ہزاروں سال گزر گئے، شیطان رجیم نے جس پھندے کا شکار اوّلیں انسان کو کیا تھا، آج تک اسی جال میں اس کی اولاد کو پھانس رہا ہے۔ اقتدار کا لالچ، ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش، حسد، نفرت، خوں ریزی، دلوں میں شکوک و شبہات، وسوسے، بے لباسی اور بے حیائی پہلے دن سے شیطانی ہتھیار ہیں۔کہنے لگا: يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۱۲۰ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۰) ’’اے آدم میں آپ کو وہ درخت بتاؤں جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا (الاعراف۷:۲۰) ’’شیطان نے وسوسہ انگیزی کرتے ہوئے انھیں بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے‘‘۔ خود ربِّ کائنات کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہوئے مزید کہا: مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ۲۰ (الاعراف۷:۲۰) ’’تمھارے ربّ نے تمھیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے‘‘۔ کائنات کا سب سے پہلا اور فرشتوں سے بھی زیادہ علم و مرتبہ رکھنے والا انسان بالآخر اس کے جال میں آگیا۔ چوں کہ رب کا برگزیدہ انسان تھا، اس لیے فوراً ہی غلطی کے اقرار اور استغفار میں لگ گیا۔ خالق نے سایۂ عفو و رحمت میں جگہ دے دی، لیکن اب جنت کے بجاے زمین پر بسیرا تھا۔
مکار دشمن نے اب ان کی اولاد پر ڈورے ڈالنا شروع کردیے۔ دو بیٹے تھے، دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ایک کے دل میں کھوٹ تھا، اس کی قربانی مسترد کردی گئی: اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۰ۭ (المائدہ۵: ۲۷) ’’جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی ، اور دوسرے کی نہ کی گئی‘‘۔ بجاے اس کے کہ خود کو سدھارتا، اپنے ہی بھائی سے حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ اس نے بہتیرا سمجھایا لیکن کچھ اثر نہ ہوا: فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِيْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۳۰ (المائدہ۵: ۳۰) ’’آخرکار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کردیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘___ یہ کائنات کا پہلا قتل تھا۔
پور ی انسانی تاریخ میں جب اور جو افراد و اقوام بھی ان شیطانی پھندوں میں پھنستے گئے، یا پھنسیں گے، تباہ ہوتے گئے اور تباہ ہوں گے۔ جو فرد یا قوم ان سے بچ گئے، عروج و خوش حالی اور کامیابی نے اس کے قدم چومے، کہ یہی اللہ کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ ابدی ہے۔
تقریباً چھے صدیوں پر محیط عثمانی خلافت میں جہد مسلسل، عدل و مساوات اور اخلاص و مؤاخات کے اصول غالب رہے تو سلطنت وسیع، مضبوط اور خوش حال تر ہوتی چلی گئی۔ لہوولعب، اقتدار کی خاطر اندرونی سازشوں اور اپنوں کو نیچا دکھانے کے لیے دشمنوں سے سازباز ہونے لگی تو تباہی اور ہلاکت مقدر بن گئی۔ آج سے۱۰۰ سال قبل جب ایک طرف عثمانی خلافت زوال کے دھانے پر تھی، تو دوسری طرف اُمت مسلمہ کے دل میں ’اسرائیل‘ کے نام سے ایک زہریلا خنجر اتارا جارہا تھا۔ ابلیس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی طاقتیں مصر و حجاز سمیت کئی علاقوں میں ترکوں سے نفرت و حسد اور عرب قومیت کا تعصب اُبھارنے میں لگی ہوئی تھیں۔
عثمانی خلافت کے خلاف اس پوری تحریک میں بہت سی عرب شخصیات اور کئی برطانوی شہ دماغ پیش پیش تھے۔ مشرق وسطیٰ میں سرگرم ان برطانوی شخصیات میں عسکری جلاد لارڈ ہربرٹ کچنر، معروف سفارت کار آرتھر ہنری مک ماہن اور خطرناک جاسوس لیفٹیننٹ تھامس ایڈورڈ لارنس (المعروف لارنس آف عربیا) کے نام سرفہرست آتے ہیں۔ کچنر پہلے مصر اور پھر برصغیرپاک و ہند میں کمانڈر انچیف رہا۔ مصر تعیناتی کے دوران برطانوی تسلط سے نجات کے لیے مہدی سوڈانی کی قیادت میں اٹھنے والی تحریکِ آزادی کو ’دہشت گردی‘ کا نام دے کر اسی سفاک انسان نے ہزاروں مسلمان شہید کیے تھے۔ برصغیر میں قیام کے دوران بھی برطانوی سامراجی افواج کے سپہ سالار کی حیثیت سے مظالم کی داستان رقم کی۔ اسی نے مصر اور حجازکے مقامی حکمرانوں کے دل میں عثمانی خلافت کے خلاف بیج بوئے۔ بالخصوص شریف مکہ حسین بن علی اور اس کے چار بیٹوں کو لالچ دیا کہ خلافت عثمانیہ کے مقابل برطانیا کا ساتھ دو تو ہم اس پورے علاقے کا اقتدار آپ کے نام کردیں گے۔
سر ہنری مک ماہن نے اس خفیہ گٹھ جوڑ کو عمل میں بدلنے کے لیے مسلسل تجدید ِعہد کا اہتمام کیا۔ ہر مرحلے پر نئے اہداف دیے۔ لالچ کی آنچ میں مسلسل اضافہ کیا، اور خلافت عثمانی کے خلاف نفرت کی آگ کو ہوا دی۔ شریف حسین اور ماہن کی یہ تاریخی مراسلت عبرت کا بہت سامان رکھتی ہے۔ اس لیے دونوں کا ایک ایک خط نمونے کے طور پر پیش ہے۔ ۱۴ جولائی ۱۹۱۵ کو لکھے گئے ایک خط میں شریف مکہ، مک ماہن کو اپنی وفاداری کا یقین دلواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’… میں آپ اور آپ کی حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ ہماری راے عامہ کے بارے میں کوئی فکر مندی نہ کریں۔ ہمارے عوام مشترکہ اہداف کی آب یاری کے لیے آپ کی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔ پھر درخواست کرتے ہیں کہ: ’’میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مصری ذمہ داران کو اس بات کی اجازت دے دیجیے کہ سرزمین مقدس مکہ و مدینہ کے لیے اپنے تحائف بصورت گندم، جو گذشتہ سال سے روک دیے گئے تھے، دوبارہ بھیجنا شروع کردیں۔ اس سال کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال کے تحائف بھی بھیجنا ہمارے مشترک مقاصد کی تکمیل کے لیے بہت مفید ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ میری یہ بات آپ جیسے ذہین شخص کو قائل کرنے کے لیے کافی ہوگی‘‘۔
پھر یاددہانی کے طور پر پانچ اہم نکات کا اعادہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’چونکہ عربوں کا مفاد اسی بات میں مضمر ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک کے بجاے برطانیا سے ملنے والے تعاون کو ترجیح دیں، اس لیے تمام عرب عوام، حکومت برطانیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ:
خط کے آخر میں لکھا گیا کہ: ’’ہمارے درمیان یہ مراسلت معتمد علیہ خصوصی نمایندے کے ذریعے ہی ہوگی، اس لیے ہمارے نمایندے کو اپنا کارڈ دے دیجیے تاکہ اسے آپ تک پہنچنے میں آسانی رہے‘‘۔
جواب میں شریف مکہ کے نام ہنری مک ماہن کا خط بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ تعریف و ستایش اور چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے لکھتے ہیں:
اعلیٰ نسب، فرزند اشراف، تاج افتخار، یکے از شاخ شجرہء محمدی و أحمدی و قرشی۔ صاحب مقام بلند، سید ابن سید، شریف ابن شریف، جناب کل، امیر قبلہ عالم مکہ مکرمہ، اہل ایمان و اطاعت کے مرکزِ اُمید، عزت مآب جناب حسین الشریف آپ کی برکات تمام انسانوں کو عطا ہوں۔ دلی اعتراف و محبت اور کسی بھی شک سے پاک مخلصانہ اور قلبی آداب کے بعد میں آپ کی جانب سے موصول ہونے والے مخلصانہ جذبات اور انگریزوں کے بارے میں نیک احساسات پر، آپ کا شکریہ ادا کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں۔ ہمارے لیے یہ امر بھی انتہائی باعث مسرت ہے کہ آپ اور آپ کے مردانِ کار یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ عربوں کے مفادات بھی وہی ہیں، جو انگریزوں کے ہیں۔ اس مناسبت سے ہم آپ کی خدمت میںآپ کے نمایندہ علی افندی کے ذریعے پہنچائی جانے والی عزت مآب لارڈ کچنر کی پیش کش کا دوبارہ اعادہ کرتے ہیں۔ اس پیغام میں ہماری اس خواہش کی تائید کا اظہار کیا گیا تھا کہ عرب ممالک کو (ترکوں سے) آزادی ملنا ضروری ہے۔ ہم اس پر بھی آمادہ ہیں کہ آپ کی جانب سے عرب خلافت کا اعلان کیے جانے پر ہم فوراً اس کی تائید کریں گے۔ یہاں ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ عزت مآب شاہ برطانیا عظمیٰ بھی مبارک شجرہء نبویہ کے ایک عرب فرزند کے ہاتھوں خلافت کے حصول کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ رہا معاملہ [آپ کی خلافت کی] حدود کے تعین کا، تو یہ بات ذرا قبل از وقت ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب جنگ ابھی جاری ہے، (آپ کی خلافت کے لیے مجوزہ) علاقوں میں سے اکثر علاقے بدستور ترک قبضے میں ہیں۔ ایسے وقت میں عرب خلافت کی سرحدوں کے تعین پر بحث کرنا وقت کا ضیاع ہوگا۔ ہمیں اس امر پر بھی بہت دکھ اور تشویش ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی عرب ابھی تک اس سنہری موقعے کی اہمیت سے غافل رہ کر اسے نظرانداز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس سے قیمتی موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا، لیکن افسوس کہ یہ لوگ ہماری مدد کرنے کے بجاے جرمنوں کی طرف دست ِتعاون بڑھا رہے ہیں۔ وہ اس نئے چور اور ڈاکو، یعنی جرمنی کی طرف بھی تعاون کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور ظالم ’ڈکٹیٹر‘ یعنی ترکی کی طرف بھی۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم آپ جناب عالی اور مقدس سرزمین عرب اور محترم عرب قوم کو سرزمین مصر سے ملنے والے غلہ جات اور صدقات ارسال کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ہم نے اس کے لیے تمام ضروری انتظامات کردیے ہیں، آپ کی طرف سے اشارہ ملتے ہی آپ کے مقررہ وقت و مقام پر پہنچا دیے جائیں گے۔ آپ کے نمایندگان کے ہم تک پہنچنے کے لیے بھی سب انتظامات کردیے گئے ہیں۔ ہم دل و جان سے ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔
اختتام پر پھر تعریف و توصیف کے مزید مبالغہ آمیز جملے اور آخر میں تاریخ لکھی ہے ۱۹شوال ۱۳۳۳ھ/ ۳۰ ؍اگست ۱۹۱۵ اعلیٰ حضرت بادشاہ برطانیا کا نائب، آپ کا مخلص، سر آرتھر۔
باہم مراسلت کے ان دو خطوط پر کچھ تبصرہ بعد میں کرتے ہیں، پہلے تیسرے اہم کردار کا ذکر۔ یہ صاحب تھے تھامس ایڈورڈ لارنس المعروف لارنس آف عربیا (پ: ۱۸۸۵ء- م: ۱۹مئی ۱۹۳۵ء)۔ اس کے والد کی ایک پرانے خوش حال خاندان سے تعلق رکھنے والی زبردست شخصیت کی مالک اپنی اہلیہ سے علیحدگی ہوگئی تھی۔ علیحدگی کی وجہ موصوف کی اپنی ملازمہ سے قابلِ اعتراض دوستی تھی۔ بیوی سے علیحدگی کے بعد وہ شادی کے بغیر ہی ملازمہ کے ساتھ رہنے لگا۔ اس سے اس کے پانچ بیٹے ہوئے: بوب، تھامس، ویل، فرینک اور آرنولڈ۔ یونی ورسٹی میں تعلیم کے دوران استاد نے فرانس کی عسکری تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے کا کہا تو اپنے مضمون سے عشق کی حد تک دل چسپی رکھنے والا تھامس موٹر سائیکل پر سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے فرانس کے متعلقہ علاقوں تک پہنچا۔ اس دوران راستوں، آثارِ قدیمہ اور علاقوں کی اہمیت سے اس کی دل چسپی مزید بڑھ گئی۔ بعد ازاں عراق اور شام کے علاقوں میں سیاحت و مطالعے اور آثار قدیمہ کی تلاش کے نام پر نکلا اور پورے علاقے کا چپہ چپہ نقشوں اور ذہن میں اُتار لیا۔
جرمنی نے خلافت عثمانیہ سے تعلقات میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے لیے نئے تجارتی راستوں کی تلاش میں برلن سے بغداد تک ریل کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ بنایا تو لارنس کو یہ منصوبہ خطے میں برطانوی مفادات کے لیے بڑا خطرہ دکھائی دیا۔ وہ اس وقت شام کے علاقے میں تھا، فوراً مصر پہنچا۔ لارڈ کچنر تک رسائی حاصل کی اور جرمن منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کئی تجاویز دیں۔ لارنس اس دوران میں عربی زبان پر مکمل قدرت حاصل کرچکا تھا، شامی لہجہ بھی اپنا لیا تھا۔ علاقے میں عثمانی عسکری مراکز کو اپنی ہتھیلی کی لیکروں کی طرح جانتا تھا۔لارنس کو برطانیا کے لیے اہم جاسوس کی حیثیت سے بڑی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اسے شریف مکہ او راس کے چاروں بیٹوں: عبداللہ، فیصل، زید اور علی تک بھی پہنچا دیا گیا۔ لارنس ایک شامی مسلمان کے روپ میں خطے میں بلاروک ٹوک فعال ہو گیا۔ معلومات کی فراہمی کے علاوہ اس کے سپرد اصل کام مختلف قبائل کے سرداروں کو خریدنے، علاقے میں جاسوسی کا جال پھیلانے اور علاقائی حکمرانوں کو مٹھی میں لینا تھا۔
لارنس نے اس زمانے کی اپنی یادداشتSeven Pillars of Wisdom (حکمت کے سات ستون) کے عنوان سے لکھی ہے۔ یہ چشم کشا ڈائری انتہائی دل چسپ اور گاہے مبالغہ آمیز تو ہے، لیکن اس دور کا پورا نقشہ سامنے لے آتی ہے۔ کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوکر مسلسل شائع ہورہی ہے۔ ابلیس اور انگریزوں کے اصل ہتھیار ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی عملی داستان کے علاوہ حکمرانوں کی حماقتوں اور لالچ کی تفصیل بھی بتاتی ہے۔ لارنس علاقے میں برطانیا کے لیے اصل ایجنٹ کی تلاش میں شریف مکہ اور اس کے بیٹوں کی شخصیات کا بھی مکمل تعارف کرواتا ہے۔ خود شریف مکہ اور اس کے بڑے بیٹے عبداللہ سے قدرے مایوس ہوا، لیکن تیسرے بیٹے فیصل بن حسین میں اسے اپنا ’گوہر مطلوب‘ دکھائی دیا۔ کئی اہم مواقع پر اس کے شانہ بشانہ ہونے کے علاوہ لارنس نے پورے علاقے میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کروایا۔ کئی کارروائیوں کی قیادت خود کی۔ بالخصوص حجاز تک ریل کی پٹڑی بچھانے کے ترک خلافت ِ عثمانیہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اس نے اپنی نگرانی میں کئی بار پٹڑی اور درجنوں پل تباہ کرائے۔ ان کارروائیوں کی باریک تفاصیل تک اس کتاب میں درج ہیں۔
کئی اہم مواقع پر شہزادے فیصل بن حسین کا رفیق سفر ہونے کے ناتے اس کی شخصیت کے بارے میں کئی دل چسپ حقائق بھی لکھے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لکھا ہے کہ شہزادے کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا، لیکن اس نے خود اپنی فوج سمیت کسی پر یہ حقیقت آشکار نہیں ہونے دی۔ مالی مشکلات کا راز فاش ہوجاتا تو خدشہ تھا کہ کئی قبائل سمیت خود فوج کے کئی عناصر ساتھ چھوڑ جاتے۔ اپنی مال داری اور شہزادگی کا بھرم رکھنے کے لیے اس نے قافلے کے کئی اونٹوں پر پتھروں سے بھرے صندوق اور بورے لدوا رکھے تھے۔ ان کی خصوصی حفاظت کی جاتی تھی۔ کہیں پڑاؤ ڈالنے پر محفوظ خیموں میں اتار کر سخت پہرا دیا جاتا تھا۔ لشکر کو یہی بتایا گیا تھا کہ اس میں شہزادے کا خصوصی خزانہ ہے، لیکن وہ جنگی حالات کے باعث انتہائی کفایت بلکہ کنجوسی سے کام لیتا ہے۔
ان بھیانک کرداروں کی بداعمالیوں اور کج فکری کا یہ مختصر ذکر آج کے حالات کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات میں بھی بہت مشابہت ہے اور کرداروں میں بھی۔ ۱۰۰ برس پہلے لارڈ کچنر تھا، آج امریکی صدر ٹرمپ کا یہودی داماد جیرڈ کوچنر ہے۔اس وقت بھی وسیع و عریض مسلم علاقوں کی بادشاہت عطا کرنے کا لالچ تھا، آج بھی مختلف ممالک کے سیاہ و سفید کے مالک بنادینے کا وعدہ ہے۔ سوسال قبل عالمی قوتیں برطانیا کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے، خطے کی بندربانٹ کے ذریعے براہِ راست اور بالواسطہ قبضہ اور سرزمین فلسطین کی جگہ ایک ناجائز صہیونی ریاست قائم کرنے کے لیے کوشاں تھی، آج سوسال بعد اس ناجائز ریاست میں توسیع اور اس کا تحفظ یقینی بنانا بنیادی ہدف ہے۔اس مقصد کے لیے خطے کے اکثر ممالک کو خانہ جنگی اور وسیع پیمانے پر فتنہ و انتشار کا شکار کیا جارہا ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل کو مسترد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ خطے میں مسلم ممالک کے مابین مزید جنگوں کے بگل بجائے جارہے ہیں۔ امریکی جنگی بیڑے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کا رخ کررہے ہیں۔ تیل کی تنصیبات اور تیل سپلائی کے عالمی راستوں کو معلوم اور نامعلوم حملوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
شام، عراق، یمن ، لیبیا اور افغانستان کے بعد امریکا خطے کو ایک نئی خلیجی جنگ کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ کئی قرائن اور مغربی ذرائع ابلاغ ابھی اس جنگ کا ہونا یقینی نہیں دیکھ رہے، لیکن جنگی ماحول میں یقینا تیزی لائی جارہی ہے۔ اس ماحول کی آڑ میں اخراجات کی ادایگی کے تقاضوں میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکے گا، اور اسی ماحول کی آڑ میں خطے کے لیے نیا امریکی و صہیونی منصوبہ بھی نافذ کیا جاسکے گا۔
امریکی صدر کے یہودی داماد نے چند روز قبل اعلان کیا ہے کہ: مشرق وسطیٰ کے بارے میں تیار کردہ صدی کے سب سے بڑا منصوبے ’Deal of the Century ‘ کا اعلان جون ۲۰۱۹ء میں (یعنی ماہ رمضان کے بعد) کردیا جائے گا۔ خود مختلف صہیونی اور امریکی اخبارات کے ذریعے اس منصوبے کی کئی تفصیلات اب تک عام کی جاچکی ہیں۔ کئی پہلوؤں پر عمل درآمد شروع بھی کیا جاچکا ہے۔امریکا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جاچکا ہے۔ شام کے مقبوضہ علاقوں (گولان) کو اسرائیلی علاقہ قرار دیا جاچکا ہے۔ وسیع تر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے اقدامات میں تیزی لائی جاچکی ہے۔ مقبوضہ فلسطین، اُردن، سعودی عرب اور اردن کی سرحدوں میں تبدیلی کے عندیے دیے جارہے ہیں۔ فلسطینی قیادت کو ہوش ربا دولت کا لالچ دیتے ہوئے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کے ’احکام سنائے‘ جارہے ہیں۔ اگرچہ ابھی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا، لیکن بامعنی اشارے، بیانات اور اقدامات بہت کچھ واضح کررہے ہیں۔
اس پورے منصوبے پر نگاہ دوڑائیں تو یہ عالم اسلام کا جغرافیہ ہی نہیں تہذیب اور معاشرت بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دینے کا منصوبہ ہے۔ اس کے سیاسی اہداف میں سرفہرست ہدف ناجائز صہیونی ریاست کو پوری مسلم دنیا سے منوانا اور قبلۂ اول سے دست بردار کروا دینا ہے۔ اور اس کے نظریاتی و تہذیبی اہداف میں دین کا وہ مخصوص تصور رائج کروانا ہے، جو عالمی صہیونی نظام اور بے خدا تہذیب سے ہم آہنگ ہو۔
مختلف مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ پر ایسے افراد کو نمایاں کیا جارہا ہے، جو سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کے بارے میں ہی نہیں، خود قرآن کریم کے بارے میں شکوک و شبہات کا زہر کاشت کردیں۔ کئی اہم عرب ریاستوں کے ذرائع ابلاغ پر پیش کیے جانے والی بعض شخصیات اس ضمن میں بہت دریدہ دہن ہیں۔ انھوں نے صحیح بخاری کو خصوصی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نئے سرے سے اور بڑی شدومد سے انکارِ سنت کی ایک نئی تحریک شروع کررکھی ہے۔ قرآن کریم، روزِآخرت اور یوم محشر کے بارے میں مضحکہ خیز اعتراضات کا چرچا کیا جارہا ہے۔ صحیح الفکر اسلامی تحریکوں اور ان کے جلیل القدر رہنماؤں پر ’دہشت گردی‘ کے لیبل چسپاں کیے جارہے ہیں۔ خود پاکستان میں بھی ایک مخصوص معذرت خواہ فکر اور گروہ کو طرح طرح سے میڈیا پر نمایاں کیا جارہا ہے۔
مصری آمر جنرل سیسی نے اپنے حالیہ دورئہ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اس سے پہلے اس کی ایسی ہی ایک کوشش برطانیا میں ناکام ہوچکی ہے۔ خود کئی امریکی دانش ور اور قانونی تجزیہ نگار ایسے کسی اقدام کو احمقانہ قرار دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس حماقت کا باعث مسلم حکمران ہی بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک اہم عرب ملک کے برقی اخبار کے پورے صفحے پر ۴۰ ’دہشت گردوں‘ کی تصاویر شائع کی گئیں۔ اخبار سے ہمدردی رکھنے والے بھی اس وقت سرپیٹ کر رہ گئے، جب انھوں نے ان تصاویر میں سرفہرست فلسطینی قوم کو نئی روح عطا کرنے والے شیخ احمد یاسین شہید اور صاحب ِ تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی سمیت اُمت کے کئی علماے کرام کی تصاویر دیکھیں۔ اخبار نے اگلے ہی روز یہ صفحہ حذف کر دیا، لیکن نامۂ اعمال کی سیاہی مستقل طور پر اپنے نام کرلی اور اپنے آقائوں کی سوچ بھی بے نقاب کردی۔
تقریباً ہرمسلمان ملک میں ایک طرف نمایاں ترین علماے کرام کا استہزا اُڑاتے ہوئے انھیںعوام میں بے وقعت بنانے کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ دوسری جانب ایسی ایسی ہستیوں کو ’علما و فقیہان‘ کے لبادے میں پیش کیا جارہا ہے کہ علم و عمل سے جن کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
ہر سطح کے نصاب تعلیم بالخصوص دینی مدارس کے نصاب سے وہ تمام آیات و احادیث اور ابوابِ سیرت و سنت حذف کروائے جارہے ہیں،جن میں اللہ، اس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے دشمنوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ایسی آیات اور احادیث جن میں کفار و منافقین اور جھوٹے مدعیان نبوت سے خبردار کیا گیا ہے، ان کو نعوذ باللہ نفرت آمیز مواد(Hate Material ) اور نفرت پر مبنی خطاب (Hate Speech )کا درجہ دیتے ہوئے ممنوع قرار دیا جارہا ہے۔ یہ آیات و احادیث نصاب تعلیم سے خارج کروائی جارہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرتے ہوئے یہودیوں کی سازشوں اور ان کے عالمی منصوبوں کو بے نقاب کرنے والے اہل علم اور مفسرین قرآن کو جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ ترکی اور پاکستان سمیت جن ممالک کی جانب سے ریاست یا عوام کی سطح پر اعتراض و احتجاج کا خدشہ ہے، انھیں بدترین اقتصادی بحرانوں کے ذریعے قابو کیا جارہا ہے۔
خطرہ صرف دشمن کے اس بھیانک منصوبے اور اس کے ہمہ گیرمہلک اثرات ہی سے نہیں، خود اسلام کے نام لیوائوں سے بھی ہے۔ عین اس موقعے پر کہ جب پوری دنیا کی عیسائی برادری اپنا اہم مذہبی تہوار منا رہی تھی، چند مسلمان نوجوانوں نے سری لنکا کے چرچوں اور ہوٹلوں پر خودکش حملے کرکے سیکڑوں بے گناہوں کو قتل اور زخمی کر دیا۔ اس مجرمانہ کارروائی سے پہلے نیوزی لینڈ کی دومساجد میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے ۵۰نمازی شہید کردیے گئے تھے۔ اس عظیم سانحے اور نیوزی لینڈ حکومت کے مثبت اور جرأت مندانہ اقدامات کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوئی تھی۔ سری لنکا میں ہونے والی دہشت گردی نے یہ ساری ہمدردی نفرت کی نئی لہر میں بدل دی۔ مسلمان جو کشمیر اوراراکان سے لے کر افغانستان و فلسطین تک، ہرجگہ خوف ناک دہشت گردی کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں، ایک بار پھر قاتلوں اور مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے۔ ان واقعات کو بہانہ بناتے ہوئے اسی ماہِ رمضان المبارک میں سری لنکا کی درجنوں مسلم آبادیوں، دیہات اور مساجد کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔
اب ایک طرف یہ سارے منصوبے ، عالمی قوتیں اور ان کے علاقائی آلۂ کار ہیں، اور دوسری جانب اللہ اور اس کے رسولؐ سے حقیقی محبت رکھنے والی ایک پوری نسل ایسی ہے،جو قبلۂ اول کو اپنے نبیؐ کی امانت سمجھتی ہے۔ جو اس امانت میں کسی صورت اور کسی طرح کی خیانت کو ایمان کے منافی سمجھتی ہے۔ چند ہفتے قبل بھی غزہ میں بسنے والے ان نوجوانوںنے صہیونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ صہیونی افواج کے جدید ترین ہتھیاروں کے مقابلے میں فلسطینی تحریک مزاحمت نے اپنے بنائے ہوئے میزائل چلائے، لیکن ایسے مؤثر کہ جارح افواج کو جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی۔
قرآن کریم بھی اپنے ابدی اور سدابہار اصول بار بار تازہ کر رہا ہے۔ سورۂ فاطر میں ہے: ’’یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کررہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔ (فاطر ۳۵: ۴۳)
حکومت کی ساری رکاوٹوں، زیادتیوں اور طرح طرح کی پابندیوں کے باوجود، پاکستان میں اسلامی دستور کی جدوجہد جاری رہی۔ حکومت کو اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے ’بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ (BPC) کی رپورٹ میں ترمیم کر کے آئین کے جمہوری اور اسلامی کردار کو بحال کرنا پڑا۔ چنانچہ خواجہ ناظم الدین صاحب [م:۱۹؍اگست ۱۹۶۳ء]کی صدارت میں کمیٹی نے نئی رپورٹ، اَزسرِنو مرتب کرکے ۲۲دسمبر ۱۹۵۳ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں پیش کردی۔
۱۹۵۴ء کا دستور اسی رپورٹ کی بنیاد پر بنا۔ لیکن بدقسمتی سے اس کو دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ پہلی مجلس دستور ساز نے دستور مرتب اور پاس کردیا۔ وزیراعظم محمد علی بوگرا [م:۲۳جنوری ۱۹۶۳ء]نے یہ اعلان بھی کردیا کہ: ’’۲۵دسمبر ۱۹۵۴ء کو قائداعظم کی سالگرہ کے موقعے پر ہم ان شاء اللہ قوم کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘۔ لیکن اس سے پیش تر کہ صدر مجلس دستور ساز اسمبلی مولوی تمیز الدین خان [مارچ ۱۸۸۹ء- ۱۹؍اگست ۱۹۶۳ء]دستور پر اپنے دستخط ثبت کرتے، گورنر جنرل ملک غلام محمد [م:۲۹؍اگست ۱۹۵۶ء]نے نہ صرف محمدعلی بوگرا کی حکومت برخاست کردی، بلکہ اس کے ساتھ ہی [۲۴؍اگست ۱۹۵۴ء کو]پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی بھی توڑ دی اور پورے ملک میں سناٹا چھا گیا۔
گورنر جنرل کے اس غیرآئینی اور آمرانہ اقدام کو عدالت میں چیلنج کرنے کی سب سے بڑی محرک جماعت اسلامی ہی بنی۔ یہاں پر ملک غلام محمد کے اس اقدام کے پس پردہ اصل حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ ملک صاحب کے ہاتھوں اکتوبر ۱۹۵۴ء میں پاکستان کی مجلس دستور ساز کو جو ملک کی پارلیمنٹ، یعنی مرکزی قانون ساز اسمبلی بھی تھی، توڑنا اس کش مکش کا نتیجہ تھا، جو پاکستان کی بڑی اکثریت کے نمایندہ اسلامی جمہوری عناصر، اور ہمارے دورِ غلامی، یعنی برطانوی راج کی باقیات کے مابین قیامِ پاکستان کے فوراً بعد چند ماہ کے اندر ہی شروع ہوگئی تھی۔
مارچ ۱۹۴۹ء میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور ہونے کے بعد، دستور کے بنیادی اصول مرتب کرنے کے لیے مجلس دستور ساز نے ایک کمیٹی مقرر کی، جس نے ۱۹۵۰ء میں ایسی رپورٹ پیش کی، جو ’قرارداد مقاصد‘ کے بالکل برعکس، سیکولر دستوری خاکے پر مبنی تھی۔ یہ رپورٹ جمہوری اور وفاقی نقطۂ نظر کے بھی منافی تھی۔ مولانا مودودی نے اس رپورٹ پر نہایت مفصل، مدلل اور بھرپور تنقید کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا، اور اس کے خلاف پورے ملک سے نامنظوری کی قراردادوں، ٹیلی گراموں اور محضرناموں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ چنانچہ حکومت کو اسے واپس لے کر خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں نئی کمیٹی قائم کرنی پڑی۔ لیکن اس کمیٹی نے بھی ٹال مٹول کا سلسلہ شروع کر دیا۔
۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو راولپنڈی میں وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک غلام محمدپاکستان کے گورنر جنرل اور خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بن چکے تھے۔ خواجہ صاحب اور مشرقی پاکستان کے متعدد مسلمان ارکانِ دستور ساز اسمبلی، نسبتاً مذہبی ذہن کے لوگ تھے۔ وہ اسلامی دستور کے مطالبے کی بنیاد، ’قرارداد مقاصد‘ کے لیے جدوجہد کے موقعے پر بھی اسلام کے بارے میں پُرجوش رویہ دکھا چکے تھے۔ اس لیے مرکز کے سیکولر عناصر کو اندیشہ ہوا کہ خواجہ صاحب کی صدارت میں دستوری کمیٹی اس مطالبے کے آگے سپر ڈال دے گی۔ اس کی پیش بندی کے لیے جماعت اسلامی کی طرف سے اُٹھائی گئی ’اسلامی دستور مہم‘ اور ’آٹھ نکاتی مطالبے‘ کے مقابلے میں، کچھ علما صاحبان کو آگے لایاگیا۔ یہ محترم حضرات بلاشبہہ انگریزی دور میں بھی قادیانیوں کے خلاف آواز اُٹھاتے رہے تھے، مگر اب بعض حکومتی حلقوں نے اچانک اس پاکیزہ جذبے کی بنیاد پر قادیانیوں کے خلاف ہنگامے شروع کروا کر عوام کا رُخ دستوری مطالبے سے موڑنے کی کوشش شروع کر دی۔
خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں دستوری خاکہ تجویز کرنے پر مامور کمیٹی کی رپورٹ ۲۲دسمبر ۱۹۵۲ء کو سامنے آئی۔ اس رپورٹ پر ملک کے سیکولر عناصر، جن کا حکومت پر پورا کنٹرول تھا، مزید برہم ہوگئے۔ انھوں نے قادیانی مسئلے پر شروع ہنگاموں کو، خصوصاً پنجاب کے شہروں اور سب سے زیادہ لاہور شہر میں فسادات اور قتل و غارت تک پہنچا کر لاہور کارپوریشن کی حدود میں مارشل لا لگوا دیا۔
لاہور سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے نمایاں رہنمائوں سمیت پنجاب اور دوسرے صوبوں کے مختلف مقامات سے ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ مولانا مودودی کو مذکورہ فسادات میں بحالیِ امن کی تجاویز پر مشتمل ایک بیان جاری کرنے پر سات سال قیدبامشقت کی سزا سنا دی گئی، جب کہ قادیانی مسئلہ لکھنے پر مارشل لا کی فوجی عدالت نے ۱۳مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودی کے لیے سزاے موت کا اعلان کیا۔یہ حکم سنا کر سمجھ لیا گیا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی دستور کا مطالبہ دونوں ختم ہوجائیں گے، مگر اندرون ملک اور دنیا بھر میں مولانا کی سزاے موت کے خلاف عالم گیر احتجاج کے نتیجے میں حکومت کو اعلان کرنا پڑا کہ: ’’مولانا مودودی کی سزاے موت چودہ سال قید میں تبدیل کردی گئی ہے‘‘۔
اب لادین عناصر کے غصے کا ہدف خواجہ ناظم الدین بن گئے۔ چنانچہ باوجود اس امر کے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے انھوں نے پارلیمنٹ سے ملک کا بجٹ پاس کروا لیا تھا، گویا کہ پارلیمنٹ نے ان پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا، گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ صاحب اور ان کی کابینہ کو برطرف [۱۷؍اپریل ۱۹۵۳ء] کردیا اور مسٹر محمدعلی بوگرا کو، جو امریکا میں پاکستان کے سفیر اور ایک الٹراسیکولر (ultra secular) شخص سمجھے جاتے تھے، انھیں وزارتِ عظمیٰ پر فائز کرنے کے لیے بلالیا۔
مولانا مودودی کی عمرقید کو برداشت کرنے کے باوجود، جماعت کے کارکن ملک میں اسلامی دستور کی پُرامن تحریک چلاتے رہے، یہاں تک کہ ملک غلام محمد جو من مانا دستور بنا کر ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے، ان کی ساری کوششوں کے علی الرغم ۱۹۵۴ء کے موسم گرما میں، دستور سازی کے لیے منعقدہ مجلس دستور ساز کے اجلاس میں، محمد علی بوگرا کو مجبور ہونا پڑا کہ خواجہ ناظم الدین کی تیار کردہ نظرثانی شدہ رپورٹ، جسے سردخانے میں ڈال دیا گیا تھا کو بنیاد بنا کر ہی دستور بنائیں۔ آخرکار یہ دستور بنا اور مجلس دستور ساز نے اسے پاس بھی کردیا۔
وزیراعظم بوگرا نے جیسے ہی قوم کو خوش خبری سنائی کہ: ’’۲۵ دسمبر ۱۹۵۴ء کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘، تو گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر ۱۹۵۴ء میں وہ اسمبلی ہی توڑ دی، جس نے دستور پاس کیا تھا۔ صوبائی حکومتیں بھی ختم کردیں اور مرکز میں اپنی مرضی کی نئی وزارت بنالی۔ اس طرح ملک غلام محمد نے ملک کے سارے نظامِ حکومت کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔
گورنر جنرل کے اس اقدام کے نتائج تو ساری قوم کے سامنے تھے۔ لیکن اس کی سب سے زیادہ چوٹ ان معنوں میں جماعت اسلامی پر پڑی کہ ایک اسلامی جمہوری دستور کے لیے جماعت کی سات سالہ دستوری جدوجہد کا حاصل خاک میں ملا دیا گیا تھا۔ پورے ملک میں اس جابرانہ اقدام کے نتیجے میں سناٹا چھا گیا تھا۔ کسی طرف سے اس اقدام پر کوئی اختلافی آواز نہ سنائی دی۔
مولانا مودودی جیل میں تھے۔ محترم مولانا امین احسن اصلاحی [م:۱۵دسمبر ۱۹۹۷ء] رہا ہوکر جیل سے باہر آچکے تھے۔ اس لیے شیخ سلطان احمد صاحب کی جگہ اب محترم امین احسن اصلاحی امیرجماعت تھے، اور مجھے قیم جماعت مقرر کیا جاچکا تھا۔
میں نے مولانا اصلاحی صاحب سے عرض کیا: ’’ہمیں گورنر جنرل کے اس فیصلے کا نوٹس ضرور لینا چاہیے، اور پھر اس کا نتیجہ جو بھی نکلے، اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔
اصلاحی صاحب نے فرمایا: ’’تو پھر آپ بطورِ قیم ہی اس کے متعلق بیان دے دیں‘‘۔
چنانچہ میں نے ہرقسم کے سود وزیاں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے فوری طور پر یہ بیان جاری کر دیا: ’’دستور ساز اسمبلی کو توڑنے پر مبنی گورنر جنرل کا یہ اقدام اپنے اختیارات سے تجاوز ہی نہیں، بلکہ غلط بھی ہے، اس لیے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہیے‘‘۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے کسی اخبار نے میرے بیان کو شائع کرنے کی ہمت نہیں کی، جس سے ملک پر خوف و ہراس کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دوسروں کا ذکر چھوڑیں، روزنامہ نوائے وقت ، لاہور جیسے قومی اخبار نے تو گورنر جنرل غلام محمد کے اس سراسر غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدام کے حق میں اداریہ تک لکھ ڈالا تھا۔
خیر، مسعود کھدر پوش صاحب [م:۲۵دسمبر ۱۹۸۵ء]، جو گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر پنجاب یونی ورسٹی لا کالج میں میرے کلاس فیلو اور عزیز دوست بھی تھے، انھوں نے مجھے بتایا: ’’میں ان دنوں جاپان میں تھا، ٹوکیو ریڈیو سے میں نے آپ کا وہ بیان سنا، جس میں اسمبلی توڑنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ ریڈیو کے مبصر نے یہ بھی کہا تھا کہ گورنر جنرل کے حالیہ اقدام پر صرف جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کا ردعمل سامنے آیا ہے، جس نے یہ اور یہ کہا ہے‘‘۔
پہلی دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے اس پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو پاکستان میں دین اور لادینیت، دستور اور آمریت، جمہوری اور سول و فوجی بیوروکریٹک قوتوں کی کش مکش کا منظرنامہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
جناب تمیزالدین خان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ انھوں نے کلکتہ یونی ورسٹی سے پہلے ایم اے انگریزی کیا اور پھر قانون میں ڈگری لی تھی۔ تحریکِ خلافت میں بھی حصہ لیا۔ ان کی بالغ نظری کے باعث ہی قائداعظم محمدعلی جناح نے انھیں پہلی دستور ساز اسمبلی کا اسپیکر نامزد کیا تھا۔
ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ مسلم لیگ کے کسی آدمی سے یہ توقع رکھنا ہی غلط ہے کہ وہ حکومت ِوقت کے کسی حکم سے سرتابی کرے گا۔ دوسرے یہ کہ مولوی تمیزالدین صاحب میں اتنی مالی استطاعت نہیں کہ وہ اپنے طور پر اس مقدمے کو عدالت میں لے جائیں۔ مزیدبرآں جن حالات سے سابقہ درپیش ہے، ان میں یہ مقدمہ لڑنے کے لیے وہ تب ہی آمادہ ہوسکیں گے، جب انھیں سیاسی حمایت بھی حاصل ہو۔ چنانچہ میں نے امیرجماعت محترم مولانا اصلاحی صاحب کی اجازت سے کراچی جاکر مولوی تمیزالدین صاحب سے رابطہ کرنے کا پروگرام بنایا۔
مجھے اندازہ تھا کہ اس مقصد کے لیے وہاں پیسوں کی ضرورت پڑے گی۔ اس سلسلے میں اچھرہ میں جماعت اسلامی کے ایک مخلص پشتی بان اور اپنے عزیز ٹھیکے د ار میاں عبدالرشید صاحب کے ہاں گیا۔ ان کے سامنے ساری صورت حال رکھی اور دستِ تعاون بڑھانے کی درخواست کی۔ چنانچہ انھوں نے بلاتامل اس مقصد کے لیے پانچ ہزار روپے کی خطیر رقم مجھے عطا کردی۔{ FR 644 }
۱۱ نومبر ۱۹۵۴ء کو کراچی پہنچ کر میں نے امیر جماعت اسلامی کراچی چودھری غلام محمد صاحب [م:۲۹جنوری ۱۹۷۰ء] کو ساتھ لیا اور مغرب کے بعد کلفٹن پہنچے، جہاں مولوی تمیزالدین خان، ابھی تک اسپیکر کی سرکاری رہایش گاہ میں قیام پذیر تھے، جہاں سناٹا طاری تھا۔ گیٹ پر دو تین سپاہیوں کی گارد موجود تھی۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولوی صاحب سہمے ہوئے باہر نکلے، دعا سلام کے بعد وہ ہمیں اندر لے گئے۔ مکان میں ان کا صرف ایک ملازم تھا۔ اس وقت تو وہ اپنے ملازم سے بھی خوف زدہ تھے کہ: ’’یہ مجھ پر جاسوسی کے لیے مقرر ہے‘‘۔ خود مَیں بھی پہلی بار تمیزالدین خان صاحب سے مل رہا تھا۔
ہم نے تمیز الدین صاحب کے سامنے اپنی آمد کی غرض بیان کی، پیداشدہ صورت حال پر روشنی ڈالی، اور پھر یہ بھی عرض کیا: ’’جناب، اب آپ ہی دستورساز اسمبلی کے اسپیکر ہونے کے ناتے ملک کے سب سے بڑے، ذمہ دار اور محترم انسان ہیں۔ اگر آپ بھی اس صورت حال پر خاموش رہیں گے تو اس ملک پر ہمیشہ کے لیے آمریت مسلط ہوجائے گی۔ اس لیے ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں‘‘۔
پہلے تو انھوں نے کہا: ’’حکمرانوں نے عملی طور پر مجھے یہاں پر نظربند کر رکھا ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ باہر مسلح گارد کھڑی ہے۔ اس صورت حال میں بھلا میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
آخر خاصے پس و پیش کے بعد وہ اس پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن کہنے لگے: ’’اس کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں گے؟ میرے پاس تو اتنے وسائل نہیں ہیں۔ اور خود اپنی پارٹی مسلم لیگ سے بھی مجھے تعاون کی کوئی توقع نہیں‘‘۔
میں نے کہا: ’’آپ مسلم لیگ کے نہایت قابلِ احترام رہنما ہیں۔ مسلم لیگ ہی اس وقت حکمران پارٹی ہے، جس میں ملک کا دولت مند ترین طبقہ شامل ہے۔ لیگ نے یہ جاگیردار، اور وڈیرے آخر کس لیے پال پوس رکھے ہیں؟‘‘
جواب میں انھوں نے فرمایا: ’’بھائی، سچی بات پوچھتے ہیں تو یہ لوگ صرف اقتدار کے بندے ہیں‘‘۔
اس پر مَیں نے پانچ ہزار روپے کی وہ رقم جو میاں عبدالرشید صاحب سے لے کر گیا تھا، اپنی اچکن کی جیب سے نکال کر ان کے حوالے کی اور کہا: ’’آپ اللہ کا نام لے کر قدم بڑھائیں، اللہ کی نصرت اور قوم کی تائید آپ کے ساتھ ہے‘‘۔
وہاں سے اُٹھے تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ہم دونوں سیدھے پاکستان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منظرعالم صاحب [م:۱۵؍اپریل ۱۹۷۰ء]کے ہاں ناظم آباد پہنچے۔ ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ: ’’مسلم لیگ، اسپیکر صاحب کا ساتھ دے‘‘۔ منظرصاحب نے معروضات سن کر ہمارے موقف سے اتفاق کیا۔
پھر ہم مولانا ظفراحمد انصاری [م:۲۰دسمبر۱۹۹۱ء]، ڈاکٹر الٰہی علوی، قاضی شریح الدین سے ملنے چلے گئے۔ قاضی شریح الدین صاحب ان دنوں کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ ظفراحمد انصاری صاحب کو تو لوگ پہلے ہی ’جماعت اسلامی‘ کا آدمی کہتے تھے، اور وہ ہمارے ہم خیال تھے بھی۔ ان ملاقاتوں میں رات کا ایک بج گیا۔ اگلی صبح ہم دونوں سردار عبدالرب خان نشتر [م:۱۴فروری ۱۹۵۸ء]سے ملے، جو وزارت کی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد حیدرآباد روڈ پر چھوٹے سے بنگلے میں رہتے اور کراچی ہی میں وکالت کرتے تھے۔ اور پھر اسی روز بعد نمازِ مغرب، سردار عبدالرب خان نشتر کے دفتر واقع بندر روڈ بالمقابل سعید منزل میں اکٹھے ہوئے۔
اس میٹنگ میں سردار عبدالرب نشتر، مولوی تمیزالدین خان، مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل منظرعالم، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر الٰہی علوی، چودھری غلام محمد، مَیں اور شاید ایک دو مزید افراد بھی شامل تھے۔ بڑی مفصل گفتگو کے بعد ہمارے درمیان طے پایا کہ: ’’مولوی تمیزالدین کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف رٹ دائر کی جائے‘‘۔ چنانچہ سندھ ہائی کورٹ میں یہ رٹ دائر کردی گئی۔
سندھ ہائی کورٹ نے [۹ فروری ۱۹۵۵ء کو]فیصلہ سناتے ہوئے، اسمبلی توڑنے کے حوالے سے گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دے دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے فل بنچ میں چیف جسٹس کانسٹن ٹائن، جسٹس حسن علی آغا، جسٹس ویلانی اور جسٹس محمد بخش میمن شامل تھے۔
مرکزی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل [سپریم] کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ فیڈرل کورٹ کے لیے تمیزالدین صاحب نے وکیلوں کی فیس میں مدد کے لیے اپنے گہرے رنج اور دُکھ کا اظہار ان لفظوں میں کیا: ’’قومی اہمیت کے اس معاملے میں بھی، مسٹرابراہیم اسماعیل چندریگر [م:۲۶ستمبر ۱۹۶۰ء]فیس لیے بغیر کام کرنے کو تیار نہیں ہیں‘‘۔
چنانچہ دوبارہ میری درخواست پر جماعت اسلامی کے انھی ہمدرد میاں عبدالرشید صاحب نے دوسری بار پھر پانچ ہزار روپے عنایت کیے۔ ایک جانب جماعت اسلامی کے ایک عام ہمدرد کے ایثار کا یہ عالم تھا، تو دوسری جانب جو صفِ اوّل کے مسلم لیگی رہنما اور قائداعظم مرحوم و مغفور کے دست راست کہلانے والے مسٹر ابراہیم اسماعیل چندریگر صاحب تھے۔ ان کا یہ حال تھا کہ وہ فیس لیے بغیر مولوی تمیزالدین کے مقدمے کی پیروی کے لیے آمادہ نہ ہوئے، جو درحقیقت پاکستان کے عوام اور جمہوریت کے مستقبل کا مقدمہ تھا۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کی حب الوطنی اور جمہوریت پسندی ’مشکوک‘ اور یہ لوگ پاکستان کے مختار اور اس وطنِ عزیز کی ہرشے کے بلاشرکتِ غیرے مالک!
فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے کثرت راے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم اور گورنر جنرل مسٹر غلام محمد کے اقدام کو درست قرار دے دیا۔ فیڈرل کورٹ کے اس فل بنچ میں، چیف جسٹس محمد منیر[م:۲۶جون ۱۹۸۱ء]، جسٹس ایس اے رحمان [م:۲۵ جولائی ۱۹۹۰ء]، جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس[م:۲۱دسمبر ۱۹۹۱ء]، جسٹس محمد شریف [م: ۱۹؍اکتوبر ۱۹۷۲ء] اور جسٹس ابوصالح محمد اکرم [م: ۵؍اکتوبر ۱۹۶۸ء]شامل تھے۔ تاہم، فیڈرل کورٹ نے دستور سازی کے لیے اسمبلی ازسرِنو تشکیل دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا: ’’دستور بنانے کا ذریعہ مجلس دستور ساز ہی ہے‘‘۔ یاد رہے گورنر جنرل ملک غلام محمد چاہتے تھے کہ تشکیلِ دستور کے لیے اپنے نامزد لوگوں پر مشتمل مجلس دستور ساز بھی بنا دیں، جسے عدالتِ عظمیٰ نے منظور نہیں کیا۔(ماخذ: مشاہدات)
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس دارِفانی میں انسان کی زندگی بہت مختصر اور اس کے مال واسباب سے لطف اندوزی محض ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہے۔ اسے ایک نہ ایک دن موت سے دوچار ہونا، یعنی اس دنیا سے رخصت ہوناہے ۔ اللہ رب العزت نے اولین انسان حضرت آدمؑ و حضرت حوا ؑ کو زمین پر اتارتے ہی یہ اٹل حقیقت ان کے سامنے واضح کردی تھی اور گویا ان کے واسطے سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے با خبر کر دیا تھا ۔ارشادِ الٰہی ہے :
وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُّسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۳۶ ( البقرۃ۲:۳۶) اور تمھارے لیے زمین میں ٹھکانا اور ( یہاں کے) متاع سے نفع اٹھانا ہے ایک خاص مدت تک کے لیے۔
صاحبِ معارف القرآن نے اس آیت کی تشریح میں یہ رقم فرمایا ہے: ’’ یعنی آدم و حوّا علیہما السلام کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ تم کو زمین پر کچھ عرصہ ٹھیرنا ہے اور ایک میعاد معین تک کام چلانا ہے،یعنی زمین پر جاکر دوام نہ ملے گا ، کچھ مدت کے بعد یہ گھر چھوڑنا ہوگا‘‘۔۱
اس مسلّمہ حقیقت پر روزمرہ کی واقعاتی شہادتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ موت کا آنا اس قدر یقینی ہے کہ قرآن نے اسے ’ الیقین‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ربّانی ہے: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ۹۹ۧ (الحجر۱۵:۹۹) ’’اور امر یقینی( یعنی موت ) کے آنے تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو‘‘۔
یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ انسان کو روزانہ نیند کی صورت میں موت یاد دلائی جاتی ہے۔ رات میں سونے کو اس پہلو سے موت سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس حالت میں اللہ رب العزت کے حکم سے انسان کے ہوش و حواس،فہم و ادراک عارضی طور پر معطل کر دیے جاتے ہیں اور ظاہری طور پر اس پر موت طاری کردی جاتی ہے ۔ غالباً اسی وجہ سے بعض علما نے نیند کے لیے ’ وفاتِ صغریٰ‘ اور موت کے لیے ’ وفاتِ کبریٰ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ اس باب میں سب سے اہم رہنمائی قرآن کریم سے ملتی ہے جس میں نیند اور موت کے تعلق کو اور روز انہ موت کی یادہانی کو اس طور پر بیان کیا گیا ہے :
اَللہُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِہَا۰ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْہَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۴۲(الزمر۳۹: ۴۲) اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ہے ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں، تو جن کی موت کا فیصلہ کر چکا ہو تا ہے ا ن کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت ِ مقرر تک کے لیے رہائی دے دیتا ہے۔ بے شک اس کے اندر بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیےجو غور کرتے ہیں۔
صاحبِ تفہیم القرآن اس آیت کے قیمتی نکات کی توضیح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت او رزیست کس طرح اس کےدستِ قدرت میں ہے۔ کوئی شخص یہ ضمانت نہیں رکھتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح کو لازماً زندہ ہی اٹھے گا۔کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ اس پر کیا آفت آسکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا ہوتا ہے یاموت کا۔ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں،گھر بیٹھے یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کے اندر کوئی اندرونی خرابی یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کرسکتی ہے جو اس کے لیے پیامِ موت ثابت ہو۔ ( تفہیم القرآن،ج۴، ص۳۷۵ )
مزید برآں مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی جو مختصر تشریح فرمائی ہے وہ بھی قابلِ ذکر ہے:
اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ جان داروں کی اَرواح ہر حال، ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیرِتصرف ہیں۔وہ جب چاہے ان کو قبض کرسکتا ہے اور واپس لے سکتا ہے اور اس تصرفِ خداوندی کا ایک مظاہرہ تو ہر جان دار روزانہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ نیند کے وقت اس کی روح ایک حیثیت سے قبض ہو جاتی ہے،پھر بیداری کے بعد واپس مل جاتی ہے، اور آخر کار ایک وقت ایسا بھی آئے گاکہ بالکل قبض ہوجائے گی،پھر واپس نہ ملے گی۔ (معارف القرآن،ج ۷،ص۵۶۲)
حقیقت یہ کہ موت کسی کی بھی ہو وہ باعث عبرت و سبق آموز ہوتی ہے ۔ اسے یاد کرکے سب سے پہلا سبق جو ملتا ہے اور سب سے پہلی یاد دہانی جو ہوتی ہے وہ یہ ہے :
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
یہ آیات ملاحظہ ہو ں ۔ ارشاد ِالٰہی ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ ۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ ۰ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳ :۱۸۵) ہرشخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور یقین [کرلو کہ] تم سب یومِ قیامت پورا پورا اجر پائو گے، پس جوشخص جہنم کی آگ سے بچالیا گیا اورجنت میں داخل کیا گیا وہ در اصل کامیاب ہوا ۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً۰ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۳۵ (الانبیاء ۲۱:۳۵) ہر شخص کو موت سے دوچار ہونا ہے اور ہم تم کو برے و اچھے حالات سے آزماتے ہیں،آخر کار ہمارے ہی پاس تم سب کو لوٹ کر آنا ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۣ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۵۷ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۰ۭ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ۵۸ۤۖ (العنکبوت ۲۹:۵۷-۵۸) ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف لوٹائے جائو گے، اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارت میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوںگی، اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔کیا ہی عمدہ اجر ہے [نیک] عمل کرنے والوں کے لیے ۔
اسی ضمن میں یہ آیت بھی پیشِ نظر رہے:
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِيْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۸ۧ (الجمعۃ۶۲:۸) ان سے کہہ دو! جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تمھارے پاس آکر رہے گی،پھر تم اس (اللہ) کی طرف پلٹائے جائو گے جو پوشیدہ و ظاہر سب کچھ جاننے والا ہے، پس وہ تمھیں بتائے گا [اس چیز کے بارے میں] جو کچھ [دنیا میں] کرتے رہے ہو۔
یہ اور اس نوع کی دوسری آیات ( بالخصوص آخری پارہ کی سورتوں میں مذکور آیات) پر غور وفکر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان کو بار بار صرف موت نہیں یاد دلائی گئی ہے، بلکہ یہ نکات بھی ذہن نشیں کرائے گئے ہیں کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ ہر لمحہ امتحان سے گزر رہا ہے، اسے ہرحال میں موت سے دوچار ہونا ہے، اور پھر اسے دوبارہ زندہ کر کے اللہ رب العزت کے سامنے حاضر کیا جائے گا اور اسی کے مطابق اس کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ ہوگا۔ پہلی صورت میں اسے سکون و آرام بھرا گھر( جنت) نصیب ہوگا اور دوسری صورت میں اس کا ٹھکانا ( جہنّم) نہایت تکلیف دہ اور بُرا ہوگا۔ اسی ضمن میں یہ ذکر بھی اہمیت سے خالی نہ ہوگا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے مضامین کے اعتبار سے قرآن کے اساسی علوم کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے ایک کو ’علم تذکیر بالموت و ما بعد الموت‘ کے نام سے موسوم کیاہے ۔ شاہ ولی اللہ کی یہ وضاحت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد در اصل یہی علومِ پنجگانہ ہے۔ اب یہ واعظین و مذکّرین کا فریضہ ہے کہ وہ ان کی تفصیلات کو محفوظ رکھیں اور متعلقہ احادیث و آثار کے حوالے سے ان سے لوگوں کے لیے استفادہ کو آسان بنائیں۔۲
موت ا ور متعلقہ امور کے بارے میں وارد قرآ نی آیات کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مو ت اور بعد کے احوال ( اللہ رب العزت کے سامنے حاضر ی ،حساب و کتاب سے گزرنا اور عقیدہ واعمال کے مطابق جزا یا سزا کے قانونِ الٰہی کا جاری ہونا) کی یاد تازہ کرنے سے اصلاً مقصود یہ ہے کہ یقینی طور پر پیش آنے والے ان واقعات کو یاد کر تے ہوئے لوگوں کے قلوب خشیت و انابت الی اللہ کی کیفیت سے معمور ہوجائیں، انھیں اصلاحِ احوال کی فکر دامن گیر ہوجائے، وہ اللہ ربّ العزّت کی عبادت ا و ر نیک اعمال میں اپنے کو سرگرم رکھیں ، گناہوں کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے قدم رک جائیں اور وہ نیکیوں کی طرف تیز قدم بڑھانے والے بن جا ئیں ، یعنی خوش گوار، پُر سکون اور نعمتوں سے معمور مستقر و مسکن کی طلب میں وہ سرگرداں رہیں ۔
یہاں اس جانب توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موت اور بعد کے مراحل کو بار بار (اور بعض مقامات پر نہایت تفصیل سے) ذکر کرکے قرآن در اصل انسانوں کے ذہن میں یہ قیمتی نکتہ ( جس کی طرف عام طور پر انسان کا ذہن بہت کم جاتا ہے ) نقش کرنا چاہتا ہے کہ ’ موت ‘ زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کا خاتمہ ہے اور اسی کے ساتھ ایک دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے یعنی جسے فنا نہیں ہے ۔ ممتاز اسلامی مفکر و نامور شاعر علامہ اقبال (جن کی شاعری میں جا بجا قرآنی افکار و تعلیمات کی ترجمانی ملتی ہے) کے اس شعر میں اس حقیقت کی ترجمانی نہایت موثر انداز میں ملتی ہے:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوام زندگی
موت کی یاد کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محض یاد کرنے کی نہیں،بلکہ کثرت سے یاد کرنے کی ہدایت دی ہے اور اسے دنیا کی لذّات کو ختم کرنے والی، یعنی ان کے غلط اثرات سے انسان کو محفوظ رکھنے والی شے سے تعبیر کیا ہے۔
ارشادِ نبویؐ ہے:
اَکْثِرُوْا ذِکْرَھَا ذِمِ اللذَّاتِ یَعْنِی الْمَوْتِ ۳ لذتوں کو ختم کرنے والی، یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔
بلا شبہہ ہر انسان کو موت کا اتنا ہی یقین ہے، جتنا اپنی زندگی کا یقین ہے، یہ اور بات ہے کہ بعض مرتبہ( بلکہ اکثر وبیش تر) حرص و ہوس، نفسانی خواہشات، دنیا کی رنگ رلیوں، معاشی و سیاسی زندگی کی مصروفیات میں رہتے ہوئے وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے یا اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور وہ ذکر الٰہی، عبادتِ الٰہی اور دوسرے نیک اعمال سے بے پروا ، یعنی آخرت کی تیاری سے غافل ہوجاتا ہے اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرتا ہے جیسے اسے موت آنی ہی نہیں ہے۔
اس صورتِ حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشادِ گرامی ( موت کو کثرت سے یاد کرو) کس قدر معنویت و افادیت سے بھر پور ہے۔ اسی ضمن میں اس حدیث کا نقل کرنا بہت برمحل معلوم ہوتا ہے جس میں حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک انصار ی صحابی حاضرِ خدمت ہوئے اور سلام کرنے کے بعد انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
اَیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ اَفْضَلُ قَالَ اَحْسَنُہُمْ خُلُقاً ،قَالَ اَیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ اَکْیَسُ قَالَ اکْثَرُہُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْراً وَ اَحَسنُہُمْ لِمَا بَعْدَہٗ اِسْتِعْدَادًا ،اُولٰئِکَ الْاَکْیَاسُ ۴ مومنین میں کون افضل ہے؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ جو اخلاق میں سے سب سے اچھا ہے۔ پھر انھوں نے معلوم کیا کہ اہلِ ایمان میں سب سے عقل مند کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جو موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے سب سے اچھی تیاری کرنے والا ہو۔ یہی لوگ دراصل عقل مند ہیں۔
تیسری صدی ہجری کے مشہوربزرگ و صوفی حاتم اصمّ بلخی ؒ (م: ۲۳۷ھ؍ ۸۵۱ء) کے بقول موت واعظ ہونے کے لیے کافی ہے۔۵ بلا شبہہ انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کے لیے موت کو یاد کرنا اور یاد دلانا ایک نہایت مجرّب و نفع بخش نسخہ ہے ۔موت کی یاد میں اس لحاظ سے بھی انسان کے لیے بڑی قیمتی و کارگر نصیحت ہے کہ یہ اس کے اندرون میں اپنے حالات کو سدھارنے کی فکر پیدا کرتی ہے اور آخرت میں نفع دینے والے اعمال کی انجام دہی، یعنی شب و روز گزارتے ہوئے نیکیوں کا خزانہ جمع کرنے پر ابھارتی ہے ۔
کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَـارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّہَا تُزَہِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّـرُ الآخِرَۃَ ۹ میں نے تمھیں ( پہلے) قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا،پس (اب) قبروں کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا میں زہد کی صفت پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
وقتاً فوقتاً قبروں کی زیارت آپؐ کا معمول رہاہے۔اس موقعے پر خاص طور آپؐ یہ دعا پڑھتے تھے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ ، اَنْتُمْ سَلَفَنَا وَنَحْنُ بِالْاثَرِ ۱۰ اے اہلِ قبور آپ سب پر سلامتی ہو، اللہ ہماری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے، آپ لوگ [ ہم سے ]پہلے جا چکے اور ہم بس آپ کے پیچھے ہیں ۔
مزید یہ کہ آپؐ صحابہ کرامؓ کو قبرستان میں داخل ہونے کی دعائیں بھی سکھاتے تھے۔ ان میں یہ دُعا بہت معروف ہے:
اَلسَّلَامُ عَلٰی اَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ اِنَّـا اِنْ شَاءَ اللہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ ، نَسْئَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ ۱۱ اے مومنوں و مسلمانوں کی بستی والو! تم پر سلام ہو اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ سے اپنی اور تم سب کی عافیت طلب کرتے ہیں۔
سونے اور بیدار ہونے، سواری پر بیٹھنے ، قبر ستان میں داخل ہونے، نمازِ جنازہ ادا کرنے اور قبر میں مٹّی ڈالنے کے وقت کی جو دعائیں مسنون ہیں ان سب کے الفاظ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ ان سب سے کسی نہ کسی صورت میں موت کی تذکیر بھی مقصودہوتی ہے۔
حقیقت یہ کہ قبرستان میں حاضری ، کچھ دیر قبروں کے پاس کھڑے رہنے اور اہلِ قبور کو یاد کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس سے ذاتی تذکیر ہوتی ہے ۔ قبرستان میں حاضری اور قبروں کی زیارت اس لحاظ سے بھی باعثِ عبرت ہے کہ قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ قرآن کریم کے مطابق ا نسان اپنی اِس منزل کی جانب رواں دواں ہے یہاں تک کہ وہ ایک روز اللہ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ارشادِ الٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْہِ۶ۚ (الانشقاق ۸۴:۶) اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے( ایک مقررہ وقت پر) ملنے والاہے۔
آخرت کے سفر میں اس پہلی منزل ( قبر) کی اہمیت اُس حدیث سے بخوبی واضح ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے حضرت عثمانؓ کو قبر کے پاس کھڑے ہوکر زار و قطار روتے دیکھا تو دریافت کیا کہ آپ جنت و دوزخ کے تذکرے پر اس قدر نہیں روتے جس قدر کی قبر کی زیارت پر۔ انھوں نے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا کہ :
اِنَّ الْقَبْرَ اَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَۃِ فَاِنْ نَجَا مِنْہُ فَمَا بَعْدَہٗ اَیْسَرُ مِنْہُ وَ اِنْ لَّمْ یَنْجُ مِنْہُ فَمَا بَعْدَہٗ اَشَدُّ مِنْہُ ۱۲قبر آخرت کے منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی اس سے [ کامیابی کے ساتھ] نجات پا گیا تو بعد کی منازل طے کرنا اس کے لیے نہایت آسان ہوگا اور اگر اس سے نجات نہ پا سکا تو اس کے بعد [ کے مراحل میں]جو کچھ ہے وہ اس سے بہت سخت ہے۔
اُس حدیث سے مرحلۂ قبر کی عبرتیں و نصیحتیں مزید واضح ہو تی ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ قبر یہ آواز نہ دیتی ہو: اَنَا بَیْتُ الْغُرْبَۃِ ۔اَنَـا بَیْتُ الْوَحْدَۃِ ،اَنَـا بَیْتُ التُّرَابِ ،اَنَا بَیْتُ الدُّوْدِ ۱۳ میں اجنبیت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹّی کا گھر ہوں، میں کیڑے مکوڑے کا گھر ہوں۔
حضرت عبد اللہ ابن عبیدؓ کے بیان کے مطابق جب میت کے ساتھ آنے والے واپس چلے جا تے ہیں تو سب سے پہلے قبر ان سے مخاطب ہو کر پوچھتی ہے:’’ اے ابن آدم! کیا تو نے میرے حالات نہ سنے تھے؟ کیا تو میری تنگی، بدبو،ہول ناکی اور کیڑوں سے نہ ڈرایا گیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر تو نے کیا تیاری کی؟۱۴
ان روایات کے پس منظر میں اُس حدیث کی اہمیت و معنویت مزید بڑھ جا تی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ قبرستان میں کھڑے ہوکر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بھائیو! اس( قبر) کی تیاری کرو ‘‘۔ ۱۵
اس گھر کی تیاری سے مقصود اس کی پختہ تعمیر اورتزئین نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کی تعمیر و اصلاح یا اعمالِ صالحہ سے اس کی آراستگی ہے جو اس گھر میں سکونت کو آرام د ہ و خوش گوار بنائے گی۔ یہ نکتہ اس حدیث کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر قبر میں داخل ہونے والا ایمان و عمل صالح سے مزین ہے تو اس کے لیے قبر وسیع ہوجاتی ہے اور وہ بہترین آرام گاہ بن جاتی ہے۔۱۶
اس میں شبہہ نہیں کہ جنازہ میں شرکت اور قبروں کی زیارت اسی پہلی منزل کے لیے تیاری کی یاد دلاتی ہے۔ اس سے نہ صرف اپنی موت یاد آتی ہے،بلکہ موت کے بعد نصیب ہونے والے مسکن (قبر) کا منظر بھی نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور یہ احساس قوی ہو جا تا ہے کہ چاہے انسان کتنے عالی شان مکان یا کوٹھی،بنگلہ یا محل کا مکین ہو،آخر کار اسے اسی ٹوٹے پھوٹے، تاریک، کیڑے مکوڑوں والے مٹی کے گھر میں رہنا ہے۔ایک دو سال نہیں ،بلکہ برسہا برس، جب تک قیامت نہ برپا ہوجائے جس کے وقت ِمقررہ کا علم صرف عالم الغیب و الشہادۃ کو ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں افسوس صد افسوس کہ اس عبرت و نصیحت کے مقام( قبرستان) میں بھی بہت سے لوگ گپ شپ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ اور سیاست و حکومت کے مسائل پر اظہار ِ خیال میں وقت گزار دیتے ہیں۔ کاش! قبرستان میں ہوتے ہوئے ہم ذکرِ الٰہی اور فکرِ آخرت میں غرق ہوجائیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب پورے آداب و احترام،حضورِ قلب، انتہائی سنجید گی اور رضاے الٰہی کی طلب کے ساتھ اس مقام پر جایا جائے یا قبروں پر حاضری دی جائے اور اس موقعے کی مسنون دعائیں پڑھی جائیں۔ حقیقت یہ کہ ان مقامات پر اگر کوئی سچی طلب اور سنجیدگی کے ساتھ حاضری دے تو اسے غفلت سے بیداری نصیب ہوگی اور اس پر خشیتِ الٰہی و رجوع الی اللہ کی کیفیت طاری ہوئے بغیر نہ رہے گی۔ خلاصہ یہ کہ قبروں کی زیارت سے موت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ، آخرت کی تیاری کی فکر بڑھ جاتی ہے، اور اکتسابِ خیر کی طلب پیدا ہوتی ہے۔
lیکہ و تنہا سفر:واقعہ یہ کہ اس منظر کو یاد کرنے میں بھی بڑی عبرت ہے کہ دنیا میں انسان کے آل واولاد اور مال و اسباب ہوتے ہیں،مکانات ، کھیت و باغات ہوتے ہیں اور اصحابِ ثروت کے یہاں تجوریاں یا بنک لاکر سیم و زر اور زیورات سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن اس عارضی مستقر سے رخصت ہوتے ہوئے وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر یکا و تنہا راہیِ ملکِ عدم ہوتا ہے ، قبر میں خالی ہاتھ پہنچتا ہے اور اللہ رب العزت کے حضور یکّا و تنہا حاضر ہوگا ۔ قرآن نے اس حقیقت سے بھی صاف طور پر انسان کو باخبر کردیا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
وَكُلُّہُمْ اٰتِيْہِ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فَرْدًا۹۵ (مریم۱۹: ۹۵) اور سب کے سب روزِ قیامت یکّا و تنہا اس کے سامنے آئیں گے۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ( الانعام۶: ۹۴) لو! اب تم ویسے ہی تنِ تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا کہ ہم نے تم کو پہلی مرتبہ( اکیلا) پیدا کیا تھا۔
گھر سے قبر ستان تک کے سفر میں کون سی چیزیں میّت کے ساتھ جائیں گی، اور کون واپس آجائیں گی، اور کون اس کے ساتھ قبر میں باقی رہ جائیں گی؟ اس کی بہترین منظر کشی ایک مختصر، لیکن نہایت سبق آموز حدیث میں ملتی ہے ۔اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ فَیَرْجِعُ اثْنَانِ وَیَبْقَی مَعَہُ وَاحِدٌ یَتْبَعُہُ أَھْلُہُ وَمَا لُہُ وَعَمَلُہُ فَیَرْجِعُ أَھْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقٰی عَمَلُہُ ۱۷تین چیزیں میّت کے پیچھے جاتی ہیں، اس کے گھروالے،اس کا مال [ملکیت کی چیزیں؍ نوکر چاکر، اور اس کا عمل۔ پس دو چیزیں واپس آجاتی ہیں اور ایک [اس کے ساتھ ] باقی رہ جاتی ہے۔ اس کے گھر والے اور اس کے مال واپس آجاتے ہیں اور اس کا عمل باقی رہ جاتا ہے۔
حضرت عطاء ابن یسارؒ سے روایت ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا عمل اسے حرکت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیرا عمل ہوں۔ میت پوچھتی ہے کہ میرے اہل و عیال کہاں ہیں؟ اور میری نعمتیں کہاں ہیں؟ عمل جواب دیتا ہے کہ یہ سب تیرے پیچھے رہ گئے اور میرے سوا اور تیری قبر میں کوئی نہ آیا۔۱۸
l اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس:بلا شبہہ قبر کی یا بعد کی منازل میں متوفی کے لیے آ خرت میں نفع دینے والے محض اس کے نیک اعمال ، حسنات یا نیکیوںکے خزانے ہو ں گے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں الباقیات الصالحات کہلاتے ہیں۔ قرآن کریم میں بار بار اہلِ ایمان کو انھی باقیاتِ صالحات، یعنی باقی ر ہ کر اُخروی زندگی میں کام آنے والی نیکیوں کا خزانہ جمع کرنے، اسے بڑھانے اور اس راہ میں اللہ کی عطا کردہ جملہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (البقرۃ۲: ۲۵،۸۲،۲۷۷؛ النساء۴: ۱۲۴، الانعام۶:۱۶۰، ھود۱۱:۱۱۴، طٰہٰ۲۰: ۷۵، النمل۲۷: ۸۹، القصص۲۸:۷۴، البیّنۃ ۹۸:۷)
قرآن کریم میں انسان کو موت کی یاد دہانی کے ساتھ اس کے بعد قبر میں جانے اور ایک مقررہ مدت کے بعد اس سے اٹھائے جانے کو بھی یاد دلایا گیا ہے(الحج۲۲:۷، یٰس۳۶:۵۱، الانفطار۸۲:۴،العادیات۱۰۰:۹، التکاثر۱۰۲:۲)، تاکہ وہ مزید عبرت و نصیحت حاصل کرے، اپنے احوال کو درست کرلے اور نیکیاں کمانے میں مسابقت کرے ۔ ان آیات میں سے ایک نہایت سبق آموز اور انسان کو غفلت سے بیدار کرنے والی آیت سورۃ الانفطار کی آیت۴-۵ہے:
وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ۴ۙ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ۵ۭ اور یاد کرو اس وقت کو]جب قبریں کھول دی جائیں گی، [ اور]ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا کیا دھرا معلوم ہوجائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ موت کی یاد ، دوبارہ زندہ کیے جانے کا تصور ،اللہ رب العزت کے حضور حاضری اور اعمال کے لیے باز پرس کا احساس اور اس کا یقین انسان کو نیک عمل کی راہ پر ڈالتا ہے، اور بظاہر بعض مشکل عبادات کو بخوشی بجا لانے کے لیے تیار کرتا ہے اور اسے غلط حرکتوں ،گناہوں اور بد دیانتی،بد عنوانی اور فریب دہی وغیرہ سے دُور رکھتا ہے ۔ ان حقائق کو خود قرآن نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے اور انسان کو انھیں صدقِ دل سے قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ بات بخوبی معروف ہے کہ فرض عبادات میں نماز سب سے اہم و افضل ہے۔ پورے اصول وآداب اور وقت کی پابندی کے ساتھ روزانہ پانچ بار اس کی بجا آوری ایک امرِ مشکل ہے،لیکن یہ عمل ان لوگوں کے لیے ذرا بھی مشکل و گراں نہیں جو موت کے بعد دوبار زندہ کیے جانے اور اللہ رب العزت کے حضور حاضری میں یقین رکھتے ہیں، جیسا کہ یہ نکتہ سورئہ بقرہ میں واضح کیا گیا ہے:
وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۰ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۴۵ۙ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۴۶ ( البقرہ ۲:۴۵-۴۶)صبر اور نماز سے مدد لو،بے شک یہ ایک مشکل کام ہے،لیکن ان لوگوں کے لیے مشکل نہیں جو اللہ کی طرف جھکنے والے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخر کا ر وہ [ایک نہ ایک دن] اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف پلٹ کر جانےوالے ہیں۔
اسی طرح ناپ تول میں کمی یا لین دین میں بددیانتی کرنے والوں کو اس قبیح عمل یا گناہ کے کام کے بڑ ے تباہ کن انجام سے متنبہ کرتے ہوئے انھیں اس طور پر خبر دار کیا گیا ہے:
اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ۴ۙ لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ۵ۙ يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۶ۭ (المطفّفین۸۳:۴-۶) کیا انھیں یہ خیال نہیں کہ ایک بڑے دن (یعنی یوم ِقیامت) انھیں دوبارہ اٹھایا جائے گا اور یہ وہ دن ہوگا جب لوگ رب العالمین کے رُوبرو دست بستہ کھڑے ہوں گے۔
یعنی اگر ان میں یہ احساس بیدار ہوجائے کہ انھیں اللہ کے حضور حاضر ہوکر اپنے عمل کا حساب دینا ہے تو وہ بد دیانتی اور گناہ کے دوسرے کاموں کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ نفسانی خواہشات انسان کو غلط کاموں پر ابھارتی ہیں جو انجام کے اعتبار سے اس کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں، لیکن جو لوگ یومِ جزا اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف ر کھتے ہیں وہ ان خواہشات کے پیچھے نہیں چلتے،بلکہ ان کو کنٹرول میں رکھتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کی نافرمانی اور گناہ کے کامو ں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ یہی حقیقت اس آیت سے سامنے آتی ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۴۰ۙ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰى۴۱ (النازعات ۷۹:۴۰-۴۱ ) اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تو بلاشبہہ جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔
در اصل قرآن و سنت کی نظر میں مومن سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دنیوی زندگی میں موت،قبر ،قیامت ، حضورِرب حاضری اور حساب و کتاب کا تصور تازہ رکھے اور بازپُرس کے احساس سے دل کو معمور رکھے ، تاکہ اس کے اثر سے فرائض و حقوق کو ادا کرتا رہے، نیکیاں کماتا رہے اورگناہوں سے بچتا رہے۔ مزید یہ کہ یہ سب کرتے ہوئے وہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم کا طلب گار اور اس کے بے پایاں رحم و کرم کا امید وار رہے اور ناامیدی کو پاس نہ آنے دے۔یہ آیات اہلِ ایمان کو یہی پیغام دے رہی ہیں:
اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۹۸ (المائدہ ۵:۹۸) جان لو کہ بے شک اللہ عذاب دینے میں بڑا سخت ہے اور بے شک ا للہ بہت مغفرت کرنے والا اور بہت رحم فرما نے والا ہے۔
نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۴۹ۙ وَاَنَّ عَذَابِيْ ہُوَالْعَذَابُ الْاَلِيْمُ۵۰ (الحجر۱۵: ۴۹-۵۰) (اے نبیؐ ) میرے بندوں کو خبر دار کر دیجیے کہ میں بے شک بہت معاف کرنے والا ہوں اور یہ ( بھی بتا دیجیے) کہ میرا عذاب بڑا دردناک ہے۔
مزید یہ کہ قرآن نے اہلِ ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی حمد و تسبیح اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور خوف و رجا کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں (السجدۃ۳۲:۱۶)۔ حقیقت یہ کہ مومن کی زندگی اِن دونوں کیفیات ( خوف و رجا) کے درمیان گزرتی ہے ۔ وہ اسی حالت میں رہتے ہوئے شب وروز بسر کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ربّ کریم کے یہاں سے بلاوا آجاتا ہے اور وہ اس عارضی مستقر سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ اگر کوئی دنیوی زندگی میں موت،قیامت و آخرت کو یاد کرکے اللہ رب العزت کا خوف دل و دماغ میں سما لے گا تو نامعلوم کتنے خوف سے نجات پائے گا اور ابدی زندگی میں اسے ایسی اطمینان بھری کیفیت نصیب ہوگی کہ جس میں نہ غم ہوگا،نہ رنج ، نہ کوئی تشویش ہوگی،نہ گھبراہٹ کا گزر ہوگا۔ متعدد آیات میںیہ خوش خبری ایمان و عملِ صالح سے مزین زندگی گزارنے والوں کو سنائی گئی ہے۔(البقرہ ۲: ۳۸،۶۲، ۲۶۲،۲۷۴، المائدہ۵:۶۹،الانعام۶:۴۸، الاعراف ۷: ۴۹، الاحقاف ۴۶ :۱۳)
واقعہ یہ کہ اس عارضی زندگی میں اگر کوئی موت کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے اوپر طاری کرلے اور صراط مستقیم اختیار کرکے دائمی زندگی میں ہر طرح کے خوف و غم سے نجات پاجائے تو یہ گھاٹے کا نہیں، بلکہ سراسر نفع کا سودا ہوگا۔ اس کے برخلاف جو لوگ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو بھلا کر تکذیب وانکار اوراللہ اور اُس کے بندوں کے حقوق کی پامالی کی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں،آخر کا ر اس کے انجامِ بد سے دوچار ہوں گے اور عذابِ جہنم میں گرفتار ہوجائیں گے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ لوگ یہ اعتراف کریں گے کہ یہ ان کی بہت بڑی بھول تھی،ورنہ انھیں آج یہ برے دن دیکھنے نہ پڑتے۔ حقیقت یہ کہ یہ بے وقت کا اعتراف اور پچھلی زندگی کی غفلتوں کی یادیں ان کے کچھ کام نہ آئیں گی۔ یہ آیتِ کریمہ آخرت کی مناظر کشی کرتے ہوئے اسی حقیقت سے پردہ اٹھا رہی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
فِيْ جَنّٰتٍ۰ۣۭۛ يَتَسَاۗءَلُوْنَ۴۰ۙ عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ۴۱ۙ مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۴۵ۙ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۴۶ۙ حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۴۷ۭ ( المدّثّر ۷۴:۴۰-۴۷) جو جنت میں ہوں گے وہ مجرموں سے پوچھیں گے،تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور حق بات کے خلاف باتیں بنانے والوں کے خلاف ہم بھی باتیں بنانے لگے تھے اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے،یہاں تک کہ یقینی چیز(موت) ہمارے پاس آدھمکی ۔
مختصر یہ کہ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو یاد کرنے میں ہم سب کے لیے عبرت و نصیحت ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں موت اور اس کے بعد کے مراحل کو باربار یاددلانا محض براے یاد دہانی نہیں، بلکہ براے عبرت ہے۔ متعلقہ آیات و ا حاد یث کے مطابق ان سے عبرت پذیری ہمارے لیے انتہائی نفع بخش ہے، لہٰذا اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ان سب سے مقصود موت وحیات کے خالق و مالک کی یاد کی طرف متوجہ کرنا،اس کے حقوق یاد دلانااور اپنی اصلاح کی فکر کرنا ،اس لیے کہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کب،کس مقام پر اور کس طریقے سے اس کی زندگی کا سلسلہ تمام ہوجائے ، اور روزِ جزا اللہ رب العزت کے سامنے حاضری کے لیے تیاری نہ ہونے کی صورت میں کفِ افسوس ملنا پڑے یا وقت موعود کو مؤخر کرنے کی تمنا کرنی پڑے، جب کہ قرآن کا صاف اعلان ہے کہ انسان کی یہ تمنا پوری ہونے والی نہیں۔(الاعراف۷: ۵۳؛ المومنون ۲۳:۹۹-۱۰۰،۱۰۷-۱۰۸،المنافقون ۶۳:۱۰۔۱۱)
در اصل انسان کو موت اور بعد کے احوال کی یاد دلا کر یہ سبق دینا ہے کہ آخری وقت کے آنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو تیار کرلے اور اس گھڑی کے آنے سے پہلے پہلے نصیحت حاصل کرلے اور اپنی اصلاح کر لے کہ جب موت سامنے ہونے یا قیامت برپا ہونے اور اعمال نامہ ملنے پر وہ نصیحت پکڑے گا اور نیک عمل کرنے کی کچھ مہلت چاہے گا تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کا وقت نکل چکا ہوگا۔ ارشاد الٰہی ہے:
يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّكْرٰى۲۳ۭ (الفجر ۸۹:۲۳ ) اس دن انسان کی سمجھ میں آجائے گا اور اس وقت سمجھ میں آنے سے کیا حاصل ہوگا۔
حدیث میں اس شخص کو دانش مند کہا گیا ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کر تا رہے ( الکیّس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت) ۔۱۹ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقائق کو سمجھنے ،انھیں دل ودماغ میں نقش کرنے اوران کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے، اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی۔
حواشی و مراجع
شادی کے لیے عمر کی حد طے کرنے کا بل پاکستانی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بعد سے اس مسئلے پر بحث ہورہی ہے۔ مسئلے کا سرسری سا جائزہ لیں تو صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اس چیخ پکار کے پیچھے اصل ایجنڈا کیا ہے؟ اس کی وکالت کرنے والے، بظاہر ایک سماجی مسئلہ حل کرنے کی آڑ میں دراصل اپنے تصورات کو مسلط کرنے اور پھیلانے کی کوشش میں ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب زدہ عناصر اور آزاد خیال گروہ، حقیقی مسئلے پر بات کرنے کے بجاے، معاملے کو اُلجھا رہے ہیں۔ اس طرح اسلامی اقدار اور سماجی اطوار کی تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
حسب ذیل وجوہ کی بنیاد پر مسٹر احسن کا پیش کردہ جواز ناقص ہے:
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’چائلڈمیرج بل‘ کے تاریخی اور سیاسی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے معاملے پر ضرو ر بحث کی جانی چاہیے۔ یورپ نے جب مسلم دنیا پر اپنا سامراجی تسلط قائم کیا تھا تو اُنھیں خوف محسوس ہوا کہ اسلام ایک ایسا نظریہ ہے، جو اُن کے مقابل آسکتا ہے۔ چنانچہ جیساکہ پروفیسر ایڈورڈسعید (م: ۲۴ستمبر۲۰۰۳ء)کا مضمون Islam Through Western Eyes (اسلام، مغرب کی نظر سے، مطبوعہ: دی نیشن، ۲۶؍اپریل ۱۹۸۰ء) ظاہر کرتا ہے، اسلام سے نفرت کا الائو روشن کیا گیا۔اس خوف کی وجہ سے اُنھوں نے اسلام کو ایک فرسودہ قدیمی کلچر کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ایسا کلچر کہ جسے مغربی اصلاح اور یورپی سوچ کے سانچے میں ڈھلنے اور ڈھالنے کی ضرورت تھی۔ مغربی سامراجی حکمرانوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے مقبوضہ اور زیراثر علاقوں میں تعلیمی اور سیاسی اصلاحات کے ساتھ خواتین کے ’حقوق کی وکالت‘ کو اس تبدیلی کا انتہائی مؤثر ذریعہ قرار دیا۔ مصر کے برطانوی کنٹرولر جنرل لارڈ ارل کرومرنے دوجلدوں پر مشتمل اپنی کتاب Modern Egypt (جدید مصر، مطبوعہ ۱۹۰۸ء) جو مسلم دنیا میں مغربی اصلاحاتی عمل کی دستاویز بن گئی ۔اس کتاب میں لکھا ہے:
یہ فرض کرنا حماقت ہوگی کہ یورپ محض تماشائی بن کر دیکھتا رہے اور محمڈن اصولوں کی بنیاد پر قدامت پسند حکومت قائم ہوجائے۔ ہمارے مادی مفاد کا خطرہ کم اہمیت نہیں رکھتا۔ [تاہم، مسلمانوں کی] نئی نسل کو مغربی تہذیب کی حقیقی روح کا قائل کرنا، یا جبری طور پر اس کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ہمیں کام کرنا ہوگا۔ سوچ و کردار کو ترقی دینے کے راستے میں مسلم ممالک میں [مسلمان] خواتین کا مقام ایک اہم رکاوٹ ہے۔ مغربی تہذیب کو متعارف کرانے میں خواتین کا کردار اہم ہونا چاہیے۔
مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب نے دنیا پر اپنا تہذیبی نظام قائم رکھنے کے لیے مسلم دنیا کو اپنے ذوق کے مطابق بدلنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ بالکل اسی پس منظر میں ۱۹۲۹ء کے اس بل کو بھی دیکھا جائے۔ یاد رہے مسلمانوں کو اپنے ڈھب کے مطابق ڈھالنے کے لیے مؤثر کوششیں قانون ساز اداروں اور ابلاغی کارپوریشنوں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ اب مغرب براہِ راست ان کے لیے دبائو ڈالنے کے لیے اقوامِ متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال کر رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ۲۰۳۰ء تک شادی کی عمر ۱۸سال متعین کرنے کے لیے تین قرار دادیں منظور کرچکی ہے، تاکہ مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
اپنی ایجنسیوں کے ذریعے اقوامِ متحدہ مختلف اور مخصوص ایجنڈے کی حامل این جی اوز کو فنڈز فراہم کرتا ہے۔ یہ این جی اوز انھی کے ایما پر مسلمانوں میں ایسے نظریات کی ترویج کرتی ہیں، راے سازوں کی فکری آبیاری کرتی ہیں، اور ان اہداف کو حاصل کرنے کا راستہ دکھاتی ہیں۔ حتیٰ کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی اس معاملے پر ہونے والی بنیادی اور فیصلہ ساز نشستوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ دیسی مغرب زدہ حضرات کو قائداعظم کی شخصیت سے منسوب کسی ابتدائی دور کے واقعے کے پیچھے چھپنے کے بجاے جرأت سے مطلوبہ ایجنڈے کے ساتھ اپنا اصل چہرہ دکھانا چاہیے۔
ہم پوری دل سوزی سے یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں کہ مغرب کو شادی کے بغیر جنسی تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اور نہ اس نے ۱۸ سال سے کم عمر افراد کی عصمت کی کبھی وکالت اور فکر کی ہے۔ وہ شادی کے بغیر حمل کے اسقاط کو ایک معمول سمجھ کر قبول کرتے ہیں، اور ناجائز تعلقات قائم کرنے والوں کو پناہ دینے کی پیش کش کرتے ہیں، بس اُنھیں نوجوان افراد کی شادی اور نکاح پر اعتراض ہے۔ وہ اسے ’جبری شادی یا چائلڈ میرج‘ قرار دیتے ہیں جو کہ جنسی تعلقات کو ضابطے میں لانے کی مزاحمت کے سوا کچھ نہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ اس آزاد خیال طبقے کو اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوتا کہ اگر نوجوان، جانوروں کی طرح جنسی بے راہ روی کا شکار ہوجائیں، سماجی اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیردیں، اپنی عزت، عصمت، مستقبل اور صحت کا کباڑا کرلیں۔ لیکن بس اسے اللہ پاک کے حکم کے مطابق شادی کا مقدس رشتہ برداشت نہیں۔ وہ اللہ کے حکم سے مطابقت رکھنے والے حلال طریقے کو بند اور حرام کاری کے تمام راستے کھلے رکھنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ۱۸سال سے کم عمر افراد، جو بالغ اور جوان ہوچکے ہوں، کو ’بچہ‘ قرار دے کر یہ مغرب زدہ حضرات شادی کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کسی بالغ شخص کی شادی کو ’چائلڈ میرج‘ کا نام دینا شیطانی چکمہ اور مغربی تہذیب کی اندھی نقالی کا شاخسانہ ہے۔ مغرب نے اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بہت سے مقدس تصورات کے جان بوجھ کر نئے معانی متعارف کرائے ہیں۔
اس پر کوئی دو آرا ہو نہیں سکتیں کہ زیادہ عمر کے افراد کی نسبت نوجوانوں میں جنسی خواہش شدید تر ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام نے انھیں اجازت دی ہے کہ وہ انھیں قواعد و ضوابط کے اندر لاتے ہوئے خاندان اور نسل بڑھائیں۔ ان کی شادی پر پابندی لگانے سے شیطان کے سوا کسی کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ آزاد خیال گروہ، شریعت کے اصولوں کے وضع کردہ، اور عقلِ سلیم سے مطابقت رکھنے والے راستے کو بند کر کے نوجوانوں کو جہنم کے راستے پر دھکیل رہے ہیں۔
مغرب زدگان چاہتے ہیں کہ ہم اُس معاشرے کی نقل کریں جو نوعمر غیرشادی شدہ مائوں کے مسئلے سے دوچار ہے۔ ان ’اکیلی مائوں‘ کے پاس دستیاب امکانات اور راستے یہ ہیں کہ وہ یا تو اپنے بچوں کو یتیم خانوں کے باہر رکھ کر چلی جائیں، یا اُنھیں پیدا ہونے سے پہلے ہلاک کردیں، یا پھر بچے بھی پالیں اور کام کر کے روزی بھی کمائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ایسی تہذیب کے نقشِ قدم پر چلیں، جس نے: lعورت کو ایک کھیل تماشے کی چیز بنا دیا ہے l ساری آزادی کے باوجود جس میں جنسی تشدد اور عوامی مقامات پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے واقعات ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکے ہیں ، اور lجو انسانی رشتوں کو جنسی تعلقات کی کمرشل ضرورت کی عینک سے دیکھتا ہے۔
بحث کا ماحصل یہ ہے کہ ہماری تمام تر انفرادی، اجتماعی اور تہذیبی خرابیوں کا حل اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت، اور زندگی کے ہرشعبے میں شریعت کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے، نہ کہ شرعی قوانین کو کانٹ چھانٹ کر مغربی آقائوں کی پڑھائی ہوئی پٹی کے مطابق قابلِ قبول بنانے میں۔
اس وقت امت مسلمہ میں بالعموم اور ہمارے ملک و معاشرے میں بالخصوص اسلام کے چاہنے،ماننے والوں اور لادین طبقے کے درمیان ایک کش مکش برپا ہے۔ سیکولر طبقات مسلمانوں کی عمومی زندگی سے ہی نہیں بلکہ ریاست اور اس کے اداروں سے بھی اسلام ، دینی علامات اورشعائر کو مٹانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام اوراُمت مسلمہ کی محترم و مقدس شخصیات کو نشانہ بنایا اور ان کی توہین وتضحيک کی جا رہی ہے۔ اس کام میں بڑی چالاکی سے سادہ لوح مسلمانوں کو لادین عناصر استعمال کررہے ہیں۔ اس لیے ایمان و کفرکی حدود سے لا علم حضرات کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
دوسری طرف خود اسلام کے ماننے والوں کے درمیان بھی کوئی قابلِ رشک اتحاد و اتفاق نہیں پایا جاتا۔ فرقہ واریت کا زہر امت کے جسدِ واحد کوکھوکھلا کر رہا ہے ، ایک دوسرے کے خلاف تکفیر، تفسیق اور تضلیل کے فتاویٰ صادر ہو رہے ہیں اور فتنہ کی سی صورتِ حال واضح نظر آرہی ہے۔
اس فتنۂ تکفیر کی جڑیں قدیم ہیں، تاریخی لحاظ سے اُمت مسلمہ میں سب سے پہلا اور خطرناک ترین فتنہ تکفیر ہی کا تھا۔ قرنِ اوّل میں خوارج نے تکفیر و تفسیق میں غلو سے کام لیا، حتیٰ کہ انھوں نے حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ، حضرت عمرو ؓبن عاص کو بھی دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا، اور قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنانے کے لیے امن اور حُرمت کے شہر مکہ میں بیٹھ کر سازش تیار کی، اور منصوبے کے مطابق:
خوارج کے اس فتنہ تکفیر کے نتیجے میں اُمت مسلمہ تقسیم ہوئی، قتل و غارت اور ناحق خوںریزی سے ہزاروں بے گناہ لوگ اپنی جان و مال سے محروم ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ خوارج کا وجود ختم ہوگیا، لیکن ان کی ’تکفیری فکر‘ آج تک ختم نہیں ہوئی۔ اسی ’تکفیری فکر‘ کی وجہ سے آج عالمِ اسلام کے کئی ممالک میں فساد اور خانہ جنگی اور ہیجان کی کیفیت برپا ہے۔ کفار و مشرکین نے مشکل وقت میں اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لیے جن مسلمان ’حریت پسندوں‘ اور ’جاں بازوں‘ کی مدد کی تھی،وقت گزرنے اور اپنا ہدف پانے کے بعد انھی کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور آج ان کو ہرقسم کے ظلم و تعذیب اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ جواباً انھوں نے بھی دہشت گردی کی اس جنگ میں جارح مغربی ممالک کا ساتھ دینے والے مسلم حکمرانوں اور ان کے اداروں اور فورسز کے خلاف کھلی یا چھپی جنگ شروع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ: ’’ہم یہ مسلح جدوجہد ان لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں،جو مختلف وجوہ کی بناپر، مرتد ہوکر دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں‘‘۔
اس صورتِ حال میں عوام الناس ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ اور نیم خواندہ علما بھی واضح شرعی موقف کے معاملے میں پریشان فکری کا شکار ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ دین اسلام کی رہنمائی کو زیادہ واضح کیا جائے، کہ: کفر کیا ہے؟ اور تکفیر کے بنیادی اصول و ضوابط کیا ہیں؟ اور تکفیر کا حق کس کو حاصل ہے؟ انھی سوالات کا جواب اس تحریر میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مختصر طور پر ان بنیادی اصول و قواعد کو بیان کیا گیا ہے، جن کو کسی مسلمان شخص کے ایمان اور کفروارتداد کے متعلق راے قائم کرتے وقت ملحوظ رکھنا شرعاً ضروری ہے۔
اوّلین قاعدہ یہ ہے کہ کسی شخص کے کفروایمان کا فیصلہ کرنے کا اختیاربھی شارع کا حق ہے۔ کسی مسلمان کے عقیدہ، ایمان و کفر کا فیصلہ، کسی صورت میں کسی کی ذاتی خواہش، سوے ظن، غلط فہمی، تعصب یا دشمنی کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کسی مسلمان کی تکفیر یا اس کو مشرک، بدعتی یا فاسق و فاجر قرار دینے یا کسی کے کفر و ایمان کا فیصلہ کرنے کا حق و اختیار عوام الناس ، دین سے ناواقف لوگوں،یا میڈیا کو نہیں دیا گیا، بلکہ صرف راسخ اہلِ علم اور افتا کے منصب پر فائز افراد بھی مضبوط شرعی دلائل کی بنیاد پر ہی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں:
اُمت مسلمہ کے اسلاف میں تکفیر و تفسیق کا طریقہ نہیں تھا۔ وہ اس ضمن میں ان ارشاداتِ نبویؐ کی وجہ سے بہت احتیاط سے کام لیتے تھے، جن میں کسی کی تکفیر میں جلدبازی اور بے احتیاطی کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ اس ضمن میں کئی صحابہ کرامؓ سے روایات آئی ہیں، جن میں حضرت انس بن مالکؓ{ FR 764 } حضرت ابوذر غفاریؓ { FR 766 }حضرت ثابت بن ضحاکؓ{ FR 767 } حضرت ابوہریرہؓ{ FR 768 } حضرت عبداللہ بن عمرؓ { FR 769 }، حضرت ابوسعید خدریؓ شامل ہیں۔{ FR 771 }
امام ابن الوزیر صنعانی، محمد بن ابراہیم بن علی (م:۸۴۰ھ) مسلمانوں کی تکفیر سے ممانعت والی احادیث کو ’متواتر‘ قرار دیتے ہیں۔{ FR 772 }
حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ: میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا: لَا یَرْمِی رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوْقِ وَلَا یَرْمِیْہِ بِالْکُفْرِ اِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَیْہِ اِنْ یَکُنْ صَاحِبُہُ کَذٰلِکَ { FR 773 } ’’جس شخص نے بھی کسی کو فسق و فجور اور کفر کا الزام دیا ، اگر وہ اس طرح نہ ہو تو یہ بات خود کہنے والے پر لوٹ آئے گی‘‘۔
دوسرا اہم قاعدہ یہ ہےکہ ہر انسان فطرتاً اور پیدایشی طور پر مسلمان ہے۔ اس کے جدامجد حضرت آدم ؑ، اللہ رب العالمین کے فرماں بردار مسلم تھے۔ نوعِ انسانی کی جانب، اللہ تعالیٰ کے اوّلین پیغمبر تھے۔ ان کی اولاد بھی اصلاً مسلم ہی تھی۔ بعد میں کفر وشرک اور معصیت میں مبتلا ہوکر لوگ اللہ تعالیٰ کے دین سے دُور ہوتے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَھُمْ فِيْمَا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۱۹(یونس ۱۰:۱۹) سب انسان ایک ہی اُمت تھے، پھر ان میں اختلافات پیدا ہوئے، اور اگر تمھارے ربّ کا فیصلہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو ان لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ یہیں پر کردیا جاتا۔
حضرت آدمؑ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث سب سے پہلے پیغمبر اور خلیفہ تھے:
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۰ۭ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ۰ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۰ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۳۰(البقرہ ۲:۳۰) پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’مَیں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔
قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ منصب ِ خلافت الٰہی، حضرت آدم ؑ کی اولاد کو بھی حاصل ہے، چنانچہ سورئہ انعام میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۰ۡۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۶۵ (انعام ۶:۱۶۵، نیز ملاحظہ ہو قرآنی آیات: یونس۱۰:۱۴، النمل ۲۷: ۶۲، فاطر۳۵:۳۹) وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کرے۔ بے شک تمھارا ربّ سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ (م:۱۹۷۹ء) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اس آیت میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں:
ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرف کے اختیارات بخشے ہیں۔
دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے۔ کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوت کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم، اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔
تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے۔ پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے، اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرف کیا؟ کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا؟ اور کس حد تک اپنی قابلیت یا ناقابلیت کا ثبوت دیا؟ اسی امتحان کے نتیجے پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔{ FR 774 }
اور اس خلافت ِ الٰہی سے مقصود انسان کی تکریم و اعزاز ہے جیساکہ سورئہ بنی اسرائیل میں فرمایا: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ (۱۷:۷۰)’’ہم نے آدم ؑ کی اولاد کو ایک تکریم و اعزاز بخشا ہے‘‘ کے علاوہ زمین کی آبادکاری و ترقی(جیساکہ سورئہ ہود ۱۱:۶۱ میں فرمایا: ہُوَاَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيْہَا ) اور اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین کی تنفیذ و تعمیل ہے۔
حضرت آدم ؑ کے بارے میں قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلم اور نبی تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے علم کے ساتھ اپنی خلافت سے نوازا۔ حضرت آدم ؑ کی اولاد نے اپنے والد سے وراثت میں ایمان کے ساتھ والد کی خلافت بمعنی جانشینی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی خلافت بمعنی نیابت پائی۔
ایک حدیث قدسی حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ کی روایت سے بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز خطبہ دیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اِنِّیْ خَلَقْتُ عِبَادِی حُنَفَاءَ کُلَّھُمْ ، وَ اِنَّھُمْ أَتَتْھُمُ الشَّیَاطِیْنُ فَاجْتَالَتْھُمْ عَنْ دِیْنِھِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَیْھِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَھُمْ وَأَمَرَتْھُمْ اَنْ یُشْرِکُوا بِیْ مَا لَمْ اُنْزِلْ بِہِ سُلْطَانًـا { FR 784 }میں نے اپنے بندوں کو توحید پر یکسو اور مسلم پیدا کیا، اب شیاطین (جِنّ و انس) نے آکر ان کو ان کے اصل دین سے پھیر دیا، اور میرے حلال کردہ کو ان پر حرام کیا، اور ان کو میرے ساتھ ایسے شریک اور حصہ دار ٹھیرانے پر آمادہ کیا جن کے لیے مَیں کوئی سند (اتھارٹی) نازل نہیں کی تھی۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہربچہ اسلامی فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں، جس طرح جانور صحیح سالم عضووالا بچہ جنتا ہے، کیا تم اس میں سے کوئی عضو کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر حضرت ابوہریرہؓ نے یہ آیت آخر تک تلاوت کی: فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۰ۤۙ (الروم ۳۰:۳۰)’’پس اے قرآنِ مجید کے خطاب کو سننے والے یک سُو ہوکر اپنا رُخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہوجائو اس فطرت پر، جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔{ FR 775 }
مولانا امین احسن اصلاحیؒ (م:۱۹۹۷ء) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’ الدین‘سے مراد اللہ کا حقیقی دین اسلام ہے جس کی دعوت اس کے تمام نبیوںؑ اور رسولوں ؑ نے دی اور جس کی تکمیل نبی اُمی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہوئی۔ یہی دین اللہ تعالیٰ کا اصلی دین ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)’’اصلی دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے‘‘۔ فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا (الروم ۳۰:۳۰)یعنی ’’ہر طرف سے کٹ کر اس دین فطرت کی پیروی کرو، جس پر فاطر فطرت نے لوگوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔ یہ اس الدین کی صحت و صداقت کی دلیل بیان ہوئی ہے جس کی طرف یکسو ہونے کی اُوپر والے ٹکڑے میں ہدایت فرمائی گئی ہے، کہ یہ دین کوئی خارج کی چیز نہیں ہے جو تم پر اُوپر سے لادی جارہی ہو، بلکہ یہ عین تمھاری فطرت کا بروز اور تمھارے اپنے باطن کا خزانہ ہے، جو تمھارے دامن میں ڈالا جارہا ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ جو فلسفی یہ کہتے ہیں کہ:انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک صفحہ سادہ اور تمام تر اپنے ماحول کی پیداوار اور الف و عادت کی مخلوق ہے، ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین ساخت اور بہترین فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس کو خیروشر اور حق و باطل کی معرفت عطا فرمائی ہے اور نیکی کو اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کا جذبہ بھی اس کے اندر ودیعت فرمایا ہے، لیکن اس کی یہ فطرت حیوانات کی جبلت کی طرح نہیں ہے کہ وہ اس سے انحراف نہ اختیار کرسکے بلکہ وہ اپنے اندر اختیار بھی رکھتا ہے، اس وجہ سے بسااوقات وہ اس دنیا کی محبت اور اپنی خواہشوں کی پیروی میں اس طرح اندھا ہوجاتا ہے کہ حق و باطل کا شعور رکھتے ہوئے نہ صرف باطل کی پیروی کرتا ہے بلکہ باطل کی حمایت میں فلسفے بھی ایجاد کرڈالتا ہے۔{ FR 776 }
اسلامی شریعت کو انسان کا دین و عقیدہ بہت عزیز ہے۔ اسی کی بنیاد پر اس کا حساب کتاب ہوگا۔ اسی لیے ایمان اور عقیدے کی حفاظت کو مقصود قرار دے کر بے شمار نصوص میں اس کی تاکید آئی ہے اور مقاصد ِ شریعت میں اس کو اوّلیت اور سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے، گویا سب سے پہلے دین و ایمان ہے کہ: جس کی خاطر انسان کی جان، مال، عقل اور عزت و آبرو بھی قربان۔
دین و ایمان کی طرف دعوت کی خاطر انبیاے کرام ؑ کو مبعوث فرمایا:
وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۚ وَالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۸ (الحدید ۵۷:۸)تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسولؐ تمھیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کفار و مشرکین کی ہدایت اور ایمان لانے کو بہت اہمیت دیتے، اور ہرممکن کوشش کرتے تھے، حتیٰ کہ اس بارے میں فکروسوچ اور محنت سے اپنے آپ کو گھلائے دے رہے تھے کہ ربِ کریم نے خود اس فکرمندی کو اپنی کتاب میں ثبت فرما دیا:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا۶ (الکہف ۱۸:۶) اے پیغمبرؐ! اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج و فکر کرکر کے اپنے تئیں ہلاک کردو گے؟
اور دین و ایمان کی دعوت تو انبیاء کرام، اولیا اور صلحاے اُمت کا طریقہ اور نقش قدم ہے:
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۸ (یوسف۱۲:۱۰۸) کہہ دو میرا راستہ تو یہ ہے کہ مَیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (ازروئے یقین و بُرہان) سمجھ بوجھ کر۔ میں بھی (لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی۔ اور اللہ پاک ہے اور مَیں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
ان سب آیات و احادیث سے ثابت ہوا کہ ہرنومولود بچہ جو کسی انسان کے ہاں پیدا ہوا، اور بالخصوص اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والا ہر بچہ شریعت کی نظر میں فطرتاً مسلم ہے۔ جب ہرانسانی نومولود کا ایمان و اسلام یقینی طور پر ثابت ہوگیا تو اب ہم کہتے ہیں کہ شرعی قاعدہ یہ ہے:
فقہ کے مشہور پانچ بنیادی اور کُلی قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ ہے کہ: الْیَقِیْنُ لَا یَزُوْلُ بِالشَّکِ ، جس کا مفہوم یہ ہےکہ جب کوئی معاملہ یقینی طور پر منفی یا مثبت طور پر معلوم ہوجائے تو بعد میں آنے والے کسی بھی شک و تردّد سے وہ یقین ختم نہیں ہوگا۔{ FR 777 }
یہ قاعدہ فقہی مسائل (فقہ اصغر) کے علاوہ ایمانی و کلامی مسائل (فقہ اکبر) کو بھی محیط ہے۔ بالخصوص ہر وہ مسئلہ کہ جس میں شک و یقین کی دونوں جہتیں پائی جائیں تو شک کو چھوڑ کر یقین والی جہت کو ترجیح دی جائے گی، کیونکہ الشَّکُ اَضْعَفُ مِنَ الْیَقِیْنِ فَلَا یُعَارِضُہُ ثُبُوْتًا وَّعَدَمًا { FR 778 } ’’شک یقین سے بہرحال کمزور ہے، اس لیے ثبوت و عدم ثبوت دونوں میں اس کے مقابلے میں نہیں آسکتا‘‘۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے: اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ۰ۚ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔا۲۸ۚ (النجم۵۳:۲۸)’’یہ لوگ صرف ظن پر چلتے ہیں اور ظن یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا‘‘۔
اس آیت میں یقینی طور پر ثابت شدہ چیز یعنی ’حق‘ کو چھوڑ کر، ظن و تخمین کے پیچھے چلنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ چوں کہ تکفیر کے نتیجے میں متاثر شخص کی زندگی ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان اور معاشرے پر بہت ہی دُور رس اثرات اور بڑے پیمانے پر نتائج مترتب ہوتے ہیں، اس لیے صرف شک و شبہہ یا ظن کی بنیاد پر کسی مسلمان کی تکفیر درست نہیں۔ شریعت نے ادنیٰ شبہے کی بنیاد پر حدود کی سزائوں کو ساقط کر دیا، حالاں کہ حدود کی تنفیذ کے نتیجے میں انسان کی جان جاتی ہے، جب کہ کسی بھی شخص کا ایمان، اس کی زندگی اور جان کے مقابلے میں زیادہ قیمتی، مقدم اور افضل واولیٰ ہے۔ اس لیے محض شکوک و شبہات کی وجہ سے کسی مسلمان کی تکفیر کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
اسی قاعدہ کا ایک ذیلی قاعدہ یہ ہے: مَا ثَبَتَ بِیَقِیْنٍ لَا یَرْتَفْعُ اِلَّا بِیَقِیْنٍ { FR 779 } ’’جو بات یقینی طور پر ثابت ہو، وہ صرف یقین سے ہی ختم ہوسکتی ہے‘‘۔
اس لیے جس شخص کا مسلمان ہونا یقین کے ساتھ ثابت ہو، اس پر کفروارتداد کا حکم لگانے کے لیے یقینی اور پختہ دلیل کی ضرورت ہوگی۔ اسی لیے محقق اہلِ علم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ: ’’کسی کے کفروارتداد کے سو میں سے ننانوے احتمالات موجود ہوں، تب بھی شرعی نصوص کا تقاضا یہ ہےکہ صرف ایک احتمال کو ترجیح دے کر اس کو مسلمان شمار کیا جائے‘‘۔
شریعت کی نظر میں کسی بھی شخص کا ایمان و اسلام بہت اہم ، مطلوب و مقصود اور مقبول ہے ، خواہ وہ دل میں پوشیدہ ہی کیوں نہ ہو، جس پر کوئی انسان مطلع نہیں ہوسکتا۔ اس کی واضح دلیل حضرت عمار یاسرؓ کا واقعہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ذکر فرمایا:
مَنْ كَفَرَ بِاللہِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ۰ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۱۰۶ (النحل ۱۶:۱۰۶) جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس چیز نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کرلیا اُس پر اللہ کا عذاب ہے۔
حضرت عمارؓ بیان فرماتے ہیں کہ: وہ مشرکین کے ہتھے چڑھ گئے اور اس وقت تک انھیں نہیں چھوڑا گیا، جب تک انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہہ کر ان کے باطل معبودوں کی تعریف نہیں کردی۔ جب نرغے سے نکل پائے تو روتے ہوئے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے، تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عمارؓ! کیا بات ہے؟ آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مشرکوں نے پکڑ لیا تھا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میں نے آپ کی شان میں گستاخانہ کلمات نہیں کہہ دیے اور ان کے جھوٹے معبودوں کا ذکر خیر نہیں کر دیا۔ تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کہو، دل کی کیفیت کیا ہے؟ تو عرض کیا: دل ایمان پر مطمئن ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اگردوبارہ ایسی حالت میں گرفتار ہوجائو تو اسی طرح کرو۔{ FR 780 }
اس کی دوسری مثال شدت مسرت و فرحت میں، بغیر قصدو ارادے کے، کلماتِ کفر کا زبان پر جاری ہوجانا ہے، جیسے حضرات انس بن مالک، عبداللہ بن مسعود، نعمان بن بشیر، براء بن عازب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَـلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہِ حِیْنَ یَتُوبُ اِلَیْہِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ بِاَرْضِ فَلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْھَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ فَأَیِسَ مِنْھَا فَأَتَی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِی ظِلِّھَا قَدْ أَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہِ فَبَیْنَا ھُوَ کَذٰلِکَ اِذَا ھُوَا بِھَا قَائِمَۃً عِنْدَہُ فَأَخَذَ بِخِطَامِھَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ : اَللّٰھُمَّ اَنْتَ عَبْدِی وَاَنَا رَبُّکَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ { FR 781 }
حضرت حارث بن سویدؓ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس ان کی عیادت کے لیے حاضر ہوا ۔ وہ بیمار تھے تو انھوں نے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں۔ انھوں نے کہا: میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ پر اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتا ہے، جو ایک سنسان اور ہلاکت خیز میدان میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی سواری ہو، جس پر اس کا کھانا پینا ہو، پھر وہ سو جائے، [لیکن] جب بیدار ہو تو دیکھے کہ اس کی سواری جاچکی ہے۔ وہ اس کی تلاش میں نکلے ،یہاں تک کہ اسے سخت پیاس لگے۔ پھر وہ کہے: میں اپنی جگہ پر سوجائوں یہاں تک کہ مرجائوں، پس اس نے اپنے سر کو اپنی کلائی پرمرنے کے لیے رکھا [لیکن جب]پھر بیدار ہوا تواس کی سواری اس کے پاس ہی کھڑی ہو اور اس پر اس کا زادِراہ اورکھانا پینا ہو۔ پھر زیادہ خوشی کی وجہ سے وہ یہ غلط کلمات کہہ دے: ’’اے اللہ! تو میرا بندہ اور مَیں تیرا رب ہوں‘‘ تو اللہ تعالیٰ مومن بندے کی توبہ پر اس آدمی کی سواری اور زادِ راہ ملنے کی خوشی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص ایسے کفریہ کلمات دہشت، ذہول و نسیان کی کیفیت میں، یا کسی علمی یا شرعی فائدے کی خاطر ذکر کرے تو اس پر کوئی گرفت نہیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس شخص کے کلمات کا ذکر کیا۔{ FR 782 }
توہینِ رسالت کے حوالے سے ظاہر حال کو ترک کرکے، دلی کیفیت اور قلبی نیت کو قبول کرنے کی ایک واضح مثال حضرت موسٰی کا قصہ ہے، جس کو خود قرآنِ مجید نے نقل کیا ہے:
اور موسٰی جب غصے اور رنج میں بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف پلٹے۔ آتے ہی انھوں نے کہا: ’’بہت بُری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے ربّ کے حکم کا انتظار کرلیتے؟‘‘ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارون ؑ) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا۔ ہارون ؑ نے کہا: ’’اے میری ماں کے بیٹے! اِن لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مارڈالتے، پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر۔ تب موسٰی نے کہا: اے ربّ، مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے‘‘۔(الاعراف ۷:۱۵۰، ۱۵۱) …[پھر فرمایا:] ’’پھر جب موسٰی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اُٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے، جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں‘‘۔(الاعراف ۷:۱۵۴)
دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ: lموسٰی نے کوہِ طور سے ملنے والی، اللہ کے کلام کی اَلواح [تختیوں] کو نیچے پھینک دیا۔ وہ مقدس اَلواح گرنے کے بعد ٹوٹ گئیں۔ اس واقعہ کی تفصیل حدیث میں آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ : لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ ، اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ أَخْبَرَ مُوسٰی بِمَا صَنَعَ قَوْمُہُ فِی الْعِجْلِ ، فَلَمْ یُلْقِ الْالْوَاحَ ، فَلَمَّا عَایَنَ مَا صَنَعُوا ، أَلْقَی الْالْوَاحَ فَانْکَسَرتْ { FR 783 }
پاکستان کو بالآخر ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) سے اُسی کی شرائط پر معاملہ کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف کیا ہے؟ معاہدے کے بنیادی نکات کیا ہیں؟ اور ان کے کیا اثرات متوقع ہیں؟ ان کو علمی اور معروضی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ برادرم وقار مسعود نے نہایت سادہ اور عام فہم زبان اور معروضی انداز میں ان پہلوئوں کی وضاحت کی ہے اور معیشت کی اس زبوں حالی پر بھی مختصراً روشنی ڈالی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی ہے اور قوم کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ اس تحریر کی روشنی میں عام قاری کو صورتِ حال سمجھنے میں مدد ملے گی۔ البتہ یہ امر سامنے رہنا چاہیے کہ آئی ایم ایف ہو یا عالمی بنک، یہ نئے عالمی سامراجی معاشی نظام کا حصہ ہیں۔ جہاں یہ ادارے متاثرہ ممالک کو ان کی معاشی مشکلات میں کچھ ریلیف اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہیں عالمی استحصال کے نظام کی گرفت بھی مضبوط تر بناتے ہیں۔اصل مسئلہ انصاف اور حقوق و فرائض کی مؤثر ادایگی کی ضمانت دینے والے ایک معاشی نظام کے قیام کا ہے اور ہم اس سے دُور کیے جارہے ہیں۔ ملک کی متوازن معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کا انحصار ایک حقیقی اسلامی فلاحی معیشت اور ریاست کے قیام پر ہے ، صدافسوس اس کی طرف پیش قدمی دُور دُور تک نظر نہیں آرہی۔ پہلے بھی ۲۱معاہدے آئی ایم ایف سے ہوچکے ہیں۔ اب یہ بائیسواں معاہدہ وقتی ریلیف سے زیاد کیا اثرات ڈالے گا، اس پر بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ پھر یہ بھی غورطلب بات ہے کہ یہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف کے اعلامیے میں منی لانڈرنگ اور FATF کا ذکر ہے، جو خالص سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا بلاواسطہ کوئی تعلق آئی ایم ایف کے دائرۂ کار سے نہیں۔ یہ بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ (ادارہ)
مئی ۲۰۱۹ء میں حکومت اور ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (IMF) کے درمیان اسٹاف کی سطح پر معاہدہ طے پاگیا۔ اس کی توثیق آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ کرےگا۔ امید ہے یہ پروگرام جون کے آخر تک قابلِ استفادہ (operational) ہوجائے گا۔ اس مضمون میں ہم اس پروگرام کا پس منظر، آئی ایم ایف کے طریق کار، پروگرام کے ممکنہ اہداف اور ان پر عمل درآمد سے معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔
نئی حکومت کی آمد کے ساتھ ایک گرم بحث اس پروگرام کے حوالے سے جاری تھی۔ ماہرین معاشیات کی ایک بڑی تعداد اس خیال کی حامل تھی کہ معیشت کی بگڑتی صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ:’’پاکستان فوراً آئی ایم ایف سے رابط کرے اور جلد از جلد ایک پروگرام میں شامل ہوجائے‘‘۔ اس کے برخلاف حکومت کے لیڈر حضرات اپنی انتخابی مہم کے دوران کی جانی والی نعرہ بازیوں (rhetoric) کے اسیر بنے ہوئے تھے۔ وہ بین الاقوامی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے اور قرضوں پر چلنے والی معیشت کو بُرا بھلا کہتے رہتے تھے۔ حکومت کا بار سنبھالنے کے بعد اس کے بوجھ کی حقیقت کے لازمی تقاضوں کو سمجھنے اور قبول کرنے میں انھیں بڑی مشکل پیش آرہی تھی اور وقت کا بہائو تیزی سے گھائو لگا رہا تھا۔ اس ذہنی انتشار میں وہ صحیح فیصلے کرنے میں ناکام رہے۔ آئی ایم ایف سے گریز کی حکمت عملی پہلے انھیں دوست ممالک سے قرضوں کے حصول کی طرف لے گئی۔جس سے کچھ عرصہ کے لیے معیشت کو لا حق دیوالیہ پن (default) کا خطرہ ٹل گیا۔ اس دوران معیشت انھی خطوط پر چلتی رہی جن پر وہ چلتی آرہی تھی۔ لہٰذا، یہ وسائل بھی استعمال ہوگئے اور ملک پھر دیوالیہ ہونے کے دھانے پر پہنچنے لگا۔
بالآخر حکومت کو احساس ہوا کہ خوف ناک معاشی دبائو سے نبٹنے کے لیے وہ صحیح راستے پر نہیں چل رہی اور دوسری مشکل یہ کہ اس کی معاشی ٹیم بھی مطلوبہ استعداد کی حامل نہیں ہے۔ بیچ منجدھار، حکومت نے بڑے پیمانے پر اس ٹیم میں تبدیلی کرکے نئے کھلاڑیوں کو شامل کردیا۔ جس انداز میں یہ تبدیلیاں کی گئیں اور بعد ازاں ان ساتھیوں کی جو درگت بنائی گئی اس پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس تبدیلی کے پیچھے پارٹی میں موجود گروہ بندی اور باہمی رقابت کا بھی کردار ہے۔مزید برآں یہ تبدیلی ایسے موقعے پر کی گئی، جب کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہورہے تھے۔ یوں یہ تبدیلی حکومتی ٹیم میں انتشار اور افتراق کی عکاسی کررہی تھی۔ مذاکرات میں شامل ہونے والی ٹیم کس قدر اس نئے پروگرام سے متفق ہے اور کس وابستگی کے ساتھ اس کی کامیابی کے لیے کوشاں ہوگی؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
قبل اس کے ہم آئی ایف پروگرام کا جائزہ لیں یہ ضروری ہے کہ اس ادارے کا مختصراً تعارف پیش کیا جائے۔ آئی ایم ایف درحقیقت امداد باہمی کے اصول پر وجود میں آنے والا ایک ادارہ ہے۔ اقوام عالم نے دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹-۱۹۴۵ء)کی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اس کو قائم کیا تھا۔ نئی دنیا میں جنگ سے بچنے اور معاشی ترقی کو باہمی تعاون سے فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے ایک پورے خاندان کو تشکیل دیا گیا۔ جس میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک شامل ہیں، وجود میں لایا گیا۔
آئی ایم ایف کا فرضِ منصبی یہ رکھا گیا کہ: ’’ممبر ممالک میں اگر بیرونی ادایگیوں کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو ان کی معاونت کی جائے کیونکہ ایک مربوط دنیا میں ایک ملک کے دیوالیہ ہونے سے معاشی عدم استحکام کی وبا پھوٹ سکتی ہے اور ساری دنیا کو اس کے بُرے اثرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘‘۔ آئی ایم ایف کا چارٹر اس کو یہ ذمہ داری تفویض کرتا ہے کہ :’’اگر کوئی ملک ایسی پریشانی میں درخواست کرتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے تو وہ یہ مدد فراہم کرے گا‘‘۔ وقت گزرنے کے ساتھ مدد کا یہ سلسلہ ایک باقاعدہ پروگرام کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب مدد مانگی جائے تو آئی ایم ایف ان عوامل کا بغور جائزہ لے، جو اس صورتِ حال کو پیدا کرنے کا باعث بنے اور ان کی درستی اور اصلاح کے لیے اقدامات تجویز کرے۔ مدد مانگنے والا اس کا پابند ہوگا کہ ان اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جن نظریات پر مبنی ہے، وہ دنیا میں غیر متنازعہ نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز نے جو سفارشات مرتب کی ہیں اور جن کو بورڈ آف گورنرز نے منظور کرلیا ہے، وہی اب پروگرام کو منظم کرتی ہیں۔ اس لیے کسی ایک رکن ملک کو ان شرائط کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس مروجہ طریق کار کے تحت آئی ایم ایف یہ تصور کرتا ہے کہ: ’’بیرونی ادایگیوں میں عدم توازن کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ملک اپنی برآمدات سے کہیں زیادہ درآمدات کررہا ہوتا ہے اور ایک حد کے بعد اس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اس تفاوت کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور نہ اس کے لیے بیرونی ذرائع سے مزید قرضوں کے حصول کا کوئی راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ اس تصور کے بعد اصلاح کا ذریعہ صرف یہ رہ جاتا ہے کہ یا تو فوری طور پر برآمدات کو بڑھایا جائے یا پھر درآمدات کی مانگ (ڈیمانڈ) کو کم کیا جائے۔ برآمدات کو بڑھانے کا عمل طویل المدت اور صبر آزما ہوتا ہے، جس کے اثرات فوری طور پر مرتب نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس کے لیے ملک میں نئی پیداواری صلاحیت کو شروع کرنا اور پھر بیرونی منڈیوں میں فوری کھپت کے مواقع تلاش کرنا فوراً ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں درآمدات کی مانگ کو کم کرنا نسبتاً آسان کام ہے، جو ان کی قیمت کو بڑھا کر کیا جاسکتا ہے، یعنی کسی حد تک شرح تبادلہ (ایکسچینج ریٹ) کو کم کرکے (غیر ملکی کرنسی کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں کمی )۔ علاوہ ازیں اس مانگ میں اس طرح بھی کمی کی جاسکتی ہے کہ حکومت کے اخراجات کو کم کیا جائے۔ درحقیقت بیرونی ادایگیوں کا خسارہ ، بجٹ کے خسارے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجٹ کا خسارہ، جب کہ وہ ایک مناسب حد سے زیادہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اندر درآمدات کو بڑھانے کا باعث بھی بنتا ہے۔ لہٰذا، اس کو قابو میں لا کر درآمدات کی مانگ کو کم کیا جاسکتا ہے‘‘۔
مختصر بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام دراصل: ’معیشت میں موجود وسائل سے بڑھی ہوئی مانگ یا اخراجات کو کم کرنے کا نسخہ ہے‘۔ یہ صورتِ حال مختلف ذرائع سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا بڑا حصہ تو بجٹ خسارے کی وجہ سے ہے، جو محصولات میں کمی اور اخراجات کی زیادتی سے پیدا ہوتا ہے۔ حکومت اپنے بجٹ کے علاوہ بھی معیشت میں قابل قدر اضافی مانگ کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے پبلک سیکٹر انٹرپرائز زکی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ادارے خسارے میں چل رہے ہیں، لیکن حکومت ان کے خسارے کو فوری طور پر اپنے بجٹ میں قبول نہیں کرتی ہے۔مزید برآں اس میں ایک بڑا تفاوت اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب حکومت گیس، بجلی اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اتنا اضافہ نہیں کرتی جتنا کہ ان کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس فرق کو بصورت مالی رعایت (subsidy) بجٹ سے ادانہیں کی جاتی، جس سے معیشت میں کم قیمتوں پر رسد تو فراہم ہوجاتی ہے، لیکن اس کی قیمت حکومت پر اُدھار رہ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یا تو قیمتوں کو حقیقی سطح پر رکھا جائے یا اس طرح کے معاملات کو شفاف طریقے سے بجٹ میں دکھایا جائے اور مالی نظم و ضبط کا بلا استثنا لحاظ رکھا جائے۔ دوسری جانب نجی شعبہ بھی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کا کردار خصوصاً اس حوالے سے پیدا ہوتا ہے، جب کہ ملک میں شرح تبادلہ اس کی حقیقی قدر سے زائد رکھی ہوئی ہو۔ علاوہ ازیں یہ مانگ شرح مارک اپ کی کمی کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ اس کمی کی وجہ سے قرضوں کی لاگت کم ہوتی ہے اور ان کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔
یہ تو پروگرام کے تقاضے ہوگئے۔ اس کے ذریعے جو مدد حاصل ہوتی ہے اس کو بھی سمجھ لیا جائے۔ اپنی شرائط کی موجودگی میں آئی ایم ایف ملکی معیشت کا ایک تین سالہ خاکہ بناتا ہے اور اس میں پیدا ہونے والے وسائل کی کمی کا اندازہ لگاتا ہے، جس کو مالیاتی شگاف (Financing Gap) کہا جاتا ہے۔ اس کمی کو آئی ایم ایف اپنے اور اپنے ساتھی اداروں، یعنی عالمی بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ذریعے پورا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ ان بگڑے ہوئے معاشی حالات میں یہ مدد زرمبادلہ کی گرتی شکل کا بہرحال خاتمہ کردیتی ہے اور معیشت پر اعتبار قائم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جو بالآخر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرتا ہے اور ملک میں سرمایہ کاری کا عمل شروع ہونے کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے، جو ایسی نمو پیداوار کا باعث بنتا ہے جو قابل انحصار وسائل سے حاصل ہوتی ہے۔
اس پس منظر میں ہم موجودہ پروگرام کے ممکنہ خدوخال کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔اس پروگرام کے بڑے اہداف میں چار عناصر شامل ہوں گے:
زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے پروگرام یہ شرط عائد کرے گا کہ: ’’اسٹیٹ بنک، مارکیٹ سے زرمبادلہ خریدے‘‘ جو اس کی قیمت پر اثر انداز ہوگا۔ امید کرنی چاہیے کہ بجٹ خسارے میں کمی، درآمدات میں مطلوبہ کمی فراہم کردے اور خریدنے کا عمل محدود رہے۔ پروگرام کی ایک شرط جس کا بڑا چرچا ہے وہ شرح تبادلہ کو آزاد چھوڑنے کا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ: ’’اسٹیٹ بنک پر یہ پابندی ہوگی کہ وہ زرمبادلہ کے ذخائر اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا، جس میں روپے کی آزادانہ حرکت پر اثر انداز ہوا جائے، ما سواے اس کے کہ کوئی غیرمعمولی واقعات ہورہے ہوں اور نظم کو بحال کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ ایک معقول شرط ہے، جو معیشت کو نظم و ضبط سے چلانے کے لیے ضروری ہے۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس پروگرام کے فوری طور پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے جتنے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہوگی ،وہ لوگوں کے لیے بڑی تکلیف کا باعث ہوگا۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب اس سال ایف بی آر کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تمام مراعات اور چھوٹ جو حاصل ہیں اور خصوصاً وہ جو گذشتہ حکومت نے انفرادی ٹیکس گزاروں کو دی تھیں، واپس لینا پڑیں گی۔ موجودہ ٹیکس گزاروں کو اضافی ٹیکس کا سامنا ہوگا، مثلاً جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ دوسری جانب سواے ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کے، کسی اور خرچے کو کم کرنا آسان نہیں ہوگا، جب کہ آئی ایم ایف یہ تقاضا کررہا ہے کہ ترقیاتی اخراجات کو قائم رکھا جائے اور دیگر کو کاٹا جائے۔ ان میں سب سے بڑا حصہ ان مالی رعایتوں (سبسڈی) کا ہے، جو ریلوے ،بجلی، گیس، برآمدات وغیرہ پر دی جاری ہے، اسے ختم کیا جائے گا۔ اس کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔ علاوہ ازیں حکومت کو بہت سے محکموں کو ختم کرنا پڑے گا۔ دفاتر کے دیگر اخراجات اور تزئین و آرایش کے خرچوں کو بھی مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ ان تمام اقدامات کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہوں گے جس کو برداشت کرنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بنک سے قرضہ لینے پر پابندی اور موجودہ سطح کو تیزی سے کم کرنے کے لیے، بنکوں اور قومی بچت کے ذرائع سے قرضوں کے حصول کو بڑھانا ہوگا۔ لیکن اس کے لیے شرح مارک اَپ میں اضافہ ناگزیر سمجھا جائے گا، جس سے قرضوں پر سود کی لاگت میں اضافہ ہوگا جو بجٹ کا خسارہ کم کرنے کی کوششوں کو مجروح کرے گا۔ اس میں آسانی صرف اس شکل میں آئے گی، جب آئی ایم ایف کا پروگرام بیرونی قرضوں کے راستے کھول دے، جو اضافی وسائل فراہم کرے گا اور یوں مقامی وسائل پر بوجھ کم ہوجائے گا۔
مندرجہ بالا صورتِ حال ایک مخدوش و شکستہ معیشت کی عکاسی کررہی ہے۔ ماضی قریب میں جب بھی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے گیا ہے، اس کو اس قدر بُرے معاشی حالات کا سامنا نہیں تھا۔’پائے رفتن، نہ جائے ماندن‘ کے مصداق پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے آسان راستے موجود نہیں ہیں ۔ نئے مشیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ ہماری گزارش ہوگی کہ وہ وزیر اعظم کے سامنے اس مخدوش و شکستہ صورتِ حال کو بلاکم و کاست بیان کردیں اور یہ بھی بتا دیں کہ اس کی درستی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم مشکل ترین اور تکلیف دہ فیصلے کرنے کے لیے تیا ر ہوجائیں۔ اس میں شارٹ کٹ کی کوئی گنجایش باقی نہیں ہے۔ وزیراعظم کے لیے لازم ہے کہ قوم کو اعتماد میں لیں اور انھیں پارلیمنٹ کا تعاون ناگزیر طور پر لینا ہوگا۔ کیونکہ پروگرام میں کیے جانے والے اقدامات سے عوام سخت متاثر ہوں گے۔ لہٰذا، حزب اختلاف کے تعاون کے بغیر قومی اتفاق راے ممکن نہیں ہوگا۔
یہ بات بھی کسی قدر تشویش کا باعث ہے کہ پروگرام کے حصول کے موقعے پر ماضی میں جو گرم جوشی کا سماں ہوتا تھا، وہ اس دفعہ مفقود تھا۔ اسی طرح مارکیٹ نے بھی اس کا استقبال کسی مثبت ردعمل سے نہیں کیا ہے۔ وہ بے یقینی جو اس پروگرام کے بعد ختم ہوجانی تھی وہ ابھی تک باقی ہے۔ اس میں بڑا کردار معلومات کی کمی ہے۔ مشیر خزانہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کو ایک مختصر انٹرویو دیا اور آئی ایم ایف نے واشنگٹن سے ایک پریس ریلیز جاری کی، جو عمومی معلومات کی حامل تھی اور اس میں پروگرام کی جملہ تفصیلات موجود نہیں تھیں۔ عموماً ایسے موقعوں پر پریس کانفرنس کی جاتی ہے، جو ضروری معلومات کی فراہمی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پروگرام سے متعلق معلومات جلد از جلد عوام تک پہنچائی جائیں تاکہ بے یقینی کا خاتمہ ہو۔
آخری بات یہ ہے کہ اس پروگرام کی موجودگی میں یہ توقع باندھی جارہی ہے کہ ہماری بگڑتی معاشی صورتِ حال سنبھل جائے گی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ دل جمعی سے ذمہ داریاں ادا کی جائیں۔ کیوں کہ پروگرام کے حصول سے زیادہ مشکل کام اس کو لے کر آگے چلنا ہے، جو تین سال کی طویل مدت پر محیط ہے، اور جس میں ہر سہ ماہی میں ایک جائزہ لیا جائے گا جس کو پاس کرنا ضروری ہوگا۔ کیا یہ حکومت اتنا بڑا کام مستقل مزاجی سے کرسکے گی؟
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران نام نہاد بھارتی سیکولرزم بُری طرح بے نقاب ہوچکا۔ بھارت کی ۷۲ سالہ تاریخ اقلیتوں کے ساتھ بدترین تشدد، خون ریز فسادات اور پڑوسی ملکوں کے اندر دہشت گردی کرانے کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء میں کانگریس کی حکومت قائم ہوتے ہی پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے سیکولرزم کا جو نقاب چہرے پر سجا لیا تھا، نریندر مودی کی قیادت میں وہ نقاب اُتر چکا ہے، پڑوسی ملکوں کو اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس عمل نے خود بھارت کا اصلی تنگ نظر برہمن چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ اس ایجنڈے پر بھارت ایک عرصے سے کام کر رہا ہے، جہاں تشدد پسند ہندوتنظیمیں عدم برداشت کو ہوا دے کر غیر ہندوئوں کے خلاف نفرت کی فضا کو الائو بناچکی ہیں۔ بہرحال بھارت کے سبھی لوگ نفرت کی آگ میں نہیں جل رہے، ان میں معتدل اور انصاف پسند لوگ بھی ہیں۔
انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی کو چھپانے کے لیے بی جے پی نے ملک کے اندر اور سرحدوں پر جارحانہ پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ ایودھیا کو رام کی جنم بھومی قرار دے کر تشددپسند ہندو قیادت نے ۲دسمبر ۱۹۹۲ء کو ۱۶ویں صدی کی تعمیرشدہ تاریخی بابری مسجد، ہندو بلوائیوں کے ذریعے شہید کرادی اور پھر ہندوئوں نے چُن چُن کر ملک بھر میں مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ ان فسادات میں کم از کم دو ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں بھاری اکثریت مسلمانوں ہی کی تھی۔
بی جے پی، پونے تین ایکڑ اراضی پر رام مندرکی تعمیر شروع کر کے زیادہ سے زیادہ ہندو ووٹ حاصل کرنے کی خواہش مند اور دو تہائی اکثریت سے بھارت کا آئین تبدیل کرکے اسے ہندو ریاست قرار دینا چاہتی ہے۔ مگر عدالتی کارروائیوں کی بنا پر یہ تعمیر شروع نہ ہوسکی۔ رام مندر تعمیر شروع ہونے کی صورت میں بی جے پی کے ووٹوں میں بہت زیادہ اضافہ متوقع تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بابری مسجد کا مقدمہ زیر التوا ہونے کی صورت میں نریندر مودی پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے؟ تو ہمارا جواب ’نہیں‘ میں ہوگا۔ اس مقدمے کی طوالت کا فائدہ بھی بی جے پی ہی کو پہنچ رہا ہے۔ نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ (ORF)کے سینیر فیلو نرنجن ساہوکا کہنا ہے کہ: ’جب تک یہ مسئلہ زندہ ہے، بی جے پی اس سے فائدہ اُٹھاتی رہے گی‘۔
بی جے پی بھارت کے اندر میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے جو جنگی جنون پیدا کرچکی ہے، اس کی بناپر سیاسی پنڈتوں کو یقین تھا کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ ایک محدود جنگ میں کامیابی حاصل کرلیتی تو دوتہائی ووٹ بآسانی ان کی جھولی میں آپڑتے۔ رات کی تاریکی میں ایک نام نہاد اسٹرے ٹیجک اسٹرائک میں مبینہ طور پر جیش محمد کے تربیتی مرکز پر حملہ کرکے، بالاکوٹ میں ۳۵۰’دہشت گرد‘مارنے کا دعویٰ کیا گیا۔ صبح کے وقت میڈیا جب اتنی بڑی خبرکی تصدیق کے لیے وہاں پہنچا تو انھیں ٹوٹے ہوئے چار درخت اور ایک کوے کی لاش ملی۔ حملے کی جگہ پر نہ کوئی عمارت تھی، نہ تربیتی مرکز۔ بعدازاں فضائی لڑائی میں پاک فضائیہ نے دو بھارتی جیٹ گرا کر نریندر مودی کے جنگی جنون کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ جس کے نتیجے میں مودی پارٹی کو فائدے کے بجاے نقصان ہوا ۔بھارتی حکومتوں اور میڈیا نے اپنے ملک کے اندر پاکستان کے خلاف اتنی نفرت پیدا کر رکھی ہے کہ آج ہرسیاسی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ خود کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ثابت کردے تو اسے زیادہ ووٹ ملیں گے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی مضبوط دفاعی اسٹرے ٹیجی کی بناپر بھارتی حکومت کو بّری فوج کے مختلف علاقوں میں عالمی سرحد کو پار کرکے پاکستان میں گھس جانے اور میزائلوں کے حملے کا منصوبہ بھی ترک کرنا پڑا۔ اس بارے میں پاکستانی میڈیا میں تفصیل سے خبریں آچکی ہیں، لہٰذا ہم یہاں بابری مسجد کے تنازعے کے ان پہلوئوں کو اُجاگر کریں گے، جو پاکستانی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے۔ اس سلسلے میں ان ہڈیوں کا کیا قصہ ہے جو بابری مسجد کی جگہ پر کھدائی سے نکل آئیں؟ یہ ہڈیاں کس کی ہیں؟ کیا برہمن اور مندروں کے باسی پہلے گوشت خور ہوتے تھے؟ پھر سوال یہ ہے کہ کس اُمید پر یہ کھدائی کرائی گئی تھی؟ کیا ثابت کرنا مقصود تھا؟ کھدائی سے ثابت کیا ہوا؟ اور اب بابری مسجد کی جگہ پہلے مندر ہونے کو ثابت کرنے کے لیے کیا کیا جھوٹ گھڑا جا رہا ہے؟
بابری مسجد پر ہندوئوں نے جو تنازع اُٹھایا تھا، اس پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ۲۰۱۰ء میں فیصلہ دیا تھا کہ: ’ایک تہائی زمین سُنّی وقف بورڈ کو دے دی جائے اور بقیہ دوگروپوں، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے حوالے کر دی جائے۔ بھارت کے مشہور قانون دان اور دانش ور جناب اے جی نورانی نے دوجلدوں میں اپنی فاضلانہ کتاب The Babri Masjid Question (مطبوعہ ۲۰۰۳ء) میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے بابری مسجد پر فیصلے کا نہایت گہرائی سے تجزیہ کرکے ہندوانتہا پسندوں کے دعوے کے تاروپود بکھیر دیے ہیں اور فیصلے کی کج روی کو آشکارا کیا ہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ۱۴؍اپیلیں داخل کی گئیں۔ جن پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی دستوری بنچ نے ۸مارچ ۲۰۱۹ء کو ایک سہ رکنی پینل تشکیل دیا کہ: ’وہ فریقین میں مصالحت کرانے کی کوشش کرے‘۔ پینل کو اپنی رپورٹ داخل کرنے کے لیے آٹھ ہفتے کا وقت دیا گیا۔ ایودھیا کے ایک قریبی قصبے فیض آباد میں بند کمرے میں۱۳مارچ کو پینل کا پہلا اجلاس ہوا۔ اس میں تمام فریقوں کے قانونی مشیروں سمیت ۵۰ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس کے بعد تین اجلاس مزید ہوئے۔ بعدازاں مسلم نمایندوں نے معذرت کرلی کہ رمضان کے مہینے کے دوران وہ اجلاسوں میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔
تازہ ترین صورتِ احوال یہ ہے کہ سہ رکنی کمیٹی نے اپنی عارضی سربمہر رپورٹ سپریم کورٹ کو جمعرات ۹مئی ۲۰۱۹ء کو پیش کردی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگئی کا کہنا تھا کہ: ’’ہم آپ کو نہیں بتا سکتے کہ کتنی پیش رفت ہوئی ہے؟ یہ ابھی صیغۂ راز میں رہے گی‘‘۔ مصالحتی کمیٹی کی مدت ۱۳مئی کو ختم ہورہی تھی۔ سپریم کورٹ نے جمعہ ۱۰مئی کو، ۱۵؍اگست کی آیندہ سماعت تک کمیٹی کو مزید تین مہینے کا وقت دے دیا۔ پانچ رکنی بنچ کا کہنا تھا کہ: ’’اگر مصالحت کار بہتر نتائج کے بارے میں پُرامید ہیں اور وہ مزید کچھ وقت چاہتے ہیں تو انھیں یہ وقت دینے میں کیا حرج ہے؟‘‘ پانچ رکنی بنچ میں ایک مسلم جج ایس عبدالنذیر شامل ہیں۔ اس موقعے پر عدالت نے تمام فریقوں کو اجازت دی کہ: ’وہ زیادہ سے زیادہ ۳۰جون تک اپنے اعتراضات داخل کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد کسی کو مصالحتی کوشش میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔دو انتہاپسند کٹر ہندو تنظیموں کے سوا مقدمے کے تمام ہی فریقوں نے ۱۵؍اگست تک توسیع کی حمایت کی ہے۔
مسلمانوں کی جانب سے ایک درخواست گزار مفتی حزب اللہ بادشاہ، جو جمعیۃ العلما ہند کے حاجی محمودصاحب کی جگہ اس مقدمے میں فریق ہیں، ان کا کہنا تھا: ’ہم سپریم کورٹ سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ اگر عدالت مثبت نتیجے کے بارے میں پُراُمید ہے تو ہم توسیع کی حمایت کرتے ہیں‘۔ ہندوئوں کی جانب سے اصل درخواست گزار نرموہی اکھاڑے کے مہنت دھرما داس نے کہا کہ: ’صدیوں پرانے تنازعے‘پر مصالحت کے لیے وقت کی توسیع کی مَیں حمایت کرتا ہوں‘۔ مسلمانوں کی جانب سے پہلے درخواست گزار اقبال انصاری کہتے ہیں کہ:’ پینل ۷۰سال پرانے کیس کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، تو ہم چند ماہ مزید انتظار کرسکتے ہیں‘۔ ہندوئوں کی جانب سے ایک اور درخواست گزار ہندو مہاسبھا کے صدر اچاریا چکرپانی نے بھی توسیع کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ: ’میں تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول حل نکل آنے کی اُمید کررہا ہوں۔ یہ ملک میں ہندو مسلم بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے زبردست قدم ہوگا‘۔
ہندو درخواست گزاروں میں سے ایک تنظیم رام جنم بھومی نیاس نے توسیع کی مخالفت کی ہے۔ مہنت گوپال داس کا کہنا ہے کہ: ’کیس کی سماعت ہرلحاظ سے مکمل ہوچکی ہے۔ اب سپریم کورٹ اپنا فیصلہ دے‘۔ دوسری تنظیم جو توسیع کی مخالفت کر رہی تھی وہ ’وشواہندو پریشد‘ (VHP) ہے۔ اس کے ترجمان شرادشرما کا کہنا تھا: ’ہم توسیع نہیں، بس اب آخری فیصلہ چاہتے ہیں‘۔ اس تنظیم کا مرکز ایودھیا میں کارسیوک پورم میں ہے۔ بابری مسجد کوشہید کرنے میں بڑی تعداد میں یہی کارسیوک بھی شامل تھے۔ دونوں ہندو تنظیمیں نریندر مودی کا ووٹ بنک بڑھانا چاہتی تھیں۔
یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لیے کتنی حوصلہ افزا ہے؟ ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ کے سینیر فیلو نرنجن ساہو، جن کا ذکر اُوپر گزر چکا ہے، اس بارے میں قطعی پُراُمید نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’مصالحتی کوشش ناکام رہے گی اور بالآخر عدالت ِ عظمیٰ یہ کہہ دے گی کہ: ’’مسئلے کے قانونی حل کے تمام امکانات ختم ہوچکے ہیں، اس لیے اب پارلیمنٹ ہی اس معاملے کو نمٹانے کے لیے قانون سازی کرے‘‘۔ بنیادی طور پر یہ مقدمہ زمین کی ملکیت سے شروع ہوا، لیکن ہندو انتہاپسند اسے مذہبی رنگ دینے میں کامیاب ہوگئے۔ عدلیہ جانتی ہے کہ سیاسی طور پر انتہائی حساس مذہبی معاملے کا وہ فیصلہ نہیں کرسکتی۔ چنانچہ اس نے مصالحت کرانے کی راہ اپنائی۔ اس میں ناکامی ہوئی تو وہ کہہ دے گی کہ اسے سیاسی طور پر حل کیا جائے‘‘۔
سہ رکنی مصالحتی پینل کے سربراہ سپریم کورٹ کے ایک سابق مسلم جج، جسٹس ایف ایم خلیفۃ اللہ ہیں۔ ان کے بارے میں عام راے یہ ہے کہ ’’وہ بس نام کے ہی مسلمان ہیں‘‘۔ کمیٹی کے ایک رکن ہندوئوں کے روحانی گرو اور آرٹ آف لیونگ فائونڈیشن کے بانی سری سری روی شنکر اور دوسرے رکن سینیر ایڈووکیٹ سری رام پنچھو ہیں۔ سری سری روی شنکر کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا پارلیمانی بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ: ’دونوں فریقوں کے وقار کا لحاظ رکھتے ہوئے انصاف کیا جائے‘، جب کہ جمعیۃ العلما ہند کے رہنما مولانا محمود مدنی کہتے ہیں کہ: ’سری سری کمیٹی سے ہم کسی مثبت اور خوش گوار رویے کی توقع نہیں رکھتے‘۔
بابری مسجد کے انہدام کی بنیاد ’رامائن‘ کے عنوان سے بننے والے ایک ٹی وی شو نے رکھی۔ جس نے ۱۹ویں صدی میں گھڑے جانے والے اس جھوٹ کو پُرکشش کہانی کے انداز میں پیش کیاکہ: ’’یہ رام دیوتا کی جنم بھومی ہے اور یہاں ان کا مندر ہوتا تھا، جسے شہنشاہ ظہیرالدین بابر کے جنرل میرباقی نے منہدم کر کے یہاں مسجد بنوا دی‘‘۔ اسے بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنالیا، بالآخر مسجد شہید کر دی گئی۔ الیکشن جیتنے کے بعد بی جے پی نے اپنی مقامی مخلوط صوبائی حکومت کے تعاون سے رام مندر کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایا۔ ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد کو پورا یقین ہوگیا تھاکہ مندر کی جگہ مسجد بنائی گئی تھی۔ اس ناٹک کے ذریعے ہندو انتہا پسند پارٹی حکومت میں آئی اور اس مشن پر گامزن چلی آرہی ہے کہ یہاں مندر بنوا کر وہ کئی اَدوار تک حکومت کرتی رہے گی۔
بات عدالت تک پہنچی۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سہ رکنی بنچ میں دو ہندو اور ایک مسلمان جج تھے۔ مسلمان جج ایس یوخان کے خیال میں: ’’آثارِ قدیمہ کے شواہد کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ سیدھا سادا ملکیت کا کیس تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پہلے یہاں کون رہتا تھا‘‘۔ جن ماہرین آثارِ قدیمہ کو مسلمانوں کی جانب سے آبزرور کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ: ’’ملکیت کے ایک مقدمے میں ججوں کو تاریخ اور آثارِ قدیمہ کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے تھا‘‘۔ لیکن ان دو ججوں نے جی پی آر (Ground Penetrating Radar)کرایا، جس سے اندازہ ہوا کہ نیچے کوئی ڈھانچا یا اس کے کچھ آثارموجود ہیں۔ عدالت نے ’آثارِ قدیمہ سروے آف انڈیا‘(ASI) کو کھدائی کی ہدایت کردی۔
یہاں سے ان ہڈیوں کی کہانی شروع ہوتی ہے جو بابری مسجد کے نیچے کھدائی پر ہر صدی کی سطح سے مل رہی تھیں۔ یہ گائے، بیل اور بکریوں کی پکی ہوئی اور کھائی ہوئی ہڈیاں تھیں۔ اس کے علاوہ انسانی ڈھانچے تھے۔ ان ہڈیوں کا ملنا، محکمہ آثارِ قدیمہ کے کھدائی کرنے والے ماہرین کے لیے دردِ سر بن گیا۔ ان ہڈیوں کو اگر وہ ریکارڈ کرنا شروع کر دیتے تو مندر کا ڈھانچا کیسے کھڑا کرپاتے؟ سوال پیدا ہوتا کہ: ’’کیا رام کے مندر کے برہمن پجاری اپنی گائوماتا کو کاٹ کر کھا جایا کرتے تھے اور مندر کے دوسرے باسی بھی گوشت کھایا کرتے تھے؟‘‘ چنانچہ حکمِ حاکم ملتے ہی تمام مزدور بالٹیاں بھر بھر کر کھدائی میں ملنے والی تمام ہڈیاں پھینکتے رہے۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈیزکے چیئرمین اور ہندستان کے قرونِ وسطیٰ کے اَدوار کی تاریخ کے پروفیسر سیّد علی ندیم رضوی کہتے ہیں کہ: ’’اے ایس آئی افسران ہڈیوں کے ملنے سے سخت پریشان تھے۔ وہ اس ثبوت کو ضائع کرنا چاہتے تھے۔ ہماری آنکھوں دیکھتے وہ ساری ہڈیاں چُن چُن کر بالٹیوں میں بھربھر کر پھینکتے جارہے تھے۔ گائے، بکریوں اور بیلوں کی ان پکی ہوئی ہڈیوں سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ یہ کبھی مندر رہا ہی نہیں تھا‘‘۔ پروفیسر رضوی کہتے ہیں کہ: ’’ہمارے اصرار کے باوجود اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں ان پکی ہوئی ہڈیوں کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ وہ تو کسی کے کہنے پر مندر کا ثبوت لانا چاہتے تھے۔ رام کے نام پر بنے ہوئے وشنومندر سے جانوروں کی پکی اور کھائی ہوئی ہڈیاں کیسے مل سکتی تھیں؟‘‘
جسٹس سدھیر اگروال نے اپنے فیصلے میں اے ایس آئی کی رپورٹ کو شان دار، ہرلحاظ سے مکمل اور درست قرار دیتے ہوئے لکھا کہ: ’’اے ایس آئی مذمت کے بجاے تعریف کی مستحق ہے‘‘۔ انھوں نے آزاد ماہرین آثارِقدیمہ کے اس اعتراض کو مسترد کر دیا کہ: ’’خود عدالت نے کھدائی میں ملنے والی ہڈیوں کی تعداد اور جہاں ممکن ہو، ان کا سائز، نیز جتنے چکنے برتنوں کے ٹکڑے ملیں، ان کو ریکارڈ کیا جائے‘‘۔لیکن اب جسٹس اگروال نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ: ’’ یہ ہڈیاں گڑھے اور کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھیں، لہٰذا ان کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے ‘‘۔ کیا خوب، جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔پروفیسر علی ندیم رضوی کا اصرار ہے کہ: ’’اُوپر نیچے ہرصدی کی جو سطح بنتی ہے، ان سب سے ہڈیاں ملی ہیں۔ یہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ گذشتہ صدیوں میں یہاں پر جو لوگ بھی رہے ہیں، وہ سب گوشت خور تھے اور یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ مندروں میں رہنے والے گوشت نہیں کھاتے‘‘۔ اس نکتے کے جواب میں جسٹس اگروال کی نکتہ آفرینی سامنے آئی کہ: ’’بعض مندروں میں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے اور ان کا گوشت پرساد کے طور پر کھایا جاتا ہے اور ہڈیاں فرش کے نیچے دبا دی جاتی ہیں‘‘۔ اس نکتے کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ: ’’بعض دیوی دیوتائوں، مثلاً کالی ماتا، یاما اور شیوا پر جانور قربان کیے جاتے ہیں، مگر وشنو کے چرنوں پر کبھی قربانی نہیں کی جاتی۔ اور ہندو تو یہاں رام کے مندر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وشنو دوسرے جنم میں رام بن کر آیا ہے۔ چلیں اگر قربانی مان بھی لی جائے تو جانوروں کے پوری ڈھانچے ملنے چاہییں تھے۔ اِدھر اُدھر پڑی ہوئی چھٹی چھوٹی ہڈیاں نہیں‘‘۔ اپنے فیصلے میں جسٹس اگروال نے ایک اور مضحکہ خیز نکتہ یہ اُٹھایا کہ: ’’اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بابری مسجد جس جگہ بنائی گئی ہے، وہاں پہلے بھی مسجدیں ہوتی تھیں اور مندر نہیں تھا، تو اسلامی صحیفے تو یہ کہتے ہیں کہ عبادت گاہوں کو رہایش، کھانے پینے اور سونے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اس نکتے کے جواب میں پروفیسر علی ندیم رضوی کا کہنا تھا کہ: ’’مجھے نہیں معلوم جسٹس اگروال نے یہ بات کہاں سے نکالی ہے؟ مسجدوں میں تو گوشت کھایا جاسکتا ہے۔ خودپیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سوئے ہیں۔ ہاں، البتہ مندروں میں گوشت نہیں کھایا جاسکتا‘‘۔
چنانچہ رپورٹ کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں میں الفاظ کی جنگ آج تک جاری ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تنازعے نے مزید شدت اختیار کرلی۔ آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ: ’’اے ایس آئی کو مندر کی موجودگی نکالنے کی جو ’ذمہ داری‘ سونپی گئی تھی، وہ اس نے پوری کردی‘‘۔ رپورٹ کی حمایت کرنے والے مخالفین پر الزام لگاتے ہیں کہ: ’’وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں‘‘۔ پروفیسر رضوی اس پر کہتے ہیں کہ: ’’میں سُنّی وقف بورڈ کا مداح ہوں اور نہ وہ میرے مداح ہیں۔ میں نہ تو مسلمان ہوں اور نہ سُنّی، بلکہ کمیونسٹ ہوں، جس سے یہ[بورڈ والے] لوگ نفرت کرتے ہیں‘‘۔
سُنّی وقف بورڈ نے دو ہندو ماہرین آثارِ قدیمہ کی خدمات حاصل کی تھیں کہ وہ اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ اے ایس آئی کا عملہ کھدائی کے دوران ضابطے کی پابندی کرتا رہے۔ ان میں ایک سپریاور ماتھے، جو جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی میں آثارِ قدیمہ کے پروفیسر ہیں، دوسرے جے مینن جوشیونادر یونی ورسٹی میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے کھدائی کے نگراں بی آر مانی کے خلاف عدالت میں شکایت جمع کرائی تھی کہ وہ قواعد و ضوابط کا پاس و لحاظ نہیں رکھ رہے، جس پر ہائی کورٹ نے بی آر مانی کو سربراہی سے ہٹانے کا حکم جاری کیا، مگر وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ آخر تک سربراہی کرتے رہے۔ بعدازاں مودی حکومت نے مانی کو ۲۰۱۶ء میں نیشنل میوزیم کا ڈائرکٹر جنرل مقرر کر دیا۔
سُنّی وقف بورڈ کے آبزرور پروفیسر ورما کہتے ہیں کہ: ’’کھدائی کے دوران سرے سے کوئی ایک ثبوت بھی نہیں ملا کہ بابری مسجد کی جگہ کبھی کسی صدی میں بھی یہاں مندر رہا تھا۔ البتہ یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ماضی میں اس جگہ پر صدیوں پہلے بھی مساجد رہی ہیں‘‘۔ ۴۷۵صفحات پر پھیلی رپورٹ میں جتنے بھی ابواب ہیں، ان میں ایک بھی باب کھدائی میں ملنے والی ہڈیوں پر نہیں ہے۔
’’اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں مندر کی موجودگی کے لیے تین ثبوت پیش کیے ہیں: ۱- مغربی دیوار ۲- ۵۰ستونوں کی بنیادیں اور ۳- چند عمارتی ٹکڑے جو کسی طور پر بھی مندر کے نہیں ہیں۔
’’جہاں تک مغربی دیوار کی موجودگی کا تعلق ہے، تو وہ تو واضح طور پر مسجد ہونے کا ثبوت ہے کیوںکہ برصغیر کے ملکوں میں مسلمانوں کا قبلہ مغرب کی طرف ہے اور نمازوں میں ان کا رُخ مغربی دیوار کی طرف ہوتا ہے، جب کہ مندروں کا تعمیراتی پلان مختلف ہوتا ہے۔مندروں میں مغربی دیوار کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اب جہاں تک دوسرے ثبوت کا تعلق ہے، تو جن ۵۰ ستونوں کی دریافت کا اے ایس آئی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے، وہ دراصل ٹوٹی ہوئی اینٹیں ہیں جن کے نیچے کیچڑ ہے۔ کیا کوئی ذی عقل یہ کہہ سکتا ہے کہ کیچڑ پر ستون کھڑے کیے جاسکتے ہیں؟ اے ایس آئی نے دراصل اُوپر والوں کے کہنے پر ستونوں کی بنیاد کی کہانی بنائی ہے۔ جہاں تک تیسرے ثبوت کا تعلق ہے تو اے ایس آئی نے جو چار پانچ سو عمارتی ٹکڑے اکٹھے کیے ہیں، ان میں سے صرف دو اہم ہیں۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان میں کوئی ایک بھی اس کھدائی کے دوران نہیں ملا۔ یہ سب بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس کے ملبے سے اُٹھائے گئے ہیں۔ ان میں ایک آدھا ٹوٹا ہوا ٹکڑا ایسا ہے جو انسانی مجسمے کی طرح لگتا ہے، اسے مرد اور عورت کا دیومالائی مجسمہ قرار دے دیا گیا۔ اس ٹکڑے کے بارے میں ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کس دور کا ہے؟ وہ کہیں سے بھی آسکتا ہے۔ اگر یہاں کبھی مندر ہوتا تو اس کی عمارت پتھر کی ہوتی اور ملبے سے بے شمار مجسمے ملنے چاہییں تھے۔ ان نام نہاد ’ثبوتوں‘ کی بنیاد پر مندرکی موجودگی کا دعویٰ کرنا بہت بڑا اختراع اور جعل سازی ہے۔
پروفیسر ورما نے ایک دل چسپ انکشاف یہ بھی کیا کہ: ’’اے ایس آئی کی رپورٹ کے ہرباب پر لکھنے والے کا نام درج ہے اور پوری رپورٹ کے کسی باب میں بھی مندر کا ذکر نہیں ہے، مگر رپورٹ کے آخر میں جہاں نتائج اخذ کیے گئے ہیں وہاں کسی کا نام نہیں ہے، اور تین مذکورہ بالا ثبوتوں کا ذکر کرکے کہا گیا ہے کہ ان سے پتا چلتا ہے کہ مسجد کی تعمیر سے پہلے یہاں مندر تھا، حالاں کہ ان ثبوتوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہاں گذشتہ صدیوں میں مساجد ہوتی تھیں‘‘۔
مشرق وسطیٰ میں جہاں اس وقت امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی عروج پر ہے، وہیں فلسطین کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ، یورپی یونین، ان کے عرب حکمران اور اسرائیل ایک فارمولے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں، جس کو ’ڈیل آف سنچری‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ چند ماہ قبل دہلی کے دورے پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے عندیہ دیا تھا کہ: ’’سابق امریکی صدر بارک اوباما جس خاکے کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں‘‘۔
آئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن، اسرائیل کی چیف ربائیٹ، یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل (AJC) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔یہ واشنگٹن میں طاقت ور ترین لابی ہے، جس نے ’بھارت -امریکا‘ جوہری معاہدے کو کانگریس اور سینیٹ سے منظوری دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیا ن بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم چلے آرہے ہیں۔ وہ سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ایما پر قائم کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلیجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ: ’’جہاں ایک طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، آئے دن ان پر حملے ہو رہے ہیں، آخر امن آئے گا تو کیسے؟‘‘تو ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود ایک حقیقت کا ادراک یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ہو گیا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس بات کا اندازہ ۱۹۷۳ء کی جنگِ مصر اور بعد میں ۲۰۰۶ء میں جنگ ِلبنان کے موقعے پر ہی ہوگیا تھا ، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے‘‘۔روزن کا کہنا تھا کہ: ’’توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اسرائیل چاہے تو سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر پھر مقبوضہ علاقوںکی آبادی کو بھی ملک میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودیوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ لاحق ہوگا۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں ، جن میں ۶۰لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اس لیے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے لیے بھی اپنی بقا کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ کے لیے شاید اس لیے بھی ضروری ہے کہ شام کے بحران میں اگر کسی کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے تو وہ روسی صدر ولادی میر پوتن ہیں۔ اس سے قبل شاید ہی روس کا مشرقِ وسطیٰ میں اس قدر مفاد وابستہ تھا۔
جب میں نے ربی ڈیوڈ روزن سے پوچھا کہ: ’’اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو تو خود کئی بار د و ریاستی فارمولے کو مسترد کر چکے ہیں؟‘‘، تو ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کے رویے میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں، مگر یک ریاستی حل کسی بھی طور پر اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک اسٹیٹ کا مطلب ہے کہ مستقبل میں عرب اسٹیٹ کا قیام اور یہودی اسٹیٹ کا خاتمہ‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزایش نسل یہودیو ں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ ۱۹۶۷ءمیں عرب، اسرائیل کی آبادی کا ۱۴ فی صد تھے ، جو اب لگ بھگ ۲۲ فی صد ہو چکے ہیں۔یہ وہ مسلمان ہیں جنھوں نے اسرائیل کی شہریت اختیار کی ہوئی ہے اور وطنی طور پر اسرائیلی-عرب کہلاتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اسرائیل کسی بھی صورت میں ۵۰لاکھ فلسطینی مہاجروں کو واپس لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ جن ممالک میں و ہ پناہ گزین ہیں ، انھی کو ان کی مستقل رہایش کا بندوبست کرنا پڑے گا ،کیوںکہ مغربی کنارہ اور غزہ بھی شاید ان کو بسا نہیں پائے گا‘‘۔
ربی ڈیوڈ روزن کا مزید کہنا تھا کہ: ’’القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں اسرائیل کی نسبت عرب ممالک کے لیے زیادہ خطرہ ہیں۔ اس لیے اسرائیل کے ساتھ معاہد ہ کرنا ان عربوں کے مفاد میں ہے۔ اس وقت خلیجی ممالک سعودی عرب، اردن، مصر وغیرہ سبھی مسئلہ فلسطین کا حل چاہتے ہیں، کیونکہ فلسطین کے نام پر ہی دہشت گر د تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں اور تشدد کا جواز فراہم کراتی ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کی صورت میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین مکالمے کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے‘‘۔ انھوں نے یاد دلایا کہ: ’’یہودی ، اسلام سے زیادہ عیسائیت سے خائف رہتے تھے اور مختلف ادوار میں عیسائیوں نے ان پر خوب ظلم ڈھائے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس میں یہ بھی کہوں گاکہ مسلم حکومتوں کے اَدوار میں یہودی پکنک تونہیں منا تے تھے، مگر بہترحالات میں تھے۔اگر اس قدر خوں ریز تاریخ کے ہوتے ہوئے بھی عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کو معاف کرکے مفاہت کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں ، تو آخر اسلام اور یہودی کیوں نہیں‘‘۔
صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کی طرف سے فلسطینی مسئلے کا جو فارمولا فی الحال منظرعام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا نہ کردے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں کہ مغربی کنارہ و غزہ پر مشتمل علاقے کو نئی فلسطینی اسٹیٹ قرار دینا ہے۔ فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔یا تو ان کو اس نئی فلسطینی اسٹیٹ میں رہنا ہوگا یا جس ملک میں مقیم ہیں وہیں ضم ہونا پڑے گا۔
۱۹۹۳ء میںاوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا اور ۴۰ لاکھ کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارے میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام الفتح کی قیادت کی حامل فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، یعنی پی ایل او کے پاس ہے اور غزہ میں اسلامک گروپ حماس برسرِ اقتدار ہے۔ جہاں پی ایل او اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، وہاں حماس فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اس لیے ان کو منسلک کرنے کے لیے اسرائیلی علاقوں سے ۳۰میٹر اُوپر ایک ۱۰۰کلومیٹر طویل فلائی اوور بنایا جائے گا، جس کے لیے چین سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔
متوقع معاہدے کی رُو سے اسرائیل مرحلہ وار فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میںلائے گا اور اس میں تین سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا۔ شہر میں مکین عرب مسلمان اسرائیل کے بجاے فلسطین کے شہری ہوں گے۔ ان کی بہبود ،تعلیم و صحت کے لیے نئی فلسطینی اسٹیٹ اسرائیلی بلدیہ کو رقوم فراہم کرے گی۔ الاقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہے گی، یعنی یہ بدستور اردن کے اوقاف کے زیرنگرانی رہے گا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود فرماںروا سبھی تین حرمین، یعنی مکہ ، مدینہ و مسجد اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔
اسرائیل، مسجد اقصیٰ کے تہہ خانے تک رسائی کا خواہش مند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے ، تاکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک سرنگ بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانے میں ہی معبد سلیمان کے کھنڈرات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مصر ، فلسطینی ریاست کے لیے ایر پورٹ، کارخانہ لگانے اور زراعت کے لیے زمین فراہم کرے گا، مگر اس زمین پر فلسطین کے مالکانہ حقوق نہیں ہوں گے، نہ وہ اس پر بس سکیں گے۔ امریکا، پورپی یونین اور خلیجی ممالک اگلے پانچ سال تک فلسطینی ریاست کو انتظام و انصرام کے لیے ۳۰؍ارب ڈالر کی رقم فراہم کریں گے۔ اس میں ۷۰ فی صد خلیجی ممالک ،۲۰ فی صد امریکا اور ۱۰ فی صد یورپی ممالک دیں گے۔ یہ رقم ہرسال ۶؍ارب ڈالر کی صورت میں خرچ کی جائے گی۔نئی فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی،مگر ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی ۔ صدی کی اس ڈیل پر دستخط ہونے کے بعد حماس اپنے تمام ہتھیار مصر کو سونپ دے گا۔ ایک سال کے اندر انتخابات ہوں گے۔ غزہ کے راستے اسرائیل اورمصر کی سرحدیں نقل و حمل اور تجارت کے لیے کھول دی جائیں گی۔ اسی طرح اردن اور مغربی کنارے کی سرحدکی تین چیک پوسٹیں فلسطینی حکام کے حوالے کی جائیں گی۔
اس پورے معاہدے میں ترکی کے کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے ، جس نے پچھلے سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈلوانے میں قائدانہ کردار ادا کرکے امریکا کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔چند برس قبل امریکی صدر بارک اوباما کی حوصلہ افزائی پر مسلم ممالک سعودی عرب ، مصر اور ترکی نے مصالحت کا کردار ادا کرکے حماس کو قائل کرلیا تھاکہ وہ مغربی کنارے کی محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی مجوزہ براہِ راست بات چیت میں روڑے نہیں اٹکائے گا اور نہ بات چیت میں شریک افراد کو غداری وغیرہ کے القابات سے نوازے گا۔ تاہم، اس سعی سے اگر معاہدے کی صور ت میں کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو درحقیقت یہ طے ہوا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں ریفرنڈم کرایا جائے گا اور عوامی قبولیت کی صورت میں سبھی فریقوں کو منظور ہوگا۔
دوسال قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ: ’’آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’حماس ۲۰۰۶ء کے ’نیشنل فلسطین اکارڈ‘ پر کار بند ہے، جس کی رُو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی، مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسی لحاظ سے ہمیں طاقت ور بننے کی ضرورت ہے‘‘۔
چند برس قبل ان علاقوں کا دورہ کرکے میں نے محسوس کیا کہ عرب ممالک اور امریکی امداد کے بدولت غزہ کے مقابلے میں مغربی کنارے میں خاصی خوش حالی اور ترقی نظر آتی ہے۔ جریکو قصبے میںایک عالی شان کیسینو (جواخانہ) کے علاوہ مختلف شہروں رملہ، حبرون (الخلیل)، بیت اللحم میں نئے تھیٹرکھل گئے ہیں، جہاں تازہ ترین ہالی وڈ فلمیں دیکھنے کے لیے بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ جریکو کے کیسینو میں اسرائیلی علاقوں سے جوئے کے شوقین یہودی بھی داؤ لگانے کے لیے ہر رات پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کی جاے پیدایش بیت اللحم کے چرچ آف نیٹیوٹی یا کنیستہ المھد اور یروشلم کے درمیان مشکل سے ۱۰کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مگر وہاں کے مکینوں کے لیے یہ صدیوں پر محیط ہے۔ وہ اسرائیلیوں کی اجازت کے بغیر یروشلم نہیں جاسکتے ہیں۔ وہ صرف دُور سے اس شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اسکول کے استاد نے بتایا کہ: ’’چودہ سال قبل، میں ایک بار یروشلم گیا تھا اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی تھی‘‘۔ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں کو محصور کرکے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی ہے۔ یروشلم سے بحرمُردار (Dead Sea) جانے کے لیے یہودیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو الگ راستہ بنائے گئے ہیں اوران کے بیچ میں اونچی دیوار ہے۔ یہ نسل پرستی کا ایک بد ترین مظاہرہ ہے۔ اردن اور فلسطین کے درمیان بحرمُردار میں نمک کی مقدار ۳۰ فی صد سے زیادہ ہے، اس لیے اس میںکوئی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔یہ وہی سمندر ہے جس میں حضرت لوط ؑ کی قوم تباہ و برباد ہوگئی تھی۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے۴۰۰میٹر نیچے ہے۔ چونکہ اس سمندر میں کوئی ڈوب نہیں سکتا، یہاں سیاح آرام سے پانی کی سطح پر لیٹ کر اخبار وغیرہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی ایک کثیر ملکی کمپنی اس سمندر سے کان کنی کرکے دنیا بھر میں جلدکی خوب صورتی اور علاج کے لیے Dead Sea Products سپلائی کرتی ہے۔ اس بحر کی تہہ کو جلدی امراض کے علاج کے لیے استعمال کرنے کا سہرا کراچی سے منتقل ہونے والے پاکستانی یہودی سائنس دان زیوا گلاڈ کے سر ہے۔
اسرائیلی علاقوں کے رکھ رکھائو اور تر قی دیکھ کر جہاں یورپ اور امریکا بھی شرما جاتا ہے، وہیں چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی فلسطینی علاقوںکی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سیاحو ں کو دیکھ کر بھکاری لپک رہے ہیں، نو عمر فلسطینی بچے سگریٹ، لائیٹر وغیرہ کچھ ایسی چیزیں بیچنے کے لیے آوازیں لگا رہے ہیں۔ ایک جم غفیر نے پانی کے ایک ٹینکر کے آس پاس حشر برپا کیا ہوا تھا۔ پھول جیسے بچے کتابوں کے بستوں کے بجاے پینے کے پانی کے حصول کے لیے دھینگا مشتی کر رہے تھے۔ شہر کے گورنر صالح التماری سے جب استفسار کیا، تو ان کا کہنا تھا، کہ: ’’پانی کے سبھی ذرائع پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور وہ صرف ایک مقدار تک فلسطینی علاقوں میں پانی فراہم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہفتوں تک ٹینکر نہیں آتا ہے‘‘۔ ان کے مطابق: ’’اسرائیل نے کربلا جیسی کیفیت برپا کی ہوئی ہے‘‘۔
گورنر سے ملاقات کے بعد جب ہمارے وفد کے دیگر اراکین مارکیٹ میں خریدوفروخت کر رہے تھے، میں چند فلسطینی نوجوانوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان گورنر کے ساتھ ہماری بریفنگ میں بھی موجود تھا۔ اس نے کہا ، کہ: ’’کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پانی آخر کہاں جاتا ہے اور عوام تک کیوں نہیں پہنچتا ہے؟‘‘ جب میں نے ہاں کہا، تو اس نے مجھے اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ چند لمحوں کے تذبذب کے بعد میں اللہ کا نام لے کر سوار ہوگیا۔بعد میں اس جرأت کا خمیازہ مجھے واپسی پر تل ابیب ایئر پورٹ پر بھگتنا پڑا۔ جب وہاں سیکورٹی اہلکار نے یہ کہہ کر مجھے چونکا دیا، کہ: ’’تم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر ایک فلسطینی کے موٹر سائیکل پر کہاں گئے تھے؟ ‘‘
خیر چند گلیوں سے گزرنے کے بعد ہم ایک پوش علاقے میں وارد ہوگئے تو اس نوجوان نے کہا کہ: ’’فلسطینی اتھارٹی کے عہدے داران اسی علاقے میں رہتے ہیں‘‘۔ ایک عالی شان مکان کے گیٹ کے باہر موٹر سائیکل روک کر اس نے گھنٹی کا بٹن دبایااور عربی میں آواز بھی لگائی۔ خیر کسی نے دروازہ کھول کر علیک سلیک کے بعد اندر جانے دیا۔ مکان کے مالک شاید موجود نہیں تھے۔ جس نے بھی دروازہ کھولا تھا، وہ ملازم ہی لگ رہا تھا۔ مکان کے ارد گرد وسیع باغیچہ اور ایک وسیع سوئمنگ پول بنا تھا۔ ایک اور مکان کا بھی یہی حال تھا۔ معلوم ہوا کہ مکین یا تو رملہ میں یا بیرون ملک دورے پر گئے ہیں۔کربلا جیسے حالات میں جہان عام فلسطینی العطش کی صدائیں بلند کر رہا تھا، لیڈروں کے ذریعے پانی کا یہ ضیاع تکلیف دہ مشاہدہ تھا!
درخشاں نامی ایک خوبرو اور پڑھی لکھی لڑکی کو اس کے والدین میرے پاس لے کر آئے۔ وہ شادی کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی۔ عام طور پر اس کی وجہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ: ’’لڑکی ہمارے تجویزکردہ رشتے سے خوش نہیں ہے، یا کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہے، یا مزید تعلیم حاصل کرنا اور کیریئر کو آگے بڑھانا چاہتی ہے‘‘۔ لیکن درخشاں کا ان میں سےکوئی بھی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کی انجینیرنگ مکمل ہوچکی تھی۔ اب نہ اسے مزید پڑھائی سے دل چسپی تھی اور نہ وہ نوکری کرنا چاہتی تھی۔ وہ کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ والدین کے لیے یہ فطری طور پر پریشانی کی بات تھی۔
درخشاں کے اس انکار کی وجہ وہی اندیشے تھے، جو اس عمر کی اکثر لڑکیوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ درخشاں نے مجھ کو بتایا کہ: ’’میری شادی شدہ سہیلیوں نے بتایا کہ تنہا رہنا ہی بہتر ہے، اور اسی طرح زندگی کا زیادہ بہتر لطف اُٹھایا جاسکتا ہے۔ میری سہیلیاں ہمیشہ اپنے شوہروں کے غلط رویوں کا ذکر کرتی ہیں اور مجھ سے مشورے بھی مانگتی ہیں۔ یہ ساری باتیں مجھے پریشان کرتی اور شادی سے خوف دلاتی ہیں۔ میں شادی کے خلاف نہیں ہوں مگر مجھے ناخوش رہنے اور زندگی کا مزا کھودینے سے خوف آتا ہے‘‘۔ اس نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ: ’’یہ جو فلموں اور ڈراموں میں دکھاتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی شادی کرنے کے لیے تڑپتے ہیں، اور بعد میں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں۔ کیا یہ سب حقیقت میں بھی ہوتا ہے؟ ‘‘
اس کی وجہ کیاہے؟ اس وجہ کو ہم سمجھ جائیں تو شاید اَزدواجی زندگی کے بیش تر مسائل پر قابو پالیں اور اپنے معاشرے کو اَزدواجی تنازعات کی لعنت سے پاک کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک لڑکی کو اپنے اطراف و اکناف میں بہت کم خوش و خرم اور پُرجوش جوڑے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی عجیب باتیں پختہ روایات کا درجہ اختیار کرچکی ہیں۔ ’ساس بہو کی چپقلش‘ فلم، ڈرامے ، افسانے اور ناول سے لے کر گھریلو گپ بازیوں تک، ہرجگہ کا روایتی موضوع بن چکا ہے۔ یہ سب عناصر مل مل کر لڑکی کے اندر یہ یقین پیدا کردیتے ہیں کہ ’ساس ایک نہایت ظالم مخلوق کا نام ہے‘۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے دماغ کے دو اجزا بنائے ہیں: ایک شعور (Conscious Mind) اور دوسرا لاشعور (Unconscious Mind)۔ شعور دماغ کا وہ حصہ ہے جس پر ہمارا کنٹرول ہوتا ہے، جس سے کام لے کر ہم فیصلے کرتے، سوچتے اور مسائل حل کرتے ہیں۔ یہیں ہم چیزوں کو یاد رکھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل لاشعور دماغ کا وہ حصہ ہے، جس پر ہمارا کنٹرول نہیں ہوتا۔ یہیں سے ہماری عادتیں چال ڈھال اور جذبات نمو پاتے، ہمارے رویے اور مزاج ڈھلتے ہیں۔
پیدا ہونے سے پہلے سے، یعنی شکم مادر کے اندر سے اب تک، جو کچھ باتیں ہم سنتے، دیکھتے، محسوس کرتے اور پھر اس دنیا میں تجربہ کرتے آئے ہیں، وہ بھی ہمارے لاشعور میں محفوظ ہوتی چلی جاتی ہیں اور ہمارے رویوں اور عادتوں کو جنم دیتی ہیں۔ بچپن کا ایک ناخوش گوار تجربہ ہمیں یاد بھی نہیں رہتا، لیکن ہمارے لاشعور میں محفوظ رہتا ہے، اور اس نامعلوم تجربے کی وجہ سے زندگی بھر ہمارا مزاج چڑچڑا اور غصیلا بن جاتا ہے۔ ہماری ہر عادت، ہر رویہ اور شخصیت کا ہرپہلو اسی طرح تخلیق پاتا ہے۔ اچھے رویے کے لیے ضروری ہے کہ لاشعور کی اچھی تہذیب و تربیت (پروگرامنگ) ہو۔
اب اگر کوئی لڑکی اپنے لاشعور میں یہ تصور لے کر سسرال میں قدم رکھے کہ: ’’ساس، نند، جٹھانی، یہ سب نہایت ظالم لوگوں کے نام ہیں، جب کہ خوشی میکے ہی میں ملتی ہے۔ سسرال تو بس مشقت اور آزمایش کی جگہ ہے‘‘ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ سسرال اور سسرالی رشتہ داروں سے متعلق ہرمعاملے کو خوف اور شک کے زاویے ہی سے دیکھے گی۔ نند کی چھوٹی سی غلطی بھی بہت بڑی نظر آئے گی۔ جن باتوں پر ماں ہمیشہ ٹوکتی تھی، انھی میں سے کسی بات پر ساس کچھ کہہ دے تو یہ بڑا ظلم ہوگا (اس طرح کے غلط تصورات ساس کے دماغ میں بھی ہوتے ہیں اور اس کا بہو کے ساتھ رویہ واقعتاً خراب ہوسکتا ہے لیکن اس وقت چونکہ ہمارا موضوع لڑکیوں کی رہنمائی ہے،اس لیے اس کا ذکر مَیں نہیں کررہی ہوں)۔ ان لاشعوری تصورات کا اثر لڑکی کے رویے پر پڑے گا۔ وہ سسرال میں کسی کو اپنا سمجھے گی ہی نہیں، اور لاشعور میں موجود غیریت کا یہ احساس اس کی آواز، لہجے، حرکات و سکنات اور اس کے عمل، ہرچیز سے ظاہر ہوگا۔ ایک طرف کی سردمہری، دوسری طرف بھی سردمہری کو فروغ دیتی، بلکہ بڑھاتی ہے۔
اگر آنے والی بہو کے رویوں سے مستقل ناپسندیدگی اور غیریت ظاہر ہورہی ہو، تو سسرال والے محبت و اپنائیت کا جذبہ بھی رکھتے ہوں تو یہ جذبات بھی دھیرے دھیرے معدوم ہوجاتے ہیں اور بہت جلد دوطرفہ تلخیوں کے دور کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف سسرالی رشتہ داروں سے بلکہ شوہر سے بھی تنازعات شروع ہوجاتے ہیں۔ میرے پاس جو کیس آتے ہیں، ان کی روشنی میں، مَیں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اکثر ناکام شادیوں کی ناکامی کے عوامل، لڑکی یا لڑکے کے ماںباپ ان کی شادی سے بہت پہلے پیدا کرچکے ہوتے ہیں۔ لڑکی کے ماں باپ، اس کا ایسا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں کہ وہ ایک اچھی بیوی یا اچھی بہو کا کردار ادا کرنے کے لائق ہی نہیں رہتی یا لڑکے کے ماں باپ اور دوست احباب، اس کا ایسا لاشعور بنا چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو خوش رکھنے کی نفسیاتی اور جذباتی لیاقت ہی سے محروم ہوچکا ہوتا ہے۔
اس لیے خاندانی زندگی کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ دولھا اور دلھن کو ایک تربیتی کورس سے گزارا جائے۔ آج کل معمولی معمولی کام بھی تربیت کے بغیر حوالے نہیں کیے جاتے۔ عقد نکاح تو ایک بہت بڑا کام ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے کا ایک نہایت اہم ادارہ، یعنی ’خاندان‘ وجود میں آتا ہے۔ ایک کم عمر اور ناتجربہ کار لڑکی اور ایک نوعمر لڑکا، مل کر ایک ایسے ادارے کا نظام سنبھال رہے ہوتے ہیں، جس کی معاشرے میں بڑی اہمیت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کو تربیت اور رہنمائی کے عمل سے گزارا جائے (آج کل غیرمسلم معاشروں میں اس طرح کے کورس اور شادی سے قبل کونسلنگ یا مشاورت کا عمل بہت رواج پاچکا ہے)۔
مشاورت کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کے دوران میں ایک عیسائی پادری (فادر) ہمارا ہم جماعت تھا، جو چرچ میں ازدواجی مشاورت کے کام پر مامور تھا۔ اسے چرچ نے دنیا کے کئی ملکوں میں بھیج کر مہنگے کورس کرائے تھے۔ ان کے ذریعے معلوم ہوا کہ: ’چرچ میں مشاورت اور کونسلنگ اور خاندانی زندگی کی تربیت کا بہت پاے دار نظام بھی ہے اور عیسائی معاشرے میں اس کی مستحکم روایات بھی۔ چرچ کی باقاعدہ تربیت کے بغیر کوئی عیسائی جوڑا اپنی اَزدواجی زندگی شروع نہیں کرتا‘‘۔ میں نے کلاس میں بتایا کہ: ’’اسلام تو خاندانی زندگی کے سلسلے میں بہت تفصیلی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمارے علما نے لکھا ہے کہ اگر آپ کوئی کام کر رہے ہیں تو اس کام سے متعلق شریعت کا علم حاصل کرنا لازم ہوجاتا ہے‘‘۔
اس لحاظ سے اَزدواجی زندگی کے آغاز سے پہلے، اسلامی شریعت کی اس سے متعلق تعلیمات کو جاننا فرض ہے اور یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا مناسب انتظام کرے۔ شادی سے قبل کونسلنگ کے اس پروگرام میں درج ذیل اُمور کا احاطہ ہونا چاہیے:
وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۰ۭ (الروم ۳۰:۲۱) اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت و اُلفت پیدا کردی۔
تربیت دینے والی تربیت کار کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوشش کرے کہ سسرال کی نئی زندگی کو لڑکی ایک خوب صورت اور پُرکشش مہم کے طور پر لے۔ لڑکیاں اس مثبت تصور کے ساتھ سسرال میں قدم رکھیں گی، تو بدمزاج سسرالی رشتے داروں تک کے بھی دلوں کو جیت لیں گی۔ ممکنہ سسرالی رشتے داروں کا تعارف کرایا جائے۔
آج الحمدللہ ہمارے مسلم معاشرے میں ایسی ساسوں کی کمی نہیں جو بہوؤں پر مائوں کی طرح ہی پیار لٹاتی ہیں۔ ایسی مثالیں سامنے لائی جائیں۔ لڑکے کے ذہن کے تصورات کو درست کیا جائے۔ اس کے ذہن میں بیوی کا تصور اگر محض ایک ہمہ وقتی خادمہ کا ہے تو اس تصور کو درست کیا جائے۔ اسے بتایا جائے کہ بیوی کا مطلب کیا ہے؟ شریعت نے اسے کیا مقام اور کیا حقوق دیے ہیں؟ مختصر یہ کہ تربیتی پروگرام میں لاشعور کی اس طرح تربیت کی جائے کہ شوہر اور بیوی نہایت مسرت اور ولولے کے ساتھ، لیکن درست اور حقیقت پسندانہ تصورات کے ساتھ، اپنی نئی زندگی کا آغاز کرسکیں اور نہایت خوش گوار ماحول میں ایک نئے خاندان کا سنگ بنیاد نصب ہوسکے۔ اس کے لیے تربیت کار کو بہت سے واقعات سنانے ہوں گے۔
درج ذیل باتوں کی ضروری تربیت بھی اس تربیتی کورس کا حصہ ہونا چاہیے:
ایک اچھی تربیت کار، جو اسلام کی تعلیمات سے بھی واقف ہو اور رہنمائی و مشاورت کی جدید تکنیکوں سے بھی، وہ ان سب باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے ایسا تربیتی کورس بنا سکتی ہے، جو مفید بھی ہو اور نہایت دل چسپ بھی۔ کہانیوں، قصوں،مشقوں، کیس اسٹڈیز وغیرہ کی دل چسپ و مؤثر تکنیکوں کے ذریعے سے انھیں لڑکے اور لڑکی کے اندر ضروری تبدیلی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔
معروف مسلم سپہ سالار اور جلیل القدر تابعی حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ کی جاے پیدایش مکہ مکرمہ ہے، لیکن قبر الجزائر میں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ ہجرت سے ایک سال قبل آپ پیدا ہوئے تھے۔ صحابی ہونے کا شرف تو حاصل نہ ہوا، لیکن ایمان لانے کے بعد پوری زندگی میدان جہاد میں گزاردی۔ مصر و سوڈان سے لے کر سینی گال تک کے افریقا میں نُورِاسلام کا پہنچنا دیگر صحابہ کرامؓ کے علاوہ آپ کا صدقۂ جاریہ بھی ہے۔الجزائر کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع جس قصبے میں آپ مدفون ہیں، اس کا نام ہی سیدی عقبہ رکھ دیا گیا۔
کئی صدیوں بعد اسی بستی (سیدی عقبہ) میں ۲۸ فروری ۱۹۳۱ کو ایک شخصیت نے جنم لیا، جنھیں دنیا عباسی مدنی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ دنیا میں آئے تو کئی افریقی ممالک کی طرح الجزائر پر بھی فرانس کا قبضہ تھا۔ تعلیم اور جوانی کی منزلیں طے کرنے کے ساتھ ساتھ وہ فکر و شعور کے مدارج بھی طے کررہے تھے۔ ۲۳ سال کی عمر کو پہنچے تو ۱۹۵۴ میں فرانسیسی تسلط سے نجات کے لیے الجزائری عوام کی عظیم الشان جدوجہد ِآزادی شروع ہوگئی۔ یہ نوجوان عباسی بھی اس تحریک کا فعال حصہ بن گئے۔ کچھ روز بعد ہی فرانسیسی قابض فوج نے انھیں گرفتار کرلیا۔ پھر آٹھ سال جیل میں گزارنے کے بعد انھیں جیل سے اس وقت ہی آزادی ملی، جب ۱۹۶۲ میں خود الجزائر کو فرانسیسی قید سے آزادی حاصل ہوئی۔ تب یہ بات طے شدہ تھی کہ اگر الجزائر کی آزادی میں مزید کچھ عرصہ بھی تاخیر ہوجاتی تو عباسی مدنی سمیت کئی اسیرانِ آزادی کو پھانسی دے دی جاتی۔
جیل اور فرانس کی غلامی سے آزادی کے بعد انھوں نے مزید تعلیمی منازل طے کیں۔ ۱۹۷۸ء میں برطانیا سے پی ایچ ڈی کی اور دارالحکومت الجزائر (الجزائر کے دارالحکومت کا نام بھی الجزائر ہی ہے) کی بوزریعہ یونی ورسٹی میں تدریس سے وابستہ ہوگئے اور ساتھ ہی ساتھ دعوت و اصلاح کی جدوجہد بھی کرتے رہے۔ اس وقت ملک میں قانونی لحاظ سے صرف حکمران پارٹی ہی کو سرگرمیوں کی اجازت تھی۔ اخوان سمیت مختلف تحریکیں کام تو کرتی تھیں، لیکن انھیں کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔
آخرکار ایک عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ملک سے یک جماعتی نظام ختم ہوا۔ ۳نومبر ۱۹۸۸ء کو الجزائر میں سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی تو عباسی مدنی نے ڈاکٹر علی بلحاج اور ڈاکٹر عبدالقادر الحشانی جیسی دینی و قومی شخصیات کے ساتھ مل کر ۱۸فروری ۱۹۸۹ء کو اسلامی فرنٹ، الجبہۃ الاسلامیۃ للانقاذ (FIS) تشکیل دیا، جسے ستمبر ۱۹۸۹ء کو قانونی طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ اگلے برس ۱۲جون ۱۹۹۰ء کو بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ اسلامی فرنٹ نے ۱۵۳۹ بلدیاتی اداروں میں سے ۹۵۳ میں، اور ۴۸ بڑے شہروں میں سے ۳۲ میں کامیابی حاصل کرلی۔ اگلے برس دسمبر ۱۹۹۱ء میں قومی انتخابات کا پہلا مرحلہ عمل میں آیا تو اسلامی فرنٹ نے ۲۳۱ نشستوں میں سے ۱۸۸نشستیں حاصل کرلیں۔
اسلامی فرنٹ کا یہ کامیابی حاصل کرنا ایسا سنگین جرم تھا کہ جس کی پاداش میں اگلے پورے ۱۰برس الجزائر کو خون میں نہلا دیا گیا۔ الجزائری فوج نے عوامی راے پر ڈاکا ڈالا، جس پر عوام نے احتجاج کیا۔ جنوری ۱۹۹۲ء سے پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ فرنٹ کے ۲۰ ہزار کارکنان سمیت بڑی تعداد میں شہری گرفتار کرلیے گئے۔ پھر درجنوں نامعلوم مسلح تنظیمیں ظہور پذیر ہونے لگیں۔ الجزائری تاریخ میں ان دس برسوں کو خونیں عشرہ یا سرخ عشرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی دوران ایک دوسرے کی تکفیر کا فتنہ متعارف کروادیا گیا۔ جمہوریت کی دعوے دار سب مغربی قوتوں نے فوجی انقلاب کی سرپرستی کرتے ہوئے بالواسطہ یا بلاواسطہ ان مسلح تنظیموں کی سرپرستی کی۔
عباسی مدنی سمیت اسلامی فرنٹ اور دیگر اسلامی تحریکوں کی ساری قیادت یا تو جیلوں میں بند کردی گئی تھی یا شہید۔ نام نہاد عدالتی کارروائی کے بعد عباسی مدنی کو نقص امن کے نام نہاد الزام میں ۱۲ سال قید کی سزا سنادی گئی۔ ۷سال قید کے بعد ۶۲ سالہ مدنی صاحب کی صحت زیادہ خراب ہوگئی تو جولائی ۱۹۹۷ء میں جیل سے نکال کر گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ جہاں انھیں قید کے باقی پانچ سال دنیا سے منقطع رکھا گیا۔ فرنٹ کے دوسرے اور تیسرے نمبر کے رہنما علی بلحاج اور عبدالقادر الحشانی بھی ساتھ ہی رہا ہوئے۔ الحشانی کو دوسال بعد نامعلوم عناصر نے شہید کردیا، جب کہ شعلہ نوا خطیب علی بلحاج کو آج تک آئے دن گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عباسی مدنی ۱۲ سالہ قید کی مدت پوری ہونے کے بعد علاج کے لیے ملائیشیا چلے گئے اور وہاں سے قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل ہوگئے، جہاں ۲۴ ؍اپریل ۲۰۱۹ء کو انتقال کرگئے، اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
مناسب ہوگا کہ اس موقع پر اسلامی سالویشن فرنٹ (FIS) کی تشکیل و پس منظر کا مختصر جائزہ بھی لے لیا جائے۔ یہ ذکر تو آگیا کہ ۱۹۸۹ء سے پہلے ملک میں صرف ایک ہی پارٹی، یعنی حکمران جماعت کو کام کی اجازت تھی۔ لیکن غیر رسمی اور غیر علانیہ طور پر مختلف سیاسی و نظریاتی اطراف اپنی اپنی جدوجہد کررہی تھیں۔ اسلامی سوچ رکھنے والے عناصر تین حصوں میں منقسم تھے۔ الاخوان المسلمون کی عالمی تنظیم کے حصے کے طور پر جناب محفوظ نحناح کی سربراہی میں سرگرمیاں جاری تھیں۔ اخوان کے ہم خیال لیکن عالمی تنظیم سے الگ جناب عبداللہ جاب اللہ الگ جماعت رکھتے تھے۔ معروف اسلامی مفکر مالک بن نبی کی فکر سے منسلک لوگ الجزائر کی مرکزی جامع مسجد کو اپنا مستقر بنائے ہوئے تھے۔
نومبر ۱۹۸۲ء میں ان تمام علماے کرام او رقائدین نے جمع ہوکر ملک پر مسلط آمریت، الحاد اور کرپشن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ۱۴مطالبات پر مشتمل ایک ایجنڈے کا اعلان کیا، جن میں نفاذ شریعت، بالخصوص اقتصادی نظام میں اسلامی اصلاحات، عدلیہ میں اصلاحات اور ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات سرفہرست تھے۔ اس ایجنڈے میں ملک کی اہم اور حساس ذمہ داریوں پر اسلام دشمن عناصر کے واضح نفوذ کی بھی مذمت کی گئی تھی۔ مشترک ایجنڈے کے لیے مشترک سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا، یہاں تک کہ ۵؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کا دن آن پہنچا۔اس روز پوری قوم نے سڑکوں پر آکر جبرو استبداد سے لتھڑے نظام حکومت سے بغاوت کا اعلان کردیا۔ ۱۹۶۲ میں فرانسیسی قبضے سے آزادی کے بعد سے لے کر آج تک الجزائر کا اصل اقتدار و اختیار فوجی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ ۵؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کو اس عظیم الشان عوامی تحریک نے مقتدر قوتوں کو عوامی مطالبات ماننے پر مجبور کردیا۔ عوام اور ذرائع ابلاغ کو اظہار راے کی آزادی دی گئی۔ سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت ملی۔
سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت ملنے پر ۱۸ فروری ۱۹۸۹ کو اسلامی فرنٹ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اخوان کے ساتھیوں نے محفوظ نحناح کی سربراہی میں ’تحریک پُرامن معاشرہ‘ حرکۃ المجتمع الاسلامی (حماس) اور عبداللہ جاب اللہ نے تحریک نہضت اسلامی الجزائر بنانے کا اعلان کردیا۔ اخوان کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ: ’’عارضی طور پر اکٹھے ہوکر جماعت بنانے والوں کی کامیابی بھی عارضی ہوگی۔ اس لیے ہم اپنے دعوتی و تربیتی نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کی جدوجہد ہی جاری رکھیں گے‘‘۔ ۹۰ء کے بلدیاتی اور ۹۱ء کے قومی انتخابات میں اگرچہ اخوان کو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ تاہم، اسلام پسند ووٹروں کی غالب اکثریت نے کرپشن سے نجات اور ملک میں پہلی بار تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہوکر اسلامی فرنٹ کو ووٹ دیے۔ اسلامک فرنٹ (FIS) پر پابندی، گرفتاریوں اور پھر خوں ریزی کے دور میں فرنٹ کی ساری تنظیم بکھر گئی۔
اس وقت ملک میں کئی جماعتیں سرگرم عمل ہیں، جن میں سرفہرست اخوان کی ’تحریک پُرامن معاشرہ‘ (حمس) ہے۔ ملک پر اب بھی اصل اور مکمل اختیار فوج کو حاصل ہے۔ کرپشن کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ الجزائر اس وقت ایک دوراہے پر ہے۔ بے مثال عوامی تحریک کی وجہ سے بوتفلیقہ اقتدار کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ عوامی دھرنا اور تحریک ہنوز جاری ہے۔ تحریک کا مطالبہ ہے کہ حقیقی عوامی نمایندوں کو اقتدار کی منتقلی یقینی بنانے کے لیے فوجی عہدے داران سمیت بوتفلیقہ کے تمام مددگار مستعفی ہوں۔ ملک کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔
مرحوم عباسی مدنی نے وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین مادر وطن کی آغوش میں کی جائے لیکن عبوری حکومت نے اس کی اجازت نہ دی اور قطر ہی میں نماز جنازہ ادا کردی گئی۔ خود امیر قطر سمیت بڑی تعداد میں لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔ ساتھ ہی الجزائر میں سوشل میڈیا اور عوامی تحریک کے پروگراموں میں میت وطن واپس لانے کا مطالبہ شروع ہوگیا،حکومت کو بالآخر واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ جمعرات ۲۴ ؍اپریل کو دوحہ میں انتقال ہوا تھا۔ اتوار ۲۸ ؍اپریل کو الجزائر میں تدفین ہوئی۔ اس موقعے پر ترک صدر طیب اردوان نے مرحوم کے کفن میں رکھنے کے لیے ۱۳۰سال پرانے غلاف کعبہ کا ایک قیمتی ٹکڑا بھجوایا۔ یہ غلاف کعبہ معروف عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کی یادگار تھا۔ طیب اردوان نے یہ سوغات عباسی مدنی مرحوم کے صاحبزادے سلیم عباسی کو بھجواتے ہوئے پیغام دیا کہ: ’یہ نایاب تحفہ برادر اسلامی ملک الجزائر میں جہد مسلسل کی ایک علامت کے لیے ترک قوم کی دُعاؤں کی علامت ہے‘۔
الجزائر میں عباسی مدنی مرحوم کا جنازہ اٹھا تو تاحد نگاہ، پُرجوش لاکھوں عوام بیک زبان اور بلند آواز ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے: لا الہ إلا اللہ محمد رسول اللہ۔ علیھا نحیا و علیھا نموت ۔ فی سبیلھا نجاھد و علیھا نلقی اللہ۔ ’’ہم لا اِلٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی خاطر زندہ ہیں۔ اسی پر مریں گے، اسی کی خاطر جہاد جاری رکھیں گے اور اسی پر اپنے اللہ سے جا ملیں گے‘‘۔ یہ پُرعزم نعرے اس حقیقت کا اعلان تھے کہ الجزائری عوام کی غالب اکثریت آج بھی دین اسلام کی شیدائی ہے۔ وہ ملک و قوم کو اسی کلمے کے سایے تلے تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہے۔
اُردن کا ٹی وی چینل الاخوان المسلمون اُردن کے ۸۶ سالہ رہنما اوراردنی پارلیمنٹ میں تین بار اسپیکر رہنے والے عبداللطیف عربیات کا انٹرویو کررہا تھا۔سوال پوچھا گیا: ’’آپ نے اعلیٰ دینی و قومی خدمات انجام دیں، اب آپ کی کوئی اور تمنا و خواہش؟‘‘ کہنے لگے: ’’بس یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے اور آخری سانس تک اقامت دین کے لیے جدوجہد کی توفیق عطا کیے رکھے‘‘۔ چند ہی روز بعد جناب عربیات نماز جمعہ کے لیے مسجد پہنچے، ابھی خطیب جمعہ منبر پر نہیں بیٹھے تھے۔ مسجد کے ہال میں کھڑے ہوکر خلاف معمول ایک بار چھت کی جانب دیکھا اور نماز شروع کردی۔ ابھی چند ہی لمحے اپنے رب سے مناجات کی تھیں کہ بیٹھ گئے اور روح جنتوں کی طرف پرواز کرگئی۔
جناب عبداللطیف عربیات ۱۹۳۳ء میں اُردن کے شہر السلط میں پیدا ہوئے۔ ۱۷برس کی عمر میں الاخوان المسلمون سے وابستہ ہوگئے۔ پہلے اُردن میں تعلیم حاصل کی، پھر بغداد یونی ورسٹی عراق سے گریجویشن کی اور بعد میں ٹیکساس یونی ورسٹی امریکا سے ایم اے اور پی ایچ ڈی۔ اُردن واپس لوٹنے پر وزارت تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ اُردن کے نظام تعلیم اور تعلیمی نصاب میں انھوں نے اور ان کے قریبی ساتھی، اخوان کے ایک اور انتہائی باصلاحیت ذمہ دار ڈاکٹر اسحاق فرحان مرحوم نے بہت بنیادی اور دور رس اصلاحات کیں۔
ڈاکٹر عبداللطیف ۱۹۸۱ء میں اخوان کی جانب سے نہ صرف رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے بلکہ اپنی دل نواز شخصیت کے باعث لگاتار تین بار اسمبلی کے اسپیکر منتخب کیے گئے۔ اخوان نے دعوت و تربیت اور سیاسی اُمور کو الگ الگ کرتے ہوئے جبہۃ العمل الاسلامی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تو ڈاکٹر عبداللطیف عربیات کو اس کی سربراہی سونپی گئی۔ اُردن کے شاہ حسین نے قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنائی، جس کے ذمے ایک میثاقِ ملّی پر ملک کے مختلف مکاتب ِ فکر کو اکٹھا کرنے کا کام سونپا گیا۔ ڈاکٹر عربیات کو پہلے اس کمیٹی کا رکن، ۱۹۸۹ء میں اس کا سیکریٹری اور ۱۹۹۵ء میں اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
۲۰۱۶ء میں اُردن کے اخوان ایک بڑے اندرونی خلفشار کا شکار ہوگئے۔ ایک سابق سربراہ نے مزید کئی ذمہ داران کے ہمراہ تنظیم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اخوان ہی کے نام سے الگ جماعت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ نام اور جماعت کے اثاثہ جات کے بارے میں عدالتی دعوے تک نوبت جاپہنچی۔ اس موقعے پر بعض اطراف سے کوشش کی گئی کہ ڈاکٹر عربیات اخوان کے ایک دھڑے کے مرکزی ذمہ دار بنادیے جائیں۔ انھوں نے یہ کہہ کر ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا کہ: ’’تنظیم کی صفوں میں یک جہتی اور سمع و طاعت کا نظام وہ سرخ لکیر ہے جسے نہ تو کسی بھی صورت عبور کیا جاسکتا ہے اور نہ ملیا میٹ‘‘۔
مرحوم سے راقم کی کئی ذاتی یادیں بھی وابستہ ہیں۔ سوڈان کے دار الحکومت خرطوم میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہورہی تھی جہاں فلسطین، کشمیر اور افغانستان سمیت مختلف موضوعات زیربحث تھے۔ مرکزی سیشن کی صدارت ڈاکٹر عربیات کررہے تھے۔ مجھے کشمیر، افغانستان اور پاکستان کے بارے میں بات کرنا تھی۔ مختصر وقت جلد ختم ہوگیا تو گزارش کی کہ اس بھرپور عرب کانفرنس میں ایک عجمی مسلمان کو، ایک منٹ اضافی دے دیا جائے۔ صدر مجلس قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’عجمی چونکہ عربوں سے اچھی عربی بول رہا ہے اس لیے اضافی وقت نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ اضافی وقت تو نہ ملا، لیکن یہ واقعہ آیندہ ہماری ہر ملاقات کا عنوان بن گیا۔ جس مجلس میں ملتے خوش گوار لہجے، مسکراتے چہرے سے ملتے اور اس واقعے کا ذکر کرتے تو جواب میں عرض کرتا کہ ایک کامیاب اسپیکر کے طور پر ایک منٹ بھی اضافی وقت نہ دے کر سب کے ساتھ یکساں معاملہ رکھا۔ یقینا سچ فرمایا رب ذوالجلال نے: يُؤْتِي الْحِكْمَۃَ مَنْ يَّشَاۗءُ ۰ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۰ۭ (البقرہ ۲:۲۶۹)’’جسے چاہتا ہے دانائی عطا کرتا ہے اور جسے دانائی عطا ہوئی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبداللطیف عربیات کی وفات پر جتنا دکھ ان کے دوستوں اور احباب کو ہوا، اتنا ہی صدمہ اور افسوس ان کے مخالفین کو بھی ہوا۔
ان کی وفات پر اُردن سے تحریک کے ایک بزرگ اپنے جذبات بیان کررہے تھے۔ انھوں نے اطلاع تو اپنے ایک عزیز دوست اور عظیم شخصیت کی وفات کی دینا تھی، لیکن مرحوم اور قبلۂ اوّل کا ذکر لازم و ملزوم تھا۔ کہنے لگے: ’’بچپن سے ہمارا ایک معمول ہے کہ فلسطینی سرحد پر واقع تمام بستیوں کے تحریکی کارکنان ہر نمازِ جمعہ کے بعد کسی ایسی جگہ جاکر کھڑے ہوتے ہیں جو بیت المقدس سے قریب تر ہو۔ بظاہر یہ ایک بچکانہ عمل لگتا ہے، لیکن ہر نماز جمعہ کے بعد ۳۶۰ کلومیٹر طویل سرحد کی ہر بستی کے لوگوں کا سرحد پر آکر آزادیِ اقصیٰ کی دُعا کرنا ایک پیغام بھی ہوتا ہے اور تجدِید عزم بھی۔۷۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل سے نہ تو دست بردار ہوئے اور نہ ہوسکتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی کی اس جدوجہد میں ساری عمر گزر گئی، لیکن الحمدللہ ہم نے بے وفائی نہیں کی۔ ہم اقصیٰ و بیت المقدس کی یہ امانت اپنی نسلوں کو منتقل کررہے ہیں۔ ۲۶؍ اپریل کو ہم نماز جمعہ کی ادایگی کے بعد فلسطینی سرحد پر جانے کے لیے بسوں میں بیٹھ رہے تھے کہ جناب عبداللطیف عربیات کی وفات کی اطلاع ملی۔ ہم سب اہلِ قافلہ اجتماعی طور پر ان کے لیے دُعاگو ہوگئے۔ رب ذوالجلال اپنے بندے کو اعلیٰ علیین میں نمایاں مقام عطا فرما،آمین!
وفیاتِ مشاہیر خیبرپختون خوا ، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ۔ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔ فون: ۰۵۱۵۱۰۱- ۰۳۰۰۔ صفحات(بڑی تقطیع:۲۶۸۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔
وفیات نگاری علمی و ادبی تحقیق کی ایک اہم شاخ ہے۔ پاکستان میں جہاں وفیات کے ریکارڈ کی بات ہوگی، وہاں پروفیسر محمد اسلم (۱۹۳۲ء-۱۹۹۸ء)کے ساتھ ڈاکٹر منیراحمد سلیچ کا ذکر ضرور ہوگا۔ اس موضوع پر ان کی کتابوں کی تعداد عشرئہ کاملہ تک پہنچ چکی ہے۔ قابلِ تحسین بات ہے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد اُردو میں وفیات نگاری کے ذخیرے کو مالا مال کر رہے ہیں___ وہ اب تک اپنے بقول: ’۱۸ہزار اہم پاکستانی شخصیات کی وفیات محفوظ کرنے کا کام‘ کرچکے ہیں۔
زیرنظر تازہ کتاب میں ۲ہزار ایسے ممتاز افراد کے مختصر سوانحی کوائف شامل ہیں جو صوبہ سرحد میں پیدا ہوئے یا اُن کی عمر کا بڑا حصہ اِس صوبے میں گزرا اور وہ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء سے ۱۴فروری ۲۰۱۹ءکے درمیانی عرصے میں فوت ہوئے۔ وفات یا تدفین دنیا میں جہاں ہوئی ہو، ان کا تذکرہ کتاب میں شامل ہے۔ جملہ مرحوم شخصیات اپنے اپنے شعبے میں نمایاں مقام رکھتی تھیں۔
ممتاز شخصیات میں اکثریت علماے دین کی ہے، جو اس صوبے کا اعزاز شمار ہوگا۔ اگرچہ سلیچ صاحب نے کوائف کی فراہمی کے بعد، صحت کے لیے مقدور بھر چھان پھٹک کی ہے، مگر اس کے باوجود وہ اعتراف کرتے ہیں کہ کتاب میں اغلاط و تسامحات کی موجودگی کو رَد نہیں کیا جاسکتا۔
کتاب میں بیسیوں مشاہیر کی تصاویر بھی شامل ہیں۔’کتابیات‘ تقریباً اڑھائی سو اُردو انگریزی کتابوں، تحقیقی مقالوں اور اخبارات و رسائل پر مشتمل ہے۔ ہم، مقدمہ نگار ڈاکٹر عبداللہ جان عابد کے الفاظ میں پُراُمید ہیں کہ: ’’اہلِ دانش و بینش، ان کی دیدہ ریزی کا والہانہ استقبال کریں گے‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مشاہیر ادب کے خطوط: بنام غازی علم الدین، مرتب: حفیظ الرحمٰن احسن۔ ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد۔صفحات:۴۹۱۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔
چند برس قبل ڈاکٹر آصف حمید کا مرتبہ مجموعہ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ زیرنظر دوسرا مجموعہ نسبتاً زیادہ اہم اور دل چسپ محسوس ہوتا ہے۔ کُل ۸۱شخصیات کے ۴۵۵ خطوط شامل ہیں۔ اِن خطوں سے مکتوب نگاروں کے علم و فضل، ان کے ادبی نظریاتی کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے، مکتوب الیہ کی علمی شخصیت کا بہت اچھا نقش بھی سامنے آتا ہے۔ مکتوب نگاروں نے بحیثیت مجموعی غازی صاحب کی تنقیدات کی تحسین کی ہے، مگر ان کے لسانی نظریات سے کہیں کہیں اختلاف بھی کیا ہے۔گذشتہ برس ان کی کتاب تخلیقی زاویـے شائع ہوئی تھی۔ بھارتی نقاد اور محقق جناب یحییٰ نشیط (پ:۱۹۵۱ء) غازی صاحب (پ:۱۹۵۹ء) کے بزرگ ہیں، انھوں نے تخلیقی زاویـے کو ’مبتدیانہ‘ کام قرار دیا ہے جو غازی صاحب کے ’وقار و معیار کے شایانِ شان نہیں‘ (ص۸۰)۔ غازی صاحب نے ’ہندوئوں کی لسانی تنگ نظری‘ اور اُردو زبان کے لیے ان کے تعصب کا ذکر کیا تھا (جو ایک واضح حقیقت ہے) مگر یہ یحییٰ نشیط صاحب کو پسند نہیں آیا۔ ’ہندستان میں رہتے ہوئے‘ وہ غازی صاحب کی راے سے متفق نہیں اور ایسی باتوں کو اُردو کے لیے بھی ’مضرت رساں‘ سمجھتے ہیں۔
غازی صاحب ہمیں زبان و بیان کے ایسے پہلوئوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں، جو اہلِ قلم کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ بعض خطوط تو تحقیقی مقالوں کی صورت اختیار کرگئے ہیں، جیسے پروفیسر ظفرحجازی کے خطوط (ص ۲۴۵-۲۸۵)۔
پروفیسر عبدالرزاق کے طویل خط سے مولوی محمد شفیع (۱۸۸۳ء-۱۹۶۳ء) کے بارے میں ایسی نادر معلومات ملتی ہیں جو کسی اور ذریعے سے قارئین تک نہیں پہنچیں۔ انسائی کلوپیڈیا، اب بھی تالیف ہوتے ہیں مگر مولوی صاحب جیسے محقق نایاب ہیں جن کی گاڑی کو شیخ امتیاز بھی دھکا لگانا، سعادت سمجھتے ہوں (ص ۳۱)___ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی ، ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ڈاکٹر عبدالستار دہلوی کی مفصل تقاریظ، کتاب کی وقعت پر مؤید ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ’اشارات‘ میں دعوتِ دین کے کام میں اصولی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے خود احتسابی کے لیے درست ترجیحات کا تعین کیا ہے اور اصلاحِ معاشرہ کی ذمہ داری کو پوراکرنے کے لیے شخصی رابطے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ یقینا اس سے زیادہ مؤثر اور دیر پا طریقہ اور ذریعہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
مئی کے شمارے میں بیش تر مضامین جاذب قلب ونظر تھے۔ رمضان المبارک کی فضیلت پر متعدد تحریریں افادیت کی حامل تھیں، کن کن مضامین، عنوانات کی مدح سرائی کی جائے، کہ باعث طوالت ہوگا۔ تاہم،’اشارات ‘ میں محترم ڈاکٹر انیس احمد کی تحریر قابلِ غور وفکر تھی: ’’ دعوت کی اثر انگیزی اسی وقت ہو گی جب فرد کا فرد سے رابطہ ، تبادلۂ خیالات اور داعی کی شخصیت خود اپنے ہر عمل سے دعوت کا مرقع ہو۔ یہ کام آج بھی اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد تک ہوتا رہا‘‘۔ یہ چند الفاظ پوری کتاب پر بھاری ہیں۔’’کاش! کہ ہم پھر سے کتاب اور ’الکتاب ‘ سے اپنا تعلق مضبوط ترکر سکیں ‘‘۔ کاش! اس شان دار رسالے کو ہم الماریوں کی زینت بنانے کے بجاے ہر عام وخاص فرد تک پہنچانے کی سعی کریں۔ جس سے آخرت میں ابلاغِ دعوتِ دین کی باز پُرس سے نجات ممکن ہے اور یہی راستہ تحریک اسلامی کی کامیابی کے لیے ناگزیر بھی ہے۔
ہمارے گھر پر ترجمان القرآن کے مضامین کا مہینے بھر میں اجتماعی مطالعہ ہوتا ہے، جس میں سب اہلِ خانہ شریک ہوتے ہیں۔مئی کے ترجمان میں رمضان المبارک کی مناسبت سے مولانا محمد فاروق خاں صاحب کے علمی اور ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کے ترجمہ شدہ عملی مضامین نے روزہ داروں کی روحانیت کو چار چاند لگادیے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیرجناب سیّد سعادت اللہ حسینی کے مضمون نے متاثر اور حیرت زدہ کیا کہ تحریک اسلامی کی قیادت قدیم و جدید، دین اور دنیا دونوں پر نہ صرف نظر رکھتی ہے بلکہ نہایت منطقی ذہن کی بھی حامل ہے۔ جناب عمر تلمسانی کی دردِ دل میں ڈوبی یادداشتوں کی فراہمی پر ہم حافظ محمد ادریس صاحب کے شکرگزار ہیں۔جناب افتخار گیلانی کی دونوں تحریریں معلومات کا سرمایہ رکھتی ہیں۔
مئی کے ’اشارات‘ ایمان افروز تھے۔ تحریک ِ اسلامی کے لائحہ عمل کے چار نکات کی جس طرح تشریح کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
ڈاکٹر انیس احمد نے جس محنت ، خلوص اور دردِ دل سے ’اشارات‘(مئی ۲۰۱۹ء) تحریر کیے ہیں، وہ تحریک اسلامی کے تمام متعلقین کے لیے چشم کشا ہیں۔ خاص طور پر ۱۹۵۷ء میں مولانا مودودی کی تقریر میں رہنمائی کا پورا سامان موجود ہے کہ : تطہیر افکار وتعمیر افکار ، صالح افراد کی تلاش وتنظیم وتربیت ، اجتماعی ومعاشرتی اصلاح اور حکومتی امور کی اصلاح کے لیے جمہوری جدوجہد ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پہلے تین نکات پر توجہ کم ہوتی گئی ہے، جب کہ کامیابی کے لیے تمام نکات پر توازن کے ساتھ عمل ضروری ہے۔
اپریل کے شمارے میں محترم نجات اللہ صدیقی کے مضمون میں حالات کے جبر کو تسلیم کرکے راستہ نکالنے کا درس موجودتھا۔کیا واقعی اقوام متحدہ کے ہاتھوں ہم مغربی تہذیب کے آگے اس قدر مجبور ہیں؟
’رسائل ومسائل ‘ میں ضروری مسائل کو خوب صورت انداز سے بیان کیا گیا ہے، خاص طور تبلیغ کی حکمت عملی کے حوالے سے جواب میں حکیمانہ پہلوئوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔
بھارت سے سکھ زائرین کے لیے کرتار پورہ راہداری کے کھلنے میں چندماہ باقی ہیں۔ ریاستوں کے تعلقات کی مجبوریاں اور امکانات اہم ہیں، لیکن تاریخ کو ذہنوں سے محو نہیں ہونا چاہیے۔یہ حقیقت ہے کہ گورونانک کی وفات [۱۵۳۹ء] کے بعد سے سکھوں کی تاریخ ، مجموعی طور پر مسلمانوں سے دشمنی سے بھری پڑی ہے(بلاشبہہ ہمسایوں کے طور پر بھائی چارے کی بہت اچھی مثالیں بھی موجود ہیں، جنھیں قومی عموم کا درجہ نہیں دیا جاسکتا کہ ایسی چنیدہ مثالیں تو ہندوئوں ، یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی پائی جاتی ہیں)۔اورنگ زیب کا پورا زمانہ اور پھر مغلوں کا آخری زمانہ، اور خود رنجیت سنگھ [م:۱۸۳۹ء] اور اس کے گرووں کا زمانہ ، حتیٰ کہ قیامِ پاکستان کا مرحلہ، سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام سے بھرا پڑا ہے۔ سید احمد شہید [م:۱۸۳۱ء]کی تحریک مجاہدین بنیادی طور پر اسی سکھا شاہی کا جواب بھی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کے بارے میں سکھوں کے مذہبی ، قومی ، نسلی اور سیاسی شعور سے آگاہ کرنے کے لیے قارئین کورہنمائی دی جانی چاہیے۔