فروری ۲۰۰۹

فہرست مضامین

مولانا محمد سلطانؒ کی یاد میں

امتیاز احمدشیخ | فروری ۲۰۰۹ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

مرکز جماعتِ اسلامی پاکستان منصورہ کے دفاتر جمعہ کو بند ہو تے ہیں، اس لیے منصورہ میں چھٹی تھی۔میں خریدو فروخت کے لیے منصورہ سے باہر تھا کہ تقریباً۱۰ بج کر ۳۰ منٹ پر موبائل پر گھنٹی بجی۔ فون سنا تو منصورہ ایکسچینج سے خبر ملی کہ مولانا محمد سلطان صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ بے ساختہ میری زبان سے انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون کے الفاظ نکلے ۔ فوری طور پر یہ خبر سن کر ایسا لگا جیسے میرے اپنے باپ کا انتقال ہو گیا ہو۔کچھ دیر کے بعدمیں منصورہ پہنچا اور سیدھا مولانا سلطان صاحب کی رہایش گاہ پر آگیا۔

مولانا محترم مرکزی تربیت گاہ کے ناظم تھے ،اور ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۲ء تک میں ان کے ساتھ معاون کے طور پر کام کرتا رہا۔ اس طرح مجھے ایک مدت تک مولانا کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔   وہ ایک نیک صفت اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرے اُجلے کپڑوں میں ملبوس رہتے اور مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ مولانا محترم کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا کیا تھا جو بچپن ہی میں فوت ہو گیا ۔ اس لیے مجھے اپنی اولاد کی طرح سمجھتے تھے ۔میں ان کے گھر میں آتا جاتا رہتا تھا۔ مولانا محترم جماعتی کام سے یا کسی عزیز کے پاس جاتے تو مجھے اکثر ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ چاروں صوبوں کا دورہ کیااور تربیت گاہوں میں شرکت کی۔

مولانا محترم نمازِ تہجد کے پابند تھے۔جب بھی ہم مرکزی تربیت گاہ کے لیے باہر جاتے اور رات کے وقت میری آنکھ کھلتی تو مولانا مصلے پر کھڑے نظر آتے۔ بعد میں فجر کی نماز کے لیے مجھے اٹھاتے تھے۔میں اُن سے قرآن بھی پڑھا کرتا تھا، اس طرح وہ میرے استاد بھی تھے۔ میں جب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا تھااس وقت اُن کے والد زندہ تھے۔ ان کا نام محمدحیات تھا۔ وہ ایک آرام کرسی پربیٹھا کرتے تھے جو مولانامحترم نے خاص طور پر ان کے لیے بنوائی تھی ۔ان کے ایک بھائی محمد خان بھی ان کے پاس رہتے تھے ،ویسے تو مولانامحترم کے چار بھائی اور ایک ہمشیرہ تھی، بعد میں ان کے ایک اور بھائی محمد زمان خان بھی کراچی سے ان کے پاس آگئے تھے اور یہیں فوت ہوئے ۔ مولانا محترم کی بیوی ایک نیک سیرت خاتون تھیں جو بہت صفائی پسند اور سلیقہ مند تھیں۔ انھوں نے مولانا کے والد اور بھائی کی بہت خدمت کی۔ دونوں کا بہت خیال رکھتیں۔ وہ پردے کی بہت پابند تھیں ۔میں نے ان کو کبھی پردے کے بغیر نہ دیکھا ۔ پردے کی حالت میں ہی وہ مولانا سلطان صاحب کے بھائی اور والد کی خدمت کرتیں۔

مولانا محترم کا کوئی ذاتی مکان،پلاٹ یا بنک بیلنس نہ تھا۔ وہ جماعت کے کوارٹر میں رہایش پذیر تھے جس کوان کی اہلیہ بہت صاف ستھرا رکھتی تھیں۔ہرچیز سلیقے سے رکھی ہوتی، کبھی  کوئی چیز بکھری نہیں ہوتی تھی۔ مولانا محترم نے اپنے گھر میں ایک لائبریری بنا رکھی تھی جس میں تفہیم القرآن، تدبر القرآن، فی ظلال القرآن کے علاوہ قرآن کی بہت سی تفاسیر اور دیگر کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ مولانامحترم نے اپنے دفتر میں بھی ایک بڑی لائبریری بنا رکھی تھی ۔

وہ ایک عرصے تک مولانا مودودی ؒ کے معاونِ خصوصی کی حیثیت سے کام کرتے رہے، اس لیے ان میں مولانا مودودی ؒ کی جھلک بھی نظر آتی تھی۔ مولانا محمدسلطان ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے دفتر آجا یا کر تے تھے حالانکہ دفتر کا ٹائم ۹بجے کا تھا۔ ساڑھے بارہ بجے نمازِ ظہر کی تیاری اور  وضو کرنے کے لیے گھر تشریف لے جاتے تھے ۔جیسے ہی اذان ہوتی تو فوراً مسجد میں تشریف    لے آتے۔نماز ختم ہو نے کے بعد بھی تھوڑی دیر تک مسجد میں بیٹھے اللہ کی یاد میں لگ جا تے ۔    نمازِ عصرکے فوراً بعد دفتر میں تشریف لاتے اور کوئی نہ کوئی کتاب مطالعہ کرتے۔

مولانا محمدسلطانؒ بہت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔

  • مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی (اول،دوم) 
  • تصوف اور تعمیرسیرتؐ 
  • یادگار لمحات 
  • علم و عمل
  • لازوال نصیحتیں
  • گفتار و افکار 
  • تحریکِ اسلامی کا مقصد طریقہ کار
  • مولانا مودودیؒ پر جھوٹے الزامات اور ان کے مدلل جوابات، 
  • نصابِ حدیث 
  • اسلام میں عورت کا کردار )ان میں سے چند ہیں۔مولانا اپنا قلمی نام عاصم نعمانی مصنف کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ایک دفعہ انھوں نے ایک کتاب لکھی اور مجھے قائدینِ جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے بھیجا۔ اس وقت مجھے ان کے پاس کام کرتے ہوئے ۸سال گزر چکے تھے۔ میں نے پوچھا مولانا محترم! یہ عاصم نعمانی کون ہیں؟ مولانا مسکرائے اوربولے: میرا ہی نام عاصم نعمانی ہے ۔ میں بہت حیران ہوا۔ میں نے کہا: مولانا محترم آپ نے اپنااصل نام اپنی کتابوں میں کیوں نہیں استعمال کیا؟ فرمانے لگے: بس غلطی ہوگئی، مجھے عاصم نعمانی کے نام سے بہت کم لوگ جا نتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی اخباروں میں کالم یا مضمون بھی لکھتے اور اخبارات میں چھپنے والے کالموں یا مضامین کے جوابات بھی دیتے تھے۔

مولانا محترم کی آخری کتاب جو انھوں نے خواتین کے مسائل کے بارے میں لکھی: اسلام میں عورت کا کردار شفیق الاسلام فاروقی صاحب نے حرا پبلی کیشنز سے شائع کی۔ اس میں عورتوں کے بہت سے مسائل کا حل مو جو د ہے ۔ مولانا محترم کی دو کتابیں علم و عمل اور نصابِ حدیث مر کزی تربیت گاہ میں سالہا سال سے پڑھائی جا تی ہیں۔ وہ بہت اچھے مربی تھے، فا رغ درسِ نظامی تھے اور بی اے بھی کر رکھا تھا۔ انھوں نے عرصۂ دراز تک درسِ قرآن، درسِ حدیث اور سیرت کے مو ضوع پر خطاب کیا۔ مرکزی تربیت گاہ میں اہتمام کے ساتھ درسِ حدیث دیا کر تے تھے جو ۶ دنوں کا سبق ہوا کرتا تھا۔ وہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ کے نائب مہتمم بھی تھے اور وقتاً فوقتاً مدرسہ مرکز علومِ اسلامیہ کے دفاتر میں جا کر بیٹھا کر تے تھے اور مرکز علوم اسلامیہ کے کاموں کا جائزہ لیتے۔ مرکز علوم اسلامیہ کا حساب چیک کرتے اور ہدایات دیتے۔

وہ دورۂ تفسیر القرآن کے بھی انچارج تھے اور کئی سالوں تک ان کی نگرانی میں دورۂ تفسیر ہوا۔ رمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے ہی وہ دورۂ تفسیر کے انتظامات کا جا ئزہ لیتے اور ان کی تیاری میں لگ جاتے۔ شیخ القرآن والحدیث مولانا گوہر رحمنؒ (سابق ایم این اے اورمہتمم مدرسہ تفہیم القرآن مردان) منصورہ میں دورۂ تفسیر کرواتے تھے ۔ مولانا محترم ان کی رہایش کا انتظام فرماتے۔ جس مکان میں مولانا سلطان صاحب کا انتقال ہوا، وہیں مولانا گوہر رحمن صاحب آکرٹھیرتے تھے۔ مولانا محترم ان کے لیے قرآن کی تفاسیر اور دوسری کتابوں کا انتظام کرتے ۔ اُردو بازار سے تاج کمپنی کے قرآن مجید خرید کر لاتے اور شرکاے دورۂ تفسیر کو ان کا ایک ایک نسخہ خود دیتے اور کچھ قرآن پاک مسجد میں رکھوا دیتے تاکہ دورۂ تفسیر کے شرکا کو کسی قسم کی دقت محسوس نہ ہو۔

محترم قاضی حسین احمد نے جب مسجد کمیٹی کی ذمہ داری بھی مولانا محمدسلطان صاحب کے سپرد کر دی تو وہ مسجد کی خوب خدمت کرتے۔ باقاعدگی سے ہر ماہ مسجد کمیٹی کا اجلاس بلاتے اور مسجد کی بہتری کے لیے تجاویز اور مشورے لیتے اور ضروری مسئلوں کو فوری حل کرنے کی کوشش کرتے۔رمضان المبارک میں تراویح کا اہتمام کرواتے اور حافظ محمد ادریس صاحب کو تراویح پڑھانے کے لیے آمادہ کر تے ۔حافظ محمد ادریس صاحب برسوں جامع مسجد منصورہ میں مولانا محترم کی نگرانی میں نمازِ تراویح پڑھاتے رہے۔ خادمینِ مسجد کا بھی خیال رکھتے ۔ہر سال رمضان المبارک میں خادمینِ مسجد کو اپنے گھر افطاری کی دعوت دیتے اور ان سب کو نئے کپڑے خرید کر دیتے۔ کپڑوں کی سلائی بھی اپنی جیب سے دیتے تھے اور ان کو عید سے پہلے پہلے سلوانے کے لیے کہتے۔

ایک موقع پر ایک مزدور مولانا صاحب سے ملنے آیا جو منصورہ میں ایک زیرِتعمیر مکان میں کام کرتا تھا۔ وہ مولانامحترم سے کہنے لگا: اگر مجھے مسجد میں ملازمت مل جائے، تو میں خدا کے گھر کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ مولاناسلطان صاحب اُسے نہیں جانتے تھے مگر کہا کہ کل آجانا۔ پھر مجھے حکم دیا کہ اس کی درخواست لکھ دو۔ میں نے درخواست لکھی۔ مولانا محترم نے اپنی سفارش کے ساتھ اسے منظور کرایا اور اس کو مزدور سے خادمِ مسجد بنا دیا۔ وہ آج بھی منصورہ جا مع مسجد میں خادمِ مسجد کی حیثیت سے کام کر رہا ہے ۔اس کا نام محمد رمضان ہے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مولانا بندگانِ خدا کے کام آنے میں تکلف نہیں کرتے تھے۔ مولانا محترم کے پاس جو بھی ملنے آتا وہ مولانا کے حسنِ اخلاق کا اتنا قائل ہو جا تا کہ مولانا کا دوست بن جاتا ۔ وہ بہت مہمان نواز تھے اور اپنے مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کر تے ۔

منصورہ کے سٹاف کے لیے ہفتہ وار درسِ قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کی ذمہ داری بھی مولانا سلطان صاحب پر ڈال دی گئی ۔ وہ بہت اچھے طریقے سے درس کی تیا ری کرتے اور خوب صورت انداز میں اس کو پیش کرتے ۔محترم سید منور حسن صاحب اکثر درسِ قرآن کے بعد مولانا محترم کے حوالے سے بات کرتے کہ مولانا بہت اہتمام سے درس کی تیاری کر کے آتے ہیں اور اس کے لیے کافی محنت کرتے ہیں، اس لیے ہم سب کو اس درس قرآن میں باقاعدگی سے شرکت کرنی چا ہیے اور اس سے زیادہ سے زیا دہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مولانا کی اہلیہ کادسمبر۱۹۹۵ء میں انتقال ہو گیا۔ اس طرح مولانا محترم تنہا رہ گئے۔ پہلی بیوی کے فوت ہونے کے چارپانچ سال بعد مولانا نے دوسری شادی کرلی ۔آخری عمر میں وہ یادداشت کھو بیٹھے اور اپنا نام تک بھول گئے، مگر اللہ کی قدرت تھی کہ اس ذہنی حالت میں بھی ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی۔ اذان کی آواز سن کر مسجد چلے جا تے، کبھی نماز میں شامل ہو جا تے، اور کبھی نماز پڑھے بغیر واپس آجاتے۔

۱۹۱۳ء میںضلع چکوال کے ایک گائوں (ملوٹ) میں پیدا ہونے والے مولانا محمدسلطان ۱۹دسمبر ۲۰۰۸ء کو ۷۸سال کی عمر میں منصورہ میں فوت ہو گئے اور اپنے خدا سے جا ملے۔ اس طرح اس درویش صفت انسان کا سفرِ آخرت ہوا اور ان کو کریم بلاک، گلشن اقبال، لاہور کے قبرستان میں   دفن کر دیا گیا۔ ہم سب مولانا محمد سلطان کی جدائی پر غم زدہ ہیں اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو ہیں ۔ان کی اولاد نہ تھی مگر مرکزی تربیت گاہ میں مولانا سے استفادہ کرنے والے ہزاروں کارکنان آج سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے نیک اعمال مولانا کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے درجات بلند کرے، انھیں ہمارے لیے با عثِ رحمت بنائے اور ان کا فیض ہمارے اوپر جاری رکھے۔ آمین!