔ جو زندگی اللہ کی تسبیح اور حمدوستایش سے عبارت ہو ، وہی زندگی ایسی زندگی ہے جسے کامل زندگی کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے تسبیح و تحمید کے سبب میزان عمل کا پُر ہوجانا فطری سی بات ہے۔
’تکبیر‘ سے مراد ہے ’اللہ اکبر‘کہنا۔ جن کو حقیقی سماعت حاصل ہے انھیں کائنات میں ہرطرف، زمین میں بھی اور خلائوں اور ستاروں میں بھی تکبیر ہی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ زمین و آسمان کا ہر ذرّہ اللہ کی کبریائی اور بڑائی کی داستان سنا رہا ہے۔ جب کوئی اللہ کی بڑائی کا ترانہ گاتا ہے تو زمین و آسمان کا ہر ذرّہ اس کی ’سنگت‘ کرتا ہے ۔
’روزہ نصف صبر ہے‘ مومن کی پوری زندگی کو ہم ’صبر‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ مومن ایک ضابطۂ حیات کا پابند ہوتا ہے۔ اس کا اصل مطمح نظر آخرت کی کامیابی ہے۔ وہ دنیا میں اس لیے زندہ رہتا ہے کہ اللہ کی راہ میں سرگرمِ سفر ہو۔ اس کے لیے عظیم صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ صبر کے بغیر نہ تو آدمی اللہ کی راہ میں ایک قدم چل سکتا ہے اور نہ اس کے بغیر اس کے کردار اور سیرت کی تعمیر ہوسکتی ہے۔ اس حدیث میں روزے کو ’نصف صبر‘ کہا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے روزہ رکھ لیا، اس نے صبروثبات کی تربیت حاصل کرلی۔ اب ضرورت ہے کہ وہ اس سے اپنی پوری زندگی میں فائدہ اُٹھائے اور اپنی زندگی کو صبر کے سانچے میں ڈھالے۔ جس دن اس کی زندگی صبر کے سانچے میں ڈھل گئی، اس دن ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنے صبرکو کامل کرلیا۔ اس وقت نصف صبر نہیں اسے پورا صبر حاصل ہوگا۔
’پاکیزگی آدھا ایمان ہے‘۔ اگر آدمی کا ظاہر اور باطن دونوںہی پاک ہوں تو اسے ایمانِ کامل حاصل ہوگیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز روزے کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی ہر طرح کی بُرائیوں سے اپنے کو بچائے۔ یہاں تک کہ نہ تو کسی شخص کی غیبت کرے اور نہ کسی دوسرے گناہ میں مبتلا ہو۔
مطلب یہ ہے کہ سفر میں تمھارے لیے روزہ رکھنا ناقابلِ برداشت ہے، تو سفر میں روزہ کیوں رکھتے ہو؟ روزے کا مقصد اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ روزے کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے فرض کیا ہے کہ بندے اس کے ذریعے سے پاکیزگی اور تقویٰ کی دولت سے ہمکنار ہوں۔
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے سال جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف نکلے تو آپؐ نے اور آپؐ کے ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی روزہ رکھا۔جب آپؐ کراع العمیم پر پہنچے تو آپؐ کو اطلاع ملی کہ لوگوں پر روزہ رکھنا دشوار ہورہا ہے اور وہ آپؐ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ آپؐ نے عصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگوا کر پیا۔ لوگ آپؐ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ بعض لوگوں نے روزہ توڑ دیا اور بعض لوگ اسی طرح روزہ رکھے رہے۔ پھر آپؐ کو اطلاع ملی کہ کچھ لوگ (سخت تکلیف کے باوجود) روزے سے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہی لوگ نافرمان ہیں۔ (مسلم، ترمذی)
ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا: صَائِمُ رَمْضَانَ فِی السَّفَرِ کَالْمُفْطِرِ فِی الْحَضَرِ (ابن ماجہ)’’سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا ایسا ہی ہے، جیساکہ گھر پر رمضان کا روزہ نہ رکھنا‘‘ ۔
مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر اگر اس کی طاقت نہیں ہے کہ وہ سفر میں روزہ رکھ سکے پھر بھی وہ روزہ رکھتا ہے تو درحقیقت وہ روزہ نہیں رکھتا بلکہ شریعت کو اپنے لیے مصیبت ٹھیراتا اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ دین کی فطری راہ سے ہٹا ہوا ہے۔
اسی دشواری اور مشکل کے پیش نظر حضوؐر فرماتے ہیں: ’روزے میں وصال سے بچو‘۔ ’وصال‘ سے مراد یہ ہے کہ اس طرح دن رات مسلسل روزہ رکھا جائے کہ درمیان میں نہ سحری کھائی جائے اور نہ افطار کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے خاص قوت عطا فرمائی تھی۔ اس لیے آپؐ روزے میں وصال بھی فرما لیتے تھے، لیکن دوسروں کو آپؐ نے اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ روزے میں وصال کریں۔ ( بخاری ، مسلم)
بیماری یا سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ لیکن اگر کوئی بلاعُذر کسی دن روزہ نہیں رکھتا تو حقیقت میں اس کی تلافی ممکن نہیں۔ وہ اس روزے کے بدلے میں تمام عمر یا قیامت تک روزہ رکھے، پھر بھی یہ روزے بغیر اجازت رمضان کے چھوڑے ہوئے کسی روزے کا بدل نہیں ہوسکتے۔
فرمایا: مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ وَاَخَّرُوا السَّحُوْرَ ( مسنداحمد)، یعنی لوگ اس وقت تک حالت ِ خیر میں رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کریں گے اور سحری کھانے میں تاخیر کریں گے۔
فرمایا: قَالَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ اَحَبُّ عِبَادِیٔٓ اِلَیَّ اَعْجَلُھُمْ فِطْرًا ( ترمذی)’’اللہ عزوجل فرماتا ہے:میرا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو افطار کرنے میں سب سے زیادہ جلدی کرتا ہے‘‘۔
فرمایا: لَا یَزَالُ الدِّیْنُ ظَاہِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِاَنَّ الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰی یُؤَخِّرُوْنَ ( ابوداؤد)’’دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک کہ افطار میں لوگ عجلت سے کام لیتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطار میں تاخیر سے کام لیتے ہیں‘‘۔
افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کی نگاہیں دین کی روح اور اصل مقصد سے ہٹی ہوئی نہیں ہیں بلکہ وہ حقیقت سے آشنا ہیں۔ ان کے یہاں جس چیز کی اصل اہمیت ہے، وہ احکام کی روح اور ان کے مقاصد ہیں۔ انسان کی نگاہ جب دین کی اصل اور غایت سے بے گانہ ہوجاتی ہے، تو لازماً اس کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ احکام میں ظاہر کے لحاظ سے بے جا احتیاط اور غلو میں پڑ جاتا ہے۔ اس کا یہ غلو اور احتیاط ایک بڑی بیماری کا پتا دیتی ہے۔ وہ یہ کہ اس کی نگاہ میں جس چیز کو اصل اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی، اس سے وہ غافل ہوگیا ہے۔ جس کام کو جس طرح انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے، اسے اسی طرح انجام دینا چاہیے۔ اپنی راے اور اپنے ذوق کا پابند ہونے کے بجاے خود کو اللہ کے حکم کا پابند بنانا چاہیے۔ یہی تقویٰ اور بندگی کا اصل تقاضا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غلبۂ دین کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اہلِ ایمان دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی خصوصیت اور امتیاز کو باقی رکھیں۔
سفر میں مسافر کے لیے یہ آسانی پیدا کی گئی ہے کہ وہ پوری نماز پڑھنے کے بجاے قصر کرے۔ چار رکعت کی نماز ہے تو دو رکعت ادا کرے۔ اسی طرح اگر رمضان کا مہینہ ہے تو سفر کی حالت میں اسے یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔ جتنے دن کے روزے چھوٹ گئے ہوں، سفر کے بعد انھیں پورا کرلے۔ عورت اگر حاملہ ہے اور روزہ رکھنے سے کسی ضرر کا خوف ہے تو وہ بھی روزہ نہ رکھے۔ بعد میں چھوڑے ہوئے روزوں کو پورا کرلے۔ اسی طرح اگر بچہ دودھ پی رہا ہے اور ماں کے روزہ رکھنے سے اس بات کا اندیشہ ہے بچے کو تکلیف ہوگی، تو وہ اس وقت روزہ نہ رکھے۔ یہ حدیث بھی اس کا بیّن ثبوت ہے کہ دین میں انسانی مصالح اور ضروریات کا حددرجہ لحاظ رکھا گیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ تو روزہ دار کے تقویٰ اور اس کی نیتوں کو دیکھتا ہے۔ چونکہ اس شخص نے جان بوجھ کر نہیں بلکہ بھول کر کھایا پیا ہے، اس لیے اس کے اس کھانے پینے سے اس کے تقویٰ اور حکمِ خداوندی کے احترام میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حقیقت کی نگاہ میں کھانے پینے کے باوجود وہ صائم ہے۔
یعنی روزے کا آغاز اور اختتام اور قربانی کے دن کا تعین اجتماعی فیصلے کے تحت ہوگا۔ جب قمری مہینے کے لحاظ سے روزے اور قربانی کا وقت آجائے تو آدمی روزہ رکھے اور قربانی کرے۔ اس کی توجہ خاص طور سے اس طرف رہنی چاہیے کہ اس کے اعمال میں زیادہ سے زیادہ تقویٰ کی روح پیدا ہو۔ اس لیے کہ اللہ کے یہاں اصل اہمیت اس کی نہیں ہے کہ کسی نے روزہ کب رکھا، افطار کب کیا اور قربانی کس دن کی، بلکہ اس کے یہاں اہمیت روزہ اور قربانی وغیرہ اعمال و عبادات کی ہے اور ان اعمال میں بھی اس کی نگاہ خاص طور سے اس روح اور جذبے پر ہوتی ہے، جو ان اعمال و عبادات کے پیچھے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ قربانی ہی کیا ہے جس کے پیچھے فدائیت، جانثاری اور کامل حوالگی کا جذبہ کام نہ کر رہا ہو۔ اور وہ روزہ ہی کیا ہے جودنیا میں آدمی کو ان چیزوں سے بے پروا نہ کردے جو حقیقتاً مطلوب نہیں ہیں۔
رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شوقِ عبادت حددرجہ بڑھ جاتا تھا۔ رمضان کے آخری ایام میں تو خاص طور سے آپؐ اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتے تھے۔ رمضان کے آخری دس دن بالکل اللہ کے لیے فارغ کرلیتے اور مسجد میں معتکف ہوجاتے تھے۔ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی ہر طرف سے یکسو ہوکر اللہ سے لَو لگائے اور اس کے آستانے پر (یعنی مسجد میں) پڑ جائے اور اسی کی یاد اور عبادت میں مشغول ہوجائے۔ معتکف ہوکر بندہ اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ اس کا حقیقی تعلق اپنے ربّ کے سوا کسی اور سے نہیں ہے۔ اس کی جلوت اور خلوت دونوں، اللہ ہی کے لیے ہیں۔ وہ ہرحالت میں اللہ ہی کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ اعتکاف کی روح درحقیقت یہی ہے کہ بندہ اپنے کو خدا کے لیے فارغ کر دینے پر قادر ہوسکے۔ روزے اور اعتکاف میں مقصد اور عمل دونوں لحاظ سے انتہا درجے کی مناسبت اور اتحاد پایا جاتا ہے۔ اسی لیے روزے کو اعتکاف کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے اور رمضان کو اعتکاف کا بہترین زمانہ سمجھا گیا ہے۔ روزے کی خصوصیت کو مزید تقویت بخشنے کے لیے قدیم شریعت میں خاموش رہنے کو بھی جزو صوم بنایا گیا تھا اور اس طرح کا روزہ بھی مشروع ہوا تھا جس میں آدمی خدا کے سوا کسی سے گفتگو نہیں کرسکتا تھا۔
اعتکاف کا بہترین زمانہ رمضان کا ہے اور اس میں بھی خاص طور سے رمضان کا آخری عشرہ۔ یہی وجہ ہے کہ اعتکاف کے لیے اسی کو خاص طور سے منتخب فرمایا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہرسال رمضان میں اعتکاف فرماتے تھے۔ ایک سال کسی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو دوسرے سال آپؐ نے دو عشروں کا اعتکاف فرمایا۔
حالت ِ اعتکاف میں ہونے کی وجہ سے آپؐ ٹھیر کر توعیادت نہیں فرماتے تھے، البتہ گزرتے ہوئے بیمار کی خیریت معلوم کرلیتے۔ اسی طرح اہلِ ایمان کا فرض ہے کہ وہ دنیا سے اپنے دل کو اس طرح وابستہ نہ کریں کہ اسی کے ہوکر رہ جائیں۔ دنیا کی ان ذمہ داریوں کو جو ان پر ڈالی گئی ہیں، پورا ضرور کریں لیکن ان کا رُخ ہمیشہ آخرت کی جانب رہے۔ وہ اسی کی طرف ہمیشہ عازمِ سفر رہیں۔
رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ سے زیادہ رات میں بیدار ہوکر اللہ کی عبادت کرتے۔’تہبند کَس لیتے‘ یہ محاورہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپؐ پورے ذوق و شوق کے ساتھ عبادت کے لیے مستعد ہوجاتے تھے اور عبادت میں لگ جاتے تھے۔
حضرت سالمؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:تم میں سے کچھ لوگوں نے اوّل سات تاریخوں میں شب قدر دیکھی ہے اور تم میں سے کچھ لوگوں نے آخر کی سات تاریخوں میں اسے دیکھا ہے ۔ پس تم آخر کی دس تاریخوں میں اسے تلاش کرو۔( مسلم )
یعنی اگر تم شروع کی سات تاریخوں میں شب ِ قدر تلاش نہ کرسکو تو اب رمضان کی آخر کی دس تاریخوں میں اسے تلاش کرو، یعنی ان راتوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرو اور شب ِ قدر کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی کوشش کرو۔ رمضان کی ان مخصوص تاریخوں میں شب ِ قدر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ کچھ اہلِ ایمان نے ان راتوں میں شب ِ قدر دیکھی بھی ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ ان تاریخوں میں شب ِ قدر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
شب ِ قدر وہ مخصوص رات ہے، جسے خدا نے خاص فضیلت عطا کی ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں قرآنِ مجید نازل ہوا، جو خیروبرکت کا سرچشمہ ہے۔ جو کام ہزاروں مہینوں میں نہ ہوا، وہ اس ایک رات میں انجام پایا۔ اس رات کی فضیلت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا تھا، بلکہ قرآن اس رات میں اس لیے نازل کیا گیا کہ یہ افضل رات تھی۔ نزولِ قرآن سے اس رات کی فضیلت ظاہر ہوئی۔ جس رات کو خدا کی عنایت و رحمت سے خاص نسبت حاصل ہو، وہ رات کبھی خیروبرکت سے خالی نہیں ہوسکتی۔ خدا کی رحمت ہرتحدید سے مبرا ہے۔ جو چیز بھی اس سے مَس ہو اور اسے اس سے کوئی نسبت حاصل ہو تو یہ نسبت دائمی قدر کی حامل ہوگی۔ یہ کوئی عارضی چیز ہرگز نہ ہوگی۔
شب قدر کےعلاوہ دوسرے دنوں میں بھی اس کا موقع رکھا گیا ہے کہ خدا اپنے بندوں کے ساتھ خصوصی معاملہ فرمائے اور بندہ اپنے رب کی خصوصی توجہ اور عنایت کا جویا ہوسکے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
اِنَّ فِی اللَّیْلِ لَسَاعَۃً لَایُوَافِقُھَا رَجُلٌ مُّسْلِمٌ یَسْئَلُ اللہَ خَیْرًا مِّنْ اَمْرِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ اِلَّا اَعْطَاہُ ذٰلِکَ کُلُّ لَیْلَۃٍ ( مسلم ، رواہ جابرؓ)رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اس وقت ایک مسلم شخص اللہ سے دنیا و آخرت کی جو بھلائی بھی چاہے اللہ اس کو عطا فرمائے گا اور یہ ہر رات میں ہوتی ہے۔
یہ حقیقی خوشی کا مقام ہے، ایسی خوشی جس کے سرور سے سینہ کھل جاتا ہے، اور نفس راحت پاتا ہے۔ یہ ایسی طویل اور وسیع و عریض دنیا و آخرت میں باقی رہنے والی فرحت ہے، جو ہمیشہ مومنوں کے ساتھ رہتی ہے، اور وہ کیوں اس کو محسوس نہ کریں، جب کہ انھوں نے اپنے دلوں کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی اطاعت سے روشن کر لیا ہے، اور اپنے نفوس کو اس کی ہدایت کے فیض سے زینت دے دی ہے،اور اس کے احسان نے انھیں خوب صورت بنا دیا ہے۔
ایک بندئہ مومن خوش ہوتا ہے مگر، یہ قارون جیسی خوشی نہیں ہوتی کہ جسے خوش ہونے سے منع کرتے ہوئے کہا گیا تھا:
لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ۷۶ (القصص۲۸: ۷۶) پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اور نہ یہ اہلِ دنیا کی سی خوشی ہے، جو دنیا کی زینت پا کر خوش ہو جاتے ہیں:
وَفَرِحُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ۲۶ۧ (الرعد۱۳:۲۶) یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سِوا کچھ بھی نہیں۔
اور نہ یہ منافقین کی خوشی کی مانند ہے، جو بیٹھے رہ گئے اور اللہ اور اس کے رسولؐ سے بھاگ کر مسلمانوں کے لشکر سے پیچھے رہے، تو اللہ نے قیامت تک ان کے لیے مذمت لکھ دی اور فرمایا:
فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللہِ (التوبۃ۹:۸۱) جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسولؐ کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے۔
اور نہ یہ اہلِ باطل کی باطل روی پر خوشی ہے جو تھوڑی دیر کو بلند ہوتے ہیں اور پھر بکھر کر زائل ہوجاتے ہیں:
ذٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْـرَحُوْنَ۷۵ (المومن۴۰: ۷۵) یہ تمھارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم زمین میں غیرِ حق پر مگن تھے، اور پھر اُس پر اِتراتے تھے۔
اور نہ یہ فرح (خوشی) اللہ کی نعمتوں کو پا کر پھول جانے والوں کی ہے، جو اس پر فخر کرتے ہیں،اور اللہ کے بندوں پر اپنی بڑائی قائم کرتے ہیں،اس کے شکر اور اپنے نفس کے تزکیے سے غافل ہوتے ہیں:
وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَاۗءَ بَعْدَ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْہُ لَيَقُوْلَنَّ ذَہَبَ السَّـيِّاٰتُ عَنِّيْ۰ۭ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُــوْرٌ۱۰(ھود۱۱: ۱۰) اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی، ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدّر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مومنوں کی فرحت کو کیا چیز ممتاز کرتی ہے، یہاں تک کہ اس فعل پر ان کی تعریف کی جاتی ہے اور وہ اس پر اجر پاتے ہیں؟
یہی وہ حقیقی فرحت ہے جس پر اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے خوش ہوتا ہے، اور انھیں ثواب عطا کرتا ہے اور انھیں اس کی دعوت بھی دیتا ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا۰ۭ ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۵۸ (یونس۱۰: ۵۸) اے نبیؐ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔
ابن عباسؓ نے فرمایا: قرآن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اور اس کی رحمت اسلام ہے۔ اور ان سے مروی ہے: قرآن اللہ کا فضل ہے، اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمھیں اس کے حاملین میں بنایا(القرطبی)۔ پس، اللہ کی اس عظیم نعمت پر اس کی حمد ہے، اس نے اسلام کی ہدایت دی، اور قرآن سے رہنمائی عطا فرمائی،اور یہی بات اس کی حق دار ہے کہ مومن اس پر خوشیاں منائیں۔ اور قرآن کریم کی ایک آیت سیکھنا بھی مومنوں کو سرخ اونٹ پانے سے بڑھ کر خوشی عطا فرماتا ہے (سرخ اونٹ ملنا عربی ضرب المثل کے مطابق انتہائی قیمتی نعمت کا ملنا ہے)،یا جیسے انھیں سونے چاندی کے ڈھیر مل جائیں۔
ابنِ عاشور کہتے ہیں: اس سے اُخروی و دنیوی فضل مراد ہے۔ اُخروی فضل تو ظاہر ہے، اور دنیوی فضل سے مراد کمال نفس، درست اعتقاد، اور دل کا کمال پانے کی کوشش کرنا، اور نیک اعمال کی جانب متوجہ ہونا ہے۔ یہ دنیا میں بھی راحت اور مسرور زندگی کا ذریعہ بنتاہے۔
اطاعت کی خوشی مسلمان کی زندگی پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے، خواہ وہ عمر کے کسی بھی حصّے میں ہو۔یہ ہر روز دل کوتروتازہ رکھتی ہے،بلکہ ہر گھنٹے اور ہر منٹ، اور یہ بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ اللہ کے ذکر کی فرحت ایسی ہے کہ بندے کو ہر سانس خوش رکھتی ہے۔ اور اس فرحت کا کیا کہنا جو خیر کے موسم میں فرحتوں سے ملاقات کرے، اور خیر پر خیر جمع ہو جائے، اطاعت پر اطاعت اور فضل پر فضل! جیسا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں، جو اسے خوش رکھتی ہیں: ایک افطار کی خوشی، جب وہ افطار کرے، اور دوسری رب سے ملاقات کے وقت خوشی!
مسلمان کو اسلام کا ہر رکن ادا کرتے ہوئے فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ کلمۂ شہادت کی ادایگی ہے۔ اس سے زیادہ خوشی اور کس بات کی ہو گی کہ انسان عبودیت اور نجات کے دروازے میں داخل ہو گیا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مومن و مسلم بندوں میں شامل ہو جائے۔ وہ اللہ ،الملک، الحق، القوی کی بندگی کا شرف پاتا ہے۔ وہ بندے کو ذلت سے ہٹاکر بندگی کی عزت عطا کرتا ہے، اور کمزوری کے بعد اسے طاقت عطا فرماتا ہے۔ وہ اسے انسیت اور رضا کے دامن میں پناہ دیتا ہے، اور اس دروازے سے اس کے لیے خیر کے کئی دروازے کھول دیتا ہے، جس کی خوشی میں روح تک جھوم اٹھتی ہے۔
جیسا کہ ابن القیم فرماتے ہیں: ’’دل میں ایک غبار ہوتا ہے، جو اللہ کے دل میں آنے ہی سے دھلتا ہے، اور دل میں ایک وحشت ہوتی ہے، اور وہ تنہائی میں اللہ سے انسیت ہی سے ختم ہوتی ہے۔ اس میں غم بھی ہوتا ہے جو اس کی معرفت کے سرو ر اور صدقِ معاملہ ہی سے زائل ہوتا ہے۔ اس میں قلق بھی ہوتا ہے جو اس کے ملنے سے باقی نہیں رہتا اور بھاگ جاتا ہے۔ اس (دل)میں حسرتوں کے الاؤ بھی ہوتے ہیں، جنھیں اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کے نواہی سے باز رہنے سے بجھایا جا سکتا ہے۔ اس سے ملاقات کے وقت صبر کے احساس کو گلے لگانے سے، اور اس میں شدید طلب کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ اسے اسی صورت روکا جا سکتا ہے کہ وہ اور صرف وہی اس کا مقصود بن جائے۔ اس میں فاقہ بھی ہے، جسے اس کی محبت میں برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اس کی جانب انابت اور رجوع اور ہمیشہ اس کا ذکر کرتے رہنا،اور اس سے اخلاص کی سچائی،اسے دنیا بھر کی دولت بھی دی جائے تو وہ اس فاقے کو اس پر ترجیح دے! (مدارج السالکین)
اسی طرح فرحتوں کا سلسلہ تسبیح کے دانوں کی طرح بقیہ ارکانِ اسلام میں بھی نظر آتا ہے۔ کلمۂ شہادت کے ساتھ روزانہ پانچ وقت کی نماز خوشیوں اور سرور کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جب مسلمان اپنے رب سے سرگوشیاں کرتا ہے، اور نمازمیں اس کے سامنے خشوع سے کھڑا ہوجاتا ہے، پس اس کی روح پُر سکون ہو جاتی ہے، اس کا نفس ڈھیلا پڑ جاتا ہے، اور رب کی معیت کی نعمت پر سرشار ہوتا ہے۔ اور اس کے دل کی فرحتوں کا کیا کہنا ، جب ہر نماز اس کے گناہ اس سے دُور کر تی ہے اور انھیں جھاڑ دیتی ہے، جیسا کہ ہمارے ربّ نے اس کی تاکید فرمائی ہے:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ۰ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ۰ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ۱۱۴ (ھود۱۱:۱۱۴)اور نماز قائم کرو، دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دُور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی ہے:’’جب کوئی مسلمان فرض نماز کے لیے حاضر ہوتا ہے، اور اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، اور خشوع اختیار کرتا ہے اور اس کے آگے جھک جاتا ہے، تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفّارہ بن جاتی ہے،جب تک وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو، اور یہ تمام زمانے کے لیے ہے‘‘(مسلم )۔ اور نماز بذات ِ خود بلند ہو کر اسے پاکیزہ کرتی ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۰ۭ (العنکبوت۲۹:۴۵) یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
اور یہ نماز اس کی پریشانیوں کے ازالے اور غموں کے چھٹ جانے کا ذریعہ بنتی ہے:
وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۰ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۴۵ۙ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۴۶ (البقرۃ۲:۴۵-۴۶) صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
پھر یہ قیامت کے روز اس کے لیے نجات کا قلعہ بنے گی: ’’جس نے اس کی محافظت کی وہ اس کے لیے نُور اور بُرھان بنے گی اور اور قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بنے گی‘‘۔ (احمد)
رہا مال میں سے زکوٰۃ کا اخراج تو وہ بھی فرحت سے خالی نہیں ہے، کیوںکہ اس میں نفس کی زکوٰۃ اور اس کی طہارت ہوتی ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا (التوبۃ۹: ۱۰۳) اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھاؤ۔
مومن زکوٰۃ کی ادایگی کرتے ہوئے رب کی اطاعت پر فرحت محسوس کرتا ہے۔ وہ اللہ کی نعمت کے حاصل ہونے پر خوشی محسوس کرتا ہے، کہ اس نے اسے اتنا مال دیا کہ صاحبِ نصاب بنادیا، اور اسے غریب اور مفلوک الحال بھائیوں کو مال ادا کرنے کا ذریعہ بنایا، اور اس کے ذریعے ان کی حاجت کو پورا کروایا۔وہ جب صدقہ دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلاتا ہے، بوسیدہ لباس والے کو پوشاک پہناتا ہے، بے گھر کو ٹھکانا دیتا ہے تو اسے خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ یتیم کی کفالت کرتا ہے، اور فقیر کو مال عطا کرتا ہے، بے روزگار کے لیے روز گار کا اہتمام کرتا ہے، تو اپنے بھائی کی مدد کرتے ہوئے اور اس کی تکلیف کو دُور کرتے ہوئے اسے عجیب فرحت کا احساس گھیر لیتا ہے، رہا آخرت کا اجر تو وہ اسے اور بھی راحت پہنچائے گا، اور شدید فرحت کا احساس دلائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’صدقہ، ربّ کے غصّے کو بجھاتا ہے، اور بُری موت سے بچاتا ہے‘‘ (صحیح ابنِ حبان)۔مزید فرمایا: ’’صدقہ اپنے دینے والے کی قبر کو گرمی سے بچاتا ہے، اور قیامت کے روز مومن اپنے صدقہ کے سایے میں ہو گا‘‘۔(السلسلۃ الصحیحۃ)
ہر سال رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی دل فرحتوں سے بھر جاتے ہیں، اور ہر جانب اس کی خوشبو پھیل جاتی ہے، پس مومن اللہ کے فضل اور روزے میں اس کی مدد پر خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی عطا کی تکمیل کر دیتا ہے۔ وہ قرآن کے نزول کے مہینے اور روزے کے خوب بڑھے ہوئے اجر پر خوش ہو جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ابنِ آدم کی ہر نیکی کے عمل کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، روزے کے علاوہ، کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ بندے نے میری خاطر شہوت اور کھانا پینا چھوڑ دیا‘‘۔ (متفق علیہ)
جب وہ روزہ رکھتا ہے تو اللہ کی مغفرت پر فرحت محسوس کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (بخاری )۔ وہ قیام اللیل کی فرحت محسوس کرتا ہے : ’’جو رمضان کے مہینے میں قیام کے لیے کھڑا ہوا، ایمان اور احتساب کے ساتھ، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (صحیح النسائی)۔اور لیلۃ القدر میں خوشی محسوس کرتا ہے،اور اس کا اجر بھی کتنا زیادہ ہے: لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۰ۥۙ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۳ۭؔ (القدر۹۷:۳)’’شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔ اور رمضان کے مہینے کے اختتام تک اس کا اجر کس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے، اور وہ اللہ کا قرب پالیتا ہے۔
پھر اس کی مسرت و شادمانی کا کیا کہنا کہ روزہ اور قرآن اس کے سفارشی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے رب، میں نے اسے سارا دن شہوت اور کھانے پینے سے روکے رکھا،پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرمائیں۔اور قرآن کہے گا: میں نے اسے راتوں کو سونے سے محروم رکھا، پس میری شفاعت قبول کریں۔ فرمایا: ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی‘‘۔ (احمد)
اور جب بندہ پورے مہینے کے روزے مکمل کر لیتا ہے، اور وہ عید کے دن ان نعمتوں کو حلال کرتا ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا بدلہ اور انعام پاتا ہے۔
رہا حج بیت اللہ ،تو وہ اسلامی عبادات میں پانچواں رکن ہے۔ اس میں تلبیہ کی پکار کی اپنی ہی فرحت ہے؛ لبیک اللھم لبیک … حجِ بیت اللہ کا فریضہ ادا کرتے ہوئے وہاں داخل ہوتے ہی حاجی عجب فرحت محسوس کرتا ہے۔ وہ اللہ کے گھر حاضر ہے اور اس کا مہمان ہے، اور وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک جگہ پا کر اخوتِ اسلامی کے مظہر سے فرحت و سرور محسوس کرتا ہے۔ حج کے مناسک میں ایک ایک منسک کی ادایگی اور اطاعت ِ خداوندی میں عجب سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔ وقوفِ عرفہ اور دعا کی قبولیت میں،اور اس احساس میں کتنی فرحت ہے کہ اس کے گناہوں کا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا ہے، اور اب وہ کسی نو مولود کی مانند گناہوں سے پاک ہے: ’’جو اس گھر کی جانب آیا پھر اس نے نہ کوئی شہوانی فعل کیا نہ فسق کا کوئی کام، تو وہ اس طرح واپس لوٹا جیسے اسی کی ماں نے اسے ابھی جنا ہے‘‘(مسلم )۔پس وہ نیکی اور پاکیزگی کی حالت میں لوٹا،اور اس کی پوری پوری جزااور بڑا بدلہ اس کے رب کے پاس ہے: ’’اور حجِ مبرور کی جزا تو بس جنت کے سوا کچھ نہیں‘‘۔(بخاری)
جی ہاں! اے مسلمان بھائی، خود پر اللہ کے فضل پر خوش ہو جائیے! جب بھی’خیر‘ آپ کی جانب آیا، تو آپ کے ایمان اور اصلاحِ نفس میں اضافہ ہوا، آپ اس کے حضور سجدہ ریز ہوئے اور اس کا قرب حاصل کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر فرحت محسوس کیجیے کہ جب اس نے آپ کو خیر کے کاموں کی ہدایت کی، اور منکرات کو چھوڑ دینے کی تاکید کی، اور مسلسل عمل کرنے اور نہ رُکنے کی تلقین کی، تو آپ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو مسلسل نگاہ میں رکھا: ’’جب تمھاری نیکی تمھیں خوش کرے، اور تمھاری برائی تمھیں غمگین کرے، تو تم مومن ہو‘‘(السلسلۃ الصحیحۃ)۔ لہٰذا اے مسلمان بھائی، مومن بن جائیے! (المجتمع، رمضان ۱۴۳۹ھ، جون ۲۰۱۸ء)
یہ مشترکہ مضمون ان احساسات پر مبنی ہے کہ میاں بیوی کی سوچ میں ہم آہنگی رمضان کی قدر و قیمت اور اس کے اثرات کو کس قدر بڑھا دیتی ہے۔
سب سے پہلے تو میں نے قرآن میں رمضان کے بارے میں اللہ کا فرمان پڑھا:
فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ ۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۴) اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔
اور حج کے حوالے سے بیان کردہ آیت پر غور کیا:
وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا۰ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ۱۵۸ (البقرہ۲: ۱۵۸) اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔
یہ ’تطوّع‘ کیا ہے؟ کیا یہ شریعت اور اس کے شعائر سے ہوتا ہوا زندگی اور اس کے اعمال تک پھیلا ہوا ہے؟
روزے کے ضمن میں حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:’’اور جو کوئی خوشی سے نیکی کرنا چاہے اور ایک مسکین کے کھانے کا اضافہ کر لے، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ نے خیر کے کوئی خاص معانی بیان نہیں کیے، جو کسی ایک نیکی پر مشتمل ہوں۔ پس روزے کے ساتھ مسکین کے کھانے کو جمع کر لینا بھی خوشی سے زیادہ کرنے والی بھلائی ہے،اور روزے کا فدیہ ادا کرتے ہوئے مساکین کی تعداد کو بڑھا لینا بھی ’تطوّع‘ ہی میں آتا ہے۔یہ سب بھلائیوں میں برضا و رغبت اضافہ اور نوافل میں آگے بڑھ جانا ہے۔(ابنِ کثیر)
یہ روزے کے بارے میں اسلام کا ابتدائی حکم ہے کہ مریض اور مسافر کو روزے کی چھوٹ ہے، رہا صحت مند مقیم شخص تو اس کے پاس اختیار ہے، وہ چاہے تو خود روزہ رکھے اور چاہے تو فدیہ ادا کرتے ہوئے کسی کو کھانا کھلا دے۔اور اگر وہ ایک سے زیادہ مساکین کو کھانا کھلا دے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے، اور اگر وہ روزہ رکھے تو یہ کھانا کھلانے سے بہتر ہے۔
حج کے بارے میں راجح قول ہے: اور جو کوئی فرض حج کی ادایگی کے بعدمزید حج اور عمرہ خوشی سے کرے، تو اللہ اس کی بہت قدر کرنے والا ہے، کیونکہ وہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں یہ عمل کرتا ہے۔ لہٰذا، وہ اس کی بہترین جزا دینے والا ہے، اور وہ اس کے ارادے اور مقصد کو جانتا ہے۔(الطبری)
علما کا اس بارے میں کہنا ہے: جو خوشی سے بھلائی کا ارادہ کرے اور عمرہ کرے تو اللہ اس کا قدر دان اور جاننے والا ہے، پس حج فریضہ ہے اور عمرہ ’تطوّع‘ (یعنی خوشی سے کی جانے والی نیکی)۔
ان دونوں آیات پر غور کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ اسلام تطوّع (خوشی سے نیکی کرنے کے جذبے) پر اُبھارتا ہے، کیونکہ اس نیکی کے محرک کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہوتا ہے۔ پس، روزہ ، حج، عمرہ اور بھوکے کو کھلانا سب اللہ کے لیے اخلاص برتنا ہے، اور زیادہ سے زیادہ عمل کرنا ہے۔ اس کے لیے وقت نکالنا،مال خرچ کرنا اور جدو جہد کرنا، یہی حقیقت میں ’تطوّع‘ کے عناصر ہیں، خواہ یہ دنیا کا ’تطوّع‘ ہو، سوچ اور فکر کا یا مادی اشیا کا۔اور ہمارے نوجوانوں کو خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں اس تطوّعی عمل میں شریک ہونا چاہیے، خواہ وہ صلح کا کام ہو یا اصلاحِ نفس کا یا کوئی دوسری سرگرمی، یا وہ فرد اور معاشرے کی نمو اور افزایش کا کوئی کام ہو۔
اس حوالے سے ہمارے سامنے انبیا علیہم السلام کے تطوّع کی بہترین مثالیں اور نمونے موجود ہیں: کیا حضرت زکریا ؑنے حضرت مریمؑ کی کفالت کو خوشی سے قبول نہیں کیا تھا؟ کیا حضرت یوسفؑ نے آگے بڑھ کر وزارت ِ مال کی ذمہ داری اٹھانے کی پیش کش نہیں کی تھی؟کیا موسٰی نے اللہ کی رضا کی خاطر دو بہنوں کے جانوروں کو کنویں سے پانی نکال کر نہیں پلایا تھا؟ پھر ان کاموں کے انجام پر بھی نظر ڈالو۔حضرت زکریاؑ، حضرت مریم ؑ کی کفالت کرتے ہوئے ان کو اللہ کی جانب سے ملنے والے پھلوں کے مشاہدے تک پہنچے، اور وہیں اللہ سے بیٹا مانگ لیا، جو اللہ نے عطا فرما دیا۔ رہے یوسفؑ تو اللہ نے انھیں مصر کی سرزمین میں اقتدار بخشا اور ان کے گھر والوں اور والدین کو ان سے لا ملوایا۔اور موسٰی کاجانوروں کو پانی پلانا ان کی پناہ گاہ، شادی اور پختگی کے حصول کا سبب بن گیا!
اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہمارے لیے ابدی نمونہ ہے۔ ان سے حضرت خدیجہؓ نے کیا فرمایا: ہرگز نہیں، اللہ آپؐ کو کبھی رُسوا نہ کرے گا؛ آپؐ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، اور حق کی راہ میں آنے والے مصائب پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔(بخاری)
ان کے عمل کی مثالیں دیکھیں تو آپؐ کعبہ کی تعمیر میں بنفس ِ نفیس شریک ہوئے، خندق کھودنے میں اور مسجد کی تعمیر میں بھی حصّہ لیا! وہ مریضوں کی عیادت فرماتے اور یتیم کی کفالت اور اس کے مصائب کے حل پر ابھارتے اور بیواؤں کی مدد فرماتے اور انھیں کھانا کھلاتے۔
جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے محلہ داروں کی بکریاں دوہتے۔ جی ہاں! وہ خلیفہ بنے تو ان کے محلے کی ایک لڑکی نے کہا: ’’اب تو آپ ہماری بکریاں نہیں دوہیں گے‘‘۔ آپؓ نے اس کی بات سنی تو کہا:’’کیوں نہیں، اللہ کی قسم ! میں اب بھی ان کا دودھ دوہوں گا‘‘۔
آپ نے حضرت عمر ؓ بن خطاب اور ان کی زوجہ اُمِ کلثوم کی ایک زچہ کی مدد کا واقعہ بھی سنا ہوگا، جب ان کی زوجہ ضرورت کے سامان کے ساتھ نو مولود کے کپڑے ،دیگچی ، غلّہ اور گھی ساتھ لے کر پہنچی تھیں۔ وہ تو اندر خاتون کے پاس چلی گئیں اور حضرت عمرؓ اس کے شوہر کے پاس بیٹھ گئے اور دیگچی چولھے پر چڑھا دی،اور کھانا پکانا شروع کر دیا۔ اس کے شوہر کو علم بھی نہ ہوا کہ آپ کون ہیں۔
یہی وہ بھلائی اور نیکی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے:
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف پھیرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ اللہ کو اوریومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموںپر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پراور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔(البقرہ۲: ۱۷۷)
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے‘۔ کہا گیا: اگر کسی کے پاس استطاعت نہ ہو تو کیا کرے؟ فرمایا: ’وہ معروف یا خیر کا حکم دے‘۔ کہا: اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے۔ فرمایا: ’اپنے آپ کو شر سے روک لے، یہ بھی صدقہ ہے‘۔ (بخاری )
پس، خیر کے بہت سے دروازے ہیں اورخوشی سے نیکی کرنے والوں اور کرنے والیوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں، خاص طور پر مشکل اوقات اور جنگی مقامات پر انسانیت کی خدمت کے مواقع بہت سے ہیں۔ مشکلات میں گھرے انسانوں کو طبی، سکونتی، تعلیمی اور مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے، اور رمضان میں ان تمام نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے اور ثواب دوچند ہو جاتا ہے۔
ہم نے رمضان المبارک میں اس اہم معاملے کا ذکر کیا ہے، جس جانب آپ نے اللہ کے فرمان کی طرف توجہ دلائی ہے:
فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ ۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۴) اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔
آگاہ رہیں کہ یہ تطوّع بالخیر ہے۔اور اگرچہ یہ آیت اپنے سیاق میں روزے کے خیر کو بیان کر رہی ہے، جیسا کہ میں ذکر کر رہی ہوں، درحقیقت لفظ ’خیر‘ ہمارے سامنے بھلائی کی متعدد راہیں کھولتا ہے۔ ہمیں مطلقاً خوشی سے نیک اعمال کی جانب لپکنے پر ابھارتا ہے، اور ان اعمال کی فضیلت کو رمضان کے مہینے میں پانے کے لیے اورباقی مہینوں میں بھی اجر و ثواب کے حصول پر آمادہ کرتا ہے۔
’تطوّع‘ کی رغبت تو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے،اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ استطاعت کے مطابق نفلی عبادات، مالی اخراجات (انفاق فی سبیل اللہ)، یا صحت، یا مال و متاع، یا علم یا نصیحت جیسی مختلف نیکیوں میں جت جاتا ہے، جو تزکیۂ نفس کے وسائل ہیں،اور ان اعمال کو کرتے ہوئے اللہ کے لیے خالص نیت کا ہونا ضروری ہے:
اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۹ (الدھر۷۶:۹) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔
لہٰذا ، اجر صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے ہے، اور وہ ہر بھلائی کا قدردان ہے اور نیکی کرنے والے سے واقف ہے، اور اسی سے اس نے اپنے اس فرمان میں ہمیں متنبہ کیا ہے:
لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍؚ بَيْنَ النَّاسِ۰ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۱۱۴ (النساء۴: ۱۱۴) لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیش تر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں، اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا، اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔
جب میں خوشی سے کی گئی نیکیوں اور بھلائیاں کرنے والوں کا ذکر کرتی ہوں، تو میرے سامنے متطوّعین کے رہنما سرکردہ کویتی داعی ڈاکٹر عبد الرحمن السمیطؒ کا نام آتا ہے۔ جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک حصّہ افریقی ممالک میں گزارا، جہاں انھوں نے اپنا وقت، مال اور صحت اور زندگی کی توانائیاں اس راہ میں لگا دیں اور لوگوں کو اللہ کے دین کی جانب دعوت دی۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی مثال تھے:
أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟ وَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟ فَقَالَ: أَحَبُّ النَّاسِ اِلَى اللهِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ يَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً ، أَوْ يَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا ، أَوْ يَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا، وَلَأَنْ أَمْشِي مَعَ أَخٍ لِي فِي حَاجَةٍ ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هٰذَا الْمَسْجِدِ ، مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ ، شَهْرًا (الصَّحِيحَة:۹۰۶، الترغیب والترہیب: ۲۶۲۳) [ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کی:] اے اللہ کے رسولؐ ! اللہ کے ہاں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے، مشکل دُور کرتاہے ، قرض ادا کردیتاہے، بھوک مٹاتاہے۔ اور کسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا، مجھے مسجد نبویؐ میں ایک ماہ کے اعتکاف سے بھی زیادہ پسند ہے۔
اسی طرح مجھے ان کی وفا دار اور صابر بیوی ام صہیب یاد آتی ہیں،جنھوں نے ان سارے معاملات میں ان کی مدد کی اور ان کی اولاد کی تربیت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ ان کے ساتھ زاہدانہ زندگی بھی گزاری، اور ہر سرد و گرم سہا۔ان کے ساتھ گھر بار چھوڑ کر افریقہ منتقل ہوئیں اور تمام پریشانیوں کو برداشت کیا۔وہ مشکلات کو کسی خاطر میں نہ لاتیں، بلکہ اس ساری سعی و جہد میں وہ اللہ کے تقرب کی لذت کو محسوس کرتیں۔ انھوں نے بڑے مزے سے ایک روز اپنے شوہر سے کہا: ’’کیا جنت میں بھی ہم ایسی ہی لذت محسوس کریں گے، جیسی یہاں محسوس کرتے ہیں؟! ‘‘، کیا کہنے ایسی بیوی کے!
میرے ذہن میں اہمیت کے لحاظ سے عورت کے تطوّعی کردار کے کئی میدان آتے ہیں، جہاں ایک عورت آسانی سے بھلائیاں سمیٹ سکتی ہے، جیسے یتیموں کی کفالت اور بیواؤں اور بزرگوں کی نگہداشت، اور تنگ دست خاندانوں کی مدد،اور بھلائی اور خیر اور امدادکے کام کرنے والی انجمنوں کے کام میں حصّہ، خواتین کی مشکلات اور نوجوان لڑکیوں کے مسائل کا حل،اور معاشرے میں رائج غلط تصورات کی اصلاح، نوجوانوں کی تربیتی سرگرمیوں میں حصّہ۔ اسی طرح علم کی تدریس اور قرآن کی تحفیظ میں مدد اور معاشرے کی اصلاح میں ہمہ تن مدد۔ پس، عورت کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا،اور معاشرے کو ایک سرگرم عورت کی تلاش ہے، جو شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے ان معاملات میں اپنا کردار ادا کرے۔
بلاشبہہ نیکی اور تقویٰ کے معاملے میں تعاون ایک مسلمان گھر کی صفات میں سے ہے۔ اسی طرح یہ ایک مسلم خاندان، ایک مسلم محلے اور ایک مسلم معاشرے کی صفات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو اس کا حکم دیا ہے، وہ فرماتا ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۰۠ (المائدہ۵:۲) اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔
اگر معاشرہ بھی نیکی کے مختلف پہلوؤں میں معاونت کرتا ہے، وہ خیر کو پھیلانے، اور دوسروں کا احساس پیدا کرنے میں کردار ادا کرتا ہے، وہ اپنے افراد کے دلوں میں خوشی سے نیکی کرنے کے کلچر کو فروغ دیتا ہے، تو وہی معاشرہ، ترقی یافتہ اور باشعور کہلانے کا حق دار ہے۔ یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ بعض افراد ِ معاشرہ، یعنی میاں بیوی ایک دوسرے کی مخالفت میں خم ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے ہیں،اور شوہر بیوی پر بے جا پابندیاں عائد کردیتا ہے اور وہ اس کے تطوّعی کاموں کی اجازت نہیں دیتا، جیسے دعوت الی اللہ کا کام، یا خیر کی کسی انجمن کے ساتھ مل کرتعلیم یا کسی عمل میں مدد دینا، حالاںکہ بیوی اپنی ازدواجی ذمہ داریوں کی ادایگی اور اولاد کی نگہداشت کے فرائض ادا کرتے ہوئے یہ کام کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب ایسی خواتین بھی ہیں، جو خیر کے کاموں میں بڑی خوشی سے بڑھ چڑھ کر شریک ہوتی ہیں، اور دن رات کی مشغولیت کا بڑا حصّہ انھی کاموں میں لگا دیتی ہیں۔ وہ اپنے شوہروں سے غافل ہو جاتی ہیں اور اپنی اولاد کو ضائع کر دیتی ہیں اور ان کی تربیت کا حق ادا نہیں کرتیں! یہاں معاشرے میں خیر کے کاموں کو متوازن کرنے کی ضرورت ہے، اور کسی افراط و تفریط کے بغیر معاشرے کی خدمت میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر کو ئی شخص رمضان میںخوشی سے نفل عبادات ادا کر تا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اسے انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی اسی خوشی سے حصّہ ڈالنا چاہیے۔ یقیناً اسے رمضان کے اجروثواب کو بڑھانے کی حرص رکھنی چاہیے۔ اس کی اللہ کے میزان میں بڑی قدروقیمت ہے، ثواب اسی کے ذمے ہے، اور وہ اجر عطا فرماتا ہے۔ پس، رمضان ہر خیر کے کام کا موقع ہے، اور کیا ہی اچھا ہو کہ خوشی سے ہونے والے نیک کاموں کی کثرت ہو جائے، اور یہ روزہ دار کے لیے نافع ہو جائیں۔ وہ رکوع، سجدے اور دیگر عبادات سے اس کی روح کا تزکیہ کر دیں، اور اس کے ساتھ ہی وہ اعمال بھی شامل ہو جائیں جو وہ معاشرے اور اس کے افراد میں خیر پھیلانے کے لیے انجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۷۷ۚ۞ (الحج۲۲: ۷۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، اسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔
(المجتمع، شعبان،۱۴۳۹ھ،مئی۲۰۱۸ء)
مقبول روزے کی شرط ایمان اور احتساب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنا احتساب اور اِصلاح کیسے ہو؟ احتساب دراصل اپنے مومنانہ معیار کو بلند کرنے کی طرف متوجہ ہونا ہے۔
ہم بُری بھلی زندگی تو گزارتے ہیں مگر اس بات پر دھیان نہیں دیتے کہ کمی کہاں ہے؟خطا کیا ہے؟گناہ کیا ہیں ؟ اور ان میں ہمارا نفس کتنا آلودہ ہے؟ نیکی کے تھیلے میں کتنے سوراخ ہیں ؟ وہ سب کچھ نظروں سے اوجھل رہتا ہے جن سے نیکی کا معیار ناقص ہو جاتا ہے۔
ہم صغیرہ و کبیرہ، ظاہر ی و باطنی،جانے اَن جانے، کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتے تو ہیں اور آپس میں ’ کہا سنا معاف کرنا‘ بھی عادتاً دُہرا لیتے ہیں، لیکن اس جملے کی روح سے بے گانہ رہتے ہیں۔ کوئی ندامت کا جذبہ اس جملے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ نہ دل کی دنیا میں شرمندگی کا جوار بھاٹا اٹھتا ہے، اور جواب دہی کے خوف کی برکھا تو کیا برسنی ہے، آنکھوں میں نمی تک نہیں آتی۔ اور دوسرا تضاد یہ ہے کہ لوگوں کے بڑے بڑے گناہوں پہ ہماری نظر رہتی ہے، مگر اپنے گناہ اور نافرمانیاں معمولی لگتی ہیں۔
فکر کرنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ کیا ہم حقوق اللہ،حقوق العباد کی ادایگی میں معیار کا بھی خیال رکھتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نیکی کے معاملے میں کم تر معیار پہ راضی ہونے کی عادت میں مبتلا ہیں اور دنیا کی خواہشات کے لیے معیار اعلیٰ ترین ہے؟ نیکی میں اپنے سے کم معیار کے لوگوں میں میل جول رکھنے کی وجہ سے اپنی معمولی نیکیاں اور کم تر عبادتیں بھی بہت اعلیٰ لگتی ہیں، اور اپنے متقی ہو جانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں :
فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۰ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۳۲ۧ ( النجم۵۳:۳۲) پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے؟
میزان اسی لیے تو رکھی جائے گی کہ دنیا کی چاہت کے پلڑے میں وزن زیادہ ہے یا آخرت کی چاہت میں ؟ دل کی سچی اور کھری چاہت اور نیت پر ہی اعمال کی درجہ بندی کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تلقین کی:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ ۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۱۸(الحشر۵۹:۱۸)، اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو ، اور ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقینا تمھارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
اور اگر مومن اس معیار کا جائزہ لینے سے غافل ہوتا ہے تو نتیجتاً یہ معاملہ سامنے آتا ہے:
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۱۹ (الحشر۵۹:۱۹) ، اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انھیں خود اپنا نفس بھلا دیا، یہی لوگ فاسق ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ:
لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ۰ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۲۰ (الحشر۵۹:۲۰)، دوزخ میں جانے والے اور جنّت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے، جنّت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔
اہل جنت میں شامل ہونے کے لیے آج اور ابھی اپنا بے لاگ احتساب کرنا ہوگا اور کل کے لیے نیکیاں جمع کرنی ہوں گی اور نیکی کا معیار بھی بلند رکھنا ہوگا تاکہ انبیاؑ کی رفاقت نصیب ہو۔
محاسبہ یا احتساب، بہتر سے بہترین کا سفر ہے اور اس سفر کی منزل جنت ہے۔ ایمان بڑھتا ہے تو احتساب کی طلب بھی بڑھتی جاتی ہے اور جب احتساب کی لگن زندگی کی لذت بن جاتی ہے تو ایمان میں اضافہ ہوتا رہتاہے۔ گویا ایمان و احتساب لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان کا پیمانہ وہی ہوگا ،جو احتساب کا ہوگا۔
احتساب خوب سے خوب تر کی تلاش ہے۔ نصب العین کے حصول کی بھرپور کوشش کرتےہوئے جو کمی، کوتاہی ہوجائے اس کا بر وقت تدارک کرنا احتساب ہے۔ جو غلطی ہوجائے اس کو آگے بڑھنے سے پہلے درست کر لینا احتساب ہے، تاکہ جب مالک کے سامنے کام کی رپورٹ پیش کرنے حاضر ہوں تو مالک خوش ہو جائے۔ اس کو قرآنی زبان میں ’تزکیۂ نفس‘ کہتے ہیں اور تمام انبیا ؑ ـ بھی نفوس کے تزکیہ کے لیے مبعوث فرمائے گئے۔
ہمارا ایمان ہے کہ رب کائنات کے حضور پیشی کسی بھی لمحے متوقع ہے اور اس کی نگاہوں سے کسی بھی لمحے ہم اور ہمارے اعمال اوجھل نہیں ہو سکتے۔ اس ربّ کی عظمت کا احساس، اس کی ذات کی پہچان، اس کی رحمت کا عرفان جس قدر دل میں جاگزیں ہوگا، اسی قدر مومن: وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر۵۹:۱۸، ہرنفس یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے) کی حقیقت سے واقف ہوگا۔ اور اس پر ہر لمحے جواب دہی کا خوف غالب رہے گا۔ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔
ایمان کا پہلا محاسبہ یہ ہے کہ توحید کا عرفان ہو۔ ’اللہ ایک ہے‘،یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اس کی ذات پہ ایمان بالغیب کے تقاضے ہر شق اور ہر شرط کے ساتھ پورا کرناہی اس کو ’ایک ماننا ہے‘۔ شرکِ خفی اور شرکِ جلی کا علم درست اور مکمل ہونا چاہیے۔ شرک تو کسی صورت معاف نہیں ہوگا۔ جب افکار و اقوال میں، اعمال و معاملات میں اللہ رب العزت کی ذات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ بھی ہو اور شک و تذبذب بھی موجود ہو،’ دنیا کیا کہے گی‘کا خو ف بھی ہو،روزی کے حصول میں کامیاب ہونے کے لیے ’مروجہ دنیاوی اصول‘ بھی سہارا لگتا ہو، مشکل کشا اللہ کی ذات کو کہنے کے باوجود، ’دست گیری‘ کے لیے غیروں کے در پہ حاضری بھی ہو، توسوچنے کی بات یہ ہے کہ ایمان کی یہ کون سی شکل ہے؟ شرک کم ہو یا زیادہ، یہ ہے وہ زہر جو توحید کو خالص نہیں رہنے دیتا۔ جس طرح زم زم سے بھرے تالاب میں شراب یا پیشاب کا ایک قطرہ بھی مل جائے وہ زم زم نہیں رہتا۔ اسی طرح شرک کا شائبہ بھی توحید کو خالص نہیں رہنے دیتا۔
ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۰۠ (البقرہ ۲:۲۰۸)’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو‘‘ اور الدِّيْنُ الْخَالِصُ (الزمر ۳۹:۳)کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایمان وہی قابل قبول ہے، جو خالص ہو اور ہمہ پہلو مکمل ہو۔ ہم اپنے اقدامات سے ،ذاتی پسند و ناپسند کے معیار سے، خاندان و برادری کے اصولوں کو جانچ سکتے ہیں کہ ہم ایک اللہ کے کتنے فرماں بردار ہیں؟ اس ایک اللہ کے سامنے اپنے ہر عمل کی جواب دہی کا کتنا خوف رکھتےہیں؟
ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم خود اپنے محاسب بنیں اور سوچیں کہ کل اپنے ربّ کے حضور پیش ہوکر زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے کا حساب دینے کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر۵۹:۱۸)’’ہرنفس یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘‘ کی تلقین سراسر ہمیں بہتر سے بہترین کی طرف راغب کرنا ہے۔ اس دن جب ذرہ برابر نیکی اور بدی سامنے لائی جائے گی اور کسی پہ ظلم نہ کیا جائے گا۔جب حکم ہوگا:
اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا۱۴ۭ ( بنی اسرائیل ۱۷:۱۴) پڑھ اپنا نامۂ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔
اس دن کی شرمندگی کو ذہن میں رکھنا بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ذات کو ایک اور حاضر و ناظر ماننا ہے۔ دنیا کے انسانوں کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنا، دراصل اللہ کی ذات کو بھلا دینا ہے۔ جو دنیا کی خاطر اللہ کو بھلا دیتا ہے تو پھر اللہ بھی اسے بھلا دیتا ہے، اور اللہ کا کسی کو بھلا دینا یہ ہے کہ اس سے اپنی حالت بہتر کرنے کا احساس چھین لیا جائے اور اس کے لیے ہدایت کے راستے بند ہو جائیں۔
رمضان المبارک قرآن کا مہینہ ہے۔ اس میں اپنا تعلق قرآن پاک سے جوڑنے کے لیے سب سے پہلے اپنی اب تک کی غفلت کی معافی طلب کی جائے۔ قرآن پاک کے ساتھ دل کا رشتہ بنانے کے لیے اللہ کے حضور دعا کی جائے کہ وہ ہمارے دلوں کے قفل کھول دے۔ ہمارے لیے وسائل مہیا کرے اور اس کی تعلیم آسان فرمائے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایک آیت سیکھنے کا عمل شروع کیا جائے۔ راستہ منتخب کر لیا جائے تو راہیں آسان ہو جاتی ہیں ۔ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷ (القمر ۵۴:۱۷) ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘‘
اپنے گھر، کالونی، ادارے،دفتر، بازار، غرض ہر مقام پہ کوئی وقت’ قرآنی وقت‘ بھی مقرر ہونا چاہیے۔ اس وقت کے دوران روزانہ ایک آیت یا ایک موضوع پہ فہم قرآن کا سلسلہ ہو۔ قرآنی ما حول بنایا جائے۔ اپنی اولاد کو قرآن کے سایے میں پرورش کرنے کی شروع دن سے کوشش کی جائے۔ اس کی عظمت، اہمیت اور ضرورت کو دنیاوی تعلیم سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ ہماری نجات صرف حاملِ قرآن ہونے میں نہیں بلکہ اس کے ساتھ عاملِ قرآن ہونے میں ہے۔
آئیےاللہ رب العزت کے حضور دل کی گہرائیوں سے التجا کریں کہ وہ قرآن کو ہماری آنکھوں کا نور،دل کی بہار ،قبر کی وحشتوں کا ساتھی اور دستورِزندگی بنا دے۔ ہمیں ایسا مومن بنا دے جوچلتا پھرتا قرآن کا مظہر ہو۔ اُمت مسلمہ اللہ کی رسی کو تھام لے اور عروج اس کا مقدر ہو جائے۔ آمین!
رمضان المبارک میں مغفرت اور جنت کی بشارت اُن روزے داروں کے لیے ہے، جنھوں نے ’ایمان اور احتساب‘ کے ساتھ روزے رکھے۔ ایمان جتنا مضبوط اور خالص ہوگا مومن کے باطنی شعور میں اللہ رب العالمين کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس بھی اسی قدر زندہ رہے گا۔ اور جس کو رب کے سامنے جواب دہی کا خیال رہتا ہو وہ اپنا محاسبہ کرنے سے غافل نہیں ہو سکتا۔ محاسبہ کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ رب العزت کی نظر میں کیا پسندیدہ ہے اور کیا ناپسندیدہ۔ اس کے لیے قرآن مجید کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔
اللہ ربّ العرش نے قرآن پاک اور اپنے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے ہر چیز کی وضاحت کر دی ہے۔ وہ سب سوال اور ان کے جواب بتا دیے ہیں، جو بندوں سے پوچھے جائیں گے۔ قرآن مجید میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی مکمل تفصیلات موجود ہیں۔ حقوق اللہ کے بارے میں ہمارا کیا رویہ ہے؟ ایمانیات اور عبادات میں کہاں کہاں جھول ہے؟ اس پر ہمیںسوچنا اور غوروفکر کرنا ہے۔ بندے پہ کوشش کرنا اور خالص نیت رکھنا واجب ہے۔
ایمان لانے کا تقاضا شکر کرنا ہے اور یہی اللہ کا حق ہے۔ جو شکر گزار ہوگا، لازماً وہ ایمان کی دولت سے مالا مال بھی ہوپائے گا۔گویا ایمان اور شکر گزاری ایک دوسرے کا جزو ہیں۔ شیطان کو اسی بات کا بہت اچھی طرح ادراک ہے۔ اسی لیے اس نے رب العزت کی بارگاہ میں یہ اظہار کر دیا تھا کہ ’تو ان میں سے کم لوگوں کو ہی شکر گزار پائے گا‘ اور خود رب العالمین نےفرمایا: وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ۱۳ (السبا۳۴:۱۳)’’میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں‘‘۔ شکرگزار وہ خاص بندے ہیں جو اللہ رب العرش الکريم کی نظروں میں خاص مقام رکھتے ہیں، جب کہ خاص مقام تک وہی پہنچ پاتا ہے، جو خاص خوبیوں کا مالک ہو۔ اپنے آقا کی مہربانیوں کو پہچانتا ہو،تسلیم کرتا ہو، شکرگزار ہو،اور شکرگزار ہونے کا ثبوت فرماں بردار ی کی صورت میں دیتا ہو۔ شکرگزار بندہ ہی شیطان کے پھیلائے ہوئے جال کو بروقت پہچان لیتا ہے اور اس سے بچ نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو باور کرایا کہ’میرے بندوں پہ تیرا کوئی زور نہیں چل سکے گا‘۔
اب اپنے ایمان کا احتساب ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم شیطان کے قول: وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِيْنَ (الاعراف ۷:۱۷، اور تُو اُن میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا)کو سچ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یا اپنے رب کے قول: وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ۱۳ (السبا ۳۴:۱۳، میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں) پر پورا اُترنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان بندوں میں شامل ہوکر کامیاب ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ نے شیطان کو باور کرایا کہ ’’میرے بندوں پہ تیرا کوئی زور نہیں چل سکے گا‘‘۔ ہم اپنے محاسب خود ہی ہو سکتے ہیں کہ کیا ہم اس قابل ہیں کہ اللہ ہم سے ’میرا بندہ‘کہہ کر مخاطب ہو؟ اور اپنی خاص رحمت کی چھتری تلے ہمیں پناہ عطا کر دے۔
رب العالمین کی طرف سے ’میرا بندہ‘ والی پیار بھری پکار سننے کے لیے ہمیں اس کا شکر گزار بندہ بننا ہوگا۔ہر نافرمانی، دراصل ناشکری کا مظہر ہے اور ہر ناشکری کا فطری نتیجہ نافرمانی ہے۔اس لیے نافرمانی سے بچنے کی شعوری کوشش کرنا ہوگی۔اللہ کے بندوں کا ہر وقت گلہ شکوہ کرنے والے بھی اللہ کے شکرگزار نہیں ہوسکتے۔ جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔ اپنے متعلقین کے ساتھ ہر وقت گلے شکوے کرنے سے نہ خود کو خوش اور مطمئن رکھا جا سکتا ہے۔
دنیاوی لحاظ سے اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھنا ہوگا اور تقویٰ کے لحاظ سے اپنے سے بہتر لوگوں میں رہنا ہوگا۔اللہ رب العزت کی عطاکردہ نعمتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہوگا۔ اور یاد رکھنا ہوگا کہ نعمتوں کا غلط استعمال بھی ناشکر گزاری ہی ہوتا ہے، اور ایسے لوگ اللہ کے پسندیدہ نہیں ہوتے۔
قرآن پاک میںمتعدد مقام پہ ایسی بستیوں اور افراد کا ذکر ہے، جنھوں نے ناشکر گزاری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی خوش حالی کو بد حالی میں بدل دیا:
وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۷(ابراہیم ۱۴:۷) اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
اے اللہ، ہمیں اپنے بندوں کا بھی شکر گزار رہنا سکھا دے اور ہمیں ان قلیل خاص شکر گزار بندوں میں شامل فرمالے، جو تیرے خاص بندے ہیں اور جن پہ شیطان کا زور نہیں چل سکتا۔آمین !
صبر کے مختلف پہلو ہیں: اپنے نفس کو نیکی پہ مائل کرنا، اس پہ اسقامت دکھانا ،نیکی کو اعلیٰ معیار پہ لانے کی سعی کرنا، سب صبر کے مختلف مظاہر ہیں۔عمل صالح کرنے کے لیے قدم بڑھانے کے دوران ، اپنے نفسِ امارہ کو سر کشی سے روکنا بھی صبر کا متقاضی ہے۔ نیکی کرنے کے لیے نفس پہ جبر کرنا پڑتا ہے تو برائی چھوڑنے کے لیے بھی نفس پہ ضبط کرنا پڑتا ہے۔دونوں صورتوں میں صابر بنے بغیر چارہ نہیں ہے۔
بندوں کو اللہ تعالیٰ نے مسابقت کے جس میدان میں اتارا ہے وہ: فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ (البقرہ ۲:۱۴۸،پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو) ہے۔ اس میں سرعت سے آگے بڑھنے کی تلقین ہے۔ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۰ۭ(الملک ۶۷:۲، تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے) کے معیار پہ پورا اُترنا، صبر و استقامت کا متقاضی ہے۔
بندوں میں حقوق و فرائض کی مساویانہ تقسیم سے دنیا میں معاشرتی امن وسکون کا توازن برقرار رہتا ہے، اور اس توازن کو بر قرار رکھنا سب انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ عدم توازن اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب حقوق لینا مقصدِ زندگی بن جائے اور فرائض سے پہلو تہی کی جائے۔
اسلامی معاشرے میں بندوں کی ایمانی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا حق لینے سے زیادہ فرض نبھانے میں دل چسپی رکھتے ہیں،یعنی وسعتِ قلبی، مومن کی شان ہے۔ تنگیِ نفس ہر رشتے کی چاشنی چاٹ جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے کی جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے :
وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۰ۭۣ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۹ۚ (الحشر۵۹:۹) اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
رمضان کے دوران خصوصاً طاق راتوں میں اپنے نفس کا جائزہ لیا جائے کہ حقوق و فرائض کے معاملے میں ہم اپنے نفس کو کہاں پاتے ہیں؟ تنگیِ نفس نے کتنی کا میابیوں کو ناکامیوں میں بدل دیا ہے؟ طمع ولالچ نے دل کو کتنا ویران کر رکھا ہے؟ رشتوں کی مٹھاس تنگ دلی کے سبب کس قدر کڑواہٹ میں بدل گئی ہے؟ ضد، ہٹ دھرمی اور انا کی تسکین کے لیے کتنے جنجال پال رکھے ہیں؟ حسد،غیظ و غضب کی آندھی نے محبتوں کے کتنے چراغ گل کر دیے ہیں؟ دوسروں پہ بہتان، الزام لگا کر کتنے دل توڑنے کا گناہ سرزد ہوا ہے؟ اپنے ’نفس امارہ‘ کو ’نفس مطمئنہ‘ بنانے کے لیےاپنے قصوروں کا اعتراف کرنا ،بندوں سے معافی مانگنا ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف فرمائے۔
انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ خطا کا پتلا ہے۔ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ خطایا بھول چوک کی بازپُرس نہیں ہوگی۔ خطا وہ عمل ہے جو نیت اور ارادے کے بغیر اتفاقاً ہوجائے، جیسے چلتے چلتے کسی کے پاؤں پہ پاؤں آجائے یا ٹھوکر لگ جائے،ہاتھ سے کوئی چیز چھوٹ کر ٹوٹ جائے، کچھ رقم وغیرہ گننے میں غلطی ہو جائے۔ اس میں ایک اور چیز ہوتی ہے ’اشتباہ‘، یعنی کسی کام یا چیز میں شبہہ ہو جائے، جیسے ایک جیسی چیزوں میں سے کسی کی چیز اپنی سمجھ کر اٹھالی، وغیرہ۔
دوسرا معاملہ ’نسیان‘ ہے، یعنی بھول جانا، نماز پڑھتے ہوئے کچھ عمل بھول جانا یا شبہہ ہونا۔ بھول کر روزے میں کچھ کھا لینا، کسی کام کا یاد سے محو ہوجانا، ذہن سے نکل جانا ، یا بھول جانا، وغیرہ۔ نسیان اور خطا یا اشتباہ کی بنیاد پہ کوئی بھی عمل قابل گرفت نہیں ہوتا۔ ان کے لیے بھی دعا سکھائی گئی ہے:
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ج (البقرہ۲:۲۸۶) اے ہمارے ربّ، ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں، ان پر گرفت نہ کر۔
لوگوں کو تکلیف ان جانے میں پہنچنے پہ ان سے معذرت کرنا ضروری ہے اور عذر قبول کرنا بھی اخلاق حسنہ ہے۔
دل میں آنے والے منفی خیالات بھی قابل گرفت نہیں، اِلّا یہ کہ زبان سے اظہار ہو یا عمل میں لے آیا جائے۔
انسانوں کے بے شمار نا پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ اپنی رحمت ِواسعہ کی نسبت سے معاف کرتا رہتا ہے۔ اگر اللہ ہر ناپسندیدہ عمل پہ گرفت کرتا تو کوئی جاندار زندہ رہنے کا حق دار نہ ہوتا۔ یہ اللہ کا بندوں پہ کرم ہے کہ وہ: وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ(المائدہ ۵:۱۵)، یعنی بہت سی باتوں سے درگزر کرجانے کا معاملہ کرتا ہے۔
نسیان،خطا یا دل کے خیالات پہ انسان ضمیر میں خلش محسوس کرتا ہے، مگر ویسی شدید خلش محسوس نہیں کرتا جو گناہ سرزد ہونے پہ ہوتی ہے۔گناہ وہی ہے جس کے ظاہر ہوجا نے پہ انسان کو رسوائی کا ڈر ہو۔اور جسے ہم معاشرے سے ، والدین، بہن بھائیوں سے چھپاتے ہیں۔ میاں یا بیوی ایک دوسرے سے اپنے غیر اخلاقی کام چھپائیں تو وہ حق تلفی کے ساتھ گناہ ہے۔ انسان کتنا نادان ہے! اپنے جیسے لوگوں سے چھپاتا ہے اور وہ جو علیم بذات الصدور ہے اس کے سامنے حاضر ہونے اور حساب دینے سے نہیں ڈرتا۔وہ جو ذرہ برابر نیکی اور برائی کو سامنے لے آئے گا۔
بعض اوقات ’نسیان‘ کے پیچھے اللہ کی حکمت کارفرما ہوتی ہے، اور کبھی شیطانی اثرات ہوتے ہیں۔ خطا اور نسیان کے بعد جو قابلِ مواخذہ اعمال ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود پامال کرنے والے اعمال ہیں۔ ان میں کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کی تقسیم خود قرآن نے کی ہے ۔مثال کے طور پر قرآن میں بیان ہوتا ہے: ’’جن بڑے بڑے گناہ کے کاموں سے تمھیں منع کیا گیا ہے اگر تم ان سے بچتے رہے تو ہم تمھاری (چھوٹی موٹی) برائیوں کو تم سے (تمھارے حساب سے) محو کردیں گے اور تمھیں عزت کی جگہ داخل کریں گے‘‘(النساء۴: ۳۱)۔ ایک اور مقام پر کبیرہ گناہوں کا ذکر آتا ہے:’’اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب انھیں غصہ آئے تو معاف کردیتے ہیں‘‘(الشوریٰ ۴۲:۳۷)۔ان آیاتِ مبارکہ سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کی تفریق موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہیں تو چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو اللہ معاف کردیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں میں فرق کیا ہے اور کس گناہ کو کبیرہ اور کسے چھوٹا سمجھا جائے؟یہ ایک مشکل سوال ہے اور اس پر مختلف علما کی مختلف راے ہے۔ کچھ علما گناہوں میں اس تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر گناہ اللہ کی معصیت اور نافرمانی ہے اور یہ نافرمانی چونکہ ایک عظیم ہستی کے حکم کی ہے، اس لیے ہر گناہ، کبیرہ گناہ ہی ہے۔ اصول کے اعتبار سے یہ بات درست ہے لیکن عملی طور پر صحیح نہیں۔ اس کی دلیل خود قرآن کی اُوپر بیان کردہ آیات ہیں۔
یہی اصول اس حدیث میں بھی بیان ہوا ہے۔ حضرت سعید بن عاص سےمروی ہے کہ مسلمان فرض صلوٰۃ کا وقت پائے اور اچھی طرح وضو کرے اور خشوع وخضوع سے صلوٰۃ ادا کرے تو وہ نماز اس کے تمام پچھلے گناہوں کے لیے کفّارہ ہو جائے گی، بشرطیکہ اس سے کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو اور یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہے گا( مسلم،جلد اول،حدیث :۵۴۳)۔اس کا مطلب ہے صغیرہ گناہ وہ ہیں، جو یا تو اللہ تعالیٰ خود ہی معاف کردیتا ہے یا پھر وہ عام نیکیوں سے مٹ جاتے ہیں ۔لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک گناہ اگر چھوٹا ہے لیکن اس پر اصرار کیا جارہا ہے یا اس کے کرنے کی نیت اللہ سے بغاوت یا دین کا مذاق اڑانا ہے، تو وہ کبیرہ گناہ میں بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص بار بار کسی نامحرم کو دیکھ کر لذت حاصل کررہا ہے اور وہ گناہ کو چھوڑنے کی کوئی کوشش نہیں کررہا، تو یہ عمل گناہ کبیرہ میں بدل جاتا ہے: رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۱۹۳ۚ (اٰل عمرٰن۳:۱۹۳) ’’اے ہمارے آقا، جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو بُرائیاں ہم میں ہیں انھیں دُور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر‘‘۔
رمضان المبارک کی ساعتیں ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ایمان اور احتساب کے ساتھ وقت گزاریں اور شب قدر کی تلاش کریں اور جو مسنون اور قرآنی دعائیں ہیں ان کو دل کی گہرائیوں سے کریں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کی بد بختی کی نشان دہی کی ہے، جو رمضان المبارک کو پائے اور اللہ رب العالمين سے اپنے گناہوں کی بخشش نہ کروا سکے۔اسی بدبختی اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی ناراضی سے بچنے کے لیے ہر مسلمان کو بھر پور محنت اور کوشش پوری لگن کے ساتھ کرنی چاہیے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَـنِّیْ ، خدایا! تو بہت ہی زیادہ معاف فرمانے والا ہے کیوں کہ معاف کرنا تجھے پسند ہے، پس تو مجھے معاف فرما دے۔
انسانی تاریخ کے ہر دور میں علوم و فنون کا، مذہب اور اخلاقیات کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔عصرِحاضر کے مسائل کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اس دور میں یہ رشتہ بے وقعت ہوکر رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جدید مغربی زندگی کی پوری عمارت سیکولر طرزِ فکر کی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ جدیدیت کے نظریہ سازوں کے نزدیک: ’’مذہبی اور اخلاقی تصورات کا نہ صرف سائنس اور علوم و فنون سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ تصورات علمی ترقی اور سماجی زندگی کی راہ میں رکاوٹ تھے‘‘۔ چنانچہ اس بات کی سنجیدہ کوشش کی گئی کہ خاص طور پر سائنسی اور ٹکنالوجیکل تحقیقات ہرطرح کے اخلاقی اثر سے آزاد ہوکر کی جائیں۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جدید ٹکنالوجی نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس وقت اس کے سامنے کوئی اخلاقی نصب العین نہیں تھا۔ پھر جدید مغربی تہذیب کے سامنے ایک اہم ہدف ’فطرت سے جنگ‘، یا ’فطرت پر فتح‘ کا حصول تھا۔ وہ انسان کی کامیابی کا کمال یہ سمجھتے رہے کہ فطرت کی تمام طاقتوں پر انسان کو مکمل کنٹرول حاصل ہوجائے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ ٹکنالوجی فطرت سے ہم آہنگ نہیں رہ سکی۔ پھر دوسرا بڑا سانحہ یہ ہوا کہ اخلاقی تصورات سے آزاد ہوجانے کے بعد سائنس و ٹکنالوجی عملاً ’غیرجانب دار‘ (neutral) نہیں رہ سکی بلکہ تجارتی، سیاسی اور فوجی مفادات کے تابع ہوگئی۔
اس صورتِ حال نے درج ذیل شدید نقصانات سے عالمِ انسانیت کو دوچار کر دیا:
اس پس منظر نے ساری دنیا میں ’ٹکنالوجی کی اخلاقیات‘ (Techno-ethics) کا سوال پوری شدت کے ساتھ کھڑا کیا ہے۔ دو تین صدیوں کے تجربات کے بعد دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ: ’’ٹکنالوجی اور سائنس و اطلاقی سائنس پر بھی کچھ اخلاقی بندشیں عائد ہونی چاہییں‘‘۔ یہ سوال کہ ’’کس ٹکنالوجی کی ایجاد ہونی چاہیے یا نہیں؟‘‘ یہ بھی اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر ہی طے ہونا چاہیے، اور: ’’جب کوئی ٹکنالوجی ایجاد ہوجائے، تو اس کا استعمال کن مقاصد کے لیے ہونا چاہیے اور کن مقاصد کے لیے نہیں؟‘‘، اس کا مناسب جواب بھی اخلاقی ضابطوں میں موجود رہنا چاہیے۔
دیر سے سہی، لیکن اب ’ٹکنالوجی کی اخلاقیات‘ ساری دنیا میں ایک اہم ڈسپلن کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ ٹکنالوجی سے متعلق کانفرنسوں اور علمی مباحث میں یہ مسئلہ اب اہم موضوع بنتا جارہا ہے۔ حکومتیں اس کی بنیاد پر ضابطہ بندیاں کر رہی ہیں اور تعلیم گاہوں میں ٹکنالوجی کے ہرکورس کا یہ لازمی حصہ بن رہا ہے۔
ٹکنالوجی کی اخلاقیات کا تعین کرتے ہوئے ، اسلام کے درج ذیل اہم تصورات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی تصورات ، ٹکنالوجی کے بارے میں اسلامی اخلاقیات کی تشکیل کے لیے بنیاد کا کام کرتے ہیں اور دنیا بھر کو رہنمائی دیتے ہیں:
ان اصولوں کے اطلاق سے ٹکنالوجی کے لیے جو رہنما اصول وضع ہوتے ہیں، انھیں درج ذیل نکات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
یہاں گنتی کی چند مثالیں دی گئی ہیں۔ ان مثالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی معاملات میں اسلامی اخلاقیات، ٹکنالوجی کی اخلاقیات سے متعلق ان تصورات سے ہم آہنگ ہے، جو اس وقت دنیا میں رائج ہیں یا جن پر بڑی حد تک اتفاق راے پایا جاتا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ اسلام کے اپنے اخلاقی تصورات بھی ہیں۔ بہت سی ٹکنالوجیز ایسی ہیں جن میں موجودہ غالب قوتیں کوئی اخلاقی خرابی محسوس نہیں کرتیں لیکن اسلام کے نزدیک وہ سخت معیوب ہیں۔
اہلِ اسلام کی یہ ذمے داری ہے کہ اس وقت، جب کہ ساری دنیا میں ٹکنالوجی کی اخلاقیات (ٹیکنوایتھکس) کا موضوع زیربحث ہے، وہ اس بحث میں آگے بڑھ کر حصہ لیں۔ اسلامی فکرونظر کے حامل ماہرین ٹکنالوجی کی جہاں یہ ذمے داری ہے کہ وہ اخلاقی لحاظ سے نامناسب یا نقصان دہ ٹکنالوجیز کی روک تھام کریں، وہیں اسلام کے ان اخلاقی اصولوں کا تقاضا یہ بھی ہے کہ بہتر اور مفید تر ٹکنالوجیز فروغ دی جائیں۔
یہ اہلِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ٹکنالوجیز کو فروغ دیں، جو اسلام کے مقاصد کے مطابق، مثلاً ظلم و استحصال کو کم کرنے والی اور مساوات کو فروغ دینے والی ہوں۔ غریبوں کے صحت کے مسائل کو آج بھی وہ اہمیت نہیں مل سکی ہے کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔ ایسی ٹکنالوجیز جن کے ذریعے حکومتوں کا کام زیادہ شفاف ہوجائے یا ظالم کے لیے ظلم کرنا مشکل ہوجائے، ابھی صرف ناولوں ہی میں پائی جاتی ہیں۔ وہ ٹکنالوجیز جو کم قیمت پر غریبوں کی دیہی زندگی کو آسان بنائیں اور دیہی معیشت کے لیے سہولتیں پیدا کریں یا کم قیمت پر صاف پانی، اور آسان اور ارزاں توانائی فراہم کریں، یا جو اُن حادثوں اور آفات سے حفاظت کی ضمانت دے سکیں، جو عام غریب انسانوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کا سبب بنتے ہیں، یہ سب خواب ہنوز تکمیل طلب ہیں اور اہلِ اسلام کی فکرمندی اور اقدام کے منتظر ہیں۔
گذشتہ صدی کے آخری حصے میں جرمن فلسفی ارنسٹ فریڈرک شومیکر [۱۹۱۱ء-۱۹۷۷ء]نے ’موزوں طرزیات‘ (Appropriate Technologies) کی تحریک شروع کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ: ’’اگر ٹکنالوجی کے ماہرین صرف بڑے سرمایہ دار آقائوں کی خدمت کرنے کے بجاے عام آدمی کی ضرورتوں کے بارے میں سوچیں، تو دنیا کے اربوں غریب عوام کی زندگیوں کو نہایت آسان اور سہولت بخش بنایا جاسکتا ہے، اور اُن سب مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے، جن کی وجہ سے تیسری دنیا کے غریب لوگ سخت مصیبتیں جھیل رہے ہیں‘‘۔ یہ تصورات بلاشبہہ اسلام کی پیش کردہ اخلاقیات سے ہم آہنگ ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے، اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انھوں نے ایک پریشان حال قوم کا ایک پیچیدہ مسئلہ حل کیا تھا اور ایسی دیوار تعمیر کر دی تھی جس سے قوم، یاجوج ماجوج کے شر سے محفوظ ہوگئی۔ اس واقعے کا اہم پہلو یہ ہے کہ ذوالقرنین نے افرادی قوت اسی قوم کی استعمال کی تھی: فَاَعِیْنُونِی بِقُوَّۃِ اجْعَلْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ رَدْمًا [الکہف ۱۸:۹۵] ’’تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمھارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں‘‘۔ اس قوم نے وسائل بھی بہم پہنچانے کی پیش کش کی تھی، لیکن ذوالقرنین نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے پاس وسائل اور افرادی قوت موجود تھی لیکن وہ اِس فن سے واقف نہ تھی اور ذوالقرنین کے پاس آئیڈیا اور ٹکنالوجی تھی جس کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے اس قوم کا مسئلہ حل کر دیا۔ ٹکنالوجی کی اسلامی اخلاقیات پر بحث، صرف ممنوعات کی فہرست تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ مطلوب اور مفید ٹکنالوجیز کے فروغ اور ان کے ذریعے انسانی مسائل کے حل کا یہ ذوالقرنینی کردار، اس بحث کا اہم حصہ بننا چاہیے۔
ہرتہذیب اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اختراع و ایجاد کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ کسی بھی تہذیب کا محل صرف مانگے کے چراغوں سے روشن نہیں ہوسکتا۔ اسلامی حدود میں فلم سازی، ٹی وی اور انٹرنیٹ کا استعمال، آج ہم کرنا چاہیں تو ضرور کریں، لیکن یہ نہ بھولیں کہ یہ سب اُس مخصوص تہذیب کی پیداوار ہیں، جو بے مقصد تفریح پر حد سے زیادہ اصرار کرتی ہے۔ جدید مغربی تہذیب کو ناچ گانے اور بے مقصد تفریحات سے جو دل چسپی ہے، اسی کے نتیجے میں آج دسیوں ٹکنالوجیز وجود میں آئی ہیں۔ شاید یہ ٹکنالوجی اسلامی تہذیب کے زیرسایہ وجود میں نہیں آتیں۔
لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسی بہت سی ٹکنالوجیز ہوسکتی ہیں، جو اسلامی تہذیب کی ضرورت ہوتیں اور چوںکہ مسلمان کئی صدیوں سے ٹکنالوجی میں پیچھے ہیں، اس لیے وہ وجود میں ہی نہیں آئیں۔ اسلام کے تہذیبی مقاصد اس کے اپنے تہذیبی ذرائع چاہتے ہیں، اور ان ذرائع کی کھوج، ذہانت اور اُپج اور اختراعی صلاحیتوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو اسلام کے بھی مزاج شناس ہوں اور ٹکنالوجی بھی جانتے ہوں۔ ایسے لوگ تقلید جامد کی فضا سے نکل کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں تو ایسی سیکڑوں نئی چیزیں، نئے فنون اور نئی ٹکنالوجیز ایجاد ہوسکتی ہیں، جو اسلام کے تہذیبی مقاصد کی تکمیل بھی کریں اور اس کے مزاج سے ہم آہنگ بھی ہوں۔ بلاشبہہ یہ ٹکنالوجی کی اسلامی اخلاقیات کا اہم تقاضا ہے۔
صہیونیت، عیسائیت ، اشتراکیت اور اباحیت پسند وغیرہ، جس قدر حسن البنا [شہادت: ۱۲فروری ۱۹۴۹ء] اور اخوان المسلمون سے دشمنی رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ حسن البنا اور اخوان اس علاقے میں اشتراکیت کی یلغار کو روکنے کی صلاحیت رکھتے، عیسائی اور صہیونی سامراجیت کے لیے بھی خطرہ تصور کیے جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ دینی تعلیمات کو محض علم کی حد تک نہیں پڑھتے بلکہ ان پر عمل کرنے کا بھی درس دیتے ہیں۔ وہ ہرفوجی اور فکری حملے کے زہریلے اثرات و نتائج سے قوم کو نجات دلانا چاہتے ہیں۔ ان کی حد درجہ کوشش ہے کہ اُمت مسلمہ کے افراد ایمان اور عمل سے سرشار ہوں، حُریت و آزادی سے مستفید ہوں اور انسانیت بحیثیت مجموعی اپنے بنیادی حقوق حاصل کرسکے۔ اخوان اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتے کہ مسلمان صدقات و خیرات کے سہارے اور بیرونی امداد کی آس پر زندہ رہیں، حالاں کہ مسلم ممالک میں ہرچیز اتنی وافر مقدار میں میسر ہے کہ اگر منصفانہ تقسیم کی جائے تو سب لوگوں کی ضروریات بطریق احسن پوری ہوسکتی ہیں۔ اخوان کی یہ خواہش ہے کہ ان کے اور ان کے حکمرانوں کے درمیان تعلقات باہمی محبت، عدل و انصاف اور احترام کی بنیادوں پر استوار ہوں۔
امام حسن البنا شہیدؒ نے ہمیں یہ تعلیم دی تھی کہ حکمرانوں کے رعایا پر حقوق ہیں، مثلاً ان کی بات سننا اور اگر وہ اللہ کی معصیت پر مبنی نہ ہو، تو اطاعت کرنا۔ اسی طرح اُنھوں نے ہمیں یہ بھی سکھایا تھا کہ حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ عدل وا نصاف سے حکومت کریں اور ظلم و تشدد کی پالیسی اختیار نہ کریں۔
سیّدنا عمرؓ بن خطاب کو اپنے بھائی زید بن خطاب کا قاتل دیکھ کر دُکھ ہوتا تھا۔ قاتل جب مسلمان ہوگیا، تو اس نے حضرت عمرؓ سے پوچھا: ’’امیرالمومنین! میرے بارے میں آپ کی قلبی کیفیت اور احساسات مجھے میرے کسی حق سے محروم تو نہ کردیں گے؟‘‘
آپ نے جواب دیا: ’’ہرگز نہیں‘‘۔
اسی واقعے کی روشنی میں مُرشد عام نے ہمیں بتایا تھا کہ حکمرانوں کے جذبات، محبت و کراہت، کسی شخص کو اس کے شرعی حقوق سے کسی صورت میں بھی محروم نہیں کرسکتے۔ میری نظر سے ایک حدیث گزری ہے ،جس کی ثقاہت کی تحقیق تو میں نہیں کرسکا، مگر اس کا مفہوم یہ ہے: ’’جس شخص نے سلطانِ عادل کی تذلیل کی اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی‘‘۔
اس طرح حسن البنا ؒنہ تو دہشت پسند تھے اور نہ نام نہاد انقلابی، بلکہ وہ بنیادی طور پر داعیِ حق اور مصلح تھے۔ وہ جہاں کہیں جاتے اور جس کسی سے بھی ملتے، محبت اور امن و آشتی کی تلقین کرتے، مگر مصیبت یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بعض ذمہ داران اس حقیقت سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور اخوان المسلمون سے لڑائی اور دشمنی پر اُتر آتے ہیں۔ ان کو یہ بدظنی لاحق ہے کہ حکومت و سلطنت میں اخوان ان کے مدمقابل ہیں اور ان کا تختہ اُلٹ کر ان سے زمامِ اقتدار چھین لیںگے۔ حالاں کہ امرواقعہ یہ ہے کہ اخوان کا مطمح نظر اصلاح اور حالات کی بہتری ہے:
اَیُّھَا الْمُنْکِحُ الثُّـرَیَّـا سُھَیْلًا
حَسْبُکَ اللہُ کَیْفَ یَلْتَقِیَانِ
ھِیَ اِذَا مَا اسْتَھَلَّتْ شَامِیَۃْ
وَھُوَ اِذَا مَا اسْتَھَلَّ یَمَانِ
[اے ثریا ستارے اور سہیل ستارے کے درمیان ملاپ کرانے والے، تجھے اللہ عقل دے، یہ کیسے ممکن ہے؟ ثریا کے طلوع کو لوگ نحوست کی علامت قرار دیتے ہیں اور سہیل کا طلوع ہونابرکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔]
کیمپ ڈیوڈ کا سمجھوتہ [۱۷؍ستمبر ۱۹۷۸ء] اگرچہ امام البناؒ کی شہادت کے تقریباً ۳۰سال بعد عمل میں آیا، مگر امام کے تذکرے کے دوران مناسب سمجھتا ہوں کہ اس سمجھوتے کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ اس سمجھوتے کے بارے میں اخوان کا مؤقف اور اسے رد کرنے کی پالیسی اس سیاسی تربیت کی وجہ سے ہے، جو اسلامی عقیدے کی بنیاد پر امام نے ہمیں دی کہ: اسلام دین بھی ہے اور حکومت بھی۔
ارضِ فلسطین پر ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام [۱۴مئی ۱۹۴۸ء]کی منازل سے جو شخص باخبر ہے، اُسے یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہونی چاہیے کہ اس ریاست کا قیام فی الحقیقت عالمِ اسلام کی محکومی کے لیے عمل میں لایا گیا۔ جو شخص اسرائیلی ریاست کے بارے میں اس سے کچھ بھی مختلف گمان رکھتاہے، گویا وہ اس فرد کی مانند ہے، جو آگ کو اس وقت تک محسوس نہیں کرسکتا جب تک کہ یہ اس کے لباس کو جلاکر اس کے جسم تک نہ آپہنچے۔ اگر محض یہودیوں کے لیے ریاست قائم کرنا ہی مقصود ہوتاتو افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا میں کئی وسیع علاقے موجود تھے،جہاں اس غیرفطری ریاست کی پیدایش کے لیے مناسب ماحول میسر آسکتا تھا۔ تاہم جس سازش اور گہری منصوبہ بندی سے اس ریاست کی تخلیق کے لیے یہ خطہ چُنا گیا، اس کا ایک خاص مقصد ہے۔ چنانچہ اس علاقے میں جہاں اسلام کا وجود بہت قدیم ہے۔ اس ریاست کے ذریعے گھنائونے اور اسلام سے دشمنی پر مبنی مقاصد پورے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انگلستان نے اپنے سامراجی قبضے کے دوران میں یہودیوں کو مختلف ممالک سے فلسطین منتقل کرنا شروع کیا، اور ان کو مسلح کر کے یہاں مقیم بنا دیا۔ دوسری طرف سخت قوانین جاری کرکے فلسطینی آبادی کو اسلحے سے بالکل محروم کر دیا گیا، یہاں تک کہ سبزی کاٹنے کی چھری رکھنا بھی فلسطینیوں کے لیے جرم قرار پایا۔
یہودیوں نے ایک بڑی سامراجی سلطنت انگلستان کی سرپرستی میں پر پُرزے نکالنے شروع کیے اور فلسطینیوں کی دفاعی تحریک کے مقابلے میں سلطنت برطانیہ کی حمایت کا سہارالیا۔ فلسطینی تحریک آزادی بھی اخوان مجاہدین کی مدد اور تعاون سے اپنے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل رہی۔ اے کاش! کہ ہم اس حقیقت کو سمجھ سکیں اور اے کاش! کہ مسلم اور عرب ممالک کے اربابِ حل و عقد آنکھیں کھول کر دیکھ سکیں ،کہ عیسائی، کمیونسٹ اور صہیونی طاقتوں نے ان کے قدموں کے نیچے اپنی سازشوں کے جال پھیلائے ہوئے ہیں اور مہلک گڑھے کھود رکھے ہیں۔ اے کاش! کہ وہ ان گہرے گڑھوں کو دیکھ سکیں، جو خود ان کے لیے اور ان کی اقوام کے لیے دشمنوں نے تیار کیے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران طبقے اپنی سادہ لوحی بلکہ حماقت سے انھیں اپنا دوست سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ حقیقت میں بدترین دشمن ہیں۔
مجھے اس بات میں ذرّہ برابر شک نہیں ہے کہ عالمِ اسلام اور عرب دنیا کے تمام حکمران اُوپر بیان کردہ تلخ اور خطرناک حقائق سے باخبر ہیں، بلکہ شاید وہ ہم سے بھی زیادہ ان چیزوں کا علم رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا عمل دیکھ کر مَیں حیرت اور تلخی میں ڈوب جاتا ہوں کہ ان حقائق سے اُنھوں نے کیوں آنکھیں بند کر رکھی ہیں؟
صہیونی طریق کار یہ ہے کہ ہم سب کو قائل کرلیںکہ: ’’اب ریاست اسرائیل تو اس خطے میں قائم ہوچکی ہے اور اس کا خاتمہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر جوں ہی ہم مسلمان اس جال میں پھنس کر اسرائیل کا وجود بطورِ حقیقت تسلیم کرلیں گے تو انجامِ کار کبھی نہ ختم ہونے والے مصائب اور دائمی تباہی ہمارا مقدر ہوگا۔
بذاتِ خود یہود سے تعلقات قائم کرنا ایک ایسا معاملہ ہے، جس میں خصوصاً مسلمانوں کے لیے کامیابی ممکن ہی نہیں، کیوںکہ انسانی طبیعت اور تجربہ اس کی نفی کرتا ہے۔ کیا کوئی شخص یہ تصور کرسکتا ہے کہ یہودی قوم کسی غیریہودی سے نارمل تعلقات قائم کرلے گی؟ اللہ کی سنت ِتخلیق کو کون تبدیل کرسکتا ہے؟ اس بنا پر یہودیوں سے تعلقات اور دوستی قائم کرنا ایک ایسی سعیِ لاحاصل ہے جس کاانجام سواے اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ تمام مسلم ممالک اور اُمت مسلمہ تباہی و بربادی کا شکار ہوجائیں۔ ہم مسلمان ہیں اور جس وحدہٗ لاشریک اللہ پر ہمارا ایمان ہے، اس نے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ (المائدہ ۵:۸۲) بے شک انسانوں میں سے اہلِ ایمان سے بدترین دشمنی رکھنے والے لوگ آپ یہودیوں ہی کو پائیں گے۔
یہ اللہ کا فیصلہ ہے، اس میں کوئی لاگ لپیٹ اور راز کی بات نہیں ہے۔ دشمنی ان کی جانب سے ہے، ہماری طرف سے نہیں، جیساکہ آیت ِ مذکورہ واضح نص ہے۔ پھر کیا ہم یہودیوں کی حقیقت اور اہلِ اسلام سے ان کی دشمنی کی بنیادوں کو اللہ سے زیادہ جانتے ہیں؟
اخوان المسلمون جن کے دل اسلام کی رحمت اور آشتی سے سرشار ہیں، کبھی یہ نہیں کہتے کہ: ’’اسرائیل کو سمندر میں غرق کر دیا جائے‘‘ اور نہ وہ یہ نعرہ ہی لگاتے ہیں کہ: ’’آخری یہودی تک کو پھانسی پر لٹکایا جائے‘‘۔ خوں ریزی اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہودی، ارض فلسطین پر عام شہریوں کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ رہا یہ معاملہ کہ ہم انھیں علاقے پر حکمرانی اور خوف و ہراس کے ذریعے تسلط کی اجازت دے دیں، تو یہ کبھی نہیں ہوگا۔
اقلیت دنیا بھر میں اکثریت کے ساتھ اطمینان و سکون سے زندگی گزارتی ہے، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ اہلِ ایمان کے بدترین اور کھلے دشمن، مسلم رعایا پر عدل و انصاف سے حکومت کریں گے؟ اور پھر اقلیت میں ہوتے ہوئے انھیں حکمرانی کا کیا حق حاصل ہے؟ ان سے انصاف کی توقع رکھنا غیرممکن ہے:
وَمُکَلِّفُ الْاَیَّامِ ضِدَّ طِبَاعِھَا
مُتَطَلِّبٌ فِی الْمَاءِ جَذْوَۃَ نَـارٍ
[جو شخص قوانین طبعی کو ان کے نظام کے خلاف چلانا چاہتا ہے، وہ گویا پانی کے اندر آگ کا انگارا دیکھنے کا خواہش مند ہے۔]
پس، لازم ہے کہ خطے کے عوام اور حکمران مل کر اس زہریلے تیندوے سے نجات حاصل کریں۔ یہ تیندوا آہستہ آہستہ ان کا خون چُوس رہا ہے اور ایک دن انھیں بالکل مُردہ بناڈالے گا۔ اس سرطان سے خلاصی پانا انتہائی ضروری ہے کہ جس نے پورے ماحول کو خوف زدہ کررکھا ہے۔ غیرت مند آزاد انسان عزت کی زندگی جیتا ہے اور یا پھر عزت کی موت مرجاتا ہے۔ ایک انسان جو عزت کی موت مرتا ہے، اسے آنے والی نسلیں عزت و احترام کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اس میں اور ذلّت و رُسوائی کے ساتھ زندہ رہنے والے انسان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک نے رُسوائی کو ٹھکرا دیا اور دوسرا اس ذلت پر راضی ہوگیا۔ کیا امن کا قیام یوں عمل میں آتا ہے کہ غاصب نے جو مال زبردستی چھین لیا ہے،وہ اسی کے تصرف اور ملکیت میں رہے اور مظلوم اس کے ساتھ صلح کرلے؟ آخر، یہ امن کا کون سا نمونہ ہے؟ ایسی صلح سے تو مہلک خطرات کا سامنا کرنا زیادہ بہتر اور آسان ہے۔ ہمارے حالات جیسے بھی ہوں، ہمیں ایسا ظلم پر مبنی امن اور ایسی صلح منظور نہیں۔
ہمارے نوجوانوں میں یہ صلاحیت ہے کہ اگر ان کی تربیت کی جائے، تو وہ مردانگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور زندۂ جاوید کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ تاہم، نشرواشاعت کا موجودہ نظام اور شاید بوجہ صہیونی تسلط کے، ایسی نسل ہرگز پیدا نہیں کرسکتا، جو اپنے عقیدے پر غیرت کا مظاہرہ کرنے والی ہو اور اپنے ملک اور اس کی حُریت پر فخر کرسکے یا اپنے کھوئے ہوئے حقوق کی واپسی کے بارے میں سوچ سکے۔ یہ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ اپنی ذاتی عزت و حمیت کی بناپر جب کبھی مسلم نوجوانوں نے اسرائیل کے خلاف اپنے آپ کو تیار کیا ہے، تو پورے شرق اوسط میں ہرجگہ ایسے نوجوانوں کو اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں بدترین آزمایش اور جیل کی پُراذیت زندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ معاملہ صرف شرق اوسط تک ہی محدود نہیں بلکہ انڈونیشیا اور دُور دراز ممالک میں بھی یہی صورتِ حال دیکھنے میں آتی ہے۔
نام نہاد اسرائیل سے تعلقات کی استواری ایک بڑا مہنگا سودا ہے۔ اس سے یہ صلح نامے کی منظور شدہ شرائط ، دراصل اسرائیل ہی کو نہایت اطمینان اور آرام سے اپنے مکروہ عزائم پورے کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوں گی۔
آج دُنیا بھر میں جو دعوتِ دین کے حوالے سے اسلامی کانفرنسیں منعقد ہورہی ہیں، یہ اتحاد اسلامی کے لیے امام حسن البنا شہیدؒ کی کوششوں کے ثمرات میں سے ہیں۔ اگرچہ ان کے انعقاد میں ابھی کئی کمیاں موجود ہیں، مگر ان کے نتائج ایک دن ضرور نکلیں گے۔ ان میں خیرکا پہلو یہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے کارکن آپس میں وقتاً فوقتاً مل بیٹھتے، اور ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بڑا ہی نیک شگون ہے کہ بارش شروع تو ایک قطرے ہی سے ہوتی ہے، مگر پھر موسلادھار بارانِ رحمت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جب بندہ، اللہ کی راہ میں جدوجہد شروع کر دے، تو اللہ اس بندے کی مدد ضرور کرتاہے۔ یہاں تک کہ جب بندہ اپنے تمام مادی وسائل اور کوششیں صرف کردیتا ہے، اور اللہ اس کا خلوص اور صدق دیکھ لیتا ہے، تو وہ اپنی مدد بھیج دیتا ہے۔ کون ہے جو مضطرب کی پکار سنتا ہے اور دُکھ دُور کرتا ہے اور تمھیں زمین کی خلافت عطا کرتا ہے؟ کوئی نہیں سواے قادرمطلق اور حاکمِ حقیقی کے۔ ہم اس کے وعدے کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے فیصلے اس عجلت کے ساتھ صادر نہیں کرتا، جس عجلت کی بندہ خواہش رکھتا ہے۔
عصرحاضر میں مصر کی تاریخ کا ہر طالب علم اس دردناک حقیقت سے واقف ہے کہ ۱۹۴۸ء میں اخوان المسلمون کے جن قائدین نے فلسطین کے محاذ پر اسرائیلیوں کے دانت کھٹے کیے، وہ سب اپنی حکومتوں کی نظروں میں گردن زدنی قرار پائے۔ امام حسن البنا کو ابراہیم عبدالہادی کی حکومت نے شہید کردیا، جسٹس عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، ابراہیم الطیب، یوسف طلعت کو جمال عبدالناصر کی حکومت نے تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ کیا یہ کوئی اتفاقی حادثہ تھا؟ حالات و واقعات جاننے والے خوب باخبر ہیں کہ یہ سوچی سمجھی سازشیں تھیں، نہ کہ کوئی اتفاقی حادثہ تھا۔
جون ۱۹۶۷ء کی جنگ جمال عبدالناصر نے شروع کی، جو پوری اُمت مسلمہ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن گئی۔ اس جنگ کے بارے میں بہت سارے اُمور توجہ طلب ہیں۔ مستقبل کا مؤرخ جنگ کی بہت سی کڑیوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گا کہ اس جنگ میں کس نے کیا کردار ادا کیا؟ بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں لیکن میں قطعی دلیل کے بغیر کوئی بیان دینے کا عادی نہیں ہوں۔ تاہم، ایک بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو جو اسلحہ دیا گیا تھا، وہ ناکارہ اور ناقابلِ استعمال تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمارے نوجوانوں کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں جھونک دیا گیا تھا۔ تاریخی طور پر بھی یہ ثابت ہوگیاہے کہ اس جنگ سے قبل ناصر اور بعض یہودی ذمہ داران کے درمیان شرم الشیخ اور دیگر مقامات پر خفیہ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ وہ لوگ جو کبریٰ اور صغریٰ کا استنباط کرکے نتائج نکالنے میں ماہر ہیں، ان واقعات کا تجزیہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا مندرجہ بالا واقعات اور اخوان المسلمون کے رہنمائوں کے قتل میں کوئی ربط نہیں ڈھونڈا جاسکتا؟اخوان کے وہ رہنما جنھوں نے یہودیوں کے چھکے چھڑا دیے تھے کس کے اشارے پر ان حکمرانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے؟
میں اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ نقراشی پاشا نے اخوان کے رہنمائوں کو عین معرکۂ کارزار کے اندر گرفتار کرایا۔ فلسطین کے محاذ سے ان مجاہدین کو سیدھا مصر کے جیل خانوں میں بھیج دیا گیا۔ تواریخ کا تجزیہ کرنے والے اس واقعے کی کیا توجیہہ پیش کریں گے؟ میں اگر اخوان المسلمون میں سے نہ ہوتا تو اس موضوع پر بہت کچھ کہتا۔ اب میں کچھ کہوں گا تو ممکن ہے اسے جانب داری کا طعنہ دیا جائے۔ میں ایسے حقائق بیان کرسکتا ہوں جو عمالقہ کے بڑے بڑے مضبوط قلعوں کو زمین بوس کر دیں اور سچ یہ ہے کہ ان عمالقہ کا مصنوعی قدکاٹھ سب کو معلوم ہے۔ ہم اللہ پر بھروسا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔
برطانوی آلۂ کار شاہ فاروق کے خلاف ۱۹۵۲ء کا انقلاب بدقسمتی سے کرنل جمال ناصر۱ کے ہاتھوں اس راستے سے بالکل منحرف ہوگیا، جو قوم کی نجات کا ضامن ہوسکتا تھا۔ تاریخ کا کام حقائق کو بے کم و کاست پیش کرنا ہے، مگر تاریخ کبھی کبھار اپنے اس فرضِ منصبی سے عاجز ہے۔ اخبارات میں اب آئے دن مضامین چھپ رہے ہیں کہ ان حکمرانوں کے ہاتھوں قارون کے خزانوں کے تذکرے تازہ ہوگئے ؟ لُوٹ مار کی دوڑ میں کروڑوں پاؤنڈ کی دولت اور جایدادوں کے تذکرے پڑھ پڑھ کر گھن آنے لگتی ہے، کہاں سے یہ دولت نازل ہوئی؟ پھر یہ دولت کیسے مصر سے باہر منتقل ہوگئی؟ یورپ میں بڑے بڑے محلات اور اخبارات و رسائل ان لوگوں نے کیسے خرید لیے؟ یہ لوگ اسلحے کے عالمی تاجر کیسے بن گئے؟ کہاں چلی گئی ان کی شرم و حیا؟
۱- ’’مصر میں ۱۹۵۲ءکا فوجی انقلاب امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اکسانے اور اس کے عملی تعاون سے برپا ہوا تھا۔مصری بادشاہت کو ختم کرکے فوج کو مصر کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے جمال عبدالناصر(فوج میں لیفٹیننٹ کرنل) اور ان کے ساتھی فوجی افسروں کو سی آئی اے کی آشیرباداور پوری مدد حاصل تھی۔ فوجی انقلاب کے ترجمان ریڈیواسٹیشن ’وائس آف عرب‘ ' کا قیام بھی سی آئی اے ہی کی مدد سے ممکن ہوا تھا‘‘۔ سی آئی اے اور کرنل جمال ناصر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کا انکشاف برطانوی مصنف جیمز بار (James Barr) کی تازہ ترین کتاب Lords of the Desert میں کیا گیا ہے۔اگرچہ اس فوجی انقلاب کے سربراہ جنرل نجیب تھے، لیکن ملٹری کی طرف سے نظم و نسق سنبھالنے کی ساری پلاننگ لیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر اور ان کے ساتھی فوجی افسروں نے کی تھی جو سی آئی اے کے ساتھ رابطے میں تھے۔ مصنف کے مطابق: ’’مصر میں اس فوجی انقلاب کی وجہ امریکا اور برطانیہ کے درمیان مشرق وسطیٰ میں اپنا اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کش مکش تھی۔ برطانیہ مصری بادشاہ ، فاروق کی حمایت کررہا تھا، جسے امریکی ناپسند کرتے تھے۔ –مصری فوج کے اندر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے ہاتھوں غیر متوقع شکست کی وجہ سے بہت بے چینی تھی۔ کرنل جمال عبدالناصر اور ان کے ساتھی فوجی افسروں نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سی آئی اے کی مدد سے بادشاہت کو ختم کرکے جنرل نجیب کی سر براہی میں فوجی حکومت قائم کردی‘‘۔
برطانوی مصنف نے برطانوی فارن آفس کی دستاویزات اور دیگر تاریخی ریکارڈ کی مدد سے اپنی کتاب میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں برطانیہ اور امریکا کے درمیان مسابقت اور تعاون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ جیمز بار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ: ’’انقلاب سے دو دن قبل کرنل ناصر نے برطانیہ اور امریکا کو فوج کی طرف سے ٹیک اور کرنے کے پلان کے بارے میں اعتماد میں لیا تھا ۔اگرچہ انقلاب کی تمام تر منصوبہ بندی لیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر نے کی تھی، لیکن فوج میں جونیئر رینک آفیسر ہونےکے باعث انھیں مجبوراً جنرل نجیب کو انقلاب کا سربراہ بنانا پڑا۔ تاہم، کچھ ہی عرصے بعد ناصر نے جنرل نجیب کو ہٹا کر خود سارا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ۱۹۵۶ء میں باقاعدہ مصر کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔
’’ اسی سال[۱۹۵۶ء ] جب جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تو برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر نہر پر قبضہ کرنے کےلیے مصر کے خلاف جنگ شروع کردی۔ اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاورنے فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ۔ اس پسپائی پربرطانیہ کو فوجی، سیاسی اور سفارتی محاذ پر انتہائی خفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس واقعے کے بعد مشرقی وسطیٰ میں اس کا اثرورسوخ کم ہوتا چلا گیا اور پورا خطہ امریکی حلقۂ اثر میں آ گیا ۔امریکا کے پیش نظر مشرق وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کرنے کی بنیادی وجہ اس علاقے میں اسرائیل کی حفاظت اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک رسائی اور اجارہ داری تھی۔
’’امریکی مدد سے اسرائیل کو فوجی لحاظ سے تمام عربوں کے مقابلے میں اتنا طاقت ور بنا دیا گیاکہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں مصر ، شام اور اردن تین ممالک کی مشترکہ افواج کو چھے روز کے اندراسرائیلی فوج نےشکست دے کر بیت المقدس ،غزہ ، باقی ماندہ فلسطین ، اردن کے مغربی کنارے ،گولان کی پہاڑیوں اورمصر کے جزیرہ نما سینائی پر قبضہ کرلیا ۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اسرائیل کا ان علاقوں پر[سواے مصر کے جزیرہ نما سینائی]قبضہ برقرار ہے۔
’’ فوج کے ذریعے حکومتوں کو گرانے اور تبدیل کرنے کی سی آئی اے کی یہ سرگرمیاں صرف مصر تک محدود نہیں رہیں۔ مصر میں فوج کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کا جو سلسلہ۱۹۵۲ء میں شروع ہوا تھا، وہ ۱۹۵۳ء میں ایران میں محمد مصدق کی حکومت کو ختم کر کےآگے بڑھایا گیا، اور اس کے دس سال بعد عراقی بادشاہت کو بعث پارٹی کے ذریعے فوجی انقلاب برپا کرکے ختم کردیا گیا،جس کے نتیجے میں آخرکار صدام حسین اقتدار میں آئے۔ ۲۰۰۳ء میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے عراق پر براہِ راست حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ اس طرح حکومتوں کو گرانے اور تختہ اُلٹنے کا جو سلسلہ ۱۹۵۲ء میں مصر سے شروع ہوا تھا، وہ آج بھی مسلم ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جن طالع آزمائوں نے اقتدار میں آنے کے لیے سی آئی اے کے پلان پر عمل کیا، اسی سی آئی اے نے ان کو شکست سے دو چار اور ان کے ممالک کو تباہ کرکے انھیں اقتدار سے الگ کیا۔ جمال عبدالناصر، معمر قذافی اور صدام حسین اس کی عبرت ناک مثال ہیں‘‘۔[مرسلہ: جاوید اقبال خواجہ مرحوم]
کئی تجزیہ کار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں، یعنی جرمنی کی ’کرسچن ڈیموکریٹ‘ یا برطانیہ کی ’ٹوری پارٹی‘ سے تشبیہہ دے کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو نسل پرستوں کی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آرایس ایس)کے پاس ہے، جو بلاشبہہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے۔ جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ’ثقافتی تنظیم ‘کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ: ’ہنگامی صورت حا ل میں ہماری تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفے میں ۲۰لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو اکٹھا کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، جب کہ فوج کو ’لام بندی‘ (اپنے سپاہیوں کی تیاری) میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں‘‘۔ دراصل وہ یہ بتا رہے تھے، کہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔
معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی نے حال ہی میں اپنی ۵۰۰صفحات پر مشتمل جامع، تحقیقی اور گہری تصنیف A Menace to India The RSS:میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ اس کتاب کو لیفٹ ورڈبکس نے مارچ ۲۰۱۹ء میں شائع کیا ہے۔اگرچہ بی جے پی کے لیڈر روز مرہ کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کوآرایس ایس سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقت ور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس ہی کا نمایندہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بن کو شادی کے چند سا ل بعد ہی چھوڑ دیاتھا، یعنی آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ ’کنواروں‘ پر مشتمل ہے۔
آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو ’شاکھا‘ کہتے ہیں۔ ایک شہر یا قصبے میں کئی ’شاکھائیں‘ ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کے پارکوں میں یہ ’شاکھائیں‘ دفاعی اور جارحانہ مشقوں کے ساتھ ساتھ لاٹھی ، جوڈو، کراٹے اور یوگا کا اہتمام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔آر ایس ایس کے سربراہ کو ’سرسنگھ چالک‘ کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار ’راشٹریہ سہکرواہ‘ یعنی سیکرٹری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ چھے تنظیمی ڈھانچوں پر مشتمل ہے۔ جن میں: کیندریہ کاریہ کاری منڈل، اکھل بھارتیہ پرتیندی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، پرچارک، پرانت یا ضلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے، اس کا غیرشادی شدہ یا گھریلو مصروفیات سے آزاد ہونا لازم ہوتا ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ میں فی الوقت وزیراعظم مودی اور صدر امیت شاہ آرایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔
اے جی نورانی کے بقول: ’’اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر استوار ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجاے، آر ایس ایس نے ۱۹۵۱ء میں جَن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی‘‘۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’آر ایس ایس کے ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانیِ پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا‘‘۔
نورانی صاحب کے بقول: ’’آر ایس ایس کے تقریباً ۱۰۰سے زائد شعبہ جات الگ الگ میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے (بالفاظ دیگر غنڈا گردی کے لیے) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانش وروں کے لیے وچار منچ، غرض یہ کہ سوسائٹی کے ہر طبقے کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتی ٰکہ پچھلے کچھ عرصے سے آر ایس ایس نے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ اور جماعت علما نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انھیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ گذشتہ انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لیے اسکولوں اور کالجوں ہی سے طالب علموں کی مقامی شاخوں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس وقت کُل شاخوں کی تعداد کم وبیش۸۷۷ ۸۴, ہے۔ گذشتہ برس ۲۰سے ۳۵سال کی عمر کے ایک لاکھ افراد تنظیم میں شامل ہوئے۔ بھارت کے ۸۸ فی صد بلاک میں یہ تنظیمیں پھیل چکی ہیں، جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں۔
’’بھارت سے باہر کے ممالک میں ان کی ۳۹ممالک میں شاخیں ہیں۔ یہ شاخیں ’ہندو سوئم سیوک سنگھ‘ (HSS)کے نام سے کام رہی ہیں۔بھارت سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ پھر امریکا میں اس کی شاخوں کی تعداد۱۴۶ ہے اور برطانیہ میں ۸۴شاخیں ہیں۔ یہ کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط پوزیشن میں ہے اور ان کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا، موریشس اور جنوبی افریقا تک پھیلا ہوا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے، کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندا خودعرب ممالک ہی سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرانک شاخ ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے ۲۰ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں، حالاں کہ ان ممالک میں آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے۔ بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ وہی کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، اور وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں‘‘۔
آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر سے گفتگو کے دوران مَیں نے پوچھا کہ: ’مسلمان، جو بھارت کے صدیوں سے رہنے والے شہری ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے‘؟ تو ان کا کہنا تھا کہ: ’مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘۔ میں نے پوچھا کہ: ’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘ توان کا کہنا تھاکہ: ’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبرؐاسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کرنا چاہتے ہیں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انھوںنے کہا کہ: ’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘۔
’گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگ پور چلا گیا جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے انھیں قائل کرنا تھا۔ اس وفد کے ایک رکن نے بتایا: ’’جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘‘ جواب میں سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ: ’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم، مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہیں کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ یہ بات کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘۔ ’اسلام ہی حق‘ ہے، کے بجاے ’اسلام بھی حق‘ ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ تاہم، آرایس ایس اُس وفد کواس بات پر قائل نہیں کرسکی کہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے واقفیت رکھتے اور یہ جانتے تھے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ان کے ایمان کا کیا حشر ہوگا۔
گذشتہ دنوں خبر آئی کہ ’’پاکستانی پنجاب میں گوردوارہ کرتار پور کے درشن کی خاطر، سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے بعد اب پاکستانی حکومت، جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے ’شاردا پیٹھ مندر‘ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔ اس کے مضمرات کا جائزہ لیے بغیر، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف، خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والوں کی باچھیں کھل گئیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں بھی کریڈٹ لینے کے لیے ماحول خاصا گرم ہوا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ذرائع کے حوالے سے بیان داغا کہ: ’’کرتار پور اور شاردا کو زائرین کے لیے کھولنے کی تجویز تو بھارت نے کئی عشرے قبل پیش کی تھی، مگر اسلام آباد ہی ٹالتا رہا تھا‘‘۔
کرتار پور سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ مگر پچھلے ایک ماہ سے بھارت اصرار کررہا تھا کہ گوردوارہ کرتار پور جانے کے لیے سبھی بھارتی شہریوں کو راہداری ملنی چاہیے۔ آخری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس شرط کو منظور کرلیا ہے۔ ان سے نہیں پوچھا کہ آخر کیرالا میں گورو دہار، اڑیسہ میں جگن ناتھ، اتر پردیش میں کاشی وشواناتھ جیسے بے شمار مندروں میں غیرہندوؤں کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟
پھر بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ: ’’جب شاردا پر بات چیت کا عمل شروع ہوجائے گا، تو نہ صرف جموں و کشمیر کے پنڈتوں، بلکہ سبھی بھارتی شہریوں کے لیے راہداری کھلنی چاہیے‘‘۔
چند برس قبل ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ(RSS) کی ایک شاخ کی طرف سے دہلی اور جموں میں ایک تقریب میں آزاد کشمیر کے کسی فارسٹ کنزویٹر رئیس احمدکی طرف سے بذریعہ ڈاک ارسال کی گئی، ’شاردا پیٹھ مند ر‘ کی مٹی کی پوجا کی گئی۔ اس موقعے پر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف جارحانہ تقریریں بھی ہوئیں۔ مقررین نے لائن آف کنٹرول کو کھولنے کا مطالبہ کیا، تاکہ بھارت سے ہندو زائرین جوق در جوق اس مندر کی زیارت کرسکیں۔ (ویسے تو اس کنزویٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے کہ آثارِ قدیمہ کی ایک یادگار کی اس نے غیرقانونی طور پر کھدائی کر کے مٹی کیوں نکالی)۔ مظفر آباد سے ۱۵۰کلومیٹر اور سری نگر سے ۱۳۰کلومیٹر دُور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات کو، کشمیر کی مبینہ طور پر پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا گواہ قرار دیا جارہا ہے، جو نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ہے۔ چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب ’گزیٹئر آف کشمیر‘ ترتیب دیا، تو اس مقام پر ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعہ سے ۴۰۰گز کی دُوری پر ایک مندر کے کھنڈرات ملے۔ بیٹس اور والٹر لارنس ، جنھوں نے کشمیر کے قریہ قریہ گھو م کر معمولی سے واقعات تک قلم بند کیے ہیں، انھوں نے کہیں بھی ’شاردا مندر کی یاترا ‘کا ذکر نہیں کیا ہے۔
بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی آج کل تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَز سرِ نو لکھنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندو ں کا خاصہ ہے، لیکن پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں ، جن پر اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط سوار ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ: ’۱۹۴۷ءسے قبل امر ناتھ کی طرز پر اس علاقے میں بھی ہندو یاترا ہوتی تھی‘۔ اگر ایسا ہوتا تو لارنس اور بیٹس کے گزیٹئر میں اس کا ضرور ذکر ہوتا۔
۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کے آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بدھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ اور وہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرتے رہتے تھے۔ اس خطے میں اسلام کی عوامی پذیرائی کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰ قبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ ۲۳۲قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوازم قبول کیا، تو اس نے بدھ مت پر ایک قیامت توڑ دی۔ بدھ اسٹوپوں اور دانش گاہوں کو تاراج کرکے شیو مندر بنائے گئے۔ ۶۳ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں آج بھی رائج ہے۔ ساتویں صدی میں چینی سیاح اور بھکشو ہیون سانگ جب یہاں سیر کے لیے آیا تو اس کے مطابق: ’سرینگر سے وادی نیلم کے علاقے میں سو بدھ عبادت گاہیںاور پانچ ہزار بھکشو موجود تھے‘۔ بد ھ مت کو چیلنج دینے کے لیے آٹھویں صدی میں کیرالا کے ایک ہندو برہمن آدی شنکر نے بیڑا اٹھایا۔ پورے خطے میں گھوم پھر کر اس نے ہندو ازم کا احیا کرایا۔ جہاں اس نے بدھ بھکشو وں کے ساتھ مکالمہ کرکے ان کو ہرایا، وہاں اس نے ’شاردا‘ یعنی ’علم کی دیوی‘ کے نام پر چند مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریاے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔
اگرچہ اس علاقے کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے اور انھیں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا موقع فراہم کرنے میں بظاہر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مگر جو لوگ اس کی وکالت کر رہے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو دراصل ہندوئوں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مزید مستحکم بنانے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے تو کشمیر کو سیاسی مسئلےکے بجاے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ’’اس مسئلے کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقے میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔
ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷ سال کی مسلم تاریخ کو ایک ’تاریک دور‘ کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو فارسی سے دوبارہ ’قدیمی شاردا‘ میں تبدیل کرنے کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ: ’’اگر کشمیری کا اسکرپٹ واپس شاردا میں لانا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا اسکرپٹ بھی تبدیل کرو۔ کشمیر ی کی طرح سنسکرت بھی قد یم زمانے میں شاردا اسکرپٹ میں ہی تحریری کی جاتی تھی‘‘۔
امرناتھ علاقے میں ۱۹۹۶ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے ۲۰۰ سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس حادثے کی انکوائری کے لیے بھارتی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ ’ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں ‘ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میںکرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ضابطے کا پابند بنانے کی جب کوشش کی، تو بزعم خود ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنمائوں نے اسے مذہبی رنگ دے کر ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب ۲۰۰۵ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافے کی تجویز پر اعتراض کیا ،تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیے۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندووں کو امرناتھ یاترا کے لیے راغب کرنا شروع کردیا۔اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح آج امر ناتھ کو بھی سیا حت اور بھارت کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ تاکہ ماحولیات کے لحاظ سے اس نازک خطے میںلاکھوںیاتریوں کی یاترا کو ممکن بنانے کے لیے سڑکیںاور دیگر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی یہاں پر یاتریوں کے لیے ایک ٹریک بنانے کا حکم دے ڈالا، مگر دوسری جانب یہی عدالت دیگر مقدمات میں ماحولیات کو بچانے کے لیے سخت موقف اختیار کرتی ہے۔
سابق گورنر ایس کے سنہا تو ہر تقریب میں اعلان کرتے تھے کہ: ’’مَیں اس علاقے میں ہندوئوں کے لیے مخصوص 'شاردایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں‘‘۔ اسی لیے انھوں نے جنگل والی زمین کا ایک وسیع قطعہ ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سپرد کیا تھا۔ اس فیصلے نے ۲۰۰۸ء میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی۔ ’امرناتھ مندر بورڈ‘ کے خلاف، وادی کے عوام کا جو غصہ پھوٹا اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا۔ ۱۸۶۰ء سے ہی جب امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا، مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرتے آرہے ہیں۔لیکن گورنر سنہا نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالاںکہ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندوئوں کے اس مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔ جنرل سنہا کے پرنسپل سکریٹری اور ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سربراہ ارون کمار نے یہاں چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر اپنی روزی کمانے والوںسے ان کا روزگار بھی چھین لیا۔ جس زمین کے وہ بے چارے مالک تھے، انھی سے’جزیہ‘ وصول کرنا شروع کردیا۔ اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۵ء میں جب حرکت الانصار نامی تنظیم نے امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے ہی بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے ۱۲دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ اب تو مقامی مسلمانوں اور تاجروں کو اس یاترا کے انتظام سے پوری طرح بے دخل کردیا گیا ہے۔
بہر حال ہر سال لاکھوں یاتریوں کے امرناتھ آنے کی وجہ سے ماحولیات پر بھی خاصا بُرا اثر پڑ رہا ہے۔۲۰۰۵ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ملک کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا کہ: ’’اگر بال تل کے راستے امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجاے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے اگرچہ بیشتردریائوں اورندیوں کے منبعے یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ہی اتراکھنڈ صوبے میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے وہاں پر اس وقت ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے ہر روز صرف ۲۵۰ سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبعے گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔اس کے برعکس سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کولہائی گلیشیر کے ساتھ موازنہ کریں، تو وہاں ہر روز امرناتھ یاترا کے نام پر اوسطاً۲۰ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔
نتیش سین گپتا کمیٹی نے ۱۹۹۶ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ: ’’امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی۔اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔۲۰۱۸ء میں تقریباًساڑھے چھے لاکھ یاتریوں نے امرناتھ کی یاترا کی تھی۔ آیندہ برسوں میں یہ تعداد ۱۰لاکھ تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔گپتا کا کہنا تھا کہ: ’’یاترا کے دوران ایک وقت میں ایک جگہ صرف ۳ہزاریاتریوں کو ٹھیرانے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ پہلگام جیسی چھوٹی سی جگہ پر ، جو یاترا کا ایک بیس کیمپ بھی ہے، ۲۰ہزار سے ۵۰ہزار تک یاتری جمع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ: ’’ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیش تر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں۔ حکومت بھارت کو بھی چاہیے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطۂ نگاہ کے بجاے سائنسی نقطۂ نگاہ سے غور کرے‘‘۔ آزادکشمیر اور پاکستان میں مقیم ان دانش وروں اور زعما سے بھی گزارش ہے کہ جو’ شاردا پیٹھ‘ کو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کر رہے ہیں: ’’کہیں اٹھ مقام اور دودنیال کی سرسبز چراگاہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیںاور حریص طاقتیںان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کر کسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں‘‘۔ روشن خیالی تو ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ شرارت کی نیت سے اگر بے ضمیری شامل ہوجائے تو یہ زہر ہلاہل بن جاتی ہے!
زندگی بہت ناپایدار ہے، اگلے لمحے پر بھی بھروسا نہیں ہوسکتا۔ جنرل عمر حسن البشیر ۱۰؍اپریل ۲۰۱۹ء کو سوڈان کے صدر تھے۔ ۱۱ ؍اپریل کو ان کے دست راست جنرل عوض بن عوف صدر بن گئے اور ۱۲؍اپریل کو ان کے ایک اور ساتھی عبدالفتاح برہان ملک کے سربراہ بن گئے۔ ایک روز قبل انھوں نے ہی اپنے پانچ جرنیل ساتھیوں کے ہمراہ جاکر صدر عمر بشیر سے کہا تھا کہ ملک میں چار ماہ سے جاری مظاہرے اب خطرناک صورت اختیار کرچکے ہیں، اس لیے ہماری راے ہے کہ آپ اقتدار چھوڑ دیں۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد جب جواب نہ ملا تو جنرل عوض بن عوف قوم سے خطاب میں کہہ رہے تھے: ’’ملک میں ایک عرصے سے بدانتظامی، کرپشن، بے انصافی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ ہم حالات کا جائزہ لے رہے تھے، لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اب ہم نے اس حکومت کو اکھاڑ پھینکا ہے اور اس کے سربراہ کو اپنی حفاظت میں لے کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا ہے‘‘۔ اپنے مختصر خطاب میں ملک میں دو سال کے لیے عبوری حکومت، ۳ ماہ کے لیے ایمر جنسی اور ایک ماہ کے لیے رات ۱۰ بجے سے صبح چار بجے تک کرفیو کا اعلان کردیا۔
انقلاب کا یہ پہلا دن خرطوم کے قلب میں واقع مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کے باہر جمع ہزاروں مظاہرین کا کڑا امتحان تھا۔ تازہ فوجی انقلاب اور بالخصوص رات کے کرفیو کا اعلان اعصاب شکن تھا۔ لگتا تھا کہ مظاہرین منتشر ہوجائیں گے اور یوں ملک میں ایک نئے عسکری دور کا آغاز ہوجائے گا۔ لیکن گذشتہ پانچ دن سے مسلسل مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے بیٹھے ان مظاہرین نے اٹھنے سے انکار کردیا۔ حیرت انگیز طور پر انقلابی کونسل کمزور اور مظاہرین مزید مضبوط ثابت ہوئے۔ اگلے روز جمعہ تھا، مزید عوام مظاہرین میں شامل ہوگئے۔ ۳۶ گھنٹے گزرنے سے بھی پہلے جنرل عوض کو بھی اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا۔ وہ ایک بار پھر اسی وردی کے ساتھ اسی کرسی اور اسی سرکاری ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہو کر کہہ رہے تھے: ’’میرے عزیز ہم وطنو! میں مختصر وقت میں دوسری بار آپ سے مخاطب ہونے پر معذرت خواہ ہوں، لیکن آج میں بلند مقاصد کے لیے ملک میں ایک نئی روایت متعارف کروانے جارہاہوں۔ یہ روایت ہے جاذبِ نظر مناصب سے بے رغبتی اور عہدوںکی چمک دمک میں عدم دلچسپی کی روایت۔ میں ملک میں تشکیل دی جانے والی عسکری سپریم کونسل کی سربراہی سے ایک ایسے شخص کے حق میں دست بردار ہورہا ہوں کہ جس کے تجربے، صلاحیت اور اس منصب کے لیے استحقاق پر ہمیں کامل یقین ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ جنرل عبدالفتاح برہان عبدالرحمان حال ہی میں سفر کا آغاز کرنے والے سفینے کو کامیابی سے ساحل نجات تک لے جائیں گے‘‘۔
پانچ منٹ کے اس خطاب کے بعد سوڈان میں اب ایک نئے دور کا آغاز ہورہاہے۔ جنرل عبدالفتاح برہان، جنرل عمر البشیر کے ابتدائی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں بری افواج کے سربراہ رہے اور اب افواج میں انسپکٹر جنرل کے علاوہ یمن میں لڑنے والی سوڈانی فوج کی نگرانی کررہے تھے۔ اس دوران سعودی اور اماراتی قیادت سے بھی قریبی تعلقات استوار ہوگئے۔ کسی نظریاتی شناخت کے بجاے فقط پیشہ ورانہ شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے سربراہ بنتے ہی سعودی عرب اور امارات کی طرف سے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا گیا۔ دونوں ملکوں نے فوری طور پر سوڈان کو ۳؍ ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ پٹرول اور غذائی مواد کی فراہمی کا بھی اعلان کردیا۔ عوام میں بھی نئے جنرل صاحب کے لیے نسبتاً قبولیت کا تأثر ہے، لیکن حالات اب بھی مکمل پُرسکون نہیں ہوئے۔ مظاہرین فوجی اقتدار کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
۹ دسمبر ۲۰۱۸ء سے جاری ان مظاہروں میں زیادہ شدت اس وقت آئی تھی، جب الجزائری عوام نے گذشتہ ۲۰ سال سے برسراقتدار ۸۲ سالہ مفلوج و معذور عبدالعزیز بوتفلیقہ کو اپنے بھرپور قومی دھرنوں کے ذریعے اتار پھینکا۔ انتہائی ضعیف، بیمار اور ناکارہ ہوجانے کے باوجود بوتفلیقہ نے ۱۸؍اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں پانچویں بار صدارتی اُمیدوار بننے کا اعلان کیا تھا۔ بس یہی اعلان، ان کی سیاسی وفات کا اعلان ثابت ہوا۔ الجزائری عوام کی یک جہتی اور ایک قومی تحریک کی صورت میں سڑکوں پر نکل آنے سے، بہ امر مجبوری فوج کے سربراہ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے، بوتفلیقہ کے جانے اور دستور کے مطابق سپیکر کو عبوری صدر کی حیثیت سے ملکی انتظام سنبھال لینے کا اعلان کیا۔ الجزائری عوام کی جدوجہد کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، لیکن تحریک ہنوز جاری ہے۔ان کا مطالبہ ہے کہ صرف بوتفلیقہ نہیں، پورے سابقہ نظام سے نجات چاہیے۔ عوامی نعروں، تقریرروں اور تحریروں میں الجزائر کی حالیہ تاریخ کا خلاصہ دہرایا جارہاہے کہ ۱۹۹۱ءمیں ہونے والے انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ (FIS) نے ۸۰ فی صد نشستیں جیتی تھیں، لیکن فوج نے انقلاب کے ذریعے عوامی راے کا خون کردیا۔ اس کے بعد پورا عشرہ الجزائر میں بدترین خوں ریزی برپا رہی۔ یہ فرانس کے خلاف جنگ آزادی کے بعد ملک کی بدترین خوں ریزی تھی۔ پھر مختلف افراد کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے بعد، اپریل ۱۹۹۹ء میں بوتفلیقہ کو صدر بنوادیا گیا۔ اب بوتفلیقہ کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالقادر بن صالح کو ۹۰ دن کے لیے عبوری صدر بنایا گیا ہے، جس نے ۴ جولائی کو قومی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔تاہم، الجزائری عوام کے مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔ وہ عبوری صدر کو بھی براے نام صدر قرار دیتے ہوئے، اصل مقتدر اداروں کی حکومت اور پہلے سے طے شدہ نتائج والے کسی انتخاب کو مسترد کررہے ہیں۔
سوڈانی عوام کی تحریک گذشتہ دسمبر سے جاری تھی۔ ان مظاہروں کا آغاز صدر عمر البشیر کے اچانک اور ناقابل فہم دورہء شام سے ہوا تھا۔ چند گھنٹوں کے اس دورے کے دوران وہ شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کرکے آئے۔ بشار الاسد گذشتہ آٹھ برس سے پوری قوم تباہ اور پورا ملک کھنڈر بنا چکا ہے، عالم عرب میں نفرت و وحشت کی علامت بن چکا ہے۔ اس سے یہ ملاقات صدربشیر پر عوامی و تنقید و احتجاج کا نقطہء آغاز بنی۔ سوڈانی حکومت کا کہنا تھا کہ بشار سے یہ ملاقات سوڈان پر عائد پابندیوں سے نکلنے کی ایک کوشش تھی اور یہ ملاقات کسی علاقائی طاقت کے کہنے پر نہیں ہم نے خود اپنی ترجیحات کے مطابق کی۔ اتفاق تھا یاکوئی اور’غیبی‘ انتظام کہ بشار سے ملاقات پر احتجاج کے انھی دنوں میں، ملک میں روٹی اور تیل کا بحران کھڑا ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بشار مخالف مظاہرے، بشیر مخالف مظاہروں میں بدل گئے۔ فوراً ہی ان مظاہروں نے خونی تصادم کی صورت اختیار کرلی، جس دوران ۵۷ افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں عالمی سرخیاں بن گئیں۔ یہ مظاہرے قریب الاختتام تھے کہ بوتفلیقہ کے خلاف الجزائری عوام کی تحریک کامیاب ہوئی اور سوڈان میں بھی اس کے بھرپور اثرات پہنچے۔ سوڈانی عوام نے ۶؍ اپریل کو جی ایچ کیو کے باہر دھرنے کا اعلان کردیا۔ یہی مظاہرے ۱۱؍اپریل کو صدر عمر البشیر کی رخصتی کا ’ذریعہ‘ بنے۔
جنرل عمر حسن البشیر (پیدایش: یکم جنوری ۱۹۴۴ء) ۳۰ جون ۱۹۸۹ء کو وزیراعظم صادق المہدی کا تختہ اُلٹ کر برسرِ اقتدار آئے تھے۔ آغاز میں تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت جیل میں بند کردی گئی۔ تقریباً چھے ماہ بعد سیاسی قیادت کی رہائی ہوئی اور ڈاکٹر حسن الترابی جنرل عمر البشیر کے فکری و سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ ساتھ ہی سوڈان کے خلاف چاروں اطراف سے دباؤ اور سازشوں کا طویل دور شروع ہوگیا۔ امریکا و یورپ نے پابندیاں عائد کردیں۔ بلا استثناء تمام مسلم ممالک نے سوڈان کا علانیہ یا خفیہ بائیکاٹ کردیا۔ یہ بائیکاٹ اور محاصرہ اتنا شدید تھا کہ سوڈان نے سڑکوں کی تعمیر کے لیے تارکول کا تقاضا کیا تو براد رمسلم ممالک نے وہ تک نہ دیا۔ خود پاکستان کا یہ عالم تھا کہ ۹۰ کے عشرے میں صدر فاروق لغاری سوڈان کے پڑوسی ملک یوگنڈا کے دورے پر گئے۔ صدر لغاری کو اس موقعے پر دورۂ سوڈان کی دعوت بھی دی گئی، لیکن پاکستان نے معذرت کرلی۔ سوڈان نے تجویز دی کہ چلیے دورہ نہ کیجیے، یوگنڈا جاتے ہوئے صرف کچھ دیر کے لیے خرطوم ایئرپورٹ پر رُک جائیے۔ سوڈانی عوام پاکستان سے ایک فطری محبت رکھتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہوجائے گی۔ لیکن صدر لغاری نے خود محترم قاضی حسین احمد صاحب کو ایک ملاقات میں بتایا کہ امریکی ناراضی کے خدشے کے پیش نظر مجھے خرطوم رکنے سے منع کردیا گیا تھا۔
صدر بشیر کے اقتدار سنبھالتے ہیں جنوبی سوڈان میں ۱۹۵۵ء سے جاری بغاوت کے لیے عالمی امداد کے دھانے کھول دیے گئے۔ ۹ ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھنے والے سوڈان کے خلاف مختلف پڑوسی ممالک کی طرف سے کئی بار باقاعدہ مسلح جنگیں اورحملے کروائے گئے۔ کئی بار اندرونی بغاوتوں کی کوشش کی گئی۔سوڈان میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہونے کی اطلاعات تھیں۔ حکومت نے چین کی مدد سے تیل دریافت بھی کرلیا، ملک کا اقتصادی و معاشرتی نظام قدرے سنبھلنے لگا تو پورے جنوبی سوڈان کو الگ کروادیا گیا۔ سوڈان کو دو لخت کرنے میں کامیابی حاصل ہوگئی تو مغربی سوڈان کے علاقے دارفور میں بغاوت کروادی گئی۔ چاڈ اور لیبیا کی سرحدوں کے راستے باغیوں کو کھلم کھلا اسلحے کے ڈھیر فراہم کیے گئے۔ اس مسلح بغاوت کو کچلنے کے لیے فوجی آپریشن کیے گئے، تو عالمی عدالت سے صدر عمر البشیر کو جنگی مجرم قرار دے دیا گیا۔
نائن الیون سے پہلے القاعدہ کی پشتیبانی کا الزام لگاتے ہوئے سوڈان کے ادویات بنانے کے کارخانے امریکی میزائلوں کے ذریعے تباہ کردیے گئے۔ صدر البشیر ہی نہیں جنرل عوض بن عوف اور جنرل عبد الفتاح برہان کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ سوڈان پر دہشت گردی کی مدد کا الزام لگا کر ذمہ داران حکومت سمیت عام شہریوں پر بھی سفری پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اقتصادی جکڑ بندیوں میں کستے ہوئے دنیا کے کسی بنک اور کسی بھی ملک کو سوڈان سے ہرطرح کے مالی معاملات پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ کسی بنک نے ہمت کرنے کی کوشش بھی کی تو بھاری جرمانوں کی دھمکی دے کر روک دیا گیا۔ قارئین کے لیے شاید باعث حیرت ہو کہ اس وقت صرف دو خلیجی بنکوں کے علاوہ دنیا کا کوئی بنک سوڈان کے ساتھ کوئی کاروبار یا رقوم کی ترسیل نہیں کرسکتا۔ سوڈان دنیا میں اپنے سفارت خانوں تک کو کسی بنک کے بجاے براہِ راست کیش رقوم ارسال کرنے پر مجبور ہے۔
ان تمام بیرونی چیلنجوں کے علاوہ اندرونی خلفشار بھی عروج پر رہا۔ چین اور ملائیشیا کے تعاون سے تیل اور تجارت کے میدان میں قدرے کامیابیاں ملیں تو ڈاکٹر حسن الترابی نے مشورہ بلکہ منصوبہ پیش کیا کہ ملک میں فوجی حکومت کے بجاے حقیقی جمہوری نظام نافذ کرتے ہوئے، فوج کو اقتدار سے نکال لیا جائے۔ ترابی صاحب خود اس وقت اسمبلی کے سپیکر تھے۔ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا ایک نظام وجود میں آچکا تھا۔ پارلیمنٹ میں دیگر سیاسی پارٹیاں بھی تھیں، لیکن آخری اختیارات و کنٹرول فوج اور استخباراتی ادارے کے ہاتھ میں تھے۔ ترابی صاحب کی ان تجاویز پر صدر بشیر اور دیگر ذمہ داران سخت نالاں ہوگئے۔ اس وقت دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے بھی وہاں جمع ہوکر مصالحت کی بھرپور کاوشیں کیں۔ پاکستان سے محترم قاضی حسین احمد صاحب اور پروفیسر خورشید احمد صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ تقریباً دو ہفتے جاری رہنے والی وہ تمام کاوشیں کئی نازک مراحل سے گزریں۔ گاہے ایسا بھی ہوا کہ نماز تراویح کے بعد بیٹھے تو سحری تناول کرکے اُٹھے۔ بالآخر فریقین ایک درمیانی حل پر متفق ہوگئے، لیکن اختلاف پھر غالب آگیا۔ ڈاکٹر حسن الترابی جنھیں صدر عمر البشیر سمیت اکثر ذمہ داران اپنا مرشد و فکری رہنما تسلیم کرتے تھے، کئی وزرا جنھیں باپ کا درجہ دیتے تھے، گرفتار کرکے قدیم ’کوبر جیل‘ بھیج دیے گئے (اب صدر بشیر اور ان کے ساتھی بھی اسی جیل میں رکھے گئے ہیں)۔ طویل قید کے بعد رہائی ہوئی تو ترابی صاحب نے ’المؤتمر الشعبی‘ کے نام سے اپنی نئی جماعت تشکیل دے لی۔ طویل عرصہ ان کا جیل آنا جانا لگا رہا، یہاں تک کہ ترابی صاحب کی وفات سے کچھ عرصہ قبل افہام و تفہیم کی فضا تو قائم ہوگئی، لیکن اصولی اختلافات اپنی جگہ باقی رہے۔ اسی اثنا میں اخوان کی تنظیم سے بھی حکومت کے اختلافات ہوگئے۔ ان کا ایک دھڑا حکومت کے ساتھ اور دوسرا اپوزیشن کا حصہ بن گیا۔ اس طرح سوڈان میں اسلامی تحریک حکومت، اپوزیشن اور غیر جانب دار تین حصوں میں تقسیم ہوگئی۔
نومبر ۲۰۱۸ء میں خرطو م جانا ہوا تو اقتصادی مشکلات اپنے عروج پر تھیں۔ حکمران جماعت کے کئی ذمہ داران بھی صورت احوال سے غیر مطمئن دکھائی دیے۔ مرحوم ڈاکٹر حسن الترابی کے بعد اب صدر عمر البشیر کے کئی دیگر قریبی ساتھی حکومت اور حکمران جماعت میں نظر انداز کردیے جانے کا شکوہ کررہے تھے۔ حکومت اور پارٹی کے اہم ذمہ داران جو کبھی صدر بشیر سے اظہار محبت و ہمدردی کرتے ہوئے ان کے شرمیلے مزاج ہونے کا ذکر کرتے تھے، اب تنہا فیصلے کرنے کی روش پر شکوہ کناں تھے۔ دونوں نائب صدور سمیت کئی اہم ذمہ داریوں پر سیاسی کارکنان کے بجاے حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی سربراہان، تعینات کردیے گئے تھے۔ یہ حقائق سب کے لیے باعث تشویش تھے۔
ان ساری اندرونی و بیرونی مشکلات کے باوجود سوڈان نے صدر بشیر کے عہدِ اقتدار میں کئی اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ سب سے اہم کامیابی تو خود ان مہیب عالمی سازشوں کے باوجود ملک اور اس کے نظام کا باقی اور ثابت قدم رہنا تھا۔ وسیع و عریض زرخیز زمین اور دریاے نیل کے خزانے رکھنے کے باوجود حکومت ملنے پر ملک غذائی بدحالی کا شکار تھا۔ صدر بشیر نے قوم کو نعرہ دیا کہ مَن لَا یَملِکُ قُوتَہُ لَایَملِکُ قَرَارَہُ (جس کی غذا اپنے ہاتھ میں نہیں، اس کے فیصلے بھی اپنے ہاتھ میں نہیں)۔غذائی خود کفالت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ تعلیم کے لیے نئے اعلیٰ ادارے قائم کیے گئے۔ پہلے ملک میں صرف پانچ یونی ورسٹیاں تھیں، اب ملک میں ۱۲۶ یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کا ایک جال ہے۔ پورا نصاب تعلیم عربی زبان میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ حتیٰ کہ میڈیکل، انجینیرنگ اور دیگر پیشہ ورانہ تعلیم بھی قومی زبان عربی میں دی جاتی ہے۔ علاج کی سہولت جتنی ہے، سب شہریوں کو مفت حاصل ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے نئے اور بڑے ڈیم قائم کیے گئے جو عموماً ملکی ضرورت پوری کررہے ہیں۔۲ء ۹ کلومیٹر طویل اور ۸۲ میٹر چوڑے مروی ڈیم میں ۱۲۵۰ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی دس ٹربائینیں کام کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ڈیم اور آئل ریفائنری مسلسل پیداوار دے رہی ہیں۔ تیل کے کنویں تو جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے ساتھ ہی اس کے حصے میں چلے گئے، لیکن وہ خام تیل کی ترسیل کے لیے سوڈان ہی کا محتاج ہے۔ ملک میں بنیادی انفراسٹرکچر کے دیگر پیمانوں میں بھی بہتری آئی ہے۔لیکن رقبے کے اعتبار سے افریقا اور عالم عرب کے تیسرے بڑے اور غربت کے ساتھ ساتھ تقریباً ۵ کروڑ کی آبادی والے ملک کو، مشکلات سے نجات پانے کے لیے، بیرونی سازشوں اور جکڑ بندیوں سے نجات کے علاوہ، اندرونی استحکام کا طویل سفر ابھی طے کرنا ہے۔
عالم اسلام اور رحمۃ للعالمین کی اُمت کو قرآن و سنت کے آئینے میں دیکھیں تو ہلاکت و تباہی کے سب اسباب سامنے آجاتے ہیں۔ قرآن کریم بار بار اتحاد و اخوت کی تعلیم دیتے ہوئے خبردار کرتا ہے کہ باہم جھگڑوں اور گروہ بندیوں میں پڑو گے تو ناکام ہوجاؤگے۔ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ مسلم اقوام و افراد ایک کے بعد دوسری جنگ اور عارضی مفاد و منصب کی خاطر برپا اختلافات میں کود پڑنے پر ہر دم آمادہ رہتے ہیں۔ سوڈان اور الجزائر ہی نہیں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران لیبیا میں بھی خانہ جنگی کا ایک نیا اور سنگین دور شروع ہوگیا ہے۔
کرنل قذافی کے ۴۰ سالہ دور حکومت کے بعد مصر اور تیونس کی طرح لیبیا میں بھی عوام کی مرضی سے منتخب حکومت اور انتخاب و شورائیت کی بنیاد پر ایک آزادانہ معاشرتی نظام وجود میں آنا شروع ہوگیا تھا۔ لیبیا جاکر دیکھا اور وہاں سے آنے والوں نے بھی بتایا کہ بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال یہ اہم ملک دنیا کے ساتھ نئے معاشی، سیاسی اور ترقیاتی تعلقات کا متمنی و منتظر ہے۔ اچانک معلوم ہوا کہ مصر میں ملکی تاریخ کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون کرنے والے جلادوں کے پشتیبان، اب لیبیا میں بھی خون کی یہی ہولی کھیلنے پر مصر ہیں۔ انھوں نے معمر قذافی کے ایک سابق رفیق کار خلیفہ حفتر کا مہرہ آگے بڑھایا ہے۔
خلیفہ حفتر (پیدایش ۱۹۴۳ء) ۱۹۶۹ء میں لیبیا کے شاہ ادریس السنوسی کے خلاف کرنل قذافی کے انقلاب کا حصہ تھے۔ بعد ازاں قذافی نے انھیں بری افواج کا سربراہ بنادیا۔ ۱۹۷۸ء میں لیبیا اور پڑوسی ملک چاڈ کے درمیان جنگ شروع ہوگئی جو وقفوں وقفوں سے تقریباً دس سال جاری رہی۔ ۱۹۸۷ء کی جنگ میں خلیفہ حفتر خود شریک تھا۔ آغاز میں اسے کچھ کامیابی ملی، لیکن اسے فوری کمک کی ضرورت تھی۔ لیبیا کے تاریخ دان بتاتے ہیں کہ قذافی نے اس خدشے سے کمک نہ بھیجی کہ حفتر اس لڑائی میں ایک کامیاب ہیرو کے طور پر متعارف ہورہا ہے، اگر واقعی جیت کر واپس لوٹا تو کہیں میرا تختہ نہ الٹ دے۔ حفتر اور اس کی فوج شکست کھاگئی۔ ۱۲۶۹ لیبین فوجی مارے گئے اور خلیفہ حفتر سمیت ۴۳۸ گرفتار ہوگئے۔ دوران اسیری حفتر نے قذافی سے بغاوت و علیحدگی کا اعلان کردیا۔ امریکی مداخلت پر اسے رہائی ملی اور وہ وہیں سے امریکا چلا گیا، جہاں ۲۰سال تک مقیم رہا۔ امریکی شہریت حاصل کرلی اور CIA کے ساتھ قریبی تعلق و تعاون رہا۔
سقوط قذافی کے بعد لیبیا میں ایک عبوری حکومت تشکیل پائی۔ قذافی کے خلاف تحریک چلانے والے تقریباً سب گروہ اس میں شریک تھے۔ ملک میں امن و استحکام کا سفر شروع ہوا چاہتا تھا کہ خلیفہ حفتر نے لیبیا کے دوسرے بڑے شہر ’بنغازی‘ میں اعلان بغاوت کردیا۔ مصر کے جنرل سیسی اور اس کے حلیف حفتر کی بھرپور عسکری و مالی مدد کررہے تھے۔ کوئی فریق دوسرے کو شکست تو نہ دے سکا، البتہ ملک میں دو متوازی حکومتیں قائم ہوگئیں۔ ایک دار الحکومت طرابلس (Tripoli) میں اور دوسری بنغازی میں۔ وقت اسی طرح آگے بڑھ رہا تھا کہ الجزائر و سوڈان میں عوامی تحریک کے ساتھ ہی خلیفہ حفتر نے طرابلس پر پھر سے چڑھائی کردی۔ اب تک طرفین کے سیکڑوں افراد اور طرابلس کا سارا گردونواح جنگ کی نذر ہوچکا ہے۔ خلیفہ حفتر کی افواج کو ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے، لیکن اسے شہ دینے والے جنگ کے شعلے بھڑکائے رکھنے پر مصر ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار کرتے ہوئے مطلع کیا تھا کہ: ’’آپ لوگ اپنے سے پہلے والوں کے ایک ایک قدم اور ایک ایک عمل کی پیروی کرو گے۔ یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں جاگھسو گے‘‘ ( بخاری)۔ قرآن کریم اس روش سے باز رہنے کا حکم دیتا اور خبردار کرتا ہے کہ: وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۶۲ (احزاب۳۳: ۶۲) رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم اُمتیوں کو دُعا سکھائی تھی: لطیف و خبیر پروردگار اپنے بندوں پر رحم فرما۔ ہمارے گناہوں کے باعث ہم پر ایسے حکمران مسلط نہ فرما جو ہمارے معاملے میں آپ کا خوف نہ رکھتے ہوں اور ہم پر رحم نہ کھاتے ہوں۔
سوال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کا پورا علم حاصل کیے بغیر ہمیں تبلیغ کا کوئی حق نہیں ہے۔ یا اگر علم تو ہو لیکن عمل نہ ہو، تو اس صورت میں بھی تبلیغ کا کوئی حق نہیں، مثلاً پینٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر تبلیغ کی جاتی ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ کیا یہ خیال صحیح ہے؟
جواب :جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا پورا علم حاصل کیے بغیر کسی کو تبلیغ کا حق نہیں ہے، ان سے دریافت کیجیے کہ: پورے علم کی تعریف کیا ہے؟ اس کی حد کیا ہے؟ اور اس کا پیمانہ کیا ہے؟ یہ پیمایش کیسے ہوگی کہ کسی کو پورا علم حاصل ہوگیا کہ نہیں؟ جن لوگوں کی عمریں قرآن و حدیث پڑھتے پڑھاتے ہوئے گزر گئی ہیں، وہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ انھیں پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ جو آدمی صحیح معنوں میں عالم ہوتا ہے، وہ مرتے دم تک طالب علم رہتا ہے۔ کبھی اس کے دماغ میں یہ ہوا نہیں بھرتی کہ مَیں پورا عالم ہوگیا ہوں اور مجھے پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ اس لیے یہ بات صحیح نہیں کہ ’پورا علم‘ حاصل کیے بغیر تبلیغ کرنا درست نہیں۔
یہ بھی دیکھا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو بدوی آکر مسلمان ہوتے تھے اور پھر اپنے قبیلوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے، وہ کب پورے عالم بن کر جاتے تھے۔ بس دین کی بنیادی باتیں انھیں معلوم ہوجاتی تھیں۔ وہ یہ جان لیتےتھے کہ حق کیاہے اور باطل کیا ہے؟ ہمارے فرائض کیا ہیں، کون کون سی چیزیں ہمارے لیے ممنوع ہیں، اور کن کن کی اجازت ہے؟ یہ باتیں وہ جان لیتے تھے اور جاکر لوگوں میں خدا کے دین کی تبلیغ شروع کر دیتے تھے اور پورے پورے قبیلوں کو مسلمان بنا لیتے تھے۔
دوسرا سوال ہے عمل نہ ہوتے ہوئے تبلیغ کرنے کے متعلق___ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف بلانا کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ ایک آدمی اگر شیطان کے راستے کے بجاے اللہ کے راستے کی طرف بلا رہا ہے اور اس کے اپنے عمل میں خامی ہے، تو اس کا اللہ کے راستے کی طرف بلانا تو غلط نہیں ہے۔ اسے اس کام سے نہ روکیے اور نہ اس پر اعتراضات کیجیے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جب ایک آدمی یہاں تک آپہنچتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتا ہے، انھیں بُرائیوں سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کے سامنے حق پیش کرتا ہے، تو اُمید رکھنی چاہیے کہ یہ عمل اس کی اپنی زندگی کو بھی درست کردے گا۔ جب وہ یہ کام کرے گا تو وہ خود ہر وقت اپنے عمل اور زندگی پر بھی نظر دوڑائے گا، اور آہستہ آہستہ اپنی اصلاح بھی کرلے گا۔ اب جو آدمی خود بخود غلط سے صحیح راستے کی طرف آرہا ہے اگر آپ اسے بار بار ٹوکیں گے اور اس طرح اس کے واپس لوٹ جانے کا سبب بنیں گے، تو میرا خیال ہے کہ آپ خدا کے ہاں ماخوذ ہوں گے۔ آپ کے اس طرح ٹوکنے کا نتیجہ یہی تو نکل سکتا ہے کہ وہ خدا کے راستے کی طرف نہ بلائے، حق بات نہ کہے اور لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف دعوت نہ دے ۔ظاہر ہے کہ یہ نہایت غلط بات ہے۔ اگر اس کے عمل میں کوئی خرابی ہے تو، توقع کیجیے کہ اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔
حدیث میں آتا ہے کہ آں حضوؐر سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ دن کو نمازیں پڑھتا ہے اور رات کو چوریاں کرتا ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اس کے حال پر چھوڑ دو،یا تو چوری اس سے نماز چھڑوا دے گی، یا نماز اس سے چوری چھڑوا دے گی۔ یہ تو ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیم۔ اب اگر ایک آدمی اصلاح کے جوش میں آکر ایسے شخص سے یہ کہے کہ:کم بخت جب تو چوری کرتا ہے تو تیری نماز کس کام کی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی اصلاح کی آخری اُمید بھی منقطع کرنا چاہتے ہیں۔ چوری میں تو و ہ مبتلا ہے ہی، اب آپ اس سے نماز بھی چھڑوانا چاہتے ہیں۔ نماز ایک آخری رشتہ ہے جس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مکمل بھلائی کی طرف پلٹ آنے میں اس کی مدد کرے۔ لیکن آپ وہ رشتہ بھی جوشِ اصلاح میں کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ اپنے نزدیک تو آپ نے بڑی اصلاح کی بات کی، لیکن حقیقت میں آپ نے اسے جہنم کی طرف دھکیلنے میں حصہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: جب وہ شخص چوری کرتا ہے تو نماز سے اسے کیا حاصل؟‘ بلکہ یہ فرمایا: اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ ایک وقت آئے گا کہ یا تو اس کی نماز اس سے چوری چھڑا دے گی یا چوری نماز چھڑا دے گی‘۔
بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ اصلاح کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، لیکن اصلاح کے لیے جس حکمت کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس کے ابتدائی تقاضوں سے بھی واقف نہیں ہوتے، اور بسااوقات اپنے غیرحکیمانہ طرزِعمل سے درست ہوتے ہوئے آدمیوں کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔
سوال : آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ ازراہِ احترام بعض لوگ ’صلعم‘ لکھ دیتے ہیں اور بعض جگہ صرف ’ ؐ‘ لکھا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب : ’صلعم‘ لکھنا تو صحیح نہیں اور آںحضوؐر کے نام کے ساتھ لکھنا نامناسب ہے۔ البتہ ’ ؐ‘لکھا جاسکتا ہے،لیکن زیادہ مناسب یہی ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل لکھا جائے۔
سوال : روزے کی حالت میں آدمی کسی شدید تکلیف میں مبتلا ہوجائے، تو کیا اس کے لیے روزہ توڑنا جائز ہے؟
جواب : اگر تکلیف ناقابلِ برداشت ہوجائے یا ڈاکٹر اسے بتا دے کہ جان جانے کا خطرہ ہے تو روزہ توڑنا جائز ہے۔
سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ایسی حالت میں انسان روزہ نہ توڑے اور جان دے دے، تو اس کا درجہ بلند ہوجاتا ہے؟
جواب : ایسا نہیں ہوتا، بلکہ شریعت کی رُو سے انسان گناہ گار قرار پاتا ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں انسانی جان کے معاملے میں وہی معیار سامنے رکھنا چاہیے اور مومن کی زندگی کو وہی اہمیت دینی چاہیے، جو اسلام دیتا ہے۔ شریعت کا حکم ہے کہ جان پر آبنے یا تکلیف آپے سے باہر ہوجائے، تو روزہ توڑنے میں کوئی حرج نہیں۔
سوال : ایک فرد جو ریاست کو ٹیکس ادا کرتا ہے تو کیا اس کے لیے محصول چونگی کی ادایگی بھی ضروری ہے؟
جواب : محصول چونگی دراصل اس شہر کا حق ہوتا ہے جس میں آپ رہ رہے ہیں۔ یہ ان مصارف کے لیے ہوتا ہے، جن کے ذریعے آپ کو متعدد سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اس لیے اس کی ادایگی کرنی چاہیے۔ یہ درست نہیں ہے کہ آپ سہولتوں سے تو استفادہ کریں اور مصارف کی ذمہ داریوں سے بچیں۔
سوال : انسان کے دل میں بعض اوقات طرح طرح کے وسوسے آتے ہیں، ان میں سے بعض بہت بُرے ہوتے ہیں، کیا ان کی بنیاد پر گرفت ہوگی؟
جواب : وسوسہ جب تک دل میں اس طرح جم نہ جائے کہ اس کی بنیاد پر انسان کوئی غلط کام کربیٹھے، اس وقت تک نہیں پکڑا جائے گا۔
مقالاتِ برکاتی، علّامہ حکیم محمود احمد برکاتی، مرتب: ڈاکٹر سہیل احمد برکاتی۔ ناشر: عکس پبلی کیشنز، داتا دربار مارکیٹ ، لاہور۔ فون: ۴۸۲۷۵۰۰-۰۳۰۰۔ صفحات:۵۵۰۔ قیمت: ۱۲۰۰روپے۔
ریاست ٹونک کو نواب امیرخان نے ۱۸۱۷ء میں قائم کیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد، بھارتی حکومت نے یکم مئی ۱۹۵۰ء کو اسے صوبہ راجستھان میں ضم کرلیا۔ برطانوی عہد میں برعظیم کی مسلم ریاستوں میں ٹونک کو کئی اعتبار سے ممتاز حیثیت حاصل تھی۔ امتیاز کا ایک سبب ٹونک کا خانوادۂ برکاتی ہے۔ علّامہ برکات احمد (م: ۱۹۲۸ء) فاضلِ اجل اورطبیب بے بدل تھے۔ اُن کے اخلاف نے علم و فضل اور طبابت کی روایت کو برقرار رکھا۔ زیرنظر کتاب کے مصنف حکیم محمود احمد برکاتی شہید (۱۹۲۶ء-۲۰۱۳ء) غالباً اِس کی آخری کڑی تھے۔ اُن کے فرزند ِ ارجمند ڈاکٹر سہیل احمد برکاتی نے اپنے والد ِ مرحوم کے نئے پرانے مقالات کا زیرنظر مجموعہ مرتب کر کے شائع کیا ہے۔قبل ازیں برکاتی شہید کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
زیرنظر کتاب میں سیرت النبیؐکے علاوہ بعض بزرگوں (شاہ ولی اللہ، شاہ محمد اسحاق دہلوی، شاہ محمد محدث دہلوی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا عبدالحق خیرآبادی وغیرہ) اور بعض معاصرین (ماہرالقادری ، ظفر احمد انصاری ،ابوالخیر کشفی، پروفیسر سیّدمحمدسلیم اور محمد محسن ٹونکی وغیرہ) پر مصنّف کے مقالات شامل ہیں۔ تقریباً ایک درجن مضامین طب، ادویہ اور امراض پر ہیں۔ مزیدبرآں چند خطبات، ایک انٹرویو اور ایک خودنوشت بھی شاملِ اشاعت ہے۔ تاہم، ایک قیمتی مقالہ (حکیم احسن اللہ خان) شامل ہونے سے رہ گیا۔ یہ مقالہ مشفق خواجہ کے توسط سے ہمیں ملا تھا اور ارمغانِ شیرانی (شعبۂ اُردو اورینٹل کالج، لاہور، ۲۰۱۲ء) میں شامل ہے۔
مضمون: ’ٹونک کا ماضی اور حال‘ ریاست ٹونک کے متعلق ایک کشکول ہے جس میں ٹونک کے حکمرانوں، اکابر اہلِ قلم، ان کی تصانیف، وہاں کے پی ایچ ڈی مردو زن، صحافیوں، ٹونک پر کتب ِ تواریخ اور وہاں کے مطابع وغیرہ کے بارے میں معلومات مل جاتی ہیں۔ وہ ٹونک کی ہمہ پہلو تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ وہ اسے ’دارالاسلام محمدآباد‘ عرف ٹونک کا نام دیتے ہیں ، شاید اس لیے کہ ان کے بقول: ’دین سے اتنا قریب معاشرہ میں نے کہیں نہیں دیکھا‘ (ص ۲۴۹)۔ ان کے خیال میں ٹونک ’غیرت شیراز و بغدادِ صغیر‘ تھا۔
ریاست ٹونک کے پانچویں حکمران نواب سعادت علی خاں (۱۹۳۰ء-۱۹۴۷ء)پر برکاتی مرحوم کا مضمون، البتہ کم زور ہے۔ بلاشبہہ تعمیراتی کام حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہیں۔ یہ عوام پر، ان کی ’عنایات‘ نہیں ہوتیں۔ نواب صاحب شیروں کے شکاری تھے، مصنف نے ۱۱۰؍شیروں کے شکار کو بھی نواب صاحب کے ’کارناموں‘ میں شمار کیا ہے۔
کتاب کے دل چسپ ہونے میں کلام نہیں ، جس کا بڑا سبب موضوعات کا تنوع اور خوب صورت اسلوب ہے۔ بعض مضامین تو بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُمید ہے کہ مرحوم کے لائق فرزند سہیل برکاتی، اپنے والد کے نام مشاہیر و اکابر کے خطوط بھی مرتب کر کے شائع کریں گے۔(رفیع الدین ہاشمی)
قرآن کی تاثیر ، مرتبہ :حافظ محمد عارف۔ ناشر: جامعہ عربیہ ،جی ٹی روڈ، گوجرانوالہ۔ فون: ۷۴۴۸۰۸۸-۰۳۲۱۔صفحات :۴۴۰۔قیمت: درج نہیں۔
فاضل مرتب نے کتاب کا آغاز اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے:’’ہر نبیؑ کو ایسا معجزہ عطاکیا گیا ہے، جس پر انسان ایمان لائے، اور جو معجزہ مجھے عطا کیا گیا ، وہ یہ وحی [قرآن ] ہے، جو اللہ نے میری طرف نازل کی ہے‘‘۔(بخاری )
اسی فرمانِ نبویؐ کی روشنی میں محترم مرتب نے مختلف دانش وروں ، عالموں اور نو مسلموں کے دلوں کو پھیرنے میں قرآن کریم کی تاثیر پر مبنی تحریروں کو جمع کیا ہے۔ جن میں مقامی بھی ہیں اور غیر ملکی بھی، مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ بقول مرتب:’’صرف وہ واقعات ومشاہدات جمع کیے ہیں، جو مستند ہیں ،جہاں شک وشبہے کی گنجایش تھی، ان واقعات سے صرف نظر کیا ہے ‘‘۔(ص ۷)
اس طرح یہ واقعات قاری کو قرآن سے جوڑنے اور اس کی برکتیں حاصل کرنے کے لیے اُبھارتے ہیں۔ (ادارہ)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، عصرِ حاضر میں تحریک اسلامی کے ایک جیّد عالم اور اسلامی معاشیات کی تحریک کے مرکزی قائدین میں شامل ہیں۔ ان کا فکر انگیز مقالہ ’اسلامی تحریکات: مستقبل اور مقاصد شریعت‘ (اپریل۲۰۱۹ء) غوروفکر کے ان زاویوں کو کھولتا ہے کہ جن کی طرف عام طور پر نظر نہیں جاتی یا پھر ان پر بات کرتے ہوئے ، روایت پسند ی آڑے آ جاتی ہے۔ نجات اللہ صاحب کے سوالات کا تعلق تکثیری معاشروں سے بھی ہے۔ اگرچہ ادارہ ترجمان نے جھجکتے ہوئے مضمون دیا ہے، حالاں کہ اس جھجک کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ صاحب ِمقالہ نہ تو دین کے معاملے میں معذرت خواہ ہیں اور نہ اسلام کے درد سے ناواقف ۔ یقینا اہل حل وعقد اس مقالے پر توجہ فرمائیں گے۔
’مسجد: مرکزِ عبادت، تربیت اور خدمت ‘ کے مصنف ایچ عبدالرقیب نے ایک نہایت اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اسلام کا مقصد یقینا ایک ایسے معاشرتی نظام اور ایسے طرزِ زندگی کی تعمیر وتشکیل ہے، جو اخوت اور انصاف پر مبنی ہو۔ اصولاً ایک محلے میں ایک ہی مسجد ہو تو اچھا ہے، جس میں تمام مسالک کے مسلمان بھائیوں کے لیے اپنے مسلک کے تحت نماز کی گنجایش اور سماجی سطح پر یک جائی ، تعاون اور باہم فکر مندی کا سامان ہو۔
محترم سیّد علی گیلانی صاحب کے خطبے ’کشمیر :منزل صرف آزادی ‘ میں دلیل ، جرأت اور کمٹ منٹ کی پختگی اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ کر اسلامیانِ عالم کو جھنجھوڑتی ہے۔ نیز اہلِ کشمیر کا اصولی موقف مدلّل انداز میں سامنے آتا ہے۔
پروفیسر خورشیداحمد کا مضمون : ’اقبال: اسلامی احیائی تحریک کا معمار‘ علّامہ کے فکری اور تہذیبی کارنامے پر اختصار و جامعیت سے روشنی ڈالتا ہے۔ مسجد کے مقام کو سمجھنے کے لیے اسلام جو فکر دیتا ہے، ایچ عبدالرقیب کی تحریر، اسے سمجھنے میں بڑی معاونت فراہم کرتی ہے۔ چودھری محمد اسلیم سلیمی صاحب نے حُسنِ اخلاق پیدا کرنے کے لیے سیرت النبیؐ کے مطالعے اور اس کی روشنی میں خود کو سنوارنے کی اچھی دعوت دی ہے۔
’اشارات‘ میں نہ صرف علامہ محمد اقبال کی فکر کا تعارف کرایا گیا ہے بلکہ ایک مختصر مضمون میں بہت بڑے موضوعات بھی سمجھا دیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ تحریر ایک جانب تفہیمِ اقبال کے سلسلے میں حددرجہ مددگار ثابت ہوتی ہے، تو دوسری جانب موجود ہ زمانے میں مسلمانوں کے مسائل کی جڑ اور بنیاد کو سمجھنے میں بھی معاون بنتی ہے۔
اپریل کا پورا شمارہ یاد گار ہے۔ اشارات کے بعد ، ’رسائل ومسائل‘ میں مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس میں سوال کرنے اور جواب سننے تک کی سہولت میسر آئی جس کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے شکرگزار ہیں۔ تذکیر کے باب میں ڈاکٹر جاسم مطوع کی تحریر ’گفتگو: فکرمندی اور بدی سے‘ کئی طویل تقریروں پر بھاری ہے۔ محترم چودھری محمد اسلم سلیمی صاحب نے حسنِ اخلاق کی تعمیر کے لیے سیرت پاک سے پھول چُن کر قارئین کے مطالعے کے لیے پیش کیے ہیں۔ جناب افتخار گیلانی نے جموں وکشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی کا پس منظر جس خوبی سے بیان کیا ہے، وہ آنکھیں کھول دینے والا ہے۔
مراد علوی صاحب نے مولانا مودودیؒ کی کتاب الجہاد فی الاسلام کے پس منظر پر بہت سلیقے سے روشنی ڈالی ہے۔ حیرت ہے کہ سو سال گزرنے کے باوجود منظر وہی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے زمانے میں ویسی جرأتِ اظہار رکھنے والے مسلمان اہلِ قلم کم یاب ہیں۔ مضمون نگار نے بڑی خوبی سے تاریخ کو آج سے جوڑ کر پیش کیا ہے۔
’اشارت‘ میں علامہ اقبال ؒ کی شخصیت کے دینی جذ بے اور افکار کو خوب صورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ محترم ایچ عبدالرقیب کے مضمون ’مسجد: مرکز ِ عبادت ، تربیت اور خدمت ‘ نے اسلامی معاشرے میں مسجد کی مرکزیت کو واضح کیا ہے ، حالاںکہ ہمارا خیال یہ ہوتا ہے مسجد میں نماز کی ادایگی کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ڈاکٹر شائستہ پروین نے بچوں کی تربیت کے ایک خاص پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے تربیت کے اہم تقاضے بیان کیے ہیں۔ ’رسائل ومسائل‘ میں اہم مسائل کو مختصر اور جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
گذشتہ چھے ماہ کے دوران، عالمی ترجمان القرآن میں شائع ہونے والے متعدد یادگار مضامین کے مصنف جناب جاوید اقبال خواجہ (پ:یکم مارچ ۱۹۵۳ء) ۸؍اپریل ۲۰۱۹ء کو لندن میں وفات پاگئے ہیں، اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ۔مرحوم کی مغفرت کی دعا کے لیے درخواست ہے۔ ادارہ |