بسم اللہ الرحمن الرحیم
امریکا کی بش انتظامیہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے ایک قابلِ مذمت واقعے کو جس طرح ایک نئی عالمی جنگ (Global War) کی شکل دی اور نظامِ انصاف و قانون کے تحت واقعے کے اصل مجرموں کے تعین اور سزا کو پسِ پشت ڈال کر افغانستان اور عراق پر فوج کشی کرکے قبضہ کیا اور پھر ساری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک خونی یلغار کا راستہ اختیار کیا، اس نے پوری دنیا خصوصیت سے مسلم دنیا کو، ایک نہایت تباہ کن صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
پاکستان کے اُس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے قوم کی سوچ اور احساسات و عزائم کے برعکس، بلکہ خود اپنی فوج کی قیادت کے ایک معتدبہ حصے کے مشورے کے خلاف جس طرح واشنگٹن کے ایک ٹیلی فون پر گھٹنے ٹیک دیے اور تمام سیاسی اصولوں اور سفارتی آداب کو بالاے طاق رکھ کر افغانستان کی دوست حکومت کے خلاف امریکا کی فوج کشی کے لیے اپنا کندھا پیش کردیا، اس نے پاکستان اور افغانستان دونوں کو جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں دے دیا۔ اس سات سالہ جنگ میں اس کا اعلان شدہ کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا میں فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، افغانستان اور عراق جیسے دو عظیم ملک بالکل تباہ ہوگئے، ساری دنیا میں عدمِ تحفظ میں اضافہ ہوا، آزادیوں پر نت نئی پابندیاں عاید کی گئیں، بین الاقوامی قانون اور معروف اصولِ انصاف پامال ہوئے، لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ مالی اعتبار سے آج کی دنیا میں غربت، افلاس، بے روزگاری، بھوک اور بیماری کا دور دورہ ہے اور ۷۰ فی صد انسانیت ۲ڈالر یومیہ سے کم پر گزر بسر کر رہی ہے۔نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پروفیسر جوزف اسٹگ لِٹز (Joseph Stiglitz) کے مطابق اس عالمی جنگ کے نتیجے میں ۲۰۰۶ء تک آج کی دنیا ۳کھرب ڈالر کا خسارہ برداشت کرچکی ہے،(۱) جب کہ اس رقم کا دسواں حصہ بھی دنیا سے غربت کو دُور کرنے کے لیے استعمال ہوتا تو۲ ارب انسان غربت و افلاس کے پنجے سے آزاد ہوسکتے تھے۔
دنیا کے دانش وروں کی ایک بڑی تعداد ان سات برسوں میں جاری رہنے والی اس امریکی پالیسی کا جائزہ لے کر کھلے لفظوں میں کہہ رہی ہے کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور خسارے اور بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ امریکا کے مشہور مجلہ فارن اَفیرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر،اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں امریکا کے چار چوٹی کے مفکرین بیک زبان کہتے ہیں (اور ان میں اقوامِ متحدہ میں امریکا کا سفیر ہال بروک بھی شامل ہے) کہ امریکا کی جنگی حکمت عملی دونوں ممالک میں، یعنی عراق اور افغانستان میں ناکام رہی ہے اور ہمیں اپنی پالیسیوں پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تقریباً یہی نتیجہ اس سروے سے بھی حاصل ہوتا ہے جو امریکا کے ایک اور بڑے اور موقر جریدے فارن پالیسی کے تازہ شمارے (ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں شائع ہوا ہے یعنی Terrorism Index۔
اس سروے کی رُو سے امریکا کے اُمور خارجہ کے اولین صف کے ۱۰۰ مفکرین اور تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکا کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا ۷۰ فی صد زیادہ خطرناک جگہ بن گئی ہے۔ ۹۰ فی صد کی راے یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار رہا ہے۔
ان حالات میں اب امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ناٹو کے فوجی کمانڈر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی قوت کا استعمال مسائل کا حل نہیں بلکہ سیاسی حل کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں افغانستان میں خود طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں اس ماہ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترک اجلاس اس امر پر غور کرنے کے لیے ہوا ہے کہ ملک کی سیکورٹی پالیسی کہاں تک درست ہے اور کیا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟ سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کی وہ شریکِ اقتدار سیاسی جماعتیں جو سابق صدر مشرف کے دور میں ان کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی پر تنقید کرتی تھیں، مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اس پالیسی پر نہ صرف گامزن ہیں بلکہ زیادہ سختی اور کشت و خون میں ہوش ربا اضافے کے ساتھ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ زرداری صاحب تو شب وروز یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ میری جنگ ہے، پاکستان کی جنگ ہے، اور وہ آخری دم تک اس میں مصروف رہیں گے۔(۱)
اس موقعے پر ہم چاہتے ہیں کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں پرویز مشرف اور صدر زرداری کی امریکی پالیسی کو پاکستان کی پالیسی بنا لینے کے طرزِعمل کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیں اور قوم اور پارلیمنٹ کو اس طرف متوجہ کریں کہ وقت کی اصل ضرورت اس ناکام پالیسی کو کسی دوسرے عنوان سے جاری رکھنا نہیں بلکہ اسے یکسر تبدیل کرنا ہے۔ اس جائزے میں ہمارا اصل موضوع امریکا کی پالیسی سے زیادہ پاکستان کی پالیسی ہوگا اور اسے نظرانداز کرتے ہوئے کہ آیندہ نومبر کے صدارتی انتخابات کے بعد امریکا کیا پالیسی اختیار کرتا ہے، ہم یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کو اپنے ملکی مفاد اور قومی مقاصد اور اُمنگوں کی روشنی میں اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ ہم جس طرح امریکا کی پالیسی کے خادم اور آلۂ کار بن گئے ہیں، وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ اس لیے اس پالیسی کو جتنی جلدی تبدیل کرلیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
جنرل مشرف نے جن حالات میں اور جن وجوہ سے ستمبر ۲۰۰۱ء میں پالیسی کا یوٹرن لیا اس پر ان صفحات میں ہم کئی بار گفتگو کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی ضرورت نہیں، البتہ جو بات سامنے رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ پاکستان پر جو پالیسی مسلط کی گئی وہ کسی قومی مشاورت کے نتیجے میں نہیں بنائی گئی تھی اور نہ اس کا انحصار کسی اداراتی فیصلے پر تھا۔
Pew Global Attitude Project کی رپورٹ What the World Thinks in 2002 کی رُو سے ۲۰۰۲ء میں پاکستان کی آبادی کے ۴۵ فی صد نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کی، جب کہ ۲۰ فی صد نے (جو ۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۱۶ فی صد رہ گئی تھی) اس کی تائید کی۔ بحیثیت مجموعی امریکا کا مقام و مرتبہ (US image) جو پاکستان میں ۲۰۰۰/۱۹۹۹ء میں ۲۳ فی صد کی نگاہ میں مثبت تھا، وہ نائن الیون اور اس کے ردعمل کی روشنی میں تبدیل ہوا اور ۲۰۰۲ء کے سروے کے مطابق صرف ۱۰ فی صد کے ذہن میں امریکا کا مثبت تصور تھا۔
ایک دوسرے عالمی سروے World Public Opinion Org کے مطابق اس سوال کے جواب میں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کا فائدہ کس کو پہنچا؟ ۵۶ فی صد نے کہا کہ امریکا کو۔ صرف ۶ فی صد کی راے تھی کہ پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے، جب کہ ۲۹ فی صد کی راے یہ تھی کہ پاکستان کو اس کا نقصان ہوا ہے۔ ستمبر۲۰۰۷ء میں منعقد کیے جانے والے اس سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کے ۷۲ فی صد کی نگاہ میں ایشیا میں امریکی فوجیوں کی موجودگی پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد کی نگاہ میں خطرہ تو ہے اور اہم ہے مگر اس کی سنگینی اتنی اہم نہیں۔ صرف ۶ فی صد کی نگاہ میں امریکا کوئی خطرہ نہیں۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں منعقد کیے جانے والے ایک سروے کی روشنی میں پاکستان کی آبادی کے ۶۴ فی صد کی نگاہ میں دہشت گردی کے خلاف فوج کی جنگ غلط ہے اور ۸۹ فی صد نے کہا کہ پاکستان کو امریکا کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اسی طرح ۸۳ فی صد کی نگاہ میں افغانستان میں امریکا کی فوج کشی پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔ راے عامہ کے ایک اور جائزے کی رُو سے، جو امریکی ادارے New America Foundation نے مئی جون ۲۰۰۸ء میں منعقد کیا اور جو Terror Free Tomorrow کے عنوان سے شائع کیا ہے، آج بھی ۷۴ فی صد پاکستانی القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ کو برحق نہیں سمجھتے۔ نیز آبادی کے ۵۷ فی صد کی راے میں پاکستان کو امریکا کے مقابلے میں اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے، جب کہ ۵۲فی صد امریکا کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
مشرف اور زرداری صاحب کی پالیسیوں کو عوامی تائید حاصل نہیں۔ دیکھتے ہیں منتخب پارلیمنٹ کہاں تک عوام کے جذبات و توقعات کی ترجمانی کرتی ہے۔
اول توقوت کا ہر استعمال دہشت گردی نہیں۔ دہشت گردی کا اطلاق صرف قوت اور تشدد کے ہتھکنڈوں کے اس استعمال پر ہوتا ہے جس میں کچھ خاص، بالعموم سیاسی اہداف کے حصول کے لیے اور اپنے مقاصد کی طرف توجہ مرکوز کرانے کے لیے دوسروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں مخالف قوت کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے اور بالعموم فوری ہدف (victim) اور اصل مقصد (target) الگ الگ ہوتے ہیں۔
اس تعریف کی روشنی میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات جرم ہوتے ہوئے بھی دہشت گردی قرار نہیں دیے جائیں گے، مثلاً تاوان کے لیے اغوا، محض دماغی انتشار اورفتور کی وجہ سے لوگوں کی جانوں کے اتلاف کے واقعات یا دوسرے مافیا اور مجرم عناصر کی سرگرمیاں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی جو اہم شکلیں پاکستان میں پائی جاتی ہیں ان میں فرقہ وارانہ تشدد، لسانی بنیادوں پر دہشت گردی اور علاقائی تحریکوں یا نیم قومی بغاوتیں (sub-national insurgencies) نمایاں ہیں۔ لیکن سب سے اہم شکل وہ دہشت گردی ہے جو خالص سیاسی بنیادوں پر، امریکا کی پالیسیوں اور خونی کارگزاریوں کے ردعمل میں رونما ہوئی ہے اور جس کی لپیٹ میں آج تمام ہی قبائلی ایجنسیاں آچکی ہیں اور آباد علاقوں میں سے سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان، پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد بھی اس کی زد میں ہیں۔ اس کی اصل بنیاد اور محرک افغانستان پر امریکا کی فوج کشی اور دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسلمان ایشوز کے سلسلے میں امریکا کی پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان علاقے غیروں کے قبضے میں ہیں اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ نیز اُن کو ریاست کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس نوعیت کی دہشت گردی میں کمیت اور کیفیت ہردو اعتبار سے بے محابا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت دہشت گردی کی یہی وہ شکل ہے جس سے فاٹا، باجوڑ اور سوات وغیرہ میں فوج کو سابقہ درپیش ہے۔ بلاشبہہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں، خصوصیت سے کرم ایجنسی میں۔ بلوچستان میں بالخصوص علاقائی اور نیم قومی بنیادوں پر تصادم نے دہشت گردی کی شکل اختیار کرلی ہے، جہاں حکومت نے فوج کشی کر کے شہری آبادیوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور محبِ وطن عناصر کو تشدد اور علیحدگی پسندی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔
ہم اس بحث سے جو نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں وہ حکمت عملی کا یہ سقم ہے کہ ہرہرنوعیت کی دہشت گردی کا صحیح صحیح تعین کر کے ہر ایک کے لیے اس کے مزاج، نوعیت، مسائل اور اصلاحِ احوال کے حوالے سے واضح حکمت عملی تیار نہیں کی گئی بلکہ سب کو ایک عمومی عنوان کے تحت گڈمڈ کردیا گیا ہے۔ اس کا علاج فوج کشی اور حکومت کی نام نہاد عمل داری (writ) کے قیام کے لیے قوت کے بے محابا استعمال کو قرار دے دیا گیا ہے جس کے تباہ کن نتائج رونما ہو رہے ہیں۔
اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ نہ مرض کی صحیح تشخیص کی گئی، نہ مختلف امراض کا الگ الگ تعین ہوا، نہ مریض کے مزاج اور کیفیت کا مطالعہ کیا گیا۔ بس امریکا کے ایک حکم پر اس علاقے کے امن کو تباہ کیا گیا، اسامہ بن لادن اور مُلا عمر تو صرف عنوان تھے، اصل مقصد افغانستان اور عراق پر قبضہ اور اس پورے علاقے کے سیاسی نقشے کی تشکیلِ نو تھی اور جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسی جنگ میں اپنے ملک کو جھونک دیا جس کا ہم سے کوئی تعلق نہ تھا حتیٰ کہ نائن الیون کے کرداروں میں کسی سے دُور و نزدیک کسی پاکستانی کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ مگر اس پرائی جنگ کو پہلے ہم نے اپنی جنگ بنایا اور پھر ملک کی فوجوں کو اپنی ہی قوم کے خلاف صف آرا کردیا۔ ۲۰۰۴ء سے پہلے کوئی ایک حملہ پاکستانی فوج یا کسی پاکستانی قومی اثاثے پر نہیں ہوا مگر جب ہماری فوجوں نے اپنے ہی شہریوں پر بم باری اور معصوم جانوں کے اتلاف، علاقوں کی مسماری، سیکڑوں افراد کے جبری اغوا اور ہزاروں کی گرفتاری کا راستہ اختیار کیا تو دوسری طرف سے بھی دہشت گردی کا طوفان اُٹھا اور دونوں کے ٹکرائو کے نتیجے میں جان و مال کا مزید نقصان ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اور عجیب و غریب عنصر طالبانائزیشن کے نام سے شامل کرلیا گیا اور اس کا حل بھی طالبان کا مکمل خاتمہ سمجھ لیا گیا۔ طالبان کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہوسکتا ہے اور ہم نے بار بار کہا ہے، اس کے طریق کار یعنی جبر اور قوت کے ذریعے سے خیالات کو مسلط کرنا بھی اسلام اور حکمت عملی دونوں اعتبار سے غلط اور نقصان دہ ہے مگر طالبان کی پوری تحریک کو دہشت گرد قرار دے کر صفحۂ ہستی سے مٹانے اور بلاامتیاز ہر اس شخص اور گروہ کو ختم کرنے کی کوشش جس پر طالبان کا شبہہ ہو، صریح ظلم ہے اور دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ لیکن بش اور مشرف دونوں کی پالیسیاں اسی مفروضے پر مبنی تھیں کہ طالبان، اور ان کی پیداکردہ دہشت گردی کو نیست و نابود کرنا ان کی پالیسی کا اصل ہدف ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ فطری طور پر یہ نکلا کہ طالبان کی تحریکِ مزاحمت (جس کا اصل مقصد بیرونی تسلط سے نجات تھا) اور بھی قوی ہوئی۔ ۲۰۰۳ء میں بش نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں مکمل امن قائم کردیا ہے اور طالبان مفقود ہوگئے ہیں (have been eliminated)۔ اس ’کامیابی‘ کے بعد بش صاحب نے عراق پر یلغار کی مگر حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کے بعد طالبان کی قوت میں مسلسل اضافہ ہوا اور آج برطانیہ، ناٹو بلکہ خود امریکا ان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہو رہا ہے مگر پاکستان پر یہی دبائو ہے کہ کسی نام نہاد دہشت پسند گروہ سے بات چیت نہ کرو اور مذاکرات کی جب کوشش کی گئی اسے امریکا نے سیاسی یا عسکری مداخلت کر کے سبوتاژ کردیا۔ اب امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر اسلام آباد آکر یہی فرمان جاری کرگئے ہیں کہ مذاکرات کی گنجایش نہیں۔
پھر اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک حماقت یہ کی گئی ہے کہ القاعدہ، افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو ایک وحدت سمجھ کر تینوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے فلسفے کے تحت دشمن خیال کر کے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بش صاحب کے ساتھ زرداری صاحب اور رحمن ملک یہی فتویٰ دے رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تینوں الگ ہیں اور ان کے مقاصد، طریق کار، اہداف، زیرمعاملہ مسائل (bargaining issues) مختلف ہیں۔ اول تو یہ ایک نہیں، اور اگر ایک ہوتے ہیں جب بھی حکمت عملی کا تقاضا یہی تھا کہ ان میں فاصلہ رکھا جاتا، پیدا کیا جاتا، اور الگ الگ معاملہ کرنے کی کوشش ہوتی مگر ایسی سفارت کاری اور سیاسی حکمت عملی کی توقع نہ بش سے تھی اور نہ مشرف نے اس کا کوئی عندیہ دیا اور نہ زرداری اور رحمن ملک اس کا کوئی اشارہ دے رہے ہیں۔
اس پوری پالیسی کا ایک بڑا ہی سنگین پہلو یہ ہے کہ اس میں اصل مسئلہ، یعنی امریکا کی اس علاقے میں فوج کشی اور ایک خیالی دشمن کے خلاف جنگ کو نظرانداز کرکے طرح طرح کے ’قربانی کے بکرے‘ (scape goats) تراشے گئے ہیں۔ کبھی دینی مدارس کا ہوّا دکھایا جاتا ہے، کبھی جہاد کو خطرہ بناکر پیش کیا جاتا ہے، کبھی ’انقلابی اسلام‘، کبھی ’سیاسی اسلام‘ اور کبھی ’اسلامی فاشزم‘ کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی غربت، افلاس، بے روزگاری اور جہالت کو ساری دہشت پسندی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن اصل سبب، یعنی امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیاں، دوسروں کے حقوق اور وسائل پر غاصبانہ قبضے اور اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے عسکری، سیاسی اور معاشی قوت کے بے دریغ استعمال پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ حالانکہ اب تو ان تمام مغالطوں کا پردہ خود مغربی محققین اور تجزیہ نگار کھلے بندوںچاک کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم صرف ایک مشہور امریکی ماہر اقتصادیات پروفیسر کرَگر (Kruggar) کی تازہ ترین کتاب سے اس کی کئی برسوں پر پھیلی ہوئی اعدادوشمار پر مبنی تحقیق کے نتائج پیش کرتے ہیں اور جو صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ جب تک امریکا اور مغربی اقوام کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی نہیں آتی، ظلم کے اس نظام کی مزاحمت کی تحریکوں سے نجات ممکن نہیں، یہ قوت سے نہیں دبائی جاسکتیں۔ مسئلے کا حل سیاسی اور معاشی ہے اور عدل وا نصاف کی روش کو اختیار کیے بغیر ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت ختم نہیں ہوسکتی:
دہشت گردی کے اقدامات کا الزام معاشی حالات یا تعلیم کی کمی پر ڈالنے میں ایک مخصوص سطحی اپیل ہونے کے باوجود اس امر کے لیے متفقہ شہادت موجود ہے کہ مادی آسایشوں سے محرومی یا ناکافی تعلیم کو دہشت گردی کی حمایت یا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شرکت کی ایک اہم وجہ کی حیثیت سے مسترد کردیا جائے۔ دہشت گردی کے مقبول عام اسباب ___ غربت، تعلیم کی کمی، یا یہ نعرہ کہ ’’وہ ہمارے طرزِحیات یا آزادی سے نفرت کرتے ہیں‘‘___ کی سرے سے کوئی باقاعدہ، عملی یا تجرباتی (empirical) بنیاد نہیں ہے۔ (ص ۲)
متعدد اداراتی اور سرکاری مطالعوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد غریبوں کی صفوں میں سے آنے کے بجاے اعلیٰ تعلیم یافتہ، متوسط طبقے، یا زیادہ آمدنی والے طبقے سے آرہے ہیں۔ جن لوگوں نے مشاہداتی اور تجرباتی بنیادوں پر سنجیدگی سے اس مسئلے کا مطالعہ کیا ہے، ان کے درمیان اس پر کوئی بحث نہیں ہے کہ غربت کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے۔ (ص ۳)
زیادہ تر دہشت گردوں کے لیے ذاتی مادی مفاد محرک نہیں ہوتا۔ اگر ایسی صورت ہو تو آپ خودکش مشنوں کے لیے رضاکاروں کی کثرت کا کیا سبب بیان کریں گے؟ اس کے بجاے، دہشت گردوں کا اصل محرک وہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں جن کے بارے میں انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی کارروائیوں سے ان مقاصد کو تقویت ملتی ہے۔ (ص ۴)
دہشت گرد اس لیے نہیں بڑھ بڑھ کر وار کر رہے ہیں کہ وہ بے حد غریب ہیں۔ وہ تو علاقے کے سیاسی(geopolitical) مسائل پر اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے محرکات کا غلط تصور ہمیں مسئلے کے حقیقی اسباب سے نمٹنے سے روک سکتا ہے۔ (ص۴)
میں یقین رکھتا ہوں کہ مغرب کے لیے یہ اندازہ نہ کرنا کہ ہماری پالیسیاں منفی یا پُرتشدد نتائج تک لے جاسکتی ہیں غلط ہوگا۔(ص ۵)
(What Makes a Terrorist: Economics and The Roots of Terrorism, by Alan B. Kruggar, (Professor of Economics and Public Policy, Princeton University), Princeton University Press, 2007, pp 2)
ان حالات میں صدر زرداری نے جس طرح بش اور مشرف کی پالیسیوں کو بدستور جاری رکھا ہے وہ پاکستان کی سلامتی، اس کے استحکام بلکہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جب امریکا اور یورپ کے دانش ور اور تجزیہ نگار پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ افغانستان، عراق اور ساری دنیا میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ناکام ہوچکی ہے اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے، تصادم میں مصروف تمام قوتوں سے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، بش اور زرداری صاحب وہی پرانی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج روزانہ معصوم انسانوں کا خون بہا رہی ہے اور امریکی اور ناٹو افواج افغانستان تک ہی نہیں خود پاکستان کی سرزمین میں آگ اور خون کی بارش برسا رہی ہیں اور حکومت کا یہ حال ہے کہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم!
اس سات سالہ جنگ کا اگر جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ پوری دنیا میں تشدد، دہشت گردی اور عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے اور مہذب دنیا نے اجتماعی زندگی کے لیے جو اصول صدیوں کی محنت اور قربانی سے وضع کیے تھے، وہ پامال ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں شرکت سے جو نقصانات اٹھائے ہیں ان کا مختصراً ذکر کردیں:
۱- ملک بھر میں امن و امان اور جان و مال کے تحفظ کی پامالی اور ہر طرف عدمِ تحفظ کا سماں ہے۔ جو شخص بھی صبح گھر سے نکلتا ہے اس کے صحیح سلامت شام کو گھر واپس آنے کا اطمینان باقی نہیں رہا ہے۔ جو شمالی علاقہ جات کبھی امن کا گہوارا تھے، وہ جنگ و جدال اور بدامنی اور عدمِ تحفظ کی بدترین تصویر پیش کر رہے ہیں۔ جہاں کبھی پاکستان کی افواج کا عزت و احترام سے استقبال کیا جاتا تھا، وہاں ان کے بالمقابل صف آرا افواج اور قبائلی سلسلے ایک دوسرے کو نشانہ بنارہے ہیں اور تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق صرف ان علاقوں میں ۱۴۰۰ سے زیادہ فوجی جوان اور افسر جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور ۳۵۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، جب کہ قبائل کے بارے میں اندازہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۲ہزار سے زیادہ ہے اور زخمیوں کی تعداد بھی ۲ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح مختلف اندازوں کے مطابق ۵ سے ۱۰ہزار عام شہری زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب تک اس علاقے کے ۴لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ وہ سب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ نہ ان کے رہنے کا انتظام ہے نہ خوراک کا بندوبست ہے اور نہ دوا دارو کی سہولت ہی میسر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جو حقیقی معاشی نقصان ملک کی آبادی کو ہوا ہے جس میں جنگ کے اخراجات کے علاوہ مادی نقصانات اور معیشت پر بلاواسطہ اور بالواسطہ اثرات شامل ہیں۔ نقصان کی یہ رقم سرکاری اندازوں کے مطابق ۱ئ۲ کھرب روپے ہے جو تقریباً دو سال کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کے برعکس امریکا نے جو نام نہاد مدد دی ہے وہ ۱۱ بلین ڈالر ہے۔ اور اس کا ایک حصہ خود اس کے اپنے افراد اور اداروں پر خرچ ہوا ہے۔ گویا اس سے تین گنا زیادہ نقصان ملک کی معیشت کو ہوچکا ہے___ رہا انسانی جانوں کا نقصان تو اس کی قیمت تو لگائی ہی نہیں جاسکتی۔
۲- اس جسمانی، مادی اور معاشی نقصان کے ساتھ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری دائو پر لگ گئی ہے۔ ملک کی قیادت کو خود اپنی پالیسیوں پر کوئی اختیار نہیں۔ امریکا ہماری سیاست اور معیشت کی اس طرح صورت گری کر رہا ہے جس طرح برطانوی دور میں برطانیہ کا وائسرائے کیا کرتا تھا۔ امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت نچلی سطح تک حکمرانی اور مداخلت کا ارتکاب کر رہی ہے، حتیٰ کہ سیاسی قیادت کا انتخاب بھی واشنگٹن میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہماری سرحدات غیرمحفوظ ہیں۔ امریکی اور ناٹو افواج روزو شب ہماری ہوائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور ان کا ہاتھ روکنے اور جوابی کارروائی کرنے کی کسی میں ہمت نہیں۔
گذشتہ تین سال میں ۶۷ بار امریکی ناٹو افواج نے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرکے سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔ ان ۶۷ میں سے ۳۶ واقعات مشرف کے دور میں ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۸ء تک ہوئے، جب کہ موجودہ حکومت کے دور میں مارچ ۲۰۰۸ء سے اکتوبر۲۰۰۸ء تک ۳۱ واقعات ہوچکے ہیں اور ہماری آنکھیں اب بھی نہیں کھل رہیں۔
۳- ۲۰۰۱ء سے پہلے افغانستان میں ایک ایسی حکومت تھی جو پاکستان کی بہترین دوست تھی۔ کوئی شکایت پاکستان کو ان سے اور ان کو پاکستان سے نہیں تھی بلکہ گذشتہ ۶۱سال میں افغانستان کی مختلف حکومتوں کا رویّہ پاکستان سے دوستانہ نہیں رہا۔ صرف ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک ایسے تعلقات تھے کہ کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی ہے اور مشرف صاحب نے علانیہ طور پر کہا تھا کہ ہمیں ضمانت دی گئی ہے کہ یہ فوجی ایکشن بہت کم وقت کے لیے ہوگا اور ہدف بھی بہت متعین ہوگا (short and targeted)۔ نیز یہ ضمانت بھی دی گئی ہے کہ شمالی افغانستان کے پاکستان مخالف عناصر کو کوئی کردار نہیں دیا جائے گا___ مگر ہوا کیا؟ شمالی افغانستان کے عناصر کی طرف سے جتنی پاکستان مخالفت اس دور میں ہوئی ہے اور پاکستان کے خلاف جو شعلہ بیانی اور عملی اقدامات اس دور میں کیے جارہے ہیں اور پھر اسی زمانے میں بھارت کو افغانستان میں جو پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور جس طرح وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، اس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی___ یہ ہے مشرف کی افغان پالیسی کا ماحصل!
۴- کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ رہیں گے اور انھیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کی نہ صرف حفاظت ہوگی بلکہ اس مسئلے کا نہ صرف حل بہت جلد سامنے آجائے گا بلکہ امریکا اس میں اہم کردار ادا کرے گا۔ لیکن ہوا کیا؟ اس زمانے میں نہ صرف ایٹمی اثاثوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہوئے ہیں اور ہیں اور پاکستان کو ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے بلیک میل کرنے کی جو عالمی مہم چلی، اس نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ نیز کشمیر پر صاف لال جھنڈی دکھا دی گئی اور مشرف اور زرداری دونوں اس سطح تک گر گئے کہ کشمیریوں کے جہاد کو بھی ’دہشت گردی‘ قرار دینے لگے اور جو عظیم تحریکِ مزاحمت اور آزادی وہاں برپا ہے، اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام اس قیادت نے انجام دے کر وہاں کے عوام کو پاکستان کی طرف سے مایوسی کی دلدل میں دھکیل کر پاکستان کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضربِ کاری لگائی___ یہ ہیں اس پالیسی کے چند منفی اور تباہ کن اثرات۔
بات بہت واضح ہے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ساری جنگ ایک گھنائونا سامراجی کھیل ہے اور جب تک ہم اس جنگ کے دست کش ہوکر اپنا راستہ الگ نہیں نکالتے، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ اس کے لیے آزاد خارجہ پالیسی اور سلامتی کے ایک مختلف مثالیے کی ضرورت ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس ادراک کے ساتھ کہ ہماری منزل، ہمارے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور کس طرح وہ امریکا اور سامراجی طاقتوں کے مقاصد اور اہداف سے مختلف ہیں۔ رخ کی تبدیلی پہلی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، سلامتی، عزت و وقار اور مفادات کا تحفظ اصل مقصود ہے۔ امریکا کی جنگ سے قطعی علیحدگی (de-linkage) اس کا فوری تقاضا ہے۔ ہم اپنے اندرونی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں لیکن جب تک افغانستان پر امریکی قبضہ رہے گا، پورے علاقے میں شورش اور عدم استحکام باقی رہے گا۔ اس جنگ کا حصہ بن کر ہم کبھی بھی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے، اس لیے پہلی ضرورت قطعی علیحدگی، خود اپنی سلامتی کی حکمت عملی کا ادراک اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔
دوسری ضرورت قوم کو اعتماد میں لینے کی ہے۔ تمام حقائق قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے آنے چاہییں۔ جو معاہدات امریکا سے ہوئے ہیں وہ سامنے آنے چاہییں اور ان پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ہم امریکا کی گرفت سے نکل کر خودانحصاری کی بنیاد پر اپنی پالیسی بناسکیں اور ملک کو قوم کی تمنائوں اور آرزوئوں کے مطابق ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ دھوکے اور کہہ مکرنیوں سے کچھ حاصل نہیں۔ سچ اور حقائق کی بنیاد پر پالیسی سازی میں ہی قوم کی نجات ہے۔
تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو بھی اندرونی مسائل ہیں، خصوصیت سے دہشت گردی اور تصادم کی وہ کیفیت جو اس وقت شمالی علاقہ جات میں پائی جاتی ہے اور سارے ملک کو متاثر کر رہی ہے، اس کا حل محض طاقت کا استعمال نہیں۔ فوجی حل ایک خام خیالی اور تباہی کا راستہ ہے۔ برطانیہ، روس، امریکا کوئی بھی اس علاقے میں فوجی قوت سے مسائل کو حل نہیں کرسکا۔ اس کا واحد راستہ سیاسی گفت و شنید، مفاہمت کے روایتی طریقوں کا استعمال اور مذاکرات کے ذریعے انصاف اور دستور و قانون کی بالادستی کے حصول کے لیے سیاسی حل ہے۔ اس کے لیے معاملے کے سب فریقوں کو شریک کرنا اور افہام و تفہیم کے ذریعے اعتدال کی راہ کا حصول اور سیاسی معاہدہ اور انتظامی دروبست ضروری ہے۔ اس کے سوا کوئی راستہ امن و آشتی، صلح و صفائی اور اچھی حکمرانی اور خوش حالی کا راستہ نہیں۔
یہ وہ تین بنیادیں ہیں جن سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومت کو مجبور کرے کہ اس فریم ورک میں مسائل کا حل تلاش کرے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ۸ اکتوبر کو شروع ہوا اور ۲۲ کو ختم ہوا۔ ایک ۱۶ رکنی کمیٹی نے ۹گھنٹے کے بحث و مباحثے کے بعد ایک متفقہ قرارداد منظور کی جو ایک تاریخی اقدام ہے۔ پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں قادیانی مسئلے پر ایک تاریخی فیصلہ کیا تھا اور اب ۲۰۰۸ء میں قومی سلامتی کے مسئلے پر ایک مثبت اقدام کیا ہے۔ یہ صرف ایک آغاز ہے لیکن اس میں یہ امکانات مضمر ہیں کہ سلامتی اور خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل ہوجائے___اور امریکا اور مشرف کی پالیسیوں کے چنگل سے ملک و قوم نکل سکیں۔ اس قرارداد کی قوت یہ ہے کہ یہ متفق علیہ ہے اور اس کا رخ درست ہے، لیکن اس کی کمزوری یہ ہے کہ بڑے اہم معاملات اشاروں میں بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ کے انتخاب میں بھی بہت سی نزاکتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اس کے درج ذیل پہلو اہم ہیں اور تبدیلی کے رخ کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن اس قرارداد، اس میں طے کردہ اصول اور بیان کردہ نقشۂ راہ کا اصل امتحان اس پر عمل درآمد ہے۔ اگر حکومت دیانت داری سے اس پر عمل کرتی ہے تو ایک روشن مستقبل کے امکانات موجود ہیں۔
۱- اس اعلامیے میں یہ پیغام واضح طور پر موجود ہے کہ پارلیمنٹ اور قوم مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس پالیسی کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے اور یہ حکومت اور پارلیمنٹ کا امتحان ہے کہ وہ متفقہ قرارداد میں دیے گئے اصولوں اور لائحہ عمل کے مطابق بنیادی تبدیلی لانے کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے۔
۲- پارلیمنٹ نے ایک آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش ظاہر کی ہے اور ملکی سلامتی سے متعلق حکمت عملی پر فوری نظرثانی اور دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کو نئے تناظر میں دیکھنے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ درحقیقت پارلیمنٹ نے مستقبل کی پالیسی کی سمت متعین کردی ہے۔ اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ عوامی نمایندوں کی تجاویز کو عملی جامہ پہنائے اور ملک کو اس تباہ کن صورت حال سے نکالے جن کا سبب پرویز مشرف کی اختیار کردہ پالیسیاں اور ان کا تسلسل ہے۔
۳- پارلیمنٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ طاقت کا استعمال اور مذاکرات بیک وقت نہیں ہوسکتے۔ قرارداد میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ اس وقت مذاکرات ہی مسائل کے حل کی اصل راہ ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ دیرپا امن، افہام و تفہیم اور مذاکرات سے ہی حاصل کیاجاسکتا ہے۔ فوجی کارروائی، مذاکرات اور ترقی کی تین نکاتی حکمت عملی کو پارلیمان نے دو نکات یعنی ترقی اور مذاکرات تک محدود کردیا ہے۔ فوجی کارروائی کو چودہ نکاتی لائحہ عمل سے یکسر خارج کردیا گیا ہے، تاہم قانون کی بالادستی، دستور اور انصاف کے اصولوں کے احترام کو یقینی بناکر حکومتی عمل داری ضرور قائم کی جانی چاہیے۔
۴- قرارداد میں نہایت واضح انداز میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلح افواج کو متاثرہ علاقوں سے واپس بلا لیا جائے اور جس قدر جلد ممکن ہو جرگے اور ایف سی کے ذریعے امن کی بحالی کا روایتی طریقہ اپنایا جائے۔
۵- پارلیمنٹ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ دہشت گردی کو اس کی وجوہات ختم کیے بغیر کم نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقوں کو امن کے عمل میں شامل کر کے دہشت گردی کی اصل وجوہات کو ختم کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔
۶- متفقہ قرارداد میں صرف تجاویز پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اعلامیے میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے متفقہ قرارداد میں بیان کردہ اصولوں اور پالیسی کے رہنما خطوط کے مطابق عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔
اس قرارداد میں امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے کہ پاکستانی قوم اپنے ملک اور خطے میں امن و آشتی کی خواہاں ہے، تاہم غیرملکی فوجوں کی طرف سے ملکی سرحدات کی پامالی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی اور نہ قوم سابقہ حکومت کی شروع کردہ پسپائی اور بزدلی پر مبنی پالیسی کو جاری رکھنے پر تیار ہے۔ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ بلاشبہہ ہمیں جنگ جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور قوم اس صورت حال کو اپنی تیار کردہ حکمت عملی کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے نہ کہ دبائو، جبر اور معاشی بلیک میلنگ کے ذریعے مسلط کردہ بیرونی پالیسی کے ذریعے۔
متفقہ قرارداد یہ بھی واضح کرتی ہے کہ فاٹا، باجوڑ اور سوات میں پیدا ہونے والی صورت حال افغانستان پر امریکی قبضے کا شاخسانہ ہے، تاہم فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصب کی بنا پر جاری دہشت گردی کو ان کی نوعیت کے مطابق حل کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھا کر جرائم میں ملوث عناصر سے بھی سختی سے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق نبٹا جائے اور پھر سیاسی مسائل کو سیاسی عمل کے ذریعے حل کیا جائے اور عوام کے اصل مسائل کو انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے دُور کیا جائے۔
اس قرارداد میں جناب آصف علی زرداری کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے۔ اب پارلیمنٹ نے پالیسی کا رخ متعین کردیا ہے اور وہ بھی اس کے پابند ہیں۔ وہ جو گل افشانیاں فرماتے رہے ہیں، اب ان کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ نے قوم کی آواز کو پالیسی کے خطوطِ کار اور ایک نقشۂ کار کی شکل میں متفقہ طور پر طے کردیا ہے۔ صدر اور فوج اس پالیسی کے تابع ہیں اور کسی کو بھی خواہ وہ ایوانِ صدر میں مقیم ہو یا سرحدپار سے مداخلت کی صلاحیت رکھتا ہو، اسے سبوتاژ کرنے کا اختیار نہیں۔ لفظی و معنوی دونوں اعتبار سے اس پالیسی کے نفاذ کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔