’پالیسی بدلنے کی ضرورت‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغرب سے مرعوب بزدل حکمران طبقہ ہر محاذ پر مسلسل پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ اس لیے موجودہ قیادت سے پالیسی میں تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ موجودہ صورت حال کی خرابی کے ذمہ دار یہ نام نہاد قائدین، اعلیٰ فوجی افسران اور مراعات یافتہ طبقہ ہے جس نے محض اپنے اقتدار کے لیے عوام کو بدحالی سے دوچار کردیا ہے، اور پوری قوم کو ذلت و پستی کا سامنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ملکی معاملات سے بے خبر اور الگ تھلگ رہنے کے بجاے اپنی ذمہ داریاں پہچان کر ملک و ملّت کے مفاد میں تبدیلی کے لائحہ عمل پر ایک نئے عزم سے جدوجہد کریں۔
’کراچی کا مسئلہ: پس منظر و پیش منظر‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) کے تحت پروفیسر عبدالغفور احمد نے اس حسّاس مسئلے کا معتدل انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے، اور ایم کیو ایم کو بجاتوجہ دلائی ہے کہ وہ قومی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے تو پھر اپنے طرزِعمل پر نظرثانی کرے، ان وعدوں کی تکمیل کرے جو اس نے ابتدائی دور میں کیے تھے اور قومی دھارے میں شامل ہو۔ یہی بات ملک و قوم کے مفاد میں بھی ہے۔
’کراچی کامسئلہ: پس منظر و پیش منظر‘ میں ایم کیو ایم کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ ایم کیو ایم ایک معمول کی سیاسی پارٹی نہیں ہے کہ آپ اس سے اپیلیں اور توقعات کریں۔ اس کا پورا ریکارڈ (جرائم پیشہ ہونا، بھتہ خور ہونا اور بلیک میلنگ مزاج) جس کی طرف معلوم نہیں کیوں شذرہ نگار نے توجہ نہیں دلوائی، فاشسٹ ریکارڈ ہے۔ اسے ضیاء الحق کے زمانے میں غوث علی شاہ نے جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا اور اب بھی فوج کی اشیرباد اور یقینا بیرونی طاقتوں کی سرپرستی میں یہ اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔
’افواج میں خواتین کی بھرتی‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) ایک مغربی خاتون اسکالر کا مؤثر اور فکرانگیز تحقیقی تجزیہ ہے، اور اس میں ہمارے لیے سبق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مغرب کی اندھی اور بے ہودہ نقالی تو کی جاتی ہے مگر حقیقی موضوعات پر تحقیق کے معاملے میں ہم مغرب سے کافی پیچھے ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔پھر ہم رونا روتے ہیں مغرب کی ترقی اور اپنی تنزلی کا۔ بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن پر ہمارے ہاں پردہ پڑا رہتا ہے، جب کہ مغرب انھیں آشکارا کرتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیقاتی اداروں سے منسلک ماہرین علومِ عمرانی افواج پاکستان میں خاص طور پر لڑاکا شعبوں میں خواتین کی بھرتی، خاتون خلاباز، خاتون پائلٹ، ٹریفک وارڈن، کھیلوں (ہاکی، کرکٹ، فٹ بال، سائیکلنگ، تیراکی، پیراشوٹ اور دوڑ) کے مقابلوں، مقابلہ حسن، مخلوط محافل میں شرکت اور تحفظ حقوقِ نسواں آرڈی ننس پر عمل جیسے تجربات کا مؤثر تحقیقی و واقعاتی تجزیہ پیش کریں۔
’افواج میں خواتین کی بھرتی‘ پڑھ کر افسوس ہوا کہ ایسا حیاسوز مضمون اس پاکیزہ رسالے کے صفحات پر چھاپ دیا گیا، اور حیرت اس بنا پر ہوئی کہ دینی ضروریات کے برخلاف قارئین کے روبرو بے حجابی کا وہ مظاہرہ کردیا گیا جو عام طور پر تجارتی و فلمی رسالوں میں ہوتا ہے۔ کیا مجبوری تھی کہ اسے ترجمان میں شائع کیا گیا؟
’بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ‘ (دسمبر ۲۰۰۸ء) کے ’اشارات‘ میں کراچی میں سیاسی قتل و غارت کے ذکر میں گذشتہ ۹ماہ میں ۵۰ سے زیادہ افراد کے قتل کا ذکر ہوا تھا جو ڈان کراچی کی ایک رپورٹ پر مبنی تھا۔ لیکن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ۲۰۰۸ء کی رپورٹ کے حوالے سے جو معلومات سامنے آئی ہیں ان سے حالات کی سنگینی کا صحیح تر اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کراچی میں ۸جنوری ۲۰۰۸ء سے ۸اکتوبر ۲۰۰۸ء تک ۱۴۴۶ افراد قتل کیے گئے ہیں جن میں سیاسی کارکنوں (political activitists) کی تعداد ۱۳۹ تھی، جب کہ مذہبی فرقہ پرستی (sectarianism) کی وجہ سے نشانۂ اجل بننے والوں کی تعداد ۱۸تھی۔ (ملاحظہ ہو ایچ آر سی پی کی رپورٹ مطبوعہ دی نیوز، ۱۶ دسمبر ۲۰۰۸ء)
’یومِ عرفہ کا پیغام‘ (دسمبر ۲۰۰۸ء) میں وقوف عرفات کا وقت طلوعِ فجر سے پہلے تک سہواً لکھا گیا ہے، درست وقت زوالِ آفتاب کے بعد سے غروب تک ہے۔