اسلام کے بنیادی عقائد میں اہم ترین اور اصل عقیدہ ’توحید‘ ہی ہے۔ یہ ایمان کا جوہر اور دین کی محکم اساس ہے۔ باقی تمام عقائد اسی ایک عقیدے کے تکمیلی پہلو ہیں۔ ایمان باللہ پر ہی سارے اسلامی عقائد و اعمال کی عمارت قائم ہے۔ جملہ احکام و قوانین کے صدور اور قوت کا مرکز اللہ کی ذات ہے۔ ہم فرشتوں پر ایمان اس لیے رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور اسی کے حکم سے کائنات میں اپنے فرائض بجا لاتے ہیں۔ ہم رسولوں پر ایمان اس لیے لاتے ہیں کہ وہ اُسی کی طرف سے اس کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔ کتابوں پر ایمان اس لیے ہے کہ اُسی اللہ کے احکامات پر مشتمل ہوتی ہیں، اگرچہ اب صرف قرآن ہی اصل شکل میں محفوظ ہے اور ہم اُسی کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہیں۔ اسی طرح آخرت پر ایمان اس لیے ہے کہ وہی ذات انصاف کے دن کی مالک ہے اور وہی انسانی اعمال کے مطابق انصاف کرے گی۔ اسی پر باقی سارے اعمال کو بھی قیاس کرلیا جائے کہ وہ کیوں بجا لائے جاتے ہیں تاکہ ہمارا مالک و آقا راضی ہوجائے۔
حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیا و رسل آئے، اُن سب کی دعوت کا مرکزی نکتہ ’توحید‘ ہی تھا۔ انسانیت کی ابتدا مکمل توحید کی روشنی میں ہوئی۔ پھر جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی گئی، انسان توحید کے سبق کو بھولنے لگا اور اللہ احد وصمد کو چھوڑ کر در در اپنی اُمیدوں اور تمنائوں کے لیے ٹھوکریں کھانے لگا اور اپنا شرفِ انسانیت کھو کر اپنی ہی تذلیل اور رسوائی کا سامان کرنے لگا۔
انسان کی اس نادانی کے باوجود اللہ کی رحمت بار بار جوش میں آکر انسانیت کو بھولا ہوا توحید کا سبق یاد دلانے کے لیے ہدایت و رہنمائی کا انتظام کرتی رہی۔ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (الرعد ۱۳:۷) ’’اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے‘‘۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا (النحل ۱۶:۳۶) ’’اور ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیجا‘‘۔
توحید کے عملی پہلو اس طرح بیان ہوسکتے ہیں:
اللہ رب العالمین کی ذات تنہا اور یکتا ہے۔ کائنات کی کوئی شے کسی بھی حیثیت میں اُس کی ذات کا حصہ نہیں ہے۔ وہ اول و آخر ہے۔ خدائوں کی کوئی جنس یا سلسلۂ نسب نہیں ہے جس کا وہ ایک فرد یا حصہ ہو۔ نہ وہ کسی کابیٹا ہے، نہ کوئی اُس کابیٹا ہے۔ وہ اجزا سے مرکب وجود نہیں جو قابلِ تجزیہ و تقسیم ہو۔ وہی تنہا ذات ہے جو ہرلحاظ سے تنہا، اکیلی اور احد ہے۔ توحید فی الذات کا ذکر قرآن میں جابجا کیا گیا ہے لیکن جس قدر جامع اور خوب صورت تذکرہ سورئہ اخلاص میں ملتا ہے اس کو پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ o اَللّٰہُ الصَّمَدُ o لَمْ یَـلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ o وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ o (الاخلاص ۱۱۲: ۱-۴) کہو وہ اللہ ہے، یکتا۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اُس کے محتاج ہیں۔ نہ اُس کی کوئی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور کوئی اُس کا ہمسر نہیں ہے۔
اولاد چونکہ ذات کا حصہ ہوتی ہے اس لیے مذکورہ سورت میں اس کا تذکرہ بھی کر دیا گیا اور عملی طور پر دنیا والوں نے اللہ کی اولادیں بنائی بھی ہیں، مثلاً یہودی حضرت عزیر ؑ کو اللہ کا بیٹا، عیسائی حضرت عیسٰی ؑکو اللہ کا بیٹا (التوبہ ۹:۳۰) اور مشرکینِ مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں (بنی اسرائیل ۱۷:۴۰) کہتے رہے، اور اسی سے اُن قوموں کا عقیدۂ آخرت بھی بگڑ گیا کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں، وہ ہمیں سزا نہیں دے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنی صفات اور خوبیوں میں بھی یکتا ہے، یہ صفات بھی اس کی ذاتی ہیں اور اس کی ذات کی طرح قدیم اور دائمی ہیں۔ سورئہ طٰہٰ میں ہے: اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَلَـہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی (طٰہٰ ۲۰:۸) ’’وہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ اس کے لیے بہترین نام ہیں‘‘۔ حدیث میں اللہ کے نام تفصیل سے ملتے ہیں۔ ارشاد نبویؐ ہے: اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں (ترمذی و سنن ابن ماجہ) جس نے ان کو حفظ کرلیا وہ جنت میں داخل ہوگا (مسلم، کتاب الذکر)۔ وہ اس کائنات کا خالق، مالک، رازق اور آقا ہے۔ اُسی نے ساری مخلوقات کو پیدا کیا ہے اوروہی سب کا مارنے والا ہے۔ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہے، اُسے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں، وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہے (البقرہ ۲:۱۰۹) ’’کوئی چیز اس کے علم اور قدرت سے باہر نہیں‘‘۔(الشوریٰ ۴۲:۱۲)۔ وہ ایسا ہے کہ اُس جیسی کوئی دوسری شے اس کائنات میں نہیں ہے۔ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ o (الشوریٰ ۴۲:۱۱) ’’کائنات میں کوئی چیز اس کے مشابہہ نہیں، وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ وہ حی و قیوم ہے، لائقِ حمدوثنا ہے اور وہی معبودِ حقیقی، مسجودِ حقیقی اور منعمِ حقیقی ہے۔ اللہ کی صفات کا تذکرہ قرآن میں جگہ جگہ موجود ہے۔ آیت الکرسی (البقرہ ۲:۲۵۵) میں جامعیت کے ساتھ صفاتِ خداوندی کا بیان ہوا ہے۔ اسی طرح سورئہ حشر میں اللہ کے ناموں کا حسین گلدستہ موجود ہے۔ (الحشر۵۹: ۲۲ تا ۲۴)
اللہ رب العالمین ہی عملاً پوری کائنات پر حکمرانی کر رہا ہے، حکم دینا اُس کا اختیارِ مطلق ہے اور پوری کائنات اس کا حکم ماننے کی پابند ہے۔ اَلَالَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ (الاعراف ۷:۵۴) ’’خبرداررہو، اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا اَمر ہے‘‘۔ عقلِ عام (common sense) کی بات ہے کہ کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو حکم بھی اُسی کا چلے گا اور اس بات پر محکم ایمان و یقین رکھنا ضروری ہے کہ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں صرف اور صرف اُسی کے حکم پر عمل کرنے سے ہی توحید پرقائم رہ سکتا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر ذکر ہوا ہے کہ حکم صرف اللہ کا ہی حق ہے: اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (یوسف ۱۲: ۴۰، ۱۲:۶۷) ’’فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیںہے‘‘۔ بَلْ لِّلّٰہِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا (الرعد ۱۳:۳۱) ’’بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ (المومنون ۲۳:۱۱۶)
سورئہ مائدہ میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ تین آیات آئی ہیں جن میں انسانوں کو اپنے تمام انفرادی و اجتماعی معاملات میں اللہ کے حکم سے روگردانی کی صورت میں سخت وعید سنائی گئی ہے:
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں اور وہی فاسق ہیں۔ (المائدہ ۵: ۴۴، ۴۵، ۴۷)
توحید فی الامر میں یہ نکتہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ اللہ کے حکم کے ہوتے ہوئے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین و دساتیر کی قطعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر حکم دینے کا اختیار عقلِ انسانی کو حاصل ہوتا تو شریعت نازل کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جو لوگ انسان کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں تو گویا وہ اللہ کا اختیار مخلوق کو دیتے ہیں اوریہی شرک فی الامر ہے جس میں آج کل کے مسلمان معاشرے اور حکومتیں گرفتار ہیں۔ لہٰذا انفرادی معاملات کے ساتھ ساتھ جب تک حکومت اور اقتدار بھی اللہ کے حکم کے تابع نہ ہوجائے، توحید فی الامر کی تکمیل نہ ہوگی اور جب تک توحید مکمل اور خالص نہ ہو تو اللہ کے ہاں نجات ممکن نہیں۔ اس لیے ہرشخص پر فرض ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق جدوجہد کرے تاکہ اللہ کا قانون نافذ ہوسکے۔
اس کائنات میں جس قدر تصرف اور اختیار ہوتاہے وہ اللہ واحد کی ذات سے ہوتا ہے۔ وہ علیم و خبیر ہے، کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اُس کے علم سے باہر نہیں۔ اگر کسی درخت کا پتہ گرتا ہے تو اس کی اجازت اور علم سے۔ (بنی اسرائیل ۱۶: ۱۱۰، اٰل عمرٰن ۳:۵)
تمام اختیارات اُسی ذاتِ واحد کے پاس ہیں۔کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرحمٰن ۵۵:۲۹) ’’ ہر آن وہ نئی شان میں ہے‘‘، یعنی ہر وقت دنیاے عالم میں اس کی کارفرمائی اور حکومت کا سلسلہ جاری ہے، ہرلمحے کسی کو فنا کر رہا ہے، کسی کو زندگی بخش رہا ہے، کسی کو عروج عطا کر رہا ہے، کسی کو زوال دے رہا ہے۔ یہ معاملہ صرف افراد تک محدود نہیںہے بلکہ قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ بھی اللہ ہی کرتا ہے (اٰل عمرٰن۳:۲۶)۔ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اُسے کرلیتا ہے (البروج ۸۵:۱۶) کوئی طاقت اس کو روکنے والی نہیں ہے۔ توحید فی الافعال کی جہتیں مقرر کی جائیں تو بے شمار پہلو نکلتے ہیں یہاں بطور مثال صرف دو تین پہلو بیان کیے جاتے ہیں:
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی باقی بتانِ آذری
انسان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک لمحہ بھی اللہ کے بغیر نہیں گزار سکتا۔
غرض اللہ کی جتنی بھی صفات ہیں ان سب کے تقاضے اگر صرف اور صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہی پورے کیے جائیں گے تب ہی توحید مکمل ہوگی۔
عالمی تناظر میں اقوامِ عالم کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اُمت ِ مسلمہ سب سے زیادہ مجبور و مقہور اور پس ماندہ ہے اور مغربی اقوام کی ذہنی اور سیاسی غلام بن چکی ہے۔ حالانکہ مسلمان ہی تہذیب و تمدن کے بانی تھے اور باقی اقوام کو علم کی روشنی مسلمانوں سے ہی ملی تھی۔ پھر یہ پس ماندگی و تباہی کیوں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے ’توحید‘ کا سبق بھلا دیا ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے خلفاے راشدینؓ کی قیادت میں مسلم معاشرے سے اُس وقت کی سوپرطاقتیں روم و فارس لرزہ براندام تھیں۔ اس لیے کہ اُن کے دلوں میں اٹل اور غیرمتزلزل ’توحید‘ کے تصور پر ایمان موجود تھا جس کی وجہ سے وہ اللہ کے علاوہ دنیا کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایمان کی حلاوت، چاشنی اور استحکام توحید کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ کی توحید پر صحابہ کرامؓ جیسا ایمان رکھنے والوں کے لیے اللہ کی طرف سے یہ اعلان آج بھی موجود ہے: اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَo(الانبیاء ۲۱:۱۰۵) ’’کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے‘‘۔ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹، ھود ۱۱:۵۲) ’’اورتم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔
مسلمان نام کی ایک قوم تو اب بھی موجود ہے لیکن اُس کی حالت یہ ہے: یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً (النساء ۴:۷۷) ’’وہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یاکچھ اس سے (بھی) بڑھ کر‘‘۔ اسی لیے ان کی کیفیت یہ ہے کہ گویا وہ کَاَنَّھُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ (المنافقون ۶۳:۴) ’’یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چُن کر رکھ دیے گئے ہوں‘‘۔ حالانکہ جن قوتوں سے وہ ڈرتے ہیں اُن کی اصل حقیقت یہ ہے کہ: اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِاجْتَمَعُوْا لَہٗ وَ اِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ o مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (الحج ۲۲:۷۳، ۷۴) ’’جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اُسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ کمزور۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیساکہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے‘‘۔
اُمت ِمسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقامِ عظمت اور منصبِ امامت اُسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ توحید پر دل و جان سے ڈٹ جائے اور اُن کی زندگیوں میںتوحید کے اثرات واضح طور پر نظر بھی آئیں۔ صرف زبانی کلامی دعووں سے مسلمانوں کی موجودہ پستی کا علاج ممکن نہیں ؎
خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ توکیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
توحید پر ایسا ایمان درکار ہے جس میں مصالحت، تذبذب اور شک و شبہہ نہ ہو بلکہ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ(البروج ۸۵:۴) اَصْحٰبَ الْکَھْفِ (الکہف ۱۸: ۹) اور صحابہ کرامؓ جیسا ایمان ہو (المجادلہ ۵۸:۲۲)۔ ساری محبت و اطاعت اللہ ہی کے لیے ہو بلکہ اِس ساری گفتگو کو اگر ایک فقرے میں سمیٹا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ ساری اُمت مسلمہ اللہ ہی کی ہوکر رہے۔ (البقرہ ۲:۱۳۸)
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ o نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍo (حم السجدہ ۴۱:۳۰ تا۳۲) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔
تاریخِ انسانی کے اسٹیج پر بڑے بڑے فرعون آئے، اپنی اپنی ڈفلی بجا کر نابود ہوگئے۔ اصل قوت و طاقت کا مالک تو اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ (الزمر ۳۹:۴)ہے۔ اُسی سے تعلق مضبوط کیا جائے، اُسی سے محبت کی جائے، اُسی سے ہرحال میں رجوع کیا جائے، اُسی کی اطاعت و بندگی کی جائے تو سارے دلدّر دُور ہوجائیں گے کیونکہ وہ اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ (الزمر ۳۹:۳۶) ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟‘‘ وہ ذات شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ (قٓ ۵۰:۱۶) پکار سنتا ہے اور قبول کرتا ہے (البقرہ ۲:۸۶، المومن ۴۰: ۶۵) تو پھر اصل سہارے کو چھوڑ کر نقلی سہارے تلاش کرنا یقینا عقل کا فتور نہیں تو اور کیا ہے ؎
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیراللہ کو
خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو