پاکستان اپنے قیام کے ۷۲ سال بعد بھی اندرونی خلفشار اور صف بندی (Polarization) کا شکار ہے۔ یہ صورتِ حال بےحد تشویش ناک اور ملکی سلامتی کے لیے بہت خطرناک ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوںکے ساتھ بالخصوص اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بالعموم جو خونیں کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کا ایک چشم کشا پہلو اس احساس کا اُجاگر ہونا ہے کہ پاکستان کے قیام نے پاکستانی مسلمانوں کو کن خطرات اور کس عذاب سے بچالیا اور اپنی زندگی کو آزادی اور عزت کے ساتھ ترقی دینے کے کیسے مواقع فراہم کیے۔ اس احساس کا تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق اپنی سیاسی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی زندگی کی تعمیر کریں اور ملک کے دستور میں جس تصور کو واضح الفاظ میں طے کر دیا گیا ہے، اس کے مطابق ہر ادارہ، ہر قوت اور ہرفرد اپنی ذمہ داری اداکرے، تاکہ عوام اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنے عزائم کے مطابق ترقی و استحکام کی منزلیں طے کرسکے۔
زمینی حقائق جو تصویر اس وقت پیش کر رہے ہیں، وہ پریشان کن ہے اور فوری طور پر اصلاح کی طالب۔ ہم نے چار فوجی حکومتوں اور ایک درجن سے زیادہ نام نہاد جمہوری حکومتوں کا دور دیکھا ہے جس میں: پارلیمانی، صدارتی، اور فوجی نظامِ حکومت کا تجربہ بھی کرلیا ہے۔ فوج، بیوروکریسی اور عدالتی مداخلت کا مزا بھی بار بار چکھا ہے۔ حالیہ تاریخ میں جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے ۹برسوں کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پانچ پانچ سال بھی بھگتے ہیں اور ان سے نجات پانے کے لیے تحریک انصاف کی شکل میں تبدیلی کے لیے دروازے بھی کھولے ہیں۔ لیکن ان ۱۶مہینوں کا تجربہ بھی تلخیوں، محرومیوں اور مصائب کے سوا قوم کو کچھ نہیں دے سکا۔ اب عوام میں بے چینی، بے یقینی، اضطراب اور مایوسی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ جزوی طور پر چند مثبت پہلوؤں کے باوجود بحیثیت مجموعی عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ اور حکومت نےعوام کو مایوس کیا ہے اور مصائب میں کمی کے بجاے مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ہم پاکستان کے مستقبل کے لیے جہاں یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دستور اور جمہوری نظام کی ہرقیمت پر حفاظت کی جائے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اپنی منزل کا صحیح صحیح تعین کرے۔ اس کے حصول کے لیے صحیح پالیسیاںپوری تحقیق، مشاورت اور عوام کو اعتماد میں لے کر مرتب اور نافذ کی جائیں۔ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں اپنا کام کرے اور اچھی حکمرانی (good governance) کی اعلیٰ مثال قائم کی جائے۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے بُری طرح ناکام رہی ہے اور اگر حالات کی فوری اور مؤثر اصلاح کی کوشش نہیں ہوتی تو پھر واحد راستہ نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔
تمام اختلافات اور ۲۰۱۸ء کے انتخابات کی ساری کمزوریوں کے باوجود، ہم نے کھلے دل سے حکومت کو موقع دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس دوران انجام دیے گئے کاموں اور سارے دعوؤں کا جوحشر ہوا ہے، وہ ناقابلِ تصور اور ناقابلِ بیان ہے۔فکری انتشار، پالیسیوں کافقدان، دعوؤں کی بھرمار، الزامات اور اتہامات کی بوچھاڑ، اقوال واعمال میں تضادات ہرسطح پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے اقدامات کی روز افزونی سے ملک کی آزادی، خودمختاری، معاشی ترقی ، قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اورعوام کی خوش حالی بُری طرح مجروح ہورہی ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ وزیراعظم صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ آج بھی ڈی چوک والے کنٹینر سے حکومت چلارہے ہیں۔ جوزبان استعمال کی جارہی ہے، اس نے سیاسی فضا کونہ ختم ہونے والی نفرت سے آلودہ کردیا ہے۔ بلاشبہہ اپوزیشن کارویہ بھی تعمیری نہیں ہے اور اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں اپنے اپنےمفادات اور اپنی اپنی قیادت کی بداعمالیوں پر پردہ ڈالنے اور ان سے توجہ ہٹانے کو اپنی اولین ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ ملک کے مسائل اور حالات کی اصلاح کے لیے پارلیمنٹ اور دوسرے تمام میدانوں میں کوئی کردار اداکرنے کے لیے وہ تیار نہیں دکھائی دیتیں۔ لیکن، خود حکومت بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ مسائل کے ادراک، افراد کے انتخاب، صحیح پالیسیوں کی تشکیل اور اچھی حکمرانی کے باب میں بُری طرح ناکامی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
خود تحریک انصاف کا نظام بھی اسی طرح چل رہا ہے، جس طرح دوسری بڑی جماعتوں میں قیادت، شخصی پسند و ناپسند کی بنیاد پر چلائی جارہی تھی۔نہ مرکز میں کوئی مؤثر ٹیم وجود میں آئی ہے اور نہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں مؤثر انداز سے کام کر رہی ہیں۔ اداروں سے تصادم، میڈیا میں مداخلت اور ساتھ ہی میڈیا سے رابطہ کاری، بزنس کمیونٹی کی سرزنش اور بزنس کمیونٹی سے سمجھوتا ___ ۱۶ماہ سے ایک ہی کہانی دُہرائی جارہی ہے۔ملک میں جہاں عام آدمی کو ہرروز سرکاری اداروں سے سابقہ پڑتا ہے عوام حسب سابق کرپشن، بے توجہی، لاقانونیت، جرائم کی بہتات، روزگار سے محرومی اور روزافزوں مہنگائی کا شکار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ:
رو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رُکاب میں
اس پس منظر میں ہم تین واقعات کی طرف خصوصیت سے توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو اپنی اپنی جگہ بھی اہم ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر ایک آئینہ ہیں جس میں اس وقت معاشرہ، حکومت اور ملک کے اہم ترین اداروں کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔
پہلا واقعہ لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ۱۱دسمبر کا وہ اندوہناک تصادم ہے، جو سوسائٹی کے دو اعلیٰ طبقوں کے نمایندوں کے درمیان ہوا۔ وہ طبقے جنھیں انسانیت، تہذیب اور شائستگی کی اعلیٰ ترین مثال ہونا چاہیے،یعنی انسان کی جان بچانے والے ڈاکٹر اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کو یقینی بنانے والے وکلا۔
بلاشبہہ مسئلہ ۱۱دسمبر کو شروع نہیں ہوا۔ دونوں کے درمیان مختلف وجوہ سے کشیدگی ایک ماہ سے موجود تھی۔ ینگ ڈاکٹرز کے اپنے مسائل تھے اور دوسری طرف وکلا کا اپنا غروراور احساسِ برتری۔ ان اہم اداروں میں ٹریڈ یونین کے سے طریقوں کا استعمال پریشان کن ہے۔ ڈاکٹر اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے جو حربے استعمال کرتے ہیں وہ کسی خیر کی خبر نہیں دیتے۔ وکلا جس طرح خصوصاً گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں سے اپنی بالادستی اور زورزبردستی کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں، وہ بے حد تشویش ناک ہے۔ پھر جس طرح مختلف حکومتوں نے بشمول موجودہ حکومت، ان طبقات سے اصلاحِ احوال کی کوئی مؤثر کوشش نہیں کی اورہربار فقط لیپاپوتی سے کام چلایا ہے، وہ بھی بگاڑ کو اس مقام تک لانے کا ذمہ دار ہے۔۱۱دسمبر کو جو المیہ رُونما ہوا، اس میں بظاہر زیادہ جارحانہ رویہ وکلا کا تھا۔ جس طرح اعلان کرکے وہ منظم انداز میں سات کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہسپتال پر حملہ آور ہوئے اور پھر جو تباہی مچائی، اس میں چار، پانچ افراد جان کی بازی ہارگئے، کروڑوں کا قیمتی سامان برباد اور نہایت قیمتی میڈیکل مشینری کو تباہ کر دیا گیا، سیکڑوں مریض دربدر ہوگئے۔ پھر جس طرح وکیلوں کی تنظیموں نے (چند معزز وکلا کے استثنا کےساتھ) محض گروہی عصبیت کی بنیاد پر اپنے ہم پیشہ افراد کا ساتھ دیا، وہ اتنا تکلیف دہ ہے کہ پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ تین گھنٹے ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی رہی۔ جو انتظامی اور پولیس افسران ڈیوٹی پر موجود تھے، انھوں نے اپنی ذمہ داری انجام دینے میں غفلت برتی:
حادثہ سے بڑا حادثہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اس الم ناک واقعے کو محض ایک حادثہ سمجھنے کے بجاے جان لینا چاہیے کہ یہ معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور ملک کے تعلیمی نظام کے غیرمؤثر ہونے کا بھی ثبوت ہے۔ گھر، معاشرہ ،اسکول، میڈیا، حکومت اپنے اپنے میدان میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔ مسئلہ سفید کوٹوں اور کالے کوٹوں کے تصادم کا نہیں، معاشرے کی اقدار کے تہ و بالا ہوجانے کا ہے۔ ایک مہذب معاشرے کے لیے جو کم سے کم اجتماعی آداب ہیں، یہ المیہ ان سے بھی محروم ہوجانے کا پتا دیتا ہے۔ اسلام کا تو اصل ہدف انسان کو ایک بہتر انسان بنانا ہے۔ قرآن و سنت کا مطالعہ کیجیے، کس طرح ذاتی اخلاق اور اجتماعی معاملات میں خیروصلاح کی بنیاد پر تمام اُمور کو انجام دینے کی بہ تکرار ہدایت کی گئی ہے۔ محض قرابت داروں کے نہیں، ہرانسان کے حقوق کے احترام کو مسلمان کی شان قراردیا گیا ہے۔ گفتگو اور میل جول میں الفاظ اور جملوں کے برتاؤ تک کی ہدایت دی گئی ہے۔ اختلاف میں کن حدود کی پاسداری کرنا ہے، تنازعات کے حل کے لیے کیا راستہ خیر اور صلاح کا بتایا گیا ہے۔ افسوس کہ آج ہم ان سب چیزوں سے محروم ہوگئے ہیں اور ہوتے جارہےہیں۔
بات ہم مدینہ کی ریاست کی کرتے ہیں اور اعمال ہمارے اسوئہ رسولؐ اور مدینہ کے مسلم معاشرے کی ضد ہیں۔ حکومت، میڈیا ، دانش ور اوراہلِ علم، علماے کرام اور دینی جماعتوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اتنا بڑا واقعہ بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہ ہوگا۔ ایسے معاملات میں سمجھوتاکاری اور لیپاپوتی سمِ قاتل ہیں۔ اگر بُرائی کو بروقت روکنے میں تساہل کیا جائے گا تو وہ بُرائی بڑھتی اور غالب آتی جائے گی۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہی وہ طریقہ ہے، جس سے بُرائی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ بُرائی کو اگر بُرائی سے تبدیل کیا جائے گا تو غالب بُرائی ہی رہے گی ۔ اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب بُرائی یا خرابی کو خیر اورفلاح سے تبدیل کیا جائے اورمعاشرے میں بُرائی کو گوارا نہ کیا جائے اور ظلم و زیادتی کے ذمے داران کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ سزا، تعلیم و تربیت اور معاشرے میں قبول اور رَد___ یہ سب بیک وقت اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان کا قیام انصاف اور حق پر مبنی معاشرہ اورریاست قائم کرنے کے لیے تھا، ظلم اور استحصال کے راج کے لیے نہیں۔
دوسرا واقعہ جس کی طرف ہم متوجہ کرنا چاہتے ہیں، وہ جنرل پرویز مشرف پر دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ۶ کی خلاف ورزی کے مقدمے کا فیصلہ ہے، جو ہسپتال کے واقعے کے ایک ہفتے کے بعد آیا ہے اور جس میں خصوصی عدالت کی اکثریتی راے (دو جج فیصلے کے حق میں اور ایک اختلاف میں) کے مطابق وہ دستورشکنی کے جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ اس کے لیے وہ دستور میں بیان کردہ سزا، یعنی سزاے موت کے مستحق ہیں۔ افسوس ہے کہ اس تاریخی فیصلے میں ایک معزز جج نے سزاے موت کے طریقے کے بارے میں جو راے دی ہے، محض اسے اصل موضوع بنالیاگیا اور فیصلے میں جو نہایت اہم تفصیلات اور نتائج درج ہیں، ان سب کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ہمارا تاثر بھی یہی ہے کہ اگرپیراگراف۶۶ میں وہ ایک جملہ نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ لیکن ملک ہی نہیں عالمی سطح پر گذشتہ سیکڑوں برسوں ہی میں نہیں بیسویں صدی میں بھی اور خود مغربی ممالک میں بھی اس انداز میں سزا دی گئی ہے۔ البتہ ہمارا یہ موضوع نہیں۔ ہماری نگاہ میں اگر وہ جملہ نہ ہوتا تو فیصلے کے حقیقی (substantive ) حصے پر ہی توجہ مرکوز رہتی اور اب بھی اسی پر توجہ رہنی چاہیے۔ واضح رہے کہ وہ جملہ فیصلے کا حصہ نہیں، ایک جج کی راے ہے۔ البتہ عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ ’’جنرل مشرف دستورشکنی کے مرتکب ہوئے ہیں اورانھیں اس کی سزا ملنی چاہیے‘‘۔
ہم نے اصل فیصلے کا بغور مطالعہ کیاہے اور اس امر کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اور قانونی اور دستوری اعتبار سے بڑا جان دار اور محکم فیصلہ ہے۔ افسوس ہے کہ ایک غیرضروری جملے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اصل فیصلہ مرکز توجہ نہیں رہا بلکہ مخصوص طبقوں کی طرف سے اس پرایسے اعتراضات ہورہے ہیں جن کے جواب فیصلے میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اعتراض کہ ’’جنرل پرویز مشرف کو دفاع کا موقع نہیں ملا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے‘‘۔اور یہ کہ ’’فیصلہ آرمی کے خلاف بحیثیت ایک انسٹی ٹیوشن کے ہے‘‘ اس سے غلط الزام کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس فیصلے میں پوری تفصیل موجود ہے کہ کس طرح چھے سال تک مقدمہ چلا ہے، ۱۰۰ سے زائد مرتبہ پرویز مشرف اور ان کے وکلا عدالت گئے اور انھوں نے محض التوا اور فیصلہ مؤخر کرنے کا کھیل کھیلا۔ اس فیصلے میں ’غداری‘ کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں ہوا۔ جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ وہی ہے، جو خود دستور میں استعمال ہوا ہے یعنی، high treason۔ جنرل صاحب نے ۴۰سال فوج کی خدمت کی، اس پر یہاں بحث نہیں۔ پھر جس طرح فوج میں high treason کے الزام میں کئی اعلیٰ فوجی افسران کو سزا دی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے فوج کے ادارے پر کوئی حرف نہیں آتا،ذمہ داری متعلقہ فرد پر ہی جاتی ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہے۔
جس طرح ایک وزیر، وزیراعظم، صدر، جج، اعلیٰ سول ملازم، سیاسی لیڈر کسی جرم سے صرف اس لیے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ وہ وزیر، جج یا افسر ہے، اسی طرح اگر فوج کے کسی بھی افسرنے خواہ اس کی دوسری خدمات کتنی ہی شان دار کیوں نہ ہوں، اگر اس نے ایک بھی مجرمانہ اقدام کیا ہے تو محض خدمات کی بناپر اسے جرم سے تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف اقدام (اور فیصلہ) ہے فوج کےخلاف نہیں۔ فوج کے نمایندوں نے اس سلسلے میں جس ردعمل کا اظہار کیا ہے، وہ محل نظر ہے۔
کیا فوجی قیادت ماضی قریب کی اس فضا کو بھول گئی کہ جنرل پرویز مشرف صاحب کے زمانۂ اقتدار میں،خصوصیت سے اسلام آباد کی لال مسجد کے واقعے میں مشرف کے ظالمانہ اقدام کے باعث فوج کی ساکھ، عوام کی نگاہ میں اتنی متاثر ہوگئی تھی کہ وردی میں تنہا سفر کرنے سے انھیں سرکاری طورپر منع کردیا گیا تھا۔ حالاںکہ پاکستانی عوام اپنی فوج کے ایک ایک سپاہی سے محبت کرتے ہیں اور سپاہی ہو یا افسر اور جرنیل انھیں اپنا محسن سمجھتے ہیں۔پرویز مشرف کے چلے جانے کے بعد فوج نے اپنی ساکھ کوبحال کرانے میں اہم اقدامات کیے۔ عدالتی فیصلے میں واضح طور پر پرویز مشرف اور اس کے اقدام اور فوج بحیثیت ادارہ میں فرق کیا گیا ہے اور پوری جرأت اور وضاحت سے فیصلے میں اس امر کو ثابت کیا گیا ہے: ’’فوج، دستورکے تابع ہے اور دستور کے طے کردہ اصول کے مطابق سول نظام کے تحت کام کرتی ہے‘‘۔ سول معاملات میں مداخلت یا دستور کا تعطل، تبدیلی، یا کُلی اور جزوی تنسیخ اس کے اختیارات سے باہرہیں اور اس جرم کی سزا دستور نےمقرر کردی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اس جرم میں اور کون کون شریک تھا؟ اس بات کو بھی اُچھالا جارہا ہے۔حالاں کہ فیصلے میں اس مسئلے کو بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ مقدمے کے دائرۂ کار سے باہر تھا۔ البتہ حکومت ان تمام افراد پر جب چاہے مقدمہ قائم کرسکتی ہے اور عدالت نے اس کا راستہ نہیں روکا۔ لیکن اس کی وجہ سےپرویز مشرف جو اصل اور کلیدی کردار ہیں، ان کو کیسے تحفظ دیا جاسکتا ہے؟ ہمارے نام نہاد دانش ور اس فیصلے پرجتنے بھی اعتراضات اُٹھا رہے ہیں، ان سب کا جواب فیصلے کے اندر تحریری طور پر موجود ہے۔ لیکن فیصلہ پڑھے بغیر یااس کے مندرجات کو نظرانداز کرکے فتوے دینے کی جو رسم ہمارے اینکروں اور تبصرہ نگاروں نے قائم کر دی ہے، وہ افسوس ناک ہے۔
فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔اس میں پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کا جو کرداررہا ہے، اس پربھرپور گرفت کی گئی ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ فیصلہ ہماری تاریخ کا بڑا اہم اورروشن فیصلہ ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ پڑھا جانا چاہیے اور اس پر مکمل عمل ہونا چاہیے۔ہم ایک بار پھر یہ وضاحت کیے دیتے ہیں کہ پیراگراف ۶۶ کا وہ حصہ جس پر لے دے کی جارہی ہے، ایک راے ہے،فیصلے کا حصہ نہیں۔ اسے اس حد تک رکھا جائے تو بہتر ہے اور اگر ریویو میں عدالتِ عظمیٰ اسے نکال دے تو بہترہے۔
تیسرا مسئلہ جس پر ہم توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، اس کا تعلق عدالت کے اس فیصلے سے ہے، جس میں فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو قانونی جواز سے عاری قرار دیا گیا ہے اور حکومت اور پارلیمنٹ کو موقع دیا گیا ہے کہ چھے مہینے کے اندر اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرلے۔
اس معاملے میں حکومتی نااہلی اور اس کی قانونی ٹیم کے پھوہڑپن اورتساہل کا جو بھانڈا پھوڑا گیا ہے، وہ بڑا چشم کشا ہے۔کابینہ کی کارروائی اور اہم اُمورپر سرکاری دستاویزات جس طرح لکھی جارہی ہیں اور جن الفاظ کا استعمال قانونی تقرریوں میں کیا جارہا ہے، انھیں دیکھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہماری سول سروس کو کیا ہوگیا ہے؟ قانون، ضابطہ، طرزِبیان کے سلسلے میں جو تربیت انھیں دی جاتی تھی، وہ اب کہاں چلی گئی ہے؟ تین سرکاری دستاویزات جو پیش کی گئیں، وہ تینوں غلطیوں سے پُر ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار افراد کا احتساب نہیں کیا جاسکتا؟
پاکستان کے موجودہ حالات کا گہرائی میں جاکر جو بھی جائزہ لے گا، وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہم اپنی تاریخ کے ایک سنگین بحران سے دوچار ہیں اور اس سے نکلنےکا کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ اس کے لیےتمام سیاسی اور دینی قوتوں کے درمیان حقیقت پسندانہ مشاورت اور ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے مناسب اور مؤثر لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان صاحب نے ایک تاریخی موقعے کو بڑی بے دردی سے ضائع کیا ہے۔ جولائی ۲۰۱۸ء کے انتخابات، منصفانہ انتخابات نہیں تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک ایک بھی انتخاب دیانت اور انصاف کی بنیاد پر نہیں ہوا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخاب کے بارے میں دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ وہ منصفانہ تھا، لیکن جن کی نگاہ زمینی حقائق پر ہے، وہ جانتے ہیں کہ خاص طور پر مشرقی پاکستان میں انتخابات کو بُری طرح عوامی لیگ کا یرغمال بنا دیا گیا۔ تاہم، جو سیاسی لہریں ملک کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھیں، ان کی بھی عکاسی انتخابی نتائج میں پائی جاتی تھی۔
مختصر الفاظ میں، مختلف شکلوں میں اورمختلف طریقوں سے ہرسطح پر، ملک کے ہر انتخاب پر اثرانداز ہوا گیا ہے اور ۲۰۱۸ء کے انتخابات کے نتائج میں بھی یہ چیز موجود تھی۔ لیکن اس کے باوجود ایک دو جماعتوں کو چھوڑکر سب نے ایسے داغ دار نتائج کی بنیاد پر بھی پارلیمنٹ کو مؤثر کرنے اور حکومت سازی کی تائید کی۔ ہماری بھی سوچی سمجھی راے یہ تھی کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو کام کا موقع ملنا چاہیے اور انھیں اپنی پوری مدت ملنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ان قوتوں کا ساتھ نہیں دیا جو انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف اور اس کی قیادت نے اس تاریخی موقعے کوضائع کیا ہے اور پارلیمنٹ کو اہمیت دینے اور اپوزیشن سے تعلقاتِ کار قائم کرکے نظام کو چلانے اور مستحکم کرنے کے بجاے ٹکراؤ،کش مکش اور گہری صف بندی (polarization )کا راستہ اختیار کیا۔ اپوزیشن میں خصوصیت سے مسلم لیگ (ن) کا رویہ بھی منفی رہا ہے اور تصادم کی سیاست کے فروغ میں اسے بری الذمہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔شروع میں پیپلزپارٹی کا رویہ زیادہ متوازن تھا لیکن اب وہ بھی تصادم کے راستے پرچل پڑی ہے۔
ہماری نگاہ میں اس غلطی کی زیادہ ذمہ داری حکومت اور اس کے نمایندوں پر ہے۔ خود وزیراعظم صاحب اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔انھیں دانش مندی سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ راستہ نہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ ملک اور جمہوریت کے مفاد میں۔ اس صورتِ حال میں پارلیمنٹ غیرمؤثر ہوتی جارہی ہے ۔ سینیٹ کا اجلاس گذشتہ ۱۲۰ دن سے نہیں ہوا ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آرڈی ننسوں کے ذریعے سے حکومت چلائی جارہی ہے۔ یہ دستورکے الفاظ اور روح دونوں کے منافی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیاں بھی اپنا کردار ادا نہیں کررہیں۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ جو ایک دستوری ادارہ اور وفاق کی علامت ہے اور اسے ہرتین ماہ میں ایک بار لازماً ملنا چاہیے۔ اس کا سال بھر میں صرف ایک اجلاس ہوا ہے اوروہ بھی محض صوبوں کے اصرار پر۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں گذشتہ ۱۶ مہینوں میں سب سے کم قانون سازی ہوئی ہے، جو بہت تشویش ناک ہے۔ بلاشبہہ موجودہ حکومت کے دور میں کابینہ کے اجلاس زیادہ باقاعدگی سے ہورہے ہیں اوراس کے لگ بھگ اجلاس حکومتی ترجمانوں کے بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر ترجمان، ابہام پیدا کرنے اور تصادم کی فضا کو پروان چڑھانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔
اس اصول کو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ حکومتی کابینہ اسی وقت مؤثر ہوسکتی ہےجب وہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہو۔ ارکان کی پارلیمنٹ میں دل چسپی کا یہ حال ہے کہ جو بھولے بسرے اجلاس ہوئے ہیں، ان میں بھی کوئی اجلاس وقت پر شروع نہیں ہوا۔ ارکان کے سوالوں کے جواب بھی پورے نہیں آسکے، بلکہ کچھ اجلاس تو چند منٹ کے بعد مؤخر کرناپڑے۔ یہ پارلیمنٹ کی بڑی تاریک تصویر ہے جو موجودہ حکومت کےدور میں قوم کےسامنےآرہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن جیسے اہم ادارے کے ارکان جنھیں دستورکے مطابق ۴۵دن کے اندر مقرر ہونا چاہیے تھا، چھے مہینے سے زیادہ گزرنے کے باوجود تاحال (۳۱دسمبر ۲۰۱۹ء تک) مقرر نہیں کیے جاسکے ہیں۔اور اس وقت کوئی چیف الیکشن کمشنر بھی موجود نہیں۔ ۳۰ سے زیادہ اہم سرکاری اداروں کے سربراہ مقرر نہیںکیے جاسکے۔جہاں افسر مقرر کیےجاتے ہیں وہاں باربار تبدیلی کا یہ حال ہے کہ مرکز اورپنجاب دونوں میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری اور پولیس افسران ناقابلِ فہم عجلت میں بدلے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ گورننس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ان حالات میںاگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مناسب ہم آہنگی اور تعلقاتِ کار قائم نہیں ہوتے تو پارلیمنٹ کا چلنا مشکل ہے۔ بلاشبہہ ہماری اولین ترجیح پارلیمنٹ کی مدت پوری کرنے کےلیے تھی، لیکن موجودہ حالات میں اگر حکومت اور اپوزیشن رویہ نہیں بدلتے ہیں تو پھر نئے انتخاب اورنئی پارلیمنٹ کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔
ہم پوری ذمہ داری سےعرض کریں گے کہ مسئلہ نئی پارلیمنٹ سے بھی حل نہیں ہوگا، کیوں کہ ہماری سیاسی پارٹیاں، جمہوری پارٹیوں کی طرح کام نہیں کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور غالباً اے این پی کے سو ا کسی جماعت میں باقاعدہ اور مؤثر انتخابات نہیںہوتے۔ تاہم اے این پی میں بھی موروثی سیاست اسی طرح براجمان ہے، جس طرح پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں میں مستحکم ہے۔
پارٹیوں کے پاس کوئی واضح پروگرام اور شفاف پالیسی نہیں ہے۔ جس کا تلخ ترین تجربہ تحریک انصاف کی حکومت میں سامنے آیا ہے کہ ۲۲سال کی جدوجہد اور تبدیلی کے حسین خواب دکھانے کے باوجود، جب حکومت ملی، توان کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا۔ میرٹ کی بات بہت ہوتی تھی، مگر ان تقرریوں میں جس چیز کا سب سے زیادہ قتلِ عام ہوا، وہ خود میرٹ ہے۔روایتی سیاسی اثرات پوری طرح کارفرمانظر آئے ہیں۔ آدھی کابینہ جنرل مشرف، زرداری اورنوازشریف کی وزارتوں کے سابق ارکان پر مشتمل ہے یا وزیراعظم کے محض ذاتی دوستوں اور معتمدین پر۔پوری معیشت آئی ایم ایف کے اشاروں پر منحصر کردی گئی اور عالمی مالی اداروں سے متعلقہ افراد کو معیشت کی باگ ڈور سونپ دی گئی۔ حکومت کی مجموعی کارکردگی مایوس کن ہے، لیکن ’سب اچھا ہے‘ ثابت کرنے کے لیے وزیروں اور خصوصی نمایندوں کی بڑی تعدادایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے۔
احتساب کا جو حشر کیا گیا ہے، اس میں جو بدسلیقگی برتی گئی ہے، اس کے بارے جتنا کہا جائے کم ہے۔ عوام کا اعتماد اس پر سے اُٹھتا جارہا ہے۔ وہ حکمران اور سرکاری عمال جو قومی خزانے کو لوٹنے یا نقصان پہنچانے کے ذمہ دار تھے، ملزم سے مجرم ثابت ہونے کے بجاے مظلوم بنتے جارہے ہیں اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی سودے بازی کی حیثیت بڑھ گئی ہے۔ نیب کاکرداراحتساب سے زیادہ انتقام کا نظر آنے لگاہے اور اس کی کارکردگی بالکل غیرمؤثر رہی ہے۔ نو نو مہینے حراست میں رکھنے کے باوجود،کوئی مناسب شہادتیں فراہم کرنے میں ناکامی اس کا کھلاثبوت ہے۔دعوےنیب چیئرمین کے بھی بہت بلندبانگ، لیکن عملی اقدام کمزور اور غیرمؤثر۔ احتساب جسے عمران خان صاحب نے اپنے انتخابی نعروں میں سرفہرست رکھا تھا، وہ مذاق بنتا جارہا ہے۔
ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو شدید خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ملک کے حالات کا گہری نظرسے مطالعہ کریں۔ مختلف شعبوں کے ماہرین کے تعاون سے مسائل کا صحیح ادراک کریںاور ان کے حل کے لیے مناسب اور مؤثر پالیسیاں تشکیل دیں۔ ان پر عوامی بحث و مباحثہ ہو اور سیاسی قیادت میں ایسے لوگوں کو لایا جائے جو دیانت و امانت کےساتھ صلاحیت اور قابلیت بھی رکھتے ہوں۔ پارلیمنٹ میں سوالات اور پارلیمانی کمیٹیاں وہ ادارے ہیں، جہاں معلومات حاصل کرکے سرکاری پالیسیوں اور ان کے نتائج پر گرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان کو متحرک کیا جائے۔
ایک مصیبت یہ ہے کہ جناب محمد خان جونیجو کے دورِ حکومت [۸۸-۱۹۸۵ء] میں پارلیمان کےارکان کو ترقیاتی فنڈ فراہم کرنے کی جس لعنت کا آغاز کیا گیا تھا، اس نے پارلیمنٹ کے فطری اور منصبی کیریکٹر ہی کو تباہ کردیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ کام مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کا ہے اور اوّلین ترجیح لوکل باڈیز کےقیام، اور تمام ترقیاتی فنڈز کو لوکل باڈیز کے ذریعے استعمال کرنے کی ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کا کام نہیں ہے۔ انھیں وہ کام کرنا چاہیے جو دستورنے ان کوسونپا ہے اور اس کے کرنے کی انھیں نہ کوئی فکر ہے اور نہ خواہش۔
تحریک ِ اسلامی کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنی نظریاتی اورتہذیبی شناخت کے مطابق ملک کے مسائل اور عوام کے حالات کو بہتربنانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرے اور ایک ایسا موقف اختیار کرے، جس میں عوام اپنے جذبات کی صداے بازگشت سن سکیں۔ ہمارے پاس الحمدللہ دیانت دار اور اپنےمقصدحیات کی خدمت زندگی بھر کرنے کا جذبہ رکھنے والے کارکن اور لیڈر ہیں ۔اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم عوام تک پہنچیں اوراپنے چار نکاتی پروگرام کی روشنی میں، ہرہرنکتے کےمطابق دعوت اورعوام کو متحرک کرنے کا کام انجام دیں۔ زندگی کے ہرہرشعبے کے سلسلےمیں جو متبادل پالیسیاں ہم لانا چاہتے ہیں، انھیں تفصیل سے پیش کریں۔
معاشی میدان میں جماعت نے ایک مفیددستاویز تیار کی ہے،اسے بڑے پیمانے پرپھیلانے اور اس کی مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر سیمی نار منعقد کیے جانے چاہییں۔ اسی طرح ہرہرشعبے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے منصوبۂ کارکا ایک حصہ جہاں فوری تبدیلیوں کا ہونا چاہیے، وہاں اس میں درمیانی اور طویل المدت تبدیلیوں کابھی خاکہ شامل ہونا چاہیے۔ ملک میں نجی تحقیقی اداروں اور یونی ورسٹیوں میں اس حوالے سے جو تحقیقی کام ہورہے ہیں، ضروری ہے جماعت کی قیادت اور کارکن اس کام سےواقف ہوں۔
ہمارے سامنے صرف ایک الیکشن یا کسی ایک حکومت کی بدنظمی سے نبٹنے کا چیلنج نہیں ہے، بلکہ پیش نظر ملک کے نظام میں تبدیلی ہے اوراس کا خاکہ ہمارے منشور میں ہے۔ تاہم، اس کا تفصیلی نقشۂ کار تیارکرنے اور اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اُوپر سے لے کر نیچے تک، ہماری قیادت کی گرفت ان تمام موضوعات پر ہونی چاہیے تاکہ اپنی گفتگوؤں، دعوتی ملاقاتوں، تقریروں اورمضامین میں ان کو پیش کرسکیں۔ عمومی تقاریر کا اپنا رول ہے، لیکن جو تبدیلی ہم لانا چاہتے ہیں اور جو ملک کو مطلوب ہے، اس کے لیے یہ دوسرا کام ازبس ضروری ہے۔ اس میدان میں تحریک ِ انصاف کی ناکامی سے جو خلا پیدا ہواہے، وہ جماعت اسلامی ہی کوپُر کرنا چاہیے۔ اس خلا کو پُر کیے بغیر قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق تعمیرنو ممکن نہیں۔ یہ ہمارے ملک و قوم کے لیے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے۔ فکری یکسوئی، منظم اجتماعی جدوجہد، راے عامہ کی تسخیر اور راے عامہ کی قوت سے سیاسی نظام کی تبدیلی کے ذریعے ہی پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی جمہوری ملک بنایا جاسکتا ہے۔
۱۹۶۴ء میں فیلڈ مارشل ایوب خاں کی آمرانہ حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی، جسے سپریم کورٹ نے غیرقانونی قرار دیا۔ جیل سے رہائی کے بعد مولانا مودودیؒ نومبر ۱۹۶۴ء میں کراچی دورے پر گئے تو وہاں کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں معروف قانون دان اے کے بروہی صاحب نے مولانا مودودی کا استقبال کیا۔ جواب میں مولانا نے یہ مختصر خطاب فرمایا۔ ادارہ
ایک مہذب سوسائٹی اور ایک وحشی سوسائٹی کے درمیان فرق کرنے والی چیز ’قانون‘ ہے۔ وحشی سوسائٹی میں لاقانونیت ہوتی ہے اور مہذب سوسائٹی میں قانون اور اس کی پابندی ہوتی ہے۔
چار بنیادی عوامل
ایک صحیح قسم کی مہذب سوسائٹی کے لیے قانون کے سلسلے میں چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
l ایک یہ کہ قانون بجاے خود معقول ہو، منصفانہ ہو اور معروف ہو۔ اس قانون کے بارے میں ہرشخص یہ محسوس کرے کہ یہ عقل و انصاف کے مطابق ہے، اور اس کے خلاف طبیعتیں بغاوت پر آمادہ نہ ہوں۔ اس کے احکام کے متعلق لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بے جا احکام ہیں، اور اس قابل نہیں کہ ان کی پیروی کی جائے، اِلا یہ کہ ان قوانین کو ان کے اُوپر زبردستی ٹھونس دیا جائے۔ گویا ایک مہذب سوسائٹی کی اوّلین ضرورت یہ ہے کہ قانون منصفانہ اور معقول ہو، لوگ اپنے دل سے یہ جانیں کہ یہی قانون ہے اور یہی قانون ہونا چاہیے، اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے اُوپر عمل کریں۔
l دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد کرنے والی ایک طاقت ایسی ہو جو ایمان دار ہو اور لوگ یہ بھروسا کرسکیں کہ یہ انصاف کے ساتھ اس قانون پر عمل درآمد کرائے گی اور چھوٹے بڑے کی تفریق کو خاطر میں نہ لائے گی۔ اورقانون کے مطابق ہرایک سے یکساں سلوک کرے گی۔
l تیسری چیز جو ضروری ہے وہ یہ کہ ایک آزاد اور باوقار عدلیہ موجود ہونی چاہیے۔ اگر قانون کی تعبیر کے معاملے میں اختلافات پیدا ہوں، یعنی یہ سوال پیدا ہو کہ قانون کے مطابق کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ ایسا جھگڑا یا اختلاف خواہ حکومت اور اشخاص کے درمیان پیدا ہو، یا مختلف طبقوں اور گروہوں کے درمیان ہو، تو ایک عدلیہ ایسی موجود ہونی چاہیے جس پر یہ بھروسا کیا جاسکے کہ وہ ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق قانون کاانطباق کرے گی اور قانون میں ابہام کی صورت میں اس کی درست تعبیر کرے گی۔
l اور چوتھی چیز یہ ہے اور یہ ایک لحاظ سے بہت ضروری ہے کہ پبلک میں کثرت سے ایسے لوگ موجود ہوں، جو قانون کو جانتے بھی ہوں، قانون کو بالاتر رکھنے کی خواہش رکھتے ہوں اور جن کے اندر یہ عزم بھی موجود ہو کہ قانون کے راستے سے سوسائٹی کو ہٹنے نہیں دیں گے۔
انتظامیہ اور آرڈی ننس
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اس مہذب سوسائٹی کی دو شرائط بڑی حد تک ساقط ہوچکی ہیں۔ جہاں تک قانون کا تعلق ہے، یہاں کھلم کھلا ایسے آرڈی ننس نافذ کیے اور قوانین بنائے جارہے ہیں، جن کی دفعات کو دیکھ کر ان کے اندر اختلاف بلکہ تضاد نظر آتا ہے۔
دوسری طرف جس انتظامیہ کا کام قانون کو نافذ کرنا ہے اور خود ان پر عمل درآمد کرنا اور پبلک سے کرانا ہے، اس کا طرزِعمل ایسا چلاآرہا ہے کہ لوگوں کا اعتماد اس کے اُوپر سے اُٹھ چکا ہے۔ کیوں کہ وہ انتظامیہ جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ جو قانون موجود ہے اور جس کو وہ خود بھی مانتے ہیں کہ یہ قانون ہے، اس کی بھی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ یہ قانون شکنی اس بھروسے پر کی جاتی ہے کہ ہمارا عدالتی طریق کار اور ضابطہ کار اس سرکشی اور قانون شکنی کو کافی مہلت دیتا ہے کہ آپ ایک زیادتی آج کربیٹھیں تو آٹھ نو مہینے یا سال دو سال تک تو کسی گرفت کے بغیر کام بہرحال چل ہی جائے گا۔ بعد میں عدالت خواہ اس سب کچھ کو خلافِ قانون ہی کیوں نہ قرار دے دے___ انتظامیہ اگر جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرنے والی ہو، تو اُسے ایک آزاد عدلیہ قانونی ذرائع سے قانون کی خلاف ورزی سے باز رکھ سکتی ہے۔
اب ہمارے معاشرے میں صرف دو ہی عنصر ایسے باقی رہ گئے ہیں، جن کے بل پر ہم مہذب معاشرے کی حیثیت سے جی رہے ہیں یا جی سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طاقت ور عنصر عدلیہ ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں، جو اللہ سے ڈر کر انصاف کرنے والے ہیں۔ یہ الگ بات ہےکہ غلط آرڈی ننسوں اور قوانین سے ان کے ہاتھ ہی باندھ دیے جائیں، لیکن قانون کے اندر وہ جتنی کچھ گنجایش پاتے ہیں، اس کے مطابق انصاف کو بروے کار لانے میں کمی نہیں کرتے۔
یہ بات صاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں انتظامی طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ عدالتوں پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش سے نہیں چُوکتے۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے جج موجود ہیں، جو کسی دباؤ کو قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ کسی لالچ اور کسی دباؤ سے اثر لیے بغیر وہ انصاف کرنے والے ہیں۔
آخری چیز جس کا آپ سے ذکر کیا، وہ یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے لوگ کثرت سے موجود ہو ں جن کے اندر قانون کا علم بھی ہو ، قانون کو بالاتر رکھنے کی خواہش بھی اور یہ مضبوط ارادہ بھی موجو د ہو کہ سوسائٹی کو ہم قانون کے راستے سے نہیں ہٹنے دیں گے۔ یہ گراں بار ذمہ داری زیادہ تر ہمارے وکلا پر آپڑی ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کا لیگل سسٹم پیشہ ور وکیلوں ہی کو چاہتا ہے، اس لیے عام قانون دان اگر اپنی جگہ یہ سمجھتا بھی رہے کہ قانون کیا ہے اور اس کا انطباق کس طرح ہونا چاہیے؟ تو اس کی راے کا اثر کچھ نہیں ہوسکتا، اِلا یہ کہ وہ اخبارات میں مضامین لکھے یا پھر پبلک پلیٹ فارم کا رُخ کرے۔
اس صورتِ حال میں صرف پروفیشنل وکلا کے بس میں یہ ہے کہ وہ عدالتوں کے ذریعے سے قانون کی بالادستی کو منوائیں۔ ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ قانون کے راستے سے نہ ہٹنے پائے اور جس جگہ بھی ظلم ہورہا ہو، وہاں انصاف حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ واقعہ ہے کہ چندسال پہلے تک یہ محسو س ہوتا تھا کہ ہمارے ملک کے وکلا اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کر رہے ہیں، لیکن گذشتہ ایک دو برسوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں دوچار ہی نہیں سیکڑوں کی تعداد میں ایسے وکلا موجود ہیں، جو اپنے اس فرض کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے اندر شعور، بیداری اور احساسِ فرض موجود ہے۔ اس چیز پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کو اب تک یہ دولت نصیب ہے۔
جہاں تک اس موضوع کے سیاسی پہلو کا تعلق ہے اس سلسلے میں صرف ایک ہی بات آپ سے عرض کروں گا۔ اے کے بروہی صاحب نے برسرِاقتدار گروہ کو یہ دعوت دی ہے کہ ’’وہ ذرا اپوزیشن میں بھی رہ کر کام کرکے دیکھیں‘‘ تو مَیں بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اقتدار ہاتھ سے چھوڑ دیں تو وہ اپوزیشن تو کیا، کوئی پوزیشن بنانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اگر اقتدار ان کے ہاتھ سے چلا جائے تو ان کی پارٹی میں ایک بندۂ خدا بھی باقی نہیں رہ جائے گا۔
سیاسی پارٹیاں ایک مدت دراز تک کام کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ کسی مرحلے پر پہنچ کر اس قابل ہوتی ہیں کہ اقتدار حاصل کریں۔ اقتدار ہاتھ سے چھن جانے کے بعد بھی وہ پارٹیاں باقی رہتی ہیں اور اپوزیشن کی حیثیت سے کام کرسکتی ہیں۔ یہاں جو پارٹی وجود میں آئی ہے، وہ اقتدار پر قبضہ کرلینے کے کئی برس بعد ، اقتدار کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، نہ کہ کسی پروگرام اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں [یاد رہے، تب فوجی حکومت نے کنونشن مسلم لیگ کی صورت میں ایک پارٹی قائم کرکے، حکومت بنارکھی تھی، یہ اشارہ اس جانب ہے۔ ادارہ]۔
ظاہر بات ہے کہ جوچیز کسی سبب سے پیدا ہوئی ہو، وہ سبب کے ہٹ جانے کے بعد باقی نہیں رہتی۔ چونکہ اقتدار سبب ہوتا ہے، اس پارٹی کے وجود کا، اس لیے اقتدار چھن جانے کے بعد ایسی پارٹی سرے سے باقی ہی نہیں رہتی۔ ہمیں سوچنا پڑےگا کہ جمہوری نظام چلانا ہے تو اپوزیشن کہاں سے پیدا ہو؟ (ہفت روزہ ایشیا اور آئین، لاہور، نومبر ۱۹۶۴ء)
سیّد قطب شہیدؒ (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) کی لافانی تحریروں نے لاکھوں دلوں کوگرمایاہے اور ان میں ایمان ویقین کی تازگی پیدا کی ہے۔ ان کی تصانیف کاترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکاہے۔ سیّد قطب شہید کی ایک قیمتی تحریر افراح الروح کے نام سے ہے۔جس میں انھوں نے متعدد ا ہم موضوعات پر اپنے قلبی احساسات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس تحریر کا اردو ترجمہ ہے۔
سیّد قطب شہیدؒ پہلی مرتبہ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔ ۳۱؍جولائی ۱۹۵۵ء کو ۱۵سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔۱۰ سال کے بعد ۱۹۶۴ء میں انھیں رہائی ملی۔ اس نام نہاد رہائی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور ایک ڈھونگ نما عدالت سے فیصلہ کرواکے ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔یہ تحریر سیّد قطب نے قید وبند کے انھی ایام میں کسی موقعے پر اپنی بہن اورمعروف ادیبہ امینہ قطب کے نام ایک خط کی صورت میں لکھی تھی۔ ۱۵نکات پر مشتمل اس تحریر کے ہر نکتے کو سیّدقطب نے ’خاطرہ‘ کہا ہے۔ واضح رہے کہ ذیلی عنوانات محترم مترجم کے قائم کردہ ہیں۔ادارہ
موت کا تصوربرابر تمھارے فکر وخیال پر چھایارہتا ہے۔ تم اسے ہر جگہ اور ہر چیز کے پیچھے گمان کرتی ہو۔ اسے ایک ایسی سرکش قوت سمجھتی ہو، جو زندگی اور زندوں پر حاوی ہے اور اس کے مقابلے میں زندگی کو کم زور ، کھوکھلی اور خوف زدہ پاتی ہو۔
تاہم، میرا نقطۂ نظر تمھارے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میں زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں، موت کو ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت سمجھتاہوں۔ موت کچھ نہیں کرپاتی، سوائے اس کے کہ اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان سے کوئی گراپڑا ٹکڑا اٹھالے۔
میرے ارد گرد زندگی کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ ہرچیز پروان چڑھ رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ مائیں حمل سے ہورہی ہیں اور بچے جن رہی ہیں۔ اس معاملے میں انسان اور جانور برابر ہیں۔ پرندے،مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے انڈے دے رہے ہیں، جن سے زندگی پھوٹ رہی ہے اور جان دار نکل رہے ہیں۔ زمین سے پودے پھوٹ رہے ہیں، جن سے پھل پھول نکلتے ہیں۔ آسمان سے موسلادھار بارش ہورہی ہے، اورسمندروں میں موجیں اُٹھ رہی ہیں۔ غرض اس روے زمین پر ہرچیز نموپذیر ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
درمیان میں کبھی کبھی موت اچانک نمودار ہوتی ہے اور ایک جھپٹّا مارکر آگے بڑھ جاتی ہے، یا چپکے سے اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان پر سے کوئی ٹکڑا اٹھالیتی ہے۔ زندگی کا کارواں رواں دواں رہتا ہے۔ اس کی موجیں اچھلتی، کودتی اورجوش مارتی رہتی ہیں۔ اسے موت کا مطلق احساس ہوتا ہے نہ وہ اسے دکھائی دیتی ہے۔
بسااوقات، جب موت زندگی کے جسم کو ایک مرتبہ نوچتی ہے تو درد سے اس کی چیخ نکل پڑتی ہے، لیکن زخم بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں اور درد کی چیخ بہت جلد راحت میں بدل جاتی ہے۔ انسان اور حیوان ، پرندے اور مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، پیڑپودے، سب اپنی اپنی راہ پر گا م زن رہتے ہیں۔ اس طرح روے زمین زندگی اور زندوں سے معمور رہتی ہے۔ موت کہیں کونے میں دبکی رہتی ہے۔ پھر اسی دوران میں اچانک ایک جھپٹاّ مارتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے، یا زندگی کے دسترخوان سے کوئی ٹکڑا گرجاتاہے، جسے وہ اٹھالیتی ہے۔
سورج نکل رہا ہے اور غروب ہو رہاہے، زمین اس کے گرد گردش کررہی ہے، زندگی کی کونپلیں اِدھر اُدھر نکل رہی ہیں___ ہرچیز نموپذیر ہے۔ اضافہ تعداد میں بھی ہورہاہے اور نوعیت میں بھی۔ کمّیت میں بھی ہورہاہے اور کیفیت میں بھی۔ اگر موت، زندگی کو نگل جانے کے قابل ہوتی تو زندگی کی روانی ٹھیرجاتی، لیکن زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں موت ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت دکھائی دیتی ہے۔ زندۂ جاوید، اللہ واحد کی قوت سے زندگی کی کونپل نکلتی ہے ، یہاں تک کہ ایک تناور درخت وجود میں آجاتا ہے۔
ہم جب صرف اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں تو زندگی ہمیں مختصر، معمولی اور حقیر نظر آتی ہے۔ ہمارے ہوش سنبھالتے ہی اس کاآغاز ہوتاہے اور محدود عمر کے اختتام کے ساتھ ہی اس کاخاتمہ۔
لیکن جب ہم دوسروں کے لیے، یا کسی مقصدکے لیے جیتے ہیں تو اس صورت میں زندگی بہت طویل اور گہری نظرآتی ہے۔ اس کاآغاز وہاں سے ہوتاہے، جہاں سے انسانیت کاآغاز ہوا ہے اور اس روے زمین سے ہماری جدائی کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہتاہے۔
اس طرح ہم اپنی انفرادی عمر میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ یہ اضافہ حقیقی معنوں میں ہوتاہے، نہ کہ خیالی طورپر۔ اس طرح زندگی کاتصور دنوں، گھنٹوں اور لمحوں کے بارے میں ہمارے احساس کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔
زندگی برسوں کی گنتی کانام نہیں ہے،بلکہ احساسات و جذبات کا شمار زندگی سے عبارت ہے۔ اس صورت میں جس چیز کو عقلیت پسندوں کا گروہ وہم اور تصوراتی چیز قرار دیتا ہے، وہ اصل میں ’حقیقت ‘ہوتی ہے، ان کے تمام حقائق سے زیادہ درست حقیقت!
اس لیے کہ زندگی انسان کے شعورِ حیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔کسی انسان سے اس کا شعورِ حیات چھین لیا جائے تو حقیقت میں وہ زندگی ہی سے محروم ہو جائے گا، اور اگر کسی انسان کا احساس اپنی زندگی کے بارے میں کئی گنا بڑھ جائے تو عملاً اس کی زندگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
مجھے لگتاہے کہ یہ مسئلہ اتنا بدیہی ہے کہ اس میں کسی بحث اور جھگڑے کی ضرورت نہیں۔
ہم جب دوسروں کے لیے جیتے ہیں تو درحقیقت خود اپنی زندگی میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ اسی طرح جس قدر دوسروں کے بارے میں ہمارے احساس میں اضافہ ہوگا، خود اپنی زندگی کے بارے میں ہمارا احساس بڑھے گا اور آخرکار خود زندگی کو ہم کئی گنا بڑھالیںگے۔
’شر‘کا بیج لہلہاتا ہے، لیکن ’خیر‘ کا بیج پھل دیتا ہے۔ ’شر‘ کا درخت فضا میں تیزی سے بڑھتا ہے، لیکن اس کی جڑیں مٹی میں گہری نہیں ہوتی ہیں۔ بسا اوقات اس کی پھیلی ہوئی شاخیں ’خیر‘ کے درخت تک روشنی اور ہوا نہیں پہنچنے دیتیں،جب کہ ’خیر‘ کادرخت سست رفتاری کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی ہیں، جو اسے گرمی اور ہوا کا بدل فراہم کرتی رہتی ہیں۔
جب ہم ’شر‘ کے درخت کے پُرفریب اور زرق برق مظاہر کی چکاچوند سے آگے بڑھ کر اس کی حقیقی قوت اور مضبوطی کاجائزہ لیتے ہیں، تو وہ ہمیں بہت کم زور اور خستہ دکھائی دیتا ہے، اور اس میں کوئی حقیقی پاے داری نظرنہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں ’خیر‘ کادرخت آزمایشوں پر جمارہتا ہے، آندھی اور طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑپاتے۔ وہ پُرسکون انداز میں دھیرے دھیرے بڑھتا رہتا ہے اور ’شر‘ کے درخت کی جانب سے آنے والے جھاڑجھنکاڑ اور کانٹوں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔
ہم جب لوگوں کے دلوں میں اچھے پہلو کو محسوس کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں بہت کچھ خیر بھی موجود ہے، جوپہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا۔
میں نے اس کا تجربہ کیاہے۔ بہت سے لوگوں میں، میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی، جن کے بارے میں ابتدا میں بہ ظاہر اندازہ ہوتاہے کہ وہ شرپسند یا شعور واحساس سے عاری ہیں۔
ان کی غلطیوں اورحماقتوں پر معمولی ہم دردی کیجیے، ان سے حقیقی محبت کاتھوڑااظہار کیجیے، ان کی دلچسپیوں اور مسائل کی جانب بغیر کسی بناوٹ کے معمولی توجہ تو دیجیے، پھر آپ ان کے دلوں میں خیرکاچشمہ پھوٹتا ہوا دیکھیںگے۔ آپ انھیں صدق و صفا اور اخلاص کے ساتھ اپنی جانب سے جو کچھ دیںگے، وہ اگرچہ مقدار میں معمولی اورحقیر ہوگا، لیکن اس کے بدلے میں وہ والہانہ پن سے اپنی محبت و مودّت اور اپنا اعتماد آپ کے حوالے کردیںگے۔
نفسِ انسانی میں شرکی جڑیںاتنی گہری نہیں ہوتیں،جتنا ہم بسااوقات تصور کرتے ہیں۔ اکثر اوقات تو وہ پھل کے اس اوپری سخت چھلکے کی طرح ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ بقا کے لیے زندگی کی جدوجہد کرتا ہے۔ چنانچہ جب وہ کسی اندیشے سے محفوظ ہوجاتا ہے، تو وہ سخت چھلکا ہٹ جاتاہے اور اندر سے شیریں و لذیذ گودا نکل آتا ہے۔ یہ شیریں پھل اسی شخص کو حاصل ہوتاہے، جو لوگوں کو اپنی جانب سے امن، اپنی محبت پر اعتماد اور ان کی جدّوجہد ، پریشانیوں، غلطیوں اور حماقتوں پر حقیقی ہم دردی کااحساس دلاسکے۔
ابتدا ہی میں کشادہ دلی کے معمولی مظاہرے سے یقینی طورپر یہ سب چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں، اور یہ اس سے قریب تر ہوگا جس کی لوگ توقع کرتے ہیں۔ میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اپنی ذات پر اسے برتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتاہوں کہ یہ خواب و خیال کی باتیں نہیں ہیں۔
ہم اپنے دلوں میں اگر محبت، ہم دردی اور خیر کے بیج پروان چڑھالیں، تو اپنے آپ کو بہت سی مشقتوں، زحمتوں اور بے جا تکلیفوں سے بچالیں گے۔ پھر ہمیں دوسروں کی چاپلوسی کی ہرگز ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس لیے کہ اس وقت ہم ان کی مدح و ثنا کرنے میں سچے اور مخلص ہوںگے۔ ہم ان کے دلوں میں خیر کے چھپے خزانوں کو پالیں گے، اور ان کی ایسی پاکیزہ امتیازی خصوصیات دیکھیںگے، جن کی صدق دل سے تعریف وتحسین کرسکیں گے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے، کہ جس میں خیرکاکوئی پہلو یا کوئی اچھی امتیازی صفت نہ ہو، جو اسے کلمۂ خیرکامستحق بناتی ہو، لیکن افسوس کہ ہم اس سے واقف نہیں ہوتے۔ ہمیں اس کا علم اسی صورت میں ہوپاتا ہے، جب ہمارے دلوں میں محبت کا بیج پروان چڑھتا ہے۔
اسی طرح ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ان سے دل تنگ کرنے اور ان کی غلطیوں اور حماقتوں پر صبر کرنے کی مشقت برداشت کریں۔ اس لیے کہ جب ہمارے دلوں میں ہم دردی کا بیج پروان چڑھے گا، تو ان کی کم زوریوں اورخامیوں کے مواقع پر ہم ان کے ساتھ ہمدردی کااظہار کریںگے اور ان کم زوریوں سے واقف ہونے کے لیے ان کی ٹوہ میں نہیں لگیںگے۔
اس طرح فطری طورپر ہم اپنے آپ کو ان سے بغض و نفرت کی مشقت یا ان سے پہلو بچانے کی پریشانی میں نہیں ڈالیںگے۔ دوسروں سے ہماری نفرت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے دلوں میں خیر کے بیج کی نشو ونما اچھی طرح نہیں ہوتی اور ہم دوسروں سے اس لیے خوف کھاتے ہیں، کیوں کہ خود ہمارے اندر خیر پر اعتماد کاعنصر کم ہوتا ہے۔
ہم خود کو کتنی طمانینت، راحت اور سکینت پہنچائیںگے، جب دوسروں کو اپنی ہم دردی اور اعتماد کی سوغات پیش کریںگے، تو ہمارے دلوں میں محبت اور خیر کے بیج پروان چڑھیںگے۔
ہم جب لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اپنے اس احساس کی بنا پر، کہ ہماری روحیں ان سے زیادہ پاکیزہ ، ہمارے دل ان سے زیادہ صاف شفاف، ہمارے نفس ان سے زیادہ کشادہ اور ہماری عقل ان سے زیادہ تیز ہے، تو یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہوتا ،بلکہ اس طرح ہم اپنے لیے سب سے آسان راستہ اور سب سے کم زحمت کا انتخاب کرلیتے ہیں۔
حقیقی عظمت اس میں ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں۔ ان کی کم زوری، خامی اور غلطی پر بردباری اور ہم دردی کابھرپور مظاہرہ کریں، اور انھیں پاک صاف کرنے، تہذیب یافتہ بنانے اور حتی الامکان اپنے معیار تک بلند کرنے کی حقیقی خواہش رکھیں۔
اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بلند اخلاق اور اعلیٰ اقدار سے دست بردار ہوجائیں، یا ان لوگوں کی چاپلوسی کریں اور ان کی گھٹیا حرکتوں پر ان کی مدح وثنا کریں، یا انھیں یہ احساس دلائیں کہ ہم ان سے برتر ہیں۔ ان متضاد امور کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور اس راہ میں آنے والی پریشانی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہی حقیقی عظمت ہے۔
ہم جب قدرت و صلاحیت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیں گے، تب ہمیں احساس ہوگا کہ دوسروں سے مدد طلب کرنا ہمارے لیے عیب کی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اُن لوگوں سے مدد طلب کرنے کی صورت میں بھی نہیں، جو ہم سے کم صلاحیت کے حامل ہوں۔
اس سے ہماری قدر وقیمت کم نہیں ہوتی کہ دوسروں سے تعاون لیں۔ ہم ہر کام اپنے دم پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بات میں اپنی عار سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے مدد چاہیں، یا ان کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد میں شامل کرلیں۔ ہمیں اس بات میں اپنی بے وقعتی کااحساس ہوتاہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، کہ ہمارے ذریعے اس چوٹی کے سرہونے میں اُن کی مدد کا بھی دخل تھا۔ یہ سب ہم اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں اپنے اوپر زیادہ اعتماد نہیں ہوتا، یا ہم بالفعل کسی پہلو میں کم زور ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم فی الواقع طاقت ور ہوں، تو ہمیں اس کا ہرگز احساس نہیں ہوگا۔بچہ جب چلنے کی کوشش کرنے لگتاہے تو وہ اس ہاتھ کو جھٹک دیتا ہے، جو اسے سہارا دیے ہوئے ہوتا ہے۔
لیکن جب ہم طاقت و قوت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیںگے، تو دو سر وں کی مدد کو شکر و سپاس اور خوشی و مسرت کے جذبے کے ساتھ قبول کریںگے۔ شکریہ اس بات پر کہ ہماری مدد کی گئی، اور مسرت اس چیز کی کہ جس پر ہمارا ایمان ہے اس پر ایمان رکھنے والے دوسرے لوگ بھی ہیں، جو جدّوجہد اور ذمے داری میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ یقین کریں کہ شعور کی ہم آہنگی پر فرحت و مسرت کااحساس بڑا پاکیزہ اور مقدس احساس ہے۔
اگر ہم اپنے افکارو عقائد کو اپنے لیے خاص کیے رہیں اور جب دوسرے انھیں اختیارکرنے لگیں تو اس پر اپنے غیظ وغضب کا اظہارکریں اور پوری کوشش کریں کہ ان کی نسبت ہماری طرف ہی کی جائے اور دوسرے لوگ ان کے دشمن بنے رہیں۔ ایسا فعل کوئی فرد اس وقت کرتا ہے جب ان افکار و عقائد پر اس کا ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ وہ دل کی گہرائیوں سے تائید نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ بلاارادہ وہ افکار و عقائد ظاہر ہوجاتے ہیںاور ان سے نسبت رکھنے والا انھیں اپنی جان سے زیادہ محبوب نہیںرکھتا۔
حقیقی خوشی ہی فطری نتیجہ ہے اس چیز کاکہ ہم اپنے جیتے جی اپنے افکار و عقائد کو دوسروں کی زندگیوں میںرُوبۂ عمل دیکھیں۔ محض اس بات کا تصور کہ یہ افکار و عقائد ہمارے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد دوسروں کے لیے آسودگی اور سیرابی کا ذریعہ بنیںگے، اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دل رضا، سعادت اورطمانیت سے لب ریز ہوجائیں۔
یاد رہے، صرف تاجرہی اپنے سامانِ تجارت پر ٹریڈ مارک لگاتے ہیں، تاکہ دوسرے لوگ ویسا سامان نہ بناسکیں اور ان کے منافع کو ہڑپ نہ کرسکیں۔ رہے مفکرین، داعی اور عقائد کے حاملین تو وہ اس چیز کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان کے افکار و عقائد میں حصہ دار بن جائیں، اور ان پر اس حد تک ایمان لائیں کہ انھیں ان کے اوّلین علم برداروں کی طرف منسوب کرنے کے بجاے اپنی طرف منسوب کرنے لگیں۔
وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہی ان افکار و عقائد کے سکّہ بند’مالک‘ ہیں، بلکہ وہ خود کو ان کی منتقلی اور ترجمانی کے لیے محض ’واسطہ‘ گردانتے ہیں۔ انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جس سرچشمے سے وہ سیراب ہوتے ہیں، نہ وہ ان کاپیدا کیاہوا ہے اور نہ ان کے اپنے ہاتھوں کا بنایاہوا۔ انھیں حاصل ہونے والی خوشی و مسرت کاپاکیزہ احساس ان کے اس اطمینان کاثمرہ ہوتاہے کہ اس اصلی سرچشمے سے ان کا گہرا تعلق ہے۔
’ہم حقائق کو سمجھیں‘ اور ’ہم حقائق کا فہم حاصل کریں‘___ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے، بہت زیادہ فرق۔ اس میں پہلی چیز علم ہے اور دوسری چیز معرفت۔
پہلی بات میں ہمارا تعامل مجرد الفاظ و معانی کے ساتھ، یا جزئی تجربات اور نتائج کے ساتھ ہوتا ہے،جب کہ دوسری بات میں ہم زندہ قبولیتوں اور کلّی مطالب کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔
پہلی صورت میں ہمیں اپنی ذات کے باہر سے معلومات حاصل ہوتی ہیں، پھر وہ ہماری عقلوں میں جاگزیں ہوکر امتیازی صورت میں محفوظ رہتی ہیں۔ دوسری صورت میں حقائق ہمارے اندرون سے پھوٹتے ہیں۔ ان میں خون اسی طرح دوڑتاہے، جس طرح ہماری رگوںاور اعضا میں دوڑتا ہے اور ان کی شعاعیں ہماری نبض سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔
پہلی صورت میں مختلف خانے اور ان کے ذیلی عنوانات ہوتے ہیں:علم کاخانہ اوراس کے تحت مختلف عنوانات، مذہب کاخانہ اور اس کے تحت مختلف ابواب و فصول، آرٹ کاخانہ اور اس کے تحت مختلف مناہج اور رجحانات۔ اور دوسری صورت میں صرف ایک طاقت ہوتی ہے، جو کائنات کی عظیم ترین طاقت سے مربوط ہوتی ہے، صرف ایک دھارا ہوتا ہے، جو اصل سرچشمے سے جاملتا ہے۔
ہمیں انسانی علوم کی تمام شاخوں میں ماہرین کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کی جو اپنی تجربہ گاہوں اور دفاتر کو عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی شکل دے دیں، جو اپنے دائرۂ اختصاص کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ صرف قربانی کے جذبے سے نہیں، بلکہ اس میں انھیں اس عبادت گزار کی طرح لذت کا بھی احساس ہو، جو اپنی روح کوبہ خوشی اپنے معبود کے حوالے کردیتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں اس چیز کا ادراک کرنابھی ضروری ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو زندگی کو کوئی رُخ دیتے ہیں، یا انسانیت کے لیے کوئی راہ طے کرتے ہیں۔
رہنمائی ہمیشہ انھی لوگوں نے کی ہے اور آیندہ بھی وہی کریںگے جو اعلیٰ روحانی قوتوں کے مالک ہوں۔ یہی ہیں وہ لوگ، جو ایسے پاکیزہ شعلے کے حامل ہوتے ہیں، جس کی حرارت میں علوم و معارف کے تمام ذرات پگھل جاتے ہیں اور جس کی روشنی میں زندگی کے راستے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اعلیٰ اور بلند تر ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے وہ تمام جزئیات سے مالامال رہتے ہیں اور انھیں بہترین زادِ راہ حاصل رہتا ہے۔ یہ رہنما اپنی بصیرت سے اُس ہمہ گیر وحدت کا فہم حاصل کرلیتے ہیں، علم ،فن، عقیدہ اور عمل جس کے مختلف مظاہر ہیں۔ چنانچہ وہ نہ تو ان میں سے کسی کو حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں اور نہ کسی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
چھوٹے لوگ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مظاہر کی ان قوتوں کے درمیان تضاد اور تصادم ہے۔ چنانچہ وہ مذہب کے نام پر علم سے برسرپیکار رہتے ہیں،یا علم کے نام پر مذہب سے محاذآرا۔
یہ لوگ فن کو عمل کا نام دے کر اس کی تحقیر کرتے ہیں ،یا تحریک پیدا کرنے والی قوتِ حیات کو صوفیانہ عقیدہ کہہ کر اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان طاقتوں میں سے ہر طاقت کو الگ سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ سب ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی ہیں،اس عظیم ترین قوت سے جس کا تسلط اس کائنات پر قائم ہے۔ لیکن بڑے رہنما اس وحدت کا ادراک کرلیتے ہیں، اس لیے کہ ان کا اس اصل سرچشمے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ اس سے فیض اٹھاتے رہتے ہیں۔
اعلیٰ روحانی قوتوں کے حاملین کم ہیں۔ تاریخ انسانیت میں ان کی تعداد بہت قلیل ہے، بلکہ ان کا وجود نادر ہے، لیکن انھی لوگوں سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ جو قدرت الٰہیہ اس کائنات کی نگرانی کررہی ہے، اسی نے ان کی صورت گری کی ہے اور طے شدہ اور مطلوبہ وقت میں انھیں بیدار کیاہے۔
خرقِ عادت چیزوں،کشف و کرامات اورغیر مرئی قوتوں پر ہی اعتقادکو مطلق تسلیم کرنا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ وہ خرافات تک لے جاتا اور زندگی کو بہت بڑے وہم میں مبتلا کردیتا ہے۔ لیکن اس اعتقاد کا مطلق انکار کرنا بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ اس لیے کہ یہ چیز ’ نامعلوم‘ تک رسائی کے تمام دروازوں کو بندکردیتی اور ہر اَن دیکھی طاقت کا انکار کردیتی ہے، محض اس بنا پر کہ وہ ہماری زندگی کے کسی مرحلے میں ہمارے انسانی فہم و ادراک سے پرے تھی! اس طرح ہمارا فہم اس کائنات کے مقابلے میں حجم، طاقت اور قدروقیمت کے اعتبار سے چھوٹا ہوجاتا ہے اور ’معلوم‘ کی حدود سے گھرجاتاہے۔ اور وہ اس لمحے تک، جب کائنات کی عظمت سے اس کامقابلہ کیاجائے، حقیر___ انتہائی حقیر ہوتا ہے۔
اس روے زمین پر انسان کی زندگی، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قوتوں اور ان کے مظاہر کے فہم و اِدراک سے عاجزہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ انسانی زندگی ان قوتوں کے فہم و ادراک پر قدرت کا تسلسل ہے۔ جب بھی انسان نے بندشوں سے چھٹکارا پایا اور اپنے طویل راستے میں آگے کی طرف قدم بڑھایا ہے، اسے ان قوتوں کا ادراک ہواہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی ان قوتوں میں سے، جو کبھی انسان کے لیے نامعلوم اور اس کے اِدراک سے پرے تھیں، کسی قوت کے اِدراک پر اس کا قادر ہوجانا اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے دیکھ لے کہ کائنات میں دوسری بہت سی قوتیں ایسی ہیں، جن کاابھی وہ اِدراک نہیں کرسکا ہے۔ اس لیے کہ ابھی تک وہ تجربے کے مرحلے سے گزررہاہے۔
انسانی عقل کے احترام کا تقاضاہے کہ ہم اپنی زندگی میں ’نامعلوم ‘ کومناسب مقام دیں۔ اس لیے نہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات اس کے حوالے کردیں ، جیساکہ اوہام و خرافات کے دل دادہ کرتے ہیں،بلکہ اس لیے تاکہ ہم حقیقی طورپر اس کائنات کی عظمت کااحساس کرسکیں اور اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی قدرو قیمت پہچان سکیں۔
اسی طرح اس کایہ بھی تقاضا ہے کہ وہ انسانی روح کے لیے بہت سی قوتوں کے دروازے کھول دے، جس سے معرفت حاصل ہوسکے اور ان روابط کاعلم ہوسکے، جو ہمیں اور ہماری داخلی دنیا کو اس کائنات سے جوڑے ہوئے ہیں۔ اس بات میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ یہ قوتیں ان تمام چیزوں سے زیادہ عظیم اور وسیع اور گہری ہیں، جن کاہم نے اب تک اپنی عقلوں سے اِدراک کیاہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے سامنے ہر دن کسی نئے ’نامعلوم‘ کا انکشاف ہورہاہے اور ہم برابر اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
اس زمانے میں بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مطلق عظمت کا اعتراف کرنے سے: ’’انسان کی قدرو قیمت کم ہوجاتی ہے اور اس کائنات میں اس کی شان گھٹ جاتی ہے‘‘۔ گویا اللہ اور انسان دو حریف ہیں ،جو اس کائنات میں عظمت اور قوت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ایسا سوچنا محض جہالت ہے۔
میرااحساس ہے کہ جوں جوں اللہ کی مطلق عظمت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ ہوگا، اسی قدر ہمیں بھی عظمت حاصل ہوگی۔ اس لیے کہ ہم اس عظیم ہستی کی تخلیق ہیں۔
جولوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کامقام اس وقت بلند ہوتاہے، جب وہ اپنے خیال میں اپنے خالق اور معبود کا درجہ گرادیتے یا اس کا مطلق انکارکردیتے ہیں، تو یقین مانیے ایسے لوگ بے چارگی اور عقلی افلاس کی اس سطح پر گرے ہوئے ہیں کہ جو قریبی افق کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔
وہ گمان کرتے ہیں کہ انسان نے اپنے ’ضعف‘ اور ’عجز‘ کے زمانے میں اللہ کی پناہ حاصل کی تھی، لیکن اب، جب کہ وہ ’طاقت ور‘ ہوگیا ہے، اسے کسی معبود کی ضرورت نہیں! گویا کہ ضعف، بصیرت کے دروازے وَا کرتا اور طاقت وقوت اس پر خطِ نسخ پھیر دیتی ہے۔ انسان کے شایانِ شان یہ ہے کہ جوں جوں اس کی قوت بڑھے، اسی قدر اللہ کی عظمت ِمطلق کے بارے میں اس کے احساس میں اضافہ ہو۔ اس لیے کہ اس کی قوتِ ادراک میں جس قدر اضافہ ہوگا، اسی قدر وہ اس قوت کے سرچشمے کا بہ خوبی ادراک کرسکے گا۔
بعض اوقات غلامی، آزادی کے لبادے میں چھپ جاتی ہے اور اس کا اظہار تمام پابندیوں سے آزادی، عرف اور روایات سے آزادی کی شکل میں ہوتا ہے۔
ذلت، دباؤ اور کم زوری کی قیود سے آزادی اور انسانیت کی قیود اور ذمے داریوں سے آزادی، دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ اول الذکر ہی حقیقی آزادی ہے، جب کہ دوسری آزادی فی الواقع ان قدروں سے عاری ہونا ہے، جنھوںنے انسان کو انسان بنایاہے اور اسے حیوانیت کی بھاری بیڑیوں سے آزاد کیا ہے۔یہ بناوٹی آزادی ہے۔ اس لیے کہ یہ حقیقت میں حیوانی جذبات و میلانات کے آگے خودسپردگی اور ان کی غلامی ہے۔ انسانیت نے ایک طویل عرصہ اس غلامی کی بیڑیوں کو کاٹنے اور آزاد فضا میں سانس لینے کی جدّوجہد کرتے گزارا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت اپنی ناگزیر ضروریات کے اظہار سے کیوں شرماتی ہے؟
دراصل وہ محسوس کرتی ہے کہ ان ضروریات سے بلندہو جانا انسانیت کی اوّلین قدر ہے۔ اس کی بیڑیوں سے نجات پانا ہی حقیقی آزادی ہے ۔ گوشت اور خون کے محرکات پر غلبہ پانا اور کم زوری اور ذلّت کے اندیشوں پر قابو پانا ، انسانیت کے مفہوم کو گہرا کرنے میں دونوں کا کردار برابر ہے۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اصولوں کو افراد سے الگ کرکے پیش کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے اور حرارت بخش عقیدے کے بغیر اصول کی کوئی حیثیت نہیں، اور ایسا عقیدہ انسان کے دل کے علاوہ اور کہیں کیوں کر پایاجاسکتا ہے؟
اصول اور افکار اگر حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے عقیدے پر مبنی نہ ہوں تو وہ محض کھوکھلے الفاظ ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ بے جان معانی ہیں۔ جو چیز ان کو زندگی بخشتی ہے وہ ایمان کی حرارت ہے، جو کسی انسان کے دل سے نکلتی ہے۔ دوسرے لوگ ہرگز کسی ایسے اصول یا نظریے پر ایمان نہیں لائیںگے ،جو کسی حرارت بخش دل میں نہیں، بلکہ جذبے اور اعلیٰ احساس سے عاری ذہن میں پیداہوا ہو۔
پہلے تم خود اپنے نظریے پر ایمان لاؤ۔ اس پر تمھارا ایمان حرارت بخش عقیدے کی حد تک ہو! تبھی دوسرے لوگ بھی اس پر ایمان لائیںگے ،ورنہ اس کی حیثیت محض چند کھوکھلے الفاظ کی ہوگی، جو روح اور زندگی سے عاری ہوں گے۔
اُس نظریے کے لیے کوئی زندگی نہیں جو کسی انسان کے سانچے میں نہ ڈھلاہو اور جس نے کسی ایسے زندہ وجود کی شکل نہ اختیار کی ہو، جو روے زمین پر کسی انسان کی صورت میں چلتاپھرتا ہو۔ اسی طرح اِس میدان میں اُس انسان کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، جس کے دِل میں کسی ایسے نظریے نے گھر نہ کیاہو، جس پر وہ حرارت اور اخلاص کے ساتھ ایمان ر کھتاہو۔
نظریے اور فرد کے درمیان فرق کرنا، روح اور جسم یا معنی اور لفظ کے درمیان فرق کرنے کا ہم معنی ہے۔ بسااوقات ایسا کر پانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر نظریے کو فرد سے الگ کردیاجائے، تو اکثر وہ فنا کے گھاٹ اترجاتا ہے۔صرف اسی نظریے کو زندگی ملتی ہے، جس کی پرورش انسان کے خونِ جگر سے ہوتی ہے۔ رہے وہ افکار جو اس پاکیزہ غذا سے محروم رہتے ہیں، وہ مردہ ہوتے ہیں اور ان میں انسانیت کو ایک بالشت بھی آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہوتی۔
میرے لیے یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ ہم کسی گھٹیا وسیلے کو کام میں لاکر کسی پاکیزہ مقصد تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکیزہ مقصد کسی پاکیزہ دل ہی میں زندہ رہ سکتا ہے۔ پھر اس دل کے لیے کیوں کر ممکن ہے کہ وہ کسی گھٹیا وسیلے کو بروئے کار لانے کو گوارا کرے؟
ہم جب کسی سرسبز و شاداب علاقے میں پہنچنے کے لیے کسی کیچڑ بھرے راستے سے ہوکر گزریںگے، تو ضروری ہے کہ اپنی منزل تک کیچڑ میں لت پت ہوکر پہنچیں۔کیچڑ سے ہمارے پیر بھی گندے ہوجائیںگے اور وہ جگہیں بھی، جہاں ہمارے پیر پڑیںگے۔ یہی حال اس وقت ہوگا، جب ہم کوئی گھٹیا اور گندا وسیلہ اختیار کریں گے۔ گندگی ہماری روحوں سے چپک جائے گی اور اس کے اثرات ہماری روحوں پر بھی پڑیں گے اور اس مقصد پر بھی جسے ہم حاصل کرناچاہتے ہیں۔
روح کے معاملے میں وسیلہ مقصد کا ایک جز ہے۔ عالمِ روح میں یہ امتیازات اور تقسیمیںنہیں ہوتیں۔ صرف انسانی شعور ہی ایسا ہے کہ جب اس میں کسی پاکیزہ مقصد کااحساس پیداہوتا ہے، تو وہ ہرگز کسی گھٹیا وسیلے کو اختیار کرنا گوارا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطری طورپر وہ ہرگز اسے اختیار نہیں کرے گا۔
’’مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی وسیلہ اختیار کیاجاسکتاہے‘‘___ یہ مغرب کاعظیم فلسفہ ہے! اس لیے کہ مغرب کی عظمت کاپرتو اپنے ذہن ودماغ کی شکست خوردگی کی وجہ سے ہے۔ وسائل اور مقاصد کے درمیان تقسیم اور فرق کرناذہنی طور پر ہی ممکن ہے،عمل کی دنیا میں نہیں۔
اُموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی تجہیز و تکفین کا سامان کرنے کے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور خود انھیں قبر میں اتارا ۔ جب وہ قبرستان سے واپس گھر جانے لگے تو بطورِ خلیفہ اُنھیں شاہی سواریاں پیش کی گئیں، لیکن عمر بن عبد العزیز نے یہ سواریاں واپس کر دیں اور فرمایا: ’’ میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے‘‘۔ اس کے بعد پولیس افسر مع اپنے سپاہیوں کے حفاظت کے لیے آگے بڑھا، تو آپ نے ان کوواپس کر دیا ۔ اور فرمایا:’’ مجھے کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے، میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں‘‘۔
تدفین سے فارغ ہوکر عمر بن عبدالعزیز _ اپنے خچر پر سوار ہو کر واپس اپنے گھر تشریف لائے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آپ قصر شاہی میں قیام کریں گے، لیکن آپ نے فرمایا: ’’وہاں سابق خلیفہ سلیمان کے اہل وعیال ہیں، میرا جانا وہاں مناسب نہیں ‘‘۔
خلفاے بنواُمیہ کے یہاں دستور تھا کہ جب خلیفہ کا انتقال ہوتا تو اس کے زیراستعمال اشیا اس کی اولاد کو ملتی تھیں اور غیر استعمال شدہ اشیا نئے خلیفہ کی ملکیت میں آجاتی تھیں۔ اہل خاندان نے اسی طریقے کے مطابق سلیمان بن عبدالملک کی اشیا کو تقسیم کرنا چاہا، لیکن عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن الحکم(م: ۱۰۱ھ) نے ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔ اور فرمایا:’’یہ اشیا نہ میری ہیں، نہ سلیمان کی اور نہ تمھاری‘‘۔ اور پھر اپنے غلام مزاحم کو حکم دیا: ’’ ان سب اشیا کو بیت المال میں جمع کر دو‘‘۔(سیرت ابن عبدالحکم، ص ۳۵)
اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا، جس کا خلاصہ یہ ہے :
لوگو ! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی خواہش کے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داریوں میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمھاری گردن میں ہے، میں خود اتارے دیتا ہوں ۔ تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کر لو۔
اس خطبے کو سن کر لوگوں نے بلند آواز میں کہا: ’’ہم نے آپ کو خلیفہ بنایا ہے، اور ہم سب آپ سے راضی ہیں، آپ خدا کا نام لے کر کام شروع کیجیے‘‘۔
جب آپ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب کسی شخص کو ان کی خلافت سے اختلاف نہیں ہے تو اس وقت آپ نے اس بارِ عظیم کو قبول کیا اور مسلمانوں کے سامنے تقریر کی ۔ جس میں تقویٰ، فکرآخرت کی تلقین اور خلیفۂ اسلام کی اصل حقیقت واضح کی ۔عمر بن عبدالعزیز _ نے فرمایا :
لوگو ! تمھارے نبی کے بعد دوسرا نبی آنے والا نہیں ہے اور اللہ نے اس پر جو کتاب اُتاری ہے، اس کے بعد دوسری کتاب آنے والی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیز حلال کردی ہے وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اور جو چیز حرام کر دی ہے، وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ میں ( اپنی جانب سے ) کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ صرف ( احکام الٰہی کو ) نافذ کرنے والا ہوں۔خود اپنی طرف سے کوئی نئی بات کرنے والا نہیں ہوں بلکہ محض پیرو ہوں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے۔ میں تم میں سے کوئی ممتاز آدمی نہیں ہوں بلکہ معمولی فرد ہوں، البتہ تمھارے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔
لوگو ! جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے، اس کی اطاعت واجب ہے، اور جو شخص اس کی نافرمانی کرے اس کی فرماں برداری جائز نہیں۔ جب تک میں اللہ کی اطاعت کروں، میری اطاعت کرو ۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں، تو میری فرماں برداری تم پر فرض نہیں ہے۔
لوگو! اللہ تعالیٰ کے خوف وتقویٰ کو لازم پکڑو ۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہر چیز کا بدل ہے مگر اس کا کوئی بدل نہیں ۔
لوگو! مجھ سے پہلے بعض حکام کو خوش رکھنا تم اس لیے ضروری سمجھتے تھے تا کہ اس طرح تم ان کے ظلم سے محفوظ رہ سکو۔
لوگو! میں مال و دولت کو تم سے بچابچا کر نہیں رکھوں گا، بلکہ جہاں مجھے حکم دیا گیا وہاں صرف کروں گا۔ سن رکھو! خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں ہے۔
اس کے بعد آپ منبر سے نیچے اُتر آئے اور لوگوں کو چلے جانے کا حکم دیا ۔(تاریخ ابن اثیر :ج۵،ص۱۶، سیرت ابن عبدالحکم، ص۳۸-۳۹)
l دوسـرا خطبہ : عمر بن عبدالعزیز _ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو دوسرے علاقوں سے کئی لوگ اپنی اپنی ضرورتوں کے لیے دار الخلافہ میں آئے ہوئے تھے ۔ آپ نے ان تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے درج ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
لوگو! اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے جاؤ، کیوںکہ جب تم میرے پاس ہوتے ہو تو میں بھول جاتا ہوں، اور جب تم اپنی اپنی جگہ پر ہوتو مجھے خوب یاد رہتے ہو ۔
دیکھو! میں نے کچھ لوگوں کو تم پر حاکم مقررکیا ہے ۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ تم میں سے بہتر آدمی ہیں۔ ہاں، یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت سوں سے اچھے ہیں۔ اگر کسی شخص پر اس کا حاکم ظلم ڈھاتا ہے تو میں آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اسے میری طرف سے اس بات کی اجازت نہیں ہے ( اطلاع ملنے پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی )۔ اور جس پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوا (جو یونہی یہاں آیا ہوا ہے ) اسے اپنی جگہ واپس جانا چاہیے، آیندہ میں اسے یہاں نہ دیکھوں ۔
دیکھو ! میں نے اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے اس مال کو ممنوع قرار دےرکھا ہے۔ اب اگر تم کو دینے میں بھی بخل کروں تو پھر میں پرلے درجے کا کنجوس ہوں گا۔ اگر میں کسی سنت کو بلند نہ کرسکوں یا حق وانصاف کی راہ نہ چل سکوں تو میں ایک گھڑی بھی زندہ رہنا نہیں چاہوں گا۔
عمر بن عبدالعزیز _ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو ان کے پیش نظر،یہ تھا کہ اُموی حکومت کو خلافت راشدہ میں بدل دینا چاہیے۔ وہ چاہتے تھے کہ نظام خلافت میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا جائے۔ ان کے پیش نظریہ بھی تھا کہ جب وہ اس سلسلے میں عملی قدم اٹھائیں گے تو ان کی مخالفت میں ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ لیکن آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ نظام خلافت میں ضرور تبدیلی لاکر اسے اصل پر واپس لوٹائیں گے ۔ چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دو ضروری کام کرنے کا عزم کیا : ۱-غصب شدہ مال و جایداد کی واپسی، اور ۲-باغ فدک کا معاملہ۔
شاہی خاندان اور امرا کو دیے ہوئے سابقہ حکام کے ناجائز تحائف، بیت المال سے عہدے داران کے ذاتی مصارف، عوام پر ظالمانہ ٹیکس، غیرمسلموں پر ٹیکس کی ظالمانہ شرح، ان سب کو سیّدنا عمر نےاصل حیثیت پر لوٹایا۔
عمر بن عبدالعزیز _ سے پہلے خلفاے بنو امیہ نے رعایا کے مال و جایداد پر ظالمانہ قبضہ کر لیا تھا۔ اس مال کے ان کے اصل مالکوں کو واپس کرنا انھوں نے اپنے اُوپر فرض قرار دیا۔ چنانچہ اس سلسلے میں آپ نے سب سے پہلے عملی قدم اپنی ذات اور اپنے خاندان سے شروع کیا ۔ آپ کے پاس بہت بڑی موروثی جاگیر تھی ۔ آپ کے بعض خیر خواہوں نے آپ کو مشورہ دیا: ’’ اگر آپ جاگیر واپس کریں گے تو اولاد کے لیے کیا انتظام کریں گے؟‘‘ فرمایا : ’’ میں ان کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں‘‘۔ اس کے بعد آپ نے بنی مروان کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: ’’ بنی مروان ! تم کو شرف اور دولت کا وافر حصہ ملا ہے۔ میرا خیال ہے کہ امت کا نصف یا دو تہائی مال تمھارے قبضے میں ہے‘‘۔
یہ لوگ اشارہ سمجھ گے اور عمر بن عبدالعزیز _سے مخاطب ہو کر کہا :’’ خدا کی قسم ! جب تک ہمارے سرتن سے جدا نہ ہوں گے اس وقت تک ہم یہ جایداد واپس نہیں کر سکتے۔ خدا کی قسم ! نہ اپنے آباو اجداد کو کافر بنا سکتے ہیں اور نہ اپنی اولاد ہی کو مفلس بنائیں گے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے بنی مروان کی زبانوں سے یہ الفاظ سنے تو آپ نے فرمایا: ’’خداکی قسم! اگراس حق کی ادایگی میں تم میری مدد نہیں کرو گے تو میں تم سب کو ذلیل ورسوا کر کے چھوڑوں گا‘‘۔(سیرت عمر بن عبدالعزیز از ابن جوزی، بیروت ۱۹۸۴ء، ص ۱۰۸)
اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز _ نے عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب تمام لوگ مسجد میں جمع ہو گئے تو آپ نے ان کے سامنے تقریر کی:
ان لوگوں ( اُموی خلفا ) نے ہم ارکانِ خاندان کو ایسی جاگیریں اور عطیات دیے، خداکی قسم! جن کے دینے کا نہ ان کو کوئی حق تھا اور نہ ہمیں ان کے لینے کا ۔ اب میں ان سب کو ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرتا ہوں ۔ اور اپنی ذات اور اپنے خاندان سے شروع کرتا ہوں۔
اس تقریر کے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے غلام مزاحم کو حکم دیا کہ وہ شاہی دستاویز لائے جس میں جاگیروں کی الاٹمنٹ کے احکامات تھے۔ چنانچہ مزاحم دستاویز لائے اور پڑھ کے سناتے جاتے تھے اور عمر بن عبدالعزیز اسے قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے تھے۔ ظہر کی نماز تک آپ نے تمام جاگیریں اصل حق داروں کو واپس کردیں، حتیٰ کہ ایک نگینہ بھی اپنے پاس نہ رہنے دیا۔(طبقات ابن سعد، ص۲۵۲)
جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہیں: ’’عتبہ بن سعید بن ابی العاص، عمر بن عبدالعزیز _ کے پاس آئے اور عرض کیا :’’ امیر المومنین آپ سے پہلے خلفاے بنو اُمیہ ہم کو مال ومتاع اور عطیات مرحمت فرماتے تھے ۔ لیکن آپ نے یہ سب سلسلہ بند کر دیا ہے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا:’’ تم محنت و مشقت سے کام کرو اور اپنی روزی کماؤ‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اے عتبہ ! تم موت کو زیادہ یاد کرو تاکہ تم اگر تنگ دست ہو تو اس میں وسعت پیدا ہو۔اگر تم کو وسعت اور فراخی میسر ہے تو تم کو تنگی محسوس ہو‘‘۔( تاریخ الخلفاء، ص۳۲۳)
آپ کی بیوی فاطمہ، عبدالملک کی بیٹی تھی ۔ عبدالملک نے شادی کے وقت بہت سا زیور اور ایک بیش بہا قیمتی پتھر اُنھیں دیا تھا اور یہ پتھر اور زیور فاطمہ بنت عبدالملک کے پاس محفوظ تھا ۔ آپ نے اپنی بیوی سے فرمایا:’’ تمھارے پاس جو زیور اور قیمتی پتھر ہے، یہ سب بیت المال میں جمع کر ادو ۔ اگر تم یہ زیور وغیرہ اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو توپھر مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ‘‘۔
اطاعت شعار بیوی نے جواب دیا:’’ آپ میرا تمام زیور اور قیمتی پتھر شوق سے بیت المال میں جمع کر ادیجیے۔ میں زیور کے مقابلے میں آپ کو ترجیح دیتی ہوں‘‘۔
جب عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہو گیا اور حسبِ وصیت یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوا،تو اس نے آپ کی زوجہ محترمہ ( اپنی بہن فاطمہ ) سے کہا: ’’اگر تم چاہو تو میں تمھارا تمام زیور بیت المال سے واپس لے کر تم کو دے دوں؟‘‘
فاطمہ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا :’’ جو چیز میں اپنی مرضی سے اپنے خاوند کی زندگی میں دے چکی ہوں ، اب ان کے انتقال کے بعد واپس نہیں لوں گی‘‘۔
فدک خیبر کا ایک گاؤں تھا ۔ فتح خیبر کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے’ خالصہ ‘ قرار دے دیا تھا اور اس کی آمدنی آپؐ اہل بیت اور بنی ہاشم کی ضروریات میں صرف فرماتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ ہوئے تو حضرت فاطمہ ؓ نے اس کا مطالبہ کیا، لیکن حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ’’ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے کہ انبیاکے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی ‘‘۔ (سنن ابوداؤد: ۲۹۶۹)
اس کے بعد مروان بن الحکم نے باغِ فدک کو اپنی ذاتی جاگیر بنالیا اور بطورِ وراثت یہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضے میں آیا ۔سنن ابوداؤد میں ہے :’’عبداللہ بن جریر مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز _ بن مروان بن الحکم جس وقت خلیفہ بنائے گئے تو انھوں نے مروان کے بیٹوں کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو باغ فدک تھا، آپؐ اس کی آمدنی اپنے اہل وعیال ، فقرا اور مساکین پر خرچ کرتے تھے ۔ اور اس سے بنی ہاشم کے چھوٹے لڑکوں پر احسان کرتے تھے ، اور بیوہ عورتوں کے نکاح پر بھی خرچ کرتے تھے۔ رسولؐ اللہ سے حضرت فاطمہؓ _ نے فدک کا سوال کیا تھا، یعنی فدک مجھے دے دیا جائے تو آپؐ نے حضرت فاطمہؓ _ کو فدک نہ دیا ۔ اور اس کی جو صورت تھی وہ اسی طرح رہی جو رسولؐ اللہ کی زندگی میں تھی۔ جب آنحضرتؐ کی وفات ہوئی اور حضرت ابو بکر صدیقؓ _ خلیفہ ہوئے تو اس کی صورت تب بھی وہی رہی جو رسولؐ اللہ کی حیاتِ طیبہ میں تھی۔ جب حضرت ابو بکر صدیقؓ _ کی وفات ہوئی اور حضرت عمرؓ _ خلیفہ ہوئے تو انھوں نے ایسا ہی عمل کیا۔ جس طرح آنحضرتؐ اپنی زندگی میں اپنے اہل وعیال اور برادران بنی ہاشم پر اور نکاحِ بیوگان وغیرہ پر صرف کرتے تھے، ویسے ہی حضرت عمر فاروق ؓ نے کیا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروقؓ کی وفات ہوئی۔ پھر مروان بن الحکم نے اس کو اپنی ذاتی جاگیر بنالیا اور اس نے یہ اقدام حضرت عثمانؓ _ کی خلافت میں کیا۔ اس کے بعد فد ک اب میرے تصرف میں آیا ہے۔{ FR 647 } میں نے یہ امر دیکھا ہے کہ رسولؐ اللہ نے اس کو حضرت فاطمہؓ _ کو نہیں دیا تھا، تو یہ میرے لیے بھی رکھنا درست نہیں اور میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ فدک کی جو حالت عہدِ رسالتؐ میں تھی، اس کو اسی طرف لوٹاتا ہوں‘‘۔
مولانا عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں کہ:’’ عمر بن عبدالعزیز _ نے گورنر مدینہ ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو ایک خط لکھا کہ مجھے تحقیقات کے بعد معلوم ہوا ہے کہ فدک سے فائدہ اُٹھانا میرے لیے جائز نہیں ہے۔ اس لیے میں اس کو اسی حالت میں لانا چاہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے زمانے میں تھی۔ جب آپ کو میرا یہ خط ملے تو اس کو ایک ایسے شخص کے قبضے میں دیجیے جو تمام حقوق کی محافظت کے ساتھ اس کی نگرانی کرے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے نہ صرف علاقے اور جاگیریں چھین کر بنی اُمیہ کو تہی دست کردیا، بلکہ ان کے سارے امتیازت مٹا کر اُن کے نخوت و غرور کو خاک میں ملا دیا ۔آپ کے اس اقدام سے خاندان میں ان کے خلاف سخت برہمی پھیل گئی اور اُنھوں نے ہر طریقے سے پوری کوشش کی کہ عمر بن عبدالعزیز _ نے جو اصلاحی تحریک چلائی ہے اس کو ختم کیا جائے۔ اہل خاندان نے ایک دفعہ آپ سے کہا تھا کہ آپ نے جو یہ سلسلہ شروع کیا ہے ہم اس پر راضی نہیں ہیں اور ہم کسی بھی صورت میں اپنی جاگیریں واپس نہیں کریں گے ، اورنہ مال آپ کو واپس دیں گے۔ ان کے جواب میں عمر بن عبدالعزیز _ نے فرمایا تھا:’’ یہ آپ کی خام خیالی ہے ۔ میں آپ سے تمام غصب شدہ مال واپس لے کر ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرکے رہوں گا‘‘۔
خاندان بنی امیہ نے کوشش جاری رکھی کہ عمر بن عبدالعزیز _ نے جو تحریک چلائی ہے اس سے دست بردار ہوجائیں ۔چنانچہ عمر بن عبدالولید بن عبدالملک نے آپ کو ایک خط لکھا:
تم نے گذشتہ خلفا پر عیب لگایا ہے اور ان کی اولاد کی دشمنی سے ان کے مخالف روش اختیار کی ہے۔ تم نے قریش کی دولت اور ان کی میراث کو ظلم و عدوان سے بیت المال میں داخل کرکے قطع رحم کیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز _! خدا سے ڈرو اور اس کاخیال کرو کہ تم نے ظلم کیا۔ تم نے منبر پر بیٹھنے کے ساتھ ہی اپنے خاندان کو ظلم و جور کے لیے مخصوص کرلیا۔ اس خدا کی قسم! جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی خصوصیات کے ساتھ مختص کیا! تم اپنی اس حکومت میں جس کو تم مصیبت کہتے ہو، خدا سے بہت دُور ہو گئے ۔ اپنی خواہشات کو روکو اور یقین کرو کہ تم اس حالت میں چھوڑے نہیں جا سکتے۔
عمر بن عبدالعزیز _ اگر چہ سراپا حلم تھے، لیکن آپ نے بھی اس کا سخت جواب لکھا :
مجھے تمھارا خط ملا اور جیسا تم نے لکھا ہے میں ویسا ہی جواب دوں گا۔تم ایک معاند اور ظالم ہو۔ تمھارا خیال ہے کہ میں ظالموں میں سے ہوں، میں نے تم کو اور تمھارے خاندان کو خدا کے مال سے جس میں اہل قربیٰ ، مساکین اور بیواؤں کا حق ہے محروم کر دیا؟ لیکن مجھ سے زیادہ ظالم اورمجھ سے زیادہ خدا کے عہد کو چھوڑ دینے والا وہ شخص ہے جس نے تم کو بچپن اور کمینے پن کی حالت میں مسلمانوں کی ایک چھاؤنی کا افسر مقرر کیا ۔ اور تم اپنی راے کے موافق ان کے معاملات کا فیصلہ کرتے رہے ۔ پس پھٹکار ہو تجھ پر اور پھٹکار ہو تیرے باپ پر، جو اپنے مدعیوں سے کیوں کر نجات پائے گا۔مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے حجاج کو عرب کے خمس پر مقرر کیا ۔ جو حرام خون بہاتا تھا اور حرام مال لیتا تھا۔مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے کیا ہوا عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے قرۃ بن شریک جیسے اُجڈبدو کو مصر کاعامل مقرر کیا۔ جس نے راگ باجا، لہوو لعب اور شراب خوری کی اجازت دی۔ مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے ،جس نے عر ب کے خمس میں عالیہ بربر یہ کا حصہ مقر رکیا ۔
اگر مجھ کو فرصت ہوتی تو میں تجھے اور تیرے خاندان کو روشن راستے پر لاتا ۔ ہم نے مدتوں سے حق کو چھوڑدیا۔ اگر تم فروخت کیے جاؤ اور تمھاری قیمت یتیموں ، مسکینوں ، اور بیواؤں پر تقسیم کی جائے تو کافی نہ ہوگی کیوںکہ تم پرسب کا حق ہے۔ ہم پر سلام ہو، اور خدا کا سلام ظالموں کو نہیں پہنچتا۔(سیرت عمر بن عبدالعزیز ، ابن جوزی ،ص ۱۱۲)
عمر بن عبدالعزیزؒ _ نے جو تحریک چلائی تھی اس پر وہ سختی سے عمل پیرا تھے۔ مروان نے ایک بار ہشام بن عبدالملک کو اپنا وکیل بنا کر عمر بن عبدالعزیز _ کے پاس بھیجا، اور انھیں کہا کہ آپ عمر بن عبدالعزیز _ سے کہیں کہ اُنھوں نے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کو بند کریں۔ چنانچہ ہشام بن عبدالملک نے آپ سے آکر کہا:’’ اے امیر المومنین! میں آپ کی خدمت میں تمام خاندان کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں ۔ اور ان کا مطالبہ ہے کہ جو چاہے کیجیے لیکن گذشتہ خلفا جو کرگئے ہیں، اس کو اسی حالت میں رہنے دیجیے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس کے جواب میں ہشام بن عبدالملک سے پوچھا:’’ تمھارے پاس دو دستاویز ہوں۔ ایک سیدنا معاویہؓ _ کی اور دوسری عبدالملک کی، تو تم دونوں میں کس پر عمل کرو گے؟‘‘ہشام نے کہا :’’جو مقدم ہوگی‘‘ ۔ عمر بن عبدالعزیز _ نے کہا:’’ تو میں نے کتاب اللہ کو سب سے مقدم دستاویز پایا ہے۔ اس لیے ہر اس چیز میں جو میرے اختیار میں ہے، خواہ وہ میرے زمانے کی ہو یا گذشتہ زمانے سے متعلق ہو، اسی کے مطابق عمل کروں گا‘‘۔(ایضاً، ص ۱۱۹)
جب بنی مروان کی کوئی تدبیر کار گرنہ ہوئی تو انھوں نے آخری حربہ استعمال کیا ، اور آپ کی پھوپھی کو آپ کی خدمت میں بھیجا ۔ چنانچہ وہ آئیں اور عمر بن عبدالعزیز _ سے کہا کہ’’ عمر ! تمھارے اعزہ واقارب شکایت کرتے اور کہتے ہیں کہ تم نے ان سے غیر کی دی ہوئی روٹی چھین لی ‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے کہا : ’’ میں نے ان کا کوئی حق نہیں چھینا‘‘۔
پھوپھی نے جواب دیا: ’’سب لوگ اس کے متعلق گفتگو کرتے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ تمھارے خلاف بغاوت نہ کر دیں‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے فرمایا: ’’ اگر میں قیامت کے سوا کسی دن سے ڈروں تو اللہ مجھے اس کی برائیوں سے نہ بچائے‘‘۔
اس کےبعد ایک اشرفی ، گوشت کا ایک ٹکڑا اور ایک انگیٹھی منگوائی اور اشرفی کو آگ میں ڈال دیا۔ جب وہ خوب سرخ ہو گئی تو اس کو اُٹھا کر گوشت کے ٹکڑے پر رکھ دیا، جس سے وہ بھن گیا۔ اب پھوپھی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: ’’ اپنے بھتیجے کے لیے کیا اس قسم کے عذاب سے پناہ نہیں مانگتیں؟‘‘ پھوپھی نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اور خاموشی سے اُٹھ کر چلی گئیں ۔
بنی مروان، عمر بن عبدالعزیز _ کے اس عملی اقدام سے سخت ناراض تھے اور انھوں نے آپ کی مخالفت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن ان سب مخالفتوں کا اثر عمر بن عبدالعزیز _ نے قبول نہ کیا اور اُنھوں نے جو تحریک اٹھائی، اس کو مکمل کر کے چھوڑا ۔ تاہم، آپ نےمختلف اخلاقی طریقوں سے اپنے خاندان کی ناراضی کو کم کیا ۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی ملک میں اصلاحات کی طرف توجہ کی ۔ آپ نے سب سے پہلے صوبوں کے گورنروں کے نام ایک فرمان جاری کیا۔ جس میں آپ نے اپنے عزائم سے آگاہ کیا ۔آپ کا فرمان یہ تھا:
سلیمان بن عبدالملک، اللہ کے بندوں میں ایک بندہ تھا ، جسے اس نے نعمتِ خلافت سے بہرہ اندوز کیا تھا ۔ اب اس کا انتقال ہو گیا اور میں اس کا قائم مقام بنایا گیا ہوں۔ اللہ نے جو ذمہ داری مجھ پر عائد کی ہے وہ بہت سخت ہے۔ اگر بیویاں جمع کرنا اور دولت سمیٹنا مجھے منظور ہوتا تو مجھ سے زیادہ کسی کے لیے اس کے وسائل مہیا نہ تھے ۔ لیکن میرا تو حال یہ ہےکہ میں خلافت کی ذمہ داری کے سلسلے میں سخت محاسبے سے لرزاں ہوں ۔ البتہ اگر اللہ نے رحم و درگزر سے کام لیا تو اُمید ہے کہ چھٹکارا ہو جائے۔
اس کے علاوہ مختلف صوبوں کے گورنروں کے نام مخصوص حالات کے پیش نظر مخصوص احکام بھیجے۔ سلیمان بن ابی السریٰ کو لکھا :
تم مسافر خانے بنواؤ۔ جو مسلمان ادھر سے گزرے، اس کو ایک دن اور ایک رات مہمان ٹھیراؤ ۔اس کو کھانا کھلاؤ، اس کی سواری کے چارے کا بندوبست کرو۔اگر مسافر مریض ہو تو اس کے علاج ومعالجے کی طرف توجہ دو اور سرکاری خرچ پر اس کو اس کے گھر پہنچانے کا بندوبست کرو۔
گورنر کوفہ عبدالحمید کو یہ حکم بھیجا:’’ رعایا سے اچھا بر تاؤ کرو۔ خراج کے معاملے میں نرمی اختیار کرو ۔ غیر آباد زمین سے خراج کا مطالبہ نہ کرو۔ اگر غیر مسلم شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے تو اس سے جزیہ وصول نہ کرو ‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز ؒنے اعلیٰ حکامِ سلطنت اور اُمرا کا سختی سے احتساب کیا۔خراسان کے گورنر یزید بن مہلب کے ذمے بیت المال کی ایک گراں قدر رقم وجب الادا تھی، اس کو دربارِ خلافت میں طلب کر کے اس سے رقم کا مطالبہ کیا ۔ اس نے رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ _ نے یزید بن مہلب سے کہا:’’اگر تم نے رقم بیت المال میں جمع نہ کرائی تو تجھے قید کر دیا جائے گا ۔ جو رقم تم نے دبارکھی ہے وہ تمھیں ہر حال میں ادا کرنی ہو گی ۔ اور یہ مسلمانوں کا حق ہے اور میں اسے کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ چنانچہ ٹال مٹول کرنے پر یزید بن مہلب کو جیل خانے بھجوا دیا گیا ۔یزید بن مہلب کے بیٹے مخلد کو جب اس کی اطلاع ملی کہ میرے والد کوجیل بھجوا دیا گیا ہے تو وہ امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز _ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے والد کی رہائی کامطالبہ کیا۔
عمر بن عبدالعزیز _نے فرمایا : ’’ میں جب تک تمھارے والد سے ایک ایک کوڑی نہ وصول کر لوں گا تمھارے والد کو نہ چھوڑوں گا کیوںکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے حقوق کا ہے‘‘۔(تاریخ طبری، ج۶، ص۳۴، نفیس اکیڈمی، کراچی)
یزید بن مہلب کی جگہ عمر بن عبدالعزیز _ نے جراح بن عبداللہ کو خراسان کا گورنر مقرر کیا تو اس نے ان نومسلموں پر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے، جزیہ بحال رکھا۔ عمر بن عبدالعزیز _ کوجب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے جراح بن عبداللہ کو لکھا:’’ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو دین مبین کا داعی بنا کر بھیجا گیا تھا، ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ جو شخص نماز ادا کرے تمھیں اس سے جزیہ وصول کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘۔
جراح بن عبداللہ نے اس حکم کی تعمیل شروع کردی تو لوگ گروہ درگردہ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر بعض حاشیہ نشینوں نے پھر جراح کو بہکایا کہ’’ ان لوگوں کا ختنہ کرا کے ان کے اخلاص کا امتحان لینا چاہیے‘‘۔ جراح نے اس سلسلے میں عمر بن عبدالعزیز _ کی راے طلب کی ۔ آپ نے جواب دیا:’’اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی اسلام بنا کر بھیجا تھا، ختنہ کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا‘‘۔آخر کار عمر بن عبدالعزیزؒ _ نے جراح بن عبداللہ کو اس کے عہدے سے معزول کر دیا۔(البدایہ والنہایہ، ص ۱۸۸)
عمر بن عبدالعزیز ؒ سے پہلے خلفاے بنوامیہ کے دور میں بیت المال میں کچھ خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ۔ آپ نے بیت المال کی اصلاح کے لیے جو اصلاحات کیں اس کی مختصر تفصیل یہ ہے :
۱-آپ کے دور ِخلافت سے پہلے تمام آمدنیاں خمس ، صدقہ اور فے ایک جگہ جمع ہوتی تھیں۔ ان کا علیحدہ حساب نہیں رکھا جاتاتھا۔ آپ نے حکم دیا کہ ہر قسم کی آمدنی علیحدہ علیحدہ جمع کی جائے اور اس کاعلیحدہ حساب رکھا جائے ۔(طبقات ابن سعد،ص ۲۹۸)
۲- بیت المال مسلمانوں کا مشتر کہ خزانہ ہے۔ اس سے ہر مسلمان مساوی فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن آپ سے پہلے شاہی خاندان کا وظیفہ مخصوص تھا۔ آپ نے اس کو کلی طور پر بند کر دیا۔(تاریخ الخلفاء،ص ۲۴۳)
۳- آپ سے پہلے کے خلفا،ان شعرا واُدبا کو جو ان کی مدح میں قصیدے وغیرہ لکھتے تھے، انھیں بیت المال سے انعامات دیے جاتے تھے ۔عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ سب انعامات اور وظائف بند کر دیے ۔(ایضاً، ص ۲۴۳)
۴- عمر بن عبدالعزیزؒ سے پہلے خلفا، جب عشاء اور فجر کی نماز کے لیے مسجد میں جاتے تھے تو ایک آدمی شمع لے کر ساتھ چلتا تھا اور شمع کا خرچہ بیت المال پر پڑتا تھا ۔ جمعہ کے دن اور رمضان کے مہینے میں مساجد میں خوشبو سلگائی جاتی تھی اور اس کے مصارف بھی بیت المال سے ادا کیے جاتے تھے ۔ آپ نے فوراً یہ سلسلہ بالکل بند کردیا۔(طبقات ابن سعد ،ص ۲۹۹)
۵-بیت المال کی آمدنیوں میں خمس کے پانچ مصرف متعین ہیں، جن کے علاوہ ان کو کسی دوسری جگہ صرف نہیں کی جاسکتا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ _ سے پہلے کے خلفا ان مصارف کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ مصارف میں سب سے مقدم اہل بیت ہیں، لیکن ولید اور سلیمان نے اہل بیت کو ان کے حق سے محروم کردیا تھا ۔ عمر بن عبدالعزیز _ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے خمس کو ان کے صحیح مصارف میں صرف کیا اور اہل بیت کو ان کا حق دیا ۔(ایضاً، ص ۲۸۹)
بیت المال کی اصلاح ، حفاظت اور نگرانی کا آپ سختی سے نوٹس لیتے تھے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے۔ حافظ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ: ایک بار یمن کے بیت المال سے ایک دینار گم ہو گیا تو آپ نے افسر بیت المال کو لکھا کہ’’ میں تمھاری امانت پر کوئی الزام نہیں لگاتا ، لیکن تمھاری لاپرواہی اور غفلت کو جرم قرار دیتا ہوں۔ میں مسلمانوں کے مال کی طرف سے مدعی ہوں، تم پر فرض ہے کہ قسم کھاؤ‘‘۔(سیرت عمر بن عبدالعزیز، ص ۸۸)
- خراج، جزیہ اور ٹیکس ملکی محاصل ہیں اور ان کی آمدنی پر ملک اور حکومت کی بقا اور خوش حالی کا دارومدار ہے ۔ لیکن عمر بن عبدالعزیزؒ کے دِور حکومت سے پہلے ان تمام چیزوں کا نظام ابتر ہوگیاتھا اور رعا یا کے لیے یہ ٹیکس وغیرہ ایک بوجھ بن گئے تھے ۔اسلام میں جزیہ صرف غیرمسلموں سے وصول کیا جاتا ہے ۔ لیکن جب کوئی یہودی، عیسائی اور پارسی وغیرہ اسلام قبول کرلیتا تھا تو اس نومسلم سے بھی جزیہ وصول کیا جاتا تھا ۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے نو مسلموں سے جو جزیہ وصول کیاجاتا تھا ، اس کو ساقط کر دیا۔ آپ نے حیان بن شریح کو لکھا کہ’’ ذمیوں میں جو لوگ مسلمان ہو گئے ہیں، ان کا جزیہ ساقط کر دیا جائے۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَہُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۵ ( التوبہ۹:۵) اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہ چھوڑ دو۔ یقینا اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۲۹( التوبہ۹:۲۹) ان لوگوں سے لڑو جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیز کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق قبول کرتے ہیں۔ (لڑو ان لوگوں سے) جنھیں کتاب دی گئی ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔
۷- نوروز اور مہرجان پارسیوں کا تہوار تھا ۔ اس تہوار کےرسم ورواج کے پابند صرف پارسی ہوسکتے تھے۔ امیر معاویہؓ _ نے ان تہواروں پر رعایا سے ایک معمولی رقم وصول کرنا شروع کی تھی، جس کی مقدار ایک کروڑ درہم ہوتی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز _ نے یہ سلسلہ ختم کردیا اور حکم جاری کر دیا کہ نوروز اور مہرجان کےبدلے ان کے پاس کسی قسم کی کوئی چیز نہ بھیجی جائے۔(طبقات ابن سعد ،ص۲۶۲)
۸-حجاج بن یوسف کا بھائی محمد بن یوسف جب یمن کا گورنر مقرر ہوا، تو اس نے حجاج کی طرح ظلم وستم کا سلسلہ شروع کیا اور رعایا پر بے جا قسم کے ٹیکس عائد کر دیے۔عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ تمام ٹیکس کلی طور پر ختم کر دیے اور صرف عشر مقرر کیا ۔(فتح البلدان، ص ۸۰)
۹-فرات میں کچھ خراجی زمین تھی ۔ لیکن جب وہاں کے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے اور کچھ اراضی دوسرے لوگوں کےہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے قبضے میں آگئی تو وہ حسب معمول عشری ہو گئی ۔ حجاج نے اپنے زمانے میں ان لوگوں سے بھی خراج وصول کیا ۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے دوبارہ اس کو عشری قرار دیا ۔(ایضاً ، ص ۸۰)
۱۰-عمر بن عبدالعزیزؒ سے پہلے کے خلفاے بنوامیہ نے رعایا پر مختلف قسم کےٹیکس عائد کیےتھے ۔مولانا عبدالسلام ندوی، کتاب الخراج از قاضی ابو یوسف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’ روپیہ ڈھالنے پر ٹیکس ، چاندی پگھلانے پر ٹیکس، عرائض نویسی پر ٹیکس ، دکانوں پر ٹیکس ، گھروں پر ٹیکس ، پن چکیوں پر ٹیکس ، نکاح کرنے پر ٹیکس، غرض یہ کہ کوئی چیز ٹیکس سے بری نہ تھی۔ اور یہ ٹیکس ماہانہ وصول کیے جاتے تھے‘‘۔(سیرت عمر بن عبدالعزیز،ص ۱۲۰)
عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ سب ناجائز ٹیکس موقوف کر دیے۔ اس کے ساتھ آپ نے یہ اقدام بھی کیا کہ آپ كکے زکوٰۃ وصول کرنےوالے شاہر اؤں پر بیٹھ جاتے تھے اور زکوٰۃ و صدقات وصول کرتے تھے، لیکن جب آپ کو اس کی اطلاع ملی کہ لوگ اس طریقے سےناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، تو اس مشق کوفوراً ختم کردیا اور حکم جاری کردیاکہ اب اس طرح زکوٰۃ اور صدقہ وصول نہ کیا جائے۔ آپ نے ہر شہر میں ایک عامل مقرر کیا، جو زکوٰۃ وصدقات وصول کرتا تھا۔(طبقات ابن سعد ،ص۲۷۹)
کتاب الخراج کے مطابق: خراج وصول کرنے کے بارے میں عمر بن عبدالعزیزؒ نے ایک فرمان عبدالحمید بن عبدالرحمٰن گورنر کوفہ کے نام بھیجا اور لکھا:’’ زمین کامعائنہ کرو، بنجر زمین کا بار آباد زمین پر اور آباد زمین کا بار بنجر زمین پر نہ ڈالو۔ بنجر زمینوں کا معائنہ کرو۔ اگر ان میں بارآوری کی کچھ صلاحیت ہوتو بقدر گنجایش ان سے خراج لو اور ان کی اصلاح کرو تا کہ آباد ہو جائیں۔ جن زمینوں سے کچھ پیداوار نہیں ہوتی ، ان سے خراج نہ لو ۔ اور جو زمینیں قحط زدہ ہوجائیں، ان کے مالکوں سے نہایت نرمی کے ساتھ خراج وصول کرو۔ خراج میں صرف وزن سبعہ لو جن میں سونا نہ ہو۔ ٹکسال اور چاندی پگھلانے والوں سے ٹیکس ، نوروز اور مہرجان کےہدیے ، عرائض نویسی اور فتوح کا ٹیکس ، گھروں کا ٹیکس ، اور نکاح کرنے کا ٹیکس نہ لو اور جو ذمی مسلمان ہو جائیں، ان پر خراج نہیں ہے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے مختصر مدت میں اس معاشی اور انتظامی ظلم کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدام اُٹھائے، جنھوں نے یہ ثابت کیا کہ خلفاے راشدینؓ کے عہد ِ باسعادت کے بعد بھی ریاست و سیاست اور حکومت و معیشت کو سنوارا اور قرآن و سنت کی منشا کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے۔
۱۳ دسمبر بروز جمعہ عین نماز فجر کے دوران والدہ محترمہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ہر ماں عظیم اور اس سے وابستہ یادیں لازوال ہوتی ہیں۔ ہر ماں کی محبت بے مثال ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ربّ ذو الجلال کی اپنے بندوں سے محبت کے لیے ماؤں کی محبت کی مثال دی ہے۔ ماں کے ذکر خیر کا حق کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا لیکن کچھ یادیں مختصراً سپردِ قلم کرنے کی کوشش ہے، تاکہ ان کی بلندیِ درجات اور ہماری یاددہانی کا ذریعہ بن سکیں۔
میری عمر اُس وقت شاید یہی تین چار سال تھی، ایک بار نماز جمعہ ادا کرکے گھر آیا تو امی نے نماز پڑھ لینے کی تسلی کرنے کے بعد پوچھا: ’’خطبہ کس موضوع پر تھا؟‘‘ خطبے کا موضوع تو کجا لفظ ’موضوع‘ کا مطلب بھی معلوم نہیں تھا۔ امی نے وضاحت کی کہ خطیب صاحب نے کس بارے میں گفتگو کی؟ ذہن میں باقی رہ جانے والے دو چار الفاظ بتا کر جواب دینا چاہا لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ ہم بچے تو پیچھے بیٹھے آپس میں اور دوستوں سے گپ شپ کرتے رہے، خطبے کی طرف تو کسی نے دھیان ہی نہیں دیا۔ امی نے چند جملوں میں خطبہ و نماز جمعہ کی اہمیت بتائی اور بات ختم ہوگئی۔ اس مختصر مکالمے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد جب بھی نماز جمعہ کے لیے جاتے تو یہ خیال بھی رہتا کہ ہوسکتا ہے امی پھر خطبے کا موضوع پوچھ لیں، لہٰذا بچپن کی بے دھیانی میں بھی خطبے پر دھیان رہنے لگا۔
نماز اور مسجد کے بارے میں ان کی یہ فکرمندی اور اہتمام زندگی کے آخری ایام تک رہا۔ اب بھی ملتے ہی پوچھتیں: ’’نماز پڑھ لی؟‘‘ ’’نماز باجماعت ادا کی؟‘‘۔ وفات سے قبل کا کچھ عرصہ زیادہ کمزوری کا تھا، کبھی نیم غنودگی کی کیفیت ہوجاتی۔ اس عالم میں بھی گھر کے مختلف افراد کا نام لے کر انھیںنماز ہی کی تلقین کررہی ہوتیں۔ ہماری خالہ جان جو اس وقت خود بھی ماشاء اللہ ۸۰سال سے زیادہ کی عمر میں ہیں اور الحمدللہ عبادات کا مکمل اہتمام کرتی ہیں کا نام پکار پکار کر انھیں کہہ رہی ہوتی تھیں کہ ’’نماز ادا کرلو، دیکھو سورج کہاں پہنچ گیا ہے؟‘‘۔ امی ہمیں ہمارے نانا جناب عبدالقادر مرحوم جنھیں سب بہن بھائی ’میاں جی‘ کہا کرتے تھے(جو جماعت اسلامی کے ۷۵ تأسیسی ارکان میں سے ایک تھے) کے بارے میں چند باتیں اکثر سنایا بلکہ دہرایا کرتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے۔ اور اس کا اتنا زیادہ اہتمام کرتے کہ بیت الخلا جاتے تو باہر آتے ہی اس کی کچی دیوار پر ہاتھ پھیر کر تیمم کرلیتے اور پھر سیدھا وضو کے لیے چلے جاتے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ نماز بروقت ادا کرتے تھے۔ اس میں کبھی تاخیر نہ ہونے دیتے۔ یہ سنتے ہوئے ذہن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تازہ ہوجاتا کہ جب آپؐ سے پوچھا گیا:أَیُّ الأَعمَالُ أَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقتِہَا، بروقت نماز‘‘۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ باوضو رہنے کا اہتمام کرنے پر جنت کی بشارت والا پورا واقعہ بھی۔
امی، نانا جان کے صبر و برداشت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی والدہ کی بیماری اور پھر وفات کا واقعہ سنایا کرتیں کہ وہ کئی روز شدید بیمار رہیں۔ ایک رات اسی کیفیت میں ہم ان کے پاس سوگئے۔ فجر کی نماز کے وقت میاں جی نے آہستگی سے مجھے جگایا اور پھر رسان سے بتایا کہ: ’’دیکھو رات تمھاری امی فوت ہوگئی تھیں، لیکن زحمت نہ دینے کے خیال سے کسی کو نہیں جگایا۔ اب تم آکر ان کے پاس بیٹھو اور دُعائیں کرتی رہو۔ میں نماز فجر ادا کرکے آتا ہوں اس کے بعد اہل خانہ اور گاؤں والوں کو بتائیں گے‘‘۔ امی بتاتیں کہ یہ سن کر بے ساختہ میری چیخ نکل گئی تو میاں جی کہنے لگے: ’’میں تو تمھیں بہت سمجھ دار سمجھتا تھا، تم تو پگلی نکلیں‘‘۔
نانا کی اس صابرانہ تربیت و طبیعت کا اثر امی کی پوری زندگی میں دکھائی دیتا ہے۔ہم ماشاء اللہ چار بھائی تھے اور چھے بہنیں۔ مجھ سے بڑے بھائی عبد اللہ محمود چوتھی کلاس میں پڑھتے تھے کہ ایک رات جماعت اسلامی کے ایک جلسے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے سڑک عبور کرنے پر آئل ٹینکر کی ٹکر لگنے سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دونوں بڑے بھائیوں کو حصول تعلیم کے لیے پہلے منصورہ سندھ اور بعد میں بیرون ملک بھیج دیا۔ بعد میں راقم کو بھی اسی مقصد کی خاطر بیرون ملک جانے کا موقع ملا۔ ہم تینوں بھائیوں میں سے کسی کا بھی ان کے پاس نہ ہونا والدین کو اکثر اداس کردیتا لیکن دونوں کی یہی تمنا انھیں ڈھارس دیتی کہ وہ تینوں کو علم دین اور قرآن و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سکھانا چاہتے ہیں۔ بعد میں بہنیں بھی ایک ایک کرکے اپنے گھروں کو سدھاریں۔ ایسے میں ملاقات ہونے پر امی بتاتیں کہ میں اکثر اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہوں کہ ’’آپ دیکھ رہے ہیں ناں کہ میرے سب بچے کہاں کہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ لیکن میں آخرت میں انھیں یوں بکھرے ہوئے نہیں، سب کو اپنے پاس اکٹھے دیکھنا چاہتی ہوں‘‘۔ ہم بھی اتنی اچھی دُعا پر خوشی کا اظہار کرتے۔ کبھی شوخی میں آکر میں امی سے کہتا کہ بس آپ نے اس دُعا اور خواہش پر ضد کرکے بیٹھ جانا ہے، اللہ تعالیٰ نے تو اہلِ جنت کے ارادے ہی کو حقیقت میں بدل دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ کی دُعا ضرور قبول فرمائے گا۔
دُعاؤں کے معاملے میں بھی والدین کی ترجیحات یکساں تھی۔ والد صاحب اکثر اپنی والدہ کی دُعا دہرایا کرتے اور امی بھی یہی دُعا کیا کرتیں: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں ایمان دے، تقویٰ دے، عزت دے، آبرو دے‘‘۔ والدین یہ دُعا دینے کے بعد کہتے دیکھو اس میں سب کچھ جمع ہوگیا۔ امی اپنے گاؤں کی ایک بزرگ خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے کہتیں کہ وہ زندگی کے آخری عرصے میں مزید عبادت گزار ہوگئیں۔ ایک روز خواب میں انھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو انھوں نے عرض کی کہ مجھے کوئی دُعا سکھائیے (شاید یہ بھی کہا کہ گھبراہٹ بہت ہے)۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کثرت سے کہا کرو: رَضِیتُ بِاللّہِ رَبَّـا وَ بِالْاِسْلَامِ دِینًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا وَرَسُولًا۔ وہ بزرگ خاتون یہ کلمات ہمیشہ وردِ زبان رکھتی تھیں۔ امی خود بھی بکثرت اس کا اہتمام کرتیں۔یہ سنتے ہوئے صحیح احادیث میں آپؐ کی یہ بشارتیں بھی سامنے آجاتیں کہ مَنْ قَالَ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ، رَبًّـا وِبِالْاِسْلَامِ دِینًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃ، جس شخص نے (صدق دل سے) یہ کہا کہ میں اللہ کو رب، اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے پر راضی ہوا تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔
ایک دوسری روایت میں مزید اضافہ یہ بھی ہے کہ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا تو بہت خوش ہوئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہ بات ایک بار پھر فرمائیے۔ آپؐ نے دوبارہ فرمادیا اور ساتھ ہی فرمایا: وَ أُخْریٰ یُرْفَعُ بِہَا العَبْدُ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ فِی الْجَنَّۃ، مَا بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَ الْأَرْضِ ، ایک اور عمل بھی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کے درجات میں سو درجوں کا اضافہ فرمادیں گے۔ ہر دو درجوں کے مابین اتنا فاصلہ ہوگا جتنا زمین و آسمان کے مابین ہے۔ صحابی نے شوق سے پوچھا وہ کیا عمل ہے؟ آپ نے دومرتبہ فرمایا: الجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ، الجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔
امی نے بھی نہ صرف اس زبانی اقرار و اخلاص کا اہتمام کیا بلکہ ساری زندگی اپنے حصے کے جہاد میں شریک رہیں۔ نانا جان جماعت اسلامی کے تاسیسی رکن ہونے کے باعث نہ صرف خود سراپا عمل تھے، اپنے سب بچوں کی گھٹی میں بھی دین و تحریک اسلامی سے محبت اور جنت کا شوق شامل کردیا۔ ہم سب اہل خانہ نے بھی اپنی والدہ، خالاؤں اور ماموں کو ہمیشہ مصروفِ جستجو دیکھا۔ امی کی وفات کے بعد تعزیت کے لیے آنے والوں کتنے ہی ذمہ داران و کارکنان جماعت نے گواہی دی کہ ہم نے آپ کے گھر میں ہونے والے دروس قرآن، اجتماعات ارکان و کارکنان، اجلاس ہاے شوریٰ اور کسی نہ کسی تحریکی مصروفیت میں شرکت کی۔سب بچوں کی دیکھ بھال، گھر کے تمام کام کاج، اباجی کے دواخانے کے کاموں میں مکمل شرکت اور پھر تمام تحریکی سرگرمیوں کا بھرپور اہتمام، یقینا اللہ ہی کی توفیق سے وہ ہر جگہ سرخرو ہوئیں۔ والدین ایک طویل عرصے کے لیے سندھ مورو منتقل ہوگئے تھے۔ ۱۹۷۲ء میں سندھی پنجابی فسادات کی وجہ سے واپس پتوکی ضلع قصور آگئے۔ لیکن جہاں بھی رہے ان کی اول و آخر ترجیح دین، تحریک اور جماعت رہی۔ حالات جیسے بھی رہے کبھی کسی تحریکی کام میں تساہل نہیں آنے دیا۔ رب ذو الجلال ان کی تمام کاوشیں قبول فرماتے ہوئے انھیں اس کی بہترین جزا سے نوازے، آمین!
امی کی وفات پر جتنے بھی احباب نے تعزیت کی، اور دُعائیں کیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی اجر عظیم عطا فرمائے۔ والدین کے لیے قرآنی دُعاؤں رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰــنِیْ صَغِیْرًا اور رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ سے زیادہ جامع دُعا کوئی نہیں ملی، اور جن دُعاؤں نے سب سے زیادہ ڈھارس بندھائی وہ یہ تھیں کہ’’ رب ذوالجلال ان کی تمام دُعاؤں کے ثمرات اور ان کی برکات ہمیشہ جاری رکھے‘‘۔ یہی دُعا اپنے تمام احباب، ان کے بچوں اور ان کے والدین کے حق میں دہراتا ہوں___ رب ذو الجلال! قبول فرما۔
حال ہی میں جب، بھارت کے شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ سات سال بعد اختتام پذیر ہوگیا، تو اس کے نتائج حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی، یعنی بی جے پی کے لیے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن گیا تھا ۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ میں سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ آسام کی۳کروڑ ۳۰ لاکھ آبادی میں ایک تو محض ۱۹لاکھ ۶ ہزار افراد ہی ایسے پائے گئے، جو شہریت ثابت نہیں کرسکے۔ دوسرا بتایا گیا کہ ان میں سے بھی ۱۱ لاکھ افراد ہندو اور صرف ۸لا کھ ہی مسلمان ہیں۔اس خفت کو مٹانے کے لیے وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں پارلیمنٹ سے متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA) پاس کروایا، جس کے مطابق ۱۳دسمبر۲۰۱۴ء تک افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھارت آئے غیر مسلم پناہ گزینوں ہندو، سکھ، بودھ، جین ، پارسی اور عیسائی افراد کو بھارتی شہریت دلانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کا فوری اثر آسام میں یہ ہوگا کہ صوبے میں نیشنل رجسٹریشن آف سٹی زنز (NRC) کی زد میں جو گیارہ لاکھ غیر مسلم افراد آئے تھے، وہ اب خودبخود شہریت کے حق دار ہوگئے۔صرف مسلمانوں کو ہی اب ٹریبونل اور عدالتوں کے چکر کاٹ کر اپیل دائر کرکے شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ بصورتِ دیگر ان کو بے ریاست شہری قرار دے کر، ان کو شہری حقوق ، یعنی ووٹ ڈالنے ، سرکاری نوکریوں وغیرہ سے محروم کرکے، ملک سے باہر دھکیلنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔
اگر یہ موجودہ قانون واقعی پڑوسی ممالک کی اقلیتوں کو تحفظ دینے کے ارادے سے وضع کیا گیا ہوتا، تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں تھا۔ مگر ایک ملک جو پچھلے۷۰برسوں سے ’مہاجرین کے بارے پالیسی‘ نہیں بنا سکا ہے، وہ اچانک مہاجرین یا تارکینِ وطن اور پڑوسی ممالک کی ہراساں اقلیتوں کا محافظ کیسے بن گیا؟جنوبی ایشیا میں اگر ہندو کہیں قابلِ رحم حالت میں ہیں، تو وہ سری لنکا میں ہندو تامل اقلیت ہے۔ آخر ان کو اس قانون کے دائرے سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ ان سبھی سوالوں کا جواب یہی ہے کہ یہ قانون، پورے ملک میں این آر سی لاگو کرنے کی سمت میں پہلا قدم ہے، جس کے مضمرات مسلمانوں کے لیے تشویش ناک ہیں۔ پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ ۲۰۲۴ء تک مکمل کرلیا جائے گا۔ اس کی رُو سے ملک کے ہر شہری کو اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ اب اگر کوئی غیر مسلم دستاویزات کی عدم موجودگی کے باعث شہریت ثابت نہیں کر پاتا ہے، تو حالیہ قانون کی رُو سے وہ خودبخود شہریت کا حق دار ہوگا۔ لیکن اگر اس کی زد میں مسلمان آجاتا ہے تو وہ بے وطن شہری قرار دیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں ۱۸ کروڑ مسلم آبادی کی ایک کثیرتعداد کی شہریت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجائے گا۔ ایوان زیریں، یعنی لوک سبھا میں یہ قانون آدھی رات کے وقت پاس ہوگیا۔
شہریت ثابت کرنے کے لیے پاسپورٹ، ووٹر کارڈ یا قومی شناختی کارڈ کی کوئی وقعت نہیں ہے، بلکہ دادا یا نانا کی جایداد کے کاغذات جمع کرانے ہوں گے اور پھر ان سے رشتہ ثابت کرنا ہوگا۔ جس گاوٗں ، دیہات یا محلے میں آبا و اجداد رہتے تھے، وہاں سے کاغذات لانے ہوں گے۔ اگر ان دستاویزات میںاسپلنگ وغیرہ مختلف ہوں، تو بے وطن شہری کہلوانے کے لیے تیار رہیں۔آسام میں تو ایسے افراد حراستی کیمپوں میں ہیں، جن کے نام میں محمد کی اسپلنگ انگریزی میں کہیں ’ایم یو‘ تو کہیں ’ایم او‘ہے۔ بس اسی فرق کی وجہ سے ان کی شہریت مشکوک قرار دی گئی ہے۔ خواتین کے معاملے میں شہریت کے ثبوت کے طور پر گاؤں پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو تسلیم نہ کیے جانے کا فیصلہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا ۔ یاد رہے کہ تناسب کے اعتبار سے بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی آسام میں ہے۔۹ ؍اضلاع میں تو ان کی واضح اکثریت ہے، جو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی آرہی ہے۔
حکمران بی جے پی ایک طرح سے بھارت کی مسلم اقلیت سے انتقام لے رہی ہے۔ بھارت کی ۵۴۳لوک سبھا کی سیٹوں میں سے ۱۲۵کے قریب ایسی سیٹیں ہیں ، جہاں مسلمان ۱۵فی صد یا اس سے زیادہ ہیں۔ پارلیمانی طریقۂ جمہوریت اور امیدواروں کی کثرت کی وجہ سے ، ان سیٹوں پر مسلم ووٹ ا نتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتا تھا۔ ہندو قوم پرستوں کو شکایت ہے کہ ۲۰۱۴ء سے قبل ان کو اقتدار سے باہر رکھنے میں مسلم ووٹ نے براہ راست کردار ادا کیا ہے۔۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ءمیں بی جے پی نے ہندو ووٹروں کو خاصے سبزباغ دکھا کر یک جا تو کیا، مگر اقتصادی مندی اور دیگر عوامل ووٹروں کی خاصی تعداد کو ان سے بدظن کرنے والے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ایک بار پھر مسلم ووٹروں کے ساتھ مل کر بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرواکے اس کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے، ضروری سمجھا گیا ہے کہ ان کی کثیر تعداد کو شہریت ثابت کروانے کے نام پر حق راے دہی سے محروم کرایا جائے۔
جب آسام میں بی جے پی کے دعوؤں کے برعکس محض۱۹ لاکھ افراد ہی شہریت ثابت نہیں کرپائے، تو بی جے پی کے لیڈروں نے بتایاکہ ’’بنگلہ دیشی دراندازوں کی شناخت کے لیے پورے ملک میں غیر ملکی دراندازوں کی شناخت کا کام شروع ہونا چاہیے‘‘۔ اپنی دوسری مدت میں ایک سال سے بھی کم وقفے میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرنا، اور اب پورے بھارت میں این آر سی لاگو کرکے مودی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کے جو بھی انتخابی نعرے تھے وہ محض نمایشی دعوے نہیں تھے۔ وہ ایک ایک کرکے ان کو رُوبۂ عمل لا رہے ہیں۔ پاکستان کو سبق سکھانا اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد پر بھارتی ترنگا لہرانا بھی ان کا ایک انتخابی نعرہ ہے۔
اس قانون کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کرتے وقت وزیر داخلہ امیت شا نے خاصی دروغ گوئی سے کام لیا اوراپنی تقریر کے دوران یہ تک کہا کہ ’’آپ چاہتے ہیں کہ بھارت کو مسلم پناہ گزینوں کا مرکز بنادیا جائے۔آپ کو معلوم ہے کہ یہاں ہندوؤں کی آبادی گھٹ رہی ہے اور مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔آبادی کے عدم توازن کو دور کرنے کے لیے پڑوسی ملکوں سے ہندوؤں کو یہاں لاکر بسایا جائے گا‘‘۔ اس کے علاوہ انھوں نے پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کے خلاف ہوئے ’مظالم‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان میں۱۹۴۷ء میں اقلیتوں کی آبادی ۲۳فی صد تھی، جو ۲۰۱۱ءمیں گھٹ کر۷ء۳ فی صد رہ گئی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں ۱۹۴۷ء میں اقلیتوں کی آبادی ۲۲فی صد تھی، جو ۲۰۱۱ء میں کم ہوکر۸ء۷ فی صد رہ گئی ہے۔ کہاں گئے یہ لوگ؟ یا تو ان کو مار دیا گیا ہے، یا ان لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا ہے، یا بھارت بھگا دیے گئے ہیں‘‘۔
مردم شماری کے اعداد و شمار ہی ان کے جھوٹ کا پول کھول دیتے ہیں۔۱۹۵۱ء میں جب پہلی بار متحدہ پاکستان میں مردم شماری ہوئی تو غیر مسلم آباد کا تناسب ۱۴ء۲۰ فی صد تھا۔ مغربی پاکستان میں اقلیتی آبادی کا تناسب۳ء۴۴ فی صد،جب کہ مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش میں۲۳ء۲۰ فی صد اقلیتیں آباد تھیں۔ پاکستان میں ۱۹۷۱ءکی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم آبادی ۳ء۲۵ فی صد ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح ۱۹۸۱ءمیں۳ء۳۰فی صد اورپھر ۱۹۹۸ء میں اقلیتی آبادی۳ء۷۰ فی صدپائی گئی۔ پاکستان میں ۲۰۱۷ء میں ہوئی مردم شماری کے نتائج ابھی شائع نہیں کئے گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اقلیتی آبادی کا تناسب کم و بیش وہی ہے، جو ۱۹۴۷ء میں تھا۔ ایک طرح سے۳ء۴۴فی صد سے بڑھ کر۳ء۷۰ فی صد ہو گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں اقلیتی آبادی میں بتدریج کمی آگئی ہے۔۱۹۷۴ءکی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم آبادی کی شرح ۱۴ء۶۰ فی صد تھی، جو ۱۹۸۱ء میں۱۱ء۷۰ فی صد ، ۲۰۰۱ء میں ۱۰ء۴۰فی صد اور پھر ۲۰۱۱ء میں۹ء۶ فی صد ریکارڈ کی گئی۔مراد یہ ہے کہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں ۱۹۵۱ء اور ۲۰۱۱ء کے درمیان غیر مسلم اقلیتی آبادی ۲۳ء۲۰ فی صد سے گھٹ کر۹ء۶ فی صد رہ گئی ہے۔ بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد لسانی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کے جو واقعات پیش آئے ، اس کی وجہ سے چٹاگانگ پہاڑی علاقوں کے چکمہ اور ہزونگ قبائلی مسکین بھارت میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ معاشی بدحالی کے شکار اور روزگار کی تلاش میں بھی دونوںہندو اور مسلمان بنگالی، بھارت منتقل ہوگئے ہیں۔ مگر یہ دعویٰ کرنا کہ بھارت اور پاکستان میں خوف و ہراس کی وجہ سے غیر مسلم آبادی کا تناسب تبدیل ہوا ہے، حقیقت سے دُور ہے۔ ۱۹۷۱ء میںسقوط مشرقی پاکستان کے وقفے کے دوران خود بھارتی حکومت کے عالمی دعوؤں کے مطابق تقریباً ’’ایک کروڑ مشرقی پاکستانی بنگالی، افراد ہجرت کرکے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے‘‘۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں اور اس طرح کی ہجرت کی حوصلہ افزائی خود بھارت ہی کر رہا تھا اور اس عنوان سے دنیا بھر سے ڈالر بٹور رہا تھا۔
بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور پھر نظرثانی کی درخواست کو چند منٹ میں خارج کردینے، اور اب بڑی تیزی سے اس شہری قانون کی منظوری نے بھارتی مسلمانوں کو خوف اور تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کے لیڈران جس سیکولرزم کا دم بھر کر اور اپنے آپ کو محب وطن ثابت کروانے کے لیے ، پڑوسی ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے، ان کو معلوم ہے کہ اس سیکولرزم کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔ اس اضطراب کی کیفیت میں لازم ہے کہ مسلمان ان چہروں کو یاد رکھیں، جنھوں نے پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر اس قانون کی حمایت کی تھی۔
جمعیت علما ے ہند کے سربراہ مولانا محمود مدنی صاحب کو بھی یاد رکھیں،جنھوں نے اس قانون کی کھلے عام حمایت کی تھی۔ اس دوران علی گڑھ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ او ر دیگر اداروں میں مسلم طلبہ اور نوجوانوں نے جس طرح اس قانون کے خلاف رد عمل دکھایا اور قربانیاں دیں اور پورے ہند کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس کے بعد جمعیت علما ے ہندکے رہنماؤں: چچا ارشد مدنی صاحب اور بھتیجے محمود مدنی صاحب نے پلٹا کھایا اور مظاہروں کے چند ہی روز بعد نئی دہلی کے جنتر منتر پر مولانا محمود مدنی صاحب نے خطاب میں کہا: ’’یہ قانون ملک کے دستور کو پامال کرنے والا ہے۔ ہم اس کو مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے خلاف سمجھتے ہیں۔ میں نوجوانوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرتا ہوں‘‘۔ اہلِ نظر اسے ایک غچہ ہی سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں یہ متنازعہ بل پیش کیے جانے سے قبل محمود مدنی صاحب نے اس بل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاتھا: ’’اگر بھارت سرکار، پاکستان اور دیگر ملکوں کی اقلیتوں کو شہریت دینا چاہتی ہے تو یہ غلط نہیں ہے، تاہم مسلمانوں کو یہاں شہریت دینے جانے کے ہم خلاف ہیں اور سرکار کا یہ قانون غلط نہیں ہے‘‘۔ بھارت کے مسلمانوں کو اپنی بقا اور اپنی عزت نفس کی بحالی کے لیے ان حضرات گرامی کے بیانات اور حکمت عملی کے جادو سے نکلنا ہوگا۔ یہ کب اور کس وقت ان کو بیچ منجدھار چھوڑ کر مفادات کے پلڑے کی طرف جھک جائیں، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ہندو قوم پرست حکمران بی جے پی نے شہریت ترمیمی قانون کا گڑھا تو مسلمانوں کے لیے ہی کھوداتھا ، مگر اس کے خلاف سب سے زیادہ ردعمل شمال مشرقی ریاستوںخصوصاً آسام میں دیکھنے کو ملا۔۱۹۸۵ء میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آسام کے لیڈروں کے درمیان معاہدے میں طے پایا تھا: ’’مارچ ۱۹۷۱ءسے قبل آئے غیر ملکیوں کو بھارتی شہریت تفویض کی جائے گی اور اس کے بعد آنے والوں کو شہریت کی فہرست سے خارج کیا جائے گا‘‘۔مگر موجودہ قانون کے مطابق غیر مسلم پناہ گزینوں کے لیے اس کا دائرہ اب۲۰۱۴ء تک بڑھادیا گیا ہے۔ مغربی بنگال، کیرالہ اور پنجاب جیسی ریاستوں نے اپنے یہاں اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ قانون بظاہر آسام کے قدیم باشندوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا، مگر اسی ریاست میں اس کی سب سے زیادہ مخالفت ہوئی ہے۔ صوبے کا نظام پوری طرح درہم برہم ہوگیا ہے۔نقل وحمل کے تمام ذرائع ٹھپ ہوگئے۔راشٹریہ سیوک سیویم سنگھ، یعنی آرایس ایس اور بی جے پی کے لیڈر، جنھوں نے آسام میں غیر ملکی دراندازوں کا مسئلہ اٹھا کر این آر سی کو نافذ کرایا تھا، ان کی جان پر بن آئی ہے۔بھارت کے مختلف صوبوں کے باشندوں کو اپنی زبان ،تہذیب،ثقافت اور علاقائی شناخت سب سے زیادہ عزیز ہے اور وہ اس معاملے میں مذہب کو بھی ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔
حکمراں بی جے پی کا خیال تھا کہ وہ ملک کے عوام کو ’ہندوتوا‘ کی ڈور میں پرو کر ان تمام اختلافات اور تضادات کو ختم کردے گی ، لیکن اس کا خیال بالکل غلط ثابت ہوا ہے کیونکہ شمال مشرقی ریاستوں آسام ،تری پورہ ،منی پور ،میگھالیہ ،میزورم اور ارونا چل پردیش کے با شندوں نے اس قانون کے خلاف طوفان کھڑا کردیا ہے ۔ ان صوبوں کے اصلی با شندوں کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ شہریت کے ترمیمی قانون کا فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش کے بنگالی ہندو ان کے علاقوں میں بُری طرح چھا جائیں گے۔یہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں یہاں آچکے ہیں اور ان کی آمد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔احتجاجی تحریک کے دوران آسام کے وزیراعلیٰ اور ان کے کابینی رفقا اور بی جے پی لیڈروں کے گھروں پر ہی حملے نہیں ہوئے ہیں، بلکہ آرایس ایس کے دفتروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
’ہمارے ملک میں جھوٹ نہ صرف ایک اخلاقی درجہ حاصل کر چکا، بلکہ ریاست کا ایک ستون بن چکا ہے‘۔(الیگزنڈر سولزے نٹسن)
رواں ہفتے کے دوران مؤقر روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک انتہائی دھماکا خیز خبر کا انکشاف کیا، جس کے مطابق [امریکی دفاعی مقتدرہ] ’پینٹاگان‘ کی طرف سے جاری کردہ دوہزار صفحات پر مشتمل ایک خفیہ اطلاع میں افغانستان میں امریکا کی طویل ترین جنگ کی ناکام حکمت عملی کے متعلق تفصیلات مہیا کی گئی ہیں۔
واشنگٹن پوسٹنے اپنی خبر کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا: ’’امریکی افغانستان کی جنگ کے متعلق مسلسل جھوٹ بولتے رہے ہیں‘‘۔یہی بات مَیں نے۲۰۰۳ء میں American Conservative نامی جریدے میں کہی تھی، جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اور کہا تھا:’’ہم جو کچھ کر رہے تھے،ہمیں اس کا ذرہ بھر اندازہ نہیں تھا‘‘۔ اس امر کااعتراف تین ستارہ جرنیل جنرل ڈوگلس لیوٹ کی طرف سے کیا گیا ہے، جس نے امریکی صدرجارج بش اور صدرباراک اوباما کے اَدوارِ حکومت میں افغانستان میں امریکی افوج کی کمان کی۔ امریکا نے ایک دور افتادہ جنوبی ایشیائی ملک میں تکبر اور جہالت پر مشتمل انتہائی ظالمانہ قوت کے ساتھ حکمت عملی اپنائی۔ افغانستان پر حملہ،امریکا کے خلاف نائن الیون کے حملوں کا انتقام تھا۔جیسا کہ اس مضمون نگار نے افغانستان میں تازہ ترین صورت حال کا مشاہدہ کیا۔اس کے مطابق افغانستان میں اسامہ بن لادن کے دہشت گردانہ تربیتی کیمپوںکی موجودگی محض جھوٹ کا ایک پلندا تھا کیونکہ نائن الیون کی منصوبہ بندی سرے سے افغانستان میں نہیںکی گئی تھی۔
طالبان’دہشت گرد‘نہیں تھے۔وہ ہلکے اسلحے سے مسلح ایسے قبائلی جنگجو تھے، جو ڈاکوؤں اور امریکی نواز افغان خفیہ ادارے کے خلاف لڑ رہے تھے، جس کا انتظام کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں تھا۔طالبان کے سرپرست مجاہدین،کی پذیرائی سابق امریکی صدر رونالڈریگن نے ’حریت پسند‘ کہتے ہوئے کی تھی۔ ۲۰۰۳ء میں امریکیوں نے اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کرکے افغانستان کے کمیونسٹوںکی حمایت شروع کر دی، جنھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی پائپ لائن کو وسطی ایشیا کے تیل سے بھرپور بحیرئہ کیسپین کے علاقے سے پاکستان کے ساحل تک پہنچانے کی اجازت دیں گے۔لیکن جب طالبان نے اس گھٹیا امریکی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو قوم پرست،منشیات مخالف تحریک،جس نے افغانستان کی بے حرمتی کے خلاف جنگ کی تھی، کو’دہشت گرد‘قراردے دیا گیا۔
امریکی سرپرستی میں افغانستان میںقائم حکومت،بنیادی طور پر سی آئی اے کے حلیفوں یعنی: جنگجو سرداروں، منشیات کے بڑے بڑے سوداگروں اورکمیونسٹوں کا ایک حصہ تھی۔ کرایے کے فوجیوں کی خدمات حاصل کرنے اور جنگجو سرداروں اور جرائم پیشہ افراد کو مالی رشوتیں ادا کرنے کی خاطر امریکا نے اربوں ڈالر لٹا دیے۔اس طرح افغانستان میں جرائم پیشہ،امریکا کے اتحادی بن گئے۔
جب افغانستان میںطالبان برسراقتدار تھے،اس وقت اندازاًافغانستان میں مارفین اور ہیروئن کی ۹۰ فی صد تجارت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔جب امریکا نے کابل پر قبضہ کیا اور یہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی،تو اسی افغانستان سے منشیات کی پیداوار میں ماضی کی نسبت کہیںزیادہ اضافہ ہوگیا۔ امریکی افواج اور ان کے اتحادی منشیات کی تجارت میں سرتاپاؤں ڈوب گئے۔ آج،امریکا نوازافغانستان کی حکومت،دنیاکی سب سے بڑی منشیات کی سوداگر ہے۔
اُن صحافیوں کی طرح کہ جن کا اصراریہ تھا: ’’افغانستان کے متعلق سچ بولناچاہیے‘‘، کو فارغ کر دیا گیا یا پھر انھیں نظرانداز کردیا گیا۔مجھے سی این این نے اس لیے ملازمت سے نکال دیا کیوںکہ میں نے ان جھوٹے دعوؤں کی تردید کی کہ’’ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجودہیں‘‘۔اوریہ کہ’’ امریکا ’جنگِ افغانستان‘جیت رہاہے‘‘۔مجھے یہ دعویٰ کرنے کے باعث بعض ریڈیو اور ٹی وی چینلوں پر آنے سے منع کر دیا گیا کہ داعش(ISIS) فی الحقیقت مغرب ہی کی اختراع ہے جس کی معاونت ترکی،امریکا،فرانس،برطانیہ اور اسرائیل کرتے ہیں۔مجھے ایسا سچ بولنے کی پاداش میں ’انقلابی‘قرار دیا گیا۔
یہ مثالیں اس لیے بیان کر رہا ہوں تاکہ ان الزامات کی تصدیق ہو سکے، جو واشنگٹن پوسٹکی طرف سے امریکی حکومت اور فوج پر عائد کیے گئے ہیں کہ: ’’افغانستان کا تمام تر تنازع محض جھوٹ اور نیم دروغ گوئیوں کا پلندا ہے، جسے امریکی حکومت نے اس لیے گھڑا، تاکہ ایک کمزور،پسماندہ قوم کے خلاف ظالمانہ جنگ کی توجیہہ پیش کی جا سکے جس نے اسٹرےٹیجک پائپ لائن کے ہمارے مطالبا ت سے انکار کی جرأت اور گستاخی کی‘‘۔
خود اسی واشنگٹن پوسٹنے ان دروغ گوئیوں کو آگے بڑھانے اور فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا، جنھوں نے عراق پر امریکی حملے کا دروازہ کھول دیا تھا۔ آج، واشنگٹن پوسٹ اپنے انھی گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر ان تمام دروغ گوئیوں کا انکشاف کر رہا ہے، جن کی بنیاد پر امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا اور اس جنگ میں ہزاروں امریکی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ پھر امریکیوں نے وسیع پیمانے پر اذیت رسانی کا سلسلہ شروع کیا، ملک میں خوراک کی قلت واقع ہو گئی،وسیع پیمانے پر شہری قتل ہوئے اور جنگ کی دیگر ہولناکیوں نے جنم لیا۔
’پینٹاگان‘ کی اطلاع کے مطابق: ’’امریکا نے کم از کم ایک کھرب ڈالر افغانستان کی جنگ پر ضائع کیے ہیں، جب کہ کثیر تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں،بے شمار زخمی ہوئے۔دیہات کے دیہات تباہ کر دیے گئے،جانوروں کو ان کے باڑوں میں مشین گنوںسے بھون دیا گیا اور آبادی پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔امریکی بمباری ہی معمول بن گئی۔ہم افغانستان کے دیہات پر امریکی بی ون اور بی باون جنگی طیاروں کی شرمناک کارپٹ بمباری کے مناظر اکثر دیکھتے ہیں اور پھر’اے سی ۱۳۰ ‘ ہیلی کاپٹروں کی بلاامتیاز گولیوں کی بارش کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں، جو افغانستان کے قبائیلیوں اور شادی بیاہ کی تقریبات پر بوچھاڑ کی صورت میں داغی جاتی ہیں۔ کمیونسٹ روسی تو محض بے رحم تھے لیکن ہم نے بے رحمی کی تمام حدود پھلانگ لی ہیں۔
بیش تر امریکی میڈیا نے افغانستان کے عوام کے خلاف امریکی جنگ کو بہت آگے بڑھایا ہے اور تمام امریکی ظلم وستم اور سنگین دروغ گوئیوں پر ہمیشہ پردہ ڈالا ہے۔یہ جنگ بہت ہی بڑی قاتل مشین بن چکی ہے، جو سیاست دانوں اور فوجی ٹھیکے داروں کو مالامال کر رہی ہے۔ ماضی کے امریکی صدور، جنھوں نے دنیا کی ایک غریب ترین، انتہائی پس ماندہ قوم کے خلاف اس ذلت آمیز جنگ کی پذیرائی کی،اس قابل ہیں کہ ان کا تذکرہ بے عزتی اور حقارت سے کیا جائے۔
دریں اثنا،ہمیں ایک لمحہ توقف کر کے ان افغان قبائلی جنگجوؤں کے متعلق سوچنا چاہیے جنھوں نے دنیا کی عظیم ترین فوجی طاقت کو گذشتہ ۱۸ برس سے محض ’اے کے ۴۷ ‘ بندوقوں اور اپنے غیرمتزلزل اور ناقابل تسخیر حوصلے سے روکے رکھا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے پُرخلوص معافی کے خواست گار ہوں اور ان کے ملک کی اَزسرنو تعمیر کریں ۔ایک سابق امریکی فوجی کی حیثیت سے مَیں بہادرترین افغان عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔(ترجمہ: ریاض محمود انجم)
دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان، مذاکرات کے از سر نو آغاز کے ساتھ اب یہ یقینی لگ رہا ہے کہ فریقین سنجیدگی کے ساتھ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں افغانستان کی حزب اسلامی کے ایک اہم رہنما اور ملکی انتخابات میں نائب صدر کے لیے امیدوار پروفیسر فضل ہادی وزین (شعبہ اسلامیات، سلام یونی ورسٹی، کابل) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے دھیمے لہجے اور دل کو چھو لینے والے دلائل سے سوالات کے جواب دیے۔
- ان سے پہلا سوال کیا: ’’افغانستان میں امن کے حوالے سے کیا پیش رفت ہورہی ہے اور ’امریکا،طالبان مذاکرات‘ کا کیا مستقبل ہے؟‘‘
پروفیسر وزین نے بتایا: ’’دوحہ میں مذاکرات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ فی الوقت فریقین افغانستان میں امن و استحکام کے متمنی ہیں۔ افغانستان نہ صرف جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا بلکہ مغربی ایشیا، یعنی ایران کے لیے بھی ایک پُل کا کام کرتا ہے۔ اس لیے افغانستان میں عدم استحکام کا براہ راست اثر پورے خطے پر پڑتا ہے۔ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا صرف طالبان ہی کی منزل نہیں ہے، بلکہ افغان عوام میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف ایک ماحول سا بن گیا ہے۔ وہ اپنے اندرونی معاملات میں اب بیرونی مداخلت کے قائل نہیں ہیں۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ وہ ۱۸سالہ جنگ ہارچکے ہیں۔ وہ بس ایک باعزت واپسی کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی یہ پالیسی کہ بہانہ ایران، ٹھکانہ افغانستان اور نشانہ پاکستان، اب فرسودہ ہو چکی ہے‘‘۔
دوحہ میں طالبان،امریکی مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’’ملک میں سیاسی جماعتیں خاصی پُرامید ہیں۔ اگرچہ امریکا کے سیماب صفت صدر ٹرمپ نے پچھلے ستمبر میں ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا تھا، مگر پس پردہ فریقین روابط قائم رکھے ہوئے تھے۔ ابھی تک امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے دس دور ہو چکے ہیں۔ تاہم، طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کرانے اور انخلا کے ساتھ ساتھ کابل میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر ابھی تک معاملہ واضح نہیں ہوسکا۔ توقع ہے کہ سمجھوتے میں اب زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا ۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکا ، طالبان یا افغان عوام کو کوئی رعایت دے رہا ہے، وہ خو د ہی افغانستان سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔
پروفیسر وزین نے خبردار کیا کہ: ’’امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ، امن مساعی کے زینے کا بس ایک پہلو ہے، اس کو کئی اور مراحل سے گزرنا ہے۔ اس معاہدے کے فوراً بعد اگر افغانستان کے اند ر فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا، تو ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کی آگ میں جھلس جائے گا۔ اس لیے تمام فریقوں کے لیے لازم ہے کہ ایک حتمی اور پاے دار امن کی خاطر افغانستان کی سبھی سیاسی جماعتوں، طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کے سلسلے اور روابط پر دھیان مرکوز رکھیں۔ ورنہ ان امن مساعی کا بھی وہی حشر ہوگا ، جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ دوسرے مرحلے کے یہ مذاکرات ’امریکا،طالبان مذاکرات‘ سے زیادہ پیچیدہ ہوں گے۔ ان مذاکرات میں ملک کے آئین، نظام حکومت اور دیگر اہم امور کا تعین کیا جائے گا‘‘۔
- ان سے سوال پوچھا: ’’سوویت جنگ کے دوران تو حزب اسلامی اور اس کے قائد گل بدین حکمت یار کا طُوطی بولتا تھا۔ حکمت یار اس کے بعد دو بار وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائزرہے، مگر طالبان کے وجود میں آنے کے بعد وہ اچانک منظرنامے سے غائب ہو گئے اور پھر ۲۰۱۶ء میں دوبارہ کابل میں وارد ہوگئے۔ اس وقت ان کی کیا حیثیت ہے؟‘‘
پروفیسر وزین صاحب نے بتایا کہ ’’حکمت یار منظر نامہ سے غائب نہیں ہوئے تھے۔ وہ بس بیک گراونڈ میں تھے۔ امریکی افواج کی مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد حزبِ اسلامی ہی حکمت یار کے حکم کے مطابق امریکی افواج سے برسرپیکار تھی، کہ جب تک طالبان نے مجتمع ہوکر دوبارہ طاقت حاصل کی۔ دوسال قبل ہم نے محسوس کیاکہ ملک ایسی جنگ و جدل کا متحمل نہیں ہوسکتا، کہ اس کے حالات کا براہ راست اثر ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان پر پڑتا ہے۔ اس لیے حکمت یار نے کابل آکر پس پردہ امن کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ انھوں نے کافی کام کیا، جن کے نتائج اب آپ کے سامنے ہیں۔ ۲۰۱۹ءکے صدارتی انتخابات سے قبل حکمت یار نے ’امن وعدل اسلامی پارٹی‘ اور اس نئی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں قسمت آزمائی کی۔ افغانستان میں ہر کوئی آپ کو بتائے گا کہ انتخابی مہم کے دوران ، افغانستان کے طول و عرض میں سب سے بڑے اور پر ہجوم جلسے اور جلوس ، اسی پارٹی کے تھے ۔ہم نے ثابت کر دیا کہ ہماری پارٹی کسی خاص نسل اور علاقے کی نمایندگی نہیں کرتی ہے، بلکہ پورے ملک کی نمایندہ تنظیم ہے‘‘۔
- صدارتی انتخابات پر پوچھا : ’’افغانستان میں انتخابات اکثر اختلاف راے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آخر شفاف انتخابات کو روبۂ عمل میں لانے میں کیا رکاوٹ ہے؟‘‘
پروفیسر وزین نے کہا: ’’بیرونی مداخلت ، ذاتی مفادات اور ایک ٹولے کا رویہ ، جو ہرحالت میں اقتدار کے ساتھ چمٹ کر رہنا چاہتا ہے ، اس نے انتخابات کی غیر جانب داری پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ افغانستان کی ۳ کروڑ ۵۰ لاکھ کی آبادی میں صرف ۵۰ لاکھ افراد نے حالیہ ووٹنگ میں حصہ لیا، جب کہ۷۰لاکھ ۹۰ ہزار افراد نے اپنے آپ کو بطور ووٹر رجسٹر کرالیا تھا۔بیرون ملک مقیم۶۰ لاکھ افغان تارکینِ وطن بھی راے دہی کے حق سے محروم تھے۔ ان کے علاوہ ملک کے اندر بسنے والے ۳۰ لاکھ مہاجرین نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ علاوہ ازیں ووٹنگ کا عمل بھی خاصا پیچیدہ تھا۔ کافی ووٹرز حق راے دہی سے محروم رہ گئے۔ علاو ہ ازیں کئی غیر ملکی سفارت خانوں نے کھلے عام اپنے چہیتے امیدواروں کے لیے کام کیا۔ اگر کسی اور ملک میں اس طرح کا کوئی واقعہ ہوجاتا تو ایک طوفان کھڑا ہو جاتا۔ کسی بھی ملک کے جمہوری نظام میں غیر ملکی مداخلت کا مطلب اس کوسبوتاژ کرنا ہے۔ اس کےلیے بین الاقوامی سطح پر سخت قوانین بننے چاہییں۔انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، یہ تناؤ کو کم کرنے میں مدد نہیں کریں گے، بلکہ ان سے مزید بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا، سبھی فریقوں کو انٹرا افغان مذاکرات کی تیاری کرکے اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ یہ جتنی جلد ہوگا ، افغانستان کے حق میں اتنا ہی اچھا ہوگا ۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے اختتام پر طالبان کو اس میں شرکت کرنی چاہیے، تاکہ کابل میں حکومت سازی پر اتفاق راے پیدا ہو، اور یہ اتفاق راے کسی بھی بیرونی مداخلت سے پاک ہو‘‘۔
- پروفیسر صاحب سے پوچھا: ’’افغانستان تو فی الوقت بھارت، پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان ایک مسابقت کا میدان بنا ہوا ہے۔ وہ آخر کیوں کر اتنی جلدی افغانستان کو بخش دیں گے؟‘‘
موصوف کا کہنا تھا کہ: ’’ہم بھی ان ممالک سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں مداخلت بند کردیں۔ جس طرح افغانستان کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے، آپ بھی افغانستان کی خود مختاری اور آزادی کا احترام کریں‘‘۔
- پھر سوال پوچھا:’’ بھارت کو خدشہ ہے کہ کابل میں طالبان کی واپسی سے اس خطے میں دوبارہ بد امنی پیدا ہوسکتی ہے؟‘‘
پروفیسر وزین نے سخت لہجے میں کہا کہ: ’’طالبان کوئی آسمانی مخلوق تو نہیں ہیں، وہ افغانستان کے شہری ہیں۔ اس ملک پر ان کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کسی اور کا ہے۔ ہم سبھی ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ کابل میں اقتدار کے لیے اپنی پسند و ناپسند کو معیار نہ بنائیں ، بلکہ یہ حق افغان عوام کو دیں۔ بلاشبہہ بھارت کے افغانستان کے ساتھ قدیمی تاریخی روابط ہیں اور پاکستان کے ساتھ ہمارے گہرے برادرانہ تعلقات اور مشترکہ مفادات ہیں۔ گذشتہ برسوں میں، بھارت نے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے جو سرمایہ کاری کی ہے، افغان عوام میں اس کی پذیرائی ہے، مگر جو کچھ آج کل کشمیر میں ہو رہا ہے، اور اس کی خبریں بھی افغانستان پہنچ رہی ہیں، اس سے افغان عوام خاصے رنجیدہ ہیں۔ دنیا کے دیگر امن پسند عوام کی طرح ان کا بھی بھارت سے مطالبہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کشمیری عوام کی خواہشات کو مد نظر رکھ کر اس مسئلے کا پاےدار اور منصفانہ حل ڈھونڈ نکال لیں، ورنہ ایک طرف افغانستان میں امن قائم ہو رہا ہے ، تو دوسری طرف اسی خطے کا دوسرا حصہ عدم استحکام کا باعث بنایا جا رہا ہے۔ اس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑے گا۔ یہ کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔اس خطے کے ممالک کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے‘‘۔
- میں نے پوچھا: ’’افغانستان میں داعش کے حوالے سے خبروں میں کتنی حقیقت ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ: ’’ایک باضابطہ منصوبے کے ذریعے چند عناصر داعش کا ہوّا کھڑا کرکے غیرملکی افواج کے انخلا کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ داعش کا افغانستان میں کبھی کوئی وجود نہیں رہا ہے۔ کئی بار ان کو یہاں کھڑا کرنے کی سازشیں ہوئیں، مگر وہ ناکام ہو گئیں۔ امریکی محکمہ سی آئی اے اور امریکی محکمہ دفاع متضاد بیانات دے رہے ہیں۔ آخر شام اور عراق میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد داعش مشرقی افغانستان میں کیسے نمودار ہوگئی؟ اور وہ بھی ایسے علاقے میں جہاں امریکی اور افغان فوج خاصی سرگرم ہے۔ افغانستان ، افغان عوام کا ہے اور وہ اس کا بُرا بھلا سمجھتے ہیں اور اس کی آزادی اور خودمختاری کو برقرار اور بحال رکھنا بھی خوب جانتے ہیں___ افغان باقی کوہسار باقی‘‘۔
ملاقات ختم ہونے پر، پروفیسر وزین کی یہ بات رہ رہ کر کانوں میں گونج رہی تھی: ’’کشمیر کی صورت میں جنوبی ایشیا کے پچھواڑے میں ایک اور افغانستان بنایا جا رہا ہے‘‘، جہاں فی الوقت ۸۰لاکھ سے زیادہ نہتے اور مظلوم عوام اسیری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایک لاوا پک رہا ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ کر پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر اور اس کےانسانی عوامل کو نظر انداز کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ جتنی جلد یہ حقیقت عالمی برادری کی سمجھ میں آجائے ، بہتر ہے۔ مانا کہ بھارت ایک بڑی تجارتی منڈی ہے، مگر خود تجارت کے لیے بھی تو امن لازمی ہے۔
مولانا سیّدابوالاعلی مودودیؒ(۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) زندگی بھر اس طریق کار پر گام زن رہے کہ تشدّد اور تکفیر، اسلامی انقلاب کا طریقِ کار نہیں، بلکہ اس کی راہ میں مزاحم ہے۔ خفیہ سرگرمیوں اور زیر زمین کارروائیوں سے اسلامی انقلاب برپا نہیں ہوتا،بلکہ اس کی راہ کھوٹی ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے زندگی کے سخت ترین مراحل میں بھی اس موقف سے سرِموتجاوز نہ کیا۔ ان کا یہ موقف کسی وقتی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نہ تھا، بلکہ وہ اسے اسلام کا عین تقاضا تصور کرتے تھے۔ ان کی پختہ راے تھی کہ سیاسی انقلاب سے پہلے فکری وتمدنی انقلاب ناگزیر ہے۔ فکر ،عقیدہ اور اجتماع ومعاشرت میں کوئی تبدیلی نہ زبردستی لائی جاسکتی ہے اور نہ اوپر سے تھوپی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے تعلیم وتزکیے کے راستے سے راے عامہ کی ہمواری ناگزیر ہے۔
مختلف معاشروں اور ملکوں میں رائج سیاسی و حکومتی عمل داری، بلکہ جبر نے ایسے سوال کھڑے کر دیے ہیں کہ جن کے جواب کے لیے بہت سوچ بچار کے بعد اقدام کی ضرورت ہے۔ ریاستی جبر اور عالمی سامراجی قوتیں تو جبروزیادتی کے تمام ’حقوق‘ اپنے نام ’محفوظ‘ رکھتی ہیں، لیکن جن کو نشانہ بنایا یا شکار کیا جاتا ہے، ان کے لیے تڑپنے کا حق بھی نہیں باقی چھوڑتیں۔ اس منظرنامے میں اسلامی قیادتوں کی سوچی سمجھی حکمت کے برعکس، مسلم نوجوانوں میں ردعمل کی بعض ایسی صورتیں پیدا ہوئی ہیں کہ جنھوں نے اُمت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔
بدقسمتی سے پچھلے چند برسوں میں تشدّد کو بعض نام نہاد اسلامی جماعتوں اور تنظیموں نے سندِجواز فراہم کی ہے۔ مغرب اور امریکا کی چیرہ دستیوں اور استعماری عزائم کی منصوبہ بندیوں کے خلاف شدید ردِّ عمل رُونماہوا۔ مسلم ممالک کی مغرب نواز حکومتوں کے روح فرسامظالم نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔ جماعۃ التکفیر والھجرۃ مصر سے لے کر داعش، القاعدہ اور بوکوحرام تک مسلّح جدوجہد میں مصروف ہوئے۔ سیّدمودودیؒ نے کبھی اس طرح کی مہمات کا ساتھ نہیں دیا۔
برطانوی ہندستان میں بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی سیّد مودودی تشدّد اور قوت کے استعمال پر تنقید کرتے رہے اوراسے اسلامی انقلاب کے لیے مضر اور رکاوٹ تصور کرتے رہے۔اکتوبر ۱۹۴۵ء میں انھوں نے لکھا:’’ہمیں جو کچھ بھی واسطہ ہے اپنے مقصد سے ہے ،نہ کہ کسی خاص طریق کار (Method)سے۔لیکن اگر پُرامن ذرائع سے جوہراقتدار (Substance of Power)ملنے کی توقع نہ ہوتو پھر ہم عام انقلابی دعوت جاری رکھیں گے اور تمام مشروع [جائز شرعی] ذرائع سے انقلاب برپاکرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔۱
ستمبر ۱۹۵۴ء میں مولاناؒ نے صراحت کردی کہ ’جائز شرعی ذرائع‘ سے ان کی مراد کیاہے؟ انھوں نے لکھا: ’’بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے،اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے… اگر آپ اجتماعی و اخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع اور وسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان ذرائع میں تعلیم و تربیت، معاشرتی اصلاح، ذہنی اصلاح اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔۲
اسی طرح مکہ معظمہ میں اسلامی تحریکوں کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے، لوگوں کے ذہن بدلیے، اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں، ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے‘‘۔۳
نومبر۱۹۶۸ء میں لندن میں سوال وجواب کی ایک مجلس منعقد ہوئی۔سیّد مودودیؒ نے صراحت سے فرمایا: ’’توڑ پھوڑ اور تشدّد کے ذریعے کوئی مستحکم اور پاے دار نظامِ حکومت قائم نہیں کیاجاسکتا۔اس لیے نہ ہم خود تشدّد کا راستہ اختیار کریں گے اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے‘‘۔۴
اکتوبر ۱۹۷۴ء میںاسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’جب تک ہمت اور جرأت اور عزم واستقلال کے ساتھ Openly (برسرزمین)کام نہیں کیا جائے گا، اسلامی ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔ Under ground(زیرِ زمین) کام کے نتیجے میں اسلامی ریاست نہیںبن سکتی۔اسلامی ریاست پہلے بھی جب قائم ہوئی تھی تو وہ برسرِزمین کام سے ہی قائم ہوئی تھی۔زیرِ زمین کام صرف تھوڑی مدت کے لیے کیاگیا کہ کچھ سرفروش اور Devotees (جاں باز) آدمی فراہم ہوجائیں۔ اس کے بعد سارا کام برسرِزمین کیاگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں نے ماریں کھائیں، پتھر کھائے، تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹے گئے، دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹائے گئے۔ ان کے ساتھ سب کچھ ہوا۔ اس سے جو لوگ نکلے وہ ایسے نکلے کہ پھر ان کے مقابلے میں پورے عرب کی کوئی طاقت کھڑی نہ ہوسکی۔آپ کھلم کھلا اپنا کام کیجیے۔آپ کے سرپھٹیں گے، آپ کو قید کیاجائے گا،آپ کو ننگاکیاجائے گا، آپ کے ساتھ بدتمیزیاں کی جائیں گی، ہر قسم کی مصیبتیں بھگتنی پڑیں گی۔پھر جب ہر قسم کی مصیبتیں بھگتنے کے بعد آپ اپنے عزم پر قائم رہیں گے تو وہ جو مصیبتیں ڈالنے والے ہیں، ان کے اوپر الٹی مصیبت پڑجائے گی کہ وہ اپنی جان کہاں بچائیں؟ ایک وقت ایسا آنے والا ہے۔ ان شاء اللہ۔۵
معاشرے میں تبدیلی کے لیے سیّد مودودیؒآئینی و دستوری اور جمہوری طریق کار اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ جمہوریت کو اسلام کے تصورِ شوریٰ سے قریب تر مانتے ہیں۔ وہ مغرب کے فلسفۂ جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں کہ اس کی بنیاد انکارِ خدا اور انکارِ ِوحی پر ہے، مگر جمہوریت کو ایک نظامِ کار کے طورپر تسلیم کرتے ہیں کہ یہ زیادہ قابلِ عمل اور ترقی یافتہ نظام ہے۔ اسلام اور جمہوریت کے باہمی تعلق یا امتیاز پر مولانا مودودی نے بیان کیا:
۱- ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کرلیاگیاہے۔ اس بناپر جمہوریت مطلق العنان ہوگئی ہے۔ اسلام اس حاکمیت ِ جمہور کا پہلے ہی قدم پر صحیح علاج کردیتا ہے، اور وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے، جو کائنات کے اصل حاکم نے مقرر کیا ہے۔ اس میں مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی۔
۲- اسلام ہر فرد کے اندر تعلیم و تربیت اور تزکیہ پر زور دیتا ہے۔ اس سے جمہوریت کی کام یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
۳- جمہوریت کی کام یابی کا انحصار ایک بیدار اور مضبوط راے عام پر ہے۔ اسلام نے اس کے لیے تمام ضروری ہدایات فراہم کی ہیں۔۶
اگر درج بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری کام یابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔
اسلامی تصوّرِ جمہوریت مغرب کے تصوّرِ جمہوریت سے یک سر مختلف ہے۔ اسلامی جمہوریت سے مراد ہے اللہ کی حاکمیت اور عوام کی خلافت۔ بنیادی قوانین اللہ کے عطاکردہ ہیں اور مسلمان خلیفہ نائب ِخداہونے کی حیثیت سے ان قوانین کو نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ اس لیے سیّد مودودیؒ اسلام کے تصوّرِ حکومت کو ’خلافت ِجمہور‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے مغرب کی ’لادین جمہوریت‘ سے متصادم قرار دیتے ہیں۔۷
خلافت ِجمہور یا الٰہی جمہوری حکومت سیّد مودودیؒ کی وضع کردہ اصطلاح ہے، جس سے ان کی تخلیقی بصیرت اور اجتہادی ملکہ کا اندازہ ہوتاہے۔تھیاکریسی (پاپائیت) میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتاہے اور عملاً اپنی خدائی تمام باشندوں پر مسلّط کرتاہے۔ ڈیموکریسی میں جمہور ہی حاکمِ مطلق، بے قید فرماں روا اور حلّت و حرمت اور جواز وعدمِ جواز میں قولِ فیصل ہوتے ہیں۔خلافت ِجمہور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اسی کا اقتدار ِاعلیٰ حکمراں ہوتاہے اور مسلمانوں کو محدود عمومی حاکمیت عطا ہوتی ہے۔ جن مسائل میں قرآن و سنت میں نصوص موجود نہیں ہیں، ان میں مسلمان شریعت کی روح کے مطابق قانون سازی کے مجاز ہوتے ہیں۔
سیّد مودودیؒ کہتے ہیں:’’یہ چیز اسلامی خلافت کو قیصریت اور پاپائیت اور مغربی تصور والی مذہبی ریاست (Theocracy)کے برعکس ایک جمہوریت بنادیتی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اہلِ مغرب جس چیز کو لفظ’ جمہوریت‘ سے تعبیر کرتے ہیں اس میں جمہور کو حاکمیت کا حامل قرار دیاجاتاہے اور ہم مسلمان جسے ’جمہوریت‘ کہتے ہیں اس میں جمہور صرف خلافت کے حامل ٹھیرائے جاتے ہیں۔ ریاست کے نظام کو چلانے کے لیے ان کی جمہوریت میں بھی عام راے دہندوں کی راے سے حکومت بنتی اور بدلتی ہے اور ہماری جمہوریت بھی اسی کی متقاضی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ ان کے تصور کے مطابق جمہوری ریاست مطلق العنان اور مختارِ مطلق ہے اور ہمارے تصور کے مطابق جمہوری خلافت اللہ کے قانون کی پابند‘‘۔۸ اس ضمن میں راقم نے ایک مقالے میں تفصیل سے بحث کی ہے۔۹
فکرِ مودودیؒ کا ایک امتیاز مغرب کے فکر وفلسفہ، سائنس اور نظامِ تعلیم پر بھرپور اور مدلل محاکمہ و تجزیہ ہے۔ اس فکر کو وہ’ جاہلیت ِخالصہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جس کی بنیاد الحاد وتشکیک اور وحی ورسالت کے انکار پر ہے۔ اس جاہلیتِ خالصہ نے انسان کو ایک خود مختارانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرنے پر آمادہ کیا اور وہ شترِ بے مہار ہوگیا۔ اس طرزِ فکر کے نتیجے میں سیاست کی بنیاد انسانی حاکمیت پر استوارہوئی۔ مملکت کے تمام قوانین خواہشِ نفس اور تجربی مصلحت کی بنیاد پر بنائے گئے۔ منفعت پرستی اور مصلحت پسندی تمام پالیسیوں پر حاوی رہی۔ تمدن و معاشرت اور تہذیب و ثقافت، لذّات ِ نفس کی طلب پر پروان چڑھی۔فنونِ لطیفہ، ادب وشاعری میں عریانی و شہوانیت کا تسلّط رہا۔ نظام تعلیم و تربیت اسی تصوّرِ حیات کے مناسب ِحال مرتّب ہوا۔ ’’اس طرزِ فکر سے افراد کی بے ایمانیوں، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں، مال داروں کی خود غرضیوں اور عام لوگوں کی بداخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ آج انسانیت کو ہورہاہے اور بڑے پیمانے پر اس نظریے سے قوم پرستی، استحصال واستعمار،جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکل رہے ہیں، ان کے چرکوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکلتاہے کہ یہ جاہلیت کا رویّہ ہے‘‘۔۱۰
سیّد مودودیؒ نے مغرب کی جاہلیتِ خالصہ کے تاریخی نشو ونما کا تجزیہ کیا۔ عیسائیت اور حرّیت ِفکر کے علَم برداروں کے درمیان جس خوں ریز کش مکش کا آغاز ہواتھا، وہ نفسِ مذہب کے خلاف معرکہ آرائی میں تبدیل ہوگئی۔ نئے دور کے ارباب ِحکمت وفلسفہ نے روحانیت اور مافوق الفطرت کے خلاف جنگ چھیڑدی۔ مغربی فلسفہ و سائنس نے آغاز ِسفر میں ’نیچریت‘ کو خداپرستی کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی، مگر آگے چل کر ’نیچریت‘ خداپرستی پر غالب آگئی اور خدا کا تخیل اور عالم فطرت سے بالا ہر فکر اور نظریہ نظروں سے اوجھل ہوگیا اور سائنس ’نیچریت‘ کا ہم معنی قرار پاگئی۔۱۱
سترھویں صدی میں مغربی فلسفہ و سائنس نے کامل الحاد کارنگ اختیار نہیں کیاتھا، مگر اٹھارھویں صدی میں مادہ پرستی،الحاد اور لادینیت سکۂ رائج الوقت بن گئے۔ مشہور فلسفی ہیوم نے اپنی تجربیت اور فلسفۂ تشکیک سے عالمِ طبیعیت اور دنیاے مادہ و حرکت کے باہر کسی طاقت کے وجود کو نہ ماننے اورمشاہدہ وتجربہ ہی کو معیار قرار دینے پر زور دیا۔ برکلے نے کوشش کی کہ مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رَو پر بندش لگے، مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ہیگل نے مادیت کے مقابلے میں تصوریت کو فروغ دینا چاہا، مگر ٹھوس مادہ کے مقابلے میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوسکی ۔کانٹ نے بیچ کی راہ نکالی،مگر خداپرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی یہ آخری کوشش بھی ناکام ہوئی۔۱۲
ڈارون کی کتاب اصل الانواع (Origin of Species)کو سیّد مودودی ؒ مغرب کے فکروفلسفہ کی دنیا میں ایک انقلاب انگیز تصنیف قرار دیتے ہیں، جس نے اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے پیغمبر کے بغیر چل سکتاہے۔ آثار و مظاہر ِفطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علّت کی حاجت نہیں۔ زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقا ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے، جو عقل وحکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواعِ حیوانی کو پیداکرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے، بلکہ وہی ایک جان دار مشین، جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگاکرتی تھی، تنازع للبقاء، بقاے اصلح اور انتخابِ طبیعی کے نتیجے کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہوگئی۔۱۳
سیّدمودودیؒ تخلیق آدم کے قرآنی نظریے کا اثبات کرتے اور ڈارون کا ابطال کرتے ہیں: سورۂ اعراف آیت ۱۱: وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (ہم نے تمھاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمھاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو) کی تفسیر میں وہ صراحت کرتے ہیں: ’’قرآن مجید انسان کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتاہے جو موجودہ زمانے میں ڈارون کے متبعین سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ ان نظریات کے برخلاف قرآن ہمیں بتاتاہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہواہے۔ اس کی تاریخ کسی غیرانسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی۔البتہ ہم اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایاگیا؟ پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیاتھی؟۱۴
فکر مودودیؒ کی ایک امتیازی خصوصیت خواتین کی خود اختیاری اور ان کے سماجی و سیاسی حقوق کے باب میں وہ اجتہادی موقف ہے، جو روایت پرستی اور تجدّد کے دونوں انتہا پسندانہ نظریات کے مابین ایک نئی راہ اختیار کرنے پر منحصر ہے۔ ایک طرف قدیم الفکر اور روایت پسند علما ہیں ،جن میں سے اکثر حضرات عورت کے وجود کو شمع ِخانہ کی حیثیت دے کر اسے تمام سماجی و تمدنی حقوق سے محروم کردیتے ہیں، تو دوسری طرف حقوق ِنسواں کے علم بردار وہ جدید الفکر دانش ور ہیں جو مغرب کی نسائی تحریکات سے متاثرہوکر اسے مردوں کے دوش بہ دوش کھڑاکرنے کی وکالت کرتے ہیںاور فطری و خلقی فرق تک کو نظرانداز کردیتے ہیں۔سیّد مودودیؒ کا موقف ان دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال کو اختیار کرنے کا ہے۔ان کے تصورات ان کے مجموعی نظام احیاے دین کا حصہ ہیں۔ ان میں وہ جدید تحریک ِنسواں کے متشدد رجحانات کی نفی کرتے ہیں، مگر ان پر روایت پرستانہ فکر کی چھاپ بھی نظر آتی ہے، تاہم اس روایت پسندی پر ان کی اصلاح پسندی اور تجدیدی فکر غالب ہے۔۱۵
سیّد مودودیؒ خاندانی نظام کی تشکیل کو اسلامی تہذیب کی تعمیر کے لیے ناگزیر تصور کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے نکاح کے لیے ’حصن‘ کا لفظ استعمال کیاہے، جس کا مطلب ہے عفت و پاکیزگی کے قیام و دوام کے ذریعے خاندان کو مضبوط بنانا۔۱۶ نکاح کا ادارہ میاں بیوی کو قانونی رشتوں میں باندھ کرجنسی بے راہ روی سے دونوں کی حفاظت کرتاہے۔ نکاح کے بنیادی مقاصد دو ہیں: (۱)پاک دامنی اور عفّت کا تحفظ (۲)مودّت، سکینت اور رحمت کا خاندان میں فروغ واستحکام اور اس کے ذریعے انسانی تہذیب کا فروغ۔۱۷
سیّد مودودیؒ کے مطابق تہذیب وتمدن کی ترقی کے لیے ادارۂ خاندان کی تشکیل اور اس کا استحکام ناگزیر ہے۔ نکاح کی صورت میں مرد اور عورت کے درمیان مستقل اور والہانہ وابستگی ہی سے خاندانی نظام وجود میں آتاہے۔ ان کے نزدیک مساوات ِمرد و زن کا نعرہ غیر حقیقی،غیر فطری اور حقائق سے دور ہے۔ اسلام نے عورت کے سپرد وہی فرائض کیے ہیں، جو فطرت نے اس کے سپرد کیے ہیں ۔اس کے بعد مردوں کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت دی ہے۔ عزت اور تکریم میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ نص قرآنی(النساء۴:۳۴ )کے مطابق مرد خاندان کا قوام ہے اوراسے کچھ حوالوں سے عورت پر فضیلت حاصل ہے۔۱۸ مگر اس فضیلت سے عورت کی کم تری کا پہلو نکالنا غلط ہے۔ بلاشبہہ مرد خاندان کا سربراہ ہے اور عورت اس کے ماتحت ہے، مگر یہ ماتحتی کسی بھی حیثیت میں مرد کی فوقیت ثابت نہیں کرتی ،بلکہ اسے ذمہ دار قرار دیتی ہے۔۱۹
حاکمانہ اختیارات کے غلط استعمال پر سیّد مودودیؒ نے بندش لگائی ہے۔ روایت پسند علما کے علی الرغم وہ تنبیہ کرتے ہیں کہ’’مرد کو جو اختیارات قوّام کی حیثیت میں دیے گئے ہیں، ان کا غلط استعمال مرد نہ کرے اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھاکر وہ عورت پر ظلم نہ کرے‘‘۔۲۰
ایک دوسری جگہ وہ کہتے ہیں:’’شوہر اور والد اگرچہ قوّام ہیں ،مگر اس حیثیت کی بناپر یہ نامناسب ہوگا کہ وہ عورتوں پر ہر معاملے میں اپنی مرضی مسلّط کریں، مثلاًعورتیں اپنی جایداد اور ملکیت میں تصرف کا پوراپورا حق رکھتی ہیں‘‘۔۲۱
خواتین کی سماجی، معاشی اور سیاسی خود اختیاری کے باب میں سیّد مودودیؒ مغرب کے سخت ناقد ہیں۔ ان کے خیال میں جب عورت پر مرد کے برابر معاشی و تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالاجائے گا تو وہ اپنے اوپر سے فطری ذمہ داریوں کا بوجھ اتار پھینکے گی اور اس کا نتیجہ نہ صرف تمدن بلکہ خود انسانیت کی بربادی ہوگا‘‘۔۲۲ اسلام مردانگی (Manhood) اور نسوانیت (Womanhood) دونوں کو انسانیت کے ضروری اجزا تصوّر کرتاہے اور تہذیبی وتمدنی ارتقاکے لیے دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتاہے۔ مغربی خواتین اپنی نسوانیت سے محروم ہیں اور مردانہ پن کی ترجمانی کرنے لگی ہیں۔۲۳
خواتین کی سیاسی و سماجی اور تعلیمی خود اختیاری کی ترجمانی کرتے ہوئے سیّد مودودیؒ لکھتے ہیں:’’اسلامی حکومت میں ہر بالغ عورت کو ووٹ کا حق اسی طرح حاصل ہوگا جس طرح ہر بالغ مرد کو یہ حق دیاجائے گا۔ اسی طرح انھیں وراثت اور مال و جایداد کی ملکیت کے پورے پورے حقوق بھی حاصل ہوں گے اور ان کے شوہروں اور باپوں کو ان کی املاک پر کسی قسم کا اختیار نہیں ہوگا۔ عورتوں کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیاجائے گا، بلکہ ہم مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم دینے کا بھی انتظام کریں گے…یہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی تو وہ عورتوں کے لیے بھی ویسی ہی بابرکت ثابت ہوگی جیسی مردوں کے لیے ہے‘‘۔۲۴
ایک قاری کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سیّد مودودیؒ مرد اور عورت کے دائرہ کار کو ایک دوسرے سے مختلف بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام میں ’’عورت اور مرد، عزت واحترام کے لحاظ سے برابر ہیں۔اخلاقی معیار کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ آخرت میں اپنے اجر کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ لیکن دونوں کا دائرۂ عمل ایک نہیں ہے۔ سیاست اور ملکی انتظام، فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام مرد کے دائرئہ عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہوجائے گی ،یا پھر عورتوں پر دہرا بار ڈالاجائے گا۔ مغربی ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ صورت رُونماہوچکی ہے۔آنکھیں بندکرکے دوسروں کی حماقتوں کی نقل اُتارنا عقل مندی نہیں ہے‘‘۔۲۵
سیّد مودودیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ تفہیم القرآن کی تکمیل ہے۔چھے جلدوں میں اس عظیم الشان تفسیر کا امتیاز اس کی علمیت اور ادبیت ہے۔ مولانا نے حالاں کہ وضاحت کی ہے کہ ان کے پیش نظر وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔اس لیے علما اور محققین کی ضروریات کی رعایت اس تفسیر میں نہیں کی گئی ہے، نہ ان حضرات کے معیار کو سامنے رکھا گیا ہے جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔۲۶
مگر سید حامد عبدالرحمٰن الکاف کے بقول بالیقین تفہیم القرآن ایک علمی اور تحقیقی تفسیرہے۔ اس میں علمی تحقیق کے وہ نمونے ملتے ہیں جو کسی اور تفسیر میں نہیں پائے جاتے۔ مثال کے طورپر نقشہ جات، مصادر، تحقیق کا تنوع، علمی اسلوب کی سنجیدگی اور متانت، پیچیدہ اور اختلافی مسائل میں نہایت درجہ محققانہ اور متوازن راے کا اظہار۔ یہ محض سیّد مودودیؒ کی خاکساری ہے کہ انھوں نے اس کے متعلق کوئی بلند دعویٰ نہیں کیا۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں، عین حقیقت کا اظہار ہے کہ عصر حاضر کے انتہائی دقیق اور الجھے ہوئے مسائل کا حل جس اسلوب میں تفہیم القرآن نے پیش کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
تفہیم القرآن کی زبان کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی شستہ وشائستہ ، ادب وبلاغت کے اعتبار سے انتہائی معیاری، افہام و ترسیل کے لحاظ سے بے حد مؤثر اور بصیرت افرز ہے۔ تفہیم القرآن کا قاری اس کی ادبیت اور اسلوبِ بیان کے سحر میں کھوجاتاہے۔ جی چاہتاہے کہ وہ پڑھتاجائے اور تکمیل سے پہلے بند نہ کرے۔ مولانا نے ترجمۂ قرآن میں لفظی ترجمہ کی جگہ ترجمانی کا ڈھنگ اختیارکیاہے، تاکہ اسلوب ِبیان میں ترجمہ پن نہ ہو۔’’عربی مبین کی ترجمانی اُردوے مبین میں ہو، تقریر کا ربط فطری طریقے سے تحریر کی زبان میں ظاہر ہو اور کلامِ الٰہی کا مطلب ومدعا صاف صاف واضح ہونے کے ساتھ اس کا شاہانہ وقار اور زورِ بیان بھی جہاں تک بس چلے، ترجمانی میں منعکس ہوجائے‘‘۔۲۷
تفہیم القرآن ایک حرکی، انقلابی اور داعیانہ تفسیر ہے، جو قاری کو جاہلیت کے خلاف صف آراہونے کی تحریک دیتی ہے۔ سیّد مودودیؒ نے یہ تفسیر اسی غرض کے لیے لکھی ہے کہ وہ پڑھنے والے کو داعیٔ حق بناکے چھوڑے۔ دیباچہ میں وہ خود صراحت کرتے ہیں:’’لیکن فہم قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہوپاتا ،جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیاہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔یہ دنیا کے عام تصوّرِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں۔ جیسا کہ اس مقدمے کے آغاز میں بتایاجاچکاہے، یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑاکیا۔اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین، معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہواہو، اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔؟!‘‘۔۲۸
سیّد مودودیؒ اسے ’سلوک ِقرآنی‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جس کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آدمی گزرتاجائے گا، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خودسامنے آکر اس کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ قرآن کے احکام اور اس کی تعلیمات آدمی کی سمجھ میں آہی نہیں سکتیں، جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔’’نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتاہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کررکھاہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں‘‘۔۲۹
فکرِ مودودیؒکا ایک اور امتیازی پہلو سنت و حدیث کا دفاع اور منکرین ِسنت و حدیث کا مدلل اور مسکت جواب ہے۔مولانا کی معروف کتاب سنت کی آئینی حیثیت،ان مسکت دلائل کا مجموعہ ہے جو انھوں نے منکرِ سنت و حدیث دانش وروں کی تحریروں اور مکتوبات کے جواب میں سپردقلم فرمائے تھے۔ یہ سب سے پہلے یک جاشکل میں’ منصبِ رسالت نمبر‘ کے عنوان سے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور میں شائع ہوئے، پھر فاضل مصنف نے نظرثانی کے بعد کتابی شکل میں سنت کی آئینی حیثیت کے نام سے مرتب فرمایا۔یہ کتاب ۱۹۶۳ء میں اسلامک پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئی۔
سیّد مودودیؒ نے شرح وبسط سے اور علمی استدلال کے ساتھ ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت محض ایک نامہ بریا شارحِ قانون کی نہیں تھی۔ آپؐ اقوام عالم کے رہبر و رہنماتھے۔ قرآن مجید کے شارح و مفسر تھے اور شارع و قانون ساز اور قاضی و حاکم بھی۔ آپؐ کی تمام حیثیتوں کی پیروی اور غیر مشروط والہانہ اطاعت مسلمانوں پر فرض ہے۔ جو شخص اطاعت ِرسول سے آزاد ہوکر قرآن کی پیروی کادعویٰ کرتاہے وہ قرآن کا نہیں، خواہشِ نفس کا پیروہے۔جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیری وتشریحی حیثیت اور تشریعی حیثیت میں خطِّ امتیاز قائم کرتاہے اور تشریحی حیثیت کو تو مانتاہے،مگر آپ کی تشریعی حیثیت کا انکار کرتایا اس میں شکوک و شبہات پیداکرتاہے، وہ سنت و حدیث کا انکار کرتاہے۔ دور جدید میں فتنۂ انکار ِحدیث کی سربراہی پاکستانی دانش ور غلام احمد پرویز (۱۹۰۳ء- ۱۹۸۵ء) نے کی اور دھیرے دھیرے ایک مؤثر طبقے کو اس نے اپنا اسیر بنالیا۔
سیّد مودودیؒ کی ان تحریروں کو امت ِمسلمہ کے ہر طبقے میں قبولِ عام حاصل ہوا۔ رسولؐ اللہ کی قانون سازی اور تشریعی حیثیت پر مولانا نے سورۂ اعراف:۱۵۷ اور سورۂ الحشر:۷ سے استدلال کیا۔ ان آیات کے الفاظ صریح اور دوٹوک ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات(Legislative Powers) عطاکیے ہیں۔ اللہ کی طرف سے امر ونہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے، بلکہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام یا حلال قراردیاہے اور جس چیز کا حضورؐ نے حکم دیاہے یاجس سے منع کیاہے، وہ بھی اللہ کے دیے ہوئے اختیارات میں سے ہے۔اس لیے وہ بھی قانونِ خداوندی کا ایک حصہ ہے۔
آگے فرماتے ہیں:’’ان دونوں آیتوں(الاعراف:۱۵۷ ، الحشر:۷) میں سے کسی کی یہ تاویل نہیں کی جاسکتی کہ ان میں قرآن کے امر ونہی اور قرآن کی تحلیل وتحریم کا ذکر ہے۔ یہ تاویل نہیں ،بلکہ اللہ کے کلام میں ترمیم ہوگی۔ اللہ نے تو یہاں ا مر ونہی اور تحریم و تحلیل کو رسول کا فعل قراردیا ہے، نہ کہ قرآن کا۔ پھر کیا کوئی شخص اللہ سے یہ کہناچاہتاہے کہ آپ سے بیان میں غلطی ہوگئی۔آپ بھولے سے قرآن کے بجاے رسول کانام لے گئے؟‘‘۔۳۰
سیّد مودودیؒ صراحت کرتے ہیں کہ انکارِ سنت وحدیث کے فتنہ پرور دانش وروں کے ہاں علم کم اور بے علمی کی جسارت زیادہ ہے۔ انھوں نے اس فتنے کو فروغ دینے کے لیے جو تکنیک استعمال کی ہے اس کے اجزا یہ ہیں:
۱-حدیث کو مشتبہ بنانے کے لیے مغربی مستشرقین نے جتنے حربے استعمال کیے ان پر ایمان لانا اور اپنی طرف سے ان میں حواشی کا اضافہ کرنا۔
۲-احادیث کے مجموعوں کو عیب چینی کی غرض سے کھنگالنا، جیسے آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریوں نے کبھی قرآن کو کھنگالاتھا۔
۳-رسولؐ کے منصب ِ رسالت کو محض ایک ڈاکیے کا منصب قرار دینا۔
۴-صرف قرآن کو اسلامی قانون کا ماخذ قراردینا اور سنت ِرسول کو اسلام کے قانونی نظام سے خارج کردینا۔
۵-امت کے تمام فقہا، محدثین، مفسرین اور ائمۂ لغت کو ساقط الاعتبار قراردینا۔
۶-خود ایک نئی لغت تصنیف کرکے قرآن کی تمام اصطلاحات کے معنیٰ بدل ڈالنا اور آیاتِ قرآنی کو وہ معانی پہنانا جن کی کوئی گنجایش دنیا کے کسی عربی داں آدمی کو قرآن کے الفاظ میں نظر نہ آئے۔
اس تخریبی کام کے ساتھ ایک نئے اسلام کی تعمیر بھی منکرین ِسنت کے پیش نظر ہے، جس کے بنیادی اصول تین ہیں:
(الف)نظامِ ربوبیت کے نام سے ایک مرکز کا قیام ،جو شخصی املاک کو ختم کرکے انھیں ایک مرکزی حکومت کے تصرف میں دے دے اور وہی حکومت افراد کے درمیان تقسیمِ رزق کی مختارکل ہو۔
(ب)مسلمانوں کی تمام جماعتیں توڑ دی جائیں۔ وہ مرکزی حکومت میں ضم ہوجائیں۔
(ج)قرآن میں اللہ ورسول کی اطاعت کا جوحکم دیاگیاہے اس سے مراد ہے’مرکزِ ملت‘۔ اسی کی تفسیر وتشریح اور تحلیل و تحریم مستند ہوگی۔۳۱
چوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت پر منکرینِ حدیث نے سب سے زیادہ اشکالات قائم کیے تھے، اس لیے سیّد مودودیؒ کی تحریروں میں سب سے زیادہ بحث اسی نکتے پر ملتی ہے۔ خود قرآن کریم کی آیات سے انھوں نے ثابت کیا ہے:
۱- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی کام کی نوعیت قرآن کی تفسیر وتشریح کی بھی تھی اور قرآن کے علاوہ قانون سازی کی بھی۔
۲- تشریح وتفسیر کے باب میں مجمل حکم کی تفصیل فراہم کرنا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے احکام وہدایات اور اشارات ومضمرات کی شرح وتفسیر فرمائی ہے۔ یہ قرآن میں دیے ہوئے فرمانِ تفویض پر ہی مبنی ہے۔۳۲ قرآن کے کسی مجمل حکم کی حدیث کے ذریعے تفصیل قرآن کے خلاف نہیں ہے، بلکہ قرآن سے زائد ہے۔۳۳
۳- وحی غیر متلوپرایمان، ایمان بالرسول کا جزوہے۔(النور۲۴:۵۴، الانعام۶: ۹۰، النساء۴: ۸۰)۔۳۴
۴- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میں کتاب کے ساتھ حکمت کی تعلیم کا تذکرہ ہے اور حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے۔۳۵
۵- سورۂ حدید:۲۵ میں ’کتاب‘ کے ساتھ’ میزان‘ نازل کرنے کا تذکرہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ اور آپؐ کے اقوال وافعال میں خدا کی عطاکردہ حکمت اور میزانِ عدل کے آثار صاف ظاہر ہیں۔۳۶
۶- وحی متلو، یعنی قرآن میں لفظ اور معنیٰ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں،مگر وحی غیر متلو اپنی نوعیت وکیفیت اور مقصد میں بالکل مختلف ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہ نمائی کے لیے آتی تھی اور لوگوں تک وہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں نہیں ، بلکہ حضورؐ کے ارشادات، فیصلوں اور کاموں کی صورت میں پہنچتی تھی۔۳۷
تفہیم حدیث کا متکلمانہ اسلوب
سنت و حدیث کی تشریح وتوضیح معتدل ومتوازن اسلوب میں اُس دائرۃ المعارف میں پوری طرح جھلکتی ہے، جسے مولاناعبدالوکیل علوی نے تفہیم الاحادیث کے عنوان سے مرتب کیاہے۔ بڑی تقطیع کی آٹھ ضخیم جلدوں میں یہ عظیم الشان تصنیف ان ہزاروں احادیث نبویہ کے جمع وترتیب ، تخریج وابواب بندی اور ترجمہ پر مشتمل ہے، جو سیّد مودودیؒ کی شاہ کار تصانیف بالخصوص تفہیم القرآن میں استعمال ہوئی ہیں۔۳۸
فاضل مرتب نے بجاطورپر لکھاہے کہ تالیف وتدوین کا یہ کام اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے جتنا اہم اور عظیم ہے، اپنے حجم کے لحاظ سے اسی قدر ضخیم ہے۔ اس کام کی تکمیل کس قدر عرق ریزی اور جاں فشانی کا تقاضاکرتی تھی، اس کا اندازہ عام لوگ نہیں کرسکتے۔ سیّد مودودیؒ کی تصانیف میں سے انتخاب کا یہ موادہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا، عبارتوں پر نشان لگاکر یہ واضح کرنا کہ یہ حدیث کامتن ہے اور یہ اس کا ترجمہ وتشریح ہے، تمام احادیث کی اسناد کا التزام کرنا، نامکمل حدیث کا مکمل حوالہ دینا اور محدثین کی محدثانہ آرا کا اہتمام ، پھر حدیث کی تائید میں دوسری احادیث کو درج کرنے کی کاوش۔۳۹
آٹھ جلدوں پر مشتمل اس عظیم الشان ترتیب وتخریج ِحدیث کو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ سیّدمودودیؒ نے احادیثِ نبویہ کی تفہیم وتشریح میں کس حکمت وبالغ نظری اور بصیرت وفراست کا مظاہرہ کیاہے۔ یہ پہلو حدیث وسنت کے دفاع سے آگے بڑھ کر تشریح و تبیین اور اثبات واقدام سے متعلق ہے۔ اس اثبات واقدام میں حدیث پر کامل درجہ ایمان وایقان کا عنصر غالب ہے۔ اسلوب ِنگارش پر عقلی استدلال اور متکلمانہ اسلوب کی زبردست چھاپ ہے اور تفہیم وتشریح کا انداز اتنا منطقی، مدلل اور مستحکم ہے کہ قاری کے ذہن میں حدیث کی حکمت ومعنویت اندر تک سرایت کرجاتی ہے۔
مثال کے طورپر سیّد مودودی سورۂ شوریٰ آیت ۳۶: وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (اور وہ اپنے ربّ پر بھروسا کرتے ہیں) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ پر توکل کو قرآن نے ایمان کا لازمی تقاضا اور آخرت کی کام یابی کے لیے ضروری وصف قرار دیاہے۔ پھر توکل کی یہ تشریح کرتے ہیں:۴۰
۱- آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہ نمائی پر کامل اعتمادہو اور اسے اللہ کے عطاکردہ علم حقیقت پر، اخلاق کے اصولوں پر، حلال وحرام کے حدودپر اور زندگی بسرکرنے کے قواعد وضوابط پر مکمل ایقان ہو۔
۲- آدمی کا بھروسااپنی طاقت وقابلیت ،اپنے ذرائع ووسائل، اپنی اور دوسروں کی تدابیر پر نہ ہو، بلکہ اللہ کی توفیق وتائید پر ہو اور یہ توفیق وتائید اسی وقت ملتی ہے جب اللہ کی رضا پیش نظرہو۔
۳- آدمی کو ان وعدوں پر پورا بھروساہوجو اللہ نے ایمان اورعمل صالح کا رویہ اختیار کرنے والوں سے کیے ہیں۔ ان وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ باطل کے فوائد ومنافع اور لذّات کو لات ماردے اور حق پر استقامت کی صورت میں آنے والے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کرے۔۴۱
شورائی اجتہاد
فکر مودودیؒ کا ایک اور امتیاز اسلامی قانون سازی کے میدان میں اس اجتماعی عمل کا تصور ہے جسے پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے ’شورائی اجتہاد‘ کا نام دیاہے۔ ان کے مطابق سیّد مودودیؒ اجتہاد کے ایک لازمی شورائی تصور کے قائل نظرآتے ہیں، جس میں کوئی تنہا امام مجتہد نہیں،بلکہ اسکالرز،محققین اور علما مل کر جملہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل پر تبادلۂ خیال کے بعد اجماع کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں۔انفرادی سطح پر اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں رہا،لیکن انفرادی راے کے مقابلے میں جب تک امت کے اسٹرے ٹیجک معاملات میں اتحادفکری نہ ہو، اس وقت تک ترقی کا عمل صحیح رخ اختیار نہیں کرسکتا۔سیّد مودودیؒ چاہتے تھے کہ علما و مفکرین کا ایک ایساادارہ وجود میں آئے، جو برسرِاقتدارطبقے کے اثرات سے محفوظ رہتے ہوئے، آزادانہ طورپر امت کو عالمی سطح پر درپیش مسائل پر غور کرے اور شریعت کے اصولوں کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرنے کے مواقع فراہم کرے۔۴۲
کسی اجتہاد کو قانون کا مرتبہ حاصل ہونے کی چار صورتیں سیّد مودودیؒ نے تجویز کی ہیں:
۱- امت کے تمام اہلِ علم کا اس اجتہاد پر اجماع ہوجائے۔
۲- کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبولِ عام حاصل ہوجائے، جیسے مختلف فقہی مکاتب کو مسلمانوں نے قانون کے طوپر تسلیم کرلیا۔
۳- کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قراردے دے، جیسے فقہ حنفی کو عثمانی سلطنت نے قانون ِملکی مان لیاتھا۔۴۳
۴- سیاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنائے۔
جو اہل علم اجتہاد کریں ان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ حسب ذیل اوصاف کے حامل ہوں:
(الف)شریعت ِالٰہی پر ایمان اور اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ۔
(ب)عربی زبان اور اس کے قواعد وادب سے اچھی واقفیت۔
(ج)قرآن وسنت کا گہراعلم کہ وہ شریعت کے کلیات و مقاصد کو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔
(د)پچھلے مجتہدینِ امت کے کاموں سے واقفیت۔
(ہ)عملی زندگی کے حالات و مسائل سے آگاہی، اور
(و)اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت وکردار۔۴۴
سیّد مودودیؒ نے صراحت کی ہے کہ اسلام قانون سازی کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اسے خدائی قانون کی بالاتری سے محدود کرتاہے۔ اس دائرئہ عمل کو انھوں نے تین مراحل سے مربوط کیا ہے: (۱)تعبیر احکام(۲)قیاس(۳)استنباط۔۴۵
مولانا موصوف کہتے ہیں کہ آزادانہ قانون سازی کا دائرہ کافی وسیع ہے، کیوں کہ معاملات کی ایک بڑی قسم ایسی ہے جس کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی انسان کو خود اپنی راے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہاہے، مگر یہ آزادانہ قانون سازی ایسی ہو جو روحِ اسلام اور اس کے اصول ِعامہ سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس خالص علمی تحقیق اور عقلی کاوش کو اجتہاد کہتے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مرادہے یہ معلوم کرنے کی کوشش کہ ایک زیر ِبحث مسئلہ میں اسلام کاحکم یا اس کا منشاکیاہے؟اسے آزاداجتہاد سمجھنا غلط ہے۔قرآن وسنت کے نصوص اور ان کے طے کردہ حدود سے بے نیاز ہوکر جو اجتہاد کیاجائے وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔۴۶
سیّد مودودیؒ یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اجتہاد کا صحیح طریقہ کیاہے؟مجتہد خواہ تعبیر و تشریحِ احکام کررہا ہویا قیاس واستنباط کے عمل میں مصروف ہو، ضروری ہے کہ اس کے استدلال کی بنیاد قرآن وسنت پر ہو۔ مباحات کے دائرہ میں آزادانہ اجتہاد کے لیے بھی اسے یہ دلیل فراہم کرنی چاہیے کہ قرآن وسنت نے زیر بحث مسئلہ میں کوئی حکم یا قاعدہ مقر ر نہیں کیاہے اور نہ قیاس ہی کے لیے کوئی بنیاد فراہم کی ہے۔ من مانی تاویل سے جو اجتہاد کیاجائے گا اسے مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر کبھی قبول نہیں کرے گا ،نہ وہ حقیقتاً اسلامی نظامِ قانون کا جز بن سکتاہے۔۴۷
حواشی و مراجع
۱- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۴۵ء،ص ۹۱
۲- ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، ستمبر ۱۹۵۴ء، ص ۴۶
۳- سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، تفہیمات،سوم، ۱۹۶۷ء، ص ۳۶۲-۳۶۳
۴- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تصریحات (مرتب: سلیم منصور خالد)، البدرپبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۲، ص۱۹۲
۵- حوالہ سابق ، ص۲۸۷۔۲۸۸ ۶- ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، جون ۱۹۶۳ء، ص۶۱-۶۲
۷- حوالہ سابق ، ص۱۲۸۔۱۲۹ ۸- حوالہ سابق ، ص۵۰۰-۵۰۱
۹- حوالہ سابق ، ص ۳۲۰۔سیّد مودودیؒ کی سیاسی فکر کے مفصل مطالعے کے لیے ملاحظہ کیجیے: پروفیسر غلام اعظم کا مضمون’ اسلام کا سیاسی نظامِ فکر اور سیّد مودودی ‘ اور راقم کامضمون’سیّد مودودی کی سیاسی فکر۔ ایک تجزیاتی مطالعہ‘ در مجموعہ، ابوالاعلیٰ مودودی، علمی وفکری مطالعہ، مرتبہ : رفیع الدین ہاشمی اور سلیم منصور خالد، ادارۂ معارف اسلامی۔،منصورہ، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۳۰۱۔۳۴۳،۳۴۶-۳۸۷
۱۰- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، اسلام اور جاہلیت، مکتبہ جماعت اسلامی ہند رام پور، ۱۹۵۲ء، ص۱۸
۱۱- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تنقیحات، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۹۱ء، ص ۱۱
۱۲- حوالہ سابق ، ص۱۳ ۱۳-حوالہ سابق ، ص۱۴،۱۵
۱۴- سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، مارچ ۱۹۸۵ء، جلد دوم، ص ۱۱۔ سورۂ الحجر:۲۸۔۲۹ کی تفسیر میں بھی مولانا’نئے دور کے ڈاروینیت سے متاثر ان مفسرینِ قرآن‘ پر تنقید کرتے ہیں، جو حیوانی منازل سے ترقی کرتے ہوئے بشریت کی حدود میں داخل ہونے والے انسان کی وکالت کرتے ہیں۔ قرآن صراحت کرتاہے کہ انسان کی تخلیق آغاز میں براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صلصال من حمإ مسنون کے الفاظ میں بیان فرمایاہے۔ حوالہ سابق، ص ۵۰۴۔
۱۵- ڈاکٹر زینت کوثر، خواتین کی خود اختیاریت اور سیّد مودودیؒ،در مجموعہ ابوالاعلٰی مودودی، علمی وفکری مطالعہ، حوالہ سابق، ص ۲۶۰-۲۹۹
۱۶- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،حقوق الزوجین، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۷۹ء،ص۱۷،۱۸
۱۷- حوالہ سابق ، ص۲۱
۱۸- حقوق الزوجین،حوالہ بالا، ص ۲۹ ۱۹-پردہ ، حوالہ بالا،ص۲۳۲
۲۰- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،اسلام اور مسلم خواتین، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۹۹ء،ص ۶۹
۲۱- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ،مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۸۶ء، ص۲۲
۲۲- پردہ ، حوالہ سابق،ص۱۹۴
۲۳- پردہ، ص ۲۵۶۔سیّد مودودیؒ لکھتے ہیں:’’عزت اگر ہے تو اس مردِ مونث(He-woman) یازنِ مذکر (She-man)کے لیے ہے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت، مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو اور تمدن ومعاشرت میں مرد ہی کے سے کام کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ انوثت(Woman hood)کی عزت نہیں، رجولیت(Manhood)کی عزت ہے۔
۲۴- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات، حوالہ سابق، ص ۲۱-۲۴
۲۵- ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۱۹۶۲ء، ص ۵۲،۵۳
۲۶- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن ، جلد اول، ۲۰۱۷ء، ص ۵-۶
۲۷- حوالہ سابق ، ص۱۰۔۱۱ ۲۸- حوالہ سابق ، ص۳۳-۳۴
۲۹- حوالہ سابق ، ص۳۴۔۳۵
۳۰- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،سنت کی آئینی حیثیت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،نئی دہلی، طبع ششم، فروری ۲۰۱۶ء، ص ۶۳،۶۴۔سیّد مودودی نے دیباچے میں صراحت کی ہے کہ انکارِ سنت کا فتنہ کس طرح سفر کرتا دورِحاضر تک پہنچا ہے۔
۳۱- حوالہ سابق ، ص۱۸-۲۰ ۳۲- حوالہ سابق ، ص۶۹-۷۳
۳۳- حوالہ سابق ، ص۴۴ ۳۴- حوالہ سابق ، ص۱۶۴،۱۶۵
۳۵- حوالہ سابق ، ص۱۶۷،۱۶۸ ۳۶- حوالہ سابق ، ص۱۶۹،۱۷۰
۳۷- حوالہ سابق ، ص۱۹۱
۳۸- سیّد مودودی،تفہیم الاحادیث (مرتبہ: عبدالوکیل علوی) lجلد اول ، اگست ۱۹۹۳ء، صفحات ۴۶۲، lجلد دوم،ستمبر ۱۹۹۴ء، صفحات ۴۷۴، lجلد سوم،اکتوبر۱۹۹۷ء،صفحات۴۴۱،lجلد چہارم، جنوری۱۹۹۸ء، صفحات۵۱۷، lجلد پنجم، جون۱۹۹۹ء، صفحات۶۴۹، lجلدششم،ستمبر۲۰۰۰ء، صفحات۵۵۳، lجلد ہفتم، جنوری ۲۰۰۲ء، صفحات۵۳۹، lجلد ہشتم،اگست ۲۰۰۳ء،صفحات۴۸۴، ناشر:ادارہ معارف اسلامی، لاہور
۳۹- دیکھیے: عرض مرتب، تفہیم الاحادیث، سیّد ابوالاعلی مودودیؒ،ترتیب وتخریج:مولانا عبدالوکیل علوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، جلد اول،اکتوبر ۲۰۰۳ء، ص ۹۔۱۰
۴۰- تفہیم القرآن، جلد چہارم، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، مارچ ۲۰۱۷ء، ص ۳۷۴۔ ۳۷۵، حاشیہ ۵۷، ص ۵۰۷، حاشیہ ۵۷
۴۱- تفہیم الاحادیث، جلد اول، حوالا سابق، ص ۶۶۔۶۷
۴۲- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، علمی وفکری مطالعہ، حوالہ سابق،ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون:’مولانا مودودی اور شریعت کا حرکی تصور‘،ص۴۷
۴۳- اسلامی ریاست، حوالہ سابق، ص ۴۴۶ ۴۴-حوالہ سابق ، ص۴۴۴۔۴۴۵
۴۵- حوالہ سابق ، ص۴۴۱۔۴۴۲ ۴۶-حوالہ سابق ، ص۴۴۳
۴۷- حوالہ سابق ، ص۴۴۵۔۴۴۶
یہاں پر مختصر طور پر اس موضوع پر بات کی جارہی ہے کہ عصرحاضر میں خواتین کی نمایندگی اور خواتین کی خود اختیاریت کے نام پر کی جانے والی کوششوں کو جماعت اسلامی کس طرح دیکھتی ہے؟
جماعت اسلامی پاکستان کے دستور کی دفعہ ۴ کے مطابق : ’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی سعی و جدوجہد کا مقصود عملاً اقامت دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہوگا‘۔
یہ نصب العین قرآن مجید کی اس آیت سے اخذ کیا گیا ہے :
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۳۳ (التوبہ۹: ۳۳)وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
’الہُدیٰ‘ سے مراد دین، دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ ہے جس میں انفرادی برتاؤ، خاندانی نظام ،سوسائٹی کی ترکیب، معاشی معاملات، ممکنہ انتظام، سیاسی حکمت عملی ،بین الاقوامی تعلقات، غرض یہ کہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کے لیے صحیح رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ دین حق یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں اور خود اپنے نفس کی بندگی واطاعت چھوڑ کر صرف اللہ کے اقتدار کو تسلیم کرے اور اس کی بندگی و اطاعت کرے ‘‘۔
جماعت کے دستور کی دفعہ ۸ کے مطابق ایک رکن کو جماعت میں شامل ہونے کے بعد جوتغیرات بتدریج اپنی زندگی میں کرنے ہوں گے، وہ یہ ہیں :
- دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کرلینا کہ اسلام اور جاہلیت (غیر اسلام) کا فرق معلوم ہو اور حدود اللہ سے واقفیت ہو جائے۔
- تمام معاملات میں اپنے نقطۂ نظر،خیال اور عمل کو کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ، اپنی زندگی کے مقصد، اپنی پسند اور قدر کے معیار اور اپنی وفاداریوں کے محور کو تبدیل کرکے رضاے الٰہی کے موافق بنانا۔
- اُن تمام رسومِ جاہلیت سے اپنی زندگی کو پاک کرنا، جو کتاب اللہ اور سنت ِرسولؐ کے خلاف ہوں اور اپنے ظاہر و باطن کو احکامِ شریعت کے مطابق بنانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا۔
- ان تعصبات اور دل چسپیوں سے اپنے قلب کو، اور اُن مشاغل اور جھگڑوں اور بحثوں سے اپنی زندگی کو پاک کرناجن کی بنا نفسانیت یا دنیا پرستی پر ہو اور جن کی کوئی اہمیت دین میں نہ ہو۔
- اپنے معاملات کو راستی، عدل ،خدا ترسی اور بے لاگ حق پرستی پر قائم کرنا۔
- اپنی دوڑ دھوپ ،سعی و جہد کو اقامت دین کے نصب العین پر مرتکز کر دینا۔
- اسی طرح دستور کی دفعہ ۹ کے مطابق: ہر رکن جماعت کے لیے لازم ہوگا کہ وہ بندگانِ خدا کے سامنے بالعموم نصب العین کو پیش کرے۔ جو لوگ اس نصب العین کو قبول کرلیں، انھیں اقامتِ دین کے لیے منظم جدوجہد کرنے پر آمادہ کرے اور جو لوگ جدوجہد کرنے کے لیے تیار ہوں ،انھیں جماعت اسلامی کے نظام میں شامل ہونے کی دعوت دے۔
- دستورِ جماعت کی دفعہ ۱۰ میں خواتین کے حوالے سے درج ہے:
- جو عورتیں جماعت اسلامی میں داخل ہوں، ان پر اپنے دائرئہ عمل میں دفعہ ۸ اور ۹ کے تمام اجزا کا اطلاق ہوگا، نیز رکن ِ جماعت کی حیثیت سے فرائض حسب ذیل ہوں گے:
- اپنے خاندان اور اپنے حلقۂ تعارف میں اس نصب العین کی دعوت پہنچائیں۔
- اپنے شوہر، والدین، بھائی ،بہنوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو بھی تبلیغ کرے۔
- اپنے بچوں کے دلوں میں نورِ ایمان پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔
- اگر اس کا شوہر یا بیٹے یا باپ یا بھائی جماعت میں داخل ہوں تو اپنی صابرانہ رفاقت سے ان کی ہمت افزائی کرے اور نصب العین کی خدمت میں حتیٰ الامکان ان کا ہاتھ بٹائے۔
- اگر اس کا شوہر یا اس کے سر پرست جاہلیت میں مبتلاہوں، حرام کماتے ہوں یا معاصی کا ارتکاب کرتے ہوں، تو صبر کے ساتھ ان کی اصلاح کے لیے ساعی رہے۔ ان کی حرام کمائی اور ان کی ضلالتوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے۔
دفعہ ۲۱ (ا)مجلسِ شوریٰ کی ترکیب: مجلس شوریٰ کے منتخب ارکان کی تعداد ۸۰ ہو گی، جن میں سے ۷۰ مردوں کی اور ۱۰ خواتین کی نشستیں ہوں گی۔ مردوں کی نشستوں پر مرد ارکان اور خواتین کی نشستوں پر خواتین ارکان کا براہِ راست ووٹ سے انتخاب ہوگا۔
جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق یہ تمام دفعات اس امر کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ایک خاتون نظامِ زندگی، انفرادی و اجتماعی معاملات میں ایک کردار ادا کرے۔ وہ کردار کہ جس میں فکر بھی ہو اور ممکن حد تک اپنے دائرے میں رہ کر قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی اور عمل بھی۔
عصرِحاضر میں قومی زندگی میں منتخب دستور ساز اسمبلیوں اور قانون ساز اداروں میں عورتوں کی نمایندگی اور ان کا کردر جبری طور پر لازم کردیا گیا ہے۔ یہ جبری صورتِ حال اپنے تقاضے اور سوالات رکھتی ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے اس چیلنج کا جواب دینا اور اس میں کردار ادا کرنا اہلِ دین پر بھی لازم ہے۔ اس مناسبت سے جب مولانا مودودی سے سوال کیا گیا تو مولانا مودودی نے جواب دیا: [ترجمان القرآن، فروری ۱۹۵۲ء]: ان [منتخب] مجالس کا نام قانون ساز مجالس رکھنے سے یہ غلط فہمی واقع ہوتی ہے کہ ان کا کام صرف قانون بنانا ہے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جومجالس اس نام سے موسوم کی جاتی ہیں، ان کا کام محض قانون سازی کرنا نہیں ہے،بلکہ وہ عملاً پوری ملکی سیاست کنٹرول کرتی ہیں۔وہی وزارتیں بناتی ہیں، وہی نظم و نسق کی پالیسی طے کرتی ہیں، وہی مالیات کے مسائل طے کرتی ہیں، اور انھی کے ہاتھ میں صلح و جنگ کی زمامِ کار ہوتی ہے ۔ اس حیثیت سے ان مجالس کا مقام محض فقیہ یا مفتی کا مقام نہیں بلکہ پوری مملکت کے ’قوام‘ کا مقام ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ: یہ حکم تو خانگی معاشرت کے لیے ہے ، نہ کہ ملکی سیاست کے لیے۔ مگر یہاں اول تو مطلقاً اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ کہا گیا ہے۔ فِی الْبُیُوْتِ کے الفاظ ارشاد نہیں ہوئے ہیں،جن کو بڑھائے بغیر اس حکم کو خانگی معاشرت تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔
اگر آپ کی یہ بات مان بھی لی جائے تو ہم پوچھتے ہیں کہ جس اللہ نے عورت کوگھر میں قوام نہ بنایا بلکہ قنوت (اطاعت شعاری )کے مقام پر رکھا، کیا اسے تمام گھروں کے مجموعے، یعنی پوری مملکت میں قنوت کے مقام سے اٹھا کر قوامیت کے مقام پر لانا چاہتے ہیں ؟
سیاست اور ملکی معاملات چلانے میں عورت کی عمل داری کو جائز ٹھیرانے والے اگر کوئی دلیل رکھتے ہیں، تو وہ بس یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا دعویٰ لے کر اٹھیں اور حضرت علیؓ کے خلاف جنگ جمل [۱۰ جمادی الثانی ۳۶ھ/ ۴دسمبر ۶۵۶ء] میں نبردآزما ہوئیں۔
حضرت عائشہؓ کے جنگ جمل میں حصہ لینے کے استدلال کوجو لوگ پیش کرتے ہیں انھیں شاید معلوم نہیں کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا؟ عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد الزھدمیں ، ابن المنذر نے ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے آیت قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں، یہاں تک ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا کیونکہ اس پر انھیں وہ غلطی یاد آجاتی تھی جو ان سے جنگ جمل کے دوران ہوئی تھی۔
یہ دلیل اصولاً غلط ہے۔ اس لیے کہ جس مسئلے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات موجود ہو ں، اس میں کسی بھی صحابیؓ کا کوئی ایسا انفرادی فعل جو اس ہدایت کے خلاف نظرآتاہو ہرگز حجت نہیں بن سکتا۔ صحابہؓ کی پاکیزہ زندگی بلاشبہہ ہمارے لیے مشعل ہدایت ہے، مگر اس غرض کے لیے کہ ہم ان کی روشنی میں اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں ، نہ اس غرض کے لیے کہ ہم اللہ اور رسولؐ کی ہدایت کو چھوڑ کر ان میں سے کسی اور کی اتباع کریں جس فعل کو اسی زمانے کے اکابر صحابہؓ نے غلط قرار دے دیا تھا، اور جس پر بعد میں خود ام المومنین بھی نادم ہوئیں۔
شیخ القرآن مولانا گوہر رحمٰن ، جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شورٰی کے رکن اور قومی اسمبلی کے منتخب رکن بھی تھے۔ انھوں نے ان تمام اصولی اور واضح اُمور کو سامنے رکھتے ہوئے اور پیدا شدہ صورتِ حال کے پیش نظر بیان کیا ہے:
مغربی جمہوریت کی بنیاد چونکہ ’حاکمیت عوام‘ پر رکھی گئی ہے، اس لیے اس میں مردوں کی طرح عورتیں بھی سربراہ مملکت بن سکتی ہیں اور وزیراعظم بھی بن سکتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی نظام میں خواتین عملی سیاسیات، یعنی حکومت کا نظم ونسق چلانے سے سبک دوش کردی گئی ہیں۔
قومی اسمبلی یا مجلس شوریٰ ایک مشاورتی اور انتخابی ادارہ جو کہ سربراہ کا انتخاب کرتا ہے، اسے مشورہ دیتا ہے اور قانون سازی بھی کرتا ہے،اس ضمن میں یہ سوال کہ مذکورہ ادارے کی رکن کوئی خاتون بن سکتی ہے یا نہیں؟ مناسب یہ ہے کہ اس کے بارے میں فقہا عابدین کوئی اجتماعی فیصلہ کریں۔ لیکن اصولِ شریعت کی روشنی میں یہ امرواضح ہے کہ عورت مشورہ دینے کے حق سے شرعاً محروم نہیں کی گئی۔ اگرچہ قرآن و سنت میں مرد کو عورت پر ’قوام‘ بنایا گیا ہے ، لیکن مجھے اس کی دلیل نہیں مل سکی کہ عورت مشورہ نہیں دے سکتی [بلکہ] بعض خواتین، بعض مردوں سے دانائی اور ذہانت و فقاہت میں فائق بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن عام طور پر مشاہدے کی بات ہے کہ مر د کی ذہانت عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک: ’’عورت حدود و قصاص، یعنی فوجداری مقدمات کے علاوہ دوسرے تمام مقدمات میں قاضی یا جج بن سکتی ہے‘‘۔ امام ابن جریر کے نزدیک: ’’بشمول حدودوقصاص کے تمام مقدمات میں عورت قاضی بن سکتی ہے‘‘ اور چاروں ائمہ کے نزدیک عورت فتویٰ دے سکتی ہے۔ امام ابن حزم نے ۲۰ ایسی خواتین کے نام نقل کیے ہیں، جو دورِ صحابہؓ میں فتویٰ دیا کرتی تھیں۔ جب قاضی اور مفتی بن سکتی ہیں، تو مجلس شوریٰ کی رکن کیوں نہیں بن سکتیں؟ اس ادارے کا کام بھی تو مشورہ اور فتویٰ دینا ہے، پالیسی بنانا اور قانون سازی کرنا فتویٰ ہی کی قسم ہے۔ جب عدالت میں فریقین اور گواہوں کے بیانات سن کر فیصلہ دے سکتی ہے اور بطور گواہ عدالت میں پیش بھی ہوسکتی ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ شرعی پردے کی پابندی کرتے ہوئے مجلس کے اجلاس میں شرکت نہ کرسکے اور مشورہ نہ دے سکے۔
اس سلسلے میں ایک روایت سننے میں آتی ہے کہ شاوروھُن و خالفوھُن ’’یعنی عورتوں سے مشورہ تو لے لیا کرو، لیکن ان کی مخالفت کرو اور ان کے مشوروں پر عمل نہ کیا کرو‘‘۔ اس روایت کے متعلق علّامہ علی قاری حنفی [م:۱۰۱۴ھ/۱۶۰۵ء]، علامہ سخاوی [م:۹۰۲ھ/۱۴۹۷ء]کی کتاب المقاصد الحسن البیان کثیر من الاحادیث المشتہرہ علی الاالسنۃ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’یہ حدیث ان الفاظ میں ثابت نہیں۔سخاوی فرماتے ہیں ان کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہونا مجھے معلوم نہیں۔ سیوطی کے مطابق یہ جھوٹی روایت ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے‘‘ ۔
انس بن مالکؓ سے اس مضمون کی ایک اور حدیث مرفوع نقل ہوئی ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں :’’تم میں سے کوئی شخص مشورے کے بغیر کام نہ کرے۔ اگر مشورہ دینے والا کوئی نہ ملے تو عورت سے مشورہ کر، لیکن اس پر عمل نہ کرے ۔اس لیے کہ عورت کے مشورے کی مخالفت میں برکت ہوتی ہے‘‘۔شمس الدین سخاوی ؒنے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:’’اس کی سند بھی ضعیف ہے، اور درمیان میں سلسلہ بھی ٹوٹا ہوا ہے‘‘۔
محمد بن عراق نے تنزیۃ الشریعۃ میں لکھا ہے:’’اس حدیث کو ابن لال نے حضرت انس سے نقل کیا ہے ، لیکن اس کی سند میں عیسیٰ بن ابراہیم کا نام آیا ہے، جس پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہے‘‘۔ ابنِ لال سے مراد ابوبکراحمدبن علی بن علی بن لال الہمدانی [م:۳۹۸ ھ/۱۰۰۸ء] ہے، جس نے مکارم الاخلاق کے نام سے کتاب لکھی تھی۔
حدیث کے لیے راوی کا ثقہ اور عادل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے حافظے کا صحیح اور درست ہونا بھی ایک شرط اور سلسلہ سند کا متصل ہونا بھی لازمی شرط ہے۔ جب اس حدیث کا ایک راوی بدنام بھی ہے اور سند بھی ٹوٹی ہوئی ہے یعنی منقطع ہے، تو یہ قابل قبول حدیث نہیں ہوسکتی اور شاوروھن وخالفوھن کے بارے میں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کو کس نے نقل کیا ہے۔ علی قاری نے اس کو مرقات میں بغیر سند کے و قدورد یعنی اپنی دوسری کتاب موضوعات کبیر میں ’’اس روایت کو بے اصل اور باطل قرار دیا ہے‘‘۔
خود مولانا مودودیؒ بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں لکھتے ہیں: تعلیم یافتہ خواتین پر اس وقت ایک اور فرض عائد ہوتا ہے، جو ایک لحاظ سے اپنی اہمیت میں دوسرے تمام کاموں سے بڑھ کر ہے۔ وہ یہ کہ اس وقت مغرب زدہ طبقے کی خواتین پاکستان کی خواتین کو جس طرح گمراہی ، بے حیائی اور ذہنی و اخلاقی آورگی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور جس پر حکومت کے ذرائع و وسائل سے کام لے کر عورتوں کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہیں ، ان کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جائے۔ یہ کام محض مردوں کے کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ مرد جب اس گمراہی کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ مرد تم کو غلام رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی تو ہمیشہ سے یہی مرضی رہی ہے کہ عورتیں چاردیواریوں میں گھٹ کر ہی مرتی رہیں اور انھیں آزادی کی ہوا تک نہ لگنے پائے۔
اس لیے ہمیں اس فتنے کا سد باب کرنے میں بھی عورتوں کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں ایسی شریف اور خدا پرست خواتین کی کمی نہیں ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان بیگمات کے علم اور ذہانت اور زبان اور قلم کی طاقت میں کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ اب یہ کام ان کا ہے کہ آگے بڑھ کر ان کو منہ توڑ جواب دیں۔ وہ انھیں بتائیں کہ مسلمان عورت حدوداللہ سے باہر قدم نکالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے ۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہیں کہ مسلمان عورت اس ترقی پر لعنت بھیجتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے خدا اور اس کے رسولؐ کی مقرر کی ہوئی حدود توڑنی پڑیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ منظم ہوکر اس حقیقی ضرورت کو جس کی خاطر حدود شکنی کو ناگزیر کیا جاتا ہے ،اسلامی حدود کے اندر پورا کرکے دکھائیں، تاکہ یہ گمراہ کرنے والے اور کرنے والیوں کا ہمیشہ کے لیے منہ بند ہو جائے۔
شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک صاحب نے اس ضمن میں موقف اختیار کیا ہے: ’’اجتماعی زندگی کے معاملات میں عورت کے حصہ لینے کی ہر حال میں ممانعت ،ایک محدود زاویۂ نگاہ ہے۔ اس کا تعلق ایسے حالات سے ہے، جب خواتین کو میدان میں لانے کی ضرورت اور حاجت نہ ہو، اور کوئی بلاخیز سیلابی ریلانہ آیا ہو۔ لیکن اگر سیلابی ریلا آگیا ہو تو ایسی صورت میں فقہا نے لکھا ہے کہ دفاع فرض عین ہوتا ہے ۔بیٹے کو ماں باپ اور بیوی کو شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دشمن کو دھکیلنے کے لیے باہر نکلنا ہوتاہے۔ فتاویٰ عالمگیری ، شامی اور تمام کتب فتاویٰ اس پر شاہد ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کا اصل کام گھروں کو اسلامی شریعت کے رنگ میں رنگنے اور گھروں کو آباد کرنا ہے ۔عالمی سطح پر معاشرتی و سیاسی صورتِ حال یہ ہے کہ خواتین زندگی کے مختلف میدانوں میں داخل ہوگئی ہیں۔ خصوصاً سیاست میں بھی اہم مقام حاصل کر رہی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں ضروری ہو گیا کہ سیکولرزم، لادینیت، لبرل ازم اور اباحیت کو لگام دی جائے اور مغرب زدہ خواتین کے مقابلے میں دین کی علَم بردار اور باپردہ خواتین کو آگے لایا جائے۔ الحمدللہ، ہم اس میں کامیاب ہیں۔ شرعی حدود کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ان خواتین میں دعوت کا کام کررہی ہیں۔
خواتین کی سیاسی نمایندگی ۱۹۵۶ء کے آئین کے مطابق آیندہ ۱۰ برس کے لیے ۱۵نشستوں کو مخصوص کر کے کی گئی۔ ۱۹۶۲ء کے آئین کی رو سے قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں ۸، اور ہر صوبائی اسمبلی میں ۵ رکھی گئیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں خواتین کی ۱۰نشستیں قومی اسمبلی میں اور ۵ فی صد نشستیں ہر صوبائی اسمبلی میں مختص کردی گئیں۔ اور یہ مدت ۲۰سال کے لیے تھی۔ ۱۹۹۳ء میں یہ مدت پوری ہونے پر خواتین کا مخصوص کوٹہ ختم ہوگیا۔ ۲۰۰۲ء میں ۱۷ویں ترمیم کے ذریعے خواتین کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی میں اور سینیٹ میں۳۳ فی صد نشستیں مخصوص کردی گئیں، جب کہ لوکل گورنمنٹ میں یہ نشستیں ۵۰فی صد کردی گئیں۔
اسی طرح پاکستان میں خواتین کی نمایندگی کی تعداد ۱۹۴۹ءمیں قومی اسمبلی میں ۳، صوبائی اسمبلی میں ۱۹۵۲ءتا ۱۹۵۸ ء ۲، ۱۹۶۲ءتا ۱۹۶۵ ء۲ ،اور ۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۷ء یہ تعداد ۵تھی۔ اپریل ۱۹۷۷ءمیں خواتین ارکان کی تعداد ۹ ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قومی اسمبلی میں ۲۰ اور صوبائی اسمبلی میں ۲۴ خواتین مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی رہیں۔ اس طرح ۱۹۴۷ءتا ۱۹۹۷ء پاکستان میں ۱۱۳ خواتین منتخب یا نامزد ہوئیں۔ ۲۰۰۲ء میں مخصوص نشستوں پر خواتین کی تعداد قومی اسمبلی میں ۶۰ اور سینیٹ میں ۱۸ تھی۔ صوبائی نشستوں پر صوبہ پنجاب میں ۶۶، سندھ میں ۲۹، خیبرپختونخوا میں ۲۲ اور بلوچستان میں ۱۱ خواتین مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں تھیں، جب کہ لوکل گورنمنٹ میں تعداد۴۰ہزار تھی۔
جماعت اسلامی میں عورت کی سیاسی نمایندگی کی تاریخ اس طرح ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ۱۹۸۵ء میں ایک خاتون مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ الیکشن ۲۰۰۲ء میں قومی اسمبلی میں صوبہ سندھ سے ایک، صوبہ پنجاب سے ایک، صوبہ سرحد سے تین، صوبہ بلوچستان سے ایک، کل ۶ کی تعداد میں خواتین اراکین اسمبلی بنیں۔ ۲۰۱۸ء کے الیکشن میں ایک خاتون جن کا تعلق صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا)سے تھا، مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔ سینیٹ آف پاکستان میں ۲۰۰۳ء تا ۲۰۰۶ء ایک خاتون ممبر اور ۲۰۰۶ء تا ۲۰۰۹ء دوخواتین ممبر سینیٹ رہیں۔ بعد ازاں ۲۰۰۹ء تا ۲۰۱۲ءایک خاتون ممبر سینیٹ رہیں۔
۲۰۰۲ء میں پاکستان الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعت کے لیے ضابطۂ انتخاب میں یہ لازم کیا گیا کہ وہ ۳۳ فی صد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص رکھیں گے۔ یعنی اگر کوئی پارٹی ۱۰۰نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کو اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص ۳۳نشستیں مل جائیں گی، جس پر وہ اپنی نمایندہ خواتین کو اپنی پارٹی کی طرف سے ترتیب دی گئی، ترجیحی فہرست کے مطابق نامزد کریں گی۔ ان خواتین کو حلقے کے عوام کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ یہ پارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کی بنا پر اسمبلی ممبر بن جائیں گی۔ اس طرح مخصوص نشستوں پر خواتین کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔ دوسرے قدم کے طور پر ۲۰۱۸ء میں الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے لیے لازم کیا گیا کہ وہ اپنی پارٹی کی ۵ فی صد عام نشستوں پر خواتین اُمید وار نامزد کریں گی۔ ایسے اُمیدوار کو حلقے کے تمام رجسٹرڈ مرد و خواتین کے ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ بہرحال، الیکشن کمیشن کی طرف سے دیے گئے اس ضابطے کی علمااور عوامی حلقوں کی جانب سے مخالفت ہوئی کہ یہ اقدام ہماری تہذیبی روایات سے متصادم ہے۔
خواتین کو پارلیمینٹ میں مخصوص نشستوں پر نمایندگی دینے کے فیصلے میں بنیادی عوامل اقوام متحدہ کے عورتوں کے لیے بنائے گئے کمیشن کی قراردادیں اور معاہدے ہیں، جن پر حکومت ِ پاکستان نے دستخط کیے ہیں۔
جماعت اسلامی ایک دینی،اصولی اور سیاسی جماعت ہونے کے ناتے، سیاسی کشاکش میں خواتین کے فعال کردار پر شدید ذہنی تحفظات رکھتی ہے۔ لیکن معاشرے اور قانون ساز اداروں، نافذشدہ ضابطوں، انتخابات اور اس کے تقاضوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ بہتر تو یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے سیاسی عمل میں شمولیت کی اہمیت کو سمجھنے والے علما مل بیٹھ کر کچھ فیصلہ کریں کہ ہمیں الیکشن کمیشن کے ضوابط میں تبدیلیوں کے ساتھ کس حد تک اور کس شکل میں چلنا ہے۔
انسانی اور سماجی زندگی، میں لفظ اور زبان کو مرکزیت حاصل ہے۔ جنابِ اطہر ہاشمی اُردو زبان کی اصلاح کے لیے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل ،کراچی میں ’خبرلیجیے زباں بگڑی‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ انھوں نے لکھا : ’’ہمارے ہاں ’صلواتیں سنانا‘ محاورہ رائج ہے۔ اس کے معنی ہیں:’بُرا بھلا کہنا ،گالیاں دینا وغیرہ‘، یہ ہَجو کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،حالانکہ لفظِ صلوات کے معنی :درود، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہے۔یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے ، اورحسبِ حال اس کے معنی مراد ہوتے ہیں۔یہ صلوٰۃ بمعنی نماز کی بھی جمع ہے۔ پس اس محاورے کا استعمال ترک کردینا چاہیے ،کیوں کہ اس سے لفظِ صلوات کی اہانت ہوتی ہے جو شریعت کی رُو سے ناجائز ہے‘‘۔ اس طرح کے کئی محاورے اور جملے رائج ہیں، جن میں سے چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
- ایک محاورہ ہے:’’آنتیں قُل ھُوَ اللّٰہ پڑھ رہی ہیں ‘‘، آنتیں چوں کہ نجاست کا مرکز ہوتی ہیں ،اس لیے اُن کی طرف قُل ھُوَ اللّٰہ یعنی سورۂ اخلاص پڑھنے کی نسبت کرنا خلافِ ادب ہے ۔ اس محاورے کو بھی ترک کرنا چاہیے۔
- بعض لوگ بھولے بھالے اور سیدھے سادے آدمی کے لیے ’اللہ میاں کی گائے ‘کا محاورہ استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح اردو میں ’اللہ میاں‘ اور سندھی وسرائیکی زبان میں ’اللہ سائیں‘ بولاجاتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ بھی خلافِ ادب ہے۔’میاں‘ اور ’سائیں‘ ایسے کلمات اللہ تعالیٰ کی ذات کے شایانِ شان نہیں ہیں، خواہ ان کوبولنے یا لکھنے والے کی نیت اچھی ہی ہو، لیکن ان کے معانی میں اہانت کا پہلو موجودہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اسمِ جلالت کے ساتھ ان کلمات کا استعمال درست نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ،اللہ جَلَّ شَانُہٗ اور اللہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی یا باری تعالیٰ کے کلمات استعمال کرنے چاہییں۔ نوٹ: بعض لوگ عَزَّوَجَلَّ کو عِزّوَجَلْ بولتے ہیں،یہ بھی درست نہیں ہے۔ اسی طرح جَلَّ جَلَالُہٗ کو جَلِّ جَلَالُہٗ بولتے ہیں، یہ بھی درست نہیں ہے۔ ذیل میں ہم کتبِ لغت کے حوالے سے لفظ ’میاں‘ اور ’سائیں‘ کے معانی درج کر رہے ہیں:’میاں‘: اُردو زبان میں آقا، شوہر، والی، وارث، سرکار، جناب عالی، یار دوست، مدرس، امیرزادہ۔ بعض لوگ بزرگ یا عمر رسیدہ شخص کو بھی ’میاں جی‘ کہتے ہیں۔ سائیں: خاوند، فقیر، بھکاری ودیگرمعانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ (قائد اللغات، فیروز اللغات، فرہنگ عامرہ ، علمی اُردو لغت)
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ معانی اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہیں۔ ان میں سے بعض معانی ایسے ہیں، جن میں ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے اہانت کا پہلو نکلتا ہے۔ لہٰذا، نہایت تاکید کے ساتھ ہمارا مشورہ ہے کہ ’اللہ میاں‘ اور ’اللہ سائیں ‘ ایسے کلمات بولنے سے احترازہی کرنا چاہیے ۔ اپنے گھروں، مجالس اور بچوں کے ساتھ گفتگو میں اللہ تعالیٰ کا نام لیتے وقت اسی احتیاط پر عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی شانِ جلالت بلند ترین ہے، اور ہرنَقص و عیب اور کمزوری سے پاک ہے، فرمایا:
۱- ’’آپ کا ربّ جو بڑی عزت والا ہے ،ہر اس عیب سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں‘‘۔ (الصافات۳۷:۱۸۰)
۲-’’اورسب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، تو اسے ان (ہی) ناموں سے پکارو اور انھیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں راہِ حق سے انحراف کرتے ہیں‘‘۔ (الاعراف۷:۱۸۰)
۳- ’’(اے رسولؐ!) آپ کہہ دیجیے! تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکاروگے ،اس کے سب ہی نام اچھے ہیں ‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷:۱۱۰)
اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لیے اسم ذات ’’اللہ‘‘ ہے۔قرآنِ کریم میں اس کے صفاتی نام بھی مذکور ہیں، مثلاً: اَلْمَلِکْ، اَلْقُدُّوْسُ، اَلسَّلَامُ ، اَلْمُؤْمِنْ، اَلْمُھَیْمِنُ ، الْعَزِیْزُ، اَلْجَـبَّارُ،اَلْمُتَکَبِّرُ، اَلسَّتَّار، اَلْغَفَّار، اَلرَّؤُفُ ، اَلرَّحِیْم، اَلْکَرِیْم، سُبْحَان اور دیگراسماے مقدّسہ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لیے جو بھی اسما ،صفات اور کلمات استعمال کیے جائیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں۔
پس، اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ایسا ذو معنی کلمہ ، جس کے ایک معنی اچھے ہوں اور دوسرے بُرے ، استعمال کرناجائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ایسا کلمہ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ کرامؓ جب آپؐ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے ، اور آپؐ کی کوئی بات اُن کی سمجھ میں نہ آتی، تو وہ عرض کرتے :رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہ (یارسولؐ اللہ! ہماری رعایت فرمائیے)۔ اس کے لیے قرآنِ کریم میں رَاعِنَا کا کلمہ آیا ہے ، مگر منافق کلمۂ رَاعِنَا کو اِمالہ کرکے بولتے اور اپنی مجلس میں جاکر کہتے: ’’ہم نے انھیںرَاعِیْنَا، یعنی ہمارا چرواہا کہہ دیا ہے‘‘ اور بعض صورتوں میں وہ اسے رَعن ، یعنی احمق کے معنی میں لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسا ذو معنی کلمہ استعمال کرنے سے صحابہ کو منع فرمادیا ،حالانکہ اُن کی نیت صحیح تھی اورمرادبھی درست۔ لیکن منافقین اُس کا دور کا معنی اہانت مرادلیتے تھے، پس ارشاد ہوا: ’’اے مومنو! رَاعِنَامت کہو،بلکہ اُنْظُرْنَا کہو اور توجہ سے سنو‘‘ (البقرہ۲:۱۴۰)۔ (۲)بعض یہودی اللہ کے کلام کو اس کے اصلی مقامات سے تبدیل کردیتے اور کہتے : ’’ہم نے سنا اورنافرمانی کی اور(کہتے ہیں:) سنیے!آپ کو نہ سنا جائے ‘‘۔وہ اپنی زبان کو بل دے کر اور دین میں طعن کرتے ہوئے رَاعِنَاکہتے ہیں اور اگر وہ کہتے : ہم نے آپ کا حکم سنا اور آپ کا کہا مانا اور ہماری بات سنیے اور نظرکرم فرمائیے ، تو اُن کے لیے بہت بہتر اور درست بات ہوتی ‘‘۔ (النسآء۴:۴۶)
چنانچہ، حُرمتِ رسول کو قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو حکم فرمایا:’’ اگر آیندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات تمھاری سمجھ میں نہ آئے تو ذو معنی کلمہ رَاعِنَا مت کہنا ،بلکہ: اُنْظُرْنَا یَارَسُولَ اللّٰہ (یارسولؐ اللہ! ہماری جانب نظر کرم فرمائیے!) ‘‘کہا کرواور زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ ابتدا ہی سے توجہ سے سنا کرو تاکہ اللہ کے رسول کو دوبارہ زحمت نہ دینی پڑے۔
پس، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذو معنی کلمہ استعمال کرنا جائز نہیں ہے، تواللہ تعالیٰ کی شان میں کیسے جائز ہوگا۔لہٰذا، ماؤں کو چاہیے کہ اپنی گود میں بچوں کی دینی تربیت کریں اور اُن کی عادت بنائیں کہ وہ جب بھی اللہ کا نام لیں تو اللہ تعالیٰ، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کہا کریں ۔ جب ایک مرتبہ زبان پریہ الفاظ رواں ہو جائیں گے تو پھر زندگی بھر ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ان کا اندازِ تکلم یہی رہے گا۔شیخ سعدی نے کہا ہے:’’بچپن میں سیکھی ہوئی بات پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی ہے، جب کہ پختہ عمر میں کوئی بات سیکھنا پانی پر لکیر کی مانند ہوتا ہے کہ ادھر لکیر کھچی اور پیچھے سے بند ہوتی چلی گئی‘‘۔
- جنابِ اطہر ہاشمی نے ایک اور محاورے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے :’’بسم اللہ ہی غلط ہوگئی‘‘۔ یہ بھی اہانت کا کلمہ ہے ، اگرچہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے کہ کام کی شروعات ہی غلط ہوگئی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے : ’’ہر اہم کام جو اللہ کے نام سے نہ شروع کیا جائے، وہ ناقص ہوتا ہے‘‘ (سنن دارَقُطنی:۸۸۴)۔لہٰذا،اللہ کے نام سے شروع کیا ہوا کام بابرکت ہوتا ہے۔ہمیں کسی کام میں ناکامی کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرنی چاہیے ، اللہ کی طرف برائی کی نسبت خلافِ ادب ہے۔ قرآن کا شعارِ ادب یہ ہے : ’’تمھیں جو بھلائی پہنچتی ہے، سو وہ اللہ کی جانب سے ہے اور تمھیں جو برائی پہنچتی ہے ،وہ تمھاری اپنی ذات کے سبب ہے‘‘۔ (النساء۴:۷۹)
- اُردو کا محاورہ ہے :’’نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے‘‘۔یہ محاورہ ایسے مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے کہ انسان کسی سے کوئی رعایت حاصل کرنے جائے اور رعایت ملنے کے بجاے اس پرمزید بوجھ ڈال دیا جائے ۔ یہ محاورہ درست نہیں ہے ،کیوں کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ روزہ ایک ناگواربوجھ ہے ، حالانکہ روزہ اللہ کی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادات کو خوش دلی سے انجام دینا ہر مومن کا شعار ہونا چاہیے۔اسی طرح فرض نمازوں کے لیے کسی کے استثناء کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بندے پر فرضِ عین ہے اور ہر عاقل وبالغ اور ذی شعور مسلمان پر اس کی پابندی لازم ہے۔
- ایک محاورہ ہے:’’نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی‘‘۔اس کے معنی ہیں: کوئی دانستہ جرم کرتا رہا یا حرام ذرائع سے مال جمع کرتا رہا اور پھر پاکیزہ بننے کے لیے حج پر چلا گیا۔ گویااس نے حج کو حرام کو حلال کرنے کا ذریعہ بنایا۔ یہ سوچ باطل ہے،کیوں کہ توبہ زندگی میں کسی مرحلے پر بھی کی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ یہ شرعی شرائط کے مطابق ہو اور ماضی کے افعال کی تلافی بھی ہو ۔ اگر حرام ذرائع سے مال کمایا ہے تو اُسے اپنی ملکیت سے نکالے۔اگر اصل مالکان معلوم ہیں تو انھیں لوٹادے ۔اگر سرکاری خزانے میں خیانت کی ہے تو وہ مال خزانے میں جمع کرادے اور اگرحق دار کا پتا نہیں ہے یا وہ وفات پاچکا ہے اور اس کے وارث موجود ہیں تو ان کے سپرد کردے ورنہ ثواب کی نیت کیے بغیر اسے صدقہ کردے۔ بلی کو حج سے کیا نسبت ہے؟ اس میں بھی اہانت کا پہلو موجود ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں نے عمرہ اور حج کرانے کو گناہوں کی تلافی کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔
- ایک محاورہ ہے :’’کیا کریں زمانہ ہی بُرا ہے ‘‘۔ حدیثِ پاک میں زمانے کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :بنی آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے۔ وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانے کو پلٹنے والا میں ہوں۔ تمام معاملات میرے قبضۂ قدرت میں ہیں اور میرے ہی حکم سے نظامِ گردشِ لیل ونہار قائم ہے‘‘ (ابوداؤد:۵۲۷۴)۔اللہ تعالیٰ کے اسماے صفات میں ’دَھَر‘نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کے اسماے صفات توقیفی ہیں ، یعنی کسی نے اپنی عقلی اُپج سے وضع نہیں کیے ، بلکہ یہ قرآن وحدیث سے روایت اور سماع پر موقوف ہیں۔ نیز یہ کہ ابتداے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ایک روش پر چل رہا ہے،ارشاد ہوا : ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدایش کے دن( یعنی ابتداے آفرینش) سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کتاب میں مہینوں کی تعدادبارہ ہے ‘‘ (التوبہ۹:۳۶)۔ اس لیے نظامِ گردشِ لیل ونہار اور سورج کے طلوع وغروب کا دورانیہ وہی ہے۔ سائنسی اصطلاح میں بھی کائنات زمان ومکان کا نام ہے۔ پس فی نفسہٖ زمانے میں کوئی خرابی نہیں ہوتی،زمانے میں رہنے والے اچھے یا برے ہوتے ہیں، لہٰذااچھائی یا برائی کی نسبت زمانے کی طرف کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لینا درست نہیں ہے۔
- اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات بہکنے ،بھٹکنے ،غلطی کرنے اور بھول چوک سے پاک ہے، لیکن بعض لوگوں کی زبان پرکفریہ جملے آجاتے ہیں، مثلاً: (الف): ’’میری قسمت میں شاید اللہ کچھ لکھنا ہی بھول گیا ہے‘‘، (ب): ’’نہ جانے میرا بلاوا کب آئے گا، شاید بنانے والا بھول ہی گیا ہے‘‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’اُن کا علم میرے رب کے پاس لوحِ محفوظ میںدرج ہے۔ وہ نہ توبھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے (طٰہٰ۲۰:۵۲)‘‘۔بعض اوقات کفریہ کلمات پر مشتمل گانے چلتے رہے ہیں:
آج میری تقدیر کا مالک سوتا ہے
قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے
تقدیر کا مالک اللہ ہے۔اُس کی شان تویہ ہے :’’ نہ اُسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۵)۔ اس کا علم حضوری ہے اور ہر قسم کی غفلت اور سہو سے پاک ہے۔ اس کی جانب سونے، بھولنے یاغفلت کی نسبت کرنا قرآن کا انکار ہے،اس سے توبہ لازم ہے۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے جہاں نسیان اور اِنساء کے کلمات آئے ہیں ، وہ بھولنے کے معنی میں نہیں ہیں، بلکہ نظرانداز کرنے کے معنی میں ہیں،جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں:’’اس نے تو اس بات کو طاقِ نسیان پر رکھ دیا ہے‘‘۔
- اسی طرح کفریہ معانی کے حامل کئی اورجملے لوگ سوچے سمجھے بغیربول دیتے ہیں، مثلاً: ’’ارے یہ تو اتنا چالاک ہے کہ خدا کو بھی دھوکا دے دے‘‘۔ کسی کا یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، خود فریبی اور بدنصیبی ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کے بارے میں فرمایا: ’’وہ (اپنی دانست میں)اللہ اور مومنوں کو دھوکا دیتے ہیں ،(لیکن در حقیقت )وہ اپنے آپ ہی کو دھوکا دیتے ہیں اور انھیں اس بات کا شعور نہیں ہے‘‘(البقرہ۲:۹)۔دھوکاتو اُسے دیا جاسکتا ہے جس سے حقیقت کو چھپانا ممکن ہو،جب کہ اللہ کی شان یہ ہے :’’اور اگر آپ بلند آواز سے بولیں تو بے شک وہ آہستہ اور اس سے بھی زیادہ پوشیدہ بات کوخوب جانتا ہے‘‘ (طٰہٰ۲۰:۷)‘‘۔ (۲)’’اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور (اس کو بھی) جو سینوں میں چھپا ہے‘‘ (المومن۴۰:۱۹)‘‘، پس کس کی مجال کہ اُسے دھوکا دے۔
-’’اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘‘: بعض لوگ اپنی صداقت کا یقین دلانے کے لیے یہ کلمہ بولتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے اہانت کا پہلو نکلتا ہے، اس سے احتراز کرنا چاہیے ۔اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ معاذ اللہ ! اللہ جھوٹ بھی بلواتا ہے۔ اللہ ہرگز جھوٹ نہیں بلواتا،بندہ خود جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(۱) ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو‘‘ (التوبہ ۹:۱۱۹)۔(۲):’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو‘‘ (الاحزاب۳۳: ۷۰)۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو’اِضلال ‘(گمراہ کرنے )کی نسبت ہے،اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرمایا(۱): ’’اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑدے، اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے‘‘ (الاعراف۷:۱۸۶)۔(۲)’’اور انھوں نے جو گناہ کیے تھے ،ان کی سزا ان کے سامنے آجائے گی اور وہ عذاب ان کا احاطہ کرلے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے‘‘ (الزمر ۳۹:۴۸)۔ کسی بھی فعل کا کاسب اور فاعل بندہ خود ہوتا ہے۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا عزم کرلیتا ہے اور ارادہ عمل میں ڈھلتا ہے تو تخلیق اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ قرآنِ کریم کی اس آیت کا مفہوم یہی ہے: ’’اور اللہ نے تمھیں اور تمھارے اعمال کو پیدا کیا ہے‘‘۔ (الصافات۳۷:۹۶)
پس، اللہ کی رضا اس میں نہیں کہ کوئی جھوٹ بولے، وہ تو جھوٹوں پر لعنت فرماتا ہے۔ جھوٹ بندہ خود بولتا ہے۔ یہ اس کی اپنی شامتِ اعمال ہے، لہٰذا ’اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘ کہنا شانِ الوہیت میں بے ادبی ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیراس طرح کے کلمات بول دیتے ہیں۔ انھیںاس سے اجتناب کرنا چاہیے۔بارگاہِ الوہیت کے ادب کا تقاضا یہی ہے۔
- ہمارے ہاں مردوں کی ’ہم جنسیت‘ (Sodomy) کے لیے لفظِ’لُوطی‘ اور ’لواطت‘ عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کو بھی ترک کردینا چاہیے ، کیوں کہ لوط علیہ السلام نبی تھے اور کسی نبی کے نام کے ساتھ برائی کو منسوب کرنا اُن کی اہانت ہے۔ اس کا متبادل لفظ’عملِ قومِ لوط‘ ہے یابقول ہاشمی صاحب :’’چوں کہ قومِ لوط سدوم کی رہنے والی تھی ،اس لیے اسے ’سدومی‘ کہاجائے۔