قرآن کی نگاہ میں فکری عمل کے مسلمان ہونے کی بنیادی شرط فکر کا وحی کو حتمی، حقیقی اور قطعی ذریعۂ علم مانتے ہوئے عقل و مشاہدے اور تجربے کے سہارے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ غیرالہامی تہذیب و ثقافت میں مسائل کے تجزیے اور حل کے لیے مجرد عقلی، تجربی، وجدانی یا شخصی روحانی ذرائع کو اختیار کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر مسائل کا تجزیہ، تحلیل اور حل یا تو انسان کی محدود عقلی پہنچ کی بنا پر خوش نما عقلی تعبیرات کی شکل میں سامنے آتا ہے یا عملی تجربات کی روشنی میں ایک زمینی حقائق پر مبنی pragmatic حل کی شکل میں یا پھر وجدانی (intuitive) اور روحانی (spiritual) تجربے کے انتہائی ذاتی (personal) اور انفرادی زاویے سے تجویز کردہ راے کی شکل میں حاصل ہوتا ہے۔ ان چاروں زاویوں سے کی جانے والی فکر، انسانی فکر اور تجربے کی محدودیت کی بناپر کلیت سے عاری اور ایک خطہ، دور یا ایک نسل کے ساتھ اختیاری یا غیر اختیاری طور پر مخصوص رہتی ہے اور باوجود ایک ظاہر عقلی اور منطقی ربط کے حیاتِ انسانی اور تہذیب ِانسانی کی ہمہ گیریت سے پیدا ہونے والے مسائل کا جامع حل تلاش کرنے سے قاصر رہتی ہے۔
چنانچہ مغربی مادیت ہو یا مارکسی معیشت، یا عالمی استعماریت اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو ہرایک کی فکری بنیاد محدود اور کسی خطے، تاریخ کے دور یا مخصوص معاشرتی و معاشی مسائل کی پیداوار نظر آتی ہے۔ ایک انسانی تہذیب و ثقافت کی تعبیر اگر ایک محدود علاقائی یا لسانی یا قومی روایات پر رکھی جائے تو وہ باوجود انتہائی مخلصانہ خواہش کے علاقائی اور محدود و مخصوص ہی رہے گی۔ اسلام عالمی انسانی برادری کے لیے ہدایت ہونے کی بناپر اسلامی فکروثقافت کو انسانی فکر کی محدودیت اور عجز سے نکال کر ایک آفاقی مقام دیتا ہے، شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ(البقرہ ۲:۱۸۵)’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘، اور اس بنا پر فکروثقافت کے لیے وحی کو جو اپنی وسعت، زمان و مکان سے ماورا اور انسانی فکر کی محدودیت اور قید سے آزاد قطعی ذریعۂ علم ہونے کی بنا پر اساس قرار دیتے ہوئے فکری زاویوں میں حرکیت، جدیدیت اور حالات کی مناسبت سے تبدیلیِ زمانہ کے باوجود انسانی مسائل کا غیرمتعصبانہ حل تلاش کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اسلام کا فکروثقافت کو علاقائیت اور زمان و مکاں کی قید سے آزاد کرانے کا عمل اسے ایک ’مذہب‘ کی جگہ دین بنادیتا ہے جو انسان کی زندگی کے ہرممکنہ پہلو پر آفاقی اخلاقی اصولوں کی روشنی میں تفکر کرنے اور مسائل کے حل تلاش کرنے کے سبب ایک متحرک اور مسلسل ترقی پذیر روایتِ علم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
فکر کو جس مفہوم میں قرآن کریم نے استعمال کیا ہے وہ انسانی تہذیب و ثقافت کی ترقی کے عمل میں پہلی بنیاد ہے۔ یہ تلاش حق کی طرف لے جانے کا وہ متحرک عمل ہے جس میں انسان اپنی عقل کی وسعتوں کی محدودیت کا اندازہ کرتے ہوئے وحی الٰہی کی قطعیت، صداقت و حقیقت کا ادراک کرتا ہے۔ اسی عمل کو قرآنِ کریم ذکر کی اصطلاح کے ذریعے مزید آگے بڑھاتا ہے۔
ذکر کا عمومی مفہوم لسان یا قلب کا یاد میں مشغول ہونا ہے۔ ایسے ہی ذہن میں کسی بات کے محفوظ کرلینے کو الذِّکرُ سے بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے فکر کے ساتھ ذکر کو بھی اسلامی فکروثقافت کی پہچان اور بنیاد قرار دیا ہے، یعنی وہ ثقافت اور فکر جو اللہ تعالیٰ کی تذکیر سے معمور ہو۔
یہ تذکیر تاریخی عمل سے آگے بڑھتے ہوئے ایک شعوری اور تجزیاتی تجربے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ کے جو بندے اس شعوری عمل سے گزرتے ہیں قرآن کریم انھیں اُولی الالباب، دانش مند یا ہوش مند کہہ کر پکارتا ہے: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ o الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰-۱۹۱) ’’زمین اور آسمان کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مندوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ اور زمین و آسمان کی ساخت پر غوروفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اُٹھتے ہیں) پروردگار، یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے‘‘۔ گویا ذکرِالٰہی نوعیت کے لحاظ سے فکر سے بنیادی طور پر کوئی زیادہ مختلف چیز نہیں ہے۔ یہ انسان کو کائنات اور اُس کے اپنے وجود میں ظاہر اور مخفی اللہ کی آیات پر غور کرنے اور کاروبارِ حیات کے ہرمرحلے میں شعوری عمل پر اُبھارتا ہے۔ ذکر محض زبان سے بڑائی بیان کرنے یا دل میں خفیہ طور پر یاد کرلینے تک محدود نہیں ہے (وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَo (الاعراف ۷:۲۰۵)’’اے نبیؐ! اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ گویا ذکر کا عمل بیٹھنے، لیٹنے یا کھڑے ہونے کا پابند نہیں بلکہ ہرآنے والے سانس اور قلب کی ہردھڑکن کے ساتھ احساسِ شکر کو عملِ عبدیت میں تبدیل کردینے کا نام ہے۔
منافق کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ کے ذکر کی ایک افضل شکل یعنی صلوٰۃ کی ادایگی میں کسمساتا ہے اور اللہ کا ذکر عموماً دکھاوے کے لیے کرتا ہے، جب کہ اس کے دل و دماغ کی دنیا ذکروفکر کے شعوری عمل سے اکثر خالی رہتی ہے۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ھُوَ خَادِعُھُمْ وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًاo (النساء ۴:۱۴۲)’’یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ جب یہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔
تہذیبی اور ثقافتی ترقی اپنی اقدار کی انفرادیت کے باوجود ایک تاریخی روایت سے پیوستہ ہوتی ہے اور عموماً اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اور ماضی کے آثار سے سبق لیتے ہوئے اپنی راہ اور طریق کار کا تعین کرتی ہے۔ اسلامی فکر سے وابستہ ذکر کی اصطلاح میں زمان و مکاں اور رفتارِ زمانہ کے حوالے سے یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ ثقافتی اور تہذیبی سفر میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے ایک نظر ماضی پر ڈال کر یہ دیکھا جائے کہ جن اقوام نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضل و کرم پر اپنے رویوں اور طرزِعمل میں شکر کا رویّہ اختیار نہ کیا ان کا انجام کیا ہوا۔ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۲۲)’’اے بنی اسرائیل یاد کرو (اذکرُوْا) میری وہ نعمت جس سے میں نے تمھیں نوازا تھا اور یہ کہ میں نے تمھیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی‘‘۔ یہاں یہ پہلو اُجاگر ہوکر آتا ہے کہ یاد کرنے کا عمل تزکیہ اور احتساب کا شعوری عمل ہے جس میں ایک قوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیے گئے انعامات اور فضل و کرم، یعنی قیادتِ اُمم کے حوالے سے جائزہ لے کہ کیا اُس نے ایک خطے میں ایک منصب اور فکری برتری ملنے کے باوجود اپنے طرزِعمل سے شکر کا رویّہ اختیار کیا یا کفر، ظلم، طغیان اور تکبر کا؟
تاریخ نام ہی عبرت کا ہے کہ تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیا جائے کہ کون سے عوامل ایسے ہیں جو ایک قوم کو شاکر ہونے کی بنا پر عروج و کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں اور کون سے عوامل ہیں جو کفرانِ نعمت کے نتیجے میں اس کی مادی چمک دمک کے باوجود اس کی بنیادوں کو کھوکھلا، اس کی ساکھ کو تباہ اور اس کے اقتدار کو محرومی، غلامی اور ادبار میں بدل دیتے ہیں۔ ذکر کا یہ تنقیدی اور احتسابی پہلو اسے دیگر تہذبوں سے ممتاز کرتا ہے اور قرآن کریم کو دستورِ حیات ماننے والوں کو دعوتِ فکر دیتے ہوئے شاکر بننے کی ترغیب دیتا ہے۔
ذکروفکر کے اسی پہلو سے خصوصاً مسلمانوں کو متوجہ کرتے ہوئے یاد دہانی کے طور پر کہا جاتا ہے۔ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی (القرآن) کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اُس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اُس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ یہاں اخوت و مودّت کی آفاقی قدر کے ذریعے قلوب کو جوڑ دینے کی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے متوجہ کیا گیا ہے کہ عصبی جاہلیت کی جگہ اُلفت و اخوت دو ایسی نعمتیں ہیں جن پر صرف اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت اپنے خالق و مالک کا جتنا بھی شکر ادا کرے وہ کم ہوگا۔ جامع اور کامل ہدایت ربانی کا نزول اور انسانوں کو رنگ و خون، زبان اور نسل کے بتوں کی غلامی سے نکال کر رشتۂ اخوت و مودّت و اُلفت میں جوڑ دینا اسلام کے انسانیت پر دو ایسے احسانات ہیں جن کا بڑے سے بڑا بدل اور معاوضہ بھی صحیح معنی میں حق ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ یہ دعوت ذکر سے طرزِعمل اور رویّے میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کسی گوشے میں بیٹھ کر صبح سے رات تک اور رات سے صبح تک محض چند مخصوص اذکار و ادعیہ کی تکرار سے نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ ذکرِخفی ایک نیکی کا عمل ہے لیکن امربالمعروف اور جہاد کے ذریعے کلمۂ حق بلند کرنے، منکر، طاغوت، ظلم اور فتنہ و فساد کو دُور کرنے کے مقابلے میں ایک کم تر عمل ہے جسے خود قرآن کریم نے سورئہ نسا میں قیامت تک کے لیے اپنے قولِ فیصل سے طے کردیا ہے: لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۵) ’’مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھربیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے‘‘۔
ذکر الٰہی کا افضل ترین طریقہ جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے طاغوت، کفر، ظلم اور باطل کو مٹا کر حق، عدل اور دین کو غالب کرنا ہے۔ قرآن اہلِ ذکر اور اہلِ سیف کو الگ الگ نہیں بلکہ یک جا اور یک جان دیکھنا چاہتا ہے۔ کتابِ ہدایت میں اہلِ دل اور مجاہدین فی سبیل اللہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ نظر آتے ہیں۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الانفال ۸: ۴۵) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی‘‘۔
ذکر کو قلبی کیفیات سے آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کریم اسے رویّے، طرزِعمل اور ان مظاہر سے وابستہ کردیتا ہے جو ذکر کے تکملہ کی حیثیت رکھتے ہیں: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَo اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌo (الانفال ۸: ۲-۴) ’’سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے‘‘۔
یہاں قرآن کریم نے ذکریٰ اور ذکر کے قلب پر اثرات کو چار اہم اعمال سے وابستہ کردیا ہے، یعنی اللہ کے کلامِ عزیز کی آیات سن کر دل کا خشیت سے لرز جانا، ایمان کا بڑھ جانا اور نماز اور انفاق کے ذریعے اللہ کے ذکر کا کیا جانا۔ قلبی کیفیت سے عموماً ایک ذاتی روحانی تجربہ مراد لیا جاتا ہے لیکن یہاں قرآن اس تجربے کو ان اعمال سے وابستہ کرتا ہے جن کا ادا کیا جانا قلب کے خشوع اور ایمان کے اضافے کا پتا دیتا ہے۔ یہاں ذکر ایک measureable طرزِعمل اور رویّہ بن کر اُبھرتا ہے اور نماز، خشیت اور مالی ایثار اس کے پیمانے ہیں۔ یہ ایک موہوم اور غلافوں میں چھپے ہوئے احساس یا واردات کا نام نہیں ہے بلکہ طرزِعمل اور رویّے کی اُس تبدیلی کا نام ہے جسے قرآن میں دیگر مقامات پر تقویٰ کا نام دیا گیا ہے۔
اوّلاً: اہلِ ایمان کا ہر حال میں، چاہے وہ اپنے ملک میں ہوں یا غریب الدیار ہوں، زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا، اسے اس کے بہترین ناموں سے یاد کرنا اور ذکریٰ کی تلاوت کے ذریعے ذکرِ باللسان کرنا۔ انسان اپنی زبان میں جو الفاظ چاہے استعمال کرلے لیکن جو عظمت کلامِ الٰہی، یا ذکریٰ کے اپنے الفاظ کے ادا کرنے میں ہے، ہر زبان اس کے آگے عاجز ہے۔
دوسرا پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ یہ ذکر لسان سے آگے جاکر حلق میں اٹک کر نہ رہ جائے بلکہ قلب کی ہر دھڑکن میں سما جائے اور دل اللہ کی یاد سے اور اس کے ذکر سے معمور رہے۔
تیسرا اہم پہلو ذکر کا عبادات کی شکل میں ظاہر ہونا ہے یعنی ایمان کی تصدیق عمل کے ذریعے یا ذکر بالعمل۔ چنانچہ صلوٰۃ، زکوٰۃ، قیام اور حج کے علاوہ نوافل و انفاق اوردیگر اعمال کے ذریعے اللہ کا ذکر کرنا۔
اس حوالے سے چوتھا پہلو یہ ہے کہ اللہ کا ذکر جس عمل کے ذریعے سے سب سے زیادہ بلندمرتبہ قرار پایا ہے وہ ذکر بالجہاد ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ جب تم کسی گروہ سے مقابلہ کرو تو دورانِ جہاد اللہ کے ذکر کی کثرت کرو۔ یہ کثرت نہ صرف تکبیرات کے ذریعے بلکہ تلوار کے ہروار اور بندوق کی ہر گولی کے ذریعے اللہ کے نام کو بلند کرنے، عدل کے قیام اور ظلم و کفر کو مٹانے کے لیے ہاتھ کی ہرجنبش سے کی جائے گی۔
سورۂ حج میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ o اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ o الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ o اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۳۸-۴۱) ’’یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں، یقینا اللہ کسی خائن کافرِ نعمت کو پسند نہیں کرتا۔ اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جواپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ’’ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کاانجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
یہاں اہلِ ایمان کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ظلم، کفر اور طاغوت سے خائف ہوکر اپنے آپ کو معاشرے سے کاٹ کر اور خود اپنے خول میں بند ہوکر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے دین و ثقافت کی بقا واشاعت کے لیے صف آرا ہوتے ہیں بلکہ دیگر اقوام کے مراکز عبادات کو بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور جب اللہ انھیں زمین میں اقتدارواختیار دیتا ہے تو پھر نظامِ عبادت (صلوٰۃ) اور نظامِ معیشت (زکوٰۃ) کو نافذ کرتے ہیں اور معاشرے سے برائی کو مٹانے اور بھلائی کو پھیلانے میں اپنی قوت و اختیار کا استعمال کرتے ہیں، اور ساتھ ہی اللہ کے راستے کی تلاش کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo (الرعد۱۳:۲۸)’’ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبی ؐکی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔ قلب کے اطمینان کے لیے قرآن جو نسخہ تجویز کرتا ہے وہ آسان، عملی اور مؤثر ہے یعنی صبر اور صلاۃ سے استعانت کے ذریعے قلب کا سکون حاصل کرنا۔ قرآن کامیابی اور فلاح کو اُس ذکر سے وابستہ کرتا ہے جو صلاۃ کی شکل میں فحشاء و منکر کے خلاف جہاد اور معروف و عدل کے قیام کے لیے اجتماعیت کے ساتھ صف بندی کرکے اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کے اعلان اور دیگر تمام نام نہاد خدائوں کی خدائی کا انکار کرتے ہوئے اختیار کی جائے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵)’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز ادا کی‘‘۔
جس طرح اللہ کے ذکر کا صلاۃ کے ساتھ وابستہ اور متعلق ہونا دونوں مصادر شریعہ سے ثابت ہے اسی طرح یہ بات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت اور ٹھیرٹھیر کر غوروفکر کے ساتھ اس کا پڑھا جانا ہی نماز کی روح ہے۔ اسی طرح اسلامی فکر، اللہ کے ذکر، ذکر کی عظمت اور ذکریٰ یا وحیِ الٰہی کی ہدایات کو زندگی میں سمونے اور اس کی روشنی میں تہذیبی عمل کو آگے بڑھانے کا نام ہے۔ چنانچہ جو اہلِ دانش اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ، وحی کے مطابق اور وحی کے علم کے اعلیٰ ترین مصدر ہونے پر غوروفکر کے بعد یکسو ہوجاتے ہیں، ایسے ہی اربابِ بصیرت اور انھی اہلِ دانش کو قرآن کریم اھل الذکر سے تعبیر کرتا ہے۔ وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (النحل ۱۶:۴۳)’’اے نبیؐ! ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘۔
سورئہ انبیا (۲۱:۷) میں اسی مضمون کو بیان کرنے کے بعد مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ جو انبیا خاتم النبیینؐ سے قبل بھیجے گئے وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور حیات و ممات کے لحاظ سے دوسرے انسانوں سے مختلف نہیں تھے۔ لیکن جو چیز انھیں ممتاز کرنے والی تھی وہ اللہ کی طرف سے براہِ راست وحی یا ہدایت کا وصول کرنا تھا، یعنی وہ اپنے ذہن، تجربے یا وارداتِ قلبی کی بنا پر کوئی ہدایت نہیں دیتے تھے بلکہ جو وحی ان پر کی جاتی اسے جو.ُں کا تو.ُں بغیر کسی اضافے یا حذف کے اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی عملی زندگی میں نافذ کر کے انسانوں کے لیے قابلِ تقلید اسوہ فراہم کرتے تھے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم ایسی بدیہی بات کو بھی نہیں جانتے تو جو اس کا علم رکھتے ہیں (اہلِ الذکر) ان سے پوچھ لو وہ اس کی تصدیق کر دیں گے۔
مذاہب ِ عالم میں ’ذکر‘ کی مختلف شکلیں رائج ہیں۔ کہیں یہ اشلوک کی شکل اختیار کرتا ہے اور کہیں صنم کدہ میں مذہبی رقص بن جاتا ہے۔ یہودیت نے سبت کا دن اپنے خدا کی عبادت اور ذکر کے لیے مخصوص کردیا ہے جس میں تورات کا پڑھا جانا خدا کے ذکر کا ذریعہ ہے۔ عیسائیت نے اس ذکر کے لیے اتوار کے دن سازوں کے ساتھ مل کر نغمے گانے کو ذکر کی ایک اعلیٰ شکل تصور کیا ہے، جب کہ ہندوازم میں دنیا کو چھوڑ کر جنگل بیابان میں نفس کُشی اور خدائوں کو مختلف ناموں سے پکارنے، مثلاً اُوم (om) کو ایک خاص انداز سے ادا کرنے کو ذکر تصورکیا ہے۔ ان میں سے اکثر طریقے کسی خاص وقت، کسی خاص مقام اور کسی خاص تہوار یا رسم سے وابستہ ہیں اور اکثر دعائیہ کلمات پر مشتمل ہیں۔ اگر ان تمام مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ذکر ایک جامع اور ہمہ گیر عمل ہے۔ یہ کسی خاص وقت، جگہ یا تہوار سے وابستہ نہیں ہے۔ یہ گفتگو نامکمل رہے گی، اگر اس میں قرآن کریم میں بیان ہونے والے بعض اہم مضامین کا تذکرہ اختصار سے نہ کردیا جائے۔ ان مضامین میں تدبر، تعقُّل، شعور، تزکیہ، تعلیم اور تفقہ زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ (جاری)