نومبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

آہ! مولانا فتح محمدؒ بھی رخصت ہوگئے

مولانا عبد المالک | نومبر ۲۰۰۸ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

مولانا فتح محمد رحمۃاللہ علیہ کی وفات سے تعلیمی،تربیتی،تنظیمی،دعوتی،تبلیغی اور جماعتی حلقے ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئے، اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔مولانا فتح محمدؒ جماعت اسلامی پاکستان کے نمایاں،ممتاز اور اہم قائد تھے۔ملک کی سیاسی، دینی ،سماجی تنظیمات میں معروف تھے اور         قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔علماومشائخ،دینی مدارس، اتحاد تنظیمات مدارسِ دینیہ  کے شیوخ، مہتممین و منتظمین ان سے عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔تمام مکاتب ِفکر کے علما ان کی  سیرت و کردار ،اخلاق، تواضع،للہیت اور حق گوئی سے متاثر تھے۔ان تمام شخصیات سے ان کے گہرے مراسم تھے۔مولانا ؒ تعلق نبھانے اور اسے قائم رکھنے میں انتہائی مستعد رہتے تھے۔جس سے ایک بار تعلق قائم ہوجاتا، اسے پھر کبھی ٹوٹنے نہ دیتے۔ ان کی زندگی میں بھی یاد رکھتے اور     فوت ہوجانے کے بعد بھی ان کے پس ماندگان سے تعلق قائم رکھتے۔

مولانا فتح محمدؒ اگست۱۹۲۳ء میں ضلع چکوال کے ایک گاؤںدولہہ میں پیدا ہوئے۔   ۱۹۴۱ء میں میڑک پاس کیا۔ اس کے بعد دینی و عصری تعلیم حاصل کرنے میں مسلسل مصروف رہے۔  ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۴ء میں دارالعلوم تعلیم القرآن راجا بازار میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒسے  درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی ۔صرف ونحو کی ابتدائی کتب سے لے کرآخری درجوں کی کتب کافیہ، شرح مُلّا جامی اور فقہ کی ابتدائی کتب سے لے کر شرح وقایہ وہدایہ تک مکمل کیں    اور دورۂ تفسیر القرآن سے دو مرتبہ فیض یاب ہوئے۔اپنی قابلیت اورذوق وشوق کی وجہ سے مولانا غلام اللہ خانؒ کے انتہائی قریبی اور قابلِ اعتماد شاگردوں میں شمار ہونے لگے اور ان کی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو منظم کرنے والی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ اس دوران میں ان کے رفقاء کا ایک حلقہ قائم ہوگیا جو ان کے گرد یوں جمع ہوجاتے جیسے شمعِ محفل کے گرد پروانے۔

مولانا فتح محمدؒ کی طرح مولانا صدر الدین الرفاعی،جو قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے   ایک بڑے ستون تھے اور مفکرِ اسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے معتقد اور مدّاح تھے،وہ بھی   اس دور میں شیخ القرآن کے دست وبازو تھے۔شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ اپنے شاگردوں میں دینی جوش وجذبہ بھر دیتے تھے۔مولانا فتح محمدؒ کوبھی انھوں نے متاثرکیا۔ اسی دوران انھوں نے  سید مودودیؒ کا لٹریچر سلامتی کا راستہ،اسلام اور جاہلیّت، خطبات ، دینیات اور دہلی سے شائع ہونے والے رسالے مولویکا مطالعہ کیا جس میں مولانا مودودیؒ کے مضامین شائع ہوتے تھے تو ان کے دینی جوش و جذبے کو صحیح سمت مل گئی۔مولانامودودیؒ اس وقت تک دارالسلام پٹھان کوٹ میں منتقل ہوچکے تھے۔ان سے خط وکتابت شروع کی۔جماعت کا دستور اور مزید لٹریچر منگوا کر مطالعہ کیا۔۱۹۴۳ء کے اواخر یا ۱۹۴۴ء کے آغاز میںاطلاع ملی کہ مولانا مودودیؒ کوثر اخبار کے دفتر میں جماعت اسلامی کے ایک اجتماع میںشرکت کے لیے لاہور تشریف لارہے ہیں، چنانچہ مولانا فتح محمدؒاپنے دوست عبدالحمیدصاحب کے ساتھ، جن کے ذریعے انھیں مولانا کا لٹریچر ملا تھا، اس اجتماع میں شامل ہونے کے لیے لاہور پہنچ گئے۔

مولانا مودودیؒ اور میاں طفیل محمد صاحب سے اس موقع پر ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔   یکم نومبر۱۹۴۴ء کو جماعت کے رکن بن گئے۔اس سے پہلے راولپنڈی میں صرف ایک رکن سید راغب الحق تھے۔اس لیے وہاں جماعت کی تشکیل نہیں ہوئی تھی۔ مولانا فتح محمدؒ رکن بن گئے تو جماعت اسلامی کا باقاعدہ نظم قائم ہوگیا اور آہستہ آہستہ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ کے حلقے میں شامل ان کے رفقا بھی ان کے گرد جمع ہوگئے۔اب مولانا فتح محمدؒ ایک قائد کی حیثیت سے جماعت اور دیگر دینی جماعتوں کے لیے مرکز و محور بن گئے۔ مولانا غلام اللہ خان ؒکے حلقے کا انھیں اعتماد حاصل تھا اور راولپنڈی ڈویژن، جس میںہزارہ بھی شامل تھا، اور ایک عرصے تک آزاد کشمیر بھی مولاناکی زیر نگرانی رہا،جماعت اسلامی کاایک فعال، مضبوط اور پُرکشش مرکز بن گیا۔ جماعت کو ایک طویل عرصے تک مولانا فتح محمد ؒکے روابط کی بدولت علماکی مخالفت سے تحفظ حاصل رہا۔ جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ جماعت اسلامی کی حامی اور مولانامودویؒ کی مدّاح رہی۔اس کے نتیجے میں راولپنڈی، آزاد کشمیر اور ملک کے دوسرے حصوں سے ان کے حلقۂ اثر کے بہت سے علما جماعت اور جمعیت اتحاد العلما میں شامل ہوگئے۔

قیام پاکستان کے متصل بعد مولانا مودودیؒ نے چار نکاتی تحریک نفاذِ شریعت اور دستورِ اسلامی کا آغاز کیا۔مولانا نے ریاست کے اسلامی ہونے کی شرط بھی کلمہ پڑھنے کو قرار دیتے ہوئے فرمایا : جس طرح فرد اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کلمہ نہ پڑھے، اسی طرح ریاست بھی اس وقت تک اسلامی نہیں کہلائے گی جب تک وہ کلمہ نہ پڑھ لے۔ انھوں نے اس کے لیے ایک چار نکاتی تحریک شروع کی۔ مولانا مودودیؒ نے اس کے لیے ملک بھر کے دورے کیے۔ اجتماعات اور جلسوں سے خطاب کیا۔راولپنڈی اور ہزارہ اور آزادکشمیرکی سطح پر اس تحریک کو مولانا فتح محمد ؒنے منظم کیا۔ انھیںعلما کی حمایت بھی حاصل تھی۔پورے ملک کی طرح راولپنڈی ڈویژن میں بھی تحریک عروج پر پہنچی اور حکومت نے قراردادِ مقاصد کی شکل میں چارنکاتی تحریک کو منظور کرلیا۔

قراردادِ مقاصد توپاس ہوگئی لیکن اسلام اور جمہوریت کے خلاف سازشیں جاری رہیں۔ قراردادِ مقاصد کے مطابق ملک میں اسلامی دستور کے نفاذ میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ دستور اسلامی کے لیے از سر نوتحریک برپا کی گئی۔قادیانیوں کے خلاف بھی تحریک ختم نبوت کو منظم کرنا پڑا، اس کے لیے علمانے مسلسل جدوجہد کرنا شروع کی۔ مولانا فتح محمد کی ذمہ داری کے اس دور میں ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختم نبوت اپنے عروج پر پہنچی۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ،میاں طفیل محمد اور محترم     قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں انھوں نے راولپنڈی اور پنجاب کی سطح پر جماعت کی تنظیم اور جماعت کی برپا کردہ تحریکات کے ضمن میں عظیم اور مثالی جدوجہد کی۔تحریکِ جمہوریت، تحریکِ ختم نبوت اور تحریکِ نظام مصطفی اور تحریکِ جہاد، سیلاب زدگان اور متاثرین زلزلہ کی خدمت کی۔ ہرمیدان میں مستعدی اور جان فشانی سے حصہ لیا۔ آج جماعت اسلامی کی قیادت قوت اور اثرات کے جس مقام پر پہنچ چکی ہے اس میں مولانا فتح محمد ؒکا بڑا حصہ ہے۔ جب پنجاب کی امارت کی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو انھوں نے اپنے آپ کو فارغ نہ سمجھا۔ ہر تحریک ،ہر پروگرام میں ذوق وشوق سے شریک ہوئے ۔محترم قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں اسلام آباد میں دو مرتبہ دھرنے دیے گئے۔ان دھرنوں میں مشکلات، رکاوٹوں اور پیرانہ سالی کے باوجود ہمت، حوصلے اور جرأت سے شرکت کی۔

ان ہمہ گیر اور وسیع تحریکی وتنظیمی سرگرمیوں کے باوجودمولانا فتح محمد ؒ نے ایک دن کے لیے بھی تعلیم و تعلّم، مطالعے اور اپنے روز مرہ کی عبادات ،تلاوت، اذکارکے پروگراموں کو معطل نہیں کیا۔ وہ پڑھتے اور پڑھاتے بھی رہے۔شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒکے علاوہ مولانا مسعود عالم ندویؒ اورمولانا امین احسن اصلاحی ؒ سے عربی زبان اور تفسیر ِقرآن کے سلسلے میں استفادہ بھی کیا۔ان کا قائم کردہ تعلیمات عالیہ کالج ،جس میں فارسی فاضل اوراردوفاضل کی معیاری تعلیم دی جاتی تھی راولپنڈی کا معروف ومشہور ادارہ تھا۔۱۹۴۳ء میں ایف اے،۱۹۵۳ء میں ایف اے کے اضافی مضامین اُردو، فارسی، معاشیات کا امتحان پاس کیا۔اپریل۱۹۶۰ء میں بی اے کیا اور ۱۹۶۳ء میں بی اے کے اضافی مضامین اردو،فارسی،عربی کا امتحان پاس کیا۔۱۹۶۶ء میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۷۶ء میں ایم اے عربی کیا۔

جب منصورہ میں مرکز علومِ اسلامیہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو مرکز کے منصوبے میں  علومِ عربیہ و اسلامیہ کادارالعلوم بھی شامل تھا۔اس کے لیے ابتدائی طورپر جامع مسجد منصورہ کے ساتھ ایک عمارت بھی تعمیر کی گئی تھی۔ مولانا فتح محمدؒاس وقت جماعت اسلامی پنجاب کے امیر تھے، انھیں اس کا مہتمم مقرر کیاگیا۔اس کا افتتاح ۱۴۰۰ھ کو دورۂ تفسیر کے آغاز سے کیاگیا۔مولانا فتح محمدؒ اپنی وفات (۱۰؍اگست ۲۰۰۸ئ)تک اس کے مہتمم اور مدرّس رہے۔

پانچ سال سے وہ رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان کے نائب صدر تھے۔اس ذمہ داری کے سبب ان کے مدارس، دینی مدارس کی تنظیمات اور ان کے ذمہ داران سے روابط اور تعلقات تھے۔ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ میں وقتاً فوقتاً نمایندگی بھی کرتے تھے۔ اتحاد تنظیم کے صدور، ناظمین اور مدارس کے شیوخ نے ان کی وفات پر گہرے رنج وغم کااظہار کیا اور مغفرت کی دعائیں کیں۔

جب منصورہ میں شعبان/رمضان ۱۴۰۰ھ میں دورۂ تفسیر کا آغاز ہوا اورمولانا گوہررحمن ؒ کو دورۂ تفسیر کے لیے بلایا گیا تو اس وقت مولانا فتح محمد ؒنے اہتمام کے ساتھ پڑھنا بھی شروع       کر دیا۔ وہ دورۂ تفسیرکے پہلے طالب علم بھی تھے۔ اس طرح ہر سال دورہ تفسیر میں شرکت کرتے۔  محرم الحرام۱۴۰۱ء سے مرکز علومِ اسلامیہ میں باقاعدہ اعلیٰ درجوں کی تعلیم کا آغاز کیا گیا تو مولانا فتح محمد ؒ نے دفتری اوقات کے بعدپڑھنا شروع کر دیا۔وہ مسلسل پڑھتے رہے یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ انھوں نے دارالعلوم میں پڑھانا بھی شروع کردیا۔ترجمۂ قرآن پاک، ریاض الصالحین، مشکوٰۃ اور شرح وقایہ کئی سال تک پڑھاتے رہے، بالآخر ادارے نے ان پر ان کی    مرضی کے بغیر بوجھ کم کردیااور مشکوٰۃ کا درس دوسرے اساتذہ کے سپرد کردیا۔اسی دوران   جامعۃ المحصنات میں ایک استاد کی ضرورت محسوس کی گئی تومولانا نے اس کے لیے بھی اپنے آپ کو پیش کردیا ۔یہ ان کی ہمت ،حوصلہ،عزم ،جذبہ اور ذوق وشوق تھا کہ بیماری کے دوران بھی بوجھ اٹھانے کے لیے تیارتھے۔

وہ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ مزید سرگرمیاں بھی جاری رکھتے۔جہاں کہیں فہم قرآن کی کلاس ہوتی،کوئی اجتماع ،ریلی،علماکنونشن،دینی پروگرام ،تحریک، دھرنا ہوتا تو اس میں پیش پیش ہوتے۔ ان کے علمی ذوق و شوق کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ ۲۰۰۵ء میں انھوں نے تعمیر ِسیرت کالج سے کمپیوٹر کورس کیا اور ’’مہد سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو‘‘کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ قریب ودُور جہاں جانا پڑتا وہاں پہنچ جاتے۔ یہ تو ان کا تحصیلِ علم کا ذوق تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکز علومِ اسلامیہ کے لیے مالی اعانت جمع کرتے، اس کے لیے لوگوں سے رابطے کرتے، اندرون و بیرون ملک دورے کرتے اور بھرپور کوشش کرتے۔ انھوں نے برطانیہ،سعودی عرب،ابو ظہبی دبئی، شارجہ، ایران اور افغانستان کے مطالعاتی اور دعوتی دورے بھی کیے۔اکتوبر۲۰۰۷ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔اس دورے میں مختلف شہروں میں دعوتی تربیتی اجتماع سے خطاب کیا اور عمرہ بھی کیا۔

مجھے ۳۰ سال سے زیادہ ان سے رفاقت کا شرف حاصل رہا۔اس طویل عرصے میں ،میں نے مولانا فتح محمدؒ  کو ہمیشہ مطمئن پایا،حتیٰ کہ مرض الوفات میں بھی کسی قسم کی بے قراری، شکوہ شکایت زبان پر نہ تھی۔ ان کے اطمینان کو دیکھ کر امید ہوتی تھی کہ جلدہی صحت یاب ہوجائیں گے۔وہ شدید بیماری میں بھی مطمئن تھے۔۲،۳؍اگست کو یہاں منصورہ میں مختلف ممالک سے کچھ مہمان تشریف لائے تو انھوں نے ۳ اگست کو مجھے ایک خط بھیجا کہ میں ان مہمانوں کو دارالعلوم کی نئی عمارت کا دورہ کرواؤں اور دارالعلوم کے مختلف پروگراموں سے متعارف کرواؤں۔ وہ شدید بیمار تھے، مگر دارالعلوم کی فکر ان کے دامن گیر تھی۔ ۱۰؍اگست ۲۰۰۸ء کی شام کو ان کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ ظہر سے پہلے ان پر غشی طاری تھی۔ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا ،نماز کا وقت آیا تو ہم نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپس آئے تو روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ان کی موت کا منظر دیکھ کر یہ آیت یاد آگئی:

یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْـمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَـۃً مَّرْضِیَّـۃً o     (الفجر ۸۹:۲۷-۲۸) اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف لوٹ جا،اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور اللہ تجھ سے راضی۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایسی ہی مومنانہ شان اور مقام و مرتبہ عطا فرمائیں۔

میں نے مولانا کوکبھی بھی پریشان حال نہ پایا۔وہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے کام سرانجام دیتے رہے ۔ کبھی کسی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے بھی نہ پایا۔انھوں نے نظمِ جماعت کے ساتھ اختلاف کی صورت میں اختلاف کیا لیکن آداب کو ملحوظ رکھااورنظمِ جماعت کی اطاعت کی۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر یہ حدیث یاد آتی ہے:’’جسے آخرت کی فکر ہو، اللہ اس کے دل میں غنا پیدا کر دیتا ہے اور اس کے کاموں کومنظم کردیتاہے، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر پہنچتی ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

وہ اخلاقِ حسنہ کا بہترین نمونہ تھے، سراپا اخلاق تھے۔ اپنے دوستوں،جماعتی رفقا،      علما و مشائخ کے حقوق کا خیال رکھتے،بیماروں کی عیادت کرتے،فوت ہونے والوں کے جنازے میں پہنچتے، وقتاً فوقتاً مہمان نوازی اور افطاری کے لیے گھر پر بلاتے۔راولپنڈی اور لاہور میں ان کا گھر دفتر کی طرح مہمان خانے کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ لوگوں کے کاموںکے لیے وقت نکالتے، افسروں کو فون کرتے، ضرورت ہوتی تو ان کے ساتھ چل کر جاتے۔ وہ ہر کارِخیر میں پیش پیش رہتے۔

اللہ تعالیٰ انھیں غریقِرحمت کرے۔ وہ یاد آتے رہیںگے۔اللہ تعالیٰ جماعت کو ان کا    نعم البدل عطا فرمائے۔ رفقااور اولاد کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازے، آمین!