عالمِ اسلام کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ایک بنیادی مسئلہ قومی، ملکی اور ذاتی ترجیحات کا نظر آتا ہے۔ اکثر ترقی پذیر مسلم ممالک میں مغربی تعلیم یافتہ فرماں روا اور مشیرانِ حکومت محض ٹکنالوجی میں ترقی کو قومی ترجیح قرار دیتے ہوئے تعلیمی اور معاشی پالیسی کو اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ قوم فنی طور پر ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرلے۔ کچھ فرماں روا مسلمانوں کو ’روشن خیال‘ ثابت کرنے کے لیے فحش اور عریاں ثقافتی سرگرمیوں کے اپنانے کو تعمیر ِکردار پر ترجیح دیتے ہیں اور اسے مسلمانوں کی ’نرم شبیہہ‘ (soft image) قرار دیتے ہوئے آخرکار دشمنانِ اسلام کے لیے نرم نوالہ بن جاتے ہیں۔ بعض افراد اپنی ذاتی زندگی میں فرائض کو نظرانداز کرتے ہوئے ان نوافل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو ان کے خیال میں برکت کا باعث ہوتے ہیں۔ زندگی کے ہر ہرقدم پر ہمیں ترجیحات کا سامنا ہوتا ہے۔ چاہے وہ حج کی تیاری کرتے وقت یہ فیصلہ کرنا ہو کہ جمع شدہ رقم لڑکی کے گھر بسانے پر خرچ ہو یا حج و عمرہ پر، یا ووٹ ڈالتے وقت ترجیح ایسے فرد کو دی جائے جو جیتنے والا سرکش گھوڑا ہو، یا مدمقابل کو جو صالح اور امانت دار ہو لیکن شاید ہارجائے۔
شیخ قرضاوی کی یہ تحریر ان کی بالغ نظری اور فقہی بصیرت کا ایک مظہر ہے۔ انھوں نے آسان انداز میں فقہ کے ایک اہم مضمون، یعنی مقاصد الشریعہ اور قواعد الفقیہہ کو بغیر فقہی اصطلاحات کو استعمال کیے، مثالوں کی مدد سے سمجھایا ہے جو ایک باکمال استاذ ہی کرسکتا ہے جسے طلبہ کی ایک ایسی جماعت مل جائے جس میں انتہائی ذکی اور کم فہم اور غبی ہر طرح کے طلبہ کا سامنا ہو۔ اس لحاظ سے کتاب غیرمعمولی طور پر عملیّت سے بھرپور ہے۔
کتاب ۱۱ ابواب پر مشتمل ہے جن میں: موضوع کی اہمیت و ضرورت، ترجیحات اور موازنات، علم و فکر میں ترجیحات، فتویٰ اوردعوت میں ترجیحات، عمل میں ترجیحات، مامورات میں ترجیحات اور دینی ورثے اور مصلحینِ عصر کی دعوت اور ان کی ترجیحات، جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
یہ کتاب کئی حیثیات سے تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے ایک لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اولاً: اس میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اصول الدعوۃ کی تطبیق کس طرح کی جائے اور دین میں غلو سے کس طرح بچاجائے۔ ایک عام فرد کے لیے اس میں غور کرنے کا اہم پہلو یہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں جب کسی سے کہا جاتا ہے وہ انفاق فی سبیل اللہ کرے تو لے دے کر ذہن کسی مسجد یا مدرسے کی تعمیر کی طرف جاتا ہے، جب کہ کشمیر اور فلسطین کے یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت، بیوہ خواتین کے لیے دستکاری کے مراکز، اعضا سے محروم اور مجروحین کے لیے شفاخانوں کا قیام اور مغربی ثقافتی یلغار کے خلاف ایسے اداروں کا قیام جو صحت مند فلمیں، ڈرامے، نغمے اور تعلیمی پروگرام بنا سکیں، ایک غیردینی کام تصور کرلیا جاتاہے۔
بعض اوقات انفاق کے جذبے کے ساتھ ایک صاحب ِ خیر کئی لاکھ روپے کسی یتیم خانے کو دے دیتا ہے جو ایک بھلائی کا کام ہے، لیکن یہ نہیں سوچتا کہ اس نے جو دولت حاصل کی ہے اور جسے وہ ایک بھلائی کے کام میں لگا رہا ہے اسے حاصل کرنے میں سود اور ممنوع ذرائع کا کتنا بڑا دخل رہا ہے۔ اُمت کی ترجیحات کا اظہار اس کے رویوں سے بھی ہوتا ہے، مثلاً ایک فن کار فوت ہوجائے تو اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ میںکہرام مچ جاتا ہے، جب کہ ایک عالم کے انتقال پر کسی کو پریشانی نہیں ہوتی۔ ایک دو کوڑی کا کردار رکھنے والے وزیر کی حفاظت کے لیے ۳،۳مسلح گارڈوں کے ساتھ اس کی سواری نکلتی ہے، جب کہ عام شہری کی جان، عزت اور مال کے تحفظ کے لیے اقدام نہیں کیے جاتے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو ہم تنہا ایک فرماں روا کے بیرونی سفر پر قومی خزانے پر جتنا چاہیں بوجھ ڈال دیتے ہیں جب کہ ایک شہری کی تعلیم، صحت اور دینی ضروریات کو این جی اوز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت پر چراغاں اور مٹھائیاں تقسیم کرنا فرض اور واجب قرار پاتا ہے، جب کہ دو قدم پر کچی آبادی میں بسنے والے ہزارہا افراد کی بھوک، لباس اور دیگر ضروریات پر قرآنِ کریم کے واضح احکام اور سنت ِ رسولؐ کی واضح تعلیمات کے باوجود سائل، محروم اور مسکین کی زندگی کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
اسلام نے گو اپنے نظامِ عبادت میں فرض، سنت اور نفل کی تقسیم کے ذریعے ترجیحات کا تعین کیا ہے مگر اُمتِ مسلمہ اکثر نوافل کو فرض کا مقام دے بیٹھتی ہے اور فرائض سے عدمِ توجہی کی مرتکب ہوتی ہے۔ شیخ قرضاوی کی یہ تحریر اُمتِ مسلمہ کو اسی طرف متوجہ کرتی ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا جائزہ لے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایسا لائحہ عمل طے کرے جو دین کی صحیح ترجیحات پر مبنی ہو۔
تحریکاتِ اسلامی اپنے روز مرہ کے مسائل اور بالخصوص سیاسی حالات میں الجھنے کے سبب اپنی اصل اور بنیاد سے، جس پر زیادہ توجہ اور ترجیحی بنیاد پر کام کرنا چاہیے، لاپروا ہوجاتی ہیں۔ نتیجتاً تعداد میں کثرت کے باوجود تحریک کی اصل پہچان اور تشخص یعنی فکری، تربیتی اور تعمیر کردار کا پہلو ثانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ سیاسی عمل کے شوروغل اور ابلاغِ عامہ میں سرگرمیوں کے تذکرے تحریک کو تعمیر ِسیرت و کردار کے بنیادی کام سے غافل کردیتے ہیں۔ تبدیلیِ فرد کا اصل معیار جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کو سمجھ لیا جاتا ہے، جب کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلامی مصادر، یعنی قرآن وسنت سے براہِ راست تعلق، اللہ کے بندوں کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کوشش ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں اور تحریکات کی قیادت کو اس کمزوری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اگر ترجیحات پر مسلسل غوروتجزیہ اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ احتسابی عمل کو زندہ رکھا جائے تو تحریکات نہ جمود کا شکار ہوتی ہیں اور نہ ایک میکانکی نظام ہی میں تبدیل ہوتی ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اس کتاب میں غور کرنے کے لیے بہت قیمتی مواد ہے اور اگر دیکھا جائے تو کام کی منصوبہ بندی ترجیحات کا تعین کیے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ مرکزی، صوبائی اور مقامی سطح پر کام کرنے والے ہر کارکن اور ذمّہ دار کے لیے اس کتاب میں غوروفکر کا سامان موجود ہے۔ اس کے ایک ایک باب کو اجتماعی حلقوں میں مطالعہ کا موضوع بناکر اپنے کام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
شیخ قرضاوی اِس دور کے اُن علما میں سے ہیں جو مجتہد ِعصر کا درجہ رکھتے ہیں لیکن انھوں نے کتاب میں جابجا علما کی تحریرات سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے افکار کا خلاصہ اور بعض اوقات حوالے نقل کرنے میں اپنے قلب و فکر کی وسعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک پورا باب مصلحینِ عصر کی ترجیحات پر قائم کیا ہے۔ جن میں امام ابن عبدالوہاب، مہدی سوڈانی، جمال الدین افغانی، محمد عبدہٗ، امام حسن البنّا، امام مودودی، سیدقطب، استاذ مبارک اور استاذ شیخ الغزالی شامل ہیں۔ ان علما کی فکر کو پیش کرتے وقت ایک محقق اور طالب علم کے انداز میں معروضیت کے ساتھ ان کی دعوت و فکر کو پیش کیا گیا ہے جو خود شیخ قرضاوی کے مقامِ علم کو بلند کردیتی ہے۔
کتاب اول تا آخر پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ پڑھنے کی متقاضی ہے۔ مترجم گل زادہ شیرپائو نے ترجمے کا حق ادا کردیا ہے۔ دورانِ مطالعہ کہیں بھی بوجھل پن یا تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ ادارہ منشورات اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اُردو خواں طبقے کے فائدے کے لیے شیخ قرضاوی کی دیگر تصنیفات کی اشاعت کو بھی ادارے کی ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ (دین میں ترجیحات، علامہ یوسف القرضاوی۔ ترجمہ: گل زادہ شیرپائو۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۱۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے)