نومبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| نومبر ۲۰۰۸ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

تحریک اسلامی: متفرق سوال

سوال: حال ہی میں مجھے مولانا مودودی مرحوم کی چند کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ تفہیم القرآن کا مطالعہ بھی عرصے سے جاری ہے۔ میرے ناپختہ ذہن نے آج کل کے حالات کا تجزیہ کیا تو محسوس ہوا کہ جو تعلیمات مولانا نے پیش کی تھیں، جماعت ان پر عمل پیرا نہیں۔ اس حوالے سے چند استفسارات درج ذیل ہیں:

۱- تفہیم القرآن میں سورئہ احزاب کی آیت ۳۳ میں (عورتوں کے لیے جب) حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو، تو اس کی تفسیر میں مولانا محترم رقم طراز ہیں: ’’قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجایش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں، بیرونِ خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۴،ص ۹۰)

آج حلقۂ خواتین جماعت اسلامی کی طرف سے جو خواتین سیاسی سرگرمیاں کرتی ہیں اور ممبر قومی اسمبلی بنتی ہیں وہ کس ضمن میں آتی ہیں؟

۲- حال ہی میں ڈاکٹر انیس احمد نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایک نوجوان لڑکا، لڑکی اگر تعلیم کی غرض سے ملیں تو درست ہے (ترجمان القرآن،ستمبر ۲۰۰۸ئ)۔ حدیث کے مفہوم کے مطابق: ’’اگر کوئی نامحرم لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے خلوت میں ملیں تو تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔ پھر ان کا یہ کہنا کس حکم کی بنیاد پر ہے؟

۳- جماعت اسلامی کے ایک معتبر (مرحوم) رکن کے بیٹے ایک بڑا تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں۔ میں اس یونی ورسٹی میں زیر تعلیم ہوں۔ اس میں بہت سی قباحتوں کو نوٹ کیا۔ ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ سالانہ امتحانات کے دنوں میں کئی مرتبہ نوٹ کیا ہے کہ اگر نمازِ ظہر کی جماعت کا وقت ہے تو عین اسی وقت پرچے کے شروع ہونے کا بھی وقت ہے۔ کیا یہ خدا کی نافرمانی نہیں؟

۴- لاہور جماعت کے ذمہ دار رکن ایک اشتہاری ایجنسی چلا رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں (قریباً وسط اگست ۲۰۰۸ئ) میں اس کمپنی کا بنا ایک اشتہار جو مندرجہ بالا ذکر کی گئی   یونی ورسٹی میں داخلے کا تھا، اخبارات میں چھپا۔ ایک عورت اور دو نوجوان لڑکوں کو  دکھایا گیا ہے۔ پورے اشتہار سے (بشمول اشکال) مغربیت ٹپکتی ہے۔

سوال ۳ اور ۴ کے حوالے سے میرا سوال یہ ہے کہ جماعت اپنے ایسے ارکان کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے؟ یا جو اراکین طاغوت کا ساتھ دیتے ہوں ان کے لیے کیا قواعد و ضوابط ہیں؟ اخراج، جواب دہی، یا احتساب؟

جواب: آپ کے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل سے ہمارے نوجوان عمر میں ناپختہ ہونے کے باوجود فکری اور شعوری لحاظ سے بالغ اور مقصدِحیات کے حوالے سے راست فکر ہیں۔ اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔

آپ نے بہت صحیح بات کہی ہے کہ مولانا مودودی مرحوم نے سورۂ احزاب کی آیت۳۳ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ گھر سے نکلنے کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ خواتین اپنی ذمہ داریوں اور گھر کے دائرۂ کار کو نظرانداز کرکے بلاضرورت دفاتر، اسمبلیوں اور سوشل ورک کے کاموں میں مصروفِ عمل ہوجائیں۔ میرے خیال میں ہرمعقول شخص اس بات سے اتفاق کرے گا لیکن اصل مسئلہ جس پر اظہارِ خیال کیا گیا تھا وہ بلاضرورت خواتین کا بیرونِ خانہ سرگرمیوں کا  نہیں تھا بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے بنیادی فریضے کی ادایگی کے لیے مردوں اور عورتوں کی ذمہ داری اور کردار کا تھا۔

قرآنِ کریم نے اُمت ِمسلمہ کے ہر مومن مرد اور عورت پر یہ فریضہ عاید کردیا ہے اور اس کی ادایگی کے لیے مناسب طریق کار اور حکمت عملی کی تفصیلات کو دینی فہم رکھنے والے افراد پر چھوڑ دیا ہے۔ گو اصولی طور پر یہ بات طے کردی گئی ہے کہ خواتین میں دعوت دینے کے لیے بہترین دُعاۃ خواتین ہی ہوسکتی ہیں لیکن ایسی جامعات میں جہاں مخلوط تعلیم ہو ایسے مواقع بھی پیش آسکتے ہیں بلکہ پیش آتے ہیں جب بطور ایک مجبوری اور ضرورت ایک طالب علم اور طالبہ کوکسی دعوتی معاملے میں بات کرنی پڑے جس کے لیے قرآن نے یہ طے کردیا ہے کہ بات اس انداز سے ہو جس میں کوئی لوچ اور لچک نہ پائی جائے۔ صرف ضرورت کی حد تک سوال و جواب کو اختیار کیا جائے۔

ایک اور بات جو آپ نے اٹھائی ہے وہ یہ کہ آج اسمبلیوں میں جماعت اسلامی سے وابستہ خواتین بطور ممبرپارلیمنٹ یا سینیٹ جو کام کر رہی ہیں، وہ آپ کے خیال میں مولانا مودودی کی فکر سے انحراف ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ کسی بھی تحریک کے لیے جو چیز واجب العمل ہے وہ اس کے سربراہ، بانی یا امیر کی ہر وہ بات ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہو لیکن اجتہادی معاملات میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ قرآن وسنت کو ماخذ مانتے ہوئے ان کی ایک سے زیادہ تعبیرات پر عمل کیا جاسکے جیساکہ پانچ معروف فقہی مذاہب (حنفی، جعفری، مالکی، شافعی اور حنبلی) میں نظر آتا ہے۔ خود مولانا مرحوم اس اصول کے قائل تھے اور تمام زندگی اسی پر عامل رہے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی معروف راے کے باوجود کہ ایک خاتون ایک اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں ہوسکتی، جب ملک سے فوجی آمریت کو دُور کرنے کا سوال اٹھا اور متحدہ حزبِ اختلاف نے ایک سابقہ فوجی جرنیل کو ایوب خان کے مقابلے میں اپنا نمایندہ بنایا تو ایوب خان نے اسے گھر میں نظربند کردیا، آخرکار متحدہ حزبِ اختلاف نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے بار بار کے انکار کے باوجود اس شرط پر راضی کرلیا کہ اگر     وہ صدر منتخب ہوجائیں تو پہلی فرصت میں نئے اور آزادانہ انتخاب کروا کے خود صدارت سے    الگ ہوجائیں گی۔ اس قسم کی صورت حال کو فقہ کی اصطلاح میں ’ضرورت‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ صاحب معارف القرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے تحریری طور پر اس معاملے میں محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں فتویٰ دیا اور مولانا مرحوم نے جو اس وقت جیل میں نظربند تھے، رہائی کے فوراً بعد ملک گیر پیمانے پر سفر کر کے اس فتوے کی حمایت اور توثیق کی۔

بالکل اسی طرح اگر پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر ایسی خواتین کے منتخب ہوکر آنے کا امکان ہو جو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست، اباحیّت پسند معاشرہ اور مادہ پرست ملک بنانا چاہتی ہوں تو ایسے میں شریعت کی نگاہ میں ان خواتین کا گھر ہی بیٹھے رہنا جو ملک کو اس لعنت سے بچاسکتی ہوں، دین کی مصلحت کے خلاف ہوگا اور اصولِ ضرورت کی بنا پر ان کا پارلیمنٹ اور سینیٹ میں آکر دین کا دفاع کرنا عین مقصودِ دین ہوگا۔ یہی وہ دعوت ہے جو جماعت اسلامی نے آغاز سے دی اور ایک صالح جماعت کے قیام کی ضرورت پر اُمت ِمسلمہ کو متوجہ کیا۔

اس عمل کے دوران اگر ایسی خواتین اپنی دیگر ذمہ داریوں سے رُوگردانی کر رہی ہوں اور ان فرائض کو ادا نہ کریں جو ان پر ایک اسلامی معاشرے میں بطور فریضہ عاید ہوتے ہیں تو ایسی حالت میں معاشرتی ذمہ داریوں کو اولیت حاصل ہوگی اور معاشرتی فلاح کے کاموں کی حیثیت ثانوی ہوگی۔ دین میںترجیحات کی غیرمعمولی اہمیت ہے اور ان کا صحیح تعین کیے بغیر ہم دین پر صحیح طور پر عمل نہیں کرسکتے۔ فرضِ عین اور فرضِ کفایہ ہو یا فرائض وسنن و نوافل ہوں، ترجیحات کے بغیر ان پر عمل کرنا دین کا مقصود نہیں ہے۔

جہاں تک سوال ’دینی ضرورت‘ کے تحت ایک خاتون یا طالبہ کا ایک مرد طالب علم یا استاد سے بات کرنے کا ہے تو جب تک قرآن وسنت کے مقرر کردہ طریقِ خطاب و گفتگو کو اختیار کیا جائے گا، یہ عمل غیراخلاقی اور غیراسلامی نہیں ہوگا۔ جس حدیث کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ حدیث صحیح ہے لیکن کاش اسے آپ غورسے پڑھ لیتے تو اشکال نہ ہوتا۔ حدیث کا تعلق ’خلوت‘ سے ہے،  یعنی تنہائی میں ملنا۔ جب ایک مرد اور عورت تنہا ہوں توتیسرا شیطان ہوتا ہے جو بہرصورت حرام ہے۔ لیکن اگر ایک کیمپس کے کسی بندکمرے میں نہیں بلکہ کھلے ماحول میں ایک ’ضرورت‘ کے تحت بات کی جارہی ہو تو اس کی اجازت تو قرآن کریم نے بھی دی ہے کہ جب اُمہات المومنینؓ سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ اس کا جواب دیں لیکن ایسے انداز سے جس سے کسی کے دل میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہو۔ یاد رکھیے دین نہ تو غلو اور شدت کا نام ہے اور نہ فکری بے راہ روی اور آزادی کا کہ ہر چیز کو حالاتِ زمانہ کی بنا پر مباح کردیا جائے۔

جہاں تک سوال کسی رکن جماعت کے صاحبزادے کا تعلیمی ادارہ چلانے کا ہے، چاہے وہ خود بھی رکن جماعت ہوں اور آپ خود اس ادارے میں طالب علم بھی ہوں تو آسان طریقہ یہ ہے کہ بجاے ترجمان القرآن میں اس مسئلے کو اٹھانے کے ان صاحبزادے سے خود مل کر اپنی راے ان تک پہنچایئے اور اپنی تشفی کرلیجیے۔ اصولاً جو بات آپ نے لکھی ہے اس سے نہ تو جماعت اسلامی کا اور نہ کسی کے رکن ہونے کا تعلق ہے۔ ایک غیررکن جماعت بھی اگر ایک ادارے کاسربراہ ہو اور وہاں پر نماز باجماعت کے مقررہ وقت کے دوران امتحان لیا جا رہا ہو تو یہ نامناسب اور غیراسلامی طرزِعمل ہے۔ اس کی اصلاح ہونی چاہیے اور امتحان کے اوقات ایسے ہونے چاہییں کہ یا تو وہ نماز سے پہلے مکمل ہوجائے یا نماز کے بعد شروع ہو۔

اسی طرح اگر ایک رکن جماعت ایسی ایجنسی چلا رہے ہوں جس میں خواتین کو اشتہارات میں استعمال کیا جارہا ہو تو ان کا رکن ہونا اس عمل کو جائز نہیں بناسکتا۔ یہ ایک غلط طرزِعمل ہے اور انھیں اپنی پالیسی کی اصلاح کرنی چاہیے۔ تحریکِ اسلامی کی فکر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ صرف وہ کاروبار کیے جائیں جو اخلاقی اور فقہی طور پر مباح ہوں۔ صرف وہ اشتہارات جن میں خدوخال واضح نہ ہوں اور جن میں فحاشی کا عنصر نہ پایا جائے طبع کیے جاسکتے ہیں لیکن جن اشتہارات میں خواتین کو بطور ایک حربہ کے استعمال کیا جائے انھیں اسلامی نقطۂ نظر سے جائز نہیں کہا جاسکتا۔

جماعت اسلامی کا دستور اور اس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس جماعت میں مستقل احتساب کا نظام موجود ہے اور نہ صرف ایک رکن بلکہ امیرجماعت ہو یا ارکانِ شوریٰ، ہر ایک کا احتساب کیا جاتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جو مصدقہ معلومات آپ کے پاس ہوں انھیں جماعت کے متعلقہ    ذمہ دار تک تحریری طور پر پہنچائیں تاکہ وہ اس پر مناسب کارروائی کرسکیں۔ آپ کا کسی بھی مسلمان کے حوالے سے تحقیق کرنے سے قبل کوئی راے قائم کرلینا اور اسے غلطی کا مرتکب قرار دینا کچھ قبل از وقت نظر آتا ہے۔ اس لیے جومعلومات آپ کے پاس مصدقہ طور پر ہوں انھیں متعلقہ ذمہ دارکے علم میں ضرور لایئے تاکہ احتساب کیا جاسکے۔ اگر احتساب کے بعد کسی کام کی نوعیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اخراج ہی کرنا ہو، تو ایسا کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ روزمرہ کا معمول نہیں ہے۔ بہت مخصوص حالات میں ایسا کیا جاتا ہے۔ عموماً احتساب کے بعد غلطی کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


نماز اور سجدے کے لیے کرسی کا استعمال

س: آج کل اکثر مساجد میں معذور افراد کے نماز پڑھنے کے لیے کرسیاں رکھی گئی ہیں جن کے آگے سجدہ کرنے کے لیے تختہ نصب ہوتا ہے۔ ایک روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک بیمار شخص نماز پڑھ رہا تھا اور سجدہ کرنے کے لیے آگے ایک لکڑی رکھی ہوئی تھی۔ آپؐ نے وہ لکڑی ہٹا دی۔ اس شخص نے پھر لکڑی پکڑ کر آگے رکھ لی۔ اس پر آپؐ نے وہ لکڑی پھینک کر فرمایا کہ سجدہ صرف زمین پر ہوتا ہے۔ اگر زمین پر کرنے کی سکت نہ ہو تو پھر اشارہ کرے۔ اور یہ کہ قعود توقیام کا بدل ہوسکتا ہے کہ جب دورانِ نماز کھڑے ہونے کی سکت آجائے تو انسان کھڑا بھی ہوسکتا ہے، مگر سجدے کا کوئی بدل نہیں۔ سجدہ صرف زمین ہی پر کیا جاسکتا ہے۔

براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کردیجیے کہ آیا ان کرسیوں کے تختے پر سجدہ کرنے سے نماز مکمل ہوجاتی ہے، نیز اس واقعے کی صحت اور سیاق و سباق بھی بیان کردیجیے تو مناسب ہوگا۔

ج: آپ نے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہے جس کی رُو سے مساجد میں رکھی گئی کرسیاں اور ان کے سامنے بنے ہوئے تختے ناجائز ہوجائیں۔ واقعے کا تعلق  اسی صورت سے ہے کہ ایک آدمی سجدہ کرنے کے بجاے یا جھکنے کے بجاے کوئی چیز اپنے سر کے برابر رکھ لیتا ہے کہ اس پر سر کو ملا دے بغیر اس کے کہ سر کو جھکائے۔ اگر کافی دیر تک بغیر سہارے کے اپنے آپ کو جھکائے رکھنے کے بجاے، سامنے تختے پر جس تک پہنچنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے، سر اور ہاتھ رکھ دیے جاتے ہیں، سر جھکایا جاتا ہے تو یہ صحیح ہے اور اس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔

آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا واقعہ ہے کہ وہ ایک مریض کی عیادت کے لیے گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ سجدے کے وقت ایک لکڑی اس کے لیے اٹھائی جاتی جس پر وہ سجدہ کرتا تو انھوں نے وہ لکڑی اس آدمی کے ہاتھ سے چھین لی اور اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ یہ چیز تمھیں شیطان نے پیش کی ہے۔ سجدے کے لیے اپنے سر سے اشارہ کرو۔ (حاشیۃ الرافعی، علی ردالمحتار، ج۲، ص ۶۸۵)

صاحب رد المحتار علامہ شامی نے فرمایا: ’’اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب چہرے کی طرف کوئی چیز اٹھائی جائے جس پر سجدہ کرے، بخلاف ایسی صورت کے، جب کوئی چیز زمین پر رکھی ہوئی ہو تو اس پر سجدہ کرنا مکروہ نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً)

پس مسجدوں میں جو کرسیاں رکھی ہوئی ہیں اور ان کے سامنے میز نما تختے لگے ہوئے ہیں کہ ان پر اشارے کے ساتھ رکوع کرنے کے بعد سجدہ کرتے ہیں، جائز ہیں۔ ان میں رکوع میں گردن اور پیٹھ کو بھی جھکایا جاتا ہے اور اس کے بعد سر، گردن اور پیٹھ کو جھکاکر سجدہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس کی تردید احادیث سے ثابت نہیں بلکہ اس طریق کار کو مستحسن قرار دیا گیا ہے ( ایضاً، ص ۶۸۶)۔ اس لیے آپ کسی قسم کا تردّد نہ کریں۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)