فروری ۲۰۰۹

فہرست مضامین

اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج اور ہماری ذمہ داری

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | فروری ۲۰۰۹ | اشارات

Responsive image Responsive image

اُمت مسلمہ کے حال اور مستقبل کے بارے میں جب کبھی گفتگو کی جاتی ہے تو ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ہم کس اُمت مسلمہ کی بات کر رہے ہیں؟ کیا اُس اُمت مسلمہ کی جس کے جسم سے گذشتہ ۶۰ سالوں سے کشمیر اور فلسطین میں مسلسل خون بہہ رہا ہے مگر اپنے زخموں کی کسک اور درد اسے ابھی تک بیدار نہیں کرسکی، نہ زخموں کے علاج کے لیے وہ اُٹھ کر پیش قدمی کرنے پر آمادہ ہوسکی ہے۔ کیا اس اُمت مسلمہ کی بات کی جا رہی ہے جو ۵۷ نام نہاد آزاد ممالک کے ہونے کے باوجود اسلامی تنظیم او آئی سی نامی کاغذی ادارے میں کوئی متحدہ و مشترکہ حکمت عملی وضع نہ کرسکی، یا اُس  اُمت مسلمہ کی بات کی جا رہی ہے جسے قرآن کریم نے ’خیراُمت‘ قرار دیتے ہوئے عالمی مشن اور ذمہ داری کے ساتھ برپا کیا اور جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی تہذیب و ثقافت میں ایسے گراںقدر اضافے کیے جن کے اثرات آج تک پائے جاتے ہیں۔

اسلامی فکر یاس و مایوسی کو کفر قرار دیتی ہے اور حالات کے نامساعد ہونے کے باوجود ہرمسلمان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پُرامید رہے اور مثبت طرزِفکر کے ساتھ اپنا اور گردوپیش کا جائزہ لے کر اپنی جدوجہد اللہ کے بھروسے پر جاری رکھے اور مایوسی کو اپنے پاس بھی پھٹکنے نہ دے۔

اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو جس شدت اور تسلسل کے ساتھ اُمت مسلمہ کے دشمن اس پر ہر زاویے سے یلغار کر رہے ہیں وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اُمت مسلمہ نہ مُردہ ہے، نہ ایک  غیرمحسوس وجود (non-entity)  ہے بلکہ ان جابر اور ظالم قوتوں کے لیے جو بہ زعمِ خود یک قطبی طاقت ہونے کے دعوے کرتی ہیں، ایک لپکتا ہوا شعلہ ہے جس کی تپش اور خطرناکی نے طاغوت کی نیند حرام کردی ہے۔ مزید غور کیا جائے تواپنے شکست خوردگی کے احساس کے باوجود، آج جو اُمت مسلمہ ہمارے اردگرد پائی جاتی ہے اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ یک قطبی طاقت کے لاڈلے اسرائیل کو۳۳ دن تک لبنان کے سرحدی علاقے میں مقابلے کے بعد پسپا کردے۔ یہ وہی اُمت مسلمہ ہے جو ۷۰ سال تک ترکی میں لادینیت کو سرکاری مذہب کے طور پر بہ اکراہ برداشت کرنے کے بعد پُرامن اور جمہوری ذرائع سے ملک کی سمت اور ملکی پالیسی کے رُخ کو دین کی طرف موڑ سکی ہے۔ جہاں ۷۰سال پہلے نقاب اور حجاب کو ممنوع قرار دیا گیا تھا، آج وہاں اُمت کی لاکھوں بیٹیاں بازاروں میں، جامعات میں اور صنعتی اداروں میں فخر کے ساتھ اسکارف کو اپنی پہچان کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ یہ وہی اُمت مسلمہ ہے جسے اس کے دشمن بھی مجبوراً نیوکلیر قوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔

اُمت کا انتشار: بے لاگ جائزے کی ضرورت

ضرورت اس بات کی ہے کہ چند لمحات کے لیے اُمت کے بارے میں اپنے ذہنوں میں بنائے ہوئے نقشوں کو محو کر کے معروضی طور پر اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ اصل زمینی حقائق کیا ہیں، اور اُمت مسلمہ کی اصل قوت کس چیز میں ہے۔ اس کی کون سی کمزوریاں ایسی ہیں جو خود پیدا کردہ ہیں اور کون سی ایسی ہیں جو اس پر مسلط ہوگئی ہیں۔ اس کے سامنے کون سے خطرات سر اُٹھائے کھڑے ہیں اور ان خطرات و مطالبات کے علی الرغم، اس میں ان کے مقابلے اور ایک روشن مستقبل تعمیر کرنے کی صلاحیت کہاں پائی جاتی ہے۔ جدید ادارتی علوم (Management Sciences) میں اس قسم کے جائزے کے لیے SWOT کی اصطلاح عرصۂ دراز سے استعمال کی جاتی ہے جس میں قوتوں(strengths)، کمزوریوں (weaknesses)، مواقع (opportunities) اور خطرات (threats) کے تفصیلی جائزے کے بعد کوئی ادارہ اپنے لیے حکمت عملی وضع کرتا ہے۔مسلمان اہلِ علم کو بھی وقتاً فوقتاً نہ صرف اسلامی تحریکات بلکہ  اُمت مسلمہ کے حوالے سے اس قسم کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم تجزیے اور تحلیل و تنقید کی روشنی میں اپنا  لائحہ عمل طے کرسکیں اور مروجہ حکمت عملی میں مناسب اضافے اور تبدیلیاں کی جاسکیں۔ زندہ تحریکات کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ دن بھر کی مشقت کے بعد استراحت سے قبل احتسابِ نفس کر کے دیکھیں کہ آج کیا پایا اور کیا کھویا؟ دین اسلام نے جس جائزے، تجزیے اور تحلیل کو احتساب کی اصطلاح سے متعارف کرایا تھا، اسی قسم کا ایک تجربہ SWOT کی جدید اصطلاح کے سہارے بہت سے دانش وَر دنیا میں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھوں نے پہیہ ایجاد کیا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ پہیہ کس نے ایجاد کیا، تجزیاتی اور تحلیلی عمل تحریکاتِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کے لیے بہت مفید ہے۔ آج جو بات اُمت مسلمہ کے حوالے سے کی جارہی ہے، ضرورت یہ ہے کہ خصوصاً تحریک اسلامی ہر ۱۰سال کے بعد اس قسم کا تجزیہ کرے، چاہے اس کے نتیجے میں اپنی حکمت عملی پر اس کے اعتماد میں اضافہ ہو یا وہ اس پر نظرثانی کرے۔

اُمت مسلمہ آج بادی النظر میں جس انتشار کا شکار نظر آتی ہے اسے دُور کرنے اور اس میں فکری اتحاد اور نظری و عملی یگانگت پیدا کرنے کے لیے لازمی ہے کہ پہلے تجزیہ کرکے دیکھا جائے کہ اس میں کون سے پہلو اس کی قوت کا مظہر ہیں، کمزوری کہاں پائی جاتی ہے، اسے کون سے چیلنج درپیش ہیں اور کون سے مواقع ایسے ہیں جن کے لیے مناسب حکمت عملی وضع کرنے کے نتیجے میں اُمت مسلمہ دوبارہ قائدانہ منصب پر فائز ہوسکتی ہے۔

ہماری راے میں حسب ذیل سات خوبیاں، اُمت کی قوت کا مظہر ہیں:

اُمت مسلمہ کی قوت

۱- قوتِ ایمانی: حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کی اصل قوت اس کی قوتِ ایمانی ہے جس سے وہ خود کم آگاہ ہے اور جس سے دشمن لرزاں رہتا ہے۔ یہی اس کی وحدت کا راز ہے اور اسی بنا پر اس قوت کو زائل کرنے کے لیے ابلیس اور اس کی ذُریت تخلیق انسان سے آج تک برسرِپیکار ہے۔ دورِ جدید کے بے شمار نظریات ہوں، منصوبے اور حکمت عملی ہوں، ان سب کا اصل ہدف اُمت کا ایمان ہے۔ جس وقت تک مسلمان اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو اپنا حامی و ناصر، محافظ و حاکم سمجھتا ہے، بڑی سے بڑی فرعونی اور طاغوتی قوت اسے سر جھکانے پر آمادہ نہیں کرسکتی لیکن جس لمحے وہ صرف مادی اور انسانی ذرائع کو اپنی کامیابی کا ضامن سمجھتا ہے، وہ طاغوت اور باطل کے لیے ایک نرم نوالہ بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی قوت کو سورئہ انفال میں رب کریم نے یوں بیان فرمایا ہے: ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰ افراد صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری ہوں گے‘‘۔ (الانفال ۸:۶۴)

یہ قوتِ ایمانی روزِ اول سے اُمت مسلمہ کا اثاثہ ہے اور آج بھی یہی وہ قوت ہے جو یک قطبی طاقت کے دل و دماغ، اسرائیل کو اس سے خائف رکھتی ہے اور ان شاء اللہ کفروظلم کو شکست دینے کے لیے سب سے مؤثر اسلحے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے اُمت مسلمہ کو کسی سے خائف اور لرزہ براندام ہونے کی ضرورت نہیں۔

۲- عالمی بیداری کی لھر: اُمت مسلمہ کی قوت کا دوسرا مظہر دورِ جدید میں پائی جانے والی عالمی بیداری کی لہر ہے۔ مغربی سامراج سے سیاسی آزادی کے حصول کے ساتھ اُمت مسلمہ میں انڈونیشیا، ترکی، پاکستان، شمالی افریقہ، وسط ایشیا، غرض ہر اُس خطے میں جہاں مسلمان پائے جاتے ہیں، دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد عالمی بیداری کی ایک لہر تیزی کے ساتھ ظہور میں آئی اور ۷۰ کے عشرے تک یہ عالمی بیداری یورپ، امریکا، جنوب مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا تک پہنچ گئی۔ نوجوان مسلم دانش وَر ہوں یا انجینیر،طبیب ہوں یا علومِ عمرانی کے ماہر (سوشل سائنٹسٹ)، اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ یہ عالمی بیداری بعض اوقات اپنی انتہا پر رہی اور بعض اوقات غیرمحسوس طور پر اُمت مسلمہ کے اندر سرایت کرتی رہی۔ آج اس کی جھلک مغرب و مشرق میں، نہ صرف مسلم اداروں کی شکل میں بلکہ مغربی سرمایہ داروں کے اداروں میں غیر سودی کھڑکیوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہ عالمی بیداری اُمت مسلمہ کا ایک قوی پہلو پیش کرتی ہے کہ اُمت مسلمہ نہ بے جان ہے نہ مُردہ بلکہ ایک قابلِ لحاظ قوت رکھنے والی اُمت ہے۔

اُمت مسلمہ کی اس بیداری کو اسلام دشمن قوتیں اپنا اصل حریف سمجھتی ہیں اور انھیں قدامت پرست، بنیاد پرست، انتہا پسند غرض مختلف ناموں سے یاد کرتی ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا حرکاتِ اسلامی سے خوف اور ان کے راستے مسدود کرنے اور انھیں برسرِ اقتدار نہ آنے دینے کی کوشش اُمت مسلمہ کے ایک قوت ہونے کی مزید تصدیق کرتی ہیں۔ اگر واقعی اُمت مسلمہ ایک بے جان شے ہوتی تو کفروظلم کی قوتیں اپنی تمام طاقت اس کے خلاف صرف نہ کرتیں۔ اُمت کی اس قوت کا خوف ہرلمحہ طاغوت کو وسوسوں اور خدشوں میں غلطاں و پیچاں رکھے ہوئے ہے۔  اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ حق کو، چاہے وہ عددی لحاظ سے کم ہو، اس کے خلوص اور صبر کی بنا پر طاغوت کے عظیم لشکروں کے باوجود فتح دیتا ہے۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود آج اُمت مسلمہ کے نوجوان دنیا کے ہر گوشے میں اسلامی نظامِ حیات کے قیام کے لیے سرگرم اور کوشاں ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ معیشت اور آمرانہ سیاست کی جگہ ایک عادلانہ نظام لانا چاہتے ہیں۔

۳- دین کا جامع تصور : اُمت مسلمہ کی تیسری بڑی قوت اور پہچان ۲۰ویںصدی میں دین کی جامع تعبیر ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد پیدا کیے جو دین کی جامع تعلیمات کے ذریعے احیائی تحریکات کے قیام کا سبب بنے۔ ان افراد میں علامہ اقبال، سید مودودی، حسن البنا شہید، سید قطب شہید وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں مصر میں حسن البنا شہید نے اور برعظیم میں سید مودودیؒ نے جن تحریکوں کا آغاز کیا ان کے اثرات یورپ و امریکا، جنوب مشرقی ایشیا، وسط ایشیا اور افریقہ و آسٹریلیا تک پہنچے اور اسلام کی رسمی تعبیر کی جگہ اسلام کی جامع تعبیر، بطور ایک مکمل اور قابلِ عمل نظامِ حیات کے وقت کی زبان بن گئی۔ یہ تحریک تعمیر ِقیادت اور تبدیلی ٔ قیادت کو ہدف بناتے ہوئے آگے بڑھیں اور آج مسلم دنیا میں ان کے مخالفین بھی انھیں ایک اہم قوت ماننے پر مجبور ہیں۔ آج یہ تحریکیں اُمت مسلمہ کے جسم میں تازہ خون بن کر گردش کر رہی ہیں اوردشمنانِ اسلام کے لیے ایک مسلسل چیلنج کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں۔ نتیجتاً ایک طویل عمل کی شکل میں ان تحریکوں کے زیراثر ایک ایسی تعمیری افرادی قوت وجود میں آرہی ہے جو نہ صرف ان کی فکری قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ مناسب وقت پر سیاسی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی محاذ پر اسلامی متبادل کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے نشوونما پا رہی ہے۔

۴- جوھری قوت کی استعداد : مندرجہ بالا تین قوی پہلوئوں کے ساتھ اُمت مسلمہ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اسے ایک نیوکلیر قوت کی حیثیت سے بادل نخواستہ اس کے دشمن بھی ماننے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طویل المیعاد اور قلیل المیعاد منصوبوں کے ذریعے پاکستان کو متزلزل کرنے اور طالبان کے خوف کے نام پر پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کو کسی نہ کسی طرح ناکارہ بنا دینے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی سازش تو ایک منطقی عمل ہے، دشمن کو یہ کرنا ہی چاہیے لیکن بیرونی دشمن سے زیادہ خطرناک وہ اندرونی دشمن ہیں جو اس گھنائونے کھیل میں دشمن کی مرضی کے مطابق ملک کو کمزور کرنے اور دشمن کے لیے موقع فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف قرآن کریم نے واضح اشارہ کیا ہے کہ اہلِ ایمان کے دشمن کی منصوبہ بندی اور چال کو اللہ تعالیٰ ناکام کردے گا، اس کی حکمت عملی سب سے کارگر حکمت عملی ہے۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (۳:۵۴)

۵- وسائل کی فراوانی: اُمت مسلمہ کا پانچواں قوی پہلو ، جس کی اہمیت سے وہ شاید خود بھی آگاہ نہیں ہے، اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی طرف سے اس کی زمینوں اور فضائوں میں ان قدرتی وسائل کی دولت کا فراہم کردینا ہے جس کے حصول اور اس پر قوت کے ذریعے قبضہ کرنے کے لیے، تمام مسلمان دشمن طاقتیں اپنی اپنی سازشوں میں لگی ہوئی ہیں۔ افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت کا بنیادی مقصد ان ذخائر پر قابض ہونا تھا جن کے بغیر اس کی معیشت تباہ ہوجائے گی لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ دشمن کو تو ملت اسلامیہ کے وسائل کی اہمیت کا پورا اندازہ ہے اور وہ اسی بنا پر ان وسائل پر قوت کے ذریعے قابض ہونے میں لگا ہوا ہے لیکن مسلم ممالک کے سربراہان خود اس قوت کے صحیح استعمال سے ناآشنا ہیں اور بغیر کسی تامل کے دشمن کی سازش میں ساجھی بننے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔

۶- افرادی قوت کی بالادستی: اُمت مسلمہ کی چھٹی قوت اس کا انسانی اثاثہ (Human Resource) ہے جس کے بغیر جدید ٹکنالوجی بھی اپنے آپ کو بے بس پاتی ہے۔ یورپ اور امریکا کے معاشرتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۰ء تک یورپ اور امریکا میں ۴۵ فی صد افراد عمر کے اس مرحلے میں ہوں گے جب انھیں معاشی طور پر عضو معطل سمجھا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں وہ معیشت پر ایک بوجھ (liability ) بن جاتے ہیں۔ اس فطری خلا کو کون پُر کرے گا؟ اُمت مسلمہ میں اس وقت ۱۸، ۲۰ سال کے نوجوانوں کا تناسب ۳۳ فی صد ہے، اگر اُمت ان نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرتی ہے تو یہی افرادی قوت اس کی دولت بن کر دنیا میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ اس راز سے آگاہ ہونے کے سبب یورپ و امریکا مختلف عالمی اداروں کے ذریعے کثیر رقم خرچ کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ میں آبادی پر قابو رہے اور ۲۰۱۰ء میں ہونے والا  فطری آبادی کا وہ سفر (population movment) جو تاریخ کے ہر دور میں کارفرما رہا ہے، منجمد ہوجائے اور یورپ و امریکا میں نسلی بنیادوں پر آبادی کے تناسب میں بڑی تبدیلی نہ ہو۔ اسی بنا پر امیگریشن قوانین کو مسلسل تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ وہ نسلی فوقیت جو یورپی اور امریکی تہذیب کا خاصا ہے، غیرسفیدفام افراد کے آنے سے تبدیل نہ ہو۔

اس سب کے باوجود افرادی قوت ایک ناقابلِ انکار قوت ہے اور اگر انتقالِ آبادی نہ بھی ہو جب بھی یہ افرادی قوت اپنے ملک میں بیٹھ کر ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے بے شمار کام انجام دے سکتی ہے جس کے لیے یورپ اور امریکا دوسروں کی مدد کے محتاج ہوں گے۔ اس افرادی قوت کو صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے مؤثر اور فنی طور پر اعلیٰ و ارفع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ اپنا مثبت کردار مستقبل میں ادا کرسکے۔

۷- اُمت کا عالمی تصور: اُمت مسلمہ کا ساتواں قوی پہلو اس کا جغرافیائی قیود و حدود سے نکل کر دنیا کے ہر خطے میں اپنی پہچان کے ساتھ پایا جانا ہے۔ اب مسلمان کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ وہ بغداد یا قاہرہ، استنبول یا دمشق کا باشندہ ہے۔ آج اُمت مسلمہ مغرب و مشرق میں اس طرح پھیل چکی ہے کہ صحیح معنی میں اگر کوئی اُمت بین الاقوامی انٹرنیشنل کہی جاسکتی ہے تووہ صرف اُمت مسلمہ ہے۔ اس طرح چپے چپے پر اپنے قدم جما دینے کے بعد اب اُمت مسلمہ کو نشانہ بنانا دشمنانِ اسلام کے لیے ناممکن ہوگیا ہے۔ اُمت کے افراد کسی ایک مسلک یا خطے میں مرتکز نہیں ہیں۔ ان کا یہ پھیلائو ان کی قوت ہے۔ ایک سیاہ فام امریکی ہو یا سفیدفام فرانسیسی، جب دولت ِ اسلام سے فیض یاب ہوتا ہے تو وہ اُمت مسلمہ کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کی پسند ناپسند، اس کا مرنا، اس کا جینا، اس کی عبادت، اس کی قربانی پر ہر چیز صرف اور صرف ایک رب العالمین کے لیے ہوجاتی ہے۔ وہ نہ نسل کا بندہ رہتا ہے نہ رنگ کا، نہ زبان کا نہ رسوم و رواج کا، نہ سیاسی مفادات اور معاشی مقاصد کا، بلکہ صرف اور صرف اللہ کا بندہ بن کر اُمت کی عالمی برادری میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس انقلابی قوت کو اگر صحیح طور پر متحرک (mobilize) کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کرسکتی۔

ان ۷ نکات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ قنوطیت پسند رویہ کہ اُمت مسلمہ صفروں کا مجموعہ ہے، زمینی حقائق کی روشنی میں درست نہیں۔ یہ بات بھی بے بنیاد ہے کہ اُمت مسلمہ میں کوئی قوت نہیں ہے، یہ لاچار و بے بس ہے، اس کی ناک کو جو چاہے جب چاہے اور جہاں چاہے گھما سکتا ہے۔ الحمدللہ اُمت مسلمہ ایک ناقابلِ انکار قوت ہے اور یہ قوت آج تاریخ کی روشنی میں موجود ہے۔ یہ کسی فلسفیانہ بحث اور تصوراتی شاکلہ (ہیئت)کا نام نہیں ہے۔ اس کا ٹھوس ناقابلِ تردید وجود پایا جاتا ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ تین ہفتوں میں ۱۳۰۰ سے زیادہ بے گناہ بچے، عورتیں، جوان اور بوڑھے فلسطین میں شہید کردیے جائیں اور ۵ہزار سے زیادہ زخموں سے چور طبّی خدمات سے محروم رہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ اسلام آباد، استنبول، قاہرہ، ریاض، جکارتا اور کوالالمپور کے اقتدار کے ایوانوں میں پائے جانے والے حکمران خوابِ خرگوش میں مست ہوں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ جس دوم درجے کے امریکی سرکاری ملازم کے حکم اور تعاون سے افغانستان سے امریکی ہوائی جہاز پاکستان کی حدود میں آکر یہاں کے بے گناہ شہریوں اور مدرسے کے ۲۰۰ بچوں کو نشانہ بنا کر بہ خیریت واپس چلے جائیں، اسی دشمنِ پاکستان کو ہلالِ قائداعظم دیا جائے؟ ایسا کیوں ہے؟ ہم اتنے کمزور کیوں ہیں؟

اُمت مسلمہ کی کمزوریاں

اگر جائزہ لیا جائے تو اُمت کی کمزوریوں کو بھی سات نکات کے تحت اختصار سے بیان کیا جاسکتا ہے:

۱- علاقائی، نسلی اور لسانی تقسیم: پہلی کمزوری اُمت مسلمہ کے بعض گروہوں کا خود اپنے بارے میں یہ تصور ہے کہ ان کے تشخص کی بنیاد نسلی، علاقائی اور لسانی خصوصیات پر ہے۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو بنگلہ دیشی، افغانی، عراقی، مصری، شامی، انڈونیشی، ملیشن کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے، اسے اپنی قومی زبان سے زیادہ علاقائی زبان پر ناز ہوتا ہے حتیٰ کہ بعض ناعاقبت اندیش اور دشمنانِ عقل و خرد اُردو جیسی اسلامی روایات کی علَم بردار زبان کو اس کے اعلیٰ و ارفع مقام سے گراکر ایک غیرمحسوس اور محدود افراد کے گروہ کی زبان بناکر پیش کرتے ہیں کہ اُردو بولنے والے ان افراد کے پوتے اور نواسے ہیں جوتقسیم ملک سے قبل اُردو بولا کرتے تھے۔

یہ نسلی، لسانی اور علاقائی تصور جو سامراجی طاقتوں کے دیے ہوئے نظامِ تعلیم اور ہندوازم اور دیگر نظاموں سے مستعار لیے گئے تصورات کے نتیجے میں اُمت مسلمہ میں سرایت کرگیا ہے، اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے جسے دشمن بہ کمالِ فن اُمت میں مزید انتشار اور فرقے پیدا کرنے کے لیے دن کی روشنی میں استعمال کر رہا ہے اور اُمت مسلمہ اس کے جال میں پھنس جانے کے باوجود اپنے محبوس کیے جانے سے لاعلم ہے۔ اس کمزوری کے سبب عراق ہو یا ایران، ترکی ہو یا پاکستان یا افغانستان، ایک مسلک کو دوسرے کے ساتھ اور ایک لسانی گروہ کو دوسرے کے ساتھ لڑاکر اپنا اُلو سیدھا کرنے کا عمل جاری ہے۔ بیرونی سامراج کے اس شاطرانہ عمل میں بہت سے مقامی افراد بھی ان کے شریکِ کار ہیں۔

۲- استحصالی معاشی قوتوں پر انحصار: اُمت مسلمہ کی دوسری کمزوری اس کا استحصالی معاشی قوتوں پر انحصار ہے۔ وہی معاشی قوتیں جو اُمت مسلمہ کے عضوعضو پر چوٹ لگا کر قرضوں کے ذرعیے اسے معاشی طور پر اپنا غلام بنانے میں لگی ہوئی ہیں، اُمت مسلمہ انھی پر انحصارواعتماد کو اپنے لیے ذریعۂ نجات سمجھتی ہے۔ عقل کے اس طرح مارے جانے کی ذمہ داری استحصالی طاقتوں پر نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ صریحاً اُمت مسلمہ کی اپنی حماقت، عاقبت نااندیشی ہے اور جہالت ہے کہ وہ اپنے مفادات دوسروں کے حوالے کرنے کے بعد ان سے بھلائی کی اُمید رکھے۔

دوسروں بلکہ دشمنوں پر معاشی انحصار کے چنگل سے نکلے بغیر اُمت مسلمہ مستقبل میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ جو ممالک معاشی طور پر محکوم ہوں، وہ سیاسی اور عسکری طور پر بھی آزاد نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اس کمزوری کو دُور کیے بغیر اُمت مسلمہ کی نشاتِ ثانیہ آسان نہیں ہوگی۔

۳- عسکری قوت کے لیے دشمن پر انحصار: اُمت مسلمہ کی تیسری کمزوری اس کا عسکری میدان میں اپنے دشمن کی امداد پر انحصار کرنا ہے۔ بلاشبہہ جدید ٹکنالوجی غیرمعمولی طور پر مہنگی ہے لیکن جب تک اُمت مسلمہ عسکری میدان میں اپنے وسائل پر بھروسا نہیں کرے گی، وہ سامراجی طاقتوں کی محتاج و محکوم رہے گی۔ آج مسلم ممالک کے بارے میں مطبوعہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اگر کسی بنا پر وہ جنگ کرنے پر مجبور ہوجائیں تو دس بارہ دن سے زیادہ کا اسلحہ ان کے پاس نہیں ہے۔ جنگی اسلحے کے پرزے عموماً مغربی ممالک سے حاصل کیے جاتے ہیں اور ان کے حصول کے بغیر جدید آلاتِ حرب کام نہیں کرسکتے۔ عسکری طاقت ہونے کے باوجود غیروں پر اس طرح کا انحصار اُمت کی عسکری طاقت اور ایٹمی قوت ہونے کی حیثیت کو ختم یا معطل کردیتا ہے۔ اس کمزوری کو دُور کیے بغیرترقی کا سفر ناہموار ہی رہے گا۔

۴- حکمرانوں کی ذھنی غلامی: چوتھی اور ایک اہم کمزوری اُمت مسلمہ میں برسرِاقتدار طبقے کی ذہنی، فکری اور روحانی غلامی ہے۔ فرماں روا طبقات نہ صرف فکری طور پر مغربی طاقتوں اور مغربی فکر کی برتری پر ایمان بالغیب لاچکے ہیں بلکہ ان کے خیال میں جو ان کی روش سے اختلاف کرتا ہے، وہ اس دنیا کا باشندہ نہیں ہے اور نہ اسے اس دنیا میں رہنا چاہیے۔ ان کی یہ غلامی محض فکر اور نظام کی حد تک نہیں ہے بلکہ وہ مغرب کے تصورِ مذہب اور روحانیت پر بھی ایمان لاکر اس کی تصدیق اپنے عمل سے کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ مخصوص دنوں میں بعض تہوار منانے اور عیدین یا جمعے کے موقع پر دو رکعتیں ادا کرنے کے بعدوہ سمجھتے ہیں کہ بے چارہ اسلام آزاد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا دائرۂ کار مسجد ہے۔ حتیٰ کہ مسجد سے وابستہ مدرسہ کو بھی مغربی خواہش اور حکم کی تعمیل میں لادین بنانا (سیکولرائز) کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے بھی پریشان خیال افراد نکلیں اور اس طرح نہ سرکاری تعلیم کے ذریعے اور نہ دینی تعلیم کے واسطے سے، باہمت، باوقار، خوددار اور ایمان دار افرادی قوت پیدا ہوسکے۔

یہ ذہنی غلامی محض سیاسی وفاداری تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ فکر کے ہر ہرشعبے میں پائی جاتی ہے چاہے وہ معیشت ہو، معاشرت و ثقافت ہو یا تعلیم اور ابلاغِ عامہ۔ ہرشعبۂ حیات میں جب تک مغرب کی مکمل نقالی نہ کرلی جائے، ان کے خیال میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ ترقی دراصل مکمل نقالی کے مترادف سمجھ لی گئی ہے۔ چنانچہ جب تک (ممالکِ اسلامیہ کی) ایک نیوزکاسٹر خاتون، بی بی سی یا سی این این کی نیوزکاسٹر کے سے چہرے، بال، لباس اور آواز کے ساتھ ایک نوپاکستانی برطانوی یا امریکی نژاد کے سے لہجے میں خبریں نہ پڑھے انھیں تسکین نہیں ہوتی۔

اس ذہنی و فکری اور روحانی غلامی سے نجات اور اپنی اقدارِ حیات،اپنی ثقافت اور اپنی فکر کا احیا کیے بغیر اُمت مسلمہ ایک انچ بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اس کمزوری سے آگاہی اور اس کا سدباب اور اس کے اثرات کو جڑ بنیاد سے اکھاڑے بغیر نجات ناممکن ہے۔

۵- مفاد پرست طبقے کا تسلط: اُمت مسلمہ کی پانچویں کمزوری نااہل اور مفادپرست سیاسی شاطروں کا اس پر بالجبر تسلط ہے۔ اسلام کے سیاسی نظام کی بنیادی خصوصیت اس کا انتخابی، شورائی، اہلیت کی بنیاد پر آزادیِ راے کے ساتھ عوامی انتخاب کے ذریعے امانت دار، تفقہ فی الدین رکھنے والے، متقی افراد کا انتخاب ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُمت مسلمہ کے کسی ایک ملک میں بھی، الا ماشاء اللہ، قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہے جو اسلامی اصولوں پر پورے اترتے ہوں، (ترکی اور ایران ایسی مثالیں ہیں جہاں ایک حد تک بے لوث اور ملک کی خیرخواہ قیادت پائی جاتی ہے)۔

اس کمزوری کا بڑا سبب خود ہمارے عوام کی بے خبری، جہالت،  سادہ لوحی یا بے حسی، مفاد پرستی، اور نااہل افراد کو ووٹ دے کر، یا کسی اور طریقے سے اس عمل میں حصہ بن کر اقتدار حاصل کرنے دینا ہے۔ بلاشبہہ ووٹ کے لیے دولت اور دھوکے کا استعمال ایک حرام ذریعہ ہے اور اقتدار کے طالب عناصر اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن عوام بھی بری الذمہ نہیں۔ اس لیے کہ اس حرام ذریعے سے جو لوگ برسرِاقتدار آئے ہیں آخر عوام نے ان کو دولت کے عوض ووٹ دیا ہے، دھاندلی میں برابر کی شرکت کی ہے، یا وقتی مفادات اور تعلقات کی وجہ سے ووٹ کی اپنی قوت کو غلط استعمال کیا ہے اور نتیجتاً اپنے اُوپر جان بوجھ کر فقروفاقہ، ذلت اور محکومی کو مسلط کیا ہے، بلاشبہہ بڑے ملزم تو سیاسی شاطر ہی ہیں مگر سو فی صد انھی کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔

ایک طویل صبرآزما عمل کے ذریعے اس کمزوری کو دُور کرنا ہوگا اور ووٹ کی قوت کو چند سکّوں کے عوض فروخت کرنے کے کلچر کو تبدیل کرنے کے بعد ایسے افراد کو قیادت میں لانا ہوگا    جو اللہ کا خوف رکھتے ہوں، بکائو مال نہ ہوں،جنھیں اُمت کا مفاد عزیز ہو، جو صلاحیت رکھتے ہوں،  جو امین ہوں، جن کا کردار ماضی کی مالی، اخلاقی اور سیاسی بے ضابطگیوں اور جرائم سے پاک ہو۔ ہرکمزوری دُور کی جاسکتی ہے لیکن اسے دُور کرنے کے لیے عزم کے ساتھ ساتھ قربانی اور مسلسل جدوجہد بھی ناگزیر ہے۔

۶- تعلیمی انحطاط: اُمت کی چھٹی کمزوری اس کا تعلیمی اضمحلال ہے۔ دنیا کے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو تعلیم کے میدان میں اُمت مسلمہ بہت پیچھے نظر آتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کو ایک طرف رکھتے ہوئے حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ بنیادی تعلیم میں بھی اُمت مسلمہ تمام اقوامِ عالم سے پیچھے ہے۔ اس کمزوری کو فوری طور پر دُور کرنے کی ضرورت ہے اور حل بہت آسان ہے۔ کُل قومی پیداوار کا ۷ یا ۸ فی صد اگر تعلیم کے لیے مختص کردیا جائے، اسے ایمان داری سے استعمال کیا جائے تو دس سال میں اُمت مسلمہ تعلیم کے میدان میں دنیا کی قیادت کرسکتی ہے۔

اس تعلیمی پس ماندگی میں بڑا دخل یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا بھی ہے۔ اس وقت کئی متوازی نظامِ تعلیم مسلم دنیا میں چل رہے ہیں۔ خود پاکستان میں کم از کم تین نظامِ تعلیم ہر گلی میں رائج ہیں۔ ایک طرف سرکاری تعلیم کا نظام ہے جو ناکافی ہے، ناقص ہے، اور ملک و قوم کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت سے عاری ہے۔ دوسری طرف روایتی مذہبی تعلیمی نظام ہے جو غریب طبقہ کی کچھ ضرورتیں اور معاشرے کی روایتی مذہبی خدمات کے لیے مردان کار جیسے تیسے تیار کردیتا ہے مگر ملک و قوم کی ہمہ جہتی ضروریات کی فراہمی اور اُمت کو نئی قیادت فراہم کرنے میں بے بس اور ناکام ہے۔

ایک تیسری مصیبت وہ نجی تعلیمی نظام ہے جس کے تحت بیرونی تعلیمی ادارے ایک ایسی  نئی نسل تیار کر رہے ہیں جس کی سوچ اور کردار اُمت کے جذبات و عزائم کی آئینہ دار نہیں اور جس کے نتیجے میں معاشرے کی قیادت اور زندگی کے مختلف شعبوں میں زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آرہی ہے جو مغربی تہذیب کے گماشتے ہیں۔ اس پورے نظام میں اسلامی شخصیت اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا رنگ غائب ہے۔یہ ایک ایسی کمزوری ہے جسے دور کیے بغیر اور صحیح اسلامی نظام کو نافذ کیے بغیر اُمت مسلمہ ترقی کا سفر طے نہیں کرسکتی۔

۷- اداراتی زوال: اُمت مسلمہ کی ساتویں کمزوری اس کا ادارتی زوال ہے۔ ہمارے وہ ادارے جو پندرہ سو سال سے اُمت مسلمہ کے وجود کو برقرار رکھنے اور اسے آگے سفر کرنے میں آسانی فراہم کرتے رہے ہیں، ہم نے ان میں سے ہر ایک کو یکے بعد دیگرے کمزور کرنے کے بعد معاشرہ بدر کردیا۔ قانون، قضا اور ریاست تو سب سے پہلے نشانہ بنائے گئے لیکن بات وہاں رُکی نہیں۔ سول سوسائٹی کے دوسرے اداروں کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ وہ ادارہ اوقاف کا ہو یا مدرسہ کا، جو ریاست کی ذمہ داریوں کے ساتھ عوامی بہبود اور فلاح کے کاموں میں اپنا کردار ادا کرتا تھا یا خاندان کا ادارہ ہو، ہم نے کسی کو بھی تحفظ دینے میں دل چسپی نہیں لی۔ آج خاندان جس طرح منتشر ہو رہا ہے اور خواتین کے حقوق کے نام پر جس طرح اسلامی تعلیمات کے بجاے مغربی تصورات کو اپناتا جا رہا ہے، وہ اداروں کے زوال کی واضح مثال ہے۔ ہم نے حسبہ اور عدلیہ کے ادارے کو اپنے معاشرے سے بے دخل کردیا اور اس طرح ہراخلاقی قید سے آزاد ہوکر بے راہ روی کا شکار ہوگئے۔ مسجد کا ادارہ ہو یا شوریٰ،قضا اور فقہ کا ادارہ، ہرہراسلامی ادارے کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم سول سوسائٹی کے نام پر ایک مغرب زدہ سیکولر معاشرے کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کمزوری کو دُور کیے بغیر ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔

مستقبل کے امکانات اور مواقع

ان ۷ نمایاں کمزوریوں کے علاوہ اور بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے لیکن فی الوقت ہم صرف متذکرہ بالا نکات ہی پر اکتفا کرتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ قوتوں اور کمزوریوں کے بعد وہ مواقع کون سے ہیں جن کے صحیح استعمال سے اُمت مسلمہ عالمی طور پر ایک تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے۔

۱- عالمی معاشی منظرنامہ: مواقع کے سلسلے میں سرفہرست عالمی معاشی منظرنامہ ہے۔ آج دنیا جس معاشی اور مالی انتشار کا شکار ہے اُس نے سرمایہ دارانہ نظام کے کھوکھلے ہونے اور اس کے دعووں کے باطل ہونے کو بزبانِ خود ثابت کردیا ہے۔ سود کی بنیاد پر کاروبار کرنے والے بنک بھی اسلامی بنک کاری اور اسلامی فنانس کو مجبوراً تسلیم کرتے ہوئے اپنے اداروں میں ’اسلامی کھڑکیاں‘ کھولنے پر آمادہ ہیں۔ مسلمان اہلِ علم و دانش کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ اسلامی نظامِ معیشت کو بطور ایک قابلِ عمل متبادل کے مسلم دنیا میں متعارف کرائیں اور اس کے لیے ایک مہم کے ذریعے فضا کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم کاروباری افراد کے تعاون سے ایسے ادارے قائم کریں جو سودی لعنت سے نجات اور اسلام کے عادلانہ معاشی اصولوں کو عملاً نافذ کرکے دنیا کے سامنے ایک عملی مثال پیش کریں۔ اگر معروف معاشی اصول یعنی طلب (demand) میں کوئی صداقت ہے تو آج سرمایہ دارانہ نظام کی منڈیاں بھی اس تلاش میں ہیں کہ کس طرح ایک نئے معاشی نظام کے ذریعے اپنا تحفظ کرسکیں۔ اُمت مسلمہ کے لیے یہ قیمتی موقع ہے کہ وہ خود اپنے گھر میں اصلاح کر کے اپنے عمل کو دوسروں کے لیے رہنما بناکر پیش کرسکے۔

۲- ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی: ٹکنالوجی کی ترقی کی بنا پر اُمت مسلمہ اپنے  علمی اور عملی وسائل کو نیٹ ورکنگ (net working) کے ذریعے یک جا کرکے ایسے بہت سے کام کرسکتی ہے جو تنہا کسی ایک ملک کے لیے ممکن نہیں ہوسکتے۔ آج بڑی سے بڑی تحقیق اور ایجادات کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ چاہے انفرادی طور پر سب کے پاس موجود نہ ہوں لیکن نیٹ ورکنگ کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس موقع کو ضائع کرنا اُمت مسلمہ کے ساتھ بے وفائی ہے۔

۳- ذرائع ابلاغ کے دُور رس اثرات: تیسرا اہم پہلو مواقع کے لحاظ سے دورِ حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کا غیرمعمولی اسٹرے ٹیجک اہمیت حاصل کرلینا ہے جس کی بنا پر اُمت مسلمہ جب چاہے چند لمحات میں دنیا کے کروڑوں افراد تک اپنا پیغام، اپنی دعوت اور فکر پہنچاسکتی ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب اُمت ابلاغ عامہ کی طاقت اور مناہج سے آگاہ ہونے کے ساتھ انسانی وسائل کو تربیت دے کر فنی مہارت کے ساتھ اپنی دعوت و پیغام کو دل چسپ انداز میں پیش کرسکے۔ ’اسلامی ٹی وی‘ کے نام پر لمبے لمبے خطابات، مناظرے اور جھاڑ پھونک کے عمل اور فوری استخاروں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ تحریکاتِ اسلامی کے لیے خصوصاً یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اپنی تمام نیک خواہشوں کے باوجود اور اپنے قائدین کی بعض تقاریر کی سی ڈی پیش کرنے کے علاوہ کیا  وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ کیا شخصیات کو پیش کرنا ہی دعوت ہے؟ یا دعوتی مقاصد کے پیش نظر انسانی قوت کی تیاری اور اس کا صحیح استعمال وقت کا تقاضا ہے۔ ابلاغِ عامہ اس صدی کا ایک انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اس کا فنی طور پر فہم اور پھر اس کا ایک حکمت عملی کے ذریعے مہارت کے ساتھ استعمال حالات میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔

۴- نوجوان اور افرادی قوت: اُمت مسلمہ کو دستیاب مواقع میں اس کی افرادی قوت کو اہم مقام حاصل ہے جس کی اکثریت نوجوانوں پر مبنی ہے۔ ان نوجوانوں کو ان کی زبان میں اسلام کی دعوت سمجھانے اور قوت کے اس سرچشمہ کا تعمیری استعمال کرنے سے تحریکاتِ اسلامی کو غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ نوجوان نہ صرف سیاسی، بلکہ معاشی اور معاشرتی میدانوں میں اہم اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے انسانی وسائل کا تنقیدی جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل کے مطالبوں کے پیش نظر کیا وہ قیادت جو ۵۰سال کی عمر سے تجاوز کرچکی ہو، واقعتا آیندہ ۲۰ سال کے لیے ایک قوتِ محرکہ (motivating force)  ہوسکتی ہے یا اسے ہرہرسطح پر ایسے افراد کو آگے لانا ہوگا جو نہ صرف فکروفہم کے لحاظ سے بلکہ اپنی قوتِ کار کی بنا پر معاشرے میں قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔ افرادی سرمایے کی صحیح نشوونما، اس کی صحیح تربیت اور اس کا صحیح استعمال ہی مستقبل میں کامیابی کی کلید ہے۔ جو تحریکات ان زمینی حقائق کو اپنی سادہ لوحی کی بنا پر نظرانداز کریں گی، وہ اپنی نیک خواہشات کے باوجود اپنے اہداف کے حصول میں پیچھے رہیں گی اور جو اس کا صحیح استعمال کریں گی وہ بادِ مخالف کے باوجود کامیابی کے سفر میں آگے بڑھتی جائیں گی۔

۵-  ایٹمی استعداد: عالمی تناظر میں اُمت مسلمہ کے لیے اپنی نیوکلیر صلاحیت کا صحیح استعمال بھی ایک اہم موقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ اس عمل میں ترکی کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے سائنس دانوں کے تعاون سے نیوکلیر قوت کے پُرامن اور عسکری استعمال کے نئے نئے محاذوں پر اُمت مسلمہ آگے بڑھ سکے اور یک قطبی طاقت یایورپی یونین کے دبائو سے اپنے آپ کو آزاد کرسکے۔ اس سلسلے میں بعض غیرمسلم ممالک سے بھی تعاون پر غور کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً چین جو اس خطہ میں ایک اہم مرکز قوت ہے، اُس کے ساتھ تعاون کی راہوں پر غور ہونا چاہیے۔

خدشات و خطرات

دنیا کے تیل اور گیس کے ذخائر کا نصف سے زیادہ اُمت مسلمہ کے ہاتھوں میں ہے۔ صرف اس ایک قدرتی وسیلے کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی پوری مسلم اُمت کی معاشی ترقی کے لیے کافی ہے لیکن یہ وسائل اُمت کی ترقی کے بجاے، مغربی اقوام اور مغربی مالیاتی نظام کی چاکری میں لگے ہوئے ہیں۔ فقط اسی ایک وسیلے کے صحیح استعمال سے مسلم دنیا کا نقشہ بدلا جاسکتا ہے اور عالمی سطح پر اُمت کے کردار کو ایک نیا آہنگ دیا جاسکتا ہے۔

اس مختصر جائزے کا اگلا حصہ اختصار کے ساتھ ان اندرونی اور بیرونی خدشات و خطرات  پر ایک نظر ڈالنا بھی ہے جو نہ صرف دعوتِ مقابلہ دیتے ہیں بلکہ ایسے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں جن کا مناسب اور صحیح استعمال اُمت مسلمہ کے مستقبل کی تعمیر میںاہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں اندرونی طور پر جو خدشات و خطرات پائے جاتے ہیں ان میں اولاً وہ فکری چیلنج ہے جسے ہم صرف ایک اصطلاح یعنی فہم دین کی لغزش سے تعبیر کرسکتے ہیں، جو صدیوں کے دورِ غلامی اور سیاسی آزادی کے بعد بھی ماضی کی روایت سے وابستگی کے نتیجے میں ہمارے حلقوں میں پائی جاتی ہے۔

۱- دین دنیا کی تفریق: اس میں اولاً ذہنی طور پر دین اور دنیا کی تفریق کا تصور ہے جو ہماری سرگرمیوں اور معمولات کو دو اقسام میں بانٹ دیتا ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے دائرۂ کار میں بڑی حد تک آزادی کے ساتھ مصروفِ عمل ہوجاتا ہے۔ ’دین‘ کا دائرہ عملاً مذہب بن جاتا ہے اور عبادات اور چند رسومات ادا کرنے کے بعد ایک شخص حتیٰ کہ ایسے افراد بھی جو فکری طور پر خود کوتحریکِ اسلامی سے وابستہ سمجھتے ہوں ’دنیا‘ کے پیش نظر شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا دیگر معاشرتی معاملات، ان میں جو کچھ ’دنیاداری‘ کے تقاضے ہیں، وہ پورے کرتے ہیں اور ساتھ میں نماز روزے کی پابندی کے ذریعے اپنے خیال میں دونوں کے مطالبات کو پورا کرلیتے ہیں۔

اس میں مزید غور کیا جائے تو ایک واضح تفریق ذاتی اور معاشرتی مطالبات کی پائی جاتی ہے۔ ایک شخص ذاتی طور پر ممکن ہے کہ نہ صرف عبادات پر عامل ہو بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ بھلے انداز میں پیش آتا ہو لیکن معاشرتی معاملات میں جب اسے اپنی بیٹی یا بیٹے کے لیے رشتہ درکار ہوتا ہے تواس کی ذاتی عبادات اور تحریکیت ان معاملات پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالتی اور وہ معاشرتی رواجوں کا غلام بن کر اور ان پر عمل کرکے بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی اپنی بیٹی تو جس گھر میں جائے، وہاں اپنے شوہر کے ساتھ آزادانہ طور پر رہے لیکن جو لڑکی اس کے گھر میں آئے، وہ سارے گھر کی ’خادمہ‘ بن کر رہے اور اپنے ساتھ وہ سب سازوسامان لے کر آئے جس کے خلاف وہ عوامی سطح پر خطابات کرتا رہا ہے۔ یہ تفریق اور دوعملی ایک مرض ہے اور اس کا جتنا جلد سدباب ہوسکے ،اتنا ہی اُمت مسلمہ کے لیے مفید ہوگا۔

اُمت کو ایک اور تفریق کا بھی سامنا ہے جس کا تعلق معاشی معاملات سے ہے۔ وہ افراد بھی جو اپنی عبادات اور ’مذہبی‘ معاملات میں قرآن و سنت کی پیروی کا اہتمام کرتے ہیں، جب تجارت اور لین دین کا معاملہ ہوتا ہے، عملاً غیر ذمہ داری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عموماً شراکت کے کام مالی بدمعاملگی کے سبب غیرعادلانہ نتائج تک پہنچ جاتے ہیں اور وہی شخص جو ذاتی طور پر بہت    دین دار تھا، اجتماعی تجارت و شراکت میں غیرذمہ دار ثابت ہوتا ہے۔ یہ اندرونی مرض اُمت کی معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن نے جو ہدایات تجارت و شراکت کے بارے میں دی ہیں، انھیں سمجھ کر اور مکمل طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس تفریقی عمل کو آگے بڑھایا جائے تو یہ تفریق سیاست، ثقافت اور مسالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک بظاہر مذہبی فرد سیاست میں ایسے افراد کے ساتھ اتحاد کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا جو اپنے کردار و عمل کے لیے دھوکا،دھاندلی اور بدکرداری کے لیے معروف ہوں۔ ایسے تمام مواقع پر اپنے عمل کو یہ کہہ کر پاک صاف کرلیا جاتا ہے کہ سیاست میں تو یہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی معاملہ ثقافت کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ اسلام کے تمام دعووں کے باوجود ایسی تقریبات میں شرکت اور ان کا انعقاد جو اسلامی اصولوں کے منافی ہوں، اس تفریق کا ثبوت ہیں۔

دین و دنیا میں تفریق کے تصور کے نتیجے میں نہ صرف بیرونی سامراج کے دورِ غلامی میں بلکہ سیاسی آزادی کے بعد بھی اُمت میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی پائی جاتی ہے جو سیاست میں حصہ لینے کو دین کے منافی سمجھتے ہیں اور اس طرح سیاسی معاملات کو ان افراد کے حوالے کرنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے جو اسلامی نظامِ حیات کے قیام اور ملک میں اللہ کی حاکمیت کے قیام کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں۔ اس کا بنیادی مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ’جمہوریت‘ ایک غیر اسلامی تصور ہے اس لیے جمہوری اداروں سے عدمِ تعلق اور انھیں لادین افراد کے حوالے کر دینا ہی مدعاے شریعت ہے، اُمت کا ایک باشعور طبقہ اس کے برعکس یہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت کو وقتی طور پر وسیلہ بناکر افرادی قوت کے ذریعے بتدریج اسلامی نظام کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے مکمل اسلامی نظام کے قیام کا ہدف سامنے رکھتے ہوئے ضرورت کی حد تک جمہوری سیاسی عمل میں شرکت دین کے مقاصد کے منافی نہیں ہے۔

بظاہر اسلام دوستی رکھنے کے باوجود اس اندرونی تقسیم کا تمام تر فائدہ سیکولر اور اسلام دشمن قوتوں کو پہنچتا ہے اور ملکی عوام کی اکثریت کے اسلام سے وابستگی کے باوجود اس تقسیم کی بنا پر وہ انتخابات میں اسلام پسندوں پر سبقت لے جاتے ہیں اس خطرے کا حل خود اسلام پسند افراد کو نکالنا ہوگا۔

۲- احساس لاچاری وضعف: ایک متعدی اور مہلک مرض جو اُمت مسلمہ نے اپنے اُوپر نفسیاتی طور پر طاری کرلیا ہے، وہ اس کا احساسِ لاچاری اور ضعف ہے۔ قیادت پر فائز افراد ہوں یا عام انسان، یہی بات کہتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جب تک ’چچا سام‘ اجازت نہیں دے گا فلاں کام کیسے ہوگا۔ یا یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ پاکستان یا مصر یا ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صہیونی سازش ہے اور اس میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً ایک احساسِ لاچاری، بے بسی اور سپردگی اُمت کی نفسیات پر مسلط ہے۔ گویا دراصل دشمن کا جو اصل مقصد تھا یعنی اُمت مسلمہ کو مسحور کردینا وہ اسے حاصل ہوجاتا ہے اور اُمت کے قائدین خود زور شور سے ’غیرملی یا صہیونی و امریکی سازشوں‘ کی تصدیق کر کے اپنے آپ کو بے بسی، ضعف اور لاچاری کی کیفیت میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ اس احساسِ شکست اور پسپائی سے نکلے بغیر اُمت مسلمہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔

۳- فکری یلغار: ان چند اندرونی خطرات کے ساتھ بعض بیرونی خطرات بھی غور طلب ہیں۔ ان میں سب سے اول وہ فکری یلغار ہے جو ایک طویل عرصہ سے اُمت مسلمہ پر اثرانداز ہوتی رہی ہے اور اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ اس فکری یلغار کے لیے جو حربہ استعمال کیا گیا، وہ تعلیم کا بھی ہے اور ابلاغِ عامہ کا ہے۔ دونوں کا مشترک نکتہ یہ ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز مذہب سے آزادی اور مادی، تجرباتی، سیکولر علم کی بنیاد پر فکر کی تدوین و تعمیر ہے، اس لیے مسلم دنیا کو بھی ترقی کے حصول کے لیے سیکولرازم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، چنانچہ اس غرض کے لیے نصاب میں تبدیلی، ایسی کتب کا لکھا جانا جو ایک سیکولر ذہن پیدا کریں، اسلامیات کو دس مختصر قرآنی سورتوں اور دس احادیث کے سرسری طور پر پڑھنے تک محدود کردینا اور ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ابلاغ عامہ میں مذہب کا مذاق یا اسے تضادات اور انتشار اور الجھائو پیدا کرنے والا دکھانا یہاں تک کہ ایک دیکھنے والا یہ کہنے پر آمادہ ہوجائے کہ واقعی مذہب مسائل کا گھر ہے، اور اس سے نجات حاصل کیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ یہ وہ فتنہ ہے جو آیا تو باہر سے ہے لیکن اب یہ مقامی طور پر قدم جما رہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک واضح اور جامع حکمت کی ضرورت ہے۔

۴- ثقافتی یلغار: دوسرا بڑا بیرونی خطرہ ثقافتی یلغار ہے جس کے تحت اُمت مسلمہ کی اپنی اقدارِ حیات، اخلاقی اصولوں اور ان کی روشنی میں زبان، لباس، طعام اور تفریح ہرچیز کو نشانہ بناتے ہوئے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اُمت مسلمہ مغربی اور ہندوانہ ثقافت کی بصری اور سمعی طور پر عادی ہوجائے۔ آج عرب دنیا خصوصاً خلیج کے علاقے میں لباس ہو، کھاناہو، گانا ہو، یا فلم، ہندو ثقافت مغربی ثقافت کے دوش بدوش اپنے اثرات گہرے کررہی ہے۔

پاکستان میں اکثر نجی ٹی وی چینل مغربی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ہندوانہ ثقافت کو پاکستان میں رائج کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور مسلسل یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اور بھارتی ثقافت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سے زیادہ غلط بیانی شاید ہی کوئی ہو لیکن اسے سچ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ ۹۰ فی صد کھانے پکانے کے پروگرام ان کھانوں کی ترکیب بتاتے ہیں جن کا نام بھی ایک عام پاکستانی شہری نے نہ سنا ہو اور تھائی لینڈ، چین اور امریکا میں مرغوب کھانے سمجھے جاتے ہیں لیکن جو ایک عام شہری خواب میں بھی نہ پکا سکتا ہے نہ کھا سکتا ہے۔ یہی شکل لباس کی ہے کہ فیشن شو کے نام پر ہر وہ لباس جو حیا کو تار تار کرنے والا ہو بہت پُرکشش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ثقافتی یلغار محض استغفار پڑھنے اور بددعا کرنے سے نہیں رُکے گی، اس کے لیے متبادل ثقافتی مہم اور عوامی سطح پر راے عامہ کی تیاری کی ضرورت ہے۔

۵- معاشی یلغار: تیسرا اہم بیرونی خطرہ وہ معاشی یلغار ہے جس میں اُمت مسلمہ کی قیادت کو خصوصاً یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ ترقی کا راستہ صرف اور صرف ورلڈبنک اور آئی ایم ایف سے ہوکر گزرتا ہے۔ اگر اُمت مسلمہ نے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کیا تو وہ تباہ ہوجائے گی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ورلڈبنک ہو یا آئی ایم ایف، دونوں کے زیراثر آنے والے کسی ملک نے آج تک خودانحصاری کا مزہ نہیں چکھا۔

اس کے اثرات دینی حلقوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور بعض حضرات اپنی سادہ لوحی یا گروہی عصبیت کے زیراثر اسلامی بنکاری اور تجارت و تکافل کے اداروں پر یہ کہہ کر تنقید کر رہے ہیں کہ ان میں اور سودی اداروں میں محض نام کا فرق ہے۔ گویا عوام الناس کے لیے بہتر ہے کہ سودی نظام ہی میں پھنسے رہیں اور ان اداروں کی طرف نہ جائیں۔ اس سادہ لوحی کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے تاکہ جلد یا بہ دیر اسلامی معاشی ادارے سودی اداروں کے متبادل کے طور پر اپنے وجود کوتسلیم کراسکیں۔

۵- خواتین کو صاحبِ اختیار بنانے کا فتنہ: کچھ عرصہ سے ایک پانچواں خطرہ بلکہ فتنہ، خواتین کو بااختیار بنانے (empowerment) کے نام سے بیرونی اداروں کی طرف سے امت پر مسلط کیا جارہا ہے۔ اس امر کو ’حقوقِ انسانی‘ کے ساتھ منسلک کر کے یہ کہا جا رہا ہے کہ اب خواتین کو یکساں انسانی حقوق کی بنا پر فوج اور انتظامیہ میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ ملک ترقی کرسکے۔ مغرب اور خصوصاً امریکا اور یورپی ممالک اس مہم کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکی جریدے نیوزویک نے اپنی خصوصی اشاعت براے دسمبر ۲۰۰۸-فروری ۲۰۰۹ء میں ایک مضمون شائع کیا ہے جو مغرب کے اس منصوبے کو واضح اور واشگاف الفاظ میں پیش کرتا ہے:

مسلمانوں کے بارے میں امریکی پالیسی کامحرک صرف دہشت گردی کی مخالفت نہ ہو بلکہ حقوقِ انسانی کی عالمی تحریک کو اس کی تکمیل کرنا چاہیے۔ اس طرح ایک باہمی تعاون کی حکمت عملی تشکیل پاجائے جو یہ تسلیم کرے کہ عام مسلمان، خاص طور پر مسلمان خواتین، جہادی تحریکوں کا ہدف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف لڑائی میں لازمی شریکِ کار ہیں۔ (ص ۴۳)

اس مقدمے کے بعد یہ حل پیش کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدر خواتین کے انسانی حقوق کے بہانے انھیں معاشی دوڑ میں مرد سے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے۔

تجارت پیشہ مسلم خواتین اپنے اہلِ خاندان اور ہمسایوں سے آگے بڑھ کر وسیع تر حلقے میں خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ کاروباری صلاحیت رکھنے والی مائیں اپنے بچوں کے لیے تجارت___ اور مستقبل کے منصوبوں___ کے لیے مواقع فراہم کرسکتی ہیں___ اس لیے مسلم خواتین کے لیے کم رقم کے قرضوں کی فراہمی، ایک ایسی خارجہ پالیسی کا جزو بن جائے گا جو دہشت گردی کے مخالف اقدامات اور انسانی حقوق میں توازن رکھتی ہو۔ (ص ۴۴)

اس حکمت عملی میں جو بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان عورت کی اولیں دل چسپی اور کارکردگی کا مرکز گھر اور خاندان نہ رہے اور وہ بجاے گھر کے مرد کو معاشی استحکام دینے کے، خود محنت کشی میں لگ جائے جس کا مقصد عورت کو معاشی خودمختاری فراہم کرنا ہے جس کے لیے اسے آسان شرط پر قرضہ دیا جائے۔ یہ تجربہ بنگلہ دیش میں گرامن بنک کرچکا ہے اور معاشی ماہرین نے اس کا جو تجزیہ کیا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ ان کم رقوم کے قرضوں (micro-credit) کے نتیجے میں بحیثیت مجموعی خواتین کو معاشی استحکام تو نہیں مل سکا البتہ وہ قرضوں کے بوجھ میں پہلے سے زیادہ دب گئیں۔ نتیجتاً گھریلو جھگڑے اور طلاق کی کثرت سے معاشرتی نظام شدت سے متاثر ہوا۔ رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ آسان شرط پر قرضہ کی شرح سود ۳۰ فی صد ہونے کے سبب عموماً ایک خاتون کو قرضے کی ادایگی کے لیے کسی دوسری این جی او سے قرض لینا پڑا اور اس عمل میں مردوں کے ساتھ اختلاط کے نتیجے میںخاندانی نظام اور اس کے استحکام کو شدید جھٹکا لگا۔

اس جملہ معترضہ سے قطع نظر ’جنسی مساوات‘ کا مغربی تصور ایک ناسور بن کر اُمت مسلمہ کے جسم کو زخم آلود اور خون خون کر رہا ہے۔ اس کی بروقت اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسلام جنسی مساوات کی جگہ عدل اور تمام اصناف میں حقوق و فرائض کی عادلانہ تقسیم کا قائل ہے۔ اس پہلو پر علمی اور عوامی سطح پر راے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔

درپیش چیلنج

جن خطرات اور خدشات کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا گیا ان میں سے اکثر اُمت مسلمہ کے لیے دعوتِ عمل اور چیلنج کی حیثیت بھی رکھتے ہیں لیکن گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل مناسب ہوگا کہ گذشتہ پانچ دہائیوں میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، ایران، سوڈان ، الجزائر ، ترکی اور خود یورپ و امریکا میں جس سُرعت کے ساتھ اسلامی فکروثقافت کا احیا ہوا ہے اور خصوصاً سید مودودی اور امام حسن البنا شہید کی برپا کردہ اسلامی تحریکات کے زیراثر نئی نسل نے اعتماد و یقین کے ساتھ اسلام کے مطالعہ اور اپنی زندگی میں اس کے نفاذ پر توجہ دی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ آج اسلامی حرکات سے متاثر افراد زندگی کے ہر شعبے میں قائدانہ صلاحیت کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اسلامی مالی اداروں کا قیام، اسلامی تکافل کمپنیاں اور بنک، اسلامی جامعات میں معاشرتی اور طبی و دیگر علوم کی تدوین جدید کی کوششیں اور اس غرض سے اداروں کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی معاشی، معاشرتی اور ثقافتی نظام اکیسویں صدی میں بھی قابلِ عمل ہے۔

اس عرصے میں اسلامی تحریکات نے تحریکاتِ حریت کی کھل کر حمایت کی ہے۔ لیکن مغرب اور مغرب زدہ افراد اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود تحریکاتِ اسلامی کو دہشت گردی میں ملوث ثابت نہیں کرسکے۔ امریکا اور برطانیہ میں تحقیقاتی اداروں نے پوری چھان بین کی لیکن ان تحریکات پر کوئی قابلِ اعتراض سرگرمی ثابت نہ کی جاسکی لیکن اس قسم کی کارروائیوں نے تحریکاتِ اسلامی کے فروغ کی رفتار کو متاثر کیا ہے اور یہ تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

ان حالات میں جب کہ اُمت مسلمہ کے اندر غیرمعمولی قوی پہلو موجود ہیں، بعض کمزوریاں بھی ہیں اور ساتھ ہی مختلف خطرات و مطالبات کا سامنا بھی ہے، اہلِ دانش اور کارکنوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور وہ کس طرح ان حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ اختصار کے پیشِ نظر سات نکات پر غور کیا جاسکتا ہے۔

۱- دین کا صحیح فھم: اوّلین کرنے کا کام دین کے صحیح فہم کا حصول ہے یعنی قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق اور غوروفکر اور تفقہ کے بعد اسلام کے نظامِ حیات اور اس کے عملاً نافذ کرنے کے ذرائع و حکمت عملی کو براہِ راست قرآن و سنت سے اخذ کر کے نہ صرف خود سمجھنا بلکہ جدید ذرائع کے استعمال کے ذریعے انسانیت کو اس سے متعارف کرانا۔ یہ ایک صبرآزما اور طویل عمل ہے جو مغرب و مشرق میں پائی جانے والی مسلمانوں کی تصویر (image)کی اصلاح کے لیے ایک شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔

۲- مغربی فکر کا تنقیدی مطالعہ: دوسرا اہم کام مغربی فکر کا تنقیدی مطالعہ، جائزہ اور تجزیہ ہے تاکہ یہ بات سمجھی جاسکے کہ کیا مغربی فکر کی تقلید ہی ترقی کا زینہ ہے یا مغربی فکر خود اپنی ناکامی کی نشان دہی کرتی ہے اور ظاہر ہے جو خود گمراہ ہو وہ کسی اور کو کیا راستہ دکھائے گا۔ اس جائزے میں جذبات سے بلندہوکر معروضیت کے ساتھ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب میںوہ کون سی خوبیاں ہیں جو اس کی ترقی کا راز ہیں اور وہ کون سی خامیاں ہیں جن سے ہوشیار ہونے اور دامن بچانے کی ضرورت ہے۔ مغرب کے ذہن اور فکر کو سمجھے بغیر ہم مغرب کو اسلام کی دعوت نہیں دے سکتے۔

۳- تحقیقی کلچر: تیسرا اہم کرنے کا کام پیشہ ورانہ تنظیموں اور اداروں میں تحقیقی کلچر کا پیدا کرنا ہے۔ وہ طبیبوں کی اسلامی تنظیم ہو یا انجینیروں اور علومِ عمرانی کے ماہرین کی، ہر خصوصی شعبے میں تحقیق کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایسی فضا پیدا کرنا ہوگی کہ لوگ جدید ترین علوم میں مہارت کے ساتھ اسلامی اصولوں کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔

۴- گہر کا محاذ: چوتھی اہم توجہ طلب چیز گھر کے محاذکا صحیح طور پر مرتب کرنا ہے۔ تہذیبوں کا ارتقا اور زوال براہِ راست گھروں کے تحفظ سے وابستہ ہے۔ اگر گھر میں انتشار ہوگا، تضاد ہوگا، یک جہتی نہ ہوگی تو تمام سائنسی ترقی کے باوجود تہذیب و تمدن پر زوال آکر رہے گا۔ اس لیے گھر کے ادارے کوصحیح اسلامی خطوط پر قائم رکھنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔

۵- افراد کا تعمیر کردار: پانچویں اہم چیز اُمت مسلمہ میں افراد کار کی تعمیر و تربیت اور نئے خون کو شامل کرنے کے لیے ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی جو اندرونی طور پر افراد سازی اور بیرونی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے تصور کے لحاظ سے یکساں طور پر نتائج پیدا کرسکے۔ اس میں ایک انتہائی سادہ حکمت عملی اندرونی طور پر انسانی وسائل کی تیاری کے لیے یہ ہے کہ ہر وہ فرد جو تحریک سے وابستہ ہو وہ ایک ذاتی ہدف یہ بنائے کہ ۶ ماہ کے عرصے میں اپنے اردگرد سے تین ایسے افراد کو جو خواہ اسلام کا مذاق اڑاتے ہوں اور تحریکاتِ اسلامی پر تنقید ہی کرتے ہوں، منتخب کرکے ان سے روابط بڑھائے گا اور اس عرصے میں ان کی غلط فہمیاں دُور کرکے، اپنے طرزِعمل کی قوت سے انھیں مخالف نہ رہنے دے گا۔ اپنے اردگرد کے ایسے ہی تین افراد کو منتخب کر کے جو بظاہر نہ مخالف ہوں نہ مواقف، انھیں اپنی فکر کا ہمدرد بنا لے گا۔ اور اسی طرح اپنے اردگرد سے ۳افراد کا انتخاب کرکے جو بظاہر اس کی فکر سے ہمدردی رکھتے ہوں انھیں اپنے اندرونی حلقے میں شامل  ہونے پر آمادہ کرلے گا۔ اس طرح ایک فرد ۶ ماہ میں ۹ افراد پر کام کر کے انسانی وسائل کی تعمیر میں لگ جائے گا۔ اُمت مسلمہ کو محض ایک فرد کی مخلصانہ جدوجہد سے ۹ گناقوت اور نیا سرچشمہ    قوت (resource) میسر آسکے گا۔

۶- عالمی سطح پر افھام و تفھیم کے عمل کا آغاز: چھٹی چیز عالمی سطح پر بھی   یہ ہدف طے کیا جائے کہ چند منتخب ممالک یا اداروں کو جو اسلام دشمن ہیں تبادلۂ خیال سے ان کی جانب داری کو ختم (neutralize) کیا جائے، تین ایسے ممالک یا اداروں کو جو دشمن نہ ہوں، دوست بنایا جائے اور کچھ ایسے ممالک یا اداروں کو جو ہمدردی رکھتے ہوں اپنے منصوبوں میں شامل کرکے ان سے استفادے اور مشترک کوششوں سے دونوں ممالک کے افراد میں قربت پیدا کی جائے۔

ظاہر ہے یہ کام اصلاً کو مسلمان حکومتوں کا ہے لیکن جس قسم کے افراد حکومتوں پر قابض اور مسلط ہیں ان سے اس کی امید کم ہی رکھی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں مسلم NGO اداروں کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے جہاں جہاں فکری ادارے پائے جاتے ہیں، مثلاً انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلامک فائونڈیشن وغیرہ علمی سیمی نار، مکالمے، اہلِ علم کے دوروں اور معلومات کے تبادلے کے ذریعے ان ممالک کے اداروں کے ساتھ قریبی رابطے پید کرسکتے ہیں جو کھل کر اسلام دشمنی کا اظہار نہیں کرتے۔ عالمی تناظر میں ایسے ممالک کے علمی ادارے خود بھی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں سے رابطے کے ذریعے ان کے مسائل کو سمجھیں۔ یہ صورت حال دعوتی اور اصلاحی عمل کے لیے بہت سازگار ماحول فراہم کررہی ہے اور اسلامی تحقیقی اداروں کو آگے بڑھ کر عوام اور دانش وروں کی سطح پر اسلام کے مثبت اور قرآن وسنت پر مبنی تصور کو بغیر کسی مداہنت کے پیش کر کے باہمی اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

۷- تبدیلیِ قیادت:ساتویں چیز ان تمام وسائل کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے اجتماعی تبدیلی کے لیے استعمال کرنا ہے جس میں کلیدی کردار اجتماعی قیادت کی تبدیلی کا ہے جو انقلابِ نو کا پیامبر بن سکے۔ انقلابِ قیادت میں سرفہرست سیاسی قیادت کی تبدیلی اور اُمت کے وسائل کو اُمت اور انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرنے کی راہ پر ڈالنا ہے۔ تبدیلیِ قیادت کا  یہ عمل صرف سیاسی قیادت تک محدود نہیں، یہ کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ جہتی ہے۔ اس کے لیے فکری قیادت، معاشی قیادت، سماجی ادارے اور سول سوسائٹی کی قیادت، طلبہ اور مزدوروں کی قیادت، غرض زندگی کے ہرہرشعبے میں ایسے افراد کوقیادت کے مقام پر لانا ہے جو اپنے اپنے دائرے میں زندگی کا رخ اسلام اور اسلام پر مبنی حیاتِ نو کی طرف پھیر سکیں اور قوم کو اس منزل کی طرف آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

تبدیلیِ قیادت کی قرآنی اور نبوی حکمت عملی میں فرد، معاشرہ اور اداروں میں اصلاحی عمل کے ذریعے زمامِ اقتدار میں تبدیلی ایک معروف چیز ہے لیکن اس غرض کے لیے تحریکاتِ اسلامی کو ایسے ادارے قائم کرنے ہوںگے جو نوجوان قیادت کو قرآن و سنت کے جہنم کے ساتھ قائدانہ صلاحیت، ابلاغی طریقوں اور صورت حال کو قابو میں لانے کے ذریعے سے مکمل آگاہی اور عملی تجربہ رکھتے ہوں۔ تحریکِ اسلامی کی اصل دولت اس کی وہ افرادی قوت ہے جو متحرک، بالیقین اور باوقار ہوچکا ہے جس کا ہرعمل دوسروں کو دعوتِ عمل وفکر دینے والا ہو۔ جو پہلے سے موجود فکر کے استعمال کے ساتھ جدید مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور فکر کی نئی راہیں دکھانے پر قادر ہوں وہ فکر کو محض استعمال (consume) نہ کریں بلکہ فکر کو پیدا (produce) کریں۔

ان تمام سرگرمیوں کی بنیاد جس چیز پر ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اس دنیا میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے دیے ہوئے دین پر عمل کے ذریعے نجاتِ اخروی ہے۔ اس لیے احتسابِ نفس اور خوفِ آخرت ہی وہ قوتِ محرکہ ہے جو اُمت مسلمہ کو دوبارہ اس کی کھوئی ہوئی عظمت دلا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت میں غیرمعمولی طور پر برکات، وسائل اور قوتیں رکھ دی ہیں، صرف انھیں جگانے، جلابخشنے اور میدانِ عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ اللہ کی توفیق اور ہدایت اگر ساتھ ہے تو راہ کی ہرمشکل راحت بن جائے گی اور ہر رکاوٹ آسانی میں تبدیل ہوجائے گی،وما توفیقی الا باللّٰہ۔