آپ کے جو دوست یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ اگر جماعت اسلامی ہی صحیح راستہ پر ہے تو مجھے اسی کے مطابق چلاوے۔ ان سے کہیے کہ کسی معاملے میں حق معلوم کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی شریعت کے اصولوں کے سامنے رکھ کر ان پر پوری طرح غور کرے، اگر غور کرنے سے اس کا دل کسی ایک طرف مطمئن اور یک سو ہوجائے تو اس طریق کو اختیار کرلے اور اگر تردد باقی رہے تو شرح صدر کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور تلاش و تحقیق میں پوری سرگرمی سے مصروف بھی رہے۔ مجرد دعا پر بھروسہ کرلینا اور اپنے فکروعقل سے کام نہ لینا صحیح شرعی طریق نہیں ہے۔ یہ کوئی معقول حرکت نہیں ہے کہ تحقیق حق کے لیے اللہ تعالیٰ نے علم و عقل اور قوتِ استدلال کے جو ذرائع بخشے ہیں اور اپنی آیاتِ ہدایت اور اسوۂ انبیا کی جو نعمتیں عنایت فرمائی ہیں، ان سب سے قطع نظر کرکے آدمی محض اللہ سے ہدایت و راستی کی آرزو کرکے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہے۔ جس شخص نے خدا کے دیے ہوئے چراغ کو گُل رکھا اور روشنی کی دعا کی، یا خدا کی دی ہوئی آنکھ موندے رکھی اور راستہ دیکھنے کی التجا کرتارہا، اس نے اللہ کی بخششوں کا کفران کیا۔ اسے کب حق پہنچتا ہے کہ اللہ اس پر مزید بخششیں فرمائے۔
ایسا رویہ دین سے بے پروائی اور عدم دل چسپی کی دلیل ہے اور اس میں کسی سنجیدگی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ خود یہ حضرات دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں فکروعقل کو معطل کر کے محض دعا پر بھروسا نہیں کرسکتے لیکن اسے فریبِ نفس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ دین جیسے نازک معاملے میں عقل کی آنکھیں بند کرکے محض اندھی دعائوں سے مقصد حاصل کرنے کی فکر کی جاتی ہے۔ وہ حق جس پر پوری زندگی کی درستی اور نادرستی اور آخرت کے ابدی راحت و الم کا دارومدار ہے، اس کی تلاش میں، چراغ گل کرکے، آنکھیں موند کر، کان بند کرکے، ذہن کے دروازوں پر قفل لگاکر آدمی نکلے اور مجرد دعا کی لاٹھی سے راستہ ٹٹولنا چاہے، حددرجہ مضحکہ انگیز حرکت ہے۔عقل و فکر اور چشم و گوش کا اولین فطری مصرف یہی ہے کہ ان کی مدد سے حق کو اور دین کی سیدھی راہ کو پہچانا جائے، اور اگر یہ اعلیٰ درجے کے قویٰ اسی پاکیزہ مصرف پر صرف نہ ہوئے تو پھر کیا ان کو نظامِ کفر کی پہچان اور اس کی اطاعت کے لیے صرف ہونا ہے؟ سوچتی ہوئی عقل اور کھلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ طلب ِ ہدایت کی دعا کیجیے تو وہ ان شاء اللہ نشانہ پر بیٹھے گی۔ (’رسائل و مسائل‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، ج ۲۹، عدد ۶،ذی الحجہ ۱۳۶۵ھ، نومبر ۱۹۴۶ئ، ص۶۳)