فروری ۲۰۰۹

فہرست مضامین

کتاب نما

| فروری ۲۰۰۹ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

Islam and Politics: Emergence of Reformative Movement in Indonesia [اسلام اور سیاسیات: انڈونیشیا میں تحریکِ اصلاح کا ظہور]، سوہیرین محمد صالحین۔ ناشر: انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی ملایشیا۔ صفحات: ۳۰۳، قیمت: ندارد۔

انڈونیشیا، دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست (آبادی: ۲۰ کروڑ) اور کئی لحاظ سے ایک منفرد ملک ہے۔ یہ ۱۳ ہزار ۶سو ۷۷ جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے ۶ ہزار جزائر میں ۳۰۰ مختلف نسلی گروہ آباد ہیں، جو ۲۰۰ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ اس طرح یہ ملک دنیا میں سب سے زیادہ ثقافتی اور تہذیبی بوقلمونی کا آئینہ دار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں علاقائی اور نسلی انتشار اور بغاوت کی کیفیت، ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔

انڈونیشیا پر ۱۹ویں صدی میں ولندیزی استعمار نے قبضہ جمایا۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں جاپانی آئے، اور اُن کے بعد آزادی کی تحریک میں تیزی آئی، جو بالآخر احمد سوئیکارنو کی قیادت میں کامیاب ہوئی، اور ۱۹۴۵ء میں انڈونیشیا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ سوئیکارنو نے ’پنچ شیلا‘ کے عنوان سے حکمرانی کے پانچ بنیادی اصولوں کا اعلان کیا، جو ملک کے آئین کے رہنما اُصول قرار پائے: اللہ پر یقین، انسان دوستی، شورائیت کے ذریعے جمہوریت،  قومی یک جہتی اور سماجی انصاف۔ اشتراکیوں کے لیے اُن کے دل میں نرم گوشہ تھا، کیونکہ سامراج کے خلاف جدوجہد میں ان کا بھی ہاتھ تھا۔ خیال ہے کہ امریکی سازش ہی کے ذریعے سوئیکارنو کا تختہ اُلٹ کر فوج کی مدد سے سوہارتو برسرِاقتدار آئے اور ’آئینِ نو‘ (New Order) کے ذریعے معیشت پر حکومتی کنٹرول کو کم کرکے کاروباری طبقے کو زیادہ آزادی اور مراعات دیں۔ شروع میں اشتراکیت مخالف نوجوانوں نے سوہارتو کو خوش آمدید کہا، تاہم اُن کے ۳بیٹوں اور خاندان کے افراد نے مالی منفعت کے اشتغال میں خوب ہاتھ رنگے اور ان کے خلا ف تحریکیں شروع ہوگئیں۔

اس پس منظر میں انڈونیشیا میں ’اصلاحات‘ کی وہ تحریک شروع ہوئی جس کے سربراہ   امین رئیس نے سماجی، سیاسی اصلاحات کے لیے ’محمدیہ‘ کی بنیاد رکھی۔ اور ’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کے تحت ’دعوہ‘ کا کام شروع کیا۔ اُن کے نزدیک یہ محض زبانی دعوت و نصیحت کا کام نہیں تھا، بلکہ   یہ ایک عملی تحریک تھی حکومت کی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی۔ اُن کے خیال میں دانش ور،     ارکانِ پارلیمان اور مسلم نوجوانوں کے درمیان مکالمے کے ذریعے ہی تبدیلی کی راہ ہموار ہوسکتی تھی۔

امین رئیس، خود بھی ایک دانش ور، اہلِ قلم اور ایک بڑے قائد تھے۔ مولانا مودودیؒ کی طرح انھوں نے اعلان کیا کہ اسلام صرف عبادات اور رسومات کا مجموعہ نہیں، بلکہ زندگی کے ہرشعبے پر محیط ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس میں سیاسی عمل میں بھرپور حصہ لینا بھی شامل ہے۔ گاجامادو یونی ورسٹی میں ملازمت کے دوران انھوں نے نوجوانوں اور اساتذہ کو جمع کرکے ’صلاح الدین اسلامک فورم‘ کی بنیاد رکھی، اور سوہارتو کے ہاتھوں ملک میں ’جدیدیت‘ اور مغربی فکر کی ترویج پر علمی انداز میں بھرپور تنقید کی۔ انھوں نے روایتی علما پر بھی تنقید کی، جو دین کو لے کر عصری تقاضوں سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے خیال میں تبدیلی کا راستہ، تعلیم و تلقین ہے نہ کہ تشدد اور زبردستی سے۔ انھوں نے کہا کہ سوہارتو کے عہد میں مسلمانوں کو دھکیل کر کونے میں پہنچا دیاگیا ہے اور ضرورت انھیں اسٹیج پر لانے کی ہے۔

۱۹۹۰ء میں بی جے حبیبی نے انڈونیشیا کے مسلم دانش وروں کی جماعت بنائی، جس میں امین رئیس کا بھی ہاتھ تھا، تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ انڈونیشیا میں تحریکِ اصلاح کی یہ داستان طویل ہے۔ سوہارتو کی حکمرانی کے ۳۰ سال میں بظاہر جمہوریت کا دور دورہ تھا لیکن کچھ اصلاحات کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے عیسائیوں اور مسلمانوں، دونوں کو راضی کرنے کے باوجود، ناراض کیا۔ اپنی آخری کابینہ میں انھوں نے مسلمان وزرا کی تعداد بڑھا دی تھی، شریعت کے اصولوں پر معیشت کو استوار کرنے، جوئے اور لاٹری پر پابندی، لڑکیوں کو اسکول میں اسکارف پہننے کی آزادی، اسلامی عدالت ِ انصاف کے قیام اور ایسے بہت سے کاموں سے عیسائی زیادہ ناراض ہوئے اور مغرب کو یہ اندیشہ ہونے لگا کہ شاید وہ ملک کو ’اسلامیانے‘ جا رہے ہیں۔

اسلامی تحریک بہرحال اس سارے گرم و سرد میں اپنا کام کرتی رہی۔ سوہارتو کے سقوط کے بعد حبیبی نے اقتدار سنبھالا۔ مگر وہ ایک کمزور حکمران تھے۔ ان کے بعد میگاوتی کے مقابلے میں  غوث دُر (Gus Dur) نے بحیثیت صدر انتخاب کو ’محمدیہ‘ اور ’نہضت العلما‘ ___ یعنی اسلامی قوتوں اور امین رئیس کی فتح قرار دیا تھا، تاہم وہ بھی اس وسیع البنیاد کرپشن کو ختم کرنے میں ناکام رہے، جو انڈونیشیا کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا تھا۔ میگاوتی کی صدارت کے لیے راستہ صاف ہوگیا تھا۔ اس خاتون نے فوج، علما، اسلامی اور عیسائی ، تمام قابلِ ذکر عناصر اور قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ انڈونیشیا میں فوج ہی ایک فیصلہ کُن قوت ہے۔

جیساکہ پیش لفظ میں پروفیسر الفتح عبدالسلام کہتے ہیں: یہ معلوماتی کتاب انڈونیشیا کے دانش وروں، سیاست دانوں اور نوجوان طلبہ کے لیے خصوصاً مفید ثابت ہوگی کہ یہی سوہارتو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے اور ملک کی سیاست میں ایک اہم عامل رہے، مگر مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ مصنف کا بھی خیال ہے کہ انڈونیشیا میں اصلاح کی تحریک مزعومہ نتائج پیدا نہیں کرسکی۔

اس مختصر کتاب میں استعمار سے ’آزادی‘ کے بعد انڈونیشیا جیسے بڑے ملک میں جمہوریت، اصلاحِ معاشرہ اور سیاسی عمل کے ذریعے اسلامی اقدار کے احیا کی کوششوں کے جائزے میں اُن تحریکوں کے لیے بھی سبق ہیں، جو انھی اہداف کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ساری دنیا میں اصلاح، تبدیلی اور انقلاب کے خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک اہم ’مسلم ملک‘ میں ناکامیوں کی اس داستان کا مطالعہ مفید ہی ہوسکتا ہے۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


آزادی کی قومی تحریک: تحقیق و تجزیہ، ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ ناشر: مکتبہ تعمیرانسانیت، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون: ۷۲۳۷۵۰۰-۰۴۲۔صفحات مجلد: ۱۵۶۔ قیمت: ۱۶۵ روپے۔

پاکستان میں عمومی طور پر تاریخ کے مطالعے اور جغرافیے کے فہم کی بنیادیں بے توجہی کا شکار ہیں۔ باوجودیکہ مطالعہ پاکستان ڈگری کلاسوں تک کے طلبہ و طالبات کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، لیکن بے کیف، غیرمربوط، بلکہ تکرار پر مبنی متن کی وجہ یہ مضمون خصوصاً اس میں شامل تحریکِ آزادی کا باب، طالب علموں کی دل چسپی کا باعث نہیں بن سکا، جسے بدقسمتی کے سوا کیا کہا جائے؟

ممتاز محقق اور دانش ور ڈاکٹر معین الدین عقیل کی زیرتبصرہ کتاب اس کمی کو دُور کرنے کی سمت میں ایک بامعنی کاوش ہے۔ یہ ۶ ابواب پر مشتمل ہے، اور زیربحث موضوع پر حقائق و معارف کو اختصار، جامعیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ بلامبالغہ یہ کتاب: ’’ہماری قومی تاریخ [تحریکِ آزادی] کے قریب قریب، تمام اہم محرکات، عوامل اور مراحل کا احاطہ‘‘ (ص ۷) کرتی ہے۔

مصنف نے آغاز ہی میں مغربی توسیع پسندی کے حوالے سے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ: ’’اس میں اہم محرک ہسپانوی عیسائیوں کا وہ مذہبی جنون بھی تھا، جو اسلامی حکومتوں کو اندلس میں ختم کردینے کے بعد افریقہ کے شمالی کناروں پر مور اور بربر [مسلمانوں] پر اپنا جوش انتقام صرف کرنا چاہتا تھا۔ مشرق کے لیے ان کی مہمیں صلیبی جنگوں کو ایک دوسرے انداز سے جاری رکھنے کا ذریعہ تھیں‘‘ (ص ۹)۔ اس پس منظر کواُجاگر کرنے کے بعد مصنف نے برطانوی سامراج کی چیرہ دستیوں اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے مراحل کو رواں نثر اور مربوط انداز سے پیش کیاہے۔

اس جدوجہد ِآزادی میںتحریکِ خلافت کو ایک اہم مقام حاصل تھا جس کے مرکزی کرداروں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’علی برادران [مولانامحمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی]… ابتداً کانگریس اور گاندھی کے وفادار رہے، مگر آہستہ آہستہ ان کی آنکھوں سے پردے اٹھتے گئے‘‘   (ص ۸۱)۔ ہندو کی نسل پرستانہ مذہبیت اور سماجی زندگی میں تنگ نظری نے رفتہ رفتہ ہندی مسلمانوں کے سوادِاعظم کو اس راہ پر پختہ تر کردیا کہ وہ جمہوریت کے نام پر ہندو اکثریت کی غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کریںگے۔ بعدازاں علامہ محمد اقبال کے تصورِ پاکستان اور قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں آزادی کی جدوجہد تحریکِ پاکستان کا عنوان اور تخلیقِ پاکستان کا ذریعہ بنی۔

یہ کتاب اپنے دل چسپ اسلوب، مصدقہ حقائق اور معلومات افزا ذخیرے کے ساتھ  اپنے موضوع پر ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)


لکھنؤ کے ادب کا معاشرتی و ثقافتی پس منظر (۱۸۵۷ء -۱۹۴۷ء) ڈاکٹر سید عبدالباری۔ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی۔ صفحات: ۳۱۵۔ قیمت: ۲۵۰ روپے (بھارتی)۔

ثقافتی و معاشرتی تناظر میں ادب کا مطالعہ تنقید میں بڑا اہم موضوع ہے۔ ادب جہاں معاشرت و ثقافت کو متاثر کرتا ہے، وہاں ان سے خود بھی متاثر ہوتا ہے۔ زندگی کی اقدار تبدیل ہوتی ہیں تو ادب میں بھی اس کی جھلک نظر آنی شروع ہوجاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

ڈاکٹر سیدعبدالباری نے معاشرتی و ثقافتی پس منظر میں لکھنوی ادب کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے انھوں نے قبل ازیں ’’لکھنؤ کا ادب عہد نوابین اودھ کے ثقافتی تناظر میں‘‘ کا مطالعہ پیش کیا۔

۱۸۵۷ء کا سال برعظیم کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے جس نے ادب و زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا۔ چنانچہ اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالباری نے ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے ادب پر ثقافتی و معاشرتی اثرات کا الگ سے جائزہ لیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالباری بتاتے ہیں کہ ۱۹۰۱ء تک کے ادب پر قدیم لکھنؤ کی ثقافت و معاشرت کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔ اصنافِ نظم و نثر میں روایتی لکھنوی انداز موجود ہے۔ داستان اور ڈرامے کو خاص مقبولیت حاصل تھی۔ مثنوی نگاری نے اس عہد کے اخلاقی انحطاط کا بھرپور عکس پیش کیا ہے۔ ریختی اور واسوخت جیسی اصناف    اظہارِ خیال کا وسیلہ تھیں۔ قدیم تہذیب سے وابستگی کا رجحان ان کے ہاں بطور خاص ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالباری بتاتے ہیں کہ ۲۰ویں صدی کے آغاز میں اس جمود میں یکایک ایک لہر اُٹھی اور اس نے نئے سماجی و سیاسی رجحانات کو قبول کرنا شروع کردیا۔ اخلاقی اور روحانی نشاتِ ثانیہ کا احیا ہوا، چنانچہ اس عہد کے ادب میں غیرمعمولی قوتِ نمو اور نشوونما کی صلاحیت نظر آتی ہے۔ اُردو ادب نے خاص طور پر تحریکِ آزادی کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی۔

پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے ڈاکٹر عبدالباری کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے مصنف کی تنقیدی بصیرت کی تحسین کی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ادب کے عمرانی و ثقافتی مطالعے کی راہ آسان کرتی ہے اور ڈاکٹر عبدالباری کا یہ کارنامہ زندگی اور ادب کے مربوط رشتے کو سمجھنے میں تحقیق و تنقید کے نئے دَر وَا کرتا ہے۔ کتاب کا معیار طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


جہات الاسلام (شش ماہی مجلہ)، مدیراعلیٰ: ثمرفاطمہ مسعود، مدیر: محمد ارشد، ناشر: کلیہ علومِ اسلامیہ، جامعہ پنجاب، نیوکیمپس، لاہور۔ صفحات اول: ۲۵۲، شمارہ دوم: ۲۴۰۔ قیمت فی شمارہ: ۱۰۰روپے

معیاری یونی ورسٹیوں کی پہچان کا ایک حوالہ اساتذہ کا علمی مقام اور تحقیقی ذوق ہے، تو دوسری جانب بلندپایہ مقالات کی اشاعت کا ذریعہ بننے والے باقاعدہ تحقیقی مجلے ہیں۔ اقربانوازی اور تساہل پسندی نے جامعات کی اس روایت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ انحطاط کی یہ پرچھائیاں ان اداروں کی کثرت، پرشکوہ عمارتوں اور اساتذہ پر اپنا سایہ ڈالتی نظر آتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر کسی یونی ورسٹی سے بالخصوص ادب یا سماجی علوم پر کوئی معیاری مجلہ نظرنواز ہوتا ہے تو مسرت، امید اور ولولہ تازہ کی لہر کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انھی جذبات و احساسات کی گواہی زیرتعارف تحقیقی مجلہ جہات الاسلام پیش کرتا ہے، جسے نوجوان محقق ڈاکٹر محمد ارشد نے علمی و جمالیاتی ذوق اور پیش کاری و باقاعدگی کے سلیقے کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔

مدیرہ اعلیٰ نے افتتاحی شذرے میں لکھا ہے: ’’مجلے کے اس نام کے پس منظر میں یقینا اراکینِ مجلس کی یہ فکر اور سوچ شامل ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے‘‘ (ص۷) اور اس سوچ کی جھلک ان دونوں شماروں کے مقالات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ شمارہ اول کے مقالات میں: ’محمد بن علی السنوسی کی تجدیدی تحریک‘ از خالد محمود ترمذی، ’عہدنبویؐ میں حکمرانی پر ایک نظر‘ از نثاراحمد، اقبال کا تصورِ اجتہاد، تنقیدی مطالعہ از وحید عشرت، بین الجہاد والارہاب فی العصر الحدیث از ابراہیم محمد، ’خطباتِ اقبال کا تنقیدی مطالعہ‘ از برہان احمد فاروقی، شمارہ دوم میں الاشتباہ والنظائر فی القرآن:تنقیدی جائزہ، سید رضوان علی ندوی، النقد الکلامی للاناجیل، عبدالحکیم فرحات، شوریٰ کا ادارہ، ابتدائی فقہا کی نظر میں از محمد یوسف فاروقی، ’احیا اصلاح اور اسلام کا ملّی تصور، جنوبی ایشیا میں‘ از عبدالرشید متین، ’اسلام اور مغرب‘ از عبدالقدیر سلیم، ’مسلم بنگال کی تعمیرات میں فن خوش نویسی کا تجزیہ‘، محمد یوسف صدیق، وغیرہ دل چسپ اور معلومات افزا مقالات ہیں۔

مجلے کے مضامین اُردو، عربی اور انگریزی میں ہیں۔ مجلس ادارت اس معیاری مجلے کی اشاعت پر مبارک باد کی مستحق تو ہے ہی، تاہم دوستی یا محض اپنے ہی ادارے کے رسمی مقالات کی اشاعت سے اجتناب برتنا بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔ البتہ ایک دو تبصرے مجلے کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتے۔ مجموعی طور پر اس نئے تحقیقی مجلے کے طلوع کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ (س-م-خ)


یادوں کی تسبیح، قاضی عبدالقادر۔ ناشر: مکتبہ الہدیٰ، ڈبائی منزل، ۵۷۷-اے، بلاک جے،   نارتھ ناظم آباد، کراچی۔ صفحات: ۳۸۲۔ قیمت (مجلد): ۴۰۰ روپے۔

ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ: ہر انسان کی زندگی ایک دل چسپ داستان کی حامل ہوتی ہے، مگر اسے بیان کا سلیقہ خال خال لوگوں کو نصیب ہوتا ہے___  کہا جاسکتا ہے کہ قاضی عبدالقادر کی داستانِ حیات دل چسپ بھی ہے اور انھوں نے اسے سلیقہ مندی سے پیش کیا ہے۔

زندگی ایک قیمتی چیز ہے اور اللہ کا انعام بھی۔ جن خوش قسمت لوگوں نے اسے اللہ کی رضا میں لگایا، ان میں سے بہت کم لوگوں نے اپنی یادداشتوں کو محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ قاضی عبدالقادر نے اس مشکل راستے پر چلنے کا چیلنج قبول کیا، اور مضبوط یادداشت، بیدار ذہن، باریک بین نگاہ اور شگفتہ اسلوبِ نگارش کی صفات کے ساتھ، مہ و سال زندگی کا یہ دبستان قلم بند کردیا۔

اوائل میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ اور عملی زندگی میں جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے دست و بازو بنے۔ ان تینوں تنظیموں میں باہمی تعلقات، واقعات و حوادث، جدوجہد اور عزم و ہمت کے مراحل کو اس انداز سے لکھا ہے کہ اس حکایت لذیذ نے ایک دل چسپ ناول کا سا روپ اختیار کرلیا ہے۔ اس بزم میں تحریک اور تاریخ کے بہت سارے معاصر کرداروں کو اپنی فکر اور عمل کے ساتھ چلتے دیکھا جاسکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بظاہر یہ ایک فرد کی شخصی زندگی پر مشتمل خود نوشت گواہی ہے، مگر اس آئینے میں ان اسلامی تحریکات کے کارکنان: ہمت، تاریخ، عبرت اور کامیابی کے گوناگوں رنگوں کے، پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔

مصنف کی راے ہے کہ: ’’تحریکوں کا دورِ اول بہت تابناک ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، یہ تابناکی ماند پڑنے لگ جاتی ہے، اور کبھی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ع   تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘‘ (ص ۳۲۲)۔ یہ تبصرہ دینی، سیاسی، اصلاحی تحریکوں کے لیے غوروفکر کا پیغام لیے ہوئے ہے، اور تاریخ کا مطالعہ دراصل ہوتا ہی اس لیے ہے کہ اس کے آئینے میں بہتری کی جستجو کی جاسکے۔(س-م-خ)

تعارف کتب

  •  گفتار مودودی ، مرتبہ : اخترحجازی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۲۱۵۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔ [مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒنے ۱۴ نومبر۱۹۶۷ء سے ۱۴ اگست ۱۹۶۸ء کے دوران بالخصوص مغربی پاکستان کے دورے میں جماعت اسلامی کے اجتماعات میں جو تقاریر کیں، یہ ان تقاریر کی رپورٹنگ پر مشتمل ہے۔ ان تقاریر کو ایشیا اور آئین سے اخذ کیا گیا ہے۔ تقاریر میں مولانا مودودی نے دعوتِ دین اور اقامت ِ دین کی طرف توجہ دلائی ہے۔ موضوع کی مناسبت سے کتاب کا نام موزوں معلوم نہیں ہوتا۔]
  •  آسان میراث ، مولانا محمد عثمان نووی والا۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ، ST-9E، بلاک ۸، گلشن اقبال، کراچی-۷۵۳۰۰۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۷۰ روپے۔ [میراث کے مشکل مسائل اگرچہ مصنف نے      اپنی دانست میں آسان کر کے بیان کردیے ہیں۔ بایں ہمہ عام آدمی کے لیے اب بھی انھیں سمجھنا مشکل ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے بقول مصنف: ایک ’نایاب تحفہ‘ ۔]
  •  دینی مدارس ، تبدیلی کے رجحانات ،خالد رحمن، معاونت: سید متقین الرحمن، اکرام الحق۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، بلاک ۱۹، مرکز F/7، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۴۱۔ قیمت: ۳۷۵۔ [پاکستان کے مختلف دینی مدارس کے متعلقین کے سامنے انسٹی ٹیوٹ نے وہ سوالات رکھے جنھیں دینی مدارس کی فکر، انتظام، حکمت عملی اور نئے تجربات کے بارے میں لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ ان جوابات کو زیرتعارف کتاب میں یک جا کیا گیا ہے۔]
  •  اراکان (باشندے، سرزمین، تاریخ) سیف اللہ خالد۔ ناشر: ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (وامی) پوسٹ بکس نمبر ۹۱۰۴، دمام، سعودی عرب۔ ملنے کا پتا: حسان خالد، پی او بکس ۵۹۱، کراچی- ۷۴۲۰۰۔ صفحات: ۴۷۔ قیمت: ۵۰ روپے۔[برما کی شمال مغربی ریاست اراکان جو کبھی روہنگیامسلمانوں کی آزاد مسلم ریاست تھی، گذشتہ نصف صدی سے فوجی آمریت کے ہاتھوں مظلوم مسلمانوں کا زندان و مقتل بنی ہوئی ہے اور دنیا اس کی حقیقت سے پوری طرح باخبر نہیں۔ مسلمانوں کی نصف سے زائد آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہے۔ کتابچہ اراکان کے جغرافیائی احوال، تاریخی پس منظر، روہنگیا مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، حکومتی مظالم و جبر بالخصوص قانونِ شہریت جس نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، کے بعد کی صورت حال پر مبنی ایک اہم اور مختصر دستاویز ہے۔]
  •  My Personal Planner [ذاتی منصوبہ ساز]، بشیرجمعہ۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب، پی او بکس ۱۲۳۵۶، گزری، ڈی ایچ اے، کراچی-۷۵۵۰۰۔ ملنے کا پتا: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۵۴۳۴۹۰۹۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [ مؤثر شخصیت، کاروبار یا کیریئر کی منصوبہ بندی، نیز متوازن گھریلو اور سماجی زندگی کے لیے عملی رہنمائی۔ مختلف خاکوں کے ذریعے وقت کے بہتر استعمال اور مؤثر کارکردگی کے لیے بجاطور پر ایک گائیڈبُک۔ عام طور پر دستیاب پرسنل پلانرز سے کئی حوالوں سے ممتاز۔ وقت کے بہتر استعمال اور ضیاع اور بہتر مینجمنٹ سے متعلق ابتدا میں مفید مضامین۔]