اس وقت سامی الحاج اپنی فولادی بیساکھی کے سہارے نہایت تکلیف کے عالم میں چل رہا ہے۔ الجزیرہ کے اس صحافی نے تقریباً چھے سال ایک ڈرائونے اور بھیانک خواب کی مانند گوانتانامو میں بسر کیے اور شدید اذیت و ذلت اس کا مقدر بنی۔ اب وہ ناروے کے ایک چھوٹے سے شہر للی ہیمر کے ایک ہوٹل میں موجود ہے۔ اب اس کی شخصیت عظمت و وقار کے ساتھ ساتھ، نکبت اور شرم ساری کی علامت بن چکی ہے۔ امریکیوں نے بالآخر جب اسے رہا کردیا تو اپنی طرف سے معذرت اور افسوس کا اظہار کیا، لیکن اس سے قبل، اس کے کہنے کے مطابق: اسے برطانیہ، امریکا اور کینیڈا کے محکمہ جاسوسی کے بااختیار اہل کاروں کے ہاتھوں شدید تشدد کا نشانہ بننا پڑا، اسے زبردستی مختلف اشیا نگلنی پڑیں، اس کے ساتھ ہرقسم کا ظلم و ستم روا رکھا گیا اور اس سے مسلسل تفتیش اور پوچھ گچھ ہوتی رہی۔
۳۸ سالہ ٹی وی عکس کار (camera man) کو نہ تو کبھی کسی جرم کا مرتکب قرار دیا گیا، نہ اس پر کوئی مقدمہ ہی چلایا گیا۔ اس کے حلفی بیان کے مطابق اسے ساڑھے چھے سال کے دوران تین مختلف قیدخانوں میں رکھا گیا جہاں اس پر مسلسل تشدّد کیا گیا اور اُسے مختلف اشیا نگلنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ یہ سب کچھ اس کے ساتھ اس لیے پیش نہیں آیا کہ وہ ایک مشتبہ ’دہشت گرد‘ تھا بلکہ محض اس لیے کہ اس نے امریکی جاسوس بننے سے انکار کردیا تھا۔ جیسے ہی سامی قندھار میں واقع ہولناک امریکی قیدخانے سے پرواز کے ذریعے گوانتانامو پہنچا، اس کے صیّاد اس سے مسلسل مطالبہ کرتے رہے کہ وہ ان کے لیے کام کرنے پر رضامند ہوجائے۔ مسلسل ظلم وستم اور اذیت و ذلّت کی چکی میں سے گزارتے ہوئے امریکیوں کی طرف سے اس کی بے گناہی کا اعتراف ان کے اس منصوبے کا حصہ تھا کہ سامی کو امریکی محکمہ جاسوسی کے ایک ’اثاثے‘ میں تبدیل کردیا جائے۔
اس کے بیان کے مطابق پوچھ گچھ کے دوران ۲۰۰ سے زائد مرتبہ اسے بتایا گیا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ تم بے گناہ ہو‘‘۔ ’’وہ مجھ سے صرف یہی چاہتے تھے کہ میں ان کے لیے جاسوسی کروں۔ انھوں نے کہا کہ وہ مجھے امریکا کی شہریت دینے کے لیے تیار ہیں، میرے بیوی بچے امریکا میں آباد ہوسکتے ہیں اور میری ہرقسم کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ لیکن میں نے کہا: میں یہ سب کچھ نہیں کروں گا۔ میرے اس انکار کی پہلی وجہ تویہ ہے کہ میں ایک صحافی ہوں، اور صحافی کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے لیے جاسوسی کرے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ دورانِ جنگ، مَیں زخمی ہوسکتا ہوں، ہلاک ہوسکتا ہوں اور اگر قسمت نے یاوری کی تو زندہ بھی بچ سکتا ہوں۔ لیکن اگر میں تمھارے لیے جاسوسی کروں تو القاعدہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی اور اگر میں تمھارے لیے کام نہیں کرتا توتم مجھے ہلاک کرڈالو گے‘‘۔
سامی کے لیے اس عجیب و غریب لیکن بے ہودہ داستان کے آغاز اُس وقت ہوا جب ۱۵دسمبر ۲۰۰۱ء کو وہ اپنے ہم پیشہ عبدالحق صداح کے ساتھ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے افغانستان کے شہر قندھار کی طرف عازمِ سفر تھا۔ عبدالحق صداح عرب سٹیلائٹ ٹی وی چینل کا نامہ نگار تھا جو نئی علاقائی حکومت کے متعلق خبروں کے حصول کے لیے اس کا رفیق اور ہم رکاب تھا۔ کم از کم ۷۰ مزید صحافی بھی پاکستانی سرحدی چوکی چمن کے راستے افغانستان جا رہے تھے، لیکن ایک افسر نے سامی کو روک لیا۔ ’’اس نے مجھے بتایا کہ پاکستان کے محکمہ جاسوسی نے تمھاری گرفتاری کے لیے ہمیں تحریری اطلاع بھیجی ہے۔ میرے نام کے ہجے غلط لکھے گئے تھے، میرا پاسپورٹ نمبر غلط تھا، یہاں میری تاریخ پیدایش ۱۹۶۴ء درج تھی جب کہ میری صحیح اور درست تاریخ پیدایش ۱۹۶۹ء تھی۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں نے اسلام آباد سے اپنے ویزے کی تجدید کرائی تھی اور پوچھا کہ اگر میں انھیں مطلوب تھا تو مجھے وہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘
سامی الحاج نے اپنے اُوپر بیتے ہوئے واقعات کی تفصیل نہایت آہستہ اور محتاط انداز میں بیان کی۔ وہ جس قسم کے مصائب، مشکلات، ظلم وستم اور اذیت و ذلت میں مبتلا رہا، ان کی جزئیات بیان کیں۔ اس کے لیے اپنے علاوہ دوسروں پر بیتنے والے اس قسم کے واقعات کی ہرتفصیل بھی بہت اہم ہے۔ اسے ابھی تک یہ خواب محسوس ہوتا ہے کہ وہ رہا ہوچکا ہے اور ناروے میں ایک ایسے اجلاس میں شریک ہے کہ جہاں سے واپسی پر وہ الجزیرہ میں ’نیوز پروڈیوسر‘ کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا دوبارہ آغاز کرے گا، اور ایک دفعہ پھر اپنی بیوی اسما اور اپنے ۸سالہ بیٹے محمد کے ساتھ خوش گوار گھریلو زندگی کی طرف لوٹ سکے گا۔ جب سامی الحاج امریکا کے خفیہ عقوبت خانوں میں کہیں غائب ہوگیا تھا تو اس وقت اس کے بیٹے کی عمر صرف ۱۴ ماہ تھی۔
الحاج کی یہ داستان ہر اس شخص کے لیے ایک جانی پہچانی کہانی ہے جس کے خلاف پاکستان میں گرفتاری کا ڈراما رچایا گیا اور پھر اسے پاکستان سے افغانستان اور گوانتانامو میں واقع امریکی اڈوّں میں موجود قیدخانوں میں پہنچا دیا گیا۔ اس کے جہاز کی پرواز ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی اور پھر بگرام میں واقع امریکی اڈے سے روانہ ہونے سے قبل غالباً پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اترا کہ اگر یہاں مزید قیدی موجود ہوں، تو انھیں بھی ساتھ لے جایا جاسکے۔
سامی نے بتایا: ’’ہم وہاں صبح سویرے پہنچے تو انھوں نے ہمارے پیروں سے بیڑیاں اتاریں اور طیارے سے باہر پختہ فرش پر دھکا دے کر پھینک دیا۔ چیخوں اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ہماری سماعت سے ٹکرائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ میری دائیں ٹانگ میرے بدن کے نیچے آرہی ہے، اسی کیفیت کے ساتھ میں زمین پر ڈھے گیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا میرے بدن کا ہر ہر ریشہ الگ الگ ہو رہا ہے۔ میرے زمین پر گرتے ہی فوجیوں نے مجھ پر ہلّہ بول دیا۔ سب سے پہلے انھوں نے میری کمر کو تختۂ مشق بنایا اور اس کے اوپر چہل قدمی کرنے لگے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ میں اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھ رہا ہوں تو انھوں نے میری ٹانگوں پر ٹھوکریں مارنا شروع کردیں۔ ایک فوجی غُرّاتے ہوئے کہنے لگا: تمھیں جرأت کیسے ہوئی کہ تم امریکیوں کے ساتھ جنگ کرنے چلے آئے۔ بعدازاں میرے لیے ایک نمبر مخصوص کیا گیا اور انھوں نے مجھے قیدی نمبر۳۵ کے نام سے پکارنا شروع کردیا۔ پھر پہلے فوجی نے چلّاچلّا کر کہنا شروع کیا:تم نے بن لادن کی فلم بنائی ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے بن لادن کی فلم نہیں بنائی اور یہ کہ میں ایک صحافی ہوں۔ میں نے ایک دفعہ پھر انھیں اپنا نام، عمر اور قومیت بتائی‘‘۔
۱۶ دن امریکی قید میں گزارنے کے بعد، ایک اور طیارے کے ذریعے ہمیں قندھار میں واقع امریکی اڈے پہنچا دیا گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قیدیوں کو پھر زمین پر لیٹنے پر مجبور کردیا گیا۔ پھر ہمیں غلیظ گالیاں دینے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، حتیٰ کہ ہمیں ہماری مائوں کے حوالے سے بے ہودہ اور ننگی گالیاں دی گئیں۔ مقصد صرف یہ تھا کہ ہمیں جی بھر کے ذلیل و خوار کیا جائے، اور پھر دوبارہ ان امریکیوں نے ہماری کمروں کو اپنی ٹھوکروں کے نشانے پر رکھ لیا۔ مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہے تھے۔پھر مجھے ایک خیمے میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں مجھے مکمل طور پر بے لباس کردیا گیا۔ پھر انھوں نے میری داڑھی میں سے بال نوچنے کھسوٹنے شروع کردیے۔ انھوں نے میری آنکھ کی پتلیوں کی تصاویر اُتاریں۔ ایک ڈاکٹر نے میری کمر پر خون کے دھبے دیکھے تو پوچھنے لگاکہ یہ خون کہاں سے آیا؟ میں نے اس سے پوچھا کہ اسے کیسے خیال آیا کہ میری کمر پر خون ہے؟
ایک دفعہ پھر تفتیش اور پوچھ گچھ کا خوف ناک اوربھیانک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب وہ قیدی نمبر۴۴۸ تھا۔دوبارہ اسے یہ بتایا گیا کہ اسے محض غلط فہمی کی بنا پر پکڑ لیا گیا ہے۔ پھر سادہ لباس میں ملبوس ایک شخص، جو میرے اندازے کے مطابق مصری خفیہ محکمے کا اہلکار تھا، مجھ سے یہ معلوم کرنا چاہ رہا تھا کہ ان گرفتار افراد کا سربراہ کون تھا جو میرے ساتھ تھا۔ امریکی پوچھ رہے تھے: ’’ان قیدیوں میں سے سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ کس نے (احمدشاہ) مسعود (طالبان مخالف افغان شمالی اتحاد کی فوج کا سربراہ) کو ہلاک کیا؟ میں نے کہا کہ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تو ایک امریکی فوجی کہنے لگا: ’’ہمارے ساتھ تعاون کرو گے تو تمھیں رہا کردیا جائے گا‘‘۔ یہ کہنے سے ان کی مراد یہ تھی کہ میں اُن کے لیے کام کروں۔ وہاں ایک ایسا شخص تھا جو انگریزی روانی سے اور بخوبی بول سکتا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق وہ برطانوی تھا۔ وہ جواں سال اور پُرکشش شخص تھا، اس کی مونچھیں نہیں تھیں، بال سنہری تھے، سفیدقمیص پہنے وہ ٹائی کے ساتھ شائستہ اور مہذب معلوم ہورہا تھا۔ عمر اس کی ۳۵سال کے قریب تھی۔ اس نے مجھے چاکلیٹ دیں اور میں اس قدر بھوکا تھا کہ چاکلیٹ کے گرد لپٹے ہوئے کاغذ کو بھی کھا سکتا تھا۔
۱۳ جون کو سامی کو ایک جیٹ طیارے میں سوار کرا دیا گیا۔ اب اسے قیدی نمبر ۳۴۵ قرار دیا گیا اور دوبارہ اس کے سر پر سیاہ رنگ کا غلاف نما تھیلا چڑھا دیا گیا۔ اس کے منہ میں کپڑا ٹھونسنے سے پہلے اسے دو گولیاں حلق میں اتارنے پر مجبور کیاگیا۔ اس کے چہرے سے غلاف نما تھیلا اُتار کر سیاہ چشمہ اس کی آنکھوں پر نصب کردیا گیا۔ اس پرواز کو گوانتانامو پہنچنے میں ۱۲ سے ۱۴ گھنٹے صرف ہوئے۔
ہمیں گوانتانامو کے ہوائی اڈے سے بذریعہ کشتی ایک قیدخانے میں لے جایا گیا۔ یہ سفر ایک گھنٹے میں طے ہوا۔ پہلے مجھے ایک طبی مرکز میں لے جایا گیا اور پھر فوراً ہی کسی تفتیشی مرکز میں پہنچا دیا گیا۔ تفتیشی اہل کاروں نے کہا کہ انھوں نے میرے جوابات کا میرے اصل بیان سے تقابل کیا ہے۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ایک غلط فہمی کے نتیجے میں تم یہاں پہنچ چکے ہو، تم رہا کردیے جائو گے، تم پہلے شخص ہو گے جسے رہا کیا جائے گا۔ انھوں نے مجھے میرے بیٹے کی تصویر دی جسے انھوں نے میرے بٹوے میں سے نکال لیا تھا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ میں نے انھیں کہا کہ مجھے کتابیں چاہییں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ اس کے پاس الف لیلہ کا ایک نسخہ موجود ہے۔ اس نے اس نسخے کی ایک نقل مجھے دے دی۔ پھر دورانِ تفتیش انھوں نے مجھ سے پوچھا: ’’تم نے قندھار میں برطانوی خفیہ محکمے کے اہلکار سے کیوں اس قدر زیادہ بات چیت کی تھی؟‘‘ میں نے کہا کہ مجھے یہ علم نہیں تھا کہ وہ شخص برطانوی خفیہ اہلکار تھا۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ وہ برطانوی خفیہ محکمے کا اہلکار تھا۔
۲ ماہ بعد، مزید ۲ برطانوی مجھے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا تعلق برطانوی محکمہ جاسوسی سے ہے۔ وہ مجھ سے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ میں کن کن افراد کو جانتا ہوں، اور کس کس سے مل چکا ہوں؟ میں نے کہا کہ اس ضمن میں مَیں تمھاری مدد کرنے سے قاصر ہوں۔ بعد میں امریکیوں نے ان میں سے ایک شخص کو ’مارٹن‘ کے طور پر شناخت کیا اور انھوں نے گوانتانامو میں سامی کے سینیر تفتیش کار اسٹیفن پر زیادہ دبائو نہیں ڈالا جو دوبارہ مجھ سے مدد و تعاون کا خواہاں تھا۔ اس نے مجھ سے کہا: ’’ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم واقعات نہ ہونے دیں۔میں تمھیں اس کے متعلق سوچنے کا ایک موقع اور دوں گا۔ تم امریکی شہریت اختیار کرسکتے ہو، تمھارے گھرانے کی نگہداشت اور دیکھ بھال کی جائے گی، امریکا میں تمھیں ایک شان دار بنگلہ فراہم کیا جائے گا، ہم تمھارے بیٹے کی تعلیم کا بندوبست کریں گے، تمھارا اپنا ایک بنک اکائونٹ ہوگا‘‘۔ وہ اپنے ساتھ کچھ عربی رسائل لایا تھا اور اس نے مجھ سے کہا کہ میں ان کا مطالعہ کرسکتا ہوں۔ ان ۱۰ منٹوں کے دوران، میں نے محسوس کیا کہ میں دوبارہ ’بنی نوع انسان‘ بن چکا ہوں۔ پھر فوجی مجھے میری کوٹھڑی میں لے جانے کے لیے آگئے اور انھوں نے یہ رسالے بھی مجھ سے لے لیے۔
۲۰۰۳ء کے موسم گرما تک، سامی کے پاس دیگر اجنبی افراد بھی ملاقات کے لیے آتے رہے۔ سامی بتاتے ہیں کہ کینیڈا کے محکمۂ جاسوسی کے دو افسر میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھے بے شمار لوگوں کی تصویریں دکھائیں اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں انھیں جانتا ہوں؟ میں ان میں سے کسی سے بھی واقف نہ تھا۔
۲۰۰ سے زائد مرتبہ پوچھ گچھ اور تفتیشی مراحل کے دوران الحاج سے اس کے آجر، یعنی قطر میں الجزیرہ ٹی وی چینل کے مالکان کے متعلق پوچھا گیا۔ اس کے مطابق امریکیوں نے اس سے کہا: ’’یہاں سے رہا ہوجانے کے بعد القاعدہ تمھیں ملازمت فراہم کرے گی۔ تم ہمیں یہ بتائو کہ اس ضمن میں تم کس کے ساتھ ملاقات کرو گے؟ تم ایک تجزیہ نگار بن سکتے ہو، ہم تمھیں تربیت مہیا کریں گے کہ تم معلومات اپنے پاس محفوظ کرسکو۔ الجزیرہ اور القاعدہ کے درمیان رابطہ اور تعلق موجود ہے۔ القاعدہ الجزیرہ کو کتنی رقم ادا کرتی ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’یہ سب کچھ پہلے تو میں اس لیے نہیں کروں گا کیونکہ میں ایک صحافی ہوں اور یہ سب کچھ میرے پیشہ وارانہ فرائض میں شامل نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تمھاری بات مان لینے سے میری زندگی اور خاندان کو خطرہ ہے‘‘۔
اس کے بعد نہ صرف تفتیش کاروں بلکہ امریکی فوجیوں نے بھی میری بہت دفعہ پٹائی کی۔ وہ میراسر زمین کے ساتھ ٹکراتے اور میرے بال کاٹ ڈالتے۔ انھوں نے مجھے ’نومبربلاک‘ نامی قیدخانے میں دو سال تک قیدِ تنہائی میں رکھا۔ انھوں نے میری زندگی میں اذیتیں بھر دیں۔ میں چاہتا تھا کہ یہ سب کچھ ختم ہوجائے۔ بغیر کسی وجہ کے سزائوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔ تفتیش کے دوران وہ بیڑیاں اس قدر کس کر باندھتے کہ ٹانگیں اور پائوں زخمی ہوجاتے۔ انھوں نے ۱۰ماہ تک مجھے کوئی خط وصول کرنے کی اجازت نہیں دی، حتیٰ کہ ایک دفعہ میرے بیٹے کا خط آیا تو انھوں نے اس میں سے الفاظ مٹا دیے۔ پھر روڈری کیوز کا مجھ سے وہی مطالبہ تھا کہ میں ان کے لیے کام کروں۔
گذشتہ جنوری میں سامی الحاج نے بھوک ہڑتال شروع کی تو اس کی قید کے بدترین مہینے شروع ہوگئے۔ میں نے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے حقوق کا دفاع عدالت میں کروں۔ امریکی سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ مجھے میرے حقوق ملنے چاہییں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل ہو۔ ۳۰دن تک انھوں نے مجھے بھوک ہڑتال کرنے کی اجازت دی، پھر مجھے فولادی زنجیروں کے ذریعے کرسی سے جکڑ دیاگیا اور میرے حلق میں زبردستی خوراک انڈیلی گئی۔ وہ ناک کے ذریعے میرے معدے میں ایک نلکی داخل کرتے۔ انھوں نے بڑی بڑی نلکیوں کا انتخاب کیا تاکہ میرے اندر زخم ہوجائیں اور بعض اوقات تو یہ نلکیاں میرے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتیں۔ انھوں نے میرے لیے بھی وہی نلکی استعمال کی جو وہ اس سے قبل دیگر قیدیوں کے لیے استعمال کرچکے تھے، اور اس میں کچرا اور گند بھرا ہوا تھا۔ انھوں نے اس نلکی کے ذریعے میرے معدے میں اس سے زیادہ خوراک زبردستی داخل کی جس قدر کہ میں ہضم کرسکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ نلکیوں کے ذریعے خوراک زبردستی انڈیلنے والے افراد، ڈاکٹر تھے لیکن میرے نزدیک وہ قصّاب تھے، بے رحم بھیڑیے تھے جو اپنے شکار کو اذیت کا نشانہ بناتے تھے۔ انھوں نے ہمارے اندر خوراک کے ۲۴ ڈبے انڈیل دیے، لہٰذا کچھ خوراک ہمیں منہ سے اگلنی پڑی اور کچھ کو خارج کرنے کے لیے ہمیں قبض کشا دوا دی گئی۔ میرا لبلبہ بری طرح متاثر ہوا اور میرے معدے میں تکلیف ہوگئی۔ پھر وہ ہمیںپانی پینے سے روک دیتے‘‘۔
الحاج کہتا ہے کہ طویل بھوک ہڑتال پر اس کی جسمانی حالت بہت نازک ہوگئی اور اس کے مقعد سے خون بہنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب اس کے تفتیش کاروں نے اسے رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’اب نئے تفتیش کار میرے سر پر سوار تھے۔ انھوں نے بھی ایک دفعہ پھر اپنی کوشش کی۔ وہ مجھ سے بار بار پوچھتے رہے کہ کیا میں ان کے لیے کام کروں گا؟ میں مسلسل انکار کرتا رہا۔ لیکن میں نے سالوں پر محیط ان کی’میزبانی‘ اور بطور صحافی کام کرنے اور زندہ رہنے کا موقع دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا کہ اس طرح میں بیرونی دنیا کو اس سچ سے آگاہ کرسکوں گا کہ مجھے رہا ہونے کی اس قدر جلدی اس لیے نہ تھی کیونکہ وہاں ایک نامہ نگار اور صحافی کے لیے بہت سی کہانیاں تھیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا: ’’تمھارا خیال ہے کہ ہم نے تمھارے ساتھ رعایت کی؟ میں نے کہا: تم نے مجھے ’زیرو‘ سے ’ہیرو‘ بنا دیا۔ انھوں نے کہا: ہمیں ۱۰۰ فی صد یقین ہے کہ بن لادن تمھارے ساتھ رابطہ کرے گا… پھر اس رات مجھے طیارے کی طرف لے جایا گیا۔ تفتیش کار ایک جال کے پیچھے سے میری نگرانی کرر ہے تھے۔ میں نے ان کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا جنھوں نے اپنی آنکھوں پر چشمے پہنے ہوئے تھے‘‘۔
برطانوی حکام نے کبھی بھی اعتراف نہیں کیا کہ ان کی سامی الحاج سے بات چیت ہوئی تھی اور نہ کینیڈا کے حکام نے ہی ایسی کوئی بات تسلیم کی تھی لیکن ’قیدی نمبر ۳۴۵‘ کو امریکیوں کی طرف سے سرکاری طور پر کبھی بھی معذرت یا معافی نامہ وصول نہیں ہوا۔ وہ کہتاہے کہ اسے امریکیوں سے امید بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے اس فعل کے بارے میں مجھ سے معافی یا معذرت کے طلب گار ہوں گے۔(Perspectives-7 ، ۸؍اکتوبر ۲۰۰۸ئ)