پروفیسر خورشید احمد | فروری ۲۰۰۹ | شذرات
۲۱ویں صدی کا آغاز ایک بہت بڑے المیے سے ہوا___ یعنی ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں دہشت گردی کے واقعات جن کے نتیجے میں دنیا ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی، تہذیبی اور معاشی بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ بلاشبہہ دہشت گردی کا یہ واقعہ ہراعتبار سے قابلِ مذمت اور انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے لیکن اس واقعے سے بھی زیادہ تباہ کن اقدام اس واقعے کی آڑ میں دنیا کو دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی جنگ میں جھونک دینا ہے۔ اب انسانیت دو عظیم مسائل بلکہ خطرات سے دوچار تھی:
اس ضمن میں کم از کم پانچ بھیانک غلطیوں (blunders) کا ارتکاب کیا گیا جن کی سزا پوری انسانیت اور خود امریکا، اس کے عوام، سیاسی نظام اور معیشت بھگت رہے ہیں۔ یہ ہمالیہ سے بھی بڑی غلطیاں یہ تھیں:
۱- دہشت گردی جو سیاسی مقاصد کے لیے احتجاج اور تبدیلی کے لیے ایک ذریعے (tactic) کی حیثیت رکھتی ہے، وہ خواہ کتنی ہی قبیح اور قابلِ مذمت کیوں نہ ہو، اسے محض ایک طریقے اور ایک ہتھیار سے بڑھا کر ایک نظریے، ایک فلسفے اور ایک تحریک کی شکل دے دی گئی اور ایک ’خیال‘ (abstract phenomenon) کو دشمن قرار دے کر جنگ کا ہدف بنا دیا گیا۔
۲- دہشت گردی اور قوت کے استعمال کی بے شمار شکلیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی کچھ خصوصیات، ذرائع، اسباب اور اہداف ہیں۔ لیکن اس جنگ کے جنون میں ان سب مختلف النوع قسم کے تشدد کے استعمالات کو ایک شے تصور کرلیا گیا اور اس غلط طور پر جمع کرنے (flawed aggregation) کی وجہ سے پورا معاملہ اتنا اُلجھ گیا کہ ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی___ کی سی صورت حال پیدا ہوتی گئی اور اب ڈور کے سلجھنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا۔
۳- دہشت گردی کو جنگ قرار دے کر اس کے خلاف جنگ کے اعلان سے ملکی سلامتی کے تصورات، جنگ و صلح کے عالمی قوانین، ملک میں دستوری اور قانونی نظام، جرم و سزا کے معروف اصول و قواعد، آزادی، بنیادی حقوق، تفتیش کے معروف ضوابط، حتیٰ کہ نجی زندگی (privacy) کی حفاظت تک کے بارے میں سارے اصول اور آداب غیرمتعلق ہوگئے اور دنیا کو ایک نئی بربریت کی طرف دھکیل دیا گیا اور عملاً امریکا اور پھر اس کے اتحادیوں نے جن میں یورپ کی ناٹو اقوام کے علاوہ خود مسلمان ملکوں کے متعدد حکمران شریک ہیں، گذشتہ ۸ سال میں صرف عراق، افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں ہی میں تباہی نہیں مچائی بلکہ پوری دنیا کو نہایت غیرمحفوظ بنا دیا۔ ہر قانون اور ہر ضابطہ اس جنگ کے نام پر پامال کیا گیا اورکیا جا رہا ہے۔
۴- جنگ کے اس نئے تصور اور حالات کی اس تعبیر کا ایک تباہ کن نتیجہ یہ رونما ہوا کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ایک ہی ہتھیار مؤثر قرار دیا گیا اور وہ تھا فوجی قوت کا بے محابا استعمال۔ اس کا نتیجہ تھا کہ اس سلسلے کے سب سے اہم پہلو___ یعنی دہشت گردی کے اسباب کو بالکل غیرمتعلق قرار دے دیا گیا اور سارا ہدف نام نہاد دہشت گردوں کی تلاش، ان کے معاونین اور مالی سرپرستوں کی سرکوبی، ان ممالک میں فوج کشی جن پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام تھا___ ان سب کو تہِ تیغ کرنا اور قوت سے ختم (exterminate) کرنا ، مقابلے کی صحیح حکمت عملی قرار پائے اور اس پر امریکی صدر بش نے دنیا پر ایک عالمی جنگ مسلط کردی۔ اسباب سے توجہ کا ہٹنا اور ایک نامعلوم گروہ کا قوت سے خاتمہ اس ردعمل کا سب سے تباہ کن پہلو بن گیا۔
۵- پانچویں اور آخری لیکن انسانی اور تہذیبی اعتبار سے نہایت تباہ کن غلطی یہ واقع ہوئی کہ صدر بش نے اپنے صہیونی اور نو قدامت پسند (neo-cons) مشیروں اور پالیسی سازوں کے زیراثر القاعدہ کے نام پر جنگ کا رُخ مسلمانوں، عربوں اور خود اسلام کی طرف پھیر دیا اور اس طرح یہ صلیبی جنگ کا روپ دھار گئی۔ جہاد اور جہادی کلچر کو اصل ہدف بنایا گیا، ان تحریکات کو لپیٹنے کی کوشش کی جو اسلام کے نظامِ حیات کو قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں اور خود اسلام کو نت نئے ناموں سے مطعون کیا جانے لگا۔ جسے پہلے صرف بنیاد پرست (fundamentalist) کہا جاتا تھا وہ انقلابی اسلام (radical Islam) بنا، پھر اسے اسلامی فسطائیت (Islamic fascism) کا نام دیا گیا اور بالآخر اسلامی دہشت گردی قرار دیا۔ اسلام کی ’اصلاح‘ (reformation) کے نام پر یہ جنگ اسلام کے اصول و اہداف کی ایسی تراش خراش سے عبارت ہے جو اسے مغربی اقوام کے لیے قابلِ قبول بلکہ تر نوالہ بنا دے۔
اس پورے منظرنامے کے بنانے میں مرکزی کردار امریکی صدر جارج بش اور ان کے ساتھیوں کا تھا۔ لیکن یہ پوری جنگ اور اس کے پیچھے کام کرنے والی فکر اور حکمت عملی ان ۸ برسوں میں جس بُری طرح ناکام ہوئی ہے اس کا مظہر وہ نفرت ہے جو پوری دنیا میں بشمول امریکا بش کے حصے میں آئی ہے۔ صدر اوباما کی کامیابی اور اس کے مرکزی تصور یعنی تبدیلی کا تعلق محض ایک فرد کی تبدیلی سے نہ تھا بلکہ ایک پوری فکر، حکمت عملی اور پالیسیوں کے مجموعے سے تھا۔ امریکا میں بش کی مقبولیت ۸۰ فی صد سے کم ہوکر ۱۸ فی صد پر آگئی اور بھارت، اسرائیل اور ایک دو افریقی ممالک کو چھوڑ کر تمام دنیا میں اور خصوصیت سے مسلم دنیا کے ۸۰ سے ۹۰ فی صد افراد نے اس سے نفرت اور بے زاری کا اظہار کیا ہے۱؎ اور جس ذلت کے ساتھ بش کی صدارت کا خاتمہ ہوا ہے وہ دکھی انسانیت کی بددعائوں کا مظہر اور بش کی حکمت عملی کی ناکامیوں کا آئینہ (index) ہے۔
اس سلسلے میں چند چیزیں قابلِ ذکر ہیں جو تاریخ کا حصہ اور خودپسند اور غلط کار حکمرانوں کے لیے عبرت کا سامان ہیں:
۱؎ ملاحظہ ہو، The Pew Global Attitude Project کا ۱۸ دسمبر ۲۰۰۸ء کا سروے "Global Public Opinion in Bush Years (2001-2008)
۱- فکری اعتبار سے دنیا کے دانش ور اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے اربابِ قلم تو
دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اور اسے ایک باطل تصور اور شیطانی حربہ قرار دے رہے تھے، لیکن بش کے صدارت سے فارغ ہونے سے ۵ دن قبل برطانیہ، جو اس جنگ میں بش کا سب سے بڑا شریک اور معاون تھا، کے وزیرخارجہ جناب ڈیوڈ ملی بینڈ کا مضمون لندن کے اخبار دی گارڈین میں شائع ہوا اور اسی دن ممبئی میں موصوف نے انھی خیالات کا اظہار ایک تقریر میں کیا جو دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کی حکمت عملی کی ناکامی کا بھرپور اعتراف اور بش کے پورے دورِ حکومت اور اس کی پالیسیوں کے لیے ایک عبرت ناک لوحِ قبر کا درجہ رکھتا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس مضمون کی تاریخ اشاعت اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ مضمون کا عنوان ہے: War on Terror Was Wrong
اس مضمون کے چند اقتباسات خصوصی غوروفکر کا تقاضا کرتے ہیں:
نائن الیون کے ۷سال بعد اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ ہمیں انتہاپسندی اور اس کے خوف ناک پھل (offspring) دہشت گرد تشدد کو روکنے کی اپنی کوششوں کا ایک بنیادی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نائن الیون کے بعد سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے تصور نے ہی پورے نقشے کو مرتب کیا ہے۔ الفاظ کے اس مجموعے میں کچھ وزن ہے اور اس نے خطرات کی سنگینی، اتحاد کی ضرورت اور جہاں ضروری ہو طاقت کے ساتھ جواب دینے کی فوری ضرورت کا احاطہ کرلیا ہے۔ مگر آخری تجزیے یہ تصور گمراہ کن اور غلط ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کیا ہمیں دہشت گردی کی جڑوں پر اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ ہمیں ضرور کرنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہو؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ نے قومی حدود سے ماورا ایک واحد دشمن کا تصور دیا جو اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی شکل میں موجود تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد گروپوں کے محرکات اور شناختیں مختلف ہیں۔ لشکرِطیبہ کی جڑیں پاکستان میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد (cause) کشمیر ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف مزاحمت کی علَم بردار ہے۔ عراق کے شیعہ اور سنی باغی گروپوں کے مختلف اور کثیرجہتی مطالبات ہیں۔ یہ اتنے مختلف ہیں جیسے ۷۰ کے عشرے کی IRA ، Bader-Meinhof اور Eta کی یورپی دہشت گرد تحریکوں کے تھے۔ سب نے دہشت گردی کو استعمال کیا اور بسااوقات ایک دوسرے کی مدد پہنچائی۔ ان کے مقاصد ایک نہیں تھے لیکن ان کا تعاون موقع دیکھ کر تھا۔ یہی صورت آج بھی ہے۔
جتنا زیادہ ہم دہشت گرد گروپوں کو اکٹھا کردیں اور اعتدال پسندوں اور انتہاپسندوں، یا خیراور شر، کے درمیان آمنے سامنے لڑائی کی لکیر کھینچ دیں اتنا ہی زیادہ ہم ان لوگوں کے ہاتھ میں کھیلتے ہیں جو ان گروہوں کو متحدکرنا چاہتے ہیں جن میں بہت کم چیزیں مشترک ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کو اسلحے یا مالیات کی فراہمی روک کر، ان کے دعووں کے کھوکھلے پن کو دکھا کر اور ان کے پیروکاروں کو جمہوری سیاست میں لاکر ان سے ان کی جڑوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں یہ بھی مضمر تھا کہ صحیح ردعمل اولیں طور پر فوجی ہے۔ لیکن جیساکہ جنرل پیٹریاس نے مجھ سے اور دوسروںسے عراق میں کہا کہ اتحاد، بغاوت اور خانہ جنگی کے مسائل درمیان اپنا راستہ قتل کرکے نہیں نکال سکتا۔
ہمیں دہشت گردی کا مقابلہ قانون کی حکمرانی کا علَم بردار ہوکر کرنا چاہیے نہ کہ اس کی اہمیت ختم کرکے اس لیے کہ یہ جمہوری معاشرے کا بنیادی پتھر(corner stone) ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں اور بیرونی ممالک میں حقوقِ انسانی اور شہری آزادیوں کے اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے۔ یقینا یہ گوانتانامو کا سبق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے منتخب صدر اوباما کے اسے بند کرنے کے وعدے کو خوش آمدید کہا ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا بلاوا جنگ کے لیے تھا۔ یہ ایک کوشش تھی کہ سب کے مشترک واحد دشمن کے خلاف اتحاد قائم کیا جائے۔ لیکن عوام اور قوموں کے درمیان اتحاد کی بنیاد اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کس کے مخالف ہیں بلکہ اس نظریے پر ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور ہماری مشترک اقدار کیا ہیں۔ دہشت گردوں کی یہ کامیابی ہے کہ وہ ملکوں کو خوف زدہ اور انتقام پر آمادہ کردیں۔ جب وہ افتراق اور دشمنی کے بیج بو دیتے ہیں، جب وہ ملکوں کو تشدد اور جبر سے جواب دینے پر مجبور کردیتے ہیں، تب وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ بہترین ردعمل یہ ہے کہ دبائو میں آنے سے انکار کر دیا جائے۔
اس بنیادی مقدمے (thesis) کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ ممبئی کے واقعات کی روشنی میں اصل مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔ پاکستان کی قیادت نے اپنی نادانی، ذہنی ژولیدگی یا بزدلی کی وجہ سے اس سلگتے ہوئے مسئلے کو اٹھانے سے احتراز کیا لیکن ملی بینڈ نے لندن اور ممبئی دونوں مقامات پر اس ’اَن کہی‘ کا صاف اظہار کر ہی دیا، جس سے بھارت کی قیادت آتش زیرپا ہے۔۱؎ اس نے کہا:
یہ وہ چیز ہے جو غزہ میں فوجی اقدام کے حامیوں اور مخالفین کو جدا کرتی ہے۔ ممبئی حملوں کے ردعمل پر بحث سے بھی اسی طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ جو ذمہ دار تھے انھیں انصاف کے کٹہرے میں آنا چاہیے اور حکومتِ پاکستان کو اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے پورے نظام کو توڑنے کے لیے مؤثر اور فوری اقدام کرنے چاہییں۔ لیکن گذشتہ ہفتے جنوبی ایشیا میں اپنے دورے کے دوران میں اس بات کے حق میں دلائل دیتا رہا کہ دہشت گرد حملوں کا بہترین تریاق طویل المیعاد تعاون باہمی ہے۔ میں موجودہ مشکلات کو سمجھتا ہوں لیکن کشمیر کے تنازعے کا حل علاقے کے انتہاپسندوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے سب سے بڑے سبب سے محروم کردے گا، اور پاکستانی حکمران اپنی مغربی سرحدوں پر خطرات کا اچھی طرح مقابلہ کرسکیں گے۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۵ جنوری ۲۰۰۹ء)
برطانیہ کے وزیرخارجہ ٹونی بلیر کی حکومت میں بھی وزیر تھے، ان سے یہ کہنے کو تو ضرور دل چاہتا ہے کہ ع
ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
۱؎ بھارتی وزیراعظم نے اظہار ناراضی کے لیے اپنے برطانوی ہم منصب کو خط لکھا اور دہلی آئے ہوئے برطانوی وزیردفاع سے ملاقات نہ کی لیکن برطانیہ کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان دیا کہ وزیر خارجہ کابیان برطانیہ کی حکومتی پالیسی کے مطابق تھا۔
مگر حقیقت ہے کہ بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا اس سے زیادہ صاف الفاظ میں اعتراف مشکل ہے۔ یورپ کے ممالک کے کئی حکمران بھی اب یہ بات کہہ رہے ہیں اور افغانستان میں ناٹو کے سیکرٹری جنرل ہوپ شیفر نے واشنگٹن پوسٹ (۱۷ جنوری ۲۰۰۹ء) کی اشاعت میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ:
ہم جامع طرزِعمل کی صرف زبانی تعریف (lip service) پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ صرف طاقت سے افغانستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہم ناکافی وسائل اور عوام کی طرف سے ربط کی کمی کی وجہ سے فوجی آپریشن کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت ہے کہ زیادہ کوشش کی جائے: پولیس کو تقویت دینے کے لیے، ترقیاتی امداد کو باہم مربوط کرنے کے لیے، اور افغانستان میں امریکی مشن کی تعداد کو بڑھانے (beef up) کے لیے۔ بے حد اہم ہے کہ افغان حکمران ایک مستعد اور کرپشن سے پاک حکومت قائم کرنے کا مشکل فیصلہ کریں، جس پر عوام کو اعتماد ہو۔ ان دائروں میں ترقی میں جتنی دیر ہوگی فوجی آپریشن کی بھی اتنی دیر ضرورت رہے گی اور اس کی قیمت انسانی جانوں کی صورت میں ادا کرنا ہوگی۔
موصوف کی نگاہ میں افغانستان میں طالبان اصل مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ کرزئی حکومت اور امریکا کی سرپرستی ہے:
لیکن افغانستان کا دیانت دارانہ جائزہ اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ ہم وہاں نہیں پہنچے ہیں جہاں اب تک پہنچنے کی ہمیں اُمید تھی۔ ملک کے شمال اور مغرب میں تو بڑی حد تک امن ہے اور حالات بہتر ہورہے ہیں لیکن مغرب اور مشرق میں، بغاوت، منشیات اور غیرمؤثر حکومت کی کارفرمائی ہے۔ اپنے ملک کی تعمیرو ترقی میں کمی کی وجہ سے ان کی مایوسی بڑھتی جارہی ہے اور جن ملکوں نے ناٹو کی سربراہی میں کام کرنے والے مشن کے تحت اپنی فوجیں بھیجی ہیں ان کے عوام بھی پریشان ہیں کہ یہ آپریشن کتنی دیر تک چلے گا اور کتنے نوجوان مرد اور عورتیں مزید اس میں اپنی جانیں کھو بیٹھیں گے۔ افغانستان کا بنیادی مسئلہ طالبان کا زیادہ ہونا نہیں، بلکہ اچھی حکمرانی کا بہت کم ہونا ہے۔ افغانوں کو ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو ان کی وفاداری اور اعتماد کی مستحق ہو۔ جب ایسا ہوگا تو بغاوت خود ہی آکسیجن سے محروم ہوجائے گی۔
اور تو اور اب خود کرزئی صاحب بھی گویا ہوئے ہیں۔ کرزئی صاحب اور صبغت اللہ مجددی نے یہ بیانات دیے ہیں (ڈیلی ٹائمز، ۲۱ جنوری ۲۰۰۹ء) کہ مغرب کو دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہیے۔ بیانات کا عنوان ہے:
کرزئی کا مغرب سے جنگ کی حکمت عملی پر نظرثانی کا مطالبہ۔ افغان سینیٹ کے اسپیکر نے کہا کہ اگر مغرب نے احتیاط نہ برتی تو قوم اُٹھ کھڑی ہوگی۔
افغان صدر حامد کرزئی نے منگل کو مغرب سے طالبان سے لڑنے کی اور امداد فراہم کرنے کی حکمت عملی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیرونی افواج کا شہری آبادی کو قتل کرنا افغانستان میں عدمِ استحکام کی بڑی وجہ ہے۔
سیکورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے نتیجے میں گذشتہ برس ۲ہزار شہری مارے گئے۔ مجموعی طور پر ۲۰۰۸ء میں کُل ۵ ہزار افراد قتل کیے گئے۔ سینیٹ کے اسپیکر صبغت اللہ مجددی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر شہری ہلاکتوں کو نہ روکا گیا تو مزید بے چینی پیدا ہوگی۔ ہم بھر پائے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اللہ نہ کرے کہ افغان قوم کھڑی ہوجائے۔ میں نے اپنے امریکی بھائیوں اور دوستوں سے کہا ہے کہ وہ احتیاط برتیں۔ اگر قوم کھڑی ہوگئی تو حالات عراق سے بدتر ہوں گے۔
کرزئی صاحب اور صبغت اللہ مجددی صاحب کی تقاریر افغانستان کی پارلیمنٹ میں کی گئی ہیں۔ فوجی قوت کے استعمال کی حکمت عملی ہر جگہ ناکام رہی ہے (یہی وجہ ہے کہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک ناکامی کا سودا ہے جس سے جتنی جلد نجات پائی جائے بہتر ہے)۔ یہ بش کی ناکامی کا فکری، تجزیاتی اور سیاسی قیادت کی سطح پر اعتراف ہے۔ اس پالیسی کو اس کے ساتھ ہی رخصت ہو جانا چاہیے۔
۲- دوسرا واقعہ جس کے حسن و قبح میں جائے بغیر اس کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اب ایک تاریخی علامت (symbol) کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ وہ واقعہ دسمبر میں بغداد کی پریس کانفرنس میں صحافی زید المنتظری کی جانب سے صدربش کا دو جوتوں سے استقبال ہے جو امریکا کے خلاف نفرت اور اس کی پالیسیوں کی عالم گیر ناکامی کا مظہر ہے۔ نیز ’جوتا پاشی‘ کے موقع پر جو جملے اس نے کہے وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں عام انسانوں خصوصیت سے عرب اور دنیاے اسلام کے عوام کے جذبات کے آئینہ دار ہیں جن میں عراق پر تسلط اور معصوموں کے خون بہانے پر چارج شیٹ کیا گیا۔ پھر جوتے کے ذریعے بش کی رخصتی کی اس ریت کی عالمی طور پر جو پذیرائی ہوئی ہے وہ عوامی ردعمل کا بھرپور اظہار ہے۔ خود امریکا میں ہزاروں احتجاج کرنے والوں نے بش کے فوٹو اور وائٹ ہائوس پر جوتوں کی بارش کر کے بغداد کے پیغام کو امریکا میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیا۔ جوتوں کی اس عالم گیر بارش نے وہ کام کردکھایا جو توپ و تفنگ اور سیمی نار اور تقاریر نہ کرسکیں۔
۳- تیسرا پہلو وہ معاشی اور مالیاتی بحران ہے جس نے امریکا ہی نہیں، پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور جو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خرابیوں، مارکیٹ کی حاکمیت کی تباہ کاریوں اور سرمایہ پرستی کے جنون میں دولت مندوں کی سیاہ کاریوں کے ساتھ بش کی معاشی پالیسیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اقتصادی قیمت (economic cost) کا پیداکردہ ہے۔ عسکری ناکامی، سیاسی ناکامی اور پھر معاشی ناکامی___ یہ تینوں بش اور اس کی پالیسیوں کا مقدر بن گئے ہیں۔
چوتھا پہلو وہ بے عزتی ہے جو بش کو اسرائیل کے ہاتھوں اٹھانی پڑی ہے۔ اس کی جو تفصیلات اب امریکی میڈیا کے ذریعے سامنے آرہی ہیں وہ امریکا کے صدر پر اسرائیلی وزیراعظم کی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ جس ملک کو دنیا کا سب سے امیر اور طاقت ور ملک ہونے کا ادّعا ہے اور جس کے صدر کو دنیا کا طاقت ور ترین شخص کہا جاتا ہے، اسرائیل کے ہاتھوں اس کی کیا درگت بنی ہے، یہ داستان بھی سننے کے اور اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ پر سر دھننے کے لائق ہے کہ جسے چاہے وہ عزت بخشے اور جسے چاہے ذلت کا نمونہ بنا دے۔ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَـآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَـآء (اٰل عمران۳:۲۶)۔ اس واقعہ میں عبرت کے بڑے پہلو ہیں۔
۸جنوری کو اقوام متحدہ میں اسرائیل کی غزہ میں ننگی جارحیت اور حماس کو سبق سکھانے کے نام پر معصوم شہریوں کے کشت وخون، بچوں اور عورتوں کے قتلِ عام، گھروں، دفتروں، مدرسوں اور مسجدوں کو بے دریغ مسمار کرنے کے خلاف عالمی ردعمل کے زیراثر ایک قرارداد کا معاملہ درپیش تھا۔ بڑے ردوکد کے بعد خود کونڈولیزا رائس نے ایک قرارداد پر اتفاق راے کا اظہار کیا اور جیسے ہی اسرائیل کے وزیراعظم کو یہ اطلاع ملی کہ امریکا قرارداد لانے پر تیار ہوگیا ہے، وہ سیخ پا ہوگیا۔ اسرائیل امریکی صدر سے کس طرح ربط قائم کرتا ہے اور کس طرح اس قرارداد پر قرارداد کے محرک کونڈولیزا رائس کو ووٹ دینے سے رکوا لیتا ہے، اس کی روداد پڑھنے کے لائق ہے۔ زیدالمنتظری کا جوتا تو بش کے نہ لگ سکا لیکن اولمرٹ کا جوتا ٹھیک نشانے پر لگا۔ کاش عالمی میڈیا نے بغداد کے جوتے کی طرح امریکا کے اس جوتے کی منظرکشی بھی ساری دنیا کے سامنے کی ہوتی۔
گائن ڈائر (Gwynne Dyer) اپنے مضمون میں حالات کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
اولمرٹ نے ۱۳ جنوری کی جنوبی اسرائیل کے شہر اچکلان کی تقریر میں اس واقعہ کو سرعام یوں بیان کیا گیا ہے: ’’میں نے کہا: میری صدربش سے فون پر بات کرایئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ فلاڈلفیا میں تقریر کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: مجھے اس سے کیا۔ مجھے ان سے ابھی بات کرنا ہے۔ انھوں نے ان کی تقریر رکوائی اور ایک دوسرے کمرے میں انھیں لے کر آئے جہاں میں نے ان سے بات کی۔ میں نے ان سے کہا: آپ اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ انھوں نے کہا: سنو! مجھے اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ میں نے اسے نہیں دیکھا، میں اس کے الفاظ سے واقف نہیں، تو وزیراعظم اولمرٹ نے صدر بش سے کہا: میں اس سے واقف ہوں۔ آپ اس کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ بش نے وہی کیا جو اس سے کہا گیا۔ بش نے سیکرٹری آف اسٹیٹس رائس کو آرڈر بھیجا اور اس نے قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا حالانکہ یہ وہ قرارداد تھی جسے اس نے خود پورا تیار کیا، الفاظ میں ڈھالا، اس کو مربوط کیا اور اس کے لیے حمایت جمع کی۔ وہ خاصی شرمندہ ہوئی اور بالآخر اس نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دیا جسے اس نے خود مرتب کیا تھا۔ سلامتی کونسل نے ۱۴ووٹ سے اس قرارداد کو منظور کیا لیکن امریکا جو اس کا مصنف تھا، اس نے اس پر کوئی راے نہ دی۔
صدر بش سے اسرائیل کے وزیراعظم نے اپنی جارحیت کو جاری رکھنے کے لیے جو کچھ کہا اور کروا لیا وہ کوئی غیر بیان نہیں کر رہاہے۔ یہ اولمرٹ کے اپنے الفاظ میں اور سیکڑوں افراد کی موجودگی میں اپنے کارنامے کا برملا اظہار ہے۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا یہ واقعہ ہے کہ اولمرٹ کے اس بیان کے آنے کے بعد صدربش کے دفتر اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کھلبلی مچ گئی اور بڑی چال بازی سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سین میک کارم نے کہا کہ یہ بیان ۱۰۰فی صد درست نہیں ہے اور وہائٹ ہائوس کے ترجمان نے کہا کہ اس میں کچھ باتیں نادرست (inaccuracies) ہیں لیکن دیدہ دلیری ملاحظہ ہو:
امریکا کی اس ملمع سازی کا پردہ چاک کرتے ہوئے بڑی رعونت کے ساتھ اولمرٹ کے دفتر سے روکھا جواب دیا گیا کہ پیر کو جو کچھ ہوا، وزیراعظم نے اس کو بالکل صحیح بیان کیا تھا۔ (امریکا کے ان بیانوں کی) اسے کوئی پروا نہیں۔
ڈائر اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے:
اولمرٹ کی کہانی پر شبہہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ بہت زیادہ چیں بجیں ہوسکتا ہے مگر وہ یہ کہانی کیوں بنائے گا۔ بہرحال اس نے جو چاہا، وہ حاصل کیا، جب کہ بش انتظامیہ کی تردیدوں پر شبہہ کرنے کی ہر وجہ موجود ہے۔ کہانی سے نہ صرف بش کی ذاتی طور پر توہین ہوتی ہے بلکہ یہ ان شبہات کو تقویت دیتی ہے جو پہلے ہی امریکا میں پھیلے ہوئے ہیں کہ بش کے تحت امریکی کتے کو اسرائیلی دُم مسلسل جھاڑتی رہتی ہے۔ (ڈان، ۲۰جنوری ۲۰۰۹ء)
۵- اس سلسلے کا ایک اور سبق آموز پہلو ۲۰ جنوری ۲۰۰۹ء کی تقریب حلف برداری اور اس موقع پر صدر اوباما کی تقریر ہے جسے سننے کا شرف بش صاحب کو اپنی صدارت کے خاتمے کے بعد پہلے اعزاز کے طور پر حاصل ہوا اور جس میں ان کی کیفیت ’سنتا جا شرماتا جا‘ والی تھی جس کے خاص خاص پہلوؤں پر انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے مضمون نگار ڈیوڈ سینگر نے Obama Speech Sharply Rebukes Bush Policiesکے عنوان سے اپنے مضمون میں نمایاں کیا ہے۔ اس مضمون سے بھی دو اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں:
بارک اوباما کے افتتاحی خطاب میں جارج ڈبلیو بش کے ۸سالہ دور اور اس کے نظریاتی حوالوں کو یہ عہد کر کے کہ امریکا اپنی سابقہ اقدار کی بازیافت کر کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا، کھلم کھلا مسترد کیا گیا تھا۔
بش اور ڈک چینی اوباما سے چند قدم دُور بیٹھے ہوں تو ایک نازک کام تھا۔
مضمون نگار بش کی کس مپرسی کا نقشہ یوں پیش کرتا ہے:
پھر بھی اس نے جو کچھ کہا، بش کو اس سے ضرور صدمہ ہوا ہوگا۔ تنقید اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں، لیکن گذشتہ ۸ برسوں میں اس نے شاید ہی کبھی اس طرح مجبوری کے عالم میں خاموشی سے بیٹھ کر سنا ہوگا کہ کس طرح امریکا اس کی نگرانی میں پٹڑی سے اُترگیا۔
صدر بش کا دور ختم ہوگیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دور کی حماقتوں، زیادتیوں اور تباہ کاریوں سے دنیا کس طرح اور کتنے وقت میں نجات پاتی ہے۔ اصل امتحان دیگر امور کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو سامراجی کھیل بش انتظامیہ نے کھیلا اور پوری دنیا کو تباہی سے دوچار کردیا اس سے نجات کا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ قیادت بش اور مشرف کی پالیسیوں ہی کو آنکھیں بند کرکے آگے بڑھا رہی ہے اور ملک کے حالات کو مزید خرابی کی طرف لیے جارہی ہے۔ پارلیمنٹ نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں جو قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی اور جس میں خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پوری حکمت کو تبدیل کرنے کی ہدایت کی تھی اور فوجی قوت کی جگہ مذاکرات کے راستے کو اختیار کرنے اور تمام فریقوں (stake holders) کو افہام و تفہیم اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل میں شریک کر کے ملک کی آزادی اور وقار کی بحالی اور اسے موجودہ دلدل سے نکالنے کے لیے واضح راہِ عمل کی نشان دہی کی تھی۔ اس پر عمل کے باب میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ دنیا بش کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے اور بش کے اپنے ساتھی اس پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے نئی حکمت عملی کی ضرورت اور سیاسی عمل کو متحرک کرنے کی بات کر رہے ہیں اور زرداری حکومت اس تباہ کن پالیسی پر کاربند ہے۔ حالانکہ سنا یہی ہے کہ ع
ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ!