حسبی اللّٰہ ونعم الوکیل …حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل… لاکھوں بے سہارا فلسطینیوں کا صرف یہی ایک سہارا رہ گیا تھا۔ کٹے پھٹے اعضا لیے، ملبے سے نکلتے، خون میں نہائے ہوتے، ایک ہی وقت میں دو دو، تین تین معصوموں کی لاشیں بازوؤں میں سمیٹی ہوتیں، یا ملبے اور لاشوں کے ڈھیر سے اپنے گم شدہ پیاروں کو تلاش کر رہے ہوتے۔ بولتے تو یہی کہتے: حسبی اللّٰہ ونعم الوکیل۔ ذرائع ابلاغ سے بات ہوتی تو گاہے بہ گاہے یہی دعا بددعا کی صورت بھی اختیار کرجاتی: حسبی اللّٰہ علی الحکام العرب… حسبی اللّٰہ علی الیھود ، ’’پروردگار عرب حکمرانوں کے مقابل تو کافی ہوجا… یہودیوں کے مقابلے میں تو ہمارے لیے کافی ہوجا۔ ان حکمرانوں اور یہودیوں سے تو خود نمٹ پروردگار‘‘۔
یہ بات ہر شک سے بالاتر ہے کہ اللہ کی اسی ایک سہارے کے باعث ۳۶۷ مربع کلومیٹر پر مشتمل غز.ّہ میں محصور ۱۵ لاکھ انسان مسلسل ۲۲ دن تک دنیا کے مہلک ترین ہتھیاروں کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگر ان مہلک ترین بموں کا عشرعشیر بھی کسی ایسی بڑی سے بڑی اور جدید سے جدید فوج یا ملک پر برسایاجاتا جس کے پاس یہ الٰہی آسرا سہارا نہ ہوتا تو وہ ۲۲ دن نہیں ۲ دن میں ہتھیار ڈال دیتا۔ ۱۹۶۷ء میں یہی اسرائیلی فوج آج سے کہیں کم ہتھیاروں کے ساتھ شام، مصر اور لبنان کی باقاعدہ افواج پر حملہ آور ہوئی، ۶دن کی جنگ میں مصر نے صحراے سینا، شام نے گولان کی پہاڑیاں اور لبنان نے سارا جنوبی حصہ اسرائیلی افواج کے سپرد کر کے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ یہ تینوں ملک مسلمان تھے لیکن ان کی قیادت حسبنا اللّٰہ کے بجاے بڑھکیں لگارہی تھیں۔ مَدَافِعُنَا تَـتَحَدَّی الْقَدَر ، ہماری توپیں تقدیر کو للکارتی ہیں۔
اہلِ غز.ّہ کا ایمان اور اللہ پر مکمل بھروسا رکھنے والی ان کی قیادت وہ اصل خطرہ تھا، جس سے نجات اس پوری خوں ریزی کا اصل ہدف اور اصل سبب تھا۔ جنوری ۲۰۰۶ء کے عام انتخابات میں حماس (حَمَّاس نہیں حَمَاس) کا حصہ لینا ہی قابض یہودی افواج، ان کے پالتو بعض سیاسی لیڈروں اور عالمی استعمار کے لیے سوہانِ روح بن گیا تھا۔ بش اور کونڈولیزا نے واضح طور پر دھمکی دی کہ اگر حماس منتخب ہوئی تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ خدا ہونے کے دعوے داروں کی دھمکیوں کے باوجود عوام نے حماس کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے منتخب کیا اور امریکا و اسرائیل نے فیصلہ دے دیا: ’’ان دہشت گردوں کو جینے کا کوئی حق نہیں‘‘۔
غز.ّہ کی پٹی تین اطراف سے اسرائیلی افواج کے گھیرے میں ہے۔ ایک جانب مصری صحراے سینا سے ملتی ہے۔ غز.ّہ آنے جانے کے لیے ۷ پھاٹک بنے ہوئے ہیں جن میں سے ۶اسرائیلی تسلط میں ہیں۔ رَفَح کا ایک پھاٹک (گیٹ وے) مصر میں کھلتا ہے۔ گویا پوری مسلم دنیا سے رابطے کا یہی ایک اکلوتا راستہ ہے۔ حماس کی جیت کے بعد رَفَح سمیت یہ ساتوں راستے بند کردیے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سامانِ خوردونوش اور پٹرول و پانی سمیت اہلِ غز.ّہ پر ہرشے حرام ہوگئی۔ غز.ّہ کو بجلی کی فراہمی یا تو مقبوضہ فلسطین سے ہوتی تھی یا خود غز.ّہ میں موجود جنریٹروں کے ذریعے، دشمن نے تو بجلی پانی بند کرنا ہی تھا، مصر کے راستے بھی پٹرول لے جانا جرم قرار پایا۔ جنریٹر بھی بند ہوگئے، غز.ّہ اندھیرے میں ڈوب گیا اور تو اور ہسپتالوں میں مشینوں کے سہارے زندہ مریض بھی بجلی نہ ہونے کے باعث دم توڑنے لگے۔
جلاد کا مطالبہ تھا حماس کا ساتھ چھوڑ دو۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جہاد (اقصیٰ کی آزادی کے لیے جہاد) سے دست بردار ہوجائو۔ ہاں، اگر قبلۂ اول کی آزادی کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی طرح خالی خولی نعرے لگانا چاہو تو لگاتے رہو۔ تمھیں نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ تمھارے لیے انعام کا اعلان (صرف اعلان) کیا جائے گا۔ اہلِ غز.ّہ نے جواب دیا: گذشتہ ۶۰برسوں سے یہی نعرے تو لگا رہے تھے، یاسرعرفات بھی تمھارے دھوکے میں آیا۔ تم نے پہلے اسے امن و بہادری کا نوبل انعام دیا اور پھر فرانس لے جاکر زہر دے دیا۔ دوسری طرف شیخ احمد یٰسین نے تحریکِ انتفاضہ کے ذریعے ہمیں جہاد کا سبق یاد دلایا۔ وہ خود تو شہید ہوگئے لیکن بالآخر ان کی برپاکردہ تحریک کے نتیجے میں تم غز.ّہ کی پٹی سے انخلا پر مجبور ہوگئے۔ خود تمھارے صہیونی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ تحریکِ انتفاضہ نہ ہوتی تو کبھی غز.ّہ سے نہ نکلتے۔
دسمبر ۱۹۸۸ء میں تحریکِ انتفاضہ کی آغوش میں پرورش پانے والی فلسطینی قوم اب مجاہدین کی پوری نسل رکھتی ہے۔ وہی مجاہد نسل جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفرمعراج میں مشاہدہ کروایا گیا تھا کہ اس کی فصل جتنی کٹتی ہے، اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ مجاہدین کی فصل نے حماس کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ بھوک، بے روزگاری، حصار اور غز.ّہ کو عملاً شعب ابی طالب بنا دیے جانے کے باوجود بھی جب حماس ہی آنکھوں کا تارا ٹھیری تو انبیا کی قاتل قوم نے پھر مقتل سجانے کی ٹھانی۔ مکمل تیاری کے بعد ’مناسب‘ وقت کا انتخاب کردیا گیا۔ دسمبر اور جنوری فلسطین میں سخت سردی کا موسم ہوتا ہے۔ فلسطین پر صہیونی قبضے کی تاریخ میں حیرت ناک طور پر اکثر جنگیں، اکثر قتل گاہیں اسی موسم میں سجائی گئیں تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ اذیت پہنچائی جاسکے، لیکن اس بار وقت کے انتخاب کی کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔
۱۰فروری کو اسرائیلی انتخابات ہونا ہیں۔ اس میں جیت کے بعد ایہود اولمرٹ کی جگہ وزیرخارجہ سیپی لفنی وزیراعظم بن سکے گی لیکن وزیردفاع باراک اور اپوزیشن لیڈر بنیامین نتن یاہو بھی مضبوط امیدوار ہیں۔ غز.ّہ پر حملے کے پہلے روز سے اسرائیلی راے عامہ کے جائزے شروع ہوگئے کہ وہ کسے حکمران منتخب کریں گے۔ سروے کے نتائج میں مسلسل تبدیلی کی بنیاد یہی رہی کہ فلسطینیوں کے قتلِ عام میں زیادہ سے زیادہ پیش پیش کون رہتا ہے۔
غز.ّہ پر توڑی جانے والی قیامت اپنی تمام تر ہلاکت خیزی اور توہینِ انسانیت سمیت تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ دنیا یوں ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ صرف غز.ّہ کے ایک لاکھ کے قریب یتیموں، بیوائوں اور زخمیوں کے علاوہ کسی کو ہولناک تباہی یاد نہیں رہی۔ صرف چند لاکھ بے گھر فلسطینی، چیتھڑوں سے سرد ہوائوں اور ان ہوائوں سے پیٹ کی آگ کا سامنا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ باقی دنیا تو حسبِ سابق اپنے معمولات میں غرق ہے یا زیادہ سے زیادہ صہیونی اور ہندو مشیروں میں گھِرے نئے امریکی صدر کے بچپن اور نام کے مختلف حصوں سے امیدیں باندھ رہی ہے۔ ایسے میں جنگ کے مناظر بیان کرنے، زخموں کی بپتا سنانے یا صف در صف پڑے معصوم فلسطینی پھولوں کی لاشوں کا نوحہ کہنا دنیا کے لیے اہم نہیں رہا۔ البتہ یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس ساری تباہی سے کسے کیا حاصل ہوا اور مستقبل پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟
خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا جائزہ لیں تو ان کی ایک تعداد اس پر خوشیاں منا رہی ہے کہ خوب تباہی کی… شاباش… مزید تباہی کرنا چاہیے تھی۔ لیکن اسرائیلی عسکری ماہرین اوردفاعی تجزیہ نگاروں کی اکثریت اعتراف کررہی ہے کہ ہم نے عالمی عوامی نفرت، مزید خطرات اور دشمن کو مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا۔ موساد کے سابق سربراہ افرایم ھلیفی دونوں پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس کی شان دار کارکردگی نے حماس کو المناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ ایک طرف اس کی عسکری صلاحیت بہت حد تک تباہ کردی ہے، اس کی قیادت کو بے سمت کردیا ہے اور دوسری طرف اسے سنی ممالک مصر، سعودی عرب اور اُردن سے دُور کردیا ہے۔ علوی ریاست شام اور شیعہ طاقتوں ایران و حزب اللہ کو بھی حقیقتاً اس سے الگ کردیا ہے، لیکن ہم مصیبت کے دوسرے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے۔ حماس کو تباہ کرنے کے لیے ہمارا حملہ جتنا شدید تھا، جس طرح اسرائیلی فوج نے اس پر بری، فضائی اوربحری حملوں کے ذریعے آگ کی بارش برسائی، اس سب میں سے حماس بچ نکلی اور اس طرح بچ نکلنے کی کوئی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی۔ وہ آج پھر کسی دیوہیکل صحرائی پرندے کی طرح ریت جھاڑتے ہوئے ملبے کے ڈھیر میں سے اُٹھ کھڑی ہوئی ہے اور مصر کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے بھی اپنے موقف پر سختی سے جمی ہوئی ہے۔ وہ کسی صورت ہار ماننے کے لیے تیار نہیں‘‘۔ (روزنامہ یدیعوت، ۱۹ جنوری ۲۰۰۹ء)
اسی اخبار میں ’ناحوم برنیاع‘ غز.ّہ سے اسرائیلی انخلا کے متنازع فیصلے پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے شارون اور دیگر صہیونی ذمہ داران کے موقف کا تجزیہ کرتا ہے اور آخر میں تان اس جملے پر توڑتا ہے: ’’ہم غز.ّہ سے مکمل قطع تعلقی نہیں کرسکتے، نہ غز.ّہ پر آیندہ کسی صورت دوبارہ قبضہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ غز.ّہ اسرائیل کے حلق میں کانٹے کی صورت اٹکا رہے گا، نہ تو اسے نگلا جاسکے گا اور نہ اُگلا جاسکے گا۔ نہ اسے مارا جاسکے گا، نہ اسے جینے دیا جائے گا۔ گاہے بہ گاہے جنگ کی آگ بھڑکتی رہے گی تاکہ ہمیں بھی یاد رہے اور انھیں بھی کہ ان کا اور ہمارا تعلق کس قدر المناک ہوسکتا ہے‘‘۔
اسرائیل کے دو چوٹی کے دانش وروں ا. ب. یہوشع اور جدعون لیفنی کے درمیان روزنامہ ھآرٹز کے صفحات پر باقاعدہ بحث ہوئی اور کھلے خطوط کا تبادلہ ہوا ہے۔ بائیں بازو کے صحافی جِدعون نے ہلاکت آمیز اور بے فائدہ جنگ کی مخالفت و مذمت کی ہے، جب کہ یہوشع نے اسرائیلی موقف کی ترجمانی کی ہے۔ جِدعون اپنے کھلے خط کے آخر میں لکھتا ہے: ’’آپ کی نگاہ میں اس طرح کی جنگ ہی ان پر اثرانداز ہونے کا اکلوتا ذریعہ رہ گئی ہے۔ تعلّی پر مبنی اس جملے پر کوئی تبصرہ کیے بغیر میں آپ جیسے چوٹی کے لکھاری سے اس سے بہتر کی توقع رکھتا تھا۔ میں آپ جیسی محترم شخصیت سے توقع رکھتا تھا کہ وہ آزادی کی جنگوں کی تاریخ جانتا ہوگا۔ اسے معلوم ہوگا کہ جنگ ِآزادی کو کبھی طاقت سے نہیں کچلا جاسکتا۔ ہم نے اس جنگ میں جو تباہ کن اسلحہ استعمال کیا ہے، میرا نہیں خیال کہ ہمارے مخالفین اس سے مرعوب ہوئے ہیں۔القسام میزائل اب بھی فائر ہورہے ہیں، لیکن اب حماس اور پوری دنیا ایک بات پر ایمان رکھتی ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل ایک خطرناک، متشدد اور بے لگام ریاست ہے۔ کیا آپ اس شہرت کی حامل ریاست میں رہنا پسند کرتے ہیں؟ ایسی ریاست میں کہ جو اپنے بارے میں یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہو کہ ’’گھر کا سربراہ پاگل ہوگیا ہے‘‘۔ میں تو ایسی ریاست میں نہیں رہنا چاہتا‘‘ (روزنامہ ھآرٹز، ۱۹ جنوری)
جِدعون نے ۲۲ جنوری کے شمارے میں بھی ایک مفصل مضمون لکھا ہے: Gaza War Ended in Utter Failure for Israel (غزہ کی جنگ: اسرائیل کی سراسر ناکامی پر ختم ہوئی) اس نے اسرائیل کی چار بڑی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا ہے: ’’آخرکار ہم نے حاصل کیا کیا؟‘‘ اسرائیل کے اعلان کردہ اہداف کا جائزہ لیا جائے تو اس کا سب سے بڑا ہدف غز.ّہ اور فلسطین کے باقی علاقوں سے حماس کا خاتمہ تھا۔ یک طرفہ طور پر جنگ بندی کے اعلان کے بعد اسرائیلی ویزراعظم اولمرٹ نے بیان دیا کہ ’’غز.ّہ میں حماس کی گرفت کمزور کردی گئی ہے اور اب محمودعباس جیسی معتدل قیادت کو وہاں لایا جاسکے گا‘‘۔ جنگ کے عروج پر برطانیہ میں اسرائیلی سفیر نے بی بی سی کے پروگرام ’ہارڈ ٹاک‘ میں تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ’’جنگ کا مقصد شدت پسند حماس کو ہٹاکر فلسطینی اتھارٹی محمودعباس کو بحال کرنا ہے‘‘۔ جنگ کے بعد اصل صورت حال بالکل برعکس ہے۔ مغربی کنارے میں امریکا،اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے اشتراک سے ایک یونی ورسٹی چل رہی ہے، جہاں طلبہ کو ’روشن خیالی‘کے نام نہاد نعرے کے عملی ماحول میں تربیت دی جاتی ہے۔ ان طلبہ کے درمیان سروے کروایا گیا تو وہاں بھی حماس کی تائید غیرمعمولی طور پر زیادہ تھی۔ ۱۹فروری کو کویت میں عرب لیگ کی اقتصادی سربراہی کانفرنس تھی اس سے پہلے کویتی پارلیمنٹ کے ۲۲ ارکان نے ایک میمورنڈم پیش کیا کہ محمود عباس کی مدت صدارت بھی ختم ہوگئی ہے اور دورانِ جنگ اس کا کردار بھی گھنائونا رہا ہے، اس لیے اسے کانفرنس میں مدعو نہ کیا جائے بلکہ فلسطین کی نمایندگی کے لیے خالدمشعل کو بلایا جائے۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے اس حوالے سے خطاب کرتے ہوئے ایوانِ اسمبلی میں خالدمشعل کا نام لیتے ہوئے سر پہ پڑا عربی رومال اُتار کر عقیدت کا اظہار کیا اور محمود عباس کا نام لیتے ہوئے جوتا لہراتے ہوئے نفرت کا۔
محمود عباس کے علاوہ اسرائیل کا دوسرا بڑا مہرہ حسنی مبارک ہے۔ جنگ سے پہلے، دوران اور بعد میں اسی کے ساتھ سب سے زیادہ مشاورت کی گئی۔ اس نے عین تباہی کے عالم میں بھی ’رفح‘ کا پھاٹک بند کیے رکھا۔ عالمی قوانین بصراحت کہتے ہیں کہ دورانِ جنگ اگر کوئی آبادی کسی جگہ گھِر جائے تووہاں سے نکلنے کے راستے کھولنا فرض ہے۔ کوئی معاہدہ یا پابندی اسے کھولنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ دورانِ جنگ فرانسیسی صدر سرکوزی علاقے کے دورے پر آیا۔ اس نے اولمرٹ سے کہا: ’’مجھے حسنی مبارک نے بھی کہا ہے کہ وہ حماس کو جیتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے‘‘۔
دنیا میں صرف مصر ایک ایسا ملک تھا جہاں اہلِ غز.ّہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے مظاہرے روکنے کی کوشش کی گئی۔ الاخوان المسلمون کے سیکڑوں کارکنان گرفتار کیے گئے لیکن مظاہرے پھر بھی ہوئے اور بڑے بڑے ہوئے۔ مصری شہر دمیاط میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے:یاباراک یاعباس کُلَّنا مع حماس ’’اے باراک (صہیونی وزیردفاع) اے عباس! ہم سب حماس کے ساتھ ہیں‘‘۔ کَبِّر یامسلم کَبِّر…رأسُ الصِّھْیُونی تَکَسَّر ’’مسلمانو! تکبیر بلند کرو کہ صہیونیوں کا سر پھوڑ دیا گیا ہے‘‘۔ اِھْتِف سَمِّع کُلَّ النَّاس… نَحْن رِجَالُکَ یَاحَمَاس ’’نعرہ لگائو…سب کو سنا دو کہ ہم حماس کے سپاہی ہیں‘‘۔ عوامی جذبات تو یہ ہیں لیکن امریکااسرائیل اور ان کے پالتو اب بھی کوشش یہی کریں گے کہ اپنے مہروں کو آگے بڑھایا جائے۔ نومنتخب صدر باراک اوباما نے حلفِ صدارت کے بعد سب سے پہلا فون محمودعباس کو کیا ہے۔
اسرائیل کا دوسرا اعلان کردہ ہدف یہ تھا کہ حماس کے میزائل حملے بند کرنا ہیں۔ اسرائیل نے ہی نہیں خود عرب اور فلسطینی مخالفین نے بھی حماس کے خودساختہ میزائلوں کو جنگ اور تباہی کا اصل سبب قرار دیا۔ اس الزام اور پروپیگنڈے کا جائزہ ہم ابھی لیں گے لیکن ایک حقیقت جو بذاتِ خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فاسفورس اور دیگر کیمیکل بم استعمال کرنے اور ۲۲ روز کی دن رات تباہ کاری کے باوجود حماس کے ان جوابی میزائلوں کا راستہ نہیں روکا جاسکا۔ یہ میزائل جو پہلے ۲۰کلومیٹر تک مار کرسکتے تھے، حماس نے نپے تلے انداز سے اور مرحلہ وار ان کی پہنچ ۶۵کلومیٹر تک بڑھا دی۔ اس طرح تقریباً ۱۰ لاکھ کی یہودی آبادی ان کی زد میں رہی۔ انھیں بھی حالت ِ جنگ کی کیفیات سے گزرنا پڑا اور آخرکار ان کی طرف سے بھی احتجاج اور اپنی حکومت سے مطالبہ شروع ہوگیا کہ ’’بے فائدہ جنگ بند کرو‘‘۔
رہی یہ بات کہ حماس کے میزائل جنگ کا سبب بنے تو اس کا سب سے اچھا جواب ترک وزیراعظم رجب طیب اردوگان نے دیا کہ ’’اہلِ غز.ّہ تین سال سے حصار میں تھے، ان کا گلا گھونٹا جارہا تھا تو ان کی چیخ میزائلوں کی صورت میں برآمد ہوئی۔ اب ان چیخوں کو تباہی کا سبب قرار دینا عقل کے بھی منافی ہے اور حقیقت کے بھی‘‘۔ اس الزام کا دوسرا جواب اس سوال میں ہے کہ گذشتہ ۶۰برسوں میں اسرائیلی ناجائز ریاست نے فلسطینیوں کے جتنے بھی قتلِ عام کیے، کیا اس وقت بھی میزائل یا حماس ہی اس کا سبب تھے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ غز.ّہ پر حملہ کوئی حادثاتی یا ہنگامی کارروائی نہیں تھی۔ ڈیڑھ برس پہلے سے اس کی تیاریاں جاری تھیں اور باقاعدہ دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ اس وقت پتھر اور غلیل سے ہونے والی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دے کر حماس کی منتخب حکومت کو مسترد کردیا گیا۔ ان کے اسپیکر سمیت وزرا اور ارکانِ اسمبلی کو گرفتار کرلیا گیا اور بالآخر غز.ّہ کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ جواباً میزائل فائر ہوئے تو اپنی ساری دہشت گردی ساری سفاکانہ جنگ کا ملبہ انھی پر ڈال دیا گیا۔ حماس کو مطعون کرنے والے یہ بھی نہ بھولیں کہ صہیونی دشمن ایک ایک کر کے ہرفلسطینی اور اپنے ہرمخالف کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا اپنے عقیدے کا حصہ سمجھتا ہے۔ ان کے ایک ایک بچے کے ذہن میں ’عرب‘ یعنی مسلمان کا تصور درندوں کی حیثیت سے بٹھاتے ہوئے انھیں قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ آج اگر خدانخواستہ حماس نہ رہتی تو اب خود محمودعباس، حسنی مبارک اور پھر ایک ایک کرکے اپنے ہرہدف کو اسی طرح مطعون و معتوب کیا جاتا۔ حماس نے اس الزام کا بہت اصولی جواب دیاہے کہ ہمارے میزائل اسرائیلی قبضے کا جواب ہے، آج ہماری سرزمین سے قبضہ ختم ہوجائے، ہمارا جواب بند ہوجائے گا۔
غز.ّہ میں ہونے والی تباہی کی مثال موجودہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ افغانستان و عراق میں امریکی بم باری بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔ کیونکہ نہ تو وہ غز.ّہ کی طرح مقید تھے اور نہ غز.ّہ کی طرح گنجان آباد، لیکن یہ ساری تباہی غز.ّہ کے عزم و ارادے کو شکست دینے میں ناکام رہی۔ اہلِ غز.ّہ اعلان کر رہے ہیں کہ حالیہ فتح کے بعد اب ہمیں اقصیٰ کی آزادی ایک مجسم حقیقت کی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ رہی تباہی تو صرف گذشتہ صدی میں ہی دیکھ لیں۔ دنیا کے کتنے دارالحکومت اور بڑے بڑے شہر ایسے ہیں کہ ملیامیٹ کردیے گئے لیکن دوبارہ زندہ بھی ہوگئے اور فتح یاب بھی۔
اہلِ غز.ّہ کے اس عزم سے شیخ احمد یاسین کی پیشین گوئی تازہ ہوگئی۔ آیئے انھی سے سنیں: میں اسرائیلی قید میں مطالعہ قرآن کر رہاتھا۔ اس واقعے پر پہنچا کہ بنی اسرائیل کے انکار کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں ۴۰برس کے لیے سینا کی صحرا نوردی کی سزا دی تو میں غور کرنے لگا کہ پروردگار اتنی لمبی سزا؟ ۴۰ برسوں میں تو نسلیں بدل جاتی ہیں۔ سوچتے سوچتے جواب ملا کہ جرم بہت کڑا تھا۔ پوری قوم نے براہِ راست اللہ اور اس کے نبی کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’(موسٰی ؑ) جائو تم اور تمھارا رب جا کے لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘۔ اللہ کی طرف سے فیصلہ آیا کہ وہ نسل کہ جس نے انکار کیا ہے اور وہ نسل جو اس سارے انکار کی چشم دید گواہ اور ان منکروں کے زیرتربیت تھی وہ سب ختم ہوجائیں تو پھر ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بھی تبدیل ہوجائے گا۔ میں نے اس سنت ِ الٰہی کو فلسطین پر منطبق کیا تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔ ۱۹۴۸ء میں فلسطین میں پائی جانے والی نسل جہاد سے کنارہ کش ہونے کے باعث یہودیوں سے شکست خوردہ ہوئی۔ اسلامی تحریک نے بھولا ہوا سبق یاد دلانا شروع کیا اور ٹھیک ۴۰ برس بعد ۱۹۸۸ء میں تحریکِ انتفاضہ شروع ہوئی۔ پیمانے بدلنے لگے،فرات سے نیل تک اسرائیل کا ہدف رکھنے والے باتوں اور وعدوں کی حد تک ہی سہی، فلسطینی ریاست بنانے کا اعلان کرنے لگے۔ اب ۱۹۸۸ء سے ایک نئی نسل، جہاد و مزاحمت کی نسل آگے آرہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جہاد و قربانی کے ۴۰ برس مکمل ہونے، یعنی ۲۰۱۸ء تک اللہ تعالیٰ فلسطین میں فتح یاب نسل عطاکرے گا جس کے ہاتھوں قبلۂ اول آزاد ہوکر رہے گا اور اسرائیل نام کی ریاست صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گی۔ اہلِ غز.ّہ اور اہلِ فلسطین یہ سبق اچھی طرح یاد کرچکے ہیں کہ یہ پورا عرصہ جہاد و مزاحمت کا عرصہ ہے اور اللہ کا سہارا اصل سہارا ہے: حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل!